Thursday 30 May 2024

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری 

ڈاکٹر امیر حمزہ 


’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کا مسودہ جب مصنف محترم شفیق رائے پوری کے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھ تک پہنچا تو سرسری نظر میں مجھے بہت ہی زیادہ حیر ت ہوئی کہ جو کام ایک ادارہ کو کرنا چاہیے تھا وہ ذمہ داری شفیق رائے پوری صاحب نے خود اٹھائی اور بہت ہی درک و انہماک کے ساتھ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اس سے پہلے مصنف محتر م سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی لیکن جب انہو ں نے اگلا پیغام یہ بھیجا کہ آپ کو اس تحقیقی کاوش پر کچھ لکھنا ہے تو مجھے خیال آیا کہ میرے بارے میں کسی نے ضرور غلو سے کام لیا ہے ، ورنہ فی زمانہ بڑے بڑے دانشوروں سے ہی تحریریں لکھوائی جاتی ہیں ۔ خیر اپنے آپ کو اس ذمہ داری کے لیے تیار کیا اور ذہن نے جو کچھ ساتھ دیا وہ آپ کے سامنے ہے ۔

عنوان میں نقوش اور نقاش کے دو لفظ میں نے عمداً مصنف کی اس تحقیقی کا وش کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کیے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس پر کوئی تفصیلی کام سامنے نہیںآیا تھا اور چھتیس گڑھ میں اردو شعرا و ادبا کا جو ایک لمبا سلسلہ رہا ہے وہ محض چند مقالوں میں مشاہیر کے ساتھ ہی ختم ہوا ہے ۔ وہاں کے اکثر شعرا جو شروع میں دبستان لکھنؤ کے شعرا کے شاگر دتھے جیسا کہ تفصیلی ذکر مصنف محتر م نے خود اس کتاب کے مقدمہ میں کیا ہے انہیں پردہ ٔخفا میںہی رکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد کے اکابرین زبان و ادب نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںجن کے سبب چھتیس گڑھ میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد اردو کی نئی آبادیاں وجود میں آئیں انہیں بھی بھلا دیا گیا، ایسے میں ان مٹتے ہوئے نقوش کی جو بازیافت ہوئی ہے ان کے نقاش یقینا شفیق رائے پوری ہی ہیں ۔

اس اہم کام کو انجام دینے میں یقینا ایک طویل عرصہ لگا ہوگا۔ سب سے پہلے انہوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا ہوگا ، پھر آثار و اسانید کی تلاش میں لگ گئے ہوںگے ،اس درمیان انھیں ہزاروںنئی چیزوں کا علم ہوا ہوگا پھر ان سب میںسے چھانٹ پھٹک کر کار آمد چیزوں سے اپنی اس کتاب کو مزین کیا ہوگا۔ اس کے لیے یقینا قدیم ترین رسائل و جرائد کو کھنگالا ہوگا جس میں چھتیس گڑھ کے گمنام اور اوراق میں دفن شدہ قلم کاروں سے ملاقات ہوئی ہوگی پھر ان کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ان کے وارثین تک پہنچے ہوںگے ، حالات بدلنے کے بعد وہاں سے بھی زیادہ تر خالی ہاتھ واپس آنا پڑا ہوگا ، پھر ان کی تحریروں کے سہارے ملے بہت سارے اشارات سے بات مکمل کرنی پڑی ہوگی ۔ مجھے علم ہے کہ تحقیق کے میدا ن میں ایک ایک لفظ کے حوالے کے لیے کئی کئی کتابوں کی روق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ 

 جب سے تذکرہ و تنقید کی کتابیں لکھی جارہی ہیں تبھی سے اردو ادب کی علاقائی خدمات پر مشتمل آثار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تذکروں میں دکن کی حالت بخوبی بیان کی گئی ہے پھر بعد میں لکھنؤسمیت دوسرے شہر وںکے شعرا بھی شامل ہونے لگے ۔ بعد میں جب تاریخ لکھی جانے لگی تب اس میں دبستانوں کے عناوین سے باضابطہ ابواب بندی کی جانے لگی ، اس سے وہاں کی لسانی اسلوبیاتی و شعری خصوصیات کو اجاگر کیا جانے لگا ، اس لیے آپ کو تاریخ کی تمام کتابوں میں دکن ، دہلی اور لکھنؤ مل جائیں گے ، بعد میں جب اس پر اضافہ ہوا تو رامپور ، عظیم آباد اور مرشدآباد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ، لیکن پھر بھی اہم کتابوں میں دیگر شہروں کی ادبی فضا کوجگہ نہیں ملی تب ایک ضخیم ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (گیان چند جین ، سیدہ جعفر) مرتب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں شہروں کے اعتبار سے اردو زبان و ادب کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ۔ 

اردو زبان وادب کی ضخیم سے ضخیم اور مختصر سے مختصر کئی تاریخیں لکھی گئی ہیں، ہر ایک میں آپ کو ایک ہی نوعیت کی ترتیب ملے گی ۔قدیم اردو ، دکن کے سارے ادوار ، پھر دہلی ،لکھنؤ اس کے بعدتحریکات ، ایسے میں بہت سی ذیلی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں ، یقینا سبھی کا احاطہ کسی کے یہاں بھی ممکن نہیں ہے ۔ البتہ جمیل جالبی نے اس جانب قدم اٹھا یا اور علاقائی سطح پر روہیل کھنڈ اور بندیل کھنڈ کا خصوصی ذکرکیا۔اس کے بعد تاریخ ادب اردو کا جو سلسلہ گیان چند جین اورسیدہ جعفر کے ذریعہ شروع ہوا اس میں بعد میں جاکر شہر کے پیمانہ پر تاریخ ادب اردو کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آزادی کے بعد جب تحقیقی مقالات میں اضافہ ہوا تو علاقائی سطح پر اردو ادب کا بھی جائزہ لیا گیا ، شروع میں دبستانوں کی تاریخ کو یکجا کیا گیا پھر صوبائی سطح پر اس میں کام ہوا، اس کے بعد شہروں کی اردو  زبان و ادب کی خدمات پر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ 

ابھی کے موجودہ منظر نامے میں صوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی بات کی جائے تو اردو ہندوستان کے کم وبیش تمام صوبوں میں بولی، سمجھی اور پڑ ھی جاتی ہے ۔ کچھ صوبے ایسے بھی ہیں جہاں ہر طبقہ کے لوگ اس زبان کو لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ جنوبی ہند کے چند صوبے ایسے ہیں جہاں اردو پہلے تو مضبوط حالت میں تھی تاہم درمیان میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ اب جب تعلیم کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے تو اردو کی تعلیم میں بھی اضافہ دیکھنے کوملا ہے تاہم جدید اسکولی تعلیم سے اردو کا بھا ری نقصان ہوا ہے ،لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کیر ل جیسے صوبے میں بھی اردو کے طلبا نظر آنے لگے ہیں ۔ نارتھ ایسٹ میں کم ازکم ایک حلقہ کے افرا د تو اردو پڑھتے ہی ہیں ۔ہر یانہ ، ہماچل اورچھتیس گڑھ کی بات کی جائے توان تینوں صوبوں میں اردو کی یکساں صورت حال نظرآئے گی ۔ یہ اچانک ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی ان علاقوں میں اردو کی نمائندگی کم رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں علاقائی ادب کی تاریخ نگاری پرنظرڈالی جائے تو ان علاقوں سے کوئی خاطر خواہ کام سامنے نہیں آتا ہے ۔ ایسے میں کچھ دنوں قبل تک چھتیس گڑھ کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا ، کم ازکم ہمیں تو وہاں کی لسانی اور ادبی صور ت حا ل واضح نظرنہیں آتی تھی، لیکن اس کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ صوبہ چھتیس گڑھ کے غیر معروف شہروں میں بھی اردو زبان و ادب کی شمع روشن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جناب شفیق رائے پوری نے ڈیڑھ سو ایسے قدیم و جدید ادبا، تخلیق کار اور ناقدین کو اس کتاب میں جمع کیا ہے جنہوں نے اپنی سطح پر اردو کا چراغ خوب روشن کیا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر کو باہر کی اردو دنیا نہیں جانتی ہے، لیکن ان میں سے دو نام ایسے بھی ہیں جنہیں اردو زبان و ادب کا جاننے والا ہر فرد جانتا ہے جن کا تعلق چھتیس گڑھ سے ہی تھا اور وہ تھے اختر حسین رائے پوری اور حبیب تنویر۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر انہیں وہاں کی ادبی صورتحال کے نمائندہ ادیب کے طور پر نہیں دیکھتے پھر بھی بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جڑیں چھتیس گڑھ سے تھیں تو وہاں کی ادبی صورتحال کس قدر پختہ تھی ۔

 پچھلے پانچ برسوں میں دو عمدہ کتابیں چھتیس گڑ ھ سے تعلق رکھنے والے جس مصنف و شاعر کی پڑھنے کو ملیں ا س کا نام حنیف نجمی تھا ، تنقید و تحقیق پر جو کتاب تھی یقینا وہ لاجواب تھی ، شاعری میں بھی انھوںنے عالمی سطح پر اپنی انفرادیت کی چھاپ چھوڑی ہے ، ان کی تحریروں میں کمال کی حد تک دانشوری اور تخلیق میں اعلیٰ درجے کی فنکاری نظر آئی تھی وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی طرح خورشید حیات جنہوں نے افسانوی ادب میں گہری چھاپ چھوڑی ہے، نئے طرز کے موجد ہوئے، نیا افسانوی بیانیہ تخلیق کیا ، ان کے بغیر افسانوی ادب کی کوئی بھی فہرست مکمل نہیں ہوگی وہ بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہیں۔ مثال پیش کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اردو کے لحاظ سے اس پسماندہ صوبہ سے بھی اعلیٰ درجہ کے ادیب و شاعر تعلق رکھتے ہیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مرکزی دھارے میں ان کا شمار نہیں ہوتا ہے ۔ الغرض میں نے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کئی شعرا وادبا ہوںگے جنہیں شہرت تو دور کی بات ہے وہ صرف ایک مخصوص حلقے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ،ان کے لیے ایسی کتابیں آب حیات ثابت ہوتی ہیں جن میں ان کا اجمالی ذکر کر کے رہتی دنیا تک انہیں زندہ کردیا جاتا ہے ۔ 

’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کو شفیق رائے پوری نے بہت ہی محنت و دیدہ ریزی کے ساتھ تیا ر کیا ہے ۔پہلے باب میں انہوں نے ان شعرا و ادبا کو شامل کیا ہے جنہوںنے اس علاقہ میں اردو کی پود لگائی اور ایک ثمر آور باغ تیار کیا۔ یقینا ان کا شمار متقدمین میں ہوتا ہے ، ان کا ذکر کہیں اور شاید و باید ہی نظر آتا ہے یہاں انہوں نے تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کرکے حتی الامکان چھتیس گڑھ کے سبھی ادبا و شعرا کو جمع کیا ہے ۔ اس فہرست میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ادب کا ستارہ ابھی بھی جگمگا رہا ہے ۔ اس کے بعد پیشکش میں انہوںنے کئی درجہ بندی کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ جن ادبا کی پیدائش کہیں اور کی ہے لیکن چھتیس گڑھ میں سکونت کے دوران انہوںنے اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی ہے اس میں بھی دس سے زیادہ افراد شامل کتب ہیں ، ایسے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باہر سے جاکر وہاں عارضی قیام کرنے والوں نے وہا ںکی ادبی فضا میں کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا ہے۔ تذکرہ و تاریخ نگاری میں اکثر ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مجہول الاحوال اشخاص کا ذکر ضمناً آگیا ہو تو اسی سے تحقیق کا راستہ آگے کو نکلتا ہے لیکن اس کتاب کے چوتھے باب میں مصنف محترم نے ان اشخاص کو شامل کیا ہے جن کے زیادہ احوال و کوائف نہیں مل سکے ۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو اس کتاب کو تحقیق و تدوین کے ساتھ تذکرہ نگاری کی عمدہ مثال میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

میں محتر م مصنف کا بہت ہی زیادہ ممنون و مشکور ہوں بلکہ اردو دنیا کو بھی ممنون و مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے علاقے کی کاوشوں کو منظر عام پر لادیا جن کے متعلق یا اس علاقے کے متعلق عموما ًلوگ سوچا نہیں کرتے، نہ وہاں سے کوئی ادبی خبر سامنے آتی ہے نہ ہی رسائل و جرائد میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، وہاں جس سطح پر بھی کام ہو رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، وہاں کے مصنفین، ناقدین ،شعراو ادبا اردو لکھنے پڑھنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو زبان وادب کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ چھتیس گڑھ میں ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا اور اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے مزیدتحقیقی کام سامنے آئیںگے ۔


رباعی تنقید اور رباعیات ظفر

 رباعی تنقید اور رباعیات ظفر

ڈاکٹر امیر حمزہ 

نوادہ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ

ہندو ستان کے موجودہ شعری منظر نامے پر نظر ڈالیں توآپ کو تنقیدکی نظر سے تخلیقی دنیا کی وہ سیر کرائی جائے گی جس کا آپ شاید سیر کرنا چاہیں بھی اور نہیں بھی ۔ ناقدین کے شعری گلستاں سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ صرف دوقسم کی تخلیقات کے دلدادہ ہیں۔ اول غزل اور دوم نظم۔ ان کے سوا جوبھی شعری گلستاں کے باغباں ہیں اور وہ قسم قسم کی تخلیقات سے اردو شعری سرمایے کو سجا سنوار کر دولتمند اور خوبصورت بنارہے ہیں اس پر سکہ بند (مبینہ) نا قدین کی نظر ہی نہیں جاتی ہے ۔ یقینا اس کی وجوہات ہیں ۔ اردو کے ساتھ معاملہ یہ رہا کہ غزل نے اس مضبوطی سے یہاں قدم جمایا کہ اس کے سامنے دوسری اصناف اپنا پر بھی نہیں پھیلا سکیں بلکہ وہ قدموں کے بل چلنے کی کوشش کرتی رہیں یا یوں کہہ لیں کہ عوام و خواص کی پسند نے غزل کو اتنا مقبول بنا دیا کہ دوسری اصناف کی طرف خاطر خواہ توجہ ہی نہیں گئی ۔ ہو بھی کیوںنہ، کیونکہ ’ماقل و دل ‘ کے مصداق جو بھی چیز سامنے آتی ہے وہ زبان زد ہوجاتی ہے ۔ اسی وجہ سے گفتگو یا مناقشے میں محاورے جو کام کرجاتے ہیں وہ پانچ منٹ کی گفتگو نہیں کرپاتی ،کیونکہ اس میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ محاورہ کا مقام حاصل کرسکے ۔ وہی ذائقہ عوام کو غزلوں سے ملا ،کیونکہ غزل کے ایک شعر سے وہ بات کہہ جاتے ہیں جس کا کسی اور صنف کے سہارے ادا کرنا مشکل ہے ۔ حالانکہ میری اس دلیل میں جامعیت نہیں ہے کیونکہ جیسے ہی سخنوروں نے مثنوی کی جانب رخ کیا تو اس وقت اس کا دور دورہ تھا ، مثنوی کے خوبصورت اشعار زبان زد تھے ۔ قصیدہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، مرثیہ کے اشعار بھی زبان زد ہوتے رہے ہیں ۔ تو اب یہ بات سامنے آتی ہے کہ اشعار خواہ کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ کم سے کم الفاظ میں آرہے ہیں اور پیشکش میں مؤثر ہورہے ہیں خواہ وہ شعر کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ کامیاب ہیں ۔ کیا رباعی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ؟ ہاں اردو میں رباعی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔ اگر چہ لکھنؤکے زریں دور میں انیس و دبیر نے رباعیوں کا استعمال حاضرین کو جمع کرنے کے لیے کیا تھا اس کے بعد وہ مرثیے پیش کرتے تھے ،لیکن وہاں بھی مرثیہ کے مقابلے میں رباعی ایک ذیلی صنف سخن ہی رہی اور عوام نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔تو کیا خواص نے اسے کبھی سنجیدگی سے لیا ؟ ہاں ! شاعروں نے اپنی بساط بھر کوشش کی اور وہ اس میں کا میاب رہے اور رباعی کوانھوں نے مسلسل اپنی مشق سخن میں جاری رکھا ، یہی وجہ ہے کہ دیگر اصناف کلاسیکی میں سمٹ کر رہ گئیں اور رباعی اب تک جاری و ساری ہے ، لیکن جہاں تک رباعی تنقید کی بات ہے تو وہ اول روز سے محروم نظر آتی ہے۔ جب اردو میں تذکرے لکھے جارہے تھے تو اس وقت بھی بہت ہی کم شعرا کے لییصراحتاً رباعی گو لکھا گیا اور جب تنقید کی خشت اول رکھی جارہی تھی تب بھی شاعری کی تنقید میں غزل ونظم ا ور مثنوی پر بحثیں ہوئیں، لیکن دیگر کے ساتھ رباعیسے صر ف نظر کیا گیا ۔ تنقید کے پہلے دور میں جب تاثر ات کا دخل تھا اور جمالیاتِ ظاہر ی و باطنی پر توجہ صرف کی جارہی تھی ، غزل کی نوک پلک مو ضوعات کے ساتھ سادگی اصلیت و جوش کے سانچے میں ڈھالی جارہی تھی اس وقت بھی رباعی اپنا روایتی سفر بتدریج جاری رکھے ہوئے تھی ۔ اس وقت غزل کے کئی ادوار گزرچکے تھے ۔جیسا کہ غزل کے پہلے دور میں رباعی محض اپنی حاضر ی درج کرواتی ہے اور تقریباً ہر ایک کے یہاں نظر آجاتی ہے ۔ انیسویں صدی میں رباعی باضابطہ دیگر اصناف کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے ، انیس و دبیر مرثیہ کے سپہ سالارتھے تو ساتھ میں رباعیاں بھی لے کر چل رہے تھے ۔ غالب کے عہد میں جہاں غزل کے شعرا نے رباعی کو محض سخن گوئی میں مہارت کی پیمائش کے طور پر دیکھا تو دوسری جانب شاہ غمگین کے یہاں رباعی میں تخصص پایا جاتا ہے ۔ نظم کا دور شروع ہوتا ہے اور حالی و اکبر اس کی زلف سنوارتے ہیں ۔ جب جدید غزل و نظم کا دور شروع ہوتا ہے تو جوش و فراق ، چنگیزی و رواں کے یہاں رباعی کی روانی پائی جاتی ہے۔ جنوب سے امجد حیدرآبادی سامنے آتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، لیکن کیا رباعی تنقید میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہاں بالکل آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ شاعری کی تنقید میں ہی رباعی تنقید ہے البتہ جس طرح مثنوی اور واسوخت کی تنقید نظر نہیںآتی ہے ، اسی طرح نثر میں سفر نامہ اور رپورتاژ کی تنقید نہ کے برابر نظر آتی ہے تو رباعی تنقید بھی اسی صف میں ہے، لیکن بعد میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جب اردومیں ’الخیام ‘ جیسی کتاب نظر آئی تواردو رباعیات کی تشریح بھی مختلف سانچوں میں کی جانے لگی ۔ فرمان فتح پوری اور سلام سندیلوی جیسے رباعی تنقید کے وہ اساطین سامنے آئے جنہوں نے اردو میں رباعی تنقید کی مضبوط بنیاد ڈالی ،بعد میں یہ سلسلہ دراز نہیں ہوا بلکہ جوکچھ لکھا جا چکا تھا اس سے بہتر تو دوراس جیسا بھی نہیں لکھا گیا ۔ رسائل کے خصوصی شمارے نکلے لیکن پھر بھی دیگر اصناف سخن کی طرح رباعی تنقید میں کوئی تنوع دیکھنے کو نہیں ملا ، لیکن جب بھی کسی شاعری کی جملہ خدمات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور وہ رباعی گو بھی ہوتا ہے تو اس کا ذکر ہوتا ہے لیکن اتنا کم کہ اس کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو تنقید کے مقابلہ میں تذکرہ کی ہوتی ہے۔ تو کیا اس میںر باعی کی کمی تھی کہ وہ غزل اور نظم کے شانہ بشانہ نہیں کھڑی رہ سکی یا رباعی کے موضوعات کی تنگ دامنی تھی کہ غزل اور نظم کے موضوعات کو نہیں پاسکی یا پھر بیان و بدیع اور جمالیاتی سطح پر کچھ خلا رہ گیا تھا کہ رباعی سے وہ تاثر نہیں پیدا ہوا کہ ناقدین اس جانب توجہ کرتے اور غزل و نظم کے ساتھ رباعی کو بھی لا تے ۔ ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ ہر زاویہ سے اردو رباعی غزل و نظم کے شانہ بشانہ چل رہی تھی ، کیا فراق کی رباعیاں ان کی نظموں اور غزلو ں سے کمتر ہیں یا جوش کی نظمیں زیا دہ بہتر ہیں یا ان کی رباعیا ں ۔ سید ھا سا جواب ہے کہ ادب میں تخلیق کا معیار ناقد طے کرتا ہے اور ناقد اپنی ایک راہ منتخب کرلیتا ہے کہ اسے کس سمت جانا ہے ۔ کیا وہ شعر کے فلسفہ پر بات کرے گا یاشعری ہیئت پر ، نظم کی بنت پر بات کرے گا یا کچھ اور ۔ تو ادبی مزاج بندی میں رباعی کو ناقدین نے توجہ ہی نہیں دی ورنہ اردو میں بھی ایسے کامیاب رباعی گو پیدا ہوئے ہیں جو فارسی کے مقابلے رکھے جاسکتے ہیں۔ جس طرح سے ہم نے غزل کی مشاطگی کی ہے ،نظم کو سنوا را ہے ، قصیدہ میں علویت پیدا کی ہے ، مرثیہ میں جذبات کے دریا بہائے ہیں اسی طرح اردو میں بھی رباعی نے زندگی کے نشیب و فراز کی نمائندگی کی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ کسی کی تخلیق کو پرکھا گیا اور کئی تخلیقات پارکھ تک پہنچی ہی نہیں ۔

گفتگو رباعی تنقید سے شروع ہوئی تھی توشروع میں رباعی تنقید کے دواستاد سامنے آتے ہیں سلام سندیلوی اور فرمان فتح پوری ۔ سلام سندیلوی صاحب کی کتاب بہت ہی ضخیم ہے اور وہ شروع سے اپنے وقت تک کے سبھی رباعی گو شعرا کا شمار کرلیتے ہیں ۔ ان کے یہاں رباعی تنقید کا ایک خاکہ موجود ہے اور وہ موضوعاتی خاکہ ہے ۔ عشقیہ رباعیات ، عارفانہ رباعیات ، مذہبی رباعیات ، فلسفیانہ رباعیات ، اخلاقی رباعیات ، خمریہ رباعیات ، ذاتی رباعیا ت اور پھر کسی کے یہاں کچھ اضافی مل جاتا ہے تو انہیں ذیلی عناوین کے تحت شمار کر تے ہیں اور تشریح بھی ۔ یہ طریقہ تنقید بعد کے ناقدین کے یہاں نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اتنی تفصیلی گفتگو ہوتی ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ غزلیہ اور نظمیہ شاعری کی تنقید میںجو انداز سامنے آتا ہے وہ کسی اور صنف شاعری میں نہیں ۔ اگر میں یہ کہوں تو بیجا نہیں ہوگا کہ اب تک رباعی کی تبصراتی تنقید ہی سامنے آئی ہے ۔ یہ بھی غنیمت ہے ۔اس کے لیے خودرباعی گو شاعروں کو سوچنا ہوگا کہ انہوںنے مشق سخن میں کہاں کوتاہی برتی کہ اپنے فن کی جانب وہ ناقدین کو مائل نہیں کرسکے ۔ اس کابھی جواب نہیں ہوگا، کیونکہ چند رباعی گو شعرا نے اردو رباعی کو وہ بخشا ہے جو اردو کو فارسی کے مقابل لاکھڑا کرسکے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فارسی میں تنقید کا وہ چلن نہیں ہے جو اردو میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ شاہ غمگین ، نساخ ، جعفرعلی حسرت، انیس و دبیر ، رواں، یاس، یگانہ چنگیزی ، امجد حیدرآبادی ، جوش و فراق رباعی کے وہ بڑے نام ہیں جب ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی تو باقی پر کہاں توجہ دی جاسکتی ہے ،لیکن گزشتہ چند برسوں سے نئے رباعی گو شعرا کی جانب تو جہ دی جارہی ہے اور ان پر لکھا بھی جارہا ہے ۔

 اگر موجودہ رباعی گو شعرا کی بات کی جائے تو ان سبھی کی قسمت نے یاوری کی کہ ان پر مضامین شائع کیے جائیں اور رباعی کی دنیا میں بھی انہیں پذیرائی ملے ۔  چوٹی کے ناقدین کی بات نہیں ہے بلکہ ان ناقدین کی بات کی جارہی ہے جو ہمیشہ ادب کی رفتار کو استوار رکھے رہتے ہیں اور اپنی تحریروں سے تخلیق کاروں کی پذیر ائی کرتے رہتے ہیں ۔تاہم میری نظر میں اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں تقریبا ً دس ایسے رباعی گو شعرا تو ضرور ہیں جن پر لکھا گیا اور انہیں رباعی گوئی میں اہم مقام بھی نصیب ہوا ۔ انہی میں سے ایک ظفر کمالی ہیں ۔

ظفر کمالی کا فکر و فن متنوع کیفیات کا حامل رہا ہے ، ظرافت سے اپنا شعری سفر شروع کرتے ہیں ، تحقیقی خدمات بھی انجام دیتے رہتے ہیں ساتھ ہی وہ اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طور پر بھی ثابت کر تے ہیں ۔ان کارباعیوں کا پہلامجموعہ ’’ رباعیاں ‘‘ 2010میں منظر عام پر آتا ہے پھر ’’رباعیات ظفر‘‘ 2013 میں اس کے بعد 2017 میں’’ خاک جستجو ‘‘ کے نا م سے رباعیوں کا دیوان شائع ہوتا ہے ، بچوں کے لیے ’’چہکاریں ‘ ‘ کے نام سے بھی رباعیوں کا مجموعہ منظر عام پر لاتے ہیں ۔ اردو میں دیوان رباعیات کا چلن بہت ہی کم رہا ہے ۔ بیسویں صدی تک ہمارے یہاں دیوان غزلیات کا رواج بہت ہی زیادہ تھا ، مشہور شعرا کے دواوین ملتے ہیں ۔ اسی زمانے میں رباعیات کا بھی دیوان ملتا ہے ، لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں رباعی کے لیے یوں بیداری سامنے آئی کہ اب مجموعو ںکے ساتھ رباعی  کے دواوین بھی شائع ہونے لگے ۔ 

ظفر کمالی صاحب بھی تین رباعیوں کے مجموعے کے بعد دیوان سازی میں قدم رکھتے ہیں اور ’’خاک جستجو ‘‘ کو ادبی منظر نامے پر سامنے لاتے ہیں ۔ یہ دیوان 288 صفحات پر مشتمل ہے جس میں دیوان کے اشعار کی بات کی جائے تو وہ صرف 194صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحے میں تین رباعیاں ہیں تو کل 582رباعیاں ہوئیں ۔ ارد و کی ادبی تاریخ میں دیکھیں گے تو شعری مجموعوں کا مطالعہ جس انداز میں سامنے آیا ہے وہ دواوین کے لیے نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ رباعی کے مجموعے کے مطالعے اور دیوان کے مطالعے میں نمایا ں فرق ہوتا ہے ۔ مجموعات میں عموماً موضوعاتی ترتیب دیکھنے کو مل جاتی ہے لیکن دواوین کی فنی پابندی میں یہ باقی نہیں رہتا ہے اور موضوعات بکھرے ہوئے مل جاتے ہیں ،لیکن اس سے شعری کائنات میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ہاں اگر کسی نے دیوان بنانے کے لیے رباعیاں آورد کی ہوں تو وہاں بہت ہی زیادہ فرق پڑ تاہے بلکہ قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ خیالات و موضوعات وفنی پابندی ضرور ہے لیکن وہ نہیں ہے جسے شاعری کی روح کہی جائے یعنی خوبصورت اسلوب وانداز ، شعر کو موضوع ومضمون کبھی بھی مؤثر نہیں بناتا ہے بلکہ اسلوب نگارش ہی شاعرکو بڑا شاعر بناتا ہے۔ غزل کی طرح رباعی میں بھی سارے موضوعات برتے جاتے ہیں لیکن جو رباعی اپنے اسلوب میں نمایاں ہوگیا وہ کامیاب ہوا ۔ خواہ زندگی پر انیس کی رباعی ہو یا تصوف پر امجد حید رآبادی کی رباعی ،شرنگار رس پر فراق اور منظر نگاری پر جوش کی رباعیاں سبھی اسلوب کی بنا پر نمایاں ہوتی ہیں۔

’’ اب خاک جستجو‘‘ کی خاک چھانتے ہیں ۔ رباعیات تک پہنچنے کے لیے پچاس صفحات کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے پچیس صفحات میں دو نثر ی تحریریں ہیں جن میں اول تحریر ڈاکٹر واحد نظیر کی ہے جو ظفرکمالی کے فن رباعی کو پیش کرتی ہے اور دوسری تحریر محمد ولی اللہ کی ہے جو شخصیت کے درخشاں پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔دونوں تحریر یں فن اور شخصیت پر جامع اور مانع ہیں ۔ان مضامین پر گفتگو نہ کرتے ہوئے اصل متن کی جانب بڑھتے ہیں اور ردیف الف پر پہنچتے ہیں تویہاں موضوعاتی اعتبار سے رباعیوں کی ترتیب دیکھیں گے تو پائیںگے کہ شروع کی پانچ رباعیاں حمد کی ہیں ، سات رباعیا ں نعت نبیؐ پر ہیں اس کے بعد ایک رباعی عاجزی پر ہے پھر پانچ رباعیاں دعا پر ہیں ۔ اس ترتیب سے محسوس کرسکتے ہیں کہ پرانی روایت میں ہر کتاب کے شروع میں عربی میں خطبہ لکھنے کا رواج تھا وہ یہاں آپ کو رباعیات کی شکل میں پڑھنے کو ملتا ہے ۔فنی طور پر یہ عناصر اور بھی کئی تخلیقات میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے دیباچہ ہی رباعی کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ اس کے بعد مختلف افکار پر رباعیاں ملتی ہیں ۔ اردو شاعری میں عشق ایک کلیدی موضوع کے طور پر ہمیشہ نمایاں رہا ہے ۔رباعی میں بھی خوبصورت عشقیہ مضامین تخلیق کیے گئے ہیں ۔ یہاں پہلی جو عشقیہ رباعی ملتی ہے وہ کچھ اس طر ح ہے :

وہ لاکھ سہی تیز نہیں لڑسکتا 


فرہاد سے پرویز نہیں لڑسکتا 

آساں نہیں ہوتی یہ عشق کی جنگ 


اس جنگ کو چنگیز نہیں لڑسکتا 

عشق کو اردو شاعری نے جس فلسفیانہ طریقے سے پیش کیا ہے وہ اردو شاعری کا امتیاز بن گیا ہے ۔ اردو کا کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہوگا جس نے عشق پر شعر نہیں کہا ہو ۔ رباعی گو شاعر وں نے اس موضوع پر بے شمار رباعیاں کہی ہیں ۔یہ بھی عشق کے ہی موضوع پر ہے ۔ اس رباعی سے ذہن یقینا ’ عشق نہیں آساں ‘‘ کی جانب چلا جاتا ہے ، رباعی کی ایک خاصیت ہوتی ہے کہ اس کے تیسر ے مصرعے میں موضوع واضح ہوتا ہے بلکہ مدعا بھی اسی مصرعے میں ہوتا ہے جو اس رباعی میں بخوبی موجود ہے ۔ رباعی تلمیحات سے بھی مزین ہے لیکن قاری کے ذہن میں ایک بات ابھرے گی کہ کیا عشق مجازی کسی جنگ کا نام ہے ؟ عشق تو ایک کیفیت غیر مرئیہ کا نام ہے اور غیر مرئی چیزوں کی تقلیب نہیں ہوتی ہے ، تحصیل میں کچھ گنجائش نکل سکتی ہے لیکن کیفیت کو حاصل کرنا مشکل ہوگا گویا مادہ تو مل سکتا ہے لیکن وہ روح کہاں سے کوئی حکمراں جیت پائے گا جو عشق نام سے اس صورت جسمیہ میں موجودتھا ۔نیز جنگیں توارادی ہوتی ہیں جب کہ عشق تو غیر ارادی ہوتی ہے وہاں عقل سے کام نہیں لیا جاتا ہے ۔

اس کے بعد جو رباعی مذکو ر ہے اسے ان کا نمائندہ رباعی کہا جاسکتا ہے کیونکہ رباعی صرف موضوعات بر تنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ غزلیات کی طرح رباعیات کی بھی لفظیات ہیں جنھیں علامات و تلمیحات میں بخوبی استعمال کیا جا تا ہے ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں :

منصور کی خو ہے نہ ہے سرمد کی ادا 


دستار انا سر سے ہوئی کیسے جدا

چھایا ہے حواسوں پر کیا موسم قہر 


کیوں مرگ کے عالم میں ہے یہ خلق خدا

 منصور ، سرمد ، دستار ، انا ، حواس اور مرگ جیسے الفاظ کی بنت سے تخلیق کردہ اس رباعی کی جو فضابنتی ہے وہ صوفیانہ بھی ہے اور دنیا ئے فکرو نظر کی خاموشی کو بھی پیش کرتا ہے، یہ آج کے حالات کی بھر پور نمائندگی بھی کرتا ہے ۔ اس سب سے بڑھ کر اس رباعی میں روایتی موضوعات کی پاسداری کے ساتھ موجودہ وقت میں موضوع سے بیزاری کو بخوبی پیش کیا جارہا ہے ۔ 

 ردیف الف میں اور بھی کئی رباعیاں ہیں جو موضوعاتی اعتبار سے عمدہ ہیں ۔ سب سے زیادہ حالات کی ناہمواری کی کسک نظر آتی ہے جس میں یہ احساس دلاتے ہیں کہ عمل کی خواہش بہت ہی زیادہ ہے لیکن کسی طور بھی حالات نہیں بن پارہے ہیں کہ ان پر عمل در آمد کیاجاسکے ، ظلمت نے اس قدر انسا ن کو اپنے ماحول میں جکڑ لیا ہے کہ وہ چاہ کر بھی روشنی کی جانب قدم نہیں بڑھا پا رہا ہے ۔ فنی اعتبا ر سے تناسب الفاظ پر بحث ہوسکتی ہے اسی کے ذیل میں مصرعوں کی ترتیب کی بات ہوتی ہے ۔ کئی ایسے رباعی گو شعرا ہیں جن کے یہاں اہم بات پہلے ہی مصرعے میں آجاتی ہے جب کہ وہ آخر ی مصرعے کی زینت ہونی چاہیے وہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب تین مصرعوں میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کو اہم مانا جائے ۔

اس ردیف کی آخر ی رباعی کچھ اس طرح ہے: 

ہے گرم مگر لگتی ہے ٹھنڈی دنیا 

فرعون سے بڑھ کر ہے گھمنڈی دنیا 

رکھتی ہے بیک وقت ہزاروں شوہر 

کتنی ہے خطرناک یہ رنڈی دنیا 

اس رباعی کا آخری مصرع بہت ہی زیادہ چونکاتا ہے ۔کیا یہ اسلوب رباعی میں آپ کو کہیں دیکھنے کو ملا ہے ۔ ہاں ہزلیات میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن غزل ، نظم اور رباعی میں ایسا اسلوب آپ کو شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے ۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ حافظ شیرازی نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے ، ان کا شعر کچھ اس طرح ہے :

 مجو درستیِ عہد از جہان سست نہاد 

کہ این عجوزہ عروسِ ہزار داماد است 

(کمزور بنیاد کی دنیا سے عہد کی پختگی نہ ڈھونڈ ،اس لیے کہ یہ بڑھیا ہزار شوہر وں کی دلہن ہے )

دونوں کے موضوعات میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔ حافظ کے یہاں عہد و وفاکی بات ہے کہ یہ دنیا کسی سے بھی عہدووفا نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ہزار شوہروں کی دلہن ہے ، جبکہ ظفر کمالی کبرو نخوت کی بات کرتے ہیں اور قافیہ کے تتابع میں ایک ایسا لفظ لاتے ہیں جو موجودہ وقت میں شرفا کی زبان میں نہیں آسکتا اسی وجہ سے آخر ی مصرع ایک مکمل گالی کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ یہ سب کچھ قافیے کے تتابع میں ہوا لیکن نہ تو یہ سنجیدہ شاعری کا اسلوب ہے اور نہ ہی رباعی کا ۔ 

ردیف ت کی پہلی اور ردیف چ کی دوسری رباعی میں شاعری کی بات کی گئی ہے ۔ دونوں رباعیاں ملاحظہ ہوں :

ٹیڑھے نہ بنو کہو سدا سیدھی بات 

اس سے روشن ہوگی تاریک حیات

انصاف کرو سدا معانی کے ساتھ

شاعر تو نہیں کرتے لفظوں سے گھات


ہے تیز بہت تیری گفتار کی آنچ

دھیمی ہی رہے پیارے افکار کی آنچ 

جب دل میں سلگتی ہے دھیرے دھیرے

تب رنگ دکھاتی ہے اشعار کی آنچ

دونوں رباعیوں کو جب غور سے دیکھیں گے تو تدریج نظر آئے گا ، ساتھ ہی جو تخاطب کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اس سے اس بات کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ شاعر کے دل میں ضرور کوئی ایسا کردار رہا ہوگا جس کے لیے اس نے مندر جہ بالا رباعیاں کہی ہیں ، لیکن ہم تو اسے عمومی امر میں دیکھیں گے تو ایسا احساس ہوگا کہ یہ کسی خاص عہد کے لیے کہا گیا ہے جب مغلق زبان استعمال کرنے کا فیشن چل نکلا تھا اور دور کے معانی تلاش کیے جاتے تھے ورنہ شاعری میں جو اجمال و احتما ل کی کیفیت ہوتی ہے وہی اس کی شان و پہچان بھی ہوتی ہے جہاں معانی ہی مختص نہیں ہوتے ہیں جبکہ نثر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں معنی تو متعین ہوتا ہے اگر معنی واضح نہ ہو تو پھر وہ جملہ تصحیح کے قابل ہوتا ہے ۔ دوسری رباعی کچھ زیادہ ہی خاص ہے ، اس رباعی سے عنصر المعالی کیکاؤس کی کتاب قابوس نامہ کی یاد آجاتی ہے جہاں وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ شاعری کیسی کرنی چاہیے۔ فنی اعتبارسے دیکھیں تو دوسری رباعی پہلی سے زیادہ عمدہ ہے کیونکہ پہلی رباعی کے دونوں اشعار اپنے آپ میں مکمل ہیں جبکہ دوسری رباعی میں پیغام چوتھے مصرعے میں جاکر واضح ہوتا ہے جو رباعی کی خوبصورتی ہے ۔ 

اسی طریقے سے اگر ہر ردیف کی رباعیوںکا جائزہ لیا جائے تو یہ مضمون بہت ہی طویل ہوجائے گا ،کیونکہ ہر ردیف میں انہوں نے ایسی رباعیاں پیش کی ہیں جن میں زندگی کے تجربات اور نادرخیالات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے اورموضوعاتی سطح پر ان کے یہاں رباعیوں میں بہت ہی زیادہ رنگینیاں پائی جاتی ہیں ۔کچھ موضوعات پرانے اور کچھ نئے ہیں ۔جیسا کہ مذہب کا موضوع رباعی کے لیے جسم و لباس کی طر ح چلتا آرہا ہے یعنی رباعی کے لباس میں سے ایک لبا س مذہبی افکار کا رہا ہے ،یہ الگ با ت ہے کہ کسی نے عشق کے لباس کو زیادہ پہنا یا تو کسی نے لباس فطر ت کو رباعی میں پیش کیا ہے ، لیکن ظفر کمالی کی مذہبی رباعیوں میں طلب رشد و ہدایت نظر آتی ہے، کہیںاستدعا نظر آتا ہے تو کہیںاقبال کے رنگ کو اپنی رباعی میں پیش کرتے ہیں ۔اقبال کے یہاں مذہب اگر چہ سماجی اور قومی فلاح و بہبود کے لیے ایک قطب نما کے طور پر ابھر تا ہے لیکن ظفر کمالی کے یہاںیہی موضوع ایک داخلی کرب و احساس اور وقت حاضر کے پریشان دماغ کی عکاسی کر تا ہوا نظر آتا ہے :

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا 

اقبال ؔ

ذرہ ہوں ستاروں کی چمک دے یارب 

کر دار میں پھولوں کی مہک دے یارب

بے چین جو دکھیاروں کے دکھ سے ہوجائیں 

سینے میں وہی درد و کسک دے یارب 


جاہل ہوں مجھے علم کی تنویر بھی دے

آئینے کو میرے نئی تصویر بھی دے 

احساس کی جاگیر بھی کر مجھ کو عطا

خوابوں کو میرے خیر کی تعبیر بھی دے 


تاریک نگاہوں میں چمک دے یارب

چہرہ ہے میرا زرد دمک دے یارب 

قارون کے خزانے کی طلب مجھ کو نہیں 

کھانے کے لیے نان نمک دے یارب 

ظفر کمالی کی رباعیوں میںجو موضو ع ہمیںغالب نظر آتا ہے وہ اظہار حق ہے یعنی ان رباعیوں میں وہ ہمیں حق کی پہچان کراتے ہیں ۔ان رباعیوں میں رباعی گو اکثر اپنی حکمت بالغہ کے تحت حکیمانہ باتوں کو  حق کی شنا خت کے لیے رباعی کے پیکر میں ڈھال کر پیش کر تے ہیں ۔ اس پیش کش میں کہیں مفکر انہ اندا ز ہوتا ہے ، کہیں حاکمانہ انداز تو کہیں سادگی کے ساتھ دل پر کوئی بات ثبت کر جاتے ہیں اور کہیں ظرا فت کی زیریں لہروں میں باطل پر طنز کے ساتھ حق بات کی خبر دے کر اپنے فن کی سیرابی کر تے ہیں ۔ اس معاملہ میں ظفر کمالی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں جو حکمت پیش کر تے ہیں اس میں انہوں نے ظرافت اور احتجاج کا ملا جلا اثر رکھا ہے۔ کچھ رباعیوں میں وہ جھنجھلاہٹ کاشکا ر بھی نظر آتے ہیں اور سامنے والے کو چیلنج کر تے نظر آتے ہیں اور کہیں کہیں تو ہمت کا جذبہ بھی ہار جاتے ہیں :

دلدوز ہی تحریر لکھی جائے گی

جب خواب کی تعبیر لکھی جائے گی

اب میری تمناؤں کے خوں سے شاید

اس ملک کی تقدیر لکھی جائے گی 


نایاب ہے اب ایسی دانائی کی بزم 

افکار کی، گہر ائی کی، گیرائی کی بزم

دیکھوگے تو حیرت میں پڑ جاؤگے

میں کیسے سجاتا ہوں تنہائی کی بزم 


ظالم ہو قصائی کی طرح لگتے ہو

شیطان کے بھائی کی طر ح لگتے ہو

ایمان کوئی تم پر لائے کیسے 

تم جھوٹی خدائی کی طرح لگتے ہو

ان کی رباعیوں میں جہاں دوسر ے شاعروں کارنگ نظر آتا ہے وہیں ظرافت میں اکبر ؔ کا رنگ بھی نظر آتا ہے :

آتی ہیں نظر ایسے کنواری مائیں 

آوارہ پھرا کرتی ہیں جیسے گائیں 

جب شہر سبھی ہوگئے لندن کی طرح 

کر تے ہیں ظفر ناحق ہائیں ہائیں 


شوہر تو گئے گلف کمانے کے لیے

بکری ہو کہ اونٹ چرانے کے لیے 

دیہات میں بیگم کا دل لگتا نہیں 

شہر آتی ہیں وہ دل کو لگانے کے لیے 

ظفر کمالی وقت کے نباض کے طور پر اپنی رباعیوں میں نظر آتے ہیں، وہ اکثر مقامات پر ہوس پرستی ، لالچ ، انا پرستی ، شہرت پسندی ، بے عملی جیسی چیزوں پر طنز کرتے ہیں ۔اصل میں ایک سچا فن کار اور انسانیت سے بھر پورشخصیت جب دنیا کے جھمیلوں میں پڑتا ہے اور اپنی بصیر ت کی نظر اس پر ڈالتا ہے تو ہر مقام پر وہ شاکی دل و نظر کے ساتھ شکایت کر تا ہوا نظر آتا ہے ۔آخر ایک درد مند دل رکھنے والا انسا ن خود کی زبان و بیان پر کب تک قابو رکھ سکتا ہے ۔ مقصد اگرچہ اصلاح یا پند ونصیحت نہ ہو لیکن جب ایک شاعر اپنی نظر سے معاشر ے کو دیکھتا ہے تو اپنا رد عمل بھی شاعرانہ انداز میں پیش کر تا ہے ۔مطلق شاعر اور رباعی کے شاعر میں نمایاں امتیاز  یہی ہوتا ہے کہ مطلق شاعر خیال کی باریکی کو انوکھے انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں لگا رہتا ہے جب کہ رباعی گو شاعر کے سامنے جملہ لوازمات رباعی کے ساتھ ایک پیغام بھی ہوتا ہے جو رباعی گو کے تجر بہ پر منحصر ہوتا ہے :

دن رات عبادت کی پریشانی میں 

محنت نہ چلی جائے کہیں پانی میں

یوں سر کو پٹکنے کا حاصل کیا ہے 

سجدوں کی تڑپ نہیں جو پیشانی میں 


مت رکھو کبھی بغض کے زینے پر پاؤں 

رکھنا ہے تو رکھ دل کے کینے پر پاؤں

تو راہ صداقت سے نہ کھنچ اپنے قدم 

رہنے دے شیطان کے سینے پر پاؤں 


محبوب سبھوں کو ہے انا کا جامہ 

مطلوب کسے نہیں ریا کا جامہ

لوگوں نے اسے اتار پھینکا ہے ظفر

جسموں پہ کہاں رہا حیا کا جامہ 


جو جھکنے کی منزل پہ اکڑجاتی ہیں 

قومیں وہ نہیں بنتیں بگڑ جاتی ہیں 

اخلاق کی میراث اگر لٹ جائے 

تہذیب کی سانسیں بھی اکھڑ جاتی ہیں 

اکیسویں صدی کی کیا شروعات ہوتی ہے کہ دنیا گلوبل ولیج بن جاتی ہے ۔ جہاں تہذیب و معاشرت بھی  یکساں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، تہذیبوںمیں عدم امتیاز کا پہلو عروج پر ہے   ۔ جہاں استاد معلم و مربی ہو تا تھا اب استادصر ف ہوم ورک دیکھنے کا ایک ملازم ہوگیا ہے ۔ اب تمام ناجائز کاروبار یا ممنوع پیشے نئے ناموں کے ساتھ حلال کمائی میں شمار ہوتے جارہے ہیں۔ اقدار بدل گئیں، رہن سہن کا انداز کچھ مہینوں میں بدل جاتا ہے بالآ خر ایک شاعر تہذیب اور معاشر ت کے اس دردو کرب سے کہاں تک خود کو بچا سکتا ہے ۔ظفر کمالی نے ان رستے ہوئے زخموںکو محسوس کیا اور رباعیات میں پیش کردیا ۔ان رباعیات سے اپنی صدائے احتجاج بلندکر تے ہیں کہ آخر ہم کہاں تھے اوراب ظاہر ی چمک دمک سے مر عو ب ہو کر اسی کو بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی میں داخل کر لیتے ہیں جو مارکیٹ ہمیں مہیا کراتی ہے :

رشتوں کی پذیرائی میں کیا رکھا ہے 

ماں باپ بہن بھائی میں کیا رکھا ہے 

مانا کہ برائی تو برائی ہے، مگر 

اس دور کی اچھائی میں کیا رکھا ہے 


ہم جنس پر ستی میں بڑھے جاتے ہیں 

زینے پہ تر قی کے چڑھے جاتے ہیں 

مشر ق کا ہمیں یاد سبق کیسے رہے 

مغرب جو پڑھا ئے وہ پڑھے جاتے ہیں 


اب خواب ہے دیوانے کا پوری پوشاک 

ہر جسم پہ ہے آدھی ادھوری پوشاک

فیشن کی ترقی کا جو یہ حال رہا

کچھ دن میں نہیں ہوگی ضروری پوشاک


شہرت کی ہوس میں وہ گر فتا ر ہوئے 

چڑھتے ہوئے سورج کے پرستار ہوئے 

آنکھو ں میں نہیں ان کی حیا کا پانی

جو یار ہمارے تھے وہ عیار ہوئے 

ظفر کمالی نے شخصیات پر بھی عمدہ رباعیاں پیش کی ہیں خواہ و ہ رباعیاں بطور شخصی مرثیہ ہوں یا شخصی قصیدہ ۔انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ ٔ رباعیات میں انور جمال پاشا، حنیف نقوی، ناوک حمزہ پوری، طلحہ رضوی برق، اعجاز علی ارشد ، کوثر سیوانی اور التفات امجدی کے متعلق بہت ساری رباعیاں کہی ہیں۔اس کے بعد جب انہوں نے دوسرا رباعیوں کا مجموعہ شائع کیا تو اس میں بھی بدستور یہ سلسلہ برقرار رکھا اور’’ رباعیات ظفر‘‘ میں قاضی عبدالودود ، کلیم الدین احمد ، کلیم عاجز ، شہاب ثاقب، سید حسن عباس ، بسمل رانی پوری ، عامر سبحانی ، صفدر امام قادری، اظہار ندیم اور اپنی شر یک حیات کے نام سے موسوم کیا ہے ۔اس کے علاوہ مر ثیے اور سہرے بھی رباعی کے پیرا ہن میں پیش کیے ہیں ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں :

فن کاروں کی صف میں تو شامل ہی نہیں ؟

یا فن کی عدالت میں عادل ہی نہیں ؟

کیوں تجھ سے گریزاں ہیں نقاد ظفر ؔ

تو کچھ بھی نہیں ؟ ذکر کے قابل ہی نہیں 

ظفر کمالی کی یہ رباعی اور مندرجہ بالامیں سے کچھ خاص نام دونوں کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو قاری کے ذہن میں عجیب کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ظفر کمالی نے یہ ساری رباعیات رسم نبھانے کے لیے کہی ہیں یا یہ باور کر انے کے لیے کہ رباعی کا ایک شعبہ یہ بھی ہے جسے شخصیت شناسی کا شعبہ قرار دیا جاسکتا ہے جس پر زبان کھولنا بہت ہی مشکل ہو تا ہے کہ اگر ہم رباعی کے سانچے میں کسی کی شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں توخوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں وہ مکمل مداحی نہ بن جائے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے یا رباعی میں خاکہ پیش کر رہے ہیں تو وہ ہجو کی صورت نہ اختیار کر جائے ۔پھر بھی ان موضوعات پر رباعی کہنا اور اتنا کہنا کہ کتاب میں سے اگر منتخب کیا جائے تو ایک تہائی حصہ مختص ہوسکتا ہے :

جھجکے نہ قلم دل میں نہ ہو کوئی کسک

ظالم کو لکھو شوق سے ’’ماتھے کا تلک‘‘

مل جائے گی اردو کی حکومت تم کو 

قدموں میں چلا آئے گا شہر ت کا فلک 

رباعی کے سانچے میں اپنے خیا لات کو پیش کر نا خو د ایک دشوار کن مر حلہ ہوتا ہے پھر جب شخصی رباعی کہی جائے تو نظر اس بات پر رہتی ہے کہ شاعر موصوف اور فن کے ساتھ کتنا انصاف پرورہے ۔اس معاملہ میں ظفر کمالی کے اند رایک خاص بات یہ نظر آتی ہے کہ وہ شخصیت کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں جس کے لیے وہ شخصیت جانی جاتی ہے اور حقیقتاً وہ اس حق کی حقدارہے۔ان اشخاص کو اپنی رباعیوں میں جگہ دیتے ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں ۔ عمو ماً یہ ہوتا ہے کہ اشخاص پر لکھی گئی چیزوںکو لوگ نظر اندازکر دیتے ہیں لیکن جب شخصیت معلوم ہو اور وہ شخص ایک مینارہ کی حیثیت رکھتا ہو تو اس کے متعلق پڑھنے کی للک ہمیشہ رہتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ظفر کمالی نے مشہور شخصیات کو اپنی رباعیوںکا موضوع بنایا ہے ۔ جب رباعی کہتے ہیں تو پہلے مصر عے میں ان کی ذات ابھر تی ہے جن کے متعلق رباعیاں کہی جارہی ہیں اور دوسرے مصر عے میں فورا ً روشنی ان کی ذات سے ان کے معاصر ، ان کے نکتہ چیں یا خوشہ چیں کی جانب ہوجاتی ہے اور آخر ی مصر عے میں پوری شخصیت کو وہ ابھارتے ہیں ۔اس طر یقے کی بہت ساری رباعیاں ان کی کامیاب رباعیوں میں ہم شمار کر سکتے ہیں ۔

قاضی عبدا لودود

سچے ہیں ، یہ سچ بولیں گے ، وہ بھانپتے تھے 

جھوٹے تو انہیں دیکھ کے منہ ڈھانپتے تھے 

تھی سہل پسندوں میں دہشت پھیلی 

یہ نام ہی سنتے تھے تو وہ کانپتے تھے 

کلیم الدین احمد

عالم تھا عجب اس کی بے باکی کا 

شکوہ تھا بہت اس کی سفاکی کا 

وہ وقت بھی آیا کہ سبھی مان گئے 

کچھ توڑ نہ تھا اس کی درّاکی کا 

کلیم احمد عاجزؔ

غالب سے نہ مومن سے نہ دلگیر سے ہے 

لیلی سے نہ شیریں سے نہ تو ہیر سے ہے 

بیٹھا ہے لٹا کر وہ دل کی دنیا 

اس کو تو دلی ربط فقط میر سے ہے 

سلطان اختر 

فن کے افکار نہ کیوں سچے ہوں 

یہ حق کے طرف دار نہ کیوں سچے ہوں 

جب روح کی گہرائی سے یہ نکلے ہیں

سلطان کے اشعار نہ کیوں سچے ہوں

شخصی رباعیات کا ایک باضابطہ مجموعہ ’’سوغات ‘‘ کے نام سے 2023 میں شائع ہوتا ہے ۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ صفدری رباعیاں ہیں ، اس مجموعہ میں کل125رباعیاں ہیں اور سبھی پروفیسر صفدر امام قادری پر کہی گئی ہیں ۔ رباعی کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ایک ہی شخصیت پر کہی گئی رباعیوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے ، یہ اس کڑی میں ایک خوش کن اضافہ ہے ۔ اگر سوغات کی ساری رباعیوں کا تجزیہ کیا جائے تو پروفیسر صفدر امام قادری کا ایک خوبصورت خاکہ سامنے آجاتا ہے ۔ کتاب میں شامل مضمون میں ڈاکٹر امتیاز وحید لکھتے ہیں : 

’’ یہ رباعیاں در اصل شخصی مرقعے ، خاکہ اور سوانح کی قبیل کی چیزیں ہیں ، جن کا بنیادی محرک رشتوں کا تحفظ اور اس کا احترام ہے ۔ شاعری کی اپنی طاقت ہوتی ہے ۔ شاعرکو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ صراحت کے بغیر اپنی بات کہہ سکتا ہے ۔ ان رباعیوں کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ظفر کمالی نے صفدر صاحب کی زندگی کے ایک ایک پہلو کو نظم کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو صراحت کے ساتھ پیش کیا اور جب کسی ایک آدمی پر اتنی بڑی تعداد میں رباعیاں کہی جائیںگی تو اس کی زندگی کے مختلف پہلو آئیںگے ہی ۔ ‘‘ 

مذکورہ بالا اقتباس کی تصدیق کے لیے ’’سوغات ‘‘ سے صرف دورباعیاں ملاحظہ فرمائیں : 

ٹھوکر میں رکھے اونچے دربار کے بت 

پوجے نہیں اس نے غلط افکار کے بت 

صفدر ہے تو باطل کی صفوں میں گھس کر 

توڑے ہیں اس نے بہت پندار کے بت


دشنام کے پتھر بھی چلے ہیں اس پر 

بہتان کے خنجر بھی چلے ہیں اس پر

ایسے ہی نہیں اسے سرفرازی ملی 

احساس کے نشتر بھی چلے ہیں اس پر

اردو کی شاید ہی کوئی ایسی صنف سخن ہو جس میں بچوں کے لیے کچھ نہ تخلیق ہوا ہو ، نظم و نثر تقریبا ًتمام اصناف میں آپ کو ادب اطفال مل جائے گا ، لیکن کچھ ہی اصناف ہیں جنہوں نے ادب اطفال میں زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ اول نظمیں، دوم کہانیاں ۔ نظموں میں بھی صرف پابند نظمیں ہی ہیں جن کی مقبولیت کو اب تک کوئی پہنچ نہیں سکا ۔ وقت حاضر میں نثر ی نظمیں سب سے زیادہ لکھی جارہی ہیں لیکن اس ہیئت نے اپنے اندر وہ صلاحیت ہی نہیں پیدا کی کہ وہ ہرطرح کے موضوعات کو اپنے اندر ڈھال سکے اور نہ ہی خارجی ہیئت ایسی ہے کہ بچے کو متاثر اور متوجہ کرسکے ، اسی طریقے سے نثر میں کہانیوں کے علاوہ دیگر اصناف نے بہت کم بچوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ، پھر بھی کثیر تعداد میں بچوں کے لیے ناول لکھے گئے ہیں ۔ ایسے میں بچوں کے لیے رباعیاں کہنا بہت ہی زیادہ خوش کن امر ہے ۔ رباعیوں میں حکمت و دانائی کے موضوعات بہت ہی زیادہ مقبول رہے ہیں اور بچوں کو ایسے موضوعات اپنی جانب بہت ہی زیادہ راغب کرتے ہیں ایسے میں ادب اطفال میں رباعی کا ہنر دکھا نا انفرادیت لاتا ہے ۔ ظفر کمالی نے ’چہکاریں ‘ میں بچوں کے لیے جو رباعیاں پیش کی ہیں ان کے مطالعہ سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ رباعی کے لیے ادب اطفال کی زمین زرخیز ہے۔ ادب اطفال کی تنقید جب بھی کوئی ناقد لکھے گاتو وہ زبان میں سلاست و روانی اور غیر پیچیدگی کو ضرور پیش کریگا۔ اگر یہی عناصر رباعی میں بہت ہی اچھے سے نظر آنے لگ جائیں تو مجھے امید ہے کہ بچوں کی رباعیاں بچوں کی نظموں کے مقابل ضرور آجائیں گی ۔ ’چہکاریں ‘ سے چند رباعیاں ملاحظہ فرمائیں : 

کلّی چھوٹی بڑا ہو تو کِلاّ

پلّی کا بھائی ہوتا ہے پلاّ

لیکن ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو 

کب سمجھے گا میرا باگڑ بلاّ


اتنا بھاری بستہ کیسے ڈھوؤں 

کیا اس میں ہی ساری طاقت کھوؤں 

ٹوٹی جائے ریڑھ کی ہڈی اس سے 

ہنسنے کے دن ہیں لیکن میں روؤں 


کیا میں ہوں دنیا کو دکھلاؤں گا 

پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جاؤں گا 

پیسے جو کماؤں گا تو سب سے پہلے 

دادی کو میں نئے دانت لگواؤں گا 


کیوں لوگ پلاتے ہیں نصیحت کے گھونٹ

ہیں میرے لیے صرف فضیحت کے گھونٹ 

تم یہ نہ کرو ، یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو 

پیتا ہے کوئی اتنی مصیبت کے گھونٹ 

مذکورہ بالا رباعیات اور ماقبل میں جتنی بھی رباعیات بطور مثال پیش کی گئی ہیں ، ان سب سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ظفر کمالی نے رباعیوں کو اچھے طریقے سے برتا ہے ، لیکن رباعیوں کا مزاج و منہاج اسلوب کی سطح پر بدلا ہے اس سے امید ہے کہ رباعی شاید کبھی اپنی عظمت رفتہ کو پاسکے ۔  صرف رباعی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غزل و نظم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ، اب تو پابند نظمیں بہت ہی کم کہی جارہی ہیں اور نثری نظموں میں جو بکھراؤ ہے وہ نظمیہ شاعری کی فطر ت کے خلاف ہے۔ الغرض جملہ اصناف شاعری میں ایک طرح کے تغزل و نظمیت کی کمی کا احساس بہت ہی شدت سے پایا جارہا ہے ۔ امید ہے کہ تخلیق کار اس جانب ضرور توجہ دیں گے ۔




آتِش یا آتَش

 آتِش یا آتَش ہمارے یہاں خواجہ حیدر علی آتش کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ آتش میں بکسر دو م یا بفتح دوم کی ایک بحث کھڑی ہوجاتی ہے۔ اردو ک...