ایک زمانہ تک یہ بات اردو ادب میں حاوی رہی کہ رباعی ایک حاشیائی صنف سخن ہے ۔لیکن حاشیائی صنف سخن کا معیار کیسے طے ہوتا ہے یہ مجھے بھی نہیں معلوم لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں کئی اصناف بالکل حاشیے پر چلے گئے اس کے مشاہد سبھی ادب دوست ہوںگے جب کہ رباعی ابھی بھی ماضی کی کیفیت و کمیت کے ساتھ ادب میں موجود ہے اور بحث و مباحثہ کی تلاش میں ہے ۔ کئی رسائل نے اس جانب پیش قدمی کی ہے اور اس کے خصوصی شمارے بھی نکلے ہیں اب بھی رسائل نے رباعی پر تنقیدی مضامین مانگے ہیں۔ لیکن پھر بھی عمومی طور پر اس جانب قلمکار رخ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی تسلسل کے ساتھ تحریریں منظر عام پر آتی ہیں ۔ ایسے میں اگر میں یہ کہوں کہ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو رپر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی ۔اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر بے مربوطی کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر رباعی کی ہیئت میں ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔
رباعی کے متعلق اذہان میں یہ بھی پیوست کردیا گیا ہے کہ اس کے موضوعات مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی جو غالب کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوئی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کی کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریں گے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔
اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو ماضی سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین بکثر ت برتے گئے ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیں لا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانے میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری پر مل جائیں تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفۂ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آئی ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر سنجیدہ کے ساتھ طنزو مزاح کے حامل۔ لیکن رباعی میں دونو ں ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو موضوعات سے مالامال کیا ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ جوش کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔ ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں، جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔
اردو میں رباعی کی مضبوط روایت ہونے کے باوجود اب بھی ادبی محفلوں میں رباعی پر بات کرتے ہوئے ایک قسم کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔فن سے لے کر تنقید و تجزیہ تک رباعی میں بہت ہی کچھ لکھا جارہا ہے ۔ یونیورسٹیوں میں باضابطہ کام ہورہے ہیں اب ویسی کوئی بات نہیں رہی جیسا کہ پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں تھی کہ نہ رباعی گوشعرا تھے اور نہ ہی رباعی پر کچھ لکھا جارہا تھا ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ رباعی تحقیق و تنقید و تجزیہ کی دنیا سلام سندیلوی اور فرمان فتح پور ی کے بعد رک سی گئی تھی ۔ اس فن پر بالکل بھی بات نہیں ہورہی تھی ۔ جدیدیت کے دور میں اگر چہ فاروقی صاحب خود رباعیاں کہہ رہے تھے لیکن اس وقت بھی جتنا فکشن اور نظم و غزل پر لکھا گیا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہیں ہوا ۔ لیکن پھر بھی اس بیچ جتنی بھی کتابیں منظرعام پر آئیں سب نے قبولیت کی سند حاصل کی۔ اس بیچ کئی کتابیں ایسی آئیں جن کا تعلق صرف فن رباعی سے تھا ان میں صرف رباعی کی بحثوں کو زیر بحث لایا گیا تھا مثال کے طور پر’ مقدمہ رباعی ‘ سید وحید اشرف ،’ ساگر منتھن ‘ ناوک حمزہ پوری ،’ تنقید رباعی‘ فرید پربتی وغیرہ۔ لیکن اسی در میان موضوعاتی سطح پر دو اہم کتابیں بھی منظر عام پر آئیں جن میں سے ایک’ اردو رباعی میں تصوف کی روایت ‘ ڈاکٹر سلمہ کبریٰ کی اودوسر ی کتاب ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی ’’ اردو رباعی میں ہندوستانی تہذیب ‘‘ ۔ یہ دونوں کتابیں موضوعاتی سطح پر سامنے آتی ہیں۔ لیکن جس طرح سے دیگر اصناف میں پورے ایک عہد کے تخلیق کاروں کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے جیسے آزادی کے بعد اردو افسانہ ، ناول ، غزل اور شاعری وغیرہ ایسا کچھ رباعی کے ساتھ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے بلکہ اس قسم کی کتاب شروع میں ہی سلام سندیلوی اور فرمان فتح پوری کی تھی جن میں رباعی کے فن کے ساتھ رباعی گوشعرا پر اثر انداز تحریریں ہیں۔بعد میں ایسی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ۔ابھی حال میں ہی خوشبو پر وین کی ایک کتاب ’بیان رباعی ‘ منظر عام پر آئی ہے جس میں گزشتہ پچاس برس کے انیس شعرا پر تجزیاتی گفتگو شامل ہے ۔ آج بھی رباعی کے متعلق یہ حالات ہیں کہ مجموعے شائع ہو جاتے ہیں اور کہیں پر گفتگو بھی نہیں ہوتی ہے ۔ ایسے میں تخلیق کار اس صنف کی آبیاری کیسے کرسکتے ہیں جبکہ فکشن اور غزل و نظم پر تاثراتی و تبصراتی کے ساتھ فلسفیانہ مضامین کی کثر ت دیکھنے کو ملتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment