Saturday 27 July 2024

مونو گراف اختر انصاری دہلوی

مونو گراف اختر انصاری دہلوی  

مونوگراف بھی ایک عجیب قسم کی کتاب ہوتی ہے ۔ اول یہ کہ مونو گراف ہر کوئی لکھ کرشائع نہیں کرسکتاہے اب تک کے مشاہدہ کے مطابق صرف سرکاری ادارے ہی اس کو شائع کرتے ہیں ۔ دوم یہ کہ بذات خود کوئی مونوگراف کا مصنف نہیں بن سکتا ہے بلکہ اس میں مصنف بننے کا اعزاز اداوں کی جانب سے سونپا جاتا ہے ۔ سو م یہ کہ ہر ایک شخصیت پر مونوگراف نہیں لکھا جاتا ہے چہ جائے کہ پی ا یچ ڈی کا مقالہ کسی بھی صاحب تصنیف شخصیت پر تحریر کیا جاسکتا ہے اورمونوگراف کے لیے شخصیت کا ’’ادب کا ستون ‘‘ کے مانند مشہور ہونا ضروری ہے اور ان پر کئی کتابیں اور مقالے بھی تحریر میں آچکے ہوں ۔ چہارم یہ کہ صاحب مونوگراف کا سفر آخرت کو گئے کم از کم دہائی تو گزر ہی گئی ہو ۔ خیر یہ سب غیر سنجیدہ باتیں تھیں جنہیں سنجیدگی سے بھی لیا جاتا ہے ۔ 
مونوگراف میں فن اور شخصیت ہی پیش کیا جاتا ہے البتہ اس کو کتاب سے کمتر تصور کیا جاتا ہے ،جیسے ناول کے مقابلے ناولٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے صفحات میں اضافہ ہونے لگا اور اب باضابطہ کتاب کے مقابل آنے لگا ، جس سے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ موصوف کی شخصیت و فن پر جو دوسری کتابیں لکھی گئی ہیں وہ ناکافی ہیں اور یہ مونوگراف ان کی شخصیت و جملہ علمی آثار کے تجزیے پر بھرپور ہے ۔ اسی قبیل سے یہ مونوگراف بھی ہے جس کے مصنف ڈاکٹر عادل حیات ہیں ۔ڈاکٹر عادل حیات نے ایم فل اختر انصاری دہلوی کی غزل گوئی پر کیا ہے اور پی ایچ ڈی غزل کی تنقید پر ہے ۔ دونوں پر کتابیں بھی منظر عام پرآچکی ہیں ۔ تنقید کی دنیا میں تو انہوں نے بعد میں قدم رکھا لیکن غزل کی دنیا میں وہ بیسویں صدی کے آخری دہائی میں ہی قدم رکھ چکے تھے۔ اسی عہد میں بچوں پر نظم و نثر کی کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں پھر نظم ، غزل اور رباعی کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ۔ گوشہ نشیں شخصیت ہیں لیکن تحریریں ہر مقام پر نظر آجاتی ہیں ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ ان کا پہلا مونوگراف ہے لیکن اس قد ر بھر پور ہے کہ شاید ہی اس کے مقابل اختو انصاری پر کوئی اور جامع کتاب ہو ۔ اس کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق تحقیق کا عنصر نمایاں ہے جہاں انہوںنے حقائق کو واضح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علمی زندگی کی جانب سفر کرتے ہیں تو ’’شعری جہات میں ‘‘ قطعہ نگاری ، نظم نگاری ، غزل گوئی ، رباعیات اختر اور مثنوی روداد داغ پر بھر پور تنقیدی و تجزیاتی گفتگو ملتی ہے ۔ عادل حیات چونکہ خو د ایک عمدہ شاعر ہیں تو انہوں نے تجزیہ و تنقید کے نام پر محض نثر ی قصیدہ نہیں لکھا ہے بلکہ فنی باریکیوں پر بھی گفتوکی ہے اور موضوعات کا جو سائیکل اختر انصار ی کے یہاں نظر آتا ہے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے ۔ تنقید کے میدان میں اختر انصاری ترقی پسند کے ترجماں تھے لیکن وہ بھی واضح اور صحیح سمت دینے کے لیے آخری عمر تک الزامات کا ہی جواب دیتے رہے ۔ غزل تنقید میں اختر انصاری نے جو بات لکھی ہے وہ اب تک مجھے ویسی ہی نظر آتی ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ غزل کو سمجھنے اور سمجھانے میں اس کی حقیقی اقدار کو جاننے اور پہچاننے میں ہماری تنقید کا نشانہ بارہا خطا کیا اور یہ سلسلہ موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے تو ’تیر نہیں تو تکا ہی سہی ‘ والی بات ہوکر رہ گئی اور شاعر و نقاد دونوں بلکہ شاعر اور نقاد اور قاری تینوں کے ہاتھ سے غزل کا سرا ہی چھوٹ گیا ۔‘‘ اس معاملہ میں بات مزید آگے بڑھ گئی ہے اور تنقید غزل کی داخلیت سے نکل کر خارجیت کے برجو ں میں سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے یہ غزل کے ساتھ دیگر اصناف میں بھی جنون کی حد تک دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اختر انصاری کے دیگر ادبی اصناف میں روزنامچہ نگاری، خود نوشت، خطوط نگاری ، ترجمہ نگاری اور تعلیم و تعلم پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک جامع و مانع مونوگراف ہے جس کی اشاعت پر اردو اکادمی دہلی اور ڈاکٹرعادل حیات دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

Friday 12 July 2024

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

 

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

ڈاکٹرامیر حمزہ 
 نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ. انڈیا



جھارکھنڈ میں اردو افسانے کی ماضی حال اور مستقبل کی بات نہ کر تے ہوئے اگر صرف افسانہ نگاری پر بات کی جائے تو صبوحی طارق کا نام اہم افسانہ نگار کے طور پر درج ہوتا ہے ۔ صبوحی طارق کی پیدا ئش 15 اگست 1948 کو حیدرآبا د میں ہوئی تھی اور وہ بارہ برس کی عمر میں رانچی میں مقیم ہوچکی تھیں ۔ 1960 تا عمر رانچی میں ہی مقیم رہیں اور درس و تدریس کے ساتھ ادب کی خدمات انجام دیتی رہیں ۔ان کا پہلا افسانہ ’’جنگلی پھول‘‘ ماہنامہ ’ عفت ‘ کراچی میں 1962 شائع ہوا ۔ اس کے بعد تاعمر تقریبادو سو افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ صبوحی طارق افسانوی درجہ بندی کے فن سے بخوبی واقف تھیں اس کا احساس اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ’’درد کاگلاب ‘‘ 1987 میں شائع ہوتا ہے اور اس میں صرف بارہ افسانے شامل کیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد تیس بر س کی زندگی میں بھی وہ اپنا دوسرا افسانوی مجموعہ نہیں لاسکیں ۔ شاید انہیں اس بات کا احساس رہا ہوگا کہ ہر افسانہ افسانوی مجموعہ میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہے ۔
’’درد کا گلاب‘‘ ایک افسانوی مجموعہ ہے اور اسی مجموعے کا آخر ی افسانہ بھی ہے ۔ افسانہ نگار کی بات کی جائے تو انہوں نے ترقی پسند تحریک کو قریب سے دیکھا ہے اور جدیدیت کے دور کو مکمل طور پر جیا ہے ۔ ان دو بنیادی معلومات کے بعد بہت ساری چیزیں قاری کے ذہن میں واضح ہوجاتی ہیں لیکن یہ بھی واضح رہے کہ موصوفہ کا کسی بھی ادبی گر وپ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جیسا کہ انھوں نے خودلکھا ہے ’’ جہاں تک ادبی اور غیر ادبی تحریک سے وابستگی کا سوال ہے تو شاید میں وہ گنہگار ہوں جو کبھی بھی اس کار نیک میں حصہ نہیں لے سکی ۔‘‘ ان کے اکثر افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوںنے مختلف موضوعات کے ساتھ رومانیت کی تھیم میں مسائل کی پیش کش کو فوقیت دی اور اس طوفانی دور میں انہوں نے اپنی الگ راہ منتخب کرکے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ گروہ سے الگ رہنے پروہ ایک گفتگو میں کہتی ہیں ’ ’ایک حساس انسان کے لیے مخصوص محرکات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور بھاگتے وقت سے وہ کسی بھی ایسے لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس کے احساسات و جذبات کوچونکا دے ۔ ممکن ہے میں افسانے صرف اس لیے لکھتی ہوں کہ میرے احساسات کو زباں مل سکے ۔‘‘ یقینا ہر فنکار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے احساسات کو بہتر طریقے سے اپنے فن میں اتار سکے ۔صبوحی طارق نے بھی اپنے احساسات کو افسانے کے پیرائے میں پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس سالہ ادبی سفر میں موصوفہ نے اپنے اہم احساسات کو جب قلم وقرطاس کے ذریعہ زندگی دینے کی کوشش کی تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کرگئی ۔ اسی کی ایک کڑی ’’در د کا گلاب ‘‘ہے ۔ 
مذکورہ افسانہ صبوحی طارق کے دیگر افسانوں سے بطور موضوع اور تکنیک خاصا منفرد اور جدا ہے ۔جیسا کہ ماقبل کے ناقدین نے ان کے اکثر افسانوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ موصوفہ کے یہاں رومانس نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ اور جب ایسے موضوع پر لکھا جاتا ہے تو اس کی زبان میں بھی ایک جمالیات نظر آتی ہے جس کی بدولت اس کے تراکیب و استعارہ کی دنیا الگ ہوجاتی ہے اور قرأت میں بھی ایک قسم کی روانی پائی جاتی ہے لیکن یہ افسانہ دیگر افسانوں کے مقابلے بالکل الگ ہے ۔افسانہ ایک منجھے ہوئے ادیب کی زبان کے انداز میں شروع ہوتا ہے جہاں ہر جملہ قاری کوایک غیر متعین تھیم کی سیر کراتا ہے اور کہانی میں پیچیدگی داخل ہوتی چلی جاتی ہے ۔ پر وفیسر شین اختر موصوفہ کے افسانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’ یہ جدید کہانیاں نہیں لکھتیں ، یہ خود ساختہ علامتی افسانے بھی نہیں ہیں بلکہ ان میں جو اسرار و رموز ہیں وہ قابل فہم ہیں۔ان کا ہمار ی تہذیبی ، مذہبی اور سماجی زندگی سے گہرا رشتہ ہے یہ رشتہ علائم کی شکل میں ان دو کہانیوں(اذانوںکے پہرے ، کندھوں کا کتبہ) میں ابھر ے ہیں ، یہ فلسفیانہ علائم نہیں ہیں بلکہ انہیں عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔یہاں ترسیل کا کوئی المیہ نہیں ہے ، یہ کہانیاں قاری کو پیچھے نہیں چھوڑتیں ، اس کے ذہنی تفکر اور اپنے تخلیق کے درمیان ناقابل عبور خلیج نہیں پیدا کرتیں بلکہ یہ علائم اس کی رہنمائی کرتے ہیں ۔اشاروں سے حقائق تک پہنچنے کا یہ تخلیقی عمل ایک با شعور فن کار کی کامیابی کی سب سے اچھی مثال ہے ۔‘‘ یہ تو ان کے دو مخصوص افسانوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے جہا ں پر وفیسر شین اختر کاانداز تحسین و تدفیع دونوں جھلکتا ہے ۔ تحسین کا پہلو یہ ہے کہ ان کے دوافسانوں میں علامتوں کے عمومی استعمال سے افسانو ں کی خوبصورتی نمایا ں ہورہی اور اس زمانہ کے ادق اور اغلق علامتوں کے رواج  سے کنارہ کشی اختیار کرکے موصوفہ خود کو ایک باشعور فن کا ر ہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ لیکن تدفیع کا پہلو یہ ہے کہ عمومی علامتوں کااستعمال افسانوں میں کوئی جدت یا نیا پن نہیں ہے بلکہ افسانہ کی ابتدا سے یہ روایت چلی آرہی ہے اس لحاظ سے تقریباً ہر تخلیق کار کے افسانوں میں یہ خیر و شر بطور علامت دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ عمومی علامتوں کے استعمال میں جدت تو یہ ہوتی کہ وہ علامتیں خود تراشی جاتیں اور قاری کے فہم سے قریب تر ہوتیں جیسا کہ شاعری میں خوبصورت تراکیب کی اہمیت ہوتی ہے جو عمدہ بندش الفاظ کو سامنے لاتی ہیں ۔ شین اختر صاحب عمومی خوبصورتی کو خصوصی خوبصورتی کے پیرائے میں پیش کرکے چلے گئے لیکن جب میں نے اپنے نظریے سے ’’اذانوں کے پہرے ‘‘کودیکھا تو وہ مجھے ایک عجیب فضا میں تخلیق کردہ افسانہ نظر آیا جہاں مخلوق خالق کے سامنے خود کلامی میں مصروف ہے ، شروع سے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ یہاں افسانہ نگار ہیں اور ان کا معبود ۔شروع میں توایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بال جبریل کی پہلی غزل کا موضوع ہو لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا کہ موصوفہ نے شکوہ کو پیش کردیا ہے اور پھرآخر میں دعا ہے ۔ جب کہ’’ کندھو کا کتبہ‘‘ کی فضا تو یہی ہے لیکن دنیا الگ ہے ۔ دونوں میں کہانی نہیں ہے صرف خود کلامی ہے ۔ اب’’گلاب کا در د‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی دنیا کچھ اس طر ح ہے کہ وہاں کہانی بھی ہے اور مکالمے بھی ، منظر نگاری بھی ہے اور شعور کی رو بھی ۔ افسانہ کسی ایک لمحہ میں قید بھی ہے اور لمحے سے باہر زندگی کی نمائندگی بھی کر تا ہے۔ اس میں زبان کی مٹھاس بھی ہے اور فلسفے کا آمیزہ بھی ۔ 
افسانہ ایک تاریک منظر نامے سے شروع ہوتا ہے ’’ وہ گرہن کی رات تھی ‘‘ اور ٹرین کا سفر تھا اس موقع پر تاریک رات کی جتنی عمدہ منظر کشی ہوسکتی تھی وہ مکمل طور پر اس میں نظر آتی ہے جسے ایک ذی روح کی مانند پیش کیا گیا ہے۔ کیا خوب تاریکی ہے کہ ’’ جیسے ہی ٹرین نے سرنگ کے اندر جھانکا اندھیرا کسی گھبرائے ہوئے مسافر کی مانند کمپارٹمنٹ در آیا وہ آنکھیں پھاڑے باہر تکتی رہی‘‘ ۔ ماحول مکمل طور پر تاریک ہے لیکن اچانک کوئی حسین لمحہ ذہن میں یوں کوندتا ہے جیسے ’’ کہیں کہیں روشنی جگنوکی مانند لپکتی اور غائب ہوجاتی ہے‘‘ اور جب ماحول ایسا ہوتا ہے تو افسانے میں دو چار سطرو ں کی داخلی خود کلامی کا عنصر لاکر افسانہ کو مکالمے کی جانب لایا جاتا ہے اور پہلا مکالمہ یوں ظہور پذیر ہوتا ہے کہ ’’ حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا ، کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم راہ کے پتھر ہی بنے رہ جائیں ‘‘جواب میں بھی مکالمہ آتا ہے جہاں تاریک ماحول سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اچانک کہیں دور موہوم سا شعلہ لپکتا ہے شاید کسی نے سگریٹ جلائی ہو ۔دور اور موہوم کی مناسبت سے افسانہ نگار کردار کو فوراً ماضی میں لے جاتی ہیں جہاں اس جانکاہ حالت میں موجودہ کہانی میں ایک ماضی کی واقعہ نگاری پیش کی جاتی ہے جب صابی بچی تھی تب اس نے ابو سے تنک کر کہا تھا کہ ’’ ابو ! ڈاکٹر نے تو سگریٹ کا نام زہریلا بتایا تھا ۔ لیکن بیٹا یہ تو چار مینا ر ہے( چار مینار کی مناسبت بھی کیا خوب ہے کہ یہاں صبوحی طارق نے اپنا بچپنا شہر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے ) میں نہیں جانتی آپ ہمیشہ ۔سنو … تم نے اسکول کا کام پور ا کر لیا ، ہمیشہ کی طرح وہ بات بدلتے ۔ ‘‘خود کلامی ، مکالمہ اور شعور کی رو کے بعد پھر افسانے میں ایک قسم کا سناٹا چھا جاتا ہے اور پھر ذہن میں بے شمار پیدا شدہ خیالات سے افسانہ آگے بڑھتا ہے جہاں باپ اور بیٹی کے درمیان اتھاہ محبت کا سیلاب مانند لہروں کے موجودہ وقت سے ٹکرا رہا تھا ۔ افسانہ نگار اسے بہت چابکدستی سے ابو کے یومیہ طرز زندگی میں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ لمحہ بہت طویل ہوتا ہے تو صرف فجر کے وقت کا منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔پھر یادوں کے حسین لمحات کو وہ یادوں کے بوجھ میں تبدیل کرتے ہوئے فوراً وقت حاضر میں آجاتی ہیں اور خودکلامی میں یہ مکالمہ سامنے آتا ہے ۔’’ماں ! یہ کیسی صبح ہے … یہ کیسے ہنگامے ہیں۔ کسی دن کو تو ، تم چپ کر دو ‘‘ وقت حاضر میں اب تک افسانہ چل رہا ہے لیکن اچانک افسانہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی سامنے آتی ہے جس سے قاری بھی متوقع نہیں ہوتا اور نہ ہی کہیں سے پہلے اس تبدیلی کا کوئی اشارہ ہوتا ہے ۔ کیفیت حال کا یو ں بیانیہ سامنے آتا ہے ’’ ماں … میں تھک گئی ہوں ما ں ! … بے پناہ ! … اس کی آواز امڈتی اور وہ ماں کے شانے پر سر رکھ دیتی ۔ ماں ایک نظر اس پر ڈالتیں ۔ اس کے سر کو سہلاتیں جیسے کہہ رہی ہوں یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ وہ گھبرا سی جاتی…کسی کو توکچھ نہیں ہوا ۔ سب تو سوئے پڑے ہیں ۔ ‘‘ یہاں افسانہ نگار نے کس خوبصورتی سے خواب کی دنیا کی کیفیت کو افسانے میں سمو یا ہے جو موضوع سے مناسبت اور کہانی کو معنی خیز طور پرآگے لے جانے میں بہت ہی زیادہ ممدو معاون ثابت ہورہا ہے۔ اب تک کہانی کی بُنَت کودیکھیں تو رات کی تاریکی سے شروع ہوئی کہانی خواب کے خاتمہ کے ساتھ صبح کی کرن میں آچکی ہے ۔ اب ماحول میں ہلکا پن آتا ہے اور سورج کی روشنی کے ساتھ زندگی کا روشن پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے ۔اب کہانی میں وہ مرحلہ سامنے آتا ہے جس کے لیے کہانی بنی جارہی ہے یعنی صابی جو اب تک کہانی کو لیڈ کررہی تھی اس کی زندگی میںحارث کا آجانا ۔ وہ لفٹ کی ایک موہوم کیفیت میں سامنے آتا ہے جہاں’’ وہ حارث کی شناسا بھی نہیں اور حارث اس کو ناآشنا نہیں سمجھتا ‘‘ ایسے میں ایک مشفق باپ کی فکر سامنے آتی ہے جس سے تقریباً ہر ایک باپ گزرتا ہے کہ اپنی بچی کی شادی کہیں دور کیوں کرے کہ وہ رشتے کچے دھاگے کی مانند ہوتے ہیں ۔ایسے میں کہانی میں ابو اور امی کے مکالمے سامنے آتے ہیں جہاں امی رشتہ کی وکالت کرتی ہیں تو ابو خود کو حوصلہ نہیں دے پارہے ہیں ۔ ابھی تک کہانی میں کئی مناظر اور واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن سب ایک بڑے دائرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائروں میں بالتر تیب لڑی کی مانند پروئے جارہے ہیں ۔اب ایک نیا دائرہ سامنے آتا ہے لڑکی کی شادی میں باپ کی تکلیف کا کہ اس کی بچی اس سے کتنی دور چلی جائے گی اور وہ اسے دیکھ بھی نہیں پائیں گے ۔ کہانی کا یہ دائرہ بیٹی اور باپ کی کشمکش میں پروان چڑھتا ہے اور پھر باپ کی زبان سے وہ جملے ادا ہوتے ہیں جو اس کہانی کا محرک بنتے ہیں ۔’’ بیٹی تو درد گلاب ہوتی ہے ، اپنے پیچھے دکھ و جدائی کے کانٹے ہی تو چھوڑ جاتی ہے ۔ یہ درد میں سہن کرلوں گا بیٹا ! تم آبادرہو …‘‘اب اس کے بعد یقینا سفر کامنظر سامنے آئے گا اور کہانی ٹرین کے سفر کی جانب رواںہوگی لیکن افسانہ نگارکا کمال یہاں سامنے آتا ہے کہ انہوں نے شروع میں قاری پر یہ قضیہ واضح ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کون سا سفر ہے ، رخصتی کے بعد کا سفر یا وہ سفر جس کا ذکر صابی کے مکالمے میں آتا ہے کہ ابا میں جلدی لوٹوں گی ۔ اس بیچ پھر طوفان و بارش کا سامنا اور صابی کے ذریعہ یہ باور کرانا کہ اس طوفانی بارش میں ابو اس کا خیال رکھ رہے ہیں ۔ لیکن دونوں میں واضح ہوتا ہے کہ یہ حارث کے ساتھ ابو کے پاس واپسی کا سفر ہے جسے بہت ہی خوبصورتی سے افسانے کی ملول و مغموم فضا میں پرویا جاتا ہے کہ افسانے کا آخری منظر سامنے آتا ہے ۔ ’’ بابل کے دروازہ پر حارث نے اس کو سہارا دیا ۔ بھائی نے لپک کر اس کے کانپتے وجود کو تھام تھام لیا ۔ بڑی دیر کردی ۔ میرا تار ملا تھا نا !۔ جانے کیوں حارث بھائی ، ابو بہت چپ تھے ، بہت خاموش تھے ، انھوں نے کسی سے بھی کچھ نہ کہا ، صابی کے بارے میں کچھ نہ پوچھا اور ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ ‘‘ 
 گر ہن کی تاریک رات سے شروع ہونے والا افسانہ زندگی کے ایک تاریک عنصر پر ختم ہوتاہے ۔ افسانہ کی تکنیک پر مکمل طور پر یہ گفتگو کا مقام نہیں ہے البتہ اشارات سے بہت کچھ سامنے آچکا ہے ۔ اس افسانہ کی سب سے بڑی خوبی میرے سامنے یہ ہے کہ اس خوبصورتی سے افسانے کو موصوفہ نے ترتیب دیا ہے کہ صابی کا داخلی کرب خارجی حالات سے مکمل طور پرمیل کھاتا ہے ۔ افسانہ کا پلاٹ پورے طور پر گٹھا ہوا ہے جس میں کہیں سے بھی کسی قسم کا ڈھیلا پن مجھے نظر نہیں آتا ۔ زبان و بیان میں کہیں بھی کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوفہ نے خود کو بھی اس افسانہ میں پیش کیا ہے لیکن اگر کوئی افسانہ نگار سے واقف نہیں تو وہ اس احساس تک پہنچ بھی نہیں سکتا ۔ الغرض جن بزرگوں نے افسانہ کے متعلق چاول پر قل لکھنا کہا ہے وہ صبوحی طارق کے اس افسانے میں بخوبی نظر آتا ہے ۔ 
آخر میں اس امر کااظہار کرنا مجھے خود تعجب میں ڈال رہا ہے کہ پروفیسر شین اختر نے اور نہ ہی ڈاکٹر طہ شمیم نے مذکورہ افسانہ کا ذکر کیا ہے ۔ یقینا صبوحی طارق کو اس بات کا ملال رہا ہوگا کہ ان کے افسانوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور جن لوگوں نے توجہ دی ہے تو انہوں نے محض ضمنی طور پر انہیںشامل کرلیاہے ۔ 

Thursday 11 July 2024

ادبی جرنل

  ادبی جرنل 

 مدیر ڈاکٹر ہمایوں اشرف 



ہندو ستان کے صوبائی تناظر میں اگر ادبی صورتحال کی بات کی جائے تو جھارکھنڈ کو صف اول میں ہی رکھا جائے گا جب کہ جھارکھنڈ میں نہ تو کبھی کوئی دبستان رہا ہے اور نہ ہی وہاںپر کوئی قدیم ادبی روایت نظر آتی ہے ۔پھر بھی جھارکھنڈ میں لسانی و ادبی صورتحال اس قدر پختہ ہے کہ ہر شہر میں آپ کو ادبی کہکشاں نظر آجائے گی ۔ وہاں پر ہمیشہ ادبی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں ، تخلیق ، تنقید اور تحقیق میں بھی ایسے نمایا ں نام نظر آتے ہیں جن کا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ یہ تو محض میرا دعویٰ ہے لیکن اس دعوے کی دلیل آپ کواس ادبی جرنل میں بخوبی پڑھنے کو ملے گا جسے بہت ہی کدو کاوش کے ساتھ ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے مرتب کیا ہے۔ یہ مجلہ شعبہ اردو ونوبا بھاوے یونی ورسٹی کا شاہکار سالانہ ادبی جرنل ہے۔ 2023 کا یہ مذکورہ شمارہ جھارکھنڈ کے اردو شعرا و ادبا پر مختص ہے ۔ میرے خیال میں جھارکھنڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے جھارکھنڈ سے شائع ہونے والا یہ پہلا ادبی دستاویز ہے ، دستاویز میں اگرچہ بہت کچھ سمیٹا جاتا ہے لیکن محدود صفحات اور محدود وقت میں سارے علاقات کو سمیٹ لینا ایک محال امر ہے پھر بھی اس ضخیم رسالہ میں فکشن ، شاعری اور تنقید و تحقیق سے تعلق رکھنے والے حتی الامکان شخصیات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے پھر بھی تشنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن تشنگی تو دلکشی کی علامت ہوتی ہے تو وہ باقی ہی رہے گی ۔ اس کتابی مجلہ سے قبل جامعات سے جھارکھنڈ کے حوالے سے تحقیق مقالے سامنے آئے ہیں ، ایک زمانہ تھا جب مقالوں کے دامن بہت ہی وسیع ہوتے تھے لیکن اب اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ آپ کو ہر مقالے میں ’’کے حوالے سے ‘‘ کا لاحقہ پڑھنے کو مل جائے گا ، جب کہ یہ میگزین کسی بھی سابقہ اور لاحقہ سے خالی ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علاقہ جھارکھنڈ میں قیام پذیر خواہ وہ چھوٹا ناگپور سے ہوں یا سنتھال پرگنہ سے سبھی کی ادبی خدمات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تاہم مدیر محترم کی عاجزی و انکساری بھی ہے کہ انہوںنے اداریہ میں برملا اظہار کیا ہے کہ حتی الامکان سبھی کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم کئی شخصیتیں ایسی ہوںگی جن کا ذکر چھوٹ گیا ہوگا انہیں مستقبل کے شماروں میں ضرور شائع کیا جائے گا ۔ 

مجلہ کو بنیاد ی طور پر پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ اول :ابتدائیہ ، دوم: جھارکھنڈ شاعری کے حوالے سے ، سوم : جھارکھنڈ فکشن کے حوالے سے ، چہارم : جھارکھنڈ تحقیق و تنقید کے حوالے سے ، پنجم : شعبہ کی سر گرمیا ں ۔ ابتدائیہ میں اداریہ کے علاوہ چھ مضامین بھی ہیں وہ مضامین شاعری کے حوالے سے ہیں یا فکشن کے حوالے سے لیکن انہیں ابتدائیہ میں رکھا گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ان میں عمومی طورپر جھارکھنڈ کے چند نمایاں ادبی خدمات کا جائزہ لیاگیا ہے ۔ جیسے جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار ، خواتین کے خواتین افسانہ نگار اور جھارکھنڈ میں طنز و مزاح وغیرہ ۔ڈاکٹر زین رامش نے جھارکھنڈ کی خواتین افسانہ نگاروں میں تقریبا بیس سے زائد خواتین افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق شہر آہن جمشید پور سے ہے ۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف اپنے مضمون ’ جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار‘ میں گیا رہ غیر مسلم افسانہ نگاروں کاذکر کرتے ہیں او ر اتفاق سے اس میں بھی اکثریت سکھوں کی ہے ۔ رسالہ کے شاعری کے حصہ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو جھارکھنڈ میں اردو شاعری کی عظیم روایت نظر آتی ہے جس میں سہیل واسطی ، شمیم ہاشمی ، صدیق مجیبی ، وہاب دانش، سرور ساجد ، سید شمیم احمد، شیدا چینی ، انور ایرج، عقیل گیاوی، پرکاش فکری، شان بھارتی ، اظفر جمیل ، وقار قادری، نادم بلخی ، ارمان بہاری ، مقبول منظر ، وہاب دانش ، حیرت فرخ آبادی ، اسلم بدر، مہجور شمسی، اختر مدھوپوری اور شعیب راہی کی شعری کائنات پر ڈاکٹر منظر حسین ، پروفیسر کوثر مظہر ی ، ڈاکٹر راشد انور راشد ، ڈاکٹر قیصر زماں و دیگر کی تحریروں نے ادبی جرنل کو وقار بخشا ہے ۔

 ’جھارکھنڈ : فکشن کے حوالے سے ‘  میںغیاث احمد گد ی ، الیاس احمد گدی، کہکشاں پروین ، منظر کاظمی ، پرویز شہریا ر ، انور امام ، اختر آزاد ، احمد عزیز ، گلزار خلیل ، اسلم جمشید پوری ، ش اختر ، خورشید جہاں ، مسعود جامی اور شیریں نیازی کی فکشن خدمات یا ان کے کسی ایک فن پر 19 تحقیقی و تنقیدی مضامین سے اس رسالہ کی وقعت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔اس حصے کے چند اہم مقالہ نگار پروفیسر قمر جہاں ، ،مشرف عالم ذوقی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر کہکشاں پروین، پرو فیسر شہاب ظفر اعظمی ، ڈاکٹر رونق شہری ،ڈاکٹر سید احمد قادری و دیگر ہیں ۔ 

’جھارکھنڈ : تحقیق و تنقید کے حوالے سے ‘ ‘ میں پرو فیسر منظر حسین ، ڈاکٹر حسن نظامی ، نادم بلخی ، وہاب اشر فی ، ش اختر ، پروفیسر ابو ذر عثمانی ، ڈاکٹر احمد سجاد ، منظر شہاب ، سید منظر امام ، ظہیرغازی پوری ، جمشید قمر ، پرو فیسر ارشد اسلم ، ڈاکٹر ہمایوں اشرف اور ڈاکٹر محمد یو نس کی تنقیدی و تحقیقی فتوحات کا ذکر بخوبی کیا گیا ہے۔ تحقیق و تنقید کے اس حصہ کو پر فیسر احمد سجاد ، اسلم بدر ، ڈاکٹر سر ور حسین ، ڈاکٹر سید ارشد اسلم ، امام اعظم اور دیگر کئی نئی نسل اور نئی فکر کے حامل قلمکاروں سے سنوارا گیا ہے ۔  مذکورہ بالا عظیم اسما پر جب آپ کی نظر گئی ہوگی تو محسوس ہوا ہوگا کہ جھارکھنڈ کی سرزمین نے اردو ادب کو نمایاں جواہر پارے دیے ہیں ۔ ان میں سے کئی ایسی شخصیتیں ہیں جو اپنی لازوال نگارشات کی وجہ سے اس فن میں عدیم المثال ہیں۔ اردو نے انہیں کبھی بھی علاقائی تناظر میں نہیں دیکھا ہے لیکن جب کہیں پر علاقائیت کی بات آتی ہے تو وہاں فخریہ اندا ز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاں فلاں ادیب کا تعلق فلاں علاقے سے ہیں ۔ شروع میں مَیں نے جھارکھنڈ کے ادبی منظر نگاری کو صف اول میں رکھا تھا اس کی وجہ اس مجلہ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔نیز اس مجلہ میں جن شخصیات کی تحریریں شامل ہیں ان سب کا تعلق جھارکھنڈ کی نئی نسل سے ہے او ر ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو موجودہ نئی نسل میں نمایاں شناخت کے حامل ہیں جسے تیار کرنے میں وہاں کی یونیورسٹیوں کا نمایاں رول رہا ہے ، خصوصاً ونوبا بھاوے یونی ورسٹی نے اپنے قیام کے محض اکتیس بر س میں جو نئی نسل تیار کی ہے وہ بھی قابل اعتنا ہے ۔مدیر محترم ڈاکٹر ہمایوں اشر ف کو مبارکباد نیز امید ہے کہ ادبی جرنل کے اس شمارہ کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی ۔


صفحات  525

 قیمت 500 روپے

ناشر  شعبہ اردو ،ونوبابھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ ، جھارکھنڈ

مبصر ڈاکٹر امیرحمزہ ، نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ 

Tuesday 9 July 2024

ترجمہ سے ترجمانی تک

  ترجمہ سے ترجمانی تک

ڈاکٹر امیر حمزہ



’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.

فقلت ماسمک

فقال لو لو

فقلت لی لی

فقال لالا

جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔

اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق

منارتہ تزہو علی الفخر والزینٖ

تقول وقد مالت علیّ ترفقوا

فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت

و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ

قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 

وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں

شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔

اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,

Humpty Dumpty had  a great  fall,

All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men

Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.

اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت

ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ

راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے

ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن

دہی چھٹاکن

آلو بیگن

کھٹا چورن

گھنگرو باجے

چھن چھن چھن چھن

گھنٹہ بولا

ٹن ٹن ٹن ٹن

ہنستے گاتے

چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔

’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

Thursday 30 May 2024

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری 

ڈاکٹر امیر حمزہ 


’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کا مسودہ جب مصنف محترم شفیق رائے پوری کے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھ تک پہنچا تو سرسری نظر میں مجھے بہت ہی زیادہ حیر ت ہوئی کہ جو کام ایک ادارہ کو کرنا چاہیے تھا وہ ذمہ داری شفیق رائے پوری صاحب نے خود اٹھائی اور بہت ہی درک و انہماک کے ساتھ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اس سے پہلے مصنف محتر م سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی لیکن جب انہو ں نے اگلا پیغام یہ بھیجا کہ آپ کو اس تحقیقی کاوش پر کچھ لکھنا ہے تو مجھے خیال آیا کہ میرے بارے میں کسی نے ضرور غلو سے کام لیا ہے ، ورنہ فی زمانہ بڑے بڑے دانشوروں سے ہی تحریریں لکھوائی جاتی ہیں ۔ خیر اپنے آپ کو اس ذمہ داری کے لیے تیار کیا اور ذہن نے جو کچھ ساتھ دیا وہ آپ کے سامنے ہے ۔

عنوان میں نقوش اور نقاش کے دو لفظ میں نے عمداً مصنف کی اس تحقیقی کا وش کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کیے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس پر کوئی تفصیلی کام سامنے نہیںآیا تھا اور چھتیس گڑھ میں اردو شعرا و ادبا کا جو ایک لمبا سلسلہ رہا ہے وہ محض چند مقالوں میں مشاہیر کے ساتھ ہی ختم ہوا ہے ۔ وہاں کے اکثر شعرا جو شروع میں دبستان لکھنؤ کے شعرا کے شاگر دتھے جیسا کہ تفصیلی ذکر مصنف محتر م نے خود اس کتاب کے مقدمہ میں کیا ہے انہیں پردہ ٔخفا میںہی رکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد کے اکابرین زبان و ادب نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںجن کے سبب چھتیس گڑھ میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد اردو کی نئی آبادیاں وجود میں آئیں انہیں بھی بھلا دیا گیا، ایسے میں ان مٹتے ہوئے نقوش کی جو بازیافت ہوئی ہے ان کے نقاش یقینا شفیق رائے پوری ہی ہیں ۔

اس اہم کام کو انجام دینے میں یقینا ایک طویل عرصہ لگا ہوگا۔ سب سے پہلے انہوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا ہوگا ، پھر آثار و اسانید کی تلاش میں لگ گئے ہوںگے ،اس درمیان انھیں ہزاروںنئی چیزوں کا علم ہوا ہوگا پھر ان سب میںسے چھانٹ پھٹک کر کار آمد چیزوں سے اپنی اس کتاب کو مزین کیا ہوگا۔ اس کے لیے یقینا قدیم ترین رسائل و جرائد کو کھنگالا ہوگا جس میں چھتیس گڑھ کے گمنام اور اوراق میں دفن شدہ قلم کاروں سے ملاقات ہوئی ہوگی پھر ان کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ان کے وارثین تک پہنچے ہوںگے ، حالات بدلنے کے بعد وہاں سے بھی زیادہ تر خالی ہاتھ واپس آنا پڑا ہوگا ، پھر ان کی تحریروں کے سہارے ملے بہت سارے اشارات سے بات مکمل کرنی پڑی ہوگی ۔ مجھے علم ہے کہ تحقیق کے میدا ن میں ایک ایک لفظ کے حوالے کے لیے کئی کئی کتابوں کی روق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ 

 جب سے تذکرہ و تنقید کی کتابیں لکھی جارہی ہیں تبھی سے اردو ادب کی علاقائی خدمات پر مشتمل آثار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تذکروں میں دکن کی حالت بخوبی بیان کی گئی ہے پھر بعد میں لکھنؤسمیت دوسرے شہر وںکے شعرا بھی شامل ہونے لگے ۔ بعد میں جب تاریخ لکھی جانے لگی تب اس میں دبستانوں کے عناوین سے باضابطہ ابواب بندی کی جانے لگی ، اس سے وہاں کی لسانی اسلوبیاتی و شعری خصوصیات کو اجاگر کیا جانے لگا ، اس لیے آپ کو تاریخ کی تمام کتابوں میں دکن ، دہلی اور لکھنؤ مل جائیں گے ، بعد میں جب اس پر اضافہ ہوا تو رامپور ، عظیم آباد اور مرشدآباد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ، لیکن پھر بھی اہم کتابوں میں دیگر شہروں کی ادبی فضا کوجگہ نہیں ملی تب ایک ضخیم ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (گیان چند جین ، سیدہ جعفر) مرتب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں شہروں کے اعتبار سے اردو زبان و ادب کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ۔ 

اردو زبان وادب کی ضخیم سے ضخیم اور مختصر سے مختصر کئی تاریخیں لکھی گئی ہیں، ہر ایک میں آپ کو ایک ہی نوعیت کی ترتیب ملے گی ۔قدیم اردو ، دکن کے سارے ادوار ، پھر دہلی ،لکھنؤ اس کے بعدتحریکات ، ایسے میں بہت سی ذیلی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں ، یقینا سبھی کا احاطہ کسی کے یہاں بھی ممکن نہیں ہے ۔ البتہ جمیل جالبی نے اس جانب قدم اٹھا یا اور علاقائی سطح پر روہیل کھنڈ اور بندیل کھنڈ کا خصوصی ذکرکیا۔اس کے بعد تاریخ ادب اردو کا جو سلسلہ گیان چند جین اورسیدہ جعفر کے ذریعہ شروع ہوا اس میں بعد میں جاکر شہر کے پیمانہ پر تاریخ ادب اردو کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آزادی کے بعد جب تحقیقی مقالات میں اضافہ ہوا تو علاقائی سطح پر اردو ادب کا بھی جائزہ لیا گیا ، شروع میں دبستانوں کی تاریخ کو یکجا کیا گیا پھر صوبائی سطح پر اس میں کام ہوا، اس کے بعد شہروں کی اردو  زبان و ادب کی خدمات پر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ 

ابھی کے موجودہ منظر نامے میں صوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی بات کی جائے تو اردو ہندوستان کے کم وبیش تمام صوبوں میں بولی، سمجھی اور پڑ ھی جاتی ہے ۔ کچھ صوبے ایسے بھی ہیں جہاں ہر طبقہ کے لوگ اس زبان کو لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ جنوبی ہند کے چند صوبے ایسے ہیں جہاں اردو پہلے تو مضبوط حالت میں تھی تاہم درمیان میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ اب جب تعلیم کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے تو اردو کی تعلیم میں بھی اضافہ دیکھنے کوملا ہے تاہم جدید اسکولی تعلیم سے اردو کا بھا ری نقصان ہوا ہے ،لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کیر ل جیسے صوبے میں بھی اردو کے طلبا نظر آنے لگے ہیں ۔ نارتھ ایسٹ میں کم ازکم ایک حلقہ کے افرا د تو اردو پڑھتے ہی ہیں ۔ہر یانہ ، ہماچل اورچھتیس گڑھ کی بات کی جائے توان تینوں صوبوں میں اردو کی یکساں صورت حال نظرآئے گی ۔ یہ اچانک ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی ان علاقوں میں اردو کی نمائندگی کم رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں علاقائی ادب کی تاریخ نگاری پرنظرڈالی جائے تو ان علاقوں سے کوئی خاطر خواہ کام سامنے نہیں آتا ہے ۔ ایسے میں کچھ دنوں قبل تک چھتیس گڑھ کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا ، کم ازکم ہمیں تو وہاں کی لسانی اور ادبی صور ت حا ل واضح نظرنہیں آتی تھی، لیکن اس کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ صوبہ چھتیس گڑھ کے غیر معروف شہروں میں بھی اردو زبان و ادب کی شمع روشن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جناب شفیق رائے پوری نے ڈیڑھ سو ایسے قدیم و جدید ادبا، تخلیق کار اور ناقدین کو اس کتاب میں جمع کیا ہے جنہوں نے اپنی سطح پر اردو کا چراغ خوب روشن کیا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر کو باہر کی اردو دنیا نہیں جانتی ہے، لیکن ان میں سے دو نام ایسے بھی ہیں جنہیں اردو زبان و ادب کا جاننے والا ہر فرد جانتا ہے جن کا تعلق چھتیس گڑھ سے ہی تھا اور وہ تھے اختر حسین رائے پوری اور حبیب تنویر۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر انہیں وہاں کی ادبی صورتحال کے نمائندہ ادیب کے طور پر نہیں دیکھتے پھر بھی بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جڑیں چھتیس گڑھ سے تھیں تو وہاں کی ادبی صورتحال کس قدر پختہ تھی ۔

 پچھلے پانچ برسوں میں دو عمدہ کتابیں چھتیس گڑ ھ سے تعلق رکھنے والے جس مصنف و شاعر کی پڑھنے کو ملیں ا س کا نام حنیف نجمی تھا ، تنقید و تحقیق پر جو کتاب تھی یقینا وہ لاجواب تھی ، شاعری میں بھی انھوںنے عالمی سطح پر اپنی انفرادیت کی چھاپ چھوڑی ہے ، ان کی تحریروں میں کمال کی حد تک دانشوری اور تخلیق میں اعلیٰ درجے کی فنکاری نظر آئی تھی وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی طرح خورشید حیات جنہوں نے افسانوی ادب میں گہری چھاپ چھوڑی ہے، نئے طرز کے موجد ہوئے، نیا افسانوی بیانیہ تخلیق کیا ، ان کے بغیر افسانوی ادب کی کوئی بھی فہرست مکمل نہیں ہوگی وہ بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہیں۔ مثال پیش کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اردو کے لحاظ سے اس پسماندہ صوبہ سے بھی اعلیٰ درجہ کے ادیب و شاعر تعلق رکھتے ہیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مرکزی دھارے میں ان کا شمار نہیں ہوتا ہے ۔ الغرض میں نے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کئی شعرا وادبا ہوںگے جنہیں شہرت تو دور کی بات ہے وہ صرف ایک مخصوص حلقے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ،ان کے لیے ایسی کتابیں آب حیات ثابت ہوتی ہیں جن میں ان کا اجمالی ذکر کر کے رہتی دنیا تک انہیں زندہ کردیا جاتا ہے ۔ 

’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کو شفیق رائے پوری نے بہت ہی محنت و دیدہ ریزی کے ساتھ تیا ر کیا ہے ۔پہلے باب میں انہوں نے ان شعرا و ادبا کو شامل کیا ہے جنہوںنے اس علاقہ میں اردو کی پود لگائی اور ایک ثمر آور باغ تیار کیا۔ یقینا ان کا شمار متقدمین میں ہوتا ہے ، ان کا ذکر کہیں اور شاید و باید ہی نظر آتا ہے یہاں انہوں نے تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کرکے حتی الامکان چھتیس گڑھ کے سبھی ادبا و شعرا کو جمع کیا ہے ۔ اس فہرست میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ادب کا ستارہ ابھی بھی جگمگا رہا ہے ۔ اس کے بعد پیشکش میں انہوںنے کئی درجہ بندی کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ جن ادبا کی پیدائش کہیں اور کی ہے لیکن چھتیس گڑھ میں سکونت کے دوران انہوںنے اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی ہے اس میں بھی دس سے زیادہ افراد شامل کتب ہیں ، ایسے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باہر سے جاکر وہاں عارضی قیام کرنے والوں نے وہا ںکی ادبی فضا میں کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا ہے۔ تذکرہ و تاریخ نگاری میں اکثر ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مجہول الاحوال اشخاص کا ذکر ضمناً آگیا ہو تو اسی سے تحقیق کا راستہ آگے کو نکلتا ہے لیکن اس کتاب کے چوتھے باب میں مصنف محترم نے ان اشخاص کو شامل کیا ہے جن کے زیادہ احوال و کوائف نہیں مل سکے ۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو اس کتاب کو تحقیق و تدوین کے ساتھ تذکرہ نگاری کی عمدہ مثال میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

میں محتر م مصنف کا بہت ہی زیادہ ممنون و مشکور ہوں بلکہ اردو دنیا کو بھی ممنون و مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے علاقے کی کاوشوں کو منظر عام پر لادیا جن کے متعلق یا اس علاقے کے متعلق عموما ًلوگ سوچا نہیں کرتے، نہ وہاں سے کوئی ادبی خبر سامنے آتی ہے نہ ہی رسائل و جرائد میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، وہاں جس سطح پر بھی کام ہو رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، وہاں کے مصنفین، ناقدین ،شعراو ادبا اردو لکھنے پڑھنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو زبان وادب کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ چھتیس گڑھ میں ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا اور اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے مزیدتحقیقی کام سامنے آئیںگے ۔


رباعی تنقید اور رباعیات ظفر

 رباعی تنقید اور رباعیات ظفر

ڈاکٹر امیر حمزہ 

نوادہ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ

ہندو ستان کے موجودہ شعری منظر نامے پر نظر ڈالیں توآپ کو تنقیدکی نظر سے تخلیقی دنیا کی وہ سیر کرائی جائے گی جس کا آپ شاید سیر کرنا چاہیں بھی اور نہیں بھی ۔ ناقدین کے شعری گلستاں سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ صرف دوقسم کی تخلیقات کے دلدادہ ہیں۔ اول غزل اور دوم نظم۔ ان کے سوا جوبھی شعری گلستاں کے باغباں ہیں اور وہ قسم قسم کی تخلیقات سے اردو شعری سرمایے کو سجا سنوار کر دولتمند اور خوبصورت بنارہے ہیں اس پر سکہ بند (مبینہ) نا قدین کی نظر ہی نہیں جاتی ہے ۔ یقینا اس کی وجوہات ہیں ۔ اردو کے ساتھ معاملہ یہ رہا کہ غزل نے اس مضبوطی سے یہاں قدم جمایا کہ اس کے سامنے دوسری اصناف اپنا پر بھی نہیں پھیلا سکیں بلکہ وہ قدموں کے بل چلنے کی کوشش کرتی رہیں یا یوں کہہ لیں کہ عوام و خواص کی پسند نے غزل کو اتنا مقبول بنا دیا کہ دوسری اصناف کی طرف خاطر خواہ توجہ ہی نہیں گئی ۔ ہو بھی کیوںنہ، کیونکہ ’ماقل و دل ‘ کے مصداق جو بھی چیز سامنے آتی ہے وہ زبان زد ہوجاتی ہے ۔ اسی وجہ سے گفتگو یا مناقشے میں محاورے جو کام کرجاتے ہیں وہ پانچ منٹ کی گفتگو نہیں کرپاتی ،کیونکہ اس میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ محاورہ کا مقام حاصل کرسکے ۔ وہی ذائقہ عوام کو غزلوں سے ملا ،کیونکہ غزل کے ایک شعر سے وہ بات کہہ جاتے ہیں جس کا کسی اور صنف کے سہارے ادا کرنا مشکل ہے ۔ حالانکہ میری اس دلیل میں جامعیت نہیں ہے کیونکہ جیسے ہی سخنوروں نے مثنوی کی جانب رخ کیا تو اس وقت اس کا دور دورہ تھا ، مثنوی کے خوبصورت اشعار زبان زد تھے ۔ قصیدہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، مرثیہ کے اشعار بھی زبان زد ہوتے رہے ہیں ۔ تو اب یہ بات سامنے آتی ہے کہ اشعار خواہ کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ کم سے کم الفاظ میں آرہے ہیں اور پیشکش میں مؤثر ہورہے ہیں خواہ وہ شعر کسی بھی صنف سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ کامیاب ہیں ۔ کیا رباعی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ؟ ہاں اردو میں رباعی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔ اگر چہ لکھنؤکے زریں دور میں انیس و دبیر نے رباعیوں کا استعمال حاضرین کو جمع کرنے کے لیے کیا تھا اس کے بعد وہ مرثیے پیش کرتے تھے ،لیکن وہاں بھی مرثیہ کے مقابلے میں رباعی ایک ذیلی صنف سخن ہی رہی اور عوام نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا ۔تو کیا خواص نے اسے کبھی سنجیدگی سے لیا ؟ ہاں ! شاعروں نے اپنی بساط بھر کوشش کی اور وہ اس میں کا میاب رہے اور رباعی کوانھوں نے مسلسل اپنی مشق سخن میں جاری رکھا ، یہی وجہ ہے کہ دیگر اصناف کلاسیکی میں سمٹ کر رہ گئیں اور رباعی اب تک جاری و ساری ہے ، لیکن جہاں تک رباعی تنقید کی بات ہے تو وہ اول روز سے محروم نظر آتی ہے۔ جب اردو میں تذکرے لکھے جارہے تھے تو اس وقت بھی بہت ہی کم شعرا کے لییصراحتاً رباعی گو لکھا گیا اور جب تنقید کی خشت اول رکھی جارہی تھی تب بھی شاعری کی تنقید میں غزل ونظم ا ور مثنوی پر بحثیں ہوئیں، لیکن دیگر کے ساتھ رباعیسے صر ف نظر کیا گیا ۔ تنقید کے پہلے دور میں جب تاثر ات کا دخل تھا اور جمالیاتِ ظاہر ی و باطنی پر توجہ صرف کی جارہی تھی ، غزل کی نوک پلک مو ضوعات کے ساتھ سادگی اصلیت و جوش کے سانچے میں ڈھالی جارہی تھی اس وقت بھی رباعی اپنا روایتی سفر بتدریج جاری رکھے ہوئے تھی ۔ اس وقت غزل کے کئی ادوار گزرچکے تھے ۔جیسا کہ غزل کے پہلے دور میں رباعی محض اپنی حاضر ی درج کرواتی ہے اور تقریباً ہر ایک کے یہاں نظر آجاتی ہے ۔ انیسویں صدی میں رباعی باضابطہ دیگر اصناف کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے ، انیس و دبیر مرثیہ کے سپہ سالارتھے تو ساتھ میں رباعیاں بھی لے کر چل رہے تھے ۔ غالب کے عہد میں جہاں غزل کے شعرا نے رباعی کو محض سخن گوئی میں مہارت کی پیمائش کے طور پر دیکھا تو دوسری جانب شاہ غمگین کے یہاں رباعی میں تخصص پایا جاتا ہے ۔ نظم کا دور شروع ہوتا ہے اور حالی و اکبر اس کی زلف سنوارتے ہیں ۔ جب جدید غزل و نظم کا دور شروع ہوتا ہے تو جوش و فراق ، چنگیزی و رواں کے یہاں رباعی کی روانی پائی جاتی ہے۔ جنوب سے امجد حیدرآبادی سامنے آتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، لیکن کیا رباعی تنقید میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہاں بالکل آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ شاعری کی تنقید میں ہی رباعی تنقید ہے البتہ جس طرح مثنوی اور واسوخت کی تنقید نظر نہیںآتی ہے ، اسی طرح نثر میں سفر نامہ اور رپورتاژ کی تنقید نہ کے برابر نظر آتی ہے تو رباعی تنقید بھی اسی صف میں ہے، لیکن بعد میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جب اردومیں ’الخیام ‘ جیسی کتاب نظر آئی تواردو رباعیات کی تشریح بھی مختلف سانچوں میں کی جانے لگی ۔ فرمان فتح پوری اور سلام سندیلوی جیسے رباعی تنقید کے وہ اساطین سامنے آئے جنہوں نے اردو میں رباعی تنقید کی مضبوط بنیاد ڈالی ،بعد میں یہ سلسلہ دراز نہیں ہوا بلکہ جوکچھ لکھا جا چکا تھا اس سے بہتر تو دوراس جیسا بھی نہیں لکھا گیا ۔ رسائل کے خصوصی شمارے نکلے لیکن پھر بھی دیگر اصناف سخن کی طرح رباعی تنقید میں کوئی تنوع دیکھنے کو نہیں ملا ، لیکن جب بھی کسی شاعری کی جملہ خدمات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور وہ رباعی گو بھی ہوتا ہے تو اس کا ذکر ہوتا ہے لیکن اتنا کم کہ اس کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو تنقید کے مقابلہ میں تذکرہ کی ہوتی ہے۔ تو کیا اس میںر باعی کی کمی تھی کہ وہ غزل اور نظم کے شانہ بشانہ نہیں کھڑی رہ سکی یا رباعی کے موضوعات کی تنگ دامنی تھی کہ غزل اور نظم کے موضوعات کو نہیں پاسکی یا پھر بیان و بدیع اور جمالیاتی سطح پر کچھ خلا رہ گیا تھا کہ رباعی سے وہ تاثر نہیں پیدا ہوا کہ ناقدین اس جانب توجہ کرتے اور غزل و نظم کے ساتھ رباعی کو بھی لا تے ۔ ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ ہر زاویہ سے اردو رباعی غزل و نظم کے شانہ بشانہ چل رہی تھی ، کیا فراق کی رباعیاں ان کی نظموں اور غزلو ں سے کمتر ہیں یا جوش کی نظمیں زیا دہ بہتر ہیں یا ان کی رباعیا ں ۔ سید ھا سا جواب ہے کہ ادب میں تخلیق کا معیار ناقد طے کرتا ہے اور ناقد اپنی ایک راہ منتخب کرلیتا ہے کہ اسے کس سمت جانا ہے ۔ کیا وہ شعر کے فلسفہ پر بات کرے گا یاشعری ہیئت پر ، نظم کی بنت پر بات کرے گا یا کچھ اور ۔ تو ادبی مزاج بندی میں رباعی کو ناقدین نے توجہ ہی نہیں دی ورنہ اردو میں بھی ایسے کامیاب رباعی گو پیدا ہوئے ہیں جو فارسی کے مقابلے رکھے جاسکتے ہیں۔ جس طرح سے ہم نے غزل کی مشاطگی کی ہے ،نظم کو سنوا را ہے ، قصیدہ میں علویت پیدا کی ہے ، مرثیہ میں جذبات کے دریا بہائے ہیں اسی طرح اردو میں بھی رباعی نے زندگی کے نشیب و فراز کی نمائندگی کی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ کسی کی تخلیق کو پرکھا گیا اور کئی تخلیقات پارکھ تک پہنچی ہی نہیں ۔

گفتگو رباعی تنقید سے شروع ہوئی تھی توشروع میں رباعی تنقید کے دواستاد سامنے آتے ہیں سلام سندیلوی اور فرمان فتح پوری ۔ سلام سندیلوی صاحب کی کتاب بہت ہی ضخیم ہے اور وہ شروع سے اپنے وقت تک کے سبھی رباعی گو شعرا کا شمار کرلیتے ہیں ۔ ان کے یہاں رباعی تنقید کا ایک خاکہ موجود ہے اور وہ موضوعاتی خاکہ ہے ۔ عشقیہ رباعیات ، عارفانہ رباعیات ، مذہبی رباعیات ، فلسفیانہ رباعیات ، اخلاقی رباعیات ، خمریہ رباعیات ، ذاتی رباعیا ت اور پھر کسی کے یہاں کچھ اضافی مل جاتا ہے تو انہیں ذیلی عناوین کے تحت شمار کر تے ہیں اور تشریح بھی ۔ یہ طریقہ تنقید بعد کے ناقدین کے یہاں نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اتنی تفصیلی گفتگو ہوتی ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ غزلیہ اور نظمیہ شاعری کی تنقید میںجو انداز سامنے آتا ہے وہ کسی اور صنف شاعری میں نہیں ۔ اگر میں یہ کہوں تو بیجا نہیں ہوگا کہ اب تک رباعی کی تبصراتی تنقید ہی سامنے آئی ہے ۔ یہ بھی غنیمت ہے ۔اس کے لیے خودرباعی گو شاعروں کو سوچنا ہوگا کہ انہوںنے مشق سخن میں کہاں کوتاہی برتی کہ اپنے فن کی جانب وہ ناقدین کو مائل نہیں کرسکے ۔ اس کابھی جواب نہیں ہوگا، کیونکہ چند رباعی گو شعرا نے اردو رباعی کو وہ بخشا ہے جو اردو کو فارسی کے مقابل لاکھڑا کرسکے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فارسی میں تنقید کا وہ چلن نہیں ہے جو اردو میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ شاہ غمگین ، نساخ ، جعفرعلی حسرت، انیس و دبیر ، رواں، یاس، یگانہ چنگیزی ، امجد حیدرآبادی ، جوش و فراق رباعی کے وہ بڑے نام ہیں جب ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی تو باقی پر کہاں توجہ دی جاسکتی ہے ،لیکن گزشتہ چند برسوں سے نئے رباعی گو شعرا کی جانب تو جہ دی جارہی ہے اور ان پر لکھا بھی جارہا ہے ۔

 اگر موجودہ رباعی گو شعرا کی بات کی جائے تو ان سبھی کی قسمت نے یاوری کی کہ ان پر مضامین شائع کیے جائیں اور رباعی کی دنیا میں بھی انہیں پذیرائی ملے ۔  چوٹی کے ناقدین کی بات نہیں ہے بلکہ ان ناقدین کی بات کی جارہی ہے جو ہمیشہ ادب کی رفتار کو استوار رکھے رہتے ہیں اور اپنی تحریروں سے تخلیق کاروں کی پذیر ائی کرتے رہتے ہیں ۔تاہم میری نظر میں اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں تقریبا ً دس ایسے رباعی گو شعرا تو ضرور ہیں جن پر لکھا گیا اور انہیں رباعی گوئی میں اہم مقام بھی نصیب ہوا ۔ انہی میں سے ایک ظفر کمالی ہیں ۔

ظفر کمالی کا فکر و فن متنوع کیفیات کا حامل رہا ہے ، ظرافت سے اپنا شعری سفر شروع کرتے ہیں ، تحقیقی خدمات بھی انجام دیتے رہتے ہیں ساتھ ہی وہ اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طور پر بھی ثابت کر تے ہیں ۔ان کارباعیوں کا پہلامجموعہ ’’ رباعیاں ‘‘ 2010میں منظر عام پر آتا ہے پھر ’’رباعیات ظفر‘‘ 2013 میں اس کے بعد 2017 میں’’ خاک جستجو ‘‘ کے نا م سے رباعیوں کا دیوان شائع ہوتا ہے ، بچوں کے لیے ’’چہکاریں ‘ ‘ کے نام سے بھی رباعیوں کا مجموعہ منظر عام پر لاتے ہیں ۔ اردو میں دیوان رباعیات کا چلن بہت ہی کم رہا ہے ۔ بیسویں صدی تک ہمارے یہاں دیوان غزلیات کا رواج بہت ہی زیادہ تھا ، مشہور شعرا کے دواوین ملتے ہیں ۔ اسی زمانے میں رباعیات کا بھی دیوان ملتا ہے ، لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں رباعی کے لیے یوں بیداری سامنے آئی کہ اب مجموعو ںکے ساتھ رباعی  کے دواوین بھی شائع ہونے لگے ۔ 

ظفر کمالی صاحب بھی تین رباعیوں کے مجموعے کے بعد دیوان سازی میں قدم رکھتے ہیں اور ’’خاک جستجو ‘‘ کو ادبی منظر نامے پر سامنے لاتے ہیں ۔ یہ دیوان 288 صفحات پر مشتمل ہے جس میں دیوان کے اشعار کی بات کی جائے تو وہ صرف 194صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحے میں تین رباعیاں ہیں تو کل 582رباعیاں ہوئیں ۔ ارد و کی ادبی تاریخ میں دیکھیں گے تو شعری مجموعوں کا مطالعہ جس انداز میں سامنے آیا ہے وہ دواوین کے لیے نظر نہیں آتا ہے ۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ رباعی کے مجموعے کے مطالعے اور دیوان کے مطالعے میں نمایا ں فرق ہوتا ہے ۔ مجموعات میں عموماً موضوعاتی ترتیب دیکھنے کو مل جاتی ہے لیکن دواوین کی فنی پابندی میں یہ باقی نہیں رہتا ہے اور موضوعات بکھرے ہوئے مل جاتے ہیں ،لیکن اس سے شعری کائنات میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ہاں اگر کسی نے دیوان بنانے کے لیے رباعیاں آورد کی ہوں تو وہاں بہت ہی زیادہ فرق پڑ تاہے بلکہ قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ خیالات و موضوعات وفنی پابندی ضرور ہے لیکن وہ نہیں ہے جسے شاعری کی روح کہی جائے یعنی خوبصورت اسلوب وانداز ، شعر کو موضوع ومضمون کبھی بھی مؤثر نہیں بناتا ہے بلکہ اسلوب نگارش ہی شاعرکو بڑا شاعر بناتا ہے۔ غزل کی طرح رباعی میں بھی سارے موضوعات برتے جاتے ہیں لیکن جو رباعی اپنے اسلوب میں نمایاں ہوگیا وہ کامیاب ہوا ۔ خواہ زندگی پر انیس کی رباعی ہو یا تصوف پر امجد حید رآبادی کی رباعی ،شرنگار رس پر فراق اور منظر نگاری پر جوش کی رباعیاں سبھی اسلوب کی بنا پر نمایاں ہوتی ہیں۔

’’ اب خاک جستجو‘‘ کی خاک چھانتے ہیں ۔ رباعیات تک پہنچنے کے لیے پچاس صفحات کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے پہلے پچیس صفحات میں دو نثر ی تحریریں ہیں جن میں اول تحریر ڈاکٹر واحد نظیر کی ہے جو ظفرکمالی کے فن رباعی کو پیش کرتی ہے اور دوسری تحریر محمد ولی اللہ کی ہے جو شخصیت کے درخشاں پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔دونوں تحریر یں فن اور شخصیت پر جامع اور مانع ہیں ۔ان مضامین پر گفتگو نہ کرتے ہوئے اصل متن کی جانب بڑھتے ہیں اور ردیف الف پر پہنچتے ہیں تویہاں موضوعاتی اعتبار سے رباعیوں کی ترتیب دیکھیں گے تو پائیںگے کہ شروع کی پانچ رباعیاں حمد کی ہیں ، سات رباعیا ں نعت نبیؐ پر ہیں اس کے بعد ایک رباعی عاجزی پر ہے پھر پانچ رباعیاں دعا پر ہیں ۔ اس ترتیب سے محسوس کرسکتے ہیں کہ پرانی روایت میں ہر کتاب کے شروع میں عربی میں خطبہ لکھنے کا رواج تھا وہ یہاں آپ کو رباعیات کی شکل میں پڑھنے کو ملتا ہے ۔فنی طور پر یہ عناصر اور بھی کئی تخلیقات میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے دیباچہ ہی رباعی کی شکل میں پیش کیا ہے ۔ اس کے بعد مختلف افکار پر رباعیاں ملتی ہیں ۔ اردو شاعری میں عشق ایک کلیدی موضوع کے طور پر ہمیشہ نمایاں رہا ہے ۔رباعی میں بھی خوبصورت عشقیہ مضامین تخلیق کیے گئے ہیں ۔ یہاں پہلی جو عشقیہ رباعی ملتی ہے وہ کچھ اس طر ح ہے :

وہ لاکھ سہی تیز نہیں لڑسکتا 


فرہاد سے پرویز نہیں لڑسکتا 

آساں نہیں ہوتی یہ عشق کی جنگ 


اس جنگ کو چنگیز نہیں لڑسکتا 

عشق کو اردو شاعری نے جس فلسفیانہ طریقے سے پیش کیا ہے وہ اردو شاعری کا امتیاز بن گیا ہے ۔ اردو کا کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہوگا جس نے عشق پر شعر نہیں کہا ہو ۔ رباعی گو شاعر وں نے اس موضوع پر بے شمار رباعیاں کہی ہیں ۔یہ بھی عشق کے ہی موضوع پر ہے ۔ اس رباعی سے ذہن یقینا ’ عشق نہیں آساں ‘‘ کی جانب چلا جاتا ہے ، رباعی کی ایک خاصیت ہوتی ہے کہ اس کے تیسر ے مصرعے میں موضوع واضح ہوتا ہے بلکہ مدعا بھی اسی مصرعے میں ہوتا ہے جو اس رباعی میں بخوبی موجود ہے ۔ رباعی تلمیحات سے بھی مزین ہے لیکن قاری کے ذہن میں ایک بات ابھرے گی کہ کیا عشق مجازی کسی جنگ کا نام ہے ؟ عشق تو ایک کیفیت غیر مرئیہ کا نام ہے اور غیر مرئی چیزوں کی تقلیب نہیں ہوتی ہے ، تحصیل میں کچھ گنجائش نکل سکتی ہے لیکن کیفیت کو حاصل کرنا مشکل ہوگا گویا مادہ تو مل سکتا ہے لیکن وہ روح کہاں سے کوئی حکمراں جیت پائے گا جو عشق نام سے اس صورت جسمیہ میں موجودتھا ۔نیز جنگیں توارادی ہوتی ہیں جب کہ عشق تو غیر ارادی ہوتی ہے وہاں عقل سے کام نہیں لیا جاتا ہے ۔

اس کے بعد جو رباعی مذکو ر ہے اسے ان کا نمائندہ رباعی کہا جاسکتا ہے کیونکہ رباعی صرف موضوعات بر تنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ غزلیات کی طرح رباعیات کی بھی لفظیات ہیں جنھیں علامات و تلمیحات میں بخوبی استعمال کیا جا تا ہے ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں :

منصور کی خو ہے نہ ہے سرمد کی ادا 


دستار انا سر سے ہوئی کیسے جدا

چھایا ہے حواسوں پر کیا موسم قہر 


کیوں مرگ کے عالم میں ہے یہ خلق خدا

 منصور ، سرمد ، دستار ، انا ، حواس اور مرگ جیسے الفاظ کی بنت سے تخلیق کردہ اس رباعی کی جو فضابنتی ہے وہ صوفیانہ بھی ہے اور دنیا ئے فکرو نظر کی خاموشی کو بھی پیش کرتا ہے، یہ آج کے حالات کی بھر پور نمائندگی بھی کرتا ہے ۔ اس سب سے بڑھ کر اس رباعی میں روایتی موضوعات کی پاسداری کے ساتھ موجودہ وقت میں موضوع سے بیزاری کو بخوبی پیش کیا جارہا ہے ۔ 

 ردیف الف میں اور بھی کئی رباعیاں ہیں جو موضوعاتی اعتبار سے عمدہ ہیں ۔ سب سے زیادہ حالات کی ناہمواری کی کسک نظر آتی ہے جس میں یہ احساس دلاتے ہیں کہ عمل کی خواہش بہت ہی زیادہ ہے لیکن کسی طور بھی حالات نہیں بن پارہے ہیں کہ ان پر عمل در آمد کیاجاسکے ، ظلمت نے اس قدر انسا ن کو اپنے ماحول میں جکڑ لیا ہے کہ وہ چاہ کر بھی روشنی کی جانب قدم نہیں بڑھا پا رہا ہے ۔ فنی اعتبا ر سے تناسب الفاظ پر بحث ہوسکتی ہے اسی کے ذیل میں مصرعوں کی ترتیب کی بات ہوتی ہے ۔ کئی ایسے رباعی گو شعرا ہیں جن کے یہاں اہم بات پہلے ہی مصرعے میں آجاتی ہے جب کہ وہ آخر ی مصرعے کی زینت ہونی چاہیے وہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب تین مصرعوں میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کو اہم مانا جائے ۔

اس ردیف کی آخر ی رباعی کچھ اس طرح ہے: 

ہے گرم مگر لگتی ہے ٹھنڈی دنیا 

فرعون سے بڑھ کر ہے گھمنڈی دنیا 

رکھتی ہے بیک وقت ہزاروں شوہر 

کتنی ہے خطرناک یہ رنڈی دنیا 

اس رباعی کا آخری مصرع بہت ہی زیادہ چونکاتا ہے ۔کیا یہ اسلوب رباعی میں آپ کو کہیں دیکھنے کو ملا ہے ۔ ہاں ہزلیات میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن غزل ، نظم اور رباعی میں ایسا اسلوب آپ کو شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے ۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ حافظ شیرازی نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے ، ان کا شعر کچھ اس طرح ہے :

 مجو درستیِ عہد از جہان سست نہاد 

کہ این عجوزہ عروسِ ہزار داماد است 

(کمزور بنیاد کی دنیا سے عہد کی پختگی نہ ڈھونڈ ،اس لیے کہ یہ بڑھیا ہزار شوہر وں کی دلہن ہے )

دونوں کے موضوعات میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔ حافظ کے یہاں عہد و وفاکی بات ہے کہ یہ دنیا کسی سے بھی عہدووفا نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ہزار شوہروں کی دلہن ہے ، جبکہ ظفر کمالی کبرو نخوت کی بات کرتے ہیں اور قافیہ کے تتابع میں ایک ایسا لفظ لاتے ہیں جو موجودہ وقت میں شرفا کی زبان میں نہیں آسکتا اسی وجہ سے آخر ی مصرع ایک مکمل گالی کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ یہ سب کچھ قافیے کے تتابع میں ہوا لیکن نہ تو یہ سنجیدہ شاعری کا اسلوب ہے اور نہ ہی رباعی کا ۔ 

ردیف ت کی پہلی اور ردیف چ کی دوسری رباعی میں شاعری کی بات کی گئی ہے ۔ دونوں رباعیاں ملاحظہ ہوں :

ٹیڑھے نہ بنو کہو سدا سیدھی بات 

اس سے روشن ہوگی تاریک حیات

انصاف کرو سدا معانی کے ساتھ

شاعر تو نہیں کرتے لفظوں سے گھات


ہے تیز بہت تیری گفتار کی آنچ

دھیمی ہی رہے پیارے افکار کی آنچ 

جب دل میں سلگتی ہے دھیرے دھیرے

تب رنگ دکھاتی ہے اشعار کی آنچ

دونوں رباعیوں کو جب غور سے دیکھیں گے تو تدریج نظر آئے گا ، ساتھ ہی جو تخاطب کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اس سے اس بات کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ شاعر کے دل میں ضرور کوئی ایسا کردار رہا ہوگا جس کے لیے اس نے مندر جہ بالا رباعیاں کہی ہیں ، لیکن ہم تو اسے عمومی امر میں دیکھیں گے تو ایسا احساس ہوگا کہ یہ کسی خاص عہد کے لیے کہا گیا ہے جب مغلق زبان استعمال کرنے کا فیشن چل نکلا تھا اور دور کے معانی تلاش کیے جاتے تھے ورنہ شاعری میں جو اجمال و احتما ل کی کیفیت ہوتی ہے وہی اس کی شان و پہچان بھی ہوتی ہے جہاں معانی ہی مختص نہیں ہوتے ہیں جبکہ نثر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں معنی تو متعین ہوتا ہے اگر معنی واضح نہ ہو تو پھر وہ جملہ تصحیح کے قابل ہوتا ہے ۔ دوسری رباعی کچھ زیادہ ہی خاص ہے ، اس رباعی سے عنصر المعالی کیکاؤس کی کتاب قابوس نامہ کی یاد آجاتی ہے جہاں وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ شاعری کیسی کرنی چاہیے۔ فنی اعتبارسے دیکھیں تو دوسری رباعی پہلی سے زیادہ عمدہ ہے کیونکہ پہلی رباعی کے دونوں اشعار اپنے آپ میں مکمل ہیں جبکہ دوسری رباعی میں پیغام چوتھے مصرعے میں جاکر واضح ہوتا ہے جو رباعی کی خوبصورتی ہے ۔ 

اسی طریقے سے اگر ہر ردیف کی رباعیوںکا جائزہ لیا جائے تو یہ مضمون بہت ہی طویل ہوجائے گا ،کیونکہ ہر ردیف میں انہوں نے ایسی رباعیاں پیش کی ہیں جن میں زندگی کے تجربات اور نادرخیالات کی بھر پور عکاسی ملتی ہے اورموضوعاتی سطح پر ان کے یہاں رباعیوں میں بہت ہی زیادہ رنگینیاں پائی جاتی ہیں ۔کچھ موضوعات پرانے اور کچھ نئے ہیں ۔جیسا کہ مذہب کا موضوع رباعی کے لیے جسم و لباس کی طر ح چلتا آرہا ہے یعنی رباعی کے لباس میں سے ایک لبا س مذہبی افکار کا رہا ہے ،یہ الگ با ت ہے کہ کسی نے عشق کے لباس کو زیادہ پہنا یا تو کسی نے لباس فطر ت کو رباعی میں پیش کیا ہے ، لیکن ظفر کمالی کی مذہبی رباعیوں میں طلب رشد و ہدایت نظر آتی ہے، کہیںاستدعا نظر آتا ہے تو کہیںاقبال کے رنگ کو اپنی رباعی میں پیش کرتے ہیں ۔اقبال کے یہاں مذہب اگر چہ سماجی اور قومی فلاح و بہبود کے لیے ایک قطب نما کے طور پر ابھر تا ہے لیکن ظفر کمالی کے یہاںیہی موضوع ایک داخلی کرب و احساس اور وقت حاضر کے پریشان دماغ کی عکاسی کر تا ہوا نظر آتا ہے :

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا 

اقبال ؔ

ذرہ ہوں ستاروں کی چمک دے یارب 

کر دار میں پھولوں کی مہک دے یارب

بے چین جو دکھیاروں کے دکھ سے ہوجائیں 

سینے میں وہی درد و کسک دے یارب 


جاہل ہوں مجھے علم کی تنویر بھی دے

آئینے کو میرے نئی تصویر بھی دے 

احساس کی جاگیر بھی کر مجھ کو عطا

خوابوں کو میرے خیر کی تعبیر بھی دے 


تاریک نگاہوں میں چمک دے یارب

چہرہ ہے میرا زرد دمک دے یارب 

قارون کے خزانے کی طلب مجھ کو نہیں 

کھانے کے لیے نان نمک دے یارب 

ظفر کمالی کی رباعیوں میںجو موضو ع ہمیںغالب نظر آتا ہے وہ اظہار حق ہے یعنی ان رباعیوں میں وہ ہمیں حق کی پہچان کراتے ہیں ۔ان رباعیوں میں رباعی گو اکثر اپنی حکمت بالغہ کے تحت حکیمانہ باتوں کو  حق کی شنا خت کے لیے رباعی کے پیکر میں ڈھال کر پیش کر تے ہیں ۔ اس پیش کش میں کہیں مفکر انہ اندا ز ہوتا ہے ، کہیں حاکمانہ انداز تو کہیں سادگی کے ساتھ دل پر کوئی بات ثبت کر جاتے ہیں اور کہیں ظرا فت کی زیریں لہروں میں باطل پر طنز کے ساتھ حق بات کی خبر دے کر اپنے فن کی سیرابی کر تے ہیں ۔ اس معاملہ میں ظفر کمالی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں جو حکمت پیش کر تے ہیں اس میں انہوں نے ظرافت اور احتجاج کا ملا جلا اثر رکھا ہے۔ کچھ رباعیوں میں وہ جھنجھلاہٹ کاشکا ر بھی نظر آتے ہیں اور سامنے والے کو چیلنج کر تے نظر آتے ہیں اور کہیں کہیں تو ہمت کا جذبہ بھی ہار جاتے ہیں :

دلدوز ہی تحریر لکھی جائے گی

جب خواب کی تعبیر لکھی جائے گی

اب میری تمناؤں کے خوں سے شاید

اس ملک کی تقدیر لکھی جائے گی 


نایاب ہے اب ایسی دانائی کی بزم 

افکار کی، گہر ائی کی، گیرائی کی بزم

دیکھوگے تو حیرت میں پڑ جاؤگے

میں کیسے سجاتا ہوں تنہائی کی بزم 


ظالم ہو قصائی کی طرح لگتے ہو

شیطان کے بھائی کی طر ح لگتے ہو

ایمان کوئی تم پر لائے کیسے 

تم جھوٹی خدائی کی طرح لگتے ہو

ان کی رباعیوں میں جہاں دوسر ے شاعروں کارنگ نظر آتا ہے وہیں ظرافت میں اکبر ؔ کا رنگ بھی نظر آتا ہے :

آتی ہیں نظر ایسے کنواری مائیں 

آوارہ پھرا کرتی ہیں جیسے گائیں 

جب شہر سبھی ہوگئے لندن کی طرح 

کر تے ہیں ظفر ناحق ہائیں ہائیں 


شوہر تو گئے گلف کمانے کے لیے

بکری ہو کہ اونٹ چرانے کے لیے 

دیہات میں بیگم کا دل لگتا نہیں 

شہر آتی ہیں وہ دل کو لگانے کے لیے 

ظفر کمالی وقت کے نباض کے طور پر اپنی رباعیوں میں نظر آتے ہیں، وہ اکثر مقامات پر ہوس پرستی ، لالچ ، انا پرستی ، شہرت پسندی ، بے عملی جیسی چیزوں پر طنز کرتے ہیں ۔اصل میں ایک سچا فن کار اور انسانیت سے بھر پورشخصیت جب دنیا کے جھمیلوں میں پڑتا ہے اور اپنی بصیر ت کی نظر اس پر ڈالتا ہے تو ہر مقام پر وہ شاکی دل و نظر کے ساتھ شکایت کر تا ہوا نظر آتا ہے ۔آخر ایک درد مند دل رکھنے والا انسا ن خود کی زبان و بیان پر کب تک قابو رکھ سکتا ہے ۔ مقصد اگرچہ اصلاح یا پند ونصیحت نہ ہو لیکن جب ایک شاعر اپنی نظر سے معاشر ے کو دیکھتا ہے تو اپنا رد عمل بھی شاعرانہ انداز میں پیش کر تا ہے ۔مطلق شاعر اور رباعی کے شاعر میں نمایاں امتیاز  یہی ہوتا ہے کہ مطلق شاعر خیال کی باریکی کو انوکھے انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں لگا رہتا ہے جب کہ رباعی گو شاعر کے سامنے جملہ لوازمات رباعی کے ساتھ ایک پیغام بھی ہوتا ہے جو رباعی گو کے تجر بہ پر منحصر ہوتا ہے :

دن رات عبادت کی پریشانی میں 

محنت نہ چلی جائے کہیں پانی میں

یوں سر کو پٹکنے کا حاصل کیا ہے 

سجدوں کی تڑپ نہیں جو پیشانی میں 


مت رکھو کبھی بغض کے زینے پر پاؤں 

رکھنا ہے تو رکھ دل کے کینے پر پاؤں

تو راہ صداقت سے نہ کھنچ اپنے قدم 

رہنے دے شیطان کے سینے پر پاؤں 


محبوب سبھوں کو ہے انا کا جامہ 

مطلوب کسے نہیں ریا کا جامہ

لوگوں نے اسے اتار پھینکا ہے ظفر

جسموں پہ کہاں رہا حیا کا جامہ 


جو جھکنے کی منزل پہ اکڑجاتی ہیں 

قومیں وہ نہیں بنتیں بگڑ جاتی ہیں 

اخلاق کی میراث اگر لٹ جائے 

تہذیب کی سانسیں بھی اکھڑ جاتی ہیں 

اکیسویں صدی کی کیا شروعات ہوتی ہے کہ دنیا گلوبل ولیج بن جاتی ہے ۔ جہاں تہذیب و معاشرت بھی  یکساں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، تہذیبوںمیں عدم امتیاز کا پہلو عروج پر ہے   ۔ جہاں استاد معلم و مربی ہو تا تھا اب استادصر ف ہوم ورک دیکھنے کا ایک ملازم ہوگیا ہے ۔ اب تمام ناجائز کاروبار یا ممنوع پیشے نئے ناموں کے ساتھ حلال کمائی میں شمار ہوتے جارہے ہیں۔ اقدار بدل گئیں، رہن سہن کا انداز کچھ مہینوں میں بدل جاتا ہے بالآ خر ایک شاعر تہذیب اور معاشر ت کے اس دردو کرب سے کہاں تک خود کو بچا سکتا ہے ۔ظفر کمالی نے ان رستے ہوئے زخموںکو محسوس کیا اور رباعیات میں پیش کردیا ۔ان رباعیات سے اپنی صدائے احتجاج بلندکر تے ہیں کہ آخر ہم کہاں تھے اوراب ظاہر ی چمک دمک سے مر عو ب ہو کر اسی کو بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی میں داخل کر لیتے ہیں جو مارکیٹ ہمیں مہیا کراتی ہے :

رشتوں کی پذیرائی میں کیا رکھا ہے 

ماں باپ بہن بھائی میں کیا رکھا ہے 

مانا کہ برائی تو برائی ہے، مگر 

اس دور کی اچھائی میں کیا رکھا ہے 


ہم جنس پر ستی میں بڑھے جاتے ہیں 

زینے پہ تر قی کے چڑھے جاتے ہیں 

مشر ق کا ہمیں یاد سبق کیسے رہے 

مغرب جو پڑھا ئے وہ پڑھے جاتے ہیں 


اب خواب ہے دیوانے کا پوری پوشاک 

ہر جسم پہ ہے آدھی ادھوری پوشاک

فیشن کی ترقی کا جو یہ حال رہا

کچھ دن میں نہیں ہوگی ضروری پوشاک


شہرت کی ہوس میں وہ گر فتا ر ہوئے 

چڑھتے ہوئے سورج کے پرستار ہوئے 

آنکھو ں میں نہیں ان کی حیا کا پانی

جو یار ہمارے تھے وہ عیار ہوئے 

ظفر کمالی نے شخصیات پر بھی عمدہ رباعیاں پیش کی ہیں خواہ و ہ رباعیاں بطور شخصی مرثیہ ہوں یا شخصی قصیدہ ۔انہوں نے اپنے پہلے مجموعہ ٔ رباعیات میں انور جمال پاشا، حنیف نقوی، ناوک حمزہ پوری، طلحہ رضوی برق، اعجاز علی ارشد ، کوثر سیوانی اور التفات امجدی کے متعلق بہت ساری رباعیاں کہی ہیں۔اس کے بعد جب انہوں نے دوسرا رباعیوں کا مجموعہ شائع کیا تو اس میں بھی بدستور یہ سلسلہ برقرار رکھا اور’’ رباعیات ظفر‘‘ میں قاضی عبدالودود ، کلیم الدین احمد ، کلیم عاجز ، شہاب ثاقب، سید حسن عباس ، بسمل رانی پوری ، عامر سبحانی ، صفدر امام قادری، اظہار ندیم اور اپنی شر یک حیات کے نام سے موسوم کیا ہے ۔اس کے علاوہ مر ثیے اور سہرے بھی رباعی کے پیرا ہن میں پیش کیے ہیں ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں :

فن کاروں کی صف میں تو شامل ہی نہیں ؟

یا فن کی عدالت میں عادل ہی نہیں ؟

کیوں تجھ سے گریزاں ہیں نقاد ظفر ؔ

تو کچھ بھی نہیں ؟ ذکر کے قابل ہی نہیں 

ظفر کمالی کی یہ رباعی اور مندرجہ بالامیں سے کچھ خاص نام دونوں کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو قاری کے ذہن میں عجیب کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ظفر کمالی نے یہ ساری رباعیات رسم نبھانے کے لیے کہی ہیں یا یہ باور کر انے کے لیے کہ رباعی کا ایک شعبہ یہ بھی ہے جسے شخصیت شناسی کا شعبہ قرار دیا جاسکتا ہے جس پر زبان کھولنا بہت ہی مشکل ہو تا ہے کہ اگر ہم رباعی کے سانچے میں کسی کی شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں توخوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں وہ مکمل مداحی نہ بن جائے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے یا رباعی میں خاکہ پیش کر رہے ہیں تو وہ ہجو کی صورت نہ اختیار کر جائے ۔پھر بھی ان موضوعات پر رباعی کہنا اور اتنا کہنا کہ کتاب میں سے اگر منتخب کیا جائے تو ایک تہائی حصہ مختص ہوسکتا ہے :

جھجکے نہ قلم دل میں نہ ہو کوئی کسک

ظالم کو لکھو شوق سے ’’ماتھے کا تلک‘‘

مل جائے گی اردو کی حکومت تم کو 

قدموں میں چلا آئے گا شہر ت کا فلک 

رباعی کے سانچے میں اپنے خیا لات کو پیش کر نا خو د ایک دشوار کن مر حلہ ہوتا ہے پھر جب شخصی رباعی کہی جائے تو نظر اس بات پر رہتی ہے کہ شاعر موصوف اور فن کے ساتھ کتنا انصاف پرورہے ۔اس معاملہ میں ظفر کمالی کے اند رایک خاص بات یہ نظر آتی ہے کہ وہ شخصیت کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں جس کے لیے وہ شخصیت جانی جاتی ہے اور حقیقتاً وہ اس حق کی حقدارہے۔ان اشخاص کو اپنی رباعیوں میں جگہ دیتے ہیں جو اپنے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں جانے جاتے ہیں ۔ عمو ماً یہ ہوتا ہے کہ اشخاص پر لکھی گئی چیزوںکو لوگ نظر اندازکر دیتے ہیں لیکن جب شخصیت معلوم ہو اور وہ شخص ایک مینارہ کی حیثیت رکھتا ہو تو اس کے متعلق پڑھنے کی للک ہمیشہ رہتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ظفر کمالی نے مشہور شخصیات کو اپنی رباعیوںکا موضوع بنایا ہے ۔ جب رباعی کہتے ہیں تو پہلے مصر عے میں ان کی ذات ابھر تی ہے جن کے متعلق رباعیاں کہی جارہی ہیں اور دوسرے مصر عے میں فورا ً روشنی ان کی ذات سے ان کے معاصر ، ان کے نکتہ چیں یا خوشہ چیں کی جانب ہوجاتی ہے اور آخر ی مصر عے میں پوری شخصیت کو وہ ابھارتے ہیں ۔اس طر یقے کی بہت ساری رباعیاں ان کی کامیاب رباعیوں میں ہم شمار کر سکتے ہیں ۔

قاضی عبدا لودود

سچے ہیں ، یہ سچ بولیں گے ، وہ بھانپتے تھے 

جھوٹے تو انہیں دیکھ کے منہ ڈھانپتے تھے 

تھی سہل پسندوں میں دہشت پھیلی 

یہ نام ہی سنتے تھے تو وہ کانپتے تھے 

کلیم الدین احمد

عالم تھا عجب اس کی بے باکی کا 

شکوہ تھا بہت اس کی سفاکی کا 

وہ وقت بھی آیا کہ سبھی مان گئے 

کچھ توڑ نہ تھا اس کی درّاکی کا 

کلیم احمد عاجزؔ

غالب سے نہ مومن سے نہ دلگیر سے ہے 

لیلی سے نہ شیریں سے نہ تو ہیر سے ہے 

بیٹھا ہے لٹا کر وہ دل کی دنیا 

اس کو تو دلی ربط فقط میر سے ہے 

سلطان اختر 

فن کے افکار نہ کیوں سچے ہوں 

یہ حق کے طرف دار نہ کیوں سچے ہوں 

جب روح کی گہرائی سے یہ نکلے ہیں

سلطان کے اشعار نہ کیوں سچے ہوں

شخصی رباعیات کا ایک باضابطہ مجموعہ ’’سوغات ‘‘ کے نام سے 2023 میں شائع ہوتا ہے ۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ صفدری رباعیاں ہیں ، اس مجموعہ میں کل125رباعیاں ہیں اور سبھی پروفیسر صفدر امام قادری پر کہی گئی ہیں ۔ رباعی کی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ایک ہی شخصیت پر کہی گئی رباعیوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے ، یہ اس کڑی میں ایک خوش کن اضافہ ہے ۔ اگر سوغات کی ساری رباعیوں کا تجزیہ کیا جائے تو پروفیسر صفدر امام قادری کا ایک خوبصورت خاکہ سامنے آجاتا ہے ۔ کتاب میں شامل مضمون میں ڈاکٹر امتیاز وحید لکھتے ہیں : 

’’ یہ رباعیاں در اصل شخصی مرقعے ، خاکہ اور سوانح کی قبیل کی چیزیں ہیں ، جن کا بنیادی محرک رشتوں کا تحفظ اور اس کا احترام ہے ۔ شاعری کی اپنی طاقت ہوتی ہے ۔ شاعرکو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ صراحت کے بغیر اپنی بات کہہ سکتا ہے ۔ ان رباعیوں کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ظفر کمالی نے صفدر صاحب کی زندگی کے ایک ایک پہلو کو نظم کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو صراحت کے ساتھ پیش کیا اور جب کسی ایک آدمی پر اتنی بڑی تعداد میں رباعیاں کہی جائیںگی تو اس کی زندگی کے مختلف پہلو آئیںگے ہی ۔ ‘‘ 

مذکورہ بالا اقتباس کی تصدیق کے لیے ’’سوغات ‘‘ سے صرف دورباعیاں ملاحظہ فرمائیں : 

ٹھوکر میں رکھے اونچے دربار کے بت 

پوجے نہیں اس نے غلط افکار کے بت 

صفدر ہے تو باطل کی صفوں میں گھس کر 

توڑے ہیں اس نے بہت پندار کے بت


دشنام کے پتھر بھی چلے ہیں اس پر 

بہتان کے خنجر بھی چلے ہیں اس پر

ایسے ہی نہیں اسے سرفرازی ملی 

احساس کے نشتر بھی چلے ہیں اس پر

اردو کی شاید ہی کوئی ایسی صنف سخن ہو جس میں بچوں کے لیے کچھ نہ تخلیق ہوا ہو ، نظم و نثر تقریبا ًتمام اصناف میں آپ کو ادب اطفال مل جائے گا ، لیکن کچھ ہی اصناف ہیں جنہوں نے ادب اطفال میں زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ اول نظمیں، دوم کہانیاں ۔ نظموں میں بھی صرف پابند نظمیں ہی ہیں جن کی مقبولیت کو اب تک کوئی پہنچ نہیں سکا ۔ وقت حاضر میں نثر ی نظمیں سب سے زیادہ لکھی جارہی ہیں لیکن اس ہیئت نے اپنے اندر وہ صلاحیت ہی نہیں پیدا کی کہ وہ ہرطرح کے موضوعات کو اپنے اندر ڈھال سکے اور نہ ہی خارجی ہیئت ایسی ہے کہ بچے کو متاثر اور متوجہ کرسکے ، اسی طریقے سے نثر میں کہانیوں کے علاوہ دیگر اصناف نے بہت کم بچوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ، پھر بھی کثیر تعداد میں بچوں کے لیے ناول لکھے گئے ہیں ۔ ایسے میں بچوں کے لیے رباعیاں کہنا بہت ہی زیادہ خوش کن امر ہے ۔ رباعیوں میں حکمت و دانائی کے موضوعات بہت ہی زیادہ مقبول رہے ہیں اور بچوں کو ایسے موضوعات اپنی جانب بہت ہی زیادہ راغب کرتے ہیں ایسے میں ادب اطفال میں رباعی کا ہنر دکھا نا انفرادیت لاتا ہے ۔ ظفر کمالی نے ’چہکاریں ‘ میں بچوں کے لیے جو رباعیاں پیش کی ہیں ان کے مطالعہ سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ رباعی کے لیے ادب اطفال کی زمین زرخیز ہے۔ ادب اطفال کی تنقید جب بھی کوئی ناقد لکھے گاتو وہ زبان میں سلاست و روانی اور غیر پیچیدگی کو ضرور پیش کریگا۔ اگر یہی عناصر رباعی میں بہت ہی اچھے سے نظر آنے لگ جائیں تو مجھے امید ہے کہ بچوں کی رباعیاں بچوں کی نظموں کے مقابل ضرور آجائیں گی ۔ ’چہکاریں ‘ سے چند رباعیاں ملاحظہ فرمائیں : 

کلّی چھوٹی بڑا ہو تو کِلاّ

پلّی کا بھائی ہوتا ہے پلاّ

لیکن ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو 

کب سمجھے گا میرا باگڑ بلاّ


اتنا بھاری بستہ کیسے ڈھوؤں 

کیا اس میں ہی ساری طاقت کھوؤں 

ٹوٹی جائے ریڑھ کی ہڈی اس سے 

ہنسنے کے دن ہیں لیکن میں روؤں 


کیا میں ہوں دنیا کو دکھلاؤں گا 

پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جاؤں گا 

پیسے جو کماؤں گا تو سب سے پہلے 

دادی کو میں نئے دانت لگواؤں گا 


کیوں لوگ پلاتے ہیں نصیحت کے گھونٹ

ہیں میرے لیے صرف فضیحت کے گھونٹ 

تم یہ نہ کرو ، یہ نہ کرو ، وہ نہ کرو 

پیتا ہے کوئی اتنی مصیبت کے گھونٹ 

مذکورہ بالا رباعیات اور ماقبل میں جتنی بھی رباعیات بطور مثال پیش کی گئی ہیں ، ان سب سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ظفر کمالی نے رباعیوں کو اچھے طریقے سے برتا ہے ، لیکن رباعیوں کا مزاج و منہاج اسلوب کی سطح پر بدلا ہے اس سے امید ہے کہ رباعی شاید کبھی اپنی عظمت رفتہ کو پاسکے ۔  صرف رباعی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غزل و نظم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ، اب تو پابند نظمیں بہت ہی کم کہی جارہی ہیں اور نثری نظموں میں جو بکھراؤ ہے وہ نظمیہ شاعری کی فطر ت کے خلاف ہے۔ الغرض جملہ اصناف شاعری میں ایک طرح کے تغزل و نظمیت کی کمی کا احساس بہت ہی شدت سے پایا جارہا ہے ۔ امید ہے کہ تخلیق کار اس جانب ضرور توجہ دیں گے ۔




Monday 5 February 2024

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘





 نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

   

شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد اگر وہ دہلی میں ہے اور اسے خبر مل جائے کہ اردو اکادمی ،دہلی کا مشہور و معروف خالص ادبی جشن ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے تور یسرچ اسکالرس ، فکشن نگار اور شعرا کے چہروں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ اس مرتبہ بھی دیکھنے کو ملا ، دوست احباب کے فون آنے شروع ہوگئے کہ ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے دیکھتے ہیں اس مرتبہ اردو ادب کا سفرکیسا رہتا ہے ۔ ساتھ ہی پروگرام کا مقام اردو اکادمی دہلی سے دور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونا بھی سبھی کے لئے باعث مسرت تھا ساتھ ہی اکادمی کے کارکنا ن کے لیے ایک امتحان سے کم نہ تھا ،لیکن سبھی کمر بستہ تھے ۔ 

جوان اور بزر گ قلمکاروں کے اس ادبی اجتماع کا اشتہاراخبار میں شائع ہوتا ہے ساتھ ہی نظام الاوقات بھی سوشل میں پوسٹ ہونا شروع ہوجاتا ہے، جنہیں پرو گرام میں حصہ لینا تھا انہیں سوشل میڈیا میں ہی مبارکبادیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ جنہیں مقالہ پڑھنا تھا وہ تیاری میں لگ گئے ، افسانہ نگار نئے افسانے کی تخلیق میں جٹ گئے اور شعرا کے ذہن میں یہ چلنے لگا کہ وہ اپنی کون سی غزل پیش کریںگے ۔ 

  نئے پرانے چراغ کے افتتاح یعنی 18 دسمبر کا دن آپہنچا ۔ ان پانچ دنوں میں کل چودہ اجلاس منعقد ہونے ہیں ، جن میں تقریبا ً چار سو پچھتر شعرا و ادبا حصہ لے رہے ہیں۔ دوپہر بعد تین بجے جوان اور برز رگ قلمکاروں کے اجتماع کا افتتاحی اجلاس منعقد ہونا ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم کے دائیں جانب کی بلڈنگ میں تھا ، یعنی اگر آپ نو تعمیر صدی گیٹ سے داخل ہوتے ہیں تو انصاری آڈیٹور یم سے جیسے ہی آگے بڑھیں گے تو دائیں جانب ایک تین منزلہ سفید عمارت نظر آئے گی جو بڑے بڑے درختوں سے بھی ڈھکی ہوئی ہے وہ عمارت فخر الدین ٹی خوراکی والا کے نام سے بھی موسوم ہے اسی میں سینٹر فار انفارمیشن ٹکنا لوجی ہے جسے مخفف میں سی آئی ٹی کہا جاتا ہے ۔ ابھی تین بجنے میں کچھ وقت باقی تھا اردو اکادمی کے کارکنا ن تنظیم و ترتیب میں لگے ہوئے تھے ۔ عمارت کے باہر ہی میں بھی کھڑا تھا کہ ایک کار آکر عمارت کے سامنے رکتی ہے، تو دیکھتا ہوں کہ اس کار سے پروفیسر عبدالحق صاحب اتر رہے ہیں ۔ اتر تے ہی ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ اتنا اندر اور دور آپ لوگوں نے کیسے پروگرام رکھا ؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ اردو پروگراموں کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔ سر دی کی مناسب سے رنگین کرتا پاجامہ اور گرم کپڑے کے ساتھ گر م جوتے بھی زیب تن کیے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے عصا کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے سمینار روم کی جانب چلے جاتے ہیں اور مقررین و سامعین میں سے یہ پہلے فرد ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے ہی تشر یف لاتے ہیں۔ بشری ضرورتوںسے فارغ ہوکرسمینار ہال میں بیٹھتے ہیں کہ دیگر مہمانان کی آمد شروع ہوجاتی ہے اور پندرہ منٹ کے اندر اندر کثیر تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ دائیں بائیں سے آواز بھی آنے لگتی ہے کہ پروگرام کب شروع ہوگا ۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ بس پانچ میںمنٹ میں آپ سبھی کو چائے پیش کردوں پھر پروگرام شروع کرتے ہیں ۔ مہمان آچکے تھے ، سامعین سے ہال بھرچکا تھا کہ سبھی کو عمارت سے باہر شامیانہ میں بلا یا جاتا ہے جہاں سبھی کے لیے چائے کے ساتھ ناشتہ بھی پیش کیا جارہا تھا ۔ طلبہ اور اساتذہ ، بزرگ اور جواں قلمکار خوش گپیوں میں مصروف ہوکر چائے کا مزا لیتے ہیں اور پھر سمینار ہال کی جانب لوٹ جاتے ہیں ۔ اسٹیج پر تر تیب سے پانچ کرسیاں لگی ہوئی تھیں ٹیبل کے سامنے رنگ برنگ پھولوں کے پودے تین قطار میں منظم طریقے سے سجائے گئے تھے ۔ ساڑھے تین بج چکا تھا کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر خالد مبشر استاد شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سپرد کی جاتی ہے ۔ہال میں لوگ باتیں کرنا بند کرچکے تھے کہ ناظم کی صدا بلند ہوتی ہے کہ وہ رسمی کلمات کے بعد صدر اجلاس پروفیسر عبدالحق کو دعوت اسٹیج دیتے ہیں ۔ اس کے بعد مہمانان خصوصی ، پرو فیسر خالد محمود ، پروفیسر شہپر رسول اور مہمان اعزازی پروفیسر چندر دیو یادو سنگھ صدر شعبہ ہندی جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ناظم صاحب ایک مختصر سی گفتگو سامعین کو مخاطب کر تے ہوئے کرتے ہیں جس میں نئے پرانے چراغ کی اہمیت کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہیں اور ستائیس سالہ اس سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ناظم صاحب سب سے پہلے دعوت سخن دیتے ہیں پروفیسر چندر دیوسنگھ کو ۔ ان کی گفتگو اردو ہندی کی لسانی ماخذ سے شروع تو ہوتی ہے ساتھ ہی ان کے اسلوب گفتار میں اردو ہندی کی مشترکہ لفظیات سامعین کو ہمہ تن متوجہ ہونے کو مجبور کر دیا تھا جس میں وہ تحقیقی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھا جائے تو بھارت میں دو ہی اوریجنل شاعری ہے رامائن اور مہا بھارت ، بعد کے لوگوں نے انہی سے متاثر ہوکر لکھا ہے اور نئے چراغ ہمیشہ اسی میں بدلاؤ لاتے رہتے ہیں ۔پروفیسر چندر دیو سنگھ اپنی مختصر اور جامع گفتگو کر کے اسٹیج سے رخصت ہوتے ہیں کہ ناظم اجلاس مختصر تعارف کے بعد اردو اکادمی دہلی کے سابق چیئر مین پرو فیسر شہپر رسول کو دعوت سخن دیتے ہیں ۔ پروفیسر شہپر رسول اپنے مخصوص اور خوبصورت وضع قطع کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اصحاب اسٹیج کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی بات شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اردو اکادمی دہلی نے اکادمی کے نئے نئے عوامی اور ادبی پروگراموں سے اردو کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس میں اردو اکادمی کا ایک مخصوص پرو گرام جشن وراثتِ اردو کا خصوصی کردار رہا ہے ، پہلے وہ جشن لال قلعہ کے وسیع و عریض میدان میں منعقد ہوتا تھا بعد میں وہ کناٹ کے پلیس کے سنٹرل پارک میں منعقد ہوا۔نئے پرانے چراغ کس طرح شروع ہوا اس میں وہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر صادق کا ذکر کرتے ہوئے علی گڑھ کی ایک نشست کا بھی ذکر کرتے ہیں جہا ں سے اس پروگرام کا خاکہ تیار ہوا تھا ‘‘ ۔ موصوف کی اس بات سے ذہن ان رنگا رنگ پرواگرمس کی جانب منتقل ہوگیا کہ کس طرح کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک کو سجایا جاتا تھا ، داخلہ گیٹ کیا خوبصورت ہوتا اور استقبالیہ تو قابل سماعت ودید دونوں ہوتا تھا ، خیر پروفیسر شہپر رسول کی بات مبنی بر حقیقت تھی ۔ اس افتتاحی اجلاس میں اسٹیج پر اردو اکادمی دہلی کے ایک اور سابق وائس چیئر مین پر فیسر خالد محمود بھی رونق افروز تھے ، موصوف اپنے مخصوص وضع قطع سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں کوٹ پینٹ ٹائی کے ساتھ تازہ تازہ کلین شیو بھی تھ۔ اتفاق سے وہ ناظم اجلاس کے استاد اور پی ایچ ڈی کے نگراں بھی رہے ہیں تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ناظم نے انہیں اسٹیج پر بلانے کے لیے کس واجبی یالازمی تکلفات کا اظہار کیا ہوگا ۔ خیر پر وفیسر خالد محمود اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور بہت ہی ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے ہیں ۔عوامی مقامات اور خصوصاً طلبہ کے مابین ان کی گفتگو کا جوانداز ہوتا ہے وہ ان کی وہاں کی گفتگو میں بھی بخوبی جھلک رہا تھا۔ نئے پرانے چراغ اور اردو اکادمی دہلی کی کارکردگیوں سے گفتگو شروع ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’  اکادمی کے اس پروگرام میں ہر سال آپ کو نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں اور اردو کا یہ ایک ایسا خالص ادبی پرو گرام ہے جو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اس کی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ، ہماری یہی خواہش ہے کہ ہر سال اکادمی یہ پروگرام جامعہ میں ہی منعقد کرے کیونکہ جامعہ اردو کا گہوارہ ہے ۔ خالد محمود صاحب کی زبان سے جیسے ہی گہوارہ کا جملہ مکمل ہوا سامعین کی جانب سے ان کی بات کی تصدیق کی تالیاں بجنے لگیں ۔ لیکن کچھ سامعین کے اذہان ماضی میں کھوگئے کہ جامعہ کا قیام سے لے کر اب تک اردو کا سفر کیسا رہا ہے اورموجودہ وقت میں جامعہ اردو کے ان اداروں کو کسی طرح سینچ رہی ہے جسے اکابرین وراثت میں چھوڑ کر گئے تھے اور ابھی اردو کے گہوارے میں اردو کی صورتحال کیا ہے ۔ مہانان کی گفتگو کے بعد باری آتی ہے صدارتی کلمات کی ، اتفاق سے سارے مہمانا ن کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تھا جب کہ صدر محتر م پروفیسر عبدالحق صاحب کا تعلق دہلی یونی ورسٹی سے ہے ۔ انہیں بھی بصد احترا م ناظم صاحب اسٹیج پر بلاتے ہیں، صدر اجلاس اپنی عصا کے بغیر ہلکے ہلکے قدموں سے اسٹیج پر پہنچتے ہیں اور اردو اکادمی دہلی کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ اکادمی نے وہ خدمات انجام دی ہیں جو دیگر بڑی اکادمیاں اور کونسلس نہیں دے سکیں، افراد ساز اور ادیب گر میں ارد و اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے ، کیونکہ یہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے ادب کے گنگا جمنی تہذیب کے کارواں کو لے کر چل رہی ہے ، مشاعروں اور ادبی محفلوں کے معاملے میں مقدم ہے ہی ساتھ ہی طباعت میں لگاتار انہوں نے وہ کتابیں شائع کی ہیں جو دیگر اکادمیوں کے حصے میں نہیں آئی ہیں ۔ اتفاق سے صدر محتر کی اس گفتگو سے ہی اگلے دن کے لیے اخبار کی سرخی نکل آتی ہے کہ ’’ افراد ساز اور ادیب گر میں اردو اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے‘‘ یہ سرخی اکادمی کی ہمہ جہت کارکر دگی کو سمیٹے ہوئی تھی ۔ صدر محتر می کی تقریر کے بعد اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے ، پھر سبھی انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم کی جانب قدم بڑھا تے ہیں جو سی آئی ٹی سے کوئی دو سو قدم کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ 

جب اس آڈیٹوریم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں سمینار ہال کی مناسبت سے افراد کی تعداد دوگنی ہے شعرا اور سامعین اپنی نشستوں میں تشریف فرما ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے ناظم مشاعر پروفیسر رحمن مصور نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں اور صدر مشاعر ڈاکٹر جی آر کنول کو اسٹیج پر دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی چند بزرگ شعرا کو بھی دعوت اسٹیج دیتے ہیں اور انھیں کے ہاتھوں شمع روشن کی رسم بھی ادا ہوتی ہے۔ آڈیٹوریم بھرا ہوا تقریباً اسی شاعروں کو پڑھنا ہے اور اس محفل و شعر و سخن کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ چارگھنٹے کا ہے ، شاعروں کی فطرت ہے کہ وہ ایک غزل میں کہاں رکنے والے تو سبھی کے لیے ایک اصول طے ہوتا ہے کہ   اگر کوئی شاعر تحت اللفظ پڑھتا ہے تو وہ صرف پانچ شعر پیش کریںگے اور اگر ترنم میں پڑھ رہے ہیں تو صرف دو ہی شعر پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر وقت کی بات کی جائے تو ایک شاعر کو زیاد ہ سے زیادہ ڈھائی منٹ کا وقت دیا گیا تھا ۔ یہ جوان اور بزر گ ، مشہور و غیر مشہور ، استاد و غیر استاد سبھی کے لیے تھا ۔اس قاعدے کے ساتھ مشاعرہ شروع ہوتا ہے اور وقت پر ہی ختم بھی ہوجاتا ہے ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں سے فصیح اکمل ، درد دہلوی، خمار دہلوی، رضا امروہوی، معین شاداب ،نزاکت امروہوی، سرفراز احمد سرفراز دہلوی ودیگر ہوتے ہیں 

 ایک دن کا سفر مکمل ہوا جس میں افتتاحی اجلاس اور محفل و شعر و سخن کا انقعاد ہوا لیکن دوسرے دن سے اجلاس کی نوعیت بدلی ۔ تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی اجلاس منعقد ہوئے اوریہ لگاتار چار روز اس ترتیب سے چلتے کہ صبح کا اجلاس تحقیقی و تنقیدی ہوتا جس میں ہر دن تقریبا دس ریسرچ اسکالر س اپنا مقالہ پیش کرتے ۔ اس میں تینوں یونی ورسٹیوں ( جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونی ورسٹی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی) کے ایک ایک استاد صدر اجلا س تھے ۔ تخلیقی اجلاس میں تخلیق کار اور اساتذہ بھی صدر اجلاس ہوئے محفل شعر و سخن میں صدارت کی ذمہ داری بزر گ شعرا کے کندھوں پر ہی رہی ۔ 

 دن کا پہلا اجلاس ریسرچ اسکالروں کے لیے تھا جس میں تینوں یونیورسٹیوں سے چالیس ریسر چ اسکالروں نے مقالا ت پیش کیے اور بارہ اساتذہ نے صدارت کی ذمہ داری ادا کی۔ ریسرچ اسکالروں کے لیے اردو اکادمی دہلی ہمیشہ چار موضوعات دیتی ہے جس پر وہ مقالہ لکھ کر لائیں ۔ اس مرتبہ کے چاروں موضوعات کچھ اس طرح تھے ۔ میر تقی میر: شخصیت اور شاعری / جدید اردو شاعری اور اہم شعرا / قدیم اردو نثر / اردو کی ادبی تحریکات و رجحانا ت ۔ 

پہلے دن کا تنقیدی و تحقیقی اجلاس تقریبا ساڑھے دس بجے شروع ہوا ، مسند صدارت پر پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پرو فیسر معین الدین جینا بڑے اور پروفیسر کوثر مظہر ی تشریف فر ما تھے اور نظامت کی ذمہ داری مجھ ناچیز (امیر حمزہ ) کے ذمہ تھی ۔ اس اجلاس میں سیف الرحمن نے ’’کربل کتھا کی نثر‘‘، حفیظ الرحمن نے’’قدیم اردو نثر میں تراجم قرآن کے اسالیب‘‘، محمد تسنیم عابد نے ’ ’ میر کی شاعری میں خمریات ‘‘ ، محترمہ میسرہ اختر نے ’’ احمد فراز کی غزلیہ شاعری ایک تعارف ،ندیم علی نے ،، مخمور سعیدی شخصیت اور شاعر ی‘‘، محفوظ خاں نے ’’ ترقی پسند تحریک اور اردو غزل ‘‘ ، اسداللہ نے ’’ میر تقی میر کی غزلیہ شاعری میں تصور عشق ،محترمہ عظمی نے ’ ’ زبیر رضوی کی نظم نگاری‘ ‘ اور کلیم احمد نے ’’یعقوب یاور کی نظم نگاری‘‘ کے عناوین سے مقالات پیش کیے۔پر و گرام بہت ہی عمدہ ہوا مقالات کے بعد میں نے بطور ناظم صرف ایک جملے میں یہ بات کہی کہ ’نئے چراغو ں کی روشنی اس قدر روشن ہے کہ میں مزید اس پر کچھ نہیں کہ سکتا ، صدور محترم ہی اظہار خیال فرمائیں گے ۔ پھر اس کے بعد روایتی انداز میں سبھی نے مقالا ت پر عمدہ گفتگو کی ۔ یہاں صرف ان کے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں ۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے فرمایا کہ اردو کے ارتقائی دور میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ فارسی کا عکس نظر آتا ہے ۔ غزل آدمی بالقصد نہیں کہہ سکتا او نہ ہی یہ ہر وقت کہی جاسکتی ہے بمقابلہ دیگراصناف سخن کے کہ وہ بالقصد کہی جاسکتی ہیں ۔ تراجم پر انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کی اردو خدمات کو اردو والوں نے بہت ہی کم سراہا ہے ۔ پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے فریاکہ اس پروگرام میں ہم نئے ذہنوں سے واقف ہوتے ہیں اور نیا ذہن ہمیشہ پرانے ذہن سے آگے کا سوچتا ہے اور اس میں یہ اہم ہوتا ہے کہ نیا ذہن پرانے ذہن سے کیا لے رہا ہے اور کیا رد کررہا ہے ۔پروفیسر کوثر مظہری نے فرما یا کہ کچھ بھی نیا لکھنے میں اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سا زاویہ ہے جس پر گفتگو نہیں ہوئی ہے اس لیے کسی بھی شخصیت کے ایک گوشہ پر مکمل و مدلل گفتگو کرنی چاہیے ۔اجلاس ختم ہونے کے بعد سبھی عمارت کے بازو میں لگے ٹینٹ میں چلے گئے جہاں سبھی کے لیے ظہرانے کا معقول انتظام تھا، کھانے میں لذیذ قورمہ بر یانی ، نان اور زردہ تھا کھانے کے بعد چائے کا بھی انتظام تھا ۔ سبھی کھانے میں مصروف تھے ساتھ ہی پیش کیے گئے مقالات پر بھی گفتگو کررہے تھے ۔ پھر تین بجے تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جس میں بطور صدر ڈاکٹر عبدالنصیب خاں ، جناب خورشید اکر م اور سہیل انجم تھے ۔ اس اجلاس میں محمد نظام الدین نے ’’ناک ‘ اور ’سودا ‘‘ ، غزالہ فاطمہ ، ’ اس ہار کو کیا نام دوں ‘ ، ذاکر فیضی’ ادھورا نروان ‘ ، نشاں زید ی’ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ‘، نشاط حسن ’ قدرت کا فیصلہ ‘ او ر امتیاز علیمی نے ’موت کا جشن ‘ کے عنوان سے اپنے افسانے پیش کیے ۔ پھر تینوں صدور نے اپنے کلمات سے سامعین کے علم میں اضافہ کیا۔ خورشید اکرم نے کہا کہ کہانی لمبے عرصے پر محیط نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ منٹوں اور گھنٹو ں پر محیط ہوتی ہے ۔ مزید انہوںنے کہا کہ کہانیوں میں زبان صرف بار برداری کا رول ادا کرتا ہے ، اس میں ش ق کی اردو کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے جبکہ دوسرے صدراجلاس سہیل انجم نے کہا کہ افسانوں میں تنوع اور خوبصورت زبان حیر ت میں ڈال رہی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سب سے زیادہ زبان ہی خراب ہوئی ہے ۔تیسرے صدر محترم عبدالنصیب خاں نے کہا کہ افسانہ اب کوئی خاص صنف نہ ہوکر بہت سی اصناف کی عکاسی والا صنف ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ صدارتی کلمات کے بعد اجلاس تو ختم ہوگیا لیکن سامعین کے ذہنوں میں کہانی کے حوالے سے مذکورہ باتیں گردش کرنے لگیں کہ کس روش پر چل کر کن کے معیار کے مطابق کھرا اترا جائے ۔اس کے بعد سبھی محفل ِ شعرو سخن کی جانب رخ کرتے ہیں ، وہاں بھی پروگرام سے پہلے چائے کا انتظام تھا ۔ شعرا حضرات تشریف لارہے تھے اور دستخط سے اپنی حاضری دے کر آڈیٹوریم میں اپنی نشست سنبھال لیتے ، شعرا میں کئی کوٹ پینٹ کے ساتھ رامپوری ٹوپی پہنے ہوئے ہیں تو کئی کر تا پاجامہ کے ساتھ صدری میں ملبوس ہیں الغرض ایسا لگ رہا تھا سبھی باضابطہ تیار ہوکر آئے ہیں ۔ نظامت کے لیے مائک مرزا عارف سنبھالتے ہیں اور صدر محتر م بزرگ و استاد شاعر جنا ب وقار مانوی کو مسند صدارت کے لیے بلاتے ہیں۔صدر مشاعر ہ سمیت ظفر مراد آبادی ، طالب رامپوری اور فاروق ارگلی و دیگر کے ہاتھوں شمع روشن ہوتی ہے اور پھر حسب اصول مشاعر ہ شروع ہوجاتا ہے ۔ شعرا اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اشعار سناکر داد وصول کرکے اپنی نشست پر واپس ہوجاتے ہیں ۔آڈیٹوریم مستقل داد کی تالیوں سے گونجتا رہا ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں منیر ہمدم ، سہیل احمد فاروقی ، واحد نظیر ، ارشد ندیم ، صہیب احمد فاروقی ، عادل حیات ، ریشمہ زیدی، سلیم امروہوی ، راجیو ریاض پرتا پگڑھی ، حامد علی اختر و دیگر نے اپنا کلام سنایا ۔ 

دہلی کے بزر گ اور جواں عمر قلمکاروں کا اجتماع اب تیسر ے دن داخل ہوچکا ہے ۔ جس میں پہلے اجلاس کی صدارت پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، پرو فیسر شہزاد انجم او ر پروفیسر نجمہ رحمانی فرما رہی ہیں اور نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہنواز فیاض سنبھال رہے ہیں ۔ اس ا جلاس میں ساجدہ خاتون نے ’’ ترقی پسند ناولوں کے منفی کردار : ایک جائزہ ‘‘ ، محمد شاہ رخ عبیر نے ’’ جدید غزل اختصاصات ، تشخصات اور تضادات ‘‘ ، فیضان اشرف نے’’ اردو میں جدید یت اور مابعد جدیدیت : ایک مطالعہ ‘‘، شاداب نے ’’ انشاء اللہ خاں انشاکی انفردایت اور رانی کیتکی کی کہانی ‘‘ ، سعدیہ پروین نے ’’ اردو تنقید میں تانیثی رجحان ‘‘ ، ہماکوثر نے ’’جدید غزل کا منفرد شاعر : بانی ‘‘، صدف فاطمہ نے ’’ ترقی پسند شعری رجحان ‘‘ ، طریق العابدین نے’’ وحید اختر اپنی غزلوں کے آئینے میں ‘‘ اور محمد آصف اقبال نے ’’ مجید امجد کی شاعری میں وقت کا تصور‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے ۔ صدور محترم نے سبھی مقالات پرفرداً فردا اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔  تاہم کچھ کلمات سبھی کے لیے عمومی تھیں جیسے پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدن نے فرمایا کہ جو بھی مقالہ نگار نئی بات یا نیا تجزیہ پیش کررہا ہے تو انہیں چاہیے کہ اسی پر مدلل اور وضاحت کے بات کریں کیونکہ یہ اجتماعیت آپ کی تحریروں کو نمایاں کرے گا ۔ پرو فیسر شہزاد انجم نے فرمایا کہ اب ہم اس مرحلہ میں آچکے ہیں کہ تمامتر رجحانات و تحریکات کو رد کرتے ہوئے اپنی فکر پیش کریں۔پرو فیسر نجمہ رحمانی نے مقالات پر فرمایا کہ، ان مقالات کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ جن گوشو ں اور شخصیات پر عموماً بات نہیں ہوتی ہے انہیں پر گفتگو کی گئی ہے ۔ مزید معافی کے ساتھ انھوں نہ کہا کہ ہمارے اسلاف نے مغربی تھیوریز کو ہم پر تھوپا ہے جبکہ ہمارا مشرقی ادب مغربی ادب سے بالکل الگ ہے ۔ اجلاس ختم ہوتا ہے سبھی ظہرانے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ 

ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جو اس اجتماع کا ساتواں پروگرام تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت محترم اسد رضا ، ڈاکٹرنعیمہ جعفری پاشااور ڈاکٹر شمیم احمد نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر عینین علی حق نے ادا کی۔ اس اجلاس میں غزالہ قمر اعجاز نے’’ ٹشو پیپر‘‘رخشندہ روحی نے ’’ چاند کے پاس جو ستارہ ہے‘‘ تسنیم کوثر نے ’’ نوشتہ دیوار ‘‘ ، طاہرہ منظور نے ’’ بارش‘‘ چشمہ فاروقی نے ’’گونگی باجی ‘‘، نورین علی حق نے ’’مخدوش لاش کا بیانیہ ‘‘ نوازش چودھری  نے’’ناسٹالجک پولّن‘‘ ، محمد توصیف خاں نے انشائیہ ’’قبلہ مرزا کلاؤڈی ہاؤڈی‘‘، ثمر جہاں نے ’’دیا کبیرا روئے ‘‘، شفافاروقی نے ’’ ہمسفر‘‘،نثار احمد ’’ماڈرن بزرگ ‘‘ اور نازیہ دانش نے ’’خوابیدہ‘‘ کے عناوین سے اپنی تخلیقات پیش کیں ۔ جن پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا کہ علامتی افسانے پڑھنے کے لیے زیادہ اور سننے سنانے کے لیے کم ہوتے ہیں ۔اسد رضا صاحب نے کہا کہ انشائیہ اور طنز و مزاح میں صرف شگفتہ بیانی سے کام نہیں چلتا بلکہ اس میں پیغام بھی پوشیدہ ہونا چاہے ۔ڈاکٹرشمیم احمد نے کہا کہ انشائیہ فنی اعتبار سے اچھا تھا اور اہم بات یہ تھی کہ آج کی ٹوٹتی زبان میں عمدہ زبان بیان سننے کو ملا۔ اجلاس ختم ہوتا ہے کچھ لوگ بکھر کر کر اپنے مقاصد کو نکل جاتے ہیں اور کچھ افراد مشاعرہ میں تشریف لے جاتے ہیں جہاں آج پروفیسر خالد محمود کی صدارت اور جناب فرید احمد قریشی کی نظامت میں مشاعرہ ہورہاہے ۔ پروفیسر خالد محمود صاحب شیروانی اور ٹوپی کے ساتھ آڈیٹوریم میں موجود ہیں ، حسب روایت شمع روشن ہونے کے بعد مشاعر ہ شروع ہوتا ہے جس میں تقریبا ً ستر شعرا اپنا کلام پیش کر تے ہیں اور سامعین کے ساتھ ساتھ شعرا سے بھی داد وصول کرتے ہیں ۔ آخر میں صد ر مشاعرہ نے شاعروں کے حوالے فنی باتیں کرکے اپنے اشعار بھی سنائے ۔ اس محفل میں راشد جمال فاروقی ،تابش مہدی،سیماب سلطانپوری 

، رؤف رامش ، احمد علوی ، خالد مبشر و دیگر نے اپنے کلام سنائے ۔

اب تک نئے پرانے چراغ کے تین دن گز ر گئے تھے ، ارد اکادمی ،دہلی کے اراکین سے لے کر حاضرین تک کو بہت کچھ احساس ہوچکا تھا ۔ جوش و جذبہ، اساتذہ اور طلبہ کی ملی جلی دلچسپی سامنے آچکی تھی ۔ اردو اکادمی کے اراکین و عملہ جو ہمہ وقت پر وگرام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھے وہ بھی جامعہ کے ماحول سے آشنا ہو چکے تھے یعنی آخر کے دو دن سبھی کے لیے حالات معمول پر تھے ، تو چوتھے دن کا پہلا اور پور ے اجتماع کا نواں اجلاس تحقیقی و تنقید ی  کے عنوان سے صبح شرو ع ہوتا ہے ۔ جس کی صدرا ت پر وفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی ، پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر خالد اشرف نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے ۔ اس اجلاس میں تو حید حقانی نے ’’ تر قی پسند تحریک او ر اردو تنقید‘‘  محمد عبدالقادر نے ’’ اردو کی قدیم نثر گلشن ہند کے آئینے میں‘‘ آصفہ زینب نے ’’ میر کی شاعری  اپنے عہد کی ترجمان‘‘ محمد نے ’’ اشتراکی نظریات کا علمبردار قمر رئیس ‘‘ صدف نایا ب نے ’’ میر کی سوانح اور ان کی شاعری کی چند بنیادی خصوصیات ‘‘ امام الدین نے ’’ میر تقی میر کی قنوطیت اور غربت کا قضیہ ‘‘ عبدالرزاق نے ’’ باغ و بہار بحیثیت نثر ‘‘ اور تبسم ہاشمی نے ’’ میر تقی میر شخصیت اور شاعر ی ‘‘ کے عنوانات سے اپنے مقالے پیش کیے ۔مقالات کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ پر وفیسر قاضی عبیدالرحمان ہاشمی نے کسی عذر کی بنا پر اپنے صدارتی کلمات کے لیے درخواست دی تو ناظم اجلاس نے انہیں اظہار خیال کے لیے مدعو کیا ، قاضی صاحب نے سنے ہوئے مقالات پر رسمی گفتگو کی اور اجلاس سے رخصت ہوگئے اس کے بعد دو مقالات اور پڑھے گئے پھر صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر خالد اشرف کو دعوت دی گئی۔انہوں نے زبان کے حوالے سے ایک بنیادی بات کہی کہ زبان اکادمیوں اور اداروں سے نہیں چلتی ہے بلکہ گلیوں اور بازاروں سے چلتی ہے ۔یونی ورسٹیوں میں زبان نہیں بلکہ ادب پڑھایا جاتا ہے ، زبان تو اسکولوں میں ہی پڑھا دی جاتی ہے اور اسکولوں میں اردو کا جو معاملہ ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں ۔میر کی غربت پر ایک مقالہ تھا اس پر انہوں نے فرمایا کہ میرو غالب غربت کے شکار نہیں تھے بلکہ وہ نوابوں کی طرح زندگی گزرانے کے خواہشمند تھے ۔ان کے بعد صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر انور پاشا تشریف لاتے ہیں ۔ اس دن وہ سفید کرتا ، چوڑی دار پاجامہ اور ہلکے رنگ کی صدری زیب تن کیے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی اہم نکات کی جانب سامعین کی توجہ کو مبذول کرا یا ساتھ ہی قنوطیت کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میر و غالب کے یہاں جو درد و غم ہے وہ اُس وقت کا آشوب زائیدہ ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ترقی پسندتحریک اورعلی گڑھ تحر یک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ابھی زندہ ہیں اور ادب میں اپنی شمولیت درج کرارہے ہیں ۔صدارتی تقریر کے بعد ناظم صاحب اجلاس کے اختتا م کا اعلان کر تے ہیں۔ سبھی حاضرین وسامعین باہر آجاتے ہیں ۔ ابھی ظہرا نے کو پیش کرنے میں دس منٹ کا وقت تھا کہ سر دموسم میں سبھی دھوپ میں اِدھر اُدھر کھڑے ہوگئے لمحہ ہی گزرا تھا کہ کھانے کی جانب سبھی نے رخ کیا ۔ 

 ظہرا نے کے بعد تخلیقی اجلاس کے شروع ہونے میں کافی وقت بچا تھا تو چند لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور کچھ افراد سمینار ہال کی جانب رخ کیے ۔ وقت پر تخلیق اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت پروفیسر غیاث الرحمان سید ، پروفیسر ندیم احمد اور پروفیسر شاہینہ تبسم نے کی ،جبکہ ناظم اجلاس ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی تھے ۔اس اجلاس میں شمع افروز زیدی نے خاکہ ’’ انور نزہت ‘‘ ، ترنم جہاں شبنم نے ’’ تاج محل کی نیلامی ‘‘، انوارالحق نے ’’ مسٹر حضرت‘‘ محمد مستمر نے انشائیہ ’’ چٹنی ‘‘، شاہد اقبال نے ’’ چیخ ‘‘ ،نازیہ دانش نے ’’ شخص ‘‘، مصطفی علی نے انشائیہ ’’ جھپکی میں جنت ‘‘، زیبا خان نے ’’ باڑھ کھاگئی کھیت ‘‘، عبدالحسیب نے انشائیہ ’’ صحرا میں پانی کی تلاش ‘‘، ڈاکٹر شعیب رضا خاںوارثی نے انشائیہ ’’کل آج اور کل ‘‘، تفسیر حسین خاں نے ’’ بھینس کی لاج ‘‘، ثاقب فریدی نے ’’ میں جاگ رہا ہوں ‘‘ پیش کیا ۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مشہور فکشن نگار پروفیسر جی آر سید نے افسانہ کے فن پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ افسانے میں کرداروں کی سہی عکاسی اور جزئیات نگاری اس انداز میں پیش کریں کہ سامعین اورقارئین کو یہ لگے کہ وہ افسانے کا قاری اور سامع نہیں بلکہ یہ محسوس کریں کہ وہ کہانی دیکھ رہے ہیں ۔ نیز افسانہ میں کیا نہیں کہنا چاہیے اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ مزید فرمایا کہ علاقائی زبان کہیں افسانے کوبہتر کرتا ہے تو کہیں بوجھل کردیتا ہے۔ پروفیسر ندیم احمد اور پرفیسر شاہینہ تبسم نے بھی تخلیقات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسانے ، انشائیے اور خاکے عمدہ سے عمدہ تر سننے کو ملے اس سے مستقبل میں اردو کی ضمانت کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ اجلاس دیر تک چلا شام ڈھل چکی تھی جامعہ کمپس روشنی سے نہارہا تھا ، سی آئی ٹی سے انجینئر نگ فیکلٹی جاتے ہوئے طلبہ کی اچھی خاصی تعداد یہاں وہاں بیٹھے ہوئے نظر آرہی تھی ، ہائی جینک کے آس پاس کا ایریا طلبہ و طالبات کی چہچہاہٹوں سے چہک رہا تھا ، گو کہ شام ڈھل چکی تھی لیکن کچھ علاقوں میں سناٹے کا گزر بھی نہیں تھا ۔ میںجب تک انجینئر نگ فکلٹی کے آڈیٹوریم میں پہنچا تو وہاں دیکھتا ہوں کے مشاعر ہ باقاعدہ شروع ہوچکا ہے ۔ مسند صدارت پر پروفیسر شہپر رسول جلوہ افروز ہیں ، ان کے ساتھ اسٹیج پر فاروق ارگلی ،متین امروہوی، اعجاز انصاری اور سلمی شاہین موجود ہیں اور نظامت کی ذمہ داری پیمبر نقوی سنبھال رہے ہیں ۔ مشاعر ہ کا آخر ی دن تھا حسب امید شعرا کی تعداد میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ۔ مشاعرہ دیر رات تک چلا ہر دن کی طرح اس دن بھی ایک کامیاب مشاعر ہ سننے کو ملا ۔ اس مشاعرہ میں ریاضت علی شائق ، شعیب رضا ، وسیم راشد ، شکیل جمالی ، امیر امروہوی و دیگر شعرا نے اپنے کلام پیش کیے ۔

 چاروں دن کے مشاعروں کے حوالے سے کوئی تفصیلی بات اب تک تحریر نہیں کہ لیکن دو باتیں جو مجھے محسوس ہوئی وہ عرض کردیتا ہوں او ل یہ کہ دہلی میں قیام پذیرتقر یبا ً چار سو شعرا کا نام نئے پرانے چراغ کے لیے شامل ہوا تھا ۔ جن میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی تھے ، اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو اکادمی دہلی کی راجدھانی دہلی میں گہر ی پکڑ ہے ، ہر علاقے اور ہر مذہب کے لوگ اس اکادمی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اکادمی کا ایک اور اصول ہے کہ مشاعر ہ گاہ میں ایک فارم گھومتا رہتا ہے جس میں شعرا اپنا ایک شعراپنے نام اور موبائل نمبر کے ساتھ درج کرتے ہیں ۔ اردو رسم الخط کے حوالے سے اس وقت مجھے بہت ہی زیادہ حیرانی ہوئی کہ روزانہ کی فائل میں مجھے مشکل سے اوسطاً آٹھ ہی ایسے افراد نظر آئے جنہوں نے اپنا شعر دیونا گری میں لکھا تھا، رومن میں کسی نے بھی نہیں لکھا تھا۔ اس میں بھی مزید حیرانی اس پر ہوئی کہ ان میں سے غیر مسلم تو نہ کے برابر ہیں بلکہ چند غیر مسلمین کی تحریر پر تو میں عش عش کر گیا جن میں سے میں چند کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں ، جگدیش داؤتانی ،کیلاش سمیر دہلوی، امبر جوشی ، پنڈٹ پریم بریلوی ، سپنا احساس ، حشمت بھاردواج ، راجیو ریاض پرتاپگڑھی اور سب سے اچھی تحریر کنوررنجیت چوہان کی تھی ۔ نئے شعرا کے کلام میں موضوعات کے ساتھ ساتھ زبان کی جمالیات بھی دیکھنے کو ملا ۔ کچھ ایسے شعرابھی تھے جنہوں نے سبھی کو حیرت میں بھی ڈالا ۔ 

جمعہ کا دن نئے پرانے چراغ کا آخری دن تھا ۔ اجلاس حسب سابق ساڑھے دس بجے شروع ہوگیا البتہ ختم کرنے کا وقت متعین تھا کہ جمعہ کی نماز کی وجہ سے ساڑھے بارہ بجے ختم کردینا ہے ۔ اس اجلاس کی صدارت پرو فیسر احمد محفوظ ، پروفیسر ابوبکر عباد اور پر فیسر مظہراحمد کر رہے تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاداب شمیم ادا کررہے تھے ۔ جس میں محمد سید رضا نے ’’ ن م راشد ایک روایت ساز نظم نگار ‘‘ ، محمد ناظم نے ’’ نشور واحدی کی غزل گوئی ‘‘، زرفشاں شیریں نے ’’ بلقیس ظفیر الحسن کا شعری مجموعہ گیلا دامن کی نظمیں : مسائل اور موضوعات ‘‘، عنب شمیم نے ’’ جدید اردو نظم کے امتیازی نقوش : ایک جائزہ ‘‘، محمد فرید نے ’’ بہار میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی ایک جھلک ‘‘ ،محمد فیصل خاں نے ’’ کیفی اعظمی کی فکری و فنی جہات (ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ‘‘، محمد رضا نے ’’کلام میر میں لفظ مناسبت اور استعاراتی نظام ‘‘ اور عزہ معین نے ’’ حلقہ ارباب ذوق میں خواتین کی ادبی خدمات ‘‘ کے عناوین سے اپنے مقالات پیش کیے ۔ صدارتی خطبے میں وقت محدود ہونے کی وجہ سے جلد بازی ہوتی رہی پھر بھی صدور محتر م نے اپنے خیالات کا جو بھی اظہار کیا ان میں سے کچھ کلمات پیش کیے جاتے ہیں ۔

پروفیسر احمد محفوظ نے فرمایا کہ ایک ہی موضوع پر کئی شعرا کے مختلف شعر آپ کو پڑھنے کو ملیںگے تو کیا موضوعات شاعر یا شعر کو بڑا بناتا ہے نہیں بلکہ بڑی شاعری موضوع سے نہیں بلکہ فن اور اسلوب سے طے ہوتی ہے ۔ پروفیسر مظہر احمد نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سمینار کے لیے اکثر ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں وقت پر بات مکمل ہو جائے ۔ پرفیسر ابو بکر عباد نے مقالات کی خامیوں اور خوبیوں سے طلبہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اچھی زبان کے ساتھ خوبصورت تلفظ بھی سننے کو ملا ۔ اجلاس ساڑھے بارہ بجے ختم ہوگیا تھا جنہیں جمعہ کی نما ز کے لیے جانا تھا وہ فوراً نکل پڑے ۔ واپسی کے بعد ظہرانے کا انتظام تھا ۔ ظہرانے کے مینیو میں ایک ڈش میں تبدیلی بھی تھی اس دن میٹھے میں زردہ کے بجائے حلوہ تھا پھر چائے بھی تھی ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تخلیقی اجلاس کے لیے سمینار ہال اپنے سامعین کے انتظار میں تھا ، صدارت کے لیے ڈاکٹر ریاض عمر جمعہ بعد ہی تشریف لائے تھے ، ڈاکٹر پرویز شہریار بھی موجود تھے ۔ یہ واحد اجلاس تھا جس میں پہلی مرتبہ کوئی صدر تشریف نہیںلائے اور وہ ڈاکٹر ابرار رحمانی تھے ۔ پرو گرام کو ناظم اجلا س ڈاکٹر حمیرہ حیات نے شروع کیا دونوں صدور کے ساتھ ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ بھی اسٹیج پر موجود تھیں ۔ اس تخلیقی اجلاس میں محمد خلیل نے خاکہ ’’ سالم علی ‘‘ پیش کیا ، یہ دوسرا خاکہ تھا جو پیش ہورہا تھا۔ نگار عظیم نے ’’ برے آدمی کی کہانی ‘‘ سفینہ نے ’’ او مائی گاڈ ‘‘ محمد عرفان خاں نے ’’ جال ‘‘ نثار احمد نے ’’روایت ‘‘ اور ناظمہ جبیں نے ’’ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ پیش کیا ۔ صدارت کی ذمہ دار ی اگر چہ پرویز شہر یار پر بھی تھی لیکن انہوں نے چند رسمی کلمات کے بعد اپنا افسانہ ’’ لال چند ‘‘ بھی پیش کیا ۔ تو گویا ایک ہی صدر بچ گئے اور وہ تھے ڈاکٹر ریاض عمر ۔ انہوں نے افسانہ کے موضوعات کی جانب تو جہ دلائی کہ اس ہال میں موجود ہر چیز پر افسانہ لکھا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی اجلاس کے ساتھ ساتھ نئے پرانے چراغ کا اجتماع یہیں پر ختم ہوتا ہے البتہ ابھی ایک محفل باقی ہے اور وہ ہے قوالی کی محفل ۔جس کو پیش کر نے کے لیے سنبھل سے قوال سرفراز چشتی کے پوری ٹیم آئی ہوئی تھی ، یہ پروگرام بھی مشاعرہ کی طرح انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم میں ہورہا تھا ۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ خلاف توقع پورا آڈیٹوریم کھچا کچھا بھرا ہوا ہے ۔ سامنے کی سیٹییں ہی بڑی مشکل سے ریزرو رکھی جاسکیں تھیں ، پرو گرام شروع ہونے سے پہلے ہی طلبہ سیڑھیوں میں کھڑے ہوچکے تھے ۔ جگہ کی اتنی تنگی تھی کہ اراکین اکادمی بھی اپنے گھروالوں کے لیے کوئی جگہ انتظام نہیں کرسکے ۔ 

قوالی اپنے وقت پر شروع ہوئی ایک یا دو کلام کے بعد دہلی سرکار کے وزیر برائے فن ،ثقافت و السنہ جناب سوربھ بھاردواج ، براڑی کے ایم ایل اور میتھلی اکیڈمی کے وائس چیر مین سنجیو جھا کی تشریف آوری ہوئی اور ہال استقبالیہ تالیوں سے گونج اٹھا ، ان دونوں ممبران اسمبلی کو اردو اکادمی کے سکریٹر ی محمد احسن عابد نے گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا جبکہ قوال کا استقبال وزیر محترم اور ممبر اسمبلی نے کیا ۔ وزیر سوربھ بھاردواج نے چند کلمات کا اظہار کرتے ہوئے اردو اکادمی کے تحت منعقد ہونے والے مختلف ثقافتی پروگرامس کا ذکر کیا ۔ 

 نئے پرانے چراغ کے پنج روزہ پرواگرا م کو کامیاب بنانے کے لیے اکادمی کے عملہ نے جس طرح محنت کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ہر ایک کانام لینا بہت مشکل ہے ، جن کے ذمہ فائلوں کا سنبھالنا تھا وہ اسے انجام دے رہیں تھیں ، کتابوں کا انہوںنے اسٹال بھی لگا یا ہوا تھا جس میں امید سے زیادہ کتابیں بھی فروخت ہوئیں ، شعبہ اکل و شرب میں کسی قسم کی شکایت کا کسی کو موقع نہیں دیا گیا ۔ الغرض جس کے ذمہ بھی جو کام تھا سبھی اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے تھے ۔


Dr Amir Hamza

M.8877550086



جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"

جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں ...