Thursday 12 September 2024

آتِش یا آتَش

 آتِش یا آتَش

ہمارے یہاں خواجہ حیدر علی آتش کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ آتش میں بکسر دو م یا بفتح دوم کی ایک بحث کھڑی ہوجاتی ہے۔ اردو کے اکابرین اکثر ت پر زبر کے قائل ہیں، ہم تو شروع سے ہی یعنی گلستاںکے زمانے سے ہی آتش میں ت پر زیر پڑھتے آئے ہیں ۔لیکن ہمیں اس وقت تعجب ہوا جب ایم اے کے زمانہ میں پہلی مر تبہ آتَش پر وفیسر علی جاوید کی زبان سے سننے کو ملا، اس وقت انہوں نے کہا دونوں درست ہے۔ ابھی غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام خواجہ حیدر علی آتش کے سمینار میں بینر پر Aatsh  لکھا دیکھا تو سوچا کہ اس لفظ پر بھی چھان بین کرنی چاہیے۔ تو اس کوشش میں لگ گیا او ر جوںجوں کتابیں مطالعہ میں آتی گئیں اس میں خصوصی طور پر دیکھتا رہا کہ ت پر زبر ہے یا زیر یا کچھ بھی نہیں۔ خیر، دیکھتے ہیں کیا ملتا ہے۔

افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر نسیم احمد نے واضح طورپر کہا کہ آتش میں ت پر زبر ہی درست ہے ۔ کیونکہ کلیدی خطبہ میں اکثر مقام پر پروفیسر احمد محفوظ نے ت پر زبر ہی پڑھا ،لیکن کہیں کہیں ان کی زبان سے آتِش بھی سننے کو ملا ۔ پروفیسر شہپر رسول صاحب نے ت پر زیر ہی پڑھا ۔ 

دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مقالا ت کے بعد پرو فیسر احمد محفو ظ نے اس مسئلہ پر پھر گفتگو کرتے ہوئے آتش برو زن تر کش پر زور دیتے ہوئے مظفر علی اسیر لکھنوی کا ایک قطعہ تاریخ بطور دلیل پیش کیا ۔ 

دلم از مر گ آتش بود غم کش

ز آتش یا فتم تاریخ آتش 

 اس کے بعد پروفیسر اخلاق آہن نے فارسی کے قدیم ما خذ سے بھی یہ ثابت کیا کہ یہ آتش بر وزن تر کش ہے ۔ صدارتی خطبہ میں پروفیسر نسیم احمد نے بھی کہا کہ ’’دسیوں شعر میر کے ہیں آتش ردیف کے ساتھ ‘‘ لیکن مجھے میر کا ایک بھی شعر نہیں ملا جس میں آتش ردیف ہو ۔ خیر اب لغات کی جانب رخ کرتے ہیںاور ان کا میلان معلوم کرتے ہیں : 

 فرہنگ فارسی معین: تَ یا تِ( یہاں دونوں موجود ہے )

فرہنگ فارسی عمید: (atars, atas) (آتیش اور آدیش س نکلا ہوا ہے )

لغت نامہ دہخدا: آتَش (بطور تخلص آتش اصفہانی اور آتش لکھنوی کا بھی ذکر ہے)

فرہنگ آصفیہ: لفظ آتش کے تلفظ میں اختلاف میں ہے، اکثر فرہنگ نویسوں نے تو بکسر تا اوربفتح تا دونوں طرح رکھا ہے مگر بعض نے صرف اخیر صورت کو مانا ہے۔بلکہ پہلی صورت کی نسبت گوزیادہ ہی کیو ں نہ بولتے ہوں، ہمیں بھی تامل ہے کیونکہ جہاں تک شعرا ئے فارس کے اشعار ہماری نظر سے گزرے ہم نے برابر سرکش اور مشوش وغیرہ کے ساتھ آتش کا قافیہ پایا۔ چنانچہ ظاہر ہے۔

آہ تن سوز دروں سے شکل آتش ہے مرا 

دل کسی آتش کے پر کالے پہ جو غش ہے مرا (جرأت)

حریص و جہاں سوزو سرکش مباش 

زخاک آفریدنت آتش مباش  (سعدی)

دیوانہ ام زخانہ مشوش برآمدہ

طوفانم از تنو بہ پر آتش آمدہ (نظیر ی )

البتہ صاحب فرہنگ جہانگیری نے مولوی معنوی کا یہ شعر جس میں بکسر تائے فوقانی باندھا ہے سنداً بیان کیا ہے۔

گفت آتش من ہمانم آتشم

 اندر آ، تا تو بہ بینی تابشم

مگر ہم اس موقع پر قدیم فارسی کے موافق ضرورت شعر کے باعث بکسر تا قافیہ باندھ دینا جائز خیال کرسکتے ہیں نہ کہ اس کو ٹکسالی مانیں، کیونکہ زبان زند سے بھی جس پر فارسی زبان کا مدار ہے او ر نہایت پرانی زبان ہے جس کے الفاظ نے مرور زمانہ کے باعث اس قسم کی تبدیلیاں اختیار کی ہیں۔ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ آترس بفتح تائے فوقانی یہ لفظ حسب قاعدہ رائے مہملہ گر کے آتس ہوا۔ اور پھر بشین معجمہ آتش ہوگیا۔ بلکہ یہی وجہ ہے کہ شعرائے فارس نے اپنے کلام میں بفتخ تا ہی اس کا استعمال زیادہ کیا ہے۔ اس جگہ ہمیں صاحب فرہنگ جہانگیری سے کلی اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی ہم انہیں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ قدیم فارسی اس امر کا بخوبی ثبوت دے رہی ہے کہ آتِش بکسر تائے فوقانی کی اصل آدیش یا آتیش ہے۔

صاحب آصفیہ نے جس صورت سے جملہ کو ترتیب دیا ہے اس میں یہ بخوبی ظاہر ہورہا ہے کہ اکثریت ت کے زیر کی ہے ۔جیسا کہ آپ اس جملہ میں غور کرسکتے ہیں’’ اکثر فرہنگ نویسوں نے تو بکسر تا اوربفتح تا دونوں طرح رکھا ہے مگر بعض نے صرف اخیر صورت کو مانا ہے۔ ‘‘ پہلے تو انہوں نے اکثر کا تعلق کسرہ اور فتحہ دونوں سے جوڑا پھر ’’ مگر ‘‘ کے بعد ’’بعض ‘‘ سے اختصاص کرتے ہیں ۔ گویا ان کے زمانہ میں اکثریت کسرہ والوں کی ہی تھی ۔شواہد پر بحث کرتے ہوئے وہ صاحب فرہنگ جہانگیر ی سے کلی اتفاق تو نہیں کرتے ہیں لیکن ان کو غلط بھی نہیں ٹھہراتے ہیں کیونکہ مولانا روم کے یہاں بھی نظر آرہا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوا ۔ اردو سے بھی اس کی مثال آگے پیش کی جائے گی ۔

نوراللغات: آتش لفظ آترس تھا، قدیم فارسی میںآتیش اور اس سے آتش ہوگیا۔ بکسر تا و بفتح تا دونو ں طرح صحیح ہے۔لیکن اساتذہ کے کلام میں عموما بفتح دوم پایا جاتا ہے۔

لغات روز مرہ: شمس الرحمن فاروقی 

’’اردو میں لفظ آتش کا تلفظ بروزن ترکش، بفتح سوم ہی رائج اور درست ہے۔ بعض لوگ اس لفظ میں سوم مکسور (بروزن بارش بولتے ہیں۔ رائج تلفظ بفتح سوم (بر وزن ترکش ہے اور اب یہی مرجح ہے۔ برہان قاطع میں اس کا تلفظ سوم مکسور سے لکھا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ لفظ دراصل ’’آدش‘‘ تھا، پھر آتیش ہوا، اور بعد میں اس نے موجودہ صورت اختیار کی۔ بعد کے لوگوں نے یہ رائے نہیں تسلیم کی ہے۔ آئند راج میں اس کا تلفظ صرف بفتح سوم لکھا ہے، یعنی صاحب آنندراج کی نظر میں آتش بروزن بارش کا وجود ہی نہیں۔ امیر مینائی نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ اسے بروزن بارش کہتے ہیں لیکن اردو کے فصحا کے یہاں بر وزن ترکش ہی دیکھا گیا ہے۔ نور اللغات میں یہی رائے ذرا بدلے ہوئے الفاظ میں درج ہے۔ صاحب آصفیہ نے آتش کو صرف بفتح سوم لکھا ہے۔ پھر انھوں نے ایک لمبا حاشیہ بھی درج کیا ہے جس میں سوم مفتوح اور سوم مکسور پر گفتگو ہے۔ ان کا فیصلہ یہی ہے کہ اسے بفتح سوم بولنا چاہیے ۔

ایک بات یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ آتش کے ساتھ جو لفظ اردو میں مستعمل ہیں، ماسوائے آتشک، ان سب میں سوم مفتوح ہی ہے، (آتش بازی آتش دان میر آتش آتش کدہ آتش غضب؛ وغیرہ) - صاحب آصفیہ نے تو ’’آتشک کو بھی بفتح سوم لکھا ہے۔ شیکسپیئر نے آتش کو فتح سوم اور بکسر سوم دونوں طرح لکھا ہے، لیکن آتش سے بنے والے تمام الفاظ (بشمول آتشک) میں سوم مفتوح ہی بتایا ہے۔ اس کے برعکس شان الحق حقی نے اپنی لغات تلفظ میں آتش کو صرف بکسر سوم لکھا ہے، اور اس سے بننے والے تمام الفاظ (آتش کدہ آتشناک آتش بازی؛ وغیرہ) کو بھی بکسر سوم لکھا ہے۔ بیدار بخت کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ آتش بازی بکسر دوم ہی سنا ہے اور وہ بھی اسی طرح بولتے بھی ہیں لیکن آتش کے بارے میں انھوں نے کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔ اردو لغت، تاریخی اصول پر میں آتش بکسر سوم اور فتح سوم دونوں طرح لکھا ہے، لیکن بکسر سوم کی کوئی سند نہیں دی ہے۔ آصفیہ میں بفتح سوم کی کئی اردو فارسی اسناد مذکور ہیں۔ صاحب آصفیہ نے جہانگیری کے حوالے سے مولانا روم کا ایک شعر نقل کیا ہے جس میں آتش کو تابش کا قافیہ کیا گیا ہے۔ لیکن آصفیہ میں یہ بھی لکھا ہے، اور صحیح لکھا ہے کہ چونکہ حرف روی کے ماقبل حرف کی حرکت میں اختلاف روا ہے، لہذا آتش تابش کے قافیے سے آتش کا تلفظ بکسر سوم ثابت نہیں ہوتا۔ (جہانگیری کے مطبوعہ نولکشوری نسخے میں لفظ آتش نہیں درج ہے، آتشیزہ البتہ درج کر کے اسے صاحب ’’جہانگیری نے سوم مفتوح لکھا ہے)۔

مختصر یہ کہ دہلی میں اب بھی آتش بر وزن بارش رائج ہے، چاہے بہت عام نہ ہو۔دہلی کے باہر بول چال میں آتش بروزن ترکش ہی عام ہے۔ ’’آتش سے بننے والے الفاظ میں بھی آتش اب زیادہ تر بفتح سوم ہی بولا جاتا ہے۔‘‘

فاروقی صاحب اپنے اسلوب اور تمام شواہد سے اس پر مصر ہیں کہ آتش بفتح ت ہی صحیح ہے ۔ ساتھ ہی ان کا آخری اسٹیٹمنٹ بہت ہی دلچسپ ہے کہ دلی والے زیر سے بولتے ہیں اوردلی سے باہر کے لوگ زبر سے ہی بولتے ہیں ۔ یہ یقینا ان کا مشاہدہ ہوگا ۔ 

لیکن میں توبچپن سے آتش برو زن بارش سنتا آیا ہوں اور اب بھی نناوے فیصد آتش ہی بولتے ہیں۔ تو کیا آتَش کی جانب لوٹنا ممکن ہوگا یا نہیں؟ شاید نہیں! کیونکہ یہ تلفظ تو رومی کے دور سے ہی چلن میں ہے۔ ہاں ایران میں نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ سبک ہندی، دری و خراسان میں رائج ہو اسی وجہ سے رومی کے یہاں بھی ملتا ہے۔ اور جو لہجہ صاحب آصفیہ کا ہے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بھی یہ زبان زدو عام تھا۔ اس لیے انشا نے دریائے لطافت میں ایسے مسائل کے اوپر صاف صاف لکھ دیا ہے:

’’مخفی نماند کہ ہر لفظے کہ در اردو مشہور شد عر بی باشد یا فارسی یا ترکی یا سریانی یا پنجابی یا عر بی از روی اصل غلط باشد یاصحیح آن لفظ لفظ اردو است۔اگر موافق اصل مستعمل صحیح است و اگر خلاف اصل است ہم صحیح است صحت و غلطیِ آن موقوف بر استعمال پذیرفتن در اردو است زیرا کہ ہر چہ خلاف اردو است غلط است۔گو در اصل صحیح باشد بہ و ہر چہ موافق اردو است صحیح باشد گو در اصل صحت نداشتہ باشد‘‘۔

یعنی لفظ خواہ کسی بھی زبان کا ہو اردو میں جیسا مستعمل ہے وہی درست مانا جائے گا ۔ 

صاحب اور صاحَب ،محبت اور مَحبت،کنار ہ اور کَنارہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔

اب پھر لوٹتے ہیں مظفر علی اسیر کے اس شعر کی جانب جسے پروفیسر احمد محفو ظ صاحب نے پیش کیا تھا ۔ 

دلم از مر گ آتش بود غم کش

ز آتش یا فتم تاریخ آتش 

 قافیہ کے اس مسئلہ پر فاروقی صاحب درس بلاغت میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں : 

’’اگر حرف روی کے پہلے آنے والے حرف میں دونوں جگہ حرکت ہوتو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ حرکتیں مختلف ہوسکتی ہیں ۔ چنانچہ’ خوش‘ کاقافیہ ’شش‘(بمعنی چھ ) اور ’کم‘ کا قافیہ ’گم ‘ ہوسکتا ہے ۔‘‘(ص 129)

شاید اسی وجہ سے ’’ تذکرۂ معرکہ سخن ‘‘ میں مولوی عبدالباری آسی لکھتے ہیں: 

’’قدما اختلاف توجیہ کو بڑا عیب نہ سمجھتے تھے ۔ آتش ناسخ غالب وغیرہ کے زمانہ تھے یہ جائز تھا ۔غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو 

دل لگا کر آپ بھی غالب مجھی سے ہوگئے 

عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے 

’صاحب ‘ رب ، سب وغیرہ کا ہم قافیہ رکھا گیا ہے ۔حالانکہ صاحب بکسرحائے حطی صحیح ہے اوربفتح غلط ہے ۔ ‘‘(ص:3)

اب یہاں پر غالب یاتو صاحب کا تلظ غلط کررہے ہیں یا پھر قافیہ درست نہیں ، اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر آسی اور فاروقی  دونوں کی بات درست ہورہی ہے جب یہ درست ہے تو پھر ہر مقام پر آتِش بھی درست ہے ۔ 




No comments:

Post a Comment

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...