Saturday 20 March 2021

تحریک خلافت کے بانی مولانا عبد الباری فرنگی محلی

  

تحریک خلافت کے بانی مولانا عبد الباری فرنگی محلی

بقلم  :  امیر حمزہ

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ، دہلی یونی ورسٹی

اٹھارہویں صدی میں یوروپی اقوام کی بڑھتی نقل و حر کت نے پوری دنیا میں ایک سیاسی اور سماجی تبدیلی کی آہٹ دے دی تھی ۔ معرکۂ شر و باطل عالمی سطح پر شروع ہوچکا تھا۔ مسلم حکومتوں کے شعور ی زوال کے بعد انگر یزوں کی برسوں کی محنت تھی کہ مسلمانوں کی مر کزیت کو ختم کیا جائے، ان کی مضبوط حکومتوں کو پارہ پارہ کیا جائے، اس کے لیے چھوٹی چھوٹی طاقتوں کو مر کز کے مقابل میں لایا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھارہویں صدی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مصیبت کا پہاڑ بن کر سامنے آئی ۔ انگر یزعرصہ درا ز سے دو امور کے لیے بہت ہی زیادہ محنت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی مر کزیت کو ختم کیا جائے جس کے نتیجہ میں عظیم مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوا اور دوسرا یہ کہ جزیرۃ العرب کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف کھڑا کیا جائے جس سے ایک عظیم سلطنت جو یوروپ ، ایشیا ، افریقہ اور بحر ابیض کے خطوں پر مشتمل تھی اس کا شیراز ہ بھی بیسویں صدی کے آتے آتے بکھر جائے ۔اس مقصد کو حاصل کر نے کے لیے ایک عرصہ سے انگریز کیمیاوی طریقوں سے اپنے چمڑے گندمی رنگ میں رنگ کر عرب کے مدرسوں اور مکانوں میں رہتے تھے تاکہ عربوں کی کمزوریوں کو معلوم کر سکیں اور تر کوں کے خلاف مکمل عرب کو اکسا سکیں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ دنیا کے مسلمانوں کو سلطنت کے خاتمے کا افسوس کم بلکہ مسلمانوں کی مرکزیت کے خاتمے کا افسوس زیادہ ہوا ۔انگر یز جو عرب و عجم کے دیگر ممالک پر قابض تھے انہوں نے ملکی غلامی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ذہنی بیماری میں مبتلا کرنے کا کام تر کی کا شیرازہ بکھیر کر کیا ۔ جس سے تمام کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ مقامات مقدسہ کا کیا ہوگا ۔ اس چیز کو مولانا عبد الباری فرنگی محلی پہلے ہی بھانپ چکے تھے اور تحفظ خلافت کی تحریک اپنے تئیں شروع کر چکے تھے ۔

خلافت کمیٹی کے وجود میں آنے سے پہلے سے ہی ہند کے مسلمان تر کی کو لے کر بہت ہی فکر مند تھے ۔اپنے طور پر چندہ جمع کر کے تر کی کی جس سطح پر بھی امداد ممکن تھی کر رہے تھے ۔جنگ بلقان کے بعد بے چینی اور بڑھ گئی تھی اس وقت شیخ الہند کے کر دار کو سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کیوں کہ حضرت چند طلبہ کے ساتھ تعلیم کو وقتی طور پر تر ک کر کے نکل گئے تھے ۔اس وقت لاکھوں کی امداد تر کی کو دی گئی جس کا حساب اخبار ’پیسہ ‘ لاہور میں چھپتا تھا ۔یہ سلسلہ چلتا رہا ادھر دوسری جانب مولانا قیام الدین فرنگی محلی نے انجمن خدام کعبہ قائم کرکے غور و فکر کے کئی دریچوں کو وا کر دیا تھا۔مذہبی وسیاسی طور پر مسلمانوں کی عالمی صورت حال پر گفتگو شروع ہوگئی تھی۔ ان تمام پہلو ؤںپر مذہبی پہلو سب سے زیادہ غالب تھا۔ اول بحث یہ تھی کہ اسلام میں مقامات مقدسہ کی کیااہمیت ہے؟ پھر بہت زور و شور سے یہ بات ہندوستان کی فضا میں گونجنے لگی کہ مسلمانوں کے لیے خلیفہ ہونا کتنا ضرور ی ہے ۔اسی آخر الذکر شرعی مسئلہ کو تحر یک خلافت کی اساس بنایا گیا جس کو ہندو ومسلمانوں نے ایک ہی اسٹیج سے بہت ہی زورو شور سے بلند کیا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم سے انگر یز کے قدم اکھڑنے لگے ۔

خلافت کی تحریک جب شروع ہوئی اس وقت مسلمانوں میں دینی ، مذہبی اور سیاسی شعور رکھنے والے چیدہ چیدہ علما موجود تھے ۔جیسے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ، امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد ، مفتی کفایت اللہ دہلوی ، مولا نا ابو الوفاء ثناء اللہ امر تسری ، مولانا سجاد بہاری، مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی ، مولانا سلیمان ندوی، مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی، مولانا عبدالماجد بدایونی ، مو لانا سید محمد فاخر الہٰ آبادی ، مولانا احمد سعید ،مولانا داؤد غنوی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی، مشیر حسین قدوائی، ظفر الملک علوی ، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی او رمولانا ظفر علی خاں وغیرہ تھے جن میں سے کچھ کا ذکر اب بھی گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے اورکچھ صرف تاریخ کی کتابوں اور وقت کے اخبارات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ۔اس مضمون میں ہم تاریخ ِ آزادی ہند کا اہم موڑ تحریک خلافت اور اس کے اہم رہنما مولا نا قیام الدین عبدالباری فرنگی محلی پر گفتگو کر یں گے ۔

ہندو ستان غلامی کی زنجیر میں جکڑچکا تھا، انسانی اقدار بدل رہے تھے ،نئی تہذیب داخل ہور ہی تھی قدیم مشرقی تہذیب کی تشہیر انگریز غیر مہذب کے طور پر کر رہے تھے ۔تعلیم کا معیار بدل چکا تھا ،تعلیمی مراکز کے روپ بدل رہے تھے، علوم کا تعلق اب علم و معرفت سے ہٹ کر فن و حرفت کی جانب مائل ہوچکا تھا، جو خاندان صدیوں سے علوم پر مہارت رکھ رہا تھا وہ اب زوال پذیر ہور ہا تھا کیونکہ وقت ایسا آن پڑا تھا کہ اب علماء کتابی دنیا سے نکل کر ملی و سیاسی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے ۔ ایسے وقت میں ہندوستان کی پیشانی پر فرنگی محل کا خاندان اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے آفتاب و ماہتاب کی مانند چمک رہا تھا جو مسلمانان ہندکی مذہبی و تہذیبی اقدار کا پیشوااور رشدو ہدایت کا مرکز تھا ، جہاں سے ملا نظام الدین اور بحر العلوم مولانا عبدالعلی جیسے متبحر عالم پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی کے صر ف بتیس بر س بسر کیے اور ہزاروں شاگر چھوڑگئے ، درسی و غیر درسی دسیوں کتابوں میں تاقیامت اپنا علمی حاشیہ رقم کر گئے ۔اسی فرنگی محل میں ایک ایسا چراغ رو شن ہوا جس نے آزادی ہند کی تاریخ میں مختلف تحریکات کو جنم دیا جن سے آگے چل کر ہند کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ، ساتھ ہی علم کاسمندر ، اخلاق ِ عالیہ اور فاضلہ سے مزین ، فکرو تدبر و بصیر ت سے معمور وہ چرا غ مولانا عبدالباری فرنگی محلی تھے۔ ہندوستانی سیاست اور آزادی کی تحریک میں ان کی قدرو قیمت کو جاننے کے لیے بہت سے واقعات آپ کی نظر سے گزریں گے لیکن انگر یزوں کے پاس جب خلافت تحریک کی نمائندگی کے لیے  مولانا سید سلیمان ندوی جاتے ہیں تو وہاں وہ کہتے ہیں کہ ’’ میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں ۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی صاحب نے جو لکھنؤکے فرنگی محل کے مشہور خاندان سے ہیں مجھ کو خاص طور پر اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا ہے تا کہ میں بادشاہ سلامت کی حکومت پر واضح کر دوں کہ ہم لوگوں کے لیے یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خالص ایک مذہبی معاملہ ہے ‘‘ ۔ اس اقتباس میں اس وقت انہوں نے اپنے اس قول سے یہ ثابت کرنا چاہا کہ اس خالص مذہبی مسئلہ کے لیے مذہبی معاملات میں کمال رکھنے والے گھرانہ فرنگی محل کے ایک فرد کی نمائندگی کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ ان کی باریک بنی اورد ور اندیشی سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس وقت ان کی حیثیت صدر العلماء کی تھی جو کئی مقامات پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔

فر نگی محل اس زمانہ میںعلمی مرکز سے زیادہ اسلامی تحریکوں کا مرکز تھا ۔انیسویں صدی میں دنیا میں ملکوں کے نقشے جس طرح تبدیل ہور ہے تھے اور اتحادو اتفاق کا شیرازہ اتحادی وغیر اتحادی فوجیوں کے ذریعہ بکھر رہا تھا اس کے جو نتائج سامنے آئے اس کو مولانا عبدالباری فرنگی محلی پہلے ہی بھانپ چکے تھے جس سے بر سر پیکار ہونے کے لیے وہ عظیم منصوبہ بندی کے ساتھ ’’ انجمن خدام کعبہ ‘‘ کے بینر تلے علماء کو جمع کر تے ہیں ۔اس تحریک کا قیام دسمبر ۱۹۱۲ ء میں عمل میں آیا جس کے خادم الخدام مولانا منتخب ہوئے اور مولا ناشوکت علی، مسٹر مشیر حسین قدوائی معتمد منتخب ہوئے ساتھ ہی کئی علماء و زعماء ابتدائی ممبر بنے ۔اس تحریک کی ہندو ستان کی تاریخ میں اہمیت بایں وجہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پھرسے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی طاقت ملی اور کئی جلسے اور میٹنگیں منعقد ہونے لگیں جس سے بعد میں خلافت کمیٹی کے قیام میں آسانیاں ہوئیں بلکہ اگر یوں کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ اس تحر یک کو خلافت تحریک کی صورت میں وسعت حاصل ہوئی ۔

پہلی عالمی جنگ عظیم کے درمیان ہندوستان و دنیا میں بہت کچھ تبدیلیاں ہورہی تھیں، ہندوستان میں علماء کا گروہ اپنے طور پر سر گرم عمل تھا جہاں شر یعت محمدیہ کے مطابق حکومت کی کوئی نہ کوئی سبیل تلاش کی جارہی تھی جس کی مثال مولانا عبیداللہ سندھی کا افغانستان میں عارضی حکومت کو دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے علماء کا ایک گروہ پوشیدہ طور پر اپنی کارکردگی میں لگا رہا جس کے لیے جماعت مخلصین کا بھی قیام عمل میں آیا ۔ ادھر عالمی طور پر ۱۹۱۴ ء میں ترکی عالمی جنگ میں شریک ہوا تو خلیفۃ المسلمین نے اعلان جہاد کر کے تمام دنیا کے مسلمانوں کو شرکت کے لیے حکم دیا جو گویا ترکی کی موت کے لیے خود ہی ایک فتویٰ ثابت ہوا۔ پھر چار سال تک جنگ میں تپنے کے بعد ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۱۸ء کو التوائے جنگ کے صلح نامہ پر دستخط ہوا ۔ ادھر ہندوستان میں تحریک ریشمی رومال افغانستان کو اس کے لیے میدان عمل بنانا ،اسی درمیان بر طانیہ کا بار بار ہندکے مسلمانوں کو دلاسہ دینا کہ ہمارا منشابالکل بھی یہ نہیں ہے کہ ہم مذہبی و مقدس مقامات کے ساتھ کچھ چھیڑچھاڑ کریں ( یہ بات تو صرف عوامکے لیے تھی ، جب اصل مقصد توخلافت اور مر کزیت کو ختم کرنا تھا ) مو لانا محمد علی جوہر کی نظر بندی کے بعد مولا نا کا مزید عالمی طور پر شہرت کی بلندی اور امت کے سپاہی کے طور پر مشہور ہونا ، مولانا ابوالکلام آزاد کاایک نیا چمکتا ہوا ستارہ بن کر ابھر نا ، اس کے بعد ہندو ستان میں رولٹ ایکٹ بل کا پاس ہوجانا جیسے واقعات رونما ہورہے تھے جس سے ہندوستانیوں کی جدوجہد میں اچھال آگیا۔۱۸؍ جنوری ۱۹۲۰ ء کو رولٹ بل شائع ہوا ، اس کا شائع ہوناتھا کہ تمام ہندوستان میں آگ لگ گئی ، سوائے چند طرفداران ِ حکومت کے، پوری قوم نے اسکے خلاف آواز بلندکی ، اس وقت کی تمام سیاسی جماعتیں اورلیڈران ایک رائے ہوگئے ۔ اس بل کا منشاتھا کہ ہندو ستانیوں کو ہرقسم کی آزادی سے محروم رکھا جائے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے پاس مذہبی و سیاسی اسٹیج تھا ہی انہیں انگریزوںکے خلاف آواز اٹھا نے کا مزید موقع مل گیا اور اس کے بعد ہندوبھائی بھی ساتھ میں مل گئے ، پھر ہندو مسلم اتحاد کا دل افروز نظارہ روز بروز ہونے لگا جس کے نتیجے میںہندوستا ن صدائے اتحاد وانگریز دشمنی سے کو ہ آتش فشاں بن گیا، مسلمان سروں پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے اور علماء سیاسی مجلسوں میں اپنی بھر پورنمائندگی پیش کر نے لگے ۔ جگہ جگہ انگریزوں کے خلاف علماء کے جلسے منعقد ہونے لگے ،ہندو ستان کے کم و بیش تمام شہر اس سیاسی گھمسان کی چپیٹ میںآگئے کہیںزیادہ تو کہیںکم ، مغربی بنگال اورشہر کلکتہ اس معاملے میں مر کزی حیثیت کا حامل رہا کیونکہ ابھی انگریزی دارالخلافہ کے دہلی منتقل ہوئے کچھ ہی برس ہوئے تھے ، وہاں علمائے بنگال کا دوسرا سالانہ جلسہ جنوری ۱۹۱۹ء میں مولانا آزاد سبحانی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں دیگر علماء کے ساتھ مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی بھی خصوصی شرکت ہوئی جن کی حیثیت ہندوستان میں صدرالعلماء کی تھی ۔ اس برس ہندوستان کی تاریخ میں یکم مارچ ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ کا دلخراش سانحہ پیش آتا ہے جو مزیدہندوستان کے آزادی کے متوالوں میں انگریزوں کے خلافت نفر ت اور جذبۂ حریت کو بھر دیتا ہے ۔ایسے میں ہندوستان کی سیاست میں گاندھی جی کا طلوع ہوتا ہے اور ہندومسلم اتحاد کی گاڑی انگریزوں کے خلاف چل نکلتی ہے جس کا سب سے زیاد اثر خلافت کے جلسوں میں نظرآیا ۔

اس زمانہ کی بہت سی باتیں تاریخ کے صفحات سے غائب ہوچکی ہیں، اخبارات کے ذخائر اب نہیں رہے اور نہ ہی تنظیموں کی میٹنگوں کی کاروائی کی کوئی روداد تاریخ کے صفحات میں رقم ہوسکی جس کی بنیادپر بہت ہی زیادہ ٹھوس بات کسی تاریخی واقعہ کے آغاز کے بارے میں کہی جائے ۔انجمن خدام کعبہ کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ دسمبر ۱۹۱۲ ء میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے گھر میں اس کا قیام عمل میں آیا لیکن خلافت تحر یک کے بارے میں حتمی بات کہیں لکھی ہوئی نہیں ملتی ہے ۔ انگلش میں لکھے گئے دو اہم تھیسس (The Khilafat Movement by syd mohd Riyaz)  اور(The khilafat movement religious symbolism political mobilization in india. by Raziya Nayab)  پر بھی نظر ڈالنے کے بعد کوئی حتمی تاریخ نکل کر سامنے نہیں آئی ۔ اس موضوع پر قاضی عدیل عباسی کی کتاب’’ تحریک خلافت ‘‘ بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کتاب میں وہ شاہ معین الدین ندوی کی کتاب ’’حیات سلیمان‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے اس کی تحقیقات میں بہت وقت صرف کیا کہ کوئی دستاویزی شہادت اس بات کی مل جائے کہ خلافت کمیٹی کب اور کہاں اور کس کی تحریک پر قائم ہوئی مگر افسوس ہے کہ مجھے اس میں ناکامی ہوئی ۔‘‘ (ص ۳۸) اس کے متعلق اپنی جدجہد کو بھی لکھا ہے کہ وہ فرنگی محل گئے اور ان سے بھی ملے جو مولانا کے حالات زندگی ترتیب دے رہے تھے ، ممبئی میں خلافت کمیٹی کے دفتر کودیکھا لیکن وہ مکمل اجڑ چکا تھا ، مولانا امتیازعلی عرشی سے بھی خط وکتابت کی ۔الغرض جتنا ممکن ہوسکا کیا لیکن کہیں سے کوئی اطمینا ن بخش جواب نہیں آیا،لیکن ساتھ ہی جو امکانات ہیں وہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آل انڈیا مسلم کانفرنس جو ۱۸ دسمبر ۱۹۱۹ء ( صفحہ ۹۵ ؍ میں ستمبر لکھا گیا ہے ) کو منعقد ہوئی تھی وہی کانفر نس خلافت کمیٹی میں تبدیل ہوگئی‘‘ (ص ۳۸) پھر وہ اس کا خود بھی رد کرتے ہیں کہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں ایک تجویز ممبئی کی خلافت کمیٹی کے شکریے کی منظور ہوئی تھی۔( اس لیے گمان ہے کہ اس کا آغاز کم و بیش دو سے تین سال قبل ہوا ہوگا)  اس کا ردخود ان کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو کتاب کے صفحہ چالیس میں درج ہے کہ ’’ نومبر ۱۹۱۹ ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر تمام اقطاع ہند کی مقتدر جماعتیں دلی میں جمع ہوگئی تھیں ‘‘ (ص۴۰)لیکن ایک خلافت کانفرنس کا سراغ ملتا ہے جس کو انہوں نے دوسری خلافت کانفرنس لکھا ہے وہ لکھتے ہیں ’’ دوسری خلافت کانفر نس (دلی ) زیر صدارت مولوی فضل الحق کے سلسلہ میں ۲۴ نومبر ۱۹۱۹ء کہ متحدہ اجلاس کا حال اخبارات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ خلافت کانفرنس کا اجلاس اپنی نوعیت کے لحاظ سے اہم ترین تھا ۔ کیونکہ اس خلافت کانفرنس میں صرف خلافت کے مسائل پر غور کر نے کے لیے مادر وطن کی دونوں قوموں کے قائم مقام جمع تھے ۔گاندھی جی ، سوامی شردھا نند، پنڈت کرشن کانت مالویہ ، ڈاکٹر ساورکر مسٹر شنکر لال ، مسٹر موہن جی وغیرہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ‘‘ (ص ۱۵۴) اس میں صاف طور پر تحریر ہے کہ یہ دوسری خلافت کانفرنس تھی ساتھ ہی ان تمام باتوں کی تردید ہوجاتی ہے جو نومبر ۱۹۱۹ء میں پہلی خلافت کانفرنس کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔ساتھ ہی ۱۷ ؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کو جو خلافت تحریک کے ماتحت یو م دعا و جلسہ تجویز کیا گیا اس سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کمیٹی بہت پہلے وجود میں آچکی تھی کیونکہ’’ فروری ۱۹۱۹ء کے ابتدائی ایام میں انجمن مؤید الاسلام فرنگی محل کا ایک جلسہ زیر صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محل میں منعقد ہو ا اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ احکام اسلام کی رو سے بجز موجودہ سلطان ترکی کے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں اور شریعت اسلامیہ کی رو سے خلافت کے باب میں امت محمدیہ کے سوا غیر مسلم کی رائے بے اثر ہے ، مسلمانوں نے جہاں کہیں اس بارے میں آواز بلند کی ہے وہ شریعت اسلامیہ کے بالکل مطابق ہے اور یہ جلسہ اس کی تائید کرتا ہے ‘‘ اس میں دو باتیں سامنے آتی ہیںایک یہ کہ خلافت کی بات فروری سے پہلے ہی سے ہورہی ہے اور اس تعلق سے جلسے بھی منعقد ہورہے تھے ۔ دوسری یہ کہ خلافت کے خلاف بھی بولنے والے پیدا ہوگئے تھے مطلب یہ کہ خلافت کی آوازمضبوطی کے ساتھ بلند ہورہی تھی ۔یہاں مسلم کانفرنس کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی تھی ۔

۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۱۸؍ کو تر کی نے التوائے جنگ کے صلح نامہ پر دستخط کیے اور مئی ۲۰ ۱۹ ء میں تر کی کے سلسلے میں سیور ے کے مقام پر شرائط صلح نامہ نافذہونی تھی ، ابھی تر کی کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا لیکن اتحادیوں نے تر کی کو آپس میں تقسیم کر نا شروع کر دیا تھا اور جنگ بندی کے باوجود انگر یزوں نے موصل کی طرف پیش قدمی شروع کردی تھی اور قسطنطنیہ پر غلبہ حاصل کر لیا تھا تو مسلمانوں میں بے چینی عام ہوگئی تھی ۔ تمام کی خواہش تھی کہ اس مسئلہ شرعی کے متعلق حکومت برطانیہ اور حکومت ہند کے نمائندوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جائے تاکہ لندن میں جو صلح کانفرنس کمیٹی امریکہ ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل کام کررہی ہے اس پر اثر پڑے اور وہ فیصلہ ہو جو مسلمانوں کے جذبات سے ہم آہنگ ہو ۔اس کے لیے ملک بھر میں جلسے ہورہے تھے اس سلسلے میں لکھنؤ میں ایک عظیم الشان آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۸؍ ستمبر کو طلب کی گئی جس میں ہندو ستان کے گوشے گوشے سے ہر طبقہ کی نمائندگی کرنے والے علماء، زعماء ،سرمایہ داراور رسوخ دار شریک ہوئے اس کانفرنس کا داعی کوئی ایک نہیں تھا بلکہ تقریباً چالیس چالیس افراد تھے جن کا تعلق ملک کے مختلف گوشوں اور جماعتوں سے تھا ۔ اس وقت ملک کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت اور بے چینی کیسی تھی اس کا اندازہ کانفرنس کے اشتہار کے عنوان سے لگایا جاسکتا ہے ۔وہ کچھ اس طر ح ہے ۔’’مسلمانوں کی موت و حیات کا مسئلہ ‘‘ ۔ اشتہار میں موجود متن میں بھی مسلمانوں کو تر کی کے تئیں بہت ہی جوش دلا یا گیا ہے ۔ اس کے اصل صدر تو مسٹر ابراہیم جعفر تھے جو بروقت حاضرنہ ہوسکے تو مو لانا عبد الباری کا نام صدارت کے لیے پیش کیاگیا جو بالاتفاق منظور بھی ہوا ۔پھر بعد میں وہ آگئے تو صدارتی خطبہ کاکچھ حصہ انہوں نے ہی  پیش کیا  اور بقیہ مطبوعہ صدارتی خطبہ بانٹ دیا گیا۔ مولا نا عبدالباری نے صدر اوربیرونی مہان کا شکر یہ ادا کیا، صدرکانفرنس نے مولانا عبدالباری کا شکریہ ادا کیا ۔ اس کانفرنس میں خلافت کے قیام کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے بلکہ جو ریزولیوشن پاس ہوئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ ممبئی میں خلافت کمیٹی اپنا کام کررہی ہے تو اس کا شکریہ ادا کیا جائے (شاید زیادہ کام ترکی کے لیے مالی تعاون کا تھا )اسی کانفرنس میں یہ بھی ریزو لیوشن پاس ہوتا ہے کہ خلافت کے لیے ۱۷؍ اکتوبر بروز جمعہ ہندوستان بھر میں یو مِ دعا منایا جائے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی شرکت کی ۔اس قسم کے جلسے و جلوس کئی بڑے بڑے شہروں میں منعقد کیے جارہے تھے اور یہ باضابطہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کا دوسرا جلسہ تھا ، پہلا اجلاس مدراس میں سیٹھ یعقوب کی صدارت میں ۱۷؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو ہوا ، دوسرا لکھنؤ میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں اور تیسرا  ۲۲ ؍ ستمبر کو اور آخر میں ۲۲ ؍ نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں خلافت کانفرنس کے عنوان سے مولانا فضل حق کی صدارت میں ہوا ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کے اجلاس کی تاریخ تحریک خلافت سے یکسر مختلف ہے کیونکہ تحریک خلافت پہلے ہی سے شروع ہوچکی تھی اور مختلف احتجاجی اجلاس اس کے لیے منعقدہورہے تھے لیکن باضابطہ خلافت کانفرنس نومبر ۱۹۱۹ء سے شروع ہوتی ہے ۔اس مسئلہ کے بعد تحریک خلافت کے بنیاد گزا ر مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی خدمات کی جانب رجوع ہوتے ہیں ۔ 

یہ بات واضح ہے کہ اس زمانہ میں فرنگی محل ہندوستان میں ملکی و عالمی سیاست کامرکز تھا اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی اس پورے میدا ن میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے ۔نومبر ۱۹۱۹ ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر ہندوستا ن بھر کے نمائندے شریک ہوئے تھے جن میں رفاہی ومسلکی تنظیموں کے سربراہان کی کثیر تعداد میں شرکت ہوئی تھی ۔ کانفرنس کے بعد علمائے کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی ۔وہیں سے اس عظیم الشان جمعیۃ علماء ہند کاقیام عمل میں آیا ۔ اس زمانہ میں ہندو ستا ن کے بیدار مغز افرادمیںعلماء کا منصب حکومت سے لیکر عوام تک سب سے زیادہ تھا تو مولانا نے علماء کی باہمی مخالفت اور مسلکی و مذہبی نزاعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بقائے خلافت کے لیے اس عظیم الشان جماعت کی بنیادڈالی ۔ اگرچہ اس وقت کے علماء کے اذہان میں اس کو لیکر مختلف نظریات ہوں لیکن مولا نا عبدالباری کے ذہن میں جو بات تھی اس جماعت کے قیام کو لیکر وہ بالکل واضح تھی کہ اس شرعی مسئلہ خلافت میں ہند کے تمام علماء کو ایک نظریہ پر جمع کیا جاسکے ۔وہ علماء جو فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے اتنے دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے سے مناظرے تک ہوا کر تے تھے۔ مسجدیں  مسالک کے ساتھ پابند ہوگئی تھیں ایسے وقت میں پہلی مرتبہ مولانا عبدالباری کی کوششوں سے ایک جگہ مسئلہ خلافت کے لیے سر جو ڑ کر بیٹھنے والے علماء درج ذیل ہیں ۔

مولانا عبد الباری ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، پیر امام محمد سندھی، مولانا اسداللہ سندھی ، مولانا سید محمد فاخر الہ آبادی ، مولانا مولوی محمدانیس ، مولانا خواجہ نظام الدین ، مفتی کفایت اللہ ، مولانا محمد ابراہیم دربھنگہ ، مولانا خدا بخش مظفر پوری ، مولانا عبدالحکیم گیاوی، مولانا محمداکرام، مولانامنیرالزماں ، مولانا محمد صادق ، مولانا سید محمد داؤد ، مولانا سید محمد اسماعیل ، مولانا محمد عبداللہ اور مولانا آزادسبحانی ۔

  یہ علماء اپنی ذات میں خود ایک تنظیم کی حیثیت رکھتے تھے اور شرعی امور کی جزئیات میں آپسی اختلاف بھی تھا ۔ لیکن مولانا کی یہ صلاحیت تھی کہ انہوں نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مسئلہ خلافت پر امت مسلمہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لائے ۔ مجھے جہاں تک لگتا ہے اسی تحریک کی دین ہے کہ تمام علماء اس مجلس میں جمعیۃ کے قیام کے لیے ایک آواز ہوتے ہیں جو اتحاد کی ملکی شکل تھی ۔  ملک میں خلافت کی ایسی ہوا چلی کہ اس وقت جو بھی جماعت قائم ہورہی تھی اس کے مقاصد میں سے اہم مقصد خلافت ہوتا تھا ۔ اسی کا اثر تھا کہ کانگر یس اس عہد میں مکمل طور پر دوسرے امور کے ساتھ خلافت کے لیے کام کر رہی تھی۔ جمعیۃ کاقیام تو خلافت تحریک کی شباب پرہوا ہی ہے ساتھ ہی مسلم لیگ اور کانگریس بھی اس معاملہ کو اپنے دامن میں نمایاں جگہ دے رہے تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ تحریک خلافت کے بعد ہی کانگریس میں جان آئی تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔مسلمان تر کی حکومت کو لیکر مکمل طور پر بیدار ہوچکے تھے، جگہ جگہ احتجاجی جلسے ہورہے تھے اور جلوس نکل رہے تھے ایسے وقت میں گاندھی جی ہندوستان کی سیاست میں داخل ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ آزادی کی طاقت جو ٹکڑیوں میں بکھری ہوئی ہے اور اپنے اپنے علاقوں میں محدود ہے ان سب پر ہلکی سی توجہ دی جائے او ر سب کو یکجا کیا جائے چنانچہ گاندھی جی نے ان طاقتوں سے ملنا شروع کردیا ۔لکھنؤ میں مولانا عبدالباری سے فرنگی محل میں ملاقات ہوتی ہے اور تحریک خلافت میں بھر پور تعاون کی امید دلاتے ہیں تو جب اس معاملہ میں برادارن وطن کا سہارا ملا تو مسلمان کو بہت ہی زیادہ حوصلہ ملا اور مہاتما گاندھی باضابطہ دہلی کی خلافت کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ یہ جلسہ اگر چہ عملہ اور اراکین کا تھا لیکن گاندھی جی کی عظمت کی وجہ سے ان کی شرکت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ ہندو برادران نے بھی نمائندگی کے طور پرشرکت کی ۔ اس کے بعد سے ہندوستان کے ہندو اور مسلمان ہر جلسہ میں برابر کے شریک رہے ۔

کانگر یس ،جمعیۃ اور خلافت کے اجلاس ایک ساتھ الگ الگ دن امر تسر میں منعقد ہوئے۔ مولا نا محمد علی جوہر ہندوستان بھر میں اپنی تحریروں اور جوشیلی تقریروں کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ ان کی تحر یروں کو اہمیت دینے لگا تھا اور حکومت کی ناز برداری کا تمغہ گلے سے اتر چکا تھا اور وہ ہندوستان کے متفقہ لیڈر بن چکے تھے ، امرتسر کے اجلاس میں کانگر یس کی طرف سے دعوت ملی تو بیتول جیل سے رہا ہوکر سیدھے اجلاس میں پہنچے ،حسب دستور و فطر ت طویل تقریر کی جو بے حد پراثر اور جذباتی تھی ، ان کے مزاج میں طویل تقریر تھی، ان کے بر عکس مولانا شوکت علی کا مزاج تھا ۔ اسی وجہ سے عام طور پر ان کو کم علم سمجھا جاتا تھا لیکن بڑے ذی ہوش اور لائق آدمی تھے ، تقریریں مختصر کرتے تھے۔ تنظیمی ڈھانچہ کو سنبھالنے میں ان کو مہارت تھی ۔ دونوں بھائی دوالگ مزاج کے حامل تھے محمد علی جوہر الجھتے بہت تھے حتٰی کہ گاندھی کو بھی جلدی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اورشوکت علی خاموش مزاج کے حامل تھے ۔ دونوں بھائی مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے مرید  تھے تو مولانا دونوں کی انفرادیت اور صلاحیت سے بھی واقف تھے ۔ محمد علی جوہر کی اہمیت اپنی جگہ مسلم تھی لیکن شوکت علی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مولا نا عبد الباری فرنگی محلی نے خلافت کانفرنس کی صدرات کے لیے شوکت علی کا نام پیش کیا جس کی تائید مولا محمد داؤد غزنوی ، مولافضل الرحمان ایڈیٹر ’ اخوت ‘ ، ابوالقاسم کلکتہ، سیٹھ احمد حاجی صدیق کھتری اور مسٹر موسیٰ بال صاحب رنگون نے کی ۔ اس موقع پر انہوں نے بہت ہی مختصر تقریر کی جس کو چند سطروں میں لکھا جا سکتا ہے تقریر کے دو ہی حصے ہیں جس کا ایک حصہ یہ ہے : ’’ اگر آپ دنیوی اقتدار کے لیے خدا اور رسول کے احکام کو نظرانداز کرنے کے لیے تیا ر ہیں تو میرا اور آپ کا ساتھ نہیں ۔ اس وقت کام یہ ہے کہ تمام عالم جمع ہوکر احکام شرعی پر غور کر کے فیصلہ کرے کہ آپ کا فرض کیا ہے ۔ ریزولیوشن پاس کردینا کچھ مشکل کام نہیں ۔ میں نے ایک فقرہ اپنے بھائی معظم علی کو لکھا تھا جس پر مجھ سے سوال کیا گیا تھا وہ فقرہ ایسا تھا کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جو ترکوں کی فتح کا خواہشمند نہ ہو ۔اس پر میں نے کہاکہ اس کا جواب دینے سے قبل میں ایک سوال کر تا ہوں کہ اگر ہمیں یہ مذہبی آزادی حاصل ہے تو ہر مسلمان یہ کہے گا اور اسے کہنے کا حق ہے ۔ ہمیں ملک معظم اور وائسرائے کے پاس وفد روانہ کرکے ان سے کہہ دینا چاہیے کہ اگر صورت حال یہی ہے تو ہمارے لیے دوصورتیں ہیں ۔ ہجرت یا جہاد۔ ہمارا وفد خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں جانا چاہیے جس میں معذرت کی جائے کہ ہم نے اپنے فرض کو پس پشت ڈالا ۔‘‘ ( ص ۱۲۵)

صدارتی تقریر کے اس حصہ میں دو باتیں بہت ہی واضح طور پر نظرآتی ہیں ایک ہجر ت اور دوسری جہاد ۔ تو اس زمانہ میں ہجرت کی بات بھی بہت تیزی سے چل رہی تھی اور غلط فہمی کی بنیادپر کثیر تعداد میںہندوستانی افغانستان کی جانب ہجرت بھی کی ۔اس کاذکر آگے آئے گا ۔ فی الوقت یہ بات آگے بڑھائی جاتی ہے کہ مولانا شوکت علی نے وفد کے روانہ کی بات کہی تو اس پر عمل در آمد شروع ہوجاتا ہے ۔

دہلی میں۲۰؍ جنور ی ۱۹۲۰ ء کو ایک جلسہ منعقد ہوتا ہے جس میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ لوکمانیہ تلک ،لالہ لاجپت رائے او ربپن چندر پال جیسے چوٹی کے لیڈر جمع ہوئے اور خلافت کے مسئلہ پر آپسی گفت و شنید ہوئی جس میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا ۔ وفد کی بات بھی سامنے آئی تو اس میں طے پایا کہ وفد بھی لے جایا جائے ۔چنانچہ وفد مرتب کیا گیا اس کے صدر مولانا محمد علی جوہراور سکریٹری حسن محمد حیات منتخب ہوئے اور ارکان میں سید حسین ، مولانا سید سلیمان ندوی اور ابوالقاسم تھے ۔مولانا محمد علی جوہر نے ایک میموریل تیار کیا جس پر اس وقت کے اکابر رہنماؤں کے دستخط ہوئے ۔۲۲ ؍ فروری ۱۹۲۰ء کو وفد وینس پہنچا وہاں پہلے مسٹر فشر سے ان لوگوں کی ملاقات ہوئی ۔ مولانا محمد علی جوہر انگریزی زبان میں یکتا تھے ہی تو انہوں نے بہت ہی سے زور و شورسے اپنی بات رکھی اور مذہبی احکامات کاحوالہ دے کر ان کے سامنے دو مطالبے رکھے ۔

( ۱) خلافت ترکی کو بحال رکھا جائے ۔

(۲) مقامات مقدسہ یعنی مکہ ، مدینہ ، بیت المقدس اور تمام مقدس مزارات خلیفہ کی نگرانی میں ہونے چاہئیںجیسے کہ جنگ سے پہلے تھے ۔ پھر مسلمان بھی خوش ہوجائیں گے کہ ان کی وفاداری کے صلے میں جزیرۃ العرب اور مقامات مقدسہ کا احترام باقی رکھ کر خلافت کی پہلی جیسی پوزیشن قائم رہ گئی ۔

اس کے جواب میں مسٹر فشر نے ضابطہ اور پروٹوکول کے مطابق جواب دیا جس میں کچھ امید بھی دلائی اور کچھ ناامیدی بھی پیدا کی ۔ بالآخر وفد مسٹر لائیڈ جارج سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہی ۔وہاں بھی مولانا محمد علی جوہر اپنی بات زورو شور سے کہتے رہے لیکن منطقی وجوہ سے جارج نے ہر بات کی تردید کی کیونکہ انگریز صدیوں سے جو محنت کر رہا تھا اس پر وہ کیسے کچھ برداشت کرتا۔ پھر اس وفد کو سرکار ی طور پر مطلع کر دیا گیا کہ :

’’(۱) تر کی کے ساتھ انہی اصولوں کے مطابق معاملہ کیا جائے گا جن کے مطابق دوسرے ممالک سے معاملہ کیا گیا ہے ۔اس معاملہ میں اس کے ساتھ کوئی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی ۔

(۲) تر کی حکومت کو ترکی علاقوں پر حکومت کر نے کی اجازت حاصل ہوگی ۔

(۳) لیکن اسے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ غیر ترکی علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھے ۔‘‘ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری ، ج۲، ص ۱۱۳) 

اس کے بعد وفد نے مسٹر ایسکویتھ اور لیبر پارٹی کے ان ارکان سے ملاقات کی جنہوں نے اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی ۔غرضیکہ وہاں کوئی بات نہیں بنی تو برٹش عوام کو ہموار کرنے کے لیے عوامی میٹنگیں کیں اور جلسہ بھی کیے ۔ پیرس بھی گئے وہاں کے لوگوں کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا ، جزیرۃ العرب بھی گئے وہاں کے لوگوں کو خلیفہ کے ماتحت لانے کے لیے ہموار کرتے رہے لیکن وہ زبان سے تو ہاں ہاںکہتے رہے لیکن دل سے اس لالچ کے ساتھ تھے جو انگریزوں نے الگ الگ ملک بنا کر دینے کو کہا تھا اور سب برطانیہ کے وظیفہ خوار نکلے ۔ 

 وفد کی برطانیہ روانگی سے خلافت کی ہوا ملک بھر میں زوروشور چل رہی تھی ۔ گاندھی جی تو شامل ہوہی گئے تھے اور خلافت ایک چھتنار در خت بن چکا تھا جس سے کئی تحریکیں اب رو نما ہونے والی تھی مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی برسوں کی محنت و قیادت اب بار آور ہونے والی تھی انہوں نے عوام و خواص کے دل میں انگریز کے خلاف اور شریعت کی پابند کا جو بیج بویا تھا وہ اب لہلہانے والا تھا ۔اور خلافت کے جلسوں سے یا یو ں کہہ لیں کے خلافت کے بینر تلے شروع ہونے والی تھی عدم تعاون کی تحریک ۔ گاندھی جی دہلی کے جلسے میں جب شریک ہوئے تو انہیں اس بات کا اندازہ بخوبی ہوگیا تھا کہ ابھی انگریزوں کی مخالفت میں سب سے آگے مسلم قوم ہے تو انہوں نے اس ایندھن کو بہت اچھی طرح استعمال کیا اورجب ۲۳ مارچ ۱۹۲۰ ء کو میر ٹھ کا خلافت کانفرنس بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوئی تو پہلی مرتبہ گاندھی جی پبلک پلیٹ فارم پر آئے اور خلافت کے اسٹیج سے عدم تعاون کا پروگرام پیش کیا ۔جس میں دو بنیادی باتیں یہ تھیں ۔

(۱) تمام سرکاری خطابات اور سول عہدوں سے علاحدگی 

(۲) ٹیکس اور دوسرے سرکاری واجبات کی ادائیگی سے انکار 

گاندھی جی کی پیش کش کے بعد مولانا آزاد کی زبر دست تقریر ہوئی جس کی بنیا د پر اس پر پہل کرنے والے سب سے پہلے حکیم اجمل خاں تھے ۔ انہوں نے گویا حکومت کی جانب سب سے پہلاپتھر پھینکا اور ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ کر تمام خطبات و تمغات واپس لوٹا دیے ۔ پانچ دن کے بعد ۲۸مارچ ۱۹۲۰ ء کو لاہور میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وہ فوج اور پولیس کی ملازمت بھی تر ک کر نے کو کہتے ہیں ۔ گویا اب تین امور پر عدم تعاون کی تحر یک شروع ہوتی ہے ۔اس کے بعد فورا ً اپر یل کے پہلے ہفتے میں یو پی کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اجلاس ہوتا ہے تا کہ مسئلہ خلافت پر بر طانیہ پر دباؤ بنانے اور جد و جہد آزادی کے لیے عوام کو عدم تعاون کے لیے تیار کیا جا سکے ۔ چنانچہ علماء نے اس کام کے لیے کمر کس لی اور اعزاز واپس کر نے پر زبردست خراج تحسین پیش کر نے لگے ۔اس تحریک میں تو ہندوستان کے تمام مسالک کے علماء متحد تھے ساتھ ہی اس کے ماتحت جب عدم تعاون کی تحریک گاندھی جی کے ذریعے شروع ہوئی تو اس میں بھی فقہی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور ہندو ستان کے نو سو جید اور اہل راے علماء نے ترک تعاون کے حق میں فتویٰ دیا ۔ان میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے ۔مفتی کفایت اللہ ، مولانا احمد سعید دہلوی (دیوبندی ) ۔ مولانا ابوالوفاء ثنا ء اللہ امر تسری ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی ، مو لانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ، مو لانا عبدالحکیم گیا وی ( اہل حدیث )۔ مو لانا سید محمد فاخر بیخود الہ آبادی سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل ، مولا نا عبدالماجد بدایونی ( بریلوی ) مو لا عبدالباری فرنگی محلی اور مولاناابوالمحاسن سجا د بہا ری ( اعتدال پسند ) جیسے قدآور علماء نے فتویٰ دیا ۔اگر چہ کئی علما ء نے انفرادی طور پر مخالفت بھی کی لیکن مولانا احمد رضا خاں نے مخالفت میں بڑی سرگرمی دکھائی ۔ تحر یک کی مخالفت میں زبر دست مہم چلائی اور ہندؤں کے ساتھ مل کر استخلاص وطن کی جدو جہد میں ازروئے اسلام حرام قرار دیا ۔الغر ض تحریک خلافت کے لیے جو کچھ بھی معاون ہوتا اس کے لیے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کمر بستہ رہتے جس کی ایک مثال یہ فتویٰ بھی ہے ۔

عدم تعاون کی تحریک اگر چہ خلافت کے اسٹیج سے شروع ہوئی لیکن اس کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ اس سے انگریز سب سے زیادہ پریشان ہوئے ۔ اس تحریک میں گاندھی جی کی دعوت پر آزادی کامل کی جانب سر بکف دوڑنے والوں میں سیکڑوں غیر مسلم رہنما شریک ہوگئے ۔ ہزاروں طلبہ کالج سے اسٹرائک کر نے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں الگ بھی ہوگئے ۔سر کاری نوکریوں سے افراد جدا ہونے لگے اور سر کاری اداروں اور اسکیموں کا بائیکا ٹ ہونے لگا ۔جس کافائدہ قوم کو یہ ملا کہ نئے نئے قومی ادارے وجود میں آنے لگے ۔کلکتہ میں نیشنل کالج قائم ہوا، بہار میںودیا پیٹھ بنا ۔ پٹنہ ، احمدآباد ،ممبئی ،بنارس اور دلی میں نیشنل کالج قائم ہوئے ، بنگال ، بہار اور گجرات میںنیشنل یونی ورسٹیاں عمل میں آئیں ۔اسکولوں کے بائیکاٹ اورقومی درس گاہوں کے قیام کی مہم جاری رکھی گئی اسی کڑی میں راجندر پر شاد کی کوششوں سے پٹنہ گیا روڈ پر ایک کالج قائم ہوا اور وہ خود اس کے پرنسپل مقرر ہوئے اور کئی اعلی صلاحیت کے پروفیسراستعفی دے کر اس کالج میں آگئے ۔

پٹنہ انجینئر نگ کالج سے صداقت آشر م کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے ۔ انجینئرنگ کالج کے تقریبا ۲۵۰؍ لڑکے تعلیم کو خیرآباد کہہ کر مسٹر مظہر الحق بیر سٹر کے پاس گئے اور وہیں سے صداقت آشرم کی بنیاد پڑی ۔ اورعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے جامعہ کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے ۔ عدم تعاون کی تحریک زوروں پر تھی اور یونی ورسٹی سرکارکی امداد سے چل رہی تھی یہاں کئی مرتبہ ہنگامہ خیز حالا ت بنے کئی جلسے ہوئے مخالفت و موافقت پر تقریریں ہوتی رہیں با لآخرجب حالات یہاںتک پہنچے کہ مو لانا محمد علی جوہرنے ان طلبہ کو آواز دی جو ان کے ساتھ آناچاہتے تھے ۔ ان کو لے کر مولانا اولڈ بوائز لاج پہنچے( جو کالج کی ملکیت نہیں ہوتی ہے) لیکن وہاں سے بھی نکالے گئے پھر ’’ ڈیڑھ سو طلبہ اپنے سامانوں کو اپنے سروں پر اٹھائے محمد علی کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ درس گاہ سے باہر نکل گئے اور ایک نیشنل مسلم یونی ورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ) علی گڑھ میں قائم کردی گئی ۔اور وہیں مولانا محمد علی نے اقامت اختیار کرلی ۔ پہلے مولانا محمد علی خود پرنسپل تھے اور حسب عادب صبح سے شام تک تقریریں کیا کرتے تھے۔ بعدہ خواجہ عبدالحمید صاحب شیخ الجامعہ قرار دیے گئے ۔‘‘ اسی کڑی میں ندوہ بھی ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ماہانہ ہزار روپے کا خرچ تھا جس میں سے پانچ سوروپے گورنمنٹ کی جانب سے ملتا تھا تو ندوہ نے یہ امداد لینے سے منع کردیا اس لیے اس کو صرف نواب بھوپال کے ہی امداد پر صبر کرنا پڑا ۔ اسی طریقے سے مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ڈھائی سوطلبہ کو مولانا آزاد نے الگ کرالیا۔ ان کے لیے مسجد ناخدا میں ایک قومی مدرسہ قائم کیا گیا اور اس مدرسہ میں مولانا حسین احمد مدنی بطور استاد چارج لینے کو تیار تھے ۔یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ قصبات و شہروں میںبھی نیشنل کالج اور اسکول کھلنے لگے جو حکومتی تعاون کے محتاج نہیں ٹھہرے اور ترک موالات کی تحریک اپنے مقصدمیں آگے بڑھتی چلی گئی ۔

خلافت تحریک میں مو لانا عبدالباری فرنگی محلی اپنے شاگر د رشید مولانامحمد علی جوہر کوتحریک خلافت کے میدان کا مرد مجاہد بنا تے ہیں اور عوامی جذبات کی قدر کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ جلسے و جلوس آزادانہ طور پر نہ منعقد کیے جائیں بلکہ مرکزی خلافت کمیٹی سے اجازت لے کر کیے جائیںاور ہر جلسہ و میٹنگ میںمیری شرکت کو ضروری نہ سمجھیں۔ اس تعلق سے مولانا کاایک خط ہمدم میں اپریل ۱۹۲۰ ء کے آخر ی ہفتہ میں شائع ہوتا ہے ۔

’’ خلافت کانفرنسیں بقدر ضرورت ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں ۔ جہاں مسلمان ضرورت سمجھیں کریں اور بلا ضرورت محض دیکھا دیکھی ایسے کانفرنسوں کے انعقادکی اب ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ میری راے یہ ہے کہ مسلمان اس سلسلہ کو موقوف کریں ۔ خصوصاً بغیر اجازت سینٹرل کمیٹی ممبئی کے انعقاد کسی کانفرنس کا خلافت کے متعلق ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ اور شرکت اس قسم کے جلسے کی اصولاً لازم نہیں ہے ۔ وقت کام کرنے کا ہے دوسروں پر اپنا بار نہ ڈالے ۔ اگر ملک کے کسی حصے میں ضرورت انعقاد کانفرنس کی ہو تو مقامی حضرات اس میں شرکت فرمائیں ۔ ایک دو مقرر و علماء باہر سے بھی بلا لیے جائیں ۔ مگر تمام مشاہیر کی دعوت بلا ضرورت قابل ترک ہے ۔میں نے اپنے متعلق فیصلہ کر لیا ہے کہ سوائے اس صورت کے میری شرکت سے معتد بہ فائدہ مقصود ہو محض نمائش کے لیے بلا رو رعایت جلسوں کی شرکت سے انکار کردوں گا … مجھ سے میرے احباب خواہش کر تے ہیں کہ میں سر بر آوردہ حضرات کو ان کی مرضی کے موافق تکلیف دوں ۔ اب تک اس خدمت کو انجام دیا ۔ اب اس قدر زائد یہ خدمت لی جانے لگی ہے کہ اس کے انجام دینے سے قاصر ہوں ۔ میری حالت یہ ہے کہ :

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری را ہ لگ اپنی: تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہم بیزار بیٹھے ہیں 

(تحریک خلافت ،ص ۱۴۴) 

اس کے بعد کی سرگرمیاں ایسی رہیں کہ صرف اہم مقامات پر مولاناکی شرکت نظر آتی ہے جو ہمیں آگے بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ 

  اوپرتحریروں مولانا شوکت علی کے خطبے میں ’ جہاد اور ہجرت ‘ کا ذکر آیا تھا ۔ وہ محض ایک ذکر نہیں تھا بلکہ اس مسئلہ پر تحریک عدم تعاون سے پہلے ہی یعنی ماہ فروری میں ہی اخبار ات و رسائل میں چھپنا اور فتاویٰ کا دور شروع ہوچکا تھا ۔ ۱۹۲۰ کے اوائل کا دور ہوتا ہے علی برادران کی مقبولیت آسمان کو چھورہی ہوتی ہے ، گاندھی جی میدان میں قدم جما رہے ہیں مولانا آزاد بھی یکم جنوری کو رانچی جیل سے رہا ہو جاتے ہیں اور وہ تیسری خلافت کانفرنس کلکتہ کے صدر منتخب ہوتے ہیں جہاں وہ مسئلہ خلافت پر بہت ہی مبسوط اور مدلل خطبہ پیش کرتے ہیں اور کانفرنس کے دوسرے دن اپنی اسکیم کی وہ بنیاد ڈالتے ہیں جس کا ذکرمولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ’’ذکر آزاد‘‘میں کرتے ہیں :

’’مولانا کی اسکیم کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کو مذہب کی راہ سے منظم کیا جائے ۔ مسلمانوں کا ایک امام ہو اور امام کی اطاعت کو وہ اپنا دینی فریضہ سمجھیں ۔مسلمانوں میں یہ دعوت مقبو ل ہوسکتی ہے ۔اگر قرآن و حدیث سے انہیں بتادیا جائے کہ امام کے بغیر ان کی زندگی غیر اسلامی ہے او ر ان کی موت جاہلیت پر ہوگی ۔ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد امام کو مان لے تو امام ہندؤں سے معاہدہ کر کے انگریزوں پر جہاد کا اعلان کر دے اور ہندو مسلمانوں کی متحدہ قوت سے انگریزوں کو شکست دی جائے ۔مگر امام کو ن ہو؟ اس منصب کے لیے زیادہ سے زیادہ معتبر آدمی کو چننا ہوگا ایسے آدمی جو کسی قیمت پر دشمن کے ہاتھ نہ بک سکے ۔ ساتھ ہی امام کو ہوشمند اور حالات زمانہ سے کما حقہ واقف ہونا چاہیے ۔ ظاہر ہے مولانا اپنی ذات سے زیادہ کسے امامت کا اہل سمجھ سکتے تھے ۔ 

’’اس کے بعد طے پایا گیا کہ امامت کا مسئلہ پبلک میں لانے سے پہلے اندر اندر مولانا کی امامت کے لیے ملک بھر میں بیعت لینا شروع کر دیا جائے تاکہ جب یہ معاملہ سامنے آئے تو امامت کی بیعت واقعہ بن چکی ہو ۔ اس سے لوگوں میں رشک و رقابت کا سد باب ہوجائے گا اور مسلمان ایک امام پر متفق ہوکر ہندوستان کو غلامی سے نجات دلا سکیں گے ۔ ‘‘ 

اس کے بعد وہ بیعت و امامت کا خط تیار کر تے ہیں جس کے ذریعہ مولانا عبدالرزاق ملیح آباد کے دست پر بیعت کیا جاسکے ۔ پھر بیعت و امامت کا مکمل دور چلتا ہے جس میںان کا وہ فتویٰ بھی شامل ہے جس میں وہ ہجرت کی بات کہتے ہیں وہ فتویٰ تو طویل ہے لیکن ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں :

’’ تمام دلائل شرعیہ حالات حاضرہ مصالح مہمہ امت اور مقتضیات و مصالح پر نظر ڈالنے کے بعد پور ی بصیرت کے ساتھ اس اعتقاد پر مطمئن ہوگیا ہوں کہ مسلمانان ہند کے لیے بجز ہجرت کوئی چارہ شرعی نہیں ہے ۔ ان تمام مسلمانوں کے لیے جو اس وقت ہندوستا ن میں سب سے بڑا اسلامی عمل انجام دینا چاہیں ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں اور جو لوگ یکایک ہجرت نہیں کر سکتے وہ مستعد مہاجرین کی خدمت و اعانت اس طرح انجام دیں گویا وہ خود ہجرت کر رہے ہیں ‘‘  

یہ فتویٰ کے شروع کا حصہ ہے ۔ آپ سب کو اس بات کا علم ہے کہ مولا نا ابوالکلام آزاد کے نام سے پہلے امام الہند بھی لگا یا جاتا ہے ۔ اس کی کہانی بھی اسی فتوی سے شروع ہوتی ہے ۔ فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں :’’ اعمال ہجرت کا جو نمونہ اسوۂ حسنہ نبوت نے ہمارے لیے چھوڑا ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت سے مقدم ہجرت کی بیعت ہے ۔ بغیر بیعت ہجرت نہیں کرنی چاہیے ۔ جو لوگ ہجرت کریں وہ ہجرت پر پہلے بیعت کرلیں۔‘‘ یعنی مولانا کے دل میں یہ بات چل رہی تھی کہ امامت کا منصب جو شاید اب تک کسی کے پاس نہیں ہے اور عوامی طور پر اس سے مضبوط ہوا جاسکتا ہے اس پر شاید انہوں نے ہجرت و امامت کو ایک ساتھ پیش کیا ۔ گویا یہ ہجرت کی بیعت بعد میں پہلے امامت کی بیعت تھی اور یوپی میں اس کے لیے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی تھے۔ اس تعلق سے قاضی عدیل عباسی لکھتے ہیں : 

’’ عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہجرت کا فتویٰ مولانا عبدالباری نے دیا تھا ۔ اس فتویٰ کی تمام تر ذمہ داری مولانا ابوالکلام آزاد پر ہے ۔ غلام رسول مہر نے مجھ سے کہا کہ پنجاب ، سندھ اور سرحد پر مولانا کا اثر رانچی کی نظر بندی سے پہلے اتنا گہرا تھا کہ جب وہ لاہور جاتے تھے تو ایک ایک لاکھ آدمی دور دراز سے جمع ہوتے تھے اور اتنی گرمجوشی سے نعرہ تکبیر بلند کر تے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پھٹ پڑے گا ۔ سندھ پر مولانا کا اثر ان کے خط مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۲۰ء سے بھی ظاہرہے جو انہوں نے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو بسلسلۂ تحریک امامت لکھا تھا‘‘ ۔ (ص ۱۳۴) 

مولاناکا یہ کام زور وشور سے جاری تھا کہ اسی بیچ جون میںشیخ الہند مالٹا کی قید سے چھوٹ کر آتے ہیں اور لکھنؤ تشریف لے جاتے ہیں وہاں مولانا عبدالباری کے یہاںقیام ہوتا ہے ۔ وہاں پر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ان دونوں بزرگوںسے ملنے جاتے ہیں اور مولانا ابو الکلام آزاد کے امام الہند بننے پر راضی کرنا چاہتے ہیں مگر دونوں بزرگ اس بات کو ٹال جاتے ہیں ۔اس متعلق مولا نا عبدالباری فرنگی محلی کی ایک تحریر عدیل عباسی نقل کر تے ہیں :

’’مولانا محمود حسن سے دریافت کیا تو وہ بھی اس بار (بات ) کے متحمل نظر نہیں آتے ۔ مو لانا ابو الکلام صاحب اسبق و آمادہ ہیں ۔ ان کی امامت سے مجھے استتکاف نہیں ہے بسرو چشم قبول کرنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ تفریق جماعت کا اندیشہ نہ ہو ۔ مولانا تو اہل ہیں کسی نا اہل کو اکثر اہل اسلام قبول کر لیں گے تو وہ لوگ سب سے زیادہ اطاعت گزار وفرمانبردارمجھے پائیںگے ۔ اصل یہ ہے کہ یہ تحریک دیانتا ً میں اپنی سمت سے جاری کرنا نہیں چاہتا نہ کسی کو منتخب کر کے اس کے اعمال کا اپنے اوپر بار لینا چاہتا ہوں ۔ مسلمانوں کی جماعت کا تابع ہوں اس سے زائد مجھے اس تحریک سے تعرض نہیں ۔ والسلام ۔ بندہ فقیر عبدالباری ۔‘‘

اس تحریرسے بھی مولا نا اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور کہتے ہیں ’’ مولوی عبدالباری کاخط دیکھا ’ یار ما ایں دارد آں نیز ہم ‘ سر دست اس قصہ کو تہہ کیجیے اور کام کیے جائیے ۔ پنجاب ، سندھ ، بنگال میں تنظیم مکمل ہے ۔ لیکن بہت ہی زیادہ امامت پر بیعت لینے کے بعد بھی وہ ستمبر ۱۹۲۰ء میں تحریک امامت کو ختم کردیتے ہیں اور اس کی وجہ بھی وہ کہیںنہیں ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن اس متعلق مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اس طرح رقم طراز ہیں ۔

’’ لیکن مولانا محمد علی نہایت مستعد لیڈر تھے اور طوفانی طبیعت رکھتے تھے ۔ان کا اثر بڑی تیز ی سے بڑھ رہاتھا اور مولانا کی امامت ہی کے نہیںخو د مولانا کی ذات کے سخت مخالف تھے ۔ دونوں میں عمر بھر رقابت رہی ۔ قدرتی طور پرمولانا نے جو از حد معاملہ فہم اور ٹھنڈ ی طبیعت کے مالک تھے محسوس کرلیا کہ علی برادران سے تصادم مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دے گا ۔ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی انہی برادران کے ساتھ تھا ۔ پھر فرنگی محل بھی مخالف تھا اور گو شیخ الہند کی طرف سے مخالفت نہ تھی مگر دیوبند کا طاقتور حلقہ بھی مو لانا کا طرفدار نہ تھا ۔ اس صورت میںمسئلہ امامت کا آخر تک پہنچانا دانشمندی کے خلاف تھا ‘‘ (تحریک خلافت ص ۱۳۰)

اب مولانا عبدا لباری کے فتویٰ کی جانب رجوع ہوتے ہیں جو انہوں نے ہجرت کے سلسلے میں دیا تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح مولانا نے از خود فتویٰ نہیں دیا تھا بلکہ ہجر ت کا ارادہ کرنے والاایک شخص غلام محمد عزیز امرت سری نے بذریعہ تار مولانا سے فتویٰ طلب کیا تھا تو مولانا نے حسب ذیل جواب دیا :

’’ ہجرت کے متعلق میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ تمام مسلمان جو اپنے (ضمیر قلب یا ایمان )کو مطمئن نہیں کرسکتے وہ اب اسلام کے مطابق عمل پیرا ہوں اور اس ملک سے ہجرت کر کے ایسے مقام پر چلے جائیں جہاں اسلام کی خدمت انجام دینا اور اسلامی قوانیں (شرع شریف) کے مطابق عمل کرنا بہتر طریق ممکن ہو ‘‘ ۔

مولانا آزاد اور مولانا فر نگی محلی کے فتویٰ میں آسمان زمین کا فرق ہے دونوں میں ہجرت کی بات ہے لیکن مولانا آزادکے یہاں اس قدر لازمی ہے کہ بجز اس کے کوئی چارہ نہیں نظر آتا ہے اور فرنگی محلی کے یہاں بھی ہجرت ہے لیکن وہ ہجرت کو فرض نہیں کہتے ہیں اور نہ ہی مجبور کرتے ہیں ۔ بنظر دیگر تمام افر ادبھی شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت کی بات اس شدت سے کی جارہی تھی کہ زبان در زبان دارالحرب کی بات ہورہی تھی اور دارالحرب سے ہجرت ضروری ہے اس پر عمل ہورہا تھا۔ ایسے میں کسی بھی انسان کا ضمیر یا قلب کیسے گوارہ کر تا کہ وہ امور شرعیہ کی انجام دہی میں ہندوستان میں مطمئن ہے ۔مولانا کا یہ فتویٰ شروع مئی ۱۹۲۰ء  میں چھپا جس پر بہت سے سوالات و جوابات بھی ہوئے جس پر مولا نا نے ایک وضاحت نامہ بھی ’’ مشرق ‘‘ گورکھپور کو روانہ کیا جو ۶؍ مئی ۱۹۲۰ء کو شائع ہوا۔وہ حسب ذیل ہے : 

 ’’فرنگی محل  ۲ شعبان  ۱۳۳۸ھ

مکر می دام مجدہ السلام علیکم

بعض حضرات نے مسائل ہجرت بذریعہ تار دریافت کیے ہیں اس کا جواب دے دیا گیا مگر مفصل نہیں ہے اس واسطے ان کی تفصیل عرض کر تا ہوں ۔امید ہے کہ شائع فرمادیجیے گا۔ 

ہجرت شرعاً دو طریقوں پر مستعمل ہے ۔ ایک ہجرت اوصاف سے دوسرے اوطان سے ۔

ہجرت اوصاف سے یہ ہے کہ ممنوعات شرعیہ کو چھوڑ دے اور اوامر کا پابند ہو ۔ یہ ہجرت ہمیشہ ہمیشہ تک مشروع ہے ۔

دوسری ہجرت اوطان سے ۔ یہ چند اقسام کی ہے ۔

۱۔ ہجرت مکہ سے حبشہ کی جانب دو مرتبہ ہوئی ۔ اس وقت جبکہ کوئی دار ِ اسلام نہ تھا تو دارِ شرک سے دارِ اہل کتاب کی جانب ہجرت ہوئی یا دارِ ظلم سے دارِ عدل کی جانب ۔ اور اگر نجاشی کا اسلام مان لیا جائے اور اصلِ حکم ِ دار بوجہ سلطان کے فرض کیا جائے تووہ بھی ہجرت دار ِ اسلام کی جانب ہوئی ۔

۲۔ ہجرت مکہ شریف سے جو اس وقت دارالحرب تھا مدینہ طیبہ کی جانب جو دارالاسلام تھا ۔ یہ ہجرت فرض تھی اور فتح مکہ کے بعد منسوخ ہوگئی ۔ یعنی جو ایمان لائے وہ ہجرت کرے تب تو تمام احکام میں مسلمانوں کا شریک ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک توارث وغیرہ میں بھی حق نہیں ہوتا ۔ امام رازی کے مطابق یہ ہجرت اس وقت پھر فرض ہوجائے گی جب کہ مسلمانوں کی اگلی حالت لوٹ آئے اور سوائے ایک مامن کے کوئی نہ ہو ۔

۳۔ ہجرت بادیہ نشیں کی مدینہ طیبہ کی جانب ۔ یہ حقوق میں مساوات حاصل کر نے کے لیے ضروری تھی ۔ یہ بھی منسوخ ہوگئی بلکہ حکم ہوگیا کہ جہاں کوئی شخص پیدا ہوا اور اس مقام پر نماز وغیرہ ارکان اسلام ادا کر سکتا ہو تو اس کو ہجرت کی ضرورت نہیں ۔

۴۔ دار فسق سے دارِ عد ل و تقویٰ کی جانب ہجرت ۔ بلکہ اس زمین سے جہاں گناہوں کی کثرت ہو وہ خود مرتکب ہوں یا دوسرے یہ ہجرت مستحب ہے ۔

۵۔ دارِ حرب سے دارِ اسلام کی جانب ہجرت مستحب ہے اور بعض صورتوں میں واجب ہوجاتی ہے ۔ بلکہ توطن دارحرب میں بلا ضرورت شرعیہ حرام ہے۔ ہم لوگ ہندوستان کو دارالاسلام سمجھتے ہیں اور اعزاز دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت سے قیام کیے ہوئے ہیں ۔ اس واسطے ہجرت فرض نہیں جانتے ۔ بلکہ جب چارہ نہ ہو بجز اس کے کہ ہجرت کرے یا مبتلائے مصیبت رہے یا استرضا بالمعصیت کا ارتکاب ہو یا قیام وطن سے اس قدر خدمت نہ کرسکیں جتنی کہ باہر نکل کر کرسکتے ہیں تو ان صورتوں میں ہجرت مشروع ہے ۔ موجود ہ حالت میں ہندوستان سے اگر قابل و ذی استعداد لوگ کابل ہجر ت کریں یا محنتی و جفاکش لوگ ترک وطن کرکے وہاں جائیں تو امید ہے کہ اسلام کو فائدہ زائد حاصل ہوگا اور اپنے وطن عزیز کی بھی خدمت کریں گے ۔ احادیث سے آخر زمانہ میں شام کی جانب ہجرت کرنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔‘‘ 

اس پورے وضاحتی پیغام میں بھی ہجرت کے فقہی مسائل ہی بیان کیے گئے ہیں کہیں بھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہندوستان سے ہجرت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی شکل میں لکھتے ہیں ’’موجود ہ حالت میں ہندوستان سے اگر قابل و ذی استعداد لوگ کابل ہجر ت کریں یا محنتی و جفا کش لوگ ترک وطن کرکے وہاں جائیں تو امید ہے کہ اسلام کو فائدہ زائد حاصل ہوگا اور اپنے وطن عزیز کی بھی خدمت کریں گے‘‘ ۔ جس قابل و ذی استعداد لوگوںسے ہجرت کی امید تھی وہ تو کیے نہیں بلکہ اکثر کم پڑھے لکھے لوگ ہی کیے جس پر ظفر احسن ایبک لکھتے ہیں ’’ امیر امان اللہ خاں کو امید تھی کہ ہماری جماعت کی طرح لکھے پڑھے ہندوستانی اس تحریک کے ذریعے افغانستان آئیں گے لیکن یہاں تو یہ ہوا کہ جتنے ان پڑھ کاشتکار تھے اس تحریک میں شریک ہوگئے ‘‘ الغر ض ہجرت کے مختلف فتووں کے بعد سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے گھر اور کھیت آ دھے داموں فروخت کیے اور انجام ونتیجہ کو سوچے بغیر افغانستان کی جانب تقریبا ً اٹھارہ ہزارافرادروانہ ہوگئے جہاں مختلف مصائب کا سامنا کر نا پڑا ۔

ہجرت کی بات ہوگئی تو اب مختصراً بات کرتے ہیں جہاد پر ۔جب مولانا شوکت علی جہاد پر بات کر رہے تھے تو اس وقت شیخ الہند کے ما تحت مولانا عبیداللہ سندھی اپنا کام کررہے تھے اور ’مخلصین‘ کی جماعت پورے ہندوستان اور دیگر ممالک میں سر گرم تھے اور افغانستان ان کا میدان عمل تھا ۔ ان تمام باتوں سے اور شیخ الہند و مولانا سندھی کے پلان سے وہ واقف تھے اسی لیے وہ پہلے ہجرت کا لفظ استعمال کر تے ہیں جو افغانستان کی جانب ہونی تھی اور ہوئی بھی پھر جہاد کا جو افغانستا ن سے ہی ہورہاتھا ۔جس کا منصوبہ یہ تھا کہ ہندوستان کی سرحد سے باہر رہ کر ہندو ستان کی آزادی کے لیے افغانستانی اور قبائلی ہندوستان پر حملہ آور ہوجائیں اور ہندوستان کے اندر جو بہت سی خفیہ جماعتوں کے جو مراکز قائم تھے وہ جہاد کے لیے بیک دم کھڑے ہوئے جائیںاور ہندوستان کو آزاد کرالیا جائے۔ شواہدات سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے لیڈران کے ساتھ علی برادران بھی کچھ حد تک اس سے متاثر تھے جس کا ذکر وہ خطبہ میں کر گئے ۔ بلکہ بعد میں اس مسئلہ کو بہت ہی طول دیا گیا جس کو افغانی ہوا کے نام سے جانا گیا ۔ 

۱۹۱۹ء سے تحریک کی شروعات ہوتی ہے اور ۱۹۲۰ء میں عدم موالات کی تحریک زورپکڑتی ہے اور تحریک خلافت کا وفد انگلستا ن کو جاتا ہے ۔عدم موالات کی تحریک نے ہندو ستان میں انگریزوںکی جڑوں کو بالکل ہلا کر رکھ دیاتھا اس کڑی میں ہندو ستان میں انگریزی فوج کی ملازمت کو حرام قرار دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی افواج میں ہندوستانیوں کی تعداد نہ کے برابر رہ گئی لیکن ترکی مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا پھر بھی ترکی نے یونان کے تینوںحملے کابھر پور جواب دیا اس زمانہ میں مصطفی خاں کے تدبر کا چرچہ عالمی پیمانہ پر ہورہاتھا جس کا اثر صلح نامہ سیورے کی ترمیم میں بھی نظر آیا۔ اس صلح نامہ کی رو سے تر کی کو میثاقِ ملی کی تقریباً کل شرطیں حاصل ہوگئیں ترکوں نے اپنے مطالبات مرتب کرنے میں کافی تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا تھا اور ایسی چیزیں طلب نہ کی تھیں جو ناممکن الحصول ہوں ۔ اس فتح پر تحریک خلافت کے بہت ہی اثرات مرتب ہوئے جس میں سے ایک بڑی وجہ ہندوستان کی عام بغاوت تھی ۔ پورا ملک انگریز کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ ہندوستان کے سارے مسلمان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور گاندھی جی اپنی تمام تقریروں میں خلافت کو بنیادی حیثیت قرار دیے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ خلافت مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور اس میں انگریزوں نے بے جامداخلت کی ہے اور ہمارے بھائی مسلمان آزردہ ہیں تو ہم کیسے مسرور رہ سکتے ہیں ۔اس لیے ہندوستان میں ’’ تحریک خلافت ‘‘ یہاں کے پرشور نعروں ، ہندو مسلمان اتحاد کے مناظر ، جیل خانوں کے پر کرنے کی تمناؤں ، اور گولی کھانے کی آرزؤں ، ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کے اس متفقہ فیصلہ سے اسلام کو بچانے کی شکل صرف یہ ہے کہ ہندوستان سے انگریزوں کو اکھاڑ کر اس کی طاقت توڑدی جائے ۔ ان سب نے تر کان آل عثمانیہ کی بڑی سی بڑی امدد کی ۔ مسلمانوں نے طے کرلیا تھا کہ ہندوستان کو انگریزکے چنگل سے بہر حال آزاد کرایا جائے خواہ کچھ بھی ہو۔ یہ وجہ تھی کہ دنیا کے مسلمان کا ایک بڑا طبقہ جو ہندوستان میں تھا وہ انگریز سے سخت برہم تھا جس کا فائدہ ترکی کو ملا۔لیکن خلافت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی کہ نومبر ۱۹۲۲ ء کو مصطفی کمال نے ترکی کو ایک جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا اور سلطان وحید الدین کو معزول کردیا اور سلطان عبدالمجید خاں کو ان کی جگہ خلیفہ مقرر کر دیا گیا مگر ایک جمہوری ملک میں خلیفۃ المسلمین کا کیا کام۔پندرہ مہینہ کے بعد ۳؍ مارچ ۱۹۲۴ ء کو   نام نہاد خلافت کا خاتمہ مصطفی کمال پاشا نے کردیا اور ترکی دیگر حکومتوں اور سلطنتوں کی طرح ایک دنیا وی حکومت رہ گئی ، پاشا کے اس فیصلے سے ہندو ستان میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جو مصطفی کمال پاشامسلمانوں کا ہیرو بن کر ابھر ا تھا اب لعن و طعن کا نشانہ بن گیا ۔ہندو ستانیوں کو بھی لعن و طعن کا شکار ہونا پڑا جو بھی خلافت کا طلبگار تھا اس کا حکومتی افراد و اخبارات نے خوب مذاق اڑایا گاندھی جی بھی اس کے زد میں آگئے تو انہوں نے ایک طویل مضمون لکھا کہ اس تحریک سے ہمیں کیا ملا ۔گاندھی جی لکھتے ہیں ’’ اگر میں کوئی پیغمبر ہوتا اور مجھے غیب کا علم دیا گیا ہوتا اور میں جانتا کہ تحریکِ خلافت کا یہ انجام ہوگا تب بھی میں خلافت کی تحریک میں اسی انہماک سے حصہ لیتا ۔ خلافت کی یہی تحریک ہے جس نے قوم کو بیداری عطا کی اب میں پھر اسے سونے نہیں دوںگا ‘‘ ۔ ان تمام عالمی مایوسیوں کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کا جوش و خروش بالکل قائم تھا ، خلافت کمیٹیاں اپنا کام کررہی تھیں ، جلسے ہورہے تھے جن میں احتجاج تھا اور اس بات کی بھی کوشش تھی کہ مصطفی کمال پاشا اپنا فیصلہ بدل لے ۔لیکن اب ان اجلاس کا کام صرف انگریزوں سے دشمنی کے لیے رہ گیا تھا تر کی کا واپس آنا پھر مقصد میں کامیاب نہ ہونا لاکھوں مسلمانوں کے لیے کر ب کا سبب بنا ہوا تھا خلافت کے ذمہ داران اورکارکنا ن ایسی تحریریں لکھ رہے تھے جن سے اب یہی احساس ہوتاہے کہ وہ خود کو تسلی دے رہے ہیں پھر بھی ان کی تحریک جاری رہی اور اب خلافت کے لیے حجاز کو میدان عمل بنا یا گیا۔ عر ب ممالک کے ترکی سے الگ ہوجانے کے بعد ہندو ستان کے علماء نے خلافت کے لیے ایک اور کوشش کی کہ اب حجاز میں خلافت قائم ہوجائے اور وہ دنیا کے مسلمانوں کی سربراہی قبول کر لے اس کے لیے خلافت کمیٹی نے ایک وفد مولانا سید سلیمان ندوی کی قیادت میں روانہ کیا جس میں تمام مسالک کے علماء تھے جو مکمل ہندو ستان کی نمائندگی کررہے تھے ۔لیکن شریف مکہ نے وفد کی اس تجویز کو کہ حجاز میں اسلامی جمہوری حکومت عالم اسلام کی رائے سے قائم ہو کو نامنظور کر دیا اور مزید آگے کی سفر کی اجازت نہیں دی ۔ اس کے بعد ہندوستان میں ایک لمبی بحث طرفداران شریف اور عبدالعزیز میں چلی جس میں خلافت کمیٹی بھی دو حصوں میں بٹ گئی ایک علی برادران کی اور دو سری طرف مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی جماعت تھی جن کے ساتھ مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا نثار احمد کانپوری وغیرہ تھے جن کی ایما ء سے انجمن خدام الحرمین قائم ہوئی جس میں شیخ مشیر حسین قدوائی اور سید جالب دہلوی بھی شریک تھے ان لوگوں نے ایک عظیم الشان جلسہ رفاہ عام میں کیا اور دل کھول کر سلطان ابن سعود نشانہ میں لیا ۔ اس وقت علی برادران کی جماعت کو عوام سے بالکل بھی معاونت نہیں ملی یعنی جس محمد علی جوہر کی تقریر سننے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سامعین آتے تھے اس وقت ہزار بھی میسر نہیں ہوئے جس پر مو لانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں ’’ تم جس تیزی سے دوڑ کر آتے ہواسی تیزی سے فرار بھی کر جاتے ہو، پس نہ تمہار ی تحسین کی کوئی قیمت ، تمہاری توہین کا کوئی وزن ، تم نہ دل رکھتے ہو نہ دماغ ، وساوس ہیں جنہیں افکار سمجھتے ہوخطرات ہیں جنہیں عزائم کہتے ہو ۔‘‘ الغرض خلافت تحریک اپنا دم توڑ چکی تھی محمد علی جوہر کی کوشش پھر بھی مستقل جاری تھی لیکن نئی حکومت میں اس قدر حوصلہ نہیں تھا کہ وہ خود کو اس کے لیے تیار کر سکے، کمیٹیاں قائم تھیں تواس کے اجلاس ہورہے تھے۔مو لا محمد علی جوہر کی وجہ سے اس خلافت کے چراغ میں اب بھی رمق باقی تھی لیکن چراغ جلا نے والے مولا فرنگی محلی ۱۹۲۶ء میں ہی دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...