Monday 16 September 2024

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"


جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ الفاظ و محاورات اور تراکیب کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے. جوش کو پڑھنے کا میرا واحد مقصد زبان کا طریقہ استعمال سے آگاہ ہونا ہے. جوش نے جس قسم کے الفاظ اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ نہ تو ان سے پہلے نظر آتا ہے اور نہ ہی ان کے بعد. 

جوش کی رباعیات کے حوالے سے کام کرتے ہوئے جوش مجھے اتنے منفرد نظر آئے کہ میں ان کے مقابلے میں کسی کو بھی نہیں لا سکا خواہ پیچیدہ موضوعات ہوں یا خوبصورت الفاظ، رومانوی انداز بیاں ہو یا محاوراتی زبان، حکیمانہ و فلسفیانہ باتیں ہوں یا خوبصورت تراکیب، سبھی کچھ مجھے ان کے یہاں دیکھنے کو ملا، 2750 رباعیات میں کم و بیش 400 رباعیاں  لفظوں یا مصرعوں کی تبدیلی کے ساتھ بھی نظر آجاتی ہیں. 

لیکن مجھے ان کی دو غیر مطبوعہ کتابوں کا شدت سے انتظار تھا. ہلال نقوی سر سے مستقل باتیں ہوتی رہیں. فرخ جمال سے بھی باتیں ہوئیں. یہ دونوں کوشاں تھے کہ کسی طریقے سے ان کی غیر مطبوعہ کتابیں "محمل و جرس" اور "فکر و ذکر" منظر عام پر آجائے. محمل جرس ان کا آخری مجموعہ کلام ہے اور فکر و ذکر ان کی آخری نثری تحریر کا مجموعہ ہے. اس کو آپ تراشے کے ضمن میں بھی شامل کر سکتے ہیں. کوئی تحریر صفحات پر محیط ہے تو کوئی یک سطری. کہیں فلسفیانہ ابال ہے، تو کہیں رومانویت سے بھرپور مناظر ہیں، کہیں وقت حاضر کے حاکموں پر پرزور چوٹ ہے، تو کئی مقام پر ناقدین  ادب کی بھی انہوں نے خیر لی ہے. خصوصا فکر ذکر کے حوالے سے بات کروں تو یہ کتاب میں تقریبا تین مرتبہ پڑھ چکا ہوں بہت سارے نشانات بھی میں نے اس میں لگائے ہیں جو میرے پسندیدہ صفحات ہیں.
یہ بھی میں عرض کردوں کہ جوش کے شعریات سے میں مکمل اتفاق نہیں رکھتا ہوں، انہوں نے لفظی اشتقاق کے تجربات سے تنافر بھی پیدا کیا ہے اور کہیں معنوی پیچیدگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، علامات کے افراط سے روانی میں کمی بھی آئی ہے، اور کہیں کہیں املا میں ان کا جبر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، خیر لفظوں سے متعلق ان کی ایک رائے اس کتاب سے ملاحظہ ہو.
 "زبان میں متقدمین کے حدود سے تجاوز کو کفر سمجھ کر اجتہاد کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ جدید الفاظ سے متروکات کی خانہ پری نہیں کی جائے گی ۔ نیاروزمرہ، نئے ضرب الامثال ، اور نئے محاورے نہیں بنائے جائیں گے۔ حیوانات کے نروں اور ماداؤں، بچوں، اور اُن کی آوازوں کے واسطے، اسماء نہیں تراشے جائیں گے. جمادات کے تمام الوان و اقسام کو ناطقے کے آنکڑے میں نہیں لیا جائے گا۔ نباتات کے رنگوں ، اور خوش بوؤں اور دھاریوں کے ناموں کی تسکیک نہیں کی جائے گی۔ تمام ذائقوں کے واسطے الگ الگ الفاظ نہیں تراشے جائیں گے. اور، وہ خیالات ، تصورات ، مفرد و مرکب جذبات، احساسات، تصورات، تخیلات، مفکورات. جو آج تک برہنہ سر، گونگے ہیں۔ اور اُن کی پیشانیوں پر، اسماء کی ٹوپیاں ، کج نہیں کر دی جائیں گی. وہ زبان ، تادیر، سلامت نہیں رہے گی۔ اور اُس بے آب درخت کی مانند جو خشک ہوکر زمین پر آجاتا ہے، بھرجی کے بھاڑے میں جھونک دیا جاتا ہے."

اس حوالے سے ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو. 

الفاظ خیالات کی سواریاں ہوتے ہیں۔ جن کی وساطت سے، دل کی بات،زبان تک آتی ، اور خموشی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
افسوس کہ سواریاں ، ثمردۂ و محدود، اور سوار، نا قابل شمار ولا محدود ہیں۔ لغات کے خالی اصطبل میں، تین چار لاکھ سے زیادہ سواریاں موجود نہیں ہیں، اور دماغ کے بھرے پرے شہر میں سوار ہیں اور اربوں کھربوں ۔ چنانچہ سواریوں کی اس عبرت ناک قلت اور سواروں کی اس حیرت ناک کثرت نے ، عالم حرف و حکایت پر اس قدر قہر نازل کر رکھا ہے که جذبه اظہار و ابلاغ کی نبضیں چھوٹی ہوئی ہیں، اور کروڑوں سوار ( خیالات ) سواریوں (الفاظ) کی نایافتگی ، اور جمود کی فراوانی کی بناء پر وجع مفاصل اور فالج میں گرفتار ہو ہو کر،دم تو ڑ چکے ہیں."
اس کتاب میں انہوں نے اپنے مختلف خیالات کو نثری پیرہن میں پیش کیا ہے، ایک بات اور عرض کردوں کہ اگر جوش نثری شاعری کے قائل ہوتے تو شاید ان کی یہ پوری کتاب اسی ہیئت سے متصف ہوتی، ابھی بھی قاری سطروں کو توڑ کر نثری شاعری کے اسلوب میں اس کتاب کے اکثر مضامین کو پڑھ سکتا ہے. لیکن وہ تھے کھرے شاعر اس لیے پابند سے کبھی بھی غیر پابند کے پاس سے بھی نہیں گزرے 
یہ کتاب 220 صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت 500 روپے ہے. 

دوسری کتاب "محمل و جرس" شعری مجموعہ ہے، اس کے سرورق میں اگرچہ 1972 درج ہے لیکن آخری تحریر میں 15 اپریل 1972 درج ہے. 
جوش اپنی ہر کتاب کو ابواب میں تقسیم کرتے تھے اور ہر باب کا نام بھی رکھتے تھے، اس کتاب کو بھی دو ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب کا نام "مسافر خانے کی آخری رات کا شب خون" جس میں 28 نظمیں ہیں.
اور دوسرے باب کا نام "دھوپ چھاؤں" ہے اس باب میں تقریباً پچھتر نظمیں ہیں.

"یہ سچ ہے کہ میری زبان سمجھنے اور بولنے والے، ماشاء اللہ ، کروروں افراد ہیں۔ لیکن مجھ کو اس علم سے، ذرہ برابر بھی تسلی نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ میرے ہم زبانوں میں چھیانوے فی صد، نرے جاہل ، دور سنگ کے سے، بے ترشے اور وحشی چہرے والے جاہل ہیں۔ اور وہ، دو پاؤں، پر بھدے پن سے، چلنے والے چوپائے ہیں اور ایسے درندہ خو چو پائے کہ ان کے قریب جاؤ تو وہ دلتیاں جھاڑنے ، اور سینگ مارنے لگتے ہیں۔ ان بلبلاتے اونٹوں کے ریوڑ میں، بمشکل چارفی صد افراد ایسے ہیں جن کو تعلیم یافتہ کہا جاسکتا ہے لیکن ان میں بھی اکثریت ہے ان کی، جنہیں حرف شناس جہلاء کے علاوہ اور کوئی خطاب نہیں دیا جا سکتا۔ اس ڈگری یافتہ جہالت کی علت یہ ہے کہ انھوں نے ، دماغ میں علم کی شمع جلانے کے واسطے نہیں ، صرف پیٹ کی آگ بجھا لینے کی غرض سے، جوں توں کر کے، سندیں حاصل کی ہیں ، وہ اپنے معدوں کی آبادی کے تمنائی ہیں اور ان کو اس کی پروا، اور اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ ان کی کھوپڑیاں ، ویران ، اور بھا ئیں بھا ئیں کر رہی ہیں۔ اس نان پرستار و آگاہی بیزار دنگل میں، ایک ، یا ڈیڑھ فی صد افراد ضرور ایسے ہیں ، جن کو،مروت سے کام لے کر ، صاحب علم و نظر کہا جا سکتا ہے۔"
 یہ بھی ضروری نہیں کہ جوش کی ہر بات سے اتفاق کروں، یقیناً ان میں علویت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. انہوں نے کبھی بھی خود سے بڑا تو دور کی بات ہے برابر بھی کبھی نہیں سمجھا. ادبی دنیا کی بات کی جائے تو وہ ناقدین پر نظم بھی تحریر کر چکے ہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقید جس روش پر چل رہی تھی ان کی شاعری اس روش سے الگ تھی. اس لیے ان کی کبھی کسی سے بنی نہیں. ساتھ ہی یہ وجہ بھی رہی کہ وہ کبھی بھی کسی ایک نظریہ پر قائم نہیں رہے، وہ نظریاتی اعتبار سے صرف شاعری کے نظریہ کے پابند تھے کہ کسی بھی موضوع کو شاعری کہ پیمانہ میں کیسے ڈھالا جائے. اسی لیے شاید وہ شاعر آخرالزماں کہلائے. یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری کا باب ان پر ختم ہوجاتا ہے، ان کے بعد تو ضمیمہ کا دور شروع ہوجاتا ہے. 
اس مجموعہ سے نظم "خود اعتمادی" ملاحظہ فرمائیں. 

کیا ہوا، آج، جو ناقابلِ پرواز ہوں میں
 عرش کو، جس کی تمنا ہے، وہ شہباز ہوں میں

اے خوش آغاز بد انجام، مجھے کیا معلوم
 کہ نوا سنج خوش انجام و بد آغاز ہوں میں

مجھ کو، آنکھوں پہ جگہ دے، جو نظر ہو تجھ میں
 کرہ ارض، تیری خاک کا اعجاز ہوں میں

ظلمتِ نقل کی جانب، نہ پکارو مجھ کو
 مشعل عقل کا پروانہ جاں باز ہوں میں

 چھیڑ سکتی نہیں، ذرات کی مضراب جسے
 دست خورشید ہاں تاب کا وہ ساز ہوں میں 

جس کی گل بانگ سے اُڑتا ہے شب تار کا رنگ 
خیمہ صبح کا وہ زمزمہ پرداز ہوں میں

عادتاً، عشق کی منزل میں ہوں، پابند نیاز 
فطرتاً، حُسن کا، سر تا بہ قدم ناز ہوں میں 

فاش ہو جاؤں، تو ، جھک جائے سر دیر و حرم
سینه حکمت کونین کا، وہ راز ہوں میں

مجھ کو، ہر ذرہ ناچیز، یہ دیتا ہے صدا
 اس طرف دیکھ کہ معشوقہ طناز ہوں میں

کہہ رہا ہے یہ، در قصر عفاف ملکوت
 آ، ترے مقدم عصیاں کے لیے باز ہوں میں

طائر سدرہ نہ نہ گھبرا کہ میں کم ظرف نہیں
 جس کی زد پر ہے قضا، وہ قدر انداز ہوں میں

نہیں پھوٹی ہے جو اب تک، وہ کرن ہوں اے جوش
 جو، گلے تک نہیں پہنچی ہے، وہ آواز ہوں میں

اس کے بعد ساٹھ صفحات میں جوش شناسی پر مضامین ہیں. اگر جوش کے زمانہ میں ہی یہ کتاب شائع ہوتی تو شاید اس قسم کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، وہ شاید ہی اپنی کتاب میں کسی اور کی تحریر پسند کرتے. پیش کنندگان کو اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے تھا. 
میرا خیال یہ کتاب ان کی زندگی میں ہی منظر عام پر آجاتی تو شاید یہ مجموعہ بھی نصاب کا حصہ ہوتا. 520 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 900 روپے ہے. 
الغرض ظاہری و معنوی اعتبار سے دونوں کتابیں لاجواب ہیں، شاعر آخرالزماں کی آخری نشانیاں ہیں. جو چالیس برسوں بعد ہمارے لیے accessible ہوئی ہیں. اس کے لیے ہم اردو برادری جناب عدیل زیدی اور عبارت پبلیکیشن کے شکر گزار ہیں.

Thursday 12 September 2024

آتِش یا آتَش

 آتِش یا آتَش

ہمارے یہاں خواجہ حیدر علی آتش کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ آتش میں بکسر دو م یا بفتح دوم کی ایک بحث کھڑی ہوجاتی ہے۔ اردو کے اکابرین اکثر ت پر زبر کے قائل ہیں، ہم تو شروع سے ہی یعنی گلستاںکے زمانے سے ہی آتش میں ت پر زیر پڑھتے آئے ہیں ۔لیکن ہمیں اس وقت تعجب ہوا جب ایم اے کے زمانہ میں پہلی مر تبہ آتَش پر وفیسر علی جاوید کی زبان سے سننے کو ملا، اس وقت انہوں نے کہا دونوں درست ہے۔ ابھی غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام خواجہ حیدر علی آتش کے سمینار میں بینر پر Aatsh  لکھا دیکھا تو سوچا کہ اس لفظ پر بھی چھان بین کرنی چاہیے۔ تو اس کوشش میں لگ گیا او ر جوںجوں کتابیں مطالعہ میں آتی گئیں اس میں خصوصی طور پر دیکھتا رہا کہ ت پر زبر ہے یا زیر یا کچھ بھی نہیں۔ خیر، دیکھتے ہیں کیا ملتا ہے۔

افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر نسیم احمد نے واضح طورپر کہا کہ آتش میں ت پر زبر ہی درست ہے ۔ کیونکہ کلیدی خطبہ میں اکثر مقام پر پروفیسر احمد محفوظ نے ت پر زبر ہی پڑھا ،لیکن کہیں کہیں ان کی زبان سے آتِش بھی سننے کو ملا ۔ پروفیسر شہپر رسول صاحب نے ت پر زیر ہی پڑھا ۔ 

دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مقالا ت کے بعد پرو فیسر احمد محفو ظ نے اس مسئلہ پر پھر گفتگو کرتے ہوئے آتش برو زن تر کش پر زور دیتے ہوئے مظفر علی اسیر لکھنوی کا ایک قطعہ تاریخ بطور دلیل پیش کیا ۔ 

دلم از مر گ آتش بود غم کش

ز آتش یا فتم تاریخ آتش 

 اس کے بعد پروفیسر اخلاق آہن نے فارسی کے قدیم ما خذ سے بھی یہ ثابت کیا کہ یہ آتش بر وزن تر کش ہے ۔ صدارتی خطبہ میں پروفیسر نسیم احمد نے بھی کہا کہ ’’دسیوں شعر میر کے ہیں آتش ردیف کے ساتھ ‘‘ لیکن مجھے میر کا ایک بھی شعر نہیں ملا جس میں آتش ردیف ہو ۔ خیر اب لغات کی جانب رخ کرتے ہیںاور ان کا میلان معلوم کرتے ہیں : 

 فرہنگ فارسی معین: تَ یا تِ( یہاں دونوں موجود ہے )

فرہنگ فارسی عمید: (atars, atas) (آتیش اور آدیش س نکلا ہوا ہے )

لغت نامہ دہخدا: آتَش (بطور تخلص آتش اصفہانی اور آتش لکھنوی کا بھی ذکر ہے)

فرہنگ آصفیہ: لفظ آتش کے تلفظ میں اختلاف میں ہے، اکثر فرہنگ نویسوں نے تو بکسر تا اوربفتح تا دونوں طرح رکھا ہے مگر بعض نے صرف اخیر صورت کو مانا ہے۔بلکہ پہلی صورت کی نسبت گوزیادہ ہی کیو ں نہ بولتے ہوں، ہمیں بھی تامل ہے کیونکہ جہاں تک شعرا ئے فارس کے اشعار ہماری نظر سے گزرے ہم نے برابر سرکش اور مشوش وغیرہ کے ساتھ آتش کا قافیہ پایا۔ چنانچہ ظاہر ہے۔

آہ تن سوز دروں سے شکل آتش ہے مرا 

دل کسی آتش کے پر کالے پہ جو غش ہے مرا (جرأت)

حریص و جہاں سوزو سرکش مباش 

زخاک آفریدنت آتش مباش  (سعدی)

دیوانہ ام زخانہ مشوش برآمدہ

طوفانم از تنو بہ پر آتش آمدہ (نظیر ی )

البتہ صاحب فرہنگ جہانگیری نے مولوی معنوی کا یہ شعر جس میں بکسر تائے فوقانی باندھا ہے سنداً بیان کیا ہے۔

گفت آتش من ہمانم آتشم

 اندر آ، تا تو بہ بینی تابشم

مگر ہم اس موقع پر قدیم فارسی کے موافق ضرورت شعر کے باعث بکسر تا قافیہ باندھ دینا جائز خیال کرسکتے ہیں نہ کہ اس کو ٹکسالی مانیں، کیونکہ زبان زند سے بھی جس پر فارسی زبان کا مدار ہے او ر نہایت پرانی زبان ہے جس کے الفاظ نے مرور زمانہ کے باعث اس قسم کی تبدیلیاں اختیار کی ہیں۔ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ آترس بفتح تائے فوقانی یہ لفظ حسب قاعدہ رائے مہملہ گر کے آتس ہوا۔ اور پھر بشین معجمہ آتش ہوگیا۔ بلکہ یہی وجہ ہے کہ شعرائے فارس نے اپنے کلام میں بفتخ تا ہی اس کا استعمال زیادہ کیا ہے۔ اس جگہ ہمیں صاحب فرہنگ جہانگیری سے کلی اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی ہم انہیں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ قدیم فارسی اس امر کا بخوبی ثبوت دے رہی ہے کہ آتِش بکسر تائے فوقانی کی اصل آدیش یا آتیش ہے۔

صاحب آصفیہ نے جس صورت سے جملہ کو ترتیب دیا ہے اس میں یہ بخوبی ظاہر ہورہا ہے کہ اکثریت ت کے زیر کی ہے ۔جیسا کہ آپ اس جملہ میں غور کرسکتے ہیں’’ اکثر فرہنگ نویسوں نے تو بکسر تا اوربفتح تا دونوں طرح رکھا ہے مگر بعض نے صرف اخیر صورت کو مانا ہے۔ ‘‘ پہلے تو انہوں نے اکثر کا تعلق کسرہ اور فتحہ دونوں سے جوڑا پھر ’’ مگر ‘‘ کے بعد ’’بعض ‘‘ سے اختصاص کرتے ہیں ۔ گویا ان کے زمانہ میں اکثریت کسرہ والوں کی ہی تھی ۔شواہد پر بحث کرتے ہوئے وہ صاحب فرہنگ جہانگیر ی سے کلی اتفاق تو نہیں کرتے ہیں لیکن ان کو غلط بھی نہیں ٹھہراتے ہیں کیونکہ مولانا روم کے یہاں بھی نظر آرہا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوا ۔ اردو سے بھی اس کی مثال آگے پیش کی جائے گی ۔

نوراللغات: آتش لفظ آترس تھا، قدیم فارسی میںآتیش اور اس سے آتش ہوگیا۔ بکسر تا و بفتح تا دونو ں طرح صحیح ہے۔لیکن اساتذہ کے کلام میں عموما بفتح دوم پایا جاتا ہے۔

لغات روز مرہ: شمس الرحمن فاروقی 

’’اردو میں لفظ آتش کا تلفظ بروزن ترکش، بفتح سوم ہی رائج اور درست ہے۔ بعض لوگ اس لفظ میں سوم مکسور (بروزن بارش بولتے ہیں۔ رائج تلفظ بفتح سوم (بر وزن ترکش ہے اور اب یہی مرجح ہے۔ برہان قاطع میں اس کا تلفظ سوم مکسور سے لکھا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ لفظ دراصل ’’آدش‘‘ تھا، پھر آتیش ہوا، اور بعد میں اس نے موجودہ صورت اختیار کی۔ بعد کے لوگوں نے یہ رائے نہیں تسلیم کی ہے۔ آئند راج میں اس کا تلفظ صرف بفتح سوم لکھا ہے، یعنی صاحب آنندراج کی نظر میں آتش بروزن بارش کا وجود ہی نہیں۔ امیر مینائی نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ اسے بروزن بارش کہتے ہیں لیکن اردو کے فصحا کے یہاں بر وزن ترکش ہی دیکھا گیا ہے۔ نور اللغات میں یہی رائے ذرا بدلے ہوئے الفاظ میں درج ہے۔ صاحب آصفیہ نے آتش کو صرف بفتح سوم لکھا ہے۔ پھر انھوں نے ایک لمبا حاشیہ بھی درج کیا ہے جس میں سوم مفتوح اور سوم مکسور پر گفتگو ہے۔ ان کا فیصلہ یہی ہے کہ اسے بفتح سوم بولنا چاہیے ۔

ایک بات یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ آتش کے ساتھ جو لفظ اردو میں مستعمل ہیں، ماسوائے آتشک، ان سب میں سوم مفتوح ہی ہے، (آتش بازی آتش دان میر آتش آتش کدہ آتش غضب؛ وغیرہ) - صاحب آصفیہ نے تو ’’آتشک کو بھی بفتح سوم لکھا ہے۔ شیکسپیئر نے آتش کو فتح سوم اور بکسر سوم دونوں طرح لکھا ہے، لیکن آتش سے بنے والے تمام الفاظ (بشمول آتشک) میں سوم مفتوح ہی بتایا ہے۔ اس کے برعکس شان الحق حقی نے اپنی لغات تلفظ میں آتش کو صرف بکسر سوم لکھا ہے، اور اس سے بننے والے تمام الفاظ (آتش کدہ آتشناک آتش بازی؛ وغیرہ) کو بھی بکسر سوم لکھا ہے۔ بیدار بخت کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ آتش بازی بکسر دوم ہی سنا ہے اور وہ بھی اسی طرح بولتے بھی ہیں لیکن آتش کے بارے میں انھوں نے کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔ اردو لغت، تاریخی اصول پر میں آتش بکسر سوم اور فتح سوم دونوں طرح لکھا ہے، لیکن بکسر سوم کی کوئی سند نہیں دی ہے۔ آصفیہ میں بفتح سوم کی کئی اردو فارسی اسناد مذکور ہیں۔ صاحب آصفیہ نے جہانگیری کے حوالے سے مولانا روم کا ایک شعر نقل کیا ہے جس میں آتش کو تابش کا قافیہ کیا گیا ہے۔ لیکن آصفیہ میں یہ بھی لکھا ہے، اور صحیح لکھا ہے کہ چونکہ حرف روی کے ماقبل حرف کی حرکت میں اختلاف روا ہے، لہذا آتش تابش کے قافیے سے آتش کا تلفظ بکسر سوم ثابت نہیں ہوتا۔ (جہانگیری کے مطبوعہ نولکشوری نسخے میں لفظ آتش نہیں درج ہے، آتشیزہ البتہ درج کر کے اسے صاحب ’’جہانگیری نے سوم مفتوح لکھا ہے)۔

مختصر یہ کہ دہلی میں اب بھی آتش بر وزن بارش رائج ہے، چاہے بہت عام نہ ہو۔دہلی کے باہر بول چال میں آتش بروزن ترکش ہی عام ہے۔ ’’آتش سے بننے والے الفاظ میں بھی آتش اب زیادہ تر بفتح سوم ہی بولا جاتا ہے۔‘‘

فاروقی صاحب اپنے اسلوب اور تمام شواہد سے اس پر مصر ہیں کہ آتش بفتح ت ہی صحیح ہے ۔ ساتھ ہی ان کا آخری اسٹیٹمنٹ بہت ہی دلچسپ ہے کہ دلی والے زیر سے بولتے ہیں اوردلی سے باہر کے لوگ زبر سے ہی بولتے ہیں ۔ یہ یقینا ان کا مشاہدہ ہوگا ۔ 

لیکن میں توبچپن سے آتش برو زن بارش سنتا آیا ہوں اور اب بھی نناوے فیصد آتش ہی بولتے ہیں۔ تو کیا آتَش کی جانب لوٹنا ممکن ہوگا یا نہیں؟ شاید نہیں! کیونکہ یہ تلفظ تو رومی کے دور سے ہی چلن میں ہے۔ ہاں ایران میں نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ سبک ہندی، دری و خراسان میں رائج ہو اسی وجہ سے رومی کے یہاں بھی ملتا ہے۔ اور جو لہجہ صاحب آصفیہ کا ہے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بھی یہ زبان زدو عام تھا۔ اس لیے انشا نے دریائے لطافت میں ایسے مسائل کے اوپر صاف صاف لکھ دیا ہے:

’’مخفی نماند کہ ہر لفظے کہ در اردو مشہور شد عر بی باشد یا فارسی یا ترکی یا سریانی یا پنجابی یا عر بی از روی اصل غلط باشد یاصحیح آن لفظ لفظ اردو است۔اگر موافق اصل مستعمل صحیح است و اگر خلاف اصل است ہم صحیح است صحت و غلطیِ آن موقوف بر استعمال پذیرفتن در اردو است زیرا کہ ہر چہ خلاف اردو است غلط است۔گو در اصل صحیح باشد بہ و ہر چہ موافق اردو است صحیح باشد گو در اصل صحت نداشتہ باشد‘‘۔

یعنی لفظ خواہ کسی بھی زبان کا ہو اردو میں جیسا مستعمل ہے وہی درست مانا جائے گا ۔ 

صاحب اور صاحَب ،محبت اور مَحبت،کنار ہ اور کَنارہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔

اب پھر لوٹتے ہیں مظفر علی اسیر کے اس شعر کی جانب جسے پروفیسر احمد محفو ظ صاحب نے پیش کیا تھا ۔ 

دلم از مر گ آتش بود غم کش

ز آتش یا فتم تاریخ آتش 

 قافیہ کے اس مسئلہ پر فاروقی صاحب درس بلاغت میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں : 

’’اگر حرف روی کے پہلے آنے والے حرف میں دونوں جگہ حرکت ہوتو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ حرکتیں مختلف ہوسکتی ہیں ۔ چنانچہ’ خوش‘ کاقافیہ ’شش‘(بمعنی چھ ) اور ’کم‘ کا قافیہ ’گم ‘ ہوسکتا ہے ۔‘‘(ص 129)

شاید اسی وجہ سے ’’ تذکرۂ معرکہ سخن ‘‘ میں مولوی عبدالباری آسی لکھتے ہیں: 

’’قدما اختلاف توجیہ کو بڑا عیب نہ سمجھتے تھے ۔ آتش ناسخ غالب وغیرہ کے زمانہ تھے یہ جائز تھا ۔غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو 

دل لگا کر آپ بھی غالب مجھی سے ہوگئے 

عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے 

’صاحب ‘ رب ، سب وغیرہ کا ہم قافیہ رکھا گیا ہے ۔حالانکہ صاحب بکسرحائے حطی صحیح ہے اوربفتح غلط ہے ۔ ‘‘(ص:3)

اب یہاں پر غالب یاتو صاحب کا تلظ غلط کررہے ہیں یا پھر قافیہ درست نہیں ، اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر آسی اور فاروقی  دونوں کی بات درست ہورہی ہے جب یہ درست ہے تو پھر ہر مقام پر آتِش بھی درست ہے ۔ 




Tuesday 10 September 2024

رسم الخط کی اہمیت

خالق کا ئنات نے انسان اور حیوان میں جو بنیا دی فرق رکھا ہے وہ نطق کا ہے، خدا نے انسان کو نطق کی صلاحیت سے نوازا نیز اسے اشیا کے علم سے بھی نوازا۔ یہیںسے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ علم کے حصول کا تعلق بھی اشرف المخلوقات سے رکھا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ حیوان علم کے حصول پر دسترس رکھتے ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم البتہ اتنا تو علم ہے کہ علم کی بنیادی کیفیت شراکت کی ہے تو کیا وہ اس کی ترسیل کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ جواب کیا ہوگا اس سےمتعلق بھی میں یہاں حتمی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خدا نے انسان کو جتنا بھی نوازا ہےاسے بہتر انداز میں یوٹیلائز کرنا بھی سکھایا ہے، اس لیے نطق کی صلاحیت کے ساتھ ترسیل لسانی و مکتوبی سے بھی نوازا ہے۔ جسے ہم جسم اور روح سے تعبیر کرتے ہیں یعنی رسم الخط کا زبان سے وہی رشتہ ہوتا ہے جو روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ جب دنیا کی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں برسوں سے کوئی نہ کوئی زبان بولی ہی جارہی ہے، لیکن آج بھی تاریخ میں وہی زبان زندہ ہے جسے رسم الخط نصیب ہوا اگر چہ اس تحریر کے پڑھنے والے اب دنیا سے ناپید ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان مجہول اشکال کے معروف معانی کی تلاش میں اصحاب لسانیات بر سر فکر ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں دنیامیں مل جاتی ہیں۔ مصر جسے اُم الثقافہ کہا جاتا ہے، جس کی زبان اور تہذیب و ثقافت کی تاریخ بہت ہی زیادہ قدیم ہے، اس سرزمین میں کتنے آسمانی صحیفے اترے اس کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ قدیم کتب سماویہ بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہیں ہیں تو دنیا بھی اس زبان کو بھلا چکی ہے اور اب

وہاں کی اپنی زبان صرف عربی ہی ہے۔ کیونکہ دنیا ابھی بھی اس زبان کو یا درکھی ہوئی ہے جو کہیں بھی مکتوبی شکل میں موجود ہے۔ زبانوں کی بھی عجیب تاریخ ہے کب کس زبان کی بالا دستی قائم ہو جائے اور کب کون پردۂ خفا میں چلاجائے کوئی نہیں جانتا۔ مغرب و مشرق کی زبانوں کی بات کی جائے تو مغرب میں آپ کو تنوع کی وہ کیفیت نظر نہیں آئے گی جو مشرق میں خطہ بہ خطہ دیکھنے کو ملے گی۔ عرب دنیا جہاں قدیم زبانوں کی ایک بھر پور تاریخ ملتی ہے وہاں اب صرف ایک زبان رائج ہے اگر چہ ہر ملک کا اسلوب الگ الگ ہے، لیکن زبان ایک ہی بولی جاتی ہے۔ مشرق میں برصغیر اس معاملہ میں سب سے منفرد ہے ۔

آج دنیا اتنی گلوبلائز ہوگئی ہے کہ مضبوط زبانوں نے گھڑیال بن کر کمزور زبانوں کونگلنا شروع کر دیا ہے، ایسے میں زبانوں کا تحفظ بہت ہی مشکل امر ہو گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے دیکھنے کومل رہا ہے کہ نئی نسل کی تعلیمی شروعات اُس زبان سے ہو رہی ہے جو عالمی زبان ہے۔ زبانوں کے مٹتے ہوئے اس پر آشوب دور میں بھی ہندوستان میں آئینی طور پر بائیس ایسی زبانیں ہیں جنہیں سرکاری سطح پر یکساں مقام حاصل ہے لیکن پھر بھی زبان وہی باقی رہے گی جس کا اپنا رسم الخط ہوگا ، ہندوستان کے موجودہ منظر نامے کی بات کی جائے تو ابھی بھی کئی ایسی زبانیں ہیں جو اپنے رسم الخط میں لکھی جارہی ہیں جبکہ کچھ دیوناگری میں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن چند ایسی زبانیں بھی ہیں جنہیں اپنے وجود کے ختم ہونے کا احساس ہوا تو انہوں نے قدم اٹھایا اور سہل پسندی کو چھوڑ کر اپنے لیے رسم الخط کو رائج کیا جن میں سنتھالی کی اولچکی اور منی پوری کی میتی مئی رسم الخط ہے، جو کچھ عرصہ پہلے تک بالترتیب دیوناگری اور بنگالی رسم الخط میں لکھی جارہی تھی۔ سنتھالی کو اڑیسہ میں اڑیا اور مغربی بنگال میں بنگالی میں بھی لکھا جا رہا ہے ۔ سنتھالی کے لیے باضابطہ کوئی رسم الخط نہیں تھا ، آج سے سو برس پہلے ہی اس زبان کے رسم الخط کا وجود عمل میں آتا ہے اور 2003 میں جب اسے شیڈیول 8 میں شمار کیا جاتا ہے تو اس میں اسکرپٹ کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ یہ اونچکی میں لکھی جائے گی لیکن آج میں بائیس برس بعد بھی جھارکھنڈ اس پر متفق نہیں ہے، کیونکہ انہیں تو عادت دیوناگری کی پڑی ہوئی ہے اور بطور دلیل جھارکھنڈ کے دانشوران یہی کہتے ہیں کہ سنتھالی میں زبان میں جتنی صوتیات ہیں اس کی نمائندگی اولچکی میں زیادہ نہیں ہے اور دیوناگری رسم الخط سنتھالی زبان کو بہتر انداز میں پیش کرتا ہے۔ الغرض رسم الخط کی یہ لڑائی تین صوبوں کے عوام و خواص کے درمیان جاری ہے وہ بھی صرف دسترس کی وجہ سے کہ اگر نئے رسم الخط میں لکھا جانے لگا تو سنتھال پر گنہ اس معاملے میں پیچھے رہ جائے گا، منی پوری کی اولچکی کی بات کچھ الگ ہے، آج سے ہزار سال پہلے منی پوری او لچکی میں ہی لکھی جاتی تھی کہ اچانک خارجی حکمراں کا اس علاقہ میں قبضہ ہوتا ہے اور وہ وہاں کی زبان کو متاثر کرتا ہے ساتھ ہی وہاں کے رسم الخط کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں کے باشندے اپنے اصلی رسم الخط کی جانب لوٹ رہے ہیں اور اب ساری  درسی کتابیں میتی مئیک میں ہی شائع ہورہی ہیں۔ مندرجہ بالا تناظر میں اردو کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے بہت ہی تیزی کے ساتھ برصغیر میں قدم جمایا۔ بر صغیر سے باہر وسط ایشیا میں بھی اس کے قارئین اور ناطقین کی اچھی خاصی تعداد تھی لیکن سیاست کے کھیل میں یہ زبان ہندوستان میں سرکاری طور پر معتوب تصور کی جانے لگی اور اردو کے مقابلے ہندی کے فروغ نے اس کے پر کو کترنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ البتہ جہاں ہندی زبان نہیں بولی جاتی ہے وہاں اردو زبان آج بھی مضبوط حالت میں نظر آتی ہے کیونکہ وہاں اردو کے مقابلے اس کی ہم شکل ہندی نہیں بلکہ مراٹھی ، تیلگو اور کنٹر آتی ہے اس لیے وہاں اردو اچھی حالت میں ملتی ہے۔ الغرض تمام سازشوں کے باوجود اگر یہ زبان زندہ ہے تو صرف اپنے رسم الخط کی بدولت ورنہ عوام اردو بولتے ہیں اور سر کار ان سے کہتی ہے کہ آپ اردو نہیں بلکہ ہندی بولتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے بھی ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو سامنے والا فرد یہی سمجھتا ہے کہ ہم ہندی بول رہے ہیں جب کہ ہماری زبان اردو ہوتی ہے ، ہاں جب کوئی لفظ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اردو بول رہےہیں ، جب کہ وہ بالی ووڈ کے نغمات میں تھر کتے رہتے ہیں اور انہیں ہندی اس وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ انہیں ہندی کا نام دیا گیا اور اسی رسم الخط میں وہ مشہور بھی ہے ۔ آپ ان نغمات کو نستعلیق رسم الخط میں تلاش کریں گے تو بہت ہی کم نتیجہ برآمد ہوگا ۔

اس جانب اشارہ کرنے کی وجہ یہ بھی آن پڑی کہ گزشتہ چند برسوں میں اردو زبان کو نستعلیق سے زیا دہ رومن اور دیوناگری میں فروغ دیا جا رہا ہے نیز لکھنے کی وکالت بھی کی جارہی ہے۔ اس سے اردو زبان کا وہی حال ہوگا جو ہمارے یہاں سندھی کے ساتھ ہوا۔ سندھی جس کا عربک رسم الخط عالمی رسم الخط مانا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں سہل پسندی کی وجہ سے سندھی دیوناگری میں لکھی جارہی ہے اور نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ اس زبان کے قاری اور کاتب اب مٹھی بھر رہ گئے ہیں۔ آج سے پچاس برس بعد کہیں وہی حال اردو کے ساتھ نہ ہو جائے کیونکہ سندھی کو مثال میں رکھیں تو آزادی کے بعد پہلی نسل وہ تھی جوعربی رسم الخط میں سندھی لکھتی تھی ، دوسری نسل وہ ہوئی جس نے سندھی کو دیوناگری میں منتقل کیا اور اب تیسری نسل میں مٹھی بھر ہی رہ گئے ہیں جو سندھی جانتے ہیں ۔ یہی حال ہمارا ہوگا کہ آج ہم اردو لکھ پڑھ رہے ہیں، ہماری آنے والی نسل سہل پسندی کی وجہ سے اس کو دیوناگری میں لکھے اور پڑھے گی اور بعد کی نسل وہ ہوگی جو یہ جانےگی بھی نہیں کہ اردو کوئی زبان بھی تھی۔ ایسے میں دوسری زبانیں جن کا دائرہ اردو کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے وہ اپنے رسم الخط کو لے کر بہت زیادہ متفکر ہیں اور زبان کے تحفظ کے لیے الگ رسم الخط کی تخلیق میں لگی ہوئی ہیں ،وہیں اردو کے ساتھ مختلف رویہ اپنا کر تقلیب رسم الخط کی وکالت کر کے وہ زبان کے خیر خواہ نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے آلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جسے تاریخ میں تہذیب و ثقافت کے ویلن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو بہت ہی بہتر انداز میں سمجھنا ہے تو منی پوری کی ہزار سالہ تاریخ کو پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے مذہبی بالا دستی کے لیے رسم الخط کو تبدیل کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے لیکن زبان ہی سے تہذیب و ثقافت اور مذہبی اصطلاحات میں نمایاں تبدیلی کی جاتی ہے۔

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...