Thursday 12 March 2020

رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات

رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات 

امیر حمزہ


رباعی کا نام ذہن میں آتے ہی اس کے بہت سارے مقتضیا ت ذہن میں آنے لگتے ہیں اور تاریخ کے نشیب وفراز میں ذہن گر دش کر نے لگتا ہے۔ ذہن سب سے پہلے رباعی کے متعلق تعارف چاہتا ہے کہ رباعی کس چیز کا نا م ہے اور اس کے فنی تقاضے 
کیا ہیں ۔

رباعی صورت کے اعتبار سے مختصر تر ین غزل اور سیر ت کے اعتبار سے مختصر تر ین نظم ہے ۔ رباعی ساخت کے لحاظ سے پچیس تیس الفاظ سے تر کیب یافتہ چار مصر عوں پر مشتمل صنف شاعری کا نام ہے ۔ پچیس تیس الفاظ سے مر کب یہ چار مصر عوں کے اندر ایک جہان معنی آباد ہو تا ہے ۔ اسی لیے رباعی حکماء اور صوفیا کی محبوب تر ین صنف سخن رہی ہے ۔

رباعی عربی لفظ ربع سے مشتق ہے اس کے معنی چار چار کے ہیں ۔مگرشا عر ی کی اصطلاح میں رباعی اس صنف سخن
 کو کہتے ہیں جوبحر ہز ج کے اخر ب اور اخر م کے چوبیس اوزان میں سے کسی بھی وزن میں چار مصر عوں پرمشتمل ہو ۔مضمون، خیال،فکر اور جذبہ کو تدریجی ارتقا کے ساتھ پیش کیا گیا ہو ۔

رباعی نگار کے لیے تسلسل بیان ،الفاظ و تر اکیب کا موضو ع اور بر محل استعمال کا خیال رکھنا بہت ہی لاز م ہو تا ہے۔گویا رباعی کا فن سمندر کو کوزے میں بند کر نے کا فن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رباعی گو کے لیے دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ منا سب ،موزوں الفاظ اور دلکش اسلوب کا خیال رکھنا نہا یت ضر وری ہوتا ہے۔کیونکہ مذکور ہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اعلی درجے کی رباعی کو وجود میں لانے کے لیے بہت ہی ضر وری ہے۔ جیسا کہ رباعی کے فن میں بحث کرتے ہوئے ریوبن لیوی فر ماتے ہیں ۔

’’یہ بہت ہی مختصر نظم ہو تی ہے جس کا انحصار دو اشعار یعنی چار مصر عوں پر ہو تا ہے ۔ جس میں پہلا ،دو سرا اور چو تھا مصر ع ہم قافیہ ہو تا ہے ۔ تیسر ا مصرع عموما قافیہ سے با ہررہتا ہے ۔اس مختصر اور محدود خاکہ میں خیا ل کا اظہار اور تو ضیح بھی ہو تی ہے اور چو تھے مصر ع میں ایک استفہامیہ تو قف پایا جا تا ہے ۔ رباعی اکثر اپنی نو عیت کے اعتبار سے کسی خیال یا سانحہ کی اچانک اور بے اختیا ر لیکن قلیل اور مؤثر اندا ز میں کر تی ہے ‘‘(فارسی ادب کی مختصر تاریخ ، متر جم حفیظ الدین کر مانی ، ص ۳۹۔۴۰)

قصیدے میں جس طرحتشبیب سے فضا ہموار کی جاتی ہے اسی طرح رباعی کے پہلے اور دوسرے مصر ع میں کہی جانے والی بات کی جھلکیا ں پیش کی جاتی ہیں ۔تیسرا مصر ع اوپر کے دونوں مصر عوں کے ساتھ چو تھے مصرعے کے لیے ایک تیز ضرب تیار کر تا ہے جس سے چو تھا مصرع اتنا پر اثر ہوجا تا ہے کہ وہ مصر ع دل پر ناخن زنی کر تا ہے ۔اس چوتھے مصر عے میں اتنی بر جستگی ، بے ساختگی ،اور شدت ہو نی چاہیے کہ سننے والا مسحور ہوجا ئے ۔عام طور پرکامیاب رباعیوں میں پہلے تین مصر عوں میں تجسس بر قرار رہتا ہے اور چو تھا مصر ع میں اپنی تمام تر ڈرامائیت کے ساتھ سامع کے دل میں اتر جاتاہے ۔اسی وجہ سے رباعی کا سب سے جاندا رمصر ع چوتھا مصر ع ہوتا ہے ۔

 رباعی کے متعلق جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی حر م ہے جس میں ایک ہی خیال جا گزیں ہوتا ہے ۔رباعی کے پہلے مصرع میں خیال کو متعارف کیا جاتا ہے دوسرے مصرع میںاس خیال کی وضاحت ہو تی ہے ۔تیسرا مصرع رابطہ ہو تا ہے جو پہلے دو مصرعوں کو چوتھے مصرع سے ملاتا ہے اور چو تھا مصرع خیال کا نقظہ عروج ہوتا ہے ۔ایک پنچ لائن ہوتا ہے جس کی گونج تا دیر سنائی دیتی رہتی ہے ۔بقول صائب تبریزی ۔

’’از رباعی مصر ع آخر زند ناخن بہ دل ‘‘

رباعی فنی اعتبار سے دوسر ے اصناف سخن سے ایک حد تک مماثل نظر آتی ہے ۔غزل ،قصیدہ اور مثنوی کے کچھ کچھ خصوصیات رباعی میں بھی پائی جاتی ہیں ۔قصیدہ اور غزل کی طرح رباعی کے پہلے دو نوں مصر عے ہم قافیہ ہوتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ رباعی اپنے مخصوص وزن میں ہوتی ہے اور دو شعر وں میں محدود ہوتی ہو اور دوشعر وں میں ایک ہی بات کہی جاتی ہے ۔مثنوی اور رباعی میں بھی ایک طر ح کی مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ جس طر ح مثنوی میں تسلسل بیان اور ارتقائے خیال پایا جاتا ہے اسی طر ح رباعی میںبھی تسلسل بیان اور ارتقائے خیا ل ہوتا ہے ۔

رباعی کے اقسام 

رباعی اپنی ہیئت کے اعتبار سے کئی اقسام میں پائی جاتی ہے ۔عموما رباعی میں تین ہیئتیں ہوتی ہیں ۔رباعی خصی ہوگی ، غیر خصی ہوگی یا مستزاد ہوگی۔ رباعی خصی وہ رباعی ہے جس کا پہلا دوسر ا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو ۔رباعی خصی مقبول تر ین رباعی کی ہیئت ہے اسکی مقبولیت کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے کہ ابتدا سے لیکر موجودہ دور تک خصی رباعیاں ہی کہیں گئیں ہیں ۔

غیر خصی رباعیاں وہ رباعیاں کہلاتی ہیں جن کے چاروں مصر ع ہم قافیہ ہوں ۔ غیر خصی رباعی میں وہ تاثر نہیں پیدا ہوتا جوخصی رباعیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ تیسرا مصرع ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے وہ جھٹک اور تاثر پیدا کرنے میں نا کا م رہتا ہے جو ایک خصی رباعی کی خصو صیت ہو تی ۔خصی رباعی کا تیسرا مصرع چونکانے والی کیفیت سے پر ہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے رباعی کے تاثر میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔جبکہ غیر خصی رباعی کا لہجہ سپاٹ ہوتا ہے ۔

مستزاد کے لغوی معنی بڑھا یا گیا ، زیادہ کیا گیا ۔ عروض کی اصطلاح میں وہ شعر کے جس کے ہر مصرع یا بیت کے بعد ایک ایسا ٹکڑا منسلک ہو جو اسی مصرع کے رکن اول یا رکن آخر کے برابر ہو مگر خوبی یہ ہو کہ جس مصرع یابیت کے بعد آئے کلام اور معنی میں ربط بھی رکھتا ہو اور زائد بھی ایسا ہو کہ مصرع یا بیت معنی میں اس کی محتاج نہ ہو۔

مستزاد کی دو قسمیں ہیں  (۱) مستزاد الزام (۲)  مستزاد عارض 

مستزاد الزام وہ ہے جس مین اضافہ کر دہ فقرہ یافقرے اصل شعر یا مصرع کے مفہوم کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہو تے ہیں ۔ مستزاد عارض وہ ہے جس میں مستزاد اصل شعر یا مصرع سے مکمل طور پر میل نہیں کھاتا ہوبلکہ اس کے بغیر بھی کلام با معنی رہتا ہو۔

رباعی کے اوزان 

رباعی کے مشہور و معروف چوبیس اوزان ہیں اوہ تمام  اوزان بحر ہزج کے زحافات سے مستخر ج ہیں ۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پھر رباعی کے بنیادی اوزان کتنے ہیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ رباعی کے بنیادی اوزان دو ہیں یا چاراور تخنیق کے عمل سے یہ چوبیس اوزان ہوجاتے ہیں ۔

تخنیق کا عمل اس طر یقے سے ہوتا ہے کہ کبھی کبھی مصر ع کی تقطیع کر نے پر دو ایسے افاعیل ایک جگہ جمع ہوجا تے ہیں کہ ان کے جمع ہوجانے سے تین لگا تا متحر ک حر ف جمع ہوجاتے ہیں ۔ان تین لگا تا ر متحر ک حر ف میں سے بیچ والے حرف کو ساکن کر دینے کو ہی تخنیق کہتے ہیں ۔اگر ایک ہی افاعیل میں تین لگاتار حرف متحر ک جمع ہو جا ئے اور اسمیں حر ف اوسط کو ساکن کر دیا جائے تو اس کو تخنیق نہیں ’’تسکین اوسط‘‘کہا جاتا ہے ، جیسے مُفتَعِلُن میں ت، ع اور ل متحر ک ہیں اور ان تینوں میں حر ف ع اوسط ہے اس کو ساکن کر دیا تو مُفتَعْلُن (مُف، تَع،لُن) ہوگیا ۔ مُفتَعْلُن عروض میں کوئی رکن نہیں ہے اس لیے اس کو مفعولن سے بد لیتے ہیں ۔ مُفتَعْلُن اور مفعولن دنوں وزن میں برا بر ہے ۔اس کو تسکین اوسط کہتے ہیں تخنیق نہیں ۔

تسکین اوسط کی مثال کو سمجھ لینے کے بعد اب تخنیق کی مثا ل سمجھتے ہیں ۔اس کے لیے ’’لا حول و لا قوۃ الا با للہ ‘‘کا جو وزن ’’ مفعولُ ، مفاعیلُ ، مفاعیلن ، فاع ‘‘ کو لیتے ہیں ۔اس میں مفعول کا ’ل‘ متحر ک ہے پھر مفاعیلُ کی ’م ‘  اور ’ف‘  بھی متحر ک ہے ۔ یہ لگاتا ر تین متحر ک حر وف ایک رکن میں نہیں بلکہ دو رکن مفعو لُ اور مفاعیلُ میں ہے ۔ان تینوں حر وف میں بیچ والا حر ف ’م ‘ہے اس کو ساکن کر دیا ۔ اب مفعول ُ کا ’ل‘ اس ’م ‘ میں مل جائیگا اور یہ مفعولم، فاعیلُ پڑھا جائیگا ۔اور یہ امر واضح ہے کہ مفعولم عروض میں کوئی رکن نہیں ہے اس لیے اس کو مفعولن سے بدل لیتے ہیں ۔اب مندر جہ بالا وزن اس طر ح ہوگیا ۔مفعولن ،فاعیل، مفاعیلن ، فاع ۔

مفعولن ،فاعیلُ، مفاعیلن ، فاع ۔اس میں دیکھیے کہ فاعیلُ کا ’ل ‘ متحر ک ہے اور مفاعیل کا ’م ‘ اور ’ف ‘ بھی متحر ک ہے ۔ گو یا یہاں بھی ان دونوں ارکان کے درمیان تین لگاتار حر ف متحر ک ہیں ۔اب اس میں ہم بیچ والے حر ف میم کو ساکن کر دیتے ہیں ۔اب یہ فاعیلم، فاعیلن، فا ع ہوگیا یعنی پورا وزن مفعولن ،  فاعیلم، فاعیلن، فا ع۔ یہاں پر دیکھیے کہ فاعیلم اور فاعیلن عر وض کے ارکان نہیں ہیں اس لیے فاعیلم کو مفعولن سے اور فاعیلن کو مفعولن سے بدل دیتے ہیں ۔ اب وز ن بن جاتا ہے مفعولن ، مفعولن، مفعولن ، فاع ۔یہ وزن اوپر رباعی کے اوزان میں سے بائیسویں نمبر میں موجود ہے ۔اسی طر یقے سے تخنیق کے عمل سے اوزان بن تے رہتے ہیں ۔

جس بات کا ذکر اوپر آیا تھا کہ تخنیق کے عمل سے چار اوزان سے رباعی کے چوبیس اوزان بن جاتے ہیں یا دو اوزان سے۔ آخر وہ اوزان کون سے ہیں جن پر تخنیق کے عمل کر نے سے اوزان کی تعداد ۱۲ ہوجاتی ہے ۔ وہ دو اوزان یہ ہیں ۔

مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل
مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعل

اصولی طور پر ان اوزان میں تخنیق کے عمل کر نے سے ۱۲ اوزان بن جاتے ہیں اور ان کا آخر ی رکن یا تو ’ فع ‘ ہوتا ہے یا ’فعل‘ ۔۱۲ اوزان سے ۲۴ اوزان بنانے کے ایک طر یقہ یہ ہے کہ فع کی جگہ فاع اور فعل کی جگہ فعول رکھ دیتے ہیں تو ان اوزان کے تعداد ۲۴ ہو جائیگی ۔ لیکن یہ اصولی طر یقہ نہیں کہلاتا ہے ۔ اصولی طریقے یہ ہے مندرجہ بالا دو اوزان کے ساتھ مندرجہ ذیل جو اوزان میں بھی تخنیق کا عمل کیا جائے ۔

مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعول
مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعول

ان چاروں اوزان میں تخنیق کے عمل کر نے سے رباعی کے اوزان چوبیس ہوجاتے ہیں ۔

اس بات کا خیال عام ہے کہ جب سے رباعی کا وجو د ہوا ہے تب سے اس کے اوزان ۲۴ ہی رہے ہیں اور ان اوزان کے خالق رودکی سے سر جاتا ہے ۔اگر چہ اس بات کی کوئی ثبوت نہیں ہے مگر پھر بھی ان اوزان کو رودکی کے اوزان کہا جاتا ہے ۔پانچویں صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی ہجر ی تک اس کے اوزان چو بیس ہی رہے ۔لیکن چودہویں صدی ہجر ی میں مجسم عروض جنا ب علّام بھگوان چندر بھٹناگر سحر عشق آبادی نے اس میں ۱۲ اوزا ن کے اور اضافہ کیے اور رباعی کے اوزان کو انہوں نے ۳۶ کر دیا ۔اضافہ شدہ اوزان رباعی کے اوزان کا ایک قاعدہ ’’وتد پئے وتد اور سبب پئے سبب‘‘ کے بنیاد پر ہی مبنی ہے ۔لیکن جہاں تک ان اوزان کے تسلیم کر نے کی بات ہے تو ان اوزان کو پروفیسر عنوان چشتی اور راز علامی کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا ۔یہ بات بھی ہے کہ کسی نے انکار بھی نہیں کیا ۔سحر عشق آبادی نے ۱۲ اوزا ن کا اضافہ کر کے ۳۶ اوزان کیے تھے ان کے بعد انہیں کے شاگر د راز علامی نے ان ۳۶ اوزان پر مزید ۱۸نئے اوزان کا اضافہ کر کے رباعی کے اوزان کی تعداد ۵۴ کردی اور اعلان بھی کر دیا کہ آخر ی حد ہے اس سے زیاد ہ اوزان وضع نہیں کیے جاسکتے ۔راز علامی کے اوزان بھی رباعی کے اوزان کے قاعدے کے مطابق ہیں ۔لیکن ان اوازن کی تائید میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ۔البتہ موجودہ وقت میں کندن لال کندن نے سحر عشق آبادی کے بارہ اوزان کو پیش کیا ہے اور انہوں نے اپنی رباعیات میں ان اوزان پر تجر بہ کیا ہے اور اپنی رباعیوں کوبھی اس وزن میں ڈھالاہے ۔وہ بارہ اوزان یہ ہیں 

ڈاکٹرزار علامی علامہ سحر عشق آبادی کے جانشین ہیں انہوں نے بھی اپنے استاد کے راہ پر چلتے ہوئے رباعی کے مزید اٹھا رہ اوزان تخریج کیے ۔ان اٹھارہ اوزان کی تخریج کے لیے انہوں نے پہلے چار اصل اوزان ایجاد کیے 

رباعی گو شعر ا کے لیے یہ ضروری نہیں کہ رباعی کا پہلا مصرع اگر اس نے ایک وزن میں کہا ہے تو بقیہ مصرع بھی اسی وزن میں ہوں بلکہ ان مختلف اوزان میں سے کسی بھی وزن کا استعمال کر سکتا ہے ۔بعض شاعر وں نے اخر ب اور اخر م کے اوزان کو آپس میں ملانے پر اعتراض کیا ہے ۔ یعنی رباعی کا پہلا مصرع اخر م میں ہو تو بقیہ مصرع اخر م ہی میں ہوں ۔اگر پہلا مصرع اخر ب میں ہو تو بقیہ مصرع اخر ب میں ہی ہو نے چاہیے ۔ لیکن اکثر شاعر وں نے اس قسم 

کی پابندی کو روا نہیں رکھا ہے ۔یعنی ایک ہی رباعی میں مختلف اوزان آسکتے ہیں ۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں ۔

’’دونوں دایروں کے اوزان کا ایک دوسرے سے منسلک کرنا جائز ہے ۔ یہ ضر وری نہیں کہ چاروں مصرعے چو بیس میں سے کسی ایک ہی وزن میں ہو ں ۔ چو بیس اوزان نے باہم اشتراک سے بے شمار شکلیں پیدا ہوں گی ۔ صاحب ’’بحر الفصاحت ‘‘ نے بتا یا کہ کم از کم بیاسی ہزار نو سو چو الیس شکلیں بیدا ہوتی ہیں ۔ جن کے اوزان یا تر تیب مصاریع میں کچھ نہ کچھ نہ فرق ضرور رہے گا ۔ اوزان کی اتنی کثرت و دقت کے سبب کبھی کبھی بڑے بڑے اساتذہ نے رباعی میں دھوکا کھایا ہے ۔‘‘ (اردو شاعر ی کا فنی ارتقاء ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ص ۳۱۱)

رباعی گو شعر اکے لیے بعض عروضیوں نے یہ پابندی بھی لگائی تھی کہ کہ اخر ب اور اخر م کے اوزان کو تو آپس میں ملا سکتے ہیں مگر جب مصرع اول و دوم میں فعول اور فاع آگیا تو تیسرے اور چوتھے مصرع میںبھی فعول اور فاع کا لانا ضروری ہے ۔لیکن عام طور پر رباعی گو شعرا نے صرف اس بات کا خیال رکھا ہے کہ چو بیس اوزان میں سے کوئی بھی ایک وزن رباعی میں نظم کیے جاسکتے ہیں ۔

رباعی اکیسویں صدی میں 

شاعری اقدار کو شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل میں سموتی رہتی ہے اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کیفیت کو قائم رکھتی ہے جو ماضی سے حال کے وابستہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے اور متحر ک زندگی کو انسانی روح کی صداقت کا آئینہ بنا دیتی ہے۔ اس لیے ہر عہد اپنے نمائندے ساتھ ہی لاتا ہے جنہیں اقدار کو اپنی شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل کو حسن کا معیار عطا کر نا پڑتا ہے ۔ ۱۹۰۵ ء ، ۶۰، ۷۰ ، ۸۰ سے اکیسویں صدی کے پہلی دہائی تک شعرا جس طر ح دیکھ ا ور محسوس کر رہے تھے اسی طر ح پیش کرنے کی دیانت دارانہ کو شش ان کا اولین عمل رہا ہے۔ کسی فرضی چہار دیواری کے اندر وہ بندرہنا نہیں چاہتے ہیں اچھے روایات کا انہیں علم ہے ۔ یعنی وہ اکثر روایات کی لکیر پیٹتے رہنے کو ادبی فعل نہیں سمجھتے ، محض نعر ہ بازی یا اصلاح کے خوش کن اور دلفریب مفروضات سے گھرے رہنا وہ پسند نہیں کرتے بلکہ ننگی حقیقتوں کو اپنانا بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات کے تعلق سے بھی اتنے ہی کھردرے اور بر ہنہ رہتے ہیں ۔ لیکن تمام جدید ذہن والے شاعرو ں پر یہ باتیں صادق نہیں آتی ہیں ۔ بیشتر ذہن حد سے زیادہ کھر درا اور برہنہ ہوگیا ہے جس کے نیتجہ میں ان کی آواز صدا بصحرا ثا بت ہوئی ہے ۔ 

اسی اور نوے کی دہائی میں شعرا کا ایک نیا قافلہ نظر آیا جنہوں نے مابعد جدیدکے عہد میں سانس لیا اور اپنے منفر د لہجے سے اردو شاعر ی کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا او ر اسے اظہار کے نئے امکانات کی نوید دی ۔اس عہد کی شاعری میں ہر لفظ میں کئی الفاظ کی گونج سنائی دیتی ہے ، ہر تصور میں کئی تشبیہیں جلوہ نما اور ہر آواز میں بے شمار لہجے نظر آتے ہیں ۔ ایک بے انت ہنگام اور انتشار کی سی صورت ہے ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جس کا کوئی سرا نہیں نظر آتا ہے ، ایک گورکھ دھندا ہے ، مایا جال ہے ، ایک حلقہ دام خیال ہے ، ہر طر ف فریب دھوکہ اور سراب کی سی کیفیت ہے ایک بے معنی کھیل اور تماشہ ہر سوں جاری ہے ، سر دست ایک شور بر پا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔   ’’ کوئی امید بر نہیں آتی : کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘ ‘ 

یہ صورتیں اردو رباعی میں مکمل طور پر نظر نہیں آتی ہیں البتہ اس سے مفر بھی نہیں ہیں ۔ یہاں تک امام ِ جدیدیت کے یہاں بھی کلاسیکیت نظر آتی ہے۔ 

لفظیات و شعر یات کے اعتبارسے روایتی رباعی اور جدید رباعی میں بہت ہی واضح فر ق نظر آتا ہے ، جدید رباعی گومیں سے کچھ کے یہاں روایت سے بغاوت نظر آتاہے مطلقاروایتی شاعری کے لفظیات جیسے ، عشق ، محبت، دیدار ، آنسو، وفا ، محبوب ، زلف ،انگڑائی، نزاکت ، حسن، گل و بلبل، جنوں ،قفس ، برق و آشیاں ،حسر ت، شراب ، جام ، میخانہ اور ساقی وغیر ہ کے مقابلے ، صنعت ، مزدو ر قید ،پھانسی ، بغاوت ، خوں ، قتل ، جنگ ،سمندر ، آگ ، سایہ ، عمارت ،شجر ،اور چیخ وغیر ہ جیسے لفظیات ہیں ۔انہیں بدلتے ہوئے لفظیا ت وموضوعات کے تحت صر ف تین رباعی گو شعرا کی رباعیوں کا مختصراً جائزہ پیش ہے ۔

فرید پربتی 

فرید پر بتی اردو رباعی کا ایک مخصوص نام ہے جنہوں نے اردو رباعی کو بہت سارے تجر بات سے نوازا ۔فرید پربتی نے اپنی رباعیوں میں جس سادگی و پر کاری کے ساتھ اپنے خیالات و احساسات کورباعی کے پیکر میں ڈھالا ہے وہ جدید رباعی گو میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔ان کے دو خالص رباعیوں کے مجموعے ’فرید نامہ‘ اور’ خبر تحیر ‘ہیں اور دو شاعر ی کے مجموعے ’اثبات‘ اور ’ہجوم آئنہ‘ ہیں ان میں غزلوں کے ساتھ رباعیوںکی کثیر تعدادبھی ہے ۔
جب ہم ان کی رباعیوں کا گہر ا مطالعہ کر تے ہیںاور جو پہلا تأثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعر ی کی عمارت ذاتی تخلیقی توانائی ، اور اظہار کا جذبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔ان کی رباعیوں میں ایک توانا نظام فکر پایاجاتا ہے اور اپنی رباعیوں میں ایک منفر د لب و لہجہ اور شیر ینی و نغمگی کو پیش کر تے  ہیں جس کی وجہ سے ان رباعیاں قاری کے اثر میں اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہیں ۔

فرید پربتی کے یہاں روایتی شاعر ی کی پاسداری او جدید شاعر ی کا امتزاج بخوبی نظر آتاہے اور شعر ی روایات کے شعور نے ان کے شعر ی ادراکات کو نکھارنے اور سنوارنے میں زیادہ اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔جمالیا تی شعر کے اظہار میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ملک کی عام تہذیبی ، روحانی اور انسانی روایات واقدار کا بھی گہرا اثر نظر آتا ہے ۔

فرید پر بتی کی رباعیوں میں عاشقانہ کیف و سر ور بھی ہے اور رندانہ مستی بھی ۔ان کی رباعیوں میں واعظ کے پندو نصائح بھی ہیں، در س اخلاق و اصلاح کا میلان بھی ، فلسفیانہ اور حکیمانہ رنگ و آہنگ بھی کئی جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان تمام میں ایک چیز جو غالب نظر آتی ہے وہ ہے حزن ملال کا عنصر ۔یہ رنگ و آہنگ ان کی غزلوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کااثر ان کی رباعیوں میں بھی نظرآتا ہے ۔

خوابوں کی رقابت ہے کہاں تک جاؤں 
اب کیسے بھلا اپنے مکاں تک جاؤں 
اپنے ہی تعاقب میں ہوں سرگرداں 
اس گنبد بے در میں کہاں تک جاؤں 

مندرجہ بالا رباعی میں رقابت ، تعاقب اور گنبد بے در جیسے لفظیات کے ساتھ جس مضمون کو پیش کیا گیا ہے وہ اس دور کے شعری ذوق اور نزاکت کو بخوبی پیش کر رہی ہے ۔رباعی کے لفظیات اور مضامین کبھی بھی ایسے نہیں رہے ہیں ۔ رباعی جس سادگی کا مظاہر ہ کر تی تھی اور جس صاف تر سیل کا قائل تھی وہ اس میں آپ محسوس نہیں کر رہے ہوں گے یہی وجہ کہ جدیدیت دور غزل کے اثرات رباعیوں میں بھی نظر آیا ہے۔

فرید پر بتی اپنی رباعیوں میں عصر حاضر کے تہذیبی انتشار اور معاشر تی نظام میں پھیلی بے راہ روی اورانسانی اقدار کی شکست و ریخت جیسے مسائل ۔ سماج و معاشر ہ میں پسرا ہواروز مر ہ کے حالات اور کشمیر جیسے صوبے میں استعماری طاقتوں کے خلاف احتجاجی آہنگ بہت ہی صداقت کے ساتھ نہایت فکر انگیز انداز میں پیش کر تے ہیں ۔ان تما م مسائل کے اظہار میں کہیں سادہ سی زبان اور کہیں اشاراتی و علامتی زبان بھی استعمال کر تے ہیں جو جدیدیت کا خاصہ رہی ہے۔

طوفان حوادث میں بکھرتا ہے وجود
اک آگ کے دریا سے گزرتا ہے وجود
ہے غول بیاباں کا تعاقب شب و روز
اس تیرہ خاک داں میں ڈرتا ہے وجود

فرید پر بتی اپنی رباعیو ں میں ایسے آفاقی مسائل کو اٹھاتے ہیں جس سے آج کا انسان دو چار ہے ۔انسان ہی نہیں بلکہ پورا عہد ہی اس سے متاثر نظر آتا ہے ۔تیزی کے ساتھ حالات بد ل رہے ہیں اقدا رو روایات کو ایک ناپاک دفتر قرار دے کر خود کو ان تمام پاندیوں سے بر ی کر کے صارفیت کے پابند ہوتے جارہے ہیں ۔انسانی معاشر ہ کا اس سائنسی معاشرہ میں کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا ۔ ہماری تہذیبیںاب اذکار رفتہ ہوگئیں اور ساتھ میںہم اپنی تہذیبوں کی پامالی کا کوئی گو شہ فراموش نہیں کر رہے ہیں ۔یہ وہ تمام چیزیں جس سے آج تمام انسانی معاشرہ دو چارہ ہے۔ فر ید پر بتی ان احساسات کو اپنی رباعیوں میں پیش کر نے کی جگہ جگہ کوشش کی ہے ۔

بڑ ھتا ہے اب احساس زیاں روز بروز
جلتا ہے آسودہ مکاں روز بروز
بدلا ہے چمن بدلا ہے گلچین کا مزاج
خوابوں کا یہاں اڑتا ہے دھواں روز بروز

بہر حال فر ید پربتی کی رباعیاں ان کی جولانی فکر اور ذہنی جد ت و اختراع کا نتیجہ ہیں ۔ اس میں گیر ائی او ر گہرائی بھی جگہ جگہ پر پائی جاتی ہے۔ رباعی کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہوں نے رباعی کے مزاج کو حتی الامکان برقرار کھنے کی کوشش کی ہے بلکہ قدیم علامتوں اور تر کیبوں سے نئے معانی پیش کیے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی رباعیاںو قت کے مزاج سے بھی میل کھاتی رہی ہیں ۔انہوں نے اپنی رباعیوں کے زبان میں تھوڑا سا عام رباعی گوسے جو ابھی رباعی کہہ رہے ہیںالگ لہجہ انتخاب کیا۔ ا س وجہ سے ان کی رباعیا ں طر ز فکر او راظہار بیان دونوں اعتبار سے اپنا ایک منفر د مقام رکھتی ہیں جسمیں ذات ، حیات ، کائنات، فر د کا داخلی احساس اس کی محر ومیاں او ر ناکامیاں ساتھ میں موجودہ دور کا دردو کر ب جیسے موضو عات پائی جاتی ہیں ۔

اکرم نقاش 

اکر م نقاش ایک منفر د لب و لہجہ کے ساتھ اردو رباعی میں ابھر ے ۔انہوں نے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل سے کیا پھر دوسرے ہی منزل میں رباعی پر قدم رنجہ فرما گئے اور ’’حشر سی یہ برسات‘‘ رباعی کا اپنا پہلا مجموعہ جدید رباعی کی دنیا میں پیش کیے ۔اس مجموعہ میں ان کی سو (۱۰۰) رباعیاں شامل ہیں ۔ان رباعیوں میں انہوںنے با لکل نئے اسلوب او انداز کے ساتھ رباعیوں کو پیش کیا ہے ۔الفا ظ کے انتخاب اور حسن انتخاب میں بھی یہ رباعیاں اپنا الگ اثر رکھتی ہیں ۔ اکر م نقاش غزل کے میدان سے رباعی کے میدان میں بہت ہی کم عر صہ میں قدم رکھے اس لیے بہت ساری ایسی چیزیں جو ان کی غزلوں میں نظرآتی ہیں وہی ان کی رباعیوں میں بھی در آئی ہیں ۔

اکر م نقاش کی رباعیوں کو کامیاب رباعیوں میں شمار کیا گیا ہے ان کے یہاں جدت کے ساتھ ساتھ قدیم رنگ ڈھنگ کا عکس بھی نظر آتا ہے انہوں نے کائنا ت اور ہستی کے مو ضو عات میں غور کیا ہے جو رباعی کا ایک موضو ع ر ہا ہے لیکن اس میں تازگی نظر آتی ہے ۔وجو د کے ہونے اور نہ ہونے کے طرح طر ح دلائل لائے گئے ہیں ۔ اس متعلق اکر م نقاش کی رباعیاں خوب ہیں ۔

دیکھا طرف اطراف کہیں کوئی نہیں 
جز رنگ خلا اور کہیں کچھ بھی نہیں 
لا چھوڑا کہاں شہر طلب نے دل کو 
اک ایسا مکاں جس میں کوئی در ہی نہیں 

ہو نے کا میرے یہ کون انکار کر ے 
اک بار نہیں وار یہ ہر بار کرے 
خاموش تماشائی تھا کب میرا وجود 
حیرا ں ہو ں کہ چپ چاپ یہ اقرار کرے 

اس قسم کی اور رباعیاں ہیں جو وجود اور عدم وجود پر بحث کر تی ہیں ۔

 اکر م نقاش کی رباعیوں کے ضمن میں نظر یہ وجود کے متعلق شمس الرحمن فاقی لکھتے ہیں :

’’دیکارت (Descartes) نے اپنے ہونے کی دلیل یہ دی تھی کہ میں سوچتا ہوں ، اس لیے میں ہوں ۔ اس کو ایک زمانے میں جدید فکر کا سنگ بنیاد قرار دیا جاتا تھا ۔ لیکن بسویں صدی کے اوائل میں اس کلیے سے انکار بھی کیا گیا ۔ بر ٹرنڈ رسل (Bartrand Russell)نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں سوچتا ہوں ۔ اس کی جگہ کوئی بھی اور فاعل رکھ دیجیے ،مثلا پتھر ، کتا وغیر ہ ، تب بھی جملہ نحوی اعتبار سے مکمل لیکن بے سود رہے گا ۔ اکر نقاش نے کشمکش وہم و یقن کو وجود کا ثبوت قرار دیا ہے اور حق یہ ہے کہ خوب قرار دیا ہے ۔‘‘(حشر سی یہ بر سات ، ص ۱۵)

اسی کشمکش و وہم و یقین کے اظہار میں اکر م نقاش یہ رباعی لکھتے ہیں ۔

یہ چاند ستارے یہ زمین کچھ بھی نہیں 
ہے دھند فقط اورکہیں کچھ بھی نہیں 
سمجھا ئے اسے کون کہ دیوانہ ہے 
کیا کشمکش وہم و یقین کچھ بھی نہیں 

اکر م نقاش کی رباعیاں انسا نی زندگی کے ارد گر دگھومتی ہے۔ ان کی رباعیوں میں ایک سادہ سی زند گی نظر نہیں آتی ہے بلکہ ان کے یہاں انسانی وجود کی بے چارگی اور رائگانی نظر آتی ہے ۔ان کی رباعیوں میں امکان ہے اور جہد بھی ۔یا س ہے اور یقین بھی ۔الفاظ کوبہت ہی قوت سے پیش کر کے مفہوم کی ادائیگی میں شد ت بھی پیدا کر تے ہیں اور احسا س ناکامی کا اظہار بھی نظر آتا ہے ۔

بکھراؤں تو کیا اور بکھر جاؤں تو کیا 
وحشت کی ہر اک راہ گذر جاؤں تو کیا 
اک گہری خموشی مرے اندر ہے بسی 
چیخوں سے تیرے دشت کو بھر جاؤں تو کیا 

عادل حیات 

 زندگی میں مشاہدا ت سے سابقہ پڑنا اور ان مشاہدات سے ایک عام انسا نی زندگی میں پڑنے والے اثرات کو اپنی شاعر ی میں پیش کر نا عاد ل حیات کی شاعر ی میں ہمیں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ان ہی مشاہدات سے تخلیقی ذہن کی سحر انگیزی حاصل ہوتی ہے او ر جو تجر بے و مناظر حاصل ہوتے ہیں اسی کو اپنی رباعیوں میں پیش کر دیتے ہیں۔

ہے زیست کا امکان؟ نہیں ،کوئی نہیں 
ہر معرکہ آسان ؟ نہیں کوئی نہیں 
سائے تو نظر آتے ہیں چلتے پھر تے 
اس شہر میں انسان ؟ نہیں ، کوئی نہیں 

عادل حیات کی رباعیوں میں جو عنصر غالب نظرآتا ہے وہ ہے حزن و ملال کا عنصر ۔ ان کی زندگی میں آخر کو ن سے ایسے مراحل آئے تھے کہ جس کا اثر ان کی ذات پر گہرا پڑا اس سے تو ہم واقف نہیں ہیں لیکن ان کی شاعر ی سے یہ چیز نظر آتی ہے جو انہیں ہر پل سوچ میں گم مضطر ب اور بے چین رکھتا ہے۔ ہمیشہ وہ ان رشتوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو بھیڑ میں کہیں گم سے ہوگئے ہیں ۔اس کی وجہ سے شاید غمگین رہتے ہوں پھر اس غمگینی کی وجہ خدا پر چھوڑدیتے ہیں ۔کہیں ظلمت انہیں بے سمتی کا احساس دلاتی ہے اور کبھی رات بھیگتی ہے تو آنکھوں میں جا گا ہوا بے لباسی کا منظر بھی اچھا لگتا ہے ۔ہر روز کے سرخ سویرے پہ خو د سے سوال کرتے ہیں اور دل کی تسلی کے لیے ایک اور سو ال یہ کر تے ہیں کہ ان پر خوف نظاروں میں بسیرا کیوں ہے ۔مایوسی کہیں کہیں ان کے یہاں اس قدر نظر آتی ہے کہ آنکھوں کے لیے نو ر کو تر س جاتے ہیں اور صبر اس اندازمین کر تے ہیں کہ مجھے کسی نالہ سے بھی شکوہ نہیں ہے بلکہ جسم اور اس کے ساتھ سانسوں کی آمدو رفت کافی ہے ۔اس قسم کی باتیں اور موضوعات ان کی رباعیوں میں جا بجا ملتے ہیں ۔

مجھ میں ہی مرا سایا سمٹ جائے گا
قد اور مرا پہلے سے گھٹ جا ئے گا 
تکمیل کی سر حد سے گزر کر عادل 
مر کز کی طر ف جسم پلٹ جائے گا 

عاد ل حیات کی رباعیوں میں آنکھ ایک مکمل استعارہ بن کر ابھر تا ہے ۔آنکھ کا استعمال انہوں نے اپنی رباعیوں میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ تقریبا ًساٹھ مقامات پر کیا ہے ۔ ہر ایک ہر ایک شاعر کے یہاں کوئی نہ کوئی شئے ایک مکمل علامت بن کر سامنے آتا ہے ، لیکن آنکھ کی علامت جس خوبصورتی کے ساتھ عادل حیات کے یہاں نظر آتا ہے وہ کسی اور کے یہاں نظر نہیںآتا ہے ۔ ایک اور خوبی ان کے یہاں یہ نظر آتی ہے کہ رباعی میں کسی کے یہا ں بھی علامت کا ایسا استعمال نہیں ہے جیسا کہ عادل حیات کے ملتا ہے ۔۔ اس علامت کے استعمال میں سب اہم بات جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کے استعمال میں یک رخی نہیں اپنا یا ہے بلکہ متنوع طریقے سے اسکو اپنا یا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک رباعی میں الگ الگ معانی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس تعلق سے کچھ رباعیاں ملاحظہ ہوں ۔

لوٹا دے مری سانس کے میں زندہ ہوں 
دنیا کے لیے آج بھی تابندہ ہوں 
ہر آنکھ کا منظر ہوں، دلوں کی دھڑکن 
میں خواب نہیں ماضی کا ، آئندہ ہوں 

غیر مسلم رباعی گو شعرا


                وہ زبان جس کے  نتیجے  میں  گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھی،وہ اردو تھی اور جو تہذیب اردو زبان کے  سائے  میں  پر وان چڑھی وہ گنگا جمنی تہذیب تھی ۔ دونوں  ایک دوسرے  کے  لیے  لازم ملزوم ٹھہریں ۔ اردو شاعری جب اپنے  تشکیلی دور کو مکمل کر لیتی ہے  تو کئی ایسے  غیر مسلم نام سامنے  آتے  ہیں  جنہوں  نے  مستند اساتذہ سے  مشق سخن جاری رکھتے  ہوئے  اردو شاعری میں  اپنا نام روشن کیا ۔ ار دو جس کا خمیرمسجد کے  صحن، خانقاہوں  کے  حجرے  اور مندروں  کی سیڑھیوں  سے  تیار ہوا اور سماعت کی شیرینی،اذان کی لے  اور مندر کی گھنٹیوں  کی آواز سے  تیار ہوئی اس زبان نے  کبھی بھی اس چیز کا فاصلہ نہیں  رکھا کہ وہ اپنے  دامن کو کس کے  لیے  وسیع کرے  اور کس کے  لیے  سمیٹ لے  بلکہ حوادث اور حالات نے  خود اردو زبان کے  ساتھ وہ ستم کیے  کہ کئی علاقوں  میں  اردو یتیم ہوکر مدفون ہوگئی اور کہیں  اپنی آخری سانسیں  گن رہی ہے  ۔ دہلی ، لکھنؤ ، عظیم آباد، کلکتہ ، مر شدآباد اور دکن میں  ار دو شہر یوں کی زبان تھی جسے  اب مذہب کی زبان بنا کر چھوڑ دیا گیا ۔ ہم خواہ کتنا ہی یہ نعرہ بلند کرلیں  کہ اردو تہذیب و ثقافت اور شریفوں  کی زبان ہے  لیکن عملی طور پر اردو والوں  نے  ہی اس کو مذہب کی زبان کے  طور پر متعارف کر انے  میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی ہے  ۔ وجہ صرف استعمال کی ہے  کہ اردو کو استعمال میں  کتنا لایا جاتا ہے  ،ساتھ ہی اردو زبان کی شیرینی ایسی رہی کہ اس نے  تمام مذاہب و مسالک کو اپنا گرویدہ بنایا ۔اردو میں  غیر مسلم شعراء نے  اس زبان کو اپنے  اظہار کا وسیلہ بنایا جس میں  انہوں  نے  کثیر مقدار میں  ادب بھی تخلیق کیا نیز اردو میں  نثر و نظم کا عمدہ ذخیرہ غیر مسلم شاعروں  و ادیبوں  کی بیش بہا دین ہے  ۔مثنوی ہو یا مرثیہ ، قصیدہ ہو یا رباعی ، غزل ہو یا نظم ، داستان ہو یا نا ول ، افسانہ ہو یا خاکہ و انشائیہ وغیرہ غرض کہ ہر صنف سخن میں  بھر پور نمائندگی ملتی ہے  ۔ ہم گفتگو کر تے  ہیں  شاعری کی ایک اہم صنف رباعی کے  متعلق کہ اس میں  ان غیر مسلم شعراء کی نمایاں  خدمات کیا رہی ہیں  اور شروع سے  اب تک اس صنف میں  ان کی خدمات کی تاریخ کیا رہی ہے  ۔

اردو میں  شعری روایت اگر چہ امیر خسرو سے  شروع ہوتی ہے  لیکن باضابطہ تمام شعری اصناف سخن کی پرو رش و پر داخت دکن سے  ہوتی ہے  ۔ رباعی جیسی صنف کی شروعات بھی وہیں  سے  ہوئی ۔ قطب شاہی ، عادل شاہی ، نظام شاہی اور برید شاہی دور حکومت میں  کئی شعرا ایسے  نظر آتے  ہیں  جن کے  دواوین میں  رباعیاں  مل جاتی ہیں  ۔ دکن کے  بعد سترہویں  و اٹھارہویں  صدی میں  رباعی کو کم و بیش تمام شعرا ء نے  اپنے  دیوان میں  چھوڑا ہے ۔

 شمالی ہند میں  اردو کے  ابتدائی عہد میں  غیر مسلم رباعی گو شعرا میں  سب سے  پہلا نام جودت ؔ کا سامنے  آتا ہے  ۔ان کا اصل نام ہردے  رام اور تخلص جودت تھا ، وطن مرشدآبادتھا ۔ ان کا شمار مرزا علی لطف مؤلف ’’ تذکرہ گلشن ہند ‘‘کے  دوستوں  میں  ہوتا ہے  ۔ان کی ایک رباعی کا ذکر سلام سندیلوی نے  کیا ہے  ۔ان کے  بعد رائے  سر ب سکھ دیوانہؔ کانام سامنے  آتا ہے  ۔ یہ راجہ مہابیر دکن کے  رشتہ داروں  میں  سے  تھے  ۔مرزا جعفر علی حسرت ؔاور میر حید ر علی حیرانؔ ان کے  شاگر دوں  میں  سے  تھے  ۔انہوں نے  فارسی میں  دو دیوان یادگار چھوڑے  ہیں  لیکن اردو میں  ان کی شاعری بہت ہی کم ملتی ہے  البتہ اردورباعی کی ابتدائی تاریخ میں  ان کا ذکر آتا ہے  لیکن اس عہد میں  اس صنف سخن میں  کسی قابل ذکر غیر مسلم رباعی گو شاعر کا نام نظر نہیں  آتا ۔
   
عہد غالب و مومن میں  دلی ، لکھنؤ و عظیم آباد سے  دور شہر کلکتہ میں  بہادر دیپ کنورؔ کا نام سب سے  پہلے  آتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۸۱۵ء ؁ میں  شہر کلکتہ کے  ایک علمی و ادبی گھرانے  میں  ہوئی ۔ والدمہاراجہ راج کشن دیب بہادر زبان و ادب سے  گہرا شغف رکھتے  تھے  ۔بہادر دیپ کنور نے  ۵۲ سال کی عمر پائی ۔ انہوں  نے  اس قلیل عرصے  میں  دو اردو کے  دیوان ، دو مثنویاں  اور چار جلدوں  میں  شاہنامہ ہند بزبان فارسی انگر یزی تر جمہ کے  ساتھ یاد گار چھوڑی ہیں  ۔ان کے  دونوں  دیوان میں  روایت کی مناسبت سے  اس زمانہ میں  رائج تمام اصناف سخن یعنی غزل کے  ساتھ قصیدہ ، مستزاد ، واسوخت ، تر جیع بند، مخمس ، مسدس اور رباعی شامل ہیں  ۔ڈاکٹر سلمہ کبر یٰ نے  تحقیق کر کے  ان کی رباعیوں  کی تعدادر ۵۵ بتائی ہے  جن کے  موضوعات نشاطیہ اور طر بیہ ہیں  ۔وہ ایک رئیس زادے  تھے  اس لیے  ان کی زیادہ تر رباعیوں  میں  رئیسانہ شا ن و شوکت نظر آتی ہے  ۔

دل کو ہے  دور ی میں  اس کی اضطراب
ہو گیا سو زدروں  سے  جی کباب
مانگتا ہوں  میں  خدا سے  روزو شب
کاش کہ دلدار مل جاوے  شتاب

 ان کے  بعد غیر مسلموں  میں  ایک مشہور شاعر رام سہائے  تمناؔ(۱۸۵۴ء ۱۹۳۴ء) کا نام سامنے  آتا ہے  جن کی پیدا ئش لکھنٔومیں  ایک کائستھ برادری میں  ہوئی ۔ان کے  والد منشی پورن چند ذرہ فارسی زبان میں  ایک مستند عالم تھے  اور ان کا ذریعۂ معاش بھی اردو کی تر ویج و اشاعت تھی وہ اس معنی  میں کہ انہوں  نے  ۱۸۷۵ ء میں  ایک مطبع تمنائی کے  نام سے  شروع کیا جہاں  سے  سیکڑوں  کی تعداد میں  اردو کتابیں  شائع ہوئیں  اور جب اس مطبع سے  ہفتہ وار ’’ تمنائی ‘‘ شائع ہوا تو اس کی ادارت کی ذمہ داری منشی رام سہائے  تمنا کو ملی جس کو وہ ستائیس برس تک بخوبی نبھاتے  رہے  ، وظیفہ یاب ہونے  کے  بعد انہوں  نے  ایک اور رسالہ ’’ دربار‘‘ بھی جاری کیا ۔آپ کا خاندان دہلی کا تھا جو نادر شاہی حملہ کے  بعد لکھنؤ آبا د ہوگیا ۔ان کے  اندرذہانت و فطانت تو تھی ہی ساتھ ہی لکھنٔو کے  ادبی و شعری ماحول نے  خوب مینا کاری کی اور وہ لکھنؤ اسکو ل کے  ایک ایسے  شاعر ہوئے  جن کی شاعری میں  لکھنوی ابتذال کا شائبہ تک نہیں  آیا بلکہ ان کے  یہاں  داخلیت کے  ساتھ شرافت و پاکبازی کے  وہ عناصرملتے  ہیں  جس کی وجہ سے  وہ لکھنوی شعراء کی بھیڑ میں  منفرد نظر آتے  ہیں  ۔ان کا زیادہ تر کلام ایسا ہے  جو تاریخی واقعات مثنوی ، مسدس، مخمس ، رباعیات اور دیگر مضامین مذہبی سے  تعلق رکھتا ہے  کیو نکہ اردو زبان میں  ہندو مذہبی کتابوں  کی بہت ضرورت تھی اس لیے  حضرت تمنا نے  قریب دو سو کتابیں  تصنیف کیں  جن میں  کئی قسم کی کتابیں ، رامائنیں  اور بھجن وغیرہ شامل ہیں ۔اس زمانہ میں  انہوں  نے  خوب لکھا بلکہ یوں  سمجھ لیں  کہ آج کے  لکھاریوں  سے  بھی زیادہ لکھا اورمروجہ فن و موضوع کو ہاتھ سے  جانے  نہیں  دیا ۔ان تمام میں  رباعیاں  بھی شامل تھیں  جن کا باضابطہ کوئی الگ سے  مجموعہ مر تب نہیں  کیا گیا بلکہ ذخیرہ شاعری میں  وہ رباعیاں  اب بھی بکھری پڑی ہیں  لیکن ان کے  چھوٹے  لڑکے  ڈاکٹر گوری سہائے  نے  ’’ انتخاب کلام تمنا مع مختصر تذکرہ ‘‘ شائع کیا جس میں  دیگر اصناف کے  ساتھ پندرہ چیدہ رباعیوں  کو بھی شامل کیا ہے  ۔اسی سے  ایک رباعی بطور مثال ملاحظہ ہو :
زبان نرم سے  بیہودہ گفتگو کیسی
یہ خود کڑی نہیں  سختی کی اس میں  خو کیسی
زبان میں  نام کو بھی استخواں  کا نام نہیں
پھر ایسے  گل کو ہی کانٹوں  کی جستجو کیسی

 سر کشن پرشاد شادؔ کی پیدائش ایک جنوری ۱۸۶۴ء کو ریاست حیدر آباد میں  ہوئی۔ وہ دو دو مرتبہ صدر المہام (وزیر اعظم مقرر ہوئے ) ۔راجہ بہاد ر، راجہ راجایاں ، یمین السلطنت، سی آئی سی، جی سی آئی سی آئی ای، بھارت بھوشن، ایل ایل ڈی جیسے  خطابات سے  سرفراز ہوئے  اور صدر المہام فوج، وزیر افواج، یمین السلطنت جیسے  اعلیٰ عہدوں  پر بھی فائز رہے  ۔شاد ایک عمدہ منتظم سلطنت کے  ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے ۔ان کی شاعری کا اندازہ اس مشہور شعر سے  لگا جا سکتا ہے :
اس نے  کہا کعبہ ترا، میں  نے  کہا چہرہ ترا
اس نے  کہا چہرہ ترا، میں  نے  کہا جلوہ ترا

وہ اردو اور فارسی میں  شاعری کیا کرتے  تھے  ۔شاعر کے  علاوہ وہ عمدہ نثر نگار بھی تھے  ۔تقریباً ستر کتابیں  انہوں  نے  نثر میں  تحریر کیں  اور شاعری میں  صبح امید، شگوفہ بہار، آئینہ عقیدت، رباعیات شاد، ارمغان زیبا، گلبن تاریخ، نذر شاد اور نذر سلطان ہیں ۔ رباعیات شاد ہی کے  نام سے  تین مجموعے  ہیں ۔اس کے  علاوہ بھی تقریباً ان کے  تمام شعری مجموعوں  میں  رباعیاں  ملتی ہیں ۔ان کی رباعیوں  کے  موضوعات اس وقت کے  چلن کے  حساب سے  توحید، تصوف، نعت و منقبت، مدح، عشق، ہجر، انجام زندگی اور حالات زندگی کے  ساتھ اپنے  منصب کی مناسبت سے  بادشاہ کی رضامندی بھی تھے ۔ان کی  رباعیوں  میں  اگرچہ گیرائی اور گہرائی کم پائی جاتی ہے  لیکن زبان صاف اور سلیس ہے  ۔وہ اپنے  عہد کے  رباعی گو شعرا میں  موضوعات کے  تنوع کے  اعتبار سے  نمایاں  نظر آتے  ہیں ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو۔

خنداں  نہ کوئی عدم سے  آتے  دیکھا
لیکن گریاں  یہاں  جاتے  دیکھا
اے  شاد جہان بے  بقا میں  ہم نے
ہر فرد بشر کو خاک اڑاتے  دیکھا

 اردو شاعری میں  جوش ملسیانی سے  کون واقف نہیں  ہوگا۔ان کا نام پنڈت لبھو رام اور جوش تخلص تھا۔ ان کی پیدائش ۱۸۸۴ء میں  پنجاب کے  گاؤں  ملسیان میں  ہوئی۔ ماقبل شعرا کی طرح ان کی پرورش و پرداخت نہ رئیسانہ ماحول میں  ہوئی اور نہ ہی ادبی ماحول میں ۔ مصائب بھری زندگی گزارنے  کے  بعد جالندھر چھاؤنی کے  ایک اسکول میں  مدرس کے  عہدے  پر فائز ہوئے ۔جوش ملسیانی ابتداء سے  ہی غیر معمولی صفات و خصوصیات کے  حامل ہونے  کی وجہ سے  پر زور آواز، رواں  و سلیس زبان و اسلوب کے  ساتھ اُبھرے ۔ داغ دہلوی کے  حلقہ تلمذ میں  شامل ہوئے  لیکن یہ تعلق زیادہ دنوں  تک قائم نہیں  رہ سکا کیونکہ داغ اس دار فانی سے  کوچ کر گئے ۔ اس کے  بعد انہوں  نے  کسی سے  اصلاح نہیں  لی ۔تا ہم وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں  کو بروئے  کار لاتے  ہوئے  اپنی شاعری کو سنوارتے  رہے ۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں  کا ا عتراف نہ صرف اس وقت کے  شاعروں  نے  کیا بلکہ نقادوں  نے  بھی اپنے  عمدہ خیالات کا اظہار کیاجن میں  جگر مراد آبادی، بیخود دہلوی، ریاض خیرآبادی، یگانہ چنگیزی، رشید احمد صدیقی اور نیاز فتح پوری وغیرہ شامل ہیں ۔ان کے  مجموعہ ہائے  کلام بادہ سر جوش، جنون و ہوش اور فردوس گوش کے  نام سے  شائع ہوچکے  ہیں ۔ان کی شاعری میں  قادرالکلامی، زبان دانی اور فن پر گرفت نظر آتی ہے  جن میں  تخیل ، نئے  مضامین کا اختراع ، شدت احساس اور مشاہدہ کی وسعت پائی جاتی ہے  ۔انہوں  نے  جو رباعیاں  کہی ہیں  ان میں  بھی زبان کی صفائی ،روز مرہ کا استعمال اور محاورات نظر آتے  ہیں ۔ان کی رباعیاں  ان کے  مجموعہ ہائے  کلام میں  موجود ہیں ۔بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو.
قبضے  میں  کلید گنج قاروں  نہ سہی
تاج سر کاؤس و فریدوں  نہ سہی
اے  بحر کرم کچھ تو عطا کر مجھکو
قطرہ ہی سہی فرات و جیحوں  نہ سہی

تلوک چند محرومؔ (۱۸۸۷ تا ۱۹۶۶ء) کی پیدائش دریائے  سند ھ کے  ایک گاؤں  عیسیٰ خیل میں  ہوئی ۔انہوں  نے  اپنی پوری تعلیم میانوالی سے   حاصل کی اور پھر ڈیرہ اسماعیل خاں  میں  معلمی کے  پیشہ سے  منسلک ہوگئے  ۔شاعری کا ذوق بچپن ہی سے  تھا اورگاؤں  کے  شعری ماحول نے  ان کے  ذوق کو مزید پروا ن چڑھایا ۔اس زمانہ میں  ضلعی مکتبہ شعرو ادب میں  میانوالی کا بہت ہی نام تھا۔ اب بھی پاکستا ن کے  کئی اچھے  شعرا اسی ضلع سے  تعلق رکھتے  ہیں  ۔ انہوں  نے  اپنے  شعری سرمایے  کے  طور پر غزل ، نظم ، رباعی ،قطعہ ،مرثیہ اور نوحے  وغیرہ یاد گار چھوڑے  ہیں  جو تمام کے  تمام ’’ کلام محروم حصہ اول ،دو م و سوم‘‘ میں  موجود ہیں  ۔اس کے  علاوہ انہوں  نے  رباعیات کی جانب خصوصی تو جہ دی جس کا مجموعہ انہوں  نے  ’’ رباعیات محروم ‘‘ کے  نام سے  ۱۹۴۶ ء میں  شائع کیا ۔بحیثیت رباعی گو وہ دنیائے  ادب میں  ایک خاص مقام رکھتے  ہیں  ۔سادگی اور صداقت کے  پیرہن میں  ملبوس ان کی رباعیاں  تاثیر کی کیفیت سے  بھر پورہوتی ہیں  جن میں  فنی پختگی عر وج پر نظر آتی ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  جہاں  وقت کا عکس نظر آتا ہے  ، وہیں  خیام و سرمد کا خمیر بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ’’ تصوف برائے  شعر گفتن خوب است ‘‘ اپنی جگہ پر درست ہے  لیکن انہوں نے  رباعیات کی تخلیق میں  کبھی بھی تصوف کا ڈھونگ نہیں رچا اور نہ ہی ابو الخیر بننے  کی خواہش رکھی البتہ ا ن کے  دل میں  جوکچھ تھا اور شاعری کے  موضوعات جو چلے  آرہے  تھے  اس کو سادگی کے  ساتھ اپنی رباعیوں  میں  پیش کر دیا ۔ ایک رباعی بطو رمثال ملاحظہ ہو :
دنیا نے  عجب رنگ جما رکھا ہے
ہر ایک کو غلام بنا رکھا ہے
پھر لطف یہ ہے  کہ جس سے  پوچھو وہ کہے
اس عالم آب و گل میں  کیا رکھا ہے

جگت موہن لال رواں ؔ (۱۸۸۹ء۔۱۹۳۴ء) کی پیدائش انا ؤ میں  ہوئی ۔ انہوں  نے  ابتدائی تعلیم اناؤ ، ثانوی لکھنؤ اور اعلیٰ تعلیم الہٰ باد سے  حاصل کی ۔ انہیں شعرو شاعر ی کا ذوق اس زمانہ کے  ماحول کے  ساتھ فطر ت کی جانب سے  بھی عطا ہوا تھا ۔ لکھنؤ کے  ماحول میں  شعری ذوق کو مزید نکھارنے  کا سنہرا موقع نصیب ہوا جہاں  وہ عزیز لکھنوی کے  شاگرد ہوئے  ۔ رواں  ؔ رباعی کی دنیا میں  داخل ہونے  والے  ایک فطری شاعر تھے  ۔ وہ رباعی کی دنیا میں  ایسے  وقت میں  داخل ہوئے  جب رباعی کی فضااکبر و حالی کی اصلاحی رباعیوں  سے  گونج رہی تھی لیکن انہوں  نے  فلسفہ کا درس رباعی کے  ذریعہ شروع کیا ۔ انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  وطن ،قوم اور سیاست کے  تصورات کو توازن کے  ساتھ پیش کیا ۔جہاں ایک طرف ان کی رباعیوں  میں  فطرت کی حسین عکاسی ملتی ہے  تو وہیں  دوسری جانب تاریخ بھی نظرآتی ہے  اورفراق گورکھپوری سے  پہلے  اردو رباعی میں  ہندو مذہب اور ہندو دیومالائی تہذیب کو رباعی کا جامہ پہنا تے  ہیں ۔ اردو رباعی کی دنیا میں  وہ اپنی فلسفیانہ رباعیوں  کی وجہ سے  نمایا ں  نظر آتے  ہیں  ۔ وہ فلسفۂ حیات، فلسفۂ موت ، فلسفۂ گنا ہ ، فلسفۂ جبر و اختیا ر کو پیش کر تے  ہوئے  اختیار سے  ہار کر جبر کا غلام ہوجاتے  ہیں  ۔گناہ کو تکمیل انسان کے  لیے  ایک عنصر مانتے  ہیں  اور دیر و حرم کے  درمیان کسی قسم کی دیوار کو روا نہیں  رکھتے  ۔ غر ض کہ انہوں  نے  مختلف فلسفوں  کے  جام سے  اپنی رباعیوں  کو سیراب کیا ہے  ۔ایک رباعی اس دنیائے  فانی پر ملاحظہ فرمائیں  :
کیا تم سے  بتائیں  عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
ایک موج فنا تھی زندگانی کیا تھی

جذب عالم پوری (۱۸۹۴۔ ۱۹۷۳) رباعی کی تاریخ میں  جنوب کے  اول اہم غیر مسلم شاعر ہیں  ۔راگھوندر جذبؔ کی پیدا ئش رایچور کر نا ٹک میں  ہوئی ۔ ان کے  والد پنڈت رام راؤ کا لگاؤ شعر وشاعر ی سے  تھا ۔ اسی ماحول کی وجہ سے  آپ اردو شاعری کی جانب مائل ہوئے  ۔ سخا دہلوی اور امجد حسین کی شاگردی اختیار کی اور شعر و شاعر کی دنیا میں  اپنا ایک مخصوص مقام بہت جلد بنا لیا ۔ارمغان جذب، آہنگ جذب ، تحفہ جذب، رباعیات جذب ، ساز غزل اور صد پارہ جذب ان کے  اہم شعری مجموعے  ہیں  ۔رباعیات جذب کے  علاوہ آہنگ جذب اور صدپارہ جذب میں  بھی کافی تعداد میں  رباعیاں  ہیں  ۔ رباعی گوئی میں  یہ بات بکثرت محسوس کی جاتی ہے  کہ فارسی اور خصوصاً خیام کی رباعیوں  کا عکس یا تر جمہ پیش کر کے  ان کے  جیسا بننے  کی کوشش کی جاتی ہے  ۔ کہیں  کہیں  آپ کو سنسکر ت کی شاعری کا بھی عکس نظر آئے  گا ۔جذب کی رباعیوں  میں  سنسکرت شاعری کا ترجمہ اور خیال نظر آتا ہے  ۔ ان کی رباعیوں  کے  مطالعہ سے  اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے  کہ یہ تمام ان کی سخن فہمی اور شاعرانہ مشاقی کا ثبوت ہیں  ۔ان کے  یہاں  اخلاقی ، مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر رباعیاں  ملتی ہیں  ۔ زیادہ تر رباعیوں  میں  اخلاقی تعلیم کا پیغام دیکھنے  کو ملتا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں معاشرہ و ماحول کی حقیقت کی ترجمانی کا انداز کچھ ایسا ہے  کہ خوبصورت منظر کشی کا گماں  ہوتا ہے  اور رباعیوں  کی خصوصیات میں  جذبے  اور فکر کا حسین امتزاج ، انداز بیان کا رچاؤ اور اسلوب ادا کی شائستگی ہے  ۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو :
صدہا ہوئے  نذر تیغ دارا کی طرح
لاکھوں  گئے  زیر خاک کسریٰ کی طرح
کیا اب بھی نہ سمجھوگے  اجل ہے  کیا چیز
ویراں  کیے  جس نے  شہر صحرا کی طرح

فر اق گورکھپوری (۱۸۹۶ء تا ۱۹۸۲ء) ارد و رباعی کا ایک ایسا باب ہے  جس میں  داخل ہونے  کے  بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں  نظر آتی ہے  ۔فر اق رباعی کے  باب میں  ماضی کی تمام روایتوں  کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں  خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنا تے  ہیں  ۔ان سے  پہلے  اردو رباعی ان الفاظ و تر اکیب ، حسن و جمال اور تبسم و رعنائی سے  محروم تھی۔ فراقؔ نے  ان تمام عناصر کو اپنی رباعیوں  میں  ہندوستانی عورتوں  و دوشیزاؤں  کے  حسن وادا کے  مختلف روپ پیش کر نے  میں  استعمال کیا ہے  ۔

فراق نے  اپنی رباعیوں  کے  ذریعہ ہندوستانی عورتوں  کے  حسن و جمال اور نزاکت و ادا کی جزئیات نگاری کی بھر پور عکاسی کر نے  کی کوشش کی ہے  جس کی وجہ سے  ان کی رباعیوں  میں  جا بجا جسم کے  مختلف نقو ش و منظر اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں  ابھر کر نظروں  کے  سامنے  آتی ہیں   جیسے  پنگھٹ پر گگریوں  کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں  کا کھیتوں  میں  دوڑنا ،ساون میں  جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے  کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں  کہی ہیں  جن میں  ’’روپ ‘‘ میں  تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں  اڑسٹھ(۶۸)،گلبانگ سے  مادر ہند کے  تحت اٹھانوے  (۹۸) فکر یات کے  عنوان کے  تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں  ایک رباعی موجود ہے  ۔یہ تمام رباعیاں  موضوع کے  اعتبار سے  صرف دو زمروں  میں  تقسیم کی جاسکتی ہیں  ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں  کا ہے  جن میں  محبوب کے  لب و ر خسار اور اس کے  خد و خال کی کیف آگیں  تصویریں  پیش کی گئی ہیں  اور دو سرے  زمر ے  میں  ان رباعیوں  کو رکھا جا سکتا ہے  جن میں  ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے  جیسے  پنگھٹ پر لڑکیوں کی گگر یاں  ، معصوم لڑ کیوں  کا کھیتوں  میں  دوڑنا ، ساجن کے  جوگ میں  مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے  سسرال جانے  کا منظر وغیرہ ۔ ان رباعیوں  میں ہندوستانی طرز معاشر ت کے  ایسے  خاکے  اور چلتی پھرتی تصویریں  ہیں  جن میں  فراق ؔ کے  تخیل ، جمالیاتی شعور اور طر ز تر سیل نے  انوکھا رنگ اور جان ڈال دی ہے  ۔

فراق کی رباعیوں  کی مقبولیت کا راز یہ ہے  کہ ان کی رباعیوں  میں  جو جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی تصویریں  جگہ جگہ نظر آتی ہیں  ان سے  قاری ان کی رباعیوں  کا اسیر نظر آتا ہے  اورفراقؔ اردو کے  وہ منفر د شاعر ہیں  جنہوں  نے  اپنی رباعیوں  کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں  سے  تعبیر کیا ہے  کیونکہ انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  حسن کومختلف زاویوں  سے  دیکھا ہے  اور اس کی اداؤں  کی دل نشینی کو بھی محسوس کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے  ہوئے  بادلوں  کے  سے  گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے  ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں  جنہیں  پہلی بار رباعی کی لڑی میں  پرویا گیا ۔فراق رباعی میں  جتنا کھل کر پیش آئے  ہیں  وہ اتنا کھل کرغزلوں  اور نظموں  میں پیش نہیں  آئے  ۔حسن کی تصویروں  کو پیش کرنے  میں  فراق فراخدلی سے  کام لیتے  ہیں  ۔ان کی رباعیوں  میں  استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے  ۔ ان کی ایک غیر خصی رباعی ملاحظہ ہو :
ہے  تار نظر کے  کپکپاتی ہوئی صبح
ہے  نور جبیں  کے  مسکراتی ہوئی صبح
ہے  جنبش لب کہ گنگناتی ہوئی صبح
ہے  روپ کے  پیچ و تاب کھاتی ہوئی صبح
خصی رباعی بھی ملاحظہ فرمائیں :
دوشیزہ ٔ بہار مسکرائے  جیسے
موج تسنیم گنگنائے  جیسے
یہ شان سبک روی یہ خوشبوئے  بدن
بل کھاتی ہوئی نسیم گائے  جیسے

 آر آر سکسینہ  (۱۸۹۶ ۔ ۱۹۵۷) کا پورا نام رگھوندن راج سکسینہ تھا جن کا حیدر آباد سے  تعلق تھا ۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی ان کے  اندر ادبی ذوق پروان چڑھنے  لگا تھا ۔ نظام حیدرآباد کا ادب دوستی کا دور شباب پر تھا ۔اسی دور میں  انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کا مجموعہ ’’رباعیات الہام ‘‘ کے  نام سے  اردو دنیا میں  متعارف کر وایا ۔ ساتھ ہی وہ سراپا اخلاق اور انسانی اقدار کے  امین بھی تھے  ۔ڈاکٹر ی کے  پیشہ میں  ان کی مسیحائی اور دست شفا کا پورا حیدرآباد قائل تھا ۔ رباعیات الہام کے  علاوہ ان کی ایک اور کتاب ’’آسمان جاہ کا حیدرآباد ‘‘بھی ہے  ۔’’رباعیات الہام ‘‘ میں  ۱۱۴؍ رباعیاں  شامل ہیں  ۔ ان کی رباعیوں  کی قدرو قیمت اور اہمیت میں  اضافہ کی وجہ یہ ہے  کہ انہوں  نے  امجد حیدرآبادی سے  مشق سخن کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  کی زبان صاف ستھری، محاورات اور روز مر ہ کے  استعمال میں  ندر ت خیال اور حسن ادا کا لحاظ ملتا ہے  ۔امجد حیدرآبادی سے  منسلک ہونے  کی وجہ سے  خیالات کی بلندی اور طرز ادا کی خوبصورتی کے  ساتھ مضامین کی پاکیز گی بھی پائی جاتی ہے  ۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو  :
رونے  کے  لیے  دیدۂ نمناک ملا
تقدیر سے  عشق بت سفاک ملا
دنیا میں  بتاؤ ہم کو کیا خاک ملا
دل بھی جو ملا ہم کو تو صد چاک ملا

 عر ش ملسیانی (۱۹۰۸ء۔۱۹۷۹ء) جن کا پورا نام بالمکند عرش ملسیانی تھا۔ اس سے  پہلے  جوش ملسیانی کا ذکر بھی آچکا ہے  اور ان کی تین کتابوں  کا بھی ذکر تھا ۔دونوں  میں  صرف آبائی وطن کی مماثلت نہیں  ہے  بلکہ عرش جوش کے  ہونہار لڑکے  تھے  جنہوں  نے  اردو دنیا کو بہت کچھ دیا ۔عرش کالج کے  زمانے  سے  ہی مشاعر وں  میں  شرکت کر نے  لگے  تھے  ۔انہوں  نے  علمی حلقہ میں  اپنی بہت بڑی شناخت بنائی تھی جس کا انداز ہ اس بات سے  لگایا جاسکتا ہے  کہ ان کے  حلقۂ احباب میں  پروفیسر آل احمد سرور ، مالک رام ، نیاز فتح پوری ، جگر بریلوی ، فراق وغیرہ اس زمانہ کی اہم شخصیات شامل تھیں ۔ ان کی مقبولیت میں  مزید اس وقت اضافہ ہوا جب وہ جوش کے  پاکستان چلے  جانے  کے  بعد ماہنامہ آج کل کے  مدیر کے  عہدے  پر رونق افروزہوئے  ۔ان کی تصانیف و تراجم کی تعدا د تقریباً ۲۶؍ہیں  ۔ شاعری میں  ہفت رنگ ، چنگ و آہنگ ، شرار آہنگ ، آہنگ حجاز ، بیوہ سہاگن، گاندھی گان ، عرش ، نغمہ سرمد ہیں  ۔تحقیق و تنقید میں  دیدار غالب ، فیضان ِ غالب ، اردو کی مزاحیہ شاعری ، مولانا آزاد ، راجہ رام موہن رائے  ، امیر خسرو ، ہست و بود ، ہم ایک ہیں  ،پوسٹ مارٹم۔ تر اجم میں  قاضی نذرالاسلام ، بنگرواڑی ، ایک ہمارا جیونا ، ادھ چنی رات، ہند قدیم کی تمدنی تاریخ کے  علاوہ کچھ ہندی تراجم بھی ہیں  ۔

 شعری مجموعوں  میں  ان کی رباعیاں  ہونے  کے  ساتھ نغمۂ سرمد کے  نام سے  بھی سرمد کی رباعیوں  کا روپ اردو میں  پیش کیا ہے  ۔اپنی شاعری میں  انہوں  نے  خصوصی طور پر رباعی میں  فنی معلومات اور فارسی تراکیب کے  استعمال سے  اپنی استادانہ مہارت و فن کاری کا ثبوت دیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  اس وقت کے  تمام مضامین کی جانب اشارہ ملتا ہے  جن میں  ساقی ، میخانہ ، حسن و شباب، فلسفہ فنا ، بے  ثباتی دنیا اور تصور موت فلسفیانہ اسلوب میں  نظر آتا ہے ۔ایک رباعی ملا حظہ ہو:
بادہ ہے  کہ ہے  نسخہ تسخیر قلوب
بوتل ہے  بغل میں  کہ ہے  وصل محبوب
یو ں  ملتے  ہیں  لب جام مئے  احمرسے
خورشید و شفق جیسے  بہ ہنگام غروب

بخشی اختر امرتسری کا نام شوری لال اور تخلص اختر ؔاستعما ل کر تے  تھے  ۔ والد کا نام کر پا رام جھبر تھا ۔ان کی پیدائش۱۹۰۹ء کوہوئی ۔ بخشی اختر ابتدائی تعلیم کے  بعدثا نوی و اعلی تعلیم میں  ادیب ، فاضل، منشی فاضل اور بی اے  کے  امتحانات پنجاب یونی ورسٹی سے  دیے  ۔ ان کا شعری ذوق اس وقت پروان چڑھا جب وہ آٹھویں  درجہ میں  تھے  ۔شعر ی ذوق جب پروان چڑھا تو انہوں  نے  دہلی کے  مشہور استاد جناب منشی پیارے  لال رونق کی شاگردی اختیار کی ۔فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا تو انہوں  نے  فارسی شاعری کے  لیے  جناب ایمن سے  اصلاح لی ۔ایمن کشمیر ی بر ہمن تھے  اور فارسی پر استادی کی حد تک کمال رکھتے  تھے  ۔اپنی شعری خدمات کی وجہ سے  انہیں  ’’ شاعر خوش کلام ‘‘ ،’’ شہر یار سخن ‘‘ اور ’’ نباض سخن ‘‘ کے  خطابات نوازے  گئے  ۔ ’’رباعیات اختر ‘‘ ان کی رباعیوں  کا مجموعہ ہے  ۔ اس مجموعہ کو ان کے  ہونہار شاگر داور دہلی یونی ورسٹی کے  شعبۂ اردو کے  اولین فارغین سے  تعلق رکھنے  والے  جناب کندن لال کندن نے  مر تب کیا جس کی اشاعت دسمبر ۱۹۸۹ء میں  عمل میں  آئی ۔ اس مجموعے  میں  ۳۲۴؍ رباعیاں  شامل ہیں  ۔ان کی رباعیوں  میں  تصوف کے  مماثل موضوعات کے  ساتھ پند و نصائح ، ، فلسفہ ، اخلاقی زوال، شراب اور عشق وغیرہ ہیں  ۔
اے  حسن سراپا مجھے  جلو ہ تو دکھا
ہاں  رخ پر نور مجلیٰ تو دکھا
سن لی ہے  بہت یہ لن ترانی تیری
پردہ تو اٹھا روئے  مصفا تو دکھا
باوا کر شن گوپال مغموم بھی ان شعرا ء میں  سے  ہیں  جن کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن لکھنے  پڑھنے  کی زبان زمانے  کے  دستور کی وجہ سے  اردو تھی ساتھ ہی انہوں  نے  اپنے  گھر میں  تمام کتب مقدسہ کو اردو میں  ہی پایا اس وجہ سے  ان کی تعلیمی زبان بھی اردو ہی رہی ۔ ۱۸دسمبر ۱۹۱۶ ء کو ان کی پیدا ئش موضع دومیل ضلع اٹک میں  ہوئی ۔ والد کا نام پنڈت لویندر چند تھا جو انگریزی کے  علاوہ اردو اور فارسی کے  بھی عالم تھے  ۔ انہوں  نے  اپنی پوری تعلیم لاہور اور راولپنڈی میں  حاصل کی ۔اس درمیان جگن ناتھ آزاد ان کے  ہم درس رہے ۔ اس کے  بعد سرکاری نوکری میں  لگ گئے  لیکن جہاں  تک شاعری کی بات تھی تو بچپن سے  ہی اس جانب ان کی طبیعت مائل تھی ۔لہذا محرو م و منور کی شاگرد ی اختیار کی ۔ ساتھ ہی انہو ں نے  لکشمی چند نسیم ، رشی پٹیالوی، منو ہرسہائے  انور اور ابر احسنی گنوری سے  بھی شاگردی حاصل کی ۔بیداری وطن ، نقوش حُسن ، رباعیات ِ مغموم، بزم ماتم، آرزوؤں  کے  خواب ، آرزوؤں  کے  جزیرے ، نقوش جمال، جہاں  نما، اور جادۂ شوق ان کے  شعری مجموعے  ہیں  اور ایک تحقیقی مقالہ ’’ درگاسہائے  سرور جہان آبادی حیات و شاعری‘‘ ہے  ۔رباعیات مغموم میں  ان کی ۲۹۵ ؍ رباعیاں  ہیں  اور جہاں  نما میں  ایک ہزرا رباعیاں  ۔ موصوف کے  شعری مجموعوں  پر نظرڈالنے  کے  بعد اندازہ ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  تمام اصناف سخن پر قلم اٹھا یا ہے  ۔ساتھ ہی انہوں نے  رباعیوں  میں  خصوصی توجہ دے  کراردو رباعی کی دنیا کو مالا مال کیا ۔ویسے  تو ان کی رباعیوں  کے  موضوعات دردو غم ، حسن و عشق ، محبت و مودت ، خمر و مینا ، فطرت و ثقافت وغیرہ ہیں  لیکن جمال کا گہرا شعور رکھتے  ہیں  اور نسوانی حسن کی عکاسی کی جانب فطری طور پر کھنچے  چلے  جاتے  ہیں  ۔ انہوں  نے  رباعیوں  کو فلسفہ سے  دور رواں  دواں  زندگی کو پیش کیا ہے  اور سادہ و سلیس اسلوب بیان اپنا یا ہے  ۔
میخانہ لٹاتی ہوئی آنکھیں  توبہ !
مدہوش بناتی ہوئی آنکھیں  توبہ !
یہ کیف وسرور اور تبسم پاشی
جادو سا جگاتی ہوئی آنکھیں  توبہ!

جگن نا تھ آزاد کا شمار اردو دنیا میں  ایک شاعراور ماہر اقبالیات کے  طور پر ہوتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۹۱۸ ء میں  پنجاب کے  ایک شہر عیسیٰ خیل میں  ہوئی اور وفات ۲۴؍ جولائی ۲۰۰۴ ء کو نئی دہلی میں  ۔تقسیم ہند سے  قبل ان کی زندگی کا بیشتر حصہ راولپنڈی میں  گزرا ۔آزادی کے  بعد دہلی آئے  جہاں  ان کی ادبی زندگی پروان چڑھی۔ انہوں  نے  قلمی زندگی کی شروعا ت شاعری سے  کی اور تین شعری مجموعے  ’’بے  کراں  ‘‘ ،’’ ستاروں  سے  ذروں  تک ‘‘ ،’’ وطن میں  اجنبی ‘‘ اور ’’ نوائے  پریشان‘‘ منظر عام پر آئے  ۔ ان تمام مجموعہ ہائے  کلام میں  کل ۵۶ رباعیاں  موجود ہیں  ۔زیادہ تر نظمیں  اور غزلیں  ہیں  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کے  موضوعات میں  تنوع اور ندرت پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے  جن میں  حسن و عشق کی کیفیات ، وطن سے  دور ی کا دکھ درد ، تقسیم کے  عکس کے  ساتھ شباب کی رنگینیاں  اور تصوف کے  مزاج کی حامل رباعیاں  بھی ہیں  ۔ ایک رباعی بطور مثال ملاحظہ ہو:
طوفاں  سا روح میں  اٹھاتی ہوئی آئیں
احساس میں  نشتر سے  چلاتی ہوئی آئیں
بچھڑے  ہوئے  احباب کی پیاری یادیں
پھر آج مرا درد بڑھاتی ہوئی آئیں
               
راجندر بہادر موج ضلع فرخ آباد اتر پر دیش کے  رہنے  والے  تھے  ۔ ان کی پیدا ئش ۳ جولائی ۱۹۲۲ ء کو ہوئی ، والد کا نام منشی کنور سکسینہ تھا ۔ والد نے  ان کو عصری تعلیم سے  نوازا ۔کانپور اور آگرہ سے  تعلیم حاصل کر کے  وکالت کے  پیشہ سے  وابستہ ہوگئے  ۔شعر و شاعر ی کا شغف بچپن سے  ہی تھا ۔ ان کے  چھ شعری مجموعے  منظر عام پرآئے ،جن میں  ’’ موج ساحل‘‘ ،’’ موج در موج‘‘ ،’’ ساگر‘‘،’’ موجیں ‘‘ ،’’ لہریں  ‘‘ اور ’’ طوفان ‘‘ ہیں ۔ ان شعری مجموعوں  کے  نام سے  ہی محسوس ہوجاتا ہے  کہ انہوں  نے  فطر ت نگاری میں  خاص توجہ دی ہے  ۔ ان کے  شعر و ں  کے  مطالعہ سے  اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  شروع دور کے  کلام سے  اپنی شاعری میں  پختہ پن کو پیش کر نے  کی کوشش کی ہے  ۔’’ ساگر ‘‘ ان کی رباعیوں اور قطعات کا مجموعہ ہے  جس میں  ۱۹۰ رباعیاں  ہیں  ۔ لہریں  میں  ۱۱ رباعیاں  اور موجیں  میں  ۱۰۵ رباعیاں  ہیں  ۔ انہوں  نے  اپنی رباعیوں میں  واردات قلبی اور رموز ہستی کو خصوصی طور پر پیش کیا ہے  جن میں  رومان اور اخلاق بھی پایا جاتا ہے  ۔انہوں نے  اپنی رباعیوں  میں  آخری مصر ع سے  متاثر کن کیفیت پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے  ۔ مثال :
خاکی تو ہوں  لیکن آتش فشاں  ہوں  میں
قطرہ ہی سہی مرکز طوفاں  ہوں  میں
ہے  دیدنی ہے  موج مرا ظرف بلند
قوت ہے  فرشتوں  کی اور انساں  ہوں  میں

                گیان چند جین کا شمار اردو کے  اہم ادیبوں  میں  ہوتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۹؍ ستمبر ۱۹۲۳ ء کو سیوہارہ میں  ہوئی اور وفات ۹۱؍ اگست ۲۰۰۷ کو کیلیفورنیا ، امریکہ میں  ۸۳ سال کی عمر میں  ہوئی ۔وہ اردو کے  ناقد و محقق شاعر اور استا د بھی تھے  ۔ نویں  جماعت سے  ہی شاعر ی کی جانب متوجہ ہوگئے  تھے  ۔ شروع میں  انہوں  نے  نظموں  کی جانب توجہ کی پھر شاید جوش ؔ کی’’ جنون وحکمت ‘‘نے  رباعی گوئی کی جانب ان کو مائل کیا ۔وہ اقبال کی شاعری سے  متاثر تھے  اور بانگ درا کی تقلید کر تے  تھے  لیکن ابتدا میں  انہوں  نے  عشق و رومان کے  مضامین کو بر تا ۔ ’’کچے  بول‘‘ ان کا شعر ی مجموعہ ہے  ۔ اس مجموعہ میں  ان کی ۷۸ ؍ رباعیاں  درج ہیں  ۔انہوں  نے  جہاں  تک شاعر ی میں  جوش اور اقبال کی تقلید ایک حد تک کی ہے ، اس کا اثر ان کی رباعیوں  میں  بھی نظر آتا ہے  جن میں  بانگ درا کی طرح مناظر فطر ت کی عکاسی اور حسن و عشق کی دلربائی پائی جاتی ہے  ۔انہوں  نے  اخلاقی و اصلاحی رباعیاں  بھی کہی ہیں  ۔ ان کی رباعیوں  میں  ان کی فنکارانہ صلاحیت بھر پور نظر آتی ہے  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کو پر اثر بنانے  کی پر زور کو شش کی ہے  :
 اب بھی ترے  نام کی کشش باقی ہے
کچھ کچھ وہی پہلی سی روش باقی ہے
گو عشق سے  ہاتھ دھو چکا ہے  کب کا
پھر بھی دل مردہ میں  خلش باقی ہے

شعلہ خاموش، شورش پنہاں  ، شاخ گل ، اجالے ، شعور ِ غم ، شعاع جاوید ، شب نشین ، احترام ، غزل گلاب اور نظم سمندر جیسے  دس شعری مجموعوں  کے  خالق کالی داس گپتا رضا ہیں  جن کی پیدائش ۲۵ ؍ اگست ۱۹۲۵ء کو ضلع جالندھر میں  ہوئی اور وفات ۲۰۰۱ ء میں  ۔ان کی شناخت اردو دنیا میں  بیک وقت قابل ادیب انشا پرداز، عظیم محقق اور قابل قدر ناقدکے  طور پر ہوتی ہے  ۔رضا کی شاعری کا کینوس کافی وسیع نظر آتا ہے  ۔نت نئے  موضوعات اور خیالات کو وہ اپنی فن کا رانہ مہارت و تجربہ سے  بہت ہی خوش اسلوبی سے  پیش کر تے  ہیں ۔ انہوں  نے  غزلوں  اور نظموں  کے  ساتھ خاصی تعداد میں  رباعیاں  بھی کہی ہیں  ۔’’شعاع جاوید‘‘ ان کی رباعیوں  کا مجموعہ ہے  جس میں  ۱۶۳؍ رباعیاں  ہیں  ۔ اس کے  علاوہ ’’شاخ گل ‘‘میں  ۲۶؍ اور’’ شعلہ خاموش ‘‘ میں  ۳۹ رباعیاں  ہیں  ۔ انہوں نے  اپنی رباعیوں  میں  حیا ت انسانی کے  گوناگوں  مسائل، اخلاقیات ، مناظر فطرت اور حسن وعشق جیسے  معاملات کو پیش کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  کے  متعلق پرو فیسر گوپی چند نارنگ لکھتے  ہیں  ’’ رضا کی رباعیوں  کو پڑھ کر یوں  خوشی ہوئی کہ ان میں  خیال کی تتلی کو پکڑنے ، اس کے  رنگوں  کو گرفت میں  لینے  اور ان سے  اظہار کا ہیولیٰ تیار کر نے  کا جوہر ملتا ہے  ‘‘ ۔( شعاعِ جاوید ص: ۱۲) شعری دنیا کے  علاوہ ان کا کارنامہ بطور محقق اردو دنیا کے  دامن میں  ہمیشہ کے  لیے  رقم رہے  گا ۔ انہوں  نے  خود کو بطور ماہر غالبیات متعارف کروایا ہے  ۔ الغر ض انہوں  نے  اردو دنیا کو ہر طرح سے  نوازا ہے  ۔ ایک رباعی بطور مثال پیش ہے ۔
احساس شرر رنگ ، نظر شعلہ بجاں
باندھا ہے  عجب ضبط محبت نے  سماں
اے  راز دروں  !اور دروں  ،اور دروں
اے  درد نہاں  ! اور نہاں  ، اور نہاں

امیر چند بہار کی پیدائش ۱۹۲۵؁میں  گاؤں  روکھڑی ضلع میانوالی مغربی پنجاب میں  ہوئی ۔تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے  حاصل کی ۔وہیں  سے  انہوں  نے  انگریزی میں  ایم اے  کی تعلیم مکمل کی۔ تقسیم ملک کے  بعد وہ ہریانہ میں  انگر یزی کے  استاد کے  طورپر در س و تدریس سے  منسلک ہوگئے  ۔بہارؔ اور فراق ؔ اس امر میں  یکساں  ہیں  کہ دونوں  انگر یزی کے  استاد تھے  اور دونوں  کو اردو سے  حد درجہ محبت تھی جس کی وکالت دو نوں  عمر کے  آخری پڑاؤ تک اردو کے  لیے  کرتے  رہے  ۔ امیر چند بہار کے  بارہ شعری مجموعے  شائع ہوئے  ہیں  جن میں  سب سے  پہلا شعری مجموعہ ’’نسیم مغرب ‘‘ ہے  ۔اس میں  انگریزی کی مشہور تر ین ۳۶ نظموں  اور سروجنی نائیڈوکی ایک انگر یز ی نظم کا شعر ی تر جمہ ہے  جسے  انجمن تر قی اردو نے  شائع کیا تھا ۔ اس کے  بعد رباعی کی جانب رجوع کر تے  ہیں  اور ۱۹۷۱؁میں  تین سو پچاس رباعیوں  پر مشتمل مجموعہ ’’ نسیم بہار‘‘ کے  نا م سے  شائع ہوا۔ ’’ نسیم بہار‘‘ کے  بعد دوسرا رباعی کا مجموعہ ’’دین و دنیا ‘‘ کے  نام سے  ۱۹۸۳؁ میں  حیدرآباد سے  شائع ہوا ۔ اس میں  بھی تقریباً تین سو رباعیاں  شامل ہیں  ۔اس کے  بعد ’’ انسان بنو‘‘ کے  نام سے  مجموعہ شائع ہوا ۔ بہارؔ مختلف فکر ی جہات کے  حامل شخص ہونے  کی وجہ سے  اس مجموعہ کی ۴۱۰ رباعیوں  کو مختلف عنوانات میں  تقسیم کرتے  ہیں  جو کچھ اس طر ح ہیں  ۔ دو ر حاضر، محسوسات ، مشاہدات ، انسان بنو، پندو موعظت، معرفت ، فن اور فن کار ، فکر ونظر ، نقوش یاس ، عزم وعمل ، صنعتی شہر ، زبان و فن شاعری، اردو آئینہ  ( دکھی جنتا) رسوم قبیحہ (سماجی بدعتیں  /اخلاقی بدعنوانیاں  ) وغیرہ ۔ اس میں  (دکھی جنتا) کے  عنوان کے  تحت رکشا والا ، موچی، درزی ، حجام ، دھوبی، ماہی گیر ، کسان، مزدور ، کنجڑا ، اخبار فروش جیسے  پیشے  اختیار کرنے  والوں  کی محنت کش اور فاقہ کش زندگیوں  کی عکاسی وہ اپنی رباعی کے  ذریعہ پیش کر تے  ہیں  ۔بہارؔ کے  رباعیات کا چوتھا مجموعہ ’’اردو ہے  جس کا نام ‘‘ ہے  جو تقریباً ایک سو پچاس رباعیات پر مشتمل ہے  ۔ اس میں  ساری رباعیاں  تقریباً ایک ہی لڑی میں  پروئی ہوئی نظر آتی ہیں  اور وہ لڑی اردو ہے  ۔اب تک وہ مختلف موضوعات کو اپناتے  آرہے  تھے  لیکن اس مجموعہ میں  انہوں  نے  ایک ہی مو ضوع(اردو ) کو پیش کیا جس کو وہ دس ذیلی عناوین ابتدائیہ ، قومی ورثہ ، اردو اور جنگ آزادی، اردو کا سیکولر مزاج، ماضی حال مستقبل، اردو زبان کی چاشنی ، اردو زبان کی اہمیت وآفاقیت ، عنادو مخاصمت بیجا، زبان و مذہب ، صائب مشورہ اور اردو ادب ہیں :
یہ بغض ، یہ بیر ، یہ خصومت کیسی
اک شیریں  زبان سے  عدوات کیسی
غالب سے  اگر پیار ہے  اتنا تو بتائیں
اردو سے  پھر اس درجہ کدورت کیسی

کندن لال کندن کا نام جدید اردو رباعی گو شعرا میں  بہت ہی اہمیت سے  لیا جاتا ہے ۔ وہ صرف اس وجہ سے  کہ رباعی گوئی کے  ساتھ ہی انہوں  نے  سحر عشق آبادی کے  رباعی کے  بارہ نئے  اوزان ڈاکٹر اوم پرکاش زار علامی کے  اٹھارہ نئے  اوزان کو اپنی رباعیوں  میں  برتا ہے ۔ یہ اوزان رباعی کے  بحرہزج کے  اخرب اور اخرم کے  چوبیس اوزان کے  سوا ہیں  ۔اس طریقے  سے  انہوں نے  رباعی کے  فن میں  ایک خوبصورت اضافہ کیا اگرچہ ان اوزان پر کندن لال کندن کے  سوا کسی اور نے  قلم نہیں  اٹھا یا ہے ۔ ان کی اس کتاب کا نام ’’ ارمغانِ رباعیاتِ کندن‘‘ ہے  ۔موصوف کی پیدائش ۱۹۳۶ء میں  تونسہ شریف کے  قریب کوٹ قیصرانی میں  ہوئی ۔ابتدائی تعلیم وہیں  حاصل کی پھر ہجر ت کے  بعد گوڑگاؤں  میں  چار سال تک کیمپ میں  زندگی گزاری اور اسکولی تعلیم مکمل کی ۔اس کے  بعد اعلیٰ تعلیم دہلی یونی ورسٹی سے  حاصل کی جہاں  انہوں  نے  خواجہ احمد فاروقی جیسے  کبار علم سے  علم حاصل کیا ۔ یہاں  انہوں  نے  تحقیق وتنقید کے  ساتھ شاعری کی اور عروض کے  فن پر ’’ ارمغان ِ عروض‘‘ ،’’ عروض و پنگل و خلیل ‘‘ اور ’’ معراج فن ‘‘ جیسی کتابیں  بھی تحریر کیں  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  مروجہ مضامین سے  الگ ہٹ کر سیاسی موضوعات ، مذہب ، اخلاق اور سماج پر طنز کیا ہے  ساتھ ہی اصلاحی رباعیاں  بھی ان کے  یہاں  نظر آتی ہیں  ۔
تو چندے  آفتاب چندے  ماہتاب
ہے  دنیا کے  حسن میں  تیرا نہ جواب
چشم باطن ہے  گر کوئی دیکھے
تو دیکھے  گا تیرا جلوہ بھی شتاب

کر شن کمار طور کی پیدائش ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۳۸ء کوہوئی ۔ایم اے  کے  بعدڈپارٹمنٹ آف ٹوراِزم سے  منسلک ہوگئے  اور دھرم شالہ میں  سکونت پذیر ہوئے  ۔شاعری کا شوق تھا ہی یہی وجہ ہے  کہ جدید شعرا میں  وہ اپنی منفرد شناخت رکھتے  ہیں ۔ ’’ شہر شگفت‘‘ ،’’ عالم عین‘‘،’نمونوید‘‘،’’ مشک منور ‘‘،’’رفتہ رمز‘‘،’’ سرمایہ رمز‘‘ ،’’غرفہ غیب‘‘ اور’’گل گفتار ‘‘ ان کے  شعر ی مجموعے  ہیں  ۔ جدید شعرا ء میں  اپنی منفرد آواز، اندازاور آہنگ کی وجہ سے  پہچانے  جانے   سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ان کے  اندر اظہار کی غیر معمولی شعری قوت موجود ہے  ۔انہوں نے  غزلوں  کی طرح رباعیوں  کو بھی جدید موضوعات سے  ہم آہنگ کیا ہے  جن میں فکر ووجدان ، فلسفۂ حیات و ممات اور زندگی کے  اسرار ورموز کی گرہ کشائی کی ہے  ۔ان کے  خیالات میں  تازگی اورتوانائی پائی جاتی ہے  اور انہوں  نے  نادر تشبیہات و استعارا ت کے  استعمال سے  بھی اپنی رباعیوں  کو خوب سنوارا ہے  ۔
مقتول بنوں  ثنائے  مقتل کرلوں
اک آگ کے  صحرا کو جنگل کرلوں
اے  عکس مہِ خواب ذرا آہستہ
میں  پہلے  دلِ آئینہ صیقل کرلوں

سوامی شیاما نند سرسوتی کی پیدا ئش ۲۶؍ نومبر ۱۹۲۰ء کو پیشا ور میں  ہوئی ۔تقسیم ہند کے  بعد دہلی میں  آبسے  اور یہاں  انہوں نے  اپنے  علمی و ادبی ذوق کو پروا ن چڑھا یا ۔ انہوں نے  ہندی اور اردو میں  شاعر ی کی ہے  ، ہندی رباعیاں  ہندی غزلیات کے  ساتھ اردو میں  بھی انہوں  نے  رباعیاں  لکھی ہیں ۔ اردو میں  صرف رباعی کا ایک مجموعہ ’’ رباعیات روشن ‘‘ کے  نام سے  ہے  پھر بعد میں  ایک مجموعہ ’’ حسن رباعیات‘‘ کے  نام سے  بھی منظرعام پر آیا ۔ ناگری رسم الخط میں  ان کی رباعیوں  کا ایک مجموعہ ’’ کلام میرا ‘‘ کے  نام سے  ۲۰۱۲ ء میں  منظر عام پر آیا ۔ یہ مجموعہ ان کی تجرباتی رباعیوں  پر مشتمل ہے ۔ ان رباعیوں  کو انہوں  نے  ’’ پریو گ دھرم رباعیاں  ‘‘ کہا ہے  ۔ رباعیوں  میں انہوں  نے  جو تجر بے  کیے  ہیں  وہ بہت ہی دلچسپ اور لطف انگیزی کے  ساتھ حیر ت انگیز و مشکل بھی ہیں  جن سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ فن پر دستر س کے  ساتھ قادر الکلامی پر بڑی قدرت رکھتے  تھے  ۔ایک تجر بہ یہ کیا ہے  کہ رباعی کے  چوتھے  مصرع میں  جو لفظ شروع میں  آئے  ہیں  وہی لفظ دوسرے  یا پہلے  مصرع کے  شروع میں  استعمال ہوا ہے  جیسے  :
کیسے  تجھ کو میں  کتنا بتلاؤں
اپنا من جیسے  تیسے  بہلاؤں
دکھلاؤں  میں  کیسے  من کی پیڑا
کیسے  تجھ کو اپنا من دکھلاؤں

دوسرا تجر بہ انہوں نے  ہائیکو رباعیات کے  عنوان سے  کیا ہے  ۔یہ رباعیاں  بیک وقت ہائیکو اور رباعیوں  کے  طور پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں  ۔ تیسرے  تجر بے  کو انہوں  نے  زنجیری رباعیات کا نام دیا ہے  ۔یہ رباعیاں  اس طر ح ایک لڑی میں  پروئی گئی ہیں  کہ پہلی رباعی کے  تیسرے  مصرعے  کو جو بے  قافیہ ہے  اگلی رباعی کا پہلا مصرع بنایا گیا ہے  اس تجربے  سے  اس سلسلے  کی ساری رباعیاں  باہم منسلک ہیں  ۔ان کی رباعی ’’ حسن رباعیات ‘ ‘ سے  ملاحظہ ہو :
ہر دل پہ یوں  اردو کا اثر کیا کہنا
اس طور تلفظ پہ نظر کیا کہنا
دنیا میں  زبانیں  ہیں  ہزاروں  لیکن
اردو کی لطافت کا مگر کیا کہنا

جدید نسل کے  شعرا میں  نظمیہ شاعری کی جانب رغبت کافی دکھائی دیتی ہے  اور غزل بھی ان کی پسندید ہ صنف سخن ہے  ایسے  میں  رباعی جہاں  مشق سخن کی آزمائش ہوتی ہے  اس جانب بھی جدید شاعروں  میں  کچھ کی رغبت نظرآتی ہے  لیکن حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے  کہ دور حاضر میں  کتنے  غیر مسلم شعرا ہیں  جنہوں  نے  رباعیاں  بھی لکھی ہیں  ۔

Monday 2 March 2020

ترجمہ سے ترجمانی تک

ترجمہ سے ترجمانی تک

’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.
فقلت ماسمک
فقال لو لو
فقلت لی لی
فقال لالا
جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔
اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق
منارتہ تزہو علی الفخر والزینِٖ
تقول وقد مالت علیّ ترفقوا
فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت
و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ
قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 
وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں
شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔
اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,
Humpty Dumpty had  a great  fall,
All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men
Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.
اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں
ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت
ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ
راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے
ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن
دہی چھٹاکن
آلو بیگن
کھٹا چورن
گھنگرو باجے
چھن چھن چھن چھن
گھنٹہ بولا
ٹن ٹن ٹن ٹن
ہنستے گاتے
چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔
’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...