Friday, 29 November 2024

زبان و ادب اور ثقافت کا جشن ’جشن اردو ‘

 رپورتاژ

زبان و ادب اور ثقافت کا جشن ’جشن اردو ‘ 

ڈاکٹر امیرحمزہ 



 اردو کے ادبی میلے کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے اگر کوئی شہر ہے تو وہ صرف دہلی ہی ہے ۔ جب دیگر کسی ادبی وثقافتی جشن کا تصور بھی نہیں تھا اس سے چند برس قبل لال قلعہ کے سبزہ زار میں قلعہ معلی کی تھیم کے ساتھ ہی اردو اکادمی دہلی نے ’’ اردو رواثت میلہ ‘‘ کا انعقاد کیا، اس کے کئی سال بعد ہی جشن کا سلسلہ عام ہوا ۔ ہر اسٹیج کا ایک بیک گراؤنڈ بینر ہوتا ہے لیکن لال قلعہ میں منعقد ہونے والے اردو وراثت میلہ کا کوئی بیک گراؤنڈ بینر نہیں تھا بلکہ لال قلعہ کا لاہوری گیٹ اور قلعہ کا فصیل ہی اسٹیج کا بینر تھا ۔ اس کے بعد اس میلہ کا سفر فصیل بند شہر سے باہر اور نئی دلی کا دل کناٹ پیلس کے مر کز سینٹرل پار ک کی جانب ہوتا ہے جہاں یہ میلہ کامیابی کے ساتھ دو سال منعقد ہوتا ہے، پھر گزشتہ مالی سال میں مغل طرز تعمیر میں باغات کا اعلی نمونہ پیش کرنے والی جگہ سندر نرسری میں یہ منعقد ہوتا ہے اور پوسٹروں میں اردو وراثت میلہ کے ساتھ ’جشن اردو ‘ بھی درج ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ یہ ’جشن اردو‘ پھر 17 تا 20 اکتوبر کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک میں منعقد ہوتا ہے ۔ اردو اکادمی دہلی کا یہ میلہ ہر مرتبہ مختلف پروگرام پیش کرنے میں منفرد ہے۔ اس میں اساتذہ اور طلبہ کی بھی شرکت ہوتی ہے اور اردو زبان و ثقافت سے متعلق کتب ، خطاطی و دیگر اشیا کے اسٹالس بھی مفت میں فراہم کیے جاتے ہیں ۔ اب تک اردو اکادمی دہلی کے اس میلے اور جشن میں ہر بار میں نے شرکت کی ہے ۔ اس مرتبہ بھی چاروں دن شریک رہا ۔ نئے فنکاروں کو سننے اور نئے تجربات سے روشنا س ہونے کا بھرپور موقع ملا ۔ 

 پہلا دن جمعرات کا تھا، دو پہر بارہ بجے سے جشن کے پروگرام کے آغاز کا وقت رکھا گیا تھا ۔ میٹرو سے پہنچنا تھا کیونکہ اپنی سواری سے پارکنگ کا مسئلہ ہوتا ہے اور اس مہنگی ترین جگہ میں پارکنگ کی فیس اداکر نا ہم جیسوں کے لیے بہت مہنگا پڑجاتا ہے ۔ راجیو چوک میٹرو اسٹیشن پہنچنے کے بعد یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ کس گیٹ سے باہر نکلا جائے ، گارڈ سے پوچھا تو وہ سا منے والا گیٹ بتا دیا ۔ میٹر و میں یہ پریشانی ہوتی ہے کہ اسٹیشن اگر انڈر گراؤنڈ ہے اور وہاں کے آپ روز کے مسافر نہیں ہیں تو یہ پریشانی ہوسکتی ہے کہ کس گیٹ سے باہر نکلا جائے ۔ خیر میں چھ نمبر گیٹ سے باہر نکل گیا اوپر آکر دیکھا تو وہ کناٹ پلیس کا اندورن سرکل روڈ تھا اور وہاں سے دو سو میٹر کے فاصلے پر سنٹرل پارک کا گیٹ تھا ۔ وفور شوق میں گیٹ تک پہنچا ۔ گیٹ سے لے کر پروگرام کی جگہ تک دونوں جانب سے فنکاروں کے بڑے بڑے بورڈ لگائے گئے تھے ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی گیلری سے گزررہاہوں۔ گیلری ختم ہوتے ہی ایمپی تھیٹر نظر آیا لیکن اس سے پہلے ایک سیلفی پوائنٹ تھا جس پر پروفیسر شہپر رسول کا خوبصورت و مشہور ترین شعر ’’ میں نے بھی دیکھنے کی حد کردی : وہ بھی تصویر سے نکل آیا ‘‘ درج تھا ۔ اس کے بعد پروگرا م کے مقام پر ایک نظر جی بھر کر ڈالی تو جی خوش ہوگیا ۔ اسٹیج کے سامنے سفید صوفوں کی تین قطاریں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں ، اس کے بعد تین قطاروں میں چاندنی بچھی ہوئی تھیں جن کے نیچے گدے بھی بچھے ہوئے تھے بالکل مجلس جیسا احساس دے رہا تھا، پھر کرسیوں کی صفیں تھیں جن پر سفید غلاف چڑھے ہوئے تھے ۔ یہ سفید کا تھیم دیکھ کر ایسا لگا یقینا کسی صاحب عظمت کی سوچ رہی ہوگی کہ عہد ماضی میں مشاعروں کے لیے سبزہ زاروں میں ایسی ہی چاندنی بچھا کرتی تھی ۔ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ چاروں طرف ڈالی، دھوپ میں ابھی شدت تھی ، سامعین کے لیے مثل ابرو کے درمیانی حصے میں کافی اونچائی پر بطور خوبصورتی سفید کپڑے کا شامیا نہ لگا ہوا تھا جو کچھ سائے  کا بھی کا م کررہا تھا ۔ میں وہیں گدوں پر ٹیک لگاکر اور پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔

 کچھ لمحہ گزرا تھا کہ نظامت کے لیے ڈاکٹر جاوید حسن مائک پر تشریف لائے اور غزل سرائی کے پروگرا م کا آغاز کیا ۔ اس میں دلی کی یونی ورسٹیز اور مختلف کالجز کے طلبا و طالبات نے ہی حصہ لیا ۔ اچھی اور کم اچھی بلکہ دو تحت اللفظ غزلوں کو سننے کے بعد ججز کی باری تھی جس پر پروفیسر ابو بکر عباد اور مرزا عارف جلوہ افروز تھے ۔ انہوں نے اول انعام سید تجمل حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دوم انعام سید ابو ذر فاطمی دہلی یونی ورسٹی، سوم انعام زینب دہلی یونی ورسٹی اور تشجیعی انعام کی مستحق سُرگم مشرا دہلی یونی ورسٹی کو قرار دیا۔ میرا خیال تھا کہ سرگم مشرا اول انعام کی مستحق قرار پائیںگی کیونکہ انہوں نے جس سر اور تال کے ساتھ غزل گائی تھی وہ لاجواب تھا لیکن تیسرے دن جب میں نے انہیں غزل گلوکارامریش مشرا کے ساتھ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ان کی صاحبزادی ہیں تب مجھے احساس ہوا کہ انہیں اول انعام کیوں نہیں دیا گیا تھا۔ 

اس پرو گرام کے بعد سے نظامت کی ذمہ داری ریشما پروین اور اطہر سعید سنبھالتے ہیں جو لگاتار چاردنوں تک وہا ں کے سامعین میں اردو کا رس گھولتے رہتے ہیں ۔ ایسے پروگراموں میں نظامت کا معاملہ کچھ دیگر ہوتا ہے ۔ وہ بالکل عام پروگراموں کی طرح نہیں ہوتا ہے، ایسا میں نے جشن ریختہ میں بھی نہیں دیکھا۔ ریختہ میں بعد میں ’کنج سخن‘ اور’ دیوان خاص‘ میں اس کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ یہا ں نظامت کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک پروگرام سے دوسرے پروگرام کے درمیا ن میں جو وقت کا خلا ہوتا ہے اس میں انہیں اسٹیج سنبھالنا اور سامعین کو اردو کے تعلق سے مختلف چیزوں سے روشناس کرانا ہوتا ہے ، جس میں اشعار کی عمدہ پیش کش اور اردو و دہلی کے حوالے سے خوبصورت و دلچسپ معلومات بھی درکار ہوتی ہے، جسے ان دونوں نے بخوبی چا ر دنوں تک ادا کیا۔

 دوسرا پروگرام تمثیلی مشاعرہ کا تھا جسے اردو ڈرامہ کے بے تاج بادشاہ سعید عالم اور ان ٹیم کی اداکاری میں پیش کیا گیا ۔ اس تمثیلی مشاعر ہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میںامیر خسر و ، قلی قطب شاہ، ولی دکنی ، میر تقی میر، غالب ،داغ، زخ ش ، اکبر الہ آبادی، اقبال ، فیض اورپروین شاکر کی تمثیل کی گئی تھی ۔جس میں اس وقت کی زبان و ادا اور لباس کو بھی بخوبی پیش کیا گیا تھا ۔ ایم سعید عالم کی برجستہ جملوں کی ادائیگی محفل کو قہقہ زار کررہی تھی ۔اسے اگرچہ تمثیلی مشاعر ہ کہا گیا لیکن یہ تو عالم برزخ کا مشاعرہ تھا اور یہ ایک تصوراتی مشاعرہ تھا۔ میں نے بہت سارے ڈرامے دیکھے ہیں لیکن اردو ادب کے حوالے سے جیسی عمدہ پیشکش ایم سعید عالم کی ہوتی ہے وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ ان سے پہلے ٹام آلٹر میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود تھی ۔

 اس کے بعد ’ساز وسرور‘ عنوان کے تحت فرخ بیگ نے اپنی آو از سے لوگوں کو مسحور کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن سامعین کی کیفیت سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ ان پر فرخ بیگ کی پیشکش گراں گزررہی ہے ، خیر موسیقی کے دیوانے اپنے اپنے انداز میں محظوظ ہورہے تھے ۔ شام جوں جوں ڈھل رہی تھی، پروگرام کی جانب شائقین کے قدم بڑھتے چلے آرہے تھے ۔ شام سے پہلے ہی ’’کچھ نغمے کچھ گیت‘‘ کے تحت شیو راجوریا اور ڈاکٹر جیوتسنا راجوریا نے اپنی خوبصورت پیش کش سے نغمہ و ساز میں ایک خوبصورت مثال پیش کی ۔ ان کی ہر ایک پیش کش نے سبھی ناظرین و سامعین کے قدم جمادیے تھے ۔ یہ خوبصورت پروگرام سامعین کے لیے بہت ہی مختصر لمحہ ثابت ہوا ۔ان کی پیش کش میں بالکل وہی احساس ہورہا تھا جیسے جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ ہوں (اسٹیج کے اعتبار سے گائیکی کے اعتبار سے نہیں )کئی سامعین ایسے تھے جو پدم شری احمد حسین محمد حسین کو سننے آئے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے انہیں اردو اکادمی دہلی کے اسی پروگرام کے تحت لال قلعہ میں سنا تھا ۔ تب سے وہ میرے دل میں بس گئے تھے اس دن بھی مجھے اچھا موقع ملا اور پروگرام ’گلدستہ غزل‘  میں دیکھا کہ انہوں نے کلاسک و جدید کا حسین سنگم پیش کیا ۔

شام ہوتے ہی بھیڑ میں خوب اضافہ ہوچکا تھا ۔ جن صفوں میں چاندنی بچھی ہوئی تھی ان میں پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی، کرسیوں کے پیچھے اور پروگرام کے دونوں جانب سبزہ زار میں لوگ پھیلے ہوئے تھے کیونکہ پہلے دن کا آخر ی پرواگرام ’عالم کیف‘ پیش ہونا تھا جس کے روح رواں نوجواں دلوں کی دھڑکن سلمان علی تھے۔ دیگر فن کاروں کی طرح سلمان علی کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے۔ وہ اسٹیج میں قدم رکھنے کے بعد اپنی پیشکش شروع نہیں کرتے ہیں بلکہ جب ساؤنڈ کا سارا سیٹ اپ تیار ہوجاتا ہے تو وہ اپنی گائیکی کے ساتھ اسٹیج میں قدم رکھتے ہیں اسے ان کا ویلکم پیشکش کہہ سکتے ہیں ۔ اس مرتبہ وہ کرتا اور پتلون جیسا پاجامہ اور ساتھ میں سنہرے رنگ کی کوٹی میں تھے ۔ ویلکم نغمہ کے بعد وہ حاضرین سے مخاطب ہوتے ہیں کچھ کلام وشکریہ کے الفاظ کے بعد پھر اپنی آواز اور آہنگ کا جادو جگاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سامعین واقعی عالم کیف میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ پر وگرام اس قدر خوبصورت تھا کہ فن ، ثقافت و السنہ کے وزیر عالیجناب سوربھ بھاردواج نے اسٹیج پر آکر خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی دہلی ، زبان و ثقافت اور ہماری وہ روایات جو ہمارے درمیان سے آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہیں اس کے فروغ کے لیے ہماری سوچ سے بھی زیادہ کام کررہی ہے۔ یہ لوگ میرے پاس تجویز لے کر آتے ہیں اور میں تعاون میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں کرتا ہوں ۔ انہوں نے علامتی طور پرکہا کہ آج کل مچھر بہت زیادہ ہوگئے ہیںپہلے بھی بہت تھے لیکن دلی والے مچھروں سے نمٹنا اچھی طرح سے جانتے ہیں اور چار پانچ مہینوں میں سبھی ختم بھی ہوجائیںگے ۔ ان کے ساتھ وزیر خوراک و رسدعمران حسین بھی تھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مروتاً کچھ کہنا نہیں چاہ رہے ہیں لیکن سوربھ بھاردواج نے جب کچھ بولنے کو کہا تو انہوں نے بھی مائک لیا اور کہا کہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اردو اکادمی زبان و ثقافت کی ترویج میں بہت ہی زیادہ متحرک ہے ۔ آپ سبھی کا ساتھ رہا تو یہ ہمیشہ اور بھرپور جاری رہے گا۔ ان دونوں وزرا نے سلمان علی کو اردو اکادمی کا مومنٹوپیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ اداکیا اسٹیج پر ان کے ساتھ وائس چیئر مین ، سیکریٹری اور گورننگ کونسل کے ممبرا ن بھی موجود تھے ۔ اس کے بعد پھر سلمان علی کی پیش کش جاری رہتی ہے جو رات دس بجے تک جاری رہتی ہے ۔سلمان علی کے پروگرام سے پہلے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول حاضر ین سے مخاطب ہوتے ہوئے بطور استقبالیہ چند کلمات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ’’ دلی واحد ایسا شہر ہے جہاں کی قدیم تہذیب کو مستقل جلا بخشنے کا کام ہماری اکادمی انجام دیتی آرہی ہے ۔ شاعری و موسیقی کا خوبصورت سنگم اردو زبان میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے، دلی کی عوام واقعی میں دل والے ہیں جو ایسے پروگراموں میں بھر پور شریک ہوکر تہذیب کی دلدادگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔انہوں نے دلی سرکار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگرامو ں کے انعقاد میں ان کا بھر پور تعاون ملتا ہے ، جس کے لیے ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں ۔‘‘

 اس درمیان جب میں نے ساونڈ اور لائٹ سسٹم پر دھیان دیا تو متعجب ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ، کہیں پر بھی کوئی ہارن کا استعمال نہیں تھا پھر بھی کناٹ پلیس کا اندرون سرکل پرواگرام کی آواز سے پوری طرح متاثرتھا ۔ اس موقع پر ایک سکھ نوجوان کو اپنے دوست کو ساؤنڈ سسٹم کے بارے میں بتاتے ہوئے سنا تب مجھے پتہ چلا کہ کتنا بھاری سسٹم استعمال کیا گیا ہے اور سبھی کچھ ڈیجیٹل تھا ، لائٹنگ کا بھی خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملا ، جو بھی اس کا کنٹرولر تھا وہ واقعی میں بہت ماہر تھا۔ مجھے ان کے اصطلاحات سمجھ میں نہیں آئے بس گنتیا ں یاد رہ گئیں کہ انتے ڈیک ، بوفر ، اسپیکر اور ایمپلی فائر لگے ہوئے ہوئے ہیں ، یعنی ایک کنسرٹ کا مکمل سیٹ اپ موجود تھا ۔

دوسرے دن کا پہلا پروگرام قصہ گوئی سے شروع ہوا،جسے دہلی کے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا ۔ اس پیشکش کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انہوں نے پرانی دلی کی گلیوں کی کہانیاں ، بچوں کی زبان ،کرخنداری زبان اور دلی کی تک بندیوں کوپیش کیا ۔اس میں مرکزی فنکار ارشاد عالم خوبی اور ان کے ساتھ کئی نونہال بچے اور بچیاں تھیں ۔ اگر کوئی سوچے کہ ایسی خصوصیات تو ہر شہر کی زبان میں ہوتی ہیں ، تو ان کاسوچنا بالکل درست ہے ، جہاں جہاں بھی اردو زبان ادوب کی سرپرستی قلعات و محلات کو نصیب ہوئی ہے ،وہاں یقینا زبان کو لے کر بہت ساری کہانیاں ہوں گی، جنہیں جمع کرکے خوبصورت انداز میں دستاویزی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد جامعہ گروپ دہلی نے ڈراما ’’ غالب جدیدشعرا کے ساتھ ‘‘ پیش کیا۔ جس میں مرکزی کردار میں غالب تھے جن کا کردار ڈاکٹر جاوید حسن ادا کررہے تھے ۔اس تحریر کو کنہیال لال کپور نے تخلیق کیا ہے اس کا عنوان انہوںنے ’’ غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں ‘‘ رکھا ہے ۔  اس ڈرامے کی خاص بات یہ تھی غالب جدید دور شاعری میں اپنا رد عمل پیش کرتے ہیں ، جس میں ن م ارشد ، ہیراجی ، راجہ عہد علی خاں ودیگر شعرا کی مجلس میں غالب جنت میں تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ یہ بہت ہی دلچسپ ڈراما تھا یقینا دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ’’داستا ن دلی والوں کی ‘‘  شروع ہوتی ہے، جسے ممتاز مزاح نگار انس فیضی اور مسعود ہاشمی نے پیش کیا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ پرانی دلی کی جو ادبی شخصیات تھیں ان کے خصوبصورت خاکے داستان کی شکل میں پیش کیے گئے ۔کئی اشخاص کے بطرز داستان پیش ہوئے لیکن استاد رسا کا ذکر خاصا طویل اور دلچسپ بھی تھا ۔ اب تک دستان سفید کرتا جس میں گھنڈیاں لگی ہوتی تھیں اور بہت ہی چوڑے پائنچے کے پاجامے بالکل پرانی وضع کے ہوتے تھے۔ لیکن اس میں دونوں داستان گو حضرات نے آج کے زمانے کا ہلکا آسمانی رنگ کاکرتا اور علی گڑھی پاجامہ پہنا ہوا تھا ساتھ میں دوپلی ٹوپی بھی تھی ۔کچھ بھی قدیم طرز کا نہیں لگ رہا تھا ۔ اس کے بعد کے تینوں پروگرام موسیقی سے متعلق تھے ۔ شام کی شروعات ’بہار غزل ‘ سے ہوتی ہے ۔ جسے پیش کرتے ہیں جازم شرما، ان کا نام تو پہلے کبھی سنا تھا لیکن ان کی گائیکی سے روبرو ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ۔انہوں نے سامعین کے درمیان غزل گائیکی کا اچھا تاثر قائم کیا ۔ 

اس کے بعد ’’ رنگ صوفیانہ ‘‘کا پروگرام تھا جسے رنگ بینڈ (بھوپال) کے تحت محمد ساجدنے اپنے فن کا بے مثال مظاہر ہ کیا ،اس پروگرام سے پہلے میں گرین روم میں بیٹھا ہوا تھا ، اتفاق سے انہیں باہر انتظار کرنے میں کچھ دشواری کا سامنا ہوا توپردہ ہٹا کر آکر بیٹھ گئے ، میں بھی وہیں موجود تھا، میں تو انہیں پہچانتا نہیں تھا پوچھ بیٹھا کہ ابھی آپ لوگوں کا پروگرام ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے ہی پروفارم کرنا ہے ، میں ٹھٹھک گیا ، پھر دریافت کیا کہ آپ کے بینڈ کی کیا خصوصیت ہے اس پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری خصوصیت یہ ہے کہ ہم نے کلاسک کو جدید آہنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ وہ وقت کے مزاج میں مقبول ہوسکیں۔ واقعی میں انہو ںنے ایک سے بڑھ کر ایک پیشکش دی جن سے سبھی سرشار تھے۔آخری پروگرام ہمیشہ سے سبھی کے لیے اہم ہوتا ہے میں بھی اس اہم پروگرام کے انتظار میں تھا جس کا عنوان تھا ’’آج کی شام آپ کے نام ‘‘ اس پروگرام کے تحت پوجا گائتونڈے (ممبئی ) اپنی گائیکی کا جوہر آواز کے ذریعے بکھیرنے والی تھیں ۔ صبر آزما مرحلہ تھا ، ایک کے بعد دوسرے نغمات کا سفر جاری رہاں یہاں تک پروگرام ساڑھے نو بجے ختم ہوگیا لیکن شاید وہ سامعین میں وہ فرحت و انبساط نہیں لاسکیں جس کے سبھی منتظر تھے ۔ لیکن یہ بات قابل تعریف تھی کہ سبھی سنجیدگی سے ان کی فنکاری کو سراہ رہے تھے اور کسی نے بآواز بلند کوئی فرمائش کردی تو اچھا سا جواب بھی مل جاتا تھا ۔ جیسے میری جانب سے کسی نے زور سے چلا کر کہا ’ تمہارے شہر کا موسم بڑا سہا نا لگے ہے‘ پوجا کا جواب تھا اچھا جی مجھے معلوم نہیں تھا ۔ 

تیسرے دن جب راجیو چوک پہنچا تو مجھے میٹر و سے باہر نکلنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ، دوسرے دن جب چھ نمبر گیٹ کے سامنے کھڑا ہوکر گارڈ سے پوچھا کہ دونمبر گیٹ کدھر ہے جو سینٹرل پارکے گیٹ کے بالکل سامنے تھا، تو گارڈ نے کہا کہ فٹ اورر برج پار کرکے ادھر جائیے پھر بائیں طرف گیٹ ملے گا ۔ شاید یہ دلی کی زیر زمین کا پہلا میٹر و اسٹیشن ہے جس میں فٹ اوور بر ج بھی بنا ہوا ہے۔ لیکن تیسرے دن بغیر کسی کنفیوزن کے میٹرو سے باہر نکلا۔ ہفتہ کا دن تھا ، دلی میں سرکاری محکموں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو پہلے کے دنوں سے زائد افراد پروگرام میں نظر آرہے تھے ۔ پہلا پروگرام بیت بازی کا تھا۔ جس میں دہلی یونی ورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل یونی ورسٹی سے کل گیارہ ٹیموں نے شرکت کی۔ پہلا انعام ٹیم ’میر تقی میر‘ شعبہ تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ (عبیداللہ، ابو الاشبال، محمد فرحان)۔ دوسرا انعام ٹیم ’’علامہ اقبال‘ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ (سید تجمل اسلام، زاہد اقبال، نوید یوسف) اور تیسرا انعام، ٹیم ’ولی دکنی‘ جواہر لعل یونی ورسٹی (آفتاب عالم، محمد فرید الدین، عائشہ خاتون) کو دیا گیا۔ بیت بازی میں ججز کے فرائض ڈاکٹر شبانہ نذیراور ڈاکٹر وسیم راشد انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ عمدہ اشعار کے انتخاب کے ساتھ ادائیگی بھی عمدہ ہونی چاہیے ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیت بازی میں روانی اشعار پڑھ دیے جاتے ہیں اور شعر میں تاثر ہی قائم نہیں رہتا ہے ۔

دوسرا پروگرام ’’صوفی محفل‘‘ کے تحت قوالی کا تھا، جس میں قطبی برادرس کی ٹیم نے اپنا فن پیش کیا۔ انہوںنے روایتی انداز میں اپنی قوالی شروع کی جس میں حمد و نعت اور منقبت پیش کیا، اس کے بعد چند صوفیانہ کلام بھی پیش کیا۔ قطبی برادرس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی درگاہ کے دستار بند قوال ہیں۔ ان کے نام کئی ریکارڈ بھی ہیں جیسے لگاتار بارہ گھنٹے تک قوالی پیش کرنا، نیز وہ کلاسیکی قوالی میں ہندوستان کی نمائندگی دنیا بھر میں کرتے ہیں۔ان کی آواز حد سے زیادہ بلند تھی ، سامنے بیٹھ کر سننا بالکل چیلنچ ہوگیا تھا ،تو میں اٹھ کر پارک سے باہر ٹہلنے نکل گیا، وہاں بھی ان کی آواز بخوبی پہنچ رہی تھی ۔ تیسرا پروگرام ڈراما ’’باغ تو سارا جانے ہے ‘‘ تھا۔ اس ڈراما میں میر کی ذاتی اور ادبی زندگی کو پیش کیا گیا ۔اس ڈرامے کے ہدایت کارجامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد ڈاکٹر جاوید حسن تھے، جس کو تحریر کیا ہے پروفیسردانش اقبال نے۔اس ڈرامے نے غیر اردو برادری میں اچھا تاثر قائم کیا۔ اس ڈرامے کو جامعہ میں بھی دیکھ چکا تھا ، لیکن ڈرا ما کی خصوصیت ہوتی ہے کہ ہر مرتبہ یہ الگ ہوتا ہے۔ پہلے میر کی غزلوں میں رقص تھا اس مرتبہ صرف گائیگی رہ گئی تھی ۔ بعد میں مَیںنے معلوم کیاایسا کیوں  ہوا تو پتہ چلا کہ رقص کی خوبصورتی رنگ برنگلی روشنیوں میں ہے لیکن یہاں تو دن کے دو بجے سیارہ اعظم کے سامنے کس کی چلتی ہے ۔ 

اس کے بعد جشن اردو کا مزاج ساز وآہنگ کی جانب پھرتا ہے اور ’محفل ترنگ‘ کے تحت دھروو سنگاری صوفیانہ کلام سے نیرنگیا ں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔  ان کے بارے میں ناظم اطہر سعید صاحب اعلا ن کرتے ہیں کہ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے موسیقی کی تعلیم دلی گھرانے سے حاصل کی اور نصرت فتح علی خاں کے خاص اور آخر ی شاگر د ہونے کابھی شرف حاصل ہے۔جب یہ خصوصیا ت ہیں تو میں بھی ہمہ تن گوش ہوگیا ۔ واقعی میں ان کی گائیکی غنیمت تھی ، اوروں سے کافی اچھی تھی ، آواز میں قطبی برادرس کی طرح سختی نہیں تھی ، سامعین کے ساتھ میں بھی کافی محظوظ ہوا ۔ ان کے بعد ’’رونق غزل‘‘ کے تحت مشہور ومعروف غزل گلوکارہ رادھیکا چوپڑا رونق اسٹیج ہونے والی تھیں ۔ انہیں پہلے بھی کافی سن چکا ہوں لیکن غزل ہی ایسی چیز ہے اور رادھیکا کی آواز میں ہوتو ہر بار شوق سماعت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ میں بھی گھوم پھر کر سننے کے لیے صوفے میں بیٹھ گیا واقعی میں ان کی مخمور و مسحورآواز سے سبھی بہت ہی زیادہ محظوظ ہوئے۔ وہاں تو زیادہ تر نواجو ان تھے تو انہوں نے بھی کافی حظ اٹھا یا ۔ انہوں نے اردو شعرا کی اہم غزلوں کے علاوہ اپنی اہم کمپوزیشن بھی پیش کی۔ اس کے بعد قوالی کا پروگرام تھااور میں غزل کی میٹھی آواز سے نکل کر قوالی سننے کا خواہش مند نہیں تھا لیکن ممبئی کے صابر ی برادرس کا کا فی نام سنا تھا ، حال میں ہی کپل شرما کے شو میں بھی نظر آئے تھے پروگرام سے دور گھاس میں بیٹھ کر سننے لگا ۔ صابری برادرس (آفتاب صابر ی و ہاشم صابری)نے بھی اپنی بیاض کھول لی اور ہارمونیم پر انگلیوں کے رقص کے ساتھ آواز کا کمال بھر پور پیش کیا ۔صابری برادرس فلموں میں بھی اپنے فن کا مظاہر کرچکے ہیں تو ان کے دیوانے خوب محظوظ ہورہے تھے۔ میں تو بس اس انتظار میں تھا کہ دیگر قوال کے مقابلہ میں ان کے پاس نیا کیا ہے ۔ اس موقع پر مجھے ایک جملہ ’ماسٹر پیس‘ یا د آتا ہے ، یعنی کوئی فن پارہ کسی فنکار کے ساتھ ہی منسلک ہوجائے کوئی دوسرا اس جیسا پیش نہ کرسکے اور وہ فن پارہ اسی کی شناخت بن کر رہ جائے ، جیسے ریشماں کی لمبی جدائی ، جگجیت سنگھ اور غلام علی کی بہت ساری غزلیں ، نصرت کی قوالیا ں جن کی شناخت انہی کے ساتھ قائم ہوکر رہ گئی ہیں کوئی دوسرا ان جیسا گانہیں سکتا ۔ ایسا ہی ہر قوال کا بھی اپنا کوئی ماسٹر پیس ہوتا ہے ، ان کی بھی کوئی ایک قوالی تھی جو کسی فلم کے لیے انہوں نے گائی تھی اتفاق سے ابھی میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ 

چوتھے دن بھی حاضری ہوئی۔ اس دن سبھی کے لیے چھٹی کا دن تھا جب تک میں پروگرام میں پہنچتا تب تک پہلا پروگرام ’ کوئز ‘ کا ختم ہوچکا تھا ۔ ججز حضرات کی گفتگو جاری تھی ۔ پوزیشن کا اعلان کیا جارہا تھا ۔ جس میںسعید جامی و محمد راشد (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) اول ،نوشین افزا و محمد محبوب حسن (جے این یو) دو م ، عبد الحسیب و محمد اختر (جے این یو ) سوم اور آفتاب عالم و محمد فرید الدین (جے این یو ) حوصلہ افزاانعام کے حقدار قرار پاتے ہیں ۔ اس پروگرام میں ججز کے فرائض پروفیسر شمیم احمد اور ڈاکٹر شفیع ایوب انجام دے رہے تھے ۔ چار دن کے پروگرام میں تین دن کا پہلا پرواگرام یونی ورسٹی کے طلبہ کے لیے ہی مختص تھا۔ جامعہ ، ڈی یواور جے این یو کے طلبہ بھر پور حصہ لیے لیکن جامعہ ہمدرد سے کیوں نمائندگی نہیں ہوئی یہ مجھے بھی نہیں معلوم ۔آخری دن کا دو سرا پروگرام چار بیت کا تھا ، چار بیت کے لیے ہندوستان میں چند ہی شہرکی نمائندگی اب تک دیکھتا آیا ہوں ، بھوپال ، بچھرایوںاور امروہہ، ان کے علاوہ اگر کسی اور شہر میں اس روایت کا چلن ہوتا تو ضرور وہاں کے افراد اپنے فن کا مظاہر ہ کرتے ۔بہرحال اس دن محمد حینف واقبال ( بزم احسان بچھرایوں ) اور گوہر علی ( اکھاڑہ شانِ امروہہ) کی ٹیموں نے چار بیت پیش کیا ۔دونوں ٹیموںکے سارے افراد سفید کرتے اور پاجامے میں نظرآتے ہیں، ایک ٹیم سیاہ مخملی ٹوپی اوڑھے ہوئی تھی جبکہ دوسری ٹیم ننگے سر تھی ۔ چاربیت کا پروگرام شروع ہوتا ہے دونوں جانب سے ترچھی لکیر کی شکل میں ٹیمیں بیٹھ جاتی ہیں ۔ دونوں  ٹیموں سے پانچ پانچ افراد پہلی صف میں ہوتے ہیں دوسری صف میں بھی پانچ ہی ہوتے ہیں جو کورس کا رول ادا کرتے ہیں ، اکثر کے ہاتھ میں ڈفلیاں ہوتی ہیں ،جیسے ہی شعر ترنم کے ساتھ پڑھا جاتا ڈفلیاں بجنا شروع ہوجاتیں ہیں لیکن ڈفلی کا جوش دوسرے مصرعے میں زیادہ نظر آتا ہے ۔ جب ایک ٹیم چار بیت پیش کرتی ہے تو دوسری ٹیم خاموش رہتی ہے ۔یہ ایک دلچسپ پیشکش ہوتی ہے لیکن ایک ہی آہنگ و انداز سے لوگوں میں عدم دلچسپی نظر آنے لگتی ہے ۔اس معاملہ میں مجھے بھوپال والوں کا چار بیت اچھا لگا ، وہ ایک ہی ٹیم ہوتی ہے لیکن ان کا انداز پیشکش جداگانہ ہوتا ہے ۔اس کے بعد قوالی کا پروگرام ہونا تھا لیکن اس سے پہلے جو طلبہ مقابلہ جاتی پروگراموں میںکامیاب ہوئے تھے انہیں اکادمی کے نشان سے بھی نوازنا تھا ساتھ ہی وہ طلبہ جو والنٹیرکی ذمہ داری ادا کررہے تھے(شائمہ خانم ،ریحان شہباز، سمن کمار، ذولفقار علی،عرفان علی، شیوانگی گپتا ) ان سبھی کو بھی اکادمی کے نشان سے سرفراز کرنا تھا۔ یہ ایک خوشی کا لمحہ ان تمام طلبہ کے لیے تھا جس لمحے کو ان سبھی نے وائس چیئر مین کے ہاتھوں مومنٹو حاصل کرتے ہوئے جی بھر کر جیا۔ اس بعد سے موسیقی و آہنگ کا پروگرام شروع ہونا تھا تو تیسرا پروگرام ’’ صوفیانہ کلام ‘‘ تھا جس کے تحت سید مکرم وارثی نے قوالیاں پیش کیں ۔ انہوں نے اپنی بھرپورآواز کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور و معرو ف نعت و منقبتی کلام پیش کیے جس سے یقینا سامعین بھی خوب لطف اندوز ہوئے ’ تاجدار حرم ‘ ان کی اچھی پیش کش تھی ۔ شام ڈھل رہی تھی اور کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک میں شائقین کا ہجوم بڑھتا ہی جار رہا تھا۔ پرواگرام میں قدم رکھنے کو جگہ نہیں تھی کہ چوتھا پروگرام ’’ سرمئی شام ‘‘ امریش مشرا لے کر آتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی مخملی آواز سے بہت ہی خوبصورت غزلیں پیش کیں ، نئے و پرانے کمپوزیش میں انہوں نے سامعین کا دل موہ لیا ۔ ان کی پیشکش اتنی عمدہ تھی کہ وقت کی کمی کے سبب سامعین کے دلوں میں تشنگی رہ گئی ۔سنتے ہوئے واقعی میں ایسا محسوس ہوا کہ غزل جس حلاوت کے لیے مشہور ہے وہ ان کی آواز و انداز میں بخوبی موجود ہے ۔سامعین نے انہیں تو سراہا ہی ساتھ ہی اتنا لطف اندوز پروگرام تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ پرو گرام کے بعد پروفیسر شہپر رسول نے بھی بیک اسٹیج میں انہیں تعریفی کلمات سے نوازا ۔ 

 پانچواں پروگرام ’’ محفل قوالی ‘‘ کا تھا ۔ جس میں ملک کے جانے مانے اور کم عمری میں ہی قوالی میں اپنی شناخت بنانے والے رئیس انیس صابری نے صوفیانہ کلام اور اپنی سحر انگیز آواز سے سامعین کو جھومنے پر مجبور کیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان کے شائقین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پروگرام سے پہلے اور بعد بھی ان تصویر میں ایک فریم میں آنے کے لیے پاگل پن کا مظاہر ہ کریںگے ۔ یہ نوجوان ، بلکہ نوخیز قوال سبھی کی نظر وں میں سما جارہا تھا یہاں تک کہ بیک اسٹیج میں ریشما نے کہہ بھی دیا کہ میں کسی بھی قوال کو آپ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا ہے ، سب عجیب طور طریقے کے ہوتے ہیں ۔ بے چارہ اس بات پر شرما کر رہ گیا ۔ اب اس جشن کا آخر ی پروگرام ’’ رنگ نشاط‘‘بچا تھا جس کے تحت موسیقی کی دنیا کی مشہور و معروف صوفی گلوکارہ ہر شدیپ کوراپنے فن کا مظاہرہ کے لیے آئیں، بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ وہ قابو سے باہر ہونے کے قابل تھی ، لیکن ان کے پورے پروگرام میں ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ کچھ ایسا ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ ٹیلی ویژن کی دنیا سے وہاں پر ان کی آواز بالکل الگ نظر آئی، وہ بالکل خاموش طبعیت سے گانے والی نکلیں بلکہ ان کے ساتھ کورس میں جو تین لڑکیا ں تھی ان میں نقل و حرکت زیادہ پائی جارہی تھی ۔ لوگ اپنی اپنی امیدیں لے کر آئی تھیں ۔ میری بھی امید تھی کہ ان کی آواز کافی بلند ہوگی لیکن مجھے کچھ ایسا محسوس نہیں اس لیے دیکھا کہ سامعین و حاضرین میں بھی جو جوش و خروش سلمان علی کے پروگرام میں نظر آیا تھا وہ تو مجھے بالکل بھی نظر نہیں آیا۔

 اس آخر ی پروگرام سے پہلے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کی اپنی ایک تہذیب ہے اور آپ نے جس تہذیب کا مظاہر ہ کیا ہے وہ قابل رشک ہے ۔ مزید انہوں نے کہا کہ دہلی میں یقینا کئی ایسے ثقافتی پروگرام ہوتے ہیںلیکن ’جشن اردو‘ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ لگاتار چار روز تک جاری رہتا ہے او ر سبھی کے لیے مفت بھی رہتا ہے ۔ اس میں ساز و آہنگ کے تحت ملک کے نامور موسیقاروں اور فن کاروں کو بلایا جاتا ہے جس سے سامعین میں یہ احساس ہوتا کہ میوزک کی پوری دنیا اردو شاعر ی سے ہی قائم ہے مزید انہوں نے کہا کہ اس موقع پر تمام فنکاروں ، سامعین کے ساتھ اکادمی کے کارکنان کابھی شکریہ اداکرتا ہوں جو لگاتار چار دونوں تک اس پروگرام کے لیے خود کو ہمہ تن وقف رکھا ۔ انہو ں نے اس جشن میں اسٹال لگانے والوں میں سے کا بھی شکریہ ادا کیا ۔اس موقع پر ڈپٹی میئر آلِ اقبال بھی موجود تھے انہوں نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری محبت کی زبان ہے اور جس طرح محبت کبھی ختم نہیں ہوتی اسی طریقے سے اردو بھی ہمیشہ زندہ رہے گی اور سامعین سے’ آئی لو اردو‘(I Love Urdu) کا نعرہ بھی لگوایا ۔

ہر پروگرام کا ایک حصہ فن کاروں کا استقبال اور مومنٹو سے انہیں نوازنا بھی تھا ، اردو اکادمی دہلی اس معاملے بہت منفرد ہے کہ ان کے یہاں کسی بھی قسم کا پروگرام ہو اس میں وہ لوازمات کا مکمل خیال رکھتے ہیں ۔کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ وہ اپنے فارمیٹ پر مکمل عمل کرتے ہیں ، تومومنٹوسے نوازنا بھی ان کے یہاں کا ایک اہم حصہ ہے اور اس معاملے میں ہر چھوٹا بڑا سبھی کا یکساں خیال رکھتے ہیں ، توفنکاروں کو چاروں دن کے چوبیسوں پروگرام میں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول و گورننگ کونسل کے ممبران شیخ علیم الدین اسعدی ، فیروز صدیقی ، محمد مزمل ، محمد حسیب ، محمد عارف ، اسامہ کاندھلوی و اکادمی کے دیگر افراد کے ہاتھوں اکادمی کے نشان سے انہیں نوازا گیا ۔ چاروں دن کے تمام پروگراموں کی نظامت جناب اطہر سعید اور محترمہ ریشما فاروقی نے جس خوش اسلوبی سے ادا کی وہ بھی قابل تحسین ہے ۔

 جشن کا ایک اہم حصہ وہاں پر لگے اسٹالس کا تھا جن میں کتابیں ، کیلی گرافی اور ہوم ڈیکوریشن کے سامان تھے ۔اسٹج کے بائیں جانب سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ ’اردو کادمی دہلی‘ جس میں ان کی تمام مطبوعات موجود تھیں ۔’ ویسٹ ڈسٹرک سیلف ہیلپ گروپ ‘ اس میں ہنڈی کرافٹ اور خواتین کے لیے چیزیں تھی ۔’ محسن کیلی گرافی‘ جس میں تینوں زبانوں میں لوگ کچھ بھی کیلی گرافی کروارہے تھے ۔ ’اسپین میگزین‘ نے اپنا اسٹال لگا کراپنی میگزین کے قارئین میں اضافہ کیا ، ایک زمانہ تھا جب رسالے بازار میں مل جایا کرتے تھے ، دنیا ڈیجیٹل ہوئی تو یہ میگزین بھی ڈیجیٹل ہوگیا انہوں نے قارئین کے لیے کچھ تحفے بھی رکھ رکھے تھے ۔ان چار اسٹالس کے بعد کچھ جگہیں خالی رکھی گئی تھیں ۔جن میں عطر فروش اور قلم و کتاب والے موجود تھے ۔’’ زبیرس قلم‘‘زبیر نے خطاطی میں بہت ہی جلد نیا مقام حاصل کیا ، آپ لوگوں نے جشن ریختہ میں جو کیلی گرافی دیکھی ہوگی وہ بھی زبیر کی ہی تھی،وہ خط ثلث میں کمال رکھتے ہیں ، ان کے شاگردوں کی تعداد بھی کافی ہے ۔’ قومی کونسل برائے فروغ اردو‘ کے اسٹال میں ادبی وعلمی کتابیں موجود تھیں، تیسرے دن میں نے بھی عروض ، تصوف اور تاریخ کے موضوع پر کتابیں خریدیں ۔ ریختہ پبلی کیشنز‘ ان کے یہاں نستعلیق ، رومن اور دیوناگری میں شاعری کے انتخاب زیادہ تھے ۔ آرٹی کائٹ ، دی ماضی مرچنٹس ، خواب تنہا کلیکٹو، پرانی دلی کیلی گرافی ہب ، ووڈ ورلڈ وینڈرس ، ان سبھی میں روم ڈیکوریشن پر مشتمل اشیاتھیں۔’ عذرا بک ٹریڈرس ‘ میں پاکستانی اردو پاپولر ناول اور مذہبیات کی انگلش میں کتابیں تھیں ۔ داؤد کیلی گرافی ،مائلس ٹو مائلس کیلی گرافی، بکس ای ٹی سی ، میں کیلی گرافی اوراس سے متعلق چیزیں تھی ۔ ان کے بعد نیشنل بک ٹریڈرس اور پبلیکشن ڈویژن کا اسٹال تھا جن میں اردو کتابیں زیادہ تھیں ۔ مجھے ایسا لگا کہ اگر اردو اکادمی اس جشن میں باضابطہ اردو کتاب میلہ شامل کرلے تو یہ نہلے پہ دہلا ہوجائے گا، مجھے امید ہے کہ یہ کام اردو اکادمی دہلی ہی کرسکتی ہے ۔ گزشتہ دس برسوں سے اردو اکادمی دہلی کو بہت ہی قریب سے دیکھ رہا ہوں ایسے میں یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اردو کے سبھی صوبائی و مرکزی اداروں میں اردو اکادمی دہلی سب سے زیادہ متحرک ہے ۔ ادبی ، علمی ، ثقافتی اور عوامی سطح پر اس کا حقیقی دائرۂ کار دیگر سے زیادہ ہے ۔اس عمدہ جشن کو جس خوش اسلوبی سے اردو اکادمی دہلی نے بہت ہی کم افرادی قوت کے ساتھ انجام دیا وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔



Tuesday, 5 November 2024

اردو رباعی تنقید: مزاج و منہاج

 ایک زمانہ تک یہ بات اردو ادب میں حاوی رہی کہ رباعی ایک حاشیائی صنف سخن ہے ۔لیکن حاشیائی صنف سخن کا معیار کیسے طے ہوتا ہے یہ مجھے بھی نہیں معلوم لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں کئی اصناف بالکل حاشیے پر چلے گئے اس کے مشاہد سبھی ادب دوست ہوںگے جب کہ رباعی ابھی بھی ماضی کی کیفیت و کمیت کے ساتھ ادب میں موجود ہے اور بحث و مباحثہ کی تلاش میں ہے ۔ کئی رسائل نے اس جانب پیش قدمی کی ہے اور اس کے خصوصی شمارے بھی نکلے ہیں اب بھی رسائل نے رباعی پر تنقیدی مضامین مانگے ہیں۔ لیکن پھر بھی عمومی طور پر اس جانب قلمکار رخ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی تسلسل کے ساتھ تحریریں منظر عام پر آتی ہیں ۔ ایسے میں اگر میں یہ کہوں کہ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو رپر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی ۔اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر بے مربوطی کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر رباعی کی ہیئت میں ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ 

 رباعی کے متعلق اذہان میں یہ بھی پیوست کردیا گیا ہے کہ اس کے موضوعات مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی جو غالب کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوئی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کی کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریں گے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔ 

اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو ماضی سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین بکثر ت برتے گئے ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیں لا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانے میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری پر مل جائیں تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفۂ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آئی ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر سنجیدہ کے ساتھ طنزو مزاح کے حامل۔ لیکن رباعی میں دونو ں ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو موضوعات سے مالامال کیا ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ جوش کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔  ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں، جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ 

اردو میں رباعی کی مضبوط روایت ہونے کے باوجود اب بھی ادبی محفلوں میں رباعی پر بات کرتے ہوئے ایک قسم کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔فن سے لے کر تنقید و تجزیہ تک رباعی میں بہت ہی کچھ لکھا جارہا ہے ۔ یونیورسٹیوں میں باضابطہ کام ہورہے ہیں اب ویسی کوئی بات نہیں رہی جیسا کہ پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں تھی کہ نہ رباعی گوشعرا تھے اور نہ ہی رباعی پر کچھ لکھا جارہا تھا ۔ 

 یہ بات حقیقت ہے کہ رباعی تحقیق و تنقید و تجزیہ کی دنیا سلام سندیلوی اور فرمان فتح پور ی کے بعد رک سی گئی تھی ۔ اس فن پر بالکل بھی بات نہیں ہورہی تھی ۔ جدیدیت کے دور میں اگر چہ فاروقی صاحب خود رباعیاں کہہ رہے تھے لیکن اس وقت بھی جتنا فکشن اور نظم و غزل پر لکھا گیا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہیں ہوا ۔ لیکن پھر بھی اس بیچ جتنی بھی کتابیں منظرعام پر آئیں سب نے قبولیت کی سند حاصل کی۔ اس بیچ کئی کتابیں ایسی آئیں جن کا تعلق صرف فن رباعی سے تھا ان میں صرف رباعی کی بحثوں کو زیر بحث لایا گیا تھا مثال کے طور پر’ مقدمہ رباعی ‘ سید وحید اشرف ،’ ساگر منتھن ‘ ناوک حمزہ پوری ،’ تنقید رباعی‘ فرید پربتی وغیرہ۔ لیکن اسی در میان موضوعاتی سطح پر دو اہم کتابیں بھی منظر عام پر آئیں جن میں سے ایک’ اردو رباعی میں تصوف کی روایت ‘ ڈاکٹر سلمہ کبریٰ کی اودوسر ی کتاب ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی ’’ اردو رباعی میں ہندوستانی تہذیب ‘‘ ۔ یہ دونوں کتابیں موضوعاتی سطح پر سامنے آتی ہیں۔ لیکن جس طرح سے دیگر اصناف میں پورے ایک عہد کے تخلیق کاروں کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے جیسے آزادی کے بعد اردو افسانہ ، ناول ، غزل اور شاعری وغیرہ ایسا کچھ رباعی کے ساتھ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے بلکہ اس قسم کی کتاب شروع میں ہی سلام سندیلوی اور فرمان فتح پوری کی تھی جن میں رباعی کے فن کے ساتھ رباعی گوشعرا پر اثر انداز تحریریں ہیں۔بعد میں ایسی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ۔ابھی حال میں ہی خوشبو پر وین کی ایک کتاب ’بیان رباعی ‘ منظر عام پر آئی ہے جس میں گزشتہ پچاس برس کے انیس شعرا پر تجزیاتی گفتگو شامل ہے ۔ آج بھی رباعی کے متعلق یہ حالات ہیں کہ مجموعے شائع ہو جاتے ہیں اور کہیں پر گفتگو بھی نہیں ہوتی ہے ۔ ایسے میں تخلیق کار اس صنف کی آبیاری کیسے کرسکتے ہیں جبکہ فکشن اور غزل و نظم پر تاثراتی و تبصراتی کے ساتھ فلسفیانہ مضامین کی کثر ت دیکھنے کو ملتا ہے ۔

قاری کا فقدان

دریچہ  ڈاکٹر امیرحمزہ   اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یون...