Tuesday 2 February 2021

اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا

   اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا 

ڈاکٹر یوسف رامپوری 

قصیدہ شاعری کی وہ صنف رہی ہے جس کا زیادہ تر تعلق شاہی دربار سے رہا ہے ۔ اس کو شاہی صنف سخن بھی کہا جاتا ہے ، ہوبھی کیوں نا جس زبان میں اس صنف نے کمالات حاصل کیے بعد میں اسی زبان یا کسی اورز بان کا قصیدہ وہ مقام حاصل نہیں کر سکا ۔ اس صنف کے ساتھ ایک دوسری خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس نے جس زبان میں بھی جس عہد میں ترقی کی وہ اس زبان کی شاعری کا عہد زریں رہا ہے جیسے عربی میں دور جاہلی، عہد اسلام ، عہد اموی اور دور ِ عباسی میں قصیدہ کا زور تھا تو عر بی میں بھی انہی ادوار کی شاعری کو عہد زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے فارسی میں دیکھیں تو سبک خر اسانی، سبک عراقی، سبک ہند ی اور سبک بازگشت میں عمدہ شاعری کئی گئی ہے ان ادوار میں فارسی میںبھی قصیدہ کو عروج حاصل ہوا ۔ اسی طریقے سے اردو کو دیکھیں تو دکنی شاعری کا اپنا دور تھا وہاں قصیدہ نے ترقی کی پھر شمالی ہند میں ذوق و غالب تک اس صنف میں خوب طبع آزمائی ہوتی رہی ۔ اسی شاہی صنف کا مو ازنہ اردو اور عربی کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف رامپوری نے اس کتاب میں کیا ہے ۔ اردو کی دیگر اصناف کا موازنہ فارسی سے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے یہاں خیال بندی کی باتیں بھی دونوں زبانوں کے حوالے سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن اردو اور عربی شاعر ی کا موازنہ جس وسیع پیمانہ پر یوسف رامپوری نے پیش کیا ہے اس وسیع پیمانہ پر نہیں بلکہ ایک محدود پیما نہ پر چند شاعروں کے حوالے سے مطالعات سامنے آئے ہیں ۔ اس کتاب میں طویل علمی اور تحقیقی مقدمہ حقانی القاسمی کا ہے جس میںانہوں نے عربی میں قصیدہ نگاری کے حوالے سے بہت ہی معلوماتی و تحقیقی گفتگو کی ہے ،اسی درمیان کئی مقامات پر اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عربی قصیدہ نگاری پر جتنا کام انگریزی میں ہوا اتنا کسی اور زبان میں نہیں ہوا ہے ۔(اعنی: عرب اور عجم کی تفریق ہی زبان دانی پر ہے تو انگریزمحققین و ناقدین نے عرب کے اس تعلّی پر کام بھی خوب کیا ) حقانی صاحب نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اردو اور عربی قصائد کے حوالے سے یوسف رامپوری نے جو کام کیا ہے وہ بالکل انوکھا ہے کیونکہ ’’انہوں نے عربی و اردو قصائد کے کینن ، اشتراکات اورافتراقات پر نظر ڈالی ہے ۔‘‘ مصنف نے کس طور پر نظرڈالی ہے اس کو کتاب کے مطالعہ سے معلوم کرتے ہیں ۔

کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب ’’اردو اور عربی قصیدہ گوئی : خصوصیات و امتیازات ‘‘ ہے ۔ اس باب میں مندرجہ ذیل نکات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ قصیدہ کے متعلق سب سے پہلے وہ وضاحتی بات یہ لکھتے ہیں کہ عربی میں قصیدہ بہت ہی وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، سات یا اس سے زیادہ اشعار ہوں تو عربی میں قصیدہ ہوتا ہے موضوعات کی کوئی قید نہیں ۔ اردو میں قصیدہ باضابطہ ایک صنف سخن ہے جس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم ردیف و ہم قافیہ ہوں یا صرف ہم قافیہ ہوں باقی اشعار کے دوسرے مصرعے بھی اسی نہج پرہوں ۔ اردو میں قصیدہ کےاجزائے ترکیبی میں مدعاکو بھی شامل کیا جاتا ہے جبکہ عربی و ارد و دونوں میں اس کاالتزام نظر نہیں آتا ہے ۔ا س کے علاوہ جو دیگر چار عناصر ترکیبی اردو قصیدوں میں اہمیت کے حامل ہیں وہ عربی میں ایک ساتھ بہت ہی کم پائے جاتے ہیں۔ قصیدے کی خصوصیات میں سے شوکت الفاظ ، نادر تشبیہات اور پر شکو ہ الفاظ بھی ہیں اس میں عربی قصیدہ تو نمایاں مقام رکھتا ہی ہے اردو قصیدہ بھی اپنی کم دامنی کے باوجود بھر پور کوشش کرتا ہوا نظر ہوتا ہے ۔ جوش تو عربی میں نظر آتا ہے ار دو میں جو ش لانے میں ایک طر ح کا تصنع نظر آتا ہے ۔ عربی قصائد میں فخر و تعلّی کی بات کی جائے تو قصائد کی بنیادی بات نظر آنے لگتی ہے جب کہ ار د و قصیدہ نگاروں کے پاس کوئی ایسی چیز یا وجہ نظر نہیں آتی ہے جس پر وہ فخر و تعلّی کے اشعار پیش کر یں ، عر ب والے تو اپنی نسل پر تو کرتے ہی تھے ساتھ ہی اپنے گھوڑوں کی نسل و دیگر فنون پر بھی فخریہ اشعار پیش کیا کرتے تھے ، جبکہ اردو میں ممدوحین کی بہادر ی و سخاوت کا ذکر کیا گیا ہے ۔وصف نگاری اور سراپانگاری عربی قصیدوں میں فطری انداز میں نمایاں نظر آتی ہے جبکہ ارد و والوں کے یہاں تخیل کی کارفرمائی کے بعد بھی غلوو مبالغہ دیکھنے کو ملتا ہے جس سے سراپا نگار ی حقیقت سے بہت ہی دور چلی جاتی ہے ۔ ہاں ! اردو میں نظموں و مرثیوں میں عمدہ سراپا نگاری ملتی ہے ۔مبالغہ پر مصنف لکھتے ہیں کہ’’ اگر مبالغہ کو قصیدہ کا معیار سمجھا جائے تو اردو قصیدے اس معیار پر کھرے اترتے ہیں اور عربی قصائد سے کئی قدم آگے بڑھ جاتے ہیں ‘‘۔ بالآخر جب موضوعات کی جانب رخ کر تے ہوئے مصنف عربی و اردو قصائد کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تووہاں اردو قصیدے عربی قصیدے کی بہ نسبت زیادہ متنوع دکھائی دیتے ہیں ۔

 دوسرا باب ’’ عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا ء ‘‘ پر ہے۔ اس باب میں انہوں نے سولہ شعرا کا ذکر کیا ہے ۔ زمانہ ٔ جاہلیت سے امر ؤالقیس، زہیر بن ابی سلمیٰ ، طرفہ بن العبد ، لبید بن ربیعہ ، عنترہ بن شداد العبسی اور اعشی قیس کو شامل کیا ہے ۔ عہداسلام سے حسان بن ثابت ، کعب بن زہیر اور حطیۂ ہیں ۔ دورِ اموی سے اخطل ، جریر، فرزدق ، جمیل بثینہ اور عمربن ربیعہ ہیں ۔عہد عباسی سے ابونواس اور متنبی ہیں ۔ان تمام کے بیان میں مصنف نے ان شعراء کی زندگی ، قصیدہ کے موضوعات ، ان کے اہم قصائد کی خصوصیات ، ماقبل کے قصیدہ گو شعراء سے کس طرح مختلف ہیںاور انہوںنے قصیدہ میں کیسی زبان استعمال کی ہے اس کو بیان کیا ہے ۔مصنف نے کئی شعراء کے بارے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کا تشبیب اور گریز کس معیار کا ہے اور اس میں کن موضوعات کو بہ کمال ہنر مندی پیش کرنے میں وہ یکتا تھے ۔موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جاہلی دور کے تقریبا تمام شعرا کا تشبیب ایک طر ح کا نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی وہ گریز سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو قصیدہ کے حوالے سے ان کی اپنی شناخت نظرآتی ہے ۔ مصنف نے تما م شعرا کا ایک ہی نہج پر مطالعہ نہیں پیش کیا ہے بلکہ ہر ایک کی نمایا ں خصوصیات کو سامنے لا یا ہے اور کمیوں کو بھی پیش کیا ہے جیسا کہ متنبی کے بیان میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مدح کی وجہ سے متنبی کا مقام بلند بھی ہوا ہے اور وہ اپنے مقام سے گرا بھی ۔‘‘ کیونکہ مدحیہ اشعار میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی نے اس کو وہ مقام نہیں دلایا جو دیگر کوملا ۔ البتہ وہ عرض طلب میں بہت ہی بے باک اور فصیح بھی واقع ہوا ہے ، کہ سیف الدولہ کی خدمت میں ایک بار میں ایک ہی شعر میں بائیس درخواستیں رکھ دیں ۔الغرض اس باب میں عربی قصیدہ نگاری کی تفہیم کے لیے بہت کچھ ہے ۔ 

 تیسرا باب ’’ اردو کے اہم قصیدہ نگار شعرا ء ‘‘ پر ہے ۔ اس باب میں بھی انہوں نے عربی کے سولہ شعراء کے مقابلہ میں اردو کے سولہ شعرا ء کو شامل کیا ہے جن میں غواصی، نصرتی ، ولی ، شاکر ناجی ، محمد رفیع سودا، انشا، مصحفی ، ذوق ، مومن ، غالب، اسیر لکھنوی ، منیر شکوہ آبادی ، محسن کاکوری، اسماعیل میرٹھی ، حالی اور نظم طباطبائی ہیں ۔ اردو کے قصیدہ نگاروں کا مطالعہ کریں تو یہاں ترجیحات الگ نظر آتی ہیں اور پیش کش کے بھی مقاصد دیگر نظر آتے ہیں ، یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے ساتھ ہی متنبی جیسا غلوبھی نظر آتاہے ۔یہاں ایک دوسرے کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی مدح میں احتیاط کا پہلو بھی نظرآتا ہے ، کوئی بھاری بھر کم الفاظ و تراکیب پر توجہ دیتا ہے تو کوئی نادر مضامین پر ۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر آج قصیدہ کا احیا ہوگا توکن کے قصیدے نقشِ راہ ثابت ہوںگے۔ الغرض ڈاکٹر یوسف رامپور ی کی یہ کتاب قصیدہ فہمی کے باب میں مطالعہ کا در وا کرے گی ۔

صفحات : 400 ، قیمت 400، سال اشاعت 2020

ناشر : مر کزی پبلیکیشنز، نئی دہلی 

 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...