Thursday 11 July 2019

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد 

  کتاب کے انتساب میں جب کوئی محتر م استاد یا بزرگ دانشور کا نام نہ ہو اور تقریظ و بیک کور کی تحر یریں کسی بڑے یا بہت ہی معزز سمجھے جانے والے شخصیات سے نہ لکھوائی گئی ہوں بلکہ ان سب کے لیے نئی نئی کونپلوں کو منتخب کیا گیا ہو تو یہیں سے سمجھ جائیے کہ تقلید سے پرے کی کہانی شروع ہوچکی ہے ۔فہر ست کے مقام پر ” سلیقہ “ نظر آئے گا جس کے ذیل میں ”محسوسات “ میں ریسر چ اسکا لر شہناز رحمن کے احساسات کو اور ’ تلخیات“ میں مصنف کی کتاب لکھنے کے درمیان کی تلخی کو محسوس کر سکتے ہیں ۔اپنی بات کوتلخیات کے عنوان سے قلم بند کرنے میں یقینا شکایتیں پوشیدہ ہیں خواہ وہ ایک ہی رو میں بہنے والی تنقید سے ہویا ایک ہی تجزیہ ، فکر و فلسفہ کو گھسیٹنے والے ناقدین سے ۔مدھم لہجے سے شروع کی گئی بات آہستہ آہستہ تلخی اختیا ر کر تی چلی جاتی ہے اور وہاں جوشیلی شکل اختیار کر جاتی ہے جہاں طلبہ کے حقوق کی پامالی پر بات ہوتی ہے ۔ بات سے جب بات آگے بڑھتی ہے تو مصنف کی ذات سے متعلق ریشہ دوانیوں کا بھی ذکر آتا ہے جو عمو ماً کئی مضامین کو زیر تحریر لاتے ہوئے ان کے ذہن و دماغ کو جکڑ رہی ہوں گی اور فکرکی شائستگی میں نا شائستگی کا عنصر در آرہا ہوگا لیکن مصنف نے بہت حد تک ان تمام پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہیں مدھم تو کہیں گفتگو کی لو کو تیز کیا ہے جس کا عکس آپ کو مضامین میں بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملے گا ۔

 کتاب کو تین حصو ں میں منقسم کیا گیا ہے جن میں سے دو ’ تنقید و تبحیث ‘ تفعیل کے وزن پر ہیں لیکن تجزیہ کے لیے ’تفعلہ‘ پر ہی صبر کر نا پڑا ہے ۔ تنقید کے تحت گیا رہ مضامین ہیں ۔پہلا مضمون" پریم چند کے دلت افسانوں کی قرات اوربین السطور" ہے ۔اس میں، پریم چند کے کئی افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے. سب کا عکس آپ اس اقتباس میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں . ” آخری بات یہ کہ یہ افسانہ ( گھاس والی ) بھی پریم چند کے بہت سے افسانوں کی طرح حقیقت کی کھردری عکاسی سے کہیں زیادہ تصورات کی بنائی ہوئی پینٹنگ معلوم ہوتا ہے “۔ آپ مصنف کے اس قول سے کس حد تک اتفاق کر تے ہیں اس کے لیے آپ کو بین المتونیت سے واپس جا کر پھر متن کے صفحات پر نظریں ٹکانی ہوں گی ۔” اردو افسانے کی خاتون اول - رشید جہاں “ میں آپ جہانِ افسانہ کی کئی جدتوں اور سنتوں کورشید جہاں سے منسوب پائیں گے اور ناقدین افسانہ پر بھی محاکماتی تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملے گی ۔” فکشن کا بازیگر : کر شن چندر “ اپنے اندر بہت ہی کشش رکھتا ہے ، ہر ایک پیرا گراف آپ کو اپنی جانب مائل کر ے گا ۔ساتھ میں آپ کو کر شن چندر کے افسانوں میں شعور کی رو، سر رئیلزم ، ایکسر یشنزم ، مو نو لاگ ، غائب مخاطب ،ملفوظات ، سہ ابعادی اور کیر یکٹر اسکیچ سے روشناس ہو ں گے۔ ساتھ ہی مضمون کے آخر میں مصنف لکھتے ہیں ” کاش وہ الفاظ کا کفایت شعارانہ استعمال کرتے اور فن کے نازک اور حساس گل بو ٹوں کو نظریے کی تیز دھوپ کے بجائے اس کی نرم چاندنی میں پروان چڑھا نے کی کوشش کر تے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کے افسانوی ادب کے گلستاں کی بہار دو چند نہ ہوتی “ ۔ ” آخری کوشش والے : حیات اللہ انصاری “ والے مضمون میں ان کی تمام کوششوں اور کاوشو ں کو جو یہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے پریم چند کی تقلید کی کوشش کی ہے . اس متعلق مصنف کا عدم تقلید ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ” اسے پریم چند کی تقلید یوں نہیں کہہ سکتے کہ ان کر داروں میں ایک نوع کی واقعیت ، جرا ت ، فہم اور بغاوت نمایاں ہے ۔ ہاں تسلسل یا تجدید کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں پر یم چند والی مثالی حقیقت کافی حد تک مفقود اور واقعی صداقت زیادہ نکھری صورت میں موجود ہے “ ۔موصوف میں مثالی حقیقت کے بجائے واقعی صداقت کتنی ہے اس کی تفصیل بھی ان افسانوں کے حوالے سے پڑھنے کو ملے گی ۔” منٹو کی ایک اور قرات “ میں آپ کو منٹو کی نئی دنیا میں لے جائیں گے ۔ جہاں آپ منٹو کی انانیت ، اس کی فن کا ری ، نفسیاتی گرہیں ، فطر ت کا فلسفہ ، بشریت اور شکست و فتح کی نئی تعبیروں سے آپ اپنی فکر کو مہمیز کریں گے ۔” بیدی ، عورت ، جنس اور نفسیات “ اس مضمون میں بہت ہی خاموشی اور اسلوب کا پر سکون ماحول ملے گا ۔بیس صفحہ کے اس مضمون میں آپ کو نئی قرا ت کی جانب کھینچیں گے اور نہ ہی بین السطور اور بین المتونیت میں محصور کرنے کی کوشش کر یں گے بلکہ مذکورہ بالا تینوں عناصر جزئیات کے ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے ۔” ممتاز شیریں کا افسانوی طریقہ کار “ مصنف کی ممتاز شیریں پر باضابطہ ایک مکمل کتاب ہے لیکن اس میں تنقیدی مباحث زیادہ ہیں اور اس مضمون میں صر ف افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے ۔کتاب میں دو ہی مضمون ہیں جو بہت ہی خصوصیت کے حامل ہیں ایک یہ اور دوسرا جدید اردو افسانے کی شعریات وہ بایں معنی کہ ان ہی دونوں مضامین میں با ضابطہ حواشی ہیں ۔” عصمت چغتائی کے افسانوں کے حوالے سے ایک اور تحریر “ میں لحاف سے باہر معاشرہ کی چادر میں عصمت و عفت کی کہانیوں کے راز ملیں گے ۔ ” ترقی پسندوں کا پہلا درویش : خواجہ احمد عباس“ میں اس درویش کا افسانوی مملکت کتنا مالا مال ہے اس کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔”علی سردار جعفری کا جہان افسانہ “ میں جو خیالات مصنف کے پریم چند کے متعلق ہیں تقریباً وہی نظر یات یہاں بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں” سردار جعفری کے افسانوں کے مطالعہ سے جو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ افسانہ نگار غریبوں کی معاشرت اور اس کی نفسیات سے پوری طر ح واقف تو نہیں لیکن بہر حال ہمدردی رکھتا ہے ، اور یہ ہمدردی غریبوں سے غریبوں والی نہیں بلکہ وہ ہمدردی ہے جو غریبوں کو زمینداروں سے حاصل ہوتی ہے “ ۔باب تنقید کا آخری مضمون ” منحرف روایت کا فکشن نگار : پروفیسر محمد حسن “ ہے ۔مضمون میں فکشن اور فکشن نگار تو مکمل طور پر ہے لیکن انحرافیت کم کم ۔

 دوسرا حصہ تبحیث کا ہے جس میں سات مضامین ہیں ۔ پہلا مضمون ” افسانہ ،تخلیقیت اور ارتقائے خیال “ ہے ۔ارتقائے خیال کے لیے پانچ در س ملیں گے واقعہ ، بیان ، زمان و مکان ، بیان میں افعال کا استعمال اور وقت کا صورتحال کی تبدیلی ۔ اور بھی بہت کچھ ہیں لیکن فی الحال ان ہی پانچ کی تفصیل کے لیے مضمون کی تلا ش میں لگ جائیے۔ ” تر قی پسند افسانے کی جمالیات “ میں قدیم روایات پر طنز، سماجی نظام میں تبدیلی کی کوشش ، غربت اور جنس کی جمالیات سے رو برو ہو نے کا موقع مل سکتا ہے بشرط مطالعہ ۔ ” جدید اردو افسانے کی شعریات“ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں” واضح رہے کہ جدید یت یا جدید حسیت اسلوب کا نہیں رویے کا نام ہے ۔ اسلوب کو جدید تصور کر نا یوں درست نہیں کہ ایک مارکسی یا ترقی پسند روایتی افسانہ نگار قدیم اور روایتی اسلوب میں افسانہ لکھ سکتا ہے ........... لہذا جدید افسانہ کے سلسلے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ صر ف علامتی انداز میں لکھا ہوا افسانہ ہی جدید ہے “ ۔ اس مضمون میں آپ مصنف موصوف کو وارث علوی اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان خوبصورت مباحثوں میں پائیں گے ۔” ہم عصر افسانہ ، افسانہ نگار ، ناقد اور قاری“ میں آپ خو د کو کسی نہ کسی مقام پر محسوس کریں گے اور افسانہ کی نئی جہت کی جانب نئے چشمے کے سراغ ملیں گے ۔ ” اردو ناول کی تہذیبی جہات اور چند اہم کردار “ میں نئے پرانے تقریبا بیس ناول کے اہم کر دراوں کا تہذیبی پس منظر پڑھنے کو ملے گا ۔” اردو افسانہ ہمارے عہد میں“ میں بقول نورین اسی (٨٠) کی دہائی والے ہی نظر آئیں گے۔” اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اردو ناول“ موضوع ہیئت فکر و فلسفہ اور سمت و رفتار پر خو بصورت و جامع مضمون ہے. 

تیسرا حصہ تجزیہ پر مشتمل ہے ۔ جس میں دو مضامین ہیں پہلا ” کفن کا متن اور تعبیر کی غلطیاں “ اس میں’ کفن' میں موجود تضادات کا انکشاف کر تے نظر آتے ہیں ساتھ میں اعتراف نامہ بھی دیکھیں” اعتراف کر نا چاہیے کہ ’ کفن ‘ میں حقیقت نگاری کے حوالہ سے ایک آدھ جھول موجود ہے ، یہ پریم چند کے دوسرے افسانوں کی سی مثالیت پسندی سے پاک ہو نے کے باوجود سماجی حقیقت نگاری کی کسوٹی پر صد فی صد کھرا نہیں اترتا ۔ تا ہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنے موضوع اور فن کے اعتبار سے یہ بے حد خوبصورت اور عمدہ افسانہ ہے “ ۔ ” شہزادہ : نفسیاتی پیچیدگی اور انوکھی تکنیک کا افسانہ“ میں کر شن چندر کے افسانہ ” شہزادہ “ کا تجزیاتی مطالعہ نفسیاتی اعتبار سے مضمون کے آخر تک کہانی کے ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں گے اور انو کھی تکنیک کے متعلق اقتباس ملاحظہ فرمائیں ” یہ ایکسپریشنز م ( اظہاریت ) کی تکنیک ہے جو ظاہر ہے Streem of conciousness سے مختلف ہے ۔ چاہیں تو اسے باطن نگاری بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس میں ذہن میں خاص قسم کے تصورات خلق کر تا ہے ۔جو دیکھنے والوں کو حقیقی دنیا سے دور لے جاتے ہیں “ ۔ الحاصل اس پورے کتاب میں فکشن کی جس تنقید سے آپ زیادہ روبرو ہوں گے وہ ” بین المتونیت “ ہے۔ 

230 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 200 ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہا س سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...