Friday, 4 October 2024

مولانا عبید اللہ سندھی کا جہانِ تفسیر

 مولانا عبید اللہ سندھی کا جہانِ تفسیر 

امیر حمزہ 

1857 کی بغاوت کے بعد آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین اٹھارہ سو ستاون نے آزادی کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے ایک تحریکی تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں لاتے ہیں ۔ جس کے خمیر میں علوم عقلی و نقلی ، تصوف و سلو ک ، اصلاح معاشرہ و رد بدعات کے ساتھ ساتھ ہند کی آزادی کا خون دوڑ رہا تھا تو کیسے ہوسکتا ہے کہ یہاں کا کوئی بھی طالب علم ان مقاصد سے دور رہ سکتا ہو۔ بز م ولی اللہی کا چراغ ا ور شاہ عبد الغنی کے شاگرد ملا محمود مدرسہ کے پہلے استاد ہوئے توشاگر د بھی بز م ولی اللہی کا تابندہ چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے اساسی مقصد کا محر ک اور امیر کارواں بن کر شیخ الہند کی شکل میں سامنے آیا ۔ دارالعلوم یہاںاپنے اساسی مقصد کی جانب کامیا بی کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا نظرآتا ہے ۔ اس آئیکو نک شاگرد نے جب تدریس کا عمل شروع کیا تودیگر کئی ہونہار شاگر دوں کے ساتھ دو ایسے شاگر د تیار کیے جو بز م ولی اللہ کے چراغ تھے ایک علامہ انور شاہ کشمیر ی جس میں مجدد الف ثانی کی روح اور دوسرے مولانا عبیداللہ سندھی جس میں شاہ اسماعیل شہید کا خون دوڑ رہا تھا۔( اسلاف میں شاہ عبدالعزیز نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھاکہ انہوں نے حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کے لیے مسلح کیا اور شاہ محمد اسحاق کو درس وتدریس کا مسند تفویض کیا ) جن کے اساتذہ شیخ الہندہوں اور شاگردوں میں، مولانا حسین احمد مہاجر مدنی ،مفتی کفایت اللہ ،عبیداللہ سندھی اور علامہ انور شاہ کشمیری ہوں وہ بھلا  شمع ولی اللہی سے کیسے بیزار رہ سکتے ہوں ۔ اس وقت علماء کی کھیپ تھی جو ہر مورچہ پر انگریز ی حکومت سے محاذآرا تھی ،اٹھارہ سو ستاون سے ۱۹۴۷ ء تک ہر محاذمیں علماء کا جتھا اپنی نمایاں کاکر دگی میںمشغول تھے۔ انہیں میں سے ایک مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔

مولانا عبید اللہ سندھی (1876ء) دار العلوم دیوبند کی مایہ ناز شخصیت ہیں، علمی میدان میں انہوں نے بیش بہا خدمات سر انجام دیں، ان خدمات میں ان کی تفسیر کی خدمات اور اسلوب تفاسیر ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ آپ نے با قاعدہ تفسیر مرتب نہیں کی بلکہ آپ نے اپنے تلامذہ کو مکہ مکرمہ میں (1926) اور وطن واپس آنے کے بعد (1939) میں تفسیری دروس دیئے جنہیں ان کے طلبہ نے کتابی شکل دی۔ جنہیں آپ کے تلامذہ نے بڑی جانفشانی سے مرتب کیا۔ مرتبین میں مولانا موسی جار اللہ ، مولانا عبد اللہ لغاری ، مولانا محمد مدنی اور بشیر احمد لدھیانوی شامل ہیں۔ 

مولا نا عبید اللہ سندھی بنیادی طور پر ایک معلم تھے ۔ اردو نہ ان کی مادری زبان تھی اور نہ انھوں نے اسکو بطور زبان سیکھا تھا۔ اس لئے وہ اپنے افکار کو بیان کرنے میں اس زبان کے صحیح استعمال پر قادر نہ تھے۔

مولانا سندھی تفسیر میں ایک خاص طرز کے مالک تھے ۔ جن کو انکے شاگردمولانا احمد علی تفسیر کی بجائے الاعتبار والتاویل ہی کے نام سے یاد کرنا پسند کرتے تھے۔ ہندوستان میں درس قرآن کا عمومی رواج مولانا عبید اللہ سندھی نے شروع کیا تھا اور اس سلسلہ کو ان کے دوشاگردوں مولانا احمد علی اور مولانا عبد الحئی فاروقی نے آگے بڑھایا۔

ذیل میں ان کی تفاسیر اور متعلقات تفاسیر کا اجمالی تعارف پیش ہے ۔

تعلیمات قرآنی اشاعت اول ۱۹۵۹ء

یہ ایک پر مغز مقالہ تھاجسے مولانا سندھی نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ راولپنڈی میں پیش کیا تھا۔ اس میں قرآن کے مطالعہ ہی کو موضوع سخن بنایا تھا یعنی قرآن کی تعلیم کا کیا اثر ہوتا ہے اور مختلف ادوار میں مسلمانوں نے قرآن کو کس طرح پڑھا اور سمجھا۔ اس کو غلط طریقہ سے پڑھنے اور سمجھنے سے کیا برے نتائج پیدا ہوتے ہیں اور صحیح طریقہ سےپڑھنے اور سمجھنے سے کتنے خوشگوار اور مفید نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔یہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئی او ر کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 

اول: قرآن کی تعلیم کا اثر ۔ دوم : قرآن کی تفاسیر کی مختصر تاریخ ۔ سوم: قصص القرآن۔ چہارم میں شیخ محمد عبدہ کی کتاب الاسلام والنصرانیت کو بنیاد بنا کر مسلمانوں پر طاری جمود اور اس کے اسباب کے متعلق بحث ہے۔ پنجم باب میں انہوں نے بتایا کہ قوموں کی ترقی میں سنگ بنیاد الوہی جذ بے ہوتے ہیں جس میں پہلا مذہب اور دوسرا حب وطن ہے ۔ مذہب کے مقابلہ میں حب وطن کا جذبہ مسلمانوں میں بہت کمزور ہے اس لیے مسلمان صرف مذہب ہی سے متاثر ہو کر حقیقی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔

النبي الامين والقرآن المبين افادات مولا نا عبید اللہ سندھی ۔ مرتب قمر الدین سہتو

قمر الدین سہتو نے اس کتاب کو پہلے سندھی زبان میں مرتب کیا تھا۔ اس میں مختلف عنوانات اور ذیلی عنوانات کے تحت قرآن کریم کی آیات سے سیرت پاک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں اور حواشی میں مولانا سندھی کی تفسیر سے آیات کے تغییری نوٹ دیے گئے ہیں ۔ یہ کتاب ۳ جلدوں پرمشتمل ہے۔

پہلی جلد: بعثت نبوی سے پہلے بشارتیں اور حالات زندگی

دوسری جلد:بعث سے ہجرت تک ( کی آیات سے مرتب کیا گیا )

تیسری جلد: ہجرت اور مدنی دور ( مدنی آیات سے مرتب کیا گیا )

جنگ انقلاب۔ سورۃ قتال کی حکیمانہ انقلابی تفسیر مولا نا عبید اللہ سندھی ۔ مرتبہ بشیر احمد لدھیانوی ۔ ناشر الحکمت لاہور

سورۂ محمد مدنی سورت ہے۔  جنگ بدر کے بعد ۲ ھ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کی تفسیر شاہ ولی اللہ کے افکار کو اساس بنا کر کی گئی ہے جس میں بین الاقوامی انقلاب کی ضرورت واضح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم کے مطابق جنگ ، اجتماعی جنگ ( ہمہ جہت جنگ) ہے جس سے کوئی بھی مستثنی نہیں حتی کہ ہاتھ پیر سے اپاہج بھی ۔ ساتویں صدی عیسوی میں قیصر روم اور کسری ایران کے ساتھ عربوں کی جو جنگیںہو ئیں مولانا سندھی کے خیال میں وہ اس نکتہ کی بہترین مثال ہیں ۔

قرآن حکیم کی تعلیم اجتماعی انقلاب کی تعلیم ہے۔ اس کا فائدہ انسانیت کے کسی خاص طبقہ کو نہیں پہنچتا ہے بلکہ اس کا فائدہ ساری انسانیت کو یکساں پہنچتا ہے۔ اس لئے اس کے اصول پر ہر سوسائٹی میں انقلاب آنا ضروری ہے۔ حکمت ولی اللہی کے مطابق اس طرح قائم ہونے والی حکومت اجتماعی اور غیر استعماری ہوگی۔

قرآنی اصول انقلاب - تفسیر سورۃ والعصر ۔ مرتب بشیر احمد لدھیانوی

مولانا کے مطابق قرآن حکیم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ دین کے بنیادی اصولوں کی تشریح بعض چھوٹی سورتوں میں کرتا ہے۔ اس کے بعد طویل سورتوں میں جہاں ان اصولوں کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے ان پر تفصیلی نہیں کرتا ۔ بلکہ صرف اشارہ کر دینا یا ان کے لئے اصلاحی الفاظ استعمال کرنا ہی کافی سمجھتا ہے۔ مولانا کے خیال میں یہ سورت قرآن حکیم کی انقلابیت کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔ اس میں انقلاب کے وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے عمل کر کے قرآن حکیم کی حکومت قائم کر دکھائی ۔ مثلا قرآن حکیم میں بار بار آتا ہے الذين آمنو و عسلو الصلحت ۔ اس میں دو اصلاحیں آتی ہیں۔ الذین آمنو اور عملوا الصالحات سورۃ العصر میں ان دو اصلاحوں کی تشریح کر دی گئی ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسانی اجتماع میں مندرجہ ذیل چار باتیں پیدا نہ ہو گئیں وہ کامیاب نہیں ہوا:۱ نظریه ایمان ۲ عمل صالح، ۳۔ حق کی تلقین، ۴۔ صبر کی تلقین ۔

قرآنی اساس انقلاب از عبد اللہ سندھی ۔ مرتب نامعلوم

یہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے جس کا نام الا ساس بھی ہے۔ اس آیہ کریمہ میں جو نازل ہونے کے لحاظ سے بالکل ابتدائی زمانہ کی وحی ہے۔ قرآنی انقلاب کی زیریں بنیاد متعین کر کے انقلاب لانے والی جماعت کو اس بنیاد پر کامیابی کا قصر تعمیر کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے ۔ اس سورۃ میں قرآنی انقلاب کی بنیا د صراط مستقیم بنائی گئی ہے۔ اس سورۃ کے مضامین کی توضیح میں مولانا سندھی نے قرآنی سیاست اور قرآنی حکمت کی بنیادشاہ ولی اللہ کے فلسفہ پر رکھی ہے۔

عنوان انقلاب ۔ یعنی سورۃ فتح کی حکیمانہ تفسیر  مرتبہ شیخ بشیر احمد بی اے لودھیانوی ،

اس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر جنگ کے متعلق قرآن حکیم کا نظریہ ابتدائی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ اور انقلابی پارٹی کو منافقت سے پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور رجعت پسندی کے خاتمے کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔

سورۃ فتح میں قرآن حکیم کے عظیم الشان نصب العین کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کا منشا یہ ہے کہ قرآن حکیم کا قانون تمام دوسرے قوانین پر غالب رہنا چاہئے ۔ اور یہ نصب العین قرآن کے بین الاقوامی غلبے کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے لئے اعلی اقدار کی حامل انقلابی جماعت کی ضرورت ہے جو غالب آکر پرانے رجعت پسندانہ اقدار کو ختم کرے اور سوسائٹی میں نئی تہذیب کی بنیا در کھے۔

تفسیر المقام محمود 

سورۃ الفاتحہ اور سورۃ بقرہ کی تفسیر ہے اسے ڈاکٹر منیر احمد مغل نے مولا نا لغاری کی جمع کردہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر کو بنیاد بنا کر اپنے حواشی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ 

الهام الرحمن في تفسير القرآن جلد اول سورۃ فاتحہ تا سورۃ مائده

جامع (عربی) علامہ مویٰ جار الله مترجم اردو مولانا عبد الرزاق و مولانا قاسم ،اشاعت اول ۱۹۷۷ء 

علامہ موسیٰ جار اللہ کے مقدمہ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ مولانا محمد قاسم نے اور سورۃ بقر تا سورۃ مائدہ کا ترجمہ مولانا عبدالرزاق نے کیا ہے۔ جلد دوم - سورۃ انعام تا سورۃ توبہ کا ترجمہ مولانا محمد قاسم نے کیا ہے۔

القاء الرحمن في تفسير الهام الرحمن

جامع - علامہ موسیٰ جار اللہ مترجم مولانا ابوالعلاء محمد اسمعیل گودھروی سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقر کی اصل عربی تفسیر علامہ غلام مصطفے قاسمی الہام الرحمن کے نام سے مرتب کر کے بیت الحکمت ۔ کراچی سے شائع کر چکے ہیں ۔ یہ تفسیر اسی کا اردو ترجمہ ہے ۔ اور جنوری ۱۹۸۸ء سے ماہنامہ الوی حیدر آبا دسندھ میں بالا قساط شائع ہوا۔

مذکورہ بالا تفاسیر کو بعد میں ’’الہام الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘( قرآن عظیم کی حکیمانہ انقلابی تفسیر )،‘‘قرآنی شعور انقلاب‘‘، ’’قرآن کا مطالعہ کیسےکیا جائے‘‘،’’مجموعہ تفاسیر امام سندھی‘‘اور ’’تفسیر المقام المحمود‘‘ میں ہی جمع کیا گیا ہے ۔


 مولانا عبید اللہ سندھی کے تفسیری منہج کا اجمالی جائزہ

 مولا ناسندھی نے تفسیری میدان میںخاص اسلو ب تفسیر متعارف کروایا جو دیگر مفسرین کرام کے روایتی انداز تفسیر سے ممتاز نظر آتا ہے۔ آپ پر فکر ولی اللہ کا اثر واضح نظر آتا ہے۔ آپ معاشرے کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی مسائل کے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعیت اور انقلاب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تاریخی مباحث سے استدلال کرتے ہیں۔

 کتب سابقہ سے استدلال

مولا ناسندھی اپنی تفاسیر میں بہت سے مقامات پر تورات کے صحائف کا بھی تذکرہ کرتے ہیں اور قرآن کریم کی کچھ تعلیمات کے ساتھ تو رات کی مشابہت کو واضح کرتے ہیں، مثلاً: سورۃ البقرۃ کے تعارف میں فرماتے ہیں: سورۃ البقرة تورات کے صحائف کی مانند ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ر حمن کی محبت باپ کی محبت کی مانند ہے، باپ کی اسی شفقت کی بناء پر عیسائی خدا کو باپ اور ہندو ماں کوممتاد یوی سے تشبیہ دیتے ہیں ۔

مفسرین کرام کی تفاسیر میں اس آیت کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمن الرحیم کو بیان کیا گیا جبکہ آپ کی اس تشریح سے اس بات کی تائید ملتی ہے کہ عیسائیوں کا خدا کو باپ سے تعبیر کرنے کی وجہ خدا کا باپ کی طرح رحیم ہونا ہے اسی طرح ہندومت کا تبھی تذکرہ کیا ۔ خدا کی شفقت و محبت کی بدولت ان مذاہب میں یہ تعبیرات پائی جاتی ہیں۔ گو یا خدا تعالی کی ان صفات کاملہ کی بدولت ان مذاہب میں خداؤں کو باپ یا ماتاد یونی کہا جاتا ہے۔ مولانا اس فکر میں متفرد ہیں۔ اسی طرح عیسائیت کے مذہبی ادب کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الاعلیٰ میں آیت إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

تورات کی سب سے پہلی کتاب پیدائش حضرت ابراہیم کا صحیفہ ہے جسے موسیٰ نے ابتداء میں رکھا، خروج تک تورات کا حصہ ہیں۔ علماء کو تورات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بڑے بڑے علماء اپنے مدارس میں بائبل پڑھاتے تھے لیکن بعد کے مسلمانوں نے اس سے غفلت برتی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم کے صحیفے گم نہیں ہوئے بلکہ ابھی تک موجود ہیں۔ 

مولانا اکثر و بیشتر مقامات پر سماوی مذاہب کا تذکرہ ان کے مذہبی لٹریچر اور اس میں موجود تعلیمات کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ اسی بحث کے ضمن میں غیر سماوی مذاہب مثلاً ہندومت کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں، بعض مقامات پر ان کی تعلیمات کا قرآن کریم سے تقابل کرتے ہیں۔ دیگر مذاہب کے صحائف کے علاوہ مولانا سندھی بعض مقامات پر مذاہب کی تاریخ پر بحث کرتے ہوئے اس دین کی اسلام سے نسبت بیان کرتے ہیں۔ مسیحیت سے متعلق فرماتے ہیں:

’’ہم نے حکمت ولی اللہ سے سمجھا ہے کہ وہ خلفاء راشدین کا زمانہ فتنہ تک شمار کرتے ہیں کہ وہ اعمال نبی کا اتمام وہاں تک سمجھتے ہیں اور دعوت مسیحیت بھی پولس (سینٹ پال) کے بعد ایسی ہے کہ جیسے اسلام فتنہ کے بعد کہ اس کے بعد اس میں غیر صحیح اشیاء شامل ہو جاتی ہیں، لیکن دعوت وسیع ہو جاتی ہے‘‘۔

مولا ناسندھی مفسرین کے طریقہ تفسیر پر رد بھی کرتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے مفسرین کرام نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ قرآن کریم کے بعض خاص واقعات کو بعض خاص واقعات و اشخاص کے ساتھ خاص کر دیا، چنانچہ مفسرین نے ایسی آیات کی تفسیر شخصی رنگ میں کی ہے جو کہ غلط ہے ‘‘ ۔ 

آپ کے مطابق عمومی طور پر مفسرین کرام تفسیر کرتے ہوئے اپنے حالات و زمانے کے مطابق تفسیرکرنے کی بجائے قرآن کی تشریح گزشتہ واقعات کے تحت کرتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں مذکور حالات و واقعات ہر زمانے کے لیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے وہ ثمرات حاصل نہیں ہو رہے جن کی امید کی جاتی ہے۔

 سورتوں کا تعارف اور مرکزی موضوع بیان کرنا

مولانا بعض سورتوں کا تعارف اور اہمیت کو بھی بیان کرتے ہیں، مثلاً: سورۃ البقرۃ کے تعارف میں بیان کرتے ہیں کہ : ’’سورۃ البقرۃ مدینہ میں نازل ہوئی اور یہ سورت تورات کے صحیفوں کی مانند ہے، اس میں مکی دور کی زندگی کی تعلیم دی گئی ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ مطففین کے متعلق بیان فرماتے ہیں:

’’یہ سورۃ قیامت کے مضمون کو سمجھاتی ہے اور قیامت کے اس رخ کو واضح کرتی ہے کہ جو انسانی اعمال کے محافظت سے متعلق ہیں‘‘

اسی طرح دیگر سورتوں کا تعارف اور اہم مرکزی مضامین کا تذکرہ بطور تمہید کرتے ہیں، ان سورتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں پھر ان میں موجود تعلیمات کا بھی ذکر فرماتے ہیں۔

 شاہ ولی اللہ کی کتب سے استدلال 

آپ نے اپنی تفاسیر میں کتب شاہ ولی اللہ سے بطور خاص استدلال کیا ہے، جس کا عملی اظہار آپ کی تفاسیر میں بطور خاص ملتا ہے ، آپ شاہ صاحب کی کتب سے فکر یا عبارت نقل کرنے کے بعد حوالہ جات بھی تحریر کرتے ہیں۔ چنانچہ صفت الرحمن کی تشریح میں فرماتے ہیں’’بقول امام شاہ ولی اللہ کہ ا للہ تعالی کی ایک تجلی جس کا تعلق عالم کی تخلیق کے ساتھ ہے۔ کائنات کا مادہ اسی تجلی سے وجود میں آتا ہے‘‘

مولا ناسندھی نظام کائنات کی بحث کے ضمن میں شاہ ولی اللہ سے استدلال کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں :

’’ ہر شے کسی نہ کسی لحاظ سے مخلوق کے لیے فائدہ مند ہے، کوئی شے بے کار اور فالتو نہیں، جو چیز وجود میں آئی اس کا وجود میں آنا ضروری تھا، کائنات کو جو فائد ہ اس شے سے ہو سکتا ہے کسی اور شے سے نہیں ہو سکتا " (حجۃ اللہ البالغہ، ج 1، ص423)

 صوفیاء اور حکماء کے اقوال سے استدلال

مولانا عبید اللہ سندھی اپنی تفاسیر میں صوفیاء کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں، کبھی کسی لفظ کے معانی کی وضاحت میں اور کبھی کسی معنی کے لیے بطور دلیل ان اقوال کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً تقوی کے معنی کی وضاحت میں فرماتے ہیںشیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ کے معنی ہیں إن الله يأمركم بالعدل ‘‘

اسی طرح مولانا صاحب مشہور صوفی شعراء کے اقوال کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ حکماء کی روحانیت کے بیان میں مولانا جامی کے سفر ترکستان کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ کائنات کی پیدائش سے متعلق حکماء کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ تخلیق کائنات سے متعلق حکماء کی دو آراء ہیں، امام غزالی کی رائے کے مطابق موجودہ نظام کائنات سے بہتر نظام ممکن نہیں۔ اسی طرح کائنات میں موجود ہر شے نہ اس سے بہتر پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اس سے اولی۔ 

 آپ کی تفاسیر میں حکماء کے اقوال کا بطور خاص اہتمام ملتا ہے ، ان کے ا قوال کو بعض دفعہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کبھی ان اقوال پر کلام کر کے راجح قول بیان کرتے ہیں اور کبھی آراء کو بغیر ترجیح پیش کرتے ہیں۔

 اجتماعیت اور انقلاب کا تذکرہ

آپ اپنی تفاسیر میں نظریہ اجتماعیت اور انقلاب کو جابجا بیان کرتے ہیں اور آپ کی تفسیر کا زیادہ تر حصہ اسی پہلو کے گرد گھومتا ہے۔ اس طرح آپ اپنی تفاسیر میں اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی بقاء و ترقی کے لئے ان دونوں (اجتماعیت اور انقلاب) کا ہونا ضروری ہے، سورہ مجادلہ کی تفسیر کی ابتداء میں بطور مقدمہ اسکی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ :

’’ہر قبیلے کی اپنی اجتماعیت اس قبیلے تک محدود ہوتی ہے، جہاں بین القبائل اجتماعیت نہ ہو وہاں اس طرح کی اجتماعیت بہت جلد ختم ہو جاتی ہے اور تفرق پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہر گھر دوسرے گھر سے جدا ہونے لگتا ہے ، اور گھر کے اندر افراد خانہ میں بھی تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ عرب میں ایسی ہی اجتماعیت کو رسم ظہار اور رسم ایلاء سے توڑا جاتا تھا۔ اس طرح قرآن نے اس رسم کو مشروط کر کے اس مضرت کو ختم کر دیا۔‘

اپنی تفسیر میں نظریہ اجتماعیت اور اس کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہیں:

تمام ادیان میں صرف اسلام اجتماعیت انسانی کے درجہ کمال پر بحث کرتا ہے، قرآن کریم کی پیش کر دہ اجتماعیت انسانی کے تین اہم مراکز ہیں، مثلاً دائر ہ ر بویت، دائرہ ملوکیت اور دائرہ الوہیت، اجتماعیت انسانی ان ہی تعین دائروں میں گھومتی ہے۔

مولانا سندھی انقلاب کے عملی اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ سے فرماتے ہیں :

’’ جو لوگ اجتماعی رنگ میں سوچتے ہیں ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ حق کی اشاعت اور باطل کو مٹانے میں اپنی پوری کوشش صرف کریں‘‘۔

آپ درج ذیل آیات کی تفسیر میں اجتماعیت کی اہمیت کو اجا گر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

 قرآن کریم کی سورۃ مائدہ اور سورۃ النساء اجتماعیت سے متعلق بحث کرتی ہیں، ان سورتوں میں اجتماعیت نساء ور جال کے درمیان ربط کی ضرورت اور اہمیت اور اجتماعیت کے اصولوں کا بیان ہے۔

مولانا سندھی قرآنی شعور انقلاب میں’’ انقلاب ‘‘ کا باقاعدہ عنوان باندھتے ہیں اور مختلف مقامات پر سورتوں کے ذیل اس کی وضاحت فرماتے ہیں، مثلاً سورۃ العصر کی تفسیر میں نظریہ انقلاب کی وضاحت میں فرماتے ہیں :

یہ سورت قرآن کی انقلابیت کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے، اس سورت میں انقلاب کے اصولوں کو بیان کیا گیا ہے کہ جن پر عمل کر کہ حضور اقدس اور ان کے ساتھیوں نے قرآن کی حکومت قائم کی تھی۔ 

 تاریخی مباحث کا اہتمام

آپ اپنی تفاسیر میں تاریخ کی اہمیت کے پہلو کو بھی اجا گر کرتے ہیں ، بہت سی تاریخی مباحث مثلاً: انسان کی تاریخ، دین اسلام کی تاریخ، قرآن کریم کی تاریخ کو واضح کرتے ہیں۔ تاریخ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اعلی درجے کا علمی استدلال یہ ہے کہ شہادت کے لیے تاریخ کو پیش کیا جائے، لیکن جو لوگ تاریخ کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اس علمی استدلال کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے، حالانکہ قرآن کریم ایسے تاریخی واقعات اور گزشتہ اقوام کے حالات سے بھرا پڑا ہے ، تاریخ واقعات کو محفوظ رکھتی ہے اور ان واقعات کو دہراتی بھی ہے‘‘۔

تفاسیر سندھی میں موضوع تاریخ کو بھی نمایاں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ گزشتہ واقعات اور ان کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا اور بعض واقعات سے عبرت حاصل کرنا جیسے واقعات کو بطور خاص زیر بحث لایا گیا۔ آپ تاریخ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف سطحوں کے مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ چنانچہ قومی اور بین الا قوامی ترقی کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تاریخ اسلام کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اقدس کی بعثت سے حضرت عثمان غنی کی شہادت یا زیادہ سے زیادہ حضرت علی کی خلافت کے ابتدائی دو سال کا زمانہ انقلاب کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ اس زمانے میں قرآنی نظام سیاست ، معاشیات اور قرب الہی حاصل کرنے کے طریقوں کا نصب العین معین شکل میں ان کے سامنے تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کا یہ ارشاد وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّات النعيم اس سے مراد مہاجرین اور انصار میں سے ابتدائی مسلمانوں کی وہ مرکزی جماعت تھی کہ جنہوں نے فوجی لائحہ عمل تیار کیا اور عرب، ایران اور روم پر قبضہ کر کہ قومی انقلاب قائم کیا، اسطرح مشرق اور مغرب میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ آج بھی مسلمان ان ہی اصولوں کو اپنا کر قومی اور بین الا قوامی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔

 سائنسی علوم سے استدلال

آپ سورۃ الفلق کی تفسیر میں اجسام کے بننے کے مراحل کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ جانداروں میں خلیات کے پھٹنے سے مرکب ابدان پیدا ہوتے ہیں، تمام حیوانات میں خلیات کے پھٹنے سے ہی نشو نما کا عمل ہوتا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک مقام پر مولانا سندھی نکو کار اور بدکار انسانوں کو انسانی اجسام میں موجود خلیات سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’افراد انسانی کی مثال ایسے ہے کہ جیسے جسم میں موجود خلیات، ان خلیات میں بہترین اور صالح ترین خلیہ وہ ہے کہ جو بدن انسانی کے طبعی تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد کرتا ہے ، جو خلیہ اس طرح سے کام نہیں کرتا وہ غیر صالح ہے، کیونکہ وہ جسم انسانی کی خدمت کرنے میں منکر ہے یعنی کافر ہے ، لہذااس سے اس کی باز پرس ہو گی، اس لیے اس کو باز پرس کے لئے جہنم یعنی شفا خانے بھیجا جائے گا‘‘۔

 آپ مختلف مقامات پر انسان کی ابتدائی تخلیق، کائنات کی ابتداء سے متعلق مباحث کو بیان کرتے ہوئے سائنسی علوم سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔

 سیاسی اور سماجی مباحث

مولانا صاحب سیاسی و سماجی مباحث پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، سیاست کے اصول اور سماج میں موجود مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

آپ سورہ اخلاص کی تفسیر میں بطور تمہید ایک سیاسی اور اقتصادی نظام اور کسی بھی معاشرے کے لئے سیاست، اقتصادیات کو اس کا ستون قرار دیتے ہیں، اسی ضمن میں ہندوستان کی سیاسی تاریخ اور فرانس اور برطانیہ کا 1858ء میں مغل حکومت کو ختم کر کہ خود قابض ہو جانے کا ذکر ہے۔ اس بحث میںمولانا سندھی مسلمانوں کی سیاسی اور فکری شکست اور سترھویں صدی میں یورپی قوتوں کا مسلمانان ہند پر غالب آنے اور ان کو سیاسی اور فکری غلام بنائے جانے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے افراد اپنی شخصیت کھو بیٹھے۔ 

مولانا سندھی آیت ( وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ ) کی تفسیر میں کتمان حق پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حق اور باطل کو خلط ملط کرکے اصلی مقصود کو بھلادیا جاتا ہے ، اس بحث میں فرماتے ہیں :

کتمان حق کی ایک مثال ہندوستان کے حالات ہیں۔ ہندوستان میں مقصود کفار کے غلبے سے نجات ہے، لیکن اس سے اہل علم غافل ہیں، اور رسومات میں بٹے ہوئے ہیں، اب حالات بدل چکے ہیں اور مسلمانوں پر یور بین اقوام کا تسلط ہو چکا۔

مولانا سندھی اپنی تفسیر میں مختلف مقامات پر سیاسی و سماجی خصوصا ہندوستان کے تناظر میں اس وقت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں، سورۃ البقرہ کی آیت: نَنسَ مِنْ آيَةٍ أو نَفْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهُ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب حکام بدل دیے جاتے ہیں تو قانون بھی بدل دیا جاتا ہے ، اس آیت سے مراد اللہ نے قرآن کریم کے نزول سے تورات کو منسوخ کر دیا۔ اس آیت کے ضمن میں دیگر مفسرین مثلا امام قرطبی اور امام جصاص نے نسخ کی بحث کو زیر بحث لایا، لہذا نسخ کی اقسام، حکم اور قرآن میں نسخ کے موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں جبکہ اسی آیت کی تفسیر کے ضمن میںمولانا سندھی اکبری دور کے ہندوستان کے سیاسی برتری کا تذکرہ کرتے ہیں۔

 معاشی اور اقتصادی مسائل سے متعلق مباحث

مولا ناسندھی اپنی تفاسیر میں معاشرتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ انسان کی بنیادی ضروریات اور معاش سے متعلق بحث بھی کرتے ہیں، مثلاً ایک جگہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں :

’’کسی بھی اجتماعی تحریک میں کمزوری کی دو وجوہات ہیں، جن میں ایک مالی اشتراک نہ ہو نا، جس کی وجہ سے دولت ایک مخصوص طبقے تک محدود رہتی ہے، جس کی بدولت ایک بہت بڑا طبقہ نادار رہ جاتا ہے ، جبکہ اجتماع کی اندرونی مضبوطی اور پختگی کے لیے ضروری ہے کہ سارے اجتماع کی بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، لباس، مکان، تعلیم اور صحت پوری ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو نادار لوگ اپنی ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنے ایمان کی سے قاصر رہ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ تحریک سے کٹ جاتے ہیں جس سے تحریک ہی ختم ہو جاتی ہے ‘‘

اس حوالے سے مولانا سندھی سورۃ المدثر کی تفسیر میں ہندوستان کی معاشی حالت سے متعلق فرماتے ہیں :

شاہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ تمھارے اپنے ملک (دہلی) کے امراء اور حکام کی جو حالت ہے اسے دیکھ لو تو تمھیں دوسرے ملکوں ( ایران اور رومہ) کے حکام اور امراء کی حالت دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، شاہ ولی اللہ کا یہ جملہ آج بھی اتنا ہی درست ثابت ہوا جتنا کہ ان کے زمانے میں تھا۔ آج بھی ہندوستان میں ایک طرف مفلس اور دوسری طرف سرما یا پرست طبقہ ہے، جنہیں انسانی حقوق و فرائض کا کچھ علم نہیں "۔

حالانکه دیگر مفسرین سورة المدثر کی تفسیر میں حضور اقدس  پر پہلی وحی کے نزول کا واقع بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں ہے:

مولانا سندھی نے مسلمانان ہند کے اقتصادی حالت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ اخلاص کی تمہید میں فرماتے ہیں: ’’انگریزوں نے ہمیں اپنی اشیاء مہنگی فروخت کیں اور ہماری اشیاء سستے داموں وصول کر کے ہمیں اقتصادی شکست سے دو چار کیا ‘‘۔

حاصل کلام یہ ہے کہ آپ کا تفسیر میں اختیار کردہ منبع مفسرین کے روایتی انداز تفسیر سے مختلف ہے، آپ کے اس انداز تفسیر سے علم التفسیر میں ایک نئے انداز کو پذیرائی ملتی ہے۔آپ کتب سابقہ سے استدلال کرتے ہیں، سورتوں کے مرکزی مباحث کا تعارف کراتے ہیں، کتب شاہ ولی اللہ ، صوفیاء و حکماء کے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں۔آپ کی تفسیر میں تاریخی ، سائنسی، سیاسی وسماجی ، اور معاشی و اقتصادی مباحث کا تذکرہ بھی جابجا ملتا ہے۔آپ کی تفاسیر سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ قرآن کریم کا موضوع انسانیت کی ترقی و بقاء کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے، یہ تب ہی ممکن ہے جب قرآن کریم کو اہل فکر و دانش اپنے زمانے اور اس کے واقعات اور مسائل کے پیرائے میں سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کریں۔آپ کی تفاسیر کا نوے فیصد حصہ انقلاب، اجتماعیت اور ایک ایسی پارٹی یا جماعت کی تشکیل کے گرد گھومتا ہے کہ جس کے ذریعے معاشرے کے غریب افراد کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم وغیرہ کی فراہمی اور ان کے حقوق کا خیال رکھ رکھنا یقینی ہو سکے۔ جبکہ آپ کی تفسیر میں افراد کے درمیان دولت کی مساویانہ تقسیم پر جگہ جگہ مختلف سورتوں کے ضمن میں زور دیا گیا ہے۔ اس کی اہم وجہ اجتماعیت کی مضبوطی اور انقلاب ہے۔ ایسی جماعت بنانے اور اس کو مضبوط کرنے کے اصولوں کی وضاحت بھی کئی ایک مقامات پر کی گئی ہے۔ آپ کی تفاسیر میں اس دور کے مسلمانان ہند کے سیاسی اور سماجی حالات اور کمزوروں کی جھلک نظر آتی ہے، اپنی تفاسیر میں مولانا سندھی ان کے مسائل کا حل اور ان کو مجتمع ہونے اور انقلاب پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔


Monday, 16 September 2024

جوش کی دو نئی کتابیں "محمل و جرس" ، "فکرو نظر"


جوش ملیح آبادی  میری پسند باعتبار موضوعات نہیں بلکہ باعتبار اسلوب و الفاظ ہیں. بیسویں صدی کے وہ آخری ادیب ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ الفاظ و محاورات اور تراکیب کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے. جوش کو پڑھنے کا میرا واحد مقصد زبان کا طریقہ استعمال سے آگاہ ہونا ہے. جوش نے جس قسم کے الفاظ اور تراکیب استعمال کی ہیں وہ نہ تو ان سے پہلے نظر آتا ہے اور نہ ہی ان کے بعد. 

جوش کی رباعیات کے حوالے سے کام کرتے ہوئے جوش مجھے اتنے منفرد نظر آئے کہ میں ان کے مقابلے میں کسی کو بھی نہیں لا سکا خواہ پیچیدہ موضوعات ہوں یا خوبصورت الفاظ، رومانوی انداز بیاں ہو یا محاوراتی زبان، حکیمانہ و فلسفیانہ باتیں ہوں یا خوبصورت تراکیب، سبھی کچھ مجھے ان کے یہاں دیکھنے کو ملا، 2750 رباعیات میں کم و بیش 400 رباعیاں  لفظوں یا مصرعوں کی تبدیلی کے ساتھ بھی نظر آجاتی ہیں. 

لیکن مجھے ان کی دو غیر مطبوعہ کتابوں کا شدت سے انتظار تھا. ہلال نقوی سر سے مستقل باتیں ہوتی رہیں. فرخ جمال سے بھی باتیں ہوئیں. یہ دونوں کوشاں تھے کہ کسی طریقے سے ان کی غیر مطبوعہ کتابیں "محمل و جرس" اور "فکر و ذکر" منظر عام پر آجائے. محمل جرس ان کا آخری مجموعہ کلام ہے اور فکر و ذکر ان کی آخری نثری تحریر کا مجموعہ ہے. اس کو آپ تراشے کے ضمن میں بھی شامل کر سکتے ہیں. کوئی تحریر صفحات پر محیط ہے تو کوئی یک سطری. کہیں فلسفیانہ ابال ہے، تو کہیں رومانویت سے بھرپور مناظر ہیں، کہیں وقت حاضر کے حاکموں پر پرزور چوٹ ہے، تو کئی مقام پر ناقدین  ادب کی بھی انہوں نے خیر لی ہے. خصوصا فکر ذکر کے حوالے سے بات کروں تو یہ کتاب میں تقریبا تین مرتبہ پڑھ چکا ہوں بہت سارے نشانات بھی میں نے اس میں لگائے ہیں جو میرے پسندیدہ صفحات ہیں.
یہ بھی میں عرض کردوں کہ جوش کے شعریات سے میں مکمل اتفاق نہیں رکھتا ہوں، انہوں نے لفظی اشتقاق کے تجربات سے تنافر بھی پیدا کیا ہے اور کہیں معنوی پیچیدگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے، علامات کے افراط سے روانی میں کمی بھی آئی ہے، اور کہیں کہیں املا میں ان کا جبر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، خیر لفظوں سے متعلق ان کی ایک رائے اس کتاب سے ملاحظہ ہو.
 "زبان میں متقدمین کے حدود سے تجاوز کو کفر سمجھ کر اجتہاد کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ جدید الفاظ سے متروکات کی خانہ پری نہیں کی جائے گی ۔ نیاروزمرہ، نئے ضرب الامثال ، اور نئے محاورے نہیں بنائے جائیں گے۔ حیوانات کے نروں اور ماداؤں، بچوں، اور اُن کی آوازوں کے واسطے، اسماء نہیں تراشے جائیں گے. جمادات کے تمام الوان و اقسام کو ناطقے کے آنکڑے میں نہیں لیا جائے گا۔ نباتات کے رنگوں ، اور خوش بوؤں اور دھاریوں کے ناموں کی تسکیک نہیں کی جائے گی۔ تمام ذائقوں کے واسطے الگ الگ الفاظ نہیں تراشے جائیں گے. اور، وہ خیالات ، تصورات ، مفرد و مرکب جذبات، احساسات، تصورات، تخیلات، مفکورات. جو آج تک برہنہ سر، گونگے ہیں۔ اور اُن کی پیشانیوں پر، اسماء کی ٹوپیاں ، کج نہیں کر دی جائیں گی. وہ زبان ، تادیر، سلامت نہیں رہے گی۔ اور اُس بے آب درخت کی مانند جو خشک ہوکر زمین پر آجاتا ہے، بھرجی کے بھاڑے میں جھونک دیا جاتا ہے."

اس حوالے سے ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو. 

الفاظ خیالات کی سواریاں ہوتے ہیں۔ جن کی وساطت سے، دل کی بات،زبان تک آتی ، اور خموشی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
افسوس کہ سواریاں ، ثمردۂ و محدود، اور سوار، نا قابل شمار ولا محدود ہیں۔ لغات کے خالی اصطبل میں، تین چار لاکھ سے زیادہ سواریاں موجود نہیں ہیں، اور دماغ کے بھرے پرے شہر میں سوار ہیں اور اربوں کھربوں ۔ چنانچہ سواریوں کی اس عبرت ناک قلت اور سواروں کی اس حیرت ناک کثرت نے ، عالم حرف و حکایت پر اس قدر قہر نازل کر رکھا ہے که جذبه اظہار و ابلاغ کی نبضیں چھوٹی ہوئی ہیں، اور کروڑوں سوار ( خیالات ) سواریوں (الفاظ) کی نایافتگی ، اور جمود کی فراوانی کی بناء پر وجع مفاصل اور فالج میں گرفتار ہو ہو کر،دم تو ڑ چکے ہیں."
اس کتاب میں انہوں نے اپنے مختلف خیالات کو نثری پیرہن میں پیش کیا ہے، ایک بات اور عرض کردوں کہ اگر جوش نثری شاعری کے قائل ہوتے تو شاید ان کی یہ پوری کتاب اسی ہیئت سے متصف ہوتی، ابھی بھی قاری سطروں کو توڑ کر نثری شاعری کے اسلوب میں اس کتاب کے اکثر مضامین کو پڑھ سکتا ہے. لیکن وہ تھے کھرے شاعر اس لیے پابند سے کبھی بھی غیر پابند کے پاس سے بھی نہیں گزرے 
یہ کتاب 220 صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت 500 روپے ہے. 

دوسری کتاب "محمل و جرس" شعری مجموعہ ہے، اس کے سرورق میں اگرچہ 1972 درج ہے لیکن آخری تحریر میں 15 اپریل 1972 درج ہے. 
جوش اپنی ہر کتاب کو ابواب میں تقسیم کرتے تھے اور ہر باب کا نام بھی رکھتے تھے، اس کتاب کو بھی دو ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب کا نام "مسافر خانے کی آخری رات کا شب خون" جس میں 28 نظمیں ہیں.
اور دوسرے باب کا نام "دھوپ چھاؤں" ہے اس باب میں تقریباً پچھتر نظمیں ہیں.

"یہ سچ ہے کہ میری زبان سمجھنے اور بولنے والے، ماشاء اللہ ، کروروں افراد ہیں۔ لیکن مجھ کو اس علم سے، ذرہ برابر بھی تسلی نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ میرے ہم زبانوں میں چھیانوے فی صد، نرے جاہل ، دور سنگ کے سے، بے ترشے اور وحشی چہرے والے جاہل ہیں۔ اور وہ، دو پاؤں، پر بھدے پن سے، چلنے والے چوپائے ہیں اور ایسے درندہ خو چو پائے کہ ان کے قریب جاؤ تو وہ دلتیاں جھاڑنے ، اور سینگ مارنے لگتے ہیں۔ ان بلبلاتے اونٹوں کے ریوڑ میں، بمشکل چارفی صد افراد ایسے ہیں جن کو تعلیم یافتہ کہا جاسکتا ہے لیکن ان میں بھی اکثریت ہے ان کی، جنہیں حرف شناس جہلاء کے علاوہ اور کوئی خطاب نہیں دیا جا سکتا۔ اس ڈگری یافتہ جہالت کی علت یہ ہے کہ انھوں نے ، دماغ میں علم کی شمع جلانے کے واسطے نہیں ، صرف پیٹ کی آگ بجھا لینے کی غرض سے، جوں توں کر کے، سندیں حاصل کی ہیں ، وہ اپنے معدوں کی آبادی کے تمنائی ہیں اور ان کو اس کی پروا، اور اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ ان کی کھوپڑیاں ، ویران ، اور بھا ئیں بھا ئیں کر رہی ہیں۔ اس نان پرستار و آگاہی بیزار دنگل میں، ایک ، یا ڈیڑھ فی صد افراد ضرور ایسے ہیں ، جن کو،مروت سے کام لے کر ، صاحب علم و نظر کہا جا سکتا ہے۔"
 یہ بھی ضروری نہیں کہ جوش کی ہر بات سے اتفاق کروں، یقیناً ان میں علویت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. انہوں نے کبھی بھی خود سے بڑا تو دور کی بات ہے برابر بھی کبھی نہیں سمجھا. ادبی دنیا کی بات کی جائے تو وہ ناقدین پر نظم بھی تحریر کر چکے ہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقید جس روش پر چل رہی تھی ان کی شاعری اس روش سے الگ تھی. اس لیے ان کی کبھی کسی سے بنی نہیں. ساتھ ہی یہ وجہ بھی رہی کہ وہ کبھی بھی کسی ایک نظریہ پر قائم نہیں رہے، وہ نظریاتی اعتبار سے صرف شاعری کے نظریہ کے پابند تھے کہ کسی بھی موضوع کو شاعری کہ پیمانہ میں کیسے ڈھالا جائے. اسی لیے شاید وہ شاعر آخرالزماں کہلائے. یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری کا باب ان پر ختم ہوجاتا ہے، ان کے بعد تو ضمیمہ کا دور شروع ہوجاتا ہے. 
اس مجموعہ سے نظم "خود اعتمادی" ملاحظہ فرمائیں. 

کیا ہوا، آج، جو ناقابلِ پرواز ہوں میں
 عرش کو، جس کی تمنا ہے، وہ شہباز ہوں میں

اے خوش آغاز بد انجام، مجھے کیا معلوم
 کہ نوا سنج خوش انجام و بد آغاز ہوں میں

مجھ کو، آنکھوں پہ جگہ دے، جو نظر ہو تجھ میں
 کرہ ارض، تیری خاک کا اعجاز ہوں میں

ظلمتِ نقل کی جانب، نہ پکارو مجھ کو
 مشعل عقل کا پروانہ جاں باز ہوں میں

 چھیڑ سکتی نہیں، ذرات کی مضراب جسے
 دست خورشید ہاں تاب کا وہ ساز ہوں میں 

جس کی گل بانگ سے اُڑتا ہے شب تار کا رنگ 
خیمہ صبح کا وہ زمزمہ پرداز ہوں میں

عادتاً، عشق کی منزل میں ہوں، پابند نیاز 
فطرتاً، حُسن کا، سر تا بہ قدم ناز ہوں میں 

فاش ہو جاؤں، تو ، جھک جائے سر دیر و حرم
سینه حکمت کونین کا، وہ راز ہوں میں

مجھ کو، ہر ذرہ ناچیز، یہ دیتا ہے صدا
 اس طرف دیکھ کہ معشوقہ طناز ہوں میں

کہہ رہا ہے یہ، در قصر عفاف ملکوت
 آ، ترے مقدم عصیاں کے لیے باز ہوں میں

طائر سدرہ نہ نہ گھبرا کہ میں کم ظرف نہیں
 جس کی زد پر ہے قضا، وہ قدر انداز ہوں میں

نہیں پھوٹی ہے جو اب تک، وہ کرن ہوں اے جوش
 جو، گلے تک نہیں پہنچی ہے، وہ آواز ہوں میں

اس کے بعد ساٹھ صفحات میں جوش شناسی پر مضامین ہیں. اگر جوش کے زمانہ میں ہی یہ کتاب شائع ہوتی تو شاید اس قسم کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، وہ شاید ہی اپنی کتاب میں کسی اور کی تحریر پسند کرتے. پیش کنندگان کو اس چیز کا خیال رکھنا چاہیے تھا. 
میرا خیال یہ کتاب ان کی زندگی میں ہی منظر عام پر آجاتی تو شاید یہ مجموعہ بھی نصاب کا حصہ ہوتا. 520 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 900 روپے ہے. 
الغرض ظاہری و معنوی اعتبار سے دونوں کتابیں لاجواب ہیں، شاعر آخرالزماں کی آخری نشانیاں ہیں. جو چالیس برسوں بعد ہمارے لیے accessible ہوئی ہیں. اس کے لیے ہم اردو برادری جناب عدیل زیدی اور عبارت پبلیکیشن کے شکر گزار ہیں.

Thursday, 12 September 2024

آتِش یا آتَش

 آتِش یا آتَش

ہمارے یہاں خواجہ حیدر علی آتش کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ آتش میں بکسر دو م یا بفتح دوم کی ایک بحث کھڑی ہوجاتی ہے۔ اردو کے اکابرین اکثر ت پر زبر کے قائل ہیں، ہم تو شروع سے ہی یعنی گلستاںکے زمانے سے ہی آتش میں ت پر زیر پڑھتے آئے ہیں ۔لیکن ہمیں اس وقت تعجب ہوا جب ایم اے کے زمانہ میں پہلی مر تبہ آتَش پر وفیسر علی جاوید کی زبان سے سننے کو ملا، اس وقت انہوں نے کہا دونوں درست ہے۔ ابھی غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام خواجہ حیدر علی آتش کے سمینار میں بینر پر Aatsh  لکھا دیکھا تو سوچا کہ اس لفظ پر بھی چھان بین کرنی چاہیے۔ تو اس کوشش میں لگ گیا او ر جوںجوں کتابیں مطالعہ میں آتی گئیں اس میں خصوصی طور پر دیکھتا رہا کہ ت پر زبر ہے یا زیر یا کچھ بھی نہیں۔ خیر، دیکھتے ہیں کیا ملتا ہے۔

افتتاحی اجلاس کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر نسیم احمد نے واضح طورپر کہا کہ آتش میں ت پر زبر ہی درست ہے ۔ کیونکہ کلیدی خطبہ میں اکثر مقام پر پروفیسر احمد محفوظ نے ت پر زبر ہی پڑھا ،لیکن کہیں کہیں ان کی زبان سے آتِش بھی سننے کو ملا ۔ پروفیسر شہپر رسول صاحب نے ت پر زیر ہی پڑھا ۔ 

دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں مقالا ت کے بعد پرو فیسر احمد محفو ظ نے اس مسئلہ پر پھر گفتگو کرتے ہوئے آتش برو زن تر کش پر زور دیتے ہوئے مظفر علی اسیر لکھنوی کا ایک قطعہ تاریخ بطور دلیل پیش کیا ۔ 

دلم از مر گ آتش بود غم کش

ز آتش یا فتم تاریخ آتش 

 اس کے بعد پروفیسر اخلاق آہن نے فارسی کے قدیم ما خذ سے بھی یہ ثابت کیا کہ یہ آتش بر وزن تر کش ہے ۔ صدارتی خطبہ میں پروفیسر نسیم احمد نے بھی کہا کہ ’’دسیوں شعر میر کے ہیں آتش ردیف کے ساتھ ‘‘ لیکن مجھے میر کا ایک بھی شعر نہیں ملا جس میں آتش ردیف ہو ۔ خیر اب لغات کی جانب رخ کرتے ہیںاور ان کا میلان معلوم کرتے ہیں : 

 فرہنگ فارسی معین: تَ یا تِ( یہاں دونوں موجود ہے )

فرہنگ فارسی عمید: (atars, atas) (آتیش اور آدیش س نکلا ہوا ہے )

لغت نامہ دہخدا: آتَش (بطور تخلص آتش اصفہانی اور آتش لکھنوی کا بھی ذکر ہے)

فرہنگ آصفیہ: لفظ آتش کے تلفظ میں اختلاف میں ہے، اکثر فرہنگ نویسوں نے تو بکسر تا اوربفتح تا دونوں طرح رکھا ہے مگر بعض نے صرف اخیر صورت کو مانا ہے۔بلکہ پہلی صورت کی نسبت گوزیادہ ہی کیو ں نہ بولتے ہوں، ہمیں بھی تامل ہے کیونکہ جہاں تک شعرا ئے فارس کے اشعار ہماری نظر سے گزرے ہم نے برابر سرکش اور مشوش وغیرہ کے ساتھ آتش کا قافیہ پایا۔ چنانچہ ظاہر ہے۔

آہ تن سوز دروں سے شکل آتش ہے مرا 

دل کسی آتش کے پر کالے پہ جو غش ہے مرا (جرأت)

حریص و جہاں سوزو سرکش مباش 

زخاک آفریدنت آتش مباش  (سعدی)

دیوانہ ام زخانہ مشوش برآمدہ

طوفانم از تنو بہ پر آتش آمدہ (نظیر ی )

البتہ صاحب فرہنگ جہانگیری نے مولوی معنوی کا یہ شعر جس میں بکسر تائے فوقانی باندھا ہے سنداً بیان کیا ہے۔

گفت آتش من ہمانم آتشم

 اندر آ، تا تو بہ بینی تابشم

مگر ہم اس موقع پر قدیم فارسی کے موافق ضرورت شعر کے باعث بکسر تا قافیہ باندھ دینا جائز خیال کرسکتے ہیں نہ کہ اس کو ٹکسالی مانیں، کیونکہ زبان زند سے بھی جس پر فارسی زبان کا مدار ہے او ر نہایت پرانی زبان ہے جس کے الفاظ نے مرور زمانہ کے باعث اس قسم کی تبدیلیاں اختیار کی ہیں۔ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ آترس بفتح تائے فوقانی یہ لفظ حسب قاعدہ رائے مہملہ گر کے آتس ہوا۔ اور پھر بشین معجمہ آتش ہوگیا۔ بلکہ یہی وجہ ہے کہ شعرائے فارس نے اپنے کلام میں بفتخ تا ہی اس کا استعمال زیادہ کیا ہے۔ اس جگہ ہمیں صاحب فرہنگ جہانگیری سے کلی اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی ہم انہیں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں، کیونکہ قدیم فارسی اس امر کا بخوبی ثبوت دے رہی ہے کہ آتِش بکسر تائے فوقانی کی اصل آدیش یا آتیش ہے۔

صاحب آصفیہ نے جس صورت سے جملہ کو ترتیب دیا ہے اس میں یہ بخوبی ظاہر ہورہا ہے کہ اکثریت ت کے زیر کی ہے ۔جیسا کہ آپ اس جملہ میں غور کرسکتے ہیں’’ اکثر فرہنگ نویسوں نے تو بکسر تا اوربفتح تا دونوں طرح رکھا ہے مگر بعض نے صرف اخیر صورت کو مانا ہے۔ ‘‘ پہلے تو انہوں نے اکثر کا تعلق کسرہ اور فتحہ دونوں سے جوڑا پھر ’’ مگر ‘‘ کے بعد ’’بعض ‘‘ سے اختصاص کرتے ہیں ۔ گویا ان کے زمانہ میں اکثریت کسرہ والوں کی ہی تھی ۔شواہد پر بحث کرتے ہوئے وہ صاحب فرہنگ جہانگیر ی سے کلی اتفاق تو نہیں کرتے ہیں لیکن ان کو غلط بھی نہیں ٹھہراتے ہیں کیونکہ مولانا روم کے یہاں بھی نظر آرہا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوا ۔ اردو سے بھی اس کی مثال آگے پیش کی جائے گی ۔

نوراللغات: آتش لفظ آترس تھا، قدیم فارسی میںآتیش اور اس سے آتش ہوگیا۔ بکسر تا و بفتح تا دونو ں طرح صحیح ہے۔لیکن اساتذہ کے کلام میں عموما بفتح دوم پایا جاتا ہے۔

لغات روز مرہ: شمس الرحمن فاروقی 

’’اردو میں لفظ آتش کا تلفظ بروزن ترکش، بفتح سوم ہی رائج اور درست ہے۔ بعض لوگ اس لفظ میں سوم مکسور (بروزن بارش بولتے ہیں۔ رائج تلفظ بفتح سوم (بر وزن ترکش ہے اور اب یہی مرجح ہے۔ برہان قاطع میں اس کا تلفظ سوم مکسور سے لکھا ہے اور وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ لفظ دراصل ’’آدش‘‘ تھا، پھر آتیش ہوا، اور بعد میں اس نے موجودہ صورت اختیار کی۔ بعد کے لوگوں نے یہ رائے نہیں تسلیم کی ہے۔ آئند راج میں اس کا تلفظ صرف بفتح سوم لکھا ہے، یعنی صاحب آنندراج کی نظر میں آتش بروزن بارش کا وجود ہی نہیں۔ امیر مینائی نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ اسے بروزن بارش کہتے ہیں لیکن اردو کے فصحا کے یہاں بر وزن ترکش ہی دیکھا گیا ہے۔ نور اللغات میں یہی رائے ذرا بدلے ہوئے الفاظ میں درج ہے۔ صاحب آصفیہ نے آتش کو صرف بفتح سوم لکھا ہے۔ پھر انھوں نے ایک لمبا حاشیہ بھی درج کیا ہے جس میں سوم مفتوح اور سوم مکسور پر گفتگو ہے۔ ان کا فیصلہ یہی ہے کہ اسے بفتح سوم بولنا چاہیے ۔

ایک بات یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ آتش کے ساتھ جو لفظ اردو میں مستعمل ہیں، ماسوائے آتشک، ان سب میں سوم مفتوح ہی ہے، (آتش بازی آتش دان میر آتش آتش کدہ آتش غضب؛ وغیرہ) - صاحب آصفیہ نے تو ’’آتشک کو بھی بفتح سوم لکھا ہے۔ شیکسپیئر نے آتش کو فتح سوم اور بکسر سوم دونوں طرح لکھا ہے، لیکن آتش سے بنے والے تمام الفاظ (بشمول آتشک) میں سوم مفتوح ہی بتایا ہے۔ اس کے برعکس شان الحق حقی نے اپنی لغات تلفظ میں آتش کو صرف بکسر سوم لکھا ہے، اور اس سے بننے والے تمام الفاظ (آتش کدہ آتشناک آتش بازی؛ وغیرہ) کو بھی بکسر سوم لکھا ہے۔ بیدار بخت کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ آتش بازی بکسر دوم ہی سنا ہے اور وہ بھی اسی طرح بولتے بھی ہیں لیکن آتش کے بارے میں انھوں نے کوئی اطلاع نہیں دی ہے۔ اردو لغت، تاریخی اصول پر میں آتش بکسر سوم اور فتح سوم دونوں طرح لکھا ہے، لیکن بکسر سوم کی کوئی سند نہیں دی ہے۔ آصفیہ میں بفتح سوم کی کئی اردو فارسی اسناد مذکور ہیں۔ صاحب آصفیہ نے جہانگیری کے حوالے سے مولانا روم کا ایک شعر نقل کیا ہے جس میں آتش کو تابش کا قافیہ کیا گیا ہے۔ لیکن آصفیہ میں یہ بھی لکھا ہے، اور صحیح لکھا ہے کہ چونکہ حرف روی کے ماقبل حرف کی حرکت میں اختلاف روا ہے، لہذا آتش تابش کے قافیے سے آتش کا تلفظ بکسر سوم ثابت نہیں ہوتا۔ (جہانگیری کے مطبوعہ نولکشوری نسخے میں لفظ آتش نہیں درج ہے، آتشیزہ البتہ درج کر کے اسے صاحب ’’جہانگیری نے سوم مفتوح لکھا ہے)۔

مختصر یہ کہ دہلی میں اب بھی آتش بر وزن بارش رائج ہے، چاہے بہت عام نہ ہو۔دہلی کے باہر بول چال میں آتش بروزن ترکش ہی عام ہے۔ ’’آتش سے بننے والے الفاظ میں بھی آتش اب زیادہ تر بفتح سوم ہی بولا جاتا ہے۔‘‘

فاروقی صاحب اپنے اسلوب اور تمام شواہد سے اس پر مصر ہیں کہ آتش بفتح ت ہی صحیح ہے ۔ ساتھ ہی ان کا آخری اسٹیٹمنٹ بہت ہی دلچسپ ہے کہ دلی والے زیر سے بولتے ہیں اوردلی سے باہر کے لوگ زبر سے ہی بولتے ہیں ۔ یہ یقینا ان کا مشاہدہ ہوگا ۔ 

لیکن میں توبچپن سے آتش برو زن بارش سنتا آیا ہوں اور اب بھی نناوے فیصد آتش ہی بولتے ہیں۔ تو کیا آتَش کی جانب لوٹنا ممکن ہوگا یا نہیں؟ شاید نہیں! کیونکہ یہ تلفظ تو رومی کے دور سے ہی چلن میں ہے۔ ہاں ایران میں نہیں ہے لیکن ممکن ہے کہ سبک ہندی، دری و خراسان میں رائج ہو اسی وجہ سے رومی کے یہاں بھی ملتا ہے۔ اور جو لہجہ صاحب آصفیہ کا ہے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں بھی یہ زبان زدو عام تھا۔ اس لیے انشا نے دریائے لطافت میں ایسے مسائل کے اوپر صاف صاف لکھ دیا ہے:

’’مخفی نماند کہ ہر لفظے کہ در اردو مشہور شد عر بی باشد یا فارسی یا ترکی یا سریانی یا پنجابی یا عر بی از روی اصل غلط باشد یاصحیح آن لفظ لفظ اردو است۔اگر موافق اصل مستعمل صحیح است و اگر خلاف اصل است ہم صحیح است صحت و غلطیِ آن موقوف بر استعمال پذیرفتن در اردو است زیرا کہ ہر چہ خلاف اردو است غلط است۔گو در اصل صحیح باشد بہ و ہر چہ موافق اردو است صحیح باشد گو در اصل صحت نداشتہ باشد‘‘۔

یعنی لفظ خواہ کسی بھی زبان کا ہو اردو میں جیسا مستعمل ہے وہی درست مانا جائے گا ۔ 

صاحب اور صاحَب ،محبت اور مَحبت،کنار ہ اور کَنارہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔

اب پھر لوٹتے ہیں مظفر علی اسیر کے اس شعر کی جانب جسے پروفیسر احمد محفو ظ صاحب نے پیش کیا تھا ۔ 

دلم از مر گ آتش بود غم کش

ز آتش یا فتم تاریخ آتش 

 قافیہ کے اس مسئلہ پر فاروقی صاحب درس بلاغت میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں : 

’’اگر حرف روی کے پہلے آنے والے حرف میں دونوں جگہ حرکت ہوتو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ حرکتیں مختلف ہوسکتی ہیں ۔ چنانچہ’ خوش‘ کاقافیہ ’شش‘(بمعنی چھ ) اور ’کم‘ کا قافیہ ’گم ‘ ہوسکتا ہے ۔‘‘(ص 129)

شاید اسی وجہ سے ’’ تذکرۂ معرکہ سخن ‘‘ میں مولوی عبدالباری آسی لکھتے ہیں: 

’’قدما اختلاف توجیہ کو بڑا عیب نہ سمجھتے تھے ۔ آتش ناسخ غالب وغیرہ کے زمانہ تھے یہ جائز تھا ۔غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو 

دل لگا کر آپ بھی غالب مجھی سے ہوگئے 

عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے 

’صاحب ‘ رب ، سب وغیرہ کا ہم قافیہ رکھا گیا ہے ۔حالانکہ صاحب بکسرحائے حطی صحیح ہے اوربفتح غلط ہے ۔ ‘‘(ص:3)

اب یہاں پر غالب یاتو صاحب کا تلظ غلط کررہے ہیں یا پھر قافیہ درست نہیں ، اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر آسی اور فاروقی  دونوں کی بات درست ہورہی ہے جب یہ درست ہے تو پھر ہر مقام پر آتِش بھی درست ہے ۔ 




Tuesday, 10 September 2024

رسم الخط کی اہمیت

خالق کا ئنات نے انسان اور حیوان میں جو بنیا دی فرق رکھا ہے وہ نطق کا ہے، خدا نے انسان کو نطق کی صلاحیت سے نوازا نیز اسے اشیا کے علم سے بھی نوازا۔ یہیںسے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ علم کے حصول کا تعلق بھی اشرف المخلوقات سے رکھا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ حیوان علم کے حصول پر دسترس رکھتے ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم البتہ اتنا تو علم ہے کہ علم کی بنیادی کیفیت شراکت کی ہے تو کیا وہ اس کی ترسیل کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ جواب کیا ہوگا اس سےمتعلق بھی میں یہاں حتمی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خدا نے انسان کو جتنا بھی نوازا ہےاسے بہتر انداز میں یوٹیلائز کرنا بھی سکھایا ہے، اس لیے نطق کی صلاحیت کے ساتھ ترسیل لسانی و مکتوبی سے بھی نوازا ہے۔ جسے ہم جسم اور روح سے تعبیر کرتے ہیں یعنی رسم الخط کا زبان سے وہی رشتہ ہوتا ہے جو روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ جب دنیا کی زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں برسوں سے کوئی نہ کوئی زبان بولی ہی جارہی ہے، لیکن آج بھی تاریخ میں وہی زبان زندہ ہے جسے رسم الخط نصیب ہوا اگر چہ اس تحریر کے پڑھنے والے اب دنیا سے ناپید ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی ان مجہول اشکال کے معروف معانی کی تلاش میں اصحاب لسانیات بر سر فکر ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں دنیامیں مل جاتی ہیں۔ مصر جسے اُم الثقافہ کہا جاتا ہے، جس کی زبان اور تہذیب و ثقافت کی تاریخ بہت ہی زیادہ قدیم ہے، اس سرزمین میں کتنے آسمانی صحیفے اترے اس کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے بلکہ قدیم کتب سماویہ بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہیں ہیں تو دنیا بھی اس زبان کو بھلا چکی ہے اور اب

وہاں کی اپنی زبان صرف عربی ہی ہے۔ کیونکہ دنیا ابھی بھی اس زبان کو یا درکھی ہوئی ہے جو کہیں بھی مکتوبی شکل میں موجود ہے۔ زبانوں کی بھی عجیب تاریخ ہے کب کس زبان کی بالا دستی قائم ہو جائے اور کب کون پردۂ خفا میں چلاجائے کوئی نہیں جانتا۔ مغرب و مشرق کی زبانوں کی بات کی جائے تو مغرب میں آپ کو تنوع کی وہ کیفیت نظر نہیں آئے گی جو مشرق میں خطہ بہ خطہ دیکھنے کو ملے گی۔ عرب دنیا جہاں قدیم زبانوں کی ایک بھر پور تاریخ ملتی ہے وہاں اب صرف ایک زبان رائج ہے اگر چہ ہر ملک کا اسلوب الگ الگ ہے، لیکن زبان ایک ہی بولی جاتی ہے۔ مشرق میں برصغیر اس معاملہ میں سب سے منفرد ہے ۔

آج دنیا اتنی گلوبلائز ہوگئی ہے کہ مضبوط زبانوں نے گھڑیال بن کر کمزور زبانوں کونگلنا شروع کر دیا ہے، ایسے میں زبانوں کا تحفظ بہت ہی مشکل امر ہو گیا ہے۔ یہ اس وجہ سے دیکھنے کومل رہا ہے کہ نئی نسل کی تعلیمی شروعات اُس زبان سے ہو رہی ہے جو عالمی زبان ہے۔ زبانوں کے مٹتے ہوئے اس پر آشوب دور میں بھی ہندوستان میں آئینی طور پر بائیس ایسی زبانیں ہیں جنہیں سرکاری سطح پر یکساں مقام حاصل ہے لیکن پھر بھی زبان وہی باقی رہے گی جس کا اپنا رسم الخط ہوگا ، ہندوستان کے موجودہ منظر نامے کی بات کی جائے تو ابھی بھی کئی ایسی زبانیں ہیں جو اپنے رسم الخط میں لکھی جارہی ہیں جبکہ کچھ دیوناگری میں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن چند ایسی زبانیں بھی ہیں جنہیں اپنے وجود کے ختم ہونے کا احساس ہوا تو انہوں نے قدم اٹھایا اور سہل پسندی کو چھوڑ کر اپنے لیے رسم الخط کو رائج کیا جن میں سنتھالی کی اولچکی اور منی پوری کی میتی مئی رسم الخط ہے، جو کچھ عرصہ پہلے تک بالترتیب دیوناگری اور بنگالی رسم الخط میں لکھی جارہی تھی۔ سنتھالی کو اڑیسہ میں اڑیا اور مغربی بنگال میں بنگالی میں بھی لکھا جا رہا ہے ۔ سنتھالی کے لیے باضابطہ کوئی رسم الخط نہیں تھا ، آج سے سو برس پہلے ہی اس زبان کے رسم الخط کا وجود عمل میں آتا ہے اور 2003 میں جب اسے شیڈیول 8 میں شمار کیا جاتا ہے تو اس میں اسکرپٹ کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ یہ اونچکی میں لکھی جائے گی لیکن آج میں بائیس برس بعد بھی جھارکھنڈ اس پر متفق نہیں ہے، کیونکہ انہیں تو عادت دیوناگری کی پڑی ہوئی ہے اور بطور دلیل جھارکھنڈ کے دانشوران یہی کہتے ہیں کہ سنتھالی میں زبان میں جتنی صوتیات ہیں اس کی نمائندگی اولچکی میں زیادہ نہیں ہے اور دیوناگری رسم الخط سنتھالی زبان کو بہتر انداز میں پیش کرتا ہے۔ الغرض رسم الخط کی یہ لڑائی تین صوبوں کے عوام و خواص کے درمیان جاری ہے وہ بھی صرف دسترس کی وجہ سے کہ اگر نئے رسم الخط میں لکھا جانے لگا تو سنتھال پر گنہ اس معاملے میں پیچھے رہ جائے گا، منی پوری کی اولچکی کی بات کچھ الگ ہے، آج سے ہزار سال پہلے منی پوری او لچکی میں ہی لکھی جاتی تھی کہ اچانک خارجی حکمراں کا اس علاقہ میں قبضہ ہوتا ہے اور وہ وہاں کی زبان کو متاثر کرتا ہے ساتھ ہی وہاں کے رسم الخط کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں کے باشندے اپنے اصلی رسم الخط کی جانب لوٹ رہے ہیں اور اب ساری  درسی کتابیں میتی مئیک میں ہی شائع ہورہی ہیں۔ مندرجہ بالا تناظر میں اردو کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسی زبان ہے جس نے بہت ہی تیزی کے ساتھ برصغیر میں قدم جمایا۔ بر صغیر سے باہر وسط ایشیا میں بھی اس کے قارئین اور ناطقین کی اچھی خاصی تعداد تھی لیکن سیاست کے کھیل میں یہ زبان ہندوستان میں سرکاری طور پر معتوب تصور کی جانے لگی اور اردو کے مقابلے ہندی کے فروغ نے اس کے پر کو کترنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ البتہ جہاں ہندی زبان نہیں بولی جاتی ہے وہاں اردو زبان آج بھی مضبوط حالت میں نظر آتی ہے کیونکہ وہاں اردو کے مقابلے اس کی ہم شکل ہندی نہیں بلکہ مراٹھی ، تیلگو اور کنٹر آتی ہے اس لیے وہاں اردو اچھی حالت میں ملتی ہے۔ الغرض تمام سازشوں کے باوجود اگر یہ زبان زندہ ہے تو صرف اپنے رسم الخط کی بدولت ورنہ عوام اردو بولتے ہیں اور سر کار ان سے کہتی ہے کہ آپ اردو نہیں بلکہ ہندی بولتے ہیں اور وہ یہی سمجھتے بھی ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو سامنے والا فرد یہی سمجھتا ہے کہ ہم ہندی بول رہے ہیں جب کہ ہماری زبان اردو ہوتی ہے ، ہاں جب کوئی لفظ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اردو بول رہےہیں ، جب کہ وہ بالی ووڈ کے نغمات میں تھر کتے رہتے ہیں اور انہیں ہندی اس وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ انہیں ہندی کا نام دیا گیا اور اسی رسم الخط میں وہ مشہور بھی ہے ۔ آپ ان نغمات کو نستعلیق رسم الخط میں تلاش کریں گے تو بہت ہی کم نتیجہ برآمد ہوگا ۔

اس جانب اشارہ کرنے کی وجہ یہ بھی آن پڑی کہ گزشتہ چند برسوں میں اردو زبان کو نستعلیق سے زیا دہ رومن اور دیوناگری میں فروغ دیا جا رہا ہے نیز لکھنے کی وکالت بھی کی جارہی ہے۔ اس سے اردو زبان کا وہی حال ہوگا جو ہمارے یہاں سندھی کے ساتھ ہوا۔ سندھی جس کا عربک رسم الخط عالمی رسم الخط مانا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں سہل پسندی کی وجہ سے سندھی دیوناگری میں لکھی جارہی ہے اور نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ اس زبان کے قاری اور کاتب اب مٹھی بھر رہ گئے ہیں۔ آج سے پچاس برس بعد کہیں وہی حال اردو کے ساتھ نہ ہو جائے کیونکہ سندھی کو مثال میں رکھیں تو آزادی کے بعد پہلی نسل وہ تھی جوعربی رسم الخط میں سندھی لکھتی تھی ، دوسری نسل وہ ہوئی جس نے سندھی کو دیوناگری میں منتقل کیا اور اب تیسری نسل میں مٹھی بھر ہی رہ گئے ہیں جو سندھی جانتے ہیں ۔ یہی حال ہمارا ہوگا کہ آج ہم اردو لکھ پڑھ رہے ہیں، ہماری آنے والی نسل سہل پسندی کی وجہ سے اس کو دیوناگری میں لکھے اور پڑھے گی اور بعد کی نسل وہ ہوگی جو یہ جانےگی بھی نہیں کہ اردو کوئی زبان بھی تھی۔ ایسے میں دوسری زبانیں جن کا دائرہ اردو کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے وہ اپنے رسم الخط کو لے کر بہت زیادہ متفکر ہیں اور زبان کے تحفظ کے لیے الگ رسم الخط کی تخلیق میں لگی ہوئی ہیں ،وہیں اردو کے ساتھ مختلف رویہ اپنا کر تقلیب رسم الخط کی وکالت کر کے وہ زبان کے خیر خواہ نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے آلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جسے تاریخ میں تہذیب و ثقافت کے ویلن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو بہت ہی بہتر انداز میں سمجھنا ہے تو منی پوری کی ہزار سالہ تاریخ کو پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے مذہبی بالا دستی کے لیے رسم الخط کو تبدیل کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے لیکن زبان ہی سے تہذیب و ثقافت اور مذہبی اصطلاحات میں نمایاں تبدیلی کی جاتی ہے۔

Friday, 23 August 2024

نئی نظم نیا سفر

چند سال قبل پروفیسر کوثر مظہری صاحب کے گھر پر جانے کا اتفاق ہوا. وہاں پر کئی ادبی شخصیتیں موجود تھیں، بات نثری نظم کی نکلی تو اس وقت سر نے بہت ہی ہلکے انداز میں کہا تھا کہ نثری نظم کیا چیز ہوتی ہے؟ اس کا وجود کیا ہے؟ اس کی فنی خصوصیات کیاہیں؟ اسی وقت علامہ اقبال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نظم کا اس سے بڑا شاعر اردو میں پیدا نہیں ہوا. یہ بات اسی وقت میرے ذہن میں بس گئی تھی کہ سر کسی بھی صنف کی فنی خصوصیت کو لے کر بہت ہی زیادہ پابند ہیں. 
یہ حقیقت ہے کہ نظم، غزل، مرثیہ، مثنوی، قصیدہ، رباعی قطعہ یہ سب شاعری کے اصناف ہیں. نظم سب سے جدید صنف ہے اور سب سے زیادہ ہیئتی تجربہ اسی میں ہوا ہے، اور اتنا زیادہ تجربہ ہوا کہ نظم اپنی بنیادی خصوصیت وزن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا. 
دس بارہ سطروں میں (اسے مصرع تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مصرع تو موزوں ہوتا ہے سطر زیادہ مناسب ہوگا) خیال کی داخلی تپیش پیش کرنے کا نام اگر نثری نظم ہے تو پھر یہ کیفت تمام تخلیقات میں ہوتی ہے. کوئی بھی تخلیق صنف اسی وقت ہوسکتی ہے جب اسے ایک مخصوص ڈھانچے میں پیش کیا جائے. خیر اُس وقت ذہن میں یہ بات آگئی تھی. 

میرے پاس پرسوں کے پروگرام کا کوئی دعوت نامہ نہیں آیا تھا اور نہ ہی کہیں سے مجھے کسی قسم کی اطلاع ملی تھی، اتفاق سے ایک دن پہلے اسکرین اسکرول کرتے ہوئے پروگرام کا اشتہار نظر سے گزرا تو شرکت کا ارادہ کرلیا. پروگرام میں شرکت کی غرض سے ایوان غالب کا ارادہ کیا سات بجے پہنچا پروگرام جاری تھا، کچھ اظہار خیال کر چکے اور کچھ باقی تھے. صدارتی تقریر سے پہلے صاحب کتاب کی گفتگو ہونی تھی پروفیسر کوثر مظہری اسٹیج پر تشریف لائے اور سب سے پہلے جو اعتراضات کیے گئے تھے ان کا انہوں نے ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا(مخصوص مسکراہٹ تساہلی و عدم دلچسپی کا جواب تھا) اس کے بعد جمع و ترتیب میں جو مشکلات پیش آئیں ان کا ذکر کیا جو مقدمہ میں بھی مذکور ہے. اس کے بعد صدر محترم پروفیسر عتیق اللہ تشریف لائے کتاب کے حوالے سے متفرق خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے نثری نظم کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر لیکن مستقبل نثری نظموں کا ہے. اس جملے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں بہت سارے تانے بانے قائم ہونے لگے. کون مقدم کون مؤخر، کون افضل کون غیر افضل، کون معیاری کون غیر معیاری، کون پذیرائی یافتہ کون پذیرائی کے لیے ترستا، کون نئے رستے کا مسافر کون قدیم رستے محافظ یہی سب ذہن میں چلتا رہا اور پروگرام ختم ہوگیا. باہر نکلا تو ہم عصروں اور بزرگوں سے علیک سلیک ہوا. وہاں "نئی نظم نیا سفر" کے چند نسخے بھی برائے فروخت موجود تھے جو پچاس فیصد کی رعایت سے مل رہے تھے ایک نسخہ خریدا پروفیسر کوثر مظہری کا دستخط لیا اور اپنے ٹھکانے کو لوٹا. 
اج جب کتاب اٹھا کر دیکھااور مقدمہ  پڑھنے لگا تو سب سے پہلے مجھے یہ احساس ہوا کہ ناقد کہتے کس کو ہیں. ناقد  کی زبان کیا ہوتی ہے. بالکل واضح اور دو ٹوک لہجہ میں اپنی بات کہنا، گول مٹول باتیں اور پیچیدہ جملوں کو پیش کر کے فلسفہ بگھارے کی کوشش نہیں کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر آپ اپنے نظریے میں واضح ہیں تو پھر آپ کی زبان بھی واضح ہوگی.
آپ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پروفیسر کوثر مظہری کا نثری نظم کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور وہ تنقید کے لیے کیسی زبان کا استعمال کررہے ہیں. 

"نثری نظم کے بارے میں

میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ اقرار کرتا ہوں کہ نثری نظم کو میری طبیعت بہت آسانی سے قبول نہیں کرتی۔ بلکہ بہت سے نثری نظم کہنے والوں کی نظمیں (اگر وہ نظم ہیں) دیکھ کر جی میں آتا ہے کہ ان کے خلاف تحریک چلائی جائے ، ودستخطی مہم چلائی جائے۔ بہت واضح اور دو ٹوک لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری کو شاعری ہونا چاہیے، محض لفظوں کا گورکھ دھندا نہیں ۔ کچھ ایک شاعروں کی نثری نظموں کو میں اس لیے برداشت کرتا ہوں کہ انھوں نے کچھ آزاد نظمیں بھی کہی ہوئی ہیں۔ آجکل شاعری کے مجموعوں کو اور رسالوں کو دیکھیے تو لگتا ہے جیسے نثری نظموں کی باڑھی آئی ہوئی ہے۔ شاعری کیا واقعی اس قدر ارزاں ہوگئی ہے؟ اگر شاعر تلمیذ الرحمن ہوتا ہے یا شاعری بھی ایک طرح کی الہامی کیفیت کے زیر اثر وقوع پذیر ہونے والی صورت ہے تو پھر معاف کیجیے! آزاد نظم کی توسیع کی اتنی اجازت نہیں کہ شاعری کو کھیل بنا دیا جائے۔ ایک دو شعرا سے میری بات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے معرا یا آزاد نظمیں بھی کہی ہیں ۔ معذرت خواہی کے انداز میں نفی میں جواب دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ مصرعے موزوں کرنے پر قادر نہیں ہوں گے۔ میرا تو مانتا ہے کہ اگر کوئی شاعر ہے تو وہ زندگی بھر نثری شاعری ہی نہیں کرتا رہے گا۔ کبھی تو معرا، کبھی تو آزاد شاعری بھی کرے گا۔ یہ کیا کہ منہ میں پان کی پیک دبائے سڑک سے گزرتا جارہا ہے اور آس پاس کی دیواروں پر اور سڑک کے دونوں جانب پیک کے چیھنٹے مارتا جارہا ہے۔ میرے اس طرز تخاطب سے ان شعرا کو تکلیف ہو سکتی ہے جنھوں نے کبھی ایک مصرع موزوں نہیں کیا اور پھر بھی ان کی نثری نظموں کے مجموعے منظر عام پر آتے رہے۔ کیوں بھئی! قارئین پر یہ جبر کیوں؟ وہ ایسی چیزیں/ نظمیں برداشت کیوں کریں جو ان کے دل اور دماغ دونوں کو خراب کر سکتی ہیں؟ شاعری، پہلے تو یہ ہے کہ پڑھی جاسکے۔ پڑھتے ہوئے کسی نوع کی جاذبیت، لطافت اور Rhythm کا احساس پیدا ہو۔ یعنی کوئی آہنگ تو ہو۔ آئیے اب آہنگ،  فکر اور خیال پر بھی تھوڑی سی گفتگو کر لی جائے۔

آہنگ ، خیال اور نثری نظم

داخلی آہنگ کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خارجی آہنگ کیوں نہیں؟ میرا ماننا ہے کہ پہلے خارجی آہنگ پیدا کر لیجیے پھر داخلی آہنگ بھی پیدا ہو جائے گا۔ آہنگ اگر دھیمی آنچ ہے اور اس کا مقصد مصرعوں میں پیش کردہ خیال کو کسی قدر پکانا ہے تو سوال پھر پیدا ہوگا کہ خیال اگر اندرون یعنی باطن میں ہے تو باہر سے آنچ دی جائے تو یہ خیال اندر ہی اندر پکتا رہے گا اور کسی کو آنچوں آنچ ( کانوں کان) خبر تک نہ ہوگی ۔ گرمی کس کی اہم ہے۔ خیال کی یا آہنگ کی؟ یا پھر الفاظ اور خیال کے برتے جانے کے عمل سے اگر آہنگ، وہی داخلی آہنگ پیدا ہوتا ہے تو پھر تخلیقی شعور کدھر سے داخل ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ خیال کو پیش کرنے کے لیے تخلیقی شعور کی ضرورت ہوتی ہے اور جب یہ دونوں ملتے ہیں تو مرحلہ آتا ہے اس کی پیش کش کا جس کے لیے الفاظ و تراکیب کی ضرورت پڑتی ہے۔ نثری نظموں کے شعرا مانتے ہیں کہ ان کے خیال کی جولانی کے لیے معرا اور آزاد دونوں کی عروضی پابندیاں حارج ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کے شعرا کے خیال کا کہنا ہی کیا؟ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ان شعرا کی فکری بلندی علامہ اقبال کی شاعری میں پیش کی جانے والی فکر سے عظیم تر ہے؟ حالانکہ اقبال سے پہلے ہی...... "
آگے کی تحریر کے لیے کتاب حاصل کریں.

Saturday, 27 July 2024

مونو گراف اختر انصاری دہلوی

مونو گراف اختر انصاری دہلوی  

مونوگراف بھی ایک عجیب قسم کی کتاب ہوتی ہے ۔ اول یہ کہ مونو گراف ہر کوئی لکھ کرشائع نہیں کرسکتاہے اب تک کے مشاہدہ کے مطابق صرف سرکاری ادارے ہی اس کو شائع کرتے ہیں ۔ دوم یہ کہ بذات خود کوئی مونوگراف کا مصنف نہیں بن سکتا ہے بلکہ اس میں مصنف بننے کا اعزاز اداوں کی جانب سے سونپا جاتا ہے ۔ سو م یہ کہ ہر ایک شخصیت پر مونوگراف نہیں لکھا جاتا ہے چہ جائے کہ پی ا یچ ڈی کا مقالہ کسی بھی صاحب تصنیف شخصیت پر تحریر کیا جاسکتا ہے اورمونوگراف کے لیے شخصیت کا ’’ادب کا ستون ‘‘ کے مانند مشہور ہونا ضروری ہے اور ان پر کئی کتابیں اور مقالے بھی تحریر میں آچکے ہوں ۔ چہارم یہ کہ صاحب مونوگراف کا سفر آخرت کو گئے کم از کم دہائی تو گزر ہی گئی ہو ۔ خیر یہ سب غیر سنجیدہ باتیں تھیں جنہیں سنجیدگی سے بھی لیا جاتا ہے ۔ 
مونوگراف میں فن اور شخصیت ہی پیش کیا جاتا ہے البتہ اس کو کتاب سے کمتر تصور کیا جاتا ہے ،جیسے ناول کے مقابلے ناولٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے صفحات میں اضافہ ہونے لگا اور اب باضابطہ کتاب کے مقابل آنے لگا ، جس سے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ موصوف کی شخصیت و فن پر جو دوسری کتابیں لکھی گئی ہیں وہ ناکافی ہیں اور یہ مونوگراف ان کی شخصیت و جملہ علمی آثار کے تجزیے پر بھرپور ہے ۔ اسی قبیل سے یہ مونوگراف بھی ہے جس کے مصنف ڈاکٹر عادل حیات ہیں ۔ڈاکٹر عادل حیات نے ایم فل اختر انصاری دہلوی کی غزل گوئی پر کیا ہے اور پی ایچ ڈی غزل کی تنقید پر ہے ۔ دونوں پر کتابیں بھی منظر عام پرآچکی ہیں ۔ تنقید کی دنیا میں تو انہوں نے بعد میں قدم رکھا لیکن غزل کی دنیا میں وہ بیسویں صدی کے آخری دہائی میں ہی قدم رکھ چکے تھے۔ اسی عہد میں بچوں پر نظم و نثر کی کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں پھر نظم ، غزل اور رباعی کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ۔ گوشہ نشیں شخصیت ہیں لیکن تحریریں ہر مقام پر نظر آجاتی ہیں ۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ ان کا پہلا مونوگراف ہے لیکن اس قد ر بھر پور ہے کہ شاید ہی اس کے مقابل اختو انصاری پر کوئی اور جامع کتاب ہو ۔ اس کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق تحقیق کا عنصر نمایاں ہے جہاں انہوںنے حقائق کو واضح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علمی زندگی کی جانب سفر کرتے ہیں تو ’’شعری جہات میں ‘‘ قطعہ نگاری ، نظم نگاری ، غزل گوئی ، رباعیات اختر اور مثنوی روداد داغ پر بھر پور تنقیدی و تجزیاتی گفتگو ملتی ہے ۔ عادل حیات چونکہ خو د ایک عمدہ شاعر ہیں تو انہوں نے تجزیہ و تنقید کے نام پر محض نثر ی قصیدہ نہیں لکھا ہے بلکہ فنی باریکیوں پر بھی گفتوکی ہے اور موضوعات کا جو سائیکل اختر انصار ی کے یہاں نظر آتا ہے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے ۔ تنقید کے میدان میں اختر انصاری ترقی پسند کے ترجماں تھے لیکن وہ بھی واضح اور صحیح سمت دینے کے لیے آخری عمر تک الزامات کا ہی جواب دیتے رہے ۔ غزل تنقید میں اختر انصاری نے جو بات لکھی ہے وہ اب تک مجھے ویسی ہی نظر آتی ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ غزل کو سمجھنے اور سمجھانے میں اس کی حقیقی اقدار کو جاننے اور پہچاننے میں ہماری تنقید کا نشانہ بارہا خطا کیا اور یہ سلسلہ موجودہ دور تک پہنچتے پہنچتے تو ’تیر نہیں تو تکا ہی سہی ‘ والی بات ہوکر رہ گئی اور شاعر و نقاد دونوں بلکہ شاعر اور نقاد اور قاری تینوں کے ہاتھ سے غزل کا سرا ہی چھوٹ گیا ۔‘‘ اس معاملہ میں بات مزید آگے بڑھ گئی ہے اور تنقید غزل کی داخلیت سے نکل کر خارجیت کے برجو ں میں سفر کرتی ہوئی نظر آتی ہے یہ غزل کے ساتھ دیگر اصناف میں بھی جنون کی حد تک دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ اختر انصاری کے دیگر ادبی اصناف میں روزنامچہ نگاری، خود نوشت، خطوط نگاری ، ترجمہ نگاری اور تعلیم و تعلم پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک جامع و مانع مونوگراف ہے جس کی اشاعت پر اردو اکادمی دہلی اور ڈاکٹرعادل حیات دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

Friday, 12 July 2024

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

 

صبوحی طارق کا تخلیقی ترجمان ’’درد کا گلاب ‘‘

ڈاکٹرامیر حمزہ 
 نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ. انڈیا



جھارکھنڈ میں اردو افسانے کی ماضی حال اور مستقبل کی بات نہ کر تے ہوئے اگر صرف افسانہ نگاری پر بات کی جائے تو صبوحی طارق کا نام اہم افسانہ نگار کے طور پر درج ہوتا ہے ۔ صبوحی طارق کی پیدا ئش 15 اگست 1948 کو حیدرآبا د میں ہوئی تھی اور وہ بارہ برس کی عمر میں رانچی میں مقیم ہوچکی تھیں ۔ 1960 تا عمر رانچی میں ہی مقیم رہیں اور درس و تدریس کے ساتھ ادب کی خدمات انجام دیتی رہیں ۔ان کا پہلا افسانہ ’’جنگلی پھول‘‘ ماہنامہ ’ عفت ‘ کراچی میں 1962 شائع ہوا ۔ اس کے بعد تاعمر تقریبادو سو افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ صبوحی طارق افسانوی درجہ بندی کے فن سے بخوبی واقف تھیں اس کا احساس اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ’’درد کاگلاب ‘‘ 1987 میں شائع ہوتا ہے اور اس میں صرف بارہ افسانے شامل کیے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد تیس بر س کی زندگی میں بھی وہ اپنا دوسرا افسانوی مجموعہ نہیں لاسکیں ۔ شاید انہیں اس بات کا احساس رہا ہوگا کہ ہر افسانہ افسانوی مجموعہ میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہے ۔
’’درد کا گلاب‘‘ ایک افسانوی مجموعہ ہے اور اسی مجموعے کا آخر ی افسانہ بھی ہے ۔ افسانہ نگار کی بات کی جائے تو انہوں نے ترقی پسند تحریک کو قریب سے دیکھا ہے اور جدیدیت کے دور کو مکمل طور پر جیا ہے ۔ ان دو بنیادی معلومات کے بعد بہت ساری چیزیں قاری کے ذہن میں واضح ہوجاتی ہیں لیکن یہ بھی واضح رہے کہ موصوفہ کا کسی بھی ادبی گر وپ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جیسا کہ انھوں نے خودلکھا ہے ’’ جہاں تک ادبی اور غیر ادبی تحریک سے وابستگی کا سوال ہے تو شاید میں وہ گنہگار ہوں جو کبھی بھی اس کار نیک میں حصہ نہیں لے سکی ۔‘‘ ان کے اکثر افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوںنے مختلف موضوعات کے ساتھ رومانیت کی تھیم میں مسائل کی پیش کش کو فوقیت دی اور اس طوفانی دور میں انہوں نے اپنی الگ راہ منتخب کرکے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ گروہ سے الگ رہنے پروہ ایک گفتگو میں کہتی ہیں ’ ’ایک حساس انسان کے لیے مخصوص محرکات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اور بھاگتے وقت سے وہ کسی بھی ایسے لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جو اس کے احساسات و جذبات کوچونکا دے ۔ ممکن ہے میں افسانے صرف اس لیے لکھتی ہوں کہ میرے احساسات کو زباں مل سکے ۔‘‘ یقینا ہر فنکار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے احساسات کو بہتر طریقے سے اپنے فن میں اتار سکے ۔صبوحی طارق نے بھی اپنے احساسات کو افسانے کے پیرائے میں پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پچاس سالہ ادبی سفر میں موصوفہ نے اپنے اہم احساسات کو جب قلم وقرطاس کے ذریعہ زندگی دینے کی کوشش کی تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کرگئی ۔ اسی کی ایک کڑی ’’در د کا گلاب ‘‘ہے ۔ 
مذکورہ افسانہ صبوحی طارق کے دیگر افسانوں سے بطور موضوع اور تکنیک خاصا منفرد اور جدا ہے ۔جیسا کہ ماقبل کے ناقدین نے ان کے اکثر افسانوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ موصوفہ کے یہاں رومانس نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ اور جب ایسے موضوع پر لکھا جاتا ہے تو اس کی زبان میں بھی ایک جمالیات نظر آتی ہے جس کی بدولت اس کے تراکیب و استعارہ کی دنیا الگ ہوجاتی ہے اور قرأت میں بھی ایک قسم کی روانی پائی جاتی ہے لیکن یہ افسانہ دیگر افسانوں کے مقابلے بالکل الگ ہے ۔افسانہ ایک منجھے ہوئے ادیب کی زبان کے انداز میں شروع ہوتا ہے جہاں ہر جملہ قاری کوایک غیر متعین تھیم کی سیر کراتا ہے اور کہانی میں پیچیدگی داخل ہوتی چلی جاتی ہے ۔ پر وفیسر شین اختر موصوفہ کے افسانوں کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’ یہ جدید کہانیاں نہیں لکھتیں ، یہ خود ساختہ علامتی افسانے بھی نہیں ہیں بلکہ ان میں جو اسرار و رموز ہیں وہ قابل فہم ہیں۔ان کا ہمار ی تہذیبی ، مذہبی اور سماجی زندگی سے گہرا رشتہ ہے یہ رشتہ علائم کی شکل میں ان دو کہانیوں(اذانوںکے پہرے ، کندھوں کا کتبہ) میں ابھر ے ہیں ، یہ فلسفیانہ علائم نہیں ہیں بلکہ انہیں عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔یہاں ترسیل کا کوئی المیہ نہیں ہے ، یہ کہانیاں قاری کو پیچھے نہیں چھوڑتیں ، اس کے ذہنی تفکر اور اپنے تخلیق کے درمیان ناقابل عبور خلیج نہیں پیدا کرتیں بلکہ یہ علائم اس کی رہنمائی کرتے ہیں ۔اشاروں سے حقائق تک پہنچنے کا یہ تخلیقی عمل ایک با شعور فن کار کی کامیابی کی سب سے اچھی مثال ہے ۔‘‘ یہ تو ان کے دو مخصوص افسانوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے جہا ں پر وفیسر شین اختر کاانداز تحسین و تدفیع دونوں جھلکتا ہے ۔ تحسین کا پہلو یہ ہے کہ ان کے دوافسانوں میں علامتوں کے عمومی استعمال سے افسانو ں کی خوبصورتی نمایا ں ہورہی اور اس زمانہ کے ادق اور اغلق علامتوں کے رواج  سے کنارہ کشی اختیار کرکے موصوفہ خود کو ایک باشعور فن کا ر ہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ لیکن تدفیع کا پہلو یہ ہے کہ عمومی علامتوں کااستعمال افسانوں میں کوئی جدت یا نیا پن نہیں ہے بلکہ افسانہ کی ابتدا سے یہ روایت چلی آرہی ہے اس لحاظ سے تقریباً ہر تخلیق کار کے افسانوں میں یہ خیر و شر بطور علامت دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ عمومی علامتوں کے استعمال میں جدت تو یہ ہوتی کہ وہ علامتیں خود تراشی جاتیں اور قاری کے فہم سے قریب تر ہوتیں جیسا کہ شاعری میں خوبصورت تراکیب کی اہمیت ہوتی ہے جو عمدہ بندش الفاظ کو سامنے لاتی ہیں ۔ شین اختر صاحب عمومی خوبصورتی کو خصوصی خوبصورتی کے پیرائے میں پیش کرکے چلے گئے لیکن جب میں نے اپنے نظریے سے ’’اذانوں کے پہرے ‘‘کودیکھا تو وہ مجھے ایک عجیب فضا میں تخلیق کردہ افسانہ نظر آیا جہاں مخلوق خالق کے سامنے خود کلامی میں مصروف ہے ، شروع سے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ یہاں افسانہ نگار ہیں اور ان کا معبود ۔شروع میں توایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بال جبریل کی پہلی غزل کا موضوع ہو لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا کہ موصوفہ نے شکوہ کو پیش کردیا ہے اور پھرآخر میں دعا ہے ۔ جب کہ’’ کندھو کا کتبہ‘‘ کی فضا تو یہی ہے لیکن دنیا الگ ہے ۔ دونوں میں کہانی نہیں ہے صرف خود کلامی ہے ۔ اب’’گلاب کا در د‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی دنیا کچھ اس طر ح ہے کہ وہاں کہانی بھی ہے اور مکالمے بھی ، منظر نگاری بھی ہے اور شعور کی رو بھی ۔ افسانہ کسی ایک لمحہ میں قید بھی ہے اور لمحے سے باہر زندگی کی نمائندگی بھی کر تا ہے۔ اس میں زبان کی مٹھاس بھی ہے اور فلسفے کا آمیزہ بھی ۔ 
افسانہ ایک تاریک منظر نامے سے شروع ہوتا ہے ’’ وہ گرہن کی رات تھی ‘‘ اور ٹرین کا سفر تھا اس موقع پر تاریک رات کی جتنی عمدہ منظر کشی ہوسکتی تھی وہ مکمل طور پر اس میں نظر آتی ہے جسے ایک ذی روح کی مانند پیش کیا گیا ہے۔ کیا خوب تاریکی ہے کہ ’’ جیسے ہی ٹرین نے سرنگ کے اندر جھانکا اندھیرا کسی گھبرائے ہوئے مسافر کی مانند کمپارٹمنٹ در آیا وہ آنکھیں پھاڑے باہر تکتی رہی‘‘ ۔ ماحول مکمل طور پر تاریک ہے لیکن اچانک کوئی حسین لمحہ ذہن میں یوں کوندتا ہے جیسے ’’ کہیں کہیں روشنی جگنوکی مانند لپکتی اور غائب ہوجاتی ہے‘‘ اور جب ماحول ایسا ہوتا ہے تو افسانے میں دو چار سطرو ں کی داخلی خود کلامی کا عنصر لاکر افسانہ کو مکالمے کی جانب لایا جاتا ہے اور پہلا مکالمہ یوں ظہور پذیر ہوتا ہے کہ ’’ حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا حارث کیا یہ راستہ واپس نہیں جاتا ، کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم راہ کے پتھر ہی بنے رہ جائیں ‘‘جواب میں بھی مکالمہ آتا ہے جہاں تاریک ماحول سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اچانک کہیں دور موہوم سا شعلہ لپکتا ہے شاید کسی نے سگریٹ جلائی ہو ۔دور اور موہوم کی مناسبت سے افسانہ نگار کردار کو فوراً ماضی میں لے جاتی ہیں جہاں اس جانکاہ حالت میں موجودہ کہانی میں ایک ماضی کی واقعہ نگاری پیش کی جاتی ہے جب صابی بچی تھی تب اس نے ابو سے تنک کر کہا تھا کہ ’’ ابو ! ڈاکٹر نے تو سگریٹ کا نام زہریلا بتایا تھا ۔ لیکن بیٹا یہ تو چار مینا ر ہے( چار مینار کی مناسبت بھی کیا خوب ہے کہ یہاں صبوحی طارق نے اپنا بچپنا شہر کے ساتھ جوڑ دیتی ہے ) میں نہیں جانتی آپ ہمیشہ ۔سنو … تم نے اسکول کا کام پور ا کر لیا ، ہمیشہ کی طرح وہ بات بدلتے ۔ ‘‘خود کلامی ، مکالمہ اور شعور کی رو کے بعد پھر افسانے میں ایک قسم کا سناٹا چھا جاتا ہے اور پھر ذہن میں بے شمار پیدا شدہ خیالات سے افسانہ آگے بڑھتا ہے جہاں باپ اور بیٹی کے درمیان اتھاہ محبت کا سیلاب مانند لہروں کے موجودہ وقت سے ٹکرا رہا تھا ۔ افسانہ نگار اسے بہت چابکدستی سے ابو کے یومیہ طرز زندگی میں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ لمحہ بہت طویل ہوتا ہے تو صرف فجر کے وقت کا منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔پھر یادوں کے حسین لمحات کو وہ یادوں کے بوجھ میں تبدیل کرتے ہوئے فوراً وقت حاضر میں آجاتی ہیں اور خودکلامی میں یہ مکالمہ سامنے آتا ہے ۔’’ماں ! یہ کیسی صبح ہے … یہ کیسے ہنگامے ہیں۔ کسی دن کو تو ، تم چپ کر دو ‘‘ وقت حاضر میں اب تک افسانہ چل رہا ہے لیکن اچانک افسانہ میں ایک بہت بڑی تبدیلی سامنے آتی ہے جس سے قاری بھی متوقع نہیں ہوتا اور نہ ہی کہیں سے پہلے اس تبدیلی کا کوئی اشارہ ہوتا ہے ۔ کیفیت حال کا یو ں بیانیہ سامنے آتا ہے ’’ ماں … میں تھک گئی ہوں ما ں ! … بے پناہ ! … اس کی آواز امڈتی اور وہ ماں کے شانے پر سر رکھ دیتی ۔ ماں ایک نظر اس پر ڈالتیں ۔ اس کے سر کو سہلاتیں جیسے کہہ رہی ہوں یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ وہ گھبرا سی جاتی…کسی کو توکچھ نہیں ہوا ۔ سب تو سوئے پڑے ہیں ۔ ‘‘ یہاں افسانہ نگار نے کس خوبصورتی سے خواب کی دنیا کی کیفیت کو افسانے میں سمو یا ہے جو موضوع سے مناسبت اور کہانی کو معنی خیز طور پرآگے لے جانے میں بہت ہی زیادہ ممدو معاون ثابت ہورہا ہے۔ اب تک کہانی کی بُنَت کودیکھیں تو رات کی تاریکی سے شروع ہوئی کہانی خواب کے خاتمہ کے ساتھ صبح کی کرن میں آچکی ہے ۔ اب ماحول میں ہلکا پن آتا ہے اور سورج کی روشنی کے ساتھ زندگی کا روشن پہلو بھی شامل ہوجاتا ہے ۔اب کہانی میں وہ مرحلہ سامنے آتا ہے جس کے لیے کہانی بنی جارہی ہے یعنی صابی جو اب تک کہانی کو لیڈ کررہی تھی اس کی زندگی میںحارث کا آجانا ۔ وہ لفٹ کی ایک موہوم کیفیت میں سامنے آتا ہے جہاں’’ وہ حارث کی شناسا بھی نہیں اور حارث اس کو ناآشنا نہیں سمجھتا ‘‘ ایسے میں ایک مشفق باپ کی فکر سامنے آتی ہے جس سے تقریباً ہر ایک باپ گزرتا ہے کہ اپنی بچی کی شادی کہیں دور کیوں کرے کہ وہ رشتے کچے دھاگے کی مانند ہوتے ہیں ۔ایسے میں کہانی میں ابو اور امی کے مکالمے سامنے آتے ہیں جہاں امی رشتہ کی وکالت کرتی ہیں تو ابو خود کو حوصلہ نہیں دے پارہے ہیں ۔ ابھی تک کہانی میں کئی مناظر اور واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن سب ایک بڑے دائرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائروں میں بالتر تیب لڑی کی مانند پروئے جارہے ہیں ۔اب ایک نیا دائرہ سامنے آتا ہے لڑکی کی شادی میں باپ کی تکلیف کا کہ اس کی بچی اس سے کتنی دور چلی جائے گی اور وہ اسے دیکھ بھی نہیں پائیں گے ۔ کہانی کا یہ دائرہ بیٹی اور باپ کی کشمکش میں پروان چڑھتا ہے اور پھر باپ کی زبان سے وہ جملے ادا ہوتے ہیں جو اس کہانی کا محرک بنتے ہیں ۔’’ بیٹی تو درد گلاب ہوتی ہے ، اپنے پیچھے دکھ و جدائی کے کانٹے ہی تو چھوڑ جاتی ہے ۔ یہ درد میں سہن کرلوں گا بیٹا ! تم آبادرہو …‘‘اب اس کے بعد یقینا سفر کامنظر سامنے آئے گا اور کہانی ٹرین کے سفر کی جانب رواںہوگی لیکن افسانہ نگارکا کمال یہاں سامنے آتا ہے کہ انہوں نے شروع میں قاری پر یہ قضیہ واضح ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کون سا سفر ہے ، رخصتی کے بعد کا سفر یا وہ سفر جس کا ذکر صابی کے مکالمے میں آتا ہے کہ ابا میں جلدی لوٹوں گی ۔ اس بیچ پھر طوفان و بارش کا سامنا اور صابی کے ذریعہ یہ باور کرانا کہ اس طوفانی بارش میں ابو اس کا خیال رکھ رہے ہیں ۔ لیکن دونوں میں واضح ہوتا ہے کہ یہ حارث کے ساتھ ابو کے پاس واپسی کا سفر ہے جسے بہت ہی خوبصورتی سے افسانے کی ملول و مغموم فضا میں پرویا جاتا ہے کہ افسانے کا آخری منظر سامنے آتا ہے ۔ ’’ بابل کے دروازہ پر حارث نے اس کو سہارا دیا ۔ بھائی نے لپک کر اس کے کانپتے وجود کو تھام تھام لیا ۔ بڑی دیر کردی ۔ میرا تار ملا تھا نا !۔ جانے کیوں حارث بھائی ، ابو بہت چپ تھے ، بہت خاموش تھے ، انھوں نے کسی سے بھی کچھ نہ کہا ، صابی کے بارے میں کچھ نہ پوچھا اور ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ ‘‘ 
 گر ہن کی تاریک رات سے شروع ہونے والا افسانہ زندگی کے ایک تاریک عنصر پر ختم ہوتاہے ۔ افسانہ کی تکنیک پر مکمل طور پر یہ گفتگو کا مقام نہیں ہے البتہ اشارات سے بہت کچھ سامنے آچکا ہے ۔ اس افسانہ کی سب سے بڑی خوبی میرے سامنے یہ ہے کہ اس خوبصورتی سے افسانے کو موصوفہ نے ترتیب دیا ہے کہ صابی کا داخلی کرب خارجی حالات سے مکمل طور پرمیل کھاتا ہے ۔ افسانہ کا پلاٹ پورے طور پر گٹھا ہوا ہے جس میں کہیں سے بھی کسی قسم کا ڈھیلا پن مجھے نظر نہیں آتا ۔ زبان و بیان میں کہیں بھی کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے ۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موصوفہ نے خود کو بھی اس افسانہ میں پیش کیا ہے لیکن اگر کوئی افسانہ نگار سے واقف نہیں تو وہ اس احساس تک پہنچ بھی نہیں سکتا ۔ الغرض جن بزرگوں نے افسانہ کے متعلق چاول پر قل لکھنا کہا ہے وہ صبوحی طارق کے اس افسانے میں بخوبی نظر آتا ہے ۔ 
آخر میں اس امر کااظہار کرنا مجھے خود تعجب میں ڈال رہا ہے کہ پروفیسر شین اختر نے اور نہ ہی ڈاکٹر طہ شمیم نے مذکورہ افسانہ کا ذکر کیا ہے ۔ یقینا صبوحی طارق کو اس بات کا ملال رہا ہوگا کہ ان کے افسانوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور جن لوگوں نے توجہ دی ہے تو انہوں نے محض ضمنی طور پر انہیںشامل کرلیاہے ۔ 

Thursday, 11 July 2024

ادبی جرنل

  ادبی جرنل 

 مدیر ڈاکٹر ہمایوں اشرف 



ہندو ستان کے صوبائی تناظر میں اگر ادبی صورتحال کی بات کی جائے تو جھارکھنڈ کو صف اول میں ہی رکھا جائے گا جب کہ جھارکھنڈ میں نہ تو کبھی کوئی دبستان رہا ہے اور نہ ہی وہاںپر کوئی قدیم ادبی روایت نظر آتی ہے ۔پھر بھی جھارکھنڈ میں لسانی و ادبی صورتحال اس قدر پختہ ہے کہ ہر شہر میں آپ کو ادبی کہکشاں نظر آجائے گی ۔ وہاں پر ہمیشہ ادبی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں ، تخلیق ، تنقید اور تحقیق میں بھی ایسے نمایا ں نام نظر آتے ہیں جن کا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ یہ تو محض میرا دعویٰ ہے لیکن اس دعوے کی دلیل آپ کواس ادبی جرنل میں بخوبی پڑھنے کو ملے گا جسے بہت ہی کدو کاوش کے ساتھ ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے مرتب کیا ہے۔ یہ مجلہ شعبہ اردو ونوبا بھاوے یونی ورسٹی کا شاہکار سالانہ ادبی جرنل ہے۔ 2023 کا یہ مذکورہ شمارہ جھارکھنڈ کے اردو شعرا و ادبا پر مختص ہے ۔ میرے خیال میں جھارکھنڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے جھارکھنڈ سے شائع ہونے والا یہ پہلا ادبی دستاویز ہے ، دستاویز میں اگرچہ بہت کچھ سمیٹا جاتا ہے لیکن محدود صفحات اور محدود وقت میں سارے علاقات کو سمیٹ لینا ایک محال امر ہے پھر بھی اس ضخیم رسالہ میں فکشن ، شاعری اور تنقید و تحقیق سے تعلق رکھنے والے حتی الامکان شخصیات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے پھر بھی تشنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن تشنگی تو دلکشی کی علامت ہوتی ہے تو وہ باقی ہی رہے گی ۔ اس کتابی مجلہ سے قبل جامعات سے جھارکھنڈ کے حوالے سے تحقیق مقالے سامنے آئے ہیں ، ایک زمانہ تھا جب مقالوں کے دامن بہت ہی وسیع ہوتے تھے لیکن اب اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ آپ کو ہر مقالے میں ’’کے حوالے سے ‘‘ کا لاحقہ پڑھنے کو مل جائے گا ، جب کہ یہ میگزین کسی بھی سابقہ اور لاحقہ سے خالی ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علاقہ جھارکھنڈ میں قیام پذیر خواہ وہ چھوٹا ناگپور سے ہوں یا سنتھال پرگنہ سے سبھی کی ادبی خدمات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تاہم مدیر محترم کی عاجزی و انکساری بھی ہے کہ انہوںنے اداریہ میں برملا اظہار کیا ہے کہ حتی الامکان سبھی کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم کئی شخصیتیں ایسی ہوںگی جن کا ذکر چھوٹ گیا ہوگا انہیں مستقبل کے شماروں میں ضرور شائع کیا جائے گا ۔ 

مجلہ کو بنیاد ی طور پر پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ اول :ابتدائیہ ، دوم: جھارکھنڈ شاعری کے حوالے سے ، سوم : جھارکھنڈ فکشن کے حوالے سے ، چہارم : جھارکھنڈ تحقیق و تنقید کے حوالے سے ، پنجم : شعبہ کی سر گرمیا ں ۔ ابتدائیہ میں اداریہ کے علاوہ چھ مضامین بھی ہیں وہ مضامین شاعری کے حوالے سے ہیں یا فکشن کے حوالے سے لیکن انہیں ابتدائیہ میں رکھا گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ان میں عمومی طورپر جھارکھنڈ کے چند نمایاں ادبی خدمات کا جائزہ لیاگیا ہے ۔ جیسے جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار ، خواتین کے خواتین افسانہ نگار اور جھارکھنڈ میں طنز و مزاح وغیرہ ۔ڈاکٹر زین رامش نے جھارکھنڈ کی خواتین افسانہ نگاروں میں تقریبا بیس سے زائد خواتین افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق شہر آہن جمشید پور سے ہے ۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف اپنے مضمون ’ جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار‘ میں گیا رہ غیر مسلم افسانہ نگاروں کاذکر کرتے ہیں او ر اتفاق سے اس میں بھی اکثریت سکھوں کی ہے ۔ رسالہ کے شاعری کے حصہ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو جھارکھنڈ میں اردو شاعری کی عظیم روایت نظر آتی ہے جس میں سہیل واسطی ، شمیم ہاشمی ، صدیق مجیبی ، وہاب دانش، سرور ساجد ، سید شمیم احمد، شیدا چینی ، انور ایرج، عقیل گیاوی، پرکاش فکری، شان بھارتی ، اظفر جمیل ، وقار قادری، نادم بلخی ، ارمان بہاری ، مقبول منظر ، وہاب دانش ، حیرت فرخ آبادی ، اسلم بدر، مہجور شمسی، اختر مدھوپوری اور شعیب راہی کی شعری کائنات پر ڈاکٹر منظر حسین ، پروفیسر کوثر مظہر ی ، ڈاکٹر راشد انور راشد ، ڈاکٹر قیصر زماں و دیگر کی تحریروں نے ادبی جرنل کو وقار بخشا ہے ۔

 ’جھارکھنڈ : فکشن کے حوالے سے ‘  میںغیاث احمد گد ی ، الیاس احمد گدی، کہکشاں پروین ، منظر کاظمی ، پرویز شہریا ر ، انور امام ، اختر آزاد ، احمد عزیز ، گلزار خلیل ، اسلم جمشید پوری ، ش اختر ، خورشید جہاں ، مسعود جامی اور شیریں نیازی کی فکشن خدمات یا ان کے کسی ایک فن پر 19 تحقیقی و تنقیدی مضامین سے اس رسالہ کی وقعت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔اس حصے کے چند اہم مقالہ نگار پروفیسر قمر جہاں ، ،مشرف عالم ذوقی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر کہکشاں پروین، پرو فیسر شہاب ظفر اعظمی ، ڈاکٹر رونق شہری ،ڈاکٹر سید احمد قادری و دیگر ہیں ۔ 

’جھارکھنڈ : تحقیق و تنقید کے حوالے سے ‘ ‘ میں پرو فیسر منظر حسین ، ڈاکٹر حسن نظامی ، نادم بلخی ، وہاب اشر فی ، ش اختر ، پروفیسر ابو ذر عثمانی ، ڈاکٹر احمد سجاد ، منظر شہاب ، سید منظر امام ، ظہیرغازی پوری ، جمشید قمر ، پرو فیسر ارشد اسلم ، ڈاکٹر ہمایوں اشرف اور ڈاکٹر محمد یو نس کی تنقیدی و تحقیقی فتوحات کا ذکر بخوبی کیا گیا ہے۔ تحقیق و تنقید کے اس حصہ کو پر فیسر احمد سجاد ، اسلم بدر ، ڈاکٹر سر ور حسین ، ڈاکٹر سید ارشد اسلم ، امام اعظم اور دیگر کئی نئی نسل اور نئی فکر کے حامل قلمکاروں سے سنوارا گیا ہے ۔  مذکورہ بالا عظیم اسما پر جب آپ کی نظر گئی ہوگی تو محسوس ہوا ہوگا کہ جھارکھنڈ کی سرزمین نے اردو ادب کو نمایاں جواہر پارے دیے ہیں ۔ ان میں سے کئی ایسی شخصیتیں ہیں جو اپنی لازوال نگارشات کی وجہ سے اس فن میں عدیم المثال ہیں۔ اردو نے انہیں کبھی بھی علاقائی تناظر میں نہیں دیکھا ہے لیکن جب کہیں پر علاقائیت کی بات آتی ہے تو وہاں فخریہ اندا ز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاں فلاں ادیب کا تعلق فلاں علاقے سے ہیں ۔ شروع میں مَیں نے جھارکھنڈ کے ادبی منظر نگاری کو صف اول میں رکھا تھا اس کی وجہ اس مجلہ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔نیز اس مجلہ میں جن شخصیات کی تحریریں شامل ہیں ان سب کا تعلق جھارکھنڈ کی نئی نسل سے ہے او ر ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو موجودہ نئی نسل میں نمایاں شناخت کے حامل ہیں جسے تیار کرنے میں وہاں کی یونیورسٹیوں کا نمایاں رول رہا ہے ، خصوصاً ونوبا بھاوے یونی ورسٹی نے اپنے قیام کے محض اکتیس بر س میں جو نئی نسل تیار کی ہے وہ بھی قابل اعتنا ہے ۔مدیر محترم ڈاکٹر ہمایوں اشر ف کو مبارکباد نیز امید ہے کہ ادبی جرنل کے اس شمارہ کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی ۔


صفحات  525

 قیمت 500 روپے

ناشر  شعبہ اردو ،ونوبابھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ ، جھارکھنڈ

مبصر ڈاکٹر امیرحمزہ ، نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ 

Tuesday, 9 July 2024

ترجمہ سے ترجمانی تک

  ترجمہ سے ترجمانی تک

ڈاکٹر امیر حمزہ



’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.

فقلت ماسمک

فقال لو لو

فقلت لی لی

فقال لالا

جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔

اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق

منارتہ تزہو علی الفخر والزینٖ

تقول وقد مالت علیّ ترفقوا

فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت

و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ

قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 

وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں

شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔

اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,

Humpty Dumpty had  a great  fall,

All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men

Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.

اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں

ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت

ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ

راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے

ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن

دہی چھٹاکن

آلو بیگن

کھٹا چورن

گھنگرو باجے

چھن چھن چھن چھن

گھنٹہ بولا

ٹن ٹن ٹن ٹن

ہنستے گاتے

چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔

’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

قاری کا فقدان

دریچہ  ڈاکٹر امیرحمزہ   اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یون...