Tuesday 3 December 2019

امعان نظر

امعان نظر

بدری محمد کا شمارہ موجودہ وقت میں بہار کے ادبی صحافت میں عمدہ نثر نگار کی حیثیت سے ہوتاہے ۔صحافتی مضامین کے علاوہ ان کے تنقیدی ، ادبی و نیم ادبی مضامین رسالوں کی زینت بنتے رہے ہیں نیز گاہے بگاہے ان کے تخلیقی ذہن نے موزوں مصر عے بھی وضع کیے ہیں جس کااچھا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ۲۰۱۱ء؁ میں ایک غزل کا مجموعہ ’’ بنت فنون کا رشتہ ‘‘ شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کر چکا ہے ۔
زیر تبصر ہ کتاب مصنف کی دو سری کتاب ہے جو اپنی نوعیت میں اہمیت کی حامل ہے وہ اس طو ر پر کہ اب تک بہت ہی مشہور و غیر مشہور حضر ات کے تبصر ے کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، تا ہم ان میں تبصروں کا انتخاب اس طور پر نہیں جو انتخاب اس کتاب میں عمل میں لایا گیاہے ۔اس میں مصنف نے نہ کسی مصنف کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کسی ناقد کی کتاب پر ، نہ شاعر کے شعری تخلیق پر اور نہ ہی افسانہ نویس کے افسانوی مجموعے پر ، نہ ہی کسی مزاح نگار کے خاکہ و انشائیہ اور طنز و مزاح کے مضامین پر اور نہ ہی کسی ڈارمہ نگار کے ڈراموں پر، نہ ہی سوانح نگار کے حقیت بیانی پر اور نہ ہی کسی سیاح کے سفر نامہ پر بلکہ یہ تمام تبصر ے ملک کے مشہور و معرو ف مجلات کے خصوصی شماروں پر ہیں جس میں ملک کے اعلی وادنی قلم کاروں کی تحریریں شامل ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے ملک کے ۱۱؍اہم مجلات کے ۲۴؍ خصوصی شماروں پر کیے گئے ان تبصر وں کو شامل کیا ہے جو قومی تنظیم ، پندار، راشٹریہ سہارا، سنگم اور فاروقی تنظیم میں شائع ہوچکے ہیں ۔ یہ تمام تبصر ے نہ تو مختصر ہیں اور نہ ہی طویل بلکہ متوازن ہیں ۔

تبصر ہ در اصل تنقید کی ہی ایک شاخ ہے جس میں تبصرہ نگار محض اس کتاب کو موضوع بناتا ہے جس پر وہ تبصر ہ کر رہا ہے نیز اس کے مشتملات پر روشنی ڈالتا ہے اور  قارئین کے سامنے خوش اسلو بی سے پیش کر نے کی کوشش کر تاہے تاکہ قارئین کی توجہ اس کتاب کی جانب متوجہ ہو ۔ ایسے تبصر ے اکثر رسائل و جرائد میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔کچھ تبصرے ایسے ہوتے ہیں جو تقابلی ہوتے ہیں ۔ وہ اس طور پر کہ جس کتاب پر وہ تبصر ہ کر رہے ہیں اس موضوع سے متعلق دو سری کتابوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہے اور وہ اس چیز کو واضح کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ موجودہ کتاب ماقبل کی شائع شدہ کتابوں سے کس قدر مختلف ہے ، اس نئی کتاب میں کن کن نئی چیزوں کو شامل کیا گیاہے یا تخلیق میں کن کن نئی نظریات و مسائل کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تا ہم اس کتاب میں پہلے طر یقے کوہی اپنا یا گیا ہے ۔

اس کتاب میں زبان ادب ، ماہنامہ انشاء ، نیادور ، کتاب نما اور آج کل کے کئی نمبر وں کا تبصر ہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ مصنف نے کئی دیگر ماہنا موں و سہ ماہی مجلات کے مضامین کو بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد ان تمام مضامین کے اہم نکات کوتبصر ہ میں شامل کر کے اس مضمون کی وسعت و محدودیت پر گفتگو کی ہے ۔ان تمام میں وہ صرف توصیفی پہلو کو ہی سامنے نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان میں غیر پختگی اور ڈھیلے پن کی جانب بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں ۔جیسے حفیظ بنارسی نمبر پر لکھتے ہیں ’’ حفیظ بنارسی کو رسالے اور مشاعرے کا مقبول شاعر بتاتے ہوئے ان کے تر نم کی بار بار تعریف کی گئی ہے جب کہ تر نم شاعری کے لیے ضروری چیز نہیں ہے ۔اس سے شاعر سامع یا مشاعر ہ کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے شاعری کو نہیں ‘‘ ۔

اس میں شامل ایک اہم تبصر ہ ماہنامہ ’’ انشاء‘‘ کے گفتنی نمبر پر بھی ہے ۔ انشاء کا یہ نمبر ف س اعجاز کے اداریوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں انہوں نے ان کے اداریوں کی ستائش کی ہے ، وہیں اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ان سے بھی اچھے اداریے لکھنے والے موجود ہیں اور رہے ہیں ۔ وہیں دو سری جانب یہ بھی لکھا ہے کہ دوسرے صحافیوں کے لیے اس میں تر غیب ہے کہ اداریے معیاری ہونے چاہیے ۔ کئی تبصرے ایسے ہیں کہ مصنف نے کہیں کچھ چھپانے کے لیے رکھا ہی نہیں بلکہ اپنی شستہ انداز تحریر اور دلکش اسلوب بیان میں تمام نکات و کمیاں کو گنا تے چلے گئے ہیں ، اور یہ بھی نہیں کہ صر ف بڑے پائے کے قلم کار کو ہی زیا دہ پیش کر نے کی کو شش کی ہے بلکہ ریسر چ اسکالر کی تحریروں پر بھی اپنی رائے سے نوازا ہے ۔

اس کتاب میں انہوںنے جن معیاری مجلات کو تبصرے کے لیے انتخاب کیا ہے وہ ان کی تنقیدی ذوق کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ پھر تمام تبصر و ں میں اپنی ایک محکم رائے سے نوازنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مصنف موجودہ دور کے تخلیقی و تنقیدی تحر یروں سے کس قد ر واقف ہیں ۔الغر ض یہ کتاب تبصر ے کے حوالہ سے اہم کتاب ہے جو معلوماتی بھی ہے اور تبصرہ نگار ی میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ بھی ۔ امید ہے کہ مصنف کی اس کتاب سے لوگ استفادہ کریں گے اور علمی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی ۔

مصنف بدری محمد
صفحات ۱۵۲
قیمت ۲۵۱
سن اشاعت ۲۰۱۵
ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی 
مبصر امیر حمزہ ،ریسرچ اسکالر : شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ،دہلی 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...