Sunday 7 July 2019

آندھیوں میں چراغ


 آندھیوں میں چراغ 

(شعری مجموعہ )

محمد شاہد پٹھان 

امیر حمزہ

عصری حسیت کی بات اگر کی جائے تو آپ کو میرو غالب اور اقبال میں بخوبی دیکھنے کو ملے گا۔ اس کی مثال اور تفصیل یہی ہے کہ ان اساتذہ فن کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس عہد کے مالہ و وماعلیہ سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ۔ اردو شاعری میں عصری حسیت ا س طر ح ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح مسلم ممالک اور اسلامی اقدار روایات کونشانہ بنا یا گیا اس کے ردعمل میںجو شاعری کی گئی اس کی تین قسمیں سامنے آتی ہیں۔ ایک مرثیہ کی شکل میں جس کی مثال اکبر الہ آبادی کی شاعری، دوسری شکل رجز کی آتی ہے جو اقبال کی شاعری میں نمایاں ہوئی جس میں وہ نئی تہذیب و راویت سے ٹکر ا جاتے ہیں اور اسلامی اقدارو روایات کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں تیسر ی شکل وہ ہے جو مغرب کی آندھی میں بہہ جاتے ہیں اور جدید تہذیب کے حامل یاجدید تہذیب میں داخل ہو ئے بغیر مغرب کی تمام چیز وں کو اچھائی کی نظر سے قبول کرتے چلے جاتے ہیں جس کے اثرات ترقی پسند ی اور جدیدیت میں جس کے اثرا ت ترقی پسند اور جدیدیت میں دیکھنے ملتے ہیں ۔ لیکن شاہد پٹھان کی شاعری میں اگر عصری حسیت کی بات کی جائے تو موصوف جس وقت (۱۹۸۸ء ) شاعری کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اس وقت دنیا میں معاشرتی اقدار بد ل جاتے ہیں، اردو ادب میں جدیدیت کمزور ہوجاتی ہے اور نئی نسل اپنی نئی نظر و نئی سوچ کے ساتھ ادبی دنیا میں داخل ہوتی ہے، جہاں وہ حسن و عشق، قنوطیت ، ہجرو فراق ، رنج و غم ،اصلاح و تزکیہ و نفس ، تصوف و سلوک کے دائرے سے نکل کر سماجی ، معاشرتی ، سیاسی ، معاشی اورجدید ذہنی مسائل کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اُن کے یہاں عصری حسیت مقامی سطح سے ابھر کر آفاقیت کا دم بھر تی ہوئی نظر آتی ہے ، جس عہد میں انہوں نے شاعری کی اس وقت سے لیکر اب تک بلو ہ وفساد عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، مادیت پرستی کے اس دور میں دشمنوں کی شناخت بھی مشکل ہو چکی ہے چہ جائے کہ دشمنوں کی تعداد پر دھیان دی جائے ،انسان خو دکو بہت ہی اکیلا محسوس کر نے لگا ہے ایس حساس شاعری ان کے  یہاں نظر آتی ہے ۔

شاہد پٹھا ن ایک ایسے حساس اور بے باک غزل گوشاعر ہیں جنہوں نے اپنی غزلوں میں موجودہ زمانے کے فرقہ وارانہ فسادات ، ظلم و ستم ، سفاکی، بربریت و تنگ نظری ، بغض و حسد کی چالاکیاں ، کدورت و نفرت ، خباثت و عصبیت اور نسلی امتیازات جیسی لعنتوں کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ان کی شاعری کے ان مضامین پر ڈاکٹر شریف احمد قریشی لکھتے ہیں ’’ یہی وجہ ہے کہ بعض مخصوص الفاظ و علائم ان کی شاعری کی نہ صرف پہچان بن گئے ہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے بھی حامل ہیں ۔ پتھر ، سنگ ، خشت ، سیلاب، زخم ، سلاسل ، شعلہ سامانی ، آگ ،خنجر ، ظلم و استبداد، خون ، لہجہ ، قتل ، قاتل ، مقتل ، قتل گاہ ، غارت، دھواں ،کفن ، موج بلا ، مو ج ِ ستم ، موج شرر ، بر ق شرار ، رقص ِ بسمل، تلوار، رہبر، ظلم ، نفرت ، خوف، وحشت ، صحرا، قیامت ، نیزہ ،رات ، ظلمات ، دشت شعلہ ، آہ، فغاں ، حشر، قہر، عتاب، اضطراب، خونِ جگر، گلچیں ، انگڑائی اگرچہ کلاسیکی اور روایتی غزل کی لفظیات ہیں اور بظاہر ان میں کوئی نئی یا خاص بات نہیں لیکن شاہد پٹھا ن نے عصر حاضر کے مسائل و واقعات کے تناظر میں ان الفاظ و تر اکیب کو بطور استعارات و علامات جس خوبی سے استعمال کیا ہے وہ نہ صرف ان کے نظریے اور درد و کر ب کے عکا س ہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے بھی حامل ہیں‘‘ ۔ (ص۲۳) یقینا قریشی صاحب کے ان الفاظ سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اشعار میں عصر حاضر کا کر ب نمایا ں طور پر نظر آتا ہے جیسے اس شعر میں ۔



کون شعلے بھر رہا ہے اس فضائے امن میں :  کون برہم کر رہا ہے آشتی کی زندگی 


انہوں نے اپنی شاعری میں صرف وقت کے حالات کی عکس بندی کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کے خود کے مزاج سے بھی آگہی ہوتی ہے جیسے احباب سے زخم کھانا، سیلاب میں مٹی کے گھر کا بچا رہ جانا ، اپنی قلندرانہ مزاجی کا اعلان کر نا ، اپنی شاعری پر نقاد کو حیران ہوتے ہوئے پانا ، مصائب سے گھرا رہنا ، زمانے کا ان کے تئیں سفاک ہونا، اپنی غربت کا بیان وغیرہ عناصر سے قاری اور سامع کو اپنی روداد بیان کر دیتے ہیں ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے حصول انبساط کے لیے کم سماج میں ظلم و تشدد کی نشاندہی کے لیے زیادہ شاعری کی ہے جس کے لیے وہ رائج نمرودیت ، رسم ِ نمرودیت ، ظلم یزداں ، جور چنگیزی ، آدم خاکی ، تقدیر آدم جیسی تراکیب و تلمیحات کا استعمال کر تے ہیں ۔اسی قسم کا ان کا ایک شعرکچھ اس طر ح ہے : 


گھر میں رہتے ہیں تو سنگ وخشت کی یلغار ہے اور باہر دشمن جاں حلقہ اغیار ہے


اس ۲۰۸ صفحات پر مشتمل کتاب میں تقریباً پچاس صفحات ان کی غزلوں کی تنقیدی مطالعہ پر مشتمل ہے ۔ ’’ حرف تاثر ‘‘ ڈاکٹر منشاء الرحمن منشا ، ’’شاہد پٹھان کا انداز تغزل‘‘ ڈاکٹر سید عبدالباری، ’’ غزل کے مزاج داں :شاہد پٹھان ‘‘ ڈاکٹر شریف احمد قریشی ، ’’ شاہد پٹھان کی غزلوں کا تجزیاتی مطالہ ‘‘ شکیل گوالیری، ’’ شاہد پٹھان کی شاعری ‘‘ ڈاکٹر محبوب راہی ، ’’ محمد شاہد پٹھا ن …بحرانی دور کاشاعر‘‘ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی اور ’’ شاہد پٹھان کا غزلیہ رنگ و آہنگ ‘‘ پروفیسر کو ثر مظہری ‘‘ کے مضامین ہیں جو ان کی شاعری کا قدر تعین کرتے ہیں ۔اس مجموعے میں حمد و نعت کے ساتھ ۱۸۰  غزلیں شامل ہیں ۔ ان کی خوبصورت شاعری کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ موجودہ دور کے چیدہ شاعروں میں ان کا شمار ہوگا ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...