Thursday 30 May 2024

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری 

ڈاکٹر امیر حمزہ 


’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کا مسودہ جب مصنف محترم شفیق رائے پوری کے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھ تک پہنچا تو سرسری نظر میں مجھے بہت ہی زیادہ حیر ت ہوئی کہ جو کام ایک ادارہ کو کرنا چاہیے تھا وہ ذمہ داری شفیق رائے پوری صاحب نے خود اٹھائی اور بہت ہی درک و انہماک کے ساتھ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اس سے پہلے مصنف محتر م سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی لیکن جب انہو ں نے اگلا پیغام یہ بھیجا کہ آپ کو اس تحقیقی کاوش پر کچھ لکھنا ہے تو مجھے خیال آیا کہ میرے بارے میں کسی نے ضرور غلو سے کام لیا ہے ، ورنہ فی زمانہ بڑے بڑے دانشوروں سے ہی تحریریں لکھوائی جاتی ہیں ۔ خیر اپنے آپ کو اس ذمہ داری کے لیے تیار کیا اور ذہن نے جو کچھ ساتھ دیا وہ آپ کے سامنے ہے ۔

عنوان میں نقوش اور نقاش کے دو لفظ میں نے عمداً مصنف کی اس تحقیقی کا وش کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کیے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس پر کوئی تفصیلی کام سامنے نہیںآیا تھا اور چھتیس گڑھ میں اردو شعرا و ادبا کا جو ایک لمبا سلسلہ رہا ہے وہ محض چند مقالوں میں مشاہیر کے ساتھ ہی ختم ہوا ہے ۔ وہاں کے اکثر شعرا جو شروع میں دبستان لکھنؤ کے شعرا کے شاگر دتھے جیسا کہ تفصیلی ذکر مصنف محتر م نے خود اس کتاب کے مقدمہ میں کیا ہے انہیں پردہ ٔخفا میںہی رکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد کے اکابرین زبان و ادب نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںجن کے سبب چھتیس گڑھ میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد اردو کی نئی آبادیاں وجود میں آئیں انہیں بھی بھلا دیا گیا، ایسے میں ان مٹتے ہوئے نقوش کی جو بازیافت ہوئی ہے ان کے نقاش یقینا شفیق رائے پوری ہی ہیں ۔

اس اہم کام کو انجام دینے میں یقینا ایک طویل عرصہ لگا ہوگا۔ سب سے پہلے انہوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا ہوگا ، پھر آثار و اسانید کی تلاش میں لگ گئے ہوںگے ،اس درمیان انھیں ہزاروںنئی چیزوں کا علم ہوا ہوگا پھر ان سب میںسے چھانٹ پھٹک کر کار آمد چیزوں سے اپنی اس کتاب کو مزین کیا ہوگا۔ اس کے لیے یقینا قدیم ترین رسائل و جرائد کو کھنگالا ہوگا جس میں چھتیس گڑھ کے گمنام اور اوراق میں دفن شدہ قلم کاروں سے ملاقات ہوئی ہوگی پھر ان کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ان کے وارثین تک پہنچے ہوںگے ، حالات بدلنے کے بعد وہاں سے بھی زیادہ تر خالی ہاتھ واپس آنا پڑا ہوگا ، پھر ان کی تحریروں کے سہارے ملے بہت سارے اشارات سے بات مکمل کرنی پڑی ہوگی ۔ مجھے علم ہے کہ تحقیق کے میدا ن میں ایک ایک لفظ کے حوالے کے لیے کئی کئی کتابوں کی روق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ 

 جب سے تذکرہ و تنقید کی کتابیں لکھی جارہی ہیں تبھی سے اردو ادب کی علاقائی خدمات پر مشتمل آثار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تذکروں میں دکن کی حالت بخوبی بیان کی گئی ہے پھر بعد میں لکھنؤسمیت دوسرے شہر وںکے شعرا بھی شامل ہونے لگے ۔ بعد میں جب تاریخ لکھی جانے لگی تب اس میں دبستانوں کے عناوین سے باضابطہ ابواب بندی کی جانے لگی ، اس سے وہاں کی لسانی اسلوبیاتی و شعری خصوصیات کو اجاگر کیا جانے لگا ، اس لیے آپ کو تاریخ کی تمام کتابوں میں دکن ، دہلی اور لکھنؤ مل جائیں گے ، بعد میں جب اس پر اضافہ ہوا تو رامپور ، عظیم آباد اور مرشدآباد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ، لیکن پھر بھی اہم کتابوں میں دیگر شہروں کی ادبی فضا کوجگہ نہیں ملی تب ایک ضخیم ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (گیان چند جین ، سیدہ جعفر) مرتب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں شہروں کے اعتبار سے اردو زبان و ادب کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ۔ 

اردو زبان وادب کی ضخیم سے ضخیم اور مختصر سے مختصر کئی تاریخیں لکھی گئی ہیں، ہر ایک میں آپ کو ایک ہی نوعیت کی ترتیب ملے گی ۔قدیم اردو ، دکن کے سارے ادوار ، پھر دہلی ،لکھنؤ اس کے بعدتحریکات ، ایسے میں بہت سی ذیلی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں ، یقینا سبھی کا احاطہ کسی کے یہاں بھی ممکن نہیں ہے ۔ البتہ جمیل جالبی نے اس جانب قدم اٹھا یا اور علاقائی سطح پر روہیل کھنڈ اور بندیل کھنڈ کا خصوصی ذکرکیا۔اس کے بعد تاریخ ادب اردو کا جو سلسلہ گیان چند جین اورسیدہ جعفر کے ذریعہ شروع ہوا اس میں بعد میں جاکر شہر کے پیمانہ پر تاریخ ادب اردو کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آزادی کے بعد جب تحقیقی مقالات میں اضافہ ہوا تو علاقائی سطح پر اردو ادب کا بھی جائزہ لیا گیا ، شروع میں دبستانوں کی تاریخ کو یکجا کیا گیا پھر صوبائی سطح پر اس میں کام ہوا، اس کے بعد شہروں کی اردو  زبان و ادب کی خدمات پر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ 

ابھی کے موجودہ منظر نامے میں صوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی بات کی جائے تو اردو ہندوستان کے کم وبیش تمام صوبوں میں بولی، سمجھی اور پڑ ھی جاتی ہے ۔ کچھ صوبے ایسے بھی ہیں جہاں ہر طبقہ کے لوگ اس زبان کو لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ جنوبی ہند کے چند صوبے ایسے ہیں جہاں اردو پہلے تو مضبوط حالت میں تھی تاہم درمیان میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ اب جب تعلیم کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے تو اردو کی تعلیم میں بھی اضافہ دیکھنے کوملا ہے تاہم جدید اسکولی تعلیم سے اردو کا بھا ری نقصان ہوا ہے ،لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کیر ل جیسے صوبے میں بھی اردو کے طلبا نظر آنے لگے ہیں ۔ نارتھ ایسٹ میں کم ازکم ایک حلقہ کے افرا د تو اردو پڑھتے ہی ہیں ۔ہر یانہ ، ہماچل اورچھتیس گڑھ کی بات کی جائے توان تینوں صوبوں میں اردو کی یکساں صورت حال نظرآئے گی ۔ یہ اچانک ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی ان علاقوں میں اردو کی نمائندگی کم رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں علاقائی ادب کی تاریخ نگاری پرنظرڈالی جائے تو ان علاقوں سے کوئی خاطر خواہ کام سامنے نہیں آتا ہے ۔ ایسے میں کچھ دنوں قبل تک چھتیس گڑھ کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا ، کم ازکم ہمیں تو وہاں کی لسانی اور ادبی صور ت حا ل واضح نظرنہیں آتی تھی، لیکن اس کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ صوبہ چھتیس گڑھ کے غیر معروف شہروں میں بھی اردو زبان و ادب کی شمع روشن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جناب شفیق رائے پوری نے ڈیڑھ سو ایسے قدیم و جدید ادبا، تخلیق کار اور ناقدین کو اس کتاب میں جمع کیا ہے جنہوں نے اپنی سطح پر اردو کا چراغ خوب روشن کیا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر کو باہر کی اردو دنیا نہیں جانتی ہے، لیکن ان میں سے دو نام ایسے بھی ہیں جنہیں اردو زبان و ادب کا جاننے والا ہر فرد جانتا ہے جن کا تعلق چھتیس گڑھ سے ہی تھا اور وہ تھے اختر حسین رائے پوری اور حبیب تنویر۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر انہیں وہاں کی ادبی صورتحال کے نمائندہ ادیب کے طور پر نہیں دیکھتے پھر بھی بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جڑیں چھتیس گڑھ سے تھیں تو وہاں کی ادبی صورتحال کس قدر پختہ تھی ۔

 پچھلے پانچ برسوں میں دو عمدہ کتابیں چھتیس گڑ ھ سے تعلق رکھنے والے جس مصنف و شاعر کی پڑھنے کو ملیں ا س کا نام حنیف نجمی تھا ، تنقید و تحقیق پر جو کتاب تھی یقینا وہ لاجواب تھی ، شاعری میں بھی انھوںنے عالمی سطح پر اپنی انفرادیت کی چھاپ چھوڑی ہے ، ان کی تحریروں میں کمال کی حد تک دانشوری اور تخلیق میں اعلیٰ درجے کی فنکاری نظر آئی تھی وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی طرح خورشید حیات جنہوں نے افسانوی ادب میں گہری چھاپ چھوڑی ہے، نئے طرز کے موجد ہوئے، نیا افسانوی بیانیہ تخلیق کیا ، ان کے بغیر افسانوی ادب کی کوئی بھی فہرست مکمل نہیں ہوگی وہ بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہیں۔ مثال پیش کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اردو کے لحاظ سے اس پسماندہ صوبہ سے بھی اعلیٰ درجہ کے ادیب و شاعر تعلق رکھتے ہیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مرکزی دھارے میں ان کا شمار نہیں ہوتا ہے ۔ الغرض میں نے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کئی شعرا وادبا ہوںگے جنہیں شہرت تو دور کی بات ہے وہ صرف ایک مخصوص حلقے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ،ان کے لیے ایسی کتابیں آب حیات ثابت ہوتی ہیں جن میں ان کا اجمالی ذکر کر کے رہتی دنیا تک انہیں زندہ کردیا جاتا ہے ۔ 

’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کو شفیق رائے پوری نے بہت ہی محنت و دیدہ ریزی کے ساتھ تیا ر کیا ہے ۔پہلے باب میں انہوں نے ان شعرا و ادبا کو شامل کیا ہے جنہوںنے اس علاقہ میں اردو کی پود لگائی اور ایک ثمر آور باغ تیار کیا۔ یقینا ان کا شمار متقدمین میں ہوتا ہے ، ان کا ذکر کہیں اور شاید و باید ہی نظر آتا ہے یہاں انہوں نے تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کرکے حتی الامکان چھتیس گڑھ کے سبھی ادبا و شعرا کو جمع کیا ہے ۔ اس فہرست میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ادب کا ستارہ ابھی بھی جگمگا رہا ہے ۔ اس کے بعد پیشکش میں انہوںنے کئی درجہ بندی کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ جن ادبا کی پیدائش کہیں اور کی ہے لیکن چھتیس گڑھ میں سکونت کے دوران انہوںنے اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی ہے اس میں بھی دس سے زیادہ افراد شامل کتب ہیں ، ایسے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باہر سے جاکر وہاں عارضی قیام کرنے والوں نے وہا ںکی ادبی فضا میں کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا ہے۔ تذکرہ و تاریخ نگاری میں اکثر ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مجہول الاحوال اشخاص کا ذکر ضمناً آگیا ہو تو اسی سے تحقیق کا راستہ آگے کو نکلتا ہے لیکن اس کتاب کے چوتھے باب میں مصنف محترم نے ان اشخاص کو شامل کیا ہے جن کے زیادہ احوال و کوائف نہیں مل سکے ۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو اس کتاب کو تحقیق و تدوین کے ساتھ تذکرہ نگاری کی عمدہ مثال میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

میں محتر م مصنف کا بہت ہی زیادہ ممنون و مشکور ہوں بلکہ اردو دنیا کو بھی ممنون و مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے علاقے کی کاوشوں کو منظر عام پر لادیا جن کے متعلق یا اس علاقے کے متعلق عموما ًلوگ سوچا نہیں کرتے، نہ وہاں سے کوئی ادبی خبر سامنے آتی ہے نہ ہی رسائل و جرائد میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، وہاں جس سطح پر بھی کام ہو رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، وہاں کے مصنفین، ناقدین ،شعراو ادبا اردو لکھنے پڑھنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو زبان وادب کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ چھتیس گڑھ میں ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا اور اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے مزیدتحقیقی کام سامنے آئیںگے ۔


رباعی تنقید اور رباعیات ظفر

 رباعی تنقید اور رباعیات ظفر

ڈاکٹر امیر حمزہ 

نوادہ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ

ہندو ستان کے موجودہ شعری منظر نامے پر نظر ڈالیں توآپ کو تنقیدکی نظر سے تخلیقی دنیا کی وہ سیر کرائی جائے گی جس کا آپ شاید سیر کرنا چاہیں بھی اور نہیں بھی ۔ ناقدین کے شعری گلستاں سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ صرف دوقسم کی تخلیقات کے دلدادہ ہیں۔ اول غزل اور دوم نظم۔ ان کے سوا جوبھی شعری گلستاں کے باغباں ہیں اور وہ قسم قسم کی تخلیقات سے اردو شعری سرمایے کو سجا سنوار کر دولتمند اور خوبصورت بنارہے ہیں اس پر سکہ بند (مبینہ) نا قدین کی نظر ہی نہیں جاتی ہے ۔ یقینا اس کی وجوہات ہیں ۔ اردو کے ساتھ معاملہ یہ رہا کہ غزل نے اس مضبوطی سے یہاں قدم جمایا کہ اس کے سامنے دوسری اصناف اپنا پر بھی نہیں پھیلا سکیں بلکہ وہ قدموں کے بل چلنے کی کوشش کرتی رہیں یا یوں کہہ لیں کہ عوام و خواص کی پسند نے غزل کو اتنا مقبول بنا دیا کہ دوسری اصناف کی طرف خاطر خواہ توجہ ہی نہیں گئی ۔ ہو بھی کیوںنہ، کیونکہ ’ماقل و دل ‘ کے مصداق جو بھی چیز سامنے آتی ہے وہ زبان زد ہوجاتی ہے ۔ اسی وجہ سے گفتگو یا مناقشے میں محاورے جو کام کرجاتے ہیں وہ پانچ منٹ کی گفتگو نہیں کرپاتی ،کیونکہ اس میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ محاورہ کا مقام حاصل کرسکے ۔ وہی ذائقہ عوام کو غزلوں سے ملا ،کیونکہ غزل کے ایک شعر سے وہ بات کہہ جاتے ہیں جس کا کسی اور صنف کے سہارے ادا کرنا مشکل ہے ۔ حالانکہ میری اس دلیل میں جامعیت نہیں ہے کیونکہ جیسے ہی سخنوروں نے مثنوی کی جانب رخ کیا تو اس وقت اس کا دور دورہ تھا ، مثنوی کے خوبصورت اشعار زبان زد تھے ۔ قصیدہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، مرثیہ کے اشعار بھی زبان زد ہوتے رہے ہیں ۔ تو اب یہ بات سامنے آتی ہے کہ اشعار خواہ کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ کم سے کم الفاظ میں آرہے ہیں اور پیشکش میں مؤثر ہورہے ہیں خواہ وہ شعر کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ کامیاب ہیں ۔ کیا رباعی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ؟ ہاں اردو میں رباعی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔ اگر چہ لکھنؤکے زریں دور میں انیس و دبیر نے رباعیوں کا استعمال حاضرین کو جمع کرنے کے لیے کیا تھا اس کے بعد وہ مرثیے پیش کرتے تھے ،لیکن وہاں بھی مرثیہ کے مقابلے میں رباعی ایک ذیلی صنف سخن ہی رہی اور عوام نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔تو کیا خواص نے اسے کبھی سنجیدگی سے لیا ؟ ہاں ! شاعروں نے اپنی بساط بھر کوشش کی اور وہ اس میں کا میاب رہے اور رباعی کوانھوں نے مسلسل اپنی مشق سخن میں جاری رکھا ، یہی وجہ ہے کہ دیگر اصناف کلاسیکی میں سمٹ کر رہ گئیں اور رباعی اب تک جاری و ساری ہے ، لیکن جہاں تک رباعی تنقید کی بات ہے تو وہ اول روز سے محروم نظر آتی ہے۔ جب اردو میں تذکرے لکھے جارہے تھے تو اس وقت بھی بہت ہی کم شعرا کے لییصراحتاً رباعی گو لکھا گیا اور جب تنقید کی خشت اول رکھی جارہی تھی تب بھی شاعری کی تنقید میں غزل ونظم ا ور مثنوی پر بحثیں ہوئیں، لیکن دیگر کے ساتھ رباعیسے صر ف نظر کیا گیا ۔ تنقید کے پہلے دور میں جب تاثر ات کا دخل تھا اور جمالیاتِ ظاہر ی و باطنی پر توجہ صرف کی جارہی تھی ، غزل کی نوک پلک مو ضوعات کے ساتھ سادگی اصلیت و جوش کے سانچے میں ڈھالی جارہی تھی اس وقت بھی رباعی اپنا روایتی سفر بتدریج جاری رکھے ہوئے تھی ۔ اس وقت غزل کے کئی ادوار گزرچکے تھے ۔جیسا کہ غزل کے پہلے دور میں رباعی محض اپنی حاضر ی درج کرواتی ہے اور تقریباً ہر ایک کے یہاں نظر آجاتی ہے ۔ انیسویں صدی میں رباعی باضابطہ دیگر اصناف کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے ، انیس و دبیر مرثیہ کے سپہ سالارتھے تو ساتھ میں رباعیاں بھی لے کر چل رہے تھے ۔ غالب کے عہد میں جہاں غزل کے شعرا نے رباعی کو محض سخن گوئی میں مہارت کی پیمائش کے طور پر دیکھا تو دوسری جانب شاہ غمگین کے یہاں رباعی میں تخصص پایا جاتا ہے ۔ نظم کا دور شروع ہوتا ہے اور حالی و اکبر اس کی زلف سنوارتے ہیں ۔ جب جدید غزل و نظم کا دور شروع ہوتا ہے تو جوش و فراق ، چنگیزی و رواں کے یہاں رباعی کی روانی پائی جاتی ہے۔ جنوب سے امجد حیدرآبادی سامنے آتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، لیکن کیا رباعی تنقید میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہاں بالکل آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ شاعری کی تنقید میں ہی رباعی تنقید ہے البتہ جس طرح مثنوی اور واسوخت کی تنقید نظر نہیںآتی ہے ، اسی طرح نثر میں سفر نامہ اور رپورتاژ کی تنقید نہ کے برابر نظر آتی ہے تو رباعی تنقید بھی اسی صف میں ہے، لیکن بعد میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جب اردومیں ’الخیام ‘ جیسی کتاب نظر آئی تواردو رباعیات کی تشریح بھی مختلف سانچوں میں کی جانے لگی ۔ فرمان فتح پوری اور سلام سندیلوی جیسے رباعی تنقید کے وہ اساطین سامنے آئے جنہوں نے اردو میں رباعی تنقید کی مضبوط بنیاد ڈالی ،بعد میں یہ سلسلہ دراز نہیں ہوا بلکہ جوکچھ لکھا جا چکا تھا اس سے بہتر تو دوراس جیسا بھی نہیں لکھا گیا ۔ رسائل کے خصوصی شمارے نکلے لیکن پھر بھی دیگر اصناف سخن کی طرح رباعی تنقید میں کوئی تنوع دیکھنے کو نہیں ملا ، لیکن جب بھی کسی شاعری کی جملہ خدمات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور وہ رباعی گو بھی ہوتا ہے تو اس کا ذکر ہوتا ہے لیکن اتنا کم کہ اس کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو تنقید کے مقابلہ میں تذکرہ کی ہوتی ہے۔ تو کیا اس میںر باعی کی کمی تھی کہ وہ غزل اور نظم کے شانہ بشانہ نہیں کھڑی رہ سکی یا رباعی کے موضوعات کی تنگ دامنی تھی کہ غزل اور نظم کے موضوعات کو نہیں پاسکی یا پھر بیان و بدیع اور جمالیاتی سطح پر کچھ خلا رہ گیا تھا کہ رباعی سے وہ تاثر نہیں پیدا ہوا کہ ناقدین اس جانب توجہ کرتے اور غزل و نظم کے ساتھ رباعی کو بھی لا تے ۔ ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ ہر زاویہ سے اردو رباعی غزل و نظم کے شانہ بشانہ چل رہی تھی ، کیا فراق کی رباعیاں ان کی نظموں اور غزلو ں سے کمتر ہیں یا جوش کی نظمیں زیا دہ بہتر ہیں یا ان کی رباعیا ں ۔ سید ھا سا جواب ہے کہ ادب میں تخلیق کا معیار ناقد طے کرتا ہے اور ناقد اپنی ایک راہ منتخب کرلیتا ہے کہ اسے کس سمت جانا ہے ۔ کیا وہ شعر کے فلسفہ پر بات کرے گا یاشعری ہیئت پر ، نظم کی بنت پر بات کرے گا یا کچھ اور ۔ تو ادبی مزاج بندی میں رباعی کو ناقدین نے توجہ ہی نہیں دی ورنہ اردو میں بھی ایسے کامیاب رباعی گو پیدا ہوئے ہیں جو فارسی کے مقابلے رکھے جاسکتے ہیں۔ جس طرح سے ہم نے غزل کی مشاطگی کی ہے ،نظم کو سنوا را ہے ، قصیدہ میں علویت پیدا کی ہے ، مرثیہ میں جذبات کے دریا بہائے ہیں اسی طرح اردو میں بھی رباعی نے زندگی کے نشیب و فراز کی نمائندگی کی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ کسی کی تخلیق کو پرکھا گیا اور کئی تخلیقات پارکھ تک پہنچی ہی نہیں ۔

گفتگو رباعی تنقید سے شروع ہوئی تھی توشروع میں رباعی تنقید کے دواستاد سامنے آتے ہیں سلام سندیلوی اور فرمان فتح پوری ۔ سلام سندیلوی صاحب کی کتاب بہت ہی ضخیم ہے اور وہ شروع سے اپنے وقت تک کے سبھی رباعی گو شعرا کا شمار کرلیتے ہیں ۔ ان کے یہاں رباعی تنقید کا ایک خاکہ موجود ہے اور وہ موضوعاتی خاکہ ہے ۔ عشقیہ رباعیات ، عارفانہ رباعیات ، مذہبی رباعیات ، فلسفیانہ رباعیات ، اخلاقی رباعیات ، خمریہ رباعیات ، ذاتی رباعیا ت اور پھر کسی کے یہاں کچھ اضافی مل جاتا ہے تو انہیں ذیلی عناوین کے تحت شمار کر تے ہیں اور تشریح بھی ۔ یہ طریقہ تنقید بعد کے ناقدین کے یہاں نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اتنی تفصیلی گفتگو ہوتی ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ غزلیہ اور نظمیہ شاعری کی تنقید میںجو انداز سامنے آتا ہے وہ کسی اور صنف شاعری میں نہیں ۔ اگر میں یہ کہوں تو بیجا نہیں ہوگا کہ اب تک رباعی کی تبصراتی تنقید ہی سامنے آئی ہے ۔ یہ بھی غنیمت ہے ۔اس کے لیے خودرباعی گو شاعروں کو سوچنا ہوگا کہ انہوںنے مشق سخن میں کہاں کوتاہی برتی کہ اپنے فن کی جانب وہ ناقدین کو مائل نہیں کرسکے ۔ اس کابھی جواب نہیں ہوگا، کیونکہ چند رباعی گو شعرا نے اردو رباعی کو وہ بخشا ہے جو اردو کو فارسی کے مقابل لاکھڑا کرسکے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فارسی میں تنقید کا وہ چلن نہیں ہے جو اردو میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ شاہ غمگین ، نساخ ، جعفرعلی حسرت، انیس و دبیر ، رواں، یاس، یگانہ چنگیزی ، امجد حیدرآبادی ، جوش و فراق رباعی کے وہ بڑے نام ہیں جب ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی تو باقی پر کہاں توجہ دی جاسکتی ہے ،لیکن گزشتہ چند برسوں سے نئے رباعی گو شعرا کی جانب تو جہ دی جارہی ہے اور ان پر لکھا بھی جارہا ہے ۔

 اگر موجودہ رباعی گو شعرا کی بات کی جائے تو ان سبھی کی قسمت نے یاوری کی کہ ان پر مضامین شائع کیے جائیں اور رباعی کی دنیا میں بھی انہیں پذیرائی ملے ۔  چوٹی کے ناقدین کی بات نہیں ہے بلکہ ان ناقدین کی بات کی جارہی ہے جو ہمیشہ ادب کی رفتار کو استوار رکھے رہتے ہیں اور اپنی تحریروں سے تخلیق کاروں کی پذیر ائی کرتے رہتے ہیں ۔تاہم میری نظر میں اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں تقریبا ً دس ایسے رباعی گو شعرا تو ضرور ہیں جن پر لکھا گیا اور انہیں رباعی گوئی میں اہم مقام بھی نصیب ہوا ۔ انہی میں سے ایک ظفر کمالی ہیں ۔

ظفر کمالی کا فکر و فن متنوع کیفیات کا حامل رہا ہے ، ظرافت سے اپنا شعری سفر شروع کرتے ہیں ، تحقیقی خدمات بھی انجام دیتے رہتے ہیں ساتھ ہی وہ اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طور پر بھی ثابت کر تے ہیں ۔ان کارباعیوں کا پہلامجموعہ ’’ رباعیاں ‘‘ 2010میں منظر عام پر آتا ہے پھر ’’رباعیات ظفر‘‘ 2013 میں اس کے بعد 2017 میں’’ خاک جستجو ‘‘ کے نا م سے رباعیوں کا دیوان شائع ہوتا ہے ، بچوں کے لیے ’’چہکاریں ‘ ‘ کے نام سے بھی رباعیوں کا مجموعہ منظر عام پر لاتے ہیں ۔ اردو میں دیوان رباعیات کا چلن بہت ہی کم رہا ہے ۔ بیسویں صدی تک ہمارے یہاں دیوان غزلیات کا رواج بہت ہی زیادہ تھا ، مشہور شعرا کے دواوین ملتے ہیں ۔ اسی زمانے میں رباعیات کا بھی دیوان ملتا ہے ، لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں رباعی کے لیے یوں بیداری سامنے آئی کہ اب مجموعو ںکے ساتھ رباعی  کے دواوین بھی شائع ہونے لگے ۔ 

ظفر کمالی صاحب بھی تین رباعیوں کے مجموعے کے بعد دیوان سازی میں قدم رکھتے ہیں اور ’’خاک جستجو ‘‘ کو ادبی منظر نامے پر سامنے لاتے ہیں ۔ یہ دیوان 288 صفحات پر مشتمل ہے جس میں دیوان کے اشعار کی بات کی جائے تو وہ صرف 194صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحے میں تین رباعیاں ہیں تو کل 582رباعیاں ہوئیں ۔ ارد و کی ادبی تاریخ میں دیکھیں گے تو شعری مجموعوں کا مطالعہ جس انداز میں سامنے آیا ہے وہ دواوین کے لیے نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ رباعی کے مجموعے کے مطالعے اور دیوان کے مطالعے میں نمایا ں فرق ہوتا ہے ۔ مجموعات میں عموماً موضوعاتی ترتیب دیکھنے کو مل جاتی ہے لیکن دواوین کی فنی پابندی میں یہ باقی نہیں رہتا ہے اور موضوعات بکھرے ہوئے مل جاتے ہیں ،لیکن اس سے شعری کائنات میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ہاں اگر کسی نے دیوان بنانے کے لیے رباعیاں آورد کی ہوں تو وہاں بہت ہی زیادہ فرق پڑ تاہے بلکہ قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ خیالات و موضوعات وفنی پابندی ضرور ہے لیکن وہ نہیں ہے جسے شاعری کی روح کہی جائے یعنی خوبصورت اسلوب وانداز ، شعر کو موضوع ومضمون کبھی بھی مؤثر نہیں بناتا ہے بلکہ اسلوب نگارش ہی شاعرکو بڑا شاعر بناتا ہے۔ غزل کی طرح رباعی میں بھی سارے موضوعات برتے جاتے ہیں لیکن جو رباعی اپنے اسلوب میں نمایاں ہوگیا وہ کامیاب ہوا ۔ خواہ زندگی پر انیس کی رباعی ہو یا تصوف پر امجد حید رآبادی کی رباعی ،شرنگار رس پر فراق اور منظر نگاری پر جوش کی رباعیاں سبھی اسلوب کی بنا پر نمایاں ہوتی ہیں۔

’’ اب خاک جستجو‘‘ کی خاک چھانتے ہیں ۔ رباعیات تک پہنچنے کے لیے پچاس صفحات کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے پچیس صفحات میں دو نثر ی تحریریں ہیں جن میں اول تحریر ڈاکٹر واحد نظیر کی ہے جو ظفرکمالی کے فن رباعی کو پیش کرتی ہے اور دوسری تحریر محمد ولی اللہ کی ہے جو شخصیت کے درخشاں پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔دونوں تحریر یں فن اور شخصیت پر جامع اور مانع ہیں ۔ان مضامین پر گفتگو نہ کرتے ہوئے اصل متن کی جانب بڑھتے ہیں اور ردیف الف پر پہنچتے ہیں تویہاں موضوعاتی اعتبار سے رباعیوں کی ترتیب دیکھیں گے تو پائیںگے کہ شروع کی پانچ رباعیاں حمد کی ہیں ، سات رباعیا ں نعت نبیؐ پر ہیں اس کے بعد ایک رباعی عاجزی پر ہے پھر پانچ رباعیاں دعا پر ہیں ۔ اس ترتیب سے محسوس کرسکتے ہیں کہ پرانی روایت میں ہر کتاب کے شروع میں عربی میں خطبہ لکھنے کا رواج تھا وہ یہاں آپ کو رباعیات کی شکل میں پڑھنے کو ملتا ہے ۔فنی طور پر یہ عناصر اور بھی کئی تخلیقات میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے دیباچہ ہی رباعی کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ اس کے بعد مختلف افکار پر رباعیاں ملتی ہیں ۔ اردو شاعری میں عشق ایک کلیدی موضوع کے طور پر ہمیشہ نمایاں رہا ہے ۔رباعی میں بھی خوبصورت عشقیہ مضامین تخلیق کیے گئے ہیں ۔ یہاں پہلی جو عشقیہ رباعی ملتی ہے وہ کچھ اس طر ح ہے :

وہ لاکھ سہی تیز نہیں لڑسکتا 


فرہاد سے پرویز نہیں لڑسکتا 

آساں نہیں ہوتی یہ عشق کی جنگ 


اس جنگ کو چنگیز نہیں لڑسکتا 

عشق کو اردو شاعری نے جس فلسفیانہ طریقے سے پیش کیا ہے وہ اردو شاعری کا امتیاز بن گیا ہے ۔ اردو کا کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہوگا جس نے عشق پر شعر نہیں کہا ہو ۔ رباعی گو شاعر وں نے اس موضوع پر بے شمار رباعیاں کہی ہیں ۔یہ بھی عشق کے ہی موضوع پر ہے ۔ اس رباعی سے ذہن یقینا ’ عشق نہیں آساں ‘‘ کی جانب چلا جاتا ہے ، رباعی کی ایک خاصیت ہوتی ہے کہ اس کے تیسر ے مصرعے میں موضوع واضح ہوتا ہے بلکہ مدعا بھی اسی مصرعے میں ہوتا ہے جو اس رباعی میں بخوبی موجود ہے ۔ رباعی تلمیحات سے بھی مزین ہے لیکن قاری کے ذہن میں ایک بات ابھرے گی کہ کیا عشق مجازی کسی جنگ کا نام ہے ؟ عشق تو ایک کیفیت غیر مرئیہ کا نام ہے اور غیر مرئی چیزوں کی تقلیب نہیں ہوتی ہے ، تحصیل میں کچھ گنجائش نکل سکتی ہے لیکن کیفیت کو حاصل کرنا مشکل ہوگا گویا مادہ تو مل سکتا ہے لیکن وہ روح کہاں سے کوئی حکمراں جیت پائے گا جو عشق نام سے اس صورت جسمیہ میں موجودتھا ۔نیز جنگیں توارادی ہوتی ہیں جب کہ عشق تو غیر ارادی ہوتی ہے وہاں عقل سے کام نہیں لیا جاتا ہے ۔

اس کے بعد جو رباعی مذکو ر ہے اسے ان کا نمائندہ رباعی کہا جاسکتا ہے کیونکہ رباعی صرف موضوعات بر تنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ غزلیات کی طرح رباعیات کی بھی لفظیات ہیں جنھیں علامات و تلمیحات میں بخوبی استعمال کیا جا تا ہے ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں :

منصور کی خو ہے نہ ہے سرمد کی ادا 


دستار انا سر سے ہوئی کیسے جدا

چھایا ہے حواسوں پر کیا موسم قہر 


کیوں مرگ کے عالم میں ہے یہ خلق خدا

 منصور ، سرمد ، دستار ، انا ، حواس اور مرگ جیسے الفاظ کی بنت سے تخلیق کردہ اس رباعی کی جو فضابنتی ہے وہ صوفیانہ بھی ہے اور دنیا ئے فکرو نظر کی خاموشی کو بھی پیش کرتا ہے، یہ آج کے حالات کی بھر پور نمائندگی بھی کرتا ہے ۔ اس سب سے بڑھ کر اس رباعی میں روایتی موضوعات کی پاسداری کے ساتھ موجودہ وقت میں موضوع سے بیزاری کو بخوبی پیش کیا جارہا ہے ۔ 

 ردیف الف میں اور بھی کئی رباعیاں ہیں جو موضوعاتی اعتبار سے عمدہ ہیں ۔ سب سے زیادہ حالات کی ناہمواری کی کسک نظر آتی ہے جس میں یہ احساس دلاتے ہیں کہ عمل کی خواہش بہت ہی زیادہ ہے لیکن کسی طور بھی حالات نہیں بن پارہے ہیں کہ ان پر عمل در آمد کیاجاسکے ، ظلمت نے اس قدر انسا ن کو اپنے ماحول میں جکڑ لیا ہے کہ وہ چاہ کر بھی روشنی کی جانب قدم نہیں بڑھا پا رہا ہے ۔ فنی اعتبا ر سے تناسب الفاظ پر بحث ہوسکتی ہے اسی کے ذیل میں مصرعوں کی ترتیب کی بات ہوتی ہے ۔ کئی ایسے رباعی گو شعرا ہیں جن کے یہاں اہم بات پہلے ہی مصرعے میں آجاتی ہے جب کہ وہ آخر ی مصرعے کی زینت ہونی چاہیے وہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب تین مصرعوں میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کو اہم مانا جائے ۔

اس ردیف کی آخر ی رباعی کچھ اس طرح ہے: 

ہے گرم مگر لگتی ہے ٹھنڈی دنیا 

فرعون سے بڑھ کر ہے گھمنڈی دنیا 

رکھتی ہے بیک وقت ہزاروں شوہر 

کتنی ہے خطرناک یہ رنڈی دنیا 

اس رباعی کا آخری مصرع بہت ہی زیادہ چونکاتا ہے ۔کیا یہ اسلوب رباعی میں آپ کو کہیں دیکھنے کو ملا ہے ۔ ہاں ہزلیات میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن غزل ، نظم اور رباعی میں ایسا اسلوب آپ کو شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے ۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ حافظ شیرازی نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے ، ان کا شعر کچھ اس طرح ہے :

 مجو درستیِ عہد از جہان سست نہاد 

کہ این عجوزہ عروسِ ہزار داماد است 

(کمزور بنیاد کی دنیا سے عہد کی پختگی نہ ڈھونڈ ،اس لیے کہ یہ بڑھیا ہزار شوہر وں کی دلہن ہے )

دونوں کے موضوعات میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔ حافظ کے یہاں عہد و وفاکی بات ہے کہ یہ دنیا کسی سے بھی عہدووفا نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ہزار شوہروں کی دلہن ہے ، جبکہ ظفر کمالی کبرو نخوت کی بات کرتے ہیں اور قافیہ کے تتابع میں ایک ایسا لفظ لاتے ہیں جو موجودہ وقت میں شرفا کی زبان میں نہیں آسکتا اسی وجہ سے آخر ی مصرع ایک مکمل گالی کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ یہ سب کچھ قافیے کے تتابع میں ہوا لیکن نہ تو یہ سنجیدہ شاعری کا اسلوب ہے اور نہ ہی رباعی کا ۔ 

ردیف ت کی پہلی اور ردیف چ کی دوسری رباعی میں شاعری کی بات کی گئی ہے ۔ دونوں رباعیاں ملاحظہ ہوں :

ٹیڑھے نہ بنو کہو سدا سیدھی بات 

اس سے روشن ہوگی تاریک حیات

انصاف کرو سدا معانی کے ساتھ

شاعر تو نہیں کرتے لفظوں سے گھات


ہے تیز بہت تیری گفتار کی آنچ

دھیمی ہی رہے پیارے افکار کی آنچ 

جب دل میں سلگتی ہے دھیرے دھیرے

تب رنگ دکھاتی ہے اشعار کی آنچ

دونوں رباعیوں کو جب غور سے دیکھیں گے تو تدریج نظر آئے گا ، ساتھ ہی جو تخاطب کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اس سے اس بات کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ شاعر کے دل میں ضرور کوئی ایسا کردار رہا ہوگا جس کے لیے اس نے مندر جہ بالا رباعیاں کہی ہیں ، لیکن ہم تو اسے عمومی امر میں دیکھیں گے تو ایسا احساس ہوگا کہ یہ کسی خاص عہد کے لیے کہا گیا ہے جب مغلق زبان استعمال کرنے کا فیشن چل نکلا تھا اور دور کے معانی تلاش کیے جاتے تھے ورنہ شاعری میں جو اجمال و احتما ل کی کیفیت ہوتی ہے وہی اس کی شان و پہچان بھی ہوتی ہے جہاں معانی ہی مختص نہیں ہوتے ہیں جبکہ نثر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں معنی تو متعین ہوتا ہے اگر معنی واضح نہ ہو تو پھر وہ جملہ تصحیح کے قابل ہوتا ہے ۔ دوسری رباعی کچھ زیادہ ہی خاص ہے ، اس رباعی سے عنصر المعالی کیکاؤس کی کتاب قابوس نامہ کی یاد آجاتی ہے جہاں وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ شاعری کیسی کرنی چاہیے۔ فنی اعتبارسے دیکھیں تو دوسری رباعی پہلی سے زیادہ عمدہ ہے کیونکہ پہلی رباعی کے دونوں اشعار اپنے آپ میں مکمل ہیں جبکہ دوسری رباعی میں پیغام چوتھے مصرعے میں جاکر واضح ہوتا ہے جو رباعی کی خوبصورتی ہے ۔ 

اسی طریقے سے اگر ہر ردیف کی رباعیوںکا جائزہ لیا جائے تو یہ مضمون بہت ہی طویل ہوجائے گا ،کیونکہ ہر ردیف میں انہوں نے ایسی رباعیاں پیش کی ہیں جن میں زندگی کے تجربات اور نادرخیالات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے اورموضوعاتی سطح پر ان کے یہاں رباعیوں میں بہت ہی زیادہ رنگینیاں پائی جاتی ہیں ۔کچھ موضوعات پرانے اور کچھ نئے ہیں ۔جیسا کہ مذہب کا موضوع رباعی کے لیے جسم و لباس کی طر ح چلتا آرہا ہے یعنی رباعی کے لباس میں سے ایک لبا س مذہبی افکار کا رہا ہے ،یہ الگ با ت ہے کہ کسی نے عشق کے لباس کو زیادہ پہنا یا تو کسی نے لباس فطر ت کو رباعی میں پیش کیا ہے ، لیکن ظفر کمالی کی مذہبی رباعیوں میں طلب رشد و ہدایت نظر آتی ہے، کہیںاستدعا نظر آتا ہے تو کہیںاقبال کے رنگ کو اپنی رباعی میں پیش کرتے ہیں ۔اقبال کے یہاں مذہب اگر چہ سماجی اور قومی فلاح و بہبود کے لیے ایک قطب نما کے طور پر ابھر تا ہے لیکن ظفر کمالی کے یہاںیہی موضوع ایک داخلی کرب و احساس اور وقت حاضر کے پریشان دماغ کی عکاسی کر تا ہوا نظر آتا ہے :

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا 

اقبال ؔ

ذرہ ہوں ستاروں کی چمک دے یارب 

کر دار میں پھولوں کی مہک دے یارب

بے چین جو دکھیاروں کے دکھ سے ہوجائیں 

سینے میں وہی درد و کسک دے یارب 


جاہل ہوں مجھے علم کی تنویر بھی دے

آئینے کو میرے نئی تصویر بھی دے 

احساس کی جاگیر بھی کر مجھ کو عطا

خوابوں کو میرے خیر کی تعبیر بھی دے 


تاریک نگاہوں میں چمک دے یارب

چہرہ ہے میرا زرد دمک دے یارب 

قارون کے خزانے کی طلب مجھ کو نہیں 

کھانے کے لیے نان نمک دے یارب 

ظفر کمالی کی رباعیوں میںجو موضو ع ہمیںغالب نظر آتا ہے وہ اظہار حق ہے یعنی ان رباعیوں میں وہ ہمیں حق کی پہچان کراتے ہیں ۔ان رباعیوں میں رباعی گو اکثر اپنی حکمت بالغہ کے تحت حکیمانہ باتوں کو  حق کی شنا خت کے لیے رباعی کے پیکر میں ڈھال کر پیش کر تے ہیں ۔ اس پیش کش میں کہیں مفکر انہ اندا ز ہوتا ہے ، کہیں حاکمانہ انداز تو کہیں سادگی کے ساتھ دل پر کوئی بات ثبت کر جاتے ہیں اور کہیں ظرا فت کی زیریں لہروں میں باطل پر طنز کے ساتھ حق بات کی خبر دے کر اپنے فن کی سیرابی کر تے ہیں ۔ اس معاملہ میں ظفر کمالی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں جو حکمت پیش کر تے ہیں اس میں انہوں نے ظرافت اور احتجاج کا ملا جلا اثر رکھا ہے۔ کچھ رباعیوں میں وہ جھنجھلاہٹ کاشکا ر بھی نظر آتے ہیں اور سامنے والے کو چیلنج کر تے نظر آتے ہیں اور کہیں کہیں تو ہمت کا جذبہ بھی ہار جاتے ہیں :

دلدوز ہی تحریر لکھی جائے گی

جب خواب کی تعبیر لکھی جائے گی

اب میری تمناؤں کے خوں سے شاید

اس ملک کی تقدیر لکھی جائے گی 


نایاب ہے اب ایسی دانائی کی بزم 

افکار کی، گہر ائی کی، گیرائی کی بزم

دیکھوگے تو حیرت میں پڑ جاؤگے

میں کیسے سجاتا ہوں تنہائی کی بزم 


ظالم ہو قصائی کی طرح لگتے ہو

شیطان کے بھائی کی طر ح لگتے ہو

ایمان کوئی تم پر لائے کیسے 

تم جھوٹی خدائی کی طرح لگتے ہو

ان کی رباعیوں میں جہاں دوسر ے شاعروں کارنگ نظر آتا ہے وہیں ظرافت میں اکبر ؔ کا رنگ بھی نظر آتا ہے :

آتی ہیں نظر ایسے کنواری مائیں 

آوارہ پھرا کرتی ہیں جیسے گائیں 

جب شہر سبھی ہوگئے لندن کی طرح 

کر تے ہیں ظفر ناحق ہائیں ہائیں 


شوہر تو گئے گلف کمانے کے لیے

بکری ہو کہ اونٹ چرانے کے لیے 

دیہات میں بیگم کا دل لگتا نہیں 

شہر آتی ہیں وہ دل کو لگانے کے لیے 

ظفر کمالی وقت کے نباض کے طور پر اپنی رباعیوں میں نظر آتے ہیں، وہ اکثر مقامات پر ہوس پرستی ، لالچ ، انا پرستی ، شہرت پسندی ، بے عملی جیسی چیزوں پر طنز کرتے ہیں ۔اصل میں ایک سچا فن کار اور انسانیت سے بھر پورشخصیت جب دنیا کے جھمیلوں میں پڑتا ہے اور اپنی بصیر ت کی نظر اس پر ڈالتا ہے تو ہر مقام پر وہ شاکی دل و نظر کے ساتھ شکایت کر تا ہوا نظر آتا ہے ۔آخر ایک درد مند دل رکھنے والا انسا ن خود کی زبان و بیان پر کب تک قابو رکھ سکتا ہے ۔ مقصد اگرچہ اصلاح یا پند ونصیحت نہ ہو لیکن جب ایک شاعر اپنی نظر سے معاشر ے کو دیکھتا ہے تو اپنا رد عمل بھی شاعرانہ انداز میں پیش کر تا ہے ۔مطلق شاعر اور رباعی کے شاعر میں نمایاں امتیاز  یہی ہوتا ہے کہ مطلق شاعر خیال کی باریکی کو انوکھے انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں لگا رہتا ہے جب کہ رباعی گو شاعر کے سامنے جملہ لوازمات رباعی کے ساتھ ایک پیغام بھی ہوتا ہے جو رباعی گو کے تجر بہ پر منحصر ہوتا ہے :

دن رات عبادت کی پریشانی میں 

محنت نہ چلی جائے کہیں پانی میں

یوں سر کو پٹکنے کا حاصل کیا ہے 

سجدوں کی تڑپ نہیں جو پیشانی میں 


مت رکھو کبھی بغض کے زینے پر پاؤں 

رکھنا ہے تو رکھ دل کے کینے پر پاؤں

تو راہ صداقت سے نہ کھنچ اپنے قدم 

رہنے دے شیطان کے سینے پر پاؤں 


محبوب سبھوں کو ہے انا کا جامہ 

مطلوب کسے نہیں ریا کا جامہ

لوگوں نے اسے اتار پھینکا ہے ظفر

جسموں پہ کہاں رہا حیا کا جامہ 


جو جھکنے کی منزل پہ اکڑجاتی ہیں 

قومیں وہ نہیں بنتیں بگڑ جاتی ہیں 

اخلاق کی میراث اگر لٹ جائے 

تہذیب کی سانسیں بھی اکھڑ جاتی ہیں 

اکیسویں صدی کی کیا شروعات ہوتی ہے کہ دنیا گلوبل ولیج بن جاتی ہے ۔ جہاں تہذیب و معاشرت بھی  یکساں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، تہذیبوںمیں عدم امتیاز کا پہلو عروج پر ہے   ۔ جہاں استاد معلم و مربی ہو تا تھا اب استادصر ف ہوم ورک دیکھنے کا ایک ملازم ہوگیا ہے ۔ اب تمام ناجائز کاروبار یا ممنوع پیشے نئے ناموں کے ساتھ حلال کمائی میں شمار ہوتے جارہے ہیں۔ اقدار بدل گئیں، رہن سہن کا انداز کچھ مہینوں میں بدل جاتا ہے بالآ خر ایک شاعر تہذیب اور معاشر ت کے اس دردو کرب سے کہاں تک خود کو بچا سکتا ہے ۔ظفر کمالی نے ان رستے ہوئے زخموںکو محسوس کیا اور رباعیات میں پیش کردیا ۔ان رباعیات سے اپنی صدائے احتجاج بلندکر تے ہیں کہ آخر ہم کہاں تھے اوراب ظاہر ی چمک دمک سے مر عو ب ہو کر اسی کو بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی میں داخل کر لیتے ہیں جو مارکیٹ ہمیں مہیا کراتی ہے :

رشتوں کی پذیرائی میں کیا رکھا ہے 

ماں باپ بہن بھائی میں کیا رکھا ہے 

مانا کہ برائی تو برائی ہے، مگر 

اس دور کی اچھائی میں کیا رکھا ہے 


ہم جنس پر ستی میں بڑھے جاتے ہیں 

زینے پہ تر قی کے چڑھے جاتے ہیں 

مشر ق کا ہمیں یاد سبق کیسے رہے 

مغرب جو پڑھا ئے وہ پڑھے جاتے ہیں 


اب خواب ہے دیوانے کا پوری پوشاک 

ہر جسم پہ ہے آدھی ادھوری پوشاک

فیشن کی ترقی کا جو یہ حال رہا

کچھ دن میں نہیں ہوگی ضروری پوشاک


شہرت کی ہوس میں وہ گر فتا ر ہوئے 

چڑھتے ہوئے سورج کے پرستار ہوئے 

آنکھو ں میں نہیں ان کی حیا کا پانی

جو یار ہمارے تھے وہ عیار ہوئے 

ظفر کمالی نے شخصیات پر بھی عمدہ رباعیاں پیش کی ہیں خواہ و ہ رباعیاں بطور شخصی مرثیہ ہوں یا شخصی قصیدہ ۔انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ ٔ رباعیات میں انور جمال پاشا، حنیف نقوی، ناوک حمزہ پوری، طلحہ رضوی برق، اعجاز علی ارشد ، کوثر سیوانی اور التفات امجدی کے متعلق بہت ساری رباعیاں کہی ہیں۔اس کے بعد جب انہوں نے دوسرا رباعیوں کا مجموعہ شائع کیا تو اس میں بھی بدستور یہ سلسلہ برقرار رکھا اور’’ رباعیات ظفر‘‘ میں قاضی عبدالودود ، کلیم الدین احمد ، کلیم عاجز ، شہاب ثاقب، سید حسن عباس ، بسمل رانی پوری ، عامر سبحانی ، صفدر امام قادری، اظہار ندیم اور اپنی شر یک حیات کے نام سے موسوم کیا ہے ۔اس کے علاوہ مر ثیے اور سہرے بھی رباعی کے پیرا ہن میں پیش کیے ہیں ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں :

فن کاروں کی صف میں تو شامل ہی نہیں ؟

یا فن کی عدالت میں عادل ہی نہیں ؟

کیوں تجھ سے گریزاں ہیں نقاد ظفر ؔ

تو کچھ بھی نہیں ؟ ذکر کے قابل ہی نہیں 

ظفر کمالی کی یہ رباعی اور مندرجہ بالامیں سے کچھ خاص نام دونوں کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو قاری کے ذہن میں عجیب کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ظفر کمالی نے یہ ساری رباعیات رسم نبھانے کے لیے کہی ہیں یا یہ باور کر انے کے لیے کہ رباعی کا ایک شعبہ یہ بھی ہے جسے شخصیت شناسی کا شعبہ قرار دیا جاسکتا ہے جس پر زبان کھولنا بہت ہی مشکل ہو تا ہے کہ اگر ہم رباعی کے سانچے میں کسی کی شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں توخوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں وہ مکمل مداحی نہ بن جائے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے یا رباعی میں خاکہ پیش کر رہے ہیں تو وہ ہجو کی صورت نہ اختیار کر جائے ۔پھر بھی ان موضوعات پر رباعی کہنا اور اتنا کہنا کہ کتاب میں سے اگر منتخب کیا جائے تو ایک تہائی حصہ مختص ہوسکتا ہے :

جھجکے نہ قلم دل میں نہ ہو کوئی کسک

ظالم کو لکھو شوق سے ’’ماتھے کا تلک‘‘

مل جائے گی اردو کی حکومت تم کو 

قدموں میں چلا آئے گا شہر ت کا فلک 

رباعی کے سانچے میں اپنے خیا لات کو پیش کر نا خو د ایک دشوار کن مر حلہ ہوتا ہے پھر جب شخصی رباعی کہی جائے تو نظر اس بات پر رہتی ہے کہ شاعر موصوف اور فن کے ساتھ کتنا انصاف پرورہے ۔اس معاملہ میں ظفر کمالی کے اند رایک خاص بات یہ نظر آتی ہے کہ وہ شخصیت کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں جس کے لیے وہ شخصیت جانی جاتی ہے اور حقیقتاً وہ اس حق کی حقدارہے۔ان اشخاص کو اپنی رباعیوں میں جگہ دیتے ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں ۔ عمو ماً یہ ہوتا ہے کہ اشخاص پر لکھی گئی چیزوںکو لوگ نظر اندازکر دیتے ہیں لیکن جب شخصیت معلوم ہو اور وہ شخص ایک مینارہ کی حیثیت رکھتا ہو تو اس کے متعلق پڑھنے کی للک ہمیشہ رہتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ظفر کمالی نے مشہور شخصیات کو اپنی رباعیوںکا موضوع بنایا ہے ۔ جب رباعی کہتے ہیں تو پہلے مصر عے میں ان کی ذات ابھر تی ہے جن کے متعلق رباعیاں کہی جارہی ہیں اور دوسرے مصر عے میں فورا ً روشنی ان کی ذات سے ان کے معاصر ، ان کے نکتہ چیں یا خوشہ چیں کی جانب ہوجاتی ہے اور آخر ی مصر عے میں پوری شخصیت کو وہ ابھارتے ہیں ۔اس طر یقے کی بہت ساری رباعیاں ان کی کامیاب رباعیوں میں ہم شمار کر سکتے ہیں ۔

قاضی عبدا لودود

سچے ہیں ، یہ سچ بولیں گے ، وہ بھانپتے تھے 

جھوٹے تو انہیں دیکھ کے منہ ڈھانپتے تھے 

تھی سہل پسندوں میں دہشت پھیلی 

یہ نام ہی سنتے تھے تو وہ کانپتے تھے 

کلیم الدین احمد

عالم تھا عجب اس کی بے باکی کا 

شکوہ تھا بہت اس کی سفاکی کا 

وہ وقت بھی آیا کہ سبھی مان گئے 

کچھ توڑ نہ تھا اس کی درّاکی کا 

کلیم احمد عاجزؔ

غالب سے نہ مومن سے نہ دلگیر سے ہے 

لیلی سے نہ شیریں سے نہ تو ہیر سے ہے 

بیٹھا ہے لٹا کر وہ دل کی دنیا 

اس کو تو دلی ربط فقط میر سے ہے 

سلطان اختر 

فن کے افکار نہ کیوں سچے ہوں 

یہ حق کے طرف دار نہ کیوں سچے ہوں 

جب روح کی گہرائی سے یہ نکلے ہیں

سلطان کے اشعار نہ کیوں سچے ہوں

شخصی رباعیات کا ایک باضابطہ مجموعہ ’’سوغات ‘‘ کے نام سے 2023 میں شائع ہوتا ہے ۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ صفدری رباعیاں ہیں ، اس مجموعہ میں کل125رباعیاں ہیں اور سبھی پروفیسر صفدر امام قادری پر کہی گئی ہیں ۔ رباعی کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ایک ہی شخصیت پر کہی گئی رباعیوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے ، یہ اس کڑی میں ایک خوش کن اضافہ ہے ۔ اگر سوغات کی ساری رباعیوں کا تجزیہ کیا جائے تو پروفیسر صفدر امام قادری کا ایک خوبصورت خاکہ سامنے آجاتا ہے ۔ کتاب میں شامل مضمون میں ڈاکٹر امتیاز وحید لکھتے ہیں : 

’’ یہ رباعیاں در اصل شخصی مرقعے ، خاکہ اور سوانح کی قبیل کی چیزیں ہیں ، جن کا بنیادی محرک رشتوں کا تحفظ اور اس کا احترام ہے ۔ شاعری کی اپنی طاقت ہوتی ہے ۔ شاعرکو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ صراحت کے بغیر اپنی بات کہہ سکتا ہے ۔ ان رباعیوں کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ظفر کمالی نے صفدر صاحب کی زندگی کے ایک ایک پہلو کو نظم کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو صراحت کے ساتھ پیش کیا اور جب کسی ایک آدمی پر اتنی بڑی تعداد میں رباعیاں کہی جائیںگی تو اس کی زندگی کے مختلف پہلو آئیںگے ہی ۔ ‘‘ 

مذکورہ بالا اقتباس کی تصدیق کے لیے ’’سوغات ‘‘ سے صرف دورباعیاں ملاحظہ فرمائیں : 

ٹھوکر میں رکھے اونچے دربار کے بت 

پوجے نہیں اس نے غلط افکار کے بت 

صفدر ہے تو باطل کی صفوں میں گھس کر 

توڑے ہیں اس نے بہت پندار کے بت


دشنام کے پتھر بھی چلے ہیں اس پر 

بہتان کے خنجر بھی چلے ہیں اس پر

ایسے ہی نہیں اسے سرفرازی ملی 

احساس کے نشتر بھی چلے ہیں اس پر

اردو کی شاید ہی کوئی ایسی صنف سخن ہو جس میں بچوں کے لیے کچھ نہ تخلیق ہوا ہو ، نظم و نثر تقریبا ًتمام اصناف میں آپ کو ادب اطفال مل جائے گا ، لیکن کچھ ہی اصناف ہیں جنہوں نے ادب اطفال میں زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ اول نظمیں، دوم کہانیاں ۔ نظموں میں بھی صرف پابند نظمیں ہی ہیں جن کی مقبولیت کو اب تک کوئی پہنچ نہیں سکا ۔ وقت حاضر میں نثر ی نظمیں سب سے زیادہ لکھی جارہی ہیں لیکن اس ہیئت نے اپنے اندر وہ صلاحیت ہی نہیں پیدا کی کہ وہ ہرطرح کے موضوعات کو اپنے اندر ڈھال سکے اور نہ ہی خارجی ہیئت ایسی ہے کہ بچے کو متاثر اور متوجہ کرسکے ، اسی طریقے سے نثر میں کہانیوں کے علاوہ دیگر اصناف نے بہت کم بچوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ، پھر بھی کثیر تعداد میں بچوں کے لیے ناول لکھے گئے ہیں ۔ ایسے میں بچوں کے لیے رباعیاں کہنا بہت ہی زیادہ خوش کن امر ہے ۔ رباعیوں میں حکمت و دانائی کے موضوعات بہت ہی زیادہ مقبول رہے ہیں اور بچوں کو ایسے موضوعات اپنی جانب بہت ہی زیادہ راغب کرتے ہیں ایسے میں ادب اطفال میں رباعی کا ہنر دکھا نا انفرادیت لاتا ہے ۔ ظفر کمالی نے ’چہکاریں ‘ میں بچوں کے لیے جو رباعیاں پیش کی ہیں ان کے مطالعہ سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ رباعی کے لیے ادب اطفال کی زمین زرخیز ہے۔ ادب اطفال کی تنقید جب بھی کوئی ناقد لکھے گاتو وہ زبان میں سلاست و روانی اور غیر پیچیدگی کو ضرور پیش کریگا۔ اگر یہی عناصر رباعی میں بہت ہی اچھے سے نظر آنے لگ جائیں تو مجھے امید ہے کہ بچوں کی رباعیاں بچوں کی نظموں کے مقابل ضرور آجائیں گی ۔ ’چہکاریں ‘ سے چند رباعیاں ملاحظہ فرمائیں : 

کلّی چھوٹی بڑا ہو تو کِلاّ

پلّی کا بھائی ہوتا ہے پلاّ

لیکن ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو 

کب سمجھے گا میرا باگڑ بلاّ


اتنا بھاری بستہ کیسے ڈھوؤں 

کیا اس میں ہی ساری طاقت کھوؤں 

ٹوٹی جائے ریڑھ کی ہڈی اس سے 

ہنسنے کے دن ہیں لیکن میں روؤں 


کیا میں ہوں دنیا کو دکھلاؤں گا 

پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جاؤں گا 

پیسے جو کماؤں گا تو سب سے پہلے 

دادی کو میں نئے دانت لگواؤں گا 


کیوں لوگ پلاتے ہیں نصیحت کے گھونٹ

ہیں میرے لیے صرف فضیحت کے گھونٹ 

تم یہ نہ کرو ، یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو 

پیتا ہے کوئی اتنی مصیبت کے گھونٹ 

مذکورہ بالا رباعیات اور ماقبل میں جتنی بھی رباعیات بطور مثال پیش کی گئی ہیں ، ان سب سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ظفر کمالی نے رباعیوں کو اچھے طریقے سے برتا ہے ، لیکن رباعیوں کا مزاج و منہاج اسلوب کی سطح پر بدلا ہے اس سے امید ہے کہ رباعی شاید کبھی اپنی عظمت رفتہ کو پاسکے ۔  صرف رباعی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غزل و نظم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ، اب تو پابند نظمیں بہت ہی کم کہی جارہی ہیں اور نثری نظموں میں جو بکھراؤ ہے وہ نظمیہ شاعری کی فطر ت کے خلاف ہے۔ الغرض جملہ اصناف شاعری میں ایک طرح کے تغزل و نظمیت کی کمی کا احساس بہت ہی شدت سے پایا جارہا ہے ۔ امید ہے کہ تخلیق کار اس جانب ضرور توجہ دیں گے ۔




Monday 5 February 2024

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘





 نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

   

شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد اگر وہ دہلی میں ہے اور اسے خبر مل جائے کہ اردو اکادمی ،دہلی کا مشہور و معروف خالص ادبی جشن ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے تور یسرچ اسکالرس ، فکشن نگار اور شعرا کے چہروں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ اس مرتبہ بھی دیکھنے کو ملا ، دوست احباب کے فون آنے شروع ہوگئے کہ ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے دیکھتے ہیں اس مرتبہ اردو ادب کا سفرکیسا رہتا ہے ۔ ساتھ ہی پروگرام کا مقام اردو اکادمی دہلی سے دور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونا بھی سبھی کے لئے باعث مسرت تھا ساتھ ہی اکادمی کے کارکنا ن کے لیے ایک امتحان سے کم نہ تھا ،لیکن سبھی کمر بستہ تھے ۔ 

جوان اور بزر گ قلمکاروں کے اس ادبی اجتماع کا اشتہاراخبار میں شائع ہوتا ہے ساتھ ہی نظام الاوقات بھی سوشل میں پوسٹ ہونا شروع ہوجاتا ہے، جنہیں پرو گرام میں حصہ لینا تھا انہیں سوشل میڈیا میں ہی مبارکبادیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ جنہیں مقالہ پڑھنا تھا وہ تیاری میں لگ گئے ، افسانہ نگار نئے افسانے کی تخلیق میں جٹ گئے اور شعرا کے ذہن میں یہ چلنے لگا کہ وہ اپنی کون سی غزل پیش کریںگے ۔ 

  نئے پرانے چراغ کے افتتاح یعنی 18 دسمبر کا دن آپہنچا ۔ ان پانچ دنوں میں کل چودہ اجلاس منعقد ہونے ہیں ، جن میں تقریبا ً چار سو پچھتر شعرا و ادبا حصہ لے رہے ہیں۔ دوپہر بعد تین بجے جوان اور برز رگ قلمکاروں کے اجتماع کا افتتاحی اجلاس منعقد ہونا ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم کے دائیں جانب کی بلڈنگ میں تھا ، یعنی اگر آپ نو تعمیر صدی گیٹ سے داخل ہوتے ہیں تو انصاری آڈیٹور یم سے جیسے ہی آگے بڑھیں گے تو دائیں جانب ایک تین منزلہ سفید عمارت نظر آئے گی جو بڑے بڑے درختوں سے بھی ڈھکی ہوئی ہے وہ عمارت فخر الدین ٹی خوراکی والا کے نام سے بھی موسوم ہے اسی میں سینٹر فار انفارمیشن ٹکنا لوجی ہے جسے مخفف میں سی آئی ٹی کہا جاتا ہے ۔ ابھی تین بجنے میں کچھ وقت باقی تھا اردو اکادمی کے کارکنا ن تنظیم و ترتیب میں لگے ہوئے تھے ۔ عمارت کے باہر ہی میں بھی کھڑا تھا کہ ایک کار آکر عمارت کے سامنے رکتی ہے، تو دیکھتا ہوں کہ اس کار سے پروفیسر عبدالحق صاحب اتر رہے ہیں ۔ اتر تے ہی ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ اتنا اندر اور دور آپ لوگوں نے کیسے پروگرام رکھا ؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ اردو پروگراموں کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔ سر دی کی مناسب سے رنگین کرتا پاجامہ اور گرم کپڑے کے ساتھ گر م جوتے بھی زیب تن کیے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے عصا کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے سمینار روم کی جانب چلے جاتے ہیں اور مقررین و سامعین میں سے یہ پہلے فرد ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے ہی تشر یف لاتے ہیں۔ بشری ضرورتوںسے فارغ ہوکرسمینار ہال میں بیٹھتے ہیں کہ دیگر مہمانان کی آمد شروع ہوجاتی ہے اور پندرہ منٹ کے اندر اندر کثیر تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ دائیں بائیں سے آواز بھی آنے لگتی ہے کہ پروگرام کب شروع ہوگا ۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ بس پانچ میںمنٹ میں آپ سبھی کو چائے پیش کردوں پھر پروگرام شروع کرتے ہیں ۔ مہمان آچکے تھے ، سامعین سے ہال بھرچکا تھا کہ سبھی کو عمارت سے باہر شامیانہ میں بلا یا جاتا ہے جہاں سبھی کے لیے چائے کے ساتھ ناشتہ بھی پیش کیا جارہا تھا ۔ طلبہ اور اساتذہ ، بزرگ اور جواں قلمکار خوش گپیوں میں مصروف ہوکر چائے کا مزا لیتے ہیں اور پھر سمینار ہال کی جانب لوٹ جاتے ہیں ۔ اسٹیج پر تر تیب سے پانچ کرسیاں لگی ہوئی تھیں ٹیبل کے سامنے رنگ برنگ پھولوں کے پودے تین قطار میں منظم طریقے سے سجائے گئے تھے ۔ ساڑھے تین بج چکا تھا کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر خالد مبشر استاد شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سپرد کی جاتی ہے ۔ہال میں لوگ باتیں کرنا بند کرچکے تھے کہ ناظم کی صدا بلند ہوتی ہے کہ وہ رسمی کلمات کے بعد صدر اجلاس پروفیسر عبدالحق کو دعوت اسٹیج دیتے ہیں ۔ اس کے بعد مہمانان خصوصی ، پرو فیسر خالد محمود ، پروفیسر شہپر رسول اور مہمان اعزازی پروفیسر چندر دیو یادو سنگھ صدر شعبہ ہندی جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ناظم صاحب ایک مختصر سی گفتگو سامعین کو مخاطب کر تے ہوئے کرتے ہیں جس میں نئے پرانے چراغ کی اہمیت کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہیں اور ستائیس سالہ اس سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ناظم صاحب سب سے پہلے دعوت سخن دیتے ہیں پروفیسر چندر دیوسنگھ کو ۔ ان کی گفتگو اردو ہندی کی لسانی ماخذ سے شروع تو ہوتی ہے ساتھ ہی ان کے اسلوب گفتار میں اردو ہندی کی مشترکہ لفظیات سامعین کو ہمہ تن متوجہ ہونے کو مجبور کر دیا تھا جس میں وہ تحقیقی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھا جائے تو بھارت میں دو ہی اوریجنل شاعری ہے رامائن اور مہا بھارت ، بعد کے لوگوں نے انہی سے متاثر ہوکر لکھا ہے اور نئے چراغ ہمیشہ اسی میں بدلاؤ لاتے رہتے ہیں ۔پروفیسر چندر دیو سنگھ اپنی مختصر اور جامع گفتگو کر کے اسٹیج سے رخصت ہوتے ہیں کہ ناظم اجلاس مختصر تعارف کے بعد اردو اکادمی دہلی کے سابق چیئر مین پرو فیسر شہپر رسول کو دعوت سخن دیتے ہیں ۔ پروفیسر شہپر رسول اپنے مخصوص اور خوبصورت وضع قطع کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اصحاب اسٹیج کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی بات شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اردو اکادمی دہلی نے اکادمی کے نئے نئے عوامی اور ادبی پروگراموں سے اردو کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس میں اردو اکادمی کا ایک مخصوص پرو گرام جشن وراثتِ اردو کا خصوصی کردار رہا ہے ، پہلے وہ جشن لال قلعہ کے وسیع و عریض میدان میں منعقد ہوتا تھا بعد میں وہ کناٹ کے پلیس کے سنٹرل پارک میں منعقد ہوا۔نئے پرانے چراغ کس طرح شروع ہوا اس میں وہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر صادق کا ذکر کرتے ہوئے علی گڑھ کی ایک نشست کا بھی ذکر کرتے ہیں جہا ں سے اس پروگرام کا خاکہ تیار ہوا تھا ‘‘ ۔ موصوف کی اس بات سے ذہن ان رنگا رنگ پرواگرمس کی جانب منتقل ہوگیا کہ کس طرح کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک کو سجایا جاتا تھا ، داخلہ گیٹ کیا خوبصورت ہوتا اور استقبالیہ تو قابل سماعت ودید دونوں ہوتا تھا ، خیر پروفیسر شہپر رسول کی بات مبنی بر حقیقت تھی ۔ اس افتتاحی اجلاس میں اسٹیج پر اردو اکادمی دہلی کے ایک اور سابق وائس چیئر مین پر فیسر خالد محمود بھی رونق افروز تھے ، موصوف اپنے مخصوص وضع قطع سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں کوٹ پینٹ ٹائی کے ساتھ تازہ تازہ کلین شیو بھی تھ۔ اتفاق سے وہ ناظم اجلاس کے استاد اور پی ایچ ڈی کے نگراں بھی رہے ہیں تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ناظم نے انہیں اسٹیج پر بلانے کے لیے کس واجبی یالازمی تکلفات کا اظہار کیا ہوگا ۔ خیر پر وفیسر خالد محمود اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور بہت ہی ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے ہیں ۔عوامی مقامات اور خصوصاً طلبہ کے مابین ان کی گفتگو کا جوانداز ہوتا ہے وہ ان کی وہاں کی گفتگو میں بھی بخوبی جھلک رہا تھا۔ نئے پرانے چراغ اور اردو اکادمی دہلی کی کارکردگیوں سے گفتگو شروع ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’  اکادمی کے اس پروگرام میں ہر سال آپ کو نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں اور اردو کا یہ ایک ایسا خالص ادبی پرو گرام ہے جو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اس کی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ، ہماری یہی خواہش ہے کہ ہر سال اکادمی یہ پروگرام جامعہ میں ہی منعقد کرے کیونکہ جامعہ اردو کا گہوارہ ہے ۔ خالد محمود صاحب کی زبان سے جیسے ہی گہوارہ کا جملہ مکمل ہوا سامعین کی جانب سے ان کی بات کی تصدیق کی تالیاں بجنے لگیں ۔ لیکن کچھ سامعین کے اذہان ماضی میں کھوگئے کہ جامعہ کا قیام سے لے کر اب تک اردو کا سفر کیسا رہا ہے اورموجودہ وقت میں جامعہ اردو کے ان اداروں کو کسی طرح سینچ رہی ہے جسے اکابرین وراثت میں چھوڑ کر گئے تھے اور ابھی اردو کے گہوارے میں اردو کی صورتحال کیا ہے ۔ مہانان کی گفتگو کے بعد باری آتی ہے صدارتی کلمات کی ، اتفاق سے سارے مہمانا ن کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تھا جب کہ صدر محتر م پروفیسر عبدالحق صاحب کا تعلق دہلی یونی ورسٹی سے ہے ۔ انہیں بھی بصد احترا م ناظم صاحب اسٹیج پر بلاتے ہیں، صدر اجلاس اپنی عصا کے بغیر ہلکے ہلکے قدموں سے اسٹیج پر پہنچتے ہیں اور اردو اکادمی دہلی کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ اکادمی نے وہ خدمات انجام دی ہیں جو دیگر بڑی اکادمیاں اور کونسلس نہیں دے سکیں، افراد ساز اور ادیب گر میں ارد و اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے ، کیونکہ یہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے ادب کے گنگا جمنی تہذیب کے کارواں کو لے کر چل رہی ہے ، مشاعروں اور ادبی محفلوں کے معاملے میں مقدم ہے ہی ساتھ ہی طباعت میں لگاتار انہوں نے وہ کتابیں شائع کی ہیں جو دیگر اکادمیوں کے حصے میں نہیں آئی ہیں ۔ اتفاق سے صدر محتر کی اس گفتگو سے ہی اگلے دن کے لیے اخبار کی سرخی نکل آتی ہے کہ ’’ افراد ساز اور ادیب گر میں اردو اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے‘‘ یہ سرخی اکادمی کی ہمہ جہت کارکر دگی کو سمیٹے ہوئی تھی ۔ صدر محتر می کی تقریر کے بعد اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے ، پھر سبھی انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم کی جانب قدم بڑھا تے ہیں جو سی آئی ٹی سے کوئی دو سو قدم کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ 

جب اس آڈیٹوریم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں سمینار ہال کی مناسبت سے افراد کی تعداد دوگنی ہے شعرا اور سامعین اپنی نشستوں میں تشریف فرما ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے ناظم مشاعر پروفیسر رحمن مصور نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں اور صدر مشاعر ڈاکٹر جی آر کنول کو اسٹیج پر دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی چند بزرگ شعرا کو بھی دعوت اسٹیج دیتے ہیں اور انھیں کے ہاتھوں شمع روشن کی رسم بھی ادا ہوتی ہے۔ آڈیٹوریم بھرا ہوا تقریباً اسی شاعروں کو پڑھنا ہے اور اس محفل و شعر و سخن کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ چارگھنٹے کا ہے ، شاعروں کی فطرت ہے کہ وہ ایک غزل میں کہاں رکنے والے تو سبھی کے لیے ایک اصول طے ہوتا ہے کہ   اگر کوئی شاعر تحت اللفظ پڑھتا ہے تو وہ صرف پانچ شعر پیش کریںگے اور اگر ترنم میں پڑھ رہے ہیں تو صرف دو ہی شعر پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر وقت کی بات کی جائے تو ایک شاعر کو زیاد ہ سے زیادہ ڈھائی منٹ کا وقت دیا گیا تھا ۔ یہ جوان اور بزر گ ، مشہور و غیر مشہور ، استاد و غیر استاد سبھی کے لیے تھا ۔اس قاعدے کے ساتھ مشاعرہ شروع ہوتا ہے اور وقت پر ہی ختم بھی ہوجاتا ہے ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں سے فصیح اکمل ، درد دہلوی، خمار دہلوی، رضا امروہوی، معین شاداب ،نزاکت امروہوی، سرفراز احمد سرفراز دہلوی ودیگر ہوتے ہیں 

 ایک دن کا سفر مکمل ہوا جس میں افتتاحی اجلاس اور محفل و شعر و سخن کا انقعاد ہوا لیکن دوسرے دن سے اجلاس کی نوعیت بدلی ۔ تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی اجلاس منعقد ہوئے اوریہ لگاتار چار روز اس ترتیب سے چلتے کہ صبح کا اجلاس تحقیقی و تنقیدی ہوتا جس میں ہر دن تقریبا دس ریسرچ اسکالر س اپنا مقالہ پیش کرتے ۔ اس میں تینوں یونی ورسٹیوں ( جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونی ورسٹی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی) کے ایک ایک استاد صدر اجلا س تھے ۔ تخلیقی اجلاس میں تخلیق کار اور اساتذہ بھی صدر اجلاس ہوئے محفل شعر و سخن میں صدارت کی ذمہ داری بزر گ شعرا کے کندھوں پر ہی رہی ۔ 

 دن کا پہلا اجلاس ریسرچ اسکالروں کے لیے تھا جس میں تینوں یونیورسٹیوں سے چالیس ریسر چ اسکالروں نے مقالا ت پیش کیے اور بارہ اساتذہ نے صدارت کی ذمہ داری ادا کی۔ ریسرچ اسکالروں کے لیے اردو اکادمی دہلی ہمیشہ چار موضوعات دیتی ہے جس پر وہ مقالہ لکھ کر لائیں ۔ اس مرتبہ کے چاروں موضوعات کچھ اس طرح تھے ۔ میر تقی میر: شخصیت اور شاعری / جدید اردو شاعری اور اہم شعرا / قدیم اردو نثر / اردو کی ادبی تحریکات و رجحانا ت ۔ 

پہلے دن کا تنقیدی و تحقیقی اجلاس تقریبا ساڑھے دس بجے شروع ہوا ، مسند صدارت پر پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پرو فیسر معین الدین جینا بڑے اور پروفیسر کوثر مظہر ی تشریف فر ما تھے اور نظامت کی ذمہ داری مجھ ناچیز (امیر حمزہ ) کے ذمہ تھی ۔ اس اجلاس میں سیف الرحمن نے ’’کربل کتھا کی نثر‘‘، حفیظ الرحمن نے’’قدیم اردو نثر میں تراجم قرآن کے اسالیب‘‘، محمد تسنیم عابد نے ’ ’ میر کی شاعری میں خمریات ‘‘ ، محترمہ میسرہ اختر نے ’’ احمد فراز کی غزلیہ شاعری ایک تعارف ،ندیم علی نے ،، مخمور سعیدی شخصیت اور شاعر ی‘‘، محفوظ خاں نے ’’ ترقی پسند تحریک اور اردو غزل ‘‘ ، اسداللہ نے ’’ میر تقی میر کی غزلیہ شاعری میں تصور عشق ،محترمہ عظمی نے ’ ’ زبیر رضوی کی نظم نگاری‘ ‘ اور کلیم احمد نے ’’یعقوب یاور کی نظم نگاری‘‘ کے عناوین سے مقالات پیش کیے۔پر و گرام بہت ہی عمدہ ہوا مقالات کے بعد میں نے بطور ناظم صرف ایک جملے میں یہ بات کہی کہ ’نئے چراغو ں کی روشنی اس قدر روشن ہے کہ میں مزید اس پر کچھ نہیں کہ سکتا ، صدور محترم ہی اظہار خیال فرمائیں گے ۔ پھر اس کے بعد روایتی انداز میں سبھی نے مقالا ت پر عمدہ گفتگو کی ۔ یہاں صرف ان کے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں ۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے فرمایا کہ اردو کے ارتقائی دور میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ فارسی کا عکس نظر آتا ہے ۔ غزل آدمی بالقصد نہیں کہہ سکتا او نہ ہی یہ ہر وقت کہی جاسکتی ہے بمقابلہ دیگراصناف سخن کے کہ وہ بالقصد کہی جاسکتی ہیں ۔ تراجم پر انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کی اردو خدمات کو اردو والوں نے بہت ہی کم سراہا ہے ۔ پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے فریاکہ اس پروگرام میں ہم نئے ذہنوں سے واقف ہوتے ہیں اور نیا ذہن ہمیشہ پرانے ذہن سے آگے کا سوچتا ہے اور اس میں یہ اہم ہوتا ہے کہ نیا ذہن پرانے ذہن سے کیا لے رہا ہے اور کیا رد کررہا ہے ۔پروفیسر کوثر مظہری نے فرما یا کہ کچھ بھی نیا لکھنے میں اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سا زاویہ ہے جس پر گفتگو نہیں ہوئی ہے اس لیے کسی بھی شخصیت کے ایک گوشہ پر مکمل و مدلل گفتگو کرنی چاہیے ۔اجلاس ختم ہونے کے بعد سبھی عمارت کے بازو میں لگے ٹینٹ میں چلے گئے جہاں سبھی کے لیے ظہرانے کا معقول انتظام تھا، کھانے میں لذیذ قورمہ بر یانی ، نان اور زردہ تھا کھانے کے بعد چائے کا بھی انتظام تھا ۔ سبھی کھانے میں مصروف تھے ساتھ ہی پیش کیے گئے مقالات پر بھی گفتگو کررہے تھے ۔ پھر تین بجے تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جس میں بطور صدر ڈاکٹر عبدالنصیب خاں ، جناب خورشید اکر م اور سہیل انجم تھے ۔ اس اجلاس میں محمد نظام الدین نے ’’ناک ‘ اور ’سودا ‘‘ ، غزالہ فاطمہ ، ’ اس ہار کو کیا نام دوں ‘ ، ذاکر فیضی’ ادھورا نروان ‘ ، نشاں زید ی’ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ‘، نشاط حسن ’ قدرت کا فیصلہ ‘ او ر امتیاز علیمی نے ’موت کا جشن ‘ کے عنوان سے اپنے افسانے پیش کیے ۔ پھر تینوں صدور نے اپنے کلمات سے سامعین کے علم میں اضافہ کیا۔ خورشید اکرم نے کہا کہ کہانی لمبے عرصے پر محیط نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ منٹوں اور گھنٹو ں پر محیط ہوتی ہے ۔ مزید انہوںنے کہا کہ کہانیوں میں زبان صرف بار برداری کا رول ادا کرتا ہے ، اس میں ش ق کی اردو کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے جبکہ دوسرے صدراجلاس سہیل انجم نے کہا کہ افسانوں میں تنوع اور خوبصورت زبان حیر ت میں ڈال رہی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سب سے زیادہ زبان ہی خراب ہوئی ہے ۔تیسرے صدر محترم عبدالنصیب خاں نے کہا کہ افسانہ اب کوئی خاص صنف نہ ہوکر بہت سی اصناف کی عکاسی والا صنف ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ صدارتی کلمات کے بعد اجلاس تو ختم ہوگیا لیکن سامعین کے ذہنوں میں کہانی کے حوالے سے مذکورہ باتیں گردش کرنے لگیں کہ کس روش پر چل کر کن کے معیار کے مطابق کھرا اترا جائے ۔اس کے بعد سبھی محفل ِ شعرو سخن کی جانب رخ کرتے ہیں ، وہاں بھی پروگرام سے پہلے چائے کا انتظام تھا ۔ شعرا حضرات تشریف لارہے تھے اور دستخط سے اپنی حاضری دے کر آڈیٹوریم میں اپنی نشست سنبھال لیتے ، شعرا میں کئی کوٹ پینٹ کے ساتھ رامپوری ٹوپی پہنے ہوئے ہیں تو کئی کر تا پاجامہ کے ساتھ صدری میں ملبوس ہیں الغرض ایسا لگ رہا تھا سبھی باضابطہ تیار ہوکر آئے ہیں ۔ نظامت کے لیے مائک مرزا عارف سنبھالتے ہیں اور صدر محتر م بزرگ و استاد شاعر جنا ب وقار مانوی کو مسند صدارت کے لیے بلاتے ہیں۔صدر مشاعر ہ سمیت ظفر مراد آبادی ، طالب رامپوری اور فاروق ارگلی و دیگر کے ہاتھوں شمع روشن ہوتی ہے اور پھر حسب اصول مشاعر ہ شروع ہوجاتا ہے ۔ شعرا اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اشعار سناکر داد وصول کرکے اپنی نشست پر واپس ہوجاتے ہیں ۔آڈیٹوریم مستقل داد کی تالیوں سے گونجتا رہا ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں منیر ہمدم ، سہیل احمد فاروقی ، واحد نظیر ، ارشد ندیم ، صہیب احمد فاروقی ، عادل حیات ، ریشمہ زیدی، سلیم امروہوی ، راجیو ریاض پرتا پگڑھی ، حامد علی اختر و دیگر نے اپنا کلام سنایا ۔ 

دہلی کے بزر گ اور جواں عمر قلمکاروں کا اجتماع اب تیسر ے دن داخل ہوچکا ہے ۔ جس میں پہلے اجلاس کی صدارت پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، پرو فیسر شہزاد انجم او ر پروفیسر نجمہ رحمانی فرما رہی ہیں اور نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہنواز فیاض سنبھال رہے ہیں ۔ اس ا جلاس میں ساجدہ خاتون نے ’’ ترقی پسند ناولوں کے منفی کردار : ایک جائزہ ‘‘ ، محمد شاہ رخ عبیر نے ’’ جدید غزل اختصاصات ، تشخصات اور تضادات ‘‘ ، فیضان اشرف نے’’ اردو میں جدید یت اور مابعد جدیدیت : ایک مطالعہ ‘‘، شاداب نے ’’ انشاء اللہ خاں انشاکی انفردایت اور رانی کیتکی کی کہانی ‘‘ ، سعدیہ پروین نے ’’ اردو تنقید میں تانیثی رجحان ‘‘ ، ہماکوثر نے ’’جدید غزل کا منفرد شاعر : بانی ‘‘، صدف فاطمہ نے ’’ ترقی پسند شعری رجحان ‘‘ ، طریق العابدین نے’’ وحید اختر اپنی غزلوں کے آئینے میں ‘‘ اور محمد آصف اقبال نے ’’ مجید امجد کی شاعری میں وقت کا تصور‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے ۔ صدور محترم نے سبھی مقالات پرفرداً فردا اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔  تاہم کچھ کلمات سبھی کے لیے عمومی تھیں جیسے پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدن نے فرمایا کہ جو بھی مقالہ نگار نئی بات یا نیا تجزیہ پیش کررہا ہے تو انہیں چاہیے کہ اسی پر مدلل اور وضاحت کے بات کریں کیونکہ یہ اجتماعیت آپ کی تحریروں کو نمایاں کرے گا ۔ پرو فیسر شہزاد انجم نے فرمایا کہ اب ہم اس مرحلہ میں آچکے ہیں کہ تمامتر رجحانات و تحریکات کو رد کرتے ہوئے اپنی فکر پیش کریں۔پرو فیسر نجمہ رحمانی نے مقالات پر فرمایا کہ، ان مقالات کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ جن گوشو ں اور شخصیات پر عموماً بات نہیں ہوتی ہے انہیں پر گفتگو کی گئی ہے ۔ مزید معافی کے ساتھ انھوں نہ کہا کہ ہمارے اسلاف نے مغربی تھیوریز کو ہم پر تھوپا ہے جبکہ ہمارا مشرقی ادب مغربی ادب سے بالکل الگ ہے ۔ اجلاس ختم ہوتا ہے سبھی ظہرانے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ 

ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جو اس اجتماع کا ساتواں پروگرام تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت محترم اسد رضا ، ڈاکٹرنعیمہ جعفری پاشااور ڈاکٹر شمیم احمد نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر عینین علی حق نے ادا کی۔ اس اجلاس میں غزالہ قمر اعجاز نے’’ ٹشو پیپر‘‘رخشندہ روحی نے ’’ چاند کے پاس جو ستارہ ہے‘‘ تسنیم کوثر نے ’’ نوشتہ دیوار ‘‘ ، طاہرہ منظور نے ’’ بارش‘‘ چشمہ فاروقی نے ’’گونگی باجی ‘‘، نورین علی حق نے ’’مخدوش لاش کا بیانیہ ‘‘ نوازش چودھری  نے’’ناسٹالجک پولّن‘‘ ، محمد توصیف خاں نے انشائیہ ’’قبلہ مرزا کلاؤڈی ہاؤڈی‘‘، ثمر جہاں نے ’’دیا کبیرا روئے ‘‘، شفافاروقی نے ’’ ہمسفر‘‘،نثار احمد ’’ماڈرن بزرگ ‘‘ اور نازیہ دانش نے ’’خوابیدہ‘‘ کے عناوین سے اپنی تخلیقات پیش کیں ۔ جن پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا کہ علامتی افسانے پڑھنے کے لیے زیادہ اور سننے سنانے کے لیے کم ہوتے ہیں ۔اسد رضا صاحب نے کہا کہ انشائیہ اور طنز و مزاح میں صرف شگفتہ بیانی سے کام نہیں چلتا بلکہ اس میں پیغام بھی پوشیدہ ہونا چاہے ۔ڈاکٹرشمیم احمد نے کہا کہ انشائیہ فنی اعتبار سے اچھا تھا اور اہم بات یہ تھی کہ آج کی ٹوٹتی زبان میں عمدہ زبان بیان سننے کو ملا۔ اجلاس ختم ہوتا ہے کچھ لوگ بکھر کر کر اپنے مقاصد کو نکل جاتے ہیں اور کچھ افراد مشاعرہ میں تشریف لے جاتے ہیں جہاں آج پروفیسر خالد محمود کی صدارت اور جناب فرید احمد قریشی کی نظامت میں مشاعرہ ہورہاہے ۔ پروفیسر خالد محمود صاحب شیروانی اور ٹوپی کے ساتھ آڈیٹوریم میں موجود ہیں ، حسب روایت شمع روشن ہونے کے بعد مشاعر ہ شروع ہوتا ہے جس میں تقریبا ً ستر شعرا اپنا کلام پیش کر تے ہیں اور سامعین کے ساتھ ساتھ شعرا سے بھی داد وصول کرتے ہیں ۔ آخر میں صد ر مشاعرہ نے شاعروں کے حوالے فنی باتیں کرکے اپنے اشعار بھی سنائے ۔ اس محفل میں راشد جمال فاروقی ،تابش مہدی،سیماب سلطانپوری 

، رؤف رامش ، احمد علوی ، خالد مبشر و دیگر نے اپنے کلام سنائے ۔

اب تک نئے پرانے چراغ کے تین دن گز ر گئے تھے ، ارد اکادمی ،دہلی کے اراکین سے لے کر حاضرین تک کو بہت کچھ احساس ہوچکا تھا ۔ جوش و جذبہ، اساتذہ اور طلبہ کی ملی جلی دلچسپی سامنے آچکی تھی ۔ اردو اکادمی کے اراکین و عملہ جو ہمہ وقت پر وگرام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھے وہ بھی جامعہ کے ماحول سے آشنا ہو چکے تھے یعنی آخر کے دو دن سبھی کے لیے حالات معمول پر تھے ، تو چوتھے دن کا پہلا اور پور ے اجتماع کا نواں اجلاس تحقیقی و تنقید ی  کے عنوان سے صبح شرو ع ہوتا ہے ۔ جس کی صدرا ت پر وفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی ، پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر خالد اشرف نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے ۔ اس اجلاس میں تو حید حقانی نے ’’ تر قی پسند تحریک او ر اردو تنقید‘‘  محمد عبدالقادر نے ’’ اردو کی قدیم نثر گلشن ہند کے آئینے میں‘‘ آصفہ زینب نے ’’ میر کی شاعری  اپنے عہد کی ترجمان‘‘ محمد نے ’’ اشتراکی نظریات کا علمبردار قمر رئیس ‘‘ صدف نایا ب نے ’’ میر کی سوانح اور ان کی شاعری کی چند بنیادی خصوصیات ‘‘ امام الدین نے ’’ میر تقی میر کی قنوطیت اور غربت کا قضیہ ‘‘ عبدالرزاق نے ’’ باغ و بہار بحیثیت نثر ‘‘ اور تبسم ہاشمی نے ’’ میر تقی میر شخصیت اور شاعر ی ‘‘ کے عنوانات سے اپنے مقالے پیش کیے ۔مقالات کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ پر وفیسر قاضی عبیدالرحمان ہاشمی نے کسی عذر کی بنا پر اپنے صدارتی کلمات کے لیے درخواست دی تو ناظم اجلاس نے انہیں اظہار خیال کے لیے مدعو کیا ، قاضی صاحب نے سنے ہوئے مقالات پر رسمی گفتگو کی اور اجلاس سے رخصت ہوگئے اس کے بعد دو مقالات اور پڑھے گئے پھر صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر خالد اشرف کو دعوت دی گئی۔انہوں نے زبان کے حوالے سے ایک بنیادی بات کہی کہ زبان اکادمیوں اور اداروں سے نہیں چلتی ہے بلکہ گلیوں اور بازاروں سے چلتی ہے ۔یونی ورسٹیوں میں زبان نہیں بلکہ ادب پڑھایا جاتا ہے ، زبان تو اسکولوں میں ہی پڑھا دی جاتی ہے اور اسکولوں میں اردو کا جو معاملہ ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں ۔میر کی غربت پر ایک مقالہ تھا اس پر انہوں نے فرمایا کہ میرو غالب غربت کے شکار نہیں تھے بلکہ وہ نوابوں کی طرح زندگی گزرانے کے خواہشمند تھے ۔ان کے بعد صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر انور پاشا تشریف لاتے ہیں ۔ اس دن وہ سفید کرتا ، چوڑی دار پاجامہ اور ہلکے رنگ کی صدری زیب تن کیے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی اہم نکات کی جانب سامعین کی توجہ کو مبذول کرا یا ساتھ ہی قنوطیت کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میر و غالب کے یہاں جو درد و غم ہے وہ اُس وقت کا آشوب زائیدہ ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ترقی پسندتحریک اورعلی گڑھ تحر یک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ابھی زندہ ہیں اور ادب میں اپنی شمولیت درج کرارہے ہیں ۔صدارتی تقریر کے بعد ناظم صاحب اجلاس کے اختتا م کا اعلان کر تے ہیں۔ سبھی حاضرین وسامعین باہر آجاتے ہیں ۔ ابھی ظہرا نے کو پیش کرنے میں دس منٹ کا وقت تھا کہ سر دموسم میں سبھی دھوپ میں اِدھر اُدھر کھڑے ہوگئے لمحہ ہی گزرا تھا کہ کھانے کی جانب سبھی نے رخ کیا ۔ 

 ظہرا نے کے بعد تخلیقی اجلاس کے شروع ہونے میں کافی وقت بچا تھا تو چند لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور کچھ افراد سمینار ہال کی جانب رخ کیے ۔ وقت پر تخلیق اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت پروفیسر غیاث الرحمان سید ، پروفیسر ندیم احمد اور پروفیسر شاہینہ تبسم نے کی ،جبکہ ناظم اجلاس ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی تھے ۔اس اجلاس میں شمع افروز زیدی نے خاکہ ’’ انور نزہت ‘‘ ، ترنم جہاں شبنم نے ’’ تاج محل کی نیلامی ‘‘، انوارالحق نے ’’ مسٹر حضرت‘‘ محمد مستمر نے انشائیہ ’’ چٹنی ‘‘، شاہد اقبال نے ’’ چیخ ‘‘ ،نازیہ دانش نے ’’ شخص ‘‘، مصطفی علی نے انشائیہ ’’ جھپکی میں جنت ‘‘، زیبا خان نے ’’ باڑھ کھاگئی کھیت ‘‘، عبدالحسیب نے انشائیہ ’’ صحرا میں پانی کی تلاش ‘‘، ڈاکٹر شعیب رضا خاںوارثی نے انشائیہ ’’کل آج اور کل ‘‘، تفسیر حسین خاں نے ’’ بھینس کی لاج ‘‘، ثاقب فریدی نے ’’ میں جاگ رہا ہوں ‘‘ پیش کیا ۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مشہور فکشن نگار پروفیسر جی آر سید نے افسانہ کے فن پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ افسانے میں کرداروں کی سہی عکاسی اور جزئیات نگاری اس انداز میں پیش کریں کہ سامعین اورقارئین کو یہ لگے کہ وہ افسانے کا قاری اور سامع نہیں بلکہ یہ محسوس کریں کہ وہ کہانی دیکھ رہے ہیں ۔ نیز افسانہ میں کیا نہیں کہنا چاہیے اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ مزید فرمایا کہ علاقائی زبان کہیں افسانے کوبہتر کرتا ہے تو کہیں بوجھل کردیتا ہے۔ پروفیسر ندیم احمد اور پرفیسر شاہینہ تبسم نے بھی تخلیقات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسانے ، انشائیے اور خاکے عمدہ سے عمدہ تر سننے کو ملے اس سے مستقبل میں اردو کی ضمانت کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ اجلاس دیر تک چلا شام ڈھل چکی تھی جامعہ کمپس روشنی سے نہارہا تھا ، سی آئی ٹی سے انجینئر نگ فیکلٹی جاتے ہوئے طلبہ کی اچھی خاصی تعداد یہاں وہاں بیٹھے ہوئے نظر آرہی تھی ، ہائی جینک کے آس پاس کا ایریا طلبہ و طالبات کی چہچہاہٹوں سے چہک رہا تھا ، گو کہ شام ڈھل چکی تھی لیکن کچھ علاقوں میں سناٹے کا گزر بھی نہیں تھا ۔ میںجب تک انجینئر نگ فکلٹی کے آڈیٹوریم میں پہنچا تو وہاں دیکھتا ہوں کے مشاعر ہ باقاعدہ شروع ہوچکا ہے ۔ مسند صدارت پر پروفیسر شہپر رسول جلوہ افروز ہیں ، ان کے ساتھ اسٹیج پر فاروق ارگلی ،متین امروہوی، اعجاز انصاری اور سلمی شاہین موجود ہیں اور نظامت کی ذمہ داری پیمبر نقوی سنبھال رہے ہیں ۔ مشاعر ہ کا آخر ی دن تھا حسب امید شعرا کی تعداد میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ۔ مشاعرہ دیر رات تک چلا ہر دن کی طرح اس دن بھی ایک کامیاب مشاعر ہ سننے کو ملا ۔ اس مشاعرہ میں ریاضت علی شائق ، شعیب رضا ، وسیم راشد ، شکیل جمالی ، امیر امروہوی و دیگر شعرا نے اپنے کلام پیش کیے ۔

 چاروں دن کے مشاعروں کے حوالے سے کوئی تفصیلی بات اب تک تحریر نہیں کہ لیکن دو باتیں جو مجھے محسوس ہوئی وہ عرض کردیتا ہوں او ل یہ کہ دہلی میں قیام پذیرتقر یبا ً چار سو شعرا کا نام نئے پرانے چراغ کے لیے شامل ہوا تھا ۔ جن میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی تھے ، اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو اکادمی دہلی کی راجدھانی دہلی میں گہر ی پکڑ ہے ، ہر علاقے اور ہر مذہب کے لوگ اس اکادمی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اکادمی کا ایک اور اصول ہے کہ مشاعر ہ گاہ میں ایک فارم گھومتا رہتا ہے جس میں شعرا اپنا ایک شعراپنے نام اور موبائل نمبر کے ساتھ درج کرتے ہیں ۔ اردو رسم الخط کے حوالے سے اس وقت مجھے بہت ہی زیادہ حیرانی ہوئی کہ روزانہ کی فائل میں مجھے مشکل سے اوسطاً آٹھ ہی ایسے افراد نظر آئے جنہوں نے اپنا شعر دیونا گری میں لکھا تھا، رومن میں کسی نے بھی نہیں لکھا تھا۔ اس میں بھی مزید حیرانی اس پر ہوئی کہ ان میں سے غیر مسلم تو نہ کے برابر ہیں بلکہ چند غیر مسلمین کی تحریر پر تو میں عش عش کر گیا جن میں سے میں چند کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں ، جگدیش داؤتانی ،کیلاش سمیر دہلوی، امبر جوشی ، پنڈٹ پریم بریلوی ، سپنا احساس ، حشمت بھاردواج ، راجیو ریاض پرتاپگڑھی اور سب سے اچھی تحریر کنوررنجیت چوہان کی تھی ۔ نئے شعرا کے کلام میں موضوعات کے ساتھ ساتھ زبان کی جمالیات بھی دیکھنے کو ملا ۔ کچھ ایسے شعرابھی تھے جنہوں نے سبھی کو حیرت میں بھی ڈالا ۔ 

جمعہ کا دن نئے پرانے چراغ کا آخری دن تھا ۔ اجلاس حسب سابق ساڑھے دس بجے شروع ہوگیا البتہ ختم کرنے کا وقت متعین تھا کہ جمعہ کی نماز کی وجہ سے ساڑھے بارہ بجے ختم کردینا ہے ۔ اس اجلاس کی صدارت پرو فیسر احمد محفوظ ، پروفیسر ابوبکر عباد اور پر فیسر مظہراحمد کر رہے تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاداب شمیم ادا کررہے تھے ۔ جس میں محمد سید رضا نے ’’ ن م راشد ایک روایت ساز نظم نگار ‘‘ ، محمد ناظم نے ’’ نشور واحدی کی غزل گوئی ‘‘، زرفشاں شیریں نے ’’ بلقیس ظفیر الحسن کا شعری مجموعہ گیلا دامن کی نظمیں : مسائل اور موضوعات ‘‘، عنب شمیم نے ’’ جدید اردو نظم کے امتیازی نقوش : ایک جائزہ ‘‘، محمد فرید نے ’’ بہار میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی ایک جھلک ‘‘ ،محمد فیصل خاں نے ’’ کیفی اعظمی کی فکری و فنی جہات (ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ‘‘، محمد رضا نے ’’کلام میر میں لفظ مناسبت اور استعاراتی نظام ‘‘ اور عزہ معین نے ’’ حلقہ ارباب ذوق میں خواتین کی ادبی خدمات ‘‘ کے عناوین سے اپنے مقالات پیش کیے ۔ صدارتی خطبے میں وقت محدود ہونے کی وجہ سے جلد بازی ہوتی رہی پھر بھی صدور محتر م نے اپنے خیالات کا جو بھی اظہار کیا ان میں سے کچھ کلمات پیش کیے جاتے ہیں ۔

پروفیسر احمد محفوظ نے فرمایا کہ ایک ہی موضوع پر کئی شعرا کے مختلف شعر آپ کو پڑھنے کو ملیںگے تو کیا موضوعات شاعر یا شعر کو بڑا بناتا ہے نہیں بلکہ بڑی شاعری موضوع سے نہیں بلکہ فن اور اسلوب سے طے ہوتی ہے ۔ پروفیسر مظہر احمد نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سمینار کے لیے اکثر ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں وقت پر بات مکمل ہو جائے ۔ پرفیسر ابو بکر عباد نے مقالات کی خامیوں اور خوبیوں سے طلبہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اچھی زبان کے ساتھ خوبصورت تلفظ بھی سننے کو ملا ۔ اجلاس ساڑھے بارہ بجے ختم ہوگیا تھا جنہیں جمعہ کی نما ز کے لیے جانا تھا وہ فوراً نکل پڑے ۔ واپسی کے بعد ظہرانے کا انتظام تھا ۔ ظہرانے کے مینیو میں ایک ڈش میں تبدیلی بھی تھی اس دن میٹھے میں زردہ کے بجائے حلوہ تھا پھر چائے بھی تھی ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تخلیقی اجلاس کے لیے سمینار ہال اپنے سامعین کے انتظار میں تھا ، صدارت کے لیے ڈاکٹر ریاض عمر جمعہ بعد ہی تشریف لائے تھے ، ڈاکٹر پرویز شہریار بھی موجود تھے ۔ یہ واحد اجلاس تھا جس میں پہلی مرتبہ کوئی صدر تشریف نہیںلائے اور وہ ڈاکٹر ابرار رحمانی تھے ۔ پرو گرام کو ناظم اجلا س ڈاکٹر حمیرہ حیات نے شروع کیا دونوں صدور کے ساتھ ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ بھی اسٹیج پر موجود تھیں ۔ اس تخلیقی اجلاس میں محمد خلیل نے خاکہ ’’ سالم علی ‘‘ پیش کیا ، یہ دوسرا خاکہ تھا جو پیش ہورہا تھا۔ نگار عظیم نے ’’ برے آدمی کی کہانی ‘‘ سفینہ نے ’’ او مائی گاڈ ‘‘ محمد عرفان خاں نے ’’ جال ‘‘ نثار احمد نے ’’روایت ‘‘ اور ناظمہ جبیں نے ’’ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ پیش کیا ۔ صدارت کی ذمہ دار ی اگر چہ پرویز شہر یار پر بھی تھی لیکن انہوں نے چند رسمی کلمات کے بعد اپنا افسانہ ’’ لال چند ‘‘ بھی پیش کیا ۔ تو گویا ایک ہی صدر بچ گئے اور وہ تھے ڈاکٹر ریاض عمر ۔ انہوں نے افسانہ کے موضوعات کی جانب تو جہ دلائی کہ اس ہال میں موجود ہر چیز پر افسانہ لکھا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی اجلاس کے ساتھ ساتھ نئے پرانے چراغ کا اجتماع یہیں پر ختم ہوتا ہے البتہ ابھی ایک محفل باقی ہے اور وہ ہے قوالی کی محفل ۔جس کو پیش کر نے کے لیے سنبھل سے قوال سرفراز چشتی کے پوری ٹیم آئی ہوئی تھی ، یہ پروگرام بھی مشاعرہ کی طرح انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم میں ہورہا تھا ۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ خلاف توقع پورا آڈیٹوریم کھچا کچھا بھرا ہوا ہے ۔ سامنے کی سیٹییں ہی بڑی مشکل سے ریزرو رکھی جاسکیں تھیں ، پرو گرام شروع ہونے سے پہلے ہی طلبہ سیڑھیوں میں کھڑے ہوچکے تھے ۔ جگہ کی اتنی تنگی تھی کہ اراکین اکادمی بھی اپنے گھروالوں کے لیے کوئی جگہ انتظام نہیں کرسکے ۔ 

قوالی اپنے وقت پر شروع ہوئی ایک یا دو کلام کے بعد دہلی سرکار کے وزیر برائے فن ،ثقافت و السنہ جناب سوربھ بھاردواج ، براڑی کے ایم ایل اور میتھلی اکیڈمی کے وائس چیر مین سنجیو جھا کی تشریف آوری ہوئی اور ہال استقبالیہ تالیوں سے گونج اٹھا ، ان دونوں ممبران اسمبلی کو اردو اکادمی کے سکریٹر ی محمد احسن عابد نے گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا جبکہ قوال کا استقبال وزیر محترم اور ممبر اسمبلی نے کیا ۔ وزیر سوربھ بھاردواج نے چند کلمات کا اظہار کرتے ہوئے اردو اکادمی کے تحت منعقد ہونے والے مختلف ثقافتی پروگرامس کا ذکر کیا ۔ 

 نئے پرانے چراغ کے پنج روزہ پرواگرا م کو کامیاب بنانے کے لیے اکادمی کے عملہ نے جس طرح محنت کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ہر ایک کانام لینا بہت مشکل ہے ، جن کے ذمہ فائلوں کا سنبھالنا تھا وہ اسے انجام دے رہیں تھیں ، کتابوں کا انہوںنے اسٹال بھی لگا یا ہوا تھا جس میں امید سے زیادہ کتابیں بھی فروخت ہوئیں ، شعبہ اکل و شرب میں کسی قسم کی شکایت کا کسی کو موقع نہیں دیا گیا ۔ الغرض جس کے ذمہ بھی جو کام تھا سبھی اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے تھے ۔


Dr Amir Hamza

M.8877550086



Thursday 23 November 2023

ادبی نشیمن

موجودہ وقت میں رباعی پر خصوصی شمارہ نکالنے کی ضرورت کیوں آن پڑی جب کہ آج کے سہ ماہی رسالوں پر نظر ڈالیں تو ان کا رجحان فکشن کی جانب زیادہ رہا ہے. یا پھر عمومی شمارے کثیر تعداد میں نکالے جارہے ہیں. البتہ گزشتہ دہائی میں فکر و تحقیق کے کئی نمبر نکلے ہیں جن میں افسانہ نمبر نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی. ناول خاکہ نئی غزل اور نئی نظم پر بھی نمبر شائع ہوئے لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوکر رہ گیا اور اب مستقل عمومی شمارے ہی نکل رہے ہیں. اس درمیان کچھ رسائل کے بہت ہی خاص اور اہم شمارے بھی منظر عام پر آۓ، بلکہ ان کا ہر شمارہ ایک خاص شمارہ ہوتا تھا لیکن رباعی (جسے اردو والے حاشیائی صنف تصور کرتے ہیں) پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. سچ بات کہوں تو تنقید میں موجودہ وقت میں ناول، افسانہ غزل اور نظم کے علاوہ دیگر اصناف کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ تخلیق کار اپنی کارکردگی بخوبی ادا کررہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا ناقدین نے اپنا سیف زون منتخب کرلیا ہے یا پھر مغربی تنقید کی روش میں مشرقی خصوصیات کی حامل اصناف پر خامہ فرسائی میں وہ کوتاہ ہوجاتے ہیں؟ کیا موجودہ وقت میں فکشن نے عوام میں زیادہ جگہ بنا لی ہے یا اس کے قارئین میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے؟ آپ کو جواب ملے گا بالکل بھی نہیں بلکہ جو کچھ بھی ہے وہ آپ بھی بخوبی سمجھ رہے ہوں گے. یہی حال غزل اور نظم کا بھی ہے. جس طرح سے مذکورہ بالا اصناف کے قارئین ہیں اسی طرح سے رباعی کے بھی ہیں۔ جس طرح سے دیگر اصناف کے نمایاں تخلیق کار ہیں،اسی طرح رباعی نے بھی اپنے نمایاں تخلیق کار پیدا کیے ہیں. پھر بھی رباعی کو ادبی مباحث میں کم جگہ کیوں دی گئی ہے؟ جہاں انیس و دبیر کے مرثیوں سے دفاتر کے دفاتر بھرے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب رباعیات پر صرف ایک فیصد حصہ ہی نظر آتا ہے۔ یہی حال اکبر و حالی اور جوش وفراق کی رباعیات پر مباحث کاہے. اگر امجد حیدرآبادی کی بات کی جائے تو ان پر بھی کوئ خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی. اگر بعد کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان پر خال خال تجزیاتی اور تاثراتی مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن سے رباعی گو شعرا کو حوصلہ ملتا رہتا ہے. یہی کام ادبی نشیمن نے اس شمارہ سے کیا ہے. 
کیا کسی رسالہ کا خصوصی شمارہ کسی پی ایچ ڈی مقالے سے بہتر ہوسکتا ہے. جواب میں ہاں بھی سننے کو مل سکتا ہے اور نہیں بھی. زیادہ تر ہاں سننے کو ملے گا کیونکہ شمارہ مختلف الجہات ہوتا ہے. جبکہ سندی تحقیقی مقالہ بہت زیادہ بھر پور ہونے کے باوجود مختلف الجہات نہیں ہوسکتا لیکن فوری طور پر سلام سندیلوی کا تحقیقی مقالہ آپ کے سامنے پیش کردیا جائے گا. بالکل اعتراض بجا ہے کیونکہ ایسا تحقیقی اور سندی مقالہ (میری معلومات کے مطابق) کسی اور صنف کے متعلق نہیں لکھا گیا ہے جس میں ابتدا سے لے کر موجودہ وقت تک سبھی کا احاطہ کیا ہوگا. لیکن جس طرح سے سارے مقالے ایک جیسے نہیں ہوتے،ٹھیک اسی طرح سے سارے خصوصی شمارے بھی ہمہ جہت نہیں ہوتے بلکہ کچھ رسمی بھی ہوتے ہیں. میرے نزدیک ادبی نشمین کا موجودہ شمارہ دونوں کیفیات کا حامل ہے. 
ادبی نشیمن کا یہ شمارہ میرے لیے کئی اعتبار سے خاص ہے۔ اول تو یہ کہ ٹائٹل میں میری کتاب کو جگہ دی گئ ہے، دوم یہ کہ اس میں میرا بھی ایک مضمون شامل ہے جو یاس یگانہ چنگیزی کے تعلق سے ہے، سوم یہ کہ "کلیات رباعیات جوش" پر حقانی القاسمی کی تحریر جلوہ افروز ہے اور چہارم یہ کہ "رباعی تحقیق" پر جناب شاہد حبیب فلاحی صاحب نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے. 
اس خصوصی شمارے کی اشاعت پر میں مدیر ڈاکٹر سلیم احمد اور معاون مدیر ڈاکٹر شاہد حبیب صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اب تک رباعی کے جو شمارے منظر عام پر آئے ہیں اور میری نظر جہاں تک پہنچی ہے ان سب میں یہ شمارہ تمام شماروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ پچھلی صدی میں ناوک حمزہ پوری صاحب کی ادارت اور نگرانی میں گلبن احمد آباد کا رباعی نمبر شائع ہوا تھا جس کا ذکر کئی جگہوں پر مل جاتا ہے۔ اس کے بعد فراغ روہوی مرحوم نے دستخط کا رباعی نمبر شائع کیا تھا جس میں رباعی کے فن،موضوع اور روایت پر بہت ہی کم نظر ڈالی گئی تھی. ماہنامہ شاعر کا بھی (ایک مخصوص) رباعی نمبر شائع ہوا ہے. 
رباعی کے موضوع پر کتابوں کی بات کی جائے تو گزشتہ صدی میں کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ہیں جن میں فرمان فتح پوری کی "رباعی فنی اور تاریخی ارتقا"، سلام سندیلوی کی ضخیم کتاب 'اردو رباعیات" وحید اشرف کچھچھوی کی "مقدمہ رباعی" خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ موجودہ صدی میں "تنقید رباعی" فرید پربتی نے اور شاید اس سے پہلے یا قریب قریب ناوک حمزہ پوری نے بھی "ساگر منتھن" تصنیف کی. پھر بعد میں سلمہ کبری صاحبہ کا ایک اہم کام "اردو رباعی میں تصوف کی روایت" منظر عام پر آیا، یحییٰ نشیط صاحب "رباعی میں ہندوستانی عناصر" کے حوالے سے ایک کتاب منظر عام پر لائے اور کئی دیگر لوگوں نے بھی خامہ فرسائی کی اور اس کی مختلف جہات کو منظر عام پر لاۓ. ہر موقع پر رباعی کے فروغ کی بات کی گئی لیکن اس صدی میں رباعی کی صورتحال بطور کمیت گزشتہ صدی کے نصف آخر کے مقابلے کافی بہتر ہے جس کی جھلک رسائل اور دیگر نشریات میں کافی دیکھنے کو ملتی ہے. 
 اس رسالے کی بات کریں تو مطالعہ کرتے ہوئے اسلم حنیف صاحب کے مضمون کو جب میں پڑھنے لگا تو اس میں مجھے کئی نئ چیزیں مل گئیں۔ انہوں نے شروع کے 24 اوزان کو تو شمار کیا ہی ہے ساتھ میں زار علامی اور سحر عشق آبادی کے بھی اوزان کو شامل کیا ہے. اس کے بعد وہ رمز آفاقی کے اوزان کو شمار کرتے ہیں۔پھر ان سب کو ملا لیتے ہیں تو ان کی تعداد 84 ہو جاتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان 84 اوزان پر جمنا پرشاد راہی نے رباعیاں کہیں ہیں جو ان کے مجموعہ میں موجود ہیں۔ اب بھی اوزان میں تجربات جاری ہیں، تجربات کا مستقل ہونا یہ بتلاتا ہے کہ یہ صنف پابندیوں کے لحاظ سے بھی اتنی پابند نہیں ہے جتنا کہ اسے محصور کر دیا گیا ہے بلکہ یہ مستقل تجربات کے دور سے گزررہی ہے. 
دوسرا حصہ رباعی تحقیق و تنقید ہے جس میں کئی قسم کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مخصوص رباعی گو شعرا اور بالعموم سبھی رباعی گو شعرا کا ذکر مضامین میں ملتا ہے. صوبائی خدمات پر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے لکھا ہے اور اس سے پہلے والے حصے میں بھی مجموعی طور پر حافظ کرناٹکی نے "رباعی فن اور امکانات" کے تحت عہد قدیم سے لے کر عہد حاضر تک کے شعرا کا احاطہ کیا ہے. صوبائی میں صرف کرناٹک کے حوالے سے پروفیسر مقبول احمد مقبول کا مضمون ملتا ہے جبکہ اگر اسی نوعیت کو آگے بڑھاتے تو مہاراشٹر، بنگال، بہار، یو پی اور دیگر صوبوں میں رباعی گو شعرا کی اچھی تعداد مل جاتی. (بہار میں رباعی کے حوالے سے کونسل میں ایک پروجیکٹ مکمل ہوا ہے). 
اگر قدیم رباعی گو شعرا پر نظر ڈالیں تو رواں، جمیل مظہری، خیام، الطاف حسین حالی، عبدالغفور خان نساخ، علامہ اقبال، زیب النسا زیبی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق، فضا ابن فیضی، شوق نیموی اور جوش پر مضامین ہیں۔ 
جدید رباعی گو شعرا میں ظفر کمالی، پرویز شاہدی، مامون ایمن، ظہیر غازی پوری، ناوک حمزہ پوری، شاہ حسین نہری اجتبی رضوی، صادقین، کوثر صدیقی، اشراق حمزہ پوری، فرید پربتی، طہور منصوری نگاہ، نور محمد یاس، عاصم شہنواز شبلی، عابدہ شیخ کی رباعی پر مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں.مجموعی طور پر لکھنے والوں میں دبستان لکھنو، اردو کے غیر مسلم رباعی گو شعرا، میرٹھ کے اہم رباعی گو شعرا پر مضامین ہیں. 
موجودہ وقت میں کم از کم 100 شعرا تو ضرور ہیں جو بہت ہی خوبصورت رباعیاں لکھ رہے ہیں۔ معنوی اعتبار سے ان کے ہاں مضامین کی نیرنگی ہے تو ساتھ ہی رباعی کے فن پر گرفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں سے چند شعراء کے نام جن کی رباعیاں اس شمارہ میں شامل ہیں، مخمور کاکوروی، شاہ حسین نہری، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال، طہور منصوری نگاہ، ذکی طارق، اسلم حنیف، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، سلیم سرفراز، محمد انورضیا، ڈاکٹر فرحت نادر رضوی، اعجازمان پوری، فیضی سمبلپوری، فہیم بسمل، ساجدہ عارفی، ڈاکٹر ہارون رشید، معید رہبر، زیب النسا زیبی، مصباح انصاری، محسن عظیم وغیرہ ہیں.
تبصرہ کے گوشہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جن چھ کتابوں پر تبصرے ہیں وہ سارے رباعی سے تعلق رکھتے ہیں.
آخر میں طباعت کی بات کی جائے تو ماہنامہ رسائل کے سائز میں یہ سہ ماہی نکلتا ہے،(6*8.5 میں) اگر یہ چار سات میں شائع ہوتا تو زیادہ خوبصورت بھی ہوتا، لاگت بھی کم آتی اور ضخامت میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا. 
بہر حال رباعی پر خصوصی نمبر شائع کرکے اس صنف کو موضوع بحث و تخلیق بنانے کے لیے پوری ادبی نشیمن کی ٹیم کو مبارکباد............. امیر حمزہ

Wednesday 5 April 2023

شعر ، غیر شعر اور نثر

   شعر ، غیر شعر اور نثر 

امیر حمزہ


 اردو ادب کی یہ بے مثال اور فاروقی صاحب کی لازوال کتاب اشاعت کے کئی مراحل سے گزر چکی ہے ۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب 1973 میں شائع ہوئی تھی ، پھر پس نوشت کے ساتھ 1998 میں اس کے بعد تیسری اشاعت دیباچہ طبع سوم کے ساتھ 2005  میں کونسل سے شائع ہوئی ۔ اور اب کونسل سے یہ تیسر ی اور کل پانچویں اشاعت ہے ۔ پہلی سے لے کر پانچویں اشاعت تک مضامین میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ۔ فاروقی صاحب جب پچیس برس بعد اس کتاب پر پس نوشت لکھتے ہیںتو اس میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس درمیان مزید مطالعہ اور جدید و قدیم نظریات سے واقفیت کے باوجود ’’اس کتاب میں درج کردہ باتوں کو جدید ادب اور جدیدیت کی تفہیم و استقلال ، اور کلاسیکی ادب کی فہم و بازیافت دونوں کے لیے بامعنی سمجھتا ہوں ۔‘‘ آج جب مزیدپچیس برس بعد میرے مطالعے میں یہ کتاب آئی تو میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو تنقیدی نظریات و معنویت اس کتاب کی پچاس بر س پہلے تھی وہ آج بھی ہے ۔ تو چلیں کتاب کے محتویا ت پر نظر ڈالتے ہیں۔

 اس کتاب میں کل23 مضامین ہیں ۔پہلا مضمون ’’غبار کارواں ‘‘ ہے جسے کتاب کے مقدمہ کے طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس مضمون میں انہوںنے بچپن سے لے کر تا دمِ تحریر مضمون اپنے علمی و نظریاتی سفر کا عکس پیش کیا ہے جس میں انھوں نے اقرار کیا ہے کہ ان کی تحریر میں تو ضیحی و تشریحی پن کا آنا بچپن میں ایک مشہور عالم دین کی کتب سے متاثر ہونا ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اخیال ہے کہ میں نثر میں وضاحت اور استدلال پر جو اس قدر زور دیتا ہوں تو اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ میں بچپن میں مولانا تھانوی کے اسلوب میں اثر پذیر ہوا ہوں ۔‘‘ فاروقی صاحب کا یہ برملا اظہا ر بہت کچھ سوچنے پر مجبو ر کردیتا ہے ۔ اول یہ کہ آج کا ادبی معاشر ہ جن افراد سے متنفر نظر آتا ہے فاروقی وہیں سے اپنی بنیاد بناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کسی بھی متن پر تفصیل در تفصیل جانے کا اسلوب فاروقی نے یقینا علما ء سے لیا ہے بلکہ مجھے پورا گمان ہے کہ شعر شور انگیز لکھنے کا محر ک بھی تھانوی صاحب کی کتاب ’’ کلید مثنوی‘‘ بنی ہوگی ۔ واللہ اعلم۔ دوم یہ کہ بچپن کی تر بیت بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ یقینا تحریروں میں تاثر وہیں سے آتا ہے جہاں سے مصنف متاثر ہوتا ہے اور بے شک فاروقی کی تنقیدی تحریریں تجریدیت کی شکار نہیں ہیں بلکہ امثال در امثال وہ تشر یح کرتے جاتے ہیں اور قاری کے ذہن و دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ 

 کتاب کا سب سے اہم اور پہلا مضمون ’’ شعر ، غیر شعر اور نثر ‘‘ ہے ، یہ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون بھی ہے جو تقریبا ً پنچانو ے صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں وہ شعر و نثر کی شناخت پر کئی سوالات فر ض کرتے ہیں اور ان پر تفصیل در تفصیل بحث کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی صفحات کے بعد لکھتے ہیں ’’ میں وزن کو ہر قسم کے شعر کے لیے ضرور ی سمجھتا ہوں ، چاہے اس میں شاعری ہو یا نہ ہو، لیکن شاعری کی پہلی پہچان یہ ہے کہ اس میں اجمال ہوتا ہے ۔‘‘ لفظ اجمال سے فاروقی صاحب نثر ی نظم کو بھی شاعری کے دائرے میں لے آتے ہیں اور لکھتے ہیں ’’ نثر ی نظم اور نثر میں بنیادی فرق اجمال کی موجودگی ہے نثری نظم اجمال کا اسی طرح استعمال کرتی ہے جس طرح شاعری کر تی ہے ، اس طرح اس میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔‘‘ لیکن صر ف اجمال ہی شاعری کی پہچان نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ شاعری میں اول وزن آتا ہے پھر اجمال کوپیش کر تے ہیں ، اس کے بعد جدلیاتی لفظ پھر شاعری کی تیسر ی اور آخر ی معروضی پہچان ابہام پر گفتگو کرتے ہیں او ر ان سب کے مجموعے کو شاعری کی پہچان کے طور پرسامنے لاتے ہیں۔ اچھی اور خراب شاعری کے درمیان بھی یہی عناصر سامنے آتے ہیں اور نثر کی بھی شناخت انہیں عناصر سے ہوتی ہے ساتھ ہی’’ نثر کے جو خواص ہیں یعنی بندش کی چستی ، برجستگی ، سلاست ، روانی ، ایجاز، زورِ بیان وضاحت وغیر ہ وہ اپنی جگہ پر نہایت مستحسن ہیں لیکن وہ شاعری کے خواص نہیں ہیں ‘‘ ۔ الغر ض فاروقی صاحب کا یہ مضمون تخلیقیت کی بنیادی تفہیم میں بہت ہی معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔

 دوسرا مضمون ’’ادب کے غیر ادبی معیا ر ‘‘ ہے ۔اس مضمون میں یہ بات کھل کر کہی گئی ہے کہ ادیب کا نظر یہ زندگی ، اخلاق ، عادات و اطوار سے اس کی تخلیقات کے معیار کو کبھی بھی جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا ۔اس پور ے مضمون میں فاروقی صاحب نظریاتی وابستگی اور ذاتی عادات و اطوار کو سامنے لاکر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاعری کبھی بھی اشٹب لشمنٹ کے ردعمل کے طور پر سامنے نہیںآتی ہے بلکہ ایک طرح سے وہ ذاتی ودیعت ہی ہوتی ہے ۔ جیسے کریمنل اور بد کردار کی شاعر ی کامطالعہ کر یں اور دیکھیں کہ اس کی شاعری میں فاسق عناصر کتنے پائے جاتے ہیں تو شاید آپ کو بالکل بھی نہ ملیں ۔ یا کسی سلیم الطبع کی شاعری پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کتنے افکار صالحہ موجود ہیں تو شاید آپ کو رومانیت زیادہ ملے ۔ الغرض نظر یاتی وابستگی یا فطری عمل ادب کو جانچنے کا غیر ادبی معیار ہے ۔ 

 تیسرا مضمون ’’علامت کی پہچان ‘‘ ہے ۔ اس میں فاروقی صاحب علامت کی جامع اور مانع تعریف متعین کرنے کے لیے نکل جاتے ہیں لیکن تعریف نا مکمل ہی رہتی ہے اور علامت تشخیص و تمثیل کے درمیان کی چیز کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ یہ مضمون مکمل طور پر بحث طلب ہے کیونکہ فاروقی صاحب لکھتے ہیں ’’ لیکن ادبی علامت نہ صرف فی نفسہ بامعنی اور خوبصورت ہوتی ہے بلکہ اس میں ایک انوکھی شدت اور قوت ہوتی ہے جو عام الفاظ میں مفقود ہوتی ہے۔‘‘ جس کی تلاش ہر ادیب کو کرنی ہے کہ حقیقی علامت کیا ہوتی ہے اور کون سے الفاظ تمثیل کی سطح پر ہی دم تو ڑدیتے ہیں ۔فاروقی صاحب لکھتے ہیں’’ علامت شعوری ادرا ک کی ضد ہوتی ہے ، توسیع نہیں ۔لیکن پوری طرح شعور آجا نے کے بعد اس کا علامتی کردار برقرار رہ سکتا ہے ۔ اگر چہ اسے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ وہ تمثیل یعنی استعارہ بن جائے گی ۔ علامت جسمانیاتی ہوتی ہے، یعنی اس کا تعلق ذہن کے ان Processes سے ہوتا ہے جو جسم میں بند رہتے ہیں۔ اس طرح علامت مشاہدہ نہیں بلکہ علم ہوتی ہے ۔ ‘‘ ان الفاظ میں کسی حد تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن پوری طرح اتفاق نہیں کرپاتے ہیں ’’ کیونکہ ادبی علامت میں دسرے درجہ کا مشاہدہ اور شاعر کے سماجی ، تہذیبی اور ذاتی تجربات بھی کار فرما ہوتے ہیں ، جو سب کے سب جسمانیاتی یعنی غیر شعوری نہیں ہوتے ہیں۔ ‘‘ الغر ض تعریف و شناخت میں عدم جامعیت و مانعیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور تشخیص و تمثیل کے درمیان ایک غیر واضح علامت کے طور پر سامنے آتا ہے ۔

 اگلا مضمون ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ ‘‘ ہے۔ اس مضمون کے پہلے ہی جملے ’’ کیا کوئی قاری صحیح معنی میں صاحب ذو ق ہوسکتا ہے ؟ مجھے افسوس ہے کہ اس کے سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ‘‘ میں فاروقی صاحب نے جو دعویٰ کیا ہے اتفاق سے وہ آخر تک قائم رہتا ہے اور کئی زاویوں سے گفتگو کرنے کے بعد آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی ممکن نہیں ۔ ذوق کے تعلیمی و غیر تعلیمی تاثراتی و غیر تاثر اتی جتنے بھی زاویے ہوسکتے تھے سب پر انھوں نے تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ اس مضمون سے سرسری گزرجانا بالکل بھی مناسب نہیں لگ رہا ہے ، تو چاہتا ہوں کچھ چیزوں پر اجمالا ہی روشن ڈالی جائے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ باوذوق قاری کسے فرض کر تے ہیں ۔ 

’’۱۔ باوذوق قاری وہ ہے جو ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر اچھے اور خراب فن پاروں میں فرق کر سکے۔ 

۲۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قاری حتی الامکان تعصبات، پس منظری مجبوریوں اور ناواقفیتوں کا شکار نہ ہوگا ۔ 

 ۳۔ شعر فہم قاری وہ ہے جو ذوق کی بہم کردہ اطلاع کو پر کھ سکے ۔

۴۔ اس کا مطلب یہ ہے شعر فہم قاری ذوق پر مکمل اعتماد نہیں کرتا 

۵۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شعر فہمی کا کمال یہ ہے کہ قاری ان فن پاروں سے بھی لطف اندوز ہوسکے جو اسے پسند نہیں آتے یا جنھیں اس کے ذوق نے خراب قراردیا تھا ۔

 ۶۔ باذوق اور شعر فہم قاری میں سب سے اہم قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی زبان فہمی کے مرحلے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ۔‘‘ 

جب آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ کسی بھی ایسے فرد کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔کیونکہ جب بھی کوئی شعر فہمی پر گفتگو کرتا ہے تو وہ اپنی ہی علم اور ذوق کی وسعت کو سامنے لاکر گفتگو کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں تین قسم کے افراد سامنے آتے ہیں۔ اول وہ جو دیگر قاریوں کو نظرانداز کردیتے ہیں جن کا معیار بز عم خود ان سے پست ہوتا ہے ۔ دوم :وہ لوگ جو وہی شاعری کو قبول کر تے ہیں جو ان کی سمجھ میں آتا ہے اور سوم : جو ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے اسے مطعون کرتے ہیں ۔اس کے بعد فاورقی صاحب ایک خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں ندافاضلی اور غالب کے ایک ایک شعر سے ۔ 

 سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا 

کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہوگئی 

اس شعر کو مجہول اور مہمل کہنے والے بہت سارے لوگ مل جائیں گے لیکن غالب کے درج ذیل کے شعر کے متعلق ایسا کچھ بھی نہیں ملے گا ۔

 نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں 

جس کے بازو میں تری زلفیں پریشاں ہوگئیں 

پھر صاحب ذوق قاری کا معیار کیا ہوگا ؟ 

 اس کے سو ا اور بھی بہت سی مثالیں پیش کرتے ہیں پھر جاکر کہتے ہیں’’ باذوق اور شعر فہم قاری کا تصور ایک انفرادی تصور ہے۔ ‘‘ لیکن فاروقی صاحب یہیں بس نہیں کرتے ہیں بلکہ پھر اس کو موضوع کے تعلیم کے پیمانے پر ناپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو بھی رد کردیتے ہیں اور یہی سامنے آتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی سامنے نہیں آسکتی ۔ 

اب بڑھتے ہیں’’ نظم اور غزل کا امتیا ز‘‘ کی جانب ۔ اس مضمون کوبھی فاروقی صاحب نے اسی انداز میں لکھا ہے کہ پہلے دونوں اصناف کے مابین 12 امتیازات قائم کرتے ہیں پھر ان امتیازات کو مثال سے باطل بھی کردیتے ہیں ۔ جب معاملہ حل ہونے کا ہوتا ہے تب پھر سے امتیازی معروضات پر گفتگو کرتے ہیں پھر کئی زاویوں سے بات ہوتی ہے پھر بھی کوئی واضح فرق سامنے نہیں آتا ہے تب جاکر فرماتے ہیں کہ’’ ان سوالوں کا ایک جواب ہے: غزل بنیادی طور پر بالواسطہ اظہار کی شاعری ہے ، غیر واقعیت کی شاعری ہے …غزل کی پہلی اور آخری پہچان اس کی داخلیت ، غیر واقعیت اور بالواسطگی ہے۔ ‘‘ اور نظم میں بھی ساری چیزیں ہوتی ہیں لیکن غزل کے مقابلے میں واقعیت کا دخل ہوتا ہے ۔یعنی واقعیت اور غیر واقعیت کا فرق ہے۔ 

اس کے بعد ’’ مطالعہ اسلوب کا ایک سبق ‘‘ ہے ۔ اس عنوان میں ایک لفظ ’سبق ‘ قاری کو چونکا دیتا ہے کہ اتنے بھاری بھر کم مضامین کے بیچوں بیچ سبق جیسا مضمون فاروقی صاحب نے کیوں شامل کیا ۔ اس سوال کا جواب تو مجھے بھی نہیں پتہ البتہ سودا اور میر کی ایک ایک غزل اور غالب کی دو غزلوں کے حوالے سے انہوں نے اسلوبیات کے وہ سبق سکھائے ہیں جو عموما اسلوبیات کی کتابوں میں پڑھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ واقعی میں انہوں نے جن جزئیات کے ساتھ اس کو پیش کیا ہے ان سے شعر ی اسالیب کے خطوط طے ہوتے ہیں اور قارئین کے لیے وہ سبق ہی ثابت ہوتا ہے ۔ 

افسانے کی حمایت میں دو مضامین ہیں پہلے مضمون میں وہ یہ مشاہدہ پیش کرتے ہیں کہ ’’ ناول کے مقابلے میں افسانے کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے یہاں غزل کے مقابلے میں رباعی کی ہے‘‘ اسی مشاہدہ پر باقی مضمون مکمل ہوتا ہے ۔ دوسرا مضمون انٹرویو کے انداز میں ہے جس میں افسانہ کے فن پر گفتگو کی گئی ہے ۔

 ’’آج کا مغربی ناول‘‘ (تصورات و نظریات ) اگر چہ مغربی ناولوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے لیکن اس میں ناول کے فن پر تعمیری گفتگو پڑھنے کو ملتا ہے ۔ موصوف ابتدا میں ہی لکھتے ہیں ’’ ناول در اصل ڈرامے کا ایک محدود اور نسبتاً بے جان بدل ہے ۔ ڈرامہ بھی وقت میں گرفتار ہے ،بلکہ اگر ہم ارسطو کو اپنا رہنما تسلیم کریں تو ڈرا ما کلیتہ وقت کا غلام ہے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ناول سے برتر ہے کیونکہ ڈرامے میں عمل اور پرفارمینس کا عنصر ہے ناول اس سے عاری ہے ۔…بنیادی بات یہ ہے کہ ناول اس وقت سرسبز ہوسکتا ہے جب ڈرامے پر برا وقت پڑا ہو۔‘‘ فاروقی صاحب اتنی بڑی بات کہہ کر گزر جاتے ہیں لیکن کمال ہے کہ بعد میں اس پر کوئی بحث نظر نہیں آتی ہے ۔کیونکہ جو بات کہی وہ سچ ثابت ہوئی کیونکہ ڈرامہ زوال پذیر ہوا توناول آج سر سبز و شاداب ہے ۔لیکن اردو کی بات کی جائے تو یہاں ڈرامہ کا ناول سے کوئی مقابلہ رہا ہی نہیں بلکہ ناول زیادہ مقبول رہی ہے ۔ اور اردو ناول از اول تا ہنوز مقبول رہی ہے ، جبکہ ڈرامہ فلموں سے قبل ہی مقبول تھی اور اردو میں ڈرامہ کا شمار دیگر نثری اصناف میں ہوتا ہے ، مطلب فکشن ہونے کے باوجود فکشن کے ساتھ صف اول میں شمار نہیں ہوپاتا ہے ۔ 

 تبصر ہ نگاری کے فن پر عموما ً مضامین پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ایسے میں فاروقی صاحب کے تبصرے پر لکھے گئے مضمو ن کو بنیادی حیثیت تسلیم کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اس مضمون میں کئی نکات پر بحث کرتے ہوئے دو بنیادی پہلوؤں کے جانب اشارہ کر تے اول اخلاقی پہلو دو م تخلیقی پہلو ، یعنی کتاب کے ماسوا سے مبصر کو کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہیے خواہ مصنف کی ذات ہو یا پھر مصنف کی ماقبل کی تصنیفات ہوں ۔ اب تک کے مضامین اصناف پر تھے بعد کے مضامین جزئیات پر ہیں۔ جیسے ’’ جدید ادب کا تنہا آدمی ، نئے معاشر ے کے ویرانے میں‘‘یہ بہت ہی مختصر مضمون ہے جس میں تنہائی پر قدیم وجدید شعرا کے رویے پر خوبصورت تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے ۔ 

’’پانچ ہم عصر شاعر ‘‘کو فاروقی صاحب 1969 میں لکھتے ہیں ۔ اس مضمون میں اخترالایمان ، وزیرآغا، بلراج کومل ، عمیق حنفی اور ندا فاضلی کی شاعری پر دیگر زاویوں کے ساتھ اسلوب پر زیادہ گفتگو کی گئی ہے ۔ مضمون کے شروع میں ہی پانچوں شاعروں کی خصوصیات کو مختصراً بیان کرتے ہیں جو اجمال ہوتا ہے آنے والی تفصیلات کا ۔ تو یہاں اس اجمال کو پیش کیا جاتا ہے ۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

 ’’ اگر مجھے ان شاعروں کو مختصراً بیان کرنا ہوتو میں یوں کہوں گا :

اخترالایمان : تقریباً نثری اور روز مرہ کی زبان سے نزدیک ڈرامائی اظہار ۔ استعارے سے مبرا ، لیکن علامت سازی کی کوشش ، دروں بینی اور خود کلامی عصر حاضر پر سخت تنقیدی اور طنزیہ نگاہ، آواز میں اعتماد ۔

 وزیر آغا: رنگین پیکروں سے بھرا ہوا اظہار ، اخترالایمان کی بالکل ضد ، علامت سے زیادہ استعارہ سازی کی کوشش ، فضا خلق کرنے اور نظم میں منطقی تعمیر کا تاثر ۔

 بلراج کومل : علامت سازی ، روز مرہ کی دنیا سے دلچسپی ، لیکن اس دلچسپی کااظہار ایسی زبان میں جن میں ذاتی Involvement کی جگہ مابعد الطبیعیاتی Detatchment ہے ۔ لہجہ میں انتہائی شائستگی ۔

 عمیق حنفی : وسیع کینوس ، عصر ی دنیا اور گردو پیش کے ماحول کا شدید تجربہ ، فرد کے متصادم ہوتے رہنے کا احساس ، روز مرہ کی زبان لیکن خطابیہ لہجہ کے ساتھ جن میں خفگی اور الجھن نمایا ں ہے ۔ عصریت کا مکمل اظہار ہے ۔ 

ندافاضلی : زبان میں نسائی لچکیلا پن ، عصری حقیقت کو رو برو پاکر احتجاج کے بجائے تھکن اور بے سودگی کا احساس ، گھریلو زندگی سے مستعار لیے ہوئے پیکر ۔ ‘‘ 

اس کے بعد ہر ایک کی شاعری پر بلکہ اسلوب کی انفرادیت پر اشاراتی و قدرے وضاحتی گفتگو کر تے ہیں ۔ 

’’ن م راشد صو ت و معنی کی کشاکش ‘‘لا = انسان کے آئینہ میں ۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ اس میں موصوف صوتی تنقید بھی پیش کررہے ہیں جیسا کہ مطالعہ اسلوب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب ایسی گفتگو سننے کو نہیں ملتی ہے ، جبکہ شعری بنت میں الفاظ کے ساتھ اصوات کا بھی بہت زیادہ دخل ہوتا ہے ۔ خیر ! مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں ’’ میری نظر میں راشد کا سب سے بڑ ا کارنا مہ یہی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے انتہائی بیدار سماجی اورسیاسی شعور کے ہاتھوں اونے پونے نہ بیچ کر شاعرانہ آہنگ کے پاس رہن رکھ دیا ۔‘‘ 

’’ غالب اور جدید ذہن ‘‘میں یے ٹس اور غالب کے حوالے سے بحث ہے تاہم غالب کے اشعار کے حوالے سے جتنی بھی بحث جدید ذہن کو لے کر کی جائے کم ہی پڑ جائے گی آخر میں نتیجے کے طور پر لکھتے ہیں ’’ آج ہم جوغالب اور یے ٹس کی طرف بار بار رجو ع کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ یہ دونوں جدید انسان کی کسمپرسی کو ایک ایسی دنیا میں پناہ دیتے ہیں جو اس دنیا سے بہت بہت قریب ہے ، جس کی یادیں جدید انسان کے اجتماعی لاشعور میں پوشیدہ ہیں۔‘‘ اس پر حاشیہ میں غالب کا ایک شعر نقل کرتے ہیں جو مضمون کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے ۔ 

بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسد : دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ ہے 

 ’’ اردو شاعری پر غالب کا اثر ‘‘ کیا اثر ہوا شروع میں کچھ واضح نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء میں ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جو بڑا شاعر ہوتا ہے ان کا لب و لہجہ بعد کا شاعر اختیار نہیں کرتا ہے ، بہت سے شعرا معتقد میر و غالب رہے لیکن کبھی ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا جیسے اثر لکھنوی میر کے کلام کی قسمیں کھایا کرتے تھے اور دیگر شعرا کے شعر کے مقابلے میں میرکا شعر پیش فرما دیا کرتے تھے لیکن خود میر کا لہجہ کبھی اختیار نہیں کر سکے ۔ اسی طریقے سے حالی غالب کے ذہین ترین شاگر د تھے اور غالب کو مابعد کے لیے یاد گار غالب سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیے لیکن ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا ۔ پھر غالب کا اردو شاعری پر کیا تاثر قائم ہوا ؟ وہ دیکھیے لکھتے ہیں: ’’ غالب کا سب سے بڑا اثر اردو شاعری پر اس طرح ہوا کہ انھوں نے اپنے بعد کی تنقیدی فکر کو بہت متاثر کیا اوراردو کی بہت سی تنقید شعوری اور غیر شعوری طور پر غالب کی توجیہ Justification کے لیے لکھی گئی ۔پھر اس تنقید نے شاعر کو براہ راست متاثر کیا ۔ ‘‘ تو گویا شاعر پر نہیں بلکہ ادبی تنقید میں غالب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے ۔

’’ غالب کی مشکل پسندی‘‘بظاہر عنوان سے یہی لگا کہ ان کی مشکل پسند ی کو تہہ درتہہ پیش کیا جائے گا لیکن مضمون کے شروع میں کہتے ہیں کہ میں غالب کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کواشکال سے زیادہ بلند تصور کرتا ہوں کیونکہ’’ میری نظر میں اشکال عموماً شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن ۔‘‘ یعنی ’’ غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعار ہ ہے ۔ ‘‘ جس میں ایسی ہوش مندی کارفرمائی ہوتی ہے کہ’’ استعارہ ہیئت اور موضوع کے اس  امتزاج کو حاصل کرلیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ باقی آپ تو جانتے ہی ہیں کہ غالب نے بیدل کے اسلوب کو اپنایا ہے جو دیگر فارسی شعرا سے زیادہ پیچیدہ اسلوب کا حامل ہے جب کہ بیدل کی سرشت میں صوفیانہ پُراسرار ی تھی اور غالب پر عقلیت اور ہوش مندی حاوی تھی ۔ 

’’ غالب کی ایک غزل کا تجزیہ ‘‘میں ’’ جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی : مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی ‘‘ کا ایسا تجزیہ پیش کرتے ہیں جو مابعد کے لیے ایک رہنما خطوط ثابت ہوتا ہے لیکن افسوس ایسے تجزیات بعد میں کہیں زیادہ پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ۔ 

’’ برف اور سنگ مرمر ‘‘میں غالب کے شاگر د ناظم اور غالب کی شاعری کا موازنہ پیش کیا گیاہے ۔ جس میں بنیادی طور پر یہی ہے کہ ناظم کے یہاں غالب کا کتنا رنگ پایا جاتا ہے ۔ ’’ میر انیس کے مرثیے میں استعارہ کا نظام ‘‘میں آپ محسوس کریں گے کہ نو ر اور نور سے متعلق استعارے انہوںنے بہت ہی خوبصورتی سے قائم کیے ہیں جو استعاراتی نظام میں یقینا منفرد نظر آتے ہیں۔ ’’ یے ٹس ، اقبال اور الیٹ‘‘میں مماثلت کے چند پہلو کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔سب کے ذہن میں آرہاہوگا کہ کیسی مماثلت ہوگی نظر یاتی، موضوعاتی یا پھر فنی ؟ لیکن فاروقی لکھتے ہیں ’’ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ نسل ، زبان اور تہذیب کے اختلاف کے باوصف ان تینوں نے حیات و کائنات کے بعض مخصوص مسائل کو چھیڑا ہے اور ان مسائل کی طرف ان کا رویہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے ۔ ‘‘ الغرض اس کتاب کے اکثر مضامین شعری تنقید کے حامل ہیں جنہیں شعریات کی بنیادی تنقید میں شمار کیا جاتا ہے اور شمس الرحمن فاروقی کی یہ کتاب اردو تنقید کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ 


جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...