Showing posts with label مضمون. Show all posts
Showing posts with label مضمون. Show all posts

Tuesday, 10 September 2024

رسم الخط کی اہمیت

خالق کا ئنات نے انسان اور حیوان میں جو بنیا دی فرق رکھا ہے وہ نطق کا ہے، خدا نے انسان کو نطق کی صلاحیت سے نوازا نیز اسے اشیا کے علم سے بھی نوازا۔ یہیںسے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ علم کے حصول کا تعلق بھی اشرف المخلوقات سے رکھا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ حیوان علم کے حصول پر دسترس رکھتے ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم البتہ اتنا تو علم ہے کہ علم کی بنیادی کیفیت شراکت کی ہے تو کیا وہ اس کی ترسیل کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ جواب کیا ہوگا اس سےمتعلق بھی میں یہاں حتمی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خدا نے انسان کو جتنا بھی نوازا ہےاسے بہتر انداز میں یوٹیلائز کرنا بھی سکھایا ہے، اس لیے نطق کی صلاحیت کے ساتھ ترسیل لسانی و مکتوبی سے بھی نوازا ہے۔ جسے ہم جسم اور روح سے تعبیر کرتے ہیں یعنی رسم الخط کا زبان سے وہی رشتہ ہوتا ہے جو روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ جب دنیا کی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں برسوں سے کوئی نہ کوئی زبان بولی ہی جارہی ہے، لیکن آج بھی تاریخ میں وہی زبان زندہ ہے جسے رسم الخط نصیب ہوا اگر چہ اس تحریر کے پڑھنے والے اب دنیا سے ناپید ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان مجہول اشکال کے معروف معانی کی تلاش میں اصحاب لسانیات بر سر فکر ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں دنیامیں مل جاتی ہیں۔ مصر جسے اُم الثقافہ کہا جاتا ہے، جس کی زبان اور تہذیب و ثقافت کی تاریخ بہت ہی زیادہ قدیم ہے، اس سرزمین میں کتنے آسمانی صحیفے اترے اس کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ قدیم کتب سماویہ بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہیں ہیں تو دنیا بھی اس زبان کو بھلا چکی ہے اور اب

وہاں کی اپنی زبان صرف عربی ہی ہے۔ کیونکہ دنیا ابھی بھی اس زبان کو یا درکھی ہوئی ہے جو کہیں بھی مکتوبی شکل میں موجود ہے۔ زبانوں کی بھی عجیب تاریخ ہے کب کس زبان کی بالا دستی قائم ہو جائے اور کب کون پردۂ خفا میں چلاجائے کوئی نہیں جانتا۔ مغرب و مشرق کی زبانوں کی بات کی جائے تو مغرب میں آپ کو تنوع کی وہ کیفیت نظر نہیں آئے گی جو مشرق میں خطہ بہ خطہ دیکھنے کو ملے گی۔ عرب دنیا جہاں قدیم زبانوں کی ایک بھر پور تاریخ ملتی ہے وہاں اب صرف ایک زبان رائج ہے اگر چہ ہر ملک کا اسلوب الگ الگ ہے، لیکن زبان ایک ہی بولی جاتی ہے۔ مشرق میں برصغیر اس معاملہ میں سب سے منفرد ہے ۔

آج دنیا اتنی گلوبلائز ہوگئی ہے کہ مضبوط زبانوں نے گھڑیال بن کر کمزور زبانوں کونگلنا شروع کر دیا ہے، ایسے میں زبانوں کا تحفظ بہت ہی مشکل امر ہو گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے دیکھنے کومل رہا ہے کہ نئی نسل کی تعلیمی شروعات اُس زبان سے ہو رہی ہے جو عالمی زبان ہے۔ زبانوں کے مٹتے ہوئے اس پر آشوب دور میں بھی ہندوستان میں آئینی طور پر بائیس ایسی زبانیں ہیں جنہیں سرکاری سطح پر یکساں مقام حاصل ہے لیکن پھر بھی زبان وہی باقی رہے گی جس کا اپنا رسم الخط ہوگا ، ہندوستان کے موجودہ منظر نامے کی بات کی جائے تو ابھی بھی کئی ایسی زبانیں ہیں جو اپنے رسم الخط میں لکھی جارہی ہیں جبکہ کچھ دیوناگری میں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن چند ایسی زبانیں بھی ہیں جنہیں اپنے وجود کے ختم ہونے کا احساس ہوا تو انہوں نے قدم اٹھایا اور سہل پسندی کو چھوڑ کر اپنے لیے رسم الخط کو رائج کیا جن میں سنتھالی کی اولچکی اور منی پوری کی میتی مئی رسم الخط ہے، جو کچھ عرصہ پہلے تک بالترتیب دیوناگری اور بنگالی رسم الخط میں لکھی جارہی تھی۔ سنتھالی کو اڑیسہ میں اڑیا اور مغربی بنگال میں بنگالی میں بھی لکھا جا رہا ہے ۔ سنتھالی کے لیے باضابطہ کوئی رسم الخط نہیں تھا ، آج سے سو برس پہلے ہی اس زبان کے رسم الخط کا وجود عمل میں آتا ہے اور 2003 میں جب اسے شیڈیول 8 میں شمار کیا جاتا ہے تو اس میں اسکرپٹ کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ یہ اونچکی میں لکھی جائے گی لیکن آج میں بائیس برس بعد بھی جھارکھنڈ اس پر متفق نہیں ہے، کیونکہ انہیں تو عادت دیوناگری کی پڑی ہوئی ہے اور بطور دلیل جھارکھنڈ کے دانشوران یہی کہتے ہیں کہ سنتھالی میں زبان میں جتنی صوتیات ہیں اس کی نمائندگی اولچکی میں زیادہ نہیں ہے اور دیوناگری رسم الخط سنتھالی زبان کو بہتر انداز میں پیش کرتا ہے۔ الغرض رسم الخط کی یہ لڑائی تین صوبوں کے عوام و خواص کے درمیان جاری ہے وہ بھی صرف دسترس کی وجہ سے کہ اگر نئے رسم الخط میں لکھا جانے لگا تو سنتھال پر گنہ اس معاملے میں پیچھے رہ جائے گا، منی پوری کی اولچکی کی بات کچھ الگ ہے، آج سے ہزار سال پہلے منی پوری او لچکی میں ہی لکھی جاتی تھی کہ اچانک خارجی حکمراں کا اس علاقہ میں قبضہ ہوتا ہے اور وہ وہاں کی زبان کو متاثر کرتا ہے ساتھ ہی وہاں کے رسم الخط کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں کے باشندے اپنے اصلی رسم الخط کی جانب لوٹ رہے ہیں اور اب ساری  درسی کتابیں میتی مئیک میں ہی شائع ہورہی ہیں۔ مندرجہ بالا تناظر میں اردو کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے بہت ہی تیزی کے ساتھ برصغیر میں قدم جمایا۔ بر صغیر سے باہر وسط ایشیا میں بھی اس کے قارئین اور ناطقین کی اچھی خاصی تعداد تھی لیکن سیاست کے کھیل میں یہ زبان ہندوستان میں سرکاری طور پر معتوب تصور کی جانے لگی اور اردو کے مقابلے ہندی کے فروغ نے اس کے پر کو کترنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ البتہ جہاں ہندی زبان نہیں بولی جاتی ہے وہاں اردو زبان آج بھی مضبوط حالت میں نظر آتی ہے کیونکہ وہاں اردو کے مقابلے اس کی ہم شکل ہندی نہیں بلکہ مراٹھی ، تیلگو اور کنٹر آتی ہے اس لیے وہاں اردو اچھی حالت میں ملتی ہے۔ الغرض تمام سازشوں کے باوجود اگر یہ زبان زندہ ہے تو صرف اپنے رسم الخط کی بدولت ورنہ عوام اردو بولتے ہیں اور سر کار ان سے کہتی ہے کہ آپ اردو نہیں بلکہ ہندی بولتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے بھی ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو سامنے والا فرد یہی سمجھتا ہے کہ ہم ہندی بول رہے ہیں جب کہ ہماری زبان اردو ہوتی ہے ، ہاں جب کوئی لفظ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اردو بول رہےہیں ، جب کہ وہ بالی ووڈ کے نغمات میں تھر کتے رہتے ہیں اور انہیں ہندی اس وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ انہیں ہندی کا نام دیا گیا اور اسی رسم الخط میں وہ مشہور بھی ہے ۔ آپ ان نغمات کو نستعلیق رسم الخط میں تلاش کریں گے تو بہت ہی کم نتیجہ برآمد ہوگا ۔

اس جانب اشارہ کرنے کی وجہ یہ بھی آن پڑی کہ گزشتہ چند برسوں میں اردو زبان کو نستعلیق سے زیا دہ رومن اور دیوناگری میں فروغ دیا جا رہا ہے نیز لکھنے کی وکالت بھی کی جارہی ہے۔ اس سے اردو زبان کا وہی حال ہوگا جو ہمارے یہاں سندھی کے ساتھ ہوا۔ سندھی جس کا عربک رسم الخط عالمی رسم الخط مانا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں سہل پسندی کی وجہ سے سندھی دیوناگری میں لکھی جارہی ہے اور نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ اس زبان کے قاری اور کاتب اب مٹھی بھر رہ گئے ہیں۔ آج سے پچاس برس بعد کہیں وہی حال اردو کے ساتھ نہ ہو جائے کیونکہ سندھی کو مثال میں رکھیں تو آزادی کے بعد پہلی نسل وہ تھی جوعربی رسم الخط میں سندھی لکھتی تھی ، دوسری نسل وہ ہوئی جس نے سندھی کو دیوناگری میں منتقل کیا اور اب تیسری نسل میں مٹھی بھر ہی رہ گئے ہیں جو سندھی جانتے ہیں ۔ یہی حال ہمارا ہوگا کہ آج ہم اردو لکھ پڑھ رہے ہیں، ہماری آنے والی نسل سہل پسندی کی وجہ سے اس کو دیوناگری میں لکھے اور پڑھے گی اور بعد کی نسل وہ ہوگی جو یہ جانےگی بھی نہیں کہ اردو کوئی زبان بھی تھی۔ ایسے میں دوسری زبانیں جن کا دائرہ اردو کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے وہ اپنے رسم الخط کو لے کر بہت زیادہ متفکر ہیں اور زبان کے تحفظ کے لیے الگ رسم الخط کی تخلیق میں لگی ہوئی ہیں ،وہیں اردو کے ساتھ مختلف رویہ اپنا کر تقلیب رسم الخط کی وکالت کر کے وہ زبان کے خیر خواہ نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے آلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جسے تاریخ میں تہذیب و ثقافت کے ویلن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو بہت ہی بہتر انداز میں سمجھنا ہے تو منی پوری کی ہزار سالہ تاریخ کو پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے مذہبی بالا دستی کے لیے رسم الخط کو تبدیل کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے لیکن زبان ہی سے تہذیب و ثقافت اور مذہبی اصطلاحات میں نمایاں تبدیلی کی جاتی ہے۔

Friday, 12 July 2024

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

 

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

ڈاکٹرامیر حمزہ 
 نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ. انڈیا



جھارکھنڈ میں اردو افسانے کی ماضی حال اور مستقبل کی بات نہ کر تے ہوئے اگر صرف افسانہ نگاری پر بات کی جائے تو صبوحی طارق کا نام اہم افسانہ نگار کے طور پر درج ہوتا ہے ۔ صبوحی طارق کی پیدا ئش 15 اگست 1948 کو حیدرآبا د میں ہوئی تھی اور وہ بارہ برس کی عمر میں رانچی میں مقیم ہوچکی تھیں ۔ 1960 تا عمر رانچی میں ہی مقیم رہیں اور درس و تدریس کے ساتھ ادب کی خدمات انجام دیتی رہیں ۔ان کا پہلا افسانہ ’’جنگلی پھول‘‘ ماہنامہ ’ عفت ‘ کراچی میں 1962 شائع ہوا ۔ اس کے بعد تاعمر تقریبادو سو افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ صبوحی طارق افسانوی درجہ بندی کے فن سے بخوبی واقف تھیں اس کا احساس اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ’’درد کاگلاب ‘‘ 1987 میں شائع ہوتا ہے اور اس میں صرف بارہ افسانے شامل کیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد تیس بر س کی زندگی میں بھی وہ اپنا دوسرا افسانوی مجموعہ نہیں لاسکیں ۔ شاید انہیں اس بات کا احساس رہا ہوگا کہ ہر افسانہ افسانوی مجموعہ میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہے ۔
’’درد کا گلاب‘‘ ایک افسانوی مجموعہ ہے اور اسی مجموعے کا آخر ی افسانہ بھی ہے ۔ افسانہ نگار کی بات کی جائے تو انہوں نے ترقی پسند تحریک کو قریب سے دیکھا ہے اور جدیدیت کے دور کو مکمل طور پر جیا ہے ۔ ان دو بنیادی معلومات کے بعد بہت ساری چیزیں قاری کے ذہن میں واضح ہوجاتی ہیں لیکن یہ بھی واضح رہے کہ موصوفہ کا کسی بھی ادبی گر وپ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جیسا کہ انھوں نے خودلکھا ہے ’’ جہاں تک ادبی اور غیر ادبی تحریک سے وابستگی کا سوال ہے تو شاید میں وہ گنہگار ہوں جو کبھی بھی اس کار نیک میں حصہ نہیں لے سکی ۔‘‘ ان کے اکثر افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوںنے مختلف موضوعات کے ساتھ رومانیت کی تھیم میں مسائل کی پیش کش کو فوقیت دی اور اس طوفانی دور میں انہوں نے اپنی الگ راہ منتخب کرکے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ گروہ سے الگ رہنے پروہ ایک گفتگو میں کہتی ہیں ’ ’ایک حساس انسان کے لیے مخصوص محرکات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور بھاگتے وقت سے وہ کسی بھی ایسے لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس کے احساسات و جذبات کوچونکا دے ۔ ممکن ہے میں افسانے صرف اس لیے لکھتی ہوں کہ میرے احساسات کو زباں مل سکے ۔‘‘ یقینا ہر فنکار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے احساسات کو بہتر طریقے سے اپنے فن میں اتار سکے ۔صبوحی طارق نے بھی اپنے احساسات کو افسانے کے پیرائے میں پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس سالہ ادبی سفر میں موصوفہ نے اپنے اہم احساسات کو جب قلم وقرطاس کے ذریعہ زندگی دینے کی کوشش کی تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کرگئی ۔ اسی کی ایک کڑی ’’در د کا گلاب ‘‘ہے ۔ 
مذکورہ افسانہ صبوحی طارق کے دیگر افسانوں سے بطور موضوع اور تکنیک خاصا منفرد اور جدا ہے ۔جیسا کہ ماقبل کے ناقدین نے ان کے اکثر افسانوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ موصوفہ کے یہاں رومانس نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ اور جب ایسے موضوع پر لکھا جاتا ہے تو اس کی زبان میں بھی ایک جمالیات نظر آتی ہے جس کی بدولت اس کے تراکیب و استعارہ کی دنیا الگ ہوجاتی ہے اور قرأت میں بھی ایک قسم کی روانی پائی جاتی ہے لیکن یہ افسانہ دیگر افسانوں کے مقابلے بالکل الگ ہے ۔افسانہ ایک منجھے ہوئے ادیب کی زبان کے انداز میں شروع ہوتا ہے جہاں ہر جملہ قاری کوایک غیر متعین تھیم کی سیر کراتا ہے اور کہانی میں پیچیدگی داخل ہوتی چلی جاتی ہے ۔ پر وفیسر شین اختر موصوفہ کے افسانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’ یہ جدید کہانیاں نہیں لکھتیں ، یہ خود ساختہ علامتی افسانے بھی نہیں ہیں بلکہ ان میں جو اسرار و رموز ہیں وہ قابل فہم ہیں۔ان کا ہمار ی تہذیبی ، مذہبی اور سماجی زندگی سے گہرا رشتہ ہے یہ رشتہ علائم کی شکل میں ان دو کہانیوں(اذانوںکے پہرے ، کندھوں کا کتبہ) میں ابھر ے ہیں ، یہ فلسفیانہ علائم نہیں ہیں بلکہ انہیں عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔یہاں ترسیل کا کوئی المیہ نہیں ہے ، یہ کہانیاں قاری کو پیچھے نہیں چھوڑتیں ، اس کے ذہنی تفکر اور اپنے تخلیق کے درمیان ناقابل عبور خلیج نہیں پیدا کرتیں بلکہ یہ علائم اس کی رہنمائی کرتے ہیں ۔اشاروں سے حقائق تک پہنچنے کا یہ تخلیقی عمل ایک با شعور فن کار کی کامیابی کی سب سے اچھی مثال ہے ۔‘‘ یہ تو ان کے دو مخصوص افسانوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے جہا ں پر وفیسر شین اختر کاانداز تحسین و تدفیع دونوں جھلکتا ہے ۔ تحسین کا پہلو یہ ہے کہ ان کے دوافسانوں میں علامتوں کے عمومی استعمال سے افسانو ں کی خوبصورتی نمایا ں ہورہی اور اس زمانہ کے ادق اور اغلق علامتوں کے رواج  سے کنارہ کشی اختیار کرکے موصوفہ خود کو ایک باشعور فن کا ر ہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ لیکن تدفیع کا پہلو یہ ہے کہ عمومی علامتوں کااستعمال افسانوں میں کوئی جدت یا نیا پن نہیں ہے بلکہ افسانہ کی ابتدا سے یہ روایت چلی آرہی ہے اس لحاظ سے تقریباً ہر تخلیق کار کے افسانوں میں یہ خیر و شر بطور علامت دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ عمومی علامتوں کے استعمال میں جدت تو یہ ہوتی کہ وہ علامتیں خود تراشی جاتیں اور قاری کے فہم سے قریب تر ہوتیں جیسا کہ شاعری میں خوبصورت تراکیب کی اہمیت ہوتی ہے جو عمدہ بندش الفاظ کو سامنے لاتی ہیں ۔ شین اختر صاحب عمومی خوبصورتی کو خصوصی خوبصورتی کے پیرائے میں پیش کرکے چلے گئے لیکن جب میں نے اپنے نظریے سے ’’اذانوں کے پہرے ‘‘کودیکھا تو وہ مجھے ایک عجیب فضا میں تخلیق کردہ افسانہ نظر آیا جہاں مخلوق خالق کے سامنے خود کلامی میں مصروف ہے ، شروع سے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ یہاں افسانہ نگار ہیں اور ان کا معبود ۔شروع میں توایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بال جبریل کی پہلی غزل کا موضوع ہو لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا کہ موصوفہ نے شکوہ کو پیش کردیا ہے اور پھرآخر میں دعا ہے ۔ جب کہ’’ کندھو کا کتبہ‘‘ کی فضا تو یہی ہے لیکن دنیا الگ ہے ۔ دونوں میں کہانی نہیں ہے صرف خود کلامی ہے ۔ اب’’گلاب کا در د‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی دنیا کچھ اس طر ح ہے کہ وہاں کہانی بھی ہے اور مکالمے بھی ، منظر نگاری بھی ہے اور شعور کی رو بھی ۔ افسانہ کسی ایک لمحہ میں قید بھی ہے اور لمحے سے باہر زندگی کی نمائندگی بھی کر تا ہے۔ اس میں زبان کی مٹھاس بھی ہے اور فلسفے کا آمیزہ بھی ۔ 
افسانہ ایک تاریک منظر نامے سے شروع ہوتا ہے ’’ وہ گرہن کی رات تھی ‘‘ اور ٹرین کا سفر تھا اس موقع پر تاریک رات کی جتنی عمدہ منظر کشی ہوسکتی تھی وہ مکمل طور پر اس میں نظر آتی ہے جسے ایک ذی روح کی مانند پیش کیا گیا ہے۔ کیا خوب تاریکی ہے کہ ’’ جیسے ہی ٹرین نے سرنگ کے اندر جھانکا اندھیرا کسی گھبرائے ہوئے مسافر کی مانند کمپارٹمنٹ در آیا وہ آنکھیں پھاڑے باہر تکتی رہی‘‘ ۔ ماحول مکمل طور پر تاریک ہے لیکن اچانک کوئی حسین لمحہ ذہن میں یوں کوندتا ہے جیسے ’’ کہیں کہیں روشنی جگنوکی مانند لپکتی اور غائب ہوجاتی ہے‘‘ اور جب ماحول ایسا ہوتا ہے تو افسانے میں دو چار سطرو ں کی داخلی خود کلامی کا عنصر لاکر افسانہ کو مکالمے کی جانب لایا جاتا ہے اور پہلا مکالمہ یوں ظہور پذیر ہوتا ہے کہ ’’ حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا ، کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم راہ کے پتھر ہی بنے رہ جائیں ‘‘جواب میں بھی مکالمہ آتا ہے جہاں تاریک ماحول سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اچانک کہیں دور موہوم سا شعلہ لپکتا ہے شاید کسی نے سگریٹ جلائی ہو ۔دور اور موہوم کی مناسبت سے افسانہ نگار کردار کو فوراً ماضی میں لے جاتی ہیں جہاں اس جانکاہ حالت میں موجودہ کہانی میں ایک ماضی کی واقعہ نگاری پیش کی جاتی ہے جب صابی بچی تھی تب اس نے ابو سے تنک کر کہا تھا کہ ’’ ابو ! ڈاکٹر نے تو سگریٹ کا نام زہریلا بتایا تھا ۔ لیکن بیٹا یہ تو چار مینا ر ہے( چار مینار کی مناسبت بھی کیا خوب ہے کہ یہاں صبوحی طارق نے اپنا بچپنا شہر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے ) میں نہیں جانتی آپ ہمیشہ ۔سنو … تم نے اسکول کا کام پور ا کر لیا ، ہمیشہ کی طرح وہ بات بدلتے ۔ ‘‘خود کلامی ، مکالمہ اور شعور کی رو کے بعد پھر افسانے میں ایک قسم کا سناٹا چھا جاتا ہے اور پھر ذہن میں بے شمار پیدا شدہ خیالات سے افسانہ آگے بڑھتا ہے جہاں باپ اور بیٹی کے درمیان اتھاہ محبت کا سیلاب مانند لہروں کے موجودہ وقت سے ٹکرا رہا تھا ۔ افسانہ نگار اسے بہت چابکدستی سے ابو کے یومیہ طرز زندگی میں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ لمحہ بہت طویل ہوتا ہے تو صرف فجر کے وقت کا منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔پھر یادوں کے حسین لمحات کو وہ یادوں کے بوجھ میں تبدیل کرتے ہوئے فوراً وقت حاضر میں آجاتی ہیں اور خودکلامی میں یہ مکالمہ سامنے آتا ہے ۔’’ماں ! یہ کیسی صبح ہے … یہ کیسے ہنگامے ہیں۔ کسی دن کو تو ، تم چپ کر دو ‘‘ وقت حاضر میں اب تک افسانہ چل رہا ہے لیکن اچانک افسانہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی سامنے آتی ہے جس سے قاری بھی متوقع نہیں ہوتا اور نہ ہی کہیں سے پہلے اس تبدیلی کا کوئی اشارہ ہوتا ہے ۔ کیفیت حال کا یو ں بیانیہ سامنے آتا ہے ’’ ماں … میں تھک گئی ہوں ما ں ! … بے پناہ ! … اس کی آواز امڈتی اور وہ ماں کے شانے پر سر رکھ دیتی ۔ ماں ایک نظر اس پر ڈالتیں ۔ اس کے سر کو سہلاتیں جیسے کہہ رہی ہوں یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ وہ گھبرا سی جاتی…کسی کو توکچھ نہیں ہوا ۔ سب تو سوئے پڑے ہیں ۔ ‘‘ یہاں افسانہ نگار نے کس خوبصورتی سے خواب کی دنیا کی کیفیت کو افسانے میں سمو یا ہے جو موضوع سے مناسبت اور کہانی کو معنی خیز طور پرآگے لے جانے میں بہت ہی زیادہ ممدو معاون ثابت ہورہا ہے۔ اب تک کہانی کی بُنَت کودیکھیں تو رات کی تاریکی سے شروع ہوئی کہانی خواب کے خاتمہ کے ساتھ صبح کی کرن میں آچکی ہے ۔ اب ماحول میں ہلکا پن آتا ہے اور سورج کی روشنی کے ساتھ زندگی کا روشن پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے ۔اب کہانی میں وہ مرحلہ سامنے آتا ہے جس کے لیے کہانی بنی جارہی ہے یعنی صابی جو اب تک کہانی کو لیڈ کررہی تھی اس کی زندگی میںحارث کا آجانا ۔ وہ لفٹ کی ایک موہوم کیفیت میں سامنے آتا ہے جہاں’’ وہ حارث کی شناسا بھی نہیں اور حارث اس کو ناآشنا نہیں سمجھتا ‘‘ ایسے میں ایک مشفق باپ کی فکر سامنے آتی ہے جس سے تقریباً ہر ایک باپ گزرتا ہے کہ اپنی بچی کی شادی کہیں دور کیوں کرے کہ وہ رشتے کچے دھاگے کی مانند ہوتے ہیں ۔ایسے میں کہانی میں ابو اور امی کے مکالمے سامنے آتے ہیں جہاں امی رشتہ کی وکالت کرتی ہیں تو ابو خود کو حوصلہ نہیں دے پارہے ہیں ۔ ابھی تک کہانی میں کئی مناظر اور واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن سب ایک بڑے دائرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائروں میں بالتر تیب لڑی کی مانند پروئے جارہے ہیں ۔اب ایک نیا دائرہ سامنے آتا ہے لڑکی کی شادی میں باپ کی تکلیف کا کہ اس کی بچی اس سے کتنی دور چلی جائے گی اور وہ اسے دیکھ بھی نہیں پائیں گے ۔ کہانی کا یہ دائرہ بیٹی اور باپ کی کشمکش میں پروان چڑھتا ہے اور پھر باپ کی زبان سے وہ جملے ادا ہوتے ہیں جو اس کہانی کا محرک بنتے ہیں ۔’’ بیٹی تو درد گلاب ہوتی ہے ، اپنے پیچھے دکھ و جدائی کے کانٹے ہی تو چھوڑ جاتی ہے ۔ یہ درد میں سہن کرلوں گا بیٹا ! تم آبادرہو …‘‘اب اس کے بعد یقینا سفر کامنظر سامنے آئے گا اور کہانی ٹرین کے سفر کی جانب رواںہوگی لیکن افسانہ نگارکا کمال یہاں سامنے آتا ہے کہ انہوں نے شروع میں قاری پر یہ قضیہ واضح ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کون سا سفر ہے ، رخصتی کے بعد کا سفر یا وہ سفر جس کا ذکر صابی کے مکالمے میں آتا ہے کہ ابا میں جلدی لوٹوں گی ۔ اس بیچ پھر طوفان و بارش کا سامنا اور صابی کے ذریعہ یہ باور کرانا کہ اس طوفانی بارش میں ابو اس کا خیال رکھ رہے ہیں ۔ لیکن دونوں میں واضح ہوتا ہے کہ یہ حارث کے ساتھ ابو کے پاس واپسی کا سفر ہے جسے بہت ہی خوبصورتی سے افسانے کی ملول و مغموم فضا میں پرویا جاتا ہے کہ افسانے کا آخری منظر سامنے آتا ہے ۔ ’’ بابل کے دروازہ پر حارث نے اس کو سہارا دیا ۔ بھائی نے لپک کر اس کے کانپتے وجود کو تھام تھام لیا ۔ بڑی دیر کردی ۔ میرا تار ملا تھا نا !۔ جانے کیوں حارث بھائی ، ابو بہت چپ تھے ، بہت خاموش تھے ، انھوں نے کسی سے بھی کچھ نہ کہا ، صابی کے بارے میں کچھ نہ پوچھا اور ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ ‘‘ 
 گر ہن کی تاریک رات سے شروع ہونے والا افسانہ زندگی کے ایک تاریک عنصر پر ختم ہوتاہے ۔ افسانہ کی تکنیک پر مکمل طور پر یہ گفتگو کا مقام نہیں ہے البتہ اشارات سے بہت کچھ سامنے آچکا ہے ۔ اس افسانہ کی سب سے بڑی خوبی میرے سامنے یہ ہے کہ اس خوبصورتی سے افسانے کو موصوفہ نے ترتیب دیا ہے کہ صابی کا داخلی کرب خارجی حالات سے مکمل طور پرمیل کھاتا ہے ۔ افسانہ کا پلاٹ پورے طور پر گٹھا ہوا ہے جس میں کہیں سے بھی کسی قسم کا ڈھیلا پن مجھے نظر نہیں آتا ۔ زبان و بیان میں کہیں بھی کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوفہ نے خود کو بھی اس افسانہ میں پیش کیا ہے لیکن اگر کوئی افسانہ نگار سے واقف نہیں تو وہ اس احساس تک پہنچ بھی نہیں سکتا ۔ الغرض جن بزرگوں نے افسانہ کے متعلق چاول پر قل لکھنا کہا ہے وہ صبوحی طارق کے اس افسانے میں بخوبی نظر آتا ہے ۔ 
آخر میں اس امر کااظہار کرنا مجھے خود تعجب میں ڈال رہا ہے کہ پروفیسر شین اختر نے اور نہ ہی ڈاکٹر طہ شمیم نے مذکورہ افسانہ کا ذکر کیا ہے ۔ یقینا صبوحی طارق کو اس بات کا ملال رہا ہوگا کہ ان کے افسانوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور جن لوگوں نے توجہ دی ہے تو انہوں نے محض ضمنی طور پر انہیںشامل کرلیاہے ۔ 

Tuesday, 9 July 2024

ترجمہ سے ترجمانی تک

  ترجمہ سے ترجمانی تک

ڈاکٹر امیر حمزہ



’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.

فقلت ماسمک

فقال لو لو

فقلت لی لی

فقال لالا

جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔

اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق

منارتہ تزہو علی الفخر والزینٖ

تقول وقد مالت علیّ ترفقوا

فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت

و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ

قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 

وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں

شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔

اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,

Humpty Dumpty had  a great  fall,

All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men

Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.

اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت

ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ

راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے

ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن

دہی چھٹاکن

آلو بیگن

کھٹا چورن

گھنگرو باجے

چھن چھن چھن چھن

گھنٹہ بولا

ٹن ٹن ٹن ٹن

ہنستے گاتے

چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔

’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

Wednesday, 5 April 2023

شعر ، غیر شعر اور نثر

   شعر ، غیر شعر اور نثر 

امیر حمزہ


 اردو ادب کی یہ بے مثال اور فاروقی صاحب کی لازوال کتاب اشاعت کے کئی مراحل سے گزر چکی ہے ۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب 1973 میں شائع ہوئی تھی ، پھر پس نوشت کے ساتھ 1998 میں اس کے بعد تیسری اشاعت دیباچہ طبع سوم کے ساتھ 2005  میں کونسل سے شائع ہوئی ۔ اور اب کونسل سے یہ تیسر ی اور کل پانچویں اشاعت ہے ۔ پہلی سے لے کر پانچویں اشاعت تک مضامین میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ۔ فاروقی صاحب جب پچیس برس بعد اس کتاب پر پس نوشت لکھتے ہیںتو اس میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس درمیان مزید مطالعہ اور جدید و قدیم نظریات سے واقفیت کے باوجود ’’اس کتاب میں درج کردہ باتوں کو جدید ادب اور جدیدیت کی تفہیم و استقلال ، اور کلاسیکی ادب کی فہم و بازیافت دونوں کے لیے بامعنی سمجھتا ہوں ۔‘‘ آج جب مزیدپچیس برس بعد میرے مطالعے میں یہ کتاب آئی تو میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو تنقیدی نظریات و معنویت اس کتاب کی پچاس بر س پہلے تھی وہ آج بھی ہے ۔ تو چلیں کتاب کے محتویا ت پر نظر ڈالتے ہیں۔

 اس کتاب میں کل23 مضامین ہیں ۔پہلا مضمون ’’غبار کارواں ‘‘ ہے جسے کتاب کے مقدمہ کے طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس مضمون میں انہوںنے بچپن سے لے کر تا دمِ تحریر مضمون اپنے علمی و نظریاتی سفر کا عکس پیش کیا ہے جس میں انھوں نے اقرار کیا ہے کہ ان کی تحریر میں تو ضیحی و تشریحی پن کا آنا بچپن میں ایک مشہور عالم دین کی کتب سے متاثر ہونا ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اخیال ہے کہ میں نثر میں وضاحت اور استدلال پر جو اس قدر زور دیتا ہوں تو اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ میں بچپن میں مولانا تھانوی کے اسلوب میں اثر پذیر ہوا ہوں ۔‘‘ فاروقی صاحب کا یہ برملا اظہا ر بہت کچھ سوچنے پر مجبو ر کردیتا ہے ۔ اول یہ کہ آج کا ادبی معاشر ہ جن افراد سے متنفر نظر آتا ہے فاروقی وہیں سے اپنی بنیاد بناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کسی بھی متن پر تفصیل در تفصیل جانے کا اسلوب فاروقی نے یقینا علما ء سے لیا ہے بلکہ مجھے پورا گمان ہے کہ شعر شور انگیز لکھنے کا محر ک بھی تھانوی صاحب کی کتاب ’’ کلید مثنوی‘‘ بنی ہوگی ۔ واللہ اعلم۔ دوم یہ کہ بچپن کی تر بیت بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ یقینا تحریروں میں تاثر وہیں سے آتا ہے جہاں سے مصنف متاثر ہوتا ہے اور بے شک فاروقی کی تنقیدی تحریریں تجریدیت کی شکار نہیں ہیں بلکہ امثال در امثال وہ تشر یح کرتے جاتے ہیں اور قاری کے ذہن و دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ 

 کتاب کا سب سے اہم اور پہلا مضمون ’’ شعر ، غیر شعر اور نثر ‘‘ ہے ، یہ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون بھی ہے جو تقریبا ً پنچانو ے صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں وہ شعر و نثر کی شناخت پر کئی سوالات فر ض کرتے ہیں اور ان پر تفصیل در تفصیل بحث کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی صفحات کے بعد لکھتے ہیں ’’ میں وزن کو ہر قسم کے شعر کے لیے ضرور ی سمجھتا ہوں ، چاہے اس میں شاعری ہو یا نہ ہو، لیکن شاعری کی پہلی پہچان یہ ہے کہ اس میں اجمال ہوتا ہے ۔‘‘ لفظ اجمال سے فاروقی صاحب نثر ی نظم کو بھی شاعری کے دائرے میں لے آتے ہیں اور لکھتے ہیں ’’ نثر ی نظم اور نثر میں بنیادی فرق اجمال کی موجودگی ہے نثری نظم اجمال کا اسی طرح استعمال کرتی ہے جس طرح شاعری کر تی ہے ، اس طرح اس میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔‘‘ لیکن صر ف اجمال ہی شاعری کی پہچان نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ شاعری میں اول وزن آتا ہے پھر اجمال کوپیش کر تے ہیں ، اس کے بعد جدلیاتی لفظ پھر شاعری کی تیسر ی اور آخر ی معروضی پہچان ابہام پر گفتگو کرتے ہیں او ر ان سب کے مجموعے کو شاعری کی پہچان کے طور پرسامنے لاتے ہیں۔ اچھی اور خراب شاعری کے درمیان بھی یہی عناصر سامنے آتے ہیں اور نثر کی بھی شناخت انہیں عناصر سے ہوتی ہے ساتھ ہی’’ نثر کے جو خواص ہیں یعنی بندش کی چستی ، برجستگی ، سلاست ، روانی ، ایجاز، زورِ بیان وضاحت وغیر ہ وہ اپنی جگہ پر نہایت مستحسن ہیں لیکن وہ شاعری کے خواص نہیں ہیں ‘‘ ۔ الغر ض فاروقی صاحب کا یہ مضمون تخلیقیت کی بنیادی تفہیم میں بہت ہی معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔

 دوسرا مضمون ’’ادب کے غیر ادبی معیا ر ‘‘ ہے ۔اس مضمون میں یہ بات کھل کر کہی گئی ہے کہ ادیب کا نظر یہ زندگی ، اخلاق ، عادات و اطوار سے اس کی تخلیقات کے معیار کو کبھی بھی جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا ۔اس پور ے مضمون میں فاروقی صاحب نظریاتی وابستگی اور ذاتی عادات و اطوار کو سامنے لاکر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاعری کبھی بھی اشٹب لشمنٹ کے ردعمل کے طور پر سامنے نہیںآتی ہے بلکہ ایک طرح سے وہ ذاتی ودیعت ہی ہوتی ہے ۔ جیسے کریمنل اور بد کردار کی شاعر ی کامطالعہ کر یں اور دیکھیں کہ اس کی شاعری میں فاسق عناصر کتنے پائے جاتے ہیں تو شاید آپ کو بالکل بھی نہ ملیں ۔ یا کسی سلیم الطبع کی شاعری پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کتنے افکار صالحہ موجود ہیں تو شاید آپ کو رومانیت زیادہ ملے ۔ الغرض نظر یاتی وابستگی یا فطری عمل ادب کو جانچنے کا غیر ادبی معیار ہے ۔ 

 تیسرا مضمون ’’علامت کی پہچان ‘‘ ہے ۔ اس میں فاروقی صاحب علامت کی جامع اور مانع تعریف متعین کرنے کے لیے نکل جاتے ہیں لیکن تعریف نا مکمل ہی رہتی ہے اور علامت تشخیص و تمثیل کے درمیان کی چیز کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ یہ مضمون مکمل طور پر بحث طلب ہے کیونکہ فاروقی صاحب لکھتے ہیں ’’ لیکن ادبی علامت نہ صرف فی نفسہ بامعنی اور خوبصورت ہوتی ہے بلکہ اس میں ایک انوکھی شدت اور قوت ہوتی ہے جو عام الفاظ میں مفقود ہوتی ہے۔‘‘ جس کی تلاش ہر ادیب کو کرنی ہے کہ حقیقی علامت کیا ہوتی ہے اور کون سے الفاظ تمثیل کی سطح پر ہی دم تو ڑدیتے ہیں ۔فاروقی صاحب لکھتے ہیں’’ علامت شعوری ادرا ک کی ضد ہوتی ہے ، توسیع نہیں ۔لیکن پوری طرح شعور آجا نے کے بعد اس کا علامتی کردار برقرار رہ سکتا ہے ۔ اگر چہ اسے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ وہ تمثیل یعنی استعارہ بن جائے گی ۔ علامت جسمانیاتی ہوتی ہے، یعنی اس کا تعلق ذہن کے ان Processes سے ہوتا ہے جو جسم میں بند رہتے ہیں۔ اس طرح علامت مشاہدہ نہیں بلکہ علم ہوتی ہے ۔ ‘‘ ان الفاظ میں کسی حد تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن پوری طرح اتفاق نہیں کرپاتے ہیں ’’ کیونکہ ادبی علامت میں دسرے درجہ کا مشاہدہ اور شاعر کے سماجی ، تہذیبی اور ذاتی تجربات بھی کار فرما ہوتے ہیں ، جو سب کے سب جسمانیاتی یعنی غیر شعوری نہیں ہوتے ہیں۔ ‘‘ الغر ض تعریف و شناخت میں عدم جامعیت و مانعیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور تشخیص و تمثیل کے درمیان ایک غیر واضح علامت کے طور پر سامنے آتا ہے ۔

 اگلا مضمون ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ ‘‘ ہے۔ اس مضمون کے پہلے ہی جملے ’’ کیا کوئی قاری صحیح معنی میں صاحب ذو ق ہوسکتا ہے ؟ مجھے افسوس ہے کہ اس کے سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ‘‘ میں فاروقی صاحب نے جو دعویٰ کیا ہے اتفاق سے وہ آخر تک قائم رہتا ہے اور کئی زاویوں سے گفتگو کرنے کے بعد آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی ممکن نہیں ۔ ذوق کے تعلیمی و غیر تعلیمی تاثراتی و غیر تاثر اتی جتنے بھی زاویے ہوسکتے تھے سب پر انھوں نے تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ اس مضمون سے سرسری گزرجانا بالکل بھی مناسب نہیں لگ رہا ہے ، تو چاہتا ہوں کچھ چیزوں پر اجمالا ہی روشن ڈالی جائے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ باوذوق قاری کسے فرض کر تے ہیں ۔ 

’’۱۔ باوذوق قاری وہ ہے جو ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر اچھے اور خراب فن پاروں میں فرق کر سکے۔ 

۲۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قاری حتی الامکان تعصبات، پس منظری مجبوریوں اور ناواقفیتوں کا شکار نہ ہوگا ۔ 

 ۳۔ شعر فہم قاری وہ ہے جو ذوق کی بہم کردہ اطلاع کو پر کھ سکے ۔

۴۔ اس کا مطلب یہ ہے شعر فہم قاری ذوق پر مکمل اعتماد نہیں کرتا 

۵۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شعر فہمی کا کمال یہ ہے کہ قاری ان فن پاروں سے بھی لطف اندوز ہوسکے جو اسے پسند نہیں آتے یا جنھیں اس کے ذوق نے خراب قراردیا تھا ۔

 ۶۔ باذوق اور شعر فہم قاری میں سب سے اہم قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی زبان فہمی کے مرحلے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ۔‘‘ 

جب آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ کسی بھی ایسے فرد کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔کیونکہ جب بھی کوئی شعر فہمی پر گفتگو کرتا ہے تو وہ اپنی ہی علم اور ذوق کی وسعت کو سامنے لاکر گفتگو کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں تین قسم کے افراد سامنے آتے ہیں۔ اول وہ جو دیگر قاریوں کو نظرانداز کردیتے ہیں جن کا معیار بز عم خود ان سے پست ہوتا ہے ۔ دوم :وہ لوگ جو وہی شاعری کو قبول کر تے ہیں جو ان کی سمجھ میں آتا ہے اور سوم : جو ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے اسے مطعون کرتے ہیں ۔اس کے بعد فاورقی صاحب ایک خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں ندافاضلی اور غالب کے ایک ایک شعر سے ۔ 

 سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا 

کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہوگئی 

اس شعر کو مجہول اور مہمل کہنے والے بہت سارے لوگ مل جائیں گے لیکن غالب کے درج ذیل کے شعر کے متعلق ایسا کچھ بھی نہیں ملے گا ۔

 نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں 

جس کے بازو میں تری زلفیں پریشاں ہوگئیں 

پھر صاحب ذوق قاری کا معیار کیا ہوگا ؟ 

 اس کے سو ا اور بھی بہت سی مثالیں پیش کرتے ہیں پھر جاکر کہتے ہیں’’ باذوق اور شعر فہم قاری کا تصور ایک انفرادی تصور ہے۔ ‘‘ لیکن فاروقی صاحب یہیں بس نہیں کرتے ہیں بلکہ پھر اس کو موضوع کے تعلیم کے پیمانے پر ناپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو بھی رد کردیتے ہیں اور یہی سامنے آتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی سامنے نہیں آسکتی ۔ 

اب بڑھتے ہیں’’ نظم اور غزل کا امتیا ز‘‘ کی جانب ۔ اس مضمون کوبھی فاروقی صاحب نے اسی انداز میں لکھا ہے کہ پہلے دونوں اصناف کے مابین 12 امتیازات قائم کرتے ہیں پھر ان امتیازات کو مثال سے باطل بھی کردیتے ہیں ۔ جب معاملہ حل ہونے کا ہوتا ہے تب پھر سے امتیازی معروضات پر گفتگو کرتے ہیں پھر کئی زاویوں سے بات ہوتی ہے پھر بھی کوئی واضح فرق سامنے نہیں آتا ہے تب جاکر فرماتے ہیں کہ’’ ان سوالوں کا ایک جواب ہے: غزل بنیادی طور پر بالواسطہ اظہار کی شاعری ہے ، غیر واقعیت کی شاعری ہے …غزل کی پہلی اور آخری پہچان اس کی داخلیت ، غیر واقعیت اور بالواسطگی ہے۔ ‘‘ اور نظم میں بھی ساری چیزیں ہوتی ہیں لیکن غزل کے مقابلے میں واقعیت کا دخل ہوتا ہے ۔یعنی واقعیت اور غیر واقعیت کا فرق ہے۔ 

اس کے بعد ’’ مطالعہ اسلوب کا ایک سبق ‘‘ ہے ۔ اس عنوان میں ایک لفظ ’سبق ‘ قاری کو چونکا دیتا ہے کہ اتنے بھاری بھر کم مضامین کے بیچوں بیچ سبق جیسا مضمون فاروقی صاحب نے کیوں شامل کیا ۔ اس سوال کا جواب تو مجھے بھی نہیں پتہ البتہ سودا اور میر کی ایک ایک غزل اور غالب کی دو غزلوں کے حوالے سے انہوں نے اسلوبیات کے وہ سبق سکھائے ہیں جو عموما اسلوبیات کی کتابوں میں پڑھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ واقعی میں انہوں نے جن جزئیات کے ساتھ اس کو پیش کیا ہے ان سے شعر ی اسالیب کے خطوط طے ہوتے ہیں اور قارئین کے لیے وہ سبق ہی ثابت ہوتا ہے ۔ 

افسانے کی حمایت میں دو مضامین ہیں پہلے مضمون میں وہ یہ مشاہدہ پیش کرتے ہیں کہ ’’ ناول کے مقابلے میں افسانے کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے یہاں غزل کے مقابلے میں رباعی کی ہے‘‘ اسی مشاہدہ پر باقی مضمون مکمل ہوتا ہے ۔ دوسرا مضمون انٹرویو کے انداز میں ہے جس میں افسانہ کے فن پر گفتگو کی گئی ہے ۔

 ’’آج کا مغربی ناول‘‘ (تصورات و نظریات ) اگر چہ مغربی ناولوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے لیکن اس میں ناول کے فن پر تعمیری گفتگو پڑھنے کو ملتا ہے ۔ موصوف ابتدا میں ہی لکھتے ہیں ’’ ناول در اصل ڈرامے کا ایک محدود اور نسبتاً بے جان بدل ہے ۔ ڈرامہ بھی وقت میں گرفتار ہے ،بلکہ اگر ہم ارسطو کو اپنا رہنما تسلیم کریں تو ڈرا ما کلیتہ وقت کا غلام ہے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ناول سے برتر ہے کیونکہ ڈرامے میں عمل اور پرفارمینس کا عنصر ہے ناول اس سے عاری ہے ۔…بنیادی بات یہ ہے کہ ناول اس وقت سرسبز ہوسکتا ہے جب ڈرامے پر برا وقت پڑا ہو۔‘‘ فاروقی صاحب اتنی بڑی بات کہہ کر گزر جاتے ہیں لیکن کمال ہے کہ بعد میں اس پر کوئی بحث نظر نہیں آتی ہے ۔کیونکہ جو بات کہی وہ سچ ثابت ہوئی کیونکہ ڈرامہ زوال پذیر ہوا توناول آج سر سبز و شاداب ہے ۔لیکن اردو کی بات کی جائے تو یہاں ڈرامہ کا ناول سے کوئی مقابلہ رہا ہی نہیں بلکہ ناول زیادہ مقبول رہی ہے ۔ اور اردو ناول از اول تا ہنوز مقبول رہی ہے ، جبکہ ڈرامہ فلموں سے قبل ہی مقبول تھی اور اردو میں ڈرامہ کا شمار دیگر نثری اصناف میں ہوتا ہے ، مطلب فکشن ہونے کے باوجود فکشن کے ساتھ صف اول میں شمار نہیں ہوپاتا ہے ۔ 

 تبصر ہ نگاری کے فن پر عموما ً مضامین پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ایسے میں فاروقی صاحب کے تبصرے پر لکھے گئے مضمو ن کو بنیادی حیثیت تسلیم کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اس مضمون میں کئی نکات پر بحث کرتے ہوئے دو بنیادی پہلوؤں کے جانب اشارہ کر تے اول اخلاقی پہلو دو م تخلیقی پہلو ، یعنی کتاب کے ماسوا سے مبصر کو کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہیے خواہ مصنف کی ذات ہو یا پھر مصنف کی ماقبل کی تصنیفات ہوں ۔ اب تک کے مضامین اصناف پر تھے بعد کے مضامین جزئیات پر ہیں۔ جیسے ’’ جدید ادب کا تنہا آدمی ، نئے معاشر ے کے ویرانے میں‘‘یہ بہت ہی مختصر مضمون ہے جس میں تنہائی پر قدیم وجدید شعرا کے رویے پر خوبصورت تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے ۔ 

’’پانچ ہم عصر شاعر ‘‘کو فاروقی صاحب 1969 میں لکھتے ہیں ۔ اس مضمون میں اخترالایمان ، وزیرآغا، بلراج کومل ، عمیق حنفی اور ندا فاضلی کی شاعری پر دیگر زاویوں کے ساتھ اسلوب پر زیادہ گفتگو کی گئی ہے ۔ مضمون کے شروع میں ہی پانچوں شاعروں کی خصوصیات کو مختصراً بیان کرتے ہیں جو اجمال ہوتا ہے آنے والی تفصیلات کا ۔ تو یہاں اس اجمال کو پیش کیا جاتا ہے ۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

 ’’ اگر مجھے ان شاعروں کو مختصراً بیان کرنا ہوتو میں یوں کہوں گا :

اخترالایمان : تقریباً نثری اور روز مرہ کی زبان سے نزدیک ڈرامائی اظہار ۔ استعارے سے مبرا ، لیکن علامت سازی کی کوشش ، دروں بینی اور خود کلامی عصر حاضر پر سخت تنقیدی اور طنزیہ نگاہ، آواز میں اعتماد ۔

 وزیر آغا: رنگین پیکروں سے بھرا ہوا اظہار ، اخترالایمان کی بالکل ضد ، علامت سے زیادہ استعارہ سازی کی کوشش ، فضا خلق کرنے اور نظم میں منطقی تعمیر کا تاثر ۔

 بلراج کومل : علامت سازی ، روز مرہ کی دنیا سے دلچسپی ، لیکن اس دلچسپی کااظہار ایسی زبان میں جن میں ذاتی Involvement کی جگہ مابعد الطبیعیاتی Detatchment ہے ۔ لہجہ میں انتہائی شائستگی ۔

 عمیق حنفی : وسیع کینوس ، عصر ی دنیا اور گردو پیش کے ماحول کا شدید تجربہ ، فرد کے متصادم ہوتے رہنے کا احساس ، روز مرہ کی زبان لیکن خطابیہ لہجہ کے ساتھ جن میں خفگی اور الجھن نمایا ں ہے ۔ عصریت کا مکمل اظہار ہے ۔ 

ندافاضلی : زبان میں نسائی لچکیلا پن ، عصری حقیقت کو رو برو پاکر احتجاج کے بجائے تھکن اور بے سودگی کا احساس ، گھریلو زندگی سے مستعار لیے ہوئے پیکر ۔ ‘‘ 

اس کے بعد ہر ایک کی شاعری پر بلکہ اسلوب کی انفرادیت پر اشاراتی و قدرے وضاحتی گفتگو کر تے ہیں ۔ 

’’ن م راشد صو ت و معنی کی کشاکش ‘‘لا = انسان کے آئینہ میں ۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ اس میں موصوف صوتی تنقید بھی پیش کررہے ہیں جیسا کہ مطالعہ اسلوب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب ایسی گفتگو سننے کو نہیں ملتی ہے ، جبکہ شعری بنت میں الفاظ کے ساتھ اصوات کا بھی بہت زیادہ دخل ہوتا ہے ۔ خیر ! مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں ’’ میری نظر میں راشد کا سب سے بڑ ا کارنا مہ یہی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے انتہائی بیدار سماجی اورسیاسی شعور کے ہاتھوں اونے پونے نہ بیچ کر شاعرانہ آہنگ کے پاس رہن رکھ دیا ۔‘‘ 

’’ غالب اور جدید ذہن ‘‘میں یے ٹس اور غالب کے حوالے سے بحث ہے تاہم غالب کے اشعار کے حوالے سے جتنی بھی بحث جدید ذہن کو لے کر کی جائے کم ہی پڑ جائے گی آخر میں نتیجے کے طور پر لکھتے ہیں ’’ آج ہم جوغالب اور یے ٹس کی طرف بار بار رجو ع کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ یہ دونوں جدید انسان کی کسمپرسی کو ایک ایسی دنیا میں پناہ دیتے ہیں جو اس دنیا سے بہت بہت قریب ہے ، جس کی یادیں جدید انسان کے اجتماعی لاشعور میں پوشیدہ ہیں۔‘‘ اس پر حاشیہ میں غالب کا ایک شعر نقل کرتے ہیں جو مضمون کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے ۔ 

بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسد : دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ ہے 

 ’’ اردو شاعری پر غالب کا اثر ‘‘ کیا اثر ہوا شروع میں کچھ واضح نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء میں ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جو بڑا شاعر ہوتا ہے ان کا لب و لہجہ بعد کا شاعر اختیار نہیں کرتا ہے ، بہت سے شعرا معتقد میر و غالب رہے لیکن کبھی ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا جیسے اثر لکھنوی میر کے کلام کی قسمیں کھایا کرتے تھے اور دیگر شعرا کے شعر کے مقابلے میں میرکا شعر پیش فرما دیا کرتے تھے لیکن خود میر کا لہجہ کبھی اختیار نہیں کر سکے ۔ اسی طریقے سے حالی غالب کے ذہین ترین شاگر د تھے اور غالب کو مابعد کے لیے یاد گار غالب سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیے لیکن ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا ۔ پھر غالب کا اردو شاعری پر کیا تاثر قائم ہوا ؟ وہ دیکھیے لکھتے ہیں: ’’ غالب کا سب سے بڑا اثر اردو شاعری پر اس طرح ہوا کہ انھوں نے اپنے بعد کی تنقیدی فکر کو بہت متاثر کیا اوراردو کی بہت سی تنقید شعوری اور غیر شعوری طور پر غالب کی توجیہ Justification کے لیے لکھی گئی ۔پھر اس تنقید نے شاعر کو براہ راست متاثر کیا ۔ ‘‘ تو گویا شاعر پر نہیں بلکہ ادبی تنقید میں غالب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے ۔

’’ غالب کی مشکل پسندی‘‘بظاہر عنوان سے یہی لگا کہ ان کی مشکل پسند ی کو تہہ درتہہ پیش کیا جائے گا لیکن مضمون کے شروع میں کہتے ہیں کہ میں غالب کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کواشکال سے زیادہ بلند تصور کرتا ہوں کیونکہ’’ میری نظر میں اشکال عموماً شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن ۔‘‘ یعنی ’’ غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعار ہ ہے ۔ ‘‘ جس میں ایسی ہوش مندی کارفرمائی ہوتی ہے کہ’’ استعارہ ہیئت اور موضوع کے اس  امتزاج کو حاصل کرلیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ باقی آپ تو جانتے ہی ہیں کہ غالب نے بیدل کے اسلوب کو اپنایا ہے جو دیگر فارسی شعرا سے زیادہ پیچیدہ اسلوب کا حامل ہے جب کہ بیدل کی سرشت میں صوفیانہ پُراسرار ی تھی اور غالب پر عقلیت اور ہوش مندی حاوی تھی ۔ 

’’ غالب کی ایک غزل کا تجزیہ ‘‘میں ’’ جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی : مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی ‘‘ کا ایسا تجزیہ پیش کرتے ہیں جو مابعد کے لیے ایک رہنما خطوط ثابت ہوتا ہے لیکن افسوس ایسے تجزیات بعد میں کہیں زیادہ پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ۔ 

’’ برف اور سنگ مرمر ‘‘میں غالب کے شاگر د ناظم اور غالب کی شاعری کا موازنہ پیش کیا گیاہے ۔ جس میں بنیادی طور پر یہی ہے کہ ناظم کے یہاں غالب کا کتنا رنگ پایا جاتا ہے ۔ ’’ میر انیس کے مرثیے میں استعارہ کا نظام ‘‘میں آپ محسوس کریں گے کہ نو ر اور نور سے متعلق استعارے انہوںنے بہت ہی خوبصورتی سے قائم کیے ہیں جو استعاراتی نظام میں یقینا منفرد نظر آتے ہیں۔ ’’ یے ٹس ، اقبال اور الیٹ‘‘میں مماثلت کے چند پہلو کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔سب کے ذہن میں آرہاہوگا کہ کیسی مماثلت ہوگی نظر یاتی، موضوعاتی یا پھر فنی ؟ لیکن فاروقی لکھتے ہیں ’’ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ نسل ، زبان اور تہذیب کے اختلاف کے باوصف ان تینوں نے حیات و کائنات کے بعض مخصوص مسائل کو چھیڑا ہے اور ان مسائل کی طرف ان کا رویہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے ۔ ‘‘ الغرض اس کتاب کے اکثر مضامین شعری تنقید کے حامل ہیں جنہیں شعریات کی بنیادی تنقید میں شمار کیا جاتا ہے اور شمس الرحمن فاروقی کی یہ کتاب اردو تنقید کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ 


Tuesday, 27 December 2022

2022 کااردو زبان و ادب

 ۲۰۲۲ کااردو زبان و ادب 

ڈاکٹرامیرحمزہ 

ادب و زبان کے حوالے سے اس سال نے ہمیں بہت کچھ دیا تو ہم بہت کچھ لے بھی لیا ہے ، بلا کسی تمہید کے اطراف و جوانب کا جائزہ لیتے ہیں۔

 شروع کرتے سب سے پہلے صحافت سے کیونکہ ۲۰۲۲ صحا فت کی دو صدی کے جشن کے طور پر منایا گیا ۔ ہندو ستان کے مختلف شہر وں میں اعلی درجے کے سمینا ر منعقد کیے گئے ۔جس میں اردو صحافت کے نشیب و فراز پر گفتگو ہوئی ۔ بزم صدف انٹرنیشنل کے تحت پٹنہ ، کلکتہ اور حیدرآباد میں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی کے زیر اہتمام یونی ورسٹی کیمپس میں، خلافت ہاؤس ممبئی میں، غالب اکیڈمی دہلی اور بنگال میںبھی صحافت کے دو سو سالہ جشن پر خوب جشن ہوا ۔ اس میں ایک جشن بہت اعلی پیمانہ پر ملک کی بڑی ہستیوں کی شرکت کے ساتھ سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کی نگرانی میں منعقد ہوا ۔ اب سال گز رنے والا ہے ایسے میں صحافت کے موجودہ منظر نا مے پر غور کریں توRNI کے مطابق 2015-16 میں 5,17,75,006 اردو اخبارات کی کاپیوں کی سر کولیشن کا دعویٰ کیا گیا تھا جو بتدریج سا بقہ تین برسوں سے بڑھ رہا تھا لیکن 20120-21 میں سرکلیشن کا دعویٰ 2,61,14,412 کا ہی ہے ۔ تقریبا پچاس فیصد گراوٹ کی وجہ شاید کورونا رہی ہو کیونکہ بہت سارے اخبارات دم ٹوڑچکے تھے ۔ لیکن جو اخبارا بڑے پیمانے پر مختلف شہروں سے شائع ہورہے ہیں ان کے ایڈیشن پر بات کریں تو کوئی نیا ایڈیشن کہیں سے نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی اردو میں کسی عمدہ اخبار کی ابتدا کی خبر ملتی ہے ۔ قومی کونسل کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق ہندوستان میں 81 اردو اخبارات نکل رہے ہیں، ان میں سے 20 دہلی سے ہی شائع ہوتے ہیں ۔ صحافت کی نظر سے 2022 کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ UNI کی سروس بند کر دی گئی ۔ ہاں پور ٹلس میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بات کی جائے تو ٹیلی ویژن میں اردو اپنا پیر سمیٹ رہی  ہے سوائے ای ٹی وی اردو ، ای ٹی وی بھارت کے ۔ ڈی ، ڈی اردو میں صر ایک بلیٹں جارہا ہے ۔ ریڈیو کی سروس کورونا سے پہلے اکیس گھنٹے سے زائد تھی اور آج صرف دس گھنٹوں میں سمٹ کررہ گئی ہے جس کی وجہ سے اردو کے بہت سارے پروگرام بھی ختم ہوگئے ۔ اردو مجلس کا پرو گرام بھی ایک دو گھنٹے پر ہی محصور ہوکر رہ گیا ہے ، ٹوڈا پور کا نیشنل چینل کورنا سے پہلے ہی بند ہوچکا ہے ۔ہفتہ واری رسائل تو اب نکل ہی نہیں رہے ہیں ، گھریلوڈائجسٹ جو بہت ہی اہتمام کے  ساتھ شائع ہوا کرتے تھے وہ بھی کورنا کے بعداس بر س منظر عام پر آنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔

 ادبی صحافت کی بات کی جائے تو دلی کے سرکاری ماہناموں کے علاوہ اردو ادب کی نمائندگی کرنے والے دیگر ماہناموں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔ کورونا کے بعد اس بر س سہ ماہی رسالوں کی کارکردگی بہتر دیکھنے کو ملی جن میں عالمی فلک ، ثالث ، دربھنگہ ٹائمز ، مژگاں ، اردو جرنل پٹنہ ،جہان اردو ، نیاورق ،تمثیل نو، دیدبان ، ساغرادب ، اثبات ، انتساب ، استفسار ، امروز ، رہروان ادب ، انشا ، فکر و تحریر ،تکمیل ، تفہیم،جدید فکرو فن، عالمی ادبستان و دیگر نے خوب محنت کی۔سر کاری میں، فکرو تحقیق، ادب و ثقافت ،زبان و ادب، روح ادب ، شیرازہ ، ہندوستانی زبان، بھاشا سنگم ، فروغ ادب وغیرہ نکل رہے ہیں۔ شروع کے چند یقینا اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیںو دیگر خصوصی نمبرات کی وجہ سے ادب کی خدمت بخوبی اداکررہے ہیں۔ غیر سرکا ری ماہناموں میں ’’پیش رفت ‘‘ و ’’تریاق ‘‘کی اچھی پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ماہنامہ شاعر اس بر س چرا غ سحر ی کی شکل اختیار کرگیا۔ 

صحافت کے اس یاد گار سال میں صحافت پر’’اردو صحافت دو صدی کا احتساب ‘‘(صفدر امام قادر ی ) کتابیات صحافت ( محمد ذاکر حسین ) اردو صحافت تجزیاتی اور لسانی ڈسکور س (محمد جہانگیر وارثی و صباح الدین احمد ) مغربی بنگال میں اردو صحافت (محمد شکیل اختر ) جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز، جی ڈی چند کی نادر صحافتی تحریریں (سہیل انجم ) منظر عام پر آئے ۔

اب کتابوں کی دنیا کی بات کریں تواس سال فکشن پر زیادہ چرچے ہوئے ۔ اسے گزشتہ چندبرسوں کی محنت کا ثمرہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ناول کی فضا مستقل ہموار کی گئی جس کے نتیجے میں ناول کے جدید قاری اور ناقد بھی سامنے آئے، ساتھ ہی ناول تنقید کی نئی زبان بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔یقینا قاری کی پہلی پسند اس سال ناول رہی کیونکہ جس چیز کے چرچے زیادہ ہوں گے عوام میں بھی وہی زیادہ جگہ بنائے گی اسی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں جو ناول لکھے گئے تھے ان پر اس سال گفتگو بھی زیادہ ہوئی جس پر پرو فیسر کوثر مظہر ی اور ڈاکٹر امتیاز علیمی کی ’’ نیا ناول نیا تناظر ‘‘ اور انتخاب حمید کی ’’ ارو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق ‘‘ سال کے شروع میں منظر عام پر آئے جو ناول مذاکرات میں مزید معاون ثابت ہوئے ۔ناول کی دنیا میں خالد جاوید نئے انداز و موضوعات کی وجہ سے پہلے سے نمایاں تھے جے سی بی ایوارڈ نے خالد جاوید کے ساتھ اردو ناولوں کو بھی ممتاز کیا ۔اس بر س کی چند قابل ذکر کتابیںدرج ذیل ہیں ۔

ناول ارسلان اور بہزاد(خالدجاوید) نصف صدی کا قصہ ( سیدمحمد اشرف ) سسٹم (عبدالصمد) شہر ذات (شاہد اختر )  صفر کی تو ہین ، جو کر (اشعر نجمی ) زندیق ( رحمن عباس) ڈھولی ڈگڑوڈوم( غیاث الرحمن سید) درد کا چاند بجھ گیا (ڈاکٹر اعظم ) نئی نسل سے حمیرا عالیہ کا ناول ’’ محصور پرندوں کا آسمان‘‘۔ افسانے  تشبیہ میں تقلیب کا بیا نیہ ( نورین علی حق ) کر ب نا تمام ( شاہین نظر )راستے خاموش ہیں (مکرم نیاز )۔شاعریکٹھ پتلی کا خواب (صادق ) دو کنارے ( سرور ساجد ) بار زیاں ( یعقوب یا ور ) قر ض جاں (عدیل زیدی) قسط (صابر ) دختر نیل (ولا جمال العسیلی)دھوپ چھاؤں کا رقص (شبانہ عشرت )عشق دوبارہ ہوسکتا ہے (رخشاں ہاشمی )

 خود نوشتہندوستانی سیاست اور میری زندگی (محسنہ قدوائی ) نہ ابتدا کی خبر ہے نہ (شارب ردولوی ) دیکھ لی دنیا ہم نے (غضنفر ) طفل برہنہ پا کا عروج ( جلیس احمد خاں ترین ) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور میری داستان حیات (الما لطیف شمسی) 

 تنقید  غالب : دنیائے معانی کا مطالعہ (انیس اشفاق )اکبر الہ آبادی شخصیت اور عہد،مخاطبت ،باقیات سہیل عظیم آباد ی ، دھوپ چھاؤں(ارتضیٰ کریم) گمشدہ معانی کی تلاش (سر ور رالہدی ) معاصر ارد ادب میں نئے تخلیقی رویے (صدیق الرحمن قدوائی)ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری (یعقوب یاور ) 

شاداں فاروقی حیات و خدمات (مجیر آزاد )جدید اردو افسانے کا فکر ی و فنی منظر نامہ (حیدر علی )

غالب کا خود منتحب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ (بیدار بخت ) غالب اور عالمی انسانی قدریں (ادریس احمد )جدیدیت اور غزل ( معید رشید ی) اردو ناول نظر ی و عملی تنقید ( سفینہ بیگم ) شعرائے کرناٹک (انوپما پول)تحقیق و تدوین تعلیمی سفرنا مے ، (شمس بدایونی )رشید حسن خاں اور شمس بدایونی کا ادبی رشتہ ، مقالات رشید حسن خاں، رشید حسن خاں اور اردو محققین(ٹی آر رینا )کلیات مکتوبات سر سید (عطا خورشید) اثرات شبلی دو جلد ( محمد الیاس اعظمی) رفقائے سر سید ( افتخار عالم خاں ) رباعی تحقیق (امیر حمزہ ) مقالات طارق (طارق جمیل )اردو املا مسائل اور مباحث ( ابرا ہیم افسر ) غبار فکر (اجے مالوی )بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ ( عطا عابدی) خاکے  جنھیں میں نے دیکھا جنھیں میں نے جانا (شمع افروز زیدی ) کیسے کیسے آسماں (فاروق اعظم قاسمی )رہ و رسم آشنائی (اطہر صدیقی )۔ترجمیکی بات کی جائے تو یہ بر س ترجمہ کے لیے بہت ہی اچھا رہا ہے ہر فن کی کتابوں کا اردو میں تر جمہ کی جانب رجحان بڑھا ہے ساتھ ہی چند پبلیشر ایسے بھی ہیں جو تراجم کو شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیںچند تر جمہ شدہ کتابیں یہ ہیں۔ مغموم صنوبر ، زہراب نیل ، گاڈ فادر ، ڈاکٹر زاگو، جہنم ، سسیلیانو، آخری ڈان، اومیرتا ، فلسفہ جے کرشن مورتی ( یعقوب یاور )کشمیر نامہ ، ہندوستانی مسلمان اور نشاط ثانیہ (عبدالسمیع )گواڑ (نوشاد منظر )مسلم یو نی ورسٹی کے قیام کی مہم ( عبد الصبور قدوائی )کھر ونچ (متھن کمار ) ۔متفرقات جہان علی گڑھ (راحت ابرار )چار کھونٹ (ابن کنول)ممبئی کی بزم علمیہ ( عبدالستار دلوی )مقالات ابن احمد نقوی (سہیل انجم ) ۔

اس سال شخصیات پر زیادہ کتابیں نظر نہیں آتی ہیں البتہ پر وفیسر صادق کی شخصیت و فن پر چند کتابیں اسی سال نظر سے گزری ہیں۔ صادق کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری (اسرا فاطمہ ) صادق کے تحقیقی مضامین (شا ہینہ تبسم ) صادق کے تنقیدی مضامین ( ارشاد احمد ) صادق کے ہندی مضامین (ابراہیم افسر ) صادق دکن دیس میں (عبدالقادر ) اصناف ادب اور صادق ( انتخاب حمید ) 

یقینا ہزار کے قریب کتابیں اس سال شائع ہوئی ہوں گی جن میں سب تک رسائی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی سب کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ 

اشاعتی دنیا کی بات کی جائے تو سبھی کے علم میں ہے کہ ادبی کتابوں کے اشاعتی مرکز دہلی ہے ۔ ملک بھر کے ادیبوں کی کتابیں یہاں سے شائع ہوتی رہتی ہیں گزشتہ بر س قومی کونسل نے 303 مسودات کو منظور کیا تھا یقینا ان میں سے زیادہ تر دہلی سے ہی شائع ہوئے ہوں گے اور یہ بھی گمان ہے کہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤ س نے ہی زیادہ کتابیں چھاپی ہوںگی ۔عرشیہ نے صرف اس سال تقریبا چالیس سے پچاس نئے ٹائٹل شائع کیے ہیں ۔ایم آر پبلی کیشن کریٹواسٹار ، 30۔ مر کزی پبلی کیشنز60، عذرا بک ٹریڈر س نے 32 ، عبارت پبلیکیشن جو اسی سال اسٹیبلش ہوا ہے اس نے پندرہ ادبی کتابیں شائع کی ہیں۔ بڑے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی بات کی جائے تو کونسل سے زیادہ تر کتابیں ری پرنٹ ہوئی ہیں البتہ چند نئی کتابیں بھی آئیں ہیں ، اردو اکادمی دہلی نے کوئی نیا ٹائٹل نہیں چھاپا ، اردو گھر نے دس سے کم ہی نئی کتابیں شائع کی ہیں ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی تقریبا دس نئی کتابیں چھاپیں ۔

جشن دہلی میں دو جشن ہوا کرتے تھے ، جشن ریختہ کی جانب کشش یقینا اردو کی کشش ہے جسے میں نے جشن میں موجود حاشیائی آوازوں سے محسوس کیا ہے ، اردو اکیڈمی کا اردو وراثت میلہ منعقد نہیں ہوا ،قومی کونسل کا عالمی سمینا ر بھی کو رونا کے بعد نہیں ہوسکا ہے ، ادرو گھر کا سمینا ر کئی برسوں سے نہیں ہوا ۔ 

وفیات کا ذکرو ں تو ابرار کرتپوری،ابراہیم اشک،اشرف استھانوی ،اظہار عثمانی،پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسرمینیجر پانڈے،پروفیسر اسلم آزاد،پروفیسر اصغر عباس،پروفیسر جعفر رضا

پروفیسر حسین الحق،پروفیسر خورشید سمیع،پروفیسر عطیہ نشاط خان،حیدر بیابانی،خالد عابدی،ڈاکٹر کمار پانی پتی ،ڈاکٹر نادر علی خاں،ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی،کرامت علی کرامت، متین اچل پور ی ،مظفر حسین سید،مولانسیم شاہ قیصر،برقی اعظمی جیسی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں ۔

ریسر چ اسکالر س کی دنیا کی بات کی جائے تو ہر سال تقریبا دو سو اردو کے طلبہ ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کرتے ہیں یہ تعداد یقینا قابل تحسین ہے۔ طلبہ کے عمدہ مضامین اور کتابیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ، اس برس کے عالمی ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ میں یہ دیکھنے کو ملا کہ سابقہ کے مقابلے عمدہ مقالات کے ساتھ اچھے طلبہ کی شرکت تھی ۔ سب سے زیادہ سوال ریڈر شپ پر آتا ہے اوراس کا پیمانہ کتاب کی فروختگی ہے۔ اس کا جواب بھی یقینا ان ہی کے پاس ہے کیونکہ جب طلبہ فوٹو کاپی سے در س حاصل کریںگے تو کتاب سے دلچسپی کہاں قائم ہوگی اور نوٹ پر منحصر رہیںگے تو کتاب کی قرأت کی جانب کہاں راغب ہوںگے ۔ سوال کا جواب ہمارے پاس ہے اردو کی ترقی ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جو چیزیں (نوٹ ، فوٹی کاپی ، پی ڈی ایف )سم قاتل ہیں ہم انہی کو فروغ دیے جارہیں ۔





Wednesday, 21 December 2022

کردار نگاری و اقسام کردار kirdar nigari wa aqsam e kirdar

 کردار نگاری و اقسام کردار 

امیر حمزہ ، دہلی 


کردار افسانوی ادب میں روح کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جہاں تک کردار سفر کرتا ہے افسانوی ادب بھی سفر کرتا رہتا ہے ۔ داستا ن ہو یا ناول ، ڈرامہ ہو یا افسانہ ، داستانوی مثنوی ہو یا منظوم قصے یا ہر وہ ادب جہاں قصے کا عمل دخل ہے وہاں کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی بھی قصہ کے کر دار عموما انسا ن ہی ہوتے ہیں، جانداروں کے کردار بھی قدیم و جدید افسانوں میں نمایاں طور پرپڑھنے کو ملتے ہیں ،غیر جاندار کرداروں سے بھی اب افسانوی دنیا مجہول نہیں، لیکن مؤخر الذکر دونوں یا تو علامات کے طور پر سامنے آتے ہیں یا پھر انسانی کرداروں کے بدل کے طور پر ۔البتہ جانداروں کے جزوی کردار اپنی اصل ہیئت میں سامنے آتے رہتے ہیں ۔ 

کردار نگاری اپنے وسیع مفہوم میں نہ صرف ناول بلکہ ادب کے دیگر اصناف میں بھی پائی جاتی ہے ، تاریخ ، سیرت ، سوانح ، خود نوشت، خاکہ ، انشائیہ ، ڈرامہ ،افسانہ ، نظم ، مثنوی ، مرثیہ اور داستان میں کردا ر موجود ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کردار نگاری کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ناول کی کردار نگار ی سامنے آتی ہے کیونکہ یہاں کردار اپنا مکمل عکس پیش کرتا ہے۔ اس اعتبار سے کردار نگاری میں ادب کی کوئی دوسری صنف ناول کا مقابلہ نہیںکرسکتی ۔ کیونکہ ناول کے کردار گہرے مشاہدے ، تجربے اور فنی تکمیل کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔

کر دار نگار ی کسی عمومی فرد یا بطور فرد استعمال ہونے والے کردار میں خصلت نگاری کا فن ہے ، جس میں ناول نگار افرادِ قصہ کے ایک فرد میں مخصوص عادات و اطواراور خصائل و طبیعت پیدا کرتا ہے تاکہ اس کی ہستی دیگر سے منفرد ہوجائے اور اگر اسے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرنا ہے تو پھر اس کی خصلت کی تراش و خراش میں مزید محنت کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے جملہ افراد ِقصہ میں نمایاں ہوجائے اور ادب میں عرصہ دراز تک منفرد رہ سکے۔ ایسے میں کامیاب کردار نگار وہی بن پاتا ہے جس کے پاس گہرے مشاہدے اور بھرپور تجربے کے ساتھ وفور علم بھی ہو ، نیز اسلوب پیش کش میں نمایاںلسانی صلاحیت بھی رکھتا ہو تاکہ قاری پر وہ گراں نہ گزرے ۔ یعنی کردار نگار اشخاص قصہ کی طبیعت ، سرشت ، عادا ت و اطوار میں ایسی امتیازی خصوصیات پیدا کردیتا ہے جس سے وہ مکمل معاشرہ کا فرد لگے اور ممیز خصوصیات کی وجہ سے امتیازی کردار کا حامل ہو جائے ۔ 

کردار کے حقیقی معنی سے ہم سب واقف ہیں لیکن یہ لفظ فکشن کی دنیا میں ہمیشہ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چند لفظوں سے کردار کے بارے میں فکشن سے پرے جانے کی کوشش کر تے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز(جانداروغیر جاندار) اپنے لیے لفظ کردار تک اس وقت پہنچ پاتی ہے جب وہ منفرد خصوصیات اور ممیز علامات کی حامل ہوجائیں۔ فکشن کے منضبط ہونے سے پہلے سے ہی لفظ کردار اپنے ممتاز معنی میں مستعمل ملتا ہے ،  کردار جب قوموں کے ساتھ لکھا ملتا ہے تووہاں قوم کی کوئی نمایاں خصوصیت مراد ہوتی ہے ۔ الغرض لفظ کردار کا استعمال کسی ممتازصفت و علامت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ کردارجب اجتماعیت سے انفراد یت کی جانب سفر ہوا انفرادیت کے لیے مستعمل ہونے لگا ۔ اب عالم یہ ہے کہ اجتماعیت کے لیے کردار کا استعمال نہ ہوکر زیادہ تر انفرادیت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کردا ر کے معنی میں ہی پوشیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نقطہ پر مرکوز ہو خوا ہ وہ نقطہ کثیر (فرد، مقام ) پر محیط ہو یا قلیل پر ۔ اس کو درج ذیل دو تعریفوں سے سمجھتے ہیں :

’’ ایک شخصیت جسے کسی ناول نگار یا ڈرامہ نگار نے نمایاں اوصاف و خصائص بخش دیے ہوں ۔ ‘‘

’’کسی چیز کی ممیز خصوصیات اور خصوصا کسی فرد بشر کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف ، ان اوصاف کا مجموعہ جو اسے شخص کی حیثیت سے ممیزکریں ‘‘ 

پہلی تعریف میں شخصیت ہے جو عمومیت سے ہمیشہ ممتاز ہوتی ہے کیونکہ وہ نمایا ں اوصاف و خصوصیات کی مالک ہوتی ہے ۔ اس کو کہانی کا ر تخلیق کرتا ہے ۔ دو سری تعریف میں لفظ ’چیز ‘ میں جاندار و غیر جاندار سب داخل ہوجاتے ہیں پھر اس کو مخصوص کرتے ہیں ’’ممیز ‘‘ سے ، مزید مخصوص کرتے ہیں فرد بشر سے ، اب اس اختصاص میں بھی اخلاقی و ذہنی اوصاف سے ۔ گویا کردار اختصاص پر مرکوز ہوتا جاتا ہے اور یہ ایک پیرامڈ کی صورت میں اختتام کو پہنچتا ہے تب جاکر کوئی کردار تیار ہوتا ہے ۔ یہاں ذہن میں ایک سوال تو ابھرے گا کہ اردو کے اکثر ناولوں میں وہ کرادا ر اپنائے گئے ہیں جو شخصیت کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ سوال بالکل بجاہے لیکن یہاں شخصیت عرف عام سے مختلف نظر آتی ہے۔ فکشن میں ہم کوئی بھی عام کردار اٹھاتے ہیں جو نمایاں خصوصیات کی وجہ سے اپنے گروہ ، قبیلہ یا جماعت کی نمائندگی کرتا ہے پھر تخلیق کار کی قوت متخیلہ اس میں اختصاص کی کیفیت پیدا کرکے شخصیت( بمعنی ممتاز )کے خانے میں لے جاتا ہے ۔ 

کردار حقیقی ہو یا افسانوی دونو ںمیں کردار کی تعمیر کے لیے شخصیت کی تعمیر سے گہرا ربط ہوتا ہے اور شخصیت ظاہر و باطن دونوںکا نام ہوتاہے توکردار میں بھی ظاہر و باطن دونوں کی عکاسی کی حتی الامکان کو شش کی جاتی ہے۔ بلکہ فکشن میں کردار کو باطنی جذبات( مہیجات و رجحانات ، اشتہا ؤ تمنا ، تصورو فکر، فریب کاری ، منافقت اور ابن الوقتی ودیگر) سے ہی سینچا جاتا ہے اور ان سب کو اطورا کا نام دیا جاتا ہے ۔ الغرض یہاں سے معکوسی ترتیب دیکھیں تو اطوار سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور شخصیت سے کردار وجود میں آتا ہے جس کو اس کے افعال وجذبات کی نمائندگی کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے ۔ 

ہر انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں جو تاریخ اور فکشن سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں ۔ قابل مشاہدہ باتیں تاریخ کے لیے مواد ہوتے ہیں ۔ تاریخ سے آگے جذبات سے متعلق باتیں ، خواب ،مسرت ،غم و یاس، خود کلامی ، عشق و محبت و دیگر جس کے اظہار میں شرم و اخلاق حائل ہوتے ہیں ، انسانی فطرت کے اسی پہلو کو تاریخ سے آگے بڑھ کر ناول نگار پیش کرتا ہے ۔  اس کردار سازی میں وہ شخصیت سے قریب ہوکر اس شخصیت کو کردار کے سانچے میں پیش کرتا ہے تب جاکر فکشن کا کردار تیار ہوتا ہے ۔ 

و تاریخی اور تخلیقی کردار میں سب سے نمایاں فرق یہیں سے سامنے آتا ہے ۔ ظاہر ی افعال و اعمال جو واقعات کی سطح پر عوام الناس کے سامنے آجاتے ہیں اور زندگی کے کردار ہوتے ہیں ۔ یعنی اگرکوئی کردار زندگی کے حقیقی کردار سے ہو بہو مل رہا ہے تو وہ ناول کا نہ ہو کر تذکر ہ کا ثابت ہوگا اور تذکرہ تاریخ ہے جس کی بنیاد واقعات پرہے ۔ واقعات کی ہی کسی ایک کڑی کو پکڑ کر تخلیق کار اپنی قوت متخیلہ سے وہ ساری چیزیں پیش کرتا ہے جس سے کردار کو حقیقی کردار سے الگ کرکے فکشن کا کردار بناتا ہے۔ اس کردار سازی میں وہ کتنا کردار کے اندر اتر پاتا ہے یہ اس کے قوت متخیلہ سے ہی ہوتا ہے ۔ کوئی تخلیق کار جب کسی کردار کو تراشتا ہے تو وہ اس کردار کے ذہن کو خود میں نہیں داخل کرتا ہے بلکہ اپنے ذہن سے کردار کو اپنے مطابق ڈھا لتا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کردار اگر مختلف تخلیق کار کے یہاں وجود میں آیا ہے تو ہر ایک نے اپنے تخیل سے ہی اس میں رنگ بھر ا ہے ۔ ایسے میں کردار کو پڑھنے او ر سمجھنے کے انداز بھی الگ ہوجاتے ہیں ۔ اگر کوئی کردار جانا پہچانا ہے اور حقیقی زندگی میں اسے جانتے بھی ہیں لیکن روز مرہ کی زندگی میں اس کی شخصیت نمایاں نہیں ہے۔ ایسے میں تخلیق کار اس عمومی کردار کے کسی ایک حقیقی واقعہ کو لیکر اس کے داخل و خار ج کو ہر قاری کے لیے آئینہ کی طرح صاف و شفاف بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے اس کے داخلی اور خارجی زندگی کے راز سر بستہ کو نہاں نہیں بلکہ عیاں کرتا ہے ۔ جبکہ خارجی زندگی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے کیونکہ زندگی کی اہم شرائط میں سے ایک رازدار ی ہے جو ناول نگار اس پردہ کو چاک کردیتا ہے اور جذبات و احساسات کی وسیع دنیا قاری کے لیے تخلیق کردیتا ہے ۔پھرقاری ناول کی دنیا اور حقیقی دنیا کو دیکھتا ہے تو ناول نگار کے کردار تراشی کا قائل ہوجاتا ہے ۔ 

ای ایم فار سٹر(Edward Morgan Forster  ) کے نظریہ کے مطابق ناول نگار کسی بھی کردار کی پیدائش ،غذا ،نیند،محبت اورموت  پر محیط زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ناول حقیقت یا حقیقت نما کو پیش کرنے کا فن کہلاتا ہے ، تخلیق میں صرف ناول کو ہی مختص کرکے کردا ر پر بات کی جائے تو ناول نگار کسی بھی کردار میں وہی پیش کرتا ہے جو ناول نگار کے ذہن میں اسٹور ہوتاہے یعنی وہ اپنی وسیع معلومات و مشاہدات کی دنیا سے ہی چیزوں کو چن کر لاتا ہے اور انہیں کرداروں کے ساتھ منطبق کر کے پیش کردیتا ہے۔ اب زندگی کے ہر ایک عنصر پر بات کر تے ہیں ۔

پیدائش ۔ اس متعلق تخلیق کار سائنسی طور پر معلومات تو رکھتا ہے لیکن تجرباتی طور پر کچھ بھی نہیں جانتا، کیو نکہ یہ اس وقت عمل میں آتا ہے جن کے تجربات ذہن میں محفوظ نہیں ہوتے ۔ اگر کردار میں ماں ہے تو وہ زچگی کی کیفیات کی ترجمانی کرسکتی ہے ، اگر معالج ہے تو وہ زچہ کی کیفیات اور بچہ کی صورت کی ترجمانی کرسکتی ہے ، لیکن تخلیق کار خو د اس عالم رنگ و بومیں آنے کی صورت کو بیان نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ چیزیں ذہن میں کبھی بھی محفوظ نہیں ہوئی ہیں ۔ اس لیے ہر تخلیق کار ان جذبات کی عکاسی میں ناکام رہتا ہے اور بقول ای ایم فورسٹر ایسے کردار کو پیش کرنے میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے پارسل سے بھیچا گیا ہو ۔  کچھی یہی کیفیات موت کی ہے جس میں ناول نگار ایک ایسی تصوراتی دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔

حصول غذا: یہ پیدائش سے موت تک جاری رہتا ہے لیکن ناول نگار کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ کسی بھی کردار کی زندگی کے اس حصہ پر مکمل توجہ دے ۔عمومی زندگی میں جو بات کہی جاتی ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے، اس کی کامیاب عکاسی اردو ناولوں میں بہت ہی زیادہ ملتی ہے ۔ ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول حصول غذا کی جد و جہد پر لکھی گئی ہیں ،جس طر ح سے غذا کے حصول کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں اسی اعتبار سے سیکڑ و ں الگ الگ کردا ر اس موضوع پر سامنے آتے ہیں ۔ 

زندگی کا چوتھا جزو اعظم نیند ہے ، عالم تنہائی میں گزارے اوقات سے بھی زیادہ وقت نیند کا ہوتا ہے۔ نیند میں ہر کوئی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاںاسے اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں پتہ ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خواب کی صورت میں جن چیزوں سے رو برو ہوتا ہے وہ اس کی سوچ کے مطابق ایک معتد بہ وقفے پر محیط ہوتا ہے لیکن جاگنے کے بعد اس دنیا کے دھندلے نقوش ہی بتا پاتا ہے۔ عالم خواب میں جن مناظر سے گزرتا ہے اس کی عکاسی تو کرسکتا ہے لیکن خواب کی دنیا کے جذبات کی عکاسی سے وہ قاصر رہتا ۔ یعنی وہاں وہ افعال روئیہ کی تشریح کرسکتا ہے لیکن جذبات کی مکمل عکاسی سے عاری ہوگا ۔ نیند کے حصہ کو بیا ن کرنے کے بعد ای ایم فارسٹر کہتے ہیں کہ نیند زندگی کے ایک بڑے حصہ پر محیط ہوتی ہے جس طرح تاریخ اس حصہ کو کبھی پیش نہیں کرتی ہے تو کیا افسانوی ادب بھی وہی رجحان اختیار کرتا ہے یعنی فکشن نگار کیا کسی کی نیند میں گزری ہوئی زندگی کو پیش کر پاتا ہے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ ذہن میں چلتا رہتا ہے وہ نیند میں بھی بشکل خواب کچھ نہ کچھ دیکھتا رہتا ہے ۔ کبھی وہ بھی نہ ہوکر ایک اساطیری دنیا میں ہوتا ہے ۔ جس کی عکاسی مشکل ہوتی ہے جبکہ وہ فرد ایک مخصوص جذبات کے ساتہ اس اسطوری دنیا کا مسافر ہوتا ہے ۔ 

محبت یہ ایک ایسا لفظ ہے جو جذبات کے پورے مجموعے کو احاطہ کرتا ہے اور وسیع و بسیط تجربے کی نمائندگی کرتا ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔ فکشن کی دنیا کے لیے یہ سب سے اہم عنصر ہے کیونکہ باقی عناصر کا تعلق قابل مشاہدہ عمل سے ہوتا ہے جو تاریخ میں بھی رقم ہوجاتی ہیں لیکن محبت جو تمام جذبات کی نمائندگی کرتا ہے اس کی عکاسی فکشن میں ہی ممکن ہوپاتی ہے ۔ جنسی محبت کی تمام کیفیات، دو ستوں کی محبت ، خدا کی محبت ، وطن کی محبت ،کچھ حاصل کرنے کا دھن ، ثابت کرنے کا جنون ، زندگی جینے میں ہر قسم کی دشواریوں کو برداشت کر خوشی پانے کا جتن الغرض تمام اعمال کے مخفی جذبات کی عکاسی کے لیے ایک کردار کو کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے جن کے لیے تخلیق کار اپنی پوری قوتِ تخلیق صرف کرتا ہے تب جا کر ایک تخلیق نمایاں کردار کے ساتھ اپنی شناخت بنا پاتی ہے ۔ 

موت دنیا میں فلسفیوں نے بہت ہی زیادہ جس حقیقت کو اپنے فلسفے میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے وہ مو ت ہے ۔اس کو سب سے زیادہ مشاہدہ کے تجربہ پر بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں ناول نگار موت طاری ہونے سے زیادہ موت طاری کرنے کے فن سے واقف ہوتا ہے۔ اس میں بھی کر دار کے جذبات کی عکاسی مکمل طور پر ہوتی ہے کبھی کبھی تخلیق کار کردار کو موت کے قریب لے جاتا ہے پھر کہانی میں واپس لا کر نئی کہانی شروع کردیتا ہے ، یہ تو کہانی کی مانگ پر منحصر ہے یہاں اس عنصر کا اصل معاملہ موت کے جذبات کی عکاسی ہے ، جس تجربے سے کوئی بھی نہیں گزرا ہوتا ہے، پھر بھی مشاہدہ کی بنا پر اس کی عکاسی کردی جاتی ہے ۔ ایسا معقول بھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات ارضی موت کے وقت کا مشاہدہ تو کرسکتی ہیںلیکن محسوس نہیں کرسکتی، الغرض پیدا ئش و موت دو نوں کے جذبات کی عکاسی سے تخلیق کار عاجز ہوتا ہے اور مشاہدہ کے عمل سے جذبات کے رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کرتاہے۔ 

مذکورہ بالا عناصر میں ناول نگار کردار کے اخلاق ، عادات و حرکات میں کتنی ہی قطعیت سے کام لے پھر بھی اس کی عکاسی کو افسانوی ماحول میں ذہنی تخلیق اور خیالی دنیا کی اپج ہی کہا جاتا ہے اور وہ کردار فرضی یا حقیقت کا عکس لیے ہوئے ایسا امر ہوجاتا ہے کہ آپ آس پاس میں تلاش کریں تو اس جیسا ملنا محال ہوگا ۔

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن سے ہم خارجی دنیا میں متعارف ہوتے ہیں لیکن اپنی بصیرت و بصارت سے وہ چیز نہیں دیکھ پاتے ہیں جو تخلیق کار اپنی تخلیق میں نمایا ں کرکے پیش کردیتا ہے ۔ یہ کردار دو طرح سے ہمار ے ذہن میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ غائبین اس کو حقیقت مان لیتے ہیں اور حاضرین اس میں ان خصوصیات کو تلاش کرنے لگتے ہیں جس کا ذکر کردار کی تخلیق میں کیا گیا ہے ۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ قاری کا ذہن ہی بتا سکتا ہے ۔ دوسرے کردار وہ ہوتے ہیں جو خارجی دنیا کے نہیں بلکہ وہ مکمل طور پر تخلیق کا ر کی اپج ہوتے ہیں لیکن اس کی تراش و خراش مکمل طور پر خارجی دنیا کے فرد پر کی جاتی ہے جس کا اثر قاری پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پڑوس میں ویسے کردار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ، اس میں تلاش عموم بھی ہوتا ہے اور تلاش خصوص بھی ۔تو کردار کی یہ دوسری قسم زیادہ پائیدار ہوتا ہے پہلی سے ۔ کیونکہ یہ وقت کے ساتھ سیال ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خصلت کی وجہ سے ہر عہدمیں وہ کردار سامنے آتے رہتا ہے ، جبکہ معلوم کردار میں فنکار ایک مردہ کردار کو زندہ کردیتا ہے جس کو اپنے وقت کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے ۔

ناولو ں میں کرداروں کو کب پیش کیا جائے اور کب انہیں پلاٹ سے غائب کردیا جائے یہ تو قصہ اورپلاٹ کے تقاضے پر منحصر ہوتا ہے لیکن اکثر  مرکزی کردار شروع سے آخر تک چلتے رہتے ہیں اور انہی کرداروں کے خصائل کی عمدہ پیش کش ہوتی ہے ۔قصہ میںمرکزی کرداروں کو اتارنے میں بہت محنت کر نی پڑتی ہے، ناول کے پلاٹ کو مضبوطی سے تھامنا ہوتا ہے۔ اسی اعتبار سے ان کرداروں کو جب ناول سے خارج کیا جاتا ہے تووہ لمحہ قاری کے ذہن کو پڑھنے کا ہوتا ہے اور فن کے معراج کا بھی ۔ 

جہاں تک حاشیائی کرداروں کی بات ہے وہ اکثر پورے ناول پر نہیں رہتے ہیں بلکہ واقعات کے اعتبار سے آتے ہیں ایک دو جملے میں ان کا تعارف ہوتا ہے اور اپنا عمل کر کے چلے بھی جاتے ہیں ، ان حاشیائی کرداروں میں سے اگر کوئی کردار قاری کو دلچسپ لگ جاتا ہے تو پھر وہ وقفہ وقفہ سے اس کی آمد کا انتظار کرتا رہتا ہے ایسے کردار پلاٹ سے اچانک غائب نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ ثانوی کردار کے اعتبار سے لمبا سفر طے کرتے ہیں۔ کچھ کردار بہت ہی مختصر سے عمل کیے لیے آتے ہیں انہیں ناول نگار قصہ سے خاموشی سے اس طرح غائب کردیتا ہے کہ قاری کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اس عمل کو عبدالقادر سرو ری نے قصہ نگاری کا کمال قرار دیا ہے ۔ 

اب اس جانب رخ کرتے ہیں کہ ناول کے قاری کیسے کیسے افراد ہوتے ہیں ۔ 

 اول نفس قصہ : جنہیں صرف قصے سے دلچسپی ہوتی ہے وہ قصہ کے نشیب و فراز سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہ پاپولر لٹریچر والے زیادہ ہوتے ہیں جہاں وہ رومان کے ساتھ بہترین قصے پسند کرتے ہیں ۔

 دوم زبان و اسلوب :ایک طویل عرصہ ناول کے قارئین کا وہ گزرا ہے جو زبان سے زیا دہ دلچسپی رکھتے تھے اور عمدہ زبان و اسلوب کے لیے ناول پڑھا کرتے تھے ۔ اس زمرے میں رزمیہ اور جاسوسی ناول آتے ہیں جن کی اشاعت بہت زیادہ ہوئی ہے اور اب تک ان کے قارئین کی تعداد میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے ۔ 

 سوم فلسفہ حیات : یہ متذکرہ بالاسے منفر د ہوتے ہیں ،یہ قصہ اور نہ ہی زبان کے لیے ناول پڑھتے ہیں بلکہ ناول میںبے پناہ فلسفوں کی تلاش اور زند گی کے ہزرا رنگ کو سمجھنے کے لیے ناول سے دلچسپی کرتے ہیں ۔

چہارم : تخلیق کار کا مطالعہ: مذکورہ بالا تینوں زمروں میں ناول نگار اپنے مکمل تجربوں اور علم کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہر کردار میں اس کی موجودگی محض اتفاقی نہیں بلکہ اکتسابی ہوتی ہے ۔یہ اکتسابی نوعیت آپ کو ہر کردار میں نظر آئے گا جس کے ذریعہ قاری تخلیق کار کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس صورتحال میں قاری حاشیائی کردار کو چھوڑ کر مرکزی کردار کو مجسم پڑھتا ہے اور اس کو اپنے تجربے اور علم میں تولنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے اپنے علم و تجر بے کی بساط پر کس طر ح سے ایک کردار کے مختلف شیڈس کو پیش کیا ہے اور کن جہات سے رو گردانی کی ہے ۔ 

فکشن میں کردار عموماً دو طرح سے سامنے آتے ہیں اول تدریج اور دوم مستقیم ۔ تدریج میں وہ کردار آتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ منزل کی جانب بڑھنے لگتے ہیں اگر کوئی کردار بدی کی جانب جارہا ہے تو حیات اصلی کے مطابق وہ چلتا ہی رہتا ہے اور قاری غیر محسوس طریقے سے اس میں سفر کرتا رہتا ہے ، اگر مستقیم ہوتا ہے تو کسی بھی مرکزی کردار میں اچانک تبدیلی رونما ہوجاتی ہے خواہ وہ کسی حادثہ کی ہی بنا پر کیوں نہ ہو قاری اس کردار کو وہیں سمجھ لیتا ہے کہ یہ کردار مرچکا ہے ۔ ناولوں میں پیچیدہ اور سپاٹ کردار دونوں ہوتے ہیں ۔ آج کل عموماً مرکزی کرداروں میں بتدریج زندگی چلتی رہتی ہے جہاں نشیب و فراز کا گزر ہوتا ہے لیکن ثانوی کردار اکثر سپاٹ ہوتے ہیں ،اگر کسی کردار کا داخلہ بدکے مظاہرہ کے ساتھ ہوا ہے تو کچھ دیر ساتھ چلنے کے بعد اس کا اخرا ج بھی اسی کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہکذا بالعکس ۔ 

کرداروں کے اقسام 

مرکزی کردار

کسی بھی کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کردار ایسا ہوتا ہے جس پر پلاٹ مرکوز ہوتا ہے اور ساری کہانیاں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔  حرکت و عمل سے وہ فعال کردار ادا کررہا ہوتاہے۔ فنی نقطہ نظر سے اُسے مرکزی کردار کہا جاتاہے۔ عموما مرکزی کردار میں زندگی کے کئی رنگوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ مرکزی کردار ناول میں زیادہ دیر تک منظر سے غائب نہیں رہ سکتا ہے ، جو ناول باب وار لکھے جاتے ہیں ان میں بھی ہر باب میں وہ کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتا ہے خواہ اس باب کا مرکزی کردار کوئی او ر ہی ہو ۔

ثانوی کردار

کوئی بھی کہانی صرف ایک فرد کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی جاتی اور نہ ہی صرف ایک فرد پر کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ، اگر ایسا ہے تو اس کی جزئیات اور تفصیلات مکمل طور پر کھل کر سامنے نہیں آسکتیں۔کردار کا دوسرا اور مکمل رخ دیکھنے کے لیے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ ثانوی کرداروں کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ اکثر ثانوی کردار، مرکزی کرداروں سے تعلق رکھتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جہاں مرکزی کردار کئی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے وہیں پر ثانوی کردار بھی مرکزی کردار سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ مرکزی کردار کی معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔

ذیلی کردار

مرکزی اور ثانوی کرداروں کے ساتھ ذیلی کردار بھی کسی کہانی کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔یہ مرکزی اورثانوی کرداروں کے درمیان نظرآتے ہیں۔ اس قسم کے کرداروں کا عمل ضمنی سا ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی افسانے میں مرکزی اور ثانوی کرداروں کی معاونت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ مختصر سے وقت کے لیے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔موقع محل کی مناسبت سے ان کو پیش کیا جاتا ہے جو اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے کبھی دیر تک اور کبھی وقتی طورپر سامنے آتے ہیں۔ ذیلی کہانی میں ہمیشہ کے لیے نہیں دکھائی دیتے ہیں بلکہ کسی بھی صورت حال میں وقتی طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔

کرداروں کے صفات 

سپاٹ کردار

کسی بھی ناول یا کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی فطرت رکھنے اور یکساں حرکت کرنے والے کردار کو سپاٹ کردار کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے کرداروں میں انہونی حالات نہیں پائے جاتے۔ ان میں کسی خاص صورت حال میں کسی خاص رد عمل کی بجائے طے شدہ رد عمل کی ہی توقع کی جاتی ہے یعنی ان میں اپنے طور پر خاص رد عمل ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی ہے۔

اکہرے کردار

کسی ناول کا ایسا کردار جس پر صرف ایک ہی رویہ یاطرز عمل کی گہری چھاپ ہو،اکہر ا کردار کہلاتا ہے۔ یہ پوری کہانی میں ایک ہی انداز میں حرکت و عمل کرتے نظر آئیں گے۔ ان سے صرف ایک جیسے رد عمل اور طرز عمل کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ ناول میں کسی خاص طرز فکر، سوچ یا طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔(یہ ذیلی کردار میں ہوتے ہیں ) 

مرکب کردار

ایک سے زائد رویوں اور طرز عمل کے حامل کردار مرکب کردار کہلاتے ہیں۔عام طور پر مرکب کردار بہت کم پائے جاتے ہیں۔ مرکب کردار دو متضاد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی کردار کسی خاص واقعہ میں ایسا طرز عمل پیش کرے جن سے ان کی شخصیت میں تضاد سامنے آتا ہے جبکہ وہ اس طرز عمل کے صفات کا حامل نہیں ہوتا ہے ۔(یہ مرکزی اور ذیلی دونوں میں ہوسکتے ہیں ) 

مجہول کردار

ایسے کردار جو اپنے اعمال و افعال میں کسی قدر جھول رکھتے ہیں اور اس سے دیگر کرداروں کے تاثر میں بھی فرق آنے لگتا ہے ایسے کردار کمزور طرز عمل کی وجہ سے مجہول کردار کہلاتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہوتے ہیں جو کسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دوران ہی ختم ہوجائیں، ان کا شمار مجہول کرداروں میں کیا جاتا ہے۔(یہ مرکزی اور ثانوی دونوں کردار ہوسکتے ہیں )

محدود یا عارضی کردار

محدود کردار وقتی اور عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جو کہانی میں صورت حال کے مطابق وقتی طور پر  کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ خاص مواقع پر سامنے آتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ناول میں مخصوص مناظر میں کئی محدود کردار سامنے لائے جاتے ہیں۔

نقلی کردار

جب تخلیق کار کسی خاص گروہ(مذہبی، لسانی، علاقائی،سیاسی) یا فرقہ پرست کا کردار تخلیق کرتاہے تو اس کا انداز متعصبانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ تعصبانہ رویے کی وجہ سے کردار زندگی کی حقیقت سے دور رہ جاتا ہے اور ایسا کردار نقلی کردار کہلاتا ہے۔ (مرکزی ؍ذیلی)

پیچیدہ کردار

پیچیدہ شخصیت کے حامل اور نہ سمجھ آنے والی باطنی کیفیات کے حامل کردار پیچیدہ کردار کہلاتے ہیں۔ایسے کرداروں کی سوچ، فکر، طرز عمل اور حرکات وسکنات کسی نہ کسی نفسیاتی پیچیدگی کی مرہون منت ہوتی ہیں، وہ کردار قاری کی پکڑمیں جلدی نہیں آتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی)

مزاحیہ کردار

کسی بھی افسانے، قصے کہانی میں ہنسنے ہنسانے والے کردار مزاحیہ کردار کہلاتے ہیں۔ یہ عام طور پر دل بہلانے کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح کے کردار ہنسی مذاق سے کسی بھی فن پارے میں مزاح کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔(مرکزی ؍ثانوی)

اخلا قی و اصلاحی کردار

اس طرح کے کردار مقصدیت کے تابع ہوتے ہیں اور تخلیق کا ر ان کے ذریعے اچھائی و برائی کے اصلاحی پہلوؤں کو قارئین کے سامنے لاتاہے۔ مولوی نذیر احمدکے مشہور کردار نصوح اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (مرکزی)

رومانوی کردار، تخلیقی کردار

ایسے کردار ناول کی مجموعی فضا اور واقعاتی اتار چڑھاؤ کے مطابق ہی ہوتے ہیں مگر ان میں تخیلاتی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسے کردار جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں۔ حسن و عشق کے معاملات کوہی دنیاوی زندگی کا حاصل اور مقصد سمجھتے ہیں۔(مرکزی )

صنفی کردار

خالق نے انسانوںکو بلحاظ صنف جوڑے کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مرد اور عورت اس کے دو روپ ہیں۔بلحاظ صنف اور جنس اگر درجہ بندی کی جائے تو ہمیں مردانہ اور نسوانی کردار کسی بھی ناول میں ملتے ہیں۔ جس طرح کسی ناول کامرکزی کردار بے شمار خوبیوں کا حامل ہوتا ہے اور جدوجہد  سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح نسوانی کرداروں میں بھی ان خوبیوں کا پایا جانا اشد ضروری ہوتاہے۔(مرکزی ؍ثانوی )

باغی کردار

برصغیر کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر کئی طرح کے نظام حاوی رہے ہیں ،نیز مختلف مذاہب کی تقسیم، ذات، پات، نسل خاندان اور طبقاتی امتیازات نے پوری طرح اس معاشرے کو اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا ۔ ان حالات میں اردو افسانے کی ابتداء و ارتقاہوئی تو معاشرے میں مذہبی، سیاسی، لسانی اور سماجی بغاوت ایک فطری امر اور جذبہ تھا جسکی گہری چھاپ ہمیں اردو ناول میں بھی ملتی ہے۔ اردو ناول میں بہت سے ایسے کردا ر ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے معاشرے کے بالادست طبقے سے بغاوت کیا اور باغی کہلائے۔ان کردار وں کا ظہور ہنوز جاری ہے جو کئی طرح کی سماجی اور معاشی جکڑ بندیوں کو توڑ کر سامنے آتے ہیں ، ایسے باغی کردار کے حامل کہانیاں مقبول بھی ہوتی ہیں یہ صنفی امتیاز سے الگ ہوتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی )

قاری کا فقدان

دریچہ  ڈاکٹر امیرحمزہ   اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یون...