Tuesday 3 December 2019

شعرو نثر کی جمالیات

شعرو نثر کی جمالیات 


 کتاب کے اس نام سے آپ روشناس ہوئے تو فوراً آپ کے ذہن میں یہ بات گردش کرنی لگی ہوگی کہ یہ کتاب بھی ان ہی عناوین ، موضوعات اور نظر یات کا احاطہ کر رہی ہوگی۔ جو جمالیات کے عنوان پرلکھی گئیں پروفیسرشکیل الرحمان ، پروفیسر عتیق اللہ ، پروفیسر قاضی عبدالستار ، اصغر علی انجینئراور حقانی القاسمی وغیرہ کی کتابیں ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں آپ کو ۳۲ ؍ شعرا و نثر نگاروں کی تخلیقات پر محض تاثر اتی اور محاسن کومرکوز نظر رکھ کر لکھے گئے تجزیاتی وتاثراتی مضامین ملتے ہیں ۔جن میں سے چند مضامین کی نوعیت کے بارے میں بھی آپ کو متعارف کر اتا چلوں ، اس کتاب کا پہلا مضمون غالب کی یکجہتی کے تصورات پر ہے جس میں انہوں نے قاری کے اذہان میں ان کی شاعری اور زندگی کے حوالے سے یہ سامنے لانے کی عمدہ کوشش کی ہے کہ غالب نے خود کو تمام رسوم وقیود سے آزاد رکھ کر انسانی فطرت کی زندگی کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے اور اسے جیا بھی ہے ۔ساتھ ہی مصنف نے ایک بہت ہی دلچسپ بات لکھی ہے جس پر شاید ہر قاری ضرور کچھ نہ کچھ سوچ کر اپنی رائے قائم کر ے گا۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اپنی تمام تر عظمت و بر گزیدگی کے باوجود بہ ہر حال یک رنگ شاعر ہیں ۔… جبکہ غالب کے ہاں ہمیں عشق بھی ملتا ہے ، در د کوشی بھی اور اپنی حالت زار نشاط نچوڑ لینے کا حوصلہ بھی ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں ، جو غالب کو ایک آفاقی شاعر بنادیتی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد دومضامین میر و غالب کے ہمعصر’ شمس گلاؤٹھوی ‘اور شاگرد دا غ ’سردار بہادر فریاد‘ کی شاعری پر ہے ۔ یہ دونوں اردو کے اہم ادوار میں اپنی شاعری کرتے ہیں لیکن بعد کے عام قارئین و طلبا کے لیے نہ ہی ان کا نام سامنے آتا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری ،جس کو مصنف نے محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اب شعری محاسن کے بعد پر یم چند کی نثر کی جانب آتے ہیں جہاں وہ ان کے فکشن کے محاسن کے بعد ’ پوس کی رات ‘ پر گفتگو کر تے ہیں ۔ کتاب کا یہاں تک سفر کر نے کے بعد واپس ابتدائیہ کی جانب لوٹتے ہیں جہاں ’’ سخنے چند ‘‘ کے عنوان کے تحت شاہ اجمل فاروق ندوی مصنف کے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ کو ان کے ہاں ہر دور کے فن کار وں پر تنقیدی مضامین ملیں گے ۔ غالب و مصحفی سے لے کر معاصر فن کا روں تک ، انہوں نے ہر اس فن کا ر کے فن پر گفتگو کی ہے ، جس کو کسی بھی ناحیے سے انہوں نے لائق اعتنا سمجھا ۔ ان کی تنقید کا ایسا نمایاں وصف ہے جو ہماری آج کی تنقید میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ‘‘ اس کو نقل کر نے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس میں تین دعوے کیے گئے ہیں ، پہلے تو ’’ ہر دور ‘‘ کا ذکر کیا پھر اس کوغالب و مصحفی سے ہمعصر تک میں خاص کردیا گیا ۔ دوسر ا جس نے بھی کچھ خاص لکھا تنقید کی، اسی کا اضافی جزو ہے کہ ایسا آج کے دور میں عموما ً نہیں کرتے ہیں ۔یقینا یہ تینوں باتیں ان کی اس کتاب میں مکمل طور پر صادق آتی ہیں ،کیونکہ ناقدین عموماً جگر پر لکھتے ہیں لیکن مانی جائسی اور مولانا محمد احمدپرتاب گڑھی کی شاعری پر کون لکھتا ہے ؟ مودودی کی نثر اور فیض کی شاعری پر مضامین آپ کی نظر سے ضرور گزریں گے، لیکن شرافت حسین رحیم آبادی کا ادب اطفال ، متین طارق کی اصلاحی شاعری اور حفیظ میرٹھی کا انقلابی رنگ کاغذوں میں کہاں جھلکتا ہے ۔اقبال کے رنگ میں شاعری کرنے والوں کی فہرست بہت ہی لمبی ہے لیکن مقالات میں پانچ سے دس پر ہی بس کردیا جاتا ہے تو ایسے میں اقبال کے پیرو کار عمر فاروق عاصم عثمانی کیسے سامنے آسکتے ہیں، جن پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے ۔بہت ہی کم ایسے جدید اورموجودہ شاعر ہیں جن کی شاعری پر کچھ لکھا جاتا ہو سوائے ان کے شعری مجموعوں پر تبصرے کے ۔تو یہ طلسم بھی ان کے یہاں ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ ان کے یہاںشجاع خاور، پروفیسر وسیم بریلوی اور ڈاکٹر نواز دیوبندی ہیں تو ساتھ ہی تو بہت ہی زیادہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مہدی پر تاب گڑھی او ر وقار مانوی بھی ہیں ۔انہوں نے جہاں اسلام فیصل کے دوہوں پر لکھا ہے وہیں طرب ضیائی کی رباعیوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ الغر ض جو دعوے ’’سخنے چند‘‘ کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے اس پر عمل بھی نظر آتا ہے ۔عموماً زبانی طور پر ہر ادیب دعویٰ کر تا ہے کہ ہم گروہ بندی کے قائل نہیں ہیں ایسا ہی دعویٰ کچھ ان کی طرف سے بھی کیا گیا ہے اس لیے شاید انہوں نے شاید شاعروں کی شہر ت و اہمیت کا خیال کیے بغیر ان کی اہمیت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ادب کے قاری اور ہم طلبا کے لیے ایک قابل غور دعویٰ یہ ہے کہ ’’ تابش مہدی اہل فن کے محاسن کو ابھارنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ موجودہ دور میں جب کہ کیڑے نکالنے ، ٹانگ گھسیٹنے اور خورد بین سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کمیاں نکالنے کا نام تنقید پڑگیا ہے ، ایسے ماحول میں ڈاکٹر تابش مہدی کا تحسین آمیز یہ تنقیدی رویہ مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ۔ ‘‘ یہ بھی اس کتاب میں بجاہے کیونکہ کسی بھی معاصر کے فن کی کمیوں پر ایک حر ف بھی نہیں سوائے پہلے مضمون کے جس میں غالب کو آفاقی اور میر تقی میر کو یک رنگی شاعر کہا گیا ہے ۔

مصنف تابش مہدی 
صفحات ۲۸۸ 
قیمت ۳۰۰ روپے
سنۂ اشاعت ۲۰۱۹ء
ناشر ادبیات عالیہ اکادمی ،G5/A ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی 
 تبصر ہ نگار امیر حمزہ 
L11/14 حاجی کالونی ، جامعہ نگر اوکھلا 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...