Thursday 25 March 2021

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

 

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

امیر حمزہ

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے ۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے ۔اس سے پہلے اردو رباعی ان الفاظ و تراکیب ، حسن و جمال اور تبسم سے محروم تھی ۔فراقؔ نے اپنی رباعیوں میں ہندوستانی عورتو ں کے حسن وادا کے مختلف روپ پیش کیا ہے ۔

فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال کی جزئیات نگاری کی بھرپور عکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کے مختلف حصوں اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں ۔جیسے پنگھٹ پر گگریوں ک کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں کا کھیتوں میں دوڑنا ،ساون میں جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں کہی ہیں جن میں ’’روپ ‘‘ میں تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں اڑسٹھ(۶۸)، گلبانگ میں مادر ہند کے تحت اٹھانوے (۹۸) فکر یات کے عنوان کے تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں ایک رباعی موجود ہے ۔یہ تمام رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پر لڑکیوںکی گگر یاں ، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا ، ساجن کے جوگ میں مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ ۔ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کا تخیل ، ان کا جمالیاتی شعور اور ان کے طر ز ترسیل کا انوکھا رنگ نے جان ڈال دی ہے ۔

پنگھٹ پر گگریاں چھلکنے کا یہ رنگ

پانی ہچکولے لے کے بھر تا ہے تر نگ

کاندھوں پہ سر وں پہ دو نوں باہوں میں کلس

مد انکھڑ یوں میں سینوں میں بھر پور رنگ


ہودی پہ کھڑی کھلا رہی ہے چارہ

جوبن رس انکھڑیوں سے چھلکا چھلکا

کومل ہاتھوں سے ہے تھپکتی گردن

کس پیار سے گائے دیکھتی ہے مکھڑا


وہ گائے کا دوہنا، سہانی صبحیں

گر تی ہیں بھر ے تھن سے چمکتی دھاریں

گھٹنوں پہ کلس کا وہ کھنکنا کم کم

یا چٹکیوں سے پھوٹ رہیں ہیں کر نیں

 ہندو ستانی کلچر و ثقافت جہاں تک انکی شاعر ی میں ہے اسی متعلق فراقؔ’’روپ ‘‘ میں چند باتیں کے زیر عنوان رقم طراز ہیں :

’’جہاں تک ایسی شاعر ی کا تعلق ہے جسے ہم صحیح معنی میں ہندو ستا نی کہہ سکتے ہیں جس میں یہاں کی فضا کی گر می ہو، ہندوستان کی مٹی کی خوشبوہو، یہاں کی ہواؤں کی لچک ہو ، یہاں کے آکا ش سورج اور چاند ستاروں کا آئنہ بنے اور ان کو آئینہ دکھائے ۔یہ صفات اردو شاعر میں ابھی کم آئی ہیں ۔شاعر ی میں کوشش خواہ غزل ہو یا نظم یا رباعی محض اضطر اری چیزیں نہیں تھیں ۔ان کی کوششوں میں بھی ہندو ستان اور ہندو ستان کے کلچر کی تھر تھر اتی ہوئی زندہ رگوں کو چھو لینا چاہتا ہوں ۔،،

یہ فراق کا ایک ایسا تصور ہے جس سے فراق کی رباعیوں کو ایک قابل قدر تہذیبی حسیت عطا ہوئی ۔جس نے انہیں ہندوستانی تمدن ، گنگا جمنی تہذیب اور ہندو ستانی عورت کے جمالیاتی مظاہر کا تر جمان بنا دیا۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشرت کا آئینہ صاف نظر آتا ہے ۔ ان کی رباعیوں میں عورت کہیں محبوبہ ، کہیں شوخ لڑکی ، ، کہیں گر ہستن اور کہیں محض رفیقئہ حیات کی حیثیت سے ابھر تی ہے ۔

ڈھلکا آنچل دمکتے سینے پہ الگ

پلکوں کی اوٹ مسکراہٹ کی جھلک

وہ ماتھے کی کہکشاں و موتی بھر ی مانگ

وہ گود میں چاند سا ہمکتا بالک


آنگن میں بہاگنی نہا کے بیٹھی

رامائن زانو پر رکھی ہے کھلی

جاڑے کی سہانی دھوپ کھلے گیسو

پر چھائیں چمکتے صفحے پر پڑتی ہوئی

فراق ؔ کی رباعیوں کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی عناصر جگہ جگہ نظر آتے ہیں جن سے قاری ان کی رباعیوں کے اسیر نظر آتے ہیں اورفراقؔ اردو کے وہ منفر د شاعر ہیں جنہوں نے اپنی رباعیوں کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں سے تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی رباعیوں میں حسن کومختلف زاویوں سے دیکھا اور پیش کیا ہے ، اس کی اداؤں کی دل نشینی کو محسوس کیا ہے ۔ان کی رباعیوں میں ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے ہوئے بادلوں کے سے گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں جنہیں پہلی بار رباعی کی لڑی میں پرویا گیا ہے ۔فراقؔ رباعی میں جتنا کھل کر پیش آئے ہیں وہ اتنا غزلوں اور نظموں میں بھی نہیں آئے ہیں۔ حسن کی تصویروں کو پیش کرنے میں فراق فراخدلی سے کام لیے ہیں ۔ان کی رباعیوں میں استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے ۔فراق ؔ اپنے ان ذخیروں کے بدولت جب کسی چیز کی تعر یف کر تے ہیں تو مختلف پیر ائے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔جیساکہ گیسو کی تعریف ۔

باد ل کوئی آہستہ گرجتا ہے کہ زلف

برسات میں قصر شام سجتا ہے کہ زلف

منڈلاتی گھٹامیں جیسے ہاتھی جھومیں

کجلی بن میں ستار بجتا ہے کہ زلف


نکھر ی ہوئی رات جگمگاتی ہوئی زلف

تقدیر کے پیچ و خم دکھاتی ہوئی زلف

مدھم لے میں چھڑا ہے ساز ہستی

جیون سنگیت گنگناتی ہوئی زلف


راتیں برکھا کی تھر تھر اتی ہیں کہ زلف

تقدیریں پیح و تا ب کھاتی ہیں کہ زلف

پرچھائیاں کانپ کانپ جائیں جیسے

متوالی گھٹائیں گنگناتی ہیںکہ زلف


سنبل کے تروتازہ چمن ہیں زلفیں

بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں

خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں

ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں

محبوبہ کی آنکھوں کی تعریف مختلف جہتوں سے اور مختلف اوقات کے آنکھوں کی کیفیت کو مختلف پیر ائے میں بیان کر تے ہیں ۔ان کے محبوبہ کی آنکھیں تاروں کو لوریاں سناتی ہیں ،اس کی نشیلی آنکھیں راتوں کی جوانیاں ہیں، ان کے یہاں جب محبوبہ کی آنکھیں خلوت ناز میں جھکتی ہیں تو کامنی کے پھول برس جاتے ہیں ، محبوبہ کی رسیلی آنکھوں کی چمن دو شیزہ سحر معلوم ہوتی ہے ۔

چلمن میں مژہ کی گنگناتی آنکھیں

چھوتی کی دلہن سی کچھ لجاتی آنکھیں

جوبن رس کی سدھا لٹاتی ہر آن

پلکوں کی اوٹ مسکراتی آنکھیں


راتوں کی جوانیاں نشیلی آنکھیں

خنجر کی روانیاں کٹیلی آنکھیں

سنگیت کی سر حدپہ کھلنے والے

پھولوں کی کہانیاں رسیلی آنکھیں


دوشیزہ سحر رسیلی آنکھوں کی چمک

آئینہ صبح میں مناظر کی جھلک

جیسے پڑنے کو آئے آبگینوں پر چوٹ

شفاف فضا میں وہ نگاہوں کی کھنک

فراقؔ اپنی رباعیوں میں محبوب کا سراپا پیش کر تے ہوئے اس کی اداؤں ،حر کات و سکنات کو بھی بڑی دلکش انداز میں پیش کر تے ہیں ۔اس پیش کش میں محبوب کے نہ صر ف دلکش خدو خال اور اس کی شخصیت نمایا ں ہوتی ہے بلکہ محبوب کے حر کات و سکنات اس کے اٹھنے بیٹھنے سو نے جاگنے چلنے پھر نے کی بھی متحر ک تصویریں پیش کر تے ہیں ۔ان متحر ک تصویروں کی پیش کش میں خوبصورت سمعی وبصر ی پیکر وں کی مدد سے بڑی چابکد ستی سے اس میں رنگ آمیزی کر تے ہیں ۔اس وجہ سے ان کی رباعیوں میں محبوب اپنی ساری جلوہ سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر تا ہے او ر قاری کے ذہن میں ایک دیرپانقش چھوڑ دیتا ہے ۔

اٹھنے میں ہمالہ کی گھٹاؤں کا ابھار

انداز نششت چڑھتی ندی کااتار

رفتار میں مدھ بھر ی ہواؤں کی سنک

گفتار میں شبنم کی رسیلی جھنکار


بالوں میں خنک سیاہ راتیں ڈھلیں

تاروں کی شفق کی اوٹ شمعیں جلیں

تاروں کی سرکتی چھاؤں میں بستر سے

ایک جان بہار اٹھی ہے آنکھیں ملتیں


یہ نقرئی آواز یہ ترنم یہ خواب

تاروں میں پڑرہی ہے جیسے مضراب

لہجے میں یہ کھنک یہ رس یہ جھنکار

یا چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہہ آب

فراقؔکی زبان میں ہمیں ہندی اور سنکر ت الفاظ بکثر ت ملتے ہیں ۔اصل میں ہم اردو شاعر ی میں فارسی الفاظ سننے کے عادی ہوچکے ہیں ایسے میں ہمیںجب ہندی کے الفاظ کچھ زیادہ سماعت سے ٹکر اتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً یہ ردعمل شر وع ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ہندی اور سنسکر ت سے زیادہ راہ روی اختیار کی ہے ۔حالانکہ کچھ ایسی خاص بات نہیں ہے ان کے یہاں جہاں ایک طر ف لوچ ،دھج ، نیر ، سرگم، روپ ، دیوی، امر ت، کونپل ، کنچن ، جھرمٹ ، جیون ، مکھڑا ، سہاگ ، سنگیت ،چنچل اور درپن جیسے شیر یں اور سر یلے الفاظ ملتے ہیں تو وہیں ہمیں آئینہ نیلگوں ، گلنا ر ، شفق ، نقر ئی آواز ، رودجمن، شام ہستی، زندان حیات ، دوشیزہ ٔ سحر ، آئینہ صبح ،قوس قزح ، پیکر نازنین اورجان بہار جیسے خوبصورت فارسی تراکیب بھی جا بجا ان کی رباعیوں میں نگوں کے طرح جڑے ہوئے ہیں ۔

فراق ؔ کی رباعیوںکو جنسیت زدہ رباعی بھی کہا گیا ہے ۔حالانکہ انکے انہیں رباعیوں کو اقبال ماہر اس حیثیت سے تعبیر کر تے ہیں ۔

’’روپ ‘‘ کی رباعیوں میں فراق ؔنے ہزار ہا سال پرانی لیکن سدا سہاگ ہندو وجدان اور ہندو ثقافت کی نشاۃثانیہ کا ثبوت دیا ہے ۔ اگر ہم تمام اردو شاعر ی میں ہندو تصور حسن کو تلاش کر نا چاہیں تو اس تصور کے حقیقی کارنامے اور نمونے ہمیں رباعیوں میں ملیں گے ‘‘

اصل میں ان کی رباعیاں حسن و فطرت، اور انسانی حسن کی متنوع کیفیات اور رنگا رنگ تجر بات کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں حسن و عشق کی مختلف کیفیات اور جنسی خوبصورتی کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے اوروہ رباعیاں جن میں جنسی میلان اور جنسی تجر بات کی عکاسی کی گئی ہے اس میں بہت بے باکی نظر آتی ہے ۔بالہوسی اس میں ہے یا نہیں ان کی اس تحر یر سے سمجھی جاسکتی ہے جس کو سیدہ جعفر نے محمد طفیل کو فراق کے ذریعے لکھے گئے ایک خط کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

’’جب جنسی جذبات کسی شخص کی پور ی شخصیت میں حلول کر جائیں اور اس کے مستقل کر دار کا جز و بن جائیں اورجب جنسی خواہش کے مقابلے میں احساس جمال زیادہ بڑھ جائے اور بہت زیادہ گہرا ہوجائے تب جنسیت عشق کا مر تبہ کر لیتی ہے ۔‘‘

فراق ؔکی وہ رباعیاں جن میں جذبہ عشق کی مصوری توازن میں رہ کر کی گئی ہے وہ رباعیاں اردو شعر و ادب میں قیمتی اضافہ معلوم ہوتی ہیں اور اردو رباعی کے صنف میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے راہ میں گامزن نظر آتی ہیں ۔ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد ہر ادب کے قاری کے ذہیں میں یہ احساس ابھر تا ہے کہ وہ اردو رباعی جو فارسی کے راہ پر گامز ن چلی آرہی تھی اس کو فراقؔنے اپنے فکر اور گر دو پیش کے تہذیبی رجحانات سے مزین کیا ہے

1 comment:

  1. Bht shukriya sir aapka asi adbi o tanqeedi mozuat ko talib e ilm klye faraham kia h ... M ek civil service aspirant hum ar mujhe Urdu optional klye aapki mahyya ki hui notes se faizyab hui hun... Allah aap jse nek niyat rakhne wale logon k maqasid ko pura kre.

    ReplyDelete

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...