Friday 4 October 2019

کوثر چاند پوری

اردو زبان و ادب کی یہ مٹھاس رہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ اطبا کو متاثر کیا ہے اس لیے جو پیشے سے طبیب ہوئے وہ ادب کے مریض بھی ہوئے ۔ اگرسترہویں صدی سے طبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ اکثر اطبا نے اردو زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ تعاون پیش کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ طبیبوں نے اپنے مطب کو مشاعرہ گاہ اور ادبی اجلاس گاہ بھی بنایا ۔یہ سلسلہ اب تک کئی شہر وں میں جاری ہے جہاں ماہانہ نشستوں میں طبیبوں کی نمائندگی مسلسل ہوتی رہتی ہے ۔ کوثر صاحب کا بھی تعلق طبابت سے تھا اور آزادی کے بعد افسرالاطبا کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ کوثر صاحب کے عہد کااگر مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے لیکردوسری جنگ عظیم تک ادبی زرخیزی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جدید تہذیب کے پردے بھی کھلنے لگتے ہیں جہاں نثر و شاعری دونوں کر وٹیں بدلتے ہیں ۔شاعری کے نئے ابعاد طے ہوتے ہیں اور نثر کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے، اس پوری صدی میں ادب اطفال بھی بہار سے خزاں کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔ اسی عہد میں کوثر صاحب نے اپنی ادبی خدمات سے ادبی دنیا کو اپنی جانب مائل کیا اور اخیر عمر تک ادب میںوہ مر کز بنے رہے ۔کوثر صاحب کی پیدائش ۰۰۹۱ ءمیں ہوئی ، عمر کا اکثر حصہ بھوپال میں گزرا، ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۶۹۱ ءمیں دہلی منتقل ہوگئے ،۳۱ جون ۰۹۹۱ءکو داعی ¿ اجل کو لبیک کہا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر صاحب کی کل نوے سالہ زندگی میں سترسالہ ادبی زندگی ہے جس میں انہوں نے نثر ی دنیامیں کمال حاصل کیا ۔ ان کی ان ہی ستر سالہ ادبی زندگی کی خدمات ،ذاتی حیات اور تخلیقی جہات کے تمام گوشوں کو اس مونو گراف میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف رشید انجم کی یہ کتاب چار بنیادی عناوین پرمشتمل ہے ۔ شخصیت و سوانح ، ادبی و تخلیقی سفر، تنقیدی محاکمہ اور جامع انتخاب ۔ شخصیت و سوانح کو بہت ہی جامع اور معلومات سے پر پیش کیا گیا ہے جس میں حسب و نسب، خاندانی پیشہ اور موصوف کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہ موصوف میں ادیبوں کی سی نزاکت اور طبیبوں جیسی لطافت تھی ۔اسی کے ذیل میں ابتدائی ادبی سفر کا ذکر بھی ہے کہ ادبی محفلوں میں شرکت کے باعث شاعری کی جانب ان کی طبیعت راغب ہوچکی تھی اور شعرگوئی میں شہرت بھوپال کی سرحدیں پارکر چکی تھیں۔ لیکن ادبی و تخلیقی سفر کے عنوان میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ شعری سرمایہ اتنا بھی جمع نہیں کر سکے تھے کہ کوئی ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر لایا جاسکے کہ نثری تخلیقات کی جانب مائل ہوگئے اور باضابطہ افسانوی دنیا میں ایک عہد گزارا۔ ۹۲۹۱ ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” دلگداز افسانے “ شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس میں سو لہ افسانے تھے جن میں سے چند افسانوں پر مصنف کی مختصر رائے بھی ہے ۔ ۰۳۹۱ءمیں دوسرا افسانوی مجموعہ ” دنیا کی حور“ شائع ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کے افسانوں پر مصنف کی کوئی زیادہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے افسانوں سے یہ افسانے کافی بہتر ہیں ، اول میں نیاز فتح پوری کا عکس ہے تو دوسرے میں پریم چندکی طرح حقیقت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد ان کے دیگر سات افسانوی مجموعوں کا ذکر ہے ۔ جن پر گفتگو جدا جدا نہیں کی گئی ہے بلکہ اجتماعی تاثر ان افسانوی مجموعوں پر پیش کیا گیا ۔اس کے بعد مصنف کوثر صاحب کے ناولوں کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک ناول کے ذکر کے ساتھ بہت ہی مختصر فنی اور موضوعاتی گفتگو بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں ” سب کی بیوی ‘ کوثر صاحب کا وہ پہلا ناول ہے جسے ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے “ ، ” اس ناول میں جنسیات پر ان کا قلم بے باک ہوا ہے “ ۔ دوسرے ناول ” اغوا“ کے بارے میں لکھتے ہیں ” پلاٹ قدرے کمزور ہے ۔ اس ناول میں کہیں کہیں واقعات میں روانی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔“ اس کے بعد سات اور ناولوں کا ذکر ہے ۔ جن میں سے مصنف ” مر جھائی کلیاں “ کو ثر صاحب کا اہم ناول مانتے ہیں اور ” پتھر کے گلاب“ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو شاہکار ناول کہا جاسکتا ہے ۔ ” محبت اور سلطنت “ میں کوثر صاحب کو ایک اعلیٰ اور منجھے ہوئے فنکار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ۔کوثر چاند پوری نے رپور تاژ نگاری میں بھی قدم رکھا تھا اور ” کارواں ہمارا “ ، ” سفر ارض غزل “ جیسے رپورتاژ لکھے ۔جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیںکہ یہ ” بلاخیز قلم کی روانی کے شاہکار مانے جاتے ہیں ، ان میںخیالات کی ندرت بھی ہے ،الفاظ کی طلسماتی قوت بھی ہے ، لسانی پیرایہ بھی اور فن کا منطقی اظہار بھی ہے ۔“ کوثر صاحب نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا اور بھوپال کے ادب اطفال کی تاریخ میں وہ واحد شخص نظر آتے ہیں جس نے بچوں کے لیے پچیس کتابیں (نثرمیں ) لکھیں جن کا ذکر مصنف نے اس مونوگراف میں بہت ہی مختصر اًکیا ہے ۔کوثر صاحب کی تنقید نگاری پر لکھی گئی چار کتابوں ” دیدہ ¿ بینا“ ،” جہانِ غالب “ ، ” فکر و شعور “ اور ” دانش و بینش “ کا بھی احاطہ کیاگیا ہے ۔کوثر صاحب فکر تونسوی کے ہمر عصر تھے اور ان سے مراسم بھی تھے جس کا ذکر اس کتاب میں بھی ہے، صر ف مر اسم ہی نہیں تھے بلکہ ان کے فن طنزو مزاح سے بھی وہ مرا سم رکھتے تھے جس پر ان کی پانچ کتابیں ” مسکراہٹیں “،” موج کوثر“، ”شیخ جی “،”نوک جھونک“اور ”خندہ دل“ منظر عام پر آئیںجس پر مصنف نے کچھ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے نمونے پیش کیے ہیں اور ان پر مختصر تجزیہ بھی ہے۔ سوانح نگاری پر بھی چار کتابیں ”بیرم خاں ترکمان“ ،” اطبائے عہد مغلیہ “ ،” حکیم اجمل خاں “ اور ” جام جم “ ہیں جن کا ذکر دیگر کتب کے مقابلے قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔اس کے بعد کوثر صاحب کی دیگر خدمات کا ذکر ہوا ہے اور جامع انتخاب بھی ہے جیسا کہ ہر مونوگراف میں ہوتا ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے جس محنت اور تگ ود و کے بعد پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصناف سخن کی تعریف و ارتقا پر گفتگو کی ہے اگر اس کو حذف کر کے موصوف کی تخلیقات کے فن پرمزید گفتگو ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہو تا ۔ تاہم یہ کونسل کی اہم اور عمدہ پیش کش ہے۔

نام کتاب کوثر چاند پوری (مونو گراف )
مصنف رشید انجم
سن اشاعت 2019
صفحات 150
قیمت 90 روپے
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر امیر حمزہ K12 ، حاجی کالونی ، غفار منزل ، جامعہ نگر ، نئی دہلی

1 comment:

  1. السلام علیکم جناب اس نمبر پر کال کریگا 8791434113

    ReplyDelete

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...