Saturday 27 July 2024

مونو گراف اختر انصاری دہلوی

مونو گراف اختر انصاری دہلوی  

مونوگراف بھی ایک عجیب قسم کی کتاب ہوتی ہے ۔ اول یہ کہ مونو گراف ہر کوئی لکھ کرشائع نہیں کرسکتاہے اب تک کے مشاہدہ کے مطابق صرف سرکاری ادارے ہی اس کو شائع کرتے ہیں ۔ دوم یہ کہ بذات خود کوئی مونوگراف کا مصنف نہیں بن سکتا ہے بلکہ اس میں مصنف بننے کا اعزاز اداوں کی جانب سے سونپا جاتا ہے ۔ سو م یہ کہ ہر ایک شخصیت پر مونوگراف نہیں لکھا جاتا ہے چہ جائے کہ پی ا یچ ڈی کا مقالہ کسی بھی صاحب تصنیف شخصیت پر تحریر کیا جاسکتا ہے اورمونوگراف کے لیے شخصیت کا ’’ادب کا ستون ‘‘ کے مانند مشہور ہونا ضروری ہے اور ان پر کئی کتابیں اور مقالے بھی تحریر میں آچکے ہوں ۔ چہارم یہ کہ صاحب مونوگراف کا سفر آخرت کو گئے کم از کم دہائی تو گزر ہی گئی ہو ۔ خیر یہ سب غیر سنجیدہ باتیں تھیں جنہیں سنجیدگی سے بھی لیا جاتا ہے ۔ 
مونوگراف میں فن اور شخصیت ہی پیش کیا جاتا ہے البتہ اس کو کتاب سے کمتر تصور کیا جاتا ہے ،جیسے ناول کے مقابلے ناولٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے صفحات میں اضافہ ہونے لگا اور اب باضابطہ کتاب کے مقابل آنے لگا ، جس سے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ موصوف کی شخصیت و فن پر جو دوسری کتابیں لکھی گئی ہیں وہ ناکافی ہیں اور یہ مونوگراف ان کی شخصیت و جملہ علمی آثار کے تجزیے پر بھرپور ہے ۔ اسی قبیل سے یہ مونوگراف بھی ہے جس کے مصنف ڈاکٹر عادل حیات ہیں ۔ڈاکٹر عادل حیات نے ایم فل اختر انصاری دہلوی کی غزل گوئی پر کیا ہے اور پی ایچ ڈی غزل کی تنقید پر ہے ۔ دونوں پر کتابیں بھی منظر عام پرآچکی ہیں ۔ تنقید کی دنیا میں تو انہوں نے بعد میں قدم رکھا لیکن غزل کی دنیا میں وہ بیسویں صدی کے آخری دہائی میں ہی قدم رکھ چکے تھے۔ اسی عہد میں بچوں پر نظم و نثر کی کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں پھر نظم ، غزل اور رباعی کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ۔ گوشہ نشیں شخصیت ہیں لیکن تحریریں ہر مقام پر نظر آجاتی ہیں ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ ان کا پہلا مونوگراف ہے لیکن اس قد ر بھر پور ہے کہ شاید ہی اس کے مقابل اختو انصاری پر کوئی اور جامع کتاب ہو ۔ اس کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق تحقیق کا عنصر نمایاں ہے جہاں انہوںنے حقائق کو واضح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علمی زندگی کی جانب سفر کرتے ہیں تو ’’شعری جہات میں ‘‘ قطعہ نگاری ، نظم نگاری ، غزل گوئی ، رباعیات اختر اور مثنوی روداد داغ پر بھر پور تنقیدی و تجزیاتی گفتگو ملتی ہے ۔ عادل حیات چونکہ خو د ایک عمدہ شاعر ہیں تو انہوں نے تجزیہ و تنقید کے نام پر محض نثر ی قصیدہ نہیں لکھا ہے بلکہ فنی باریکیوں پر بھی گفتوکی ہے اور موضوعات کا جو سائیکل اختر انصار ی کے یہاں نظر آتا ہے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے ۔ تنقید کے میدان میں اختر انصاری ترقی پسند کے ترجماں تھے لیکن وہ بھی واضح اور صحیح سمت دینے کے لیے آخری عمر تک الزامات کا ہی جواب دیتے رہے ۔ غزل تنقید میں اختر انصاری نے جو بات لکھی ہے وہ اب تک مجھے ویسی ہی نظر آتی ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ غزل کو سمجھنے اور سمجھانے میں اس کی حقیقی اقدار کو جاننے اور پہچاننے میں ہماری تنقید کا نشانہ بارہا خطا کیا اور یہ سلسلہ موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے تو ’تیر نہیں تو تکا ہی سہی ‘ والی بات ہوکر رہ گئی اور شاعر و نقاد دونوں بلکہ شاعر اور نقاد اور قاری تینوں کے ہاتھ سے غزل کا سرا ہی چھوٹ گیا ۔‘‘ اس معاملہ میں بات مزید آگے بڑھ گئی ہے اور تنقید غزل کی داخلیت سے نکل کر خارجیت کے برجو ں میں سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے یہ غزل کے ساتھ دیگر اصناف میں بھی جنون کی حد تک دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اختر انصاری کے دیگر ادبی اصناف میں روزنامچہ نگاری، خود نوشت، خطوط نگاری ، ترجمہ نگاری اور تعلیم و تعلم پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک جامع و مانع مونوگراف ہے جس کی اشاعت پر اردو اکادمی دہلی اور ڈاکٹرعادل حیات دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

Friday 12 July 2024

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

 

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

ڈاکٹرامیر حمزہ 
 نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ. انڈیا



جھارکھنڈ میں اردو افسانے کی ماضی حال اور مستقبل کی بات نہ کر تے ہوئے اگر صرف افسانہ نگاری پر بات کی جائے تو صبوحی طارق کا نام اہم افسانہ نگار کے طور پر درج ہوتا ہے ۔ صبوحی طارق کی پیدا ئش 15 اگست 1948 کو حیدرآبا د میں ہوئی تھی اور وہ بارہ برس کی عمر میں رانچی میں مقیم ہوچکی تھیں ۔ 1960 تا عمر رانچی میں ہی مقیم رہیں اور درس و تدریس کے ساتھ ادب کی خدمات انجام دیتی رہیں ۔ان کا پہلا افسانہ ’’جنگلی پھول‘‘ ماہنامہ ’ عفت ‘ کراچی میں 1962 شائع ہوا ۔ اس کے بعد تاعمر تقریبادو سو افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ صبوحی طارق افسانوی درجہ بندی کے فن سے بخوبی واقف تھیں اس کا احساس اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ’’درد کاگلاب ‘‘ 1987 میں شائع ہوتا ہے اور اس میں صرف بارہ افسانے شامل کیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد تیس بر س کی زندگی میں بھی وہ اپنا دوسرا افسانوی مجموعہ نہیں لاسکیں ۔ شاید انہیں اس بات کا احساس رہا ہوگا کہ ہر افسانہ افسانوی مجموعہ میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہے ۔
’’درد کا گلاب‘‘ ایک افسانوی مجموعہ ہے اور اسی مجموعے کا آخر ی افسانہ بھی ہے ۔ افسانہ نگار کی بات کی جائے تو انہوں نے ترقی پسند تحریک کو قریب سے دیکھا ہے اور جدیدیت کے دور کو مکمل طور پر جیا ہے ۔ ان دو بنیادی معلومات کے بعد بہت ساری چیزیں قاری کے ذہن میں واضح ہوجاتی ہیں لیکن یہ بھی واضح رہے کہ موصوفہ کا کسی بھی ادبی گر وپ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جیسا کہ انھوں نے خودلکھا ہے ’’ جہاں تک ادبی اور غیر ادبی تحریک سے وابستگی کا سوال ہے تو شاید میں وہ گنہگار ہوں جو کبھی بھی اس کار نیک میں حصہ نہیں لے سکی ۔‘‘ ان کے اکثر افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوںنے مختلف موضوعات کے ساتھ رومانیت کی تھیم میں مسائل کی پیش کش کو فوقیت دی اور اس طوفانی دور میں انہوں نے اپنی الگ راہ منتخب کرکے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ گروہ سے الگ رہنے پروہ ایک گفتگو میں کہتی ہیں ’ ’ایک حساس انسان کے لیے مخصوص محرکات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور بھاگتے وقت سے وہ کسی بھی ایسے لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس کے احساسات و جذبات کوچونکا دے ۔ ممکن ہے میں افسانے صرف اس لیے لکھتی ہوں کہ میرے احساسات کو زباں مل سکے ۔‘‘ یقینا ہر فنکار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے احساسات کو بہتر طریقے سے اپنے فن میں اتار سکے ۔صبوحی طارق نے بھی اپنے احساسات کو افسانے کے پیرائے میں پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس سالہ ادبی سفر میں موصوفہ نے اپنے اہم احساسات کو جب قلم وقرطاس کے ذریعہ زندگی دینے کی کوشش کی تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کرگئی ۔ اسی کی ایک کڑی ’’در د کا گلاب ‘‘ہے ۔ 
مذکورہ افسانہ صبوحی طارق کے دیگر افسانوں سے بطور موضوع اور تکنیک خاصا منفرد اور جدا ہے ۔جیسا کہ ماقبل کے ناقدین نے ان کے اکثر افسانوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ موصوفہ کے یہاں رومانس نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ اور جب ایسے موضوع پر لکھا جاتا ہے تو اس کی زبان میں بھی ایک جمالیات نظر آتی ہے جس کی بدولت اس کے تراکیب و استعارہ کی دنیا الگ ہوجاتی ہے اور قرأت میں بھی ایک قسم کی روانی پائی جاتی ہے لیکن یہ افسانہ دیگر افسانوں کے مقابلے بالکل الگ ہے ۔افسانہ ایک منجھے ہوئے ادیب کی زبان کے انداز میں شروع ہوتا ہے جہاں ہر جملہ قاری کوایک غیر متعین تھیم کی سیر کراتا ہے اور کہانی میں پیچیدگی داخل ہوتی چلی جاتی ہے ۔ پر وفیسر شین اختر موصوفہ کے افسانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’ یہ جدید کہانیاں نہیں لکھتیں ، یہ خود ساختہ علامتی افسانے بھی نہیں ہیں بلکہ ان میں جو اسرار و رموز ہیں وہ قابل فہم ہیں۔ان کا ہمار ی تہذیبی ، مذہبی اور سماجی زندگی سے گہرا رشتہ ہے یہ رشتہ علائم کی شکل میں ان دو کہانیوں(اذانوںکے پہرے ، کندھوں کا کتبہ) میں ابھر ے ہیں ، یہ فلسفیانہ علائم نہیں ہیں بلکہ انہیں عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔یہاں ترسیل کا کوئی المیہ نہیں ہے ، یہ کہانیاں قاری کو پیچھے نہیں چھوڑتیں ، اس کے ذہنی تفکر اور اپنے تخلیق کے درمیان ناقابل عبور خلیج نہیں پیدا کرتیں بلکہ یہ علائم اس کی رہنمائی کرتے ہیں ۔اشاروں سے حقائق تک پہنچنے کا یہ تخلیقی عمل ایک با شعور فن کار کی کامیابی کی سب سے اچھی مثال ہے ۔‘‘ یہ تو ان کے دو مخصوص افسانوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے جہا ں پر وفیسر شین اختر کاانداز تحسین و تدفیع دونوں جھلکتا ہے ۔ تحسین کا پہلو یہ ہے کہ ان کے دوافسانوں میں علامتوں کے عمومی استعمال سے افسانو ں کی خوبصورتی نمایا ں ہورہی اور اس زمانہ کے ادق اور اغلق علامتوں کے رواج  سے کنارہ کشی اختیار کرکے موصوفہ خود کو ایک باشعور فن کا ر ہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ لیکن تدفیع کا پہلو یہ ہے کہ عمومی علامتوں کااستعمال افسانوں میں کوئی جدت یا نیا پن نہیں ہے بلکہ افسانہ کی ابتدا سے یہ روایت چلی آرہی ہے اس لحاظ سے تقریباً ہر تخلیق کار کے افسانوں میں یہ خیر و شر بطور علامت دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ عمومی علامتوں کے استعمال میں جدت تو یہ ہوتی کہ وہ علامتیں خود تراشی جاتیں اور قاری کے فہم سے قریب تر ہوتیں جیسا کہ شاعری میں خوبصورت تراکیب کی اہمیت ہوتی ہے جو عمدہ بندش الفاظ کو سامنے لاتی ہیں ۔ شین اختر صاحب عمومی خوبصورتی کو خصوصی خوبصورتی کے پیرائے میں پیش کرکے چلے گئے لیکن جب میں نے اپنے نظریے سے ’’اذانوں کے پہرے ‘‘کودیکھا تو وہ مجھے ایک عجیب فضا میں تخلیق کردہ افسانہ نظر آیا جہاں مخلوق خالق کے سامنے خود کلامی میں مصروف ہے ، شروع سے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ یہاں افسانہ نگار ہیں اور ان کا معبود ۔شروع میں توایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بال جبریل کی پہلی غزل کا موضوع ہو لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا کہ موصوفہ نے شکوہ کو پیش کردیا ہے اور پھرآخر میں دعا ہے ۔ جب کہ’’ کندھو کا کتبہ‘‘ کی فضا تو یہی ہے لیکن دنیا الگ ہے ۔ دونوں میں کہانی نہیں ہے صرف خود کلامی ہے ۔ اب’’گلاب کا در د‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی دنیا کچھ اس طر ح ہے کہ وہاں کہانی بھی ہے اور مکالمے بھی ، منظر نگاری بھی ہے اور شعور کی رو بھی ۔ افسانہ کسی ایک لمحہ میں قید بھی ہے اور لمحے سے باہر زندگی کی نمائندگی بھی کر تا ہے۔ اس میں زبان کی مٹھاس بھی ہے اور فلسفے کا آمیزہ بھی ۔ 
افسانہ ایک تاریک منظر نامے سے شروع ہوتا ہے ’’ وہ گرہن کی رات تھی ‘‘ اور ٹرین کا سفر تھا اس موقع پر تاریک رات کی جتنی عمدہ منظر کشی ہوسکتی تھی وہ مکمل طور پر اس میں نظر آتی ہے جسے ایک ذی روح کی مانند پیش کیا گیا ہے۔ کیا خوب تاریکی ہے کہ ’’ جیسے ہی ٹرین نے سرنگ کے اندر جھانکا اندھیرا کسی گھبرائے ہوئے مسافر کی مانند کمپارٹمنٹ در آیا وہ آنکھیں پھاڑے باہر تکتی رہی‘‘ ۔ ماحول مکمل طور پر تاریک ہے لیکن اچانک کوئی حسین لمحہ ذہن میں یوں کوندتا ہے جیسے ’’ کہیں کہیں روشنی جگنوکی مانند لپکتی اور غائب ہوجاتی ہے‘‘ اور جب ماحول ایسا ہوتا ہے تو افسانے میں دو چار سطرو ں کی داخلی خود کلامی کا عنصر لاکر افسانہ کو مکالمے کی جانب لایا جاتا ہے اور پہلا مکالمہ یوں ظہور پذیر ہوتا ہے کہ ’’ حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا ، کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم راہ کے پتھر ہی بنے رہ جائیں ‘‘جواب میں بھی مکالمہ آتا ہے جہاں تاریک ماحول سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اچانک کہیں دور موہوم سا شعلہ لپکتا ہے شاید کسی نے سگریٹ جلائی ہو ۔دور اور موہوم کی مناسبت سے افسانہ نگار کردار کو فوراً ماضی میں لے جاتی ہیں جہاں اس جانکاہ حالت میں موجودہ کہانی میں ایک ماضی کی واقعہ نگاری پیش کی جاتی ہے جب صابی بچی تھی تب اس نے ابو سے تنک کر کہا تھا کہ ’’ ابو ! ڈاکٹر نے تو سگریٹ کا نام زہریلا بتایا تھا ۔ لیکن بیٹا یہ تو چار مینا ر ہے( چار مینار کی مناسبت بھی کیا خوب ہے کہ یہاں صبوحی طارق نے اپنا بچپنا شہر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے ) میں نہیں جانتی آپ ہمیشہ ۔سنو … تم نے اسکول کا کام پور ا کر لیا ، ہمیشہ کی طرح وہ بات بدلتے ۔ ‘‘خود کلامی ، مکالمہ اور شعور کی رو کے بعد پھر افسانے میں ایک قسم کا سناٹا چھا جاتا ہے اور پھر ذہن میں بے شمار پیدا شدہ خیالات سے افسانہ آگے بڑھتا ہے جہاں باپ اور بیٹی کے درمیان اتھاہ محبت کا سیلاب مانند لہروں کے موجودہ وقت سے ٹکرا رہا تھا ۔ افسانہ نگار اسے بہت چابکدستی سے ابو کے یومیہ طرز زندگی میں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ لمحہ بہت طویل ہوتا ہے تو صرف فجر کے وقت کا منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔پھر یادوں کے حسین لمحات کو وہ یادوں کے بوجھ میں تبدیل کرتے ہوئے فوراً وقت حاضر میں آجاتی ہیں اور خودکلامی میں یہ مکالمہ سامنے آتا ہے ۔’’ماں ! یہ کیسی صبح ہے … یہ کیسے ہنگامے ہیں۔ کسی دن کو تو ، تم چپ کر دو ‘‘ وقت حاضر میں اب تک افسانہ چل رہا ہے لیکن اچانک افسانہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی سامنے آتی ہے جس سے قاری بھی متوقع نہیں ہوتا اور نہ ہی کہیں سے پہلے اس تبدیلی کا کوئی اشارہ ہوتا ہے ۔ کیفیت حال کا یو ں بیانیہ سامنے آتا ہے ’’ ماں … میں تھک گئی ہوں ما ں ! … بے پناہ ! … اس کی آواز امڈتی اور وہ ماں کے شانے پر سر رکھ دیتی ۔ ماں ایک نظر اس پر ڈالتیں ۔ اس کے سر کو سہلاتیں جیسے کہہ رہی ہوں یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ وہ گھبرا سی جاتی…کسی کو توکچھ نہیں ہوا ۔ سب تو سوئے پڑے ہیں ۔ ‘‘ یہاں افسانہ نگار نے کس خوبصورتی سے خواب کی دنیا کی کیفیت کو افسانے میں سمو یا ہے جو موضوع سے مناسبت اور کہانی کو معنی خیز طور پرآگے لے جانے میں بہت ہی زیادہ ممدو معاون ثابت ہورہا ہے۔ اب تک کہانی کی بُنَت کودیکھیں تو رات کی تاریکی سے شروع ہوئی کہانی خواب کے خاتمہ کے ساتھ صبح کی کرن میں آچکی ہے ۔ اب ماحول میں ہلکا پن آتا ہے اور سورج کی روشنی کے ساتھ زندگی کا روشن پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے ۔اب کہانی میں وہ مرحلہ سامنے آتا ہے جس کے لیے کہانی بنی جارہی ہے یعنی صابی جو اب تک کہانی کو لیڈ کررہی تھی اس کی زندگی میںحارث کا آجانا ۔ وہ لفٹ کی ایک موہوم کیفیت میں سامنے آتا ہے جہاں’’ وہ حارث کی شناسا بھی نہیں اور حارث اس کو ناآشنا نہیں سمجھتا ‘‘ ایسے میں ایک مشفق باپ کی فکر سامنے آتی ہے جس سے تقریباً ہر ایک باپ گزرتا ہے کہ اپنی بچی کی شادی کہیں دور کیوں کرے کہ وہ رشتے کچے دھاگے کی مانند ہوتے ہیں ۔ایسے میں کہانی میں ابو اور امی کے مکالمے سامنے آتے ہیں جہاں امی رشتہ کی وکالت کرتی ہیں تو ابو خود کو حوصلہ نہیں دے پارہے ہیں ۔ ابھی تک کہانی میں کئی مناظر اور واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن سب ایک بڑے دائرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائروں میں بالتر تیب لڑی کی مانند پروئے جارہے ہیں ۔اب ایک نیا دائرہ سامنے آتا ہے لڑکی کی شادی میں باپ کی تکلیف کا کہ اس کی بچی اس سے کتنی دور چلی جائے گی اور وہ اسے دیکھ بھی نہیں پائیں گے ۔ کہانی کا یہ دائرہ بیٹی اور باپ کی کشمکش میں پروان چڑھتا ہے اور پھر باپ کی زبان سے وہ جملے ادا ہوتے ہیں جو اس کہانی کا محرک بنتے ہیں ۔’’ بیٹی تو درد گلاب ہوتی ہے ، اپنے پیچھے دکھ و جدائی کے کانٹے ہی تو چھوڑ جاتی ہے ۔ یہ درد میں سہن کرلوں گا بیٹا ! تم آبادرہو …‘‘اب اس کے بعد یقینا سفر کامنظر سامنے آئے گا اور کہانی ٹرین کے سفر کی جانب رواںہوگی لیکن افسانہ نگارکا کمال یہاں سامنے آتا ہے کہ انہوں نے شروع میں قاری پر یہ قضیہ واضح ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کون سا سفر ہے ، رخصتی کے بعد کا سفر یا وہ سفر جس کا ذکر صابی کے مکالمے میں آتا ہے کہ ابا میں جلدی لوٹوں گی ۔ اس بیچ پھر طوفان و بارش کا سامنا اور صابی کے ذریعہ یہ باور کرانا کہ اس طوفانی بارش میں ابو اس کا خیال رکھ رہے ہیں ۔ لیکن دونوں میں واضح ہوتا ہے کہ یہ حارث کے ساتھ ابو کے پاس واپسی کا سفر ہے جسے بہت ہی خوبصورتی سے افسانے کی ملول و مغموم فضا میں پرویا جاتا ہے کہ افسانے کا آخری منظر سامنے آتا ہے ۔ ’’ بابل کے دروازہ پر حارث نے اس کو سہارا دیا ۔ بھائی نے لپک کر اس کے کانپتے وجود کو تھام تھام لیا ۔ بڑی دیر کردی ۔ میرا تار ملا تھا نا !۔ جانے کیوں حارث بھائی ، ابو بہت چپ تھے ، بہت خاموش تھے ، انھوں نے کسی سے بھی کچھ نہ کہا ، صابی کے بارے میں کچھ نہ پوچھا اور ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ ‘‘ 
 گر ہن کی تاریک رات سے شروع ہونے والا افسانہ زندگی کے ایک تاریک عنصر پر ختم ہوتاہے ۔ افسانہ کی تکنیک پر مکمل طور پر یہ گفتگو کا مقام نہیں ہے البتہ اشارات سے بہت کچھ سامنے آچکا ہے ۔ اس افسانہ کی سب سے بڑی خوبی میرے سامنے یہ ہے کہ اس خوبصورتی سے افسانے کو موصوفہ نے ترتیب دیا ہے کہ صابی کا داخلی کرب خارجی حالات سے مکمل طور پرمیل کھاتا ہے ۔ افسانہ کا پلاٹ پورے طور پر گٹھا ہوا ہے جس میں کہیں سے بھی کسی قسم کا ڈھیلا پن مجھے نظر نہیں آتا ۔ زبان و بیان میں کہیں بھی کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوفہ نے خود کو بھی اس افسانہ میں پیش کیا ہے لیکن اگر کوئی افسانہ نگار سے واقف نہیں تو وہ اس احساس تک پہنچ بھی نہیں سکتا ۔ الغرض جن بزرگوں نے افسانہ کے متعلق چاول پر قل لکھنا کہا ہے وہ صبوحی طارق کے اس افسانے میں بخوبی نظر آتا ہے ۔ 
آخر میں اس امر کااظہار کرنا مجھے خود تعجب میں ڈال رہا ہے کہ پروفیسر شین اختر نے اور نہ ہی ڈاکٹر طہ شمیم نے مذکورہ افسانہ کا ذکر کیا ہے ۔ یقینا صبوحی طارق کو اس بات کا ملال رہا ہوگا کہ ان کے افسانوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور جن لوگوں نے توجہ دی ہے تو انہوں نے محض ضمنی طور پر انہیںشامل کرلیاہے ۔ 

Thursday 11 July 2024

ادبی جرنل

  ادبی جرنل 

 مدیر ڈاکٹر ہمایوں اشرف 



ہندو ستان کے صوبائی تناظر میں اگر ادبی صورتحال کی بات کی جائے تو جھارکھنڈ کو صف اول میں ہی رکھا جائے گا جب کہ جھارکھنڈ میں نہ تو کبھی کوئی دبستان رہا ہے اور نہ ہی وہاںپر کوئی قدیم ادبی روایت نظر آتی ہے ۔پھر بھی جھارکھنڈ میں لسانی و ادبی صورتحال اس قدر پختہ ہے کہ ہر شہر میں آپ کو ادبی کہکشاں نظر آجائے گی ۔ وہاں پر ہمیشہ ادبی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں ، تخلیق ، تنقید اور تحقیق میں بھی ایسے نمایا ں نام نظر آتے ہیں جن کا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ یہ تو محض میرا دعویٰ ہے لیکن اس دعوے کی دلیل آپ کواس ادبی جرنل میں بخوبی پڑھنے کو ملے گا جسے بہت ہی کدو کاوش کے ساتھ ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے مرتب کیا ہے۔ یہ مجلہ شعبہ اردو ونوبا بھاوے یونی ورسٹی کا شاہکار سالانہ ادبی جرنل ہے۔ 2023 کا یہ مذکورہ شمارہ جھارکھنڈ کے اردو شعرا و ادبا پر مختص ہے ۔ میرے خیال میں جھارکھنڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے جھارکھنڈ سے شائع ہونے والا یہ پہلا ادبی دستاویز ہے ، دستاویز میں اگرچہ بہت کچھ سمیٹا جاتا ہے لیکن محدود صفحات اور محدود وقت میں سارے علاقات کو سمیٹ لینا ایک محال امر ہے پھر بھی اس ضخیم رسالہ میں فکشن ، شاعری اور تنقید و تحقیق سے تعلق رکھنے والے حتی الامکان شخصیات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے پھر بھی تشنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن تشنگی تو دلکشی کی علامت ہوتی ہے تو وہ باقی ہی رہے گی ۔ اس کتابی مجلہ سے قبل جامعات سے جھارکھنڈ کے حوالے سے تحقیق مقالے سامنے آئے ہیں ، ایک زمانہ تھا جب مقالوں کے دامن بہت ہی وسیع ہوتے تھے لیکن اب اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ آپ کو ہر مقالے میں ’’کے حوالے سے ‘‘ کا لاحقہ پڑھنے کو مل جائے گا ، جب کہ یہ میگزین کسی بھی سابقہ اور لاحقہ سے خالی ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علاقہ جھارکھنڈ میں قیام پذیر خواہ وہ چھوٹا ناگپور سے ہوں یا سنتھال پرگنہ سے سبھی کی ادبی خدمات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تاہم مدیر محترم کی عاجزی و انکساری بھی ہے کہ انہوںنے اداریہ میں برملا اظہار کیا ہے کہ حتی الامکان سبھی کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم کئی شخصیتیں ایسی ہوںگی جن کا ذکر چھوٹ گیا ہوگا انہیں مستقبل کے شماروں میں ضرور شائع کیا جائے گا ۔ 

مجلہ کو بنیاد ی طور پر پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ اول :ابتدائیہ ، دوم: جھارکھنڈ شاعری کے حوالے سے ، سوم : جھارکھنڈ فکشن کے حوالے سے ، چہارم : جھارکھنڈ تحقیق و تنقید کے حوالے سے ، پنجم : شعبہ کی سر گرمیا ں ۔ ابتدائیہ میں اداریہ کے علاوہ چھ مضامین بھی ہیں وہ مضامین شاعری کے حوالے سے ہیں یا فکشن کے حوالے سے لیکن انہیں ابتدائیہ میں رکھا گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ان میں عمومی طورپر جھارکھنڈ کے چند نمایاں ادبی خدمات کا جائزہ لیاگیا ہے ۔ جیسے جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار ، خواتین کے خواتین افسانہ نگار اور جھارکھنڈ میں طنز و مزاح وغیرہ ۔ڈاکٹر زین رامش نے جھارکھنڈ کی خواتین افسانہ نگاروں میں تقریبا بیس سے زائد خواتین افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق شہر آہن جمشید پور سے ہے ۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف اپنے مضمون ’ جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار‘ میں گیا رہ غیر مسلم افسانہ نگاروں کاذکر کرتے ہیں او ر اتفاق سے اس میں بھی اکثریت سکھوں کی ہے ۔ رسالہ کے شاعری کے حصہ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو جھارکھنڈ میں اردو شاعری کی عظیم روایت نظر آتی ہے جس میں سہیل واسطی ، شمیم ہاشمی ، صدیق مجیبی ، وہاب دانش، سرور ساجد ، سید شمیم احمد، شیدا چینی ، انور ایرج، عقیل گیاوی، پرکاش فکری، شان بھارتی ، اظفر جمیل ، وقار قادری، نادم بلخی ، ارمان بہاری ، مقبول منظر ، وہاب دانش ، حیرت فرخ آبادی ، اسلم بدر، مہجور شمسی، اختر مدھوپوری اور شعیب راہی کی شعری کائنات پر ڈاکٹر منظر حسین ، پروفیسر کوثر مظہر ی ، ڈاکٹر راشد انور راشد ، ڈاکٹر قیصر زماں و دیگر کی تحریروں نے ادبی جرنل کو وقار بخشا ہے ۔

 ’جھارکھنڈ : فکشن کے حوالے سے ‘  میںغیاث احمد گد ی ، الیاس احمد گدی، کہکشاں پروین ، منظر کاظمی ، پرویز شہریا ر ، انور امام ، اختر آزاد ، احمد عزیز ، گلزار خلیل ، اسلم جمشید پوری ، ش اختر ، خورشید جہاں ، مسعود جامی اور شیریں نیازی کی فکشن خدمات یا ان کے کسی ایک فن پر 19 تحقیقی و تنقیدی مضامین سے اس رسالہ کی وقعت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔اس حصے کے چند اہم مقالہ نگار پروفیسر قمر جہاں ، ،مشرف عالم ذوقی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر کہکشاں پروین، پرو فیسر شہاب ظفر اعظمی ، ڈاکٹر رونق شہری ،ڈاکٹر سید احمد قادری و دیگر ہیں ۔ 

’جھارکھنڈ : تحقیق و تنقید کے حوالے سے ‘ ‘ میں پرو فیسر منظر حسین ، ڈاکٹر حسن نظامی ، نادم بلخی ، وہاب اشر فی ، ش اختر ، پروفیسر ابو ذر عثمانی ، ڈاکٹر احمد سجاد ، منظر شہاب ، سید منظر امام ، ظہیرغازی پوری ، جمشید قمر ، پرو فیسر ارشد اسلم ، ڈاکٹر ہمایوں اشرف اور ڈاکٹر محمد یو نس کی تنقیدی و تحقیقی فتوحات کا ذکر بخوبی کیا گیا ہے۔ تحقیق و تنقید کے اس حصہ کو پر فیسر احمد سجاد ، اسلم بدر ، ڈاکٹر سر ور حسین ، ڈاکٹر سید ارشد اسلم ، امام اعظم اور دیگر کئی نئی نسل اور نئی فکر کے حامل قلمکاروں سے سنوارا گیا ہے ۔  مذکورہ بالا عظیم اسما پر جب آپ کی نظر گئی ہوگی تو محسوس ہوا ہوگا کہ جھارکھنڈ کی سرزمین نے اردو ادب کو نمایاں جواہر پارے دیے ہیں ۔ ان میں سے کئی ایسی شخصیتیں ہیں جو اپنی لازوال نگارشات کی وجہ سے اس فن میں عدیم المثال ہیں۔ اردو نے انہیں کبھی بھی علاقائی تناظر میں نہیں دیکھا ہے لیکن جب کہیں پر علاقائیت کی بات آتی ہے تو وہاں فخریہ اندا ز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاں فلاں ادیب کا تعلق فلاں علاقے سے ہیں ۔ شروع میں مَیں نے جھارکھنڈ کے ادبی منظر نگاری کو صف اول میں رکھا تھا اس کی وجہ اس مجلہ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔نیز اس مجلہ میں جن شخصیات کی تحریریں شامل ہیں ان سب کا تعلق جھارکھنڈ کی نئی نسل سے ہے او ر ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو موجودہ نئی نسل میں نمایاں شناخت کے حامل ہیں جسے تیار کرنے میں وہاں کی یونیورسٹیوں کا نمایاں رول رہا ہے ، خصوصاً ونوبا بھاوے یونی ورسٹی نے اپنے قیام کے محض اکتیس بر س میں جو نئی نسل تیار کی ہے وہ بھی قابل اعتنا ہے ۔مدیر محترم ڈاکٹر ہمایوں اشر ف کو مبارکباد نیز امید ہے کہ ادبی جرنل کے اس شمارہ کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی ۔


صفحات  525

 قیمت 500 روپے

ناشر  شعبہ اردو ،ونوبابھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ ، جھارکھنڈ

مبصر ڈاکٹر امیرحمزہ ، نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ 

Tuesday 9 July 2024

ترجمہ سے ترجمانی تک

  ترجمہ سے ترجمانی تک

ڈاکٹر امیر حمزہ



’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.

فقلت ماسمک

فقال لو لو

فقلت لی لی

فقال لالا

جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔

اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق

منارتہ تزہو علی الفخر والزینٖ

تقول وقد مالت علیّ ترفقوا

فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت

و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ

قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 

وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں

شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔

اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,

Humpty Dumpty had  a great  fall,

All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men

Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.

اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت

ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ

راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے

ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن

دہی چھٹاکن

آلو بیگن

کھٹا چورن

گھنگرو باجے

چھن چھن چھن چھن

گھنٹہ بولا

ٹن ٹن ٹن ٹن

ہنستے گاتے

چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔

’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

آتِش یا آتَش

 آتِش یا آتَش ہمارے یہاں خواجہ حیدر علی آتش کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ آتش میں بکسر دو م یا بفتح دوم کی ایک بحث کھڑی ہوجاتی ہے۔ اردو ک...