Thursday 30 May 2024

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری 

ڈاکٹر امیر حمزہ 


’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کا مسودہ جب مصنف محترم شفیق رائے پوری کے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھ تک پہنچا تو سرسری نظر میں مجھے بہت ہی زیادہ حیر ت ہوئی کہ جو کام ایک ادارہ کو کرنا چاہیے تھا وہ ذمہ داری شفیق رائے پوری صاحب نے خود اٹھائی اور بہت ہی درک و انہماک کے ساتھ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اس سے پہلے مصنف محتر م سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی لیکن جب انہو ں نے اگلا پیغام یہ بھیجا کہ آپ کو اس تحقیقی کاوش پر کچھ لکھنا ہے تو مجھے خیال آیا کہ میرے بارے میں کسی نے ضرور غلو سے کام لیا ہے ، ورنہ فی زمانہ بڑے بڑے دانشوروں سے ہی تحریریں لکھوائی جاتی ہیں ۔ خیر اپنے آپ کو اس ذمہ داری کے لیے تیار کیا اور ذہن نے جو کچھ ساتھ دیا وہ آپ کے سامنے ہے ۔

عنوان میں نقوش اور نقاش کے دو لفظ میں نے عمداً مصنف کی اس تحقیقی کا وش کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کیے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس پر کوئی تفصیلی کام سامنے نہیںآیا تھا اور چھتیس گڑھ میں اردو شعرا و ادبا کا جو ایک لمبا سلسلہ رہا ہے وہ محض چند مقالوں میں مشاہیر کے ساتھ ہی ختم ہوا ہے ۔ وہاں کے اکثر شعرا جو شروع میں دبستان لکھنؤ کے شعرا کے شاگر دتھے جیسا کہ تفصیلی ذکر مصنف محتر م نے خود اس کتاب کے مقدمہ میں کیا ہے انہیں پردہ ٔخفا میںہی رکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد کے اکابرین زبان و ادب نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںجن کے سبب چھتیس گڑھ میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد اردو کی نئی آبادیاں وجود میں آئیں انہیں بھی بھلا دیا گیا، ایسے میں ان مٹتے ہوئے نقوش کی جو بازیافت ہوئی ہے ان کے نقاش یقینا شفیق رائے پوری ہی ہیں ۔

اس اہم کام کو انجام دینے میں یقینا ایک طویل عرصہ لگا ہوگا۔ سب سے پہلے انہوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا ہوگا ، پھر آثار و اسانید کی تلاش میں لگ گئے ہوںگے ،اس درمیان انھیں ہزاروںنئی چیزوں کا علم ہوا ہوگا پھر ان سب میںسے چھانٹ پھٹک کر کار آمد چیزوں سے اپنی اس کتاب کو مزین کیا ہوگا۔ اس کے لیے یقینا قدیم ترین رسائل و جرائد کو کھنگالا ہوگا جس میں چھتیس گڑھ کے گمنام اور اوراق میں دفن شدہ قلم کاروں سے ملاقات ہوئی ہوگی پھر ان کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ان کے وارثین تک پہنچے ہوںگے ، حالات بدلنے کے بعد وہاں سے بھی زیادہ تر خالی ہاتھ واپس آنا پڑا ہوگا ، پھر ان کی تحریروں کے سہارے ملے بہت سارے اشارات سے بات مکمل کرنی پڑی ہوگی ۔ مجھے علم ہے کہ تحقیق کے میدا ن میں ایک ایک لفظ کے حوالے کے لیے کئی کئی کتابوں کی روق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ 

 جب سے تذکرہ و تنقید کی کتابیں لکھی جارہی ہیں تبھی سے اردو ادب کی علاقائی خدمات پر مشتمل آثار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تذکروں میں دکن کی حالت بخوبی بیان کی گئی ہے پھر بعد میں لکھنؤسمیت دوسرے شہر وںکے شعرا بھی شامل ہونے لگے ۔ بعد میں جب تاریخ لکھی جانے لگی تب اس میں دبستانوں کے عناوین سے باضابطہ ابواب بندی کی جانے لگی ، اس سے وہاں کی لسانی اسلوبیاتی و شعری خصوصیات کو اجاگر کیا جانے لگا ، اس لیے آپ کو تاریخ کی تمام کتابوں میں دکن ، دہلی اور لکھنؤ مل جائیں گے ، بعد میں جب اس پر اضافہ ہوا تو رامپور ، عظیم آباد اور مرشدآباد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ، لیکن پھر بھی اہم کتابوں میں دیگر شہروں کی ادبی فضا کوجگہ نہیں ملی تب ایک ضخیم ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (گیان چند جین ، سیدہ جعفر) مرتب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں شہروں کے اعتبار سے اردو زبان و ادب کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ۔ 

اردو زبان وادب کی ضخیم سے ضخیم اور مختصر سے مختصر کئی تاریخیں لکھی گئی ہیں، ہر ایک میں آپ کو ایک ہی نوعیت کی ترتیب ملے گی ۔قدیم اردو ، دکن کے سارے ادوار ، پھر دہلی ،لکھنؤ اس کے بعدتحریکات ، ایسے میں بہت سی ذیلی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں ، یقینا سبھی کا احاطہ کسی کے یہاں بھی ممکن نہیں ہے ۔ البتہ جمیل جالبی نے اس جانب قدم اٹھا یا اور علاقائی سطح پر روہیل کھنڈ اور بندیل کھنڈ کا خصوصی ذکرکیا۔اس کے بعد تاریخ ادب اردو کا جو سلسلہ گیان چند جین اورسیدہ جعفر کے ذریعہ شروع ہوا اس میں بعد میں جاکر شہر کے پیمانہ پر تاریخ ادب اردو کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آزادی کے بعد جب تحقیقی مقالات میں اضافہ ہوا تو علاقائی سطح پر اردو ادب کا بھی جائزہ لیا گیا ، شروع میں دبستانوں کی تاریخ کو یکجا کیا گیا پھر صوبائی سطح پر اس میں کام ہوا، اس کے بعد شہروں کی اردو  زبان و ادب کی خدمات پر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ 

ابھی کے موجودہ منظر نامے میں صوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی بات کی جائے تو اردو ہندوستان کے کم وبیش تمام صوبوں میں بولی، سمجھی اور پڑ ھی جاتی ہے ۔ کچھ صوبے ایسے بھی ہیں جہاں ہر طبقہ کے لوگ اس زبان کو لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ جنوبی ہند کے چند صوبے ایسے ہیں جہاں اردو پہلے تو مضبوط حالت میں تھی تاہم درمیان میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ اب جب تعلیم کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے تو اردو کی تعلیم میں بھی اضافہ دیکھنے کوملا ہے تاہم جدید اسکولی تعلیم سے اردو کا بھا ری نقصان ہوا ہے ،لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کیر ل جیسے صوبے میں بھی اردو کے طلبا نظر آنے لگے ہیں ۔ نارتھ ایسٹ میں کم ازکم ایک حلقہ کے افرا د تو اردو پڑھتے ہی ہیں ۔ہر یانہ ، ہماچل اورچھتیس گڑھ کی بات کی جائے توان تینوں صوبوں میں اردو کی یکساں صورت حال نظرآئے گی ۔ یہ اچانک ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی ان علاقوں میں اردو کی نمائندگی کم رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں علاقائی ادب کی تاریخ نگاری پرنظرڈالی جائے تو ان علاقوں سے کوئی خاطر خواہ کام سامنے نہیں آتا ہے ۔ ایسے میں کچھ دنوں قبل تک چھتیس گڑھ کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا ، کم ازکم ہمیں تو وہاں کی لسانی اور ادبی صور ت حا ل واضح نظرنہیں آتی تھی، لیکن اس کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ صوبہ چھتیس گڑھ کے غیر معروف شہروں میں بھی اردو زبان و ادب کی شمع روشن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جناب شفیق رائے پوری نے ڈیڑھ سو ایسے قدیم و جدید ادبا، تخلیق کار اور ناقدین کو اس کتاب میں جمع کیا ہے جنہوں نے اپنی سطح پر اردو کا چراغ خوب روشن کیا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر کو باہر کی اردو دنیا نہیں جانتی ہے، لیکن ان میں سے دو نام ایسے بھی ہیں جنہیں اردو زبان و ادب کا جاننے والا ہر فرد جانتا ہے جن کا تعلق چھتیس گڑھ سے ہی تھا اور وہ تھے اختر حسین رائے پوری اور حبیب تنویر۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر انہیں وہاں کی ادبی صورتحال کے نمائندہ ادیب کے طور پر نہیں دیکھتے پھر بھی بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جڑیں چھتیس گڑھ سے تھیں تو وہاں کی ادبی صورتحال کس قدر پختہ تھی ۔

 پچھلے پانچ برسوں میں دو عمدہ کتابیں چھتیس گڑ ھ سے تعلق رکھنے والے جس مصنف و شاعر کی پڑھنے کو ملیں ا س کا نام حنیف نجمی تھا ، تنقید و تحقیق پر جو کتاب تھی یقینا وہ لاجواب تھی ، شاعری میں بھی انھوںنے عالمی سطح پر اپنی انفرادیت کی چھاپ چھوڑی ہے ، ان کی تحریروں میں کمال کی حد تک دانشوری اور تخلیق میں اعلیٰ درجے کی فنکاری نظر آئی تھی وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی طرح خورشید حیات جنہوں نے افسانوی ادب میں گہری چھاپ چھوڑی ہے، نئے طرز کے موجد ہوئے، نیا افسانوی بیانیہ تخلیق کیا ، ان کے بغیر افسانوی ادب کی کوئی بھی فہرست مکمل نہیں ہوگی وہ بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہیں۔ مثال پیش کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اردو کے لحاظ سے اس پسماندہ صوبہ سے بھی اعلیٰ درجہ کے ادیب و شاعر تعلق رکھتے ہیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مرکزی دھارے میں ان کا شمار نہیں ہوتا ہے ۔ الغرض میں نے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کئی شعرا وادبا ہوںگے جنہیں شہرت تو دور کی بات ہے وہ صرف ایک مخصوص حلقے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ،ان کے لیے ایسی کتابیں آب حیات ثابت ہوتی ہیں جن میں ان کا اجمالی ذکر کر کے رہتی دنیا تک انہیں زندہ کردیا جاتا ہے ۔ 

’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کو شفیق رائے پوری نے بہت ہی محنت و دیدہ ریزی کے ساتھ تیا ر کیا ہے ۔پہلے باب میں انہوں نے ان شعرا و ادبا کو شامل کیا ہے جنہوںنے اس علاقہ میں اردو کی پود لگائی اور ایک ثمر آور باغ تیار کیا۔ یقینا ان کا شمار متقدمین میں ہوتا ہے ، ان کا ذکر کہیں اور شاید و باید ہی نظر آتا ہے یہاں انہوں نے تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کرکے حتی الامکان چھتیس گڑھ کے سبھی ادبا و شعرا کو جمع کیا ہے ۔ اس فہرست میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ادب کا ستارہ ابھی بھی جگمگا رہا ہے ۔ اس کے بعد پیشکش میں انہوںنے کئی درجہ بندی کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ جن ادبا کی پیدائش کہیں اور کی ہے لیکن چھتیس گڑھ میں سکونت کے دوران انہوںنے اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی ہے اس میں بھی دس سے زیادہ افراد شامل کتب ہیں ، ایسے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باہر سے جاکر وہاں عارضی قیام کرنے والوں نے وہا ںکی ادبی فضا میں کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا ہے۔ تذکرہ و تاریخ نگاری میں اکثر ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مجہول الاحوال اشخاص کا ذکر ضمناً آگیا ہو تو اسی سے تحقیق کا راستہ آگے کو نکلتا ہے لیکن اس کتاب کے چوتھے باب میں مصنف محترم نے ان اشخاص کو شامل کیا ہے جن کے زیادہ احوال و کوائف نہیں مل سکے ۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو اس کتاب کو تحقیق و تدوین کے ساتھ تذکرہ نگاری کی عمدہ مثال میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

میں محتر م مصنف کا بہت ہی زیادہ ممنون و مشکور ہوں بلکہ اردو دنیا کو بھی ممنون و مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے علاقے کی کاوشوں کو منظر عام پر لادیا جن کے متعلق یا اس علاقے کے متعلق عموما ًلوگ سوچا نہیں کرتے، نہ وہاں سے کوئی ادبی خبر سامنے آتی ہے نہ ہی رسائل و جرائد میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، وہاں جس سطح پر بھی کام ہو رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، وہاں کے مصنفین، ناقدین ،شعراو ادبا اردو لکھنے پڑھنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو زبان وادب کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ چھتیس گڑھ میں ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا اور اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے مزیدتحقیقی کام سامنے آئیںگے ۔


No comments:

Post a Comment

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...