Friday, 25 April 2025

اردو کا ڈیجیٹل ارتقا اور مصنوعی ذہانت

 

اردو کا ڈیجیٹل ارتقا اور مصنوعی ذہانت 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب ہم نے آنکھیں کھولیں تو زبان و ادب کے لیے مواصلات کے متعدد ذرائع ہمارے سامنے موجود تھے۔ دیہاتوں میں بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ریڈیو مواصلات کا سب سے اہم ذریعہ تھا جس کے ذریعہ خبریں، زبان و ادب سے متعلق پروگرامز اور مختلف قسم کے تبصرے لاکھوں سامعین تک پہنچتے تھے۔ اس کے بعد ٹیلی ویژن نے تیزی سے اپنی جگہ بنائی لیکن اُس دور میںریڈیو کو جو اہمیت اور وقار حاصل تھا، وہ ٹیلی ویژن کو نہ مل سکا کیونکہ ریڈیو پر زبان و ادب کو خاصی توجہ اور وقت دیا جاتا تھا، جبکہ ٹیلی ویژن کی دنیا میں، باوجود بصری سہولیات کے، ادبی مباحث کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اس کا کمرشل ہونا ہو سکتی ہے، جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم الیکٹرانک سے ڈیجیٹل مواصلات کی طرف منتقل ہوگئے اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہوا۔ آئیے، پہلے ان دونوں کے بنیادی فرق کو سمجھتے ہیں۔

الیکٹرانک کمیونیکیشن سے مراد معلومات (پیغامات، ڈیٹا، آواز یا تصاویر) کو الیکٹرانک آلات اور برقی سگنلز کے ذریعے منتقل کرنا ہے۔ یہ ایک وسیع اصطلاح ہے جو ہر قسم کے برقی مواصلات کو شامل کرتی ہے، خواہ وہ اینالاگ ہوں یا ڈیجیٹل۔ تکنیکی طور پر، اس میں برقی سگنلز (الیکٹرک کرنٹ یا وولٹیج) کا استعمال ہوتا ہے جو معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ یہ سگنلز اینالاگ (مسلسل لہروں کی شکل میں) یا ڈیجیٹل (0 اور 1 کی شکل میں) ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات (جو پہلے اینالاگ تھیں، اب زیادہ تر ڈیجیٹل ہیں)۔

ٹیلی فون کالز (جو ابتدا میں اینالاگ سسٹم پر مبنی تھیں، اب موبائل فونز میں ڈیجیٹل ہو چکی ہیں)۔

تار (ٹیلی گراف) جو خالص اینالاگ تھا، اس کی جدید شکل ای میل، واٹس ایپ یا دیگر انٹرنیٹ پر مبنی مواصلات ہیں جو ڈیجیٹل ہیں۔

الیکٹرانک کمیونیکیشن میں الیکٹرانک آلات جیسے تار، ٹرانسمیٹر، ریسیور، اور سرکٹس شامل ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر، یہ مواصلات کی ابتدائی شکل تھی، جیسے19ویں صدی کا ٹیلی گراف۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن الیکٹرانک کمیونیکیشن کا ایک مخصوص ذیلی حصہ ہے، جس میں معلومات کو بائنری کوڈ (0 اور 1) کی شکل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ جدید مواصلاتی نظام کی بنیاد ہے۔ اس میں معلومات کو ڈیجیٹل سگنلز میں تبدیل کیا جاتا ہے، جو متغیر  ہوتے ہیں، نہ کہ مسلسل جیسے اینالاگ سگنلز۔ اس کے لیے اینالاگ سے ڈیجیٹل کنورژن (ADC) اور ڈیجیٹل سے اینالاگ کنورژن (DAC) کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جیسے انٹرنیٹ پر ای میل، ویڈیو کالز (جیسے زوم یا گوگل میٹ)۔موبائل فون کے ذریعے پیغامات (SMS، واٹس ایپ، ٹیلی گرام)۔ڈیجیٹل ٹیلی ویژن اور ریڈیو نشریات۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن کی اہم خصوصیات یہ ہیں کہ معلومات کو کمپریس کیا جا سکتا ہے جو اسے تیز اور موثر بناتا ہے۔ اس کے ذریعہ شور (noise) کے اثرات کم ہوتے ہیںکیونکہ ڈیجیٹل سگنلز کو دوبارہ بنایا (regenerate) جا سکتا ہے۔ جدید کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، اور موبائل ٹیکنالوجی اس کی بنیادیں ہیں۔

الغرض ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم کب الیکٹرانک سے ڈیجیٹل مواصلات کی طرف منتقل ہوگئے۔ جب ہم ڈیجیٹل کی طرف آئے تو روایتی ذرائع جیسے ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی ڈیجیٹل ہوگئے، لیکن اس سے زبان و ادب کے فروغ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا کیونکہ ان کا دائرہ کار محدود تھا اور ان میں ذاتی ترسیل کی سہولت موجود نہ تھی۔ تاہم، ذاتی کمپیوٹرکا استعمال زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک عظیم ذریعہ ثابت ہوا، جس کا تصور حدودِ امکان سے باہر تھا۔

جیسے ہی ذاتی کمپیوٹر کا دور شروع ہوا، ابتدائی طور پر ڈوس موڈ میں کام کیا گیا جو پرنٹنگ کے لیے موزوں نہ تھا لیکن جب ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کا دور آیا تو دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ اردو نے بھی پیش رفت شروع کی اور اپنے لیے متعدد سافٹ ویئرز تیار کیے، جن میں سے ان پیج آج تک جاری ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ان پیج نے اشاعتی دنیا میں جو کامیابی حاصل کی، وہ اردو کے کسی دوسرے سافٹ ویئر کو نصیب نہ ہوئی۔ لفظوں کی ساخت کے اعتبار سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس نے بس اتنی ترقی کی کہ آج یونی کوڈ میں بھی موجود ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوا کہ جیسے جیسے کتابیں کمپیوٹرائزڈ ہوتی گئیں، وہ ڈیجیٹل دنیا کے لیے ایک ذخیرہ بنتی چلی گئیں۔ لیکن ڈیجیٹل دنیا میں اصل انقلاب اس وقت آیا جب ہم انٹرنیٹ کی دنیا سے روشناس ہوئے اور اس کا استعمال ہمارے لیے نہایت آسان ہوگیا۔

تاہم، اردو کے لیے ابتدائی مراحل ہرگز آسان نہ تھے۔ معلومات کے مطابق، 4 مئی 1994 کو سید ظفر کاظمی نے اردو شاعری کے لیے ایک نیوز گروپ شروع کیا، جس کا نام alt.language.urdu.poetry (ALUP) تھا۔ اس میں اردو سے متعلق بہت کچھ موجود تھا، سوائے اردو رسم الخط کے، کیونکہ اس وقت تک اردو یونی کوڈ وجود میں نہ آیا تھا۔ چار سال بعد، 1997 میں TrueType Font (TTF) تخلیق کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ اردو ویب سائٹس کو اس کے اصل رسم الخط میں پیش کیا جا سکے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ سید ظفر کاظمی کی ویب سائٹ میں صرف رومن رسم الخط استعمال ہوتا تھا۔ اسی سال عمیر خان نے اپنی ویب سائٹ Urduweb.comشروع کی، جس نے نہ صرف اردو فونٹ کا استعمال کیا بلکہ اردو میں ای میل لکھنے کے لیے ایک سافٹ ویئر بھی تیار کیا۔

1998 کے اوائل میں جرمنی کے علی حسنین شاہ نے ڈائنامک فونٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ تجربات کیے تاکہ ایسی ویب سائٹس بنائی جائیں جن کے لیے اردو فونٹ انسٹال کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ انہوں نے اردو خط نسخ فونٹ استعمال کیا۔ پاکستان میں ان کی ڈیٹا مینجمنٹ سروسز نے اس دور میں ایک ایسا فونٹ تیار کیا جو اردو نستعلیق کے بہت قریب تھا، جسے Urdu98 کہا گیا۔ یہ فونٹ کسی بھی ونڈوز آپریٹنگ سسٹم پر کام کرتا تھا اور ایک پلگ اِن کے طور پر استعمال ہوتا تھا، لیکن زیادہ قیمت کی وجہ سے عام استعمال میں نہ آسکا۔

اس کے بعد اردو ویب ٹیکنالوجی عام ہوئی، جس سے کئی ویب سائٹس وجود میں آئیں۔ اس دور تک ان فونٹس کو دیکھنے کے لیے مخصوص سافٹ ویئر یا فونٹس انسٹال کرنا پڑتا تھا۔ اردو کی دائیں سے بائیں تحریر اور نستعلیق فونٹ کو ڈیجیٹل طور پر پیش کرنا بھی مشکل تھا، کیونکہ اس وقت کے ویب براؤزرز اسے مکمل طور پر سپورٹ نہیں کرتے تھے۔

بالآخر، جولائی 2000 میں بی بی سی اردو سروس نے اپنی ویب سائٹ لانچ کی، جو اردو میں خبریں فراہم کرنے والی اولین بڑی ویب سائٹس میں سے ایک تھی۔ اسی سال پاکستانی اخبارات جنگ اور نوائے وقت نے اپنی ویب سائٹس پر اردو مواد شامل کرنا شروع کیا لیکن اکثر مواد تصاویر کی شکل میں ہوتا تھا، تحریری شکل میں نہیں۔

2000 ء اوائل میں یونی کوڈ کا وجود عمل میں آیا، جس نے اردو کے ڈیجیٹل استعمال میں انقلاب برپا کیا۔ اس سے ویب سائٹ بنانے والوں کے لیے اردو ویب سائٹس تیار کرنا آسان ہوگیا اور دیگر فونٹس انسٹال کرنے کی ضرورت ختم ہوگیٔ۔ جب یونی کوڈ کا مرحلہ آسان ہوا تو کئی فونٹس وجود میں آئے جو نسخ اور نستعلیق دونوں کو سپورٹ کرتے تھے، جیسے جمیل نوری نستعلیق، نفیس نستعلیق اور دیگر نستعلیق فونٹس۔ تاہم، اردو ویب سائٹس پر خط نسخ ہی زیادہ نظر آتا تھا۔

نستعلیق کی پیچیدہ خطاطی، جس میں حروف کا باہمی ربط، نقطوں کی مناسب جگہ اور فاصلوں کا درست ہونا ضروری ہے، جس کو یونی کوڈ میں پیش کرنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ اس کے لیے جدید رینڈرنگ انجن استعمال کیے گئے جو نستعلیق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ (رینڈرنگ انجن سافٹ ویئر کا وہ حصہ ہے جو ویب براؤزر میں CSS، HTML، اور JavaScript کو پروسیس کر کے ویب سائٹ کو دکھاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں، یہ ویب سائٹ کی کوڈنگ کو پڑھنے اور دیکھنے کی شکل میں تبدیل کرتا ہے جیسے گوگل کروم میں Blink استعمال ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نوری نستعلیق فونٹ تیار کیا گیا، جو موبائل، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر تینوں کے لیے یکساں مفید ثابت ہوا اور آج بھی اسی کا استعمال جاری ہے۔ جب کسی ویب سائٹ کی کوڈنگ میں نوری نستعلیق شامل ہوتا ہے، تو وہ سب کو اسی فونٹ میں نظر آتا ہے اور موبائل میں فونٹ اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس معاملے میں ایپل (iOS) منفرد ہے، جہاں اگر ترجیحی زبان اردو ہو تو تمام تحریریں نستعلیق میں نظر آتی ہیں۔ اس طرح، فونٹس کے اس مختصر سفر نے اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں آسان اور قابل رسائی بنا دیا ہے۔

آخر کار آج ہم ڈیجیٹل میڈیا میں اس مقام پر ہیں جہاں ہندوستان کی دیگر زبانیں ہمارے قریب بھی نہیں۔ وکی پیڈیا پر ہم ایک لاکھ سے زائد مضامین کے زمرے میں شامل ہیں اور ہندوستانی زبانوں میں مضامین کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہیں۔ تادم تحریر، وکی پیڈیا میں اردو مضامین کی تعداد 2,20,3821 ہے جبکہ ہندی دوسرے نمبر پر ہے اور اس کے مضامین کی تعداد 1,65,2482 ہے۔ دیگر ہندوستانی زبانیں اس کے بعد آتی ہیں۔ یہ صرف ایک ویب سائٹ کی بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت 50 سے زائد ویب سائٹس ہیں جن پر اردو مضامین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ان میں سے 20 ایسی ہیں جو مسلسل فعال ہیں اور جہاں روزانہ ادبی و غیر ادبی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اگر اخباری ویب سائٹس کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو اردو صارفین کی سب سے زیادہ تعداد فیس بک پر ہے۔ جو کچھ بھی ویب سائٹس پر اپ لوڈ ہوتا ہے، اس کی جھلک فیس بک پر بھی نظر آتی ہے۔ اس اعتبار سے گزشتہ دس سالوں میں فیس بک نے اردو کو سوشل میڈیا میں مقبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اردو کا تناسب فیس بک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

مراسلاتی میڈیا میں واٹس ایپ کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ وہاں اردو کا ذخیرہ بہت وسیع ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیلی گرام پر یونی کوڈ اور پی ڈی ایف کی شکل میں اردو مواد کی مقدار حیران کن ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب مصنوعی ذہانت (AI) ہماری زبان کو بہتر انداز میں سمجھ رہی ہے اور فوری عمل کے معاملے میں بھی ہمیں متاثر کر رہی ہے۔ پہلے مصنوعی ذہانت اردو کے معاملے میں تسلی بخش نتائج فراہم نہیں کر پاتی تھی لیکن جب سے Grokنے کام شروع کیا ہے، اردو میں نتائج نمایاں طور پر بہتر ہوئے ہیں کیونکہ اس کے جوابات درست، جامع اور حوالہ جات پر مبنی ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کی کئی اقسام ہیں۔ ہمارے یہاں یا زبانی سطح پر جس مصنوعی ذہانت کا ذکر ہوتا ہے، وہ چیٹ بوٹ کہلاتی ہے، جسے AI Assistants بھی کہا جاتا ہے۔ آئیے سمجھتے ہیں کہ چیٹ بوٹ کیا ہوتا ہے۔

چیٹ بوٹ ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو انسانوں کی طرح گفتگو کرتا ہے۔ یہ مختلف موضوعات پر آپ سے بات چیت کر سکتا ہے اور کسی پیچیدہ مسئلے کے حل کی رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ الغرض، آپ جیسے چاہیں، یہ ویسی ہی گفتگو کرتا ہے۔ تمام چیٹ بوٹس مصنوعی ذہانت سے لیس نہیں ہوتے، لیکن جدید چیٹ بوٹس نیچرل لینگویج پروسیسنگ (NLP) کا استعمال کرتے ہیں تاکہ صارف کے سوالات کو سمجھیں اور ان کے جوابات خودکار طور پر تیار کریں۔ یہ ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ آئندہ چند سالوں میں کیا امکانات سامنے آئیں گے، اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس کے بنیادی اصول زبان کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معلومات اور شواہد کے ذخیرے تک رسائی کو بھی نہایت آسان بنا رہے ہیں۔

مصنوعی ذہانت میں چیٹ بوٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے ادب کو بھی اپنے سحر میں گرفتار کرلیا ہے ۔معلومات کی فراہمی سے لے کر متن کی تشکیل ،باز تشکیل اور ترجمے تک یہ ٹکنالوجی ہر سطح پر استعمال ہورہی ہے ۔

اگر ہم کسی چیٹ بوٹ سے متن کی تشکیل کی فرمائش کرتے ہیں تو وہ ہماری خواہش کی تکمیل ضرور کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں میں نے ایک چیٹ بوٹ’گروک‘ سے سفر کی پریشانیوں پر ایک افسانہ لکھنے کی فرمائش کی تو اس نے فوراً تقریباً پانچ سو لفظوں پر مشتمل افسانہ پیش کردیا ، تاہم میری خواہش دوہزار لفظوں کی کہانی کی تھی۔ پھر میں نے دو بارہ درخواست کی تو اس نے اسی موضوع پر دوہزار سے زائد لفظوں کی کہانی پیش کردی۔ یہاں پر ہمیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ چیٹ بوٹ نے بیٹھے بٹھائے مجھے افسانہ نگار بنادیا ۔

اسی طرح، اگر کوئی تحریر درست کرنے کو دی جائے، تو یہ ہمیں عمدہ نثر نگار بنا دیتا ہے۔ تحریر، تصویر یا کسی فائل کا ترجمہ کرنے کی درخواست ہو، تو وہ بھی فوراً مکمل کر دیتا ہے۔ لیکن ان سہولتوںکے ساتھ ہماری ذاتی صلاحیتوں کو وہ نقصان ہوگا جس کا محاسبہ بھی مشکل ہوگا۔

جب ہم خود کوئی افسانہ تخلیق کرتے ہیں، تو اس میں مکالموں، منظر نگاری اور کرداروں کی گہرائی کے ذریعے ایک ایسی روح پھونکتے ہیں جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔ لفظوں کا انتخاب، جملوں کی ترتیب اور مکالموں کی برجستگی سے ہم تخلیقات کو منفرد بناتے ہیں جو ہماری تحریری شناخت کا اہم حصہ بھی ہوتا ہے۔ مشینی تخلیق چاہے کتنی ہی درست کیوں نہ ہو، اس میں وہ تاثیر نہیں آسکتی ۔ اس لیے یہ خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ آسانی کے لیے جن آلات کو ہم اپنا رہے ہیں، اس سے ہمارے فنون لطیفہ ختم ہورہے ہیں ۔ اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کیمرہ یقیناً ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے، لیکن اگر ہم اپنی کسی سوچ یا غم میں ڈوبی تصویر کیمرے سے بنائیں، تو وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو ایک تخلیقی مصور اپنے برش سے پیش کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح، ترجمہ نگاری لسانی فاصلوں کو کم کرتی ہے، لیکن اگر ہم مشین سے ترجمانی (یعنی اصل متن کی تاثیر کی منتقلی) کی توقع کریں، تو یہ ایک مشکل کام ہے۔جس طرح سے مشینی تخلیقات فنون لطیفہ میں نہیں آتی ، ویسے ہی مصنوعی ذہانت سے تیار شدہ متن بھی فنون لطیفہ کے دائرہ سے باہر ہوجائے گا ۔ 

یہی حال مشینی ترجمے کا ہے جس میں عموماً لفظوں اور معانی کی ترتیب پر توجہ دی جاتی ہے لیکن ترجمانی کے لیے ایک تیسری چیز، یعنی تاثیر، درکار ہوتی ہے۔ اصل متن سے حاصل ہونے والی تاثیر کو ترجمے میں منتقل کرنا ایک نازک عمل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مشینی ترجموں میں اکثر ایک روکھاپن اور بنجرپن نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلوبیاتی اور جمالیاتی سطح پر ہماری ادبی حس کو اب قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ نتیجتاً، ہماری زبان میں نئی تراکیب بننا بند ہو گئی ہیں۔ نثر ہو یا نظم، تخلیقی تراکیب کی کمی واضح ہے۔

زبان کا تعلق فوری تاثرات سے ہے۔ جیسے ہی الفاظ سامع یا قاری کے کانوں سے ٹکراتے ہیں یا ہماری نظروں کے سامنے آتے ہیں تو قاری یا سامع فوراً متاثر ہوتا ہے لیکن مشینی تحریروں میں یہ فوری تاثیر پیدا کرنا مشکل ہے۔

مصنوعی ذہانت نے اوریجنلٹی کے سوال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ماضی میں، بعض اوقات قلمکار کے فرضی ہونے کا شبہ ہوتا تھا، یعنی تحریر تو اصلی ہوتی تھی، لیکن مصنف کا وجود مشکوک ہوتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مصنف تو اصلی ہوگا، لیکن تحریر اوریجنل نہیں ہوگی۔ اس سے ہمارا پورا تخلیقی اور تحریری نظام متاثر ہو رہا ہے اور تخلیقیت کا وجود خطرے میں ہے۔

حال ہی میں کیے گئے ایک تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ میں نے ایک چیٹ بوٹ سے مضمون لکھوایا اور پھر اسی چیٹ بوٹ سے پوچھا کہ کیا یہ مضمون اس نے لکھا ہے۔ اس نے انکار کر دیا۔ حیران کن طور پر، Plagiarismکے ٹولز بھی اسے ٹریک نہیں کر سکے۔ ایسی صورتحال میں تخلیقی صلاحیتوں کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟ ویسے ہی تحریری صلاحیتوں کا فقدان ہے اور اگر اس صورتحال میں مصنوعی ذہانت کا سہارا لیا گیا، تو مستقبل میں شاید ہی کوئی اصلی تحریر قاری کے سامنے آسکے۔

یہاں تک پہنچ کر یہ بات واضح ہوگئی کہ اب تحریروں کی بھی دو قسمیں ہوجائیںگی اول وہ جو اوریجنل ہوتی ہیں اوران کا تعلق فنون لطیفہ سے ہوتا ہے دوم وہ جو مشینی ہوںگی اور کیمرے کی تصویروں کی طرح ان کا فنون لطیفہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔


Monday, 7 April 2025

مجھے کچھ کہنا ہے

  زندگی دراصل تجربات و حوادث کا نام ہے جہاں ہر وقت انسان نئے حالات و کیفیات سے دو چار ہوتا ہے اور اس کے اذہان میں نئے تصورات گردش کرتے رہتے ہیں ،جن میں سے کچھ کو پختگی ملتی ہے اور کچھ لمحات میں زائل ہوجاتے ہیں۔ ایک ادیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان نئے تصورات و افکار کو فن کے دائرے میں پروکر کسی صنف کا جامہ عطاکردے۔ ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ شاعری میں ایک ہی خیال کو مختلف انداز میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے اور فکشن میں ایک ہی مرکزی واقعے کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے، جس میں انسانی ذہنی کشمکش کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ جس کے لیے بہت سے تخلیق کار کے فن پارے منظر عام پرآتے ہیں جن میں سے کچھ کو مقبولیت ملتی ہے اور کچھ گمنامی کے شکارہوجاتے ہیں۔دراصل اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اکثر تخلیق کار اپنے قلمی سفر کی شروعات زندگی کی دوسری دہائی میں کرتے ہیں جن میں سے چند کو مقبولیت مل جاتی ہے اور کچھ مختصر مدت کے بعد ماند پڑجاتے ہیں۔ 

یہی حالت ہم ساتھیوں کی بھی ہے جو تحقیقی و تنقیدی دنیا میں قدم رکھتے ہیں لیکن ہمارے سامنے لکھنے کے لیے نیا کچھ نہیں ہوتاہے۔ایسا اس وجہ سے کہ وہ ان ہی راستوں پر چلنے کو فوقیت دیتے ہیں جہاں پہلے سے ہی راستے ہموار ہوچکے ہوتے ہیں اور اس موضوع پر خاطرخواہ تحریریں منظر عام پر آچکی ہوتی ہیں۔ جس سے اس موضوع پر تجزیہ در تجزیہ کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ جن گوشوں میں بہت ہی کم لوگوں نے قدم رکھا یا ایسے گوشے جو بالکل گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں، وہا ں شاید و باید ہی کوئی ریسرچ اسکالر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ ا یسے حالات میں موضوعات میں تکر ار بہت ہی زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے لیکن اسے اکثر یہ کہہ کر رد کردیا جاتا ہے کہ ابھی تو آموزش کا مرحلہ ہے، بعد میں اکتسابی مرحلہ آئے گا تب نئے زاویوں کی تلاش و جستجو اور پیش کش پر عمل کیا جائے گا۔ لیکن اس تیز رفتار زندگی میں جب وقت قلیل سے قلیل تر ہوتا چلا جارہا ہے ایسے میں کیا ضروری ہے کہ کسی کو بعد میں اتنا موقع ملے کہ وہ کسی بھی موضوع پر اتنا وقت دے سکے جتنا اسے ریسرچ کے درمیان موقع مل رہا ہے۔ یقیناً بہت ہی کم ملتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے تجربات کے تحت یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ریسرچ کے بعد جن ساتھیوں نے نوکری حاصل کی ہے ان میں سے اکثر کے یہاں قلم کی دھار کمزور پڑگئی ہے۔ پتہ نہیں آخر ایسا کیوں ہوتاہے۔ ان حالات کے مدنظر  یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریسرچ کے دوران جو بھی ہمیں موقع مل رہا ہے اسی میں اپنی شناخت بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایسے میں ہم پر لازم ہوتا ہے کہ ہم  ادب میں ان گوشوں کو نمایاں کریں جن پر اب تک بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔

 موجودہ وقت میں دو بنیادی موضوعات بہت ہی عام ہیں شاعری میں غزل و نظم اور نثر میں افسانہ و ناول۔ سندی ریسر چ کا اسی فیصد حصہ انہیں موضوعات کو محیط ہے اور اس میں بھی محض تجزیاتی اور تاثراتی تحریر ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔ شاعری میں شاعر نے فن کو کس طرح برتا ہے اس پر توجہ نہ دے کر سارازور صرف موضوعات پر رہتا ہے۔یہی حال ناول اور افسانہ کا بھی ہے جہاں محض کہانی کا تجزیہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے ، فن کا ر نے فن سے کس قدر انصاف کیا ہے ، زبان و بیان میں کیا اختراعات دیکھنے کو مل رہے ہیں ، کیا انہوں نے کسی فلسفہ کو کردار کے ذریعہ پیش کرنے کوشش کی ہے تو اس فلسفہ سے تحقیق کار کس قدر واقف ہے اور اس کے تجزیہ کا کتنا حق ادا کرسکتا ہے ۔ کہانی کا ر کا اپنا عکس کس قدر حاوی ہے ، کیا واقعی میں وہ فن پارہ ہے؟ یا فن پارہ کا نام دے کر تخلیق کار نے اپنی بھڑا س نکالی ہے ، ان گوشوں پر بہت ہی کم واضح انداز میں گفتگو کی جاتی ہے ۔ اکثر تو تعریف میں قلم اٹھاتے ہیں۔ جب تعریف ہی تنقید کا مقصد رہ گیا ہے تو پھر تنقید کو دفن کردینا چاہیے ۔ویسے اس معاملے میں جدید وقدیم سارے قلم کار یکسا ں ہیں ، وجہ نوکری اور معاملات کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اگر یہ مجبوریاں حائل نہیں ہوتیں تومیرا خیال ہے کہ ماضی سے بہتر معرکے آج کے زمانے میں دیکھنے کو ملتے ۔ معرکوں سے زبان توترقی کرتی ہی ہے ساتھ ہی قاری میں بے تحاشہ اضافہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن یہ ممکن نہیں کیونکہ حالات بدل چکے ہیں اور وسعت نظری تنگ نظر ی میں بدل چکی ہے ۔ اس لیے تنقید میں تعریف کے سوا کچھ نہیں بچتا اور اگر کسی نے لکھنے کی ہمت بھی دکھائی تو انجام کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ 

 موضوعات کے حوالے سے میرے ہم درس دوست سے ایک بڑی یونی ورسٹی کے سینئر استاد جو اّب ریٹائر ہوچکے ہیں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ سندی تحقیق کے لیے کبھی بھی مشکل موضوع کاانتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ یقیناً انہوں نے تجربات کی بنیاد پر ہی یہ بات کہی ہوگی کیونکہ ریسرچ کے پانچ برسوں میں بہت ہی کم ریسرچ اسکالرز ایسے ہوتے ہیں جو یکسوئی کے ساتھ کام کو انجام دیتے ہیں، عموماً عمر کے اس پڑاؤ میں یہ مرحلہ آتا ہے جب بہت ساری ذمہ داریوں کی بنیاد ڈالی جارہی ہوتی ہے۔ ایسے میں دو تین سال ہر ایک کے یونہی محض سوچنے میں گز ر جاتے ہیں اور جب کام کرنے کا وقت آتا ہے تو بہت جلد بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،جس بنا پر سنجیدہ تحقیق و تنقید کی امید نہیں کی جاسکتی۔علاوہ ازیں میں ایسے ساتھیوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے مسلسل چار سال تحقیق کو دیے اور ہر روز کچھ نہ کچھ لکھا پھر جب ان کا تحقیقی مقالہ سامنے آیا تو وہ بہت ہی عمدہ قسم کا کام تھا، لیکن چونکہ ان کے نگراں کو وہ کام بہت زیادہ بھاری لگ رہا تھا تو ان میں سے بہت کچھ حذف بھی کروا دیا گیا جس سے یقیناً ان کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی۔ چند ہمارے ایسے بھی ساتھی ہیں جنہوں نے صر ف چند دنوں میں اپنا تحقیقی مقالہ تیار کرلیا اور جب مجھے برسوں بعد ان کے مقالے کادیدار ہوا تو میں دنگ رہ گیا کیونکہ پندرہ سطور سے کم کا صفحہ اور وہ بھی صر ف دو سو پچاس صفحات۔ ایسے میں ہم UGC کی گائڈ لائن کی جانب رخ کرتے ہیں تو وہاں پر ہمیں انگلش کے متعلق صاف طور پر لکھا ہوا ملتا ہے کہ A4 میں متن کا سائز 12 ہو اور سطرو ں کے درمیان کا فاصلہ 1.5 ہو۔ اس اعتبار سے تیس سے زیادہ سطریں ایک صفحہ میں آجاتی ہیں۔ ساتھ میں یہ بھی ہے کہ جو اسٹنڈرڈ سائز ہے اسی میں تحریر کرنا ہے یعنی جس فونٹ سائز میں عموماً کتابیں بازار میں ملتی ہیں وہی فونٹ سائز آپ کو بھی استعمال کرنا ہے۔ لیکن نہیں معلوم اردو میں یہ روایت کہاں سے آگئی ہے کہ آپ کو 18 فونٹ سائز میں ہی مقالہ تیار کرنا ہے۔ اس فونٹ سائزسے عموما 23 سطریں ایک صفحہ میں آتی ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے لیکن بہت سارے ایسے مقالے دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن میں 20 یا اس سے بھی زیادہ فونٹ سائز مستعمل ملتا ہے اور سطروں کا فاصلہ بہت ہی زیادہ رکھا جاتا ہے۔ جب کہ سبھی کو معلوم ہے کہ نستعلیق کا اسٹنڈرڈ سائز15 اور 16 ہے لیکن شاید ہی کو ئی مقالہ اس فونٹ سائز میں آپ کو مل جائے۔ اس جانب بھی متفقہ طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فونٹ سائز بڑا کرکے صفحات میں اضافہ کی نوبت اس وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب ہمارے پاس مطالعہ کی کمی ہوتی ہے، جب مطالعہ کم ہوگا تو کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے بھی کم مواد جنریٹ ہوگا۔ان تمام باتوں کے مدنظر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریسرچ اسکالر متعلقہ مضمون میں مطالعہ کو ٹھیک ڈھنگ سے ترتیب نہیں دے پاتا جس سے نتائج بھی محدود ہی سامنے آتے ہیں۔

ان سب کے باوجود ہمارے یہاں خاطرخواہ تعداد میں اچھے ریسرچ اسکالروں کی کھیپ تیار ہورہی ہے جنھوں نے اپنے قلم سے نہ صرف اساتذہ کو چونکایا ہے بلکہ انھیں بہت زیادہ متاثر بھی کیا ہے۔ تحقیق و تنقید نیز تخلیقات میں وہ اپنی شناخت قائم کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ ان پر مباحث قائم نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے تحقیق سے نئی چیز سامنے لائی ہے تو اس کے ردو قبول پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بات کر نا اور مباحثہ قائم کرنا تو بعید تبصروں میں بھی ان عناصر کو نمایا ں نہیں کیا جاتا بلکہ یہ سوچ کر کہ اس موضوع پر ایک اور نئی کتاب آگئی ہے اس کو طاق نسیاں کردیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ نئے اور محنتی طلبہ کے لیے حوصلہ شکنی کی بات ہوتی ہے۔ ایسے میں جب وہ اپنے ساتھ یہ رویہ دیکھتے ہیں تو آگے انہیں مزید کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں سنجیدہ قرات میں کمی آئی ہے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرے رخ میں ہمارے وہ اساتذہ بھی شامل ہیں جو صلاحیت مند نوواردین کو بھر پورموقع دیتے ہیں اورمختلف پلیٹ فارمس سے ان کی صلاحیتوں کو ابھارتے بھی رہتے ہیں اور تقرریوں میں ان کا بھر پور تعاون بھی کرتے ہیں۔ 

اس کے بعد ایک مرحلہ اور آتا ہے جہاں معاملات دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک خادم ادب دوسرا محض خادم۔ دوسرا فرد کسی کا بھی خادم ہوسکتا ہے، خواہ وہ فرد کا خادم ہو یا ادارے کا، عارضی اور وقتی ہو یا دائمی۔ پہلا اپنی تمام تر محنتوں کے باوجود در بدر بھٹکتا رہتا ہے اور دوسرے کی قسمت بہت ہی جلد سنور جاتی ہے۔ یہ معاملہ ادب میں نئے داخل ہونے والوں کو بہت ہی زیادہ پریشان کررہا ہے۔ گزشتہ دنو ں بانگ درا کے سو سال مکمل ہونے پر اردو اکادمی دہلی نے ایک سہ روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا جس کے کنوینر پروفیسر معین الدین جینا بڑے تھے۔ اس سمینار کے کلمات تشکر میں انہوں نے ’دوسرے خادم‘ کے حوالے سے چند سخت کلمات کہے تھے جو اتفاق سے اخبارات میں اور ایوان اردو میں بھی شائع ہوئے وہ میں یہا ں ہو بہو نقل کرنا چاہتا ہوں۔’’سمینار میں مقالہ نگاران کی فہرست میں شمولیت کے حوالے سے سخت لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتفاق سے چار روز قبل کسی صاحب کا ایک نوجوان کے حوالے سے فون آیا کہ آپ انہیں مقالہ نگاروں کی فہرست میں شامل کرلیں، میں نے انہیں فون پر ہی خفگی کا اظہار کیا کہ آپ نے اس حوالے سے فون کیسے کردیا،پھر اسی نوجوان کا فون آیا تو میں نے اسے بھی سختی سے منع کردیا، لیکن یہ معاملہ جاری رہا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے ایک وزیر سے فون کروایا۔یہ رویہ بہت ہی تکلیف دہ ہے۔سارے اداروں اور یونیورسٹیز کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔‘‘(ایوان اردو، فروری2025) ایسی چیزیں عموماً تحریر کا حصہ نہیں بنتیں اس لیے وہ تاریخ کا بھی حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔ پھر بعد والوں کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ادب میں کجروی لانے میں کس کی غلطی تھی اوراس کا ذمہ دار کون ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح ابھی اردو کے حالات بد سے بدتر نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے قارئین کی تعداد میں یقیناً کمی آئی ہے بالخصوص سندی طلبہ کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے لیکن اگر حالات فطری طور پر چل پڑیں اور عدل و مساوات کو اپنایا جائے تو انشاء اللہ نتیجہ ثمر آور ہوگا۔

چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات)

  نام کتاب : چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات) شاعر :ظفر انصاری ظفرؔ    -  صفحات : ۱۶۸  -    اشاعت: ۲۰۲۳-      ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس د...