Monday 16 September 2024

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"


جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ الفاظ و محاورات اور تراکیب کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے. جوش کو پڑھنے کا میرا واحد مقصد زبان کا طریقہ استعمال سے آگاہ ہونا ہے. جوش نے جس قسم کے الفاظ اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ نہ تو ان سے پہلے نظر آتا ہے اور نہ ہی ان کے بعد. 

جوش کی رباعیات کے حوالے سے کام کرتے ہوئے جوش مجھے اتنے منفرد نظر آئے کہ میں ان کے مقابلے میں کسی کو بھی نہیں لا سکا خواہ پیچیدہ موضوعات ہوں یا خوبصورت الفاظ، رومانوی انداز بیاں ہو یا محاوراتی زبان، حکیمانہ و فلسفیانہ باتیں ہوں یا خوبصورت تراکیب، سبھی کچھ مجھے ان کے یہاں دیکھنے کو ملا، 2750 رباعیات میں کم و بیش 400 رباعیاں  لفظوں یا مصرعوں کی تبدیلی کے ساتھ بھی نظر آجاتی ہیں. 

لیکن مجھے ان کی دو غیر مطبوعہ کتابوں کا شدت سے انتظار تھا. ہلال نقوی سر سے مستقل باتیں ہوتی رہیں. فرخ جمال سے بھی باتیں ہوئیں. یہ دونوں کوشاں تھے کہ کسی طریقے سے ان کی غیر مطبوعہ کتابیں "محمل و جرس" اور "فکر و ذکر" منظر عام پر آجائے. محمل جرس ان کا آخری مجموعہ کلام ہے اور فکر و ذکر ان کی آخری نثری تحریر کا مجموعہ ہے. اس کو آپ تراشے کے ضمن میں بھی شامل کر سکتے ہیں. کوئی تحریر صفحات پر محیط ہے تو کوئی یک سطری. کہیں فلسفیانہ ابال ہے، تو کہیں رومانویت سے بھرپور مناظر ہیں، کہیں وقت حاضر کے حاکموں پر پرزور چوٹ ہے، تو کئی مقام پر ناقدین  ادب کی بھی انہوں نے خیر لی ہے. خصوصا فکر ذکر کے حوالے سے بات کروں تو یہ کتاب میں تقریبا تین مرتبہ پڑھ چکا ہوں بہت سارے نشانات بھی میں نے اس میں لگائے ہیں جو میرے پسندیدہ صفحات ہیں.
یہ بھی میں عرض کردوں کہ جوش کے شعریات سے میں مکمل اتفاق نہیں رکھتا ہوں، انہوں نے لفظی اشتقاق کے تجربات سے تنافر بھی پیدا کیا ہے اور کہیں معنوی پیچیدگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، علامات کے افراط سے روانی میں کمی بھی آئی ہے، اور کہیں کہیں املا میں ان کا جبر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، خیر لفظوں سے متعلق ان کی ایک رائے اس کتاب سے ملاحظہ ہو.
 "زبان میں متقدمین کے حدود سے تجاوز کو کفر سمجھ کر اجتہاد کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ جدید الفاظ سے متروکات کی خانہ پری نہیں کی جائے گی ۔ نیاروزمرہ، نئے ضرب الامثال ، اور نئے محاورے نہیں بنائے جائیں گے۔ حیوانات کے نروں اور ماداؤں، بچوں، اور اُن کی آوازوں کے واسطے، اسماء نہیں تراشے جائیں گے. جمادات کے تمام الوان و اقسام کو ناطقے کے آنکڑے میں نہیں لیا جائے گا۔ نباتات کے رنگوں ، اور خوش بوؤں اور دھاریوں کے ناموں کی تسکیک نہیں کی جائے گی۔ تمام ذائقوں کے واسطے الگ الگ الفاظ نہیں تراشے جائیں گے. اور، وہ خیالات ، تصورات ، مفرد و مرکب جذبات، احساسات، تصورات، تخیلات، مفکورات. جو آج تک برہنہ سر، گونگے ہیں۔ اور اُن کی پیشانیوں پر، اسماء کی ٹوپیاں ، کج نہیں کر دی جائیں گی. وہ زبان ، تادیر، سلامت نہیں رہے گی۔ اور اُس بے آب درخت کی مانند جو خشک ہوکر زمین پر آجاتا ہے، بھرجی کے بھاڑے میں جھونک دیا جاتا ہے."

اس حوالے سے ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو. 

الفاظ خیالات کی سواریاں ہوتے ہیں۔ جن کی وساطت سے، دل کی بات،زبان تک آتی ، اور خموشی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
افسوس کہ سواریاں ، ثمردۂ و محدود، اور سوار، نا قابل شمار ولا محدود ہیں۔ لغات کے خالی اصطبل میں، تین چار لاکھ سے زیادہ سواریاں موجود نہیں ہیں، اور دماغ کے بھرے پرے شہر میں سوار ہیں اور اربوں کھربوں ۔ چنانچہ سواریوں کی اس عبرت ناک قلت اور سواروں کی اس حیرت ناک کثرت نے ، عالم حرف و حکایت پر اس قدر قہر نازل کر رکھا ہے که جذبه اظہار و ابلاغ کی نبضیں چھوٹی ہوئی ہیں، اور کروڑوں سوار ( خیالات ) سواریوں (الفاظ) کی نایافتگی ، اور جمود کی فراوانی کی بناء پر وجع مفاصل اور فالج میں گرفتار ہو ہو کر،دم تو ڑ چکے ہیں."
اس کتاب میں انہوں نے اپنے مختلف خیالات کو نثری پیرہن میں پیش کیا ہے، ایک بات اور عرض کردوں کہ اگر جوش نثری شاعری کے قائل ہوتے تو شاید ان کی یہ پوری کتاب اسی ہیئت سے متصف ہوتی، ابھی بھی قاری سطروں کو توڑ کر نثری شاعری کے اسلوب میں اس کتاب کے اکثر مضامین کو پڑھ سکتا ہے. لیکن وہ تھے کھرے شاعر اس لیے پابند سے کبھی بھی غیر پابند کے پاس سے بھی نہیں گزرے 
یہ کتاب 220 صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت 500 روپے ہے. 

دوسری کتاب "محمل و جرس" شعری مجموعہ ہے، اس کے سرورق میں اگرچہ 1972 درج ہے لیکن آخری تحریر میں 15 اپریل 1972 درج ہے. 
جوش اپنی ہر کتاب کو ابواب میں تقسیم کرتے تھے اور ہر باب کا نام بھی رکھتے تھے، اس کتاب کو بھی دو ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب کا نام "مسافر خانے کی آخری رات کا شب خون" جس میں 28 نظمیں ہیں.
اور دوسرے باب کا نام "دھوپ چھاؤں" ہے اس باب میں تقریباً پچھتر نظمیں ہیں.

"یہ سچ ہے کہ میری زبان سمجھنے اور بولنے والے، ماشاء اللہ ، کروروں افراد ہیں۔ لیکن مجھ کو اس علم سے، ذرہ برابر بھی تسلی نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ میرے ہم زبانوں میں چھیانوے فی صد، نرے جاہل ، دور سنگ کے سے، بے ترشے اور وحشی چہرے والے جاہل ہیں۔ اور وہ، دو پاؤں، پر بھدے پن سے، چلنے والے چوپائے ہیں اور ایسے درندہ خو چو پائے کہ ان کے قریب جاؤ تو وہ دلتیاں جھاڑنے ، اور سینگ مارنے لگتے ہیں۔ ان بلبلاتے اونٹوں کے ریوڑ میں، بمشکل چارفی صد افراد ایسے ہیں جن کو تعلیم یافتہ کہا جاسکتا ہے لیکن ان میں بھی اکثریت ہے ان کی، جنہیں حرف شناس جہلاء کے علاوہ اور کوئی خطاب نہیں دیا جا سکتا۔ اس ڈگری یافتہ جہالت کی علت یہ ہے کہ انھوں نے ، دماغ میں علم کی شمع جلانے کے واسطے نہیں ، صرف پیٹ کی آگ بجھا لینے کی غرض سے، جوں توں کر کے، سندیں حاصل کی ہیں ، وہ اپنے معدوں کی آبادی کے تمنائی ہیں اور ان کو اس کی پروا، اور اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ ان کی کھوپڑیاں ، ویران ، اور بھا ئیں بھا ئیں کر رہی ہیں۔ اس نان پرستار و آگاہی بیزار دنگل میں، ایک ، یا ڈیڑھ فی صد افراد ضرور ایسے ہیں ، جن کو،مروت سے کام لے کر ، صاحب علم و نظر کہا جا سکتا ہے۔"
 یہ بھی ضروری نہیں کہ جوش کی ہر بات سے اتفاق کروں، یقیناً ان میں علویت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. انہوں نے کبھی بھی خود سے بڑا تو دور کی بات ہے برابر بھی کبھی نہیں سمجھا. ادبی دنیا کی بات کی جائے تو وہ ناقدین پر نظم بھی تحریر کر چکے ہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقید جس روش پر چل رہی تھی ان کی شاعری اس روش سے الگ تھی. اس لیے ان کی کبھی کسی سے بنی نہیں. ساتھ ہی یہ وجہ بھی رہی کہ وہ کبھی بھی کسی ایک نظریہ پر قائم نہیں رہے، وہ نظریاتی اعتبار سے صرف شاعری کے نظریہ کے پابند تھے کہ کسی بھی موضوع کو شاعری کہ پیمانہ میں کیسے ڈھالا جائے. اسی لیے شاید وہ شاعر آخرالزماں کہلائے. یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری کا باب ان پر ختم ہوجاتا ہے، ان کے بعد تو ضمیمہ کا دور شروع ہوجاتا ہے. 
اس مجموعہ سے نظم "خود اعتمادی" ملاحظہ فرمائیں. 

کیا ہوا، آج، جو ناقابلِ پرواز ہوں میں
 عرش کو، جس کی تمنا ہے، وہ شہباز ہوں میں

اے خوش آغاز بد انجام، مجھے کیا معلوم
 کہ نوا سنج خوش انجام و بد آغاز ہوں میں

مجھ کو، آنکھوں پہ جگہ دے، جو نظر ہو تجھ میں
 کرہ ارض، تیری خاک کا اعجاز ہوں میں

ظلمتِ نقل کی جانب، نہ پکارو مجھ کو
 مشعل عقل کا پروانہ جاں باز ہوں میں

 چھیڑ سکتی نہیں، ذرات کی مضراب جسے
 دست خورشید ہاں تاب کا وہ ساز ہوں میں 

جس کی گل بانگ سے اُڑتا ہے شب تار کا رنگ 
خیمہ صبح کا وہ زمزمہ پرداز ہوں میں

عادتاً، عشق کی منزل میں ہوں، پابند نیاز 
فطرتاً، حُسن کا، سر تا بہ قدم ناز ہوں میں 

فاش ہو جاؤں، تو ، جھک جائے سر دیر و حرم
سینه حکمت کونین کا، وہ راز ہوں میں

مجھ کو، ہر ذرہ ناچیز، یہ دیتا ہے صدا
 اس طرف دیکھ کہ معشوقہ طناز ہوں میں

کہہ رہا ہے یہ، در قصر عفاف ملکوت
 آ، ترے مقدم عصیاں کے لیے باز ہوں میں

طائر سدرہ نہ نہ گھبرا کہ میں کم ظرف نہیں
 جس کی زد پر ہے قضا، وہ قدر انداز ہوں میں

نہیں پھوٹی ہے جو اب تک، وہ کرن ہوں اے جوش
 جو، گلے تک نہیں پہنچی ہے، وہ آواز ہوں میں

اس کے بعد ساٹھ صفحات میں جوش شناسی پر مضامین ہیں. اگر جوش کے زمانہ میں ہی یہ کتاب شائع ہوتی تو شاید اس قسم کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، وہ شاید ہی اپنی کتاب میں کسی اور کی تحریر پسند کرتے. پیش کنندگان کو اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے تھا. 
میرا خیال یہ کتاب ان کی زندگی میں ہی منظر عام پر آجاتی تو شاید یہ مجموعہ بھی نصاب کا حصہ ہوتا. 520 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 900 روپے ہے. 
الغرض ظاہری و معنوی اعتبار سے دونوں کتابیں لاجواب ہیں، شاعر آخرالزماں کی آخری نشانیاں ہیں. جو چالیس برسوں بعد ہمارے لیے accessible ہوئی ہیں. اس کے لیے ہم اردو برادری جناب عدیل زیدی اور عبارت پبلیکیشن کے شکر گزار ہیں.

No comments:

Post a Comment

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...