Tuesday 10 September 2024

رسم الخط کی اہمیت

خالق کا ئنات نے انسان اور حیوان میں جو بنیا دی فرق رکھا ہے وہ نطق کا ہے، خدا نے انسان کو نطق کی صلاحیت سے نوازا نیز اسے اشیا کے علم سے بھی نوازا۔ یہیںسے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ علم کے حصول کا تعلق بھی اشرف المخلوقات سے رکھا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ حیوان علم کے حصول پر دسترس رکھتے ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم البتہ اتنا تو علم ہے کہ علم کی بنیادی کیفیت شراکت کی ہے تو کیا وہ اس کی ترسیل کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ جواب کیا ہوگا اس سےمتعلق بھی میں یہاں حتمی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خدا نے انسان کو جتنا بھی نوازا ہےاسے بہتر انداز میں یوٹیلائز کرنا بھی سکھایا ہے، اس لیے نطق کی صلاحیت کے ساتھ ترسیل لسانی و مکتوبی سے بھی نوازا ہے۔ جسے ہم جسم اور روح سے تعبیر کرتے ہیں یعنی رسم الخط کا زبان سے وہی رشتہ ہوتا ہے جو روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ جب دنیا کی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں برسوں سے کوئی نہ کوئی زبان بولی ہی جارہی ہے، لیکن آج بھی تاریخ میں وہی زبان زندہ ہے جسے رسم الخط نصیب ہوا اگر چہ اس تحریر کے پڑھنے والے اب دنیا سے ناپید ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان مجہول اشکال کے معروف معانی کی تلاش میں اصحاب لسانیات بر سر فکر ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں دنیامیں مل جاتی ہیں۔ مصر جسے اُم الثقافہ کہا جاتا ہے، جس کی زبان اور تہذیب و ثقافت کی تاریخ بہت ہی زیادہ قدیم ہے، اس سرزمین میں کتنے آسمانی صحیفے اترے اس کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ قدیم کتب سماویہ بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہیں ہیں تو دنیا بھی اس زبان کو بھلا چکی ہے اور اب

وہاں کی اپنی زبان صرف عربی ہی ہے۔ کیونکہ دنیا ابھی بھی اس زبان کو یا درکھی ہوئی ہے جو کہیں بھی مکتوبی شکل میں موجود ہے۔ زبانوں کی بھی عجیب تاریخ ہے کب کس زبان کی بالا دستی قائم ہو جائے اور کب کون پردۂ خفا میں چلاجائے کوئی نہیں جانتا۔ مغرب و مشرق کی زبانوں کی بات کی جائے تو مغرب میں آپ کو تنوع کی وہ کیفیت نظر نہیں آئے گی جو مشرق میں خطہ بہ خطہ دیکھنے کو ملے گی۔ عرب دنیا جہاں قدیم زبانوں کی ایک بھر پور تاریخ ملتی ہے وہاں اب صرف ایک زبان رائج ہے اگر چہ ہر ملک کا اسلوب الگ الگ ہے، لیکن زبان ایک ہی بولی جاتی ہے۔ مشرق میں برصغیر اس معاملہ میں سب سے منفرد ہے ۔

آج دنیا اتنی گلوبلائز ہوگئی ہے کہ مضبوط زبانوں نے گھڑیال بن کر کمزور زبانوں کونگلنا شروع کر دیا ہے، ایسے میں زبانوں کا تحفظ بہت ہی مشکل امر ہو گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے دیکھنے کومل رہا ہے کہ نئی نسل کی تعلیمی شروعات اُس زبان سے ہو رہی ہے جو عالمی زبان ہے۔ زبانوں کے مٹتے ہوئے اس پر آشوب دور میں بھی ہندوستان میں آئینی طور پر بائیس ایسی زبانیں ہیں جنہیں سرکاری سطح پر یکساں مقام حاصل ہے لیکن پھر بھی زبان وہی باقی رہے گی جس کا اپنا رسم الخط ہوگا ، ہندوستان کے موجودہ منظر نامے کی بات کی جائے تو ابھی بھی کئی ایسی زبانیں ہیں جو اپنے رسم الخط میں لکھی جارہی ہیں جبکہ کچھ دیوناگری میں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن چند ایسی زبانیں بھی ہیں جنہیں اپنے وجود کے ختم ہونے کا احساس ہوا تو انہوں نے قدم اٹھایا اور سہل پسندی کو چھوڑ کر اپنے لیے رسم الخط کو رائج کیا جن میں سنتھالی کی اولچکی اور منی پوری کی میتی مئی رسم الخط ہے، جو کچھ عرصہ پہلے تک بالترتیب دیوناگری اور بنگالی رسم الخط میں لکھی جارہی تھی۔ سنتھالی کو اڑیسہ میں اڑیا اور مغربی بنگال میں بنگالی میں بھی لکھا جا رہا ہے ۔ سنتھالی کے لیے باضابطہ کوئی رسم الخط نہیں تھا ، آج سے سو برس پہلے ہی اس زبان کے رسم الخط کا وجود عمل میں آتا ہے اور 2003 میں جب اسے شیڈیول 8 میں شمار کیا جاتا ہے تو اس میں اسکرپٹ کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ یہ اونچکی میں لکھی جائے گی لیکن آج میں بائیس برس بعد بھی جھارکھنڈ اس پر متفق نہیں ہے، کیونکہ انہیں تو عادت دیوناگری کی پڑی ہوئی ہے اور بطور دلیل جھارکھنڈ کے دانشوران یہی کہتے ہیں کہ سنتھالی میں زبان میں جتنی صوتیات ہیں اس کی نمائندگی اولچکی میں زیادہ نہیں ہے اور دیوناگری رسم الخط سنتھالی زبان کو بہتر انداز میں پیش کرتا ہے۔ الغرض رسم الخط کی یہ لڑائی تین صوبوں کے عوام و خواص کے درمیان جاری ہے وہ بھی صرف دسترس کی وجہ سے کہ اگر نئے رسم الخط میں لکھا جانے لگا تو سنتھال پر گنہ اس معاملے میں پیچھے رہ جائے گا، منی پوری کی اولچکی کی بات کچھ الگ ہے، آج سے ہزار سال پہلے منی پوری او لچکی میں ہی لکھی جاتی تھی کہ اچانک خارجی حکمراں کا اس علاقہ میں قبضہ ہوتا ہے اور وہ وہاں کی زبان کو متاثر کرتا ہے ساتھ ہی وہاں کے رسم الخط کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں کے باشندے اپنے اصلی رسم الخط کی جانب لوٹ رہے ہیں اور اب ساری  درسی کتابیں میتی مئیک میں ہی شائع ہورہی ہیں۔ مندرجہ بالا تناظر میں اردو کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے بہت ہی تیزی کے ساتھ برصغیر میں قدم جمایا۔ بر صغیر سے باہر وسط ایشیا میں بھی اس کے قارئین اور ناطقین کی اچھی خاصی تعداد تھی لیکن سیاست کے کھیل میں یہ زبان ہندوستان میں سرکاری طور پر معتوب تصور کی جانے لگی اور اردو کے مقابلے ہندی کے فروغ نے اس کے پر کو کترنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ البتہ جہاں ہندی زبان نہیں بولی جاتی ہے وہاں اردو زبان آج بھی مضبوط حالت میں نظر آتی ہے کیونکہ وہاں اردو کے مقابلے اس کی ہم شکل ہندی نہیں بلکہ مراٹھی ، تیلگو اور کنٹر آتی ہے اس لیے وہاں اردو اچھی حالت میں ملتی ہے۔ الغرض تمام سازشوں کے باوجود اگر یہ زبان زندہ ہے تو صرف اپنے رسم الخط کی بدولت ورنہ عوام اردو بولتے ہیں اور سر کار ان سے کہتی ہے کہ آپ اردو نہیں بلکہ ہندی بولتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے بھی ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو سامنے والا فرد یہی سمجھتا ہے کہ ہم ہندی بول رہے ہیں جب کہ ہماری زبان اردو ہوتی ہے ، ہاں جب کوئی لفظ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اردو بول رہےہیں ، جب کہ وہ بالی ووڈ کے نغمات میں تھر کتے رہتے ہیں اور انہیں ہندی اس وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ انہیں ہندی کا نام دیا گیا اور اسی رسم الخط میں وہ مشہور بھی ہے ۔ آپ ان نغمات کو نستعلیق رسم الخط میں تلاش کریں گے تو بہت ہی کم نتیجہ برآمد ہوگا ۔

اس جانب اشارہ کرنے کی وجہ یہ بھی آن پڑی کہ گزشتہ چند برسوں میں اردو زبان کو نستعلیق سے زیا دہ رومن اور دیوناگری میں فروغ دیا جا رہا ہے نیز لکھنے کی وکالت بھی کی جارہی ہے۔ اس سے اردو زبان کا وہی حال ہوگا جو ہمارے یہاں سندھی کے ساتھ ہوا۔ سندھی جس کا عربک رسم الخط عالمی رسم الخط مانا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں سہل پسندی کی وجہ سے سندھی دیوناگری میں لکھی جارہی ہے اور نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ اس زبان کے قاری اور کاتب اب مٹھی بھر رہ گئے ہیں۔ آج سے پچاس برس بعد کہیں وہی حال اردو کے ساتھ نہ ہو جائے کیونکہ سندھی کو مثال میں رکھیں تو آزادی کے بعد پہلی نسل وہ تھی جوعربی رسم الخط میں سندھی لکھتی تھی ، دوسری نسل وہ ہوئی جس نے سندھی کو دیوناگری میں منتقل کیا اور اب تیسری نسل میں مٹھی بھر ہی رہ گئے ہیں جو سندھی جانتے ہیں ۔ یہی حال ہمارا ہوگا کہ آج ہم اردو لکھ پڑھ رہے ہیں، ہماری آنے والی نسل سہل پسندی کی وجہ سے اس کو دیوناگری میں لکھے اور پڑھے گی اور بعد کی نسل وہ ہوگی جو یہ جانےگی بھی نہیں کہ اردو کوئی زبان بھی تھی۔ ایسے میں دوسری زبانیں جن کا دائرہ اردو کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے وہ اپنے رسم الخط کو لے کر بہت زیادہ متفکر ہیں اور زبان کے تحفظ کے لیے الگ رسم الخط کی تخلیق میں لگی ہوئی ہیں ،وہیں اردو کے ساتھ مختلف رویہ اپنا کر تقلیب رسم الخط کی وکالت کر کے وہ زبان کے خیر خواہ نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے آلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جسے تاریخ میں تہذیب و ثقافت کے ویلن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو بہت ہی بہتر انداز میں سمجھنا ہے تو منی پوری کی ہزار سالہ تاریخ کو پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے مذہبی بالا دستی کے لیے رسم الخط کو تبدیل کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے لیکن زبان ہی سے تہذیب و ثقافت اور مذہبی اصطلاحات میں نمایاں تبدیلی کی جاتی ہے۔

1 comment:

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...