Monday 8 July 2019

"تہذیب کا جنازہ"(انشائیہ) پر تبصرہ


ہمارے یہاں ایک بہت ہی اہم کتاب ’سب رس ‘ہے جو تقریباً تمام جامعات میں داخل درس ہے ۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ اردو کی سب سے پہلی   ادبی نثری کتاب ہے مزید اس کی اہم خصوصیت  تمثیلی داستان ہونا ہے ۔یہی خصوصیت اس انشائیہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ انشائیہ کے کچھ کردار تمثیلی ہیں ۔

جب بھی انشائیہ کی تعریف کی جاتی ہے تو واضح طور پر نہیں کہا جاتا ہے کی انشائیہ اسی کو کہتے  کیونکہ انشائیہ کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں کوئی بھی جامع اور مانع نہیں اکثر مواقع پر طنز و مزاح اور انشائیہ گڈ مڈ ہوجاتے ہیں. بہت ہی مشکل ہوتا ہے دونوں کو الگ کر نا. کہیں کہیں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ طنزیہ میں طنز کے عنصر میں اصلاح مقصود نہیں ہوتا ہے اور مزاحیہ مطلقاً نقالی کو بھی کہا جاتا ہے ۔جبکہ انشائیہ میں ذہنی تر نگ کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہو کہ وہ فکر و فلسفہ سے بو جھل نہ ہو جائے ۔ مولانا عبدالماجد انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسن انشا کو قرار دیتے ہیں اسی لیے شاید انہوں نے اپنے مضامین کو انشائے ماجد ی کے نام سے شائع کیا ہے ۔ بہر حال گفتگو ہے ” تہذیب کے جنازہ ‘ ‘ پر جس میں تہذیب کی موت پر اس کے اعزہ و اقربا ’اخلاق، مروت ، شرمندگی “ کا خصوصی طور پر ذکر ہے جو تمثیلی ہیں ۔ان کے علاوہ جب ’اخلاق ‘ کاذکر پہلی سطر میں آتا ہے تو وہ غیر تمثیلی کر دار ہوتا ہے لیکن جب ’ تہذیب ‘ کی موت کے بعد اس کا ذکر ہوتا ہے تو وہ تمثیلی ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہاں ’ اخلاق ‘ کے ساتھ ’ صاحب ‘ کا لفظ جڑا ہوا ہے ۔جو مابقی ہمنوائے تہذیب کا سپہ سالار بھی ہوتا ہے ۔


انشائیہ میں پھر اوپر کی جانب لوٹتے ہیں ۔انشائیہ شروع ہوتا ہے آخلاق کے بے وقت نیند سے بیدار ہونے سے ۔انشائیہ آگے بڑھتا ہے وقت کی جستجو سے ۔کافی تلاش و جستجو کے بعد’ اخلا ق ‘ کے ذہن میں لیپ ٹاٹ ہی ایک ایسا آلہ نظر آتا ہے جس سے وقت معلوم کیا جاسکے باقی دیگر چیزیں وقت معلوم کرنے کے لیے موصوف کو غیر محسوس ہوئیں ۔موصوف مشہور زمانہ اخلاق گاہ جہاں سے اخلاق کو فی زمانہ درآمد اور برآمد سب سے زیادہ کیا جاتا ہے یعنی فیس بک پرغیر شعوری طور پر وارد ہوگئے۔اسی درمیان ’ حرف O ‘ کے ذریعہ مخصوص اضطراری حالت کو بیان کیا گیا ہے ۔ جس کو مکمل انشائیہ نگارہی یا ان کے گردو پیش رہنے والے افراد سے ہی سمجھا جاسکتا ہے کہ آخر فیسبک کی دنیا میں یہ کس طلسم کا نام ہے ۔اس کے بعد انشائیہ نگار اپنا دخل ختم کر کے انشائیہ کو پوسٹ کے حوالہ کر دیتے ہیں جسکا ابتدائیہ خوبصورت اور شامل کیے جانے والے کر دار بھی معنی خیز ہیں ۔جس کر دار کا کو ئی نام نہیں وہ بھی پوسٹ کو سمجھ نہیں پاتا ہے کہ موت کس برگزیدہ شخصیت کی ہوئی جس کی لاش شاہراہ عام جیسی سنسان مقام پر پڑی ملی. بہرحال جس کے نام ہیں جیسے مروت اور اخلاق وغیرہ ان کے ہی کمینٹس سے انشائیہ خود میں خوبصورتی لاتا چلا جاتا ہے ۔جیسے فہم وفراست کا مشتر کہ سوال’ ’ تہذیب تھے کون ؟ کیا مر د تھے یا زن؟ یا ..... وغیرہ ۔ ان کا ملنا جلنا کس قسم کے لوگوں سے رہتا تھا ۔اس کے بعد اخلاق صاحب کی خودسری آتی ہے اور بہت ہی معنی خیز جملہ ان کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ ’ کسی کے پاس اپنی مر ضی سے گئے تو گئے اور نہ مجال کیا کسی کی جو انہیں کچھ وقت تک اپنے پاس رکھ سکے ۔کسی زمانہ میں صبر و تحمل اخلاقی قدروں میں سے ہوتا ہوگا لیکن اخلاق نے اب ان سے بھی اپنا ناطہ توڑ رکھا ہے ۔پھر بھی جب تہذیب کی موت کی خبر عام ہوتی ہے اخلاق کی سربراہی میں ایک جم غفیر تعزیت کو جاتی ہے ۔ یہاں اخلاق کا خوبصورت اور طنزیہ کردار نظر آتا ہے ۔ اچانک رسم و رواج کا اس معاملہ میں کود جانا کسی بڑے ہنگامہ کی خبر دیتا ہے لیکن سنت سے باہمی مشورہ کے بعد تدفین سے پہلے کے عمل مکمل کر لیے جاتے ہیں ۔اس کے بعد کی خوبصورت منظر نگاری ملاحظہ فرمائیں ” روح قبض ہوجانے کے بعد بھی ماتھے کا شکن نہ گیا اور ان کی انگلی بھی ( شہادت کی ) عوام کی جانب اٹھی ہوئی یوں لگ رہی تھی گو یا کوئی حکم صادر کر رہے ہوں یا کسی کو اس کے کسی فعل پر تنبیہ کر رہے ہوں “ اس منظر نگاری میں جو پیغام پوشیدہ ہے انشائیہ میں یہی چیز خصوصیت کے ساتھ پائی جانی ضروری ہوتی ہے ۔

مر وت اور وکیل بظاہر آپ کو کچھ اٹپٹا سا لگے لیکن اس لفظ مر وت کا خوبصورت استعمال وکیل کے ساتھ ہی سب سے زیادہ مروت کی بات ہے ۔کیونکہ اخلاق کا ادنی قدر وکیل کے اندر ہی موجود ہوسکتا ہے اور اسی کا نام مروت ہے۔مر وت کے بعد فوراً شرمندگی کا آنا یا شرمندگی سے مر وت کا آنا اس کا خوبصور ت مفہوم اس فن پارہ میں نظر آتا ہے ۔

الغرض اس انشائیہ میں ایک خاندان یا ایک قبیل کے الفاظ کو کر دار کے طور پر پیش کر کے بہت ہی مختصر فن پارہ کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اس کے لیے مبارکباد البتہ جس طر ح سے میرے تجزیے میں جلد بازی ہے اسی طر یقے سے اس فن پارہ میں جلد بازی سے کا م لیا گیاہے ۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو چیز جہاں مکمل ہو جاتی ہے وہیں اچھی لگتی ہے اس کے ساتھ حذف و اضافہ مشکل بھرا کام ہوتا ہے کبھی کبھی فن پار ہ خراب بھی ہوجاتا ہے ۔ 

امیر حمزہ 





"تہذیب کا جنازہ"(انشائیہ)

  تحریر: شمس ودود  جے این یو،نئی دہلی

خلاف معمول آج "اخلاق" صاحب اپنے متعینہ وقت سے پہلے ہی خواب غفلت سے بیدار ہوگئے, کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی جب وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا تو بستر پہ لیٹے ہی لیٹے اپنا نیک نام زمانہ "لیپ ٹاپ" ہی آن کر دیا, متعدد جمائیاں لینے کے بعد وقت پر نظر جمی تو بڑی حیرت ہوئی, برجستہ زبان سے نکلا "ارے! یہ تو میں دو گھنٹہ پہلے ہی بیدار ہو گیا......ابھی تو دس بھی نہیں بجے ہیں"!

پھر کیا تھا..... نیند نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور فرار ہو چلی, اب "اخلاق " صاحب بڑے ہی شش و پند میں مبتلا ہوئے کہ آیا اب کیا کیا جائے؟ ......انگلیوں سے لاشعوری طور پر حرکت ہوئی اور فیس بک (Facebook )......"کتابی چہرہ" یا "چہروں کی کتاب" .....کھول بیٹھے, اب کیا تھا..... حرکت تو سرزد ہو ہی گئی لیکن پھر حیرت و استعجاب سے ان کی آنکھیں انگریزی کے حرف "O" کا طواف کرنے لگیں, (اضطراری طور پر یہ حرکت آپ سے بھی سرزد ہو سکتی ہے......کوئی بات نہیں, تجربہ انسان کو نکھار دیتا ہے).

جب حیرانگی ذرا کم ہوئی تو فیسبک پہ آئے ہوئے ایک پوسٹ کو پڑھنے لگے, پھر بھی جب اس پوسٹ کو سمجھ نہ سکے تو بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا (اگر چہ تنہا ہی تھے)......"ایک عرصے سے علالت میں رہنے کے بعد آج "بروز اتوار "تہذیب" (صاحب یا جناب کے بغیر) کا انتقال ہوگیا "- 
"انا للّٰہ وانا الیہ راجعون"

تہذیب کی نعش "جامعہ ھذا" کے باہر شاہراہ سنسان پر لاوارث پڑی رہی, جس پر گھنٹوں کسی آدم زاد کی نگاہ نہیں پڑسکی"- گھبراہٹ اور تجسس کے امتزاج کے ساتھ جب "کمنٹ باکس" کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ متعدد لوگوں نے تعزیتی جملے کہے ہیں- کسی نے مرحوم کی تعریف کی تھی, تو کسی نے اپنے غم کا اظہار کیا تھا اور کچھ لوگوں نے تو غم و غصہ دونوں کا اظہار کیا تھا- 

ایک صاحب نے لکھا تھا کہ...... "تہذیب صاحب کو میں نے کبھی دیکھا تو نہیں لیکن ان کے بارے میں سنا خوب ہے, کافی نامور شخص تھے"- 

ایک اور صاحب نے لکھا تھا ......."تہذیب صاحب کی ’’جامعہ ھذا “سے خوب راہ و رسم تھی, جامعہ کے قیام سے لیکر ٢٠ویں صدی تک دونوں کا بڑا گہرا تعلق رہا, لیکن نہ جانے کیوں "مغرب" کی جانب سے چلنے والی "گرم ہواؤں" نے انہیں احساس کم تری کا شکار بنا دیا اور پھر دن بدن لاغر ہوتے گئے اور آج اس دار فانی سے بھی کوچ کر گئے"-

ایک اور صاحب نے تہذیب کے اعزہ و اقرباء, لاحقین و احباء کو صبر و تحمل سے ملاقات کرنے کی تجویز پیش کی, ......اسی طرح سے متعدد افراد نے کچھ نہ کچھ بطور تعزیت ضرور کہا تھا, مگر "فہم و فراست" کے سوال نہایت مضحکہ خیز اور غور طلب تھے, ان دونوں کا مشترکہ سوال یہ تھا کہ....... "تہذیب تھے کون؟ کیا مرد تھے ؟ یا زن ؟ یا......وغیرہ, ان کا ملنا جلنا کس قسم کے لوگوں سے رہتا تھا"؟

بہرکیف "اخلاق صاحب" تھے بڑے خود سر, کسی کے پاس اپنی مرضی سے گئے تو گئے, ورنہ مجال کیا کسی کی جو انہیں کچھ وقت تک اپنے پاس رکھ سکے - صبر اور تحمل سے تو ناتا ہی توڑ رکھا تھا, کہیں آتے بھی تھے تو غرض کو ساتھ لئے بغیر کبھی تشریف نہ لاتے, لیکن تہذیب کی میت پر ان کی دہلیز تک گئے- 

اب جب کہ پورے جامعہ میں تہذیب کے انتقال کی خبر پھیل گئی, تمام لوگ "اخلاق صاحب کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشریف لائے, لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں, ہر شخص ایک دوسرے سے  تہذیب ہی کے تعلق سے گفتگو میں محو تھا, پھر کسی جانب سے رسم و رواج دونوں آتے ہوئے دکھائی دئے, پھر کیا تھا..... سب نے ملکر (بشمول مرد و زن, بوڑھے, بچے اور جوان وغیرہ) تہذیب کا پرتو الٹا, پھر رسم و رواج دونوں نے سنت سے مشورہ کر کے قبل از تدفین کے تمام مراحل سے گزار کر تہذیب کو کفن پہنایا, عطر و کافور ملا گیا - لیکن تمام لوگ اس بات لو لیکر بڑی حیرت میں تھے کہ "روح قبض ہو جانے کے باوجود بھی تہذیب کے "ماتھے کا شکن" نہ گیا اور ان کی انگلی بھی (شہادت کی) عوام کی جانب اٹھی ہوئی یوں لگ رہی تھی گویا کوئی حکم صادر کر رہے ہوں, یا "کسی کو اس کے کسی فعل پر تنبیہ کر رہے ہوں"- 

دوسری طرف "اخلاق" صاحب بڑے بے چین پھر رہے تھے کہ آیا "لوگوں نے تہذیب کی میت پر آنسو ہی نہیں بہایا یا روتے روتے سب کے اشک خشک ہو گئےہیں"؟ 
ع:  دل رو رہا ہے میرا مگر آنکھ نم نہیں

لیکن ایسی بے چینیوں سے اب کیا ہو سکتا تھا, اب تو مرحلہ تھا کہ میت کو چار کاندھوں پر اٹھایا جائے اور درگور کر دیا جائے, عین اسی وقت "تہذیب" کا وکیل "مروت" ایک جانب سے بھاگا بھاگا آیا اور جنازے کو روک کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہنے لگا کہ تہذیب صاحب کا وصیت نامہ تو سن لیجئے, جو انہوں نے مجھ سے لکھواکر "شرمندگی" کے پاس بطور امانت رکھوا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ "میرا جنازہ اٹھنے سے پہلے یہ وصیت نامہ لوگوں کو ضرور سنا دینا"، میری تاخیر کا سبب بھی یہی ہے کہ میں "شرمندگی" کو تلاش کرنے نکل پڑا تاکہ اسے آپ لوگوں کے سامنے حاضر کر سکوں, ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر چند وقفے کے بعد جب پر تکلف انداز میں شرمندگی تشریف لائی (تھیں بھی محترمہ کھجور کے تنے کی طرح لمبی اور الف کی طرح سیدھی کہ خراما ہوتیں تو اطراف سے لوگ یہ کہنے پہ مجبور ہوجایا کرتے تھے کہ اماں! ذرا سنبھل کے ) اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے بے حد تکلف کے ساتھ وصیت نامہ پڑھنا شروع کیا جو کچھ یوں تھا کہ: - 
قسم تمہاری
قسم ہے تم کو, نہ دینا کاندھا 
اٹھے گا جب بھی 
جنازہ میرا.........!

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...