Saturday 20 March 2021

سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی : تعمیرذات سے تعمیر وطن تک

 سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی : تعمیرذات سے تعمیر وطن تک

امیر حمزہ قاسمی

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ کے بعد ملک عزیز سے نہ صر ف مسلمانو ںکے سیاسی نظام کا جنازہ نکلتا ہے بلکہ پرانا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں ۔ ہمارا قرون وسطیٰ کا سارا تہذیبی سرمایہ نیست و نابود ہوجاتا ہے ۔دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب وتمدن کا گہوارہ تھی اٹھارہ سو ستان کی تباہی کے بعد اس طر ح تباہ و برباد ہوجاتی ہے کہ اس سے زیادہ کی تباہی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ۔پرانے لوگ جو بادشاہ کے رحم وکرم پرجی رہے تھے وہ یا تو غدر کا شکار ہوگئے یا پھر مملکت انگلیشیہ کے فرمانبردار ، گویا ایسی حالت تھی کہ کوئی سر اٹھانے والا نہیں تھا ۔دلی کے علمی و ادبی مراکزاجڑ چکے تھے ۔پرانے لوگ ماتم کناں تھے۔ ایسے وقت میں معاشرہ میں مبلغین اور واعظین کی پکڑ مضبوط تھی اور وہ لو گ جو فکر ولی اللہی سے منسلک تھے ان کی رگ میں انگریزوں سے جہاد کا خون دوڑ رہاتھا ۔اس مایوسانہ دور میں ہندکی آزادی کے بطل جلیل اور دہلوی تہذیب کے علمبردار ، جمعیۃ علماء ہند کے کھیون ہار اور خلافت تحریک کے سپہ سالا رمولانا احمد سعید دہلوی کی پیدائش ۵؍ دسمبر ۱۸۸۸ء کو حافظ نواب مرزا کے یہاں کوچہ ناہر خاں دریا گنج دہلی میں ہوتی ہے ۔

آپ کے والدمحتر م حافظ نواب مرزا زینت المساجد میں امامت کے منصب پر فائز تھے اور مکتب میں پڑھاتے بھی تھے ۔۱۹۰۸ء میں ان کا انتقال ہوا اور اپنے آبائی قبرستان چونسٹھ کھمبے میں دفن ہوئے ۔ وہ زمانہ صوفیوں کا تھا خواجہ میر در د اور خواجہ ناصر عندلیب کا در عوام سے لے کر خواص تک کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل تھا اسی عہد کے اہم صوفیا میں سحبان الہند کے دادا محتر م خواجہ نواب علی کا شمار ہوتا ہے ۔آپ کے خاندان کے متعلق لکھا گیا ہے بادشاہ اکبر نے آپ کے اجداد کو عرب سے کشمیر بلا یا تھا ۔ پھر شا ہجہاں کے زمانے میں کشمیر سے آگر ہ منتقل ہوئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد دہلی کے کشمیر ی کٹر ہ(غدر سے پہلے لال قلعہ کے سامنے پتھر والا کنواں کے سامنے آباد تھا ) میں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔آپ کے آباو اجداد مستقل ( اکبر سے بہادر شاہ ظفر تک ) مغل دربار سے وابستہ رہے اور قلعۂ معلی سے خواجہ زادہ مغل کا خطاب بھی ملا تھا۔

مولانا نے دو شادیاں کی تھیں ۔ پہلی اہلیہ کو چھوڑدیا تھا ان سے دو اولادتھیں جو عہد فطانت میں ہی فوت ہوگئیں۔ دوسری شادی صوفی حکیم ممتاز احمد ہاشمی کی بہن سے ہوئی جن سے مولانا کی آٹھ اولادیں ہوئیں۔ چار لڑکے اور چار لڑکیا ں ۔لڑکوں میں محمد سعید ، مظہر سعید ، محمود سعید اور حامد سعید ۔ لڑکیوں میں سعیدہ بیگم ، مسعودہ بیگم ، محمودہ بیگم ، اور فہمیدہ بیگم تھیں ۔ سب سے بڑے لڑکے مولانا محمد سعید میونسپل کونسلر کے ممبر اور دینی بکڈپو کے مالک تھے ۔

تعلیم 

آپ نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے اور مولوی عبدالمجید مصطفی آبادی سے حاصل کی اور شایدحفظ بھی انہی کے پاس کیا کیونکہ حفظ کی دستار بندی بازار مٹیا محل سے ہوئی ۔بارہ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر چکے تھے اس کے بعد وہ ہر سال ۱۹۵۸ء تک قرآن پاک تراویح میںسناتے رہے ۔ ان کی عمر کوئی سولہ یا سترہ برس کی رہی ہوگی کہ ان کی طبیعت وعظ گوئی کی جانب مائل ہوگئی۔ اس معاملہ میں شروع میں انہوں نے مولانا محمد حسین فقیر کا وعظ سنا پھر ان کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرحمن راسخ اور مولانا محمد ابراہیم کا وعظ سنتے تھے ۔مولانا عبدالرحمن راسخ جو داغ دہلوی کے ہم عصر تھے اور حدیث ، فقہ و تصوف کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی بے مثال تھے دو دیوان یاد گار چھوڑے۔ تصوف اور شاعری کی دنیا میں ان کا اہم کارنامہ ’’ کتاب مرقوم ‘‘ شرح اردو مثنوی مولانائے روم ہے ۔ ان کا وعظ اردو بازار کی مسجد میں بعد نماز جمعہ ہوا کر تا تھا اب یہ مسجد مولانا احمد سعید کہلاتی ہے ۔

حلیہ 

مولانا کی شخصیت بہت ہی جاذب نظر تھی۔کہتے ہیں اگر عبدالحی تاباں کے زمانے میں ہوتے تو آپ کے حسن کا چرچہ قلعۂ معلی میں ہوتا ۔ اکثر محفلوں میں مولانا کا ذکر کچھ اس طر ح ہوتا کہ ’’ میاں اگر آدمی حسین ہو تو احمد سعید جیسا ہو ‘‘ لیکن آپ کا دور تو جنگ آزادی کا دور تھا جنگ میں حسن کا کیا کام لیکن وعظ کی محفلیں تو آپ کی وجہ سے سجتی تھیں اور آپ مردوں سے زیادہ عورتوں میں مقبول تھے ۔ آپ کا قلمی خاکہ حاجی انیس دہلوی نے کچھ اس طر ح کھینچا ہے :

’’ سرخ و سفید رنگ ، دمکتا ہوا چہرہ ، بلند و بالا قد ، چوڑا چکلا جسم ، لمبے لمبے ہاتھ ، جو چلتے وقت آگے کم اورپیچھے زیادہ جھولتے تھے ۔بڑی بڑی چمکدار آنکھیں جن میں دلی کی تہذیب اور اس کے عروج و زوال کی بے شمار جھلکیاں پنہاں تھیں ، پتلے پتلے یاقوتی ہونٹ ، اونچی ناک ، پیشانی پر علم و صداقت کا روشن آفتاب ، ناتراشیدہ سفید بھرواں داڑھی ، جس پر کبھی کبھی پان کے سرخ قطرے شبنم کی طرح رقصاں نظر آتے ، انداز گفتگو نہایت نرم و شیریں ، کبھی کبھی دوران گفتگو مصنوعی دانتوں سے ہوا نکل جاتی اوربتیسی باہر آگرتی ۔ بدن پر بنیان یا بنڈی اس پر لمبا کر تا اور ایک ڈھیلی ڈھالی واسکیٹ ، موسم سرما میں روئی کی دو صدریاں ، ایک آدھی آستین کی اور ایک پوری آستین کی گھٹنوں تک زیب تن کر تے ، گھر میں سلاہوا تہمد باہر جانا ہو تو چوڑی مو ری کا پاجامہ ، پیر میں موزے ، بغیر بند کا جوتا یا سلیم شاہی جوتی ، عربی چغے(چوغے) کے ساتھ سر پر دو پلی ٹوپی کے اوپر عربی رومال اس انداز سے بندھا ہوتا کہ دیکھ کر عرب مجاہدوں کی جلالت آنکھوں کے رو برو رقصاں ہوجاتی ۔‘‘ 

وعظ گوئی و مناظرہ کا آغاز 

آپ کی علمی قابلیت حفظ سے متجاوز نہ تھی اور غالباً لکھنا بھی نہیں آتا تھا لیکن باطنی جوہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا اور وعظ کی نکات اور مناظرہ کو سمجھنا تو دور بلکہ وہ عملی میدان میں اتر چکے تھے۔اس زمانہ میں لوگ گھروں میں وعظ اور میلاد شریف کی محفلیں منعقد کیا کرتے تھے تو شروع شروع میں مولانا کو ایسی ہی محفلوں میں بلا یا جاتا تھا بعد میں کوچہ چیلا ن کی مسجد میں (جو فی الحال مفتی کفایت اللہ مسجد کہلاتی ہے ) ہر جمعرات کو وعظ کہنا شروع کیااور یہ ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔ ایک وعظ کا دو روپیہ مل جاتا تھا ۔ باپ کا سایہ سر سے بچپن میں ہی اٹھ چکا تھااس لیے باضابطہ روزی روٹی کے لیے وہ تار کشی کا کام شروع کر چکے تھے ۔  

آپ جب مدرسہ حسینیہ میں زیر تعلیم تھے تواس وقت مدرسہ میں مولانا محمد ابراہیم اور مدرسہ حسین بخش میں مو لانا کرامت اللہ خاں کا وعظ ہوتا تھا ۔( مولانا کرامت اللہ خاں مو لانا قاسم نانوتویؒ کے شاگردوں میں سے تھے لیکن رضاخانیت کی جانب میلان تھا ) تو دونوں حضرات اپنے وعظ کی محفلوں میں اختلافی مسائل بیان کیا کر تے تھے اور ایک دوسرے کے خیالات کا رد کیا کر تے تھے ، تو اس زمانہ میں سماعِ موتیٰ کا مسئلہ عوام و خواص میں گرم تھا، خو ب بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ ایسے میں مولانااحمد سعید مولانا ابراہیم بنتے تھے اور صوفی حکیم ممتاز ہاشمی مولوی کرامت اللہ کا کردار ادا کرتے تھے ۔گویا یہیں سے ان کے مناظرہ کی تربیت شروع ہوئی ۔ مدرسہ حسینیہ میں حفظ کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا تھا لیکن روزی روٹی کے لیے تار کشی اور وعظ گوئی کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس زمانہ میں چاندنی چوک میں فوارہ کے سامنے عیسائی پادری اور ہندو پنڈت تبلیغی تقریر کیا کرتے تھے اس وقت مولانا کی عمر بیس بائیس برس کی رہی ہوگی تو وہ بھی کبھی کبھار تقریر کیا کر تے تھے ۔

عربی تعلیم 

مولانا جب فوارہ پر تقریر کیا کرتے تھے تو سامنے ہی نواب روشن الدولہ کی سنہری مسجد ہے اسی میں پہلے مدرسہ امینیہ قائم تھا جس کے صدر مدرس مفتی کفایت اللہ ؒ تھے ۔ان سے کسی نے مولانا احمد سعید کی تقریری صلاحیتوں کی تعریف کی تو مفتی صاحب نے مدرسہ کے ایک استاد مولانا محمد یٰسین سکندرآبادی کو اس بابت معلومات حاصل کرنے کو کہا ۔قاری صاحب وعظ میں شریک ہوتے ہی تھے اور مولانا احمد سعید کے متعلق ان کا خیال تھا کہ شاید وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں لیکن مفتی کفایت اللہ صاحب کا حکم تھا تو انہوں نے معلوم کیا۔ پہلی مر تبہ کوئی جواب نہیں ملا ، آخر کا ر اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ پوچھتے رہے اور جواب نا میں ملتا رہا ۔ایک دن مولا نا احمد سعید نے دل کاحال کہہ ہی دیا کہ ’’ مولوی صاحب آپ یہ بات پوچھتے ہیں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے ۔ کہیں پڑھا ہو تو بتائوں ، بھئی میں نے تو کہیں سے کچھ نہیں پڑھا البتہ پڑھنے کی آرزو ہے ‘‘ پھر بھی مولانا کو یقین نہیں آیا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب میل جول زیادہ ہوا تب یقین آیا کہ وہ انپڑھ ہیں۔پھر انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ مدرسہ امینیہ میں داخلہ لے لیجیے ۔مولانا نے کہا ’’ میں کیونکر پڑھ سکتا ہوں ، والد کے انتقال کے بعد گھر کا سارا بوجھ مجھ پر ہے ، دن بھر محنت کر تا ہوں تب جاکر کہیں گھر کا آذوقہ نصیب ہوتا ہے۔ ان حالات میں داخلہ لے کر پڑھنے کی فرصت کہاں ۔‘‘ مگر واعظ و مقرر احمد سعید کی قسمت میں پڑھنا نصیب تھا اس لیے شروع میں یہ سبیل نکالی کہ صبح کے وقت وہ مال تیا ر کر تے اور دو پہر کو چاندنی چوک کی دکانوں میں پہنچاتے اور شام کو سنہری مسجد میں عربی کی ابتدائی کتابیںمولانا محمد یٰسین سکندرآبادی سے پڑھا کرتے تھے ۔ایک سال میں جب عربی کی ابتدائی کتابیں ختم ہوئیں تو باضابطہ مدرسہ میں داخلہ لے لیا اور مفتی کفایت اللہؒ کے شاگر د خاص ہوئے ۔اس زمانہ میں درجہ بدرجہ کتابیں پڑھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے جتنی بھی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں سب کا ذکر سند میں ہوتا تھا ۔ بقول مو لانا حفیظ الرحماں واصف دہلوی ان کی سند میں درج ذیل کتابیں مذکور تھیں ۔

 تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی ، صحاح ستہ ، مشکوٰۃشریف، نخبۃ الفکر ، قدوری ، کنزالدقائق ، شرح وقایہ ، ہدایہ اولین ، ہدایہ آخرین ، اصول الشاشی، نورالانوار ، توضیح و تلویح، ایساغوجی، مرقاۃ ، شرح تہذیب، قطبی ، ملاحسن ، حمداللہ ، مناظرہ رشیدیہ ، ہدیہ سعیدیہ ، میبذی، مختصر المعانی ، مطول، شرح مائۃ عامل ، ہدایۃ النحو ، کافیہ ، شرح جامی ، مفیدالطالبین، نفحۃ الیمن ، قلیوبی، سبعہ معلقہ ، دیوان متنبی ۔ ان کتابو ں کی تدریس میں مفتی صاحب ؒ کے علاوہ مولانا محمد ضیاء الحق دیوبندی ، مو لانا محمد قاسم دیوبندی اور مولانا محمد سید انظار سہس پوری استادرہے ۔ فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں معین مدرس ہوئے اور باضابطہ مدرس رہ کر کئی سال تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔

مدرسہ امینیہ میں داخلہ کے بعد تار کشی کا کام چھوٹ گیا تھا ، مختلف اوقات میں وعظ و تبلیغ کے نذرانوں سے گزر بسر ہورہی تھی۔ فراغت کے بعد وعظ کانذرانہ لینا بھی بند کر دیا تھا پھر روزگار کا سلسلہ فراش خانہ کی مسجدمیں تفسیر قرآن و ترجمہ قرآن سے شروع ہوا ، وہاں سے ماہانہ ساٹھ روپے مل جایا کر تے تھے ۔اسی درمیان نظام حیدرآباد سے ۱۲۵؍ روپے ماہانہ منصب بھی عطا ہوا جو کئی برس تک جاری رہا مگر جب آپ نے تحریک خلافت میں علانیہ حصہ لیا تو یہ منصب بھی بند ہوگیا ۔ پہلی مرتبہ ۱۹۲۱ء میں گرفتار ہوکر جیل گئے تو دہلی کے بعض متمول حضرات نے اہل و عیال کے لئے کچھ وظیفہ مقرر کر دیا۔

 بحیثیت مناظر و مبلغ 

تحر یک خلافت کے دور میں جب عدم تعاون کی تحریک زور و شور سے چل رہی تھی تو عین اسی زمانہ میں ہندوستان میں آپسی بٹوارے اور چپقلش کا نیا دور شروع ہوا جس کو شدھی تحریک نے بہت ہی زیادہ اچھالا۔ عیسائیوں سے تو مناظرے ہوہی رہے تھے اب ہندوؤں سے بھی ہونے لگے ۔ عیسائی تو خیر سات سمندر پار سے آئے تھے اور مشتر کہ کلچر میں ان کا عمل دخل کم تھا لیکن ہندو مسلمان جو ساتھ ساتھ ایک ہی بستی میں رہا کر تے تھے ان مناظر وں سے آپسی تفریق ہونا شروع ہوگئی تھی جس سے آزادی کی تحریک میں بھی بڑا خلل پڑا ۔سوامی شردھانند جو دو سال قبل جامع مسجد دہلی میں ہندوستان کی یکجہتی کے لیے تقریر کر تے ہیں وہیں ۱۹۲۲ ء میں شدھی تحریک کے اہم محرک کے طو ر پر نظر آتے ہیں اور اپنی تحریک ملکانوں کے علاقہ سے شروع کر تے ہیں اور ہزارہا ملکانوں کو مرتد کر دیتے ہیں ۔ابھی جمعیۃ کے قیام کے صرف ڈھائی تین برس ہی گزرے ہوں گے کہ اس کے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے ۔ مفتی کفایت اللہ ؒ جمعیۃ اور مدرسہ امینیہ کی جانب سے سیکڑوں وفد مرتدین کے درمیان بھیجتے ہیں۔ پہلا وفد اچھنیرا کے مقام پر خود ہی مفتی کفایت اللہ صاحب لے کر جاتے ہیں ۔ ان وفود کے صدر مولا وحید حسن خاں ٹونکی، مولانا محمد عرفان ناظم جمعیۃ علماء ہندو مدیرالجمعیۃاور کبھی مولانا احمد سعید ہوا کر تے تھے ۔

ایک مرتبہ حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ کے پاس خبر پہنچی کہ فلاں گاؤں پورا کا پورا مرتد ہوگیا ہے۔ انہوں نے مولاناحمد سعید کو حکم دیا کہ فورا ً روانہ ہو جاؤ ۔ مولانا احمد سعید دل کے کمزور تھے ، بہت ہی ہچکچا رہے تھے مگر حضرت کے حکم کی وجہ سے روانہ ہونا پڑا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ آریوں نے انہیں یہ کہہ کرمرتد کرالیا کہ ’’ تمہارے باپ دادا سب ہندو تھے ۔ مسلمانوں نے آکر تم کو زبردستی مسلمان بنایا ہے اور تمہاری چوٹیاں کاٹیں۔‘‘ اس پر مولانا کی خوبصورت تقریر ملاحظہ فرمائیے جس سے آپ کو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ انہیں سحبان الہند کیوں کہاجاتا تھا:

’’ آج اس گاؤں میں آکر اور ایک بہادر قوم کے سپوتوں سے مل کر میں بے انتہا خوش ہوا ہوں ۔ ملکانہ قوم دنیا کی چند بہادر قوموں میں سے ایک ہے ۔ یہ قوم ہندوستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ تمہارے باپ دادا نے ہمیشہ ہندوستان کی حفاظت کی ہے ۔ دشمنوں سے کبھی ہار نہیں مانی ہے ۔ اور بھئی ! مجھے ان لوگوں پر بڑی حیرت ہوتی ہے جو تمہارے باپ دادوں کو تمہارے منھ پر بزدل اور ڈر پوک کہتے ہیں اور تم جو ان سورماؤں کی اولاد ہو سنتے ہواور برا نہیں مانتے ہو۔ لوگ تمہیں آکر بہکاتے ہیں کہ تمہارے باپ دادوں کو مسلمانوں نے مار مار کر زبردستی مسلمان بنایا تھا اور ان کی گردنیں پکڑ پکڑ کر چوٹیاں کاٹ ڈالی تھیں ۔ کیا واقعی تمہارے باپ دادا ایسے ہی کمزور اور ڈرپوک تھے ۔ مجھے یقین نہیں آتا دیکھوبھئی ! یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ۔دھوکہ دیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمہارے باپ دادا سے کوئی آنکھ بھی نہیں ملا سکتا تھا ۔وہ اسلام کو ایک اچھا اورسچا دین سمجھ کر اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے تھے ۔کیا اب تم اپنے سچے دین کو چھوڑ کر تمہارے باپ دادوں کی روحوں کو صدمہ نہیں پہنچارہے ہو ؟‘‘ 

کہتے ہیں تقریر ختم ہونے کے بعد ازسر نو لوگ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے جب آپ کے اندر اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور شیریں بیانی پائی تو سحبان الہند کا خطاب دیا اور حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ ہمیشہ آپ کو اعلیٰ حضرت کہہ کر خطاب فرمایا کرتے تھے ۔

اس زمانہ میں آریوں میں قدآور مناظر موجو د تھے۔ پنڈت رام چندر جی کا نہ صرف دہلی بلکہ ہندوستان بھر میں چرچا تھا ۔مو لانا نے ان سے بھی مناظرے کیے اور مولانا کی خطابت سب پر غالب رہی ۔مفتی کفایت اللہ بھی زبر دست مناظر تھے۔ اپنے زمانے میں انہوں نے قادیانیوں کے خلاف شاہجہاں پور سے ایک رسالہ ’’ البرہان ‘‘ بھی جاری کیا تھا،لیکن مولانا احمد سعید کو وہ مناظر کے روپ میں پیش کرتے اور خود معاون رہتے تھے ۔مو لانا کو شاید جوانی میں ہی اپنی شیر یں بیانی کی وجہ سے ’’ سحبان الہند ‘‘ کہا جانے لگا تھا ۔ مو لانا راسخ دہلوی کے شاگر دتھے تو زبان و ادب میں کھرے تھے مزید برآں یہ کہ وہ خود دہلی کے روڑے تھے اور کر خنداری زبان پر قدرت کاملہ حاصل تھی اس لیے ان کی تقریر اور محاوراتی زبان کے سامنے مخالف خود بخود پست ہوجاتا تھا۔ انہوں نے دہلی شہر میں کئی مناظرے پنڈت رام چندر جی سے کیے تواجنبیت کی بات ہی نہیں تھی، دونوں کاروباری تھے۔ مولانا تارکشی کا کام کر تے تھے اور پنڈت جی سنار تھے۔ تو ایک مناظرہ میں پنڈت جی کہتے ہیں : ’’مولوی جی یہ دلیل ہے دلیل چاندی یا تانبے کا تار نہیں جس کو آپ کھینچ تان کر بڑھا لیں اور اپنے مطلب کا بنا لیں ۔ یہ دلیل ٹس سے مس نہ ہوگی‘‘ مو لانا کہتے ہیں ’’میری دلیل برہانِ قطعی ہے یہ سونے کی ڈلی نہیں ہے یہ فولاد ہے یہ آپ کی کھٹ کھٹ سے نہیں پچکے گی ‘‘ ۔

ایک مناظرے میں وحی کے بالواسطہ و بلا واسطہ نازل ہونے پر گفتگو ہوتی ہے ۔مولانا مناظر ے میں کھل کر یہ بات کہاکرتے تھے کہ ’’جو کچھ ہے استاد کا فیض ہے ۔ میری تقریر میں زبان میری ہے اور دماغ استاد کا ہے۔‘‘ 

سیاسی و ملی خدمات 

۲۸؍دسمبر ۱۹۱۹ء کو امرتسر میں جمعیۃ کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی نے کی ، اسی دن دو پہر کو دوسرا اجلاس مفتی کفایت اللہ کی صدارت میں منعقد ہوتا ہے ۔ اسی روز اول سے مولانا احمد سعید صاحب جمعیۃ کے ناظم عمومی مقرر کیے گئے اور ۱۹۴۰ء تک مسلسل وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد وہ کل ہند جمعیۃ کے نائب صدر اور حلقہ دہلی کے صدر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۵۷ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ کے صدر بنائے گئے اور وفات تک اس پر فائز رہے ۔مدرسہ امینیہ میں جو مفتی صاحب کا کمرہ خاص تھا اسی میں شروع میں جمعیۃ کے تمام امور انجام پاتے رہے۔ ہندوستان بھر کے تمام علماء کی فہر ست کرنا اور ان کو مطلع کر نا ایک عظیم کام تھا جس کو ان دونوں اکابر نے بڑی عرق ریزی سے انجام دیا ۔اس پر آشوب دور میں جب مسالک کے شعلے بہت ہی تند وتیز تھے مسجدیں مسالک کے تحت تقسیم ہوچکی تھیں ایسے میں تمام علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دینا خداوند ِ قدوس وقضاو قدر نے مو لانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امر تسری، مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید کے لیے مختص کر رکھی تھی۔ اس کے بعد شہر شہر قریہ قریہ گھوم گھوم کر جمعیۃ کو روشناس کر انا، اس کی سیاسی ضرورت و اہمیت کو عوام کے ذہنوں میں جاگزیں کرانا، اس کو چلانے کے لیے مالی اعانت کی اپیل کرنا، لیڈروں سے سیاسی معاملات میں باتیں کرنا، دفتر کے پائی پائی کا حساب رکھنا، ساتھ ہی ہند وبیرون ِ ہند علماء سے خط و کتابت کر نا وغیرہ۔

تحریک خلافت کے ذیل میں جمعیۃ کا قیام عمل میں آیا جس سے ملک کے علماء جڑتے چلے گئے جس کے بعد ملک کی سیاست میں بہت ہی تیزی سے بھونچال آیا، رولٹ ایکٹ کی ناراضگی کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا نے لگا، عدم تعاون تحریک کے ساتھ گاندھی جی میدان ِ آزادی میں آتے ہیںجس پر سب سے زیادہ مسلمان عمل پیرا ہوتے ہیں اور جیل بھرو تحریک میں بھی علماء پیش پیش رہتے ہیں۔ مولا نا احمد سعید ان تحریکا ت کے سلسلے میں پہلی مر تبہ اکتوبر ۱۹۲۱ء میں گر فتار ہوکر میاں والی جیل پہنچتے ہیں جہاں ایک سال کی سزا کاٹتے ہیں ۔ دوسری با ر ۱۹۳۰ء میں دہلی اور گجرات کی جیل میں دوسال کی سزا کاٹتے ہیں ۔تیسری بار ۱۹۳۲ء میں ایک سال کی سزا دہلی اور ملتان میں کاٹتے ہیں اور یہیں پر فتح الباری کے آخری حصہ کادرس اپنے استاد مفتی کفایت اللہ سے لی۔چوتھی بار ۱۹۴۰ء میں کچھ عرصہ کے لیے اعظم گڑھ میں قید کیے گئے۔پانچویں بار ۱۹۴۲ء کی تحریک آزادی میں تین سال کے لیے دلی، لاہور ، فیروز پور اور ملتان جیل میں نظر بند رہے ۔ اس موقع پر ان کے دولڑکے محمدسعید اور مظہر سعیدبھی جیلوں میں ساتھ ساتھ رہے ۔اس گرفتاری میں مولانا کے ہمراہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری ، عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، بیرسٹر آصف علی، لالہ دیش بندھو گپتا ، لالہ جگل کشور کھنہ ، مولانا داؤد غزنوی، لالہ شنکر لال ، پنڈت نیکی رام شرما ، منشی عبدالقدیر ، سید جلال الدین اور حافظ فیاض احمد جیسے جانباز مجاہدین آزادی تھے ۔

۴۷ء کا بلوہ اور مولانا کی خدمات

تقسیم ہند کے موقع پر دہلی اور پنجاب کے مسلمانوں پر جو کچھ بھی بیتی اس مو قع پر مولانا احمد سعید دہلوی اور مو لانا حفظ الرحمان سیوہاروی نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہندوستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش ایک سنہری باب ہیں۔اس تعلق سے کئی کارنامے ’’ مختصر تذکرہ خدمات جمعیۃ ‘‘ میں مذکور ہیں ۔ملاواحدی جو اردو ادب کے ایک اہم نثر نگار گزرے ہیں وہ مولانا احمد سعید کے دوست بھی تھے وہ لکھتے ہیں: 

’’ ستمبر ۱۹۴۷ ء کی ایک بھیانک رات تھی ۔ کر فیو کے باوجود کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی اور پکارا واحدی صاحب ! میں مکان کی دوسری چھت میںتھا جہاں مردانہ تھا ۔ میرے بڑے لڑکے مجتبیٰ واحدی نیچے اترے اور انھوں نے اطلاع دی کہ لالہ دیس راج ہیں ۔ دیس راج میونسپل کمیٹی کے ساتھی تھے ۔ علاقہ کا مسلمان ممبر میں تھا اور ہندو ممبر وہ ۔ میں نے مجتبیٰ سے کہا بلالو۔ دیس راج صاحب بولے آپ ہی آئیے ۔ خیر ! میں گیا تو متعدد موٹریں کھڑی تھیں ۔لالہ دیس راج نے کہا کہ یہ مسز کر پلانی ہیں صدر انڈین نیشنل کانگریس کی دھرم پتنی۔ یہ مسٹر شانتی سوروپ آہوجہ ہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ۔ مسزکر پلانی نے سوال کیا ’’ اس محلے میں تو امن ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’ ہاں اس محلے میں تو ابھی امن ہے مگر امن ٹوٹنے کا ہر آن امکان ہے ‘‘ ۔ مسٹر آہوجہ بولے ’’ مہاتما گاندھی کو اطلاع ملی کہ یہاں خطرہ محسوس کیا جارہا ہے ۔ آپ صاف صاف بتائیے کہ خطرہ کا ’’ وہم ‘‘ کیوں ہے ؟ مسز کر پلانی مہاتماجی سے کیا کہیں ؟ میں نے کہا ’’ برابر کے محلے زد میں آچکے ہیں اس وجہ سے اطمینان نہیں ہے ۔ مولانا احمد سعید صاحب کا گھر قریب ہے ان سے اور پوچھ لیجیے ۔ ممکن ہے کہ وہ کچھ اور زیادہ بتاسکیں ‘‘ چنانچہ مولانا سے پوچھا گیا ۔ انہوں نے بھی وہی فرمایا جو میں نے کہا تھا ۔ صرف اتنا اضافہ کر دیا کہ ’’ مسٹر آصف علی اور مفتی کفایت اللہ کا محلہ آپ کے انتظامات کا منتظر ہے ‘‘ ۔ آہوجہ صاحب نے کہا ’’آپ اور آپ کے ساتھی ڈاکٹر انصاری کی کوٹھی میں چلے جائیں ۔ وہ خالی ہے ۔ وہاں مطلب خطرہ نہیں رہے گا ۔ کوٹھی کی حفاظت محلے کی حفاظت کی نسبت آسان ہے ‘‘ ۔ مولانا نے فرمایا ’’ محض اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان پچانی کون سی اچھی بات ہے ۔ آپ بچا سکتے ہیں تو محلے کے نہیں شہر بھر کے مسلمانوں کو بچائیں آج کل ساتھی اورغیر ساتھی کا فرق محال ہے ۔‘‘ 

ایک دوسری جگہ ملا واحدی لکھتے ہیں: 

’’ ۱۹۴۷ء کے ہنگامے میں مولانا احمد سعید ، مولانا حفظ الرحمن ، حافظ عزیر حسن بقائی اور جعفری صاحب کا وفد روزانہ مولانا ابوالکلام آزاد ، پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی کے پاس جایا کر تا تھا جو تینوں کو بتایاکرتا تھا کہ مسلمانوں پر کل کیا گزری ۔ ایک دن گاندھی جی مسلمانوں کے پاس تشریف لے آئے ۔ کونے کونے کے مسلمان سمٹ کر مولانا احمد سعید کے علاقہ میں جمع ہوچکے تھے ۔ دلی اور محلے مسلمانوں سے تقریباً خالی تھے ۔ مہاتما جی کا جلسہ مسٹر آصف علی والے مکان کوچہ چیلان میں منعقد کیا ۔ مولانا احمد سعید نے تقریر شروع فرمائی۔ دوچار لفظ بولے ہوںگے کہ لفظوں کی جگہ آنسو بہنے لگے اور مولانا کی جگہ مولانا حفظ الرحمن نے تقریر کی تکمیل فرمائی ۔‘‘ 

الغرض دلی کے اجڑنے اور مسلمانوں پر جاں سوز مظالم کی داستانیں ہر جانب سے مولانا کے دل کو چیر رہی تھیں ۔ مولانا جان کوخطرے میں رکھ کر کوچہ چیلان سے نکلتے تھے اور سچیوالیہ تک جاتے اور سردار پٹیل کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے نیتاؤں سے مل کر مسلمانوں کی دردناک صورتحال کو بتاتے ۔ مولانا سیاست دانوں کی تمام باتوں ، مشوروں اور آفروں کو درکنار کرتے ہوئے پرانی دہلی میں ہی مسلمانوں کے ساتھ مقیم رہے اور کسی صورت بھی ذمہ داری سے مفر نہیں ہوئے ۔ان سب کے باوجود آخری عمر میں انہیں سیاسی شکست کا سامنا کر نا پڑا ۔۱۵ دسمبر ۱۹۵۸ کومولانا اور ڈاکٹر مرزا احمد علی کے درمیان راجیہ سبھا کے لیے مقابلہ ہوا جس میں آپ صرف دو ووٹ سے ہار گئے ۔ اس کے بعد وہ کہا کر تے تھے کہ چودھری برہم پرکاش نے الیکشن میں مجھے زبردستی پھنسا دیا جس کی وجہ سے یہ ذلت اٹھانی پڑی ۔

تقویٰ وامانت داری 

مولانا کی زندگی کی اٹھان ہی وعظ گوئی سے ہوئی تو آپ جان سکتے ہیں کہ وہ تقویٰ کے معاملے میں کس قدر محتاط رہے ہوں گے ۔ تو کل علی اللہ ان کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اسی لیے انہوںنے کاروبار پر قناعت کی پھر تعلیم میں لگے تو وعظ و ذکر کی محفلوں میں ملنے والی رقم سے ہی گزارا کیا پھر جب فراشخانہ کی مسجد میں تر جمہ قرآن پاک و تفسیر سنانے لگے توزندگی چل نکلی۔ خلافت تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے جب نظام حیدرآباد نے ان کا وظیفہ بند کیا توذرا بھی نہیں گھبرائے اور مدرسہ امینیہ کے مدرس کے طور پر ہی خود کو کاربند رکھا ۔ جمعیۃ کے ناظم عمومی بننے کے بعد بھی مو لانا کا معمول تھا کہ وہ فراش خانہ کی مسجد سے قرآن پاک کاترجمہ کر کے جمعیۃ کے دفتر میں آتے تو اپنی جیب سے نکال کرپیسے دیتے اور آواز دے کر کہتے ’’ میاں عبدالحق چائے تو بنالو‘‘ ۔وہ دوپہر کو آفس میں ہی رہتے اور کھانا گھر سے منگواکر تناو ل فرماتے ۔

آزادیٔ وطن کے بعد مولانا چاہتے تو بہت سی سرکاری مراعات حاصل کر سکتے تھے ۔ مولانا آزاد اور پنڈت نہرو ان کے قریبی دوست تھے ۔ مگر ان کی طبیعت میں جو توکل تھا وہ اتنااعلیٰ تھا کہ کبھی بھی گوارہ نہیں کیا کہ جب مسلمانوں میںقلمدان تقسیم ہورہے تھے مولانا بھی کچھ کہتے ۔یہی نہیں بلکہ ایک بار پنڈت نہرو نے اپنے سکریٹری جان متھائی کو مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ تین سو روپے ماہوار وظیفے کے کاغذات پر دستخط کر دیں لیکن مولانا نے انکار کر دیا ۔ مو لانا و دیگر اکابر کا موقف تھا کہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنا ان کا مذہبی فریضہ تھا اور مذہبی فریضہ کی ادائیگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ۱۹۴۰ ء میں جونپور میں جمعیۃ کاسالانہ اجلاس عام ہوا ۔ اس کی مجلس استقبالیہ کے سربراہ مولانا علی اعلیٰ تھے (جو جماعت اہل حدیث کے رکن بھی تھے) یہ مو لانا کے دوستوں میں سے تھے ۔ اجلا س ختم ہونے کے بعد مصارف کے بل پورے نہیں ادا ہو پارہے تھے ۔ اس طرف مولا نا احمد سعید کی توجہ مبذول کرائی ۔اس وقت جمعیۃ کے فنڈ میں بہت ہی کمی تھی تو مولانا احمد سعید نے اپنی اہلیہ کے زیورات میں سے ایک دو چیزیں گروی رکھ کر بل کی ادائیگی کرائی تھی۔

 مولانا اور دہلوی تہذیب 

 مولانا احمد سعید دہلوی کو تہذیب دہلی کی آخر ی نشان کہا جائے تو شاید کم مضائقہ ہوگا ۔ انہوں نے جس وقت آنکھیں کھولیں تو انگریزوں کی ٹاپوں سے کان ٹکرائے اور ہلکی ونرم آواز کے بجائے سڑکوں پر موٹروں کی دوڑتی ہوئی آواز ٹکرائی لیکن حویلیاں اب بھی اپنی چہار دیواری میں اس تہذیب کو ایک طر ح سے سنجوئے ہوئے تھیں جسے ہم دہلوی تہذیب کہتے ہیں اور تقسیم کے بعد مولانا اس کی آخری نشانی کے طور پر یاد کیے گئے ۔ زبان و ادب کا معاملہ یہ تھا کہ دس سال کی عمر سے ہی بچوں کے مشاعرہ میں شرکت رہی ، زبان ایسی بامحاورہ پائی تھی کہ واعظ بے مثال کہلائے ، زبان میں مزاح کا پہلو غالب تھا کہ مناظرہ میں سامعین کو اپنی جانب کھنچ لیتے ، شاعری میں تو راسخ کے شاگرد تھے ہی البتہ نثر میں ملاواحدی کے بے تکلف دوست۔ الغرض دہلی زبان کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہاں سارے شہر کی زبان ایک نہیں رہی ہے بلکہ یہاں عورتوں کی ، مزدوروں کی ، کبوتر بازوں کی ، بازار کی اور کر خنداروں کی زبانیں الگ الگ رہی ہیں تو مولانا کی جو ہنسی ٹھٹھول کی محفلیں ہوتی تھیں وہاں ان سب کا بھر پور مظاہرہ ہوتا تھا ۔ ان کے مردانہ مکان میں ہر روز محفل سجتی تھی جو نصف شب تک جاری رہتی تھی ۔ اس میں ہر طبقہ و خیال کے لوگ موجود رہتے ۔ دانشوروں سے لے کر کر خنداروں تک آپ کی محفل میں ہوتے ۔آپ کے دوست و احباب میں غوری پہلوان تھا او ر پنڈت نہرو بھی ، گنڈے دار ،مزدور یونین کے صدر ، عطرفروش ، مرغے والے آپ کے احباب میںسے تھے ۔ آپ کی محفلوں کا ایک خوشہ چین ابھی بھی باحیات ہے او ر وہ پنڈت آنند کمار زتشی گلزار دہلوی ہیں ۔

تقسیم کے فساد کے بعددہلی کی تاریخ سے بہت ساری چیزیں مٹ رہی تھیں جن کو آپ رسومات بھی کہہ سکتے ہیں اور روایات بھی جیسے لال قلعہ کا مشاعرہ جو ماضی قریب میں چار پانچ سال پہلے تک لال قلعہ کے اندر ہوا کرتا تھا اب باہر ہوتا ہے ۔ اس مشاعر ہ کا چرا غ سلطنت مغلیہ کے ساتھ بجھ چکا تھا ۔ ۱۹۵۲ ء میں اس ادبی روایت کو دوبارہ قائم کر نے کا سہرا مولانا احمد سعید دہلوی کے ہی سر جاتا ہے ۔وہ اس پہلے مشاعرہ کے صدر بھی تھے۔ اس کے مہمان خصوصی پنڈت نہرو تھے اور شاعروں میں آج کے نمائندہ شاعر گلزار دہلوی بھی ۔مولانا صدر تھے اور مشاعر ہ کا صدر شاعرہی ہوتا ہے ۔ جوش پاکستان نہیں گئے تھے وہ بھی شریک مشاعرہ تھے ۔ اس زمانہ میں جو ش نے اپنی عادت کے موافق علماء اور مذہبی معاملات کے خلاف اشعار پڑھے تو مشاعر ہ میں ہنگامہ ہوگیا ۔ ہنگامہ کے پیش نظر مولانااٹھ کر چلے گئے اور اپنی غزل بسمل شاہجہاں پوری سے پڑھوائی ۔وہ غزل یہ ہے:

لوگو جب میت مری لے کر چلے 

میرے ارماں نوحہ گر بن کر چلے 

زندگی سے اپنی گھبرا کر چلے 

گھر سے آئے تھے پلٹ کر گھر چلے 

ایسے آنے سے نہ آنا خوب تھا

شام آئے شب سے پہلے گھر چلے 

تیرے صدقے اے شہ لطف و کر م

ہاتھ خالی آئے دامن بھر چلے 

ساقیاظاہر ہو یوں شانِ کر م 

میکدے سے جو چلے پی کر چلے 

مقصد اپنا ہوگیا پورا اسیرؔ

مرنے آئے تھے کسی پر مر چلے 

 اسی طریقے سے فسادات کے بعد دہلی میں تعزیہ داری کی رسم ختم ہوچکی تھی ۔ ۵۲۔۱۹۵۱میں دوبارہ نکلوانے میں انہوں نے ذاتی طور پر دلچسپی لی۔ اگر چہ مولانا رسوم پرستی کے خلاف تھے اور منبر پر ہوتے ان سب پر خوب تقریریں کر تے تھے مگر تنہائی میں جب کسی باشعور فرد کے ساتھ ہوتے تو ان کا انداز جدا ہوتا تھا وہ رسومات کو عقائد پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ۔بزرگوں کے مزارات اور صوفیا کے بر گزیدہ طبقے سے بڑی عقید ت تھی اور ان کے مزاج میں رنگارنگی غالبا  اسی وجہ سے تھی ۔جب کبھی اجمیر اپنے داماد اور بڑی لڑکی سے ملنے جاتے تو گھر سے درگاہ تک ننگے پاؤ ں حاضری کو جایا کر تے ۔ سلطان جی کی ستر ہویں میں رات کے آخری پہر میں اپنے بے تکلف ساتھیوں کے ساتھ چکر لگانا اپنے لیے ضروری جانتے ۔ مولانا اگر چہ خانقاہی نہیں تھے لیکن بزرگوں سے عقید ت دہلوی تہذیب کا ایک حصہ تھا ، تو جب بھی وہ اداس ہوتے اور انہیں رونے کا جی چاہتا تو کسی گانے والے (قوال )کو ساتھ لے کر خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر حاضری دیتے۔ (یہاں سے ان کو گہری انسیت تھی ، ان کے استاد مفتی کفایت اللہ کو بھی تھی اسی لیے دونوں کی آخری آرام گاہ یہیں پر ہے ) 

درگاہ خواجہ نظام الدین سے انسیت کا ذکر کہیں نہیں ملتا البتہ خواجہ حسن نظامی اور ان کے گھرانے سے قریبی تعلقات تھے ۔ خواجہ صاحب کانگریسی نہیں تھے بلکہ ایک حدتک کانگریسیوں سے شدت کی پرخاش تھی پھر بھی جب کوچہ چیلان جاتے تو ملا واحدی ، آصف علی ، جعفری صاحب سے ملتے ہوئے مولانا احمد سعید سے ضرور ملتے اور کھانے و کھلانے کا دور چلتا ۔

تصانیف 

مولانا احمد سعید دہلوی نے اس عہد میں اپنی تقر یر وں سے الگ شناخت بنائی جب مو لانا ابوالکلام آزاد اور مو لانا محمد علی جوہر کی تقریروں سے ہند وستان گونج رہا تھا ایسے میں انہوں نے خود کو سحبان الہند ثابت کروایا ۔ان کی خطابت زبان و بیان اور شاعری کی وجہ سے پر جو ش ہوا کر تی تھی ۔ وعظ و نصیحت پر مغز اور اثر پذیر ہوتی ۔ آواز میں سوز تھا اس لیے حاضرین ہمہ تن گوش ہوکر ان کی باتیں سنتے اور اثر قبول کرتے ۔اسی طرح ان کی تحریریں بھی سلیس اورشگفتہ ہوتیں۔ وہ سیاست میں بھی سر گرم عمل تھے ، جمعیۃ کا بھی کام دیکھتے اور تدریس کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ان سب کے باوجود انہوں نے تقریباً بیس مذہبی و اصلاحی کتابیں لکھیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

(۱ ) جنت کی کنجی (۲) دوزخ کا کھٹکا  (۳) مشکل کشا (۴) خدا کی باتیں (۵) رسول کی باتیں (۶) دین کی باتیں (۷) پر دہ کی باتیں (۸) شوکت آرا بیگم  (۹) ازبلا (۱۰) جنت کی ضمانت ( ۱۱) ماہ رمضان (۱۲) صلوٰۃ و سلام (۱۳) عرش الٰہی کا سایہ (۱۴) تقاریر احمد سعید (۱۵) پہلی تقریر سیر ت (۱۶ ) دوسری تقریر سیرت (۱۷) رسول اللہ کے تیس معجزات (۱۸) مکاتیب احمد سعید (۱۹ ) ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں (۲۰) تفسیر کشف الرحمن ۔

آخری الذکر کارنامہ مولانا کا سب سے اہم اور وقیع علمی خدمت ہے ۔ اس کام کو انہوں نے اٹھارہ برس کی مسلسل محنت اور جانفشانی کے بعدمکمل کیا ۔ اس کی ابتدا ء انہوں نے ۱۹۳۸ء میں کی تھی جو ۱۹۵۶ ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی ۔وفات کے بعد اس تفسیر کو ان کے لڑکے حافظ سعید نے ۱۹۶۲ء میں کشف الرحمان کے عنوان سے ندوۃ المصنفین سے شائع کرایا ۔اس تفسیر کو اس وقت کے کبار علماء نے دل کھول کر سراہا ۔ یہ تفسیر پاکستان سے بھی شائع ہوئی ۔انیس ہاشمی دہلوی کی اس تفسیر کی اشاعت کے متعلق کچھ الگ رائے ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

 ’’دسمبر ۱۹۶۹ء میں جب کشف الرحمن کا نسخہ چھپ کر تیا ر ہوا تو مولانا کے بڑے بیٹے مولانا محمد سعید محروم اپنے والد کو یہ نسخہ دکھانے لائے تو مولانا نے اس نسخہ کو غور سے دیکھا ۔ یہ عصر کا وقت تھا اور مولانا نمازعصر سے فارغ ہوکر بیٹھے ہوئے تھے اسی روز مغرب کے بعد مولانا خالق حقیقی سے جاملے ۔ گویا مولانا کو انتظار تھا کہ کشف الرحمان کہ کشف الرحمان کا تیار شدہ نسخہ اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں اور وہ خدانے انہیں دکھا دیا ۔‘‘

 (ان کے علاوہ یہ بات مجھے کنہی اور صاحب کی تحریروں میں نہیں ملی اکثر نے وفات کے بعد کا ذکر کیا ہے) 

طباعت سے متعلق وہ ایک بات اور بیان کر تے ہیں کہ مولانا نے جب تفسیر کا کام مکمل کر لیا تو ان کے پاس پیسے نہیں تھے چنانچہ انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کو جنوبی افریقہ خط لکھا ۔ جن میں سے کسی صاحب نے مولانا کو قرض کے طور پر پچیس ہزار روپے دیے اور تفسیر کی طباعت کا کام مکمل ہوسکا ۔ انیس ہاشمی دہلوی کا یہ دعویٰ ممکن ہے کہ درست ہو لیکن گزشتہ صفحات میں تقویٰ و امانت داری کے ذیلی عنوان کے تحت میں جو باتیں لکھی گئی ہیں ان میں مجھے شک ہوتا ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ تفسیر وفات کے بعد ندوۃ المصنفین سے شائع ہوئی ہے پھر ایسی کیا ضرورت تھی (واللہ اعلم )

سفر آخرت 

 مولانا اپنی آخری زندگی میں کئی موذی امراض کے شکار ہوگئے تھے جیسے بواسیر، مسوں میں کھجلی ،گیس ، مستقل نزلہ ، سر دی لگنا اور راتوںکو نیند نہ آناوغیرہ ۔ ان حالات میں خیر یت پوچھنے والوںکو خود ہی کہا کرتے تھے کہ آخر زندگی کب تک ساتھ دے گی ، صبح ہوتی ہے تو شام کا بھروسہ نہیں اور شام ہوتی ہے تو صبح کا بھر وسہ نہیں ۔مذکورہ امراض کی معیت میں ۴؍ دسمبر ۱۹۵۹ ء کو مو لانا کی زندگی کا آخری دن تھا جب آپ نے اپنے معمولات کے مطابق دن بھر کے تمام کام انجام دیے اور مغرب کی نماز کے بعد بیت الخلا گئے ، واپس آکر بیٹھے اور ہاتھ میں اخبار لیے پھر ایک لڑکے کو جو اتفاق سے تنہا تھا بلائے اور کہے ’’ جابے محمد سعید کو بلا کر لا میری طبیعت خراب ہورہی ہے ‘‘ یہ سنتے لڑکا مولانا کے لڑکے کو بلانے گیا اور مو لانا بیٹھے ہی بیٹھے پلنگ کی عرض میں لیٹ گئے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی ، آخر ی دیدار کے لیے ہجوم بڑھتا ہی چلا گیا ۔ پنڈت نہرو بھی اپنے بزرگ ساتھی کے دیدار کے لیے آئے اور دیر تک سرہانے کھڑے رہے ۔ دوسرے روز جنازہ مہرولی لے جا یا گیا جہاں مولانا نے اپنی زندگی میں ہی مفتی کفایت اللہ کے قریب اپنی آرام گاہ تیار کرلی تھی ۔ اگر مولا نا کی یہ جگہ مخصوص نہیں ہوتی تو وہ جامع مسجد کے سامنے مولانا آزاد کے قریب ہی دفن کیے جاتے ۔خیر مولا نا کو مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ کے باہر ظفر کے محل کے قریب حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ کے دائیں جانب دفنا یا گیا ۔

جسم احمد سعید فانی تھا 

نام احمد سعید باقی ہے 


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...