Monday, 7 April 2025

مجھے کچھ کہنا ہے

  زندگی دراصل تجربات و حوادث کا نام ہے جہاں ہر وقت انسان نئے حالات و کیفیات سے دو چار ہوتا ہے اور اس کے اذہان میں نئے تصورات گردش کرتے رہتے ہیں ،جن میں سے کچھ کو پختگی ملتی ہے اور کچھ لمحات میں زائل ہوجاتے ہیں۔ ایک ادیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نئے تصورات و افکار کو فن کے دائرے میں پروکر کسی صنف کا جامہ عطاکردے۔ ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری میں ایک ہی خیال کو مختلف انداز میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے اور فکشن میں ایک ہی مرکزی واقعے کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے، جس میں انسانی ذہنی کشمکش کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ جس کے لیے بہت سے تخلیق کار کے فن پارے منظر عام پرآتے ہیں جن میں سے کچھ کو مقبولیت ملتی ہے اور کچھ گمنامی کے شکارہوجاتے ہیں۔دراصل اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اکثر تخلیق کار اپنے قلمی سفر کی شروعات زندگی کی دوسری دہائی میں کرتے ہیں جن میں سے چند کو مقبولیت مل جاتی ہے اور کچھ مختصر مدت کے بعد ماند پڑجاتے ہیں۔ 

یہی حالت ہم ساتھیوں کی بھی ہے جو تحقیقی و تنقیدی دنیا میں قدم رکھتے ہیں لیکن ہمارے سامنے لکھنے کے لیے نیا کچھ نہیں ہوتاہے۔ایسا اس وجہ سے کہ وہ ان ہی راستوں پر چلنے کو فوقیت دیتے ہیں جہاں پہلے سے ہی راستے ہموار ہوچکے ہوتے ہیں اور اس موضوع پر خاطرخواہ تحریریں منظر عام پر آچکی ہوتی ہیں۔ جس سے اس موضوع پر تجزیہ در تجزیہ کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ جن گوشوں میں بہت ہی کم لوگوں نے قدم رکھا یا ایسے گوشے جو بالکل گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں، وہا ں شاید و باید ہی کوئی ریسرچ اسکالر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ ا یسے حالات میں موضوعات میں تکر ار بہت ہی زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے لیکن اسے اکثر یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ابھی تو آموزش کا مرحلہ ہے، بعد میں اکتسابی مرحلہ آئے گا تب نئے زاویوں کی تلاش و جستجو اور پیش کش پر عمل کیا جائے گا۔ لیکن اس تیز رفتار زندگی میں جب وقت قلیل سے قلیل تر ہوتا چلا جارہا ہے ایسے میں کیا ضروری ہے کہ کسی کو بعد میں اتنا موقع ملے کہ وہ کسی بھی موضوع پر اتنا وقت دے سکے جتنا اسے ریسرچ کے درمیان موقع مل رہا ہے۔ یقیناً بہت ہی کم ملتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے تجربات کے تحت یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ریسرچ کے بعد جن ساتھیوں نے نوکری حاصل کی ہے ان میں سے اکثر کے یہاں قلم کی دھار کمزور پڑگئی ہے۔ پتہ نہیں آخر ایسا کیوں ہوتاہے۔ ان حالات کے مدنظر  یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریسرچ کے دوران جو بھی ہمیں موقع مل رہا ہے اسی میں اپنی شناخت بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایسے میں ہم پر لازم ہوتا ہے کہ ہم  ادب میں ان گوشوں کو نمایاں کریں جن پر اب تک بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔

 موجودہ وقت میں دو بنیادی موضوعات بہت ہی عام ہیں شاعری میں غزل و نظم اور نثر میں افسانہ و ناول۔ سندی ریسر چ کا اسی فیصد حصہ انہیں موضوعات کو محیط ہے اور اس میں بھی محض تجزیاتی اور تاثراتی تحریر ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔ شاعری میں شاعر نے فن کو کس طرح برتا ہے اس پر توجہ نہ دے کر سارازور صرف موضوعات پر رہتا ہے۔یہی حال ناول اور افسانہ کا بھی ہے جہاں محض کہانی کا تجزیہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، فن کا ر نے فن سے کس قدر انصاف کیا ہے ، زبان و بیان میں کیا اختراعات دیکھنے کو مل رہے ہیں ، کیا انہوں نے کسی فلسفہ کو کردار کے ذریعہ پیش کرنے کوشش کی ہے تو اس فلسفہ سے تحقیق کار کس قدر واقف ہے اور اس کے تجزیہ کا کتنا حق ادا کرسکتا ہے ۔ کہانی کا ر کا اپنا عکس کس قدر حاوی ہے ، کیا واقعی میں وہ فن پارہ ہے؟ یا فن پارہ کا نام دے کر تخلیق کار نے اپنی بھڑا س نکالی ہے ، ان گوشوں پر بہت ہی کم واضح انداز میں گفتگو کی جاتی ہے ۔ اکثر تو تعریف میں قلم اٹھاتے ہیں۔ جب تعریف ہی تنقید کا مقصد رہ گیا ہے تو پھر تنقید کو دفن کردینا چاہیے ۔ویسے اس معاملے میں جدید وقدیم سارے قلم کار یکسا ں ہیں ، وجہ نوکری اور معاملات کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اگر یہ مجبوریاں حائل نہیں ہوتیں تومیرا خیال ہے کہ ماضی سے بہتر معرکے آج کے زمانے میں دیکھنے کو ملتے ۔ معرکوں سے زبان توترقی کرتی ہی ہے ساتھ ہی قاری میں بے تحاشہ اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ حالات بدل چکے ہیں اور وسعت نظری تنگ نظر ی میں بدل چکی ہے ۔ اس لیے تنقید میں تعریف کے سوا کچھ نہیں بچتا اور اگر کسی نے لکھنے کی ہمت بھی دکھائی تو انجام کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ 

 موضوعات کے حوالے سے میرے ہم درس دوست سے ایک بڑی یونی ورسٹی کے سینئر استاد جو اّب ریٹائر ہوچکے ہیں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ سندی تحقیق کے لیے کبھی بھی مشکل موضوع کاانتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ یقیناً انہوں نے تجربات کی بنیاد پر ہی یہ بات کہی ہوگی کیونکہ ریسرچ کے پانچ برسوں میں بہت ہی کم ریسرچ اسکالرز ایسے ہوتے ہیں جو یکسوئی کے ساتھ کام کو انجام دیتے ہیں، عموماً عمر کے اس پڑاؤ میں یہ مرحلہ آتا ہے جب بہت ساری ذمہ داریوں کی بنیاد ڈالی جارہی ہوتی ہے۔ ایسے میں دو تین سال ہر ایک کے یونہی محض سوچنے میں گز ر جاتے ہیں اور جب کام کرنے کا وقت آتا ہے تو بہت جلد بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس بنا پر سنجیدہ تحقیق و تنقید کی امید نہیں کی جاسکتی۔علاوہ ازیں میں ایسے ساتھیوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے مسلسل چار سال تحقیق کو دیے اور ہر روز کچھ نہ کچھ لکھا پھر جب ان کا تحقیقی مقالہ سامنے آیا تو وہ بہت ہی عمدہ قسم کا کام تھا، لیکن چونکہ ان کے نگراں کو وہ کام بہت زیادہ بھاری لگ رہا تھا تو ان میں سے بہت کچھ حذف بھی کروا دیا گیا جس سے یقیناً ان کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی۔ چند ہمارے ایسے بھی ساتھی ہیں جنہوں نے صر ف چند دنوں میں اپنا تحقیقی مقالہ تیار کرلیا اور جب مجھے برسوں بعد ان کے مقالے کادیدار ہوا تو میں دنگ رہ گیا کیونکہ پندرہ سطور سے کم کا صفحہ اور وہ بھی صر ف دو سو پچاس صفحات۔ ایسے میں ہم UGC کی گائڈ لائن کی جانب رخ کرتے ہیں تو وہاں پر ہمیں انگلش کے متعلق صاف طور پر لکھا ہوا ملتا ہے کہ A4 میں متن کا سائز 12 ہو اور سطرو ں کے درمیان کا فاصلہ 1.5 ہو۔ اس اعتبار سے تیس سے زیادہ سطریں ایک صفحہ میں آجاتی ہیں۔ ساتھ میں یہ بھی ہے کہ جو اسٹنڈرڈ سائز ہے اسی میں تحریر کرنا ہے یعنی جس فونٹ سائز میں عموماً کتابیں بازار میں ملتی ہیں وہی فونٹ سائز آپ کو بھی استعمال کرنا ہے۔ لیکن نہیں معلوم اردو میں یہ روایت کہاں سے آگئی ہے کہ آپ کو 18 فونٹ سائز میں ہی مقالہ تیار کرنا ہے۔ اس فونٹ سائزسے عموما 23 سطریں ایک صفحہ میں آتی ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے لیکن بہت سارے ایسے مقالے دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن میں 20 یا اس سے بھی زیادہ فونٹ سائز مستعمل ملتا ہے اور سطروں کا فاصلہ بہت ہی زیادہ رکھا جاتا ہے۔ جب کہ سبھی کو معلوم ہے کہ نستعلیق کا اسٹنڈرڈ سائز15 اور 16 ہے لیکن شاید ہی کو ئی مقالہ اس فونٹ سائز میں آپ کو مل جائے۔ اس جانب بھی متفقہ طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فونٹ سائز بڑا کرکے صفحات میں اضافہ کی نوبت اس وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب ہمارے پاس مطالعہ کی کمی ہوتی ہے، جب مطالعہ کم ہوگا تو کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے بھی کم مواد جنریٹ ہوگا۔ان تمام باتوں کے مدنظر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریسرچ اسکالر متعلقہ مضمون میں مطالعہ کو ٹھیک ڈھنگ سے ترتیب نہیں دے پاتا جس سے نتائج بھی محدود ہی سامنے آتے ہیں۔

ان سب کے باوجود ہمارے یہاں خاطرخواہ تعداد میں اچھے ریسرچ اسکالروں کی کھیپ تیار ہورہی ہے جنھوں نے اپنے قلم سے نہ صرف اساتذہ کو چونکایا ہے بلکہ انھیں بہت زیادہ متاثر بھی کیا ہے۔ تحقیق و تنقید نیز تخلیقات میں وہ اپنی شناخت قائم کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ ان پر مباحث قائم نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے تحقیق سے نئی چیز سامنے لائی ہے تو اس کے ردو قبول پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بات کر نا اور مباحثہ قائم کرنا تو بعید تبصروں میں بھی ان عناصر کو نمایا ں نہیں کیا جاتا بلکہ یہ سوچ کر کہ اس موضوع پر ایک اور نئی کتاب آگئی ہے اس کو طاق نسیاں کردیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ نئے اور محنتی طلبہ کے لیے حوصلہ شکنی کی بات ہوتی ہے۔ ایسے میں جب وہ اپنے ساتھ یہ رویہ دیکھتے ہیں تو آگے انہیں مزید کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں سنجیدہ قرات میں کمی آئی ہے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرے رخ میں ہمارے وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو صلاحیت مند نوواردین کو بھر پورموقع دیتے ہیں اورمختلف پلیٹ فارمس سے ان کی صلاحیتوں کو ابھارتے بھی رہتے ہیں اور تقرریوں میں ان کا بھر پور تعاون بھی کرتے ہیں۔ 

اس کے بعد ایک مرحلہ اور آتا ہے جہاں معاملات دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک خادم ادب دوسرا محض خادم۔ دوسرا فرد کسی کا بھی خادم ہوسکتا ہے، خواہ وہ فرد کا خادم ہو یا ادارے کا، عارضی اور وقتی ہو یا دائمی۔ پہلا اپنی تمام تر محنتوں کے باوجود در بدر بھٹکتا رہتا ہے اور دوسرے کی قسمت بہت ہی جلد سنور جاتی ہے۔ یہ معاملہ ادب میں نئے داخل ہونے والوں کو بہت ہی زیادہ پریشان کررہا ہے۔ گزشتہ دنو ں بانگ درا کے سو سال مکمل ہونے پر اردو اکادمی دہلی نے ایک سہ روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا جس کے کنوینر پروفیسر معین الدین جینا بڑے تھے۔ اس سمینار کے کلمات تشکر میں انہوں نے ’دوسرے خادم‘ کے حوالے سے چند سخت کلمات کہے تھے جو اتفاق سے اخبارات میں اور ایوان اردو میں بھی شائع ہوئے وہ میں یہا ں ہو بہو نقل کرنا چاہتا ہوں۔’’سمینار میں مقالہ نگاران کی فہرست میں شمولیت کے حوالے سے سخت لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتفاق سے چار روز قبل کسی صاحب کا ایک نوجوان کے حوالے سے فون آیا کہ آپ انہیں مقالہ نگاروں کی فہرست میں شامل کرلیں، میں نے انہیں فون پر ہی خفگی کا اظہار کیا کہ آپ نے اس حوالے سے فون کیسے کردیا،پھر اسی نوجوان کا فون آیا تو میں نے اسے بھی سختی سے منع کردیا، لیکن یہ معاملہ جاری رہا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے ایک وزیر سے فون کروایا۔یہ رویہ بہت ہی تکلیف دہ ہے۔سارے اداروں اور یونیورسٹیز کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔‘‘(ایوان اردو، فروری2025) ایسی چیزیں عموماً تحریر کا حصہ نہیں بنتیں اس لیے وہ تاریخ کا بھی حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔ پھر بعد والوں کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ادب میں کجروی لانے میں کس کی غلطی تھی اوراس کا ذمہ دار کون ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح ابھی اردو کے حالات بد سے بدتر نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے قارئین کی تعداد میں یقیناً کمی آئی ہے بالخصوص سندی طلبہ کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے لیکن اگر حالات فطری طور پر چل پڑیں اور عدل و مساوات کو اپنایا جائے تو انشاء اللہ نتیجہ ثمر آور ہوگا۔

No comments:

Post a Comment

چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات)

  نام کتاب : چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات) شاعر :ظفر انصاری ظفرؔ    -  صفحات : ۱۶۸  -    اشاعت: ۲۰۲۳-      ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس د...