Saturday 27 July 2024

مونو گراف اختر انصاری دہلوی

مونو گراف اختر انصاری دہلوی  

مونوگراف بھی ایک عجیب قسم کی کتاب ہوتی ہے ۔ اول یہ کہ مونو گراف ہر کوئی لکھ کرشائع نہیں کرسکتاہے اب تک کے مشاہدہ کے مطابق صرف سرکاری ادارے ہی اس کو شائع کرتے ہیں ۔ دوم یہ کہ بذات خود کوئی مونوگراف کا مصنف نہیں بن سکتا ہے بلکہ اس میں مصنف بننے کا اعزاز اداوں کی جانب سے سونپا جاتا ہے ۔ سو م یہ کہ ہر ایک شخصیت پر مونوگراف نہیں لکھا جاتا ہے چہ جائے کہ پی ا یچ ڈی کا مقالہ کسی بھی صاحب تصنیف شخصیت پر تحریر کیا جاسکتا ہے اورمونوگراف کے لیے شخصیت کا ’’ادب کا ستون ‘‘ کے مانند مشہور ہونا ضروری ہے اور ان پر کئی کتابیں اور مقالے بھی تحریر میں آچکے ہوں ۔ چہارم یہ کہ صاحب مونوگراف کا سفر آخرت کو گئے کم از کم دہائی تو گزر ہی گئی ہو ۔ خیر یہ سب غیر سنجیدہ باتیں تھیں جنہیں سنجیدگی سے بھی لیا جاتا ہے ۔ 
مونوگراف میں فن اور شخصیت ہی پیش کیا جاتا ہے البتہ اس کو کتاب سے کمتر تصور کیا جاتا ہے ،جیسے ناول کے مقابلے ناولٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے صفحات میں اضافہ ہونے لگا اور اب باضابطہ کتاب کے مقابل آنے لگا ، جس سے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ موصوف کی شخصیت و فن پر جو دوسری کتابیں لکھی گئی ہیں وہ ناکافی ہیں اور یہ مونوگراف ان کی شخصیت و جملہ علمی آثار کے تجزیے پر بھرپور ہے ۔ اسی قبیل سے یہ مونوگراف بھی ہے جس کے مصنف ڈاکٹر عادل حیات ہیں ۔ڈاکٹر عادل حیات نے ایم فل اختر انصاری دہلوی کی غزل گوئی پر کیا ہے اور پی ایچ ڈی غزل کی تنقید پر ہے ۔ دونوں پر کتابیں بھی منظر عام پرآچکی ہیں ۔ تنقید کی دنیا میں تو انہوں نے بعد میں قدم رکھا لیکن غزل کی دنیا میں وہ بیسویں صدی کے آخری دہائی میں ہی قدم رکھ چکے تھے۔ اسی عہد میں بچوں پر نظم و نثر کی کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں پھر نظم ، غزل اور رباعی کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ۔ گوشہ نشیں شخصیت ہیں لیکن تحریریں ہر مقام پر نظر آجاتی ہیں ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ ان کا پہلا مونوگراف ہے لیکن اس قد ر بھر پور ہے کہ شاید ہی اس کے مقابل اختو انصاری پر کوئی اور جامع کتاب ہو ۔ اس کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق تحقیق کا عنصر نمایاں ہے جہاں انہوںنے حقائق کو واضح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علمی زندگی کی جانب سفر کرتے ہیں تو ’’شعری جہات میں ‘‘ قطعہ نگاری ، نظم نگاری ، غزل گوئی ، رباعیات اختر اور مثنوی روداد داغ پر بھر پور تنقیدی و تجزیاتی گفتگو ملتی ہے ۔ عادل حیات چونکہ خو د ایک عمدہ شاعر ہیں تو انہوں نے تجزیہ و تنقید کے نام پر محض نثر ی قصیدہ نہیں لکھا ہے بلکہ فنی باریکیوں پر بھی گفتوکی ہے اور موضوعات کا جو سائیکل اختر انصار ی کے یہاں نظر آتا ہے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے ۔ تنقید کے میدان میں اختر انصاری ترقی پسند کے ترجماں تھے لیکن وہ بھی واضح اور صحیح سمت دینے کے لیے آخری عمر تک الزامات کا ہی جواب دیتے رہے ۔ غزل تنقید میں اختر انصاری نے جو بات لکھی ہے وہ اب تک مجھے ویسی ہی نظر آتی ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ غزل کو سمجھنے اور سمجھانے میں اس کی حقیقی اقدار کو جاننے اور پہچاننے میں ہماری تنقید کا نشانہ بارہا خطا کیا اور یہ سلسلہ موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے تو ’تیر نہیں تو تکا ہی سہی ‘ والی بات ہوکر رہ گئی اور شاعر و نقاد دونوں بلکہ شاعر اور نقاد اور قاری تینوں کے ہاتھ سے غزل کا سرا ہی چھوٹ گیا ۔‘‘ اس معاملہ میں بات مزید آگے بڑھ گئی ہے اور تنقید غزل کی داخلیت سے نکل کر خارجیت کے برجو ں میں سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے یہ غزل کے ساتھ دیگر اصناف میں بھی جنون کی حد تک دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اختر انصاری کے دیگر ادبی اصناف میں روزنامچہ نگاری، خود نوشت، خطوط نگاری ، ترجمہ نگاری اور تعلیم و تعلم پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک جامع و مانع مونوگراف ہے جس کی اشاعت پر اردو اکادمی دہلی اور ڈاکٹرعادل حیات دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...