Wednesday 10 July 2019

تنقیدی دریچہ

 تنقیدی دریچہ 

محمد وصی اللہ حسینی 

تبصر ہ نگار:امیر حمزہ 

دریچہ ایک ادبی اور خوبصورت لفظ ہے ۔البتہ کام وہی لیا جاتا ہے جو کھڑکی سے لیا جاتا ہے نیز دونوں مترادف لفظ بھی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ مترادفات بھی کمال کے ہوتے ہیں ، کہیں کہیں معنی بالکل تضاد کے دے جاتے ہیں جیسے کسی لڑکے کا  نام ’ نور عالم ‘ ہے ۔ عالم اور جہاں کے معنی تو ایک ہی ہے لیکن ان سے کہیے کہ جناب آپ اپنا نام’ نور جہاں‘ بھی تو رکھ سکتے تھے ۔ لیکن اس کا رد عمل کیا ہوگا وہ آپ سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ تو بات یوں ہی مترادف سے نکل آئی ۔
کہتے ہیں کہ دریچہ سے جھانکنا اور دریچہ میں نظر ڈالنا دونوں چیز یں بے ادبی سے گز ر کر بری عادتوں میں چلی جاتی ہیں ۔البتہ دریچو ں کے فوائد سے حکماء سے لیکر ادبا تک کسی کو انکار نہیں ہے ،کیابوڑھے ،کیا بچے اور کیا جوان سب اس کے دیوانے نظر آتے ہیں توچلیے ہم بھی دیوانگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی چٹخنی کو کھو لتے ہیں اور تنقیدی دنیا کی سیر کرتے ہیں ۔

اس تنقید عمارت میں بائیس چھوٹے بڑے اور متوسط دریچے ( مضامین ) ہیں ۔پہلا مضمون ’ وحیدالدین سلیم کی علمی و ادبی خدمات ‘ ہے ۔ عنوان میں لفظ علمی پر کچھ دیر کے لیے رکا پھر مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ علمی ہی سے سمجھ جانا چاہیے کہ لفظ مولانا کنہی وجوہات کی بنا پر عنوان میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکا ،لیکن علمی اور ادبی مشمولات کو بہت خوبصورتی سے مصنف نے ایڈجسٹ کیا ہے، جو یقینا مزید کی جستجو پیدا کر تا ہے ۔مصنف کا خیال ملاحظہ ہو ’’ راقم کے خیال میں اگر ان کے تبحر علمی و ادبی کارناموں کو الگ کر دیا جائے تب بھی ارد و ادب میں ان کے ’مقام بلند ‘ کے لیے یہی کافی ہے کہ مولانا حالی جیسے شاعر و ناقد ان کے تبحر علمی کے قائل تھے ۔ سر سید جیسے نابغہ ٔ رو زگار نے ان کو اپنا لٹریری اسٹنٹ منتحب کیا تھا اور بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے زبان داں نے عثمانیہ یو نی ورسٹی کے دارالتر جمہ میں وضع اصطلاحات و الفاظ سازی جیسا اہم کام سپر د کیا تھا ‘‘ ۔

’’علامہ سید سلیمان ندوی کے شعری کمالات ‘‘ میں جس قدر کمالات کو تنقید کے دریچہ میں رکھا گیا ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد دل میں جو خیال آیا وہ پیش ہے ’’ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بطور شاعر کم اور بطور نثر نگار زیادہ شہر ت پائی ،جبکہ نثر ی دنیا میں شاید وہ اس مقام کو نہیں پہنچ سکے جتنا اس عہد میں دوسرے تنقید نگاروں کے حصہ میں آیا ‘‘ ۔ گویاان کے شعری دریچے کو ناقدین نے زیادہ کھولنے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ فاضل مصنف اپنے اس مضمون میں اشارہ کر تے نظر آتے ہیں ۔

’’ جنگ آزادی کے جانباز سپاہی : قاضی عدیل عباسی ‘‘ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے ، روانی کمال کی ہے ۔ آپ پڑھتے چلے جائیں گے اور مجاہد آزادی کے جہد مسلسل پر رشک کر تے چلے جائیںگے ۔

’’ مجاہد آزادی مو لوی جعفر علی نقوی‘‘ جن کا شمار اٹھا رہ سو ستاون کے اہم مجاہدین میں ہوتا ہے ان کے جملہ خدمات پر ایک جامع مضمون ہے ۔ 

’’ علی بر ادران کی شخصیت سازی میں بی اماں کا کر دار ‘‘ یہ مختصر سا مضمون وسعت کے اعتبار سے کر دار سے زیادہ بی اماں کی قربانیوں کی جھلک زیادہ پیش کر تا ہے ۔

’’ کیفی اعظمی اچھے شاعر ،بڑے انسا ن ‘‘ میں اچھے شاعر سے زیادہ ایک اچھے انسان کے طور پر کیفی اعظمی کو پیش کر نے کی اچھی کو شش کی گئی ہے ۔

’’ جا ں نثا ر اختر کا شعری پس منظر‘‘ اس مختصر سے مضمون میں جاں نثار کے شعر ی پس منظر تک پہنچتے پہنچتے زندگی کا پس منظر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ان کا شعر ی پس منظر جس میں ’’ گھر آنگن ‘ ‘ کی طر ف میلان میں مجبو ریاں نظر آتی ہیں وہ نظر آئیں گے لیکن شاعری کا نمونہ پیش کر نے کی مجبو ریاں آپ سے پوشیدہ رہیںگی ۔

’’ شکیل بدایونی : ایک رومانی شاعر ‘‘ کے دریچہ سے تنقید کی ایک جھلک ملاحظہ فر مائیں ’’ شکیل بدایونی نے شاعری میں اپنا الگ راستہ اختیار کیا ، اپنے دور کے تینوں رجحانوں میں سے کسی کے اسیر نہیں ہوئے ۔ نہ تو انہوں نے نئے نئے تجر بوں پر توجہ دی ، نہ تر قی پسندی کی وردی پہنی اور نہ ہی جگر مرا د آبادی کی اندھی تقلید کی ۔ بلکہ وہ غزل کے حامیوں سے اس بات سے متفق تھے کہ غزل میں بھی سماجی شعور اور نئے طر ز کی گنجا ئش ممکن ہے ‘‘ ۔ اس مضمون میں رومانی شاعری کے علاوہ شکیل کے یہاں کیا کیا ہے وہ بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ ساتھ ہی تحر یکات و رجحانات کے موسم میں کسی کے خریدار و طر فدار نہ ہونے پر بھی زور ہے ۔

’’ کنور مہندرسنگھ بیدی سحر : جامع صفات شخصیت ‘‘ ایک اچھا خراج عقیدت سے بھر پور تاثراتی مضمون ہے ۔

’’ ولی انصاری کی غزلوں کا رنگ اور انداز فکر ‘‘ اس کتاب میں شامل ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں مصنف نے کھل کر اپنے اشہب قلم کو رفتا ر دی ہے ۔

’’ خمار بارہ بنکوی (تغزل سے تقد س تک )‘‘ اس مضمون میں آپ کو خمار کے رومانوی رنگ کے تین وجوہات پڑھنے کو ملیں گے ،ساتھ ہی خمار کی شاعری کا عہد بعد اور موضوع بہ موضع اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔

’’ کلام والی کے فکر ی و فنی ابعاد ‘‘ میں مصنف نے بہت ہی سنجیدگی سے والی آسی کی ’ یاس ‘ اور ’ آس ‘ دونوں کو پیش کیا ہے ۔

’’ زندگی اور انسانیت کا رزمیہ نگار ، ڈاکٹر اختر بستوی‘‘ سب سے زیادہ حوالہ جات سے مزین مضمون نہیں !بلکہ مقالہ ہے ۔اس مضمون میں انسانیت سے لیکر شاعریت اور شعر یت تک سب کچھ دریچہ میں سجا نے کی عمدہ کو شش کی گئی ہے ۔

’’ شاطر حکیمی کی نعتیہ شاعر ی‘‘ اس مضمون کو پڑھا پھر پڑھا پھر ایک دن کے وقفہ کے بعد پڑھا اور تحقیق ، تنقید ، تجزیہ و تبصر ہ کے مابین الجھ کر بصارت بصیرت تک کی تر سیل اور بصیرت آؤٹ پٹ دینے میں ناکام رہی ۔لیکن آپ جب مطالعہ کر یں گے تو سب کچھ مل سکتا ہے ۔

’’ملک زادہ منظور احمد کا جہان تنقید ‘‘ اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے ایک ہی مضمون میں جہان تنقید کو سمیٹنا ممکن نہیں۔  اس لیے قلم کی سیاحت کے لیے ایک ہی شہر (کتاب ) ’’ شہر سخن ‘‘ کا انتحاب کیا ۔جس میں شامل ۲۶ چھو ٹے بڑے شہریو ں ( شعرا ء) کے متعلق دلچسپ اقتباسات پڑھنے کو ملیں گے ۔

’’ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور اردو ناولٹ ‘‘ میں ناول اور ناولٹ کے مابین جتنی وضاحتیں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کی ہیں ان کی توضیحات مصنف کے قلم سے پڑھنے کو ملیں گی ۔

’’ غزل سرائی کی نئی ادا : جنیوارائے‘‘ اس مضمون کا تعارف اس کی ضمنی سرخی ہی پیش کر رہی ہے ’ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘۔ 

’’ جنگ آزادی میں بستی کے مسلمانوں کا حصہ ‘‘ کتاب کے دیگر مضامین کی طر ح یہ بھی ایک اہم تحقیقی و تعارفی مضمون ہے ۔ اس موضوع پر کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ تا ہم اس مضمون کے مطالعہ کے بعد آپ قلیل سے کثیر کی جانب ضرور راغب ہوں گے۔ اس مضمون میں ضلع بستی کے صرف چھ عظیم مجاہد کا ذکر مختصر طور پر پیش کیا گیا ہے ۔

’’ دانش محل : کتابوں کا تاج محل‘‘ اس مضمون کو پڑھ کر یقینا آپ کے دل میں خواہش اس علم و دانش کے تاج محل سے فیضیاب ہونے کی ہوگی ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں ’’ دانش محل ایک ادار ہ ہی نہیں ایک تہذیب کا نام ہے ۔ قدیم فن تعمیر پر مشتمل ایک کشادہ اور ہال نما وسیع و عر یض اس دکان میں کتابیں ریک میں بڑے سلیقے سے رکھی گئیں ہیں ۔ کتابوں کی ریک کے اوپر دیواروں میں عظیم علماء ، ادبا ء ، شعراء اور دانشوروں کی تصویر آویزا ں ہیں ۔... . اس سلیقہ مندی اور تزئین کاری سے دکان کا منظر انتہائی حسین نظر آتا ہے ‘‘ 

’’ اردو زبان و ادب میں خواتین کا حصہ ‘‘ یہ مطلقا ایک تعارفی مضمون ہے جس میں تعارف سے پرے صر ف اسما پر صبر کر نا پڑے گا ۔’’ صنعت غیر منقوط ‘‘ میں ہادی عالم اور داعی اسلام سے پرے کی بھی دنیا نظر آئے گی ۔  الغرض کتاب نئے موضوضات بر محیظ ہے جسکا مطالعہ یقینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا ۔

صفحات : ۲۱۶
قیمت : ۱۳۳
ناشر : محمد وصی اللہ حسینی ، ۴؍۶۳ ، شتر خانہ ادے گنج ،لکھنؤ ، ۲۲۶۰۰۱


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...