Thursday, 11 February 2021

اردو لغت اورتلفظ Urdu Lughat aur Talaffuz

 اردو لغت اورتلفظ 

Urdu Lughat aur Talaffuz

امیر حمزہ


  ’’نَحن الأطبا ء و أنتم الصیادلۃ ‘ ‘(ہم ڈاکٹر ہیں اور تم سب میڈیکل اسٹور) یہ مقولہ بچپن میں ایک استاد نے محدثین اور فقیہوں کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھا نے کے لیے بتایا تھا کہ فقیہ تو حدیثیں لیتا ہے محدثین سے اور اس سے مسائل استنباط کر تا ہے ۔ اسی طریقہ سے لغویین اور زبان سیکھنے والوں کا معاملہ ہے ۔ لغت نگار قدم قدم پر زبان سیکھنے والوں کے لیے لفظ ، معنی ، تلفظ اور محاورہ میں اس لفظ کا کیا استعمال ہے یہ بتا تا ہے ۔یعنی لغت سے کئی قسم کے فائدے حاصل کیے جاتے ہیں ۔سب سے زیادہ لغت کی ورق گردانی معانی حاصل کر نے اور معانی کی تصدیق کے لیے کی جاتی ہے ،پھرکسی لفظ کے تلفظ میں مشکوک ہونے کی صورت میں صحیح تلفظ جاننے کے لیے لغت کا سہارا لیا جاتا ہے ، املامیں غلطی کی درستگی کے لیے یعنی وہ لفظ ’س‘ سے ہے یا ’ص‘ سے ، ’ذ‘  سے ہے یا’ ز‘ سے ۔یا کوئی لفظ تر کیب میں کس طر ح استعمال ہوتا ہے  ، محاورات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے۔ اخیر میں ادبی جملو ں و شعروں میں صورت استعمال کی تصدیق کے لیے لغت کا استعمال کر تے ہیں ۔

یہ حقیقت ہے کہ لغت کا تعلق عوام سے کم اور پڑھے لکھے طبقہ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ لغت کی باریکیوں کا مکمل طور پر احاطہ کر نا ماہر فرہنگ کا کام ہے۔ جب کوئی لغت سے فائدہ اٹھا تا ہے تو اس کی نظر محض اس چیز پر رہتی ہے جو وہ اس سے چاہتا ہے ۔وہ مطلوبہ چیز کے حصول کے بعد اگروہ غلطی پر ہوتا ہے تو اصلاح کر لیتا ہے اور اگر درست ہوتا ہے تو اپنی درستگی پر خوش ہوتا ہے ۔شاید و باید ہی کوئی شخص ہوتا ہوگا جو اپنے پسندیدہ لغت سے تلفظ کے معاملہ میں مشکوک رہتا ہو گا بلکہ اس لغت نگار پر عقیدت کی حد تک بھروسہ کر تا ہوگا کہ یہ لغت مشمولات کی تفصیل میں کسی بھی قسم کی غلطی نہیں کر سکتی۔ لیکن جب کو ئی سنجیدہ شخص سنجیدگی کے ساتھ کسی تلفظ کی تلاش میں کئی لغتوں کی ورق گردانی کر تا ہے تو اسے وہاں ایک ہی لفظ کے تلفظ میں لغت نگار حضرات الگ الگ تلفظ بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر لفظ عر بی یا فارسی کا ہوتا ہے تو عربی جاننے والا قاری اصل تلفظ تک پہنچ جاتا ہے لیکن جو قاری عربی نحو وصر ف سے ذرہ برا بر بھی واقف نہیں ہوتا ہے تو وہ مشکوک ہوجاتا ہے اپنی پسند کی لغت پر ہی بھر وسہ کر بیٹھتا ہے ۔ایک ہی لفظ کے تلفظ میں مختلف لغات میں کس قسم کا تنوع پایا جا تا ہے اس کی ہلکی سی جھلک اس مقالہ میں پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔

لغت کا بڑا کام معانی فراہم کر نا ہوتا ہے ۔ایک عام قاری کے لیے سب سے زیادہ کامیاب لغت نگار وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ معانی بتاتا ہے اور اساتذہ کے کلام کے حوالے پیش کر کے اپنی بات کو مدلل کر تا ہے ۔پھر تلفظ کی جانب تو جہ دی جاتی ہے ، تلفظ کا ذکر بالحرکا ت و الاعراب ہے تو معاً وہ زیر تحریر لایا جاتا ہے اگر باللفظ ہے تو لفظ کے ماخذ کے ذکر کے بعد تلفظ کی تفصیل دی جاتی ہے ، پھر معانی کا ذکر ہو تا ہے ۔

اردو میں جو باضابطہ لغات لکھی گئی ہیں ان کو تلفظ کے لحاظ سے تین زمرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔اول وہ لغت نگار جنہوں نے تلفظ کی وضاحت کے لیے فونیٹک سسٹم کو اپنا یا اور تلفظ کو اس سسٹم کے تحت پیش کر نے کی مکمل کوشش کی خواہ تلفظ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اس زمرہ میں ہم ڈبلیوایس- فیلن کے لغت ’A NEW HINDUSTANI-ENGLISH DICTIONARY ‘ ، جان ٹی - پلیٹس کی ’ اردو کلاسیکل ہندی اور انگریزی ڈکشنر ی‘ اور ڈنکن فاربس کی ’ڈکشنری ہندو ستانی انگلش ، انگلش ہندوستانی‘ کو رکھ سکتے ہیں ۔ دوسرے زمرے میں وہ لغات ہیں جن میں لفظ کے تلفظ کو حروف میں حرکات کے ساتھ توڑ کر پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کوشش میں لغت نگار بہت حد تک کامیا ب بھی ہوئے البتہ تمام حر وف میں حر کت رکھنے میں کہیں کہیں چوک بھی ہوئی ہے جس سے تلفظ سے مکمل طور پر قاری واقف نہیں ہوپاتا ہے ۔ اس زمرے میں ’ فرہنگ عامرہ ‘ اور ’ جامع فیروزاللغات‘ کو رکھا جاسکتا ہے ۔ تیسرے زمرے میں وہ لغات آتے ہیں جنہوں نے تلفظ پر توجہ تو دی لیکن بالحرکات ۔ اس زمرے میں سب سے پہلا نا م فرہنگ آصفیہ کا لیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بھی کئی دیگر لغتات اس نوعیت کے ہیں جن کا ذکر کیا جائے گا ۔

ماضی میں جاکر جب لغت نویسی کی تاریخ کھنگالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ لغت نویسی کا رواج وہاں زیادہ رہا ہے جہاں کسی بڑے مذہب نے جنم لیا ہو، اس زبان کے بولنے والے سیاسی طور پر مضبوط رہے ہوںیا اس زبان کا ادب ادبِ عالیہ میں شمار ہوتا ہو۔ مذکورہ تینوں وجوہات کی بنا پرغیر زبان داں لغت کی ضرورت محسوس کر تا ہے اور جہاں ایک زبان کو دوسر ی زبان پر فوقیت حاصل نہیں ہو، کسی عظیم مذہب نے جنم نہیں لیا ہویا جہاں عظیم ادب تخلیق نہیں ہوا ہو وہاں لغت نویسی کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے بدھ ازم کی تعلیمات کے لیے چینی لغت نویسی کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ولادت حضرت عیسیؑ سے ہزاروں سال پہلے ہی لغت کی تر تیب و تدوین کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن مصدقہ طور پر چینی زبان کی سب سے پہلی لغت شواوین کی ملتی ہے۔ اسی طریقے سے ویدک کتابوں کی تقسیم کے لیے سنسکر ت لغت نویسی کا آغاز ہوا اور شعری و مذہبی اثرات عربی میں بھی کافی کار فرما ہوئے۔ جہاں قرآن و حدیث میں آئے غریب یا دخیل الفاظ کی تشریح و تفصیل کے لیے لکھی جانے والی فرہنگوں نے باقاعدہ لغت نگاری کی بنیاد ڈالی۔ اس سلسلے میں ابو الاسود الدولی نے سب سے پہلے علم زبان کی بنیاد ڈالی ، یہی علم آگے چل کر دو مختلف علوم ’ لغت ‘ اور ’ نحو‘ میں تقسیم ہوگیا ۔ان دونوں علوم سے متعلق اہم کارنامے ساتویں صدی عیسوی میں خلیل بن احمد کی ’ کتاب العین ‘ (لغت ) اور خلیل ہی کے شاگر د سیبویہ کی ’ کتاب النحو ‘کی صورت میں سامنے آئی۔

انگر یزی زبان میں لغت نویسی کی بنیاد لاطینی زبان کی حاشیائی لغات کی شکل میں سامنے آئی ان حاشیائی لغتوں میں انجیل کے اصل مآخذ یعنی دیگر زبانوں یونانی ، عبرانی، لاطینی اور سریانی وغیرہ تک کی لغتیں اس کے نتیجے میں سامنے آئیں ۔

ہندوستان میں اولاً مسلمانوں کی آمد پھر یوروپی اقوام کی آمد سے اردو لغت نویسی کا آغاز ہوتا ہے ۔سب سے پہلے اردو میں لغت نویسی کا آغاز نصاب ناموں سے ہوتا ہے ۔جن میں سے ’خالق باری‘ ، ’لغات گجری‘ ، ’ حفظ اللسان‘، ’صمدباری‘ ،’ اللہ خدائی‘،’رازق باری‘ ،’ رسالہ جان پہچان‘،’ صفت ‘، ’ واسع باری ‘ ،’ اللہ باری ‘ ،’ ناصر باری‘ ،’ اعظم باری ‘ یہاں تک کہ یہ سلسلہ غالب کے ’قادر نامہ‘ تک نظر آتاہے ۔ عصر حاضر میں بھی ایک کتاب ’ حمد باری ‘ کئی مدارس میں داخل نصاب ہے ۔

اردو لغت نگاری کا دوسرا دو ر اردو - فارسی لغات سے شروع ہوتا ہے ۔اس کی ابتداء عہد عالمگیری میں ملا عبدالواسع ہانسوی کی ’غرائب اللغات ‘ سے ہوتی ہے ۔اسی لغت کو بعد میں سراج الدین علی خان آرزو ’’ نوادرالالفاظ کے نام سے تصحیح و تر تیب کے ساتھ مرتب کرتے ہیں ۔اس لغت میں صرف ہندی الاصل اردو الفاظ کو بنیادی اندراج کی حیثیت دیکر فارسی زبان میں تشریح کی گئی ہے۔ اور ان الفاظ کے عربی و فارسی مترادفات جو اردو میں مستعمل ہیں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اس لغت کے تقریباً چالیس سال بعد مرزا جان طپش دہلوی نے قیام ڈھاکہ کے دوران ۱۷۲۹ء ؁ میں ۹۶ صفحات پر مشتمل ایک مختصر لغت مر تب کی جس کا نام ’ شمس البیان فی مصطلحات ہندوستا ں‘ تھا ۔اس کی اشاعت مر شدآباد سے ۱۸۸۴ ء؁ میں ہوئی ۔ لغت نگاری کے فن پر یہ لغت اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں اردو الفاظ کے تلفظ کی نشاندہی توضیحی طریقے پر کی گئی ہے اور معنی بھی وضاحت سے لکھے گئے ہیں ، مترادفات سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ پرہیز کیا گیا ہے۔

۱۸۳۳ء؁ میں مولوی محمد مہدی واصف نے ’’ دلیل ساطع ‘‘ کے نام سے ایک فارسی - اردو لغت مرتب کی جو پہلی بار مظہر العجائب مدراس سے شائع ہوئی ۔ یہ لغت باضابطہ اردو یا فارسی زبان کو مد نظر رکھ کر مدون نہیں کی گئی ہے بلکہ انہوں نے (جیسا کہ دیباچہ میں لکھا ہے) کہ اس کے الفاظ کسی انگریزی لغت سے ماخوذ ہیں۔ ہر لفظ کے بعد (ہ) ، (س) لکھا گیا ہے ۔ جس طر ح انگریزی لغتوں کا شیوہ وضاحتی تلفظ کا رہا ہے ویسا ہی طریقہ اس میں بھی اختیار کیا گیا ہے ۔

۱۸۳۷ء؁ میں مولوی اوحدالدین نے ایک لغت ’ نفائس اللغات ‘ کے نام سے مدون کیا ۔ جو ۱۸۴۹ء؁ میں نولکشور لکھنؤ سے شائع ہوئی ۔ اس لغت کی اہمیت یہ ہے کہ یہ سابقہ تمام اردو فارسی لغات سے ضخیم ۶۴۶ ؍یعنی صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ پہلی لغت ہے جس میں اردو الفاظ کے تلفظ کی نشاندہی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔

۱۸۸۴ء ؁ میں علی اوسط اشک شاگر د ناسخ نے ’ نفس اللغہ‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ۔ یہ ایک فرہنگ قسم کی کتاب ہے ۔ الفاظ کی تشریح بھی کم کم ہے ۔اس کی صرف ایک ہی جلد مکمل ہوسکی تھی جس میں صرف ت تک کے الفاظ شامل ہیں ۔بقول ڈاکٹر مسعود ہاشمی ’’اس لغت کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مؤلف کو فن لغت نویسی کے اصول سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ‘‘ (اردو لغت کا تنقیدی جائزہ ، مسعود ہاشمی ، ص ۵۰)

۱۸۴۵ء ؁ میں محبوب علی رامپوری نے ’منتخب النفائس ‘ کے نام سے ایک لغت مر تب کی ۔اس میں تشریحی طریقۂ کار نہ اختیار کرتے ہوئے صرف مترادفات کی تکنیک استعمال کی گئی ہے ۔مندرجات تین کالم میں ہیں ایک میں اردو، دوسرے میں فارسی ، تیسرے میں عربی لفظ ہے ۔ گویا یہ سہ لسانی لغت ہے۔ اس لغت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے اردو وفارسی لفظ کے بجائے مصنف نے ساری قابلیت عر بی لفظ میں صرف کی ہے حتی کے تلفظ میں بھی عربی لفظ کا ہی تلفظ حاوی ہے ۔

اب تک ان لغتوں کااجما لا ذکر تھا جو ہندوستانی تھے اور جن کا تعلق فارسی اردو لغت نگاری سے تھا ۔ اردو لغت نویسی میں مستشرقین کا اہم رول رہا ہے ۔ انگر یز ہندو ستان میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور حاکم بن کر حکومت کی ۔انہیں کے ساتھ عیسائی مبلغین کی کثیر تعداد ہندوستان آئی ۔جن کے لیے ہندوستانی زبان جاننا انتہائی ضروری تھا نیز حکومت و تجارت کے لیے بھی اردو جاننا ان کی پہلی ضرورت تھی ۔ اس لیے انگریز اپنی ضرورت کے مطابق فرہنگ نویسی کی جانب مائل ہوئے پھر باضابطہ اردو کے لیے لغات تر تیب دیں ۔

گر یرسین کے حوالہ سے انگریزوں کے ذریعہ لکھی گئیں کئی لغتوں کا پتہ چلتا ہے جو اٹھارہویں صدی میں تر تیب دیے جاچکے تھے ۔بلکہ اس سے بھی قبل انہوں نے ایک ایسی لغت کا ذکر کیا ہے جو ۱۸۳۰ء ؁ میں سورت میں لکھی جاچکی تھی ۔جو فارسی ، ہندوستانی ، انگریز ی اور پرتگالی الفاظ پر مشتمل تھی ۔ اس لغت میں فارسی الفاظ رومن وفارسی رسم الخط میں اور ہندوستانی الفاظ رومن وگجراتی رسم الخط میں لکھے گئے تھے ۔گر یرسین اس طر ح کی ایک اور لغت کا ذکر کر تے ہیں LEXICAN LINGUAGE INDOSTANICA  جو سو رت میں ہی ۱۷۰۴ ء؁ لکھی گئی تھی ۔ان کے بقول اس لغت کا مسودہ روما کی لائبری میں موجود تھا ۔یہ لغت دو جلدوں میں تھی اور ہر جلد پانچ سو صفحات پر مشتمل تھی ۔

۱۷۷۲ء؁ میں جارج ہیڈلے نے صر ف و نحو مع فرہنگ انگریزی ایک کتاب لکھی جو لندن سے شائع ہوئی۔ اس میں اردو الفاظ فارسی رسم الخط میں لکھے گئے تھے ۔اس میں ایسے الفاظ خاص طور سے شامل کیے گئے تھے جو متحد الصوت مگر مختلف المعنی تھے ۔اشاعت ثانی  بھی لندن ہی سے ۱۷۸۴ ء ؁میںہوئی ۔ تیسری اشاعت میں جملے اور مکالمے میں بھی اضافہ عمل میں آیا ، پانچویں بار مرزا محمد فطرت لکھنوی کی تصحیح و اضافہ کے ساتھ ۱۸۰۱ء ؁میں شائع ہوئی۔ جس میں بنگال کے رسم و رواج اور طور طریقوں پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی ۔چھٹی مرتبہ ۱۸۰۴ء؁ میں ، ساتویں مرتبہ مزید تصحیح و اضافہ کے بعد۱۸۷۹ء؁ میں لندن سے شائع ہوئی ۔

جان گلکر سٹ کی مدون کر دہ انگر یزی-ہندوستانی ڈکشنری (دو جلدوں میں) کلکتہ سے ۱۷۷۸ء ؁ سے شائع ہونا شروع ہوتی ہے جو ۱۷۹۰ء ؁ میں مکمل ہوئی ۔اس لغت کی اہمیت بایں معنی ہے کہ اس میں انگریزی الفاظ کے معانی رومن اور اردو دو نوں رسم الخط میں موجود ہیں ۔اردو الفاظ کی اصل کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔اس لغت میں یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ اردو کے مترادفات کے ساتھ انگریزی کے مترادفات بھی شامل ہیں ۔اس وجہ سے اسے انگریزی ہندوستانی - انگریزی لغت کہاجاتا ہے ۔ اصلاح وتر میم و اضافہ کے بعد یہ لغت ہندو ستانی فلولوجی کے نام سے دوبارہ ۱۸۱۰ء؁ میں اڈنبرا سے اور تیسری بار ۱۸۲۰ء؁ میں لندن سے شائع ہوئی ۔ اس کے بعداس دورمیں متعدد ہندو ستانی انگریزی اور انگریز ی ہندو ستانی لغتیں لکھی گئیں ۔جن میں سے دو لغتوں نے بہت ہی اہم مقام حاصل کیا۔ ایک ڈاکٹر فیلن کی ہندو ستانی انگریزی ڈکشنری ، دوسری پلیٹس کی اردو ہندی - انگریزی ڈکشنری ۔

ڈاکٹر فیلن ۱۸۳۷ء ؁ میں بنگال ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے منسلک ہوئے ۔ ۱۸۵۷ء؁ میں انہوں نے’’ ہندوستانی انگلش لا اینڈ کمر شل ڈکشنری ‘‘ شائع کی ۔ وہ اپنی جگہ بہت ہی معتبر اور وقیع تالیف ثابت ہوئی ۔۱۹۷۶ ء؁ میں دوبارہ پاکستان سے یہ ڈکشنری شائع ہوئی ۔ اس ڈکشنری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انگریزی نظم و نثر کے اقتباسات سے مزین ہیں۔ جو انگریزی الفاظ و محاورات کی سند میں پیش کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی نظم کا تر جمہ فیلن نے اردو نظم میں ہی کیا ہے ۔اس ڈکشنری میں انہوں نے الفاظ و معانی کی وضاحت کے لیے جملوں ،فقروں اور کہاوتوں کو پیش کیا ہے جو عموما شمالی ہند میں بولی جاتی ہیں ۔تلفظ کی وضاحت فونیٹک سسٹم سے کیا گیا ہے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر کیا تلفظ اختیار کیا ہے ۔ 

جان ٹی پلیٹس کی اردو ہندی اور انگریزی ڈکشنری ۱۸۸۴؁ء میں پہلی بار آکسفورڈ یو نی ورسٹی سے شائع ہوئی ۔یہ ڈکشنری فیلن کی ڈکشنری کے مقابلے میں زیادہ ضخیم ہے ۔ اس میں اردو کے ساتھ عوامی استعمال کے ہندی اور خالص سنسکرت الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں جو نہ اردو میں کبھی مستعمل تھے اور نہ ہی وقت تحریرمستعمل ملتے ہیں ۔

پلیٹس نے اس لغت میں اصل لفظ یا ماخذ زبان کی نشاندہی کے سلسلے میں اردو ہندی الفاظ کے اصل شکل کو بھی پیش کیا ہے۔ ہندی الاصل الفاظ کو اردو رسم الخط کے ساتھ ساتھ ناگر ی رسم الخط میں بھی لکھ کر ان کی مختلف پراکرت ، اپ بھر نش شکلوں اور ارتقائی مدارج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پلیٹس کی اس لغت کی اہمیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف لفظ کی اصل کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ دیگر زبانوں کے دخیل ،اردو یا ہندی الفاظ کے اصل مآخذ تک پہنچنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔اور جہاں کہیں تحقیق نہیں ہوسکتی وہاں قیاس سے کام لیا گیا ہے ۔

فارسی اردو-اردو فارسی ، ہندوستانی انگریزی-ہندوستانی لغت نویسی کے بعد اردو - اردو لغت نویسی کا دورشروع ہوتا ہے ۔

اردو - اردو لغت نویسی کی سب سے پہلی کڑی امام بخش صہبائی کی ایک تالیف ہے جو صرف و نحو سے متعلق ۱۸۴۹ء؁ میں لکھی گئی تھی ۔جو اس وقت کے رواج کے برخلاف اردو میں لکھی گئی ۔اس کے بعد سید ضامن جلال لکھنوی کی سرمایہ زبان اردو ہے جو ۱۸۸۶؁ء میں شائع ہوئی ۔نیاز علی بیگ کی ’’مخزن فوائد ‘‘ ۱۸۸۶؁ء ، منشی چرنجی لال کی ’’ مخزن المحاورات ‘‘ ۱۸۸۶؁ء ، مرزا محمد مصطفی عر ف مچھوبیگ عاشق لکھنوی کی ’’ بہار ہند‘‘ ، سید احمد دہلوی کی لغات اردو ( جو آگے چل کر فرہنگ آصفیہ کی تدوین کی بنیاد بنی ) ، مولوی اشر ف علی لکھنوی کی مصطلاحات اردو (۱۸۹۰) وغیرہ ہیں ۔

اسی دور میں اردو کی سب سے معتبر و اہم لغت ’’ فرہنگ آصفیہ ‘‘ لکھی گئی ۔ سید احمد دہلوی ’فرہنگ آصفیہ ‘ سے پہلے ’ لغات اردو ‘ شائع کر چکے تھے جو ’ ارمغان دہلی ‘ کے نام سے مختصر رسالوں میں شائع ہوئی تھی ۔بعد میں اسی ’ارمغان دہلی ‘ پر مبنی ’لغات اردو ‘ اور ’ لغات النساء ‘ کی از سر نو تدوین کی ، جو کئی اضافوں اور تر میمات کے ساتھ پہلی جلد ’ ہندو ستانی اردو لغت کے نام سے مدون کی گئی۔ بعد میں نظام دکن کے مالی امداد کے باعث میں فر ہنگ آصفیہ کے نام سے موسوم ہوئی جس کی جلد اول و دوم ۱۸۸۸؁ء میں جلد سوم ۱۸۹۸؁ء میں اور جلد چہارم ۱۹۰۱؁ء میں مکمل ہوئی ۔ 

فرہنگ آصفیہ کئی اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے ، نیز یہ اردو کی پہلی مبسوط اردو لغت ہے جو بعد کی تمام لغتوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ اگرچہ اس میں ادبیت غالب ہے اور شعری تر کیبات بہ افراط شامل کی گئی ہیں ، تاہم  تلفظ کی نشاندہی یا وضاحت کا کوئی باضابطہ التزام نہیں ملتا ہے ۔

’ امیر اللغات ‘ امیر مینائی کی اردو لغت نگاری میں خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کا پہلا حصہ ( الف ممدودہ) ۱۸۹۱ء ؁ میں مطبع مفید عام آگرہ سے ، دوسرا حصہ ۱۸۹۲ء؁ میں آگر ہ سے ہی، تیسر ا اور چو تھا حصہ زیر طبع ہی تھا کہ ۱۹۰۰ء؁ میں امیر مینائی کا انتقال ہوگیا۔ یہ لغت فر ہنگ آصفیہ پر ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔  وہ اس طور پر کہ اس میں اندراجات کے اصل اور ماخذ لسانی کی نشاندہی نیز تلفظ کی نشاندہی کے سلسلے میں مکمل تحقیق سے کام لیا گیا ہے ۔ اس لغت کو یہی صفت اہمیت کا حامل بناتی ہے ۔

نو رالحسن نیر کاکوری نے ’ امیر اللغات ‘ کے نامکمل کام کو پورا کر نے کی غر ض سے ’ نوراللغات ‘ کی تدوین ۱۹۲۴ء؁ میں شروع کی ۔ جس کی پہلی جلد اسی سال منظر عام پر آگئی ۔ یہ لغت چار مبسوط جلدوں میں لکھی گئی ۔ اس کی آخر ی جلد ۱۹۳۱ء ؁ میں اشاعت العلوم پریس فرنگی محل لکھنو سے شائع ہوئی ۔ تلفظ کے سلسلے میں اس لغت کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں تمام اندراجات کے تلفظ کے لیے وضاحتی طریقہ ٔ کار کے علاوہ ہم و زن اور مساوی الحر کات طر یقہ بھی اختیار کیا گیا ہے ۔ مثلا (شرطیہ : بفتحہ ٔدوم و کسرۂ سو م و سکون یائے معروف مشدد و مفتوح) اور دو سرا طریقہ جو ہم وزن حرکات کا ہے وہ اس طر ح ہے جیسے ’ صیغہ ‘ بر وزن ’ زینت ‘ اور ’ اگری ‘ بروزن ’ سفری ‘  وغیرہ ۔ 

اسی عہد میں خواجہ عبدالحمید نے جامع اللغات کے نام سے ایک مبسوط لغت کی تدوین کا کام شروع کیا ۔جس کی اشاعت کا سلسلہ ۱۹۳۲ ء؁ سے شروع ہوا اور ڈھائی سال کے عرصہ کے بعد ۱۹۳۵ء ؁ میں مکمل ہوا ۔اب یہ لغت چار جلدوں میں دستیاب ہے ۔ تلفظ کی نشاندہی کے سلسلے میں یہ لغت نہایت ہی کمزو رہے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے ۔

’فر ہنگ اثر ‘ نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی کی ایک جلد ی تالیف دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ یہ باقا عدہ الگ سے لغت ہو نے کے بجائے دو سابقہ لغات ’ سر مایۂ زبان اردو‘ اور ’ نوراللغات ‘ کا ناقدانہ جائزہ ہے ۔ حصہ اول جو کہ کل باون صفحات پر مشتمل ہے اس میں سید ضامن جلال لکھنوی کی ’ سرمایہ ٔ زبان ارود ‘ کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔حصہ دو م جو تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے اس میں نیر کاکوروی کی ’ نوراللغات ‘ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس لغت میں بھی اندراجات کے تلفظ کی نشاندہی ہم وزن یا مساوی الحر کات الفاظ کے ذریعہ کی گئی ہے مثلا اصیل بروزن کفیل اور اگری بروزن سفری وغیرہ۔ اس لغت میں صرف لکھنوی استعمال کو ہی معیار بنایا گیا ہے ۔ اگر کوئی لفظ یا محاورہ لکھنومیں مستعمل نہیں ہے تو وہ ان کے نزدیک معیاری نہیں ہے ۔

جس طر یقہ سے ’ فرہنگ اثر ‘ سابقہ لغات کا جائزہ ہے اسی طریقہ سے ’مہذ ب اللغات ‘ میں بھی مہذب لکھنوی نے ’ فرہنگ آصفیہ ‘ اور ’ نور اللغات ‘ کے اندراجات میں اختلاف رائے کو پیش کیا ہے ۔ اس نظریہ سے یہ لغت دونوں سابقۃ الذکر لغات کا ایک محاکمہ بھی پیش کر تا ہے ۔ کیو نکہ مؤلف مہذ ب اللغات نے فرہنگ آصفیہ اور نو راللغات کے اندراجات ، تلفظ ، قواعدی نو عیت اور خاص طور پر ان کے معانی کو اپنے لغت میں نقل کر نے کے بعد ان پر اپنی رائے دی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ یاتو متر وک ہوچکا ہے یا پھر لکھنؤ میں مستعمل نہیں ہے یا عوام میں استعمال نہیں وغیر ہ وغیرہ ۔در اصل انہوں نے ’ فر ہنگ آصفیہ ‘ اور ’ نو راللغات‘ کو لکھنو میں مستعمل زبان کے سانچہ پر پر کھنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن تلفظ کی نشاندہی کے سلسلے میں کوئی باقاعدہ طریقہ یا یکسا ں اصول نہیں اختیار کیا ہے۔ تلفظ کی نشاندہی اعراب کے ذریعے اور مساوی الاوزان و الحرکات کے ذریعے بھی کی گئی ہے ۔ 

عبد اللہ خاں خویشگی کی’ فرہنگ عامرہ ‘ کے پیش لفظ میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں ’’ اردو کلاسیکی لغا ت میں فرہنگ عامرہ کو اہم مقام حاصل ہے، اس میں عر بی ،فارسی اور تر کی کے ایسے چالیس ہزار االفاظ درج کیے گئے ہیں جو ارد و میں مستعمل ہیں ۔ فاضل مؤلف نے تلفظ کو اس طر ح تو ڑ کر لکھا ہے کہ لفظ کوصحیح طو ر پر آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے ‘‘ ۔ پہلی مرتبہ اس لغت کی طباعت ۱۹۳۷ء؁ میں عمل میں آئی پھر ۱۹۵۷ ء میں فاضل مؤلف نے اس پر نہ صرف نظر ثانی کی بلکہ ضروری اضافہ بھی کیا ۔ تلفظ کے معاملہ میں یہ لغت بہت ہی عمدہ ہے اس میں تمام اندراجات کے تلفظ  بین القوسین حر فوں کو توڑ کر باللفظ لکھے گئے ہیں ۔

جامع فیر وز اللغات جس کے کئی ہم شکل لغت مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔ اس لغت کو نئی تر تیب اور جدید اضافوں کے ساتھ مولوی فیروز الدین نے مر تب کیا جو ۱۹۸۷ ء ؁ میں مطبع ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی ۔ اس لغت کی مارکٹنگ بہت ہوئی اس وجہ سے عوام تک سب سے زیادہ اس کی رسائی بھی ہوئی ۔اس لغت میں مندر جات کے معانی کے ساتھ ساتھ تلفظ کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ تلفظ کی وضاحت کہیں کہیں حر کت سے کی گئی ہے لیکن اکثر مقا م پر بین القوسین لفظ کے حر وف کو توڑ کر اعراب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ 

لغت کبیر اردو 

بابائے اردو مولوی عبد الحق ۱۹۳۰ ء ؁ میں جب اورنگ آباد کے کالج سے سبکدوش ہوئے تو حکومت حیدر آباد نے انہیں جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو کا صدر مقرر کیا ۔اسی کے ساتھ دس سال کے لیے بارہ ہزار روپے ( سکۂ عثمانیہ) کی ایک خاص امداد بھی مقرر کر دی تاکہ وہ اردو زبان کی ایک جدید تر ضخیم لغت تیار کر یں ۔ اس کام کے لیے مولوی احتشام الحق حقی دہلوی مدد گار ہوئے ۔جن کا کام صر ف الفاظ کو تلاش کر کے ترتیب سے جمع کر نا تھا ۔ نظر ثانی خود مولوی عبد الحق صاحب اور ایک کمیٹی کر تی تھی جس میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ، جناب پنڈت کیفی ، اور سید ہاشمی فریدآبادی تھے ۔اس کے لیے سنسکر ت اور ہندی زبانوں کے بعض ماہرین بھی مامورتھے ۔ یہ مصدقہ نہیں ہے کہ اس کا کتنا حصہ قیام حیدرآبا د میں تیار ہوا تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تقسیم کی تباہی میں وہ بھی تباہ ہوگیا تھا ۔اس کے بعد پاکستان میں اردو لغت بورڈ بنا جس کے پہلے صدر مو لوی عبد الحق بنے اور اپنی علالت کے سبب زیادہ خدمات نہیں انجام دے سکے ۔ الغر ض اس سلسلے کی پہلی جلد ۱۹۷۳ء میں منظر عام پر آئی ۔اب یہ لغت جو موجودہ شکل میں ہمارے پاس ہے اس میں تلفظ کی وضاحت اعر اب اور قوسین میں اعراب باللفظ کے ذریعہ کی گئی ہے ۔ کسی بھی لفظ کے استعمال کے سلسلے میں منظوم و منثور دونوں شواہد سے کام لیے گئے ہیں ۔ جبکہ اس سے ماقبل کے لغتوں میں نظموں سے شواہد زیادہ دیے جاتے تھے ۔ یہ لغت موجودہ وقت تک اردو زبان کی سب مبسوط لغت ہے جو ۲۲؍ جلدوں میں شائع ہوئی ہے ۔

لغات میں صورت اظہار تلفظ کی یہ مختصر روداد تھی جس میں صرف سن تالیف اور طریقہ ٔ تلفظ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا کے علاوہ بھی کئی لغتیںہیں جو عوام کے استعمال میں ہیں لیکن یہاں سب کا ذکر ممکن نہیں۔ 

مندرجہ ذیل ٹیبل میں ایک ہی لفظ کے تلفظ کو چارلغتوں سے پیش کیا جارہا ہے اس میں آپ لغتوں میں تلفظ کے تنوع کو دیکھ سکتے ہیں ۔ فیلن کے کالم میں جن اندراجات کا ذکر کیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسرے کالموں میں بھی وہ مذکور ہوں۔ دو سرے کالموں میں جن کا ذکر نہیں ہو ا ہے وہ صرف اس وجہ سے کہ وہ بہت ہی فاش غلطیاں ہیں جو فیلن کی ڈکشنری میں پائی جاتی ہیں دوسری لغتوں میںوہ غلطیاں نہیں دہرا ئی گئی ہیں ، وہ فاش غلطیاں اکثر املا کی ہیں یا عربی کے اسم فاعل کو اسم مفعول کی حرکت دے دی گئی ہے ۔


لفظ

فیلن،ہندوستانی ۔انگریزی

فرہنگ آصفیہ 

فرہنگ عامرہ 

جامع فیروز اللغات 

اخذ

اَخَذْلکھا گیا ہے لیکن مصدر کے معنی میں خ پر سکون ہے 

اَخْذْخ پر سکون ہے 

اَخْذْخ پر سکون ہے 

اخذ: تلفظ مذکور نہیں 


اسپینا

کر اچی اردو لغت بورڈ نے spin سے ماخوذبتایا ہے جبکہ فیلن نے اسپینا اسپ سے مشتق بتایا ہے ، فیلن نے اسکو گھوڑوں کے سودا گر کی اصطلاح بتا یا ہے ، اس مناسبت سے قابل قبول بھی ہے ۔

مذکور نہیں 

مذکور نہیں 

مذکور نہیں 


اَسرار ، اِسرار 

اَسرار ، اِسرار دونوں تلفظ کے معنی راز کے بتائے ہیں جبکہ ایک کے معنی راز کے ہیں اوراِسرار کا معنی چھپانے کے ہیں ۔

اَسرار ، اِسرار: انہوں نے مشہور بکسرۂ الف لکھا ہے اور لکھا ہے کہ بالکسر کے معنی آسیب جن و پری کا سایہ 

اَسرار ، بفتحہ اول مذکور نہیں ۔ اِسراربکسر اول بھید کسی کو بات پہنچانا 

اَسرار : (اَس ۔رار) سِر کی جمع بھید کوشش 


اَسلِحَہ

اسلَح در ج ہے ، بقول وارث سرہندی یہ عامیا نہ تلفظ ہے 

اسلحہ: (اَس۔ لَ حہَ)سلاح کی جمع 


اُفُق

اُفَق: الف کے ضمہ اور ف کے فتحہ کے ساتھ لکھا ہے ، جبکہ صحیح اُفُق بضمۃالاولین ہے ۔ پلیٹس نے دونوں کا ذکر کیا ہے ۔

اُفُق: بضمہ ٔ اولین 

اُفُق: بضمہ ٔ ف و بسکون ف دونوں مذکور ہے ، لیکن بسکون ثانی کا کیا مطلب ہے وہ محل نظر ہے 

افق:(اُ۔فُق) 


اکسیر

اَِکسیر : بالفتح و بالکسر اول دونوں ہی مر قوم ہے ، وارث سرہندی بالکسر اول کو راجح قرار دیتے ہیں

اِکسیر : بکسرۂ اول 

اِکسیر : بکسرۂ اول 

اکسیر ( اِک۔سِیر)کیمیا 


اَلماس 

اِلماس : بکسرۂ اول مذکور ہے ، جبکہ بالاتفاق بالفتح اول ہے ۔

اَلماس : بفتحہ الف

اَلماس : بفتحہ الف

الماس: (اَل۔ ماس) ہیرا


اَمْن

اَمَن: بفتحہ میم مذکور ہے 

اَمْن: بسکون میم 

اَمْن: بسکون میم 

اَمَن: بفتحۃ الاولین ۔


آوُر د

آوُرد : بضمۂ واو ، وارث سرہندی واو پر فتحہ کو درست کہتے ہیں ۔

آوُرد : بضمۂ واو ، صفت از آوردن، نقیض آمد 

آوَرد : بفتحہ ٔواو، لایا ہوا ، متوسل

آورد: (آ۔ورد)  تلفظ مذکور نہیں البتہ ’ آوَر‘ میں واو پر فتحہ ہے۔


برادر 

بِرادر : بکسر ۂ اول در ج ہے 

بِرادر : بکسر ۂ اول 

بَرادر : بفتحہ ٔاول،وارث سرہندی نے اسی کو صحیح مانا ہے 

برادر : (بَ ۔را۔ در)


براق 

بَُراق : ب پر فتحہ و ضمہ دونو ں درج ہے 

بُراق : بضمہ ٔ اول 

بُراق : بضمہ ٔ اول 

برّاق: (بُ ۔راق)

براق : (بَر ۔راق) کملدار 


تَرْکہ ، تر ِکہ 

تَرْکہ : بسکو ن را مذکورہے 

تَرِکہ : بکسرۂ را 

تَرِکہ : بکسرۂ را 

ترکہ : (تَر۔کہ) را میں حر کت مذکور نہیں 


تِشنَع

عربی میں ایسا کوئی لفظ مذکور نہیں ہے بلکہ وہ تشنیع ہے 


تَفرقہ 

تَفْرَقہ : بفتحۂ رائے مہملہ 

تَفْرِقہ :بکسرۂ رائے مہملہ 

تَفْرِقہ :بکسرۂ رائے مہملہ 

تفرقہ : (تَف۔رِ۔قہ)


ثِقالَت 

ثِقالت : بکسر اول درج ہے

ثَقالت : بفتحۂ اول 

ثَقالت : بفتحۂ اول 

ثقالت : ثِ۔قَا۔لَت ) 


جَجمان 

جِجْمان : بکسرہ ٔ اول درج ہے جبکہ پلیٹس نے بفتحہ ٔ اول درست قرار دیا ہے 

جِجْمان : بکسرہ ٔ اول ۔

ججمان : مذکور نہیں 

جَجمان : (جَج ۔ مان )


جرح 

جَرَح : فتح الاولین درج ہے ، عربی میں بضم اول و سکون ثانی و ثالث (جُرْحْ) ہے ، اردو میں بکسر اول وفتح ثانی (جِرَح) بولاجاتا ہے 

جُرْح : بضم اول و سکون ثانی و ثالث ہے 

جُرْح : بضم اول و سکون ثانی و ثالث ہے 

جر ح : بکسر ہ ٔ جیم ، را میں حر کت مندرج نہیں 


جر یان 

جِرْیا ن :بکسر اول و سکون ثانی  کو ہندی لفظ بتا یاہے ، جبکہ عربی میں بفتح الاولین درست ہے ، 

جِرْیا ن :بکسر اول و سکون ثانی

جَرَیا ن : بفتح الاولین 

جَریا ن :(جَر ۔یا۔ن)  جیم پر فتحہ را پر سکون 


جنوب 

جُنُوب : بضم الاولین ، جبکہ عربی میں بفتح اول ہے 

جَنُوب : بفتح اول 

جُنُوب : بضمہ ٔ اول 

جنوب (جَ۔نُوب)


حماقت 

حِماقت : بکسر اول درج ہے 

حَماقت : بفتحہ اول

حَماقت : بفتحہ اول

حَماقت : حَ۔ما۔قت)


خزان 

خِزاں : بکسر اول درج ہے، جبکہ فارسی میں بفتح اول مستعمل ہے

خِزاں : بکسر اول ، انہوں نے فتحہ اور کسرہ کی مختصر گفتگو کے بعد لکھا ہے کہ لغات والوں نے دونوں لکھا ہے 

خَزَاں : بفتحۂ اول 

خزاں: ( خ۔زاں )  تلفظ مذکور نہیں ۔


خسارہ 

خِسارہ :خ مکسور ہے  

خَسارہ :خ مفتوح ہے 

خَسارہ :خ مفتوح ہے 

خسارہ : (خَ۔ سا۔ رہ) 


خنک 

خُنَک : خ مضمو م و ن مفتوح

خُنَک : خ مضمو م و ن مفتوح، نیز بفتحتین 

خُنک : خ مضمو م

خُنَک : (خُ۔نَک)


خواب 

خواب: تلفظ واو معدولہ و بغیر واو معدولہ دونوں درج ہے 

خواب:مذکور نہیں ، جبکہ اس کے مشتقات مذکور ہیں لیکن تلفظ کا ذکر نہیں ۔

خواب: مذکور نہیں 

خواب : (خا۔ب)


خوارق 

خَوارَق: را مفتوح در ج ہے ، یہ جمع ہے خارق کی 

خَوارق:مذکور نہیں ۔ 

خوارِق : بکسر ۂ را

خوارِق : (خَ ۔وا۔رِ۔ق)  کتابت کی غلطی سے خارج کی جمع تحریر ہوگیا ہے ۔


خواست کار 

خواست کار : واو معدولہ و بلا واو معدولہ دو نوں درج ہے ۔

واو معدولہ ہے 

واو معدولہ ہے 

واو معدولہ ہے 


دار السلام ، دارالشفا، دارالضرب 

ان جیسے تما م کا تلفظ لام کے ساتھ کیا ہے ،


دماغ

دَِماغ: بفتح و بکسر اول 

دَِماغ: بکسر اول 

دَِماغ: بکسر اول 

دِماغ: (دِ ۔ما۔غ)


دویم 

دُویَم: فتحہ ی ، اب یہ متروک ہے ، حال میں دوم سوم لکھا جاتا ہے  


دیار

دَِیار : بفتح و بکسر اول 

دَِیار : بکسر اول 

دیار : تلفظ واضح نہیں 

دیار : (دِ۔یا۔ر)


رعایا

رِعایا: بکسر اول 

رِعایا: بکسر اول 

رَعایا: بفتحہ ٔ اول 

رَعایا ۔ (رَ۔عا۔ یا )


رعونت 

رَعونت: بفتح اول 

رُعونت: بضمۂ اول 

رُعونت: بضمۂ اول

رُعونَت: (رُ ۔عُو ۔نت)


رفاقت 

رِفاقت : بکسر اول 

رَفاقت : بفتحۂ اول 

رفاقت: مذکور نہیں 

رَفاقت : (رَ۔فا۔قَت ) 


رکاب 

رَکاب: بفتح اول 

رِکاب: بکسرۂ اول 

رِکاب: بکسرۂ اول 

رکاب :(رِ۔کا۔ب ) 


رواج

رِواج: بکسر اول ، پلیٹس نے اس کو عامیانہ قرار دیا ہے 

رِواج: بکسرۂ اول، البتہ تصریح ہے کہ عربی را پر فتحہ ہوتا ہے 

رِواج: بکسرۂ اول و بفتحۂ اول دونوں مذکور ہے 

رَواج : (رَ۔وا۔ج) 


رِہا 

رِہا بمعنی آزاد بکسر اول درج ہے اگر فارسی کے رَہیدن سے مشتق مانتے ہے تو رَہا ہونا چاہیے


زرنباد

زَرُنباد: ز پر فتحہ ، ر ا پر ضمہ 

زَرنباد:مذکور نہیں 

زَرَنباد:بفتحۃ الاولین 

مذکور نہیں 


سبک 

سُبُک: بضم الاولین ، پلیٹس نے بضم اول وبفتح ثانی کو صحیح بتایا 

سَُبُک: بفتحہ اول بضم اول وضمہ ثانی ۔

سَبُک: بفتحہ اول وضمہ ثانی ۔

سُبک : ( س۔بُک )


سپرد

سُپُرد: بضم اولین، وارث سر ہندی نے س پر کسرہ صحیح کہا ہے لیکن کوئی اس کی دلیل نہیں دی

سِپُرد:بکسر ۂ اول در ج ہے (بضمہ ٔ اول زبان زد ہے )

سِپُرد:بکسر ۂ اول ۔

سپرد : (س ِ ۔پُرد)


سپوت 

سَپُوت: بفتح اول و ضم دو م ، جبکہ سنسکر ت میں بضم الاولین ہے

سَپُوت: بفتحۂ اول

سَپُوت: مذکور نہیں 

سپوت : (سَ ۔ پوُت)


ستون 

سِتون: بکسر ۂ اول 

سُتون: بضمۂ اول 

سُِتون: بضمہ و بکسرہ ٔاول 

سُتون: (سُ ۔تُو ن)


سرایت 

سَرایت : بفتح اول ، وارث سرہندی نے صحیح تلفظ بکسرۂ اول لکھا ہے 

سَرایت : بفتح اول 

سَرایت : بفتح اول 

مذکور نہیں 


سر شت 

سَرِشت : بفتح اول و کسرثانی 

سِرِشت :بکسر ۂ اولین 

سِرِشت :بکسر ۂ اولین 

سِرِشت:(سِ۔رِ۔شت)


سہام 

اس کو سَہْم کا واحد لکھا ہے لیکن سہم کا تلفظ ’ سہِم ‘ ہ میں کسرہ لکھا 

واحد مذکور نہیں 

اس لفظ کے تین تلفظ مذکور ہیں اور تینوں معانی الگ الگ ہیں ۔سِہام ، سہْم کی جمع ۔ سَہَام بفتحۃ الاولین (لو ، سخت گر می) سُہام بضمۂ اول تاریکی 

سِہام : (سِ ۔ہا۔م ) 


سہل 

سَہَل : بفتح الاولین 

سَہْل : بسکون ہائے ہوز 

سَہْل : بسکون ہائے ہوز 

سہل :تلفظ مذکور نہیں 


شائع 

اس جیسے تمام کا تلفظ جسمیں ہمزہ آتا ہے سب کو یا سے فتحہ کے ساتھ لکھا ہے 


شرف 

شَرَْف : بفتحۃ الاولین وسکون دوم،  

شَرَف : فتح الاولین 

شَرَف : بفتحۃ الاولین 

شر ف : (شَ۔رَ۔ف)


شعور 

شَعُور: بفتح ش و بضمہ ع

شَعُور: بفتح ش و بضمہ ع

شُعُور: بضمۃ الاولین 

شعور : (ش ۔عور )تلفط مذکو ر نہیں 


صدقہ 

صَدْقہ : بسکون دال ، جبکہ عربی میں دال پر زبرہے 

صَدَقہ :بفتحۃ الاولین 

صَدَقہ :بفتحۃ الاولین  

صدقہ : (صد ۔ قہ ) صاد اور دال ایک ساتھ مذکور ہے اس کا مطلب دال میں سکون ہے 


صعوبت 

صَعُوبت : بفتحہ ٔاول 

صُعُوبت : بضم الاولین 

صُعُوبت : بضمۃ الاولین 

صُعوبت : (صُ ۔ عُو۔بَت) 


صفحہ 

صُفحہ : بضمہ ٔ اول 

صفحہ : تلفظ مذکور نہیں 

صفحہ : بفتحۂ اول 

صَفْحہ : (صَفْ۔ حہ ) 


صلح 

صُلَح: بفتحۂ ثانی 

صُلْح: بسکون لام 

صُلح: لام کا تلفظ مذکور نہیں 

صُلح: لام کا تلفظ مذکور نہیں 


صلدات 

صَلْدات: بسکون لام، وارث سرہند ی نے لام میں فتحہ کو صحیح لکھا ہے  

صَلْدات: بسکون لام 

صلدات: مذکور نہیں 

مذکور نہیں 


ضرور 

ضُرور : بضمہ ٔ اول 

ضَرور :بفتحۃ اول 

ضَرور :بفتحۃ اول 

ضَرور : ( ضَ ۔رُور)


طبقہ 

طَبْقہ : بسکون ب ، عربی میں ب پر فتحہ ہے

طَبَقہ :بفتحۂ اولین 

طَبَقہ :بفتحۂ اولین 

طبقہ : تلفظ مذکور نہین 


طبل

طبَل : بفتحہ ٔ ف 

طبْل : بسکون با 

طبْل : بسکون با 

طبل : تلفظ مذکور نہیں 


طمطراق 

طُمطَراق : بفتحہ ٔ طا ئے ثا نی 

طُمطُراق : بضمہ ٔ طا ئے ثا نی 

طُمطُراق : بضمہ ٔ طا ئے ثا نی 

طُمطُراق : طُم ۔ طُ۔راق )


عائد

عاید: غلط املا و غلط تلفظ 


عجائب

عجایب : غلط املا و غلط تلفظ 


عرق 

عَرَق: میں را پر فتحہ کو عامیا نہ اور سکون کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے 

عَرَق: میں را پر فتحہ 

عَرَق: میں را پر فتحہ 

عَرَق: (عَ ۔رَ ۔ق) 

عِرق: رگ جڑ


عصمت 

عَِصمت: بکسر و بفتحہ ٔ اول 

عِصمت: بکسر ۂ عین 

عِصمت: بکسر ۂ عین 

عصمت : (عِص ۔مَت ) 


عفونت 

َعَفونت : بفتحۂ اول 

عُفُونت :بضمۃ الاولین 

عُفُونَت :  بضمۃ الاولین 

عُفُونَت :  بضمۃ الاولین 


عملہ 

عَمْلہ : بسکون میم 

عَمَلہ : بفتحۂ میم 

مذکور نہیں 

عملہ : ( عَم۔لَہ: عَ ۔ مَ ۔لہ) بسکو ن میم و بفتحہ ٔ میم دونوں مذکور ہے 


عنوان 

عَُنوان: بفتحہ ٔ و بضم عین 

عُِنوان: بکسرہ و بضمۂ عین 

عُنوان : بضمہ ٔ عین 

عنوان : (عُن۔وان) 


عقب

عَقَب : بفتحۃ الاولین 

عَقَب : بفتحۃ الاولین 

عَقِب : بفتحہ ٔ عین بکسر ۂ ق

عقب: تلفظ مذکور نہیں 


فراست 

فَراست: ف پر زبر دانائی کے معنی میں مر قوم ہے ، جبکہ اس تلفظ کا معنی ہے گھوڑوں کا ماہر ، دانائی کے معنی میں ف پر زیر ہے۔

فِراست: ف پر کسرہ۔ کسی شخص کی صورت دیکھ کر سیر ت معلوم کر لینا ۔

فِراست: بکسر ۂ ف 

فِراست : ( فَ ۔را۔ سَ ۔ ت) بکسرہ ٔ ف 


فرائض 

فرایض: غلط املا و غلط تلفظ 


فرشتہ 

فَرِشتہ : ف پر زبر اور ر پر زیر کو درست قرار دیا ہے جبکہ معاملہ بر عکس ہے ۔

فِرِشتہ :بکسرۃ الاولین 

فِرِشتہ :بکسرۃ الاولین 

فِرِشتہ ( فِ ۔ رِش۔ تہ) بکسر ۃ الاولین 


قطار 

قَطار : بفتحۂ ق ، عر بی میں ق پر کسرہ ہے 

ِقِطار :بکسرۂ ق

ِقِطار :بکسرۂ ق

قِطار : (قِ ۔ طا۔ر ) بکسرہ ٔ ق 


قطعہ 

قَِطعہ : بفتحہ و بکسر ۂ اول 

قِطعہ : بکسرۂ ق 

قَِطعہ :بفتحہ و بکسرۂ ق 

قِطْعہ : (قِط ۔عہ) بکسرہ ٔ ق


قماش

قِماش: بکسرہ ق مذکور ہے جس کے معنی بھانت بھانت اور تاش کا رنگ بتایا ہے ، دوسری لغتوں میں بضمۂ اول ہے جس کے معنی گھر کے سامان کے ہیں ۔

قُِماش: بکسرہ وبضمۂ اول

قُماش:بضمۂ اول، جمع اقمشہ 

قُماش: (قُ ۔ ما۔ش ) بضمہ ٔ ق


قندیل 

قَندیل : ق پر زبر مر قوم ہے 

قِندیل : ق پر زیر ہے 

قِندیل : ق پر زیر ہے 


قِندیل : (قَن۔ دیل) اندراج میں ق پر کسرہ ہے پر وضاحت میں ق پر فتحہ ہے 

کابک 

کابَک: بفتحہ ٔ بائے موحدہ ہے لکڑ ی کے بنے ہوے کبوتر کے گھر کو کہتے ہیں ، لیکن مجازا تمام پرندوں کے گھر کو کہتے ہیں ۔

کابک: بلا حر کت درج کر نے کے بعد بضمہ ب کودرست لکھا ہے ۔

کابُک: بضمہ ٔ ب 

کابُک: ( کا ۔ بُک ) بضمہ ٔ ب 


کورنش

کورنِش: اس کا تلفظ بواوِ مجہول لکھا ہے ، یہ تر کی لفظ ہے اس کی صحیح صورت kurnish ہے ، لیکن املائی صورت واو معدولہ کے ساتھ ہی ہے ، مجھے یہ ایک نیا لفظ ملا جس میں واو معدولہ ہے۔

کورنش:حر کات کے بغیر در ج کر نے کے بعد (کُرنش) کو صحیح لکھا ہے۔

کورنش : بضمہ کاف واو معدولہ 

کورنش ( کو ر ۔نش) تلفظ میں واو مصوتہ کے طور پر استعمال ہوا ہے لیکن وہیں تر کی تلفظ ذکر کیا ہے جو جس میں واوہ معدولہ ہے ۔


گوَیا

گوئیا : غلط املا و غلط تلفظ 


لبادہ 

لَبَادَہ : بفتحہ ٔ لام مذکور ہے اور فارسی لفظ بتایا ہے ۔ پلیٹس کی لغت ، فرہنگ عمید اور بہار عجم مین بضمۂ لام درج ہے 

لَبَادَہ : بفتحہ ٔ لام ۔

لَبَادَہ : بفتحہ ٔ لام ۔

لَبادہ : (لَ ۔ با۔ دہ ) بفتحۂ لام 


لحد 

لَحَد : بفتحۃ الاولین ، عر بی میں بسکون حائے حطی ہے ۔ وارث سرہندی نے اس کو عامیانہ قرار دیا ہے ۔

لَحَد : بفتحۃ الاولین 

لَحَد : بفتحۃ الاولین 

لَحَد: (لَ ۔حَ ۔د) بفتحہ ٔ لام 


لغایت 

لَغایت : بفتحۂ اول 

لغایت : تلفظ مذکور نہیں 

لِغایت : بکسر ۂ لام 

لَغایت : ( لَ ۔غا۔یَت ) بفتحہ لام 


مانند 

مانِند: بکسر ہ ٔ نو ن اول ، وارث سرہندی پہلے ن پر فتحہ کو صحیح ٹھہراتے ہیں 

مانَند:بفتحہ ٔ نون اول ( مانِند کو عامیانہ لکھا ہے )

مانَنْد: بفتحہ ٔ نون اول 

مانِند: (ما۔نِند) بکسرۂ نون اول


مائل 

مایَل: غلط املا و غلط تلفظ 


مباحثہ 

مباحِثہ: بکسرہ ٔ ہائے حطی 

مباحَثہ: بفتحہ ہائے حطی 

مباحَثہ: بفتحہ ہائے حطی 

مباحثہ : (مُبا ۔ حَ۔ثہ ) بفتحہ ہائے حطی 


متحد

متَّحَد : بفتحۂ ہائے حطی 

متَّحِد : بکسرۂ ہائے حطی 


متحمل 

مُتَحَمَّل : بفتحۂ میم 

مُتَحَمَِّل : بکسرہ ٔ میم ثانی 


متخلص

مُتَخَلَّص : بفتحۂ لام 

مُتَخَلِّص : بکسرۂ لام 


متدین 

مُتَدَیَّن: بفتحۂ دال 

مُتَدَیِّن: بکسرہ ٔ یائے تحتانی 


متشابہ 

مُتَشابَہ : بفتحہ با ئے موحدہ ، وارث سرہند ی یہاں پر ب پر کسرہ کو صحیح لکھتے ہیں 

مُتَشابَہ : بفتحہ با ئے موحدہ 


متصل

مُتَّصَل : بفتحۂ صاد مہملہ  

مُتَّصِل : بکسرہ ٔ صاد مہملہ  


متغیر

مُتَغَیّر :  بفتحہ یا 

مُتَغَِیّر : عربی کے لحاظ سے فاعل و مفعول دونوں مذکور ہے  


مجادلہ 

مُجَادْلہ : بسکو ن دال 

مُجَادَلہ : بفتحۂ دال 

مُجَادَلہ : بفتحۂ دال 

مجادلہ: (مُ ۔ جا ۔ دِ۔لہ )لڑائی 


مجاز 

مَجاز : میم پر زبر کے ساتھ اجازت دادہ کے معنی میں ہے جبکہ اس تلفظ سے حقیقت کے بر عکس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، بضمہ ٔ میم اجازت دادہ کے معنی میں ہے ۔

مَجاز : میم پر زبر ، (حقیقت کے بر خلاف)

مَجاز : میم پر زبر ، (گذرنے کی جگہ حقیقت کی ضد)

مجاز : ( مَ ۔جا۔ز ) راہ گزرنے کی جگہ ،میم پر فتحہ ہے ۔ اجازت دادہ کے معنی کا لفظ مذکور نہیں 


مجاہدین 

مُجاہَدین : بفتحہ ہا ئے ہوز 

مُجاہِدین : بکسر ۂ ہا ئے ہوز 

مُجاہِدین : بکسر ۂ ہا ئے ہوز 

مجاہدین ۔ (مُ ۔جا۔ ہِ۔ دِین)


مداخلت 

مداخِلت : بکسرہ ٔ خ ، وارث سرہند ی خ پر فتحہ کو در ست کہا ہے 

مداخِلت : بکسرہ ٔ خ 

مداخِلت : بکسرہ ٔ خ 

مداخلت : (مُ ۔دا ۔ خَ۔ لَت)


مدح 

مَدَح : بفتحتین 

مَدح : دال پر سکون  

مَدْح : دال پر سکون  

مدح : تلفظ مذکور نہیں 

مسائل 

مسایَل : املا و تلفظ دونوں غلط 


مسر ت 

مُسرَّ ت: بضمۂ میم 

مَسرَّ ت: میم پر فتحہ 

مَسرَّ ت: میم پر فتحہ 

مُسر ت : (مُ ۔سَر۔رَت)


مشفق 

مُشْفَِق : بفتحہ و بکسر ۂ ف 

مُشْفِق : بکسر ۂ ف 

مُشْفِق : بکسر ۂ ف 

مشفق : (مُش۔ فِق)


مصافحہ 

مَصافَحہ : بفتحہ ٔ میم 

مُصافَحہ : بضمۂ میم و فتحہ ٔ فا

مُصافَحہ : بضمۂ میم و فتحہ ٔ فا

مصافحہ : (مُ ۔صا۔ فَ ۔حہ)


مضمحل 

مُضمَحَِل: بفتحہ و بکسرہ حائے حطی ، 

مُضمَحِل: بکسرہ حائے حطی ، 

مُضمَحِل:ح پر کسرہ اور لام میں تشدید 

مضمحل : ( مُض۔ مَ۔حِل) 


مضارع 

مضارَع : فتحہ را 

مضارِع : بکسر ہ ٔرا

مضارِع : بکسر ہ ٔرا

مضارع : (مُ ۔ضَا۔رِع)


معرفت  

مَعْرَفت: بفتحہ را مذکورہے 

مَعْرِفت: بکسرۂ را

مَعْرَفت: بکسرہ ٔرا

معر فت : (مَع۔ رِ۔فَت ) 


معنی 

معنی: کا تلفظ مانی بتا یا ہے 


مغفرت 

مَغْفَرَت: بفتحہ ٔ ف 

مَغْفِرت: بکسرۂ ف 

مَغْفِرت: بکسرۂ ف

مغفرت : مَغ۔ فِ۔رَت)


ممالک 

مُمالک : بضمۂ میم اول اور مُلک کی جمع بتایا ہے جبکہ درست بفتحۂ میم ہے اور وہ مملکت کی جمع ہے ۔ 

مَمالک :بفتحۂ اول مملکت کی جمع  

مَمالک :بفتحۂ اول مملکت کی جمع 

مَمالک: (مُ ۔ ما۔لِک) 


مناسبت 

مُناسِبَت : بکسرہ سین مر قوم 

مُناسَبَت :سین کے فتحہ کے ساتھ

مذکور نہیں 

مناسِبت : (مُ۔نا۔ سِ۔بَت)


منفرجہ 

مُنْفَرَجہ: بفتحۂ فا و را 

مُنْفِرَجہ: بکسرہ ٔ ف و بفتحۂ را

مُنْفرِجہ: بکسرہ ٔ را

مُنْفرِجہ: (مُن ۔ فَ۔رِ۔جَہ) 


منہدم 

مُنْہَدَم : بفتحہ دال 

مُنْہَدِم : بکسرۂ دال 

مُنْہَدِم : بکسرۂ دال 

مُنْہَدِم : (مُن۔ہَ۔دِم)


مواخذہ

مُوَاخِذہ: واو کے تلفظ کے ساتھ خ کا کسرہ درج ہے 

مُواخذہ: واومیں حر کت مذکور نہیں جبکہ میم میں ضمہ ہے 

مُواخذہ: ہمزہ مذکو ر نہیں 

مواخذہ : ( مُ۔ آ۔ خَ۔ذَہ) خ پر زبر ہے 


مؤثر 

مؤثَّر : بفتحہ ٔ ث

مؤثَِّر : ثائے مشدد پر کسرہ و فتحہ دونوں مذکور ہے عربی معنی کے لحاظ سے  

مؤثِّر : بکسر ۂ ثائے مشدد 

مؤثر : (مُو ۔اَث ۔ثَر)ث پر فتح بھی ہے اور معنی ہے ثاثیر کر نے والا 


موجودگی 

موجودْگی: بسکون دال معجمہ، وارث سرہند ی نے دا ل پر فتحہ کو درست لکھا ہے ۔

موجودگی: دال پر حر کت مذکور نہیں 

موجودگی : مذکور نہیں 

موجودگی :(مو۔جُود۔گی ) 


میت 

مَیَّت: بفتحۂ یائے تحتانی 

مَیِّت:بکسرہ یائے تحتانی 

مَیِّت:بکسرہ یائے تحتانی 

میت : (مَی۔ یَت ) 


نجابت 

نِجابت: بکسر ۂ نون 

نَجابت:فتحۂ نون

نَجابت:فتحۂ نون

نَجابت: (نَ ۔جا۔بَت)

نجات 

نِجات : بکسرہ نون 


نَجات : ( نَ ۔جا۔ت ) 

نشتر 

نَشْتَر: بفتحۂ نون درج ہے ۔ لیکن بکسرہ نو ن مستعمل ہے کیونکہ یہ نیش تر کا مخفف ہے ۔

نَشْتَر: بفتحۂ نون ، جبکہ اس بات کا ذکر ہے کہ یہ نیش تر کا مخفف ہے ۔

نِشْتَر: بکسرۂ نون  

نِشتر : ( نِش۔ تَر) نیشتر کا مخفف


نظامت 

نَِظامت : بفتحہ و بکسرہ اول 

نِظامت : بکسرہ اول 

نِظامت : بکسرہ اول 

نِظامت : (نِ۔ظا۔مَت


نقب 

نَقَب : بفتحۃ الاولین 

نَقْب : بسکون ق

نَقْب : بسکون ق

نَقْب : بسکون ق


نقص

نُقْص : بضمہ ٔ نون 

نَقْص : بفتحۂ اول

نَقْص : بفتحۂ اول

نَقْصْ : ن پر فتحہ 


نکر 

نَکْر : بسکون کاف ، وارث سرہندی نے درست بکسرہ کاف لکھا ہے 

نکر : مذکور نہیں  

نِکر : بکسرہ ٔ کاف ، عقلمند ، انجان ، چالاک ۔نُکُر : بضم الاولین تعجب انجام پن 

نکر : مذکور نہیں 


نمائش 

نُمایَش : املا و تلفظ دونوں غلط 


نوالہ 

نِوالہ : بکسرۂ نون مر قوم ہے ، پلیٹس نے بفتحہ ٔ نون درست لکھا ہے 

نَوالہ :بفتحہ ٔ نون 

نَِوالہ :بفتحہ و بکسرہ ٔ نون 

نوالہ : (نِ ۔وا۔لہ) لقمہ 


نہار 

نَِہار : بفتحہ و بکسرہ اول دونوں لکھا ہے ۔ 

نَہار :نون کے فتحہ کے ساتھ  

نَہار :نون کے فتحہ کے ساتھ جمع انہر ، بے کھا ہوا آدمی  

نہار : (نَ ۔ہار) 


واسطہ 

واسْطہ: بسکون سین تحریر ہے 

واسِطہ: سین کے کسرہ کے ساتھ

واسِطہ: سین کے کسرہ کے ساتھ

واسِطہ : (وا۔سِ ۔طہ )


وجہ 

وجَہ: بفتحہ ٔ جیم 

وجْہ: جیم کے سکون کے ساتھ 

وجْہ: جیم کے سکون کے ساتھ 

وجہ : 


وزن 

وَزَن : بفتحہ زائے منقوط 

وَزْن : بسکون زائے منقوط 

وَزْن : بسکون زائے منقوط 

وزن :(و۔زن)


ولادت 

وَلادت : بفتحہ ٔاول 

وِلادت : بکسرہ ٔاول 

وِلادت : بکسرہ ٔاول 

ولادت : ( وِ۔لا۔دت) 


مذکو رہ الفاظ جو تحریر کیے گئے ہیں یہ نمونہ از خروارے کی قبیل سے ہیں میں نے بس مثال کے طور پر کچھ لفظوںکو پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے لیے فیلن کی ہندوستا نی - انگریزی ڈکشنری کو بنیا د بنا یا ہے ۔ اس ڈکشنر ی سے جتنے بھی الفاظ میں نے لیے ہیں ان تمام کے تلفظ کو بعد کے لغت نگاروںنے غلط ثابت کیا ہے جو ٹیبل میں دیکھنے سے واضح ہورہا ہے ۔اسی خانے میں پلیٹس کاذکر بھی کہیںکہیں اس وجہ سے آیا ہے کہ ان اندراجات کے تلفظ میں پلیٹس نے عوامی تلفظ کی بھی وضاحت کی ہے جس کا ذکر مناسب تھا ، جو کیا گیا۔ فرہنگ آصفیہ کے اندراجات میں بھی کئی جگہ غلطیا ں ہیں ۔ کیوں کہ مؤلف فرہنگ آصفیہ تدوین لغت کے معاملہ میں فیلن کے شاگر د کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ اس مضمون میں بھی اس جانب اشارہ کیا گیاہے ۔عامرہ اور فیر و زاللغات نے جہاں کہیں ان دونوں سے الگ تلفظ پیش کیا ہے اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ میں نے کسی میں بھی حتمی طور پر یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ تلفظ درست ہے اور یہ غلط لیکن پلیٹس نے جہاں جہاں  جس تلفظ کو درست بتایا ہے اس کو فیلن کے کالم میں ذکر کیا اور وارث سرہندی نے ’ کتب لغت کا تحقیقی و لسانی جائزہ ‘ میں جس کوتلفظ کو صحیح لکھا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے اس کا ذکر کردیا ہے ۔

مذکورہ  بالا مندرجات پر جب غور سے نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جن لفظوں کے تلفظ میں اختلاف ہے وہ اکثر عر بی کے الفاظ ہیں جو اردو میں استعمال ہورہے ہیں خواہ معانی وہی ہوں یا بدلے ہوئے ۔تلفظ کی تبدیلی کے متعلق کئی ناقدین لغت نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کا مزاج اس تلفظ کو قبول نہیں کر پاتا ہے اس لیے تلفظ میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے ۔ یقینا یہ بات درست ہے یہ صرف اردو کے ہی ساتھ نہیں ہے بلکہ اکثر زبانوں کا حال یہ ہے کہ پہلے لہجہ مختلف ہوتا ہے پھر تلفظ مختلف ہوتا ہے اس کے بعد حر ف بھی بدل جاتے ہیں ۔جب حالات اس قسم کے رونما ہوجاتے ہیں اور اصل لفظ وتلفظ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے تب لغت کی جانب رجوع ہوتے ہیں اور اسی کو ترازو سمجھا جاتا ہے ۔ اردو لغتوں کا جہاں تک حال ہے تلفظ کے معاملے میں ننانوے فیصد درست ہیں فیلن چونکہ انگریز تھا اور اس نے عوام کی ہی زبان کو معیا ر بنایا تھا لیکن بعد میں جان ٹی پلیٹس نے ان کے غلط تلفظ کو اپنی لغت میں رد کیا اسی طر ح سے رشید حسن خاں املا و تلفظ کے معاملے میں کئی مقامات پر عوامی ہوئے لیکن بعد میں مولانا حفیظ الر حمان واصف دہلوی اور ڈاکٹر ابو محمد سحر کے علاوہ عامۃ الناس کے ایک مخصوص طبقے نے رشید حسن خاں کے مشوروں کو رد کیا ۔ اسی طریقے سے ابھی فرہنگ آصفیہ جس کو قومی کونسل نے تیار کیا ہے اس پر نظر ثانی جناب شمس الرحمان فاروقی کر رہے تھے اور آکسفورڈ کے ساتھ مل کر جو لغت تر تیب دی گئی ہے اس پر بھی ناقدین کی نظر جائے گی اور غلط تلفظ و املا کی تر دید ہوگی ۔ اگر چہ اردو کا عام و خاص قاری تلفظ کے معاملہ میں کہیں کہیں روایت کو تو ڑتا ہو ا نظرآتا ہے اور کہتا ہے کہ اردو کا یہی تلفظ ہے ہم یہی بولیں گے (مثلا ً جہنَّم کو جہنُّم بضم نون مشددج اور معنی کو مانی )لغت نگار ان سب کو ردکر دیتا اور اصل تلفظ کو ہی پیش کر تا ہے۔ سید بدرالحسن نے بھی حتی الامکان اصل تلفظ کو ہی پیش کیا ہے ۔ اس طریقہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں تلفظ کے سنگین مسائل نہیں پیدا ہوں گے اور وہی مختلف تلفظ رہیں گے جو اب بھی مختلف ہیں ۔یہ بھی خیال میں رہنا چاہیے کہ اردو میں فارسی اور عر بی کے تمام حروف تہجی شامل ہیں اور کچھ ہندی کے بھی ۔تو یہ خدشہ جاتا رہا کہ تلفظ میں تبدیل الحر ف بالحر ف کی صورت کبھی آئے گی جو ہندی میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ اردو کے حرو ف کے تلفظ کی ادائیگی صحیح طر یقہ سے نہیں کر پاتے ہیں ، دوسر ی صورت میں قلب الحر کات بالحر کات کی آتی ہے جو او پر کے ٹیبل میں کئی لفظوں میں دیکھنے کو ملی یعنی فتحہ کے مقام پر ضمہ یا کسرہ وغیرہ تو یہ مختلف ہیں اور مختلف فیہ رہیں گے اس پر اتفاق نہیں ہوسکتا البتہ اب اگر کوئی نئی بدعت شروع کر تا ہے تو قابل مؤاخذہ ہوگا جیسے اگر اب کوئی مُثبَت کو مَثبَت بولنے لگے تو وہ غلط ہوگا ، تیسر ی صورت ہے حسن ادائیگی یعنی لہجہ اگر آپ کا لہجہ قابل قبول ہے تو آپ کا تلفظ بھی قابل قبول ہوگا ورنہ لہجہ کے بدلنے سے تلفظ بھی نقد کے دائرہ میں آجا ئے گا مثال کے طو ر پر آپ کا لہجہ ہر یا نوی ، بنگالی یا کوئی اور نہ ہو ۔الغر ض تلفظ میں ان تینوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔


کتابیات 

اردو لغت کا تنقیدی جائزہ ، مسعود ہاشمی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان 

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ، جلد اول،جابر علی سید،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۹

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ ،جلد دوم،وارث سرہندی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۶

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ ،جلد سوم ، وارث سرہندی ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۷

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ ،جلد چہارم،اثر لکھنوی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۷

لغت نگاری اصول و قواعد،ڈاکٹر نذیر آزاد،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی،۲۰۱۲

اردو لغات نگاری کا تنقیدی جائزہ ،ڈاکٹر نذیر آزاد،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ۲۰۱۲

ڈکشنر ہندوسنانی انگریزی ، ڈنکن فاربس ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی 

اردو کلاسیکل ہندی اور انگریز ڈکشنری  ، جان ٹی پلیٹس ،اردو اکادمی دہلی 

اے نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری ،ایس ، ڈبلو، فیلن،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی 

فرہنگ آصفیہ،مولی سید احمد دہلوی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی 

فرہنگ عامرہ،عبد اللہ خاں خویشگی

جامع فیر وز اللغات،مولوی فیروز الدین،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی


Tuesday, 2 February 2021

اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا

   اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا 

ڈاکٹر یوسف رامپوری 

قصیدہ شاعری کی وہ صنف رہی ہے جس کا زیادہ تر تعلق شاہی دربار سے رہا ہے ۔ اس کو شاہی صنف سخن بھی کہا جاتا ہے ، ہوبھی کیوں نا جس زبان میں اس صنف نے کمالات حاصل کیے بعد میں اسی زبان یا کسی اورز بان کا قصیدہ وہ مقام حاصل نہیں کر سکا ۔ اس صنف کے ساتھ ایک دوسری خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس نے جس زبان میں بھی جس عہد میں ترقی کی وہ اس زبان کی شاعری کا عہد زریں رہا ہے جیسے عربی میں دور جاہلی، عہد اسلام ، عہد اموی اور دور ِ عباسی میں قصیدہ کا زور تھا تو عر بی میں بھی انہی ادوار کی شاعری کو عہد زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے فارسی میں دیکھیں تو سبک خر اسانی، سبک عراقی، سبک ہند ی اور سبک بازگشت میں عمدہ شاعری کئی گئی ہے ان ادوار میں فارسی میںبھی قصیدہ کو عروج حاصل ہوا ۔ اسی طریقے سے اردو کو دیکھیں تو دکنی شاعری کا اپنا دور تھا وہاں قصیدہ نے ترقی کی پھر شمالی ہند میں ذوق و غالب تک اس صنف میں خوب طبع آزمائی ہوتی رہی ۔ اسی شاہی صنف کا مو ازنہ اردو اور عربی کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف رامپوری نے اس کتاب میں کیا ہے ۔ اردو کی دیگر اصناف کا موازنہ فارسی سے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے یہاں خیال بندی کی باتیں بھی دونوں زبانوں کے حوالے سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن اردو اور عربی شاعر ی کا موازنہ جس وسیع پیمانہ پر یوسف رامپوری نے پیش کیا ہے اس وسیع پیمانہ پر نہیں بلکہ ایک محدود پیما نہ پر چند شاعروں کے حوالے سے مطالعات سامنے آئے ہیں ۔ اس کتاب میں طویل علمی اور تحقیقی مقدمہ حقانی القاسمی کا ہے جس میںانہوں نے عربی میں قصیدہ نگاری کے حوالے سے بہت ہی معلوماتی و تحقیقی گفتگو کی ہے ،اسی درمیان کئی مقامات پر اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عربی قصیدہ نگاری پر جتنا کام انگریزی میں ہوا اتنا کسی اور زبان میں نہیں ہوا ہے ۔(اعنی: عرب اور عجم کی تفریق ہی زبان دانی پر ہے تو انگریزمحققین و ناقدین نے عرب کے اس تعلّی پر کام بھی خوب کیا ) حقانی صاحب نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اردو اور عربی قصائد کے حوالے سے یوسف رامپوری نے جو کام کیا ہے وہ بالکل انوکھا ہے کیونکہ ’’انہوں نے عربی و اردو قصائد کے کینن ، اشتراکات اورافتراقات پر نظر ڈالی ہے ۔‘‘ مصنف نے کس طور پر نظرڈالی ہے اس کو کتاب کے مطالعہ سے معلوم کرتے ہیں ۔

کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب ’’اردو اور عربی قصیدہ گوئی : خصوصیات و امتیازات ‘‘ ہے ۔ اس باب میں مندرجہ ذیل نکات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ قصیدہ کے متعلق سب سے پہلے وہ وضاحتی بات یہ لکھتے ہیں کہ عربی میں قصیدہ بہت ہی وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، سات یا اس سے زیادہ اشعار ہوں تو عربی میں قصیدہ ہوتا ہے موضوعات کی کوئی قید نہیں ۔ اردو میں قصیدہ باضابطہ ایک صنف سخن ہے جس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم ردیف و ہم قافیہ ہوں یا صرف ہم قافیہ ہوں باقی اشعار کے دوسرے مصرعے بھی اسی نہج پرہوں ۔ اردو میں قصیدہ کےاجزائے ترکیبی میں مدعاکو بھی شامل کیا جاتا ہے جبکہ عربی و ارد و دونوں میں اس کاالتزام نظر نہیں آتا ہے ۔ا س کے علاوہ جو دیگر چار عناصر ترکیبی اردو قصیدوں میں اہمیت کے حامل ہیں وہ عربی میں ایک ساتھ بہت ہی کم پائے جاتے ہیں۔ قصیدے کی خصوصیات میں سے شوکت الفاظ ، نادر تشبیہات اور پر شکو ہ الفاظ بھی ہیں اس میں عربی قصیدہ تو نمایاں مقام رکھتا ہی ہے اردو قصیدہ بھی اپنی کم دامنی کے باوجود بھر پور کوشش کرتا ہوا نظر ہوتا ہے ۔ جوش تو عربی میں نظر آتا ہے ار دو میں جو ش لانے میں ایک طر ح کا تصنع نظر آتا ہے ۔ عربی قصائد میں فخر و تعلّی کی بات کی جائے تو قصائد کی بنیادی بات نظر آنے لگتی ہے جب کہ ار د و قصیدہ نگاروں کے پاس کوئی ایسی چیز یا وجہ نظر نہیں آتی ہے جس پر وہ فخر و تعلّی کے اشعار پیش کر یں ، عر ب والے تو اپنی نسل پر تو کرتے ہی تھے ساتھ ہی اپنے گھوڑوں کی نسل و دیگر فنون پر بھی فخریہ اشعار پیش کیا کرتے تھے ، جبکہ اردو میں ممدوحین کی بہادر ی و سخاوت کا ذکر کیا گیا ہے ۔وصف نگاری اور سراپانگاری عربی قصیدوں میں فطری انداز میں نمایاں نظر آتی ہے جبکہ ارد و والوں کے یہاں تخیل کی کارفرمائی کے بعد بھی غلوو مبالغہ دیکھنے کو ملتا ہے جس سے سراپا نگار ی حقیقت سے بہت ہی دور چلی جاتی ہے ۔ ہاں ! اردو میں نظموں و مرثیوں میں عمدہ سراپا نگاری ملتی ہے ۔مبالغہ پر مصنف لکھتے ہیں کہ’’ اگر مبالغہ کو قصیدہ کا معیار سمجھا جائے تو اردو قصیدے اس معیار پر کھرے اترتے ہیں اور عربی قصائد سے کئی قدم آگے بڑھ جاتے ہیں ‘‘۔ بالآخر جب موضوعات کی جانب رخ کر تے ہوئے مصنف عربی و اردو قصائد کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تووہاں اردو قصیدے عربی قصیدے کی بہ نسبت زیادہ متنوع دکھائی دیتے ہیں ۔

 دوسرا باب ’’ عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا ء ‘‘ پر ہے۔ اس باب میں انہوں نے سولہ شعرا کا ذکر کیا ہے ۔ زمانہ ٔ جاہلیت سے امر ؤالقیس، زہیر بن ابی سلمیٰ ، طرفہ بن العبد ، لبید بن ربیعہ ، عنترہ بن شداد العبسی اور اعشی قیس کو شامل کیا ہے ۔ عہداسلام سے حسان بن ثابت ، کعب بن زہیر اور حطیۂ ہیں ۔ دورِ اموی سے اخطل ، جریر، فرزدق ، جمیل بثینہ اور عمربن ربیعہ ہیں ۔عہد عباسی سے ابونواس اور متنبی ہیں ۔ان تمام کے بیان میں مصنف نے ان شعراء کی زندگی ، قصیدہ کے موضوعات ، ان کے اہم قصائد کی خصوصیات ، ماقبل کے قصیدہ گو شعراء سے کس طرح مختلف ہیںاور انہوںنے قصیدہ میں کیسی زبان استعمال کی ہے اس کو بیان کیا ہے ۔مصنف نے کئی شعراء کے بارے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کا تشبیب اور گریز کس معیار کا ہے اور اس میں کن موضوعات کو بہ کمال ہنر مندی پیش کرنے میں وہ یکتا تھے ۔موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جاہلی دور کے تقریبا تمام شعرا کا تشبیب ایک طر ح کا نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی وہ گریز سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو قصیدہ کے حوالے سے ان کی اپنی شناخت نظرآتی ہے ۔ مصنف نے تما م شعرا کا ایک ہی نہج پر مطالعہ نہیں پیش کیا ہے بلکہ ہر ایک کی نمایا ں خصوصیات کو سامنے لا یا ہے اور کمیوں کو بھی پیش کیا ہے جیسا کہ متنبی کے بیان میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مدح کی وجہ سے متنبی کا مقام بلند بھی ہوا ہے اور وہ اپنے مقام سے گرا بھی ۔‘‘ کیونکہ مدحیہ اشعار میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی نے اس کو وہ مقام نہیں دلایا جو دیگر کوملا ۔ البتہ وہ عرض طلب میں بہت ہی بے باک اور فصیح بھی واقع ہوا ہے ، کہ سیف الدولہ کی خدمت میں ایک بار میں ایک ہی شعر میں بائیس درخواستیں رکھ دیں ۔الغرض اس باب میں عربی قصیدہ نگاری کی تفہیم کے لیے بہت کچھ ہے ۔ 

 تیسرا باب ’’ اردو کے اہم قصیدہ نگار شعرا ء ‘‘ پر ہے ۔ اس باب میں بھی انہوں نے عربی کے سولہ شعراء کے مقابلہ میں اردو کے سولہ شعرا ء کو شامل کیا ہے جن میں غواصی، نصرتی ، ولی ، شاکر ناجی ، محمد رفیع سودا، انشا، مصحفی ، ذوق ، مومن ، غالب، اسیر لکھنوی ، منیر شکوہ آبادی ، محسن کاکوری، اسماعیل میرٹھی ، حالی اور نظم طباطبائی ہیں ۔ اردو کے قصیدہ نگاروں کا مطالعہ کریں تو یہاں ترجیحات الگ نظر آتی ہیں اور پیش کش کے بھی مقاصد دیگر نظر آتے ہیں ، یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے ساتھ ہی متنبی جیسا غلوبھی نظر آتاہے ۔یہاں ایک دوسرے کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی مدح میں احتیاط کا پہلو بھی نظرآتا ہے ، کوئی بھاری بھر کم الفاظ و تراکیب پر توجہ دیتا ہے تو کوئی نادر مضامین پر ۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر آج قصیدہ کا احیا ہوگا توکن کے قصیدے نقشِ راہ ثابت ہوںگے۔ الغرض ڈاکٹر یوسف رامپور ی کی یہ کتاب قصیدہ فہمی کے باب میں مطالعہ کا در وا کرے گی ۔

صفحات : 400 ، قیمت 400، سال اشاعت 2020

ناشر : مر کزی پبلیکیشنز، نئی دہلی 

 

Monday, 30 November 2020

اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات

اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات 

مصنف ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی 

مترجم محمد طارق


اس دنیاکی لسانی تاریخ میں کئی موڑ ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جب ایک زبان کا غلبہ دوسری زبان پر ہوجاتا ہے اور علاقائی زبان ثانوی زبان بن کر رہ جاتی ہے، اسی طریقے سے کئی زبانیں ایسی ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے اثرات بہت ہی دوراور دیر تک قائم کیے ہیں ۔یہ جغرافیائی اور مذہبی دو نوں سطح پر ہوا ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد عربی زبان کے سامنے کئی علاقائی زبانوں نے دم توڑا تو کئی قدیم اور مضبوط تہذیبوں کی نمائندگی کر نے والی زبان بھی فاتح کی زبان کو اپنے اندر سموتی چلی گئی اس کی واضح مثال فارسی زبان ہے جس میں عربی کا اثر اتنا زیادہ بڑھا کہ ایک مکمل زبان ہونے کے باوجود عربی کے الفاظ و تراکیب فارسی کے ہر جملے میں نظر آنے لگے ساتھ ہی شاعری میں عربی کے مصرعے تک باندھے جانے لگے۔ یہی کچھ اردو زبان کے ساتھ بھی پیش آیا کہ اس زبان نے اپنی ادبی اور علمی شروعات فارسی زبان کے ماتحت کی اور ایک حد تک فارسی، عربی کے الفاظ و تراکیب سے پر ہوچکی تھی۔ تو ایسے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اردو کے شاعروں نے فارسی و عربی شاعری سے کشید کیا ہی ساتھ ہی شاعری بھی فارسی میں کی اور اسی کے ساتھ عربی کے اثرا ت بھی اردو پر ہوئے دوسری وجہ دینی بھی ہے ۔زبان کس طر ح بدلتی ہے اس کے واضح اثرا ت آپ اردو کے دو شاعروں کے یہاں دیکھ سکتے ہیں ایک جعفر زٹلی اور دوسرے اکبر الہ آبادی ۔زٹلی کے یہاں ہندو ی اور اردو کے اسماو صفات رقم ہو نا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کے عہد کے بعد اردو زبان اپنے عروج کو پہنچتی ہے اوراکبر الہ آبادی کے دور سے ہی زبان کروٹ لینا شروع کردیتی ہے یعنی انگریزی کا اثر اردو زبان میں بڑھنے لگتا ہے ۔اردو زبان کا بیشتر ادبی سرمایہ فارسی زبان سے آیا ہے اور اس زمانے کے اردو کے اکثرعلماء عربی زبان و ادب سے واقف تھے۔ ان دونوں وجوہات کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ اردو زبان وادب میں ہزارروں الفاظ عربی کے داخل ہوگئے ، جس پر زیر تبصر ہ کتاب میں مدلل گفتگو کی گئی ہے ۔اس کتاب کے مصنف عربی زبان و ادب کے مشہور ومستند عالم پروفیسرعلیم اشرف جائسی ہیں ۔ موصوف کا تعلق مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے ہے ۔ یہ کتاب ان کی تحقیقی مقالہ کا حصہ ہے جو پروفیسر سید کفیل احمد کی نگرانی میں مکمل ہوا ۔اس کو اردو کا جامہ محمد طارق نے پہنایا جن کا تعلق مولانا آزادنیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کے شعبہ ترجمہ سے ہے ۔جہاں تک ترجمہ کی بات ہے تو فنی طور پر بہت ہی عمدہ اور سلیس ہے اس میں معنوی ترسیل کی مکمل کوشش ملتی ہے ، بلکہ زبان سے یہ احساس ہوتا ہی نہیں کہ یہ ترجمہ ہے۔

یہ کتاب چا ر ابواب پر مشتمل ہے اور تمام ابواب میں کل فصول کی تعداد چودہ ہے ۔پہلے باب میں اردو زبان کی نشوو نما اور ارتقا پر ایک تاریخی جائزہ ہے ۔اردو زبان کی نشو نما پر جتنے بھی نظریے ہیں ان میں سے انہوں نے ہندوستانی، پنجابی اور ہریانوی نظریات پر بحث کی ہے۔ اس پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف کو’’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر کسی نے اپنے نظریے کے اثبات پر توجہ دینے کے بجائے دوسروں کے خیالات و آراء کی تر دیدو ابطال پر زیادہ توجہ دی ہے ۔‘‘ ارتقاء کی فصل میں دس مقامات و ادوار کے ساتھ صوفیا کا بھی خصوصی ذکر ہے جن میں سے اکثر کا تعلق تشکیلی دور سے ہے۔ دوسرے باب میں اردولغات پر عربی زبان کے اثرات پرتفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ اس باب کی تمہید پر وہ دلچسپ باتیں بھی لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں تمدن ، حکومت اور فرنیچر سے متعلق الفاظ کی بڑی تعداد فارسی سے ، علم و فلسفہ سے متعلق یونانی سے ، زراعت کے الفاظ نبطی سے ، دینی رسومات عبرانی یا سریانی سے ، مسالہ ، دوا اور خوشبو وغیرہ کے الفاظ ہندی الاصل سے آئے ہیں۔ دو زبانوں کے درمیان آپسی رشتہ کیسے قائم ہوجاتا ہے اس پر بھی معروضی گفتگو ہے ۔ جیسے آج کے دور میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اردو سمیت کئی زبانوں میں سائنس اور جدید ایجادات کے متعلق الفاظ انگلش سے بلا کسی تغیر و تبدل کے آرہے ہیں ۔ اس باب میں دوفصلیں ہیں ۔پہلی فصل میں ان عربی الفاظ کا ذکر ہے جو بغیر کسی لفظی و معنوی تصرف کے اردو میں استعمال ہوتے ہیں ۔اس فصل کے حاشیے میں انہوں نے سمیر عبدالحمید ابراہیم کے لغت کا ذکر کیا ہے جس میںہزاروں ایسے عربی الفاظ شامل کر دیے گئے ہیں جو نہ کسی اور دوسرے اردو لغت میں موجود ہیں اور نہ ہی اردو والے اس کو بولتے ہیں ۔حاشیہ میں ہی انہوں نے سیکڑوں الفاظ کے متعلق تلفظ کی تفریق کا ذکر کیا ہے۔ دوسری فصل میں ان الفاظ کا ذکر ہے جو لغت میں لفظی ،معنوی یا دونوں قسم کے تغیر کی ساتھ در ج ہیں ۔اس فصل میں انہوں نے لفظی تغیر کے چار اور معنوی تغیر کے چھ اسباب بیان کیے ہیں ساتھ ہی صوتی و دلالتی تغیر کی چھبیس اقسام کا ذکر کیا ہے ۔ایسے الفاظ کی تعداد تقریبا دو ہزار ہے ، اس میں انہوں نے ہر لفظ کا اردو معنی اور عربی معنی کا ذکر الگ الگ کیا ہے۔ اس کے بعددو سو سے زائد ان الفاظ کا ذکرکیا ہے جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں لیکن عام بول چال میں حرکاتی تغیر واقع ہوچکا ہے ۔اس باب کی تیسری فصل میں ان عربی الفاظ کا ذکر کیا گیا جن کے ساتھ غیر عربی لاحقے اور سابقے آگئے ہیں ۔چوتھی فصل میں ان عربی مرکبات کا ذکر ہے جن کا ذکر اردو میں بکثرت ہوتا ہے بلکہ وہ روزمر ہ کی زبان میں بھی مستعمل ہیں جیسے فی الحقیقت ، فارغ البال وغیرہ ۔تیسرا باب اردو زبان کے علوم پر عربی زبان کے اثرات پر ہے۔  اردو زبان جب انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت ہی زیادہ متعارف ہوگی ، ہر طرف لکھی اور پڑھی جانے لگی یہاں تک کہ ذریعہ تعلیم بھی اردو ہی ہوگئی اور اردو زبان میں علوم کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔جو علوم پہلے عربی زبان میں پڑھائے جاتے تھے وہ اب اردو زبان میں پڑھائے جانے لگے۔ اگر صرف علوم کی بات کی جائے تو کئی علوم ہیں جو پہلے عربی زبان میں پائے جاتے تھے وہ اب اردو زبان میں بھی ہیں جن سے اصطلاحات و اسما و صفات براہ راست عربی زبان سے ہی آئے ہیں جیسے علوم حکمت وکلام وفلسفہ ودیگر لیکن یہاں مصنف نے صرف ان علوم کو شامل کیا ہے جن کا تعلق داخل زبان سے ہے جیسے پہلی فصل میں بلاغت سے علم بیان ، معانی اور بدیع ۔ دوسری فصل میں عرو ض وقافیہ ۔تیسر ی فصل میں صرف و نحو۔چوتھی فصل میں رسم الخط و املااور پانچویں فصل میں تنقید کے اردو زبان پر اثرات کیا ہیں۔واضح ہوکہ ان علوم میں عربی کا اثر ارد و زبان میں اتنا زیادہ ہے کہ گویا یوںسمجھ لیا جائے کہ تمام اصطلاحات کو ہو بہو نقل کر دیا گیا ہے۔چوتھے باب میں اردو ادب پر عربی زبان کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس پر گفتگو ہے ۔اس میں تین فصلیں ہیں ۔ پہلی فصل میں مجموعی اثرات کاذکر ہے جس میں مفردات ، تلمیحات ، تشبیہات و استعارات ، اصطلاحات و تراکیب وغیرہ پر گفتگو ہے ۔دوسری فصل میں اردو نثر پر عربی کے اثرات کو پیش کیاگیا ہے ، نثر کی جو اقسام عربی میں پائی جاتی ہیں وہ اردو میں بھی پائی جاتی ہیں نام بھی وہی ہیں اس کے علاوہ چند نثری اصناف وہ ہیں جن کا تعلق عربی زبان و ادب سے رہا ہے جیسے تحریری قصے ، خطبات ، خطوط و مکاتیب ، سیر ت و سوانح ، ادبی مقالات ۔ اردو کی دینی تحریروں پر عربی کے اثرات کا مختصر ذکر کیا گیا ہے اگر اس کی تفصیل میں جاتے تو شاید اتنی ہی ضخیم ایک اور کتاب تیار ہوجاتی ۔تیسر ی فصل میں پہلے تو مجموعی طور پر اردو شاعری پر عربی زبان کے اثرات پر گفتگو ہوئی ہے اس کے بعد عربی شاعری اور فارسی شاعری کے اردو زبان پر کیا اثرات مر تب ہوئے ہیں اس پر بات کی گئی ہے ۔اردو اور عربی اصناف شعر جیسے قصیدہ ، غزل، مرثیہ ، مثنوی اور رباعی جن کا سرا عربی زبان سے ملتا ہے اور اردو میں براہ فارسی منتقل ہوئی ہیں ۔ رباعی میں اشکال بھی ہوسکتا ہے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ اس کے اوزان وا رکان عربی سے ہیں ۔الغرض یہ کتاب مکمل دستاویز ہے ان تمام عناصر کے لیے جن کا ورود اردو میں عربی سے ہوا ہے ۔ اس کتاب کی تصنیف میں جس قدر محنت کی گئی ہے وہ جدید محققین کے لیے مثال ہے اور مترجم کی محنت صاف جھلکتی ہے کہ انہوں نے کس جانفشانی سے تمام چیزوں کو اردو کے ماحول میں ڈھال کر پیش کر دیا ۔ قومی کونسل کا شکریہ کہ اس نے اس قیمتی علمی وتحقیقی سرمایے کو شائع کر کے بین لسانی روابط کو منظر عام پر لایا ۔


Thursday, 30 April 2020

باعتبار حال اسم کے اقسام

حالت کے لحاظ سے اسم کی اقسام 

کسی جملے میں اسم یا قائم مقام اسم کے طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی حیثیت کو ’حالت ‘ کہتے ہیں جیسے احمد خط لکھتا ہے ، احمد قلم سے لکھتا ہے۔ پہلے جملے میں لکھنے کا کام احمد کر رہا ہے اور دوسرے جملے میں قلم سے کام کر نے کی حالت کو ظاہر کیا جا رہا ہے ۔اسی طر یقے سے ہر جملے میں اسم کا استعمال مختلف حالتوں میں ہوتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

حالت فاعلی یہ اسم کی وہ حالت ہے جس سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ اسم کسی کام کو کر نے والا ہے یا وہ کسی خاص حالت میں ہے ۔ جیسے احمد شہر گیا ، ذکیہ نے کھانا کھایا ، بلال نے قرآن پڑھا ۔ ان تینوں مثالوں میں احمد ، ذکیہ اور بلال کی جو حالت ہے وہ فاعل کی حالت ہے ۔شہر جانے کا کام احمد کر رہا ہے ، کھانا کھانے کا عمل ذکیہ کر رہی ہے ۔قرآن پڑھنا ایک کام ہے جس کو بلال کر رہا ہے ۔گویا کام کرنے والے کوفاعل کہتے ہیں اور جو اسم فاعل کے مقام پر ہوتا ہے وہ حالت فاعلی میں ہوتا ہے۔حالت فاعلی میں اسم کے ساتھ کہیں’نے ‘ لگتا ہے اور کہیں ’نے ‘ نہیں لگتا جیسے احمد نے کھانا کھایا ، احمد قرآن پڑھتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

حالت مفعولی جس اسم پر کام کرنے والے کا اثر پڑے وہ اسم حالت مفعولی میں ہوتا ہے جیسے شاذیہ کتاب پڑھتی ہے ، امی کھانا پکاتی ہیں، ابو گاڑی چلاتے ہیں ۔پہلی مثال میں شاذیہ ،کتاب اور پڑھتی تین لفظ ہیں جن میں سے شروع کے دو اسم ہیں اور پڑھتی فعل ہے۔شاذیہ فاعل ہے کیونکہ پڑھنے والی شاذیہ ہے ، پڑھنا فعل ہے اور جو چیز پڑھی جارہی ہے وہ مفعول (کتا ب) ہے ۔یہاں پر کتاب حالت مفعولی میں ہے ۔ اسی طریقے سے دیگر مثالوں میں کھانا اور گاڑی حالت مفعولی میں ہیں ۔

جو اسم مفعولی حالت میں ہوتا ہے اس کے ساتھ کبھی ’کو‘ آتا ہے جیسے پولیس چو ر کو پیٹی ہے اور کبھی’ سے‘ آتا ہے جیسے غفران چھت سے گرا ۔ کبھی ان دونوں لفظوں میں سے کچھ بھی نہیں آتا جیسے امی کپڑے دھوتی ہیں ، آپی سبزی پکا تی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

حالت اضافی جب کسی اسم یا ضمیر کو دوسرے اسم سے نسبت دی جائے یعنی ایک اسم کا تعلق دوسرے اسم سے ظاہر کیا جائے تو اسے حالت اضافی کہتے ہیں جیسے خالد کی کتاب ، ابو کا چشمہ ، بو تل کا پانی وغیر ہ ۔ ان مثالوں میں کتاب ، چشمہ اور پانی کا تعلق خالد ، ابو اور بوتل کی جانب کیا جارہا ہے اس لیے یہ سب اسما ء ان مثالو ں میں حالت اضافی میں ہیں ۔ (کتا ب، چشمہ اور پانی مضاف ہیں ، خالد ، ابو اور بوتل مضاف الیہ ہیں ، کی اور کا حر وف اضافت ہیں)
حروف اضافت واحد مذکر میں ’ کا ‘ جمع مذکر میں ’ کے‘ اور واحد اور جمع مؤنث میں ’ کی ‘ آتے ہیں ۔
احمد کا کپڑا ( واحد مذکر ) احمد کے کپڑے (جمع مذکر )
خالد کی مر غی (واحد مؤنث) خالد کی مر غیاں (جمع مؤنث) 

حالت ظر فی جب کسی اسم سے زمان یا مکان یعنی وقت یا جگہ کا مفہوم پایا جائے تو وہ ظرفی حالت میں ہوتا ہے جیسے حامد گھر میں ہے ، فر زانہ اسکو ل میں ہے ، ابو صبح جلدی اٹھے ۔ان سب مثالوں میں گھر ، اسکول اور صبح ظرف ہیں ۔ 
یہ بھی آپ جان لیں کہ ظر ف کی دو قسمیں ہیں ظر ف زمان اور ظرف مکان۔ 

ظر ف زمان سے وہ اسم مر اد ہوتا ہے جس سے وقت کا پتہ چلے جیسے اوپر کی مثال میں صبح ظرف زمان ہے ، اسی طر یقے سے ظہر کے وقت اسکو ل کی چھٹی ہوتی ہے ، عصر بعد ہم سب کھیلتے ہیں ، بارش کے وقت گھر پہنچے ، آندھی کے وقت بجلی چلی گئی وغیرہ غیرہ ۔ ان سب میں ظہر ،عصر، بارش کے وقت ، آندھی کے وقت ظرف زمان ہیں ۔

ظر ف مکان سے وہ اسم مر اد ہوتا ہے جس سے کسی جگہ کے بارے میں پتہ چلتا ہے جیسے چھت پر کپڑے ہیں، کھانا فریج میں ہے ، لوگ ہال میں جمع ہیں ۔ ان تمام میں چھت ، فریج اور ہال ظرف مکان ہیں۔

 ظرفی حالت میں اسما کے ساتھ ’ سے ، تک ، پر ، میں ، اوپر ،نیچے ، تلے ، اندر ، اندر سے اور کو‘آتے ہیں ۔
مثالیں : صبح سے بیٹھا رہا، شا م تک گھر واپس آگیا ، چھت پر ٹہل رہا ہوں ، فر یج میں دیکھ لو، بکس کے اوپر ، چھت کے نیچے ، آدمیوں کی بھیڑ تلے دبا رہا ، نالی کے اندر کچھ ہے، بیڈکے اندر سے یہ سامان نکلا ، کلکتہ سے نکلا لکھنؤ کو گیاوغیرہ ۔ بعض اوقات کوئی حرف نہیں ہوتا ہے جیسے وہ صبح آیا ۔

طوری حالت 
جب کسی اسم سے طور ،طریقے ، اسلوب ، سبب ، ذریعہ اور مقابلہ جیسی کیفیت معلوم ہو تو وہ اسم حالتِ طوری میں ہوتا ہے جیسے وہ گیند سے کھیلتا ہے ، اس کی لاٹھی اور ڈنڈوں سے پٹا ئی ہوئی ، ابو اسکو ٹر سے بازا ر گئے ، اس نے ترقی علم سے حاصل کی وغیرہ وغیرہ ۔ان مثالوں میں گیند، لاٹھی ڈنڈے ، اسکوٹر اور علم سب اسم ہیں لیکن جملے میں جس طر ح استعمال ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اسم طوری حالت میں ہیں ۔

ندائی حالت 
جب اسم کسی کو بلانے یاپکارنے کے لیے مخاطب کے طو ر پر استعمال ہو جیسے بھائی! ذرا سننا ، امی !کچھ کھانا ہے ۔ لڑکے! یہاں آؤ،بچو! شور نہ کر و، صاحبو! غور سے سنووغیرہ ۔مذکورہ بالا مثالوں میں امی ، بھائی ، لڑکے ،بچو اور صاحبوندائی حالت میں اسم ہیں ۔

ندائی حالت میں واحد مذکر اسم کے آخر میں ’الف ‘یا ’ہ‘ ہو تو وہ حالت ندائی میں ’ے ‘ سے بدل جاتا ہے جیسے واحد مذکر میں لڑکا جس کے آخر میں الف ہے حالت ندائی میں اس طر ح ہوگا لڑکے !شور نہ کر و،رشتے داروں کو پکارنے میں کسی قسم کی تبدیلی نظرنہیں آتی جیسے امی ، ابو ، ماما، مامی ، خالہ اور خالو وغیرہ ۔ لیکن بیٹا دو نوں طر ح استعمال ہوتا ہے جیسے بیٹا! کھانا کھالو، بیٹے !ادھر آؤ۔ جمع میں آخر کا نون گر جاتا ہے جیسے بچوں سے بچو !شور نہ کرو ۔ لڑکیو! سبق یا دکر ووغیرہ۔

خبر ی حالت 
وہ اسم جو جملہ میں بطور خبر کے واقع ہو جیسے احمد بیمار ہے ، عبد الغفور صاحب پرنسپل ہیں ، عبدالرحمان صاحب ہیڈ ماسٹر ہیں وغیرہ ان جملوں میں بیمار، پر نسپل اور ہیڈ ماسٹر حالت خبری میں ہیں

مذکر و مؤنث muzakkar muannas


 لواز م اسم 

(مذکر و مؤنث )


 اسم خواہ کسی بھی قسم کا ہو اس کے اندر چند خصوصیتیں لازمی طور پر پائی جاتی ہیں ۔اول یہ کہ وہ مذکر ہوگا یا مؤنث ، دو م یہ کہ وہ واحد ہوگا یا جمع اور سوم یہ کہ وہ اسم کام کرنے والا ہوگا یا کام کا اثر اس اسم پر ہوگا ۔ پہلے کو جنس دوسرے کو تعداد اور تیسرے کو حالت کہتے ہیں۔ 

جب کوئی کلمہ اسم ہوگا تو لازمی طور پر وہ مذکرہوگا یا مونث ( اسی کو عام زبان میں نَر اور مادہ کہتے ہیں ) اس کلمہ کو اسم جنس کہتے ہیں. پھر اسم جنس کی دو قسمیں ہیں حقیقی اورغیر حقیقی۔ جاندار چیزیں جو یا تو نر ہوتی ہیں یا مادہ تو اس کوجنس حقیقی کہتے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ہم آسانی سے جان جاتے ہیں کہ یہ نر ہے یا مادہ ۔ 

مذکر حقیقی۔ باپ ، دادا ، بھائی ،چچا ، ماما ، نا نا، کتا ، گدھا ، شیر ، بند ر اور مور وغیرہ ہیں ۔
 مونث حقیقی جیسے ماں ، دادی ، بہن ،چچی ، ممانی، نانی، کتیا ، گدھی ، شیر نی، بندریا اور مورنی وغیرہ ۔ 
مذکر غیر حقیقی وہ اسم ہوتے ہیں جس میں مذکر ہونے کی بظاہر کوئی علامت نہ ہو لیکن وہ مذ کر ہوتا ہے جیسے جہاز ، آسمان ، بادل، پانی وغیرہ ،اسی طریقے سے مؤنث غیر حقیقی جس. میں بظاہر مادہ ہونے کی کوئی علامت نہ ہو لیکن جب ہم بو لتے ہیں تو مؤنث ہی بولتے ہیں جیسے کتا ب ، کاپی، پینسل ، ٹوپی ،گاڑی اور ٹرین وغیرہ ۔
کچھ چیز یں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے گروپ کے اعتبار سے مذکر ہوتی ہیں یا مؤنث 
مذکر 
٭ پیشہ وروں کے نام جیسے استاد ، ڈرائیور ، درزی ، دھوبی ،مالی اور موچی وغیرہ 
٭ پہاڑوں کے نام ، ہمالہ ، پارسناتھ ، اراولی۔
٭ دھاتوں کے نام جیسے لوہا، المونیم ، تانبہ ، کانسہ۔ 
٭ جواہرات کے نام جیسے سونا ، چاندی ، ہیرا۔ 
٭ دنوں کے نام ، ہندی ، انگلش میں تمام دن اور اردو میںبھی تمام دن مذکر ہوتے ہیں(جمعرات کے علاوہ ) ۔
٭ ہندی اور اسلامی مہینوں کے نام۔ 

٭ کچھ ایسے اسم ہیں جن کا مونث حقیقی (حقیقی مادہ ) موجود ہے لیکن پھر بھی مذکر ہی استعمال ہوتے ہیں جیسے الو، طوطا ، باز ، چیتا ، تیندوا، ٭ بچھو وغیرہ۔ ان سب کا مونث حقیقی استعمال نہیں ہوتا ہے ۔
 ان تمام کے علاوہ ہزاروں لفظ ہیں جو مذکر ہوتے ہیں ۔ ان سب کا تعلق استعمال سے ہے ۔

مؤنث 
٭ دنیا میں جتنی بھی زبانوں کے نام ہیں سب کے سب مؤنث ہوتی ہیں جیسے اردو ، عربی ، فارسی ، تر کی ، ہندی ، بنگالی، مر اٹھی وغیرہ 
٭ عبادتوں کے نام ، نماز ، پوجا ، دعا ۔
٭ تمام نمازوں کے نام ، فجر ، ظہر ، عصر مغرب ، عشا، تہجد، اشراق ، چاشت ، اوابین ، جنازہ ، عیدین ۔
٭ جس لفظ کے آخر میں ’ت‘ ہو جیسے عداوت ، مصلحت، محبت ، نفرت ، عنایت ، شوکت ندامت وغیرہ یہ سب عربی کے لفظ ہیںاگر کوئی لفظ ٭ ہندی کا ہو جس کے آخرمیں ’ ت‘ ہوتو وہ مذکر بھی ہوسکتا ہے جیسے بھگت، بھارت، بھوت وغیرہ ۔
٭ کچھ چھوٹے چھوٹے جاندار ایسے ہوتے ہیں جن کا استعمال صر ف مونث ہی ہوتا ہے ۔ جیسے مکھی ، چھپکلی، مکڑی ، چھچھوندر وغیرہ ۔ 
٭ تما م ہواؤں کے نام مونث ہوتے ہیں ۔
٭ ہندی کے بہت سارے الفاظ جن کے آخر میں ’ی ‘ ہوتی ہے وہ مونث ہوتے ہیں جیسے سبزی، لکڑی، کوٹھی، تالی، روٹی ، چابی، ہڈی وغیرہ اس کے علاوہ بھی ہزاروں لفظ ہیں جو صرف مونث ہی استعمال ہوتے ہیں ۔

مذکر سے مؤنث بنانے کا قاعدہ 
پیارے بچو! اب آپ جاننا چاہیں گے کہ مذکر سے مونث بنا نے کا قاعدہ کیا ہے ۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مذکرسے مونث بنانے کاکوئی مستقل قاعدہ نہیں ہے لفظ کے حساب سے قاعدے بدلتے رہتے ہیں جیسے اگر لفظ کے آخرمیں الف یا ہ ہے تو ی سے بد ل دیتے ہیں جیسے اندھا سے اندھی ، بیٹا سے بیٹی ، چچا سے چچی وغیرہ 
مذکر لفظ کے آخر میں ن کا اضافہ کرنے سے بھی مؤنث بنتا ہے جیسے ناگ سے ناگن ۔
مذکر لفظ کے آخر میں ’نی‘ کا اضافہ کرنے سے بھی مؤنث بنتا ہے جیسے فقیر سے فقیر نی ، اونٹ سے اونٹنی ۔
الغر ض اس کا کوئی خاص قاعدہ نہیں ہے بلکہ استعمال پر ہے کہ عوام اس لفظ کا مونث کیسے استعمال کر تے ہیں ۔
#گرامر
#مذکر
#مؤنث

Thursday, 23 April 2020

اسم ضمیر اور اس کی قسمیں

اسم ضمیر


 اسم ضمیروہ الفاظ ہوتے ہیںجو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے ’ وہ ، میں ، اس ، مجھ اور تجھ ‘ وغیرہ ۔ اس شمارہ میں ہم اسم ضمیر کے 
تمام اقسام سے واقف ہوں گے ۔ 

اسم ضمیر کی پانچ قسمیں ہیں ۔
 ضمیر شخصی ، ضمیر اشارہ ، ضمیر موصولہ ، ضمیراستفہامیہ اور ضمیر تنکیر ۔

ضمیر شخصی: وہ ضمیر ہے جو صرف اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ ہم بات کر تے وقت اکثر نام نہ لیکر وہ، میں اور تو یا تم استعمال کرتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ مذکورہ لفظ صر ف انسانوں کے لیے ہی استعمال کر تے ہیں اسی لیے اس کو ضمیر شخصی کہتے ہیں ۔اس کی تین صورتیں ہیں ۔ 

پہلا: بات کر نے والاجسے متکلم کہتے ہیں ۔اس کے لیے میں اور ہم جیسے الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ متکلم کے ضمائر ’ میں ، ہم ، مجھے ، مجھکو ، ہمیں ہمکو، میرا ، ہمارا ، مجھ میں ،ہم میں ، مجھ سے اور ہم سے‘ ہیں 

دوسرا : جس سے بات کی جاتی ہے اسے مخاطب کہتے ہیں اس کے لیے تو اور تم جیسے الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ مخاطب کے ضمائر ’ تو ، تم ، تجھے ، تجھ کو ، تمہیں ، تم کو، تیرا ، تمہارا ، تجھ میں ، تم میں ، تجھ سے اور ہم سے ‘ ہیں ۔

تیسرا : جس کے بارے میں بات کی جاتی ہے اسے غائب کہتے ہیں ۔اس کے لیے وہ اور ان جیسے لفظ استعمال کر تے ہیں ۔ غائب کے ضمائر ’ وہ ، اسے ، اس کو ، ان ، انہیں ، اس کا ، ان کا ، اس میں ، ان میں، اس سے اور ان سے ‘ہیں ۔

ضمیر اشارہ :  عموما ًگفتگو میں کسی چیز کی جانب خواہ وہ نزدیک ہو یا دور اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کو ضمیر اشارہ کہتے ہیں۔ مثلا یہ قلم وہ کتاب وغیرہ ۔ ایسا اور جیسا جیسے لفظ بھی ضمیر اشارہ کے دائرے میں آتے ہیں ۔

ضمیر موصولہ :  وہ لفظ جو کسی اسم کے بجائے استعمال کیا جائے ، مگر اس کے ساتھ ہمیشہ ایک جملہ آتا ہے جس میں اس اسم کا بیان ہوتا ہے جیسے وہ آدمی جو آیا تھا وہ پھر کل آئے گا ۔وہ کہانی جو فاطمہ نے لکھی تھی بہت اچھی تھی ۔ ان دونوں مثالوں میں ایک لفظ ’ جو ‘ استعمال ہواہے ۔ یہی ضمیر موصولہ ہے ۔ضمیر موصولہ ’ جو ‘ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں ہوتا ۔
ضمیر استفہامیہ : جو ضمیر سوال کر نے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسے ضمیر استفہامیہ کہتے ہیں ۔یہ صر ف دو لفظ ’ کو ن اور کیا ‘ ہیں ۔ کون کا استعمال جاندار کے لیے اور کیا کا استعمال بے جان چیزوں کے لیے ہوتا ہے ۔ جیسے دروازے پر کون ہے ، تم کیا بننا چاہتے ہو وغیرہ ۔ 

ضمیر تنکیر : وہ ضمیر جو کسی غیر معین چیز یا شخص کے لیے استعمال ہو۔ جیسے مصیبت میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے ۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ، کوئی نہیں بولتا ۔ کچھ نہ کہو وغیرہ ۔ان مثالوں میں کوئی اور کچھ صفت تنکیر ی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ کوئی اشخاص اور اشیا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔جیسے کوئی نہیں ہے ۔ کوئی کچھ بھی بولتا ہے ، تم کون سی کتاب لوگے ، کوئی سی بھی دے دو ۔

کچھ اشخاص کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن ہمیشہ جمع کی حالت میں جیسے وہاں کچھ لوگ کھڑے تھے تو کچھ بیٹھے تھے ۔ اگر کوئی کے بعد ’ کے ، کی ، سے یا نے ‘ جیسے لفظ آ جائیں تو کوئی کسی سے بدل جاتا ہے جیسے کسی کے آنے کی آہٹ ہے ، کسی کی آواز آرہی ہے ، کس سے لیا، کس نے بلا یا ہے۔


 #ضمیرشخصی
#ضمیراشارہ
#ضمیرموصولہ
#ضمیراستفہامیہ
#ضمیرتنکیر 

Wednesday, 22 April 2020

اسم صفت بنانے کے قاعدے

اسم صفت بنانے کے طر یقے 


 صفت ذاتی سے کسی چیز یا شخض کی اندرونی وبیرونی حالت یا کیفیت کا پتہ چلتا ہے جیسے ذہین لڑکا۔ کُندبچہ ، ٹھوس زمین ، ہرامیدان ، شریر بکرا، تیز چاقووغیرہ ۔یہ صفت کئی موقعوں پر دو لفظوں سے مر کب ہوتا ہے جیسے ہنس مکھ ، من چلا ، منھ پھٹ وغیرہ ۔فارسی علامتوں کے استعمال سے بھی بنتا ہے جیسے ، بے فکرا ، سعادت مند، بے ڈھب وغیر ہ ، ان مثا لوں میں بے صفت کے ساتھ مل کر صفت ذاتی بن رہا ہے ۔بعض اوقات یہ اسماء اور افعال سے بھی بنائے جاتے ہیں جیسے ، جھوٹ ، سے جھوٹا ، سچ سے سچا ، غدر سے غدار، کھیل سے کھلاڑی  وغیرہ ۔

صفت نسبتی کے متعلق آپ نے پڑھا ہوگا کہ یہ اس صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری شے سے نسبت یا لگاؤ ظاہر ہو جیسے کلکتہ سے کلکتوی، پٹنہ سے پٹنوی دہلی سے دہلوی وغیرہ ۔ عموماً اس کے لیے اسما کے اخیر میں یائے معروف کا اضافہ کرتے ہیں ۔ جیسے ہندو ستان سے ہندوستا نی ۔  مصر سے مصری، پاکستان سے پاکستانی وغیرہ ۔
اگر کسی اسم کے اخیر میں (ی )،( الف)  اور( ہ) ہوتو اس ی، الف اور ہ کو واو سے بدل کر اخیر میں ی کا اضافہ کر تے ہیں جیسے دہلی سے دہلوی ، پٹنہ سے پٹنوی وغیرہ ۔ جن اسما کے اخیر میں (ہ ) ہو اس کو حذف کرکے ی کا اضا فہ کر دیتے ہیں جیسے مکہ سے مکی اور کبھی ہ کو واو سے بدل کر ی کا اضافہ کر تے ہیں کلکتہ سے کلکتوی وغیرہ ۔کبھی الف نون بڑھا کر صفت نسبتی بنا یا جاتا ہے جیسے شاطر سے شاطرانہ ، احمق سے احمقانہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں جس کا ذکر اس سے قبل کے شمارے میں ہوچکا ہے ۔

صفت عددی کے متعلق ہم نے پڑھا ہے کہ یہ وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی تعداد ، کسی اسم کا درجہ معلوم ہو ،یا کسی اسم کی کلیت کا پتہ چلے ۔جیسے دس لڑکے، دسواں لڑکا ، دسوں لڑکے ۔ پہلے سے تعداد، دوسرے سے درجہ اور تیسرے سے کلیت( مکمل )کا علم ہورہا ہے یعنی دس کے دس سبھی ۔ اس کے بنانے کے قاعدے میں کوئی کچھ خاص بات تو نظر نہیں آرہی ہے ۔ پہلے میں صرف گنتی ہے ، دوسرے میں ایک سے پہلا ، دو سے دوسرا ، تین سے تیسرا ، چار سے چوتھا ، پانچ سے پانچوا ں ۔ پانچ سے وا و الف اور نون غنہ کا اضافہ اخیر تک ہوگا سب کے سب واو ، الف ، نون عنہ کے اضافے سے بنیں گے جیسے تیسواں ، چالیسواں  اور بہترواں وغیرہ ۔عدد کے آگے ’ گُنا ‘ بڑھانے سے بھی صفت عدد بنتا ہے جیسے دو گنا ، تین گنا ، چار گنا ۔(دگنا ، تِگنا ، چوگنا )( گُنا کو گونہ بھی لکھتے ہیں ) ۔ اسی طریقے سے فارسی اعداد کے بعد ’چند ‘ اضا فہ کر نے سے جیسے دو چند ، سہ چند وغیرہ ۔ ہر ا بھی بڑھانے سے جیسے دوہرا ، تہرا ۔ان کے علاوہ اس قسم کے دوسرے  اسمائے عدد جیسے ، پاؤ ، آدھا ، پونے ، سوا ، ڈیڑھ ، پون، پونے ، ڈھائی، چوتھائی یہ تمام جس طر ح سے صفت عددی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اسی طریقے سے مقداری کے طور پر بھی ۔ 

 صفت مقداری اس اسم صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی مقدار ظاہر ہو ۔جیسے پانچ کلوسیب ، دس میٹر کپڑا ، بالٹی بھر پانی ، آدھا گلاس شربت ، اتنا پانی ختم ہوا ۔ جتنا چاہو کھا لو ۔ بورا بھر چاول ، ڈرم بھر تیل ، وغیرہ ۔ بس یہ یا د رکھیں کہ اس کے لیے وہ اسما ء استعمال ہوتے ہیں جس سے مقدار کے معانی نکلتے ہوں ، اس کی مزید تفصیل گذشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہے ۔ 

صفت ضمیری وہ ضمیریں ہوتی ہیں جو صفت کا کام دیتی ہیں ۔یہ عمو ما ً ’ یہ ، وہ ، کون ، جو ، کیا ‘ ہوتی ہیں ۔ اس کے بنانے کا کوئی خاص قاعدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کلمات صفت ضمیری کے طور پر اسی وقت استعمال ہوتے ہیں جب یہ کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوں جیسے وہ گاڑی آئی تھی ، میں اس اسکول میں پڑ ھتا ہوں ، کون شخص ایسا کہتا ہے ، وغیرہ ۔ ان مثالوں میں ’وہ ، اس ، کون، صفت ضمیری ہیں ۔

اس مثال سے تو آپ جان ہی گئے ہوںگے کہ ضمیر ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے وہ نہیں آیا ، میں آج نہیں جاؤں گا ۔ اس مثال میں وہ اور میں اسم ضمیر ہیں ۔ اگلے شمارے میں ہم انشا ء اللہ ضمیر کے اقسام کے متعلق پڑھیں گے 

Monday, 20 April 2020

اسم صفت اور اس کی قسمیں

اسم صفت اور اس کی قسمیں 

 صفت (Adjective) اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی کیفیت یا حا لت کا پتہ چلے ،اس کلمہ سے کسی اسم کی اچھائی یا برائی کا پتہ چلے جیسے لال گھوڑا ، گورا آدمی ، خوبصورت لڑکی ،مو ٹی کاپی ، اچھی کتاب ، باریک پینسل وغیرہ ۔ ان تما م مثالوں میں لال ، گورا ، خوبصورت ، موٹی ، اچھی اور باریک اسم ہیں ۔ کیو نکہ ان ہی کلموں سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے جس کے لیے یہ لفظ لا یا گیا ہے ۔ اسی لیے اس کو صفت کہتے ہیں ۔ 

صفت کے اقسام 
 صفت ذاتی
 صفت نسبتی
 صفت عددی 
 صفت مقداری
 صفت ضمیر ی 

صفت ذاتی: وہ صفت ہے جس سے کسی چیز یا شخض کی اندرونی وبیرونی حالت یا کیفیت کا پتہ چلتا ہو جیسے ذہین لڑکا۔ کُندبچہ ، ٹھوس زمین ، ہرامیدان ، شریر بکرا، تیز چاقووغیرہ ۔ ان تمام مثالوں میں ذہین ،کند، ٹھوس ، ہرا وغیرہ صفت ذاتی ہیں ۔

صفت نسبتی: اس صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری شے سے نسبت یا لگاؤ ظاہر ہو ۔ جیسے کلکتہ سے صفت نسبتی کلکتوی، پٹنہ سے پٹنوی دہلی سے دہلوی وغیرہ ۔ اس صفت کو اگر حامد کے ساتھ لگا یا اور لکھا یا بولا جائے حامد لکھنوی تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں لکھنوی صفت نسبتی ہے جس سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ حامد لکھنو کا رہنے والا ہے ۔ 

کبھی کبھی صفت نسبتی خاندان یا تعلیم گاہ سے بھی منسلک ہوتا ہے جیسے گاندھی گاندھی خاندان کی جانب منسوب ہوتاہے ۔قادری قادریہ کی نسبت سے اور ندوی ندوہ کی جانب منسوب ہوتا ہے ۔

انگریزی طریقہ ٔ کار بھی اس میں مستعمل ہے جیسے انڈیا سے انڈین ، علی گڑھ سے علیگیرین ۔

  عام بول چال کی زبان سے بھی صفت نسبتی استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کلکتہ سے کلکتیا ، بمبئی سے بمبئیاوغیرہ ۔ ان مثالوں میں غور کر نے سے خودآپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح صفت نسبتی بن رہے ہیں ۔

صفت عددی : وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی تعداد ، یا کسی اسم کا درجہ معلوم ہو ،یا کسی اسم کی کلیت کا پتہ چلے ۔تعداد کی دو قسم ہوتی ہے ایک جب ٹھیک تعداد معلوم ہو جیسے زکیہ نے دس انڈے خریدے ، سال کے بارہ مہینہ ہوتے ہیں ۔دوسرے جب کسی چیزکی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہو جیسے کچھ لڑکے کھیل رہے ہیں ، بعض لوگ مجھ سے ملے۔ ان مذکورہ مثالوں میں ’دس ، بارہ ، کچھ اور بعض‘ صفت عددی ہیں ۔ا ن سب مثالوں میں کسی اسم کی تعداد کا پتہ چل رہا ہے ، پانچو یں کلاس ، آٹھویں کلاس، پہلا ، دوسرا ،تیسرا وغیرہ ان مثالوں میں کلاس کا درجہ معلوم ہورہا ہے ۔ صفت عددی کبھی کسی اسم کے مکمل احاطہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے پانچوں لوگ ، ساتوں اسکول ، تینوں بچے ۔ان مثالوں میں پانچوں ،ساتوں اور تینوں سے اس بات کو سمجھا جارہا ہے کہ وہ اتنے ہی تھے اور سب کے سب اس میں شامل ہوگئے ، کبھی کبھی عمومیت کے اظہار کے لیے بھی صفت عددی کا استعمال کر تے ہیں جیسے : دسیوں لوگ آئے ہوں گے وغیرہ ۔ ان کے علاوہ بھی اس کے کئی اقسام ہیں. 

صفت مقداری : وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی مقدار ظاہر ہو ۔جیسے کلیم نے پانچ کلوسیب خریدا ، دس میٹر کپڑا ، بالٹی بھر پانی ، آدھا گلاس شربت ، اتنا پانی ختم ہوا ۔ جتنا چاہو کھا لو ۔ بورا بھر چاول ، ڈرم بھر تیل ، وغیرہ ۔ ان مثالون میں پانچ کلو، دس میٹر ، بالٹی، آدھا ، اتنا ، جتنا ، بورا، ڈرم وہ لفظ ہیں جو صفت مقدار ی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔پھر صفت مقدار ی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس سے متعین مقدار معلوم ہو، جیسے پانچ کلو، دس میٹر ، چار لیٹر وغیرہ ۔ کیو نکہ ان کا مقدار متعین ہے کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا ۔ دوسرا وہ جس سے متعین مقدار معلوم نہ ہوجیسے بالٹی بھر پانی میں بالٹی بڑی یا چھوٹی بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی طریقہ سے بورا تھیلا ، اتنا ، اُتنا ، جِتنا وغیرہ ۔

صفت ضمیری : وہ ضمیریں جو صفت کا کام دیتی ہیں یا جس میں تھوڑی بہت ضمیر کی خوبی پائی جاتی ہو صفت ضمیری کہلاتی ہیں ۔وہ عمو ما ً ’ یہ ، وہ ، کون ، جو ، کیا ‘ ہوتی ہیں ۔ان کلمات کو آپ نے اسم. کے اقسام میں اسم ضمیر کے طور پربھی پڑھا ہوگا ۔یقینا یہ اسم ضمیر ہوتی ہیں لیکن اس وقت جب یہ تنہا استعمال ہوتی ہوں ۔ جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوں گی تو اس وقت یہ صفت ضمیری ہوں گی ۔ جیسے وہ لڑکا آیا تھا ، یہ کتاب میں پڑ ھ سکتا ہوں ، کون شخص ایسا کہتا ہے ، اسے کیوں چھوتے ہو ، جو ایوریسٹ پر چڑھتا ہے وہ بہادر ہوتا ہے ،کیا چیز گر پڑی ؟ وغیرہ ۔ ان مثالوں میں ’وہ ، یہ ، کون، اسے ، جو اورکیا ‘ صفت ضمیری ہیں ۔

Friday, 10 April 2020

اسم نکرہ کی قسمیں

اسم نکرہ کی قسمیں 

 اسم کیفیت: وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی کوئی خاص حالت یا کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ جیسے نرمی، سختی، روشنی، اندھیرا، صحت، بیماری وغیرہ۔ ان میں سے صحت، نیند اور رفتار وغیرہ سے حالت کا پتہ چلتا ہے اور درد، خوشی، غم وغیرہ سے کیفیت کا علم ہوتا ہے۔

اسم کیفیت فعل سے بھی بنا تے ہیں جیسے رہنا سہنا فعل ہے اس سے اسم کیفیت رہن سہن بن گیا۔ چلنا ایک فعل ہے اس سے چال چلن بن گیا۔ لینا دینا فعل ہے اس سے لین دین بن گیا۔

بعض اسم کیفیت صفت (Adjective) سے بھی بنتے ہیں۔ جیسے نرم صفت ہے اس سے نر می، گرم صفت ہے اس سے گرمی وغیرہ۔

 بعض اسم سے بھی بنتے ہیں جیسے دوست اسم ہے اس سے دوستی، دشمن اسم ہے اس سے دشمنی، تیز اسم ہے اس سے تیز ی وغیرہ۔
ا
سم جمع: اس اسم کو کہتے ہیں جو صورت میں تو واحد معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کئی اسموں کا مجموعہ ہوتے ہیں، یعنی معنوی اعتبار سے وہ جمع ہوتے ہے اور لفظی اعتبار سے واحد۔جیسے فوج اسم جمع ہے۔ وہ اس طر ح کے ایک کو تو فوجی کہیں گے اور جب وہ سینکڑوں کی تعداد میں یا دس ہی کی تعداد میں آئے تو اس کو فوج کہیں گے۔ اسی طریقہ سے جماعت اسم جمع ہے کیو نکہ جماعت کسی ایک آدمی کو نہیں کہا جاسکتا کئی لوگ ایک ساتھ ہو ں تو اس کو جماعت کہتے ہیں۔اسی طریقے سے جھنڈ، بنڈل، جتھا، ریوڑ وغیرہ اسم جمع ہیں۔
ا
سم ظرف: اس اسم کو کہتے ہیں جس میں کسی جگہ یا وقت کے معنی پائے جائیں۔ جیسے ندی،پہاڑ،جھرنا اور میدان وغیرہ۔یہ سب اپنی بنیادی اعتبار سے اسم نکر ہ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا کسی خاص پہاڑ یا جھر نا وغیرہ کو مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی بھی عام پر دلالت کر رہا ہے۔ اسی لیے اس کو اسم ظرف کہا جاتا کیوں کہ وہ سب کسی جگہ کا نام ہے۔ اسی طر یقے سے ہوائی اڈہ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹاپ وغیرہ اسم ظرف ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جس سے کسی جگہ یا مقام کا پتہ چلتا ہے۔ 

جن الفاظ سے وقت کا پتہ چلتا ہے جیسے فجر، ظہر، دو پہر، سہ پہر، صبح، شام ولنچ وغیرہ یہ اسم ظر ف زمان ہو تے ہیں کیو نکہ اس سے وقت کا پتہ چلتا ہے۔

اسم آلہ: وہ اسم ہے جو اوزار ہوتے ہیں، جیسے چاقو، قینچی، پھاؤڑا وغیرہ۔

اسم آلہ فعل سے بھی بنتا ہے۔ جیسے بیلنا، سے بیلن، چھاننا سے چھلنی، لٹکانا سے لٹکن، کترنا سے کترنی، جھاڑنا سے جھاڑووغیرہ۔

 اسم کی  مزید قسمیں 
اسم ضمیر:وہ کلمہ ہوتا ہے جو اسم کی جگہ استعمال کیا جائے۔ مثلا میں، تم، وہ، تو، آپ، وغیرہ۔ یہ اکثر گفتگو کے درمیان میں ہوتا ہے۔ جیسے آپ بو لتے ہیں زاہد آیا تھا اور وہ میری کاپی لیکر چلا گیا۔ اس جملہ میں ’وہ‘اسم ضمیر ہے۔ اسی طر ح سے جب آپ سامنے والے شخص سے بات کر تے ہیں تو اس وقت ’آپ، تم اور تو‘ وغیر ہ کلمے کا استعمال ہو تا ہے جو نام کی جگہ ہو تا ہے۔ اسی کو اسم ضمیر کہا جاتا ہے۔

اسم موصول:وہ کلمہ ہوتا ہے جو اس وقت تک پورے مفہوم نہیں دیتاجب تک اس کے ساتھ ایک اورجملہ مذکورہ نہ ہو۔ مثلا۔جو،جس،جب، جسے، جنہیں، وغیرہ۔ اس کو اس طر ح سمجھتے ہیں ’جنہیں بلندی چاہیے ہوتی ہے وہ راتوں کو جاگ کر محنت کر تا ہے“ اس جملہ میں جنہیں اسم موصول ہے جس کا معنی جملہ کے دوسرے حصہ ”وہ راتوں کو جاگ کر محنت کر تا ہے“ سے واضح ہورہا ہے۔

اسم اشارہ: وہ کلمہ ہے جو کسی چیز،جگہ، یا شخص کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔مثلا اِس،اْن،یہ،اْس،وہ،وغیرہ۔ اُ س کتاب کو اٹھا ؤ، اُن کو بلا ؤ، وہ جانور کس کا ہے، یہ کتاب کس کی ہے وغیر ہ۔ ان جملوں میں اِس، اْن، یہ، اْس، وہ، وغیرہ اسم اشارہ ہیں۔

اسم معرفہ

اسم کے اقسام

اسم کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔اسم نکرہ
۲۔اسم معرفہ

اسم نکرہ:(اس کو اسم عام بھی کہتے ہیں) یہ اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی بھی غیر متعین چیزکے لیے بو لا جائے۔جیسے شہر اسم نکر ہ ہے۔ کیو نکہ شہر کسی خاص شہر کو نہیں کہاجاتا ہے بلکہ ہر ایک شہر کو شہر ہی کہاجاتا ہے۔ اسی طر ح سے آدمی، کتاب، جانور، کتا، بلی اور گھر وغیرہ اسم نکر ہ ہیں۔

اسم معرفہ:کسی چیز،جگہ،یا شخص کے خاص نام کو اسم معرفہ کہتے ہیں جس سے وہی سمجھا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سمجھا جائے۔ مثلاکلکتہ،ممبئی، عمران،شاذیہ، یوسف وغیرہ۔

اسم معرفہ کی چار قسمیں ہیں۔  
۱۔اسم علم    ۲۔اسم ضمیر ۳۔اسم موصول ۴۔اسم اشارہ

؎اسم علم:اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی خاص چیز،شخص یا جگہ کے نام کو ظاہر کرے۔ مثلا۔ خالد،اقرا،دیوان غالب،حاجی علی وغیرہ

’اسم علم‘ کی بھی پانچ قسمیں ہیں 
۱۔ عرف ۲۔ خطاب ۳۔ لقب ۴۔کنیت ۵۔تخلص

۱۔عرف:عر ف وہ نام ہوتا ہے جو محبت یا حقارت کی وجہ سے دیا جائے، پڑجائے یا اصل نام کا کوئی چھوٹا سا حصہ ہی مشہور ہوجائے۔جیسے نگار سے نگی، انو ج سے انو یا پھر  موٹا ہو نے کی وجہ سے موٹو پڑ جاٍئے، چنو، کلو، کلن وغیرہ 

۲۔خطاب: وہ نام ہے جو حکومت کی طرف سے اعزازی طور پر دیا جائے۔پہلے شمس العلماء، نواب، خان بہادر وغیرہ دیا جاتا تھا۔اب بھارت رتن، پدم وبھوشن، پدم شری وغیرہ کا خطاب صدرجمہوریہ ہند کی جانب سے دیا جاتا ہے۔علاقائی سرکاریں بھی بہادری، اور پڑھائی پر خطاب دیتی ہیں ان سب کو خطابات کے زمرے میں ہی رکھا جاتا ہے۔

۳۔لقب: یہ وہ نام ہے جو کسی خاصیت یا صفت کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہو۔ ویسے خاصیت ہو یا نہ ہو مشہور ہونا زیادہ اہم ہے۔ لقب چونکہ اسم معرفہ کی قسم ہے لہذا خاص لوگوں کے ہی لقب ہوتے ہیں مثلاً قائد ملت، مفکر اسلام،، قائد شباب۔ مسٹر ٹک ٹک، خاتون آہن، وغیرہ۔ 

خطاب تو سر کارکی جانب سے ملتا ہے اور لقب عوام دیتی ہے جیسا کہ آپ مثال سے سمجھ چکے ہوں گے۔

۴۔کنیت:یہ وہ نام ہوتا ہے جو ماں باپ یا بیٹا بیٹی کے تعلق کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔ یوں تو یہ عربوں میں مقبول ہے جیسے ابو زبیدہ، ام کلثوم وغیرہ لیکن ہمارے یہا ں اس کا استعمال’مسز فلاں‘ جیسی صورت میں نظر آتا ہے۔یہ اکثر آس پڑوس سے ملتا ہے۔ بلا واسطہ نام پکارنے میں اچھا نہیں لگتا ہے تو بچو ں کے ابو کے نام سے پکارتے ہیں۔ جیسے کہیں گے ”اے بشریٰ کے ابو، یا اے زینب کی امی‘ وغیرہ۔

۵۔تخلص: یہ وہ قلمی نام ہے جو شعرا یا ادیب اصلی نام کی جگہ ا ستعمال کرتے ہیں مثلاً غالبؔ مرزا اسداللہ خاں کا تخلص ہے، مجاز ؔاسرارالحق کا تخلص ہے اور پریم چند دھنپت رائے کا وغیرہ وغیرہ۔میر تقی میرؔ کا ایک شعر دیکھیں 

قامت خمیدہ،رنگ شکستہ، بدن نزار
 ترا تو میرؔ غم میں عجب حال ہوگیا 

اس شعر میں میرؔ تخلص ہے شاعر میر تقی میر ؔ کا۔شاعر کے تخلص میں یہ (   ؔ)نشا ن ضرور لگا تے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ شاعر نے شعر میں اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔

Wednesday, 1 April 2020

لفظ اور اس کی قسمیں

لفظ اور اس کی قسمیں

جو آواز ہمار ے منہ سے نکلتی ہے وہ لفظ کہلاتی ہے ۔ ایک لفظ کئی حر ف سے جڑ کر بنتا ہے ۔ چاہے دو حر ف یا تین حر ف سے ہی کیوں نہ بنا ہو۔ او ر منھ سے نکلی ہوئی ہر آوازاپنے اندرکوئی معنی رکھتی ہے اور نہیں بھی رکھتی ہے ۔

 جس لفظ کا کوئی معنی ہوتا ہے یا سمجھ میں آتا ہے اس لفظ کو موضوع کہتے ہیں۔ اس کو موضوع اس لیے کہتے ہیں کہ اس لفظ کے سننے یا پڑھنے سے کوئی نہ کوئی معنی ذہن میں آجاتا ہے کیونکہ وہ لفظ کوئی نہ کوئی معنی کو ادا کر نے کے لیے بنا یا گیا ہوتا ہے ۔ جیسے کُر تا ایک لفظ ہے جس کے معنی متعین ہیں ۔ جو ایک خاص قسم کے سلے ہوئے کپڑے کا نام ہے جسے بدن کے اوپری حصہ میں پہنا جاتا ہے ۔ لیکن اسی کے ساتھ عام بول چال میں ایک اور لفظ بولا جاتا ہے جس کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہوتا ہے جیسے ’’کر تا ورتا ‘‘ کر تا کے معنی تو سمجھ میں آتے ہیں تو اس لفظ کو موضوع کہا گیا لیکن ’’وُرتا ‘‘ کے معنی کچھ نہیں ہوتا ہے تو اس کو مہمل کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم ’آلتو فالتو‘ بھی کہتے ہیں ، جس میں ’آلتو ‘ کا کوئی معنی نہیں ہے لیکن فا لتو کا معنی ہے ، الغرض معنی لفظ کے ساتھ مہمل لفظ کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے ۔

 اب آپ یا د رکھیں کہ صر ف بامعنی لفظ کو ہی کلمہ کہتے ہیں ۔ جیسے کتاب، قلم ، کاپی ، آیا، گیا ، پر ، سے اور اسکول وغیرہ ۔یہ سارے کلمے ہیں ۔ ایسے بامعنی الفا ظ کے مجموعے کو ہی جملہ کہاجاتا ہے جس کے معانی سمجھ میں آجائے جیسے ’’حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا‘‘ ۔ لفظ سارے تر تیب سے ہوں تو جملہ بھی بامعنی ہوتا ہے اور اگر الفاظ تر تیب سے نہ ہوں تو جملہ بھی مہمل ہوجاتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں ’’ حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا ‘‘ ایک بامعنی جملہ ہے ۔ لیکن اگر ان الفاظ کی تر تیب بدل دیں جیسے ’’ کتاب سے قلم اور حامددکان لایا ‘‘ کیا اس کے معنی سمجھ میں آئیں گے ؟نہیں ! ۔ لہذاجب کوئی لفظ جملے میں صحیح مقام میں لایا جاتا ہے تو وہ لفظ اس جملے میں بامعنی لفظ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لفظ کے صحیح مقام پر استعمال سے لفظ کی ابتدائی تین قسمیں بنتی ہیں ۔

اسم فعل  حرف 

اسم : اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی جاندار ، چیزیا جگہ کا نام ہو ۔
جاندار: آدمی ، ہاتھی ، کوا ، بلی ،سانپ وغیرہ ۔
چیز : کتاب ، قلم ، موبائل، کمپیوٹر، چپل ، چو لہا وغیرہ ۔
جگہ: کو لکاتا ، ممبئی ، دہلی ، پٹنہ ، گھر ، ریسٹورینٹ ، مسجد، مندر وغیرہ ۔ 

فعل : وہ لفظ ہوتا ہے جس سے کسی کام کے کرنے یا ہونے کی خبر معلوم ہو ۔ مثلاً پینا فعل ہے ۔

 فعل اسطر ح ہے کہ آپ نے کہا ’’ میں نے پانی پیا ‘‘ تو آپ نے پانی پینے کا کام کیا ، تو اس کے لیے آپ نے لفظ پینا استعمال کیا جو گرامر کی اصطلاح میں فعل ہے ۔ اس طرح جیسے ’’ آپ نے سائیکل چلایا ‘‘ تو چلانا فعل ہوا کیو ں کہ آپ نے چلانے کا کام کیا  ۔یہ تو ہوا کسی کا م کا ہونا پایا جائے ۔

 جب کسی کام کاکر نا پایا جائے تو اس کو بھی فعل کہتے ہیں ،چا ہے وہ کام ابھی کر رہے ہوں۔ جیسے ’’ امی کھانا پکا رہی ہیں ‘‘ تو’ پکارہی ہیں‘ فعل ہوا ۔ اس طر ح کے جتنے الفاظ آتے ہیں جس سے کسی کا م کے ہونے یا کر نے کا پتہ چلتا ہے تو وہ لفظ فعل کہلاتا ہے ۔

حرف : اس لفظ کو کہتے ہیں جو تنہا کچھ معنی نہیں دیتا جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی اور لفظ نہ ملے جیسے :سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، کے ، کی ، نے ، وغیرہ حر ف ہیں ۔یہ وہ کلمات یا الفاظ ہیں جس کے معنی دوسرے الفاظ سے ملے بغیر ظاہر ہی نہیں ہوسکتے جیسے : دلی سے آیا ۔ اس میں سے حر ف ہے ، جو یہ معنی بتا رہا ہے کہ آنے والا دلی شہر سے آیا ہے۔ 

اگرلفظ’ سے‘ کو کہیں الگ سے لکھ دیا جائے یا بولا جا ئے اور آگے پیچھے کوئی اور لفظ نہیں لگا یا جائے تو اس کا معنی کچھ بھی نہیں ظاہر ہو تا ہے ۔ اس طر یقے سے ’’ کتاب بیگ میںہے، ابو چھت پر ہیں، دادی کو بلاؤ، بھائی کے کپڑے ، امی کی کتاب، استا د نے کہا۔ ان جملوں میں ’’ میں، پر، کو، کے، کی، نے‘ ‘ حر ف ہیں جو دوسرے لفظوں کے ساتھ استعمال ہونے میں اپنا معنی دے رہے ہیں ۔ 

اعراب نما حر وف

اعراب نما حر وف 

حرکات و علامت کی طرح کچھ حروف بھی ہوتے ہیں جو اعر اب کا کام انجام دیتی ہیں البتہ اس میں زبر زیر پیش کی طرح کوئی علامت نہیں لگائی جاتی ہے بلکہ خود حر ف تہجی میں سے کوئی حر ف اس عمل کو انجام دیتا ہے اس کو ہم اعراب نما حروف کہتے ہیں ۔ 

۱۔ واومعدولہ : واو معدولہ اس واو کو کہتے ہیں جو لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ جس طر ح انگلش میں سائلینٹ حر ف ہوتے ہیں جو لکھے تو جاتے ہیں لیکن وہ حرف پڑھے نہیں جاتے ہیں جیسے writing (رائٹنگ ) اس میں w نہیں پڑھا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے اردو میں واو ہے جو کئی لفظوں میں لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ یہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب واو ’خ‘ کے بعد آتا ہے جیسے خود ، خواب، دستر خوان، خواجہ اور خوشبو وغیر ہ ان تمام میں واو نہیں پڑھا جاتا ہے بلکہ اگر واو کے بعد الف ہے تو واو غائب ہوکر الف ہی پڑھا جاتا ہے جیسے درخواست ، دستر خوان ، خواجہ ، خوانچہ ، خوار اور خواجگان وغیرہ اور اگر واو کے بعد الف کے سوا کوئی دوسرا حرف ہے توپھر خ کے اوپر پیش پڑھا جاتا ہے جیسے خُوش اور خوداس میں واو گویا پیش کا کام کرتا ہے ۔

۲۔ واو معر وف : اس واو کو کہتے ہیں جب واو سے پہلے والے حر ف میں پیش ہو جیسے ، نُور ، حُور اور دُور وغیر ہ ان تمام مقاما ت پر واو اعراب کا کام کرتا ہے ۔

۳۔ واو مجہول : اس واو کو کہتے ہیں جو (o) کی آواز رکھتا ہے ۔ جیسے شور ، مور اور توڑ وغیر ہ ۔ ایسی آواز کے لیے اردو میں کوئی علامت نہیں ہے اس لیے ان کے لیے بطور علامت واو کا استعمال ہوتا ہے ۔

نون غنہ : حروف تہجی میں ایک حر ف ’ ن ‘ ہوتا ہے ، لیکن ہماری اردو میں کئی ایسے لفظ ہیں جن میں مکمل نون کی آواز نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں نون کی ہی طر ح آدھی نون کی آواز آتی ہے جس کو ہم ناک سے نکالتے ہیں اس کو ہم ’ نو ن غنہ ‘ کہتے ہیں ۔ وہ کبھی بیچ لفظ میں آتا ہے اور کبھی اخیر لفظ میں ۔ جب لفظ کے آخر میں آئے تو اس کی اصل شکل ’ں‘ہوتی ہے ۔ جب نو ن غنہ کی ضر ورت بیچ لفظ میں پڑے تو نون ہی لکھا جاتا ہے لیکن نون غنہ پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے کنواں ، سانپ اور اینٹ وغیرہ ۔ان سب میں نون کا تلفظ مکمل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ آواز ناک سے نکالی جاتی ہے اور جب نو ن غنہ کی ضرور ت لفظ کے اخیر حرف میں پڑے تو وہاں نون کے اوپر نقطہ نہیں لگاتے ہیں جیسے یہاں ، وہاں ، فلاں وغیرہ ۔

الف مقصورہ : اس سے پہلے آپ نے حرو ف تہجی میں ’ی ‘ پڑھا ہوگا ۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو کہ ی بھی کہیں کہیں الف پڑھا جاتا ہے ۔جہاں الف کا کام کرتا ہے وہاں اس کے اوپر ایک چھوٹا سا الف کا نشان بنا دیتے ہیں جس نشان کو کچھ لوگ کھڑا زبر بھی کہتے ہیں ، جیسے تقویٰ، فتویٰ صغریٰ اور کبریٰ وغیرہ ایسے مقامات پ ’ی‘ کو الف مقصورہ کہتے ہیں ۔

ہائے خفی : کہیں کہیں ’ ہ ‘ بھی الف جیسا کام کر تا ہے۔ جہاں ’ہ‘ تو لکھا جاتا ہے لیکن پڑھا الف جاتا ہے ۔اس ’ہ ‘ کو ہائے خفی کہتے ہیں ۔ جیسے رکشہ ، ملکہ اور بچہ وغیر ہ ۔ ان تمام میں اخیر میں تو ’ہ‘ لکھا جاتا ہے لیکن آواز الف کی آتی ہے ۔

اعراب

 اعراب 

اعراب ان چند علامتوں کو کہتے ہیں جن سے کسی حرف کی کیفیت کا پتہ چلے۔ ہندی میں ماتراؤں اور انگلش میںجو کام  wovels کا ہوتا ہے وہی کام اردو میں اعراب کا ہوتا ہے ۔اردو میں اعراب زبر ، زیر پیش ، مد ، تشدید ، تنوین کھڑا زبر اور کھڑا زیر کو کہتے ہیں۔ 

اردو ، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کے اعراب یعنی زبر، زیر ،پیش اور جزم ایک جیسے ہیںاور ان کو حرکات کہا جاتا ہے ، جن حر وف کو ان کے ذریعہ حر کت دی جاتی ہے انہیں متحر ک حروف کہا جاتا ہے اور جس حر ف پر کوئی حر کت نہیں ہو وہ ساکن حرف کہلاتا ہے۔ ’’مد ‘‘ ، ’’تشدید‘‘ اور ’تنوین‘‘ علامتیں کہلاتی ہیں ۔

 زَبر (اَب) زبر کے معنی اوپر کے ہیں ۔جس حرف کے اوپر تر چھی لکیر ہوتی ہے اس لکیر کو زبر کہتے ہیں۔زبر کو عربی میں فتحہ کہتے ہیں اس لیے جس حرف کے اوپر تر چھی لکیر ہوتی ہے اس حر ف کو مفتوح کہتے ہیں ۔جیسے غَم میں( غ) مفتوح ہے اور (غَ)کے اوپر جو ٹیڑھی لکیر ہے وہ زبرہے ۔

زِیر (اِب ) زیر کے معنی نیچے کے ہیں ۔جس حرف کے نیچے تر چھی لکیر ہوتی ہے اس لکیر کو زیر کہتے ہیں۔زیر کو عربی میں کسرہ کہتے ہیں اس لیے جس حرف کے نیچے تر چھی لکیر ہوتی ہے اس حر ف کو مکسور کہتے ہیں ۔جیسے بِل میں (ب) مکسور ہے اور( بِ) کے نیجے جو ٹیڑھی لکیر ہے وہ زیر ہے ۔

پیش (پُل) پیش کے معنی سامنے یا آگے کے ہیں ۔جس حرف کے اوپر چھوٹا واو جیسا نشان ہوتا ہے اس نشان کو پیش کہتے ہیں ،پیش کو عربی میں ضمہ کہتے ہیں۔اس لیے جس حر ف پر پیش لگا ہوتا ہے اس حر ف کو مضموم کہتے ہیں جیسے پُل میں (پ) مضموم ہے اور اس کے اوپر جو علامت ہے وہ پیش ہے ۔

 جزم یا سکون (دِنْ) سکون کے معنی خاموش کے ہیں ۔جس حرف پر کوئی حر کت نہیں ہو اس میں جزم یا سکون ہوتا ہے ۔اور ایسے حر ف کو ساکن کہتے ہیں اردو میں ہر لفظ کا آخر ی حر ف ساکن ہوتا ہے ۔جیسے دِنْ کا آ خر ی حر ف(ن) ساکن ہے ، اسی طریقے سے دُنْیا کا نون بھی ساکن ہے ۔

مد (   ٓ) مد ایک علامت ہے اس کے معنی ہیں لمبا کر نا ۔الف کو جب کھنچ کر بولتے یا پڑھتے ہیں تو اس وقت اس پر یہ علامت لگادیتے ہیں جیسے آم ،آملہ ایسے الف کو الف ممدودہ کہتے ہیں ۔

تشدید (  ّ ) ابّا جس حرف پر ’  ّ‘ کی علامت ہو اس علامت کو تشدید کہتے ہیں۔ جب کسی لفظ میں کوئی حر ف دو بار پڑھا جاتاہے تو اس پر تشدید لگا دیتے ہیں اور جس حر ف پر تشدید ہوتاہے اس کو حر ف مشدد کہتے ہیں ۔ ایسے میں انگش اور ہندی میں کوئی بھی حرف دو مرتبہ لکھا جاتا ہے لیکن اردو میں ایک ہی حرف لکھ کر اس پر تشدید لگا دیا جاتا ہے ، جیسے گنّا، اُلّو ، پٹّھاوغیرہ 

تنوین (  ً  ٍ  ٌ) اس کے معنی نون کے آواز پیدا کر نے کے ہیں یہ صرف عر بی الفاظ کے اخیر میں آتی ہے ۔جب یہ علامت کسی حر ف پر ہوتی ہے تو اس کے آخر میں نون کے آواز نکلتی ہے جیسے فوراً، اتفاقاً اور مثلاً وغیرہ  ۔

ہمزہ (ء ) یہ ایک علامت بھی ہوتا ہے اور اس کو حر وف تہجی میں بھی شمار کیا جاتاہے ۔جس حر ف کے اوپر ہمزہ(ء) ہوتا ہے اس میں آواز کو کھنچ کر نکالتے ہیں جیسے آؤ ، جاؤ ۔یہ ہمیشہ ’ی‘ اور ’و‘ کے ساتھ ہی آتا ہے جیسے کئی ، تئیں اور آؤ وغیرہ 

مندرجہ بالات علامات کو عربی میں اعراب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اہل عرب کے ایجادات ہیں ۔ اعر اب کا مطلب ہوتا ہے کسی بھی حر ف پر ان میں سے کسی بھی علامت کو لگانا ۔انہیں کو حر کات بھی کہاجاتا ہے اس لیے کہ زبر ،زیر ، پیش ، مد اور تشدید لگانے سے آواز میں حر کت پیدا ہوتی ہے لیکن جزم سے سکون پیدا ہوتا ہے اس لیے ان کے مجموعے کو حر کات و سکنات کہاجاتاہے اور جس حرف پر کوئی حر کت ہوتی ہے اسے متحرک کہاجاتا ہے ۔

قاری کا فقدان

دریچہ  ڈاکٹر امیرحمزہ   اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یون...