Sunday 9 December 2018

اردو میں ریسر چ : مسائل اور وسائل

جب ہم کسی بھی موضوع پر ریسر چ  اور تحقیق کا ارادہ کر تے ہیں تو ہمارے پاس اس موضوع سے متعلق مسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں، اگر نہیں بھی ہوتے ہیں تو ہمیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکا لنے ہوتے ہیں. اور اگر یہ پہلو بھی باقی نہیں رہتا ہے تو ہمیں اس  موضوع سے متعلق مختلف زاویۂ فکر اختیار کر نا ہوتا ہے تب جاکر ہم اس موضوع پر قلم اٹھا تے ہیں اور مزید مطالعہ کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ پہلے پہل جب ہمیں مجوزہ خاکہ تیا ر کر نا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ مسائل پر مر کوز ہونا پڑتا ہے. مسائل کے استنباط کے وقت اچھے سےاچھا ریسرچر بھی مشکل سے دس مسائل پیش کرانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں جو اس وقت اس کے خود کے ذہن کی اپج ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت مسائل کی شناخت کاادراک بہت ہی کم  ہوتا ہے جتنا بھی ہوتا ہے اس کا اظہار کر دیتا ہے. پھر ریسرچ اسکالر اس موضوع پر اپنی تحقیق کاسفر شروع کر تا ہے۔ لیکن جب سفر شروع کر تا ہے تو ایک ہوش باش ریسر چر کے لیے مسائل کے انبار لگنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ کس طر ح ہوتے ہیں اس کا ایک ہلکا سا نمونہ اپنے اس مختصر سے مضمون میں پیش کر نا چاہوںگا ۔

واضح رہے کہ کسی بھی صنف کی تاریخی آغاز و ارتقاء اور ہیئتی شناخت ہر سندی مقالہ کے لیے ایک تحقیق طلب امر ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر سندی مقالات میں آپ کو پہلا باب اگر شخصیت پر ہے تو شخصیت و زندگی اور اگر اصناف پر ہے تو ناول آغاز و ارتقا ء، افسانہ آغاز و ارتقاء اور ان جیسے عنوانات آپ کو دیکھنے کو ملیں گے تو اسی طرح کا ایک عنوان سامنے آتا ہے رباعی آغاز و ارتقاء۔ اس موضوع پر تحقیق میں کتنے مسائل آتے ہیں اس پر نظر ڈالتے چلتے ہیں ۔

جب ہم رباعی کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے لیے اردو کی اہم کتابوں کا انتخاب کر تے ہیں تو ان میں سے ایک ڈاکٹر سلام سندیلوی کی’’ اردو رباعیات ‘‘ اوردوسر ی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ’’ تاریخ اردو ارباعی ‘‘ سامنے نظرآتی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں جو بحث شروع ہوتی ہے وہ رباعی کی ایجاد سے ہوتی ہے ۔ طالب علم ان دونوں کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد یاتو اپنی تحقیق کو سمیٹنے کی کوشش کرے گا یعنی ان کتابوں سے جو فائدہ اٹھا یا ہے اسی کو اپنے مقالہ میں اپنے انداز سے رقم کرے گا یا ہمت کر ے گا کہ رباعی کی ایجاد کے سلسلے میں ان کتابوں میں جن لوگوں کے نام جو آرہے ہیں ان اسماء کی Decoding کی جائے تو وہ پھر آگے کی جانب قدم بڑھا ئے گا ۔ لیکن مراجعت کے لیے قدم کس کتاب کی جانب بڑھا ئے گا وہ یہی سوچے گا کہ ان دونوں کتابوں میں اردو کے جن قدآور لوگوں کی کتابوں سے بحث کی گئی ہے اس پر نظر ڈالنی چاہیے تو وہ اردو کے عظیم محققین سید سلیمان ندوی اور حافظ محمود شیرانی کی جانب قدم بڑھا ئے گا ساتھ ہی شبلی کی شعر العجم پر بھی نظر جمائے گا ۔

اب اس کے سامنے کل پانچ کتابیں ہوگئیں۔ ان پانچوں کتابوں سے وہ مطالعات کے سمندر میں ڈوب جائے گا یا ان ہی معلومات کے سمندر حامل کتابوں سے اپنے مقالہ کو سنوارنے کی کوشش کرے گا ۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے اکثر صورتحال ایسی بن جاتی ہے کہ ریسرچ اسکالر ہوں یا کوئی اور وہ ان ہی پے چیدگیوں میں الجھ کر رہ رجاتا ہے اور اپنی تحقیق سے بالآخر یہی ثابت کر تا ہے کہ رباعی کی تاریخ رودکی سے شروع ہوتی ہے اور رباعی کے اوزان کا خالق عجم ہے ۔ اکثر کا ایمان اسی پر یقین کو پہنچتا ہے ۔لیکن بعد میں کچھ محققین حافظ محمود شیرانی اورشمس قیس رازی کے اس مستحکم فیصلے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ کر کچھ اور کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔اب تحقیق کے جو اہم جراثیم ہو تے ہیں وہ اس کے اندر متحرک ہوتے ہیں یعنی شک کا جر ثومہ ۔

لیکن اس شک کی غذا کی تکمیل کے لیے یعنی مسئلۂ درپیش کے حل کے لیے اس کو سب سب پہلے جس وسیلہ کو اختیار کر نا ہوگا یا تو اس کے پاس پہلے سے موجو ہوگایا پھرزیادہ محنت کی وجہ سے پیچھے قدم کھینچ لے گا یعنی فارسی زبان کا جاننا کیو نکہ ان پانچوں کتابوں میں جو اقتباسات مذکور ہیں وہ فارسی زبان میں ہی ہیں اور اکثر کا تر جمہ بھی مرقوم نہیں ہے ۔ جس عہد میں یہ کتابیں لکھی جاتی تھیں اس زمانہ میں اس زبان سے ہر پڑھا لکھا واقف ہوتا تھا ۔ویسے فارسی زبان سے نابلد ہو نے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ یونی ورسٹیز کو ریسرچ کے لیے ایک نیا ٹاپک مل گیا فرہنگ نویسی کا، کہ اب غبار خاطر سے لیکر دواوین شعرائے قدیم تک کی فرہنگ نویسی یونیورسٹیز میں ہو رہی ہے. 

خیر ہم اپنی گفتگو آگے لے کر چلتے ہیں ۔ سلام سندیلوی سب سے پہلے رباعی کی ایجاد کے سہرا میں سید سلیمان ندوی کا دعویٰ پیش کر تے ہیں کہ رباعی عربی النسل ہے اور اس کی تائید میں ندوی صاحب نے جو عبارت ’’الخیام ‘‘ میں ’’المعجم فی معاییر اشعارالعجم‘‘ (۶۳۰ھ تاریخ تکمیل ) کے حوالے سے ذکر کی ہے وہ رقم کر تے ہیں ۔فورا ً بعد ان کے جواب کے طور پر تفصیلی ذکر محمود شیرانی کا کر تے ہیں کہ گویا ان کے وکیل کے طورپر خود کو تیار کر تے ہیں اور محمود شیرانی کی رائے کو ذکر نہ کر کے اور نہ ہی انہوں نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کا کا ذکر کر تے ہیں. بلکہ تنقید شعر العجم میں انہوں نے جو لکھا ہے اسی کو سلیمان ندوی کے عربی کے مر بع الاجزاء کے جوا ب میں فارسی سے رودکی کے ایک معقد قطعہ نقل کر تے ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی یہ ہوتی ہے کہ سلیمان ندوی اپنی دلیل شمس قیس رازی سے لاتے ہیں اور محمود شیرانی خود کو شمس قیس رازی کے برابر لے جاتے ہیں ۔ بلکہ دوسری نظر سے دیکھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سلیمان ندوی کے سوال کا جواب محمود شیرانی نے جو دیا ہے وہ نہ دیکر خود دے رہے ہیں۔ اس طر یقے سے سلام سندیلوی صاحب دونوں حضرات کے سوالات و جوابات کوپیش کر تے چلے جاتے ہیں اور اپنا حکم اس انداز میں صادر کرتے ہیں کہ ’’ پروفیسر محمود شیرانی کے دلائل ان کے حوالوں اوردیگر کتب کے اقتباسات سے بات واضح ہوگئی کہ رباعی ایران زا ہے اور عرب میں اس کی تخلیق نہیں ہوئی ہے‘‘ ۔

اسی طر ح فرمان فتحپوری بھی لکھتے ہیں ’’ رباعی خاص ایرانیوں کی ایجاد ہے ۔ ہمارا خیال ہے اس امر میں اردو فارسی کے تمام محققین متفق ہیں۔  اور اس کی تائید میں انہوں نے دس بڑے بڑے لوگوں کا قول بھی ذکر کیا ہے ۔
اب طالب علم ان دو اہم کتابوں کے مطالعہ سے فیصلہ کر بیٹھتا ہے کہ یہی قولِ فیصل ہے لیکن ابھی الخیام پڑھنا باقی ہے اور مقالات شیرانی بھی ۔وہ بھی اردو میں ہیں، اس میں بھی مآخذ فارسی اور عربی سے ہیں اور بلا تر جمہ ۔ اب تک فارسی شانہ پر بھاری پڑ رہی تھی اب عربی سے بھی گر دن بھاری کرنی پڑے گی اگر آگے کا کچھ سو چتے ہیں تب ،نہیں تو پھر یہیں پر آمنا وصدقنا ۔

چلیے پھر بھی دلائل و شواہد کی قلابازیاں دیکھتے ہیں اور ایک ریسر چ اسکالر ہونے کے ناطے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لطف اندوز ہونا اس لیے کہ اس کا تعلق خالص ریسر چ سے ہوتا ہے ۔ریسرچ اسکالر کو اگر شواہد اور دلائل میں لطف نہیں آرہا ہے تو پھر ریسرچ میں بھی لطف نہیں آرہا ہے اور ریسرچ اس کے لیے گردن کا ایک بوجھ ہے ۔

اس امر میں سب سے پہلے جس اقتباس کا ذکر تمام لوگ کر تے ہیں اس میں ایک جملہ کچھ اس طرح ہے کہ ’’ یکے از شعرائے عجم پندارم رودکی واللہ اعلم ‘‘ یہیں دو مجہول لفظ ’ پندارم‘ اور ’ واللہ اعلم ‘ جیسے لفظ کا استعمال آگے کی ساری کڑیوں کو مشکوک کر دیتا ہے ۔پھر اسی اقتباس میں رباعی کے کئی نام کا ذکر ملتا ہے۔ ابھی تو یہ صنف شروع بھی نہیں ہوئی ہے کہ اس کے نام چار بیتی ، دوبیتی ،ترانہ اورر باعی پہلے سے کیسے ملتے ہیں ۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رباعی کے اوزان عجم کے ایجاد کر دہ ہیں تو پھر خلیل بن فراہید نے کتنے اوازان جمع کیے تھے کیا ہزج ان میں سے نہیں ہے؟  یا عجم سے پہلے بحر ہز ج میں کسی نے شاعری نہیں کی تھی ؟ چلو مان بھی لیا جائے کہ فارسیوں کی ایجاد ہے۔ پھر رباعی کے جملہ اوزان میں سے ’’ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘کیا فارسی مصر ع ہے ۔یا شاید بعد میں اس کو رباعی کے لیے ترازو بنا لیا گیا ہو۔ لیکن شروع سے ہی فارسی کی کتابوں میں یہ مستعمل کیوں ملتا ہے ؟چلیے رباعی کے وزن کو کسی ایک کاوزن نہیں مانتے ہیں جیسا کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے اور پروفیسر پرویز ناتل خانلری کہتے ہیں’’ ایں وزن از تودہ ٔ مردم فارسی زبان اقتباس گردیدہ‘‘ یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ وزن رودکی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ کثیر فارسی شعرا کی مشق کا نتیجہ ہے جس کے وجود میں آتے آتے زمانہ لگ گیا ۔ یہ تو جواب اخر ب و اخرم کے حوالہ سے دیا جاسکتا ہے جو رباعی کے چوبیس اوزان کو دو حصوں میں تقسیم کر تا ہے۔ لیکن سلیمان ندوی نے قیس رازی سے پہلے کی جو مثالیں پیش کی ہیں ان کے مآخذ تک پہنچ کر دیکھا جائے کہ کیا حقیقت میں رباعی کے اوزان یا رباعی جیسی صنف عربی میں پہلے سے موجو د ہے اور ’’ لم اکن سمعت علی ہذہ الطریقۃ من الرباعیات‘‘ جو حسن باخرزی متوفی (۴۶۸ھ) کی کتاب ’’ دمیۃ القصر‘‘ میں اپنے والد کے حوالے سے بات کہی گئی ہے جس کا ناقص ترجمہ کر کے محمود شیرانی نے رباعیات سے ہی انکار کیا ہے ؟ کیا ایسا ہی ہے یا کچھ اور ہے ؟بہر حال جب کوئی طالب علم تحقیق کو آگے بڑھاتا ہے تو حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے اور رباعی کے اوزان کے سراغ عربی میں ملنے شروع ہوجاتے ہیں وہ بھی عہد عباسی کے شروع سے(۱۳۲ھ)۔ کلثوم بن عمر العتابی جس کا سلسلہ نسب جاہلیت کے بڑے شا عر عمر بن کلثوم سے ملتا ہے ان کا ایک موالیا ہے جو رباعی کی شکل میں ہے
یا ساقیا خصنی بما تہواہُ
لا تمزج اقداحی رعا ک اللہ 
دعہا صرفاً فاننی امزجہا
اذ اشربہا بذکر من اہواہ 

یا ساق  ی َخص صنی بما تہوا ہُ لا تمزج اقداحِ رعا ک لا ہُ
مفعول مفاعلن مفاعیلن فع مفعولن مفعولُ مفاعیلن فع 

دعہا صر فاً فان ننی امزَ جہا اذا شرِ بہا بذک رِ من اہوا ہ 
مفعولن فاعلن مفاعیل فعل مفعول مفاعلن مفاعیلن فع

اس طریقے کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جس سے نہ صرف رباعی کے مختلف اوزان پر شاعری ملتی ہے بلکہ ملتی جلتی ہیئت بھی نظرآتی ہے ۔ ورنہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، کے علاوہ بیس سے زائد مکمل آیتیں ایسی ہیں جو اخر ب و اخرم کے اوزان پرہیں ۔ اگر چہ قرآن پاک شاعری نہیں ہے لیکن یہ بھی یادرکھیے کہ تمام لغویین ، صرفین ، نحوین ومعانی و بیان کا مرجع قرآن پاک ہی ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ تمام علوم کا مرجع ہے تو بے جانہ ہوگا اور خصوصی طور پر تانیثیت کا ذکر کروں گا کہ عورتوں کی حقوق پر بات کر نے والی سب سے پہلی اگر کوئی کتاب ہے تو وہ قرآن پاک ہے۔ میں اس لیے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں مولوی نما شخص آپ کے سامنے ہوں بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ  محقق کو اصل ماخذ ِ فکر تک پہنچنا ہوگا خو اہ اس کا تعلق کسی بھی زبان ، ملک ، مذہب و ملت سے ہو۔ ان تمام اشیاء کو پیش کر نے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک ریسرچ اسکالر کو مسائل تخلیق کرنے والا ہونا چا ہیے اور اصل متن تک پہنچنے والا ۔

اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ روٹ تک پہنچنے کا جذبہ تو سب کا ہوتا ہے لیکن داخلی اور خارجی مسائل ایسے ہوتے ہیں یا تو پہنچنا نہیں چاہتے ہیں یا پہنچ سکتے ہیں لیکن حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی کمی ہوتی ہے ۔ ہما رے جدید محققین و ناقدین کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ روٹ تک پہنچنے سے پہلے انگریزی کو ہی روٹ سمجھ کر اس کو فکر ی منبع قرادے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے منبع العلوم ہی اٹھا لیا ۔ اس سلسلے میں اپنا ایک تجر بہ بیان کر تا ہوں گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ایک وکیل جن کو ادب سے گہرا شغف ہے اور اقبالیات ان کا میدان نقد و تحقیق ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹا اپنے موبائل میں Meaning of Meanings  کی تھیوری تلاش کر نا جو آئی ، اے ،رچرڈس کی ہے ۔ یعنی نظریہ معنی المعنی ۔ میرے دماغ میں اچانک ایک بات آئی کہ یہ نظر یہ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق تو صنائع و بدائع سے لگتا ہے البتہ انہوں نے  اس کے ہزار ہا پرت کھول لیے ہوں گے تو اس کو ایک نظر یہ کا نام دے دیا گیا اگر چہ صنائع و بدائع کا تعلق زبان کے معانی کو مختلف پرت میں دیکھنے کا ہی نام ہے ۔ تو میں نے اس کو عربی میں تلاش کیا اور عبدالقاہر جر جانی کے یہاں مل گیا جو’’ دلائل الاعجاز‘‘ میں موجود ہے ۔

 اس طر یقے سے اردو کے سامنے کئی چیزیں آتی ہیں جو اب مغرب کے راستے سے آرہی ہیں لیکن اب ہمارے روٹ کو ڈائیورٹ کر دیا گیا ہے ۔ کسی بھی موضوع پر تحقیق کو ہی لے لیجیے سپر وائز ر اس کے روٹ تک پہنچنے دیتا ہے یا نہیں ۔ اگر دیتا ہے تو پھر وہ مطالعہ کی آزادی کے ساتھ کن کتابوں کو مینشن کرنا ہے اس کی بھی آزادی ملتی ہے یا نہیں ۔وہ اس طر یقے سے کہ کوئی طالبہ کسی شہر میں  تانیثیت پر کام کر رہی ہے یا کوئی طالب علم جدید ناقدین پر کام کر رہا ہے تو اب ایک ریسر چ اسکالر کے سامنے یہ بات بہت کٹھن ہوتی ہے کہ وہ جن جن اشخاص کو شامل کرر ہا ہے کیا وہ اس میں کامیا ب ہوپائے گا یا قینچی چل جائے گی اور پسند کے لوگو ں کی کتابوں کو تھوپ دیا جائے گا ۔اسی طریقے سے تانیثیت پر جس شہر میں کام ہورہا ہے تو اس شہر کے مصنفین کی کتابوں کا اقتباس نقل کر نا تقریبا ً لازمی جز سمجھیے. وہ اس سے بچ نہیں سکتی یا سکتا خواہ وہ دوسرے شہر میں قیام پذیر مصنف کو شامل کرے یا نہ کرے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔یا جس کے ماتحت کر رہا ہے تو اس کی کتابوں سے فائد ہ اٹھانے کواشارتاً ہی کہا جائے گا یا طالب علم اپنے مستقبل کو دیکھتے ہوئے ضرور اس کتاب کے صفحہ در صفحہ اقتباسات کی شکل میں نقل کر نے کو مجبور ہوگا خوا ہ تحقیق کسی بھی ڈگر پر چلی جائے اور صورت مسئلہ ہی واضح نہیں ہوسکے ۔

کسی بھی بڑی یونی ورسٹی میں ریسرچ میں داخلہ کے بعد شعبہ کے پوشیدہ اصول پر نہ چاہ کر بھی عمل کر نے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور طالب علم محسوس و لامحسوس طریقے سے اس چیز کا شکار  کب ہوجاتا ہے اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے ۔
خاتون ریسر چ اسکالر کی بھی کئی پریشانیاں ہوتی ہوں گی بلکہ ماضی سے تا حال فوقیت و عدم فوقیت کے رد عمل میں کہیں کہیں سے بھنک لگتی ہی رہی ہے کہ کوئی خاتون ’’ جمال حوریہ‘‘ کی حامل تھی تو باطنیت پر ظاہریت کو فروغ دیا گیا ۔ اگر وہ جمال ِ حوریہ کے ساتھ’’ حسن لاممسوس‘‘ کی بھی مالک ہے تو ناگفتہ بہ آثار وخواہشات کی وجہ سے ڈپریشن کی شکار بھی پائی گئی ہے جس کا اثر کیرئیر پر بھی پڑا ہے اور پڑتا ہے ۔ اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جن کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ ساری چیز یں بدلنے والی نہیں ہیں ہم جب اس مقام پر پہنچیں گے تو شاید کئی گنا اور زیادہ مسائل ہوں ۔ ان تمام کا حل صر ف یہ ہے کہ لکھنے اور پڑھنے کی آزادی کا ماحول بنایا جائے ۔ ٭


امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی
8877550086

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...