مولانا عبید اللہ سندھی کا جہانِ تفسیر
امیر حمزہ
1857 کی بغاوت کے بعد آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین اٹھارہ سو ستاون نے آزادی کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے ایک تحریکی تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں لاتے ہیں ۔ جس کے خمیر میں علوم عقلی و نقلی ، تصوف و سلو ک ، اصلاح معاشرہ و رد بدعات کے ساتھ ساتھ ہند کی آزادی کا خون دوڑ رہا تھا تو کیسے ہوسکتا ہے کہ یہاں کا کوئی بھی طالب علم ان مقاصد سے دور رہ سکتا ہو۔ بز م ولی اللہی کا چراغ ا ور شاہ عبد الغنی کے شاگرد ملا محمود مدرسہ کے پہلے استاد ہوئے توشاگر د بھی بز م ولی اللہی کا تابندہ چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے اساسی مقصد کا محر ک اور امیر کارواں بن کر شیخ الہند کی شکل میں سامنے آیا ۔ دارالعلوم یہاںاپنے اساسی مقصد کی جانب کامیا بی کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا نظرآتا ہے ۔ اس آئیکو نک شاگرد نے جب تدریس کا عمل شروع کیا تودیگر کئی ہونہار شاگر دوں کے ساتھ دو ایسے شاگر د تیار کیے جو بز م ولی اللہ کے چراغ تھے ایک علامہ انور شاہ کشمیر ی جس میں مجدد الف ثانی کی روح اور دوسرے مولانا عبیداللہ سندھی جس میں شاہ اسماعیل شہید کا خون دوڑ رہا تھا۔( اسلاف میں شاہ عبدالعزیز نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھاکہ انہوں نے حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کے لیے مسلح کیا اور شاہ محمد اسحاق کو درس وتدریس کا مسند تفویض کیا ) جن کے اساتذہ شیخ الہندہوں اور شاگردوں میں، مولانا حسین احمد مہاجر مدنی ،مفتی کفایت اللہ ،عبیداللہ سندھی اور علامہ انور شاہ کشمیری ہوں وہ بھلا شمع ولی اللہی سے کیسے بیزار رہ سکتے ہوں ۔ اس وقت علماء کی کھیپ تھی جو ہر مورچہ پر انگریز ی حکومت سے محاذآرا تھی ،اٹھارہ سو ستاون سے ۱۹۴۷ ء تک ہر محاذمیں علماء کا جتھا اپنی نمایاں کاکر دگی میںمشغول تھے۔ انہیں میں سے ایک مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔
مولانا عبید اللہ سندھی (1876ء) دار العلوم دیوبند کی مایہ ناز شخصیت ہیں، علمی میدان میں انہوں نے بیش بہا خدمات سر انجام دیں، ان خدمات میں ان کی تفسیر کی خدمات اور اسلوب تفاسیر ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ آپ نے با قاعدہ تفسیر مرتب نہیں کی بلکہ آپ نے اپنے تلامذہ کو مکہ مکرمہ میں (1926) اور وطن واپس آنے کے بعد (1939) میں تفسیری دروس دیئے جنہیں ان کے طلبہ نے کتابی شکل دی۔ جنہیں آپ کے تلامذہ نے بڑی جانفشانی سے مرتب کیا۔ مرتبین میں مولانا موسی جار اللہ ، مولانا عبد اللہ لغاری ، مولانا محمد مدنی اور بشیر احمد لدھیانوی شامل ہیں۔
مولا نا عبید اللہ سندھی بنیادی طور پر ایک معلم تھے ۔ اردو نہ ان کی مادری زبان تھی اور نہ انھوں نے اسکو بطور زبان سیکھا تھا۔ اس لئے وہ اپنے افکار کو بیان کرنے میں اس زبان کے صحیح استعمال پر قادر نہ تھے۔
مولانا سندھی تفسیر میں ایک خاص طرز کے مالک تھے ۔ جن کو انکے شاگردمولانا احمد علی تفسیر کی بجائے الاعتبار والتاویل ہی کے نام سے یاد کرنا پسند کرتے تھے۔ ہندوستان میں درس قرآن کا عمومی رواج مولانا عبید اللہ سندھی نے شروع کیا تھا اور اس سلسلہ کو ان کے دوشاگردوں مولانا احمد علی اور مولانا عبد الحئی فاروقی نے آگے بڑھایا۔
ذیل میں ان کی تفاسیر اور متعلقات تفاسیر کا اجمالی تعارف پیش ہے ۔
تعلیمات قرآنی اشاعت اول ۱۹۵۹ء
یہ ایک پر مغز مقالہ تھاجسے مولانا سندھی نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ راولپنڈی میں پیش کیا تھا۔ اس میں قرآن کے مطالعہ ہی کو موضوع سخن بنایا تھا یعنی قرآن کی تعلیم کا کیا اثر ہوتا ہے اور مختلف ادوار میں مسلمانوں نے قرآن کو کس طرح پڑھا اور سمجھا۔ اس کو غلط طریقہ سے پڑھنے اور سمجھنے سے کیا برے نتائج پیدا ہوتے ہیں اور صحیح طریقہ سےپڑھنے اور سمجھنے سے کتنے خوشگوار اور مفید نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔یہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئی او ر کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
اول: قرآن کی تعلیم کا اثر ۔ دوم : قرآن کی تفاسیر کی مختصر تاریخ ۔ سوم: قصص القرآن۔ چہارم میں شیخ محمد عبدہ کی کتاب الاسلام والنصرانیت کو بنیاد بنا کر مسلمانوں پر طاری جمود اور اس کے اسباب کے متعلق بحث ہے۔ پنجم باب میں انہوں نے بتایا کہ قوموں کی ترقی میں سنگ بنیاد الوہی جذ بے ہوتے ہیں جس میں پہلا مذہب اور دوسرا حب وطن ہے ۔ مذہب کے مقابلہ میں حب وطن کا جذبہ مسلمانوں میں بہت کمزور ہے اس لیے مسلمان صرف مذہب ہی سے متاثر ہو کر حقیقی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔
النبي الامين والقرآن المبين افادات مولا نا عبید اللہ سندھی ۔ مرتب قمر الدین سہتو
قمر الدین سہتو نے اس کتاب کو پہلے سندھی زبان میں مرتب کیا تھا۔ اس میں مختلف عنوانات اور ذیلی عنوانات کے تحت قرآن کریم کی آیات سے سیرت پاک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں اور حواشی میں مولانا سندھی کی تفسیر سے آیات کے تغییری نوٹ دیے گئے ہیں ۔ یہ کتاب ۳ جلدوں پرمشتمل ہے۔
پہلی جلد: بعثت نبوی سے پہلے بشارتیں اور حالات زندگی
دوسری جلد:بعث سے ہجرت تک ( کی آیات سے مرتب کیا گیا )
تیسری جلد: ہجرت اور مدنی دور ( مدنی آیات سے مرتب کیا گیا )
جنگ انقلاب۔ سورۃ قتال کی حکیمانہ انقلابی تفسیر مولا نا عبید اللہ سندھی ۔ مرتبہ بشیر احمد لدھیانوی ۔ ناشر الحکمت لاہور
سورۂ محمد مدنی سورت ہے۔ جنگ بدر کے بعد ۲ ھ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کی تفسیر شاہ ولی اللہ کے افکار کو اساس بنا کر کی گئی ہے جس میں بین الاقوامی انقلاب کی ضرورت واضح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم کے مطابق جنگ ، اجتماعی جنگ ( ہمہ جہت جنگ) ہے جس سے کوئی بھی مستثنی نہیں حتی کہ ہاتھ پیر سے اپاہج بھی ۔ ساتویں صدی عیسوی میں قیصر روم اور کسری ایران کے ساتھ عربوں کی جو جنگیںہو ئیں مولانا سندھی کے خیال میں وہ اس نکتہ کی بہترین مثال ہیں ۔
قرآن حکیم کی تعلیم اجتماعی انقلاب کی تعلیم ہے۔ اس کا فائدہ انسانیت کے کسی خاص طبقہ کو نہیں پہنچتا ہے بلکہ اس کا فائدہ ساری انسانیت کو یکساں پہنچتا ہے۔ اس لئے اس کے اصول پر ہر سوسائٹی میں انقلاب آنا ضروری ہے۔ حکمت ولی اللہی کے مطابق اس طرح قائم ہونے والی حکومت اجتماعی اور غیر استعماری ہوگی۔
قرآنی اصول انقلاب - تفسیر سورۃ والعصر ۔ مرتب بشیر احمد لدھیانوی
مولانا کے مطابق قرآن حکیم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ دین کے بنیادی اصولوں کی تشریح بعض چھوٹی سورتوں میں کرتا ہے۔ اس کے بعد طویل سورتوں میں جہاں ان اصولوں کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے ان پر تفصیلی نہیں کرتا ۔ بلکہ صرف اشارہ کر دینا یا ان کے لئے اصلاحی الفاظ استعمال کرنا ہی کافی سمجھتا ہے۔ مولانا کے خیال میں یہ سورت قرآن حکیم کی انقلابیت کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔ اس میں انقلاب کے وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے عمل کر کے قرآن حکیم کی حکومت قائم کر دکھائی ۔ مثلا قرآن حکیم میں بار بار آتا ہے الذين آمنو و عسلو الصلحت ۔ اس میں دو اصلاحیں آتی ہیں۔ الذین آمنو اور عملوا الصالحات سورۃ العصر میں ان دو اصلاحوں کی تشریح کر دی گئی ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسانی اجتماع میں مندرجہ ذیل چار باتیں پیدا نہ ہو گئیں وہ کامیاب نہیں ہوا:۱ نظریه ایمان ۲ عمل صالح، ۳۔ حق کی تلقین، ۴۔ صبر کی تلقین ۔
قرآنی اساس انقلاب از عبد اللہ سندھی ۔ مرتب نامعلوم
یہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے جس کا نام الا ساس بھی ہے۔ اس آیہ کریمہ میں جو نازل ہونے کے لحاظ سے بالکل ابتدائی زمانہ کی وحی ہے۔ قرآنی انقلاب کی زیریں بنیاد متعین کر کے انقلاب لانے والی جماعت کو اس بنیاد پر کامیابی کا قصر تعمیر کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے ۔ اس سورۃ میں قرآنی انقلاب کی بنیا د صراط مستقیم بنائی گئی ہے۔ اس سورۃ کے مضامین کی توضیح میں مولانا سندھی نے قرآنی سیاست اور قرآنی حکمت کی بنیادشاہ ولی اللہ کے فلسفہ پر رکھی ہے۔
عنوان انقلاب ۔ یعنی سورۃ فتح کی حکیمانہ تفسیر مرتبہ شیخ بشیر احمد بی اے لودھیانوی ،
اس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر جنگ کے متعلق قرآن حکیم کا نظریہ ابتدائی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ اور انقلابی پارٹی کو منافقت سے پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور رجعت پسندی کے خاتمے کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔
سورۃ فتح میں قرآن حکیم کے عظیم الشان نصب العین کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کا منشا یہ ہے کہ قرآن حکیم کا قانون تمام دوسرے قوانین پر غالب رہنا چاہئے ۔ اور یہ نصب العین قرآن کے بین الاقوامی غلبے کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے لئے اعلی اقدار کی حامل انقلابی جماعت کی ضرورت ہے جو غالب آکر پرانے رجعت پسندانہ اقدار کو ختم کرے اور سوسائٹی میں نئی تہذیب کی بنیا در کھے۔
تفسیر المقام محمود
سورۃ الفاتحہ اور سورۃ بقرہ کی تفسیر ہے اسے ڈاکٹر منیر احمد مغل نے مولا نا لغاری کی جمع کردہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر کو بنیاد بنا کر اپنے حواشی کے ساتھ شائع کیا ہے۔
الهام الرحمن في تفسير القرآن جلد اول سورۃ فاتحہ تا سورۃ مائده
جامع (عربی) علامہ مویٰ جار الله مترجم اردو مولانا عبد الرزاق و مولانا قاسم ،اشاعت اول ۱۹۷۷ء
علامہ موسیٰ جار اللہ کے مقدمہ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ مولانا محمد قاسم نے اور سورۃ بقر تا سورۃ مائدہ کا ترجمہ مولانا عبدالرزاق نے کیا ہے۔ جلد دوم - سورۃ انعام تا سورۃ توبہ کا ترجمہ مولانا محمد قاسم نے کیا ہے۔
القاء الرحمن في تفسير الهام الرحمن
جامع - علامہ موسیٰ جار اللہ مترجم مولانا ابوالعلاء محمد اسمعیل گودھروی سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقر کی اصل عربی تفسیر علامہ غلام مصطفے قاسمی الہام الرحمن کے نام سے مرتب کر کے بیت الحکمت ۔ کراچی سے شائع کر چکے ہیں ۔ یہ تفسیر اسی کا اردو ترجمہ ہے ۔ اور جنوری ۱۹۸۸ء سے ماہنامہ الوی حیدر آبا دسندھ میں بالا قساط شائع ہوا۔
مذکورہ بالا تفاسیر کو بعد میں ’’الہام الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘( قرآن عظیم کی حکیمانہ انقلابی تفسیر )،‘‘قرآنی شعور انقلاب‘‘، ’’قرآن کا مطالعہ کیسےکیا جائے‘‘،’’مجموعہ تفاسیر امام سندھی‘‘اور ’’تفسیر المقام المحمود‘‘ میں ہی جمع کیا گیا ہے ۔
مولانا عبید اللہ سندھی کے تفسیری منہج کا اجمالی جائزہ
مولا ناسندھی نے تفسیری میدان میںخاص اسلو ب تفسیر متعارف کروایا جو دیگر مفسرین کرام کے روایتی انداز تفسیر سے ممتاز نظر آتا ہے۔ آپ پر فکر ولی اللہ کا اثر واضح نظر آتا ہے۔ آپ معاشرے کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی مسائل کے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعیت اور انقلاب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تاریخی مباحث سے استدلال کرتے ہیں۔
کتب سابقہ سے استدلال
مولا ناسندھی اپنی تفاسیر میں بہت سے مقامات پر تورات کے صحائف کا بھی تذکرہ کرتے ہیں اور قرآن کریم کی کچھ تعلیمات کے ساتھ تو رات کی مشابہت کو واضح کرتے ہیں، مثلاً: سورۃ البقرۃ کے تعارف میں فرماتے ہیں: سورۃ البقرة تورات کے صحائف کی مانند ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ر حمن کی محبت باپ کی محبت کی مانند ہے، باپ کی اسی شفقت کی بناء پر عیسائی خدا کو باپ اور ہندو ماں کوممتاد یوی سے تشبیہ دیتے ہیں ۔
مفسرین کرام کی تفاسیر میں اس آیت کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمن الرحیم کو بیان کیا گیا جبکہ آپ کی اس تشریح سے اس بات کی تائید ملتی ہے کہ عیسائیوں کا خدا کو باپ سے تعبیر کرنے کی وجہ خدا کا باپ کی طرح رحیم ہونا ہے اسی طرح ہندومت کا تبھی تذکرہ کیا ۔ خدا کی شفقت و محبت کی بدولت ان مذاہب میں یہ تعبیرات پائی جاتی ہیں۔ گو یا خدا تعالی کی ان صفات کاملہ کی بدولت ان مذاہب میں خداؤں کو باپ یا ماتاد یونی کہا جاتا ہے۔ مولانا اس فکر میں متفرد ہیں۔ اسی طرح عیسائیت کے مذہبی ادب کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الاعلیٰ میں آیت إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
تورات کی سب سے پہلی کتاب پیدائش حضرت ابراہیم کا صحیفہ ہے جسے موسیٰ نے ابتداء میں رکھا، خروج تک تورات کا حصہ ہیں۔ علماء کو تورات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بڑے بڑے علماء اپنے مدارس میں بائبل پڑھاتے تھے لیکن بعد کے مسلمانوں نے اس سے غفلت برتی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم کے صحیفے گم نہیں ہوئے بلکہ ابھی تک موجود ہیں۔
مولانا اکثر و بیشتر مقامات پر سماوی مذاہب کا تذکرہ ان کے مذہبی لٹریچر اور اس میں موجود تعلیمات کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ اسی بحث کے ضمن میں غیر سماوی مذاہب مثلاً ہندومت کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں، بعض مقامات پر ان کی تعلیمات کا قرآن کریم سے تقابل کرتے ہیں۔ دیگر مذاہب کے صحائف کے علاوہ مولانا سندھی بعض مقامات پر مذاہب کی تاریخ پر بحث کرتے ہوئے اس دین کی اسلام سے نسبت بیان کرتے ہیں۔ مسیحیت سے متعلق فرماتے ہیں:
’’ہم نے حکمت ولی اللہ سے سمجھا ہے کہ وہ خلفاء راشدین کا زمانہ فتنہ تک شمار کرتے ہیں کہ وہ اعمال نبی کا اتمام وہاں تک سمجھتے ہیں اور دعوت مسیحیت بھی پولس (سینٹ پال) کے بعد ایسی ہے کہ جیسے اسلام فتنہ کے بعد کہ اس کے بعد اس میں غیر صحیح اشیاء شامل ہو جاتی ہیں، لیکن دعوت وسیع ہو جاتی ہے‘‘۔
مولا ناسندھی مفسرین کے طریقہ تفسیر پر رد بھی کرتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے مفسرین کرام نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ قرآن کریم کے بعض خاص واقعات کو بعض خاص واقعات و اشخاص کے ساتھ خاص کر دیا، چنانچہ مفسرین نے ایسی آیات کی تفسیر شخصی رنگ میں کی ہے جو کہ غلط ہے ‘‘ ۔
آپ کے مطابق عمومی طور پر مفسرین کرام تفسیر کرتے ہوئے اپنے حالات و زمانے کے مطابق تفسیرکرنے کی بجائے قرآن کی تشریح گزشتہ واقعات کے تحت کرتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں مذکور حالات و واقعات ہر زمانے کے لیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے وہ ثمرات حاصل نہیں ہو رہے جن کی امید کی جاتی ہے۔
سورتوں کا تعارف اور مرکزی موضوع بیان کرنا
مولانا بعض سورتوں کا تعارف اور اہمیت کو بھی بیان کرتے ہیں، مثلاً: سورۃ البقرۃ کے تعارف میں بیان کرتے ہیں کہ : ’’سورۃ البقرۃ مدینہ میں نازل ہوئی اور یہ سورت تورات کے صحیفوں کی مانند ہے، اس میں مکی دور کی زندگی کی تعلیم دی گئی ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ مطففین کے متعلق بیان فرماتے ہیں:
’’یہ سورۃ قیامت کے مضمون کو سمجھاتی ہے اور قیامت کے اس رخ کو واضح کرتی ہے کہ جو انسانی اعمال کے محافظت سے متعلق ہیں‘‘
اسی طرح دیگر سورتوں کا تعارف اور اہم مرکزی مضامین کا تذکرہ بطور تمہید کرتے ہیں، ان سورتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں پھر ان میں موجود تعلیمات کا بھی ذکر فرماتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کی کتب سے استدلال
آپ نے اپنی تفاسیر میں کتب شاہ ولی اللہ سے بطور خاص استدلال کیا ہے، جس کا عملی اظہار آپ کی تفاسیر میں بطور خاص ملتا ہے ، آپ شاہ صاحب کی کتب سے فکر یا عبارت نقل کرنے کے بعد حوالہ جات بھی تحریر کرتے ہیں۔ چنانچہ صفت الرحمن کی تشریح میں فرماتے ہیں’’بقول امام شاہ ولی اللہ کہ ا للہ تعالی کی ایک تجلی جس کا تعلق عالم کی تخلیق کے ساتھ ہے۔ کائنات کا مادہ اسی تجلی سے وجود میں آتا ہے‘‘
مولا ناسندھی نظام کائنات کی بحث کے ضمن میں شاہ ولی اللہ سے استدلال کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں :
’’ ہر شے کسی نہ کسی لحاظ سے مخلوق کے لیے فائدہ مند ہے، کوئی شے بے کار اور فالتو نہیں، جو چیز وجود میں آئی اس کا وجود میں آنا ضروری تھا، کائنات کو جو فائد ہ اس شے سے ہو سکتا ہے کسی اور شے سے نہیں ہو سکتا " (حجۃ اللہ البالغہ، ج 1، ص423)
صوفیاء اور حکماء کے اقوال سے استدلال
مولانا عبید اللہ سندھی اپنی تفاسیر میں صوفیاء کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں، کبھی کسی لفظ کے معانی کی وضاحت میں اور کبھی کسی معنی کے لیے بطور دلیل ان اقوال کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً تقوی کے معنی کی وضاحت میں فرماتے ہیںشیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ کے معنی ہیں إن الله يأمركم بالعدل ‘‘
اسی طرح مولانا صاحب مشہور صوفی شعراء کے اقوال کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ حکماء کی روحانیت کے بیان میں مولانا جامی کے سفر ترکستان کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ کائنات کی پیدائش سے متعلق حکماء کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ تخلیق کائنات سے متعلق حکماء کی دو آراء ہیں، امام غزالی کی رائے کے مطابق موجودہ نظام کائنات سے بہتر نظام ممکن نہیں۔ اسی طرح کائنات میں موجود ہر شے نہ اس سے بہتر پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اس سے اولی۔
آپ کی تفاسیر میں حکماء کے اقوال کا بطور خاص اہتمام ملتا ہے ، ان کے ا قوال کو بعض دفعہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کبھی ان اقوال پر کلام کر کے راجح قول بیان کرتے ہیں اور کبھی آراء کو بغیر ترجیح پیش کرتے ہیں۔
اجتماعیت اور انقلاب کا تذکرہ
آپ اپنی تفاسیر میں نظریہ اجتماعیت اور انقلاب کو جابجا بیان کرتے ہیں اور آپ کی تفسیر کا زیادہ تر حصہ اسی پہلو کے گرد گھومتا ہے۔ اس طرح آپ اپنی تفاسیر میں اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی بقاء و ترقی کے لئے ان دونوں (اجتماعیت اور انقلاب) کا ہونا ضروری ہے، سورہ مجادلہ کی تفسیر کی ابتداء میں بطور مقدمہ اسکی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ :
’’ہر قبیلے کی اپنی اجتماعیت اس قبیلے تک محدود ہوتی ہے، جہاں بین القبائل اجتماعیت نہ ہو وہاں اس طرح کی اجتماعیت بہت جلد ختم ہو جاتی ہے اور تفرق پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہر گھر دوسرے گھر سے جدا ہونے لگتا ہے ، اور گھر کے اندر افراد خانہ میں بھی تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ عرب میں ایسی ہی اجتماعیت کو رسم ظہار اور رسم ایلاء سے توڑا جاتا تھا۔ اس طرح قرآن نے اس رسم کو مشروط کر کے اس مضرت کو ختم کر دیا۔‘
اپنی تفسیر میں نظریہ اجتماعیت اور اس کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہیں:
تمام ادیان میں صرف اسلام اجتماعیت انسانی کے درجہ کمال پر بحث کرتا ہے، قرآن کریم کی پیش کر دہ اجتماعیت انسانی کے تین اہم مراکز ہیں، مثلاً دائر ہ ر بویت، دائرہ ملوکیت اور دائرہ الوہیت، اجتماعیت انسانی ان ہی تعین دائروں میں گھومتی ہے۔
مولانا سندھی انقلاب کے عملی اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ سے فرماتے ہیں :
’’ جو لوگ اجتماعی رنگ میں سوچتے ہیں ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ حق کی اشاعت اور باطل کو مٹانے میں اپنی پوری کوشش صرف کریں‘‘۔
آپ درج ذیل آیات کی تفسیر میں اجتماعیت کی اہمیت کو اجا گر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
قرآن کریم کی سورۃ مائدہ اور سورۃ النساء اجتماعیت سے متعلق بحث کرتی ہیں، ان سورتوں میں اجتماعیت نساء ور جال کے درمیان ربط کی ضرورت اور اہمیت اور اجتماعیت کے اصولوں کا بیان ہے۔
مولانا سندھی قرآنی شعور انقلاب میں’’ انقلاب ‘‘ کا باقاعدہ عنوان باندھتے ہیں اور مختلف مقامات پر سورتوں کے ذیل اس کی وضاحت فرماتے ہیں، مثلاً سورۃ العصر کی تفسیر میں نظریہ انقلاب کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
یہ سورت قرآن کی انقلابیت کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے، اس سورت میں انقلاب کے اصولوں کو بیان کیا گیا ہے کہ جن پر عمل کر کہ حضور اقدس اور ان کے ساتھیوں نے قرآن کی حکومت قائم کی تھی۔
تاریخی مباحث کا اہتمام
آپ اپنی تفاسیر میں تاریخ کی اہمیت کے پہلو کو بھی اجا گر کرتے ہیں ، بہت سی تاریخی مباحث مثلاً: انسان کی تاریخ، دین اسلام کی تاریخ، قرآن کریم کی تاریخ کو واضح کرتے ہیں۔ تاریخ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اعلی درجے کا علمی استدلال یہ ہے کہ شہادت کے لیے تاریخ کو پیش کیا جائے، لیکن جو لوگ تاریخ کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اس علمی استدلال کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے، حالانکہ قرآن کریم ایسے تاریخی واقعات اور گزشتہ اقوام کے حالات سے بھرا پڑا ہے ، تاریخ واقعات کو محفوظ رکھتی ہے اور ان واقعات کو دہراتی بھی ہے‘‘۔
تفاسیر سندھی میں موضوع تاریخ کو بھی نمایاں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ گزشتہ واقعات اور ان کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا اور بعض واقعات سے عبرت حاصل کرنا جیسے واقعات کو بطور خاص زیر بحث لایا گیا۔ آپ تاریخ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف سطحوں کے مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ چنانچہ قومی اور بین الا قوامی ترقی کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تاریخ اسلام کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اقدس کی بعثت سے حضرت عثمان غنی کی شہادت یا زیادہ سے زیادہ حضرت علی کی خلافت کے ابتدائی دو سال کا زمانہ انقلاب کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ اس زمانے میں قرآنی نظام سیاست ، معاشیات اور قرب الہی حاصل کرنے کے طریقوں کا نصب العین معین شکل میں ان کے سامنے تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کا یہ ارشاد وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّات النعيم اس سے مراد مہاجرین اور انصار میں سے ابتدائی مسلمانوں کی وہ مرکزی جماعت تھی کہ جنہوں نے فوجی لائحہ عمل تیار کیا اور عرب، ایران اور روم پر قبضہ کر کہ قومی انقلاب قائم کیا، اسطرح مشرق اور مغرب میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ آج بھی مسلمان ان ہی اصولوں کو اپنا کر قومی اور بین الا قوامی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔
سائنسی علوم سے استدلال
آپ سورۃ الفلق کی تفسیر میں اجسام کے بننے کے مراحل کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ جانداروں میں خلیات کے پھٹنے سے مرکب ابدان پیدا ہوتے ہیں، تمام حیوانات میں خلیات کے پھٹنے سے ہی نشو نما کا عمل ہوتا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک مقام پر مولانا سندھی نکو کار اور بدکار انسانوں کو انسانی اجسام میں موجود خلیات سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’افراد انسانی کی مثال ایسے ہے کہ جیسے جسم میں موجود خلیات، ان خلیات میں بہترین اور صالح ترین خلیہ وہ ہے کہ جو بدن انسانی کے طبعی تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد کرتا ہے ، جو خلیہ اس طرح سے کام نہیں کرتا وہ غیر صالح ہے، کیونکہ وہ جسم انسانی کی خدمت کرنے میں منکر ہے یعنی کافر ہے ، لہذااس سے اس کی باز پرس ہو گی، اس لیے اس کو باز پرس کے لئے جہنم یعنی شفا خانے بھیجا جائے گا‘‘۔
آپ مختلف مقامات پر انسان کی ابتدائی تخلیق، کائنات کی ابتداء سے متعلق مباحث کو بیان کرتے ہوئے سائنسی علوم سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔
سیاسی اور سماجی مباحث
مولانا صاحب سیاسی و سماجی مباحث پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، سیاست کے اصول اور سماج میں موجود مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔
آپ سورہ اخلاص کی تفسیر میں بطور تمہید ایک سیاسی اور اقتصادی نظام اور کسی بھی معاشرے کے لئے سیاست، اقتصادیات کو اس کا ستون قرار دیتے ہیں، اسی ضمن میں ہندوستان کی سیاسی تاریخ اور فرانس اور برطانیہ کا 1858ء میں مغل حکومت کو ختم کر کہ خود قابض ہو جانے کا ذکر ہے۔ اس بحث میںمولانا سندھی مسلمانوں کی سیاسی اور فکری شکست اور سترھویں صدی میں یورپی قوتوں کا مسلمانان ہند پر غالب آنے اور ان کو سیاسی اور فکری غلام بنائے جانے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے افراد اپنی شخصیت کھو بیٹھے۔
مولانا سندھی آیت ( وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ ) کی تفسیر میں کتمان حق پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حق اور باطل کو خلط ملط کرکے اصلی مقصود کو بھلادیا جاتا ہے ، اس بحث میں فرماتے ہیں :
کتمان حق کی ایک مثال ہندوستان کے حالات ہیں۔ ہندوستان میں مقصود کفار کے غلبے سے نجات ہے، لیکن اس سے اہل علم غافل ہیں، اور رسومات میں بٹے ہوئے ہیں، اب حالات بدل چکے ہیں اور مسلمانوں پر یور بین اقوام کا تسلط ہو چکا۔
مولانا سندھی اپنی تفسیر میں مختلف مقامات پر سیاسی و سماجی خصوصا ہندوستان کے تناظر میں اس وقت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں، سورۃ البقرہ کی آیت: نَنسَ مِنْ آيَةٍ أو نَفْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهُ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب حکام بدل دیے جاتے ہیں تو قانون بھی بدل دیا جاتا ہے ، اس آیت سے مراد اللہ نے قرآن کریم کے نزول سے تورات کو منسوخ کر دیا۔ اس آیت کے ضمن میں دیگر مفسرین مثلا امام قرطبی اور امام جصاص نے نسخ کی بحث کو زیر بحث لایا، لہذا نسخ کی اقسام، حکم اور قرآن میں نسخ کے موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں جبکہ اسی آیت کی تفسیر کے ضمن میںمولانا سندھی اکبری دور کے ہندوستان کے سیاسی برتری کا تذکرہ کرتے ہیں۔
معاشی اور اقتصادی مسائل سے متعلق مباحث
مولا ناسندھی اپنی تفاسیر میں معاشرتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ انسان کی بنیادی ضروریات اور معاش سے متعلق بحث بھی کرتے ہیں، مثلاً ایک جگہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں :
’’کسی بھی اجتماعی تحریک میں کمزوری کی دو وجوہات ہیں، جن میں ایک مالی اشتراک نہ ہو نا، جس کی وجہ سے دولت ایک مخصوص طبقے تک محدود رہتی ہے، جس کی بدولت ایک بہت بڑا طبقہ نادار رہ جاتا ہے ، جبکہ اجتماع کی اندرونی مضبوطی اور پختگی کے لیے ضروری ہے کہ سارے اجتماع کی بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، لباس، مکان، تعلیم اور صحت پوری ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو نادار لوگ اپنی ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنے ایمان کی سے قاصر رہ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ تحریک سے کٹ جاتے ہیں جس سے تحریک ہی ختم ہو جاتی ہے ‘‘
اس حوالے سے مولانا سندھی سورۃ المدثر کی تفسیر میں ہندوستان کی معاشی حالت سے متعلق فرماتے ہیں :
شاہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ تمھارے اپنے ملک (دہلی) کے امراء اور حکام کی جو حالت ہے اسے دیکھ لو تو تمھیں دوسرے ملکوں ( ایران اور رومہ) کے حکام اور امراء کی حالت دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، شاہ ولی اللہ کا یہ جملہ آج بھی اتنا ہی درست ثابت ہوا جتنا کہ ان کے زمانے میں تھا۔ آج بھی ہندوستان میں ایک طرف مفلس اور دوسری طرف سرما یا پرست طبقہ ہے، جنہیں انسانی حقوق و فرائض کا کچھ علم نہیں "۔
حالانکه دیگر مفسرین سورة المدثر کی تفسیر میں حضور اقدس پر پہلی وحی کے نزول کا واقع بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں ہے:
مولانا سندھی نے مسلمانان ہند کے اقتصادی حالت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ اخلاص کی تمہید میں فرماتے ہیں: ’’انگریزوں نے ہمیں اپنی اشیاء مہنگی فروخت کیں اور ہماری اشیاء سستے داموں وصول کر کے ہمیں اقتصادی شکست سے دو چار کیا ‘‘۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آپ کا تفسیر میں اختیار کردہ منبع مفسرین کے روایتی انداز تفسیر سے مختلف ہے، آپ کے اس انداز تفسیر سے علم التفسیر میں ایک نئے انداز کو پذیرائی ملتی ہے۔آپ کتب سابقہ سے استدلال کرتے ہیں، سورتوں کے مرکزی مباحث کا تعارف کراتے ہیں، کتب شاہ ولی اللہ ، صوفیاء و حکماء کے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں۔آپ کی تفسیر میں تاریخی ، سائنسی، سیاسی وسماجی ، اور معاشی و اقتصادی مباحث کا تذکرہ بھی جابجا ملتا ہے۔آپ کی تفاسیر سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ قرآن کریم کا موضوع انسانیت کی ترقی و بقاء کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے، یہ تب ہی ممکن ہے جب قرآن کریم کو اہل فکر و دانش اپنے زمانے اور اس کے واقعات اور مسائل کے پیرائے میں سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کریں۔آپ کی تفاسیر کا نوے فیصد حصہ انقلاب، اجتماعیت اور ایک ایسی پارٹی یا جماعت کی تشکیل کے گرد گھومتا ہے کہ جس کے ذریعے معاشرے کے غریب افراد کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم وغیرہ کی فراہمی اور ان کے حقوق کا خیال رکھ رکھنا یقینی ہو سکے۔ جبکہ آپ کی تفسیر میں افراد کے درمیان دولت کی مساویانہ تقسیم پر جگہ جگہ مختلف سورتوں کے ضمن میں زور دیا گیا ہے۔ اس کی اہم وجہ اجتماعیت کی مضبوطی اور انقلاب ہے۔ ایسی جماعت بنانے اور اس کو مضبوط کرنے کے اصولوں کی وضاحت بھی کئی ایک مقامات پر کی گئی ہے۔ آپ کی تفاسیر میں اس دور کے مسلمانان ہند کے سیاسی اور سماجی حالات اور کمزوروں کی جھلک نظر آتی ہے، اپنی تفاسیر میں مولانا سندھی ان کے مسائل کا حل اور ان کو مجتمع ہونے اور انقلاب پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔