Wednesday 24 March 2021

تر قی پسند شاعری اور مولانا سعید احمد اکبر آباد ی


 تر قی پسند شاعری اور مولانا سعید احمد اکبر آباد ی

امیر حمزہ



’’ ہمیں حسن کا معیار تبدیل کر نا ہوگا ۔ ابھی تک اس کا معیار امیرا نہ اور عیش پرورانہ تھا ۔ ہمارا آرٹسٹ امراء کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا ۔انھیں کی قدردانی پر ان کی ہستی قائم تھی اور انھیں کی خوشیوں اور رنجوں ، حسرتوں اور تمناؤں ، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا ، اس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف اٹھتی تھیں ، جھونپڑ ے اور کھنڈر اس کے التفات کے قابل نہ تھے ، انھیں وہ انسانیت کے دامن سے خارج سمجھتا تھا۔ آرٹ نام تھا محدود صورت پرستی کا ، الفاظ کی تر کیبوں کا خیالات کی بندشوں کا ، زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں ۔‘‘

’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدا ر نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے ، ہم میں قوت و حرارت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبہ ٔ حسن نہ جاگے ،جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کر ے وہ آج ہمارے لیے بیکا ر ۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔‘‘

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو آزادی کا جذبہ ہو ، حسن کا جوہر ہو تعمیر کی روح ہو ، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو ، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کر ے ۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی ۔‘‘

اوپر کے تینوں کے اقتباسات میں مشتر کہ طور پر جو عناصر کھل کر سامنے آتے ہیں وہ ہیں ( ۱) حسن کا معیار (۲) آرٹ کا محدود ہونا (۳) زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں (۴) ذوق سلیم ( ۵) تفکر وغیرہ ۔ ان عناصر کی کارفرمائی سے ترقی پسند ادب تشکیل پاتا ہے ۔

 اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ عناصر تر قی پسندتحریک کی تشکیل کے بعدادب میں درآتے ہیں یا پہلے سے پائے جاتے ہیں ۔ تو شاید تمام کا جواب ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز نئی نہیں ہے ، سب قدیم ہیں، بلکہ کچھ توا لزامات ہیں اگر میں یہ کہوں کے یہ سارے عناصر ری پیکیجنگ کیے گئے ہیں اور اپنے سے قبل کے ادب کو عالمی شور وغوغا سے ناقص بتا نے کی پر زور کوشش کی گئی تو غلط نہیںہوگا۔ کیونکہ ترقی پسندی کے وقت تو وہ شجر ممنوعہ کی طرح پیش کیا گیا لیکن انہی کے علمبر داروں نے میر و غالب و اقبال پر اچھی تحریریں دنیائے ادب کو دیں ۔بقول سجاد ظہیر کہ جب فیض دہلی کے مناظرہ میں تقریر کر نے کے لیے اسٹیج پر آئے تو ’’ انھوں نے عالمانہ انداز میں بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ تر قی پسند ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے ‘‘ ۔

بات شروع کر تے ہیں حسن کے معیار سے ۔تویہ بنیادی بات جان لینی چاہیے کہ ذہن کے تین بنیادی دریچے ہوتے ہیں جس سے وہ خارجی و داخلی امور کی جانب فطری طور پر مائل ہوتا ہے ۔(۱) حق (۲) خیر (۳) جمال ۔

کوئی بھی خیال و تصور ان ہی تین میں سمایا ہوا ہوتا ہے ۔ کوئی بھی چیز حق ہے یا تو حق سے منسوب ۔ خیر کے بغیر کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں ہوسکتی ، موجود تو ہوسکتی ہے لیکن قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے ۔جمال کے بغیر بھی کسی شے کا وجود ہوسکتا ہے لیکن تاثیر سے عاری ہوگا ۔

دنیا کے تمام علوم کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ حق کے بغیر کسی شے کا وجود محض اس بات کا علم دیتا ہے کہ یہ حق نہیں ہے ۔حق کے بغیر کوئی بھی چیز ذہن میں یا خارج میں نہیں ہوسکتی یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حق تو مادہ وجود ہے ۔تو پھر یہ بات طے ہوتی ہے کہ حق کے بغیر خیر بھی موجود نہیں اور جمال کو خیر کا ایک لازمی جزو کہہ سکتے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی چیز آپ کے پاس خارج سے آتی ہے تو آپ کے ذہن کے یہ بنیا دی دریچے سب سے پہلے کھلتے ہیں کہ یہ حق ہے یا نہیں پھر اس میں خیر ہے یا نہیں اگر یہ دونوں ہیں تو پھر جمالیاتی کیفیت کا حامل ہے یا نہیں ۔اب اسی کو ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں اور اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز حسین ہے اور حق نہیں ہے تو پھر ذہن میں ایک قسم کا مزاحمت ابھر تا ہے اور یہ ایک قسم کی اصولی بات ہے کہ اگر کوئی چیز جمالیاتی شعور کا حامل ہے لیکن حق سے خالی ہے تو اسے صرف نظر کا حسن یا دیکھنے میں خوبصورت سمجھا جاتا ہے ۔اسی طریقے سے اخلاقی شعو ر (خیر ) کی بھی بات کی جاسکتی ہے ۔ اگر ہم کہیں خیر کی بات کر رہے ہیں تو اس میں بقیہ دنوں بنیادی امور کو بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ان تمام کے ساتھ ہے یا نہیں اگر کوئی چیز بظاہر ہمیں اخلاقی شعور کی حامل لگ رہی ہے لیکن حق سے وہ ٹکرا رہی ہے اور قلب و نظر کو اپنی جمالیاتی شعو ر سے متاثر نہیں کر پا رہی ہے تو وہ بھی بظاہر خیر ہے اور بباطن کچھ اور ہے ۔ اگر یہ تینوں چیز ثابت ہوجاتی ہیں تو ہمارے اندر اس چیز کی کلی قبولیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس لیے جو بڑا شاعر ہوتا ہے اس کے یہاں جمالیاتی شعور کو اس کے مقصد اصلی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور جو ادنی درجہ کا شاعر ہوتا ہے اس کے یہاں جمالیاتی شعور حق کے ساتھ نہ ہوکر محض ظاہر ی حسن کا عکاس بن کر رہ جاتا ہے ۔ الغرض حسن کے معیار بدلنے کا جو نعر ہ تر قی پسند وں کی جانب سے دیا گیا تھا وہ سب کو پتہ ہے کہ وہ بہت ہی محدود دائرہ کا تھا یعنی بنگلوں اور محل سراؤں کی جگہ جھونپڑیوں کی طرف حسن کی تلاش میں یا بیان میں نکلنا ۔ جمالیاتی شعور یا حسن کے معیار سے ہی بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان کو تہہ دار ادب کی ضرورت تھی یااس ادب کی جس میں معانی اپنے روایتی اقدار و حسن کے خلاف محض مادہ پرستانہ اور ظاہر ی نعروں کے ساتھ عوام کی زبان چڑھ جائے ۔ وجہ یہی ہے کہ تر قی پسندی ایک عوامی تحر یک تھی جس نے سماج کو متاثر کیا بر عکس اس کے علیگڑھ تحر یک ایک سماجی تحر یک تھی جس نے ادب کو متاثر کیا ۔ اس لیے انہوں نے ادب کے عظیم روایتی سر مایے کو در کنار کر تے ہوئے اپنے سامنے کچھ نئے نعرے پیش کیے جس کا اثر یہ ہوا کہ عوام سے گفتگو کرنے کے لیے ادب کا سہارا لیا اور اس نے ادب کو بہت ہی متاثر کیا ۔

 یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جدید شاعری کی روایت تہذیب کی شکست سے خوش ہوکر پیدا ہوئی ہے ، اقبال کے دور میں مشرقی و اسلامی تہذیب شکست خوردگی سے دوچار ہوگئی تھی ، جس کے دو ردعمل بر صغیر کی مسلم اور شعری دنیا میں سامنے آئے ۔ ایک ردعمل نوحہ اور مرثیہ کی شکل میں نظر آیا جو اکبر الہ آبادی کی شاعری میں نظرآتا ہے اور دو سرا رجز کی صورت میں نظر آیا جو نئے تہذیبی بدلاؤ سے ٹکر ا جانا چاہتا تھا جس کی واحد مثال اقبال ہیں ۔ دوسری جماعت وہ تھی جو تہذیب کی اس شکست سے خوش تھی اور شکست دینے والی تہذیب کی جانب کشش میں مبتلا تھی لیکن ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ مغرب کے اندر نہیں بلکہ باہر سے بیٹھ کر محظوظ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ مغربی تہذیب ا ن کے لیے کوئی مزیدار چیز نظر آرہی تھی تو وہاں کی قدرو ں کو اپنی تخلیقات میں ڈھالنے کی کوشش ہورہی تھی لیکن ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا ان کی شعری تربیت روایتی تھی ، شعری نہ سہی معاشرتی تربیت تو روایتی و مشرقی تھی ہی اور مغربی تہذیب کو اپنے اندر داخل کیے بغیر ہی مغرب کی وکالت کر نے کا نتیجہ یہ نظر آیا کہ لغویت کے ساتھ ابہام بھی ادب میں در آیا ہے ۔ بلکہ جس تہذیب کے اسٹریکچرکے انہدام کے وہ حامی ہوئے اس کے باقیات ان میں باقی تھے ، خارج سے ختم ہوگئی تھی لیکن داخل سے نکل نہیں پائی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شعری تہذیب میں ہیئت سے لیکر مضامین تک میں ایک غیر واضح صورت نظر آتی ہے ۔اگر آپ ن م راشد ( اگر چہ یہ تر قی پسند شاعرنہیں ہیں ) کا نیا آدمی سے پہلے اور بعد کے ادب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ایک حد فاصل نظر آئے گا جیسا کہ راشد کے یہاں نظر آیا ہے کہ آدمی تو مشرق میں بھی نیا پیدا ہوگیا ہے لیکن دنیا نئی پیدا نہیں ہو پائی ہے۔ اسی غیر واضح تکنیکی صورت حال سے مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے اپنے مقالہ میںواقف کر انے کی کوشش کی ہے ۔

مولانا سعید احمد اکبرآبادی کا پہلا اعتراض نام کے سلسلے میں ہے ان کے نزدیک’’ ترقی پسند شاعری یا تر قی پسند ادب کی ترکیب اصولاً درست نہیں ہے کیونکہ پسند یا نا پسند کا سوال شعور و احساس سے ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ادب بذات خود شعور وا حساس نہیں رکھتا ‘‘ میرے خیال میں ان کا یہ اعتراض تو درست ہے لیکن اگر ہم دوسرے زاویے سے دیکھیں تو سوال کچھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس تحر یک سے جڑنے والے تر قی پسند کہلائے اور ان کی تخلیقات ترقی پسند ادب ۔یعنی تر قی پسند لوگوں کا ادب ۔ساتھ ہی جب ترقی پسند کا عروج ہوا تو مغربی رجحانات کی وجہ سے وہاں کی شعری ہیئت کا بھی اردو میں تجر بہ کیا گیا جس کے نتیجے میں نظم معریٰ ، نثر ی نظم اور آزاد نظم وجود میںآئے ۔ان کا اس تعلق سے سوال یہ ہے کہ کلام کی تو دو ہی قسمیں ہوتی ہیں مو زوں ہے تو نظم و رنہ وہ نثرہے ۔ کلام میں وزن کے ساتھ معنوی خوبی ہے تبھی وہ شعر ہے ورنہ وہ محض ایک موزوں کلام ہے شعر نہیں ہے ۔اسی طر ح نظم میں اگر کوئی لفظی یا معنوی صناعی ہے تو وہ نثر انشا ء ہے ورنہ نثر عاری ہے ۔پھر نظم کے ساتھ نثر ، معریٰ یا آزاد لانا ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے لاہو ر کا ہمایوں مقبرہ یا دلی کا تاج محل ، ہاں اصطلاحات پر تو کوئی روک ٹوک نہیں ہے انفرادی طور پر وہ اپنی غزل کو قصیدہ کہے یا مرثیہ و مثنوی وہ تو اس کا شخصی اختیار ہے جیسے کوئی اپنی بلی کا نام کتا یا کتے کا نام لومڑی رکھ لے ۔ان کے اس اعتراض کوکسی حد تک درست ٹھہرا یا جا سکتا ہے لیکن اس ادبی دنیا میں بال سے بھی باریک صنفی امتیازات کے لیے اصطلاحات کی بھر مار ہے آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اس اکیسویں صدی کے ابتدا ئی دو دہوں میں کتنے اصطلاحات وجود میں آچکے ہیں ۔ اسی طریقے سے ایک لفظ’’ شعریات ‘‘ ہے جو آج کی ادبی دنیا میں بہت ہی مستعمل ہے ۔ اس بات کا علم ہے کہ اس وزن پر جو بھی لفظ بنایا جاتا ہے اس میں اس کی داخلیت پر اثر زیادہ ہو تا ہے جیسے اقتصاد سے اقتصادیات، بلدیہ سے بلدیاتی ، خمر سے خمریات، معاش سے معاشیات ، سیاست سے سیاسیات اور ادب میں ادب سے ادبیات ، غالب سے غالبیات ، اقبال سے اقبالیات ، میر سے میریات وغیرہ ۔ اسی طر ح سے شعر سے شعریات ہے جو بالکل درست ہے لیکن شعریات کے ساتھ ناول، افسانہ ، داستان ، خاکہ ، انشائیہ اور سفر نا مہ جیسے نثر ی اصناف کو سابقہ اور لاحقہ کے طور پر لانا ویسے ہی ہے جیسے دلی کا تاج محل اور اگرہ کا ہمایوں مقبرہ ۔

سعید احمد اکبرآبادی نے تر قی پسند ادب میں محدود منشو پر زیادہ توجہ دینے کی سلسلے میں ردعمل کا اظہار کر تے ہوئے فکر سے بھر پور گفتگوکی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ زندگی کے اہم مسائل کو بھوک ، غر یبی ، سماجی پستی اور سیاسی غلامی تک ہی محدود نہیں کر نا چاہیے ‘‘ کیونکہ زندگی تو خود ہی بے شمار پریشانیوں کا ایک وسیع و عرض میدا ن ہے جس میں محض مذکورہ پریشانیوں کا ذکر مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ راحت و مسرت ، غم و خوشی ، رنج و الم ناکامی و مایوسی سے ہر وقت بر سر پیکار رہتی ہے ۔ جبکہ یہ عالمی مسائل ہوتے ہیں ، تو جب ادب عالمی ہوتا ہے تو ان کے مشمولات کو بھی ہمہ گیر اور عالمی ہونا چاہیے کس خاص زمرے کی نمائندگی کے لیے لکھنا محض زبر دستی ادب کو اس کی آمد کی صفت سے نکال کر آور د کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا ۔

ادب اصل میں ہوتا ہے کیا ؟ اس سوال کا جواب تو جدیدیت سے پہلے تک ہر ایک کی زبان میں یہی ہوتا تھا کہ ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے ۔ لہذا جو رنگ زندگی کاہوگا اس کا عکس ادب میں نظر آئے گا ۔اس حوالے سے اگر لفظیات و شعریات کی بات کی جائے تو مولانا کا خیال یو ں عیاں ہوتا ہے کہ:

’’مرزا مظہر جان ِ جاناں اور خواجہ میر درد اور حضرت امیر مینائی ایسے مقدس اور ثقہ حضرات بھی شاعر ی کے میدان میں قدم رنجہ فرماتے ہیں تو ان کو بھی عشق حقیقی کے واردات قلب اور عالمِ لاہوت کے سر ہانے ملکوتی کو بیان کر نے کے لیے وہی اس زمانے کی عام شاعرانہ بول چال کے مطابق گل و بلبل ر خسار و کاکل ، شمع و پر وانہ شیخ و بر ہمن اور رقیب و دشمن ایسی چیزوں کی آڑ لینی پڑتی ہے‘‘ یعنی مندرجہ بالا حضرات جب مروجہ محاورات و اسالیب زبان سے روگر دانی نہیں کر پاتے ہیں پھر تر قی پسند افرا د دقیانوسیت خیال کر کے ملا و بر ہمن کے سوا دیگر استعارات و تلمیحات جن کا تعلق مذہبی اساطیر سے ہوتا ہے ان سے صرف نظر کر نا ان کے نزدیک شاعری کی روایت میں ایک قسم کی خیانت ہے ۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکر آیا کہ ان کا تعلق اس گروہ سے تھا جودوسری جنگ عظیم کے بعد مشرق میں ہوئی تبدیلیوں اور مغربی تہذیبی کی بالا دستی سے خوش تھے تو وہ جدید تہذیب کو خود میں داخل کیے بغیر اسلامی روایت پر حامل سرمایہ کی شعری روایت کے انحراف پر اتر آئے تھے تو اس رد عمل میں یہ چیز تو ہونا لازمی تھا لیکن فیض و مجروح ومخدوم محی الدین جیسے شاعرو ں کی غزلوں میں روایت کی پاسداری پائی جاتی ہے ۔ 

 ادب کاکوئی بھی رجحان خالی از علت کبھی نہیںہوا ہے ہمیشہ اس میں کچھ ایسے متحر ک عناصر شاعر و تخلیق کار کو نظر آئے کہ وہ اس متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد متاثرہ ممالک کے جو حالات ہو گئے تھے اس وقت وہی بادہ و صراحی و حسن کی شاعری کیسے انسانی نفس کو گوارہ ہوسکتا تھا اس لیے جدید موضوعات و مسائل جس کو سننے کے لیے عوام و خواص مشتاق تھے اس جانب تیز ی جانا پڑا اس کا احسا س سعید احمد اکبرآبادی کو بھی تھا وہ لکھتے ہیں ’’ پس آج کل ہماری شاعری او ر ادب میں جو رجحانا پائے جارہے ہیں وہ خالی از علت نہیں ہیں بلکہ نتیجہ ہیںان سیاسی ، تمدنی اور معاشرتی عوامل کاجو گذشتہ جنگ عظیم کے بعد سے ہندو ستان میں کارفرما رہے ہیں ۔‘‘ مو لانا کے یہاںعلت کا بیا ن اس طرح سامنے آتا ہے لیکن ساتھ ہی چند سطروں کے بعد اس کا معلول کس طور پر سامنے آچکا ہے اس کو بھی رقم کر تے ہیں کہ ’’ نتیجتاً مذہب اور پرانی روایات سے بیزاری،آزادی و طن کانام لیتے لیتے ہر قسم کی اخلاقی اور سماجی قیدو بند سے مکمل طورپر آزاد ہونے کا جذبہ(ہے )…جو ہمیں جدید ادب میں نظر آتا ہے ۔‘‘ مذکوہ بالا علت کا اس قسم کا معلول ان کے پورے مقالے (تر قی پسند شاعری ،برہان ،نئی دہلی ، مارچ۱۹۴۴) میں جگہ جگہ نظرآتا ہے ۔ 

آگے بڑھتے ہیں اس واقعہ کی جانب جو دلچسپ مناظر ہ کی شکل میں ترقی پسندو ں اور غیر ترقی پسندوںکے مابین واقع دہلی کے ٹاؤن ہال میں واقع ہوا ۔ اس مناظرہ کی تفصیلی روداد سجاد ظہیر نے اپنی کتاب روشنائی میں لکھی ہے ۔ واقعہ ۱۹۴۶ کا ہے جب سجاد ظہیر دہلی میں ہی تھے ان کے دوست مقیم الدین فاروقی اور قاضی احمد صاحب نے مخالفین تر قی پسند کو مناظرہ کا چیلینخ دیا جس کو قبول کر لیا گیا ۔ مخالفین کی طرف سے خواجہ محمد شفیع اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی متعین ہوئے اور موافقین کی جانب سے سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض ، صدر مناظرہ سر رضا علی قرار پائے ۔جس میں دونوں ترقی پسندی دہلی کے نہ تھے ، فیض لاہو ر سے اور سجاد ظہیر لکھنؤ سے تھے اور دنوں نے دہلی والوں کے خلاف دہلی میں ہی محاذقائم کیے ہوئے تھے ۔ جلسہ ( مناظرہ ) کی کارروائی سر رضا علی کی تقریر سے شروع ہوتا ہے ۔جسے سن کر سجاد ظہیر محسوس کر تے ہیں کہ موصوف ’’ جدید اردو ادب کے مطالعے میں حالی ، اکبر اور اقبال سے آگے نہیں بڑھے ہیں ۔ انہوں نے صدر کی حیثیت سے غیر جانبد ار رہنے کے بجائے مزاحیہ انداز میں ترقی پسند ادب پر چوٹیں کیں ۔ پھر مخالفین کی جانب سے تقریر ہوتی ہے خواجہ محمد شفیع کی جس میں وہ ترقی پسندو ں پر کافی چوٹیں کر تے ہیں ، فحاشی کا الزام لگاتے ہیں جس سے سجاد ظہیر کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ  دہلی کی ٹیٹھ اور پیار بھرے لہجے میں گالیا ں دے رہے ہیں ۔ اس کے بعد میرا جی اور ن م راشد کی نظموں کے چند ٹکڑ ے پڑھے جس پر انہوں نے قہقہ بٹورا ۔ان کے بعد فیض احمد تقریر کے لیے آئے اور انہوں نے بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ ’’ ترقی پسند ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ سماج میں تبدیلی اورارتقا کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی تبدیلی اور ترقی ہوتی ہے۔ اسے روکنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔‘‘ فیض کی یہ تقریر خاموشی سے سنی گئی نہ قہقہے لگے نہ تالیاں بجیں ۔ا ن کے بعد مولانا سعید احمد اکبرآبادی تقریر کرنے آتے ہیں اور وہ بھی خواجہ شفیع کی ہی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ سجاد ظہیر لکھتے ہیں ’’ قاضی سعید صاحب سے مجھے توقع تھی کہ ان کی تقریر ان کے رتبہ کے مطابق ٹھوس ا ور عالمانہ ہوگی اور اس سے کچھ سیکھ سکیںگے ۔ لیکن بد قسمتی سے انہوں نے دینی اور مذہبی نقطہ نظر سے ترقی پسند تحریک پر اعتراضات کیے ۔ الحاد ، لادینی ، بد اخلاقی پھیلانا ، ان کے نزدیک ترقی پسندوں کے یہی مقاصد تھے ۔‘‘ واضح رہے کہ یہ وہیں باتیں ہیں جن کا ذکر اوپر علت ومعلول کے طور پر آچکا ہے ۔ان کی تقریر کے بعد سجاد ظہیر کی تقریر ہوئی جہاں انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہ ہمارے مخالفین نے جو بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ہماری تحریک موافق تو دور بلکہ سخت مخالف ہیں اور ہماری تحریک آپ عوام کی تحریک ہے جس میں ہمیں ان طاقتوں اور اداروں سے لڑنا اور ان کی مخالفت کرنا ہے جو آپ عوام کے دشمن ہیں ۔ رہی بات فحش گوئی کی تو وہ سعدی، حافظ ، میر و سودا کے سرمایہ کا جائزہ لیتے وقت بھی محسوس ہوسکتا ہے ۔ ’’ پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ ‘‘ میر کے اس مصرع سے کیا میر فخش گوہوگئے ؟ ۔ ہمیں ترقی پسند ی کی مثالیں ان کی بہترین چیز لے کر پیش کرنا چاہیے ۔ خیر جلسہ صدر کی مختصر تقریر سے ختم ہوا اس کے بعد باضابطہ تعارف ہوا جس میں مخالفین نے کہا کہ ہم نے بہت سی باتیں از راہ مناظرہ کہہ دی تھی اس کو دل پر نہ لیا جائے ۔خیر…اس واقعہ کے چند دنوں کے بعد سعید احمد اکبرآبادی سے سجاد ظہیر کی ملاقات ندوۃ المصنفین سے ہوتی ہے جس میں ملاقات کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مناظرہ کے مقرر سے بالکل مختلف پایا ’’ انہیں ہماری تحریک سے کوئی اصولی اختلاف نہ تھا۔‘‘ یہ بات سعید احمد اکبرآبادی کی تحریروں سے بھی عیا ں ہو تی ہے کیونکہ ان کے اعتراضات میں اکثر مقامات پر ن م راشد اور میراجی ہی آتے ہیں او ر شاعری کے جدید فارمس سے وہ نالا ں نظر آتے ہیں جسے مہمل پر ہی محمول کرتے ہیں ۔


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...