ڈاکٹر امیرحمزہ
اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یونی ورسٹی میں بھی قدم رکھیے آپ کو یہ سننے کوضرور ملے گاکہ اب قاری نہیں رہے ۔ لیکن یہ صورتحال کوئی اچانک سامنے نہیں آئی بلکہ برسوں سے خارجی و داخلی عوامل ایسے سا منے آئے کہ اب اردو معاشرے میں آپ کو خال خال ہی یہ دیکھنے کو ملے گا کہ قاری پیدا ہورہے ہیں ۔ مصنف ومرتب ، شاعر و تخلیق کار بہت ہی زیادہ سامنے آرہے ہیں لیکن قاری پیدا کرنے کی جانب پیش رفت بہت ہی کم کی جارہی ہے ۔ اس اہم مسئلہ کو ابھی ہم دو حصوں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس جانب قاری کا فقدان ہے۔اول تعلیمی اداروں میں ؟ دوم معاشرہ میں ؟ جواب آئے گا دونوں جگہ قاری کا فقدان ہے۔ پہلے تعلیمی اداروں کی بات کرلیتے ہیں کہ آخرتعلیمی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں کہ وہ تخلیق کار و قلم کار تو دور کی بات ہے اب قاری بھی پیدا نہیں کرپارہے ہیں ۔ آپ میرے اس جملے سے ضرور چونک گئے ہوں گے۔ ہاں یہی حقیقت ہے ۔ اب آپ خود ہی سوچیے کہ آپ کے گریجویشن اور ماسٹر میں کتنے درسی ساتھی تھے اور ابھی ان میں سے کتنے ہیں جو باضابطہ قاری ہیں یا ان میں مطالعہ کا شوق ہے ۔ آپ کہیں گے وہ تو سبھی تجارتی اور روزگا ر کا ستم جھیل رہے ہیں۔ ان کے پاس کہاں وقت کہ وہ کتب بینی میں اپنا وقت صرف کریں ۔ آپ کا جواب بالکل درست ہے کہ روزگار کے آلام میں فرصت کے اوقات کہاں سے نکلیںگے ۔ پھر سوال قائم ہوتا ہے کہ جس اسٹریم سے ہماری تعلیم ہوئی ہے ا س کے کیا مقاصد ہیں ۔وہ ووکیشنل اور پرفیشنل تو نہیں ہے کہ جہاں متن سے زیادہ تجربات کی اہمیت ہوتی ہے ۔ کیونکہ سائنس والوں کی عملی زندگی تجربات کے سہارے آگے بڑھتی ہے اور جہاں سند کے حصول کے بعد انسان اپنی زندگی مشینوں کے حوالے کردیتا ہے اور فنون سے اپنی روزی روٹی کے لیے جدو جہد کرتا ہے ۔ لیکن آرٹ جس میں علوم وفنون دونوں ایک دسرے کے ساتھ شیر شکر ہوجاتے ہیں وہاں کیا مقاصد ہوتے ہیں ؟ سوچیے ذرا ! اگر ذرا بھی سوچیں گے تواحساس ہوگا کہ ملک و ملت فنون و ثقافت کی تعلیم سے تعمیر معاشرہ کے لیے فکری قوت کو پروان چڑھاتی ہے اور ان میں متون کوفروغ دیا جاتا ہے اور جہاں متون کا فروغ ہوتا ہے وہاں بنیادی عنصر انہیں متون سے آشنا کرکے سماج میں فکری قوت کا فروغ دینا ہوتا ہے جس کے لیے ملک و ملت کا بنیادی مقصد قاری پیدا کرکے سماج میں تعلیم کو عام کرنا ہوتاہے ۔
یہ توایک نظریہ ہوسکتا ہے ۔ لیکن اصل سوال اب بھی قائم ہے کہ اب قاری کیسے پیدا کیے جائیں ۔ اس کے لیے ہمیں وجوہات پر غور کرنے ہوں گے اور تعلیم گاہوں کی جانب رخ کرنا ہوگا اور جہاں تعلیمی مدارج کے ماحول کے بارے میں سوچنا ہوگا ۔ پہلی سے پانچویں کلاس تک میں غور کرتے ہیں ۔ یہاں پر بچوں کی عمر دس برس ہوتی ہے اور پانچوں سال میں بچے بارہ سے پندرہ درسی کتابیں پڑھ چکے ہوتے ہیں ۔یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں بچے اس لائق ہوجاتے ہیں کہ متن کی قرات کرسکیں ۔ لیکن آپ کو یہاں رزلٹ نہیں ملے گا ۔( لیکن ہمارے یہاں ابھی بھی کچھ ایسے اردو کے نامور ادیب زندہ ہیں جن کی اردو کی تعلیم محض پانچویں درجہ تک ہوئی ہے ۔) ابھی ایسا اس لیے ممکن نہیں ہوپارہا ہے کہ اسکولی نظام تعلیم میں متن کی قرات میں آموختہ کا مفہوم ہی نہیں رہا ۔ نیز طلبہ کی کثرت اور اردو کے لیے اساتذہ کی قلت اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ میں پانچویں کے بعد بھی یہ صلاحیت نہیں رہتی ہے کہ وہ متن کی بخوبی قرات کرسکیں ۔ اس کے بالمقابل میں دہلی کے انگلش میڈیم نامی گرامی اسکولوں کے بچوں کی جانب رخ کرتا ہوں تو وہاں معاملات برعکس ملتے ہیں ۔ وہاں کے کئی بچوں اور ان کے والدین سے بات کرکے پتہ چلا کہ والدین کو بچوں کے لیے اضافی چلڈرنس لٹریچرہر ماہ ہزاروں روپے کے خریدنے پڑتے ہیں ۔ ایک ماں کہنا تھا کہ مجھے کم اس لیے خریدنا پڑتا ہے کیونکہ میری دو جڑواں بیٹیا ں ہیں، انہیں اسکول کی لائبریری سے ہفتے میں دو کتابیں مل جاتی ہیں ،تواس طرح سے ہمارے دونوں بچے چار کتابیں پڑھ لیتے ہیں باقی چھٹیوں کے دنوں میں پریشانی ہوتی ہے ۔ آپ کے ذہن میں ضرور سوال آرہا ہوگا کہ چوتھی کلاس کی بچیاں ہیں اور وہ ہفتے میں چارکتابیں ۔ جی ہاں میں اس کا شاہد ہوں ۔ آخر ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ان میں قرات کی صلاحیت کو بہت ہی زیادہ پروان چڑھایا جاتا ہے ، وہ متن کی قرات میں پریشانیاں نہیں محسوس کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے یہاں سرکاری نیز پرائیویٹ اسکولوں میں تو بچوں کو سبق ہی یاد نہیں ہوتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ ہمارے معاشرے کے جو بچے ان اعلیٰ اسکولو ں میں پڑھتے ہیں ان کی ترجیح کبھی بھی اردو نہیں ہوتی ہے ۔ اگر بچوں کا اردو متن خوانی بہتر ہو بھی جائے تو کتابوں کی فراہمی ان کے لیے مشکل ہوجاتی ہے ۔ جہاں پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے شوق ہونے کے باوجود وہ اپنی دلچسپیاں کہیں اور تلاشنے لگتے ہیں ۔
دوسرا دو رسکنڈری اسکولوں کا ہوتا ہے ،جہاںسے تیسری زبان والے بچے بھی اردو میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ان کی لرننگ صلاحیت تیز ہوتی ہے وہ تیزی سے چیزوں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں ۔وہاں بچوں کو خارجی کتابوں میں دلچسپی بھی بڑھتی ہے جو ں جوں ان کے موضوعات میں اضافہ ہوتا ہے ان کی دلچسپیاں مزید بڑھنے لگتی ہے ۔ یہا ں پر بھی وہی آگے ہوتے ہیں جو پرائمری میں بہتر ہوتے ہیں ۔ یہاں قرات کا مسئلہ قدرے بہتر ہوجاتا ہے لیکن سسٹم کی مجبوری کے تحت اکثر میں مطالعہ کا شوق نہیں پیدا ہوپاتا ہے ۔ جبکہ انہیں میں سے چند فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جن کی دلچسپی کتابوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ اب یہاں پر اردو برادری کا امتحان ہوتا ہے کہ کیا انہیں ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کتابیں فراہم ہوجاتی ہیں ؟بالکل بھی نہیں ! چنداردو کے رسالے جن کی فخریہ اشاعت ہندوستان میں ہوتی ہے ان کے قاری اکثر ثانوی درجات کے ہی بچے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں انہیں مستقبل کے لیے بنا کر رکھنا اساتذہ اور سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ ان دنوں ہماری آج کی زندگی میں تنہائی پسند نے گرہن لگا کر رکھ دیا ہے ۔ اساتذہ بس کلاس روم تک رہ گئے ہیں اور ماحول میں اجتماعیت کے فقدان نے بڑا نقصان کیا ہے، جس سے کوئی بھی طالب علم کسی دوسرے طالب علم کی اکٹویٹی پر نظر نہیں رکھتا ہے ۔ اس لیے اب دوست کم اور فالور زیادہ بنتے ہیں اوراگر اس بڑھتی ہوئی عمر میں گھر کا ماحول کتاب دوست ہے تو کتاب دوست ماحول بچے پر اثر کرتا ہے ورنہ وہ محض درسیات تک محدود رہتا ہے ۔ بور ڈ امتحانات کے بعد دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعلیمی سلسلے منقطع ہوجاتے ہیںبچیاں گھرگرہستی میں اور بچے روزی روٹی میں لگ جاتے ہیں ۔ یہاں پر ایک اچھا موقع ہاتھ آتا ہے کہ وہ بچیوں میں مطالعہ کو فروغ دیں لیکن اب تک میری نظر میں کوئی بھی آرگنائزیشن ایسی نہیں ملی جو اس جہت میں کام کررہی ہو۔ لڑکے تو پردیس چلے جاتے ہیں یا گھر کے کاروبار میں ساتھ نبھاتے ہیں ۔ بورڈ کے بعد ذمہ داری اعلی تعلیمی اداروں کی جانب رخ کرنے والوں پر آجاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر درس و تدریس میں تبدیلیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ وہاں کتابیں نہیں بلکہ لکچرس کا ماحول ملتا ہے ۔ وہاں متن پر کم اور نظریاتی تقاریر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ کالجز میں جو بھی طلبہ کلاس کے لیے جاتے ہیں وہ پاس کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ کالج تک باضابطہ ایک سفر طے کر کے جانا ہوتا ہے ۔ وہاں لائبریری کا انتظام بھی کسی منتظم کے انتظار میں ہوتا ہے ، نیز لائبریری سے استفادہ کا فیصد نکالا جائے تو بہت ہی کم آئے گا۔ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ۔صاف وجہ ہے تدریس میں متن سے دوری ۔ اگر ایک موضوع پر دس سے زیادہ کتابوں کی سفارشیں نصاب تعلیم میں کئی گئی ہیں، ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سبھی کتابوں سے سبھی طلبہ بخوبی واقف ہوتے لیکن اس کے بجائے نوٹ سازی کا رجحان اصل روح کو متاثر کرتا ہے۔ نوٹ سازی اگرطلبہ خود دسیوں کتابوں سے کریں تو یہ کچھ بہتر بات ہوسکتی تھی لیکن فوٹو کاپی کے رجحان نے ذوق مطالعہ کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے ۔ ایسے میں دیکھیں تو کل تین سمسٹر س اور سولہ پرچوں میںسفارش شدہ کتب کی تعداد ہر یونی ورسٹی میں سو سے ایک سو بیس تک ہوتی ہے لیکن اس کے لیے ابھی کا جو ماحول ہے وہ یہ ہے کہ بس اس کے لیے سو لہ نوٹس کافی ہیں ۔ اس صورتحال میں سبھی شامل نہیں ہیں یقینا کئی طلبہ ایسے بھی ہیں جن کے مطالعہ کی استعداد پر داددینی پڑتی ہے ۔ البتہ نوے فیصد میں یہی حال آپ کو دیکھنے کو ملے گا ۔ایسے میں جہاں سے قاری نکلتے وہاں سے کتب بیزار طلبہ نکلتے ہیں ۔کالج کیمپس میں رہ کر پڑھنے والے طلبہ کی کیفیت دوسری ہے ۔ اس کے بعد کچھ طلبہ ماسٹرس کی جانب سفر کرتے ہیں ۔ گریجویشن میں جن موضوعات سے تعارف ہوا تھا اب ان میں درک حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ طلبہ کے درمیان آگے ریسر چ کے لیے ماحول تیار کرتا ہے ۔ یہاں اب تک چار سمسٹرس ہوا کرتے تھے جن میں سولہ پیپرس خالص اردو کے ہوتے ہیں۔ جن میں جدید و قدیم موضوعات کے ساتھ صحافت ، ڈرامہ اور فلم بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔ یہاں تو یہی امید ہوتی ہے کہ جو بھی ماسٹرس میں داخلہ لیتا ہے ان کا کتابوں سے گہرا رشتہ رہتا ہے ۔ لیکن دسری طرف نظر ڈالیں تو یہاں نوٹس سے بھی بڑی برائی معروضی سوالات کا ہوتا ہے ۔ اب تو ایم اے میں بھی بچے معروضی کی راہ سے آتے ہیں ،دوم یہ ہے کہ نیٹ اور جے آر ایف کا اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ معروضی کتابوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور موضوعات پر سنجیدہ مطالعہ ان کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے ۔معروضی کتابوں سے ان کا مقصد تو حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ نیٹ اور فیلوشپ کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ کا سفر ان کے لیے آسان ہوجاتا ہے ، لیکن ماسٹرس میں کتابوں کی دنیا میں کھو کر چند مخصوص موضوعات میں قاری اپنا رجحان پیدا کرنا چاہتا ہے وہ نہیں ہوپاتا ہے اور بالآخر پی ایچ ڈی میں جیسا بھی موضوع تھوپ دیا جائے کام کردیا جاتا ہے اور تمام تعلیمی سال میں ماحول ایسا بنادیا جاتا ہے کہ کتابیں قاری کی تلاش میںتر س کر رہ جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر یت میں ذوق مطالعہ پیدا ہی نہیں ہو پاتا ہے ۔
یہاں تک اسکولی سسٹم کی بات ہوئی ۔ مدارس کی بھی بات ہونی چاہیے جہاں سے قوم وملت کے چند فیصد ہی بچے مستفید ہوتے ہیں اور یہ نظر یہ بھی پھیل گیا ہے کہ اردو کا تحفظ مدارس سے ہی ہورہی ہے ۔ تو میں یہاں کہہ دوں کہ اردو کے حوالے سے مدارس کی بات کرنا بے سود ہے اور آپ کو مدارس سے امید رکھنا بھی بے سود ہے ۔ کیونکہ وہاں اردو زبان بالکل بنیادی سطح پر سکھائی جاتی ہے تاکہ مافی الضمیر کی ادائیگی ہوسکے اور وہ بھی اس لیے کہ عوام کی زبان اردو ہے۔ مدارس نے اس زبان کی کوئی ذمہ داری نہیں لے رکھی ہے۔ البتہ دنیا کے اکثر مدارس میں عربی کے بعد دوسری زبان اردو ہی ہے اس کی وجہ ہے کہ اکابر کی اکثر تصنیفات اردو میں ہی ہیں جن سے وہ مستفید ہوتے ہیں ۔ مدارس میں بچے ابتدائی پرائمری اور اعدادیہ میں ہی کچھ اردو کی کتابیں پڑھتے ہیں وہیں سے وہ نقل اور املا سیکھتے ہیں ، یہی سلسلہ حفظ میں بھی جاری رہتا ہے ، ان کتابوں کی نوعیت ادبی کم اور مذہبی زیادہ ہوتی ہے ۔اب تو فارسی درجات بھی ختم ہوگئے تو پھر اس کے بعد اردو کتابیں درس سے خارج اور مطالعہ میں داخل ہوجاتی ہیں ۔ اب کوئی بھی طالب علم بغیر شروحات کے درسی سفر طے کرتا ہی نہیں ہے ،خواہ کسی بھی ادارہ کا بچہ ہو ۔ ہر عربی کتاب کے ساتھ عبار ت خوانی اور ترجمہ لازمی ہوتا ہے ۔ ترجمہ کے بعد تشریح اساتذہ بیان کرتے ہی ہیں ساتھ ہی اعادہ کے لیے وہ شروحات کی بھی مدد لیتے ہیں ۔ ایسے میں وہ مطالعہ کے عادی تو ہوجاتے ہیں لیکن خارجی کتابیں ان کے لیے شجر ممنوعہ ہوتی ہے ، کیونکہ نصاب اتنا بسیط ہوتا ہے کہ اسی کا احاطہ ممکن نہیں ہو پاتا ہے تو پھر کہاں وقت کہ وہ کچھ خارجی مطالعہ کرسکیں، پھر بھی اساتذہ کی تلقین اور مختلف کتب کے حوالہ جات ان کے اندر کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ وہ ان کتابوں سے مستفید ہوں تو ایسے میں آپ پائیںگے کہ وہ چنندہ ادیبوں کی کتابوں کے شیدائی ہوتے ہیں ۔ البتہ ابھی بھی وہاں سے صاحب ذوق قاری اور عمدہ شعری و نثری تخلیق کارپیدا ہورہے جو مشرقی لسانی جمالیات کی بھرپورنمائندگی بھی کررہے ہیں اور اتفاق سے زبان کی نوک پلک سنوارنے کا کام بھی کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment