Friday, 25 April 2025

اردو کا ڈیجیٹل ارتقا اور مصنوعی ذہانت

 

اردو کا ڈیجیٹل ارتقا اور مصنوعی ذہانت 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو زبان و ادب کے لیے مواصلات کے متعدد ذرائع ہمارے سامنے موجود تھے۔ دیہاتوں میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ریڈیو مواصلات کا سب سے اہم ذریعہ تھا جس کے ذریعہ خبریں، زبان و ادب سے متعلق پروگرامز اور مختلف قسم کے تبصرے لاکھوں سامعین تک پہنچتے تھے۔ اس کے بعد ٹیلی ویژن نے تیزی سے اپنی جگہ بنائی لیکن اُس دور میںریڈیو کو جو اہمیت اور وقار حاصل تھا، وہ ٹیلی ویژن کو نہ مل سکا کیونکہ ریڈیو پر زبان و ادب کو خاصی توجہ اور وقت دیا جاتا تھا، جبکہ ٹیلی ویژن کی دنیا میں، باوجود بصری سہولیات کے، ادبی مباحث کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اس کا کمرشل ہونا ہو سکتی ہے، جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم الیکٹرانک سے ڈیجیٹل مواصلات کی طرف منتقل ہوگئے اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہوا۔ آئیے، پہلے ان دونوں کے بنیادی فرق کو سمجھتے ہیں۔

الیکٹرانک کمیونیکیشن سے مراد معلومات (پیغامات، ڈیٹا، آواز یا تصاویر) کو الیکٹرانک آلات اور برقی سگنلز کے ذریعے منتقل کرنا ہے۔ یہ ایک وسیع اصطلاح ہے جو ہر قسم کے برقی مواصلات کو شامل کرتی ہے، خواہ وہ اینالاگ ہوں یا ڈیجیٹل۔ تکنیکی طور پر، اس میں برقی سگنلز (الیکٹرک کرنٹ یا وولٹیج) کا استعمال ہوتا ہے جو معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ یہ سگنلز اینالاگ (مسلسل لہروں کی شکل میں) یا ڈیجیٹل (0 اور 1 کی شکل میں) ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات (جو پہلے اینالاگ تھیں، اب زیادہ تر ڈیجیٹل ہیں)۔

ٹیلی فون کالز (جو ابتدا میں اینالاگ سسٹم پر مبنی تھیں، اب موبائل فونز میں ڈیجیٹل ہو چکی ہیں)۔

تار (ٹیلی گراف) جو خالص اینالاگ تھا، اس کی جدید شکل ای میل، واٹس ایپ یا دیگر انٹرنیٹ پر مبنی مواصلات ہیں جو ڈیجیٹل ہیں۔

الیکٹرانک کمیونیکیشن میں الیکٹرانک آلات جیسے تار، ٹرانسمیٹر، ریسیور، اور سرکٹس شامل ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر، یہ مواصلات کی ابتدائی شکل تھی، جیسے19ویں صدی کا ٹیلی گراف۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن الیکٹرانک کمیونیکیشن کا ایک مخصوص ذیلی حصہ ہے، جس میں معلومات کو بائنری کوڈ (0 اور 1) کی شکل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ جدید مواصلاتی نظام کی بنیاد ہے۔ اس میں معلومات کو ڈیجیٹل سگنلز میں تبدیل کیا جاتا ہے، جو متغیر  ہوتے ہیں، نہ کہ مسلسل جیسے اینالاگ سگنلز۔ اس کے لیے اینالاگ سے ڈیجیٹل کنورژن (ADC) اور ڈیجیٹل سے اینالاگ کنورژن (DAC) کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جیسے انٹرنیٹ پر ای میل، ویڈیو کالز (جیسے زوم یا گوگل میٹ)۔موبائل فون کے ذریعے پیغامات (SMS، واٹس ایپ، ٹیلی گرام)۔ڈیجیٹل ٹیلی ویژن اور ریڈیو نشریات۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن کی اہم خصوصیات یہ ہیں کہ معلومات کو کمپریس کیا جا سکتا ہے جو اسے تیز اور موثر بناتا ہے۔ اس کے ذریعہ شور (noise) کے اثرات کم ہوتے ہیںکیونکہ ڈیجیٹل سگنلز کو دوبارہ بنایا (regenerate) جا سکتا ہے۔ جدید کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، اور موبائل ٹیکنالوجی اس کی بنیادیں ہیں۔

الغرض ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم کب الیکٹرانک سے ڈیجیٹل مواصلات کی طرف منتقل ہوگئے۔ جب ہم ڈیجیٹل کی طرف آئے تو روایتی ذرائع جیسے ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی ڈیجیٹل ہوگئے، لیکن اس سے زبان و ادب کے فروغ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا کیونکہ ان کا دائرہ کار محدود تھا اور ان میں ذاتی ترسیل کی سہولت موجود نہ تھی۔ تاہم، ذاتی کمپیوٹرکا استعمال زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک عظیم ذریعہ ثابت ہوا، جس کا تصور حدودِ امکان سے باہر تھا۔

جیسے ہی ذاتی کمپیوٹر کا دور شروع ہوا، ابتدائی طور پر ڈوس موڈ میں کام کیا گیا جو پرنٹنگ کے لیے موزوں نہ تھا لیکن جب ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کا دور آیا تو دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ اردو نے بھی پیش رفت شروع کی اور اپنے لیے متعدد سافٹ ویئرز تیار کیے، جن میں سے ان پیج آج تک جاری ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ان پیج نے اشاعتی دنیا میں جو کامیابی حاصل کی، وہ اردو کے کسی دوسرے سافٹ ویئر کو نصیب نہ ہوئی۔ لفظوں کی ساخت کے اعتبار سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس نے بس اتنی ترقی کی کہ آج یونی کوڈ میں بھی موجود ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ جیسے جیسے کتابیں کمپیوٹرائزڈ ہوتی گئیں، وہ ڈیجیٹل دنیا کے لیے ایک ذخیرہ بنتی چلی گئیں۔ لیکن ڈیجیٹل دنیا میں اصل انقلاب اس وقت آیا جب ہم انٹرنیٹ کی دنیا سے روشناس ہوئے اور اس کا استعمال ہمارے لیے نہایت آسان ہوگیا۔

تاہم، اردو کے لیے ابتدائی مراحل ہرگز آسان نہ تھے۔ معلومات کے مطابق، 4 مئی 1994 کو سید ظفر کاظمی نے اردو شاعری کے لیے ایک نیوز گروپ شروع کیا، جس کا نام alt.language.urdu.poetry (ALUP) تھا۔ اس میں اردو سے متعلق بہت کچھ موجود تھا، سوائے اردو رسم الخط کے، کیونکہ اس وقت تک اردو یونی کوڈ وجود میں نہ آیا تھا۔ چار سال بعد، 1997 میں TrueType Font (TTF) تخلیق کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ اردو ویب سائٹس کو اس کے اصل رسم الخط میں پیش کیا جا سکے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ سید ظفر کاظمی کی ویب سائٹ میں صرف رومن رسم الخط استعمال ہوتا تھا۔ اسی سال عمیر خان نے اپنی ویب سائٹ Urduweb.comشروع کی، جس نے نہ صرف اردو فونٹ کا استعمال کیا بلکہ اردو میں ای میل لکھنے کے لیے ایک سافٹ ویئر بھی تیار کیا۔

1998 کے اوائل میں جرمنی کے علی حسنین شاہ نے ڈائنامک فونٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ تجربات کیے تاکہ ایسی ویب سائٹس بنائی جائیں جن کے لیے اردو فونٹ انسٹال کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ انہوں نے اردو خط نسخ فونٹ استعمال کیا۔ پاکستان میں ان کی ڈیٹا مینجمنٹ سروسز نے اس دور میں ایک ایسا فونٹ تیار کیا جو اردو نستعلیق کے بہت قریب تھا، جسے Urdu98 کہا گیا۔ یہ فونٹ کسی بھی ونڈوز آپریٹنگ سسٹم پر کام کرتا تھا اور ایک پلگ اِن کے طور پر استعمال ہوتا تھا، لیکن زیادہ قیمت کی وجہ سے عام استعمال میں نہ آسکا۔

اس کے بعد اردو ویب ٹیکنالوجی عام ہوئی، جس سے کئی ویب سائٹس وجود میں آئیں۔ اس دور تک ان فونٹس کو دیکھنے کے لیے مخصوص سافٹ ویئر یا فونٹس انسٹال کرنا پڑتا تھا۔ اردو کی دائیں سے بائیں تحریر اور نستعلیق فونٹ کو ڈیجیٹل طور پر پیش کرنا بھی مشکل تھا، کیونکہ اس وقت کے ویب براؤزرز اسے مکمل طور پر سپورٹ نہیں کرتے تھے۔

بالآخر، جولائی 2000 میں بی بی سی اردو سروس نے اپنی ویب سائٹ لانچ کی، جو اردو میں خبریں فراہم کرنے والی اولین بڑی ویب سائٹس میں سے ایک تھی۔ اسی سال پاکستانی اخبارات جنگ اور نوائے وقت نے اپنی ویب سائٹس پر اردو مواد شامل کرنا شروع کیا لیکن اکثر مواد تصاویر کی شکل میں ہوتا تھا، تحریری شکل میں نہیں۔

2000 ء اوائل میں یونی کوڈ کا وجود عمل میں آیا، جس نے اردو کے ڈیجیٹل استعمال میں انقلاب برپا کیا۔ اس سے ویب سائٹ بنانے والوں کے لیے اردو ویب سائٹس تیار کرنا آسان ہوگیا اور دیگر فونٹس انسٹال کرنے کی ضرورت ختم ہوگیٔ۔ جب یونی کوڈ کا مرحلہ آسان ہوا تو کئی فونٹس وجود میں آئے جو نسخ اور نستعلیق دونوں کو سپورٹ کرتے تھے، جیسے جمیل نوری نستعلیق، نفیس نستعلیق اور دیگر نستعلیق فونٹس۔ تاہم، اردو ویب سائٹس پر خط نسخ ہی زیادہ نظر آتا تھا۔

نستعلیق کی پیچیدہ خطاطی، جس میں حروف کا باہمی ربط، نقطوں کی مناسب جگہ اور فاصلوں کا درست ہونا ضروری ہے، جس کو یونی کوڈ میں پیش کرنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ اس کے لیے جدید رینڈرنگ انجن استعمال کیے گئے جو نستعلیق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ (رینڈرنگ انجن سافٹ ویئر کا وہ حصہ ہے جو ویب براؤزر میں CSS، HTML، اور JavaScript کو پروسیس کر کے ویب سائٹ کو دکھاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں، یہ ویب سائٹ کی کوڈنگ کو پڑھنے اور دیکھنے کی شکل میں تبدیل کرتا ہے جیسے گوگل کروم میں Blink استعمال ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نوری نستعلیق فونٹ تیار کیا گیا، جو موبائل، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر تینوں کے لیے یکساں مفید ثابت ہوا اور آج بھی اسی کا استعمال جاری ہے۔ جب کسی ویب سائٹ کی کوڈنگ میں نوری نستعلیق شامل ہوتا ہے، تو وہ سب کو اسی فونٹ میں نظر آتا ہے اور موبائل میں فونٹ اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس معاملے میں ایپل (iOS) منفرد ہے، جہاں اگر ترجیحی زبان اردو ہو تو تمام تحریریں نستعلیق میں نظر آتی ہیں۔ اس طرح، فونٹس کے اس مختصر سفر نے اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں آسان اور قابل رسائی بنا دیا ہے۔

آخر کار آج ہم ڈیجیٹل میڈیا میں اس مقام پر ہیں جہاں ہندوستان کی دیگر زبانیں ہمارے قریب بھی نہیں۔ وکی پیڈیا پر ہم ایک لاکھ سے زائد مضامین کے زمرے میں شامل ہیں اور ہندوستانی زبانوں میں مضامین کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہیں۔ تادم تحریر، وکی پیڈیا میں اردو مضامین کی تعداد 2,20,3821 ہے جبکہ ہندی دوسرے نمبر پر ہے اور اس کے مضامین کی تعداد 1,65,2482 ہے۔ دیگر ہندوستانی زبانیں اس کے بعد آتی ہیں۔ یہ صرف ایک ویب سائٹ کی بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت 50 سے زائد ویب سائٹس ہیں جن پر اردو مضامین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ان میں سے 20 ایسی ہیں جو مسلسل فعال ہیں اور جہاں روزانہ ادبی و غیر ادبی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اگر اخباری ویب سائٹس کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو اردو صارفین کی سب سے زیادہ تعداد فیس بک پر ہے۔ جو کچھ بھی ویب سائٹس پر اپ لوڈ ہوتا ہے، اس کی جھلک فیس بک پر بھی نظر آتی ہے۔ اس اعتبار سے گزشتہ دس سالوں میں فیس بک نے اردو کو سوشل میڈیا میں مقبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اردو کا تناسب فیس بک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

مراسلاتی میڈیا میں واٹس ایپ کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ وہاں اردو کا ذخیرہ بہت وسیع ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیلی گرام پر یونی کوڈ اور پی ڈی ایف کی شکل میں اردو مواد کی مقدار حیران کن ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب مصنوعی ذہانت (AI) ہماری زبان کو بہتر انداز میں سمجھ رہی ہے اور فوری عمل کے معاملے میں بھی ہمیں متاثر کر رہی ہے۔ پہلے مصنوعی ذہانت اردو کے معاملے میں تسلی بخش نتائج فراہم نہیں کر پاتی تھی لیکن جب سے Grokنے کام شروع کیا ہے، اردو میں نتائج نمایاں طور پر بہتر ہوئے ہیں کیونکہ اس کے جوابات درست، جامع اور حوالہ جات پر مبنی ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کی کئی اقسام ہیں۔ ہمارے یہاں یا زبانی سطح پر جس مصنوعی ذہانت کا ذکر ہوتا ہے، وہ چیٹ بوٹ کہلاتی ہے، جسے AI Assistants بھی کہا جاتا ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں کہ چیٹ بوٹ کیا ہوتا ہے۔

چیٹ بوٹ ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو انسانوں کی طرح گفتگو کرتا ہے۔ یہ مختلف موضوعات پر آپ سے بات چیت کر سکتا ہے اور کسی پیچیدہ مسئلے کے حل کی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ الغرض، آپ جیسے چاہیں، یہ ویسی ہی گفتگو کرتا ہے۔ تمام چیٹ بوٹس مصنوعی ذہانت سے لیس نہیں ہوتے، لیکن جدید چیٹ بوٹس نیچرل لینگویج پروسیسنگ (NLP) کا استعمال کرتے ہیں تاکہ صارف کے سوالات کو سمجھیں اور ان کے جوابات خودکار طور پر تیار کریں۔ یہ ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ آئندہ چند سالوں میں کیا امکانات سامنے آئیں گے، اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کے بنیادی اصول زبان کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معلومات اور شواہد کے ذخیرے تک رسائی کو بھی نہایت آسان بنا رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت میں چیٹ بوٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ادب کو بھی اپنے سحر میں گرفتار کرلیا ہے ۔معلومات کی فراہمی سے لے کر متن کی تشکیل ،باز تشکیل اور ترجمے تک یہ ٹکنالوجی ہر سطح پر استعمال ہورہی ہے ۔

اگر ہم کسی چیٹ بوٹ سے متن کی تشکیل کی فرمائش کرتے ہیں تو وہ ہماری خواہش کی تکمیل ضرور کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں میں نے ایک چیٹ بوٹ’گروک‘ سے سفر کی پریشانیوں پر ایک افسانہ لکھنے کی فرمائش کی تو اس نے فوراً تقریباً پانچ سو لفظوں پر مشتمل افسانہ پیش کردیا ، تاہم میری خواہش دوہزار لفظوں کی کہانی کی تھی۔ پھر میں نے دو بارہ درخواست کی تو اس نے اسی موضوع پر دوہزار سے زائد لفظوں کی کہانی پیش کردی۔ یہاں پر ہمیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ چیٹ بوٹ نے بیٹھے بٹھائے مجھے افسانہ نگار بنادیا ۔

اسی طرح، اگر کوئی تحریر درست کرنے کو دی جائے، تو یہ ہمیں عمدہ نثر نگار بنا دیتا ہے۔ تحریر، تصویر یا کسی فائل کا ترجمہ کرنے کی درخواست ہو، تو وہ بھی فوراً مکمل کر دیتا ہے۔ لیکن ان سہولتوںکے ساتھ ہماری ذاتی صلاحیتوں کو وہ نقصان ہوگا جس کا محاسبہ بھی مشکل ہوگا۔

جب ہم خود کوئی افسانہ تخلیق کرتے ہیں، تو اس میں مکالموں، منظر نگاری اور کرداروں کی گہرائی کے ذریعے ایک ایسی روح پھونکتے ہیں جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔ لفظوں کا انتخاب، جملوں کی ترتیب اور مکالموں کی برجستگی سے ہم تخلیقات کو منفرد بناتے ہیں جو ہماری تحریری شناخت کا اہم حصہ بھی ہوتا ہے۔ مشینی تخلیق چاہے کتنی ہی درست کیوں نہ ہو، اس میں وہ تاثیر نہیں آسکتی ۔ اس لیے یہ خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ آسانی کے لیے جن آلات کو ہم اپنا رہے ہیں، اس سے ہمارے فنون لطیفہ ختم ہورہے ہیں ۔ اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کیمرہ یقیناً ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے، لیکن اگر ہم اپنی کسی سوچ یا غم میں ڈوبی تصویر کیمرے سے بنائیں، تو وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو ایک تخلیقی مصور اپنے برش سے پیش کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح، ترجمہ نگاری لسانی فاصلوں کو کم کرتی ہے، لیکن اگر ہم مشین سے ترجمانی (یعنی اصل متن کی تاثیر کی منتقلی) کی توقع کریں، تو یہ ایک مشکل کام ہے۔جس طرح سے مشینی تخلیقات فنون لطیفہ میں نہیں آتی ، ویسے ہی مصنوعی ذہانت سے تیار شدہ متن بھی فنون لطیفہ کے دائرہ سے باہر ہوجائے گا ۔ 

یہی حال مشینی ترجمے کا ہے جس میں عموماً لفظوں اور معانی کی ترتیب پر توجہ دی جاتی ہے لیکن ترجمانی کے لیے ایک تیسری چیز، یعنی تاثیر، درکار ہوتی ہے۔ اصل متن سے حاصل ہونے والی تاثیر کو ترجمے میں منتقل کرنا ایک نازک عمل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مشینی ترجموں میں اکثر ایک روکھاپن اور بنجرپن نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلوبیاتی اور جمالیاتی سطح پر ہماری ادبی حس کو اب قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ نتیجتاً، ہماری زبان میں نئی تراکیب بننا بند ہو گئی ہیں۔ نثر ہو یا نظم، تخلیقی تراکیب کی کمی واضح ہے۔

زبان کا تعلق فوری تاثرات سے ہے۔ جیسے ہی الفاظ سامع یا قاری کے کانوں سے ٹکراتے ہیں یا ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں تو قاری یا سامع فوراً متاثر ہوتا ہے لیکن مشینی تحریروں میں یہ فوری تاثیر پیدا کرنا مشکل ہے۔

مصنوعی ذہانت نے اوریجنلٹی کے سوال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ماضی میں، بعض اوقات قلمکار کے فرضی ہونے کا شبہ ہوتا تھا، یعنی تحریر تو اصلی ہوتی تھی، لیکن مصنف کا وجود مشکوک ہوتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مصنف تو اصلی ہوگا، لیکن تحریر اوریجنل نہیں ہوگی۔ اس سے ہمارا پورا تخلیقی اور تحریری نظام متاثر ہو رہا ہے اور تخلیقیت کا وجود خطرے میں ہے۔

حال ہی میں کیے گئے ایک تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ میں نے ایک چیٹ بوٹ سے مضمون لکھوایا اور پھر اسی چیٹ بوٹ سے پوچھا کہ کیا یہ مضمون اس نے لکھا ہے۔ اس نے انکار کر دیا۔ حیران کن طور پر، Plagiarismکے ٹولز بھی اسے ٹریک نہیں کر سکے۔ ایسی صورتحال میں تخلیقی صلاحیتوں کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ ویسے ہی تحریری صلاحیتوں کا فقدان ہے اور اگر اس صورتحال میں مصنوعی ذہانت کا سہارا لیا گیا، تو مستقبل میں شاید ہی کوئی اصلی تحریر قاری کے سامنے آسکے۔

یہاں تک پہنچ کر یہ بات واضح ہوگئی کہ اب تحریروں کی بھی دو قسمیں ہوجائیںگی اول وہ جو اوریجنل ہوتی ہیں اوران کا تعلق فنون لطیفہ سے ہوتا ہے دوم وہ جو مشینی ہوںگی اور کیمرے کی تصویروں کی طرح ان کا فنون لطیفہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔


Monday, 7 April 2025

مجھے کچھ کہنا ہے

  زندگی دراصل تجربات و حوادث کا نام ہے جہاں ہر وقت انسان نئے حالات و کیفیات سے دو چار ہوتا ہے اور اس کے اذہان میں نئے تصورات گردش کرتے رہتے ہیں ،جن میں سے کچھ کو پختگی ملتی ہے اور کچھ لمحات میں زائل ہوجاتے ہیں۔ ایک ادیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نئے تصورات و افکار کو فن کے دائرے میں پروکر کسی صنف کا جامہ عطاکردے۔ ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری میں ایک ہی خیال کو مختلف انداز میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے اور فکشن میں ایک ہی مرکزی واقعے کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے، جس میں انسانی ذہنی کشمکش کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ جس کے لیے بہت سے تخلیق کار کے فن پارے منظر عام پرآتے ہیں جن میں سے کچھ کو مقبولیت ملتی ہے اور کچھ گمنامی کے شکارہوجاتے ہیں۔دراصل اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اکثر تخلیق کار اپنے قلمی سفر کی شروعات زندگی کی دوسری دہائی میں کرتے ہیں جن میں سے چند کو مقبولیت مل جاتی ہے اور کچھ مختصر مدت کے بعد ماند پڑجاتے ہیں۔ 

یہی حالت ہم ساتھیوں کی بھی ہے جو تحقیقی و تنقیدی دنیا میں قدم رکھتے ہیں لیکن ہمارے سامنے لکھنے کے لیے نیا کچھ نہیں ہوتاہے۔ایسا اس وجہ سے کہ وہ ان ہی راستوں پر چلنے کو فوقیت دیتے ہیں جہاں پہلے سے ہی راستے ہموار ہوچکے ہوتے ہیں اور اس موضوع پر خاطرخواہ تحریریں منظر عام پر آچکی ہوتی ہیں۔ جس سے اس موضوع پر تجزیہ در تجزیہ کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ جن گوشوں میں بہت ہی کم لوگوں نے قدم رکھا یا ایسے گوشے جو بالکل گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں، وہا ں شاید و باید ہی کوئی ریسرچ اسکالر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ ا یسے حالات میں موضوعات میں تکر ار بہت ہی زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے لیکن اسے اکثر یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ابھی تو آموزش کا مرحلہ ہے، بعد میں اکتسابی مرحلہ آئے گا تب نئے زاویوں کی تلاش و جستجو اور پیش کش پر عمل کیا جائے گا۔ لیکن اس تیز رفتار زندگی میں جب وقت قلیل سے قلیل تر ہوتا چلا جارہا ہے ایسے میں کیا ضروری ہے کہ کسی کو بعد میں اتنا موقع ملے کہ وہ کسی بھی موضوع پر اتنا وقت دے سکے جتنا اسے ریسرچ کے درمیان موقع مل رہا ہے۔ یقیناً بہت ہی کم ملتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے تجربات کے تحت یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ریسرچ کے بعد جن ساتھیوں نے نوکری حاصل کی ہے ان میں سے اکثر کے یہاں قلم کی دھار کمزور پڑگئی ہے۔ پتہ نہیں آخر ایسا کیوں ہوتاہے۔ ان حالات کے مدنظر  یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریسرچ کے دوران جو بھی ہمیں موقع مل رہا ہے اسی میں اپنی شناخت بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایسے میں ہم پر لازم ہوتا ہے کہ ہم  ادب میں ان گوشوں کو نمایاں کریں جن پر اب تک بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔

 موجودہ وقت میں دو بنیادی موضوعات بہت ہی عام ہیں شاعری میں غزل و نظم اور نثر میں افسانہ و ناول۔ سندی ریسر چ کا اسی فیصد حصہ انہیں موضوعات کو محیط ہے اور اس میں بھی محض تجزیاتی اور تاثراتی تحریر ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔ شاعری میں شاعر نے فن کو کس طرح برتا ہے اس پر توجہ نہ دے کر سارازور صرف موضوعات پر رہتا ہے۔یہی حال ناول اور افسانہ کا بھی ہے جہاں محض کہانی کا تجزیہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، فن کا ر نے فن سے کس قدر انصاف کیا ہے ، زبان و بیان میں کیا اختراعات دیکھنے کو مل رہے ہیں ، کیا انہوں نے کسی فلسفہ کو کردار کے ذریعہ پیش کرنے کوشش کی ہے تو اس فلسفہ سے تحقیق کار کس قدر واقف ہے اور اس کے تجزیہ کا کتنا حق ادا کرسکتا ہے ۔ کہانی کا ر کا اپنا عکس کس قدر حاوی ہے ، کیا واقعی میں وہ فن پارہ ہے؟ یا فن پارہ کا نام دے کر تخلیق کار نے اپنی بھڑا س نکالی ہے ، ان گوشوں پر بہت ہی کم واضح انداز میں گفتگو کی جاتی ہے ۔ اکثر تو تعریف میں قلم اٹھاتے ہیں۔ جب تعریف ہی تنقید کا مقصد رہ گیا ہے تو پھر تنقید کو دفن کردینا چاہیے ۔ویسے اس معاملے میں جدید وقدیم سارے قلم کار یکسا ں ہیں ، وجہ نوکری اور معاملات کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اگر یہ مجبوریاں حائل نہیں ہوتیں تومیرا خیال ہے کہ ماضی سے بہتر معرکے آج کے زمانے میں دیکھنے کو ملتے ۔ معرکوں سے زبان توترقی کرتی ہی ہے ساتھ ہی قاری میں بے تحاشہ اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ حالات بدل چکے ہیں اور وسعت نظری تنگ نظر ی میں بدل چکی ہے ۔ اس لیے تنقید میں تعریف کے سوا کچھ نہیں بچتا اور اگر کسی نے لکھنے کی ہمت بھی دکھائی تو انجام کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ 

 موضوعات کے حوالے سے میرے ہم درس دوست سے ایک بڑی یونی ورسٹی کے سینئر استاد جو اّب ریٹائر ہوچکے ہیں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ سندی تحقیق کے لیے کبھی بھی مشکل موضوع کاانتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ یقیناً انہوں نے تجربات کی بنیاد پر ہی یہ بات کہی ہوگی کیونکہ ریسرچ کے پانچ برسوں میں بہت ہی کم ریسرچ اسکالرز ایسے ہوتے ہیں جو یکسوئی کے ساتھ کام کو انجام دیتے ہیں، عموماً عمر کے اس پڑاؤ میں یہ مرحلہ آتا ہے جب بہت ساری ذمہ داریوں کی بنیاد ڈالی جارہی ہوتی ہے۔ ایسے میں دو تین سال ہر ایک کے یونہی محض سوچنے میں گز ر جاتے ہیں اور جب کام کرنے کا وقت آتا ہے تو بہت جلد بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس بنا پر سنجیدہ تحقیق و تنقید کی امید نہیں کی جاسکتی۔علاوہ ازیں میں ایسے ساتھیوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے مسلسل چار سال تحقیق کو دیے اور ہر روز کچھ نہ کچھ لکھا پھر جب ان کا تحقیقی مقالہ سامنے آیا تو وہ بہت ہی عمدہ قسم کا کام تھا، لیکن چونکہ ان کے نگراں کو وہ کام بہت زیادہ بھاری لگ رہا تھا تو ان میں سے بہت کچھ حذف بھی کروا دیا گیا جس سے یقیناً ان کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی۔ چند ہمارے ایسے بھی ساتھی ہیں جنہوں نے صر ف چند دنوں میں اپنا تحقیقی مقالہ تیار کرلیا اور جب مجھے برسوں بعد ان کے مقالے کادیدار ہوا تو میں دنگ رہ گیا کیونکہ پندرہ سطور سے کم کا صفحہ اور وہ بھی صر ف دو سو پچاس صفحات۔ ایسے میں ہم UGC کی گائڈ لائن کی جانب رخ کرتے ہیں تو وہاں پر ہمیں انگلش کے متعلق صاف طور پر لکھا ہوا ملتا ہے کہ A4 میں متن کا سائز 12 ہو اور سطرو ں کے درمیان کا فاصلہ 1.5 ہو۔ اس اعتبار سے تیس سے زیادہ سطریں ایک صفحہ میں آجاتی ہیں۔ ساتھ میں یہ بھی ہے کہ جو اسٹنڈرڈ سائز ہے اسی میں تحریر کرنا ہے یعنی جس فونٹ سائز میں عموماً کتابیں بازار میں ملتی ہیں وہی فونٹ سائز آپ کو بھی استعمال کرنا ہے۔ لیکن نہیں معلوم اردو میں یہ روایت کہاں سے آگئی ہے کہ آپ کو 18 فونٹ سائز میں ہی مقالہ تیار کرنا ہے۔ اس فونٹ سائزسے عموما 23 سطریں ایک صفحہ میں آتی ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے لیکن بہت سارے ایسے مقالے دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن میں 20 یا اس سے بھی زیادہ فونٹ سائز مستعمل ملتا ہے اور سطروں کا فاصلہ بہت ہی زیادہ رکھا جاتا ہے۔ جب کہ سبھی کو معلوم ہے کہ نستعلیق کا اسٹنڈرڈ سائز15 اور 16 ہے لیکن شاید ہی کو ئی مقالہ اس فونٹ سائز میں آپ کو مل جائے۔ اس جانب بھی متفقہ طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فونٹ سائز بڑا کرکے صفحات میں اضافہ کی نوبت اس وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب ہمارے پاس مطالعہ کی کمی ہوتی ہے، جب مطالعہ کم ہوگا تو کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے بھی کم مواد جنریٹ ہوگا۔ان تمام باتوں کے مدنظر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریسرچ اسکالر متعلقہ مضمون میں مطالعہ کو ٹھیک ڈھنگ سے ترتیب نہیں دے پاتا جس سے نتائج بھی محدود ہی سامنے آتے ہیں۔

ان سب کے باوجود ہمارے یہاں خاطرخواہ تعداد میں اچھے ریسرچ اسکالروں کی کھیپ تیار ہورہی ہے جنھوں نے اپنے قلم سے نہ صرف اساتذہ کو چونکایا ہے بلکہ انھیں بہت زیادہ متاثر بھی کیا ہے۔ تحقیق و تنقید نیز تخلیقات میں وہ اپنی شناخت قائم کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ ان پر مباحث قائم نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے تحقیق سے نئی چیز سامنے لائی ہے تو اس کے ردو قبول پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بات کر نا اور مباحثہ قائم کرنا تو بعید تبصروں میں بھی ان عناصر کو نمایا ں نہیں کیا جاتا بلکہ یہ سوچ کر کہ اس موضوع پر ایک اور نئی کتاب آگئی ہے اس کو طاق نسیاں کردیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ نئے اور محنتی طلبہ کے لیے حوصلہ شکنی کی بات ہوتی ہے۔ ایسے میں جب وہ اپنے ساتھ یہ رویہ دیکھتے ہیں تو آگے انہیں مزید کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں سنجیدہ قرات میں کمی آئی ہے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرے رخ میں ہمارے وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو صلاحیت مند نوواردین کو بھر پورموقع دیتے ہیں اورمختلف پلیٹ فارمس سے ان کی صلاحیتوں کو ابھارتے بھی رہتے ہیں اور تقرریوں میں ان کا بھر پور تعاون بھی کرتے ہیں۔ 

اس کے بعد ایک مرحلہ اور آتا ہے جہاں معاملات دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک خادم ادب دوسرا محض خادم۔ دوسرا فرد کسی کا بھی خادم ہوسکتا ہے، خواہ وہ فرد کا خادم ہو یا ادارے کا، عارضی اور وقتی ہو یا دائمی۔ پہلا اپنی تمام تر محنتوں کے باوجود در بدر بھٹکتا رہتا ہے اور دوسرے کی قسمت بہت ہی جلد سنور جاتی ہے۔ یہ معاملہ ادب میں نئے داخل ہونے والوں کو بہت ہی زیادہ پریشان کررہا ہے۔ گزشتہ دنو ں بانگ درا کے سو سال مکمل ہونے پر اردو اکادمی دہلی نے ایک سہ روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا جس کے کنوینر پروفیسر معین الدین جینا بڑے تھے۔ اس سمینار کے کلمات تشکر میں انہوں نے ’دوسرے خادم‘ کے حوالے سے چند سخت کلمات کہے تھے جو اتفاق سے اخبارات میں اور ایوان اردو میں بھی شائع ہوئے وہ میں یہا ں ہو بہو نقل کرنا چاہتا ہوں۔’’سمینار میں مقالہ نگاران کی فہرست میں شمولیت کے حوالے سے سخت لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتفاق سے چار روز قبل کسی صاحب کا ایک نوجوان کے حوالے سے فون آیا کہ آپ انہیں مقالہ نگاروں کی فہرست میں شامل کرلیں، میں نے انہیں فون پر ہی خفگی کا اظہار کیا کہ آپ نے اس حوالے سے فون کیسے کردیا،پھر اسی نوجوان کا فون آیا تو میں نے اسے بھی سختی سے منع کردیا، لیکن یہ معاملہ جاری رہا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے ایک وزیر سے فون کروایا۔یہ رویہ بہت ہی تکلیف دہ ہے۔سارے اداروں اور یونیورسٹیز کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔‘‘(ایوان اردو، فروری2025) ایسی چیزیں عموماً تحریر کا حصہ نہیں بنتیں اس لیے وہ تاریخ کا بھی حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔ پھر بعد والوں کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ادب میں کجروی لانے میں کس کی غلطی تھی اوراس کا ذمہ دار کون ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح ابھی اردو کے حالات بد سے بدتر نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے قارئین کی تعداد میں یقیناً کمی آئی ہے بالخصوص سندی طلبہ کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے لیکن اگر حالات فطری طور پر چل پڑیں اور عدل و مساوات کو اپنایا جائے تو انشاء اللہ نتیجہ ثمر آور ہوگا۔

Thursday, 6 March 2025

مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری

 مٹتے ہوئے نقوش کے عمدہ نقاش شفیق رائے پوری 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

NCERT، اربندو مارگ ، نئی دہلی ۔۱۶


’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کا مسودہ جب مصنف محترم شفیق رائے پوری کے واٹس ایپ کے ذریعہ مجھ تک پہنچا تو سرسری نظر میں مجھے بہت ہی زیادہ حیر ت ہوئی کہ جو کام ایک ادارہ کو کرنا چاہیے تھا وہ ذمہ داری شفیق رائے پوری صاحب نے خود اٹھائی اور بہت ہی درک و انہماک کے ساتھ اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ۔ اس سے پہلے مصنف محتر م سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی لیکن جب انہو ں نے اگلا  پیغام یہ بھیجا کہ آپ کو اس تحقیقی کاوش پر کچھ لکھنا ہے تو مجھے خیال آیا کہ میرے بارے میں کسی نے ضرور غلو سے کام لیا ہے ، ورنہ فی زمانہ بڑے بڑے دانشوروں سے ہی تحریریں لکھوائی جاتی ہیں ۔ خیر اپنے آپ کو اس ذمہ داری کے لیے تیار کیا اور ذہن نے جو کچھ ساتھ دیا وہ آپ کے سامنے ہے ۔

عنوان میں نقوش اور نقاش کے دو لفظ میں نے عمداً مصنف کی اس تحقیقی کا وش کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کیے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس پر کوئی تفصیلی کام سامنے نہیں آیا تھا اور چھتیس گڑھ میں اردو شعرا و ادبا کا جو ایک لمبا سلسلہ رہا ہے وہ محض چند مقالوں میں مشاہیر کے ساتھ ہی ختم ہوا ہے ۔ وہاں کے اکثر شعرا جو شروع میں دبستان لکھنؤ کے شعرا کے شاگر دتھے جیسا کہ تفصیلی ذکر مصنف محتر م نے خود اس کتاب کے مقدمہ میں کیا ہے انہیں پردہ ٔخفا میں ہی رکھا گیا تھا ۔ اس کے بعد کے اکابرین زبان و ادب نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کے سبب چھتیس گڑھ میں اٹھارہ سو ستاون کے بعد اردو کی نئی آبادیاں وجود میں آئیں انہیں بھی بھلا دیا گیا، ایسے میں ان مٹتے ہوئے نقوش کی جو بازیافت ہوئی ہے ان کے نقاش یقینا شفیق رائے پوری ہی ہیں ۔

اس اہم کام کو انجام دینے میں یقینا ایک طویل عرصہ لگا ہوگا۔ سب سے پہلے انہوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا ہوگا ، پھر آثار و اسانید کی تلاش میں لگ گئے ہوں گے ،اس درمیان انھیں ہزاروں نئی چیزوں کا علم ہوا ہوگا پھر ان سب میں سے چھانٹ پھٹک کر کار آمد چیزوں سے اپنی اس کتاب کو مزین کیا ہوگا۔ اس کے لیے یقینا قدیم ترین رسائل و جرائد کو کھنگالا ہوگا جس میں چھتیس گڑھ کے گمنام اور اوراق میں دفن شدہ قلم کاروں سے ملاقات ہوئی ہوگی پھر ان کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ان کے وارثین تک پہنچے ہوں گے ، حالات بدلنے کے بعد وہاں سے بھی زیادہ تر خالی ہاتھ واپس آنا پڑا ہوگا ، پھر ان کی تحریروں کے سہارے ملے بہت سارے اشارات سے بات مکمل کرنی پڑی ہوگی ۔ مجھے علم ہے کہ تحقیق کے میدا ن میں ایک ایک لفظ کے حوالے کے لیے کئی کئی کتابوں کی روق گردانی کرنی پڑتی ہے ۔ 

 جب سے تذکرہ و تنقید کی کتابیں لکھی جارہی ہیں تبھی سے اردو ادب کی علاقائی خدمات پر مشتمل آثار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تذکروں میں دکن کی حالت بخوبی بیان کی گئی ہے پھر بعد میں لکھنؤسمیت دوسرے شہر وں کے شعرا بھی شامل ہونے لگے ۔ بعد میں جب تاریخ لکھی جانے لگی تب اس میں دبستانوں کے عناوین سے باضابطہ ابواب بندی کی جانے لگی ، اس سے وہاں کی لسانی اسلوبیاتی و شعری خصوصیات کو اجاگر کیا جانے لگا ، اس لیے آپ کو تاریخ کی تمام کتابوں میں دکن ، دہلی اور لکھنؤ مل جائیں گے ، بعد میں جب اس پر اضافہ ہوا تو رامپور ، عظیم آباد اور مرشدآباد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ، لیکن پھر بھی اہم کتابوں میں دیگر شہروں کی ادبی فضا کوجگہ نہیں ملی تب ایک ضخیم ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (گیان چند جین ، سیدہ جعفر) مرتب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں شہروں کے اعتبار سے اردو زبان و ادب کی تاریخ کو محفوظ کیا گیا ۔ 

اردو زبان وادب کی ضخیم سے ضخیم اور مختصر سے مختصر کئی تاریخیں لکھی گئی ہیں، ہر ایک میں آپ کو ایک ہی نوعیت کی ترتیب ملے گی ۔قدیم اردو ، دکن کے سارے ادوار ، پھر دہلی ،لکھنؤ اس کے بعدتحریکات ، ایسے میں بہت سی ذیلی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں ، یقینا سبھی کا احاطہ کسی کے یہاں بھی ممکن نہیں ہے ۔ البتہ جمیل جالبی نے اس جانب قدم اٹھا یا اور علاقائی سطح پر روہیل کھنڈ اور بندیل کھنڈ کا خصوصی ذکرکیا۔اس کے بعد تاریخ ادب اردو کا جو سلسلہ گیان چند جین اورسیدہ جعفر کے ذریعہ شروع ہوا اس میں بعد میں جاکر شہر کے پیمانہ پر تاریخ ادب اردو کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ آزادی کے بعد جب تحقیقی مقالات میں اضافہ ہوا تو علاقائی سطح پر اردو ادب کا بھی جائزہ لیا گیا ، شروع میں دبستانوں کی تاریخ کو یکجا کیا گیا پھر صوبائی سطح پر اس میں کام ہوا، اس کے بعد شہروں کی اردو  زبان و ادب کی خدمات پر کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ 

ابھی کے موجودہ منظر نامے میں صوبائی سطح پر اردو زبان و ادب کی بات کی جائے تو اردو ہندوستان کے کم وبیش تمام صوبوں میں بولی، سمجھی اور پڑ ھی جاتی ہے ۔ کچھ صوبے ایسے بھی ہیں جہاں ہر طبقہ کے لوگ اس زبان کو لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ جنوبی ہند کے چند صوبے ایسے ہیں جہاں اردو پہلے تو مضبوط حالت میں تھی تاہم درمیان میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ اب جب تعلیم کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے تو اردو کی تعلیم میں بھی اضافہ دیکھنے کوملا ہے تاہم جدید اسکولی تعلیم سے اردو کا بھا ری نقصان ہوا ہے ،لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کیر ل جیسے صوبے میں بھی اردو کے طلبا نظر آنے لگے ہیں ۔ نارتھ ایسٹ میں کم ازکم ایک حلقہ کے افرا د تو اردو پڑھتے ہی ہیں ۔ہر یانہ ، ہماچل اورچھتیس گڑھ کی بات کی جائے توان تینوں صوبوں میں اردو کی یکساں صورت حال نظرآئے گی ۔ یہ اچانک ابھی کی بات نہیں ہے بلکہ شروع سے ہی ان علاقوں میں اردو کی نمائندگی کم رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں علاقائی ادب کی تاریخ نگاری پرنظرڈالی جائے تو ان علاقوں سے کوئی خاطر خواہ کام سامنے نہیں آتا ہے ۔ ایسے میں کچھ دنوں قبل تک چھتیس گڑھ کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں تھا ، کم ازکم ہمیں تو وہاں کی لسانی اور ادبی صور ت حا ل واضح نظرنہیں آتی تھی، لیکن اس کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ صوبہ چھتیس گڑھ کے غیر معروف شہروں میں بھی اردو زبان و ادب کی شمع روشن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جناب شفیق رائے پوری نے ڈیڑھ سو ایسے قدیم و جدید ادبا، تخلیق کار اور ناقدین کو اس کتاب میں جمع کیا ہے جنہوں نے اپنی سطح پر اردو کا چراغ خوب روشن کیا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر کو باہر کی اردو دنیا نہیں جانتی ہے، لیکن ان میں سے دو نام ایسے بھی ہیں جنہیں اردو زبان و ادب کا جاننے والا ہر فرد جانتا ہے جن کا تعلق چھتیس گڑھ سے ہی تھا اور وہ تھے اختر حسین رائے پوری اور حبیب تنویر۔ اگرچہ ہم میں سے اکثر انہیں وہاں کی ادبی صورتحال کے نمائندہ ادیب کے طور پر نہیں دیکھتے پھر بھی بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جڑیں چھتیس گڑھ سے تھیں تو وہاں کی ادبی صورتحال کس قدر پختہ تھی ۔

 پچھلے پانچ برسوں میں دو عمدہ کتابیں چھتیس گڑ ھ سے تعلق رکھنے والے جس مصنف و شاعر کی پڑھنے کو ملیں ا س کا نام حنیف نجمی تھا ، تنقید و تحقیق پر جو کتاب تھی یقینا وہ لاجواب تھی ، شاعری میں بھی انھوں نے عالمی سطح پر اپنی انفرادیت کی چھاپ چھوڑی ہے ، ان کی تحریروں میں کمال کی حد تک دانشوری اور تخلیق میں اعلیٰ درجے کی فنکاری نظر آئی تھی وہ بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی طرح خورشید حیات جنہوں نے افسانوی ادب میں گہری چھاپ چھوڑی ہے، نئے طرز کے موجد ہوئے، نیا افسانوی بیانیہ تخلیق کیا ، ان کے بغیر افسانوی ادب کی کوئی بھی فہرست مکمل نہیں ہوگی وہ بھی اس کتاب میں جلوہ افروز ہیں۔ مثال پیش کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اردو کے لحاظ سے اس پسماندہ صوبہ سے بھی اعلیٰ درجہ کے ادیب و شاعر تعلق رکھتے ہیں ،لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب مرکزی دھارے میں ان کا شمار نہیں ہوتا ہے ۔ الغرض میں نے یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کئی شعرا وادبا ہوں گے جنہیں شہرت تو دور کی بات ہے وہ صرف ایک مخصوص حلقے تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ،ان کے لیے ایسی کتابیں آب حیات ثابت ہوتی ہیں جن میں ان کا اجمالی ذکر کر کے رہتی دنیا تک انہیں زندہ کردیا جاتا ہے ۔ 

’’چھتیس گڑھ کے اردو مصنفین و شعرا ‘‘ کو شفیق رائے پوری نے بہت ہی محنت و دیدہ ریزی کے ساتھ تیا ر کیا ہے ۔پہلے باب میں انہوں نے ان شعرا و ادبا کو شامل کیا ہے جنہوںنے اس علاقہ میں اردو کی پود لگائی اور ایک ثمر آور باغ تیار کیا۔ یقینا ان کا شمار متقدمین میں ہوتا ہے ، ان کا ذکر کہیں اور شاید و باید ہی نظر آتا ہے یہاں انہوں نے تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کرکے حتی الامکان چھتیس گڑھ کے سبھی ادبا و شعرا کو جمع کیا ہے ۔ اس فہرست میں وہ بھی شامل ہیں جن کے ادب کا ستارہ ابھی بھی جگمگا رہا ہے ۔ اس کے بعد پیشکش میں انہوںنے کئی درجہ بندی کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ جن ادبا کی پیدائش کہیں اور کی ہے لیکن چھتیس گڑھ میں سکونت کے دوران انہوںنے اردو زبان و ادب کی خوب خدمت کی ہے اس میں بھی دس سے زیادہ افراد شامل کتب ہیں ، ایسے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ باہر سے جاکر وہاں عارضی قیام کرنے والوں نے وہا ں کی ادبی فضا میں کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا ہے۔ تذکرہ و تاریخ نگاری میں اکثر ایسا بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مجہول الاحوال اشخاص کا ذکر ضمناً آگیا ہو تو اسی سے تحقیق کا راستہ آگے کو نکلتا ہے لیکن اس کتاب کے چوتھے باب میں مصنف محترم نے ان اشخاص کو شامل کیا ہے جن کے زیادہ احوال و کوائف نہیں مل سکے ۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو اس کتاب کو تحقیق و تدوین کے ساتھ تذکرہ نگاری کی عمدہ مثال میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔

میں محتر م مصنف کا بہت ہی زیادہ ممنون و مشکور ہوں بلکہ اردو دنیا کو بھی ممنون و مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے علاقے کی کاوشوں کو منظر عام پر لادیا جن کے متعلق یا اس علاقے کے متعلق عموما لوگ سوچا نہیں کرتے، نہ وہاں سے کوئی ادبی خبر سامنے آتی ہے نہ ہی رسائل و جرائد میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ، وہاں جس سطح پر بھی کام ہو رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، وہاں کے مصنفین، ناقدین ،شعراو ادبا اردو لکھنے پڑھنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اردو زبان وادب کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ چھتیس گڑھ میں ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا اور اس کتاب سے روشنی حاصل کرتے ہوئے مزیدتحقیقی کام سامنے آئیں گے ۔


Tuesday, 17 December 2024

قاری کا فقدان


دریچہ 

ڈاکٹر امیرحمزہ 

 اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یونی ورسٹی میں بھی قدم رکھیے آپ کو یہ سننے کوضرور ملے گاکہ اب قاری نہیں رہے ۔ لیکن یہ صورتحال کوئی اچانک سامنے نہیں آئی بلکہ برسوں سے خارجی و داخلی عوامل ایسے سا منے آئے کہ اب اردو معاشرے میں آپ کو خال خال ہی یہ دیکھنے کو ملے گا کہ قاری پیدا ہورہے ہیں ۔ مصنف ومرتب ، شاعر و تخلیق کار بہت ہی زیادہ سامنے آرہے ہیں لیکن قاری پیدا کرنے کی جانب پیش رفت بہت ہی کم کی جارہی ہے ۔ اس اہم مسئلہ کو ابھی ہم دو حصوں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس جانب قاری کا فقدان ہے۔اول تعلیمی اداروں میں ؟ دوم معاشرہ میں ؟ جواب آئے گا دونوں جگہ قاری کا فقدان ہے۔ پہلے تعلیمی اداروں کی بات کرلیتے ہیں کہ آخرتعلیمی نظام میں کیا تبدیلیاں آئیں کہ وہ تخلیق کار و قلم کار تو دور کی بات ہے اب قاری بھی پیدا نہیں کرپارہے ہیں ۔ آپ میرے اس جملے سے ضرور چونک گئے ہوں گے۔ ہاں یہی حقیقت ہے ۔ اب آپ خود ہی سوچیے کہ آپ کے گریجویشن اور ماسٹر میں کتنے درسی ساتھی تھے اور ابھی ان میں سے کتنے ہیں جو باضابطہ قاری ہیں یا ان میں مطالعہ کا شوق ہے ۔ آپ کہیں گے وہ تو سبھی تجارتی اور روزگا ر کا ستم جھیل رہے ہیں۔ ان کے پاس کہاں وقت کہ وہ کتب بینی میں اپنا وقت صرف کریں ۔ آپ کا جواب بالکل درست ہے کہ روزگار کے آلام میں فرصت کے اوقات کہاں سے نکلیںگے ۔ پھر سوال قائم ہوتا ہے کہ جس اسٹریم سے ہماری تعلیم ہوئی ہے ا س کے کیا مقاصد ہیں ۔وہ ووکیشنل اور پرفیشنل تو نہیں ہے کہ جہاں متن سے زیادہ تجربات کی اہمیت ہوتی ہے ۔ کیونکہ سائنس والوں کی عملی زندگی تجربات کے سہارے آگے بڑھتی ہے اور جہاں سند کے حصول کے بعد انسان اپنی زندگی مشینوں کے حوالے کردیتا ہے اور فنون سے اپنی روزی روٹی کے لیے جدو جہد کرتا ہے ۔ لیکن آرٹ جس میں علوم وفنون دونوں ایک دسرے کے ساتھ شیر شکر ہوجاتے ہیں وہاں کیا مقاصد ہوتے ہیں ؟ سوچیے ذرا ! اگر ذرا بھی سوچیں گے تواحساس ہوگا کہ ملک و ملت فنون و ثقافت کی تعلیم سے تعمیر معاشرہ کے لیے فکری قوت کو پروان چڑھاتی ہے اور ان میں متون کوفروغ دیا جاتا ہے اور جہاں متون کا فروغ ہوتا ہے وہاں بنیادی عنصر انہیں متون سے آشنا کرکے سماج میں فکری قوت کا فروغ دینا ہوتا ہے جس کے لیے ملک و ملت کا بنیادی مقصد قاری پیدا کرکے سماج میں تعلیم کو عام کرنا ہوتاہے ۔

یہ توایک نظریہ ہوسکتا ہے ۔ لیکن اصل سوال اب بھی قائم ہے کہ اب قاری کیسے پیدا کیے جائیں ۔ اس کے لیے ہمیں وجوہات پر غور کرنے ہوں گے اور تعلیم گاہوں کی جانب رخ کرنا ہوگا اور جہاں تعلیمی مدارج کے ماحول کے بارے میں سوچنا ہوگا ۔ پہلی سے پانچویں کلاس تک میں غور کرتے ہیں ۔ یہاں پر بچوں کی عمر دس برس ہوتی ہے اور پانچوں سال میں بچے بارہ سے پندرہ درسی کتابیں پڑھ چکے ہوتے ہیں ۔یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں بچے اس لائق ہوجاتے ہیں  کہ متن کی قرات کرسکیں ۔ لیکن آپ کو یہاں رزلٹ نہیں ملے گا ۔( لیکن ہمارے یہاں ابھی بھی کچھ ایسے اردو کے نامور ادیب زندہ ہیں جن کی اردو کی تعلیم محض پانچویں درجہ تک ہوئی ہے ۔) ابھی ایسا اس لیے ممکن نہیں ہوپارہا ہے کہ اسکولی نظام تعلیم میں متن کی قرات میں آموختہ کا مفہوم ہی نہیں رہا ۔ نیز طلبہ کی کثرت اور اردو کے لیے اساتذہ کی قلت اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ میں پانچویں کے بعد بھی یہ صلاحیت نہیں رہتی ہے کہ وہ متن کی بخوبی قرات کرسکیں ۔ اس کے بالمقابل میں دہلی کے انگلش میڈیم نامی گرامی اسکولوں کے بچوں کی جانب رخ کرتا ہوں تو وہاں معاملات برعکس ملتے ہیں ۔ وہاں کے کئی بچوں اور ان کے والدین سے بات کرکے پتہ چلا کہ والدین کو بچوں کے لیے اضافی چلڈرنس لٹریچرہر ماہ ہزاروں روپے کے خریدنے پڑتے ہیں ۔ ایک ماں کہنا تھا کہ مجھے کم اس لیے خریدنا پڑتا ہے کیونکہ میری دو جڑواں بیٹیا ں ہیں، انہیں اسکول کی لائبریری سے ہفتے میں دو کتابیں مل جاتی ہیں ،تواس طرح سے ہمارے دونوں بچے چار کتابیں پڑھ لیتے ہیں باقی چھٹیوں کے دنوں میں پریشانی ہوتی ہے ۔ آپ کے ذہن میں ضرور سوال آرہا ہوگا کہ چوتھی کلاس کی بچیاں ہیں اور وہ ہفتے میں چارکتابیں ۔ جی ہاں میں اس کا شاہد ہوں ۔ آخر ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ان میں قرات کی صلاحیت کو بہت ہی زیادہ پروان چڑھایا جاتا ہے ، وہ متن کی قرات میں پریشانیاں نہیں محسوس کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے یہاں سرکاری نیز پرائیویٹ اسکولوں میں تو بچوں کو سبق ہی یاد نہیں ہوتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ ہمارے معاشرے کے جو بچے ان اعلیٰ اسکولو ں میں پڑھتے ہیں ان کی ترجیح کبھی بھی اردو نہیں ہوتی ہے ۔ اگر بچوں کا اردو متن خوانی بہتر ہو بھی جائے تو کتابوں کی فراہمی ان کے لیے مشکل ہوجاتی ہے ۔ جہاں پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے شوق ہونے کے باوجود وہ اپنی دلچسپیاں کہیں اور تلاشنے لگتے ہیں ۔

دوسرا دو رسکنڈری اسکولوں کا ہوتا ہے ،جہاںسے تیسری زبان والے بچے بھی اردو میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ان کی لرننگ صلاحیت تیز ہوتی ہے وہ تیزی سے چیزوں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں ۔وہاں بچوں کو خارجی کتابوں میں دلچسپی بھی بڑھتی ہے جو ں جوں ان کے موضوعات میں اضافہ ہوتا ہے ان کی دلچسپیاں مزید بڑھنے لگتی ہے ۔ یہا ں پر بھی وہی آگے ہوتے ہیں جو پرائمری میں بہتر ہوتے ہیں ۔ یہاں قرات کا مسئلہ قدرے بہتر ہوجاتا ہے لیکن سسٹم کی مجبوری کے تحت اکثر میں مطالعہ کا شوق نہیں پیدا ہوپاتا ہے ۔ جبکہ انہیں میں سے چند فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جن کی دلچسپی کتابوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ اب یہاں پر اردو برادری کا امتحان ہوتا ہے کہ کیا انہیں ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کتابیں فراہم ہوجاتی ہیں ؟بالکل بھی نہیں ! چنداردو کے رسالے جن کی فخریہ اشاعت ہندوستان میں ہوتی ہے ان کے قاری اکثر ثانوی درجات کے ہی بچے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں انہیں مستقبل کے لیے بنا کر رکھنا اساتذہ اور سماج کی ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ ان دنوں ہماری آج کی زندگی میں تنہائی پسند نے گرہن لگا کر رکھ دیا ہے ۔ اساتذہ بس کلاس روم تک رہ گئے ہیں اور ماحول میں اجتماعیت کے فقدان نے بڑا نقصان کیا ہے، جس سے کوئی بھی طالب علم کسی دوسرے طالب علم کی اکٹویٹی پر نظر نہیں رکھتا ہے ۔ اس لیے اب دوست کم اور فالور زیادہ بنتے ہیں اوراگر اس بڑھتی ہوئی عمر میں گھر کا ماحول کتاب دوست ہے تو کتاب دوست ماحول بچے پر اثر کرتا ہے ورنہ وہ محض درسیات تک محدود رہتا ہے ۔ بور ڈ امتحانات کے بعد دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعلیمی سلسلے منقطع ہوجاتے ہیںبچیاں گھرگرہستی میں اور بچے روزی روٹی میں لگ جاتے ہیں ۔ یہاں پر ایک اچھا موقع ہاتھ آتا ہے کہ وہ بچیوں میں مطالعہ کو فروغ دیں لیکن اب تک میری نظر میں کوئی بھی آرگنائزیشن ایسی نہیں ملی جو اس جہت میں کام کررہی ہو۔ لڑکے تو پردیس چلے جاتے ہیں یا گھر کے کاروبار میں ساتھ نبھاتے ہیں ۔ بورڈ کے بعد ذمہ داری اعلی تعلیمی اداروں کی جانب رخ کرنے والوں پر آجاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر درس و تدریس میں تبدیلیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ وہاں کتابیں نہیں بلکہ لکچرس کا ماحول ملتا ہے ۔ وہاں متن پر کم اور نظریاتی تقاریر پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ کالجز میں جو بھی طلبہ کلاس کے لیے جاتے ہیں وہ پاس کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ کالج تک باضابطہ ایک سفر طے کر کے جانا ہوتا ہے ۔ وہاں لائبریری کا انتظام بھی کسی منتظم کے انتظار میں ہوتا ہے ، نیز لائبریری سے استفادہ کا فیصد نکالا جائے تو بہت ہی کم آئے گا۔ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ۔صاف وجہ ہے تدریس میں متن سے دوری ۔ اگر ایک موضوع پر دس سے زیادہ کتابوں کی سفارشیں نصاب تعلیم میں کئی گئی ہیں، ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سبھی کتابوں سے سبھی طلبہ بخوبی واقف ہوتے لیکن اس کے بجائے نوٹ سازی کا رجحان اصل روح کو متاثر کرتا ہے۔ نوٹ سازی اگرطلبہ خود دسیوں کتابوں سے کریں تو یہ کچھ بہتر بات ہوسکتی تھی لیکن فوٹو کاپی کے رجحان نے ذوق مطالعہ کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے ۔ ایسے میں دیکھیں تو کل تین سمسٹر س اور سولہ پرچوں میںسفارش شدہ کتب کی تعداد ہر یونی ورسٹی میں سو سے ایک سو بیس تک ہوتی ہے لیکن اس کے لیے ابھی کا جو ماحول ہے وہ یہ ہے کہ بس اس کے لیے سو لہ نوٹس کافی ہیں ۔ اس صورتحال میں سبھی شامل نہیں ہیں یقینا کئی طلبہ ایسے بھی ہیں جن کے مطالعہ کی استعداد پر داددینی پڑتی ہے ۔ البتہ نوے فیصد میں یہی حال آپ کو دیکھنے کو ملے گا ۔ایسے میں جہاں سے قاری نکلتے وہاں سے کتب بیزار طلبہ نکلتے ہیں ۔کالج کیمپس میں رہ کر پڑھنے والے طلبہ کی کیفیت دوسری ہے ۔ اس کے بعد کچھ طلبہ ماسٹرس کی جانب سفر کرتے ہیں ۔ گریجویشن میں جن موضوعات سے تعارف ہوا تھا اب ان میں درک حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ طلبہ کے درمیان آگے ریسر چ کے لیے ماحول تیار کرتا ہے ۔ یہاں اب تک چار سمسٹرس ہوا کرتے تھے جن میں سولہ پیپرس خالص اردو کے ہوتے ہیں۔ جن میں جدید و قدیم موضوعات کے ساتھ صحافت ، ڈرامہ اور فلم بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔ یہاں تو یہی امید ہوتی ہے کہ جو بھی ماسٹرس میں داخلہ لیتا ہے ان کا کتابوں سے گہرا رشتہ رہتا ہے ۔ لیکن دسری طرف نظر ڈالیں تو یہاں نوٹس سے بھی بڑی برائی معروضی سوالات کا ہوتا ہے ۔ اب تو ایم اے میں بھی بچے معروضی کی راہ سے آتے ہیں ،دوم یہ ہے کہ نیٹ اور جے آر ایف کا اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ معروضی کتابوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور موضوعات پر سنجیدہ مطالعہ ان کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے ۔معروضی کتابوں سے ان کا مقصد تو حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ نیٹ اور فیلوشپ کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ کا سفر ان کے لیے آسان ہوجاتا ہے ، لیکن ماسٹرس میں کتابوں کی دنیا میں کھو کر چند مخصوص موضوعات میں قاری اپنا رجحان پیدا کرنا چاہتا ہے وہ نہیں ہوپاتا ہے اور بالآخر پی ایچ ڈی میں جیسا بھی موضوع تھوپ دیا جائے کام کردیا جاتا ہے اور تمام تعلیمی سال میں ماحول ایسا بنادیا جاتا ہے کہ کتابیں قاری کی تلاش میںتر س کر رہ جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر یت میں ذوق مطالعہ پیدا ہی نہیں ہو پاتا ہے ۔ 

یہاں تک اسکولی سسٹم کی بات ہوئی ۔ مدارس کی بھی بات ہونی چاہیے جہاں سے قوم وملت کے چند فیصد ہی بچے مستفید ہوتے ہیں اور یہ نظر یہ بھی پھیل گیا ہے کہ اردو کا تحفظ مدارس سے ہی ہورہی ہے ۔ تو میں یہاں کہہ دوں کہ اردو کے حوالے سے مدارس کی بات کرنا بے سود ہے اور آپ کو مدارس سے امید رکھنا بھی بے سود ہے ۔ کیونکہ وہاں اردو زبان بالکل بنیادی سطح پر سکھائی جاتی ہے تاکہ مافی الضمیر کی ادائیگی ہوسکے اور وہ بھی اس لیے کہ عوام کی زبان اردو ہے۔ مدارس نے اس زبان کی کوئی ذمہ داری نہیں لے رکھی ہے۔ البتہ دنیا کے اکثر مدارس میں عربی کے بعد دوسری زبان اردو ہی ہے اس کی وجہ ہے کہ اکابر کی اکثر تصنیفات اردو میں ہی ہیں جن سے وہ مستفید ہوتے ہیں ۔ مدارس میں بچے ابتدائی پرائمری اور اعدادیہ میں ہی کچھ اردو کی کتابیں پڑھتے ہیں وہیں سے وہ نقل اور املا سیکھتے ہیں ، یہی سلسلہ حفظ میں بھی جاری رہتا ہے ، ان کتابوں کی نوعیت ادبی کم اور مذہبی زیادہ ہوتی ہے ۔اب تو فارسی درجات بھی ختم ہوگئے تو پھر اس کے بعد اردو کتابیں درس سے خارج اور مطالعہ میں داخل ہوجاتی ہیں ۔ اب کوئی بھی طالب علم بغیر شروحات کے درسی سفر طے کرتا ہی نہیں ہے ،خواہ کسی  بھی ادارہ کا بچہ ہو ۔ ہر عربی کتاب کے ساتھ عبار ت خوانی اور ترجمہ لازمی ہوتا ہے ۔ ترجمہ کے بعد تشریح اساتذہ بیان کرتے ہی ہیں ساتھ ہی اعادہ کے لیے وہ شروحات کی بھی مدد لیتے ہیں ۔ ایسے میں وہ مطالعہ کے عادی تو ہوجاتے ہیں لیکن خارجی کتابیں ان کے لیے شجر ممنوعہ ہوتی ہے ، کیونکہ نصاب اتنا بسیط ہوتا ہے کہ اسی کا احاطہ ممکن نہیں ہو پاتا ہے تو پھر کہاں وقت کہ وہ کچھ خارجی مطالعہ کرسکیں، پھر بھی اساتذہ کی تلقین اور مختلف کتب کے حوالہ جات ان کے اندر کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ وہ ان کتابوں سے مستفید ہوں تو ایسے میں آپ پائیںگے کہ وہ چنندہ ادیبوں کی کتابوں کے شیدائی ہوتے ہیں ۔ البتہ ابھی بھی وہاں سے صاحب ذوق قاری اور عمدہ شعری و نثری تخلیق کارپیدا ہورہے جو مشرقی لسانی جمالیات کی بھرپورنمائندگی بھی کررہے ہیں اور اتفاق سے زبان کی نوک پلک سنوارنے کا کام بھی کرتے ہیں ۔ 


Friday, 29 November 2024

زبان و ادب اور ثقافت کا جشن ’جشن اردو ‘

 رپورتاژ

زبان و ادب اور ثقافت کا جشن ’جشن اردو ‘ 

ڈاکٹر امیرحمزہ 



 اردو کے ادبی میلے کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے اگر کوئی شہر ہے تو وہ صرف دہلی ہی ہے ۔ جب دیگر کسی ادبی وثقافتی جشن کا تصور بھی نہیں تھا اس سے چند برس قبل لال قلعہ کے سبزہ زار میں قلعہ معلی کی تھیم کے ساتھ ہی اردو اکادمی دہلی نے ’’ اردو رواثت میلہ ‘‘ کا انعقاد کیا، اس کے کئی سال بعد ہی جشن کا سلسلہ عام ہوا ۔ ہر اسٹیج کا ایک بیک گراؤنڈ بینر ہوتا ہے لیکن لال قلعہ میں منعقد ہونے والے اردو وراثت میلہ کا کوئی بیک گراؤنڈ بینر نہیں تھا بلکہ لال قلعہ کا لاہوری گیٹ اور قلعہ کا فصیل ہی اسٹیج کا بینر تھا ۔ اس کے بعد اس میلہ کا سفر فصیل بند شہر سے باہر اور نئی دلی کا دل کناٹ پیلس کے مر کز سینٹرل پار ک کی جانب ہوتا ہے جہاں یہ میلہ کامیابی کے ساتھ دو سال منعقد ہوتا ہے، پھر گزشتہ مالی سال میں مغل طرز تعمیر میں باغات کا اعلی نمونہ پیش کرنے والی جگہ سندر نرسری میں یہ منعقد ہوتا ہے اور پوسٹروں میں اردو وراثت میلہ کے ساتھ ’جشن اردو ‘ بھی درج ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ یہ ’جشن اردو‘ پھر 17 تا 20 اکتوبر کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک میں منعقد ہوتا ہے ۔ اردو اکادمی دہلی کا یہ میلہ ہر مرتبہ مختلف پروگرام پیش کرنے میں منفرد ہے۔ اس میں اساتذہ اور طلبہ کی بھی شرکت ہوتی ہے اور اردو زبان و ثقافت سے متعلق کتب ، خطاطی و دیگر اشیا کے اسٹالس بھی مفت میں فراہم کیے جاتے ہیں ۔ اب تک اردو اکادمی دہلی کے اس میلے اور جشن میں ہر بار میں نے شرکت کی ہے ۔ اس مرتبہ بھی چاروں دن شریک رہا ۔ نئے فنکاروں کو سننے اور نئے تجربات سے روشنا س ہونے کا بھرپور موقع ملا ۔ 

 پہلا دن جمعرات کا تھا، دو پہر بارہ بجے سے جشن کے پروگرام کے آغاز کا وقت رکھا گیا تھا ۔ میٹرو سے پہنچنا تھا کیونکہ اپنی سواری سے پارکنگ کا مسئلہ ہوتا ہے اور اس مہنگی ترین جگہ میں پارکنگ کی فیس اداکر نا ہم جیسوں کے لیے بہت مہنگا پڑجاتا ہے ۔ راجیو چوک میٹرو اسٹیشن پہنچنے کے بعد یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ کس گیٹ سے باہر نکلا جائے ، گارڈ سے پوچھا تو وہ سا منے والا گیٹ بتا دیا ۔ میٹر و میں یہ پریشانی ہوتی ہے کہ اسٹیشن اگر انڈر گراؤنڈ ہے اور وہاں کے آپ روز کے مسافر نہیں ہیں تو یہ پریشانی ہوسکتی ہے کہ کس گیٹ سے باہر نکلا جائے ۔ خیر میں چھ نمبر گیٹ سے باہر نکل گیا اوپر آکر دیکھا تو وہ کناٹ پلیس کا اندورن سرکل روڈ تھا اور وہاں سے دو سو میٹر کے فاصلے پر سنٹرل پارک کا گیٹ تھا ۔ وفور شوق میں گیٹ تک پہنچا ۔ گیٹ سے لے کر پروگرام کی جگہ تک دونوں جانب سے فنکاروں کے بڑے بڑے بورڈ لگائے گئے تھے ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی گیلری سے گزررہاہوں۔ گیلری ختم ہوتے ہی ایمپی تھیٹر نظر آیا لیکن اس سے پہلے ایک سیلفی پوائنٹ تھا جس پر پروفیسر شہپر رسول کا خوبصورت و مشہور ترین شعر ’’ میں نے بھی دیکھنے کی حد کردی : وہ بھی تصویر سے نکل آیا ‘‘ درج تھا ۔ اس کے بعد پروگرا م کے مقام پر ایک نظر جی بھر کر ڈالی تو جی خوش ہوگیا ۔ اسٹیج کے سامنے سفید صوفوں کی تین قطاریں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں ، اس کے بعد تین قطاروں میں چاندنی بچھی ہوئی تھیں جن کے نیچے گدے بھی بچھے ہوئے تھے بالکل مجلس جیسا احساس دے رہا تھا، پھر کرسیوں کی صفیں تھیں جن پر سفید غلاف چڑھے ہوئے تھے ۔ یہ سفید کا تھیم دیکھ کر ایسا لگا یقینا کسی صاحب عظمت کی سوچ رہی ہوگی کہ عہد ماضی میں مشاعروں کے لیے سبزہ زاروں میں ایسی ہی چاندنی بچھا کرتی تھی ۔ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ چاروں طرف ڈالی، دھوپ میں ابھی شدت تھی ، سامعین کے لیے مثل ابرو کے درمیانی حصے میں کافی اونچائی پر بطور خوبصورتی سفید کپڑے کا شامیا نہ لگا ہوا تھا جو کچھ سائے  کا بھی کا م کررہا تھا ۔ میں وہیں گدوں پر ٹیک لگاکر اور پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔

 کچھ لمحہ گزرا تھا کہ نظامت کے لیے ڈاکٹر جاوید حسن مائک پر تشریف لائے اور غزل سرائی کے پروگرا م کا آغاز کیا ۔ اس میں دلی کی یونی ورسٹیز اور مختلف کالجز کے طلبا و طالبات نے ہی حصہ لیا ۔ اچھی اور کم اچھی بلکہ دو تحت اللفظ غزلوں کو سننے کے بعد ججز کی باری تھی جس پر پروفیسر ابو بکر عباد اور مرزا عارف جلوہ افروز تھے ۔ انہوں نے اول انعام سید تجمل حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دوم انعام سید ابو ذر فاطمی دہلی یونی ورسٹی، سوم انعام زینب دہلی یونی ورسٹی اور تشجیعی انعام کی مستحق سُرگم مشرا دہلی یونی ورسٹی کو قرار دیا۔ میرا خیال تھا کہ سرگم مشرا اول انعام کی مستحق قرار پائیںگی کیونکہ انہوں نے جس سر اور تال کے ساتھ غزل گائی تھی وہ لاجواب تھا لیکن تیسرے دن جب میں نے انہیں غزل گلوکارامریش مشرا کے ساتھ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ان کی صاحبزادی ہیں تب مجھے احساس ہوا کہ انہیں اول انعام کیوں نہیں دیا گیا تھا۔ 

اس پرو گرام کے بعد سے نظامت کی ذمہ داری ریشما پروین اور اطہر سعید سنبھالتے ہیں جو لگاتار چاردنوں تک وہا ں کے سامعین میں اردو کا رس گھولتے رہتے ہیں ۔ ایسے پروگراموں میں نظامت کا معاملہ کچھ دیگر ہوتا ہے ۔ وہ بالکل عام پروگراموں کی طرح نہیں ہوتا ہے، ایسا میں نے جشن ریختہ میں بھی نہیں دیکھا۔ ریختہ میں بعد میں ’کنج سخن‘ اور’ دیوان خاص‘ میں اس کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ یہا ں نظامت کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک پروگرام سے دوسرے پروگرام کے درمیا ن میں جو وقت کا خلا ہوتا ہے اس میں انہیں اسٹیج سنبھالنا اور سامعین کو اردو کے تعلق سے مختلف چیزوں سے روشناس کرانا ہوتا ہے ، جس میں اشعار کی عمدہ پیش کش اور اردو و دہلی کے حوالے سے خوبصورت و دلچسپ معلومات بھی درکار ہوتی ہے، جسے ان دونوں نے بخوبی چا ر دنوں تک ادا کیا۔

 دوسرا پروگرام تمثیلی مشاعرہ کا تھا جسے اردو ڈرامہ کے بے تاج بادشاہ سعید عالم اور ان ٹیم کی اداکاری میں پیش کیا گیا ۔ اس تمثیلی مشاعر ہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میںامیر خسر و ، قلی قطب شاہ، ولی دکنی ، میر تقی میر، غالب ،داغ، زخ ش ، اکبر الہ آبادی، اقبال ، فیض اورپروین شاکر کی تمثیل کی گئی تھی ۔جس میں اس وقت کی زبان و ادا اور لباس کو بھی بخوبی پیش کیا گیا تھا ۔ ایم سعید عالم کی برجستہ جملوں کی ادائیگی محفل کو قہقہ زار کررہی تھی ۔اسے اگرچہ تمثیلی مشاعر ہ کہا گیا لیکن یہ تو عالم برزخ کا مشاعرہ تھا اور یہ ایک تصوراتی مشاعرہ تھا۔ میں نے بہت سارے ڈرامے دیکھے ہیں لیکن اردو ادب کے حوالے سے جیسی عمدہ پیشکش ایم سعید عالم کی ہوتی ہے وہ کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ ان سے پہلے ٹام آلٹر میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود تھی ۔

 اس کے بعد ’ساز وسرور‘ عنوان کے تحت فرخ بیگ نے اپنی آو از سے لوگوں کو مسحور کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن سامعین کی کیفیت سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ ان پر فرخ بیگ کی پیشکش گراں گزررہی ہے ، خیر موسیقی کے دیوانے اپنے اپنے انداز میں محظوظ ہورہے تھے ۔ شام جوں جوں ڈھل رہی تھی، پروگرام کی جانب شائقین کے قدم بڑھتے چلے آرہے تھے ۔ شام سے پہلے ہی ’’کچھ نغمے کچھ گیت‘‘ کے تحت شیو راجوریا اور ڈاکٹر جیوتسنا راجوریا نے اپنی خوبصورت پیش کش سے نغمہ و ساز میں ایک خوبصورت مثال پیش کی ۔ ان کی ہر ایک پیش کش نے سبھی ناظرین و سامعین کے قدم جمادیے تھے ۔ یہ خوبصورت پروگرام سامعین کے لیے بہت ہی مختصر لمحہ ثابت ہوا ۔ان کی پیش کش میں بالکل وہی احساس ہورہا تھا جیسے جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ ہوں (اسٹیج کے اعتبار سے گائیکی کے اعتبار سے نہیں )کئی سامعین ایسے تھے جو پدم شری احمد حسین محمد حسین کو سننے آئے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے انہیں اردو اکادمی دہلی کے اسی پروگرام کے تحت لال قلعہ میں سنا تھا ۔ تب سے وہ میرے دل میں بس گئے تھے اس دن بھی مجھے اچھا موقع ملا اور پروگرام ’گلدستہ غزل‘  میں دیکھا کہ انہوں نے کلاسک و جدید کا حسین سنگم پیش کیا ۔

شام ہوتے ہی بھیڑ میں خوب اضافہ ہوچکا تھا ۔ جن صفوں میں چاندنی بچھی ہوئی تھی ان میں پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی، کرسیوں کے پیچھے اور پروگرام کے دونوں جانب سبزہ زار میں لوگ پھیلے ہوئے تھے کیونکہ پہلے دن کا آخر ی پرواگرام ’عالم کیف‘ پیش ہونا تھا جس کے روح رواں نوجواں دلوں کی دھڑکن سلمان علی تھے۔ دیگر فن کاروں کی طرح سلمان علی کا انداز بالکل الگ ہوتا ہے۔ وہ اسٹیج میں قدم رکھنے کے بعد اپنی پیشکش شروع نہیں کرتے ہیں بلکہ جب ساؤنڈ کا سارا سیٹ اپ تیار ہوجاتا ہے تو وہ اپنی گائیکی کے ساتھ اسٹیج میں قدم رکھتے ہیں اسے ان کا ویلکم پیشکش کہہ سکتے ہیں ۔ اس مرتبہ وہ کرتا اور پتلون جیسا پاجامہ اور ساتھ میں سنہرے رنگ کی کوٹی میں تھے ۔ ویلکم نغمہ کے بعد وہ حاضرین سے مخاطب ہوتے ہیں کچھ کلام وشکریہ کے الفاظ کے بعد پھر اپنی آواز اور آہنگ کا جادو جگاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سامعین واقعی عالم کیف میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔ پر وگرام اس قدر خوبصورت تھا کہ فن ، ثقافت و السنہ کے وزیر عالیجناب سوربھ بھاردواج نے اسٹیج پر آکر خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی دہلی ، زبان و ثقافت اور ہماری وہ روایات جو ہمارے درمیان سے آہستہ آہستہ مٹتی جارہی ہیں اس کے فروغ کے لیے ہماری سوچ سے بھی زیادہ کام کررہی ہے۔ یہ لوگ میرے پاس تجویز لے کر آتے ہیں اور میں تعاون میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں کرتا ہوں ۔ انہوں نے علامتی طور پرکہا کہ آج کل مچھر بہت زیادہ ہوگئے ہیںپہلے بھی بہت تھے لیکن دلی والے مچھروں سے نمٹنا اچھی طرح سے جانتے ہیں اور چار پانچ مہینوں میں سبھی ختم بھی ہوجائیںگے ۔ ان کے ساتھ وزیر خوراک و رسدعمران حسین بھی تھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مروتاً کچھ کہنا نہیں چاہ رہے ہیں لیکن سوربھ بھاردواج نے جب کچھ بولنے کو کہا تو انہوں نے بھی مائک لیا اور کہا کہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اردو اکادمی زبان و ثقافت کی ترویج میں بہت ہی زیادہ متحرک ہے ۔ آپ سبھی کا ساتھ رہا تو یہ ہمیشہ اور بھرپور جاری رہے گا۔ ان دونوں وزرا نے سلمان علی کو اردو اکادمی کا مومنٹوپیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ اداکیا اسٹیج پر ان کے ساتھ وائس چیئر مین ، سیکریٹری اور گورننگ کونسل کے ممبرا ن بھی موجود تھے ۔ اس کے بعد پھر سلمان علی کی پیش کش جاری رہتی ہے جو رات دس بجے تک جاری رہتی ہے ۔سلمان علی کے پروگرام سے پہلے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول حاضر ین سے مخاطب ہوتے ہوئے بطور استقبالیہ چند کلمات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ’’ دلی واحد ایسا شہر ہے جہاں کی قدیم تہذیب کو مستقل جلا بخشنے کا کام ہماری اکادمی انجام دیتی آرہی ہے ۔ شاعری و موسیقی کا خوبصورت سنگم اردو زبان میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے، دلی کی عوام واقعی میں دل والے ہیں جو ایسے پروگراموں میں بھر پور شریک ہوکر تہذیب کی دلدادگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔انہوں نے دلی سرکار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگرامو ں کے انعقاد میں ان کا بھر پور تعاون ملتا ہے ، جس کے لیے ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں ۔‘‘

 اس درمیان جب میں نے ساونڈ اور لائٹ سسٹم پر دھیان دیا تو متعجب ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ، کہیں پر بھی کوئی ہارن کا استعمال نہیں تھا پھر بھی کناٹ پلیس کا اندرون سرکل پرواگرام کی آواز سے پوری طرح متاثرتھا ۔ اس موقع پر ایک سکھ نوجوان کو اپنے دوست کو ساؤنڈ سسٹم کے بارے میں بتاتے ہوئے سنا تب مجھے پتہ چلا کہ کتنا بھاری سسٹم استعمال کیا گیا ہے اور سبھی کچھ ڈیجیٹل تھا ، لائٹنگ کا بھی خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملا ، جو بھی اس کا کنٹرولر تھا وہ واقعی میں بہت ماہر تھا۔ مجھے ان کے اصطلاحات سمجھ میں نہیں آئے بس گنتیا ں یاد رہ گئیں کہ انتے ڈیک ، بوفر ، اسپیکر اور ایمپلی فائر لگے ہوئے ہوئے ہیں ، یعنی ایک کنسرٹ کا مکمل سیٹ اپ موجود تھا ۔

دوسرے دن کا پہلا پروگرام قصہ گوئی سے شروع ہوا،جسے دہلی کے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا ۔ اس پیشکش کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انہوں نے پرانی دلی کی گلیوں کی کہانیاں ، بچوں کی زبان ،کرخنداری زبان اور دلی کی تک بندیوں کوپیش کیا ۔اس میں مرکزی فنکار ارشاد عالم خوبی اور ان کے ساتھ کئی نونہال بچے اور بچیاں تھیں ۔ اگر کوئی سوچے کہ ایسی خصوصیات تو ہر شہر کی زبان میں ہوتی ہیں ، تو ان کاسوچنا بالکل درست ہے ، جہاں جہاں بھی اردو زبان ادوب کی سرپرستی قلعات و محلات کو نصیب ہوئی ہے ،وہاں یقینا زبان کو لے کر بہت ساری کہانیاں ہوں گی، جنہیں جمع کرکے خوبصورت انداز میں دستاویزی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد جامعہ گروپ دہلی نے ڈراما ’’ غالب جدیدشعرا کے ساتھ ‘‘ پیش کیا۔ جس میں مرکزی کردار میں غالب تھے جن کا کردار ڈاکٹر جاوید حسن ادا کررہے تھے ۔اس تحریر کو کنہیال لال کپور نے تخلیق کیا ہے اس کا عنوان انہوںنے ’’ غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں ‘‘ رکھا ہے ۔  اس ڈرامے کی خاص بات یہ تھی غالب جدید دور شاعری میں اپنا رد عمل پیش کرتے ہیں ، جس میں ن م ارشد ، ہیراجی ، راجہ عہد علی خاں ودیگر شعرا کی مجلس میں غالب جنت میں تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ یہ بہت ہی دلچسپ ڈراما تھا یقینا دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ’’داستا ن دلی والوں کی ‘‘  شروع ہوتی ہے، جسے ممتاز مزاح نگار انس فیضی اور مسعود ہاشمی نے پیش کیا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ پرانی دلی کی جو ادبی شخصیات تھیں ان کے خصوبصورت خاکے داستان کی شکل میں پیش کیے گئے ۔کئی اشخاص کے بطرز داستان پیش ہوئے لیکن استاد رسا کا ذکر خاصا طویل اور دلچسپ بھی تھا ۔ اب تک دستان سفید کرتا جس میں گھنڈیاں لگی ہوتی تھیں اور بہت ہی چوڑے پائنچے کے پاجامے بالکل پرانی وضع کے ہوتے تھے۔ لیکن اس میں دونوں داستان گو حضرات نے آج کے زمانے کا ہلکا آسمانی رنگ کاکرتا اور علی گڑھی پاجامہ پہنا ہوا تھا ساتھ میں دوپلی ٹوپی بھی تھی ۔کچھ بھی قدیم طرز کا نہیں لگ رہا تھا ۔ اس کے بعد کے تینوں پروگرام موسیقی سے متعلق تھے ۔ شام کی شروعات ’بہار غزل ‘ سے ہوتی ہے ۔ جسے پیش کرتے ہیں جازم شرما، ان کا نام تو پہلے کبھی سنا تھا لیکن ان کی گائیکی سے روبرو ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ۔انہوں نے سامعین کے درمیان غزل گائیکی کا اچھا تاثر قائم کیا ۔ 

اس کے بعد ’’ رنگ صوفیانہ ‘‘کا پروگرام تھا جسے رنگ بینڈ (بھوپال) کے تحت محمد ساجدنے اپنے فن کا بے مثال مظاہر ہ کیا ،اس پروگرام سے پہلے میں گرین روم میں بیٹھا ہوا تھا ، اتفاق سے انہیں باہر انتظار کرنے میں کچھ دشواری کا سامنا ہوا توپردہ ہٹا کر آکر بیٹھ گئے ، میں بھی وہیں موجود تھا، میں تو انہیں پہچانتا نہیں تھا پوچھ بیٹھا کہ ابھی آپ لوگوں کا پروگرام ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے ہی پروفارم کرنا ہے ، میں ٹھٹھک گیا ، پھر دریافت کیا کہ آپ کے بینڈ کی کیا خصوصیت ہے اس پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری خصوصیت یہ ہے کہ ہم نے کلاسک کو جدید آہنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ وہ وقت کے مزاج میں مقبول ہوسکیں۔ واقعی میں انہو ںنے ایک سے بڑھ کر ایک پیشکش دی جن سے سبھی سرشار تھے۔آخری پروگرام ہمیشہ سے سبھی کے لیے اہم ہوتا ہے میں بھی اس اہم پروگرام کے انتظار میں تھا جس کا عنوان تھا ’’آج کی شام آپ کے نام ‘‘ اس پروگرام کے تحت پوجا گائتونڈے (ممبئی ) اپنی گائیکی کا جوہر آواز کے ذریعے بکھیرنے والی تھیں ۔ صبر آزما مرحلہ تھا ، ایک کے بعد دوسرے نغمات کا سفر جاری رہاں یہاں تک پروگرام ساڑھے نو بجے ختم ہوگیا لیکن شاید وہ سامعین میں وہ فرحت و انبساط نہیں لاسکیں جس کے سبھی منتظر تھے ۔ لیکن یہ بات قابل تعریف تھی کہ سبھی سنجیدگی سے ان کی فنکاری کو سراہ رہے تھے اور کسی نے بآواز بلند کوئی فرمائش کردی تو اچھا سا جواب بھی مل جاتا تھا ۔ جیسے میری جانب سے کسی نے زور سے چلا کر کہا ’ تمہارے شہر کا موسم بڑا سہا نا لگے ہے‘ پوجا کا جواب تھا اچھا جی مجھے معلوم نہیں تھا ۔ 

تیسرے دن جب راجیو چوک پہنچا تو مجھے میٹر و سے باہر نکلنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی ، دوسرے دن جب چھ نمبر گیٹ کے سامنے کھڑا ہوکر گارڈ سے پوچھا کہ دونمبر گیٹ کدھر ہے جو سینٹرل پارکے گیٹ کے بالکل سامنے تھا، تو گارڈ نے کہا کہ فٹ اورر برج پار کرکے ادھر جائیے پھر بائیں طرف گیٹ ملے گا ۔ شاید یہ دلی کی زیر زمین کا پہلا میٹر و اسٹیشن ہے جس میں فٹ اوور بر ج بھی بنا ہوا ہے۔ لیکن تیسرے دن بغیر کسی کنفیوزن کے میٹرو سے باہر نکلا۔ ہفتہ کا دن تھا ، دلی میں سرکاری محکموں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو پہلے کے دنوں سے زائد افراد پروگرام میں نظر آرہے تھے ۔ پہلا پروگرام بیت بازی کا تھا۔ جس میں دہلی یونی ورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل یونی ورسٹی سے کل گیارہ ٹیموں نے شرکت کی۔ پہلا انعام ٹیم ’میر تقی میر‘ شعبہ تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ (عبیداللہ، ابو الاشبال، محمد فرحان)۔ دوسرا انعام ٹیم ’’علامہ اقبال‘ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ (سید تجمل اسلام، زاہد اقبال، نوید یوسف) اور تیسرا انعام، ٹیم ’ولی دکنی‘ جواہر لعل یونی ورسٹی (آفتاب عالم، محمد فرید الدین، عائشہ خاتون) کو دیا گیا۔ بیت بازی میں ججز کے فرائض ڈاکٹر شبانہ نذیراور ڈاکٹر وسیم راشد انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ عمدہ اشعار کے انتخاب کے ساتھ ادائیگی بھی عمدہ ہونی چاہیے ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیت بازی میں روانی اشعار پڑھ دیے جاتے ہیں اور شعر میں تاثر ہی قائم نہیں رہتا ہے ۔

دوسرا پروگرام ’’صوفی محفل‘‘ کے تحت قوالی کا تھا، جس میں قطبی برادرس کی ٹیم نے اپنا فن پیش کیا۔ انہوںنے روایتی انداز میں اپنی قوالی شروع کی جس میں حمد و نعت اور منقبت پیش کیا، اس کے بعد چند صوفیانہ کلام بھی پیش کیا۔ قطبی برادرس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی درگاہ کے دستار بند قوال ہیں۔ ان کے نام کئی ریکارڈ بھی ہیں جیسے لگاتار بارہ گھنٹے تک قوالی پیش کرنا، نیز وہ کلاسیکی قوالی میں ہندوستان کی نمائندگی دنیا بھر میں کرتے ہیں۔ان کی آواز حد سے زیادہ بلند تھی ، سامنے بیٹھ کر سننا بالکل چیلنچ ہوگیا تھا ،تو میں اٹھ کر پارک سے باہر ٹہلنے نکل گیا، وہاں بھی ان کی آواز بخوبی پہنچ رہی تھی ۔ تیسرا پروگرام ڈراما ’’باغ تو سارا جانے ہے ‘‘ تھا۔ اس ڈراما میں میر کی ذاتی اور ادبی زندگی کو پیش کیا گیا ۔اس ڈرامے کے ہدایت کارجامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاد ڈاکٹر جاوید حسن تھے، جس کو تحریر کیا ہے پروفیسردانش اقبال نے۔اس ڈرامے نے غیر اردو برادری میں اچھا تاثر قائم کیا۔ اس ڈرامے کو جامعہ میں بھی دیکھ چکا تھا ، لیکن ڈرا ما کی خصوصیت ہوتی ہے کہ ہر مرتبہ یہ الگ ہوتا ہے۔ پہلے میر کی غزلوں میں رقص تھا اس مرتبہ صرف گائیگی رہ گئی تھی ۔ بعد میں مَیںنے معلوم کیاایسا کیوں  ہوا تو پتہ چلا کہ رقص کی خوبصورتی رنگ برنگلی روشنیوں میں ہے لیکن یہاں تو دن کے دو بجے سیارہ اعظم کے سامنے کس کی چلتی ہے ۔ 

اس کے بعد جشن اردو کا مزاج ساز وآہنگ کی جانب پھرتا ہے اور ’محفل ترنگ‘ کے تحت دھروو سنگاری صوفیانہ کلام سے نیرنگیا ں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔  ان کے بارے میں ناظم اطہر سعید صاحب اعلا ن کرتے ہیں کہ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے موسیقی کی تعلیم دلی گھرانے سے حاصل کی اور نصرت فتح علی خاں کے خاص اور آخر ی شاگر د ہونے کابھی شرف حاصل ہے۔جب یہ خصوصیا ت ہیں تو میں بھی ہمہ تن گوش ہوگیا ۔ واقعی میں ان کی گائیکی غنیمت تھی ، اوروں سے کافی اچھی تھی ، آواز میں قطبی برادرس کی طرح سختی نہیں تھی ، سامعین کے ساتھ میں بھی کافی محظوظ ہوا ۔ ان کے بعد ’’رونق غزل‘‘ کے تحت مشہور ومعروف غزل گلوکارہ رادھیکا چوپڑا رونق اسٹیج ہونے والی تھیں ۔ انہیں پہلے بھی کافی سن چکا ہوں لیکن غزل ہی ایسی چیز ہے اور رادھیکا کی آواز میں ہوتو ہر بار شوق سماعت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ میں بھی گھوم پھر کر سننے کے لیے صوفے میں بیٹھ گیا واقعی میں ان کی مخمور و مسحورآواز سے سبھی بہت ہی زیادہ محظوظ ہوئے۔ وہاں تو زیادہ تر نواجو ان تھے تو انہوں نے بھی کافی حظ اٹھا یا ۔ انہوں نے اردو شعرا کی اہم غزلوں کے علاوہ اپنی اہم کمپوزیشن بھی پیش کی۔ اس کے بعد قوالی کا پروگرام تھااور میں غزل کی میٹھی آواز سے نکل کر قوالی سننے کا خواہش مند نہیں تھا لیکن ممبئی کے صابر ی برادرس کا کا فی نام سنا تھا ، حال میں ہی کپل شرما کے شو میں بھی نظر آئے تھے پروگرام سے دور گھاس میں بیٹھ کر سننے لگا ۔ صابری برادرس (آفتاب صابر ی و ہاشم صابری)نے بھی اپنی بیاض کھول لی اور ہارمونیم پر انگلیوں کے رقص کے ساتھ آواز کا کمال بھر پور پیش کیا ۔صابری برادرس فلموں میں بھی اپنے فن کا مظاہر کرچکے ہیں تو ان کے دیوانے خوب محظوظ ہورہے تھے۔ میں تو بس اس انتظار میں تھا کہ دیگر قوال کے مقابلہ میں ان کے پاس نیا کیا ہے ۔ اس موقع پر مجھے ایک جملہ ’ماسٹر پیس‘ یا د آتا ہے ، یعنی کوئی فن پارہ کسی فنکار کے ساتھ ہی منسلک ہوجائے کوئی دوسرا اس جیسا پیش نہ کرسکے اور وہ فن پارہ اسی کی شناخت بن کر رہ جائے ، جیسے ریشماں کی لمبی جدائی ، جگجیت سنگھ اور غلام علی کی بہت ساری غزلیں ، نصرت کی قوالیا ں جن کی شناخت انہی کے ساتھ قائم ہوکر رہ گئی ہیں کوئی دوسرا ان جیسا گانہیں سکتا ۔ ایسا ہی ہر قوال کا بھی اپنا کوئی ماسٹر پیس ہوتا ہے ، ان کی بھی کوئی ایک قوالی تھی جو کسی فلم کے لیے انہوں نے گائی تھی اتفاق سے ابھی میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ 

چوتھے دن بھی حاضری ہوئی۔ اس دن سبھی کے لیے چھٹی کا دن تھا جب تک میں پروگرام میں پہنچتا تب تک پہلا پروگرام ’ کوئز ‘ کا ختم ہوچکا تھا ۔ ججز حضرات کی گفتگو جاری تھی ۔ پوزیشن کا اعلان کیا جارہا تھا ۔ جس میںسعید جامی و محمد راشد (جامعہ ملیہ اسلامیہ ) اول ،نوشین افزا و محمد محبوب حسن (جے این یو) دو م ، عبد الحسیب و محمد اختر (جے این یو ) سوم اور آفتاب عالم و محمد فرید الدین (جے این یو ) حوصلہ افزاانعام کے حقدار قرار پاتے ہیں ۔ اس پروگرام میں ججز کے فرائض پروفیسر شمیم احمد اور ڈاکٹر شفیع ایوب انجام دے رہے تھے ۔ چار دن کے پروگرام میں تین دن کا پہلا پرواگرام یونی ورسٹی کے طلبہ کے لیے ہی مختص تھا۔ جامعہ ، ڈی یواور جے این یو کے طلبہ بھر پور حصہ لیے لیکن جامعہ ہمدرد سے کیوں نمائندگی نہیں ہوئی یہ مجھے بھی نہیں معلوم ۔آخری دن کا دو سرا پروگرام چار بیت کا تھا ، چار بیت کے لیے ہندوستان میں چند ہی شہرکی نمائندگی اب تک دیکھتا آیا ہوں ، بھوپال ، بچھرایوںاور امروہہ، ان کے علاوہ اگر کسی اور شہر میں اس روایت کا چلن ہوتا تو ضرور وہاں کے افراد اپنے فن کا مظاہر ہ کرتے ۔بہرحال اس دن محمد حینف واقبال ( بزم احسان بچھرایوں ) اور گوہر علی ( اکھاڑہ شانِ امروہہ) کی ٹیموں نے چار بیت پیش کیا ۔دونوں ٹیموںکے سارے افراد سفید کرتے اور پاجامے میں نظرآتے ہیں، ایک ٹیم سیاہ مخملی ٹوپی اوڑھے ہوئی تھی جبکہ دوسری ٹیم ننگے سر تھی ۔ چاربیت کا پروگرام شروع ہوتا ہے دونوں جانب سے ترچھی لکیر کی شکل میں ٹیمیں بیٹھ جاتی ہیں ۔ دونوں  ٹیموں سے پانچ پانچ افراد پہلی صف میں ہوتے ہیں دوسری صف میں بھی پانچ ہی ہوتے ہیں جو کورس کا رول ادا کرتے ہیں ، اکثر کے ہاتھ میں ڈفلیاں ہوتی ہیں ،جیسے ہی شعر ترنم کے ساتھ پڑھا جاتا ڈفلیاں بجنا شروع ہوجاتیں ہیں لیکن ڈفلی کا جوش دوسرے مصرعے میں زیادہ نظر آتا ہے ۔ جب ایک ٹیم چار بیت پیش کرتی ہے تو دوسری ٹیم خاموش رہتی ہے ۔یہ ایک دلچسپ پیشکش ہوتی ہے لیکن ایک ہی آہنگ و انداز سے لوگوں میں عدم دلچسپی نظر آنے لگتی ہے ۔اس معاملہ میں مجھے بھوپال والوں کا چار بیت اچھا لگا ، وہ ایک ہی ٹیم ہوتی ہے لیکن ان کا انداز پیشکش جداگانہ ہوتا ہے ۔اس کے بعد قوالی کا پروگرام ہونا تھا لیکن اس سے پہلے جو طلبہ مقابلہ جاتی پروگراموں میںکامیاب ہوئے تھے انہیں اکادمی کے نشان سے بھی نوازنا تھا ساتھ ہی وہ طلبہ جو والنٹیرکی ذمہ داری ادا کررہے تھے(شائمہ خانم ،ریحان شہباز، سمن کمار، ذولفقار علی،عرفان علی، شیوانگی گپتا ) ان سبھی کو بھی اکادمی کے نشان سے سرفراز کرنا تھا۔ یہ ایک خوشی کا لمحہ ان تمام طلبہ کے لیے تھا جس لمحے کو ان سبھی نے وائس چیئر مین کے ہاتھوں مومنٹو حاصل کرتے ہوئے جی بھر کر جیا۔ اس بعد سے موسیقی و آہنگ کا پروگرام شروع ہونا تھا تو تیسرا پروگرام ’’ صوفیانہ کلام ‘‘ تھا جس کے تحت سید مکرم وارثی نے قوالیاں پیش کیں ۔ انہوں نے اپنی بھرپورآواز کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور و معرو ف نعت و منقبتی کلام پیش کیے جس سے یقینا سامعین بھی خوب لطف اندوز ہوئے ’ تاجدار حرم ‘ ان کی اچھی پیش کش تھی ۔ شام ڈھل رہی تھی اور کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک میں شائقین کا ہجوم بڑھتا ہی جار رہا تھا۔ پرواگرام میں قدم رکھنے کو جگہ نہیں تھی کہ چوتھا پروگرام ’’ سرمئی شام ‘‘ امریش مشرا لے کر آتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی مخملی آواز سے بہت ہی خوبصورت غزلیں پیش کیں ، نئے و پرانے کمپوزیش میں انہوں نے سامعین کا دل موہ لیا ۔ ان کی پیشکش اتنی عمدہ تھی کہ وقت کی کمی کے سبب سامعین کے دلوں میں تشنگی رہ گئی ۔سنتے ہوئے واقعی میں ایسا محسوس ہوا کہ غزل جس حلاوت کے لیے مشہور ہے وہ ان کی آواز و انداز میں بخوبی موجود ہے ۔سامعین نے انہیں تو سراہا ہی ساتھ ہی اتنا لطف اندوز پروگرام تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔ پرو گرام کے بعد پروفیسر شہپر رسول نے بھی بیک اسٹیج میں انہیں تعریفی کلمات سے نوازا ۔ 

 پانچواں پروگرام ’’ محفل قوالی ‘‘ کا تھا ۔ جس میں ملک کے جانے مانے اور کم عمری میں ہی قوالی میں اپنی شناخت بنانے والے رئیس انیس صابری نے صوفیانہ کلام اور اپنی سحر انگیز آواز سے سامعین کو جھومنے پر مجبور کیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان کے شائقین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پروگرام سے پہلے اور بعد بھی ان تصویر میں ایک فریم میں آنے کے لیے پاگل پن کا مظاہر ہ کریںگے ۔ یہ نوجوان ، بلکہ نوخیز قوال سبھی کی نظر وں میں سما جارہا تھا یہاں تک کہ بیک اسٹیج میں ریشما نے کہہ بھی دیا کہ میں کسی بھی قوال کو آپ جیسا خوبصورت نہیں دیکھا ہے ، سب عجیب طور طریقے کے ہوتے ہیں ۔ بے چارہ اس بات پر شرما کر رہ گیا ۔ اب اس جشن کا آخر ی پروگرام ’’ رنگ نشاط‘‘بچا تھا جس کے تحت موسیقی کی دنیا کی مشہور و معروف صوفی گلوکارہ ہر شدیپ کوراپنے فن کا مظاہرہ کے لیے آئیں، بھیڑ اتنی زیادہ تھی کہ وہ قابو سے باہر ہونے کے قابل تھی ، لیکن ان کے پورے پروگرام میں ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ کچھ ایسا ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ ٹیلی ویژن کی دنیا سے وہاں پر ان کی آواز بالکل الگ نظر آئی، وہ بالکل خاموش طبعیت سے گانے والی نکلیں بلکہ ان کے ساتھ کورس میں جو تین لڑکیا ں تھی ان میں نقل و حرکت زیادہ پائی جارہی تھی ۔ لوگ اپنی اپنی امیدیں لے کر آئی تھیں ۔ میری بھی امید تھی کہ ان کی آواز کافی بلند ہوگی لیکن مجھے کچھ ایسا محسوس نہیں اس لیے دیکھا کہ سامعین و حاضرین میں بھی جو جوش و خروش سلمان علی کے پروگرام میں نظر آیا تھا وہ تو مجھے بالکل بھی نظر نہیں آیا۔

 اس آخر ی پروگرام سے پہلے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کی اپنی ایک تہذیب ہے اور آپ نے جس تہذیب کا مظاہر ہ کیا ہے وہ قابل رشک ہے ۔ مزید انہوں نے کہا کہ دہلی میں یقینا کئی ایسے ثقافتی پروگرام ہوتے ہیںلیکن ’جشن اردو‘ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ لگاتار چار روز تک جاری رہتا ہے او ر سبھی کے لیے مفت بھی رہتا ہے ۔ اس میں ساز و آہنگ کے تحت ملک کے نامور موسیقاروں اور فن کاروں کو بلایا جاتا ہے جس سے سامعین میں یہ احساس ہوتا کہ میوزک کی پوری دنیا اردو شاعر ی سے ہی قائم ہے مزید انہوں نے کہا کہ اس موقع پر تمام فنکاروں ، سامعین کے ساتھ اکادمی کے کارکنان کابھی شکریہ اداکرتا ہوں جو لگاتار چار دونوں تک اس پروگرام کے لیے خود کو ہمہ تن وقف رکھا ۔ انہو ں نے اس جشن میں اسٹال لگانے والوں میں سے کا بھی شکریہ ادا کیا ۔اس موقع پر ڈپٹی میئر آلِ اقبال بھی موجود تھے انہوں نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری محبت کی زبان ہے اور جس طرح محبت کبھی ختم نہیں ہوتی اسی طریقے سے اردو بھی ہمیشہ زندہ رہے گی اور سامعین سے’ آئی لو اردو‘(I Love Urdu) کا نعرہ بھی لگوایا ۔

ہر پروگرام کا ایک حصہ فن کاروں کا استقبال اور مومنٹو سے انہیں نوازنا بھی تھا ، اردو اکادمی دہلی اس معاملے بہت منفرد ہے کہ ان کے یہاں کسی بھی قسم کا پروگرام ہو اس میں وہ لوازمات کا مکمل خیال رکھتے ہیں ۔کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ وہ اپنے فارمیٹ پر مکمل عمل کرتے ہیں ، تومومنٹوسے نوازنا بھی ان کے یہاں کا ایک اہم حصہ ہے اور اس معاملے میں ہر چھوٹا بڑا سبھی کا یکساں خیال رکھتے ہیں ، توفنکاروں کو چاروں دن کے چوبیسوں پروگرام میں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول و گورننگ کونسل کے ممبران شیخ علیم الدین اسعدی ، فیروز صدیقی ، محمد مزمل ، محمد حسیب ، محمد عارف ، اسامہ کاندھلوی و اکادمی کے دیگر افراد کے ہاتھوں اکادمی کے نشان سے انہیں نوازا گیا ۔ چاروں دن کے تمام پروگراموں کی نظامت جناب اطہر سعید اور محترمہ ریشما فاروقی نے جس خوش اسلوبی سے ادا کی وہ بھی قابل تحسین ہے ۔

 جشن کا ایک اہم حصہ وہاں پر لگے اسٹالس کا تھا جن میں کتابیں ، کیلی گرافی اور ہوم ڈیکوریشن کے سامان تھے ۔اسٹج کے بائیں جانب سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ ’اردو کادمی دہلی‘ جس میں ان کی تمام مطبوعات موجود تھیں ۔’ ویسٹ ڈسٹرک سیلف ہیلپ گروپ ‘ اس میں ہنڈی کرافٹ اور خواتین کے لیے چیزیں تھی ۔’ محسن کیلی گرافی‘ جس میں تینوں زبانوں میں لوگ کچھ بھی کیلی گرافی کروارہے تھے ۔ ’اسپین میگزین‘ نے اپنا اسٹال لگا کراپنی میگزین کے قارئین میں اضافہ کیا ، ایک زمانہ تھا جب رسالے بازار میں مل جایا کرتے تھے ، دنیا ڈیجیٹل ہوئی تو یہ میگزین بھی ڈیجیٹل ہوگیا انہوں نے قارئین کے لیے کچھ تحفے بھی رکھ رکھے تھے ۔ان چار اسٹالس کے بعد کچھ جگہیں خالی رکھی گئی تھیں ۔جن میں عطر فروش اور قلم و کتاب والے موجود تھے ۔’’ زبیرس قلم‘‘زبیر نے خطاطی میں بہت ہی جلد نیا مقام حاصل کیا ، آپ لوگوں نے جشن ریختہ میں جو کیلی گرافی دیکھی ہوگی وہ بھی زبیر کی ہی تھی،وہ خط ثلث میں کمال رکھتے ہیں ، ان کے شاگردوں کی تعداد بھی کافی ہے ۔’ قومی کونسل برائے فروغ اردو‘ کے اسٹال میں ادبی وعلمی کتابیں موجود تھیں، تیسرے دن میں نے بھی عروض ، تصوف اور تاریخ کے موضوع پر کتابیں خریدیں ۔ ریختہ پبلی کیشنز‘ ان کے یہاں نستعلیق ، رومن اور دیوناگری میں شاعری کے انتخاب زیادہ تھے ۔ آرٹی کائٹ ، دی ماضی مرچنٹس ، خواب تنہا کلیکٹو، پرانی دلی کیلی گرافی ہب ، ووڈ ورلڈ وینڈرس ، ان سبھی میں روم ڈیکوریشن پر مشتمل اشیاتھیں۔’ عذرا بک ٹریڈرس ‘ میں پاکستانی اردو پاپولر ناول اور مذہبیات کی انگلش میں کتابیں تھیں ۔ داؤد کیلی گرافی ،مائلس ٹو مائلس کیلی گرافی، بکس ای ٹی سی ، میں کیلی گرافی اوراس سے متعلق چیزیں تھی ۔ ان کے بعد نیشنل بک ٹریڈرس اور پبلیکشن ڈویژن کا اسٹال تھا جن میں اردو کتابیں زیادہ تھیں ۔ مجھے ایسا لگا کہ اگر اردو اکادمی اس جشن میں باضابطہ اردو کتاب میلہ شامل کرلے تو یہ نہلے پہ دہلا ہوجائے گا، مجھے امید ہے کہ یہ کام اردو اکادمی دہلی ہی کرسکتی ہے ۔ گزشتہ دس برسوں سے اردو اکادمی دہلی کو بہت ہی قریب سے دیکھ رہا ہوں ایسے میں یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اردو کے سبھی صوبائی و مرکزی اداروں میں اردو اکادمی دہلی سب سے زیادہ متحرک ہے ۔ ادبی ، علمی ، ثقافتی اور عوامی سطح پر اس کا حقیقی دائرۂ کار دیگر سے زیادہ ہے ۔اس عمدہ جشن کو جس خوش اسلوبی سے اردو اکادمی دہلی نے بہت ہی کم افرادی قوت کے ساتھ انجام دیا وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔



Tuesday, 5 November 2024

اردو رباعی تنقید: مزاج و منہاج

 ایک زمانہ تک یہ بات اردو ادب میں حاوی رہی کہ رباعی ایک حاشیائی صنف سخن ہے ۔لیکن حاشیائی صنف سخن کا معیار کیسے طے ہوتا ہے یہ مجھے بھی نہیں معلوم لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں کئی اصناف بالکل حاشیے پر چلے گئے اس کے مشاہد سبھی ادب دوست ہوںگے جب کہ رباعی ابھی بھی ماضی کی کیفیت و کمیت کے ساتھ ادب میں موجود ہے اور بحث و مباحثہ کی تلاش میں ہے ۔ کئی رسائل نے اس جانب پیش قدمی کی ہے اور اس کے خصوصی شمارے بھی نکلے ہیں اب بھی رسائل نے رباعی پر تنقیدی مضامین مانگے ہیں۔ لیکن پھر بھی عمومی طور پر اس جانب قلمکار رخ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی تسلسل کے ساتھ تحریریں منظر عام پر آتی ہیں ۔ ایسے میں اگر میں یہ کہوں کہ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو رپر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی ۔اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر بے مربوطی کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر رباعی کی ہیئت میں ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ 

 رباعی کے متعلق اذہان میں یہ بھی پیوست کردیا گیا ہے کہ اس کے موضوعات مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی جو غالب کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوئی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کی کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریں گے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔ 

اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو ماضی سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین بکثر ت برتے گئے ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیں لا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانے میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری پر مل جائیں تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفۂ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آئی ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر سنجیدہ کے ساتھ طنزو مزاح کے حامل۔ لیکن رباعی میں دونو ں ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو موضوعات سے مالامال کیا ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ جوش کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔  ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں، جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ 

اردو میں رباعی کی مضبوط روایت ہونے کے باوجود اب بھی ادبی محفلوں میں رباعی پر بات کرتے ہوئے ایک قسم کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے ۔فن سے لے کر تنقید و تجزیہ تک رباعی میں بہت ہی کچھ لکھا جارہا ہے ۔ یونیورسٹیوں میں باضابطہ کام ہورہے ہیں اب ویسی کوئی بات نہیں رہی جیسا کہ پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں تھی کہ نہ رباعی گوشعرا تھے اور نہ ہی رباعی پر کچھ لکھا جارہا تھا ۔ 

 یہ بات حقیقت ہے کہ رباعی تحقیق و تنقید و تجزیہ کی دنیا سلام سندیلوی اور فرمان فتح پور ی کے بعد رک سی گئی تھی ۔ اس فن پر بالکل بھی بات نہیں ہورہی تھی ۔ جدیدیت کے دور میں اگر چہ فاروقی صاحب خود رباعیاں کہہ رہے تھے لیکن اس وقت بھی جتنا فکشن اور نظم و غزل پر لکھا گیا وہ کسی اور صنف کو نصیب نہیں ہوا ۔ لیکن پھر بھی اس بیچ جتنی بھی کتابیں منظرعام پر آئیں سب نے قبولیت کی سند حاصل کی۔ اس بیچ کئی کتابیں ایسی آئیں جن کا تعلق صرف فن رباعی سے تھا ان میں صرف رباعی کی بحثوں کو زیر بحث لایا گیا تھا مثال کے طور پر’ مقدمہ رباعی ‘ سید وحید اشرف ،’ ساگر منتھن ‘ ناوک حمزہ پوری ،’ تنقید رباعی‘ فرید پربتی وغیرہ۔ لیکن اسی در میان موضوعاتی سطح پر دو اہم کتابیں بھی منظر عام پر آئیں جن میں سے ایک’ اردو رباعی میں تصوف کی روایت ‘ ڈاکٹر سلمہ کبریٰ کی اودوسر ی کتاب ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی ’’ اردو رباعی میں ہندوستانی تہذیب ‘‘ ۔ یہ دونوں کتابیں موضوعاتی سطح پر سامنے آتی ہیں۔ لیکن جس طرح سے دیگر اصناف میں پورے ایک عہد کے تخلیق کاروں کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے جیسے آزادی کے بعد اردو افسانہ ، ناول ، غزل اور شاعری وغیرہ ایسا کچھ رباعی کے ساتھ دیکھنے کو نہیں ملتا ہے بلکہ اس قسم کی کتاب شروع میں ہی سلام سندیلوی اور فرمان فتح پوری کی تھی جن میں رباعی کے فن کے ساتھ رباعی گوشعرا پر اثر انداز تحریریں ہیں۔بعد میں ایسی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ۔ابھی حال میں ہی خوشبو پر وین کی ایک کتاب ’بیان رباعی ‘ منظر عام پر آئی ہے جس میں گزشتہ پچاس برس کے انیس شعرا پر تجزیاتی گفتگو شامل ہے ۔ آج بھی رباعی کے متعلق یہ حالات ہیں کہ مجموعے شائع ہو جاتے ہیں اور کہیں پر گفتگو بھی نہیں ہوتی ہے ۔ ایسے میں تخلیق کار اس صنف کی آبیاری کیسے کرسکتے ہیں جبکہ فکشن اور غزل و نظم پر تاثراتی و تبصراتی کے ساتھ فلسفیانہ مضامین کی کثر ت دیکھنے کو ملتا ہے ۔

Friday, 4 October 2024

مولانا عبید اللہ سندھی کا جہانِ تفسیر

 مولانا عبید اللہ سندھی کا جہانِ تفسیر 

امیر حمزہ 

1857 کی بغاوت کے بعد آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین اٹھارہ سو ستاون نے آزادی کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے ایک تحریکی تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں لاتے ہیں ۔ جس کے خمیر میں علوم عقلی و نقلی ، تصوف و سلو ک ، اصلاح معاشرہ و رد بدعات کے ساتھ ساتھ ہند کی آزادی کا خون دوڑ رہا تھا تو کیسے ہوسکتا ہے کہ یہاں کا کوئی بھی طالب علم ان مقاصد سے دور رہ سکتا ہو۔ بز م ولی اللہی کا چراغ ا ور شاہ عبد الغنی کے شاگرد ملا محمود مدرسہ کے پہلے استاد ہوئے توشاگر د بھی بز م ولی اللہی کا تابندہ چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے اساسی مقصد کا محر ک اور امیر کارواں بن کر شیخ الہند کی شکل میں سامنے آیا ۔ دارالعلوم یہاںاپنے اساسی مقصد کی جانب کامیا بی کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا نظرآتا ہے ۔ اس آئیکو نک شاگرد نے جب تدریس کا عمل شروع کیا تودیگر کئی ہونہار شاگر دوں کے ساتھ دو ایسے شاگر د تیار کیے جو بز م ولی اللہ کے چراغ تھے ایک علامہ انور شاہ کشمیر ی جس میں مجدد الف ثانی کی روح اور دوسرے مولانا عبیداللہ سندھی جس میں شاہ اسماعیل شہید کا خون دوڑ رہا تھا۔( اسلاف میں شاہ عبدالعزیز نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھاکہ انہوں نے حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کے لیے مسلح کیا اور شاہ محمد اسحاق کو درس وتدریس کا مسند تفویض کیا ) جن کے اساتذہ شیخ الہندہوں اور شاگردوں میں، مولانا حسین احمد مہاجر مدنی ،مفتی کفایت اللہ ،عبیداللہ سندھی اور علامہ انور شاہ کشمیری ہوں وہ بھلا  شمع ولی اللہی سے کیسے بیزار رہ سکتے ہوں ۔ اس وقت علماء کی کھیپ تھی جو ہر مورچہ پر انگریز ی حکومت سے محاذآرا تھی ،اٹھارہ سو ستاون سے ۱۹۴۷ ء تک ہر محاذمیں علماء کا جتھا اپنی نمایاں کاکر دگی میںمشغول تھے۔ انہیں میں سے ایک مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔

مولانا عبید اللہ سندھی (1876ء) دار العلوم دیوبند کی مایہ ناز شخصیت ہیں، علمی میدان میں انہوں نے بیش بہا خدمات سر انجام دیں، ان خدمات میں ان کی تفسیر کی خدمات اور اسلوب تفاسیر ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ آپ نے با قاعدہ تفسیر مرتب نہیں کی بلکہ آپ نے اپنے تلامذہ کو مکہ مکرمہ میں (1926) اور وطن واپس آنے کے بعد (1939) میں تفسیری دروس دیئے جنہیں ان کے طلبہ نے کتابی شکل دی۔ جنہیں آپ کے تلامذہ نے بڑی جانفشانی سے مرتب کیا۔ مرتبین میں مولانا موسی جار اللہ ، مولانا عبد اللہ لغاری ، مولانا محمد مدنی اور بشیر احمد لدھیانوی شامل ہیں۔ 

مولا نا عبید اللہ سندھی بنیادی طور پر ایک معلم تھے ۔ اردو نہ ان کی مادری زبان تھی اور نہ انھوں نے اسکو بطور زبان سیکھا تھا۔ اس لئے وہ اپنے افکار کو بیان کرنے میں اس زبان کے صحیح استعمال پر قادر نہ تھے۔

مولانا سندھی تفسیر میں ایک خاص طرز کے مالک تھے ۔ جن کو انکے شاگردمولانا احمد علی تفسیر کی بجائے الاعتبار والتاویل ہی کے نام سے یاد کرنا پسند کرتے تھے۔ ہندوستان میں درس قرآن کا عمومی رواج مولانا عبید اللہ سندھی نے شروع کیا تھا اور اس سلسلہ کو ان کے دوشاگردوں مولانا احمد علی اور مولانا عبد الحئی فاروقی نے آگے بڑھایا۔

ذیل میں ان کی تفاسیر اور متعلقات تفاسیر کا اجمالی تعارف پیش ہے ۔

تعلیمات قرآنی اشاعت اول ۱۹۵۹ء

یہ ایک پر مغز مقالہ تھاجسے مولانا سندھی نے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ راولپنڈی میں پیش کیا تھا۔ اس میں قرآن کے مطالعہ ہی کو موضوع سخن بنایا تھا یعنی قرآن کی تعلیم کا کیا اثر ہوتا ہے اور مختلف ادوار میں مسلمانوں نے قرآن کو کس طرح پڑھا اور سمجھا۔ اس کو غلط طریقہ سے پڑھنے اور سمجھنے سے کیا برے نتائج پیدا ہوتے ہیں اور صحیح طریقہ سےپڑھنے اور سمجھنے سے کتنے خوشگوار اور مفید نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔یہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوئی او ر کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 

اول: قرآن کی تعلیم کا اثر ۔ دوم : قرآن کی تفاسیر کی مختصر تاریخ ۔ سوم: قصص القرآن۔ چہارم میں شیخ محمد عبدہ کی کتاب الاسلام والنصرانیت کو بنیاد بنا کر مسلمانوں پر طاری جمود اور اس کے اسباب کے متعلق بحث ہے۔ پنجم باب میں انہوں نے بتایا کہ قوموں کی ترقی میں سنگ بنیاد الوہی جذ بے ہوتے ہیں جس میں پہلا مذہب اور دوسرا حب وطن ہے ۔ مذہب کے مقابلہ میں حب وطن کا جذبہ مسلمانوں میں بہت کمزور ہے اس لیے مسلمان صرف مذہب ہی سے متاثر ہو کر حقیقی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔

النبي الامين والقرآن المبين افادات مولا نا عبید اللہ سندھی ۔ مرتب قمر الدین سہتو

قمر الدین سہتو نے اس کتاب کو پہلے سندھی زبان میں مرتب کیا تھا۔ اس میں مختلف عنوانات اور ذیلی عنوانات کے تحت قرآن کریم کی آیات سے سیرت پاک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں اور حواشی میں مولانا سندھی کی تفسیر سے آیات کے تغییری نوٹ دیے گئے ہیں ۔ یہ کتاب ۳ جلدوں پرمشتمل ہے۔

پہلی جلد: بعثت نبوی سے پہلے بشارتیں اور حالات زندگی

دوسری جلد:بعث سے ہجرت تک ( کی آیات سے مرتب کیا گیا )

تیسری جلد: ہجرت اور مدنی دور ( مدنی آیات سے مرتب کیا گیا )

جنگ انقلاب۔ سورۃ قتال کی حکیمانہ انقلابی تفسیر مولا نا عبید اللہ سندھی ۔ مرتبہ بشیر احمد لدھیانوی ۔ ناشر الحکمت لاہور

سورۂ محمد مدنی سورت ہے۔  جنگ بدر کے بعد ۲ ھ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کی تفسیر شاہ ولی اللہ کے افکار کو اساس بنا کر کی گئی ہے جس میں بین الاقوامی انقلاب کی ضرورت واضح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم کے مطابق جنگ ، اجتماعی جنگ ( ہمہ جہت جنگ) ہے جس سے کوئی بھی مستثنی نہیں حتی کہ ہاتھ پیر سے اپاہج بھی ۔ ساتویں صدی عیسوی میں قیصر روم اور کسری ایران کے ساتھ عربوں کی جو جنگیںہو ئیں مولانا سندھی کے خیال میں وہ اس نکتہ کی بہترین مثال ہیں ۔

قرآن حکیم کی تعلیم اجتماعی انقلاب کی تعلیم ہے۔ اس کا فائدہ انسانیت کے کسی خاص طبقہ کو نہیں پہنچتا ہے بلکہ اس کا فائدہ ساری انسانیت کو یکساں پہنچتا ہے۔ اس لئے اس کے اصول پر ہر سوسائٹی میں انقلاب آنا ضروری ہے۔ حکمت ولی اللہی کے مطابق اس طرح قائم ہونے والی حکومت اجتماعی اور غیر استعماری ہوگی۔

قرآنی اصول انقلاب - تفسیر سورۃ والعصر ۔ مرتب بشیر احمد لدھیانوی

مولانا کے مطابق قرآن حکیم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ دین کے بنیادی اصولوں کی تشریح بعض چھوٹی سورتوں میں کرتا ہے۔ اس کے بعد طویل سورتوں میں جہاں ان اصولوں کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے ان پر تفصیلی نہیں کرتا ۔ بلکہ صرف اشارہ کر دینا یا ان کے لئے اصلاحی الفاظ استعمال کرنا ہی کافی سمجھتا ہے۔ مولانا کے خیال میں یہ سورت قرآن حکیم کی انقلابیت کو پوری طرح واضح کرتی ہے۔ اس میں انقلاب کے وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے عمل کر کے قرآن حکیم کی حکومت قائم کر دکھائی ۔ مثلا قرآن حکیم میں بار بار آتا ہے الذين آمنو و عسلو الصلحت ۔ اس میں دو اصلاحیں آتی ہیں۔ الذین آمنو اور عملوا الصالحات سورۃ العصر میں ان دو اصلاحوں کی تشریح کر دی گئی ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسانی اجتماع میں مندرجہ ذیل چار باتیں پیدا نہ ہو گئیں وہ کامیاب نہیں ہوا:۱ نظریه ایمان ۲ عمل صالح، ۳۔ حق کی تلقین، ۴۔ صبر کی تلقین ۔

قرآنی اساس انقلاب از عبد اللہ سندھی ۔ مرتب نامعلوم

یہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے جس کا نام الا ساس بھی ہے۔ اس آیہ کریمہ میں جو نازل ہونے کے لحاظ سے بالکل ابتدائی زمانہ کی وحی ہے۔ قرآنی انقلاب کی زیریں بنیاد متعین کر کے انقلاب لانے والی جماعت کو اس بنیاد پر کامیابی کا قصر تعمیر کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے ۔ اس سورۃ میں قرآنی انقلاب کی بنیا د صراط مستقیم بنائی گئی ہے۔ اس سورۃ کے مضامین کی توضیح میں مولانا سندھی نے قرآنی سیاست اور قرآنی حکمت کی بنیادشاہ ولی اللہ کے فلسفہ پر رکھی ہے۔

عنوان انقلاب ۔ یعنی سورۃ فتح کی حکیمانہ تفسیر  مرتبہ شیخ بشیر احمد بی اے لودھیانوی ،

اس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فلسفہ کو بنیاد بنا کر جنگ کے متعلق قرآن حکیم کا نظریہ ابتدائی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ اور انقلابی پارٹی کو منافقت سے پاک رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور رجعت پسندی کے خاتمے کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔

سورۃ فتح میں قرآن حکیم کے عظیم الشان نصب العین کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کا منشا یہ ہے کہ قرآن حکیم کا قانون تمام دوسرے قوانین پر غالب رہنا چاہئے ۔ اور یہ نصب العین قرآن کے بین الاقوامی غلبے کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے لئے اعلی اقدار کی حامل انقلابی جماعت کی ضرورت ہے جو غالب آکر پرانے رجعت پسندانہ اقدار کو ختم کرے اور سوسائٹی میں نئی تہذیب کی بنیا در کھے۔

تفسیر المقام محمود 

سورۃ الفاتحہ اور سورۃ بقرہ کی تفسیر ہے اسے ڈاکٹر منیر احمد مغل نے مولا نا لغاری کی جمع کردہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر کو بنیاد بنا کر اپنے حواشی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ 

الهام الرحمن في تفسير القرآن جلد اول سورۃ فاتحہ تا سورۃ مائده

جامع (عربی) علامہ مویٰ جار الله مترجم اردو مولانا عبد الرزاق و مولانا قاسم ،اشاعت اول ۱۹۷۷ء 

علامہ موسیٰ جار اللہ کے مقدمہ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ مولانا محمد قاسم نے اور سورۃ بقر تا سورۃ مائدہ کا ترجمہ مولانا عبدالرزاق نے کیا ہے۔ جلد دوم - سورۃ انعام تا سورۃ توبہ کا ترجمہ مولانا محمد قاسم نے کیا ہے۔

القاء الرحمن في تفسير الهام الرحمن

جامع - علامہ موسیٰ جار اللہ مترجم مولانا ابوالعلاء محمد اسمعیل گودھروی سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقر کی اصل عربی تفسیر علامہ غلام مصطفے قاسمی الہام الرحمن کے نام سے مرتب کر کے بیت الحکمت ۔ کراچی سے شائع کر چکے ہیں ۔ یہ تفسیر اسی کا اردو ترجمہ ہے ۔ اور جنوری ۱۹۸۸ء سے ماہنامہ الوی حیدر آبا دسندھ میں بالا قساط شائع ہوا۔

مذکورہ بالا تفاسیر کو بعد میں ’’الہام الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘( قرآن عظیم کی حکیمانہ انقلابی تفسیر )،‘‘قرآنی شعور انقلاب‘‘، ’’قرآن کا مطالعہ کیسےکیا جائے‘‘،’’مجموعہ تفاسیر امام سندھی‘‘اور ’’تفسیر المقام المحمود‘‘ میں ہی جمع کیا گیا ہے ۔


 مولانا عبید اللہ سندھی کے تفسیری منہج کا اجمالی جائزہ

 مولا ناسندھی نے تفسیری میدان میںخاص اسلو ب تفسیر متعارف کروایا جو دیگر مفسرین کرام کے روایتی انداز تفسیر سے ممتاز نظر آتا ہے۔ آپ پر فکر ولی اللہ کا اثر واضح نظر آتا ہے۔ آپ معاشرے کے معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی مسائل کے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعیت اور انقلاب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تاریخی مباحث سے استدلال کرتے ہیں۔

 کتب سابقہ سے استدلال

مولا ناسندھی اپنی تفاسیر میں بہت سے مقامات پر تورات کے صحائف کا بھی تذکرہ کرتے ہیں اور قرآن کریم کی کچھ تعلیمات کے ساتھ تو رات کی مشابہت کو واضح کرتے ہیں، مثلاً: سورۃ البقرۃ کے تعارف میں فرماتے ہیں: سورۃ البقرة تورات کے صحائف کی مانند ہے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ر حمن کی محبت باپ کی محبت کی مانند ہے، باپ کی اسی شفقت کی بناء پر عیسائی خدا کو باپ اور ہندو ماں کوممتاد یوی سے تشبیہ دیتے ہیں ۔

مفسرین کرام کی تفاسیر میں اس آیت کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمن الرحیم کو بیان کیا گیا جبکہ آپ کی اس تشریح سے اس بات کی تائید ملتی ہے کہ عیسائیوں کا خدا کو باپ سے تعبیر کرنے کی وجہ خدا کا باپ کی طرح رحیم ہونا ہے اسی طرح ہندومت کا تبھی تذکرہ کیا ۔ خدا کی شفقت و محبت کی بدولت ان مذاہب میں یہ تعبیرات پائی جاتی ہیں۔ گو یا خدا تعالی کی ان صفات کاملہ کی بدولت ان مذاہب میں خداؤں کو باپ یا ماتاد یونی کہا جاتا ہے۔ مولانا اس فکر میں متفرد ہیں۔ اسی طرح عیسائیت کے مذہبی ادب کا ذکر کرتے ہوئے سورۃ الاعلیٰ میں آیت إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

تورات کی سب سے پہلی کتاب پیدائش حضرت ابراہیم کا صحیفہ ہے جسے موسیٰ نے ابتداء میں رکھا، خروج تک تورات کا حصہ ہیں۔ علماء کو تورات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بڑے بڑے علماء اپنے مدارس میں بائبل پڑھاتے تھے لیکن بعد کے مسلمانوں نے اس سے غفلت برتی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم کے صحیفے گم نہیں ہوئے بلکہ ابھی تک موجود ہیں۔ 

مولانا اکثر و بیشتر مقامات پر سماوی مذاہب کا تذکرہ ان کے مذہبی لٹریچر اور اس میں موجود تعلیمات کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ اسی بحث کے ضمن میں غیر سماوی مذاہب مثلاً ہندومت کا بھی تذکرہ فرماتے ہیں، بعض مقامات پر ان کی تعلیمات کا قرآن کریم سے تقابل کرتے ہیں۔ دیگر مذاہب کے صحائف کے علاوہ مولانا سندھی بعض مقامات پر مذاہب کی تاریخ پر بحث کرتے ہوئے اس دین کی اسلام سے نسبت بیان کرتے ہیں۔ مسیحیت سے متعلق فرماتے ہیں:

’’ہم نے حکمت ولی اللہ سے سمجھا ہے کہ وہ خلفاء راشدین کا زمانہ فتنہ تک شمار کرتے ہیں کہ وہ اعمال نبی کا اتمام وہاں تک سمجھتے ہیں اور دعوت مسیحیت بھی پولس (سینٹ پال) کے بعد ایسی ہے کہ جیسے اسلام فتنہ کے بعد کہ اس کے بعد اس میں غیر صحیح اشیاء شامل ہو جاتی ہیں، لیکن دعوت وسیع ہو جاتی ہے‘‘۔

مولا ناسندھی مفسرین کے طریقہ تفسیر پر رد بھی کرتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے مفسرین کرام نے یہ طریقہ اپنایا ہے کہ قرآن کریم کے بعض خاص واقعات کو بعض خاص واقعات و اشخاص کے ساتھ خاص کر دیا، چنانچہ مفسرین نے ایسی آیات کی تفسیر شخصی رنگ میں کی ہے جو کہ غلط ہے ‘‘ ۔ 

آپ کے مطابق عمومی طور پر مفسرین کرام تفسیر کرتے ہوئے اپنے حالات و زمانے کے مطابق تفسیرکرنے کی بجائے قرآن کی تشریح گزشتہ واقعات کے تحت کرتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم میں مذکور حالات و واقعات ہر زمانے کے لیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے وہ ثمرات حاصل نہیں ہو رہے جن کی امید کی جاتی ہے۔

 سورتوں کا تعارف اور مرکزی موضوع بیان کرنا

مولانا بعض سورتوں کا تعارف اور اہمیت کو بھی بیان کرتے ہیں، مثلاً: سورۃ البقرۃ کے تعارف میں بیان کرتے ہیں کہ : ’’سورۃ البقرۃ مدینہ میں نازل ہوئی اور یہ سورت تورات کے صحیفوں کی مانند ہے، اس میں مکی دور کی زندگی کی تعلیم دی گئی ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ مطففین کے متعلق بیان فرماتے ہیں:

’’یہ سورۃ قیامت کے مضمون کو سمجھاتی ہے اور قیامت کے اس رخ کو واضح کرتی ہے کہ جو انسانی اعمال کے محافظت سے متعلق ہیں‘‘

اسی طرح دیگر سورتوں کا تعارف اور اہم مرکزی مضامین کا تذکرہ بطور تمہید کرتے ہیں، ان سورتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں پھر ان میں موجود تعلیمات کا بھی ذکر فرماتے ہیں۔

 شاہ ولی اللہ کی کتب سے استدلال 

آپ نے اپنی تفاسیر میں کتب شاہ ولی اللہ سے بطور خاص استدلال کیا ہے، جس کا عملی اظہار آپ کی تفاسیر میں بطور خاص ملتا ہے ، آپ شاہ صاحب کی کتب سے فکر یا عبارت نقل کرنے کے بعد حوالہ جات بھی تحریر کرتے ہیں۔ چنانچہ صفت الرحمن کی تشریح میں فرماتے ہیں’’بقول امام شاہ ولی اللہ کہ ا للہ تعالی کی ایک تجلی جس کا تعلق عالم کی تخلیق کے ساتھ ہے۔ کائنات کا مادہ اسی تجلی سے وجود میں آتا ہے‘‘

مولا ناسندھی نظام کائنات کی بحث کے ضمن میں شاہ ولی اللہ سے استدلال کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں :

’’ ہر شے کسی نہ کسی لحاظ سے مخلوق کے لیے فائدہ مند ہے، کوئی شے بے کار اور فالتو نہیں، جو چیز وجود میں آئی اس کا وجود میں آنا ضروری تھا، کائنات کو جو فائد ہ اس شے سے ہو سکتا ہے کسی اور شے سے نہیں ہو سکتا " (حجۃ اللہ البالغہ، ج 1، ص423)

 صوفیاء اور حکماء کے اقوال سے استدلال

مولانا عبید اللہ سندھی اپنی تفاسیر میں صوفیاء کے اقوال بھی نقل کرتے ہیں، کبھی کسی لفظ کے معانی کی وضاحت میں اور کبھی کسی معنی کے لیے بطور دلیل ان اقوال کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً تقوی کے معنی کی وضاحت میں فرماتے ہیںشیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ ’’تقویٰ کے معنی ہیں إن الله يأمركم بالعدل ‘‘

اسی طرح مولانا صاحب مشہور صوفی شعراء کے اقوال کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ حکماء کی روحانیت کے بیان میں مولانا جامی کے سفر ترکستان کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ کائنات کی پیدائش سے متعلق حکماء کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ تخلیق کائنات سے متعلق حکماء کی دو آراء ہیں، امام غزالی کی رائے کے مطابق موجودہ نظام کائنات سے بہتر نظام ممکن نہیں۔ اسی طرح کائنات میں موجود ہر شے نہ اس سے بہتر پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اس سے اولی۔ 

 آپ کی تفاسیر میں حکماء کے اقوال کا بطور خاص اہتمام ملتا ہے ، ان کے ا قوال کو بعض دفعہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کبھی ان اقوال پر کلام کر کے راجح قول بیان کرتے ہیں اور کبھی آراء کو بغیر ترجیح پیش کرتے ہیں۔

 اجتماعیت اور انقلاب کا تذکرہ

آپ اپنی تفاسیر میں نظریہ اجتماعیت اور انقلاب کو جابجا بیان کرتے ہیں اور آپ کی تفسیر کا زیادہ تر حصہ اسی پہلو کے گرد گھومتا ہے۔ اس طرح آپ اپنی تفاسیر میں اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی بقاء و ترقی کے لئے ان دونوں (اجتماعیت اور انقلاب) کا ہونا ضروری ہے، سورہ مجادلہ کی تفسیر کی ابتداء میں بطور مقدمہ اسکی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ :

’’ہر قبیلے کی اپنی اجتماعیت اس قبیلے تک محدود ہوتی ہے، جہاں بین القبائل اجتماعیت نہ ہو وہاں اس طرح کی اجتماعیت بہت جلد ختم ہو جاتی ہے اور تفرق پیدا ہونے لگتا ہے۔ ہر گھر دوسرے گھر سے جدا ہونے لگتا ہے ، اور گھر کے اندر افراد خانہ میں بھی تفرقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ عرب میں ایسی ہی اجتماعیت کو رسم ظہار اور رسم ایلاء سے توڑا جاتا تھا۔ اس طرح قرآن نے اس رسم کو مشروط کر کے اس مضرت کو ختم کر دیا۔‘

اپنی تفسیر میں نظریہ اجتماعیت اور اس کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہیں:

تمام ادیان میں صرف اسلام اجتماعیت انسانی کے درجہ کمال پر بحث کرتا ہے، قرآن کریم کی پیش کر دہ اجتماعیت انسانی کے تین اہم مراکز ہیں، مثلاً دائر ہ ر بویت، دائرہ ملوکیت اور دائرہ الوہیت، اجتماعیت انسانی ان ہی تعین دائروں میں گھومتی ہے۔

مولانا سندھی انقلاب کے عملی اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ سے فرماتے ہیں :

’’ جو لوگ اجتماعی رنگ میں سوچتے ہیں ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ حق کی اشاعت اور باطل کو مٹانے میں اپنی پوری کوشش صرف کریں‘‘۔

آپ درج ذیل آیات کی تفسیر میں اجتماعیت کی اہمیت کو اجا گر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

 قرآن کریم کی سورۃ مائدہ اور سورۃ النساء اجتماعیت سے متعلق بحث کرتی ہیں، ان سورتوں میں اجتماعیت نساء ور جال کے درمیان ربط کی ضرورت اور اہمیت اور اجتماعیت کے اصولوں کا بیان ہے۔

مولانا سندھی قرآنی شعور انقلاب میں’’ انقلاب ‘‘ کا باقاعدہ عنوان باندھتے ہیں اور مختلف مقامات پر سورتوں کے ذیل اس کی وضاحت فرماتے ہیں، مثلاً سورۃ العصر کی تفسیر میں نظریہ انقلاب کی وضاحت میں فرماتے ہیں :

یہ سورت قرآن کی انقلابیت کو پوری طرح سے واضح کرتی ہے، اس سورت میں انقلاب کے اصولوں کو بیان کیا گیا ہے کہ جن پر عمل کر کہ حضور اقدس اور ان کے ساتھیوں نے قرآن کی حکومت قائم کی تھی۔ 

 تاریخی مباحث کا اہتمام

آپ اپنی تفاسیر میں تاریخ کی اہمیت کے پہلو کو بھی اجا گر کرتے ہیں ، بہت سی تاریخی مباحث مثلاً: انسان کی تاریخ، دین اسلام کی تاریخ، قرآن کریم کی تاریخ کو واضح کرتے ہیں۔ تاریخ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اعلی درجے کا علمی استدلال یہ ہے کہ شہادت کے لیے تاریخ کو پیش کیا جائے، لیکن جو لوگ تاریخ کی اہمیت سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اس علمی استدلال کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے، حالانکہ قرآن کریم ایسے تاریخی واقعات اور گزشتہ اقوام کے حالات سے بھرا پڑا ہے ، تاریخ واقعات کو محفوظ رکھتی ہے اور ان واقعات کو دہراتی بھی ہے‘‘۔

تفاسیر سندھی میں موضوع تاریخ کو بھی نمایاں انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ گزشتہ واقعات اور ان کو اپنے لیے مشعل راہ بنانا اور بعض واقعات سے عبرت حاصل کرنا جیسے واقعات کو بطور خاص زیر بحث لایا گیا۔ آپ تاریخ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف سطحوں کے مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ چنانچہ قومی اور بین الا قوامی ترقی کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تاریخ اسلام کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور اقدس کی بعثت سے حضرت عثمان غنی کی شہادت یا زیادہ سے زیادہ حضرت علی کی خلافت کے ابتدائی دو سال کا زمانہ انقلاب کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ اس زمانے میں قرآنی نظام سیاست ، معاشیات اور قرب الہی حاصل کرنے کے طریقوں کا نصب العین معین شکل میں ان کے سامنے تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کا یہ ارشاد وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ فِي جَنَّات النعيم اس سے مراد مہاجرین اور انصار میں سے ابتدائی مسلمانوں کی وہ مرکزی جماعت تھی کہ جنہوں نے فوجی لائحہ عمل تیار کیا اور عرب، ایران اور روم پر قبضہ کر کہ قومی انقلاب قائم کیا، اسطرح مشرق اور مغرب میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ آج بھی مسلمان ان ہی اصولوں کو اپنا کر قومی اور بین الا قوامی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔

 سائنسی علوم سے استدلال

آپ سورۃ الفلق کی تفسیر میں اجسام کے بننے کے مراحل کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ جانداروں میں خلیات کے پھٹنے سے مرکب ابدان پیدا ہوتے ہیں، تمام حیوانات میں خلیات کے پھٹنے سے ہی نشو نما کا عمل ہوتا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک مقام پر مولانا سندھی نکو کار اور بدکار انسانوں کو انسانی اجسام میں موجود خلیات سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’افراد انسانی کی مثال ایسے ہے کہ جیسے جسم میں موجود خلیات، ان خلیات میں بہترین اور صالح ترین خلیہ وہ ہے کہ جو بدن انسانی کے طبعی تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد کرتا ہے ، جو خلیہ اس طرح سے کام نہیں کرتا وہ غیر صالح ہے، کیونکہ وہ جسم انسانی کی خدمت کرنے میں منکر ہے یعنی کافر ہے ، لہذااس سے اس کی باز پرس ہو گی، اس لیے اس کو باز پرس کے لئے جہنم یعنی شفا خانے بھیجا جائے گا‘‘۔

 آپ مختلف مقامات پر انسان کی ابتدائی تخلیق، کائنات کی ابتداء سے متعلق مباحث کو بیان کرتے ہوئے سائنسی علوم سے مثالیں پیش کرتے ہیں۔

 سیاسی اور سماجی مباحث

مولانا صاحب سیاسی و سماجی مباحث پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، سیاست کے اصول اور سماج میں موجود مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

آپ سورہ اخلاص کی تفسیر میں بطور تمہید ایک سیاسی اور اقتصادی نظام اور کسی بھی معاشرے کے لئے سیاست، اقتصادیات کو اس کا ستون قرار دیتے ہیں، اسی ضمن میں ہندوستان کی سیاسی تاریخ اور فرانس اور برطانیہ کا 1858ء میں مغل حکومت کو ختم کر کہ خود قابض ہو جانے کا ذکر ہے۔ اس بحث میںمولانا سندھی مسلمانوں کی سیاسی اور فکری شکست اور سترھویں صدی میں یورپی قوتوں کا مسلمانان ہند پر غالب آنے اور ان کو سیاسی اور فکری غلام بنائے جانے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے افراد اپنی شخصیت کھو بیٹھے۔ 

مولانا سندھی آیت ( وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ ) کی تفسیر میں کتمان حق پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حق اور باطل کو خلط ملط کرکے اصلی مقصود کو بھلادیا جاتا ہے ، اس بحث میں فرماتے ہیں :

کتمان حق کی ایک مثال ہندوستان کے حالات ہیں۔ ہندوستان میں مقصود کفار کے غلبے سے نجات ہے، لیکن اس سے اہل علم غافل ہیں، اور رسومات میں بٹے ہوئے ہیں، اب حالات بدل چکے ہیں اور مسلمانوں پر یور بین اقوام کا تسلط ہو چکا۔

مولانا سندھی اپنی تفسیر میں مختلف مقامات پر سیاسی و سماجی خصوصا ہندوستان کے تناظر میں اس وقت کے حالات کا تذکرہ کرتے ہیں، سورۃ البقرہ کی آیت: نَنسَ مِنْ آيَةٍ أو نَفْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرِ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهُ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب حکام بدل دیے جاتے ہیں تو قانون بھی بدل دیا جاتا ہے ، اس آیت سے مراد اللہ نے قرآن کریم کے نزول سے تورات کو منسوخ کر دیا۔ اس آیت کے ضمن میں دیگر مفسرین مثلا امام قرطبی اور امام جصاص نے نسخ کی بحث کو زیر بحث لایا، لہذا نسخ کی اقسام، حکم اور قرآن میں نسخ کے موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں جبکہ اسی آیت کی تفسیر کے ضمن میںمولانا سندھی اکبری دور کے ہندوستان کے سیاسی برتری کا تذکرہ کرتے ہیں۔

 معاشی اور اقتصادی مسائل سے متعلق مباحث

مولا ناسندھی اپنی تفاسیر میں معاشرتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ انسان کی بنیادی ضروریات اور معاش سے متعلق بحث بھی کرتے ہیں، مثلاً ایک جگہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں :

’’کسی بھی اجتماعی تحریک میں کمزوری کی دو وجوہات ہیں، جن میں ایک مالی اشتراک نہ ہو نا، جس کی وجہ سے دولت ایک مخصوص طبقے تک محدود رہتی ہے، جس کی بدولت ایک بہت بڑا طبقہ نادار رہ جاتا ہے ، جبکہ اجتماع کی اندرونی مضبوطی اور پختگی کے لیے ضروری ہے کہ سارے اجتماع کی بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، لباس، مکان، تعلیم اور صحت پوری ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو نادار لوگ اپنی ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنے ایمان کی سے قاصر رہ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ تحریک سے کٹ جاتے ہیں جس سے تحریک ہی ختم ہو جاتی ہے ‘‘

اس حوالے سے مولانا سندھی سورۃ المدثر کی تفسیر میں ہندوستان کی معاشی حالت سے متعلق فرماتے ہیں :

شاہ ولی اللہ نے فرمایا تھا کہ تمھارے اپنے ملک (دہلی) کے امراء اور حکام کی جو حالت ہے اسے دیکھ لو تو تمھیں دوسرے ملکوں ( ایران اور رومہ) کے حکام اور امراء کی حالت دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، شاہ ولی اللہ کا یہ جملہ آج بھی اتنا ہی درست ثابت ہوا جتنا کہ ان کے زمانے میں تھا۔ آج بھی ہندوستان میں ایک طرف مفلس اور دوسری طرف سرما یا پرست طبقہ ہے، جنہیں انسانی حقوق و فرائض کا کچھ علم نہیں "۔

حالانکه دیگر مفسرین سورة المدثر کی تفسیر میں حضور اقدس  پر پہلی وحی کے نزول کا واقع بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں ہے:

مولانا سندھی نے مسلمانان ہند کے اقتصادی حالت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ اخلاص کی تمہید میں فرماتے ہیں: ’’انگریزوں نے ہمیں اپنی اشیاء مہنگی فروخت کیں اور ہماری اشیاء سستے داموں وصول کر کے ہمیں اقتصادی شکست سے دو چار کیا ‘‘۔

حاصل کلام یہ ہے کہ آپ کا تفسیر میں اختیار کردہ منبع مفسرین کے روایتی انداز تفسیر سے مختلف ہے، آپ کے اس انداز تفسیر سے علم التفسیر میں ایک نئے انداز کو پذیرائی ملتی ہے۔آپ کتب سابقہ سے استدلال کرتے ہیں، سورتوں کے مرکزی مباحث کا تعارف کراتے ہیں، کتب شاہ ولی اللہ ، صوفیاء و حکماء کے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں۔آپ کی تفسیر میں تاریخی ، سائنسی، سیاسی وسماجی ، اور معاشی و اقتصادی مباحث کا تذکرہ بھی جابجا ملتا ہے۔آپ کی تفاسیر سے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ قرآن کریم کا موضوع انسانیت کی ترقی و بقاء کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے، یہ تب ہی ممکن ہے جب قرآن کریم کو اہل فکر و دانش اپنے زمانے اور اس کے واقعات اور مسائل کے پیرائے میں سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کریں۔آپ کی تفاسیر کا نوے فیصد حصہ انقلاب، اجتماعیت اور ایک ایسی پارٹی یا جماعت کی تشکیل کے گرد گھومتا ہے کہ جس کے ذریعے معاشرے کے غریب افراد کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم وغیرہ کی فراہمی اور ان کے حقوق کا خیال رکھ رکھنا یقینی ہو سکے۔ جبکہ آپ کی تفسیر میں افراد کے درمیان دولت کی مساویانہ تقسیم پر جگہ جگہ مختلف سورتوں کے ضمن میں زور دیا گیا ہے۔ اس کی اہم وجہ اجتماعیت کی مضبوطی اور انقلاب ہے۔ ایسی جماعت بنانے اور اس کو مضبوط کرنے کے اصولوں کی وضاحت بھی کئی ایک مقامات پر کی گئی ہے۔ آپ کی تفاسیر میں اس دور کے مسلمانان ہند کے سیاسی اور سماجی حالات اور کمزوروں کی جھلک نظر آتی ہے، اپنی تفاسیر میں مولانا سندھی ان کے مسائل کا حل اور ان کو مجتمع ہونے اور انقلاب پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔


چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات)

  نام کتاب : چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات) شاعر :ظفر انصاری ظفرؔ    -  صفحات : ۱۶۸  -    اشاعت: ۲۰۲۳-      ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس د...