Friday 1 March 2019

ذوق کی قصیدہ نگاری



 ذوق کی قصیدہ نگاری 

امیر حمزہ 

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی 

دلی جیسا ثقافتی و ادبی شہرجو عالم میں انتخاب تھا نادر شا ہی حملہ کے بعد اجڑ جاتا ہے ۔شعر وادب کی محفلیں اٹھ جاتی ہیں ۔ میر و سودا جیسے عدیم المثال شاعر اپنے فن کی بقا ء کے لیے لکھنؤکوچ کر چکے ہوتے ہیں ۔ اسی تباہی کے دور میں اجڑی اور لٹی پٹی ہوئی دلی میں شیخ محمد رمضان کے یہاں ایک ایسا چاند طلوع ہوتا ہے جو اپنے وقت میں آسمان سخن پر عید کی چاند کی طر ح چمکتا ہے ۔جن کی استادی اور شاعری کی چمک کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انیسویں صدی کے شروع میں مو من و غالب کے ساتھ آفتا ب و ماہتا ب بن کر آسمان شاعر ی میں متمکن ہوجاتے ہیں ۔یہ اردو ادب کی اٹل تاریخ ہے کہ سلطنت مغلیہ کی ٹمٹاتی ہوئی چرا غ میں یہ تینوں شاعر ی کے روشن چرا غ تھے۔ اس میں بھی دربار میں شاعری کا چرا غ سب سے زیادہ ذوق روشن کیے ہوئے تھے ۔ جسے سلطنت پسند کرے اور سلطان استادی کا شرف بخشے پھر کیا تصور اورکیا حقیقت کہ شاعری کے بازار میں کسی اور کی قیمت زیادہ ہو اور کوئی دوسرا شاعرشاگر د وں کا سلسلہ طویل کر سکے ۔کیا یہ سب ساری چیزیں صرف اس وجہ سے تھیں کہ وہ خاقانیِ ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے رواج ، مزاج ، مر وجہ وعلوم و فنون اور مقبول و پسندیدہ اصطلات ِ زبان و بیان کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کر نے میں استادانہ مہارت رکھتے تھے ۔لیکن اردو ادب کا یہ ستم اس کے ہر طالب علم پر رہا ہے کہ انیس کا مطالعہ دبیر سے موازنہ کیے بغیر اور ذوق کا مطالعہ سودا سے تقابل کیے بغیر نہیں ہوسکتا ۔جب بھی ذوق کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو قصیدہ میں سودا کو سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور غزل میں غالب و مومن کو۔ لیکن کبھی بھی اس پہلو پر نظر نہیں ڈالی گئی کہ ذوق کی شاعری کے مطالعہ کے لیے ذوق کے زمانے کی دہلی فضا کے ساتھ ذوق کے آس پاس کے ماحول کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔ ذوق کی ذات و شخصیت کے گہرے مطالعے کے ساتھ منسلکینِ ذوق پر بھی نظر رکھی جائے ۔بچپن کی شوخی اور لڑ کپن تو ان کے قریب بھی نہیں پہنچا، یہی وجہ تھی کہ وہ عہدمراحق سے ہی خداتر سی اور زہد و ورع کی جانب مائل ہوگئے تھے ۔ اگر چہ ان کی طبیعت میں بذلہ سنجی اور ظرافت بھی تھی تا ہم کسی بھی گفتگو میں استادی پن کا حکم نا مہ یا انانیت نظر نہیں آتی ہے ۔ شام کو عصر کے وقت شاید مجلس کی برخاستگی کے بعد مسلسل ایک لوٹے سے کلّیا ں کیا کر تے تھے ، اس متعلق مولانا محمد حسین آزاد کے سوال کے جواب میں کہتے کہ نہ جانے کیا کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں۔ یہی عمل رات کی عبادت سے پہلے کا بھی ہوتا تھا ۔ان کے اندر عاجزی، انکساری اور سادگی کا دخل اس قدر تھا کہ خیا ل آتے ہی پڑوسی کے بیمار بیل کے لیے دعا بھی کر تے ہیں ۔ تو ان تمام کے ساتھ مناسب ہوتا ہے کہ ذوق کی شاعری کا مطالعہ ان کی ذاتی زندگی کے تناظر میں بھی کیا جائے کیونکہ یہ اکثر ہوتا ہے کہ تخلیق کار اپنی زندگی کا عکس اپنی تحریر میں کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتا ہے ۔

ذوق کی پیدا ئش ۱۲۰۳ھ بمطابق ۱۷۸۸ء میں ہوتی ہے ۔تقریباً ۱۹؍ بر س کی عمر میں دربار ولی عہدی میں باریابی کا شر ف حاصل ہو تا ہے اور یہ بات بھی نا قابل انکار تک مشہور ہے کہ ذوق کو ۱۹؍ برس کی عمر میں خاقانی ہند کا خطاب مذکورہ قصیدہ پر ملتا ہے۔

جبکہ سر طان و اسد مہر کا ٹھہر ا مسکن 

آب و ایلولہ ہوئے نشوونمائے گلشن

 یہ بات سوالات کے دائرے میں ضرور آتا ہے کہ جس برس وہ دربار ولی عہدی سے منسلک ہورہے ہیں اسی سال انہیں اعلی ترین خطاب سے نوازا بھی جارہا ہے ۔ ساہتیہ اکادمی سے شائع شدہ تنویر احمد علوی صاحب کی کتاب ’’ ذوق دہلوی ‘‘( مونو گراف) میں اس قضیہ کی جانب اشارہ ہے کہ تذکر ۂ ’’عیار الشعراء‘‘، ’’تذکرۂ صدر الدین ‘‘اور’’ تذکرہ ٔ سرور‘‘ میں اس خطاب کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے بلکہ’’ تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ ۱۲۴۸ھ میں اس خطاب کا پہلی بار ذکر ملتا ہے ۔اس سے یہی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ تیرہویں صدی ہجر ی کے چوتھے عشرے میں ہی انہیں یہ خطاب ملا ہو اور اس وقت ان کی عمر چالیس بر س کے آس پاس رہی ہوگی ۔۶؍اکتوبر ۱۸۳۷ء کو اکبر شاہ ثانی کاانتقال ہوتاہے اور ۷؍ جنور ی ۱۸۳۸ ء کو بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی ہوتی ہے اسی موقع پر ذوق اپنا یہ مشہور قصیدہ :

روکش ترے رخ سے ہوکیا نور سحر رنگ شفق  ہے ذرّہ تیرا پر توِ نو ر سحر رنگِ شفق 

لکھتے ہیں جس پر انہیں ملک الشعرا ء کا خطاب ملتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں قلی قطب شاہ سے لے کر محسن کاکوروی و جمیل مظہری تک قصیدہ نگار شعرا کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جب کہ غزل گو شعرا لا تعداد ہیں۔ اردو کے عہد زریں میں میرؔ جیسا شاعر اپنی غزلوں کی وجہ سے خدائے سخن کے درجے پر فائز ہوتا ہے وہیں سوداؔ جیسا قصیدہ نگار قادر الکلامی میں میرؔ سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے وہ قصیدہ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ کچھ یہی صورت حال عہد غالبؔ میں بھی غالبؔ و مومنؔ اور ذوق ؔکے درمیان نظرآتی ہے۔ فی زمانہ غالبؔ غزل کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اور ذوق ؔ قصیدہ کے۔ غالبؔ و مومنؔ غزل کے میدان میں اپنے پیش رو کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے ہیںلیکن ذوقؔ اپنے پیش رو سودا ؔ کے ساتھ صنف قصیدہ میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اردوادب کی تاریخ میںجس طرح سے میرؔ و غالبؔ کو غزل سے ، انیسؔ و دبیرؔ کو مرثیہ سے اور میرحسن ؔو دیا شنکر نسیمؔ کو مثنوی سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سے ذوقؔ وسوداؔ کو قصیدے سے جدا کرنا ناممکن ہے۔

 قصیدہ میں تشبیب کی وہی اہمیت ہوتی ہے جو غزل میں حاصل غزل کی ہوتی ہے۔ جس طریقے سے یہ بات زبان زد ہے کہ بادشاہوں کا کلام ، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے، قصیدہ اپنے اندر بھی وہی خصوصیت رکھتا ہے کہ بادشاہوں کے سامنے پیش ہونے والا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہو۔ اسی لئے شاعر اپنی تخلیقیت کی ساری قوت قصیدہ کے پہلے جز تشبیب میں لگا دیتا ہے۔ اگر تشبیب بہاریہ ہے تو اس میںلفظوں کے انتخاب میں وہ ہنر مندی برتی جاتی ہے کہ موسم کے تطابق سے ایسی مسحور کن فضا قائم کرے کہ قاری یا سامع سنتے ہی متوجہ ہو جائے۔ ذوقؔ نے بھی تشبیب میں اپنی اس ہنر مندی کو پیش کیا ہے۔ ایک قصیدے کی تشبیب سے ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:

واہ وا کیا معتد ل ہے باغ عالم میں ہوا  مثل ِ نبضِ صاحبِ صحت ہے ہر موج

بھر تی ہے کیا کیا مسیحائی کا دم باد بہار بن گیا گلزار عالم رشک صد دارالشفا

ہے گلوں کے حق میں شبنم مر ہم زخم جگر شاخ بشکستہ کو ہے باراں کا قطرہ مومیا

ہوگیا موقوف یہ سودا کا بالکل احتراق  لالہ بے داغ سیہ پانے لگا نشو و نما

ہوگیا زائل مزاج دہر سے یاں تک جنوں بیدمجنوں کا بھی صحرا میں نہیں باقی پتا

ہوتا ہے لطف ہوا سے اس قدر پیدا لہو بر گ میں ہر نخل کی سرخی ہے جوں بر گ حنا

کیا عجب جدوار کی تاثیر گر رکھے زقوم کیا عجب گر آب حنظل دیوے شربت کا مزا

نسخے پر لکھنے نہیں پاتا ’ہوالشافی ‘ طبیب کہتا ہے بیمار ’ بس کر مجھ کو بالکل ہے شفا‘

پہلے شعر میں باغ عالم کی ترکیب سے پوری دنیا کی فضا کو ہموار کر دیتے ہیں اور جو ہوا چل رہی ہے اس ہوا کی خوبصورتی کچھ اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے صحت مند انسان کی نبض چلتی ہو۔ شاعر کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے تخیل میں کتنی وسعت رکھتا ہے۔ ایک غیر محدود وسیع و بسیط دنیا کی صورت حال ایک محدود جسم سے پیش کرتا ہے۔ بادشاہ کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگتی ہے کہ میرے آنے سے اس پوری دنیا کا نظام اس طریقے سے درست ہو جاتا ہے جیسا کہ آخری شعر میں طبیب نسخے پر ’ ہوالشافی ‘ لکھ نہیں پاتا ہے کہ مریض اپنی مکمل شفا یابی کی خبر دیتا ہے ۔ اس میں کوئی بعید نہیں ہے کہ بادشاہ کی تاج پوشی سے پہلے اور بعد کی صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 

دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ اس بہار میں ہوا ایسی چل رہی ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا ایسی بن گئی ہے جس پر سیکڑوں دار الشفاء بھی رشک کرنے لگے اور اب شبنم کا اثر گلوں پر کچھ ایسا ہے جیسے زخم جگر پر مرہم کا۔ اور ٹوٹی ہوئی شاخ میں بارش کا قطرہ مومیا کی تاثیر لئے ہوئے ہے۔ بعدکے اشعار میں شفا کے بعد کی جو صورت حال ہے اس کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے دہر کے مزاج سے جنوں بھی زائل ہو گیا اور اس کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ صحرا میں اب بید مجنوں کا بھی ذکر نہیں۔ بید تو خود ہی ایک پتلی سی چھڑی ہوتی ہے اور بید مجنوں نرم اور پتلی سی گھاس ہوتی ہے۔ مجنوں بھی جنوں کے عالم میں بھوکا پیاسا رہتے رہتے پتلا دبلا ہو جاتا ہے اور صحرا کی جانب نکل پڑتا ہے اور بید مجنوں بھی صحرا میں ہی پایا جاتا ہے۔اس مناسبت سے صحرا کا استعمال مجنوں کے ساتھ جس خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے وہ محسوس کر نے کی چیز ہے ۔ اس کے بعد کے بہاریہ اشعار میں ذوقؔ نے مضمون میں کمال کی ندرت پیدا کی ہے۔ ماحول سازی اور فضا بندی بھی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے کہ طبیب نسخے پر ہوا لشافی لکھتا ہی ہے کہ بیمار کہتا ہے کہ شفا مل چکی۔ یعنی اب دوا لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ غلو ہے لیکن ذوقؔ نے اپنی فنکاری سے غزل کا فطری پن اور حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیش کر دہ اشعار اگرچہ تشبیب کا حصہ ہیںلیکن مدح کا ناگزیر جز تصور کیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔اسی طریقے سے برسات کے خوبصورت موسم کا ذکر ذیل کے قصیدہ میں ہوا ہے ۔

ساون میں دیا پھر مہ ِشوال دکھائی  بر سات میں عید آئی ، قدح کش کی بن آئی

ذوق اپنے عہد کے تمام مر و جہ علوم و فنون سے باخبر تھے یہی وجہ ہے ان کے قصیدوں میں علم ِ ہیئت و نجوم ، منطق و فلسفہ ،فقہ و تفسیر ،تصوف و سلوک ، تاریخ و واقعات او ر موسیقی و طب وغیرہ کی اصطلا حات کثرت سے ملتی ہیں ۔جیسا کہ اوپر لکھے گئے قصیدے کی تشبیب میں بھی مکمل طب کی فضا نظر آتی ہے ۔کسی بھی اصطلاح سے کما حقہ واقف ہونا اور اس کواپنے کلام قدر ت سے شاعر ی میں پیش کر تے ہوئے معانی میں دوبالگی پیدا کر کے شعر ی حسن عطا کر نا بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے، پھر منطق و فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو اشعار کے بہاؤ میں پیش کرنا اور بھی مشکل امر ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک ذوق کے قصائد کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے علمی اصطلاحات کو استعمال کر کے شعر یت اور شعری حسن دونوں کو قائم رکھا ہے ۔صرف دو شعر علم ہئیت اور منطق کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں ۔

ہواہے مدرسہ یہ بزم ِ گاہ عیش و نشاط  کہ’ شمس بازغہ‘ کی جگہ پڑھے ہیں ’بدر ِ منیر ‘

اگر پیالہ ہے صغر یٰ تو ہے سبو کبریٰ نتیجہ یہ ہے کہ سر مست ہیں صغیر و کبیر 

مدر سہ جوعموماً کبھی بھی عیش و نشاط کی بزم گاہ نہیں بنی ، بننا تو دور کی بات ہے بلکہ نصابات میں بھی وہ بہت ہی خشک واقع ہوئی ہے ۔ وہاں تو حکمت جیسے خشک موضوع کے لیے بھی ’’ شمس بازغہ ‘‘ جیسی مغلق کتاب پڑھائی جاتی تھی لیکن اب تو وہ بھی ’بدر منیر ‘ کے پڑھنے پڑھا نے سے سرا پا بزم گاہ عیش و نشاط بن گیا ہے ۔شمس بازغہ مدار س میں داخل ایک نصابی کتاب تھی جو فلسفہ یونان کے دفاع میں پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں اپنے فن پر یہ آخری کتاب تھی اس سے پہلے’ صدرا ‘ اور ’ میبذی ‘ شامل نصاب ہوا کر تی تھی ۔ (میبذی بعض مدارس میں اب بھی ہے ) گویا انہوں نے اس کتاب کاذکر محض یونہی نہیں کر دیا بلکہ ایک کی خشکی اور مغلق پن کے ساتھ دوسرے کی رنگینی اور حسن کلام کا بھی تقابل ہے ۔دوسرے شعر میں پیالہ اور سبو کی مناسبت سے علم منطق کی اصطلاح سے قضیہ کو بہت ہی خوبصورتی سے استعما ل کیا گیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ صغریٰ اور کبریٰ منطق کے دو قضیے ہوتے ہیں ۔ جیسے قضیہ صغریٰ ’ سمندر کا پانی ہے ‘ اور قضیہ کبریٰ ’ پانی گرم ہے ‘ ان دو نوں میں جو ایک مشتر ک چیز ہے وہ ’ پانی ‘ ہے اسے حد اوسط کہتے ہیں اور یہ نتیجہ میں ساقط ہو جاتا ہے توگو یا نتیجہ ہوا ’ سمندر گر م ہے ‘ ۔ اب شعر پر نظر ڈالتے ہیں تو باد ی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے پیالہ کو صغریٰ اور سبو کو کبر یٰ کہا ہے ، ظاہری طور پر پیالہ چھوٹا  برتن ہوتا ہے اور سبو بڑا بر تن ۔ اس لیے پیا لہ کو چھوٹا اور سبو کو بڑا کہا ہے ۔ لیکن منطق کی اصطلاح میں ’ پیالہ ہے صغریٰ ‘ قضیہ صغریٰ ہوا اور ’ سبو ہے کبریٰ ‘ قضیہ کبر یٰ ہوا ۔ پیا لہ اور سبو دونوں ظر ف ہیں اس لیے اس کو حداوسط سمجھ لیا جائے ۔دوسرے مصرع میں حد اوسط گر ا کر کے نتیجہ جو نکالتے ہیں اس سے بادشاہ بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ جس کے حصہ میں جو بھی آیا خواہ صغیر ہو یا کبیر سب کے سب آپ کے کر م سے مست ہیں ۔ الغرض اس قصیدے میں کئی ایسے اشعار ہیں جن پر خود قصیدہ کو فخر ہے ۔

اس بات کا ذکر ہوچکا کہ ’کلام الملو ک ملوک الکلام ‘ لیکن اگر کلام انسانی کی بات کی جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ قصیدہ بھی ملوک الکلام ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ قصائد کو ہی ’ سبعہ معلقہ ‘ ہو نے کا شر ف حاصل ہوا ہے ۔اگر ملوک الکلام ( قصیدہ ) کے ساتھ ملوک الارض والسماء ( اللہ ) کا کلام بھی نگینوں کی طرح جڑ کر خوبصورتی کے ساتھ دعا کے حصے میں پیش کیا جائے تو پھر کیسے کوئی اپنے خزانے کو روک سکتا ہے : 

مصحف رخ ترا اے سایہ رب العزت  کھول دے معنی اتممت علیکم نعمت 

ذوق کے قصائد کے متعلق ناقدین کی رائے دو خانوں میں ہے ۔ ایک جنہوں نے ذوق کو اچھا قصیدہ گو شاعر ما نا ہے۔ وہ برج موہن دتاتر یہ کیفی، تنویر احمد علوی، انوار الحسن اور ابو محمد سحر ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق معمولی قصیدہ نگار کی رائے قائم کی ہے ان میں امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد اور پر وفیسر عبدا لحق ہیں ۔ امداد اما م اثر لکھتے ہیں: ’’ مر زا رفیع سودا کے بعد قصیدہ گوئی میں شیخ ابراہیم ذوق کا ہی نمبر ہے ۔ مگر ان دونوں شاعران نامی میں پہاڑ اور ٹیلے کا فر ق ہے ۔ذوق میں ایک ربع بھی سودا کی طبیعت داری نہیں ‘‘ ۔ ابو محمد سحر لکھتے ہیں ’’ علمیت اور معنی آفرینی میں ذوق کے قصائد خاص امتیاز رکھتے ہیں ۔ علمیت کی کار فرمائی ان کے قصائد میں سودا سے زیادہ ہے ‘‘ ۔ یہ دونوں طر ف کی باتیں ہوگئیں ۔آپ نے تو علمیت کی کار فرمائی میں ذوق کے قصائد کے اشعار تو ملاحظہ کر لیے اب سودا کے اشعار سے بھی حظ اٹھائیں ۔

جبیں ایسی کہ جگر کا ماہ ہوجاوے داغ  اس کی تشبیہ سے جب ا س کو تجاوز دے فلک 

قتل کرنے کا یہ جوہر نہ ہو شمشیر کے بیچ  اس کے ابر و سے مشابہ نہ بناویں جب تک

سو داؔ 

تشبیب کے ان اشعار میں سودا نے جن شاعرانہ صناعی ، مبالغہ، رعایتوں ، مناسبتوں اور لفظی انسلاکات کو برتا ہے وہ ذوق کے یہاں نہیں ہے تا ہم تقلید بھی نہیں : 

نگاہ ساغر ، کش ِ تما شا،بیاضِ گر دن صراحی آسا وہ گول بازو، وہ گورے ساعد ، وہ پنجہ رنگیں بخونِ مرجان

کمر نزاکت سے لچکی جائے کہ ہے نزاکت کا بار اٹھا ئے  اور اس پر سو نور لہر کھائے پھر اس پہ ہیں دو قمر فروزاں 

فر ق آپ کو واضح نظر آئے گا ان میں مزید کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔ بات صرف تشبیب تک ہی رہی تا ہم اپنے اس مضمون کو کو ثر مظہر ی کے ان الفاظ سے ختم کر تا ہوں ’’ ضر ورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ دیکھا ، پڑھا اور پرکھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصیدہ میں سودا بڑا اور غزل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قرات اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ‘‘ ( شیخ محمد ابرا ہیم ذوق ، کوثر مظہر ی ، ص ۶۰ ) 

ِAmir Hamzah 

L 11, Second Floor, Haji colony

Jamia Nagar, New Delhi .110025

8877550086

Saturday 9 February 2019

شبلی خود نوشتوں میں

شبلی خود نوشتوں میں

مصنف : ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی 

آج کے مصروف تر ین دور میں کسی بھی ایک ڈگر پر چلنا بہت ہی مشکل اور صبر آزما امر ہوتا ہے ، لیکن رفتار زمانہ نے تخصصات  کے ٹیگ کو بہت ہی قیمتی بنا دیا ہے اور متخصصین کی اہمیت مسلم سمجھی جاتی ہے ۔اردو میں بہت ہی کم مصنفین ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی قلمی زندگی کو کسی ایک موضوع یا شخصیت کے لیے وقف کر دیا ہو یافی زمانہ کسی کی شخصیت پر کوئی ایک ہی فرد تخصص کے درجہ پر فائز ہو ۔ البتہ یہ دونوں ہی کیفیتیں ڈاکٹر الیاس الاعظمی کے یہاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اب تک مطالعات شبلی پربارہ قیمتی کتابوں سے اردو دنیا کو نوازا ہے اور فی زمانہ شبلیات میں ان کی شناخت اہمیت کی حامل ہے ۔

کسی بھی شاعر ، مصنف ، محقق ، ناقد ، مؤرخ اور کہانی کار کے فن یا شخصیت پر کس کس نوعیت سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے اس کی ایک مثال اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعدسامنے آگئی ۔ اس قسم کا انوکھا کام (تحقیقی و تجزیاتی ) اب تک کسی اور کے سلسلے میں شاید نہیں کیا گیا ہے ۔ہاں تذکرہ نویسی کے مطالعات میں یہ بات نظرآتی ہے۔ اس عہد میں شاعر وں کے متعلق مختلف تذکرہ نویسوں کی مختلف آراء پیش کی ہیںتو بعد کے محققین نے تلاش وتحقیق کے بعد پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ مصنف نے شبلی سے متعلق جو کتاب پیش کی ہے وہ یقینا اپنے موضوع اور وسعت مطالعہ کے اعتبار سے منفرد ہے ۔ اس تعلق سے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ’’ الیاس الاعظمی نے ایک بالکل نیا موضوع دریافت کیا ہے …یہ موضوع کچھ ایسا غیر متعین سا ہے کہ اس کا نہ کوئی نقطۂ آغاز ہے اور نہ نقطۂ انجام‘‘۔ ایسے مطالعوں کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ مصنف ہمعصر علماء ، متعلقین و منتسبین سے واقف ہو نے کے ساتھ ساتھ ان کی خودنوشتوں پر بھی گہری نظر رکھتا ہو، جیسے اگر شبلی سے متعلق کوئی رطب یابس بات لکھی گئی ہو تو دیگر متعلقین کی تحریروں سے اس سے متعلق  تحریروں کا سراغ لگانا اور لکھی گئی بات کے سیاق و سباق کا بھی علم ہونا چاہیے ورنہ بے بنیادواقعات والزامات پر گفتگو کر نا صاحب کتاب کے لیے مشکل ہوجائے گا ۔

مصنف نے اس کتاب کے لیے تلاش و جستجو اور اپنی بھر پور کو شش کے بعد چوبیس ایسی خود نوشتوں کو تلاش کیا جن میں شبلی کا ذکر کسی نہ کسی طور ضرور ہے ۔ صا حب خود نوشت یاتو شبلی کے محسن و قدر شناس ہیں یا معاصر و رفیق ،شاگرد و متاثر یا پھر ان کے علمی وادبی خوشہ چیں ۔ اس کتاب میں شامل پہلی خود نوشت نواب سلطان جہاں بیگم کی ’’ اختر اقبال ‘‘ میں شبلی سے متعلق تین مسلسل تحریریں ہیں جو سیرت النبی کی تصنیف و تالیف اور طباعت و اشاعت سے متعلق ہیں ۔میر ولایت حسین کی ’’ آپ بیتی ‘‘ میں شبلی کے علی گڑھ کے زمانہ کا ذکر ہے ۔ مصنف الیاس الاعظمی نے اس میں ایک اہم بات یہ بھی لکھی ہے کہ ’’ علامہ شبلی ہندوستان کے کسی کالج کے پہلے پروفیسر تھے جنہوں نے تعلیمی جائزے کے لیے بیرونِ ملک سفر کیا ‘‘۔ مولانا عبدالرزاق کانپوری کے ’’ یاد ایام ‘ ‘ میں شبلی سے متعلق تعریف و تنقیص کی باتیں ہیں جن کا تجزیہ مصنف نے بہت ہی خوش اسلوبی سے کیا ہے ساتھ ہی ایک آدھ مقام پر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ’’ یاد ایا م ‘‘ کی ان باتوں کو ذکر کر دینا چاہیے تا کہ تجسس ختم ہوجائے اور قاری ’’ یاد ایام ‘‘ کے فراق میں نہ رہے ۔نواب سید محمد علی حسن خاں کے ’’ تذکرہ ٔ طاہر‘‘ میں شبلی سے متعلق ذاتی و ملی معاملات کا ذکر ہے ۔سید ہمایوں مرزا کی ’’ میری کہانی میری زبانی ‘‘ میں شبلی کے حیدرآباد قیام کے دوران علمی سر گرمیوں کا ذکر ہے ۔ شیخ محمد عبداللہ عرف پاپا میا ں کے ’’ مشاہدات وتاثرات ‘‘ میں شبلی کے متعلق علمی عقید ت و تاثر ات  کے ساتھ مشاہدات و معاملات کا ذکر بھی ہے ۔خواجہ حسن نظامی کے ساتھ شبلی کے جو تعلقات رہے ان کا ذکر ان کی ’’آپ بیتی ‘‘ میں صرف ایک مقام پر ہے لیکن مصنف نے خواجہ صاحب اور شبلی کے تعلقات کو دیگر مصنفین کی تحریروں سے اجاگر کیا ہے اور ان کے تعلقات میں جوہمدردی اوربے تکلفی تھی ان کا ذکر کیا ہے۔ شبلی کے چنند ہ شاگر دوں میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر ہیں ،ان کی ’’میر ی زندگی ‘‘ میں بھی شبلی کا ذکر ایک استاد اور علم وادب کے سمندر کی حیثیت سے ہے جس سے اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ شبلی علی گڑھ کی شان تھے ۔سر رضا علی علی گڑ ھ کے نامور فرزند وں میں سے تھے انہوں نے اپنی خود نوشت ’’ اعمال نامہ ‘‘ میں شبلی کو بطور ناقد کے پیش کیا ہے ۔مولانا ابوالکلا م آزاد نے ’’ تذکر ہ‘‘ اور ’’ آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی ‘‘ میں بھی شبلی کا بھر پورذکر کیا ہے جو تقریباً تعلیم وتعلم اور علمی مسائل پر مبنی ہیں ۔ان تمام کے بعد ملا واحدی، مولانا عبد الباری ندوی، مو لانا ضیاء الحسن علوی ، مولانا عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی ، مرزا احسان احمد ، ظفر احسن بیگ ، مولانا سعیداحمد اکبرآبادی ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا مجیب اللہ ندوی، حافظ نذر احمد ، پروفیسر ریاض الرحمن شروانی اور مولانا اعجاز احمد اعظمی کی خود نوشتوں میں بھی شبلی کا ذکر ہے ۔مذکورہ اشخاص کی علمی و ادبی شخصیت کو نکھارنے میں شبلی کی تصنیفات نے جس تحریک یا ٹانک کا کام کیا ہے ان تمام کا ذکر عقید ت مندانہ انداز میں ہے ۔ الغرض اس کتاب میں شامل خود نوشت معاصر کے ہیں، شاگر دوں کے ہیں اور علمی سیرابی حاصل کر نے والوں کے بھی ۔ موجودہ عہد میں بھی کوئی نہ کوئی شخصیت ہوگی جس کی تعمیر میں شبلی کی کتابوں نے نمایاں رول ادا کیا ہو اور اس کا ذکر وہ اپنی خود اپنی نوشت میں کردیں اس سلسلے کا اختتام کہاں ہوگا وہ نامعلوم ہے ۔

الغر ض یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں شبلی سے متعلق بہت کچھ ہے اور دوسروں کے لیے رہنمائی بھی ۔ یہ کتاب جب ایک عمدہ نمونہ کے طور پر سامنے آچکی ہے تو امید ہے کہ دیگر اساطین ِعلم و ادب پر بھی ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں گی جس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ خود نوشتوں کا مطالعہ بڑھ جائے گا اوردوسرا یہ کہکسی بھی شخصیت کی ذات اور خدمات کے احاطہ کے لیے نئے دریچے کھلیں گے ۔

امیر حمزہ

Sunday 9 December 2018

اردو میں ریسر چ : مسائل اور وسائل

جب ہم کسی بھی موضوع پر ریسر چ  اور تحقیق کا ارادہ کر تے ہیں تو ہمارے پاس اس موضوع سے متعلق مسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں، اگر نہیں بھی ہوتے ہیں تو ہمیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکا لنے ہوتے ہیں. اور اگر یہ پہلو بھی باقی نہیں رہتا ہے تو ہمیں اس  موضوع سے متعلق مختلف زاویۂ فکر اختیار کر نا ہوتا ہے تب جاکر ہم اس موضوع پر قلم اٹھا تے ہیں اور مزید مطالعہ کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ پہلے پہل جب ہمیں مجوزہ خاکہ تیا ر کر نا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ مسائل پر مر کوز ہونا پڑتا ہے. مسائل کے استنباط کے وقت اچھے سےاچھا ریسرچر بھی مشکل سے دس مسائل پیش کرانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں جو اس وقت اس کے خود کے ذہن کی اپج ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت مسائل کی شناخت کاادراک بہت ہی کم  ہوتا ہے جتنا بھی ہوتا ہے اس کا اظہار کر دیتا ہے. پھر ریسرچ اسکالر اس موضوع پر اپنی تحقیق کاسفر شروع کر تا ہے۔ لیکن جب سفر شروع کر تا ہے تو ایک ہوش باش ریسر چر کے لیے مسائل کے انبار لگنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ کس طر ح ہوتے ہیں اس کا ایک ہلکا سا نمونہ اپنے اس مختصر سے مضمون میں پیش کر نا چاہوںگا ۔

واضح رہے کہ کسی بھی صنف کی تاریخی آغاز و ارتقاء اور ہیئتی شناخت ہر سندی مقالہ کے لیے ایک تحقیق طلب امر ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر سندی مقالات میں آپ کو پہلا باب اگر شخصیت پر ہے تو شخصیت و زندگی اور اگر اصناف پر ہے تو ناول آغاز و ارتقا ء، افسانہ آغاز و ارتقاء اور ان جیسے عنوانات آپ کو دیکھنے کو ملیں گے تو اسی طرح کا ایک عنوان سامنے آتا ہے رباعی آغاز و ارتقاء۔ اس موضوع پر تحقیق میں کتنے مسائل آتے ہیں اس پر نظر ڈالتے چلتے ہیں ۔

جب ہم رباعی کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے لیے اردو کی اہم کتابوں کا انتخاب کر تے ہیں تو ان میں سے ایک ڈاکٹر سلام سندیلوی کی’’ اردو رباعیات ‘‘ اوردوسر ی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ’’ تاریخ اردو ارباعی ‘‘ سامنے نظرآتی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں جو بحث شروع ہوتی ہے وہ رباعی کی ایجاد سے ہوتی ہے ۔ طالب علم ان دونوں کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد یاتو اپنی تحقیق کو سمیٹنے کی کوشش کرے گا یعنی ان کتابوں سے جو فائدہ اٹھا یا ہے اسی کو اپنے مقالہ میں اپنے انداز سے رقم کرے گا یا ہمت کر ے گا کہ رباعی کی ایجاد کے سلسلے میں ان کتابوں میں جن لوگوں کے نام جو آرہے ہیں ان اسماء کی Decoding کی جائے تو وہ پھر آگے کی جانب قدم بڑھا ئے گا ۔ لیکن مراجعت کے لیے قدم کس کتاب کی جانب بڑھا ئے گا وہ یہی سوچے گا کہ ان دونوں کتابوں میں اردو کے جن قدآور لوگوں کی کتابوں سے بحث کی گئی ہے اس پر نظر ڈالنی چاہیے تو وہ اردو کے عظیم محققین سید سلیمان ندوی اور حافظ محمود شیرانی کی جانب قدم بڑھا ئے گا ساتھ ہی شبلی کی شعر العجم پر بھی نظر جمائے گا ۔

اب اس کے سامنے کل پانچ کتابیں ہوگئیں۔ ان پانچوں کتابوں سے وہ مطالعات کے سمندر میں ڈوب جائے گا یا ان ہی معلومات کے سمندر حامل کتابوں سے اپنے مقالہ کو سنوارنے کی کوشش کرے گا ۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے اکثر صورتحال ایسی بن جاتی ہے کہ ریسرچ اسکالر ہوں یا کوئی اور وہ ان ہی پے چیدگیوں میں الجھ کر رہ رجاتا ہے اور اپنی تحقیق سے بالآخر یہی ثابت کر تا ہے کہ رباعی کی تاریخ رودکی سے شروع ہوتی ہے اور رباعی کے اوزان کا خالق عجم ہے ۔ اکثر کا ایمان اسی پر یقین کو پہنچتا ہے ۔لیکن بعد میں کچھ محققین حافظ محمود شیرانی اورشمس قیس رازی کے اس مستحکم فیصلے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ کر کچھ اور کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔اب تحقیق کے جو اہم جراثیم ہو تے ہیں وہ اس کے اندر متحرک ہوتے ہیں یعنی شک کا جر ثومہ ۔

لیکن اس شک کی غذا کی تکمیل کے لیے یعنی مسئلۂ درپیش کے حل کے لیے اس کو سب سب پہلے جس وسیلہ کو اختیار کر نا ہوگا یا تو اس کے پاس پہلے سے موجو ہوگایا پھرزیادہ محنت کی وجہ سے پیچھے قدم کھینچ لے گا یعنی فارسی زبان کا جاننا کیو نکہ ان پانچوں کتابوں میں جو اقتباسات مذکور ہیں وہ فارسی زبان میں ہی ہیں اور اکثر کا تر جمہ بھی مرقوم نہیں ہے ۔ جس عہد میں یہ کتابیں لکھی جاتی تھیں اس زمانہ میں اس زبان سے ہر پڑھا لکھا واقف ہوتا تھا ۔ویسے فارسی زبان سے نابلد ہو نے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ یونی ورسٹیز کو ریسرچ کے لیے ایک نیا ٹاپک مل گیا فرہنگ نویسی کا، کہ اب غبار خاطر سے لیکر دواوین شعرائے قدیم تک کی فرہنگ نویسی یونیورسٹیز میں ہو رہی ہے. 

خیر ہم اپنی گفتگو آگے لے کر چلتے ہیں ۔ سلام سندیلوی سب سے پہلے رباعی کی ایجاد کے سہرا میں سید سلیمان ندوی کا دعویٰ پیش کر تے ہیں کہ رباعی عربی النسل ہے اور اس کی تائید میں ندوی صاحب نے جو عبارت ’’الخیام ‘‘ میں ’’المعجم فی معاییر اشعارالعجم‘‘ (۶۳۰ھ تاریخ تکمیل ) کے حوالے سے ذکر کی ہے وہ رقم کر تے ہیں ۔فورا ً بعد ان کے جواب کے طور پر تفصیلی ذکر محمود شیرانی کا کر تے ہیں کہ گویا ان کے وکیل کے طورپر خود کو تیار کر تے ہیں اور محمود شیرانی کی رائے کو ذکر نہ کر کے اور نہ ہی انہوں نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کا کا ذکر کر تے ہیں. بلکہ تنقید شعر العجم میں انہوں نے جو لکھا ہے اسی کو سلیمان ندوی کے عربی کے مر بع الاجزاء کے جوا ب میں فارسی سے رودکی کے ایک معقد قطعہ نقل کر تے ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی یہ ہوتی ہے کہ سلیمان ندوی اپنی دلیل شمس قیس رازی سے لاتے ہیں اور محمود شیرانی خود کو شمس قیس رازی کے برابر لے جاتے ہیں ۔ بلکہ دوسری نظر سے دیکھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سلیمان ندوی کے سوال کا جواب محمود شیرانی نے جو دیا ہے وہ نہ دیکر خود دے رہے ہیں۔ اس طر یقے سے سلام سندیلوی صاحب دونوں حضرات کے سوالات و جوابات کوپیش کر تے چلے جاتے ہیں اور اپنا حکم اس انداز میں صادر کرتے ہیں کہ ’’ پروفیسر محمود شیرانی کے دلائل ان کے حوالوں اوردیگر کتب کے اقتباسات سے بات واضح ہوگئی کہ رباعی ایران زا ہے اور عرب میں اس کی تخلیق نہیں ہوئی ہے‘‘ ۔

اسی طر ح فرمان فتحپوری بھی لکھتے ہیں ’’ رباعی خاص ایرانیوں کی ایجاد ہے ۔ ہمارا خیال ہے اس امر میں اردو فارسی کے تمام محققین متفق ہیں۔  اور اس کی تائید میں انہوں نے دس بڑے بڑے لوگوں کا قول بھی ذکر کیا ہے ۔
اب طالب علم ان دو اہم کتابوں کے مطالعہ سے فیصلہ کر بیٹھتا ہے کہ یہی قولِ فیصل ہے لیکن ابھی الخیام پڑھنا باقی ہے اور مقالات شیرانی بھی ۔وہ بھی اردو میں ہیں، اس میں بھی مآخذ فارسی اور عربی سے ہیں اور بلا تر جمہ ۔ اب تک فارسی شانہ پر بھاری پڑ رہی تھی اب عربی سے بھی گر دن بھاری کرنی پڑے گی اگر آگے کا کچھ سو چتے ہیں تب ،نہیں تو پھر یہیں پر آمنا وصدقنا ۔

چلیے پھر بھی دلائل و شواہد کی قلابازیاں دیکھتے ہیں اور ایک ریسر چ اسکالر ہونے کے ناطے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لطف اندوز ہونا اس لیے کہ اس کا تعلق خالص ریسر چ سے ہوتا ہے ۔ریسرچ اسکالر کو اگر شواہد اور دلائل میں لطف نہیں آرہا ہے تو پھر ریسرچ میں بھی لطف نہیں آرہا ہے اور ریسرچ اس کے لیے گردن کا ایک بوجھ ہے ۔

اس امر میں سب سے پہلے جس اقتباس کا ذکر تمام لوگ کر تے ہیں اس میں ایک جملہ کچھ اس طرح ہے کہ ’’ یکے از شعرائے عجم پندارم رودکی واللہ اعلم ‘‘ یہیں دو مجہول لفظ ’ پندارم‘ اور ’ واللہ اعلم ‘ جیسے لفظ کا استعمال آگے کی ساری کڑیوں کو مشکوک کر دیتا ہے ۔پھر اسی اقتباس میں رباعی کے کئی نام کا ذکر ملتا ہے۔ ابھی تو یہ صنف شروع بھی نہیں ہوئی ہے کہ اس کے نام چار بیتی ، دوبیتی ،ترانہ اورر باعی پہلے سے کیسے ملتے ہیں ۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رباعی کے اوزان عجم کے ایجاد کر دہ ہیں تو پھر خلیل بن فراہید نے کتنے اوازان جمع کیے تھے کیا ہزج ان میں سے نہیں ہے؟  یا عجم سے پہلے بحر ہز ج میں کسی نے شاعری نہیں کی تھی ؟ چلو مان بھی لیا جائے کہ فارسیوں کی ایجاد ہے۔ پھر رباعی کے جملہ اوزان میں سے ’’ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘کیا فارسی مصر ع ہے ۔یا شاید بعد میں اس کو رباعی کے لیے ترازو بنا لیا گیا ہو۔ لیکن شروع سے ہی فارسی کی کتابوں میں یہ مستعمل کیوں ملتا ہے ؟چلیے رباعی کے وزن کو کسی ایک کاوزن نہیں مانتے ہیں جیسا کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے اور پروفیسر پرویز ناتل خانلری کہتے ہیں’’ ایں وزن از تودہ ٔ مردم فارسی زبان اقتباس گردیدہ‘‘ یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ وزن رودکی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ کثیر فارسی شعرا کی مشق کا نتیجہ ہے جس کے وجود میں آتے آتے زمانہ لگ گیا ۔ یہ تو جواب اخر ب و اخرم کے حوالہ سے دیا جاسکتا ہے جو رباعی کے چوبیس اوزان کو دو حصوں میں تقسیم کر تا ہے۔ لیکن سلیمان ندوی نے قیس رازی سے پہلے کی جو مثالیں پیش کی ہیں ان کے مآخذ تک پہنچ کر دیکھا جائے کہ کیا حقیقت میں رباعی کے اوزان یا رباعی جیسی صنف عربی میں پہلے سے موجو د ہے اور ’’ لم اکن سمعت علی ہذہ الطریقۃ من الرباعیات‘‘ جو حسن باخرزی متوفی (۴۶۸ھ) کی کتاب ’’ دمیۃ القصر‘‘ میں اپنے والد کے حوالے سے بات کہی گئی ہے جس کا ناقص ترجمہ کر کے محمود شیرانی نے رباعیات سے ہی انکار کیا ہے ؟ کیا ایسا ہی ہے یا کچھ اور ہے ؟بہر حال جب کوئی طالب علم تحقیق کو آگے بڑھاتا ہے تو حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے اور رباعی کے اوزان کے سراغ عربی میں ملنے شروع ہوجاتے ہیں وہ بھی عہد عباسی کے شروع سے(۱۳۲ھ)۔ کلثوم بن عمر العتابی جس کا سلسلہ نسب جاہلیت کے بڑے شا عر عمر بن کلثوم سے ملتا ہے ان کا ایک موالیا ہے جو رباعی کی شکل میں ہے
یا ساقیا خصنی بما تہواہُ
لا تمزج اقداحی رعا ک اللہ 
دعہا صرفاً فاننی امزجہا
اذ اشربہا بذکر من اہواہ 

یا ساق  ی َخص صنی بما تہوا ہُ لا تمزج اقداحِ رعا ک لا ہُ
مفعول مفاعلن مفاعیلن فع مفعولن مفعولُ مفاعیلن فع 

دعہا صر فاً فان ننی امزَ جہا اذا شرِ بہا بذک رِ من اہوا ہ 
مفعولن فاعلن مفاعیل فعل مفعول مفاعلن مفاعیلن فع

اس طریقے کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جس سے نہ صرف رباعی کے مختلف اوزان پر شاعری ملتی ہے بلکہ ملتی جلتی ہیئت بھی نظرآتی ہے ۔ ورنہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، کے علاوہ بیس سے زائد مکمل آیتیں ایسی ہیں جو اخر ب و اخرم کے اوزان پرہیں ۔ اگر چہ قرآن پاک شاعری نہیں ہے لیکن یہ بھی یادرکھیے کہ تمام لغویین ، صرفین ، نحوین ومعانی و بیان کا مرجع قرآن پاک ہی ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ تمام علوم کا مرجع ہے تو بے جانہ ہوگا اور خصوصی طور پر تانیثیت کا ذکر کروں گا کہ عورتوں کی حقوق پر بات کر نے والی سب سے پہلی اگر کوئی کتاب ہے تو وہ قرآن پاک ہے۔ میں اس لیے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ میں مولوی نما شخص آپ کے سامنے ہوں بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ  محقق کو اصل ماخذ ِ فکر تک پہنچنا ہوگا خو اہ اس کا تعلق کسی بھی زبان ، ملک ، مذہب و ملت سے ہو۔ ان تمام اشیاء کو پیش کر نے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک ریسرچ اسکالر کو مسائل تخلیق کرنے والا ہونا چا ہیے اور اصل متن تک پہنچنے والا ۔

اب ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ روٹ تک پہنچنے کا جذبہ تو سب کا ہوتا ہے لیکن داخلی اور خارجی مسائل ایسے ہوتے ہیں یا تو پہنچنا نہیں چاہتے ہیں یا پہنچ سکتے ہیں لیکن حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی کمی ہوتی ہے ۔ ہما رے جدید محققین و ناقدین کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ روٹ تک پہنچنے سے پہلے انگریزی کو ہی روٹ سمجھ کر اس کو فکر ی منبع قرادے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے منبع العلوم ہی اٹھا لیا ۔ اس سلسلے میں اپنا ایک تجر بہ بیان کر تا ہوں گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ایک وکیل جن کو ادب سے گہرا شغف ہے اور اقبالیات ان کا میدان نقد و تحقیق ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹا اپنے موبائل میں Meaning of Meanings  کی تھیوری تلاش کر نا جو آئی ، اے ،رچرڈس کی ہے ۔ یعنی نظریہ معنی المعنی ۔ میرے دماغ میں اچانک ایک بات آئی کہ یہ نظر یہ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق تو صنائع و بدائع سے لگتا ہے البتہ انہوں نے  اس کے ہزار ہا پرت کھول لیے ہوں گے تو اس کو ایک نظر یہ کا نام دے دیا گیا اگر چہ صنائع و بدائع کا تعلق زبان کے معانی کو مختلف پرت میں دیکھنے کا ہی نام ہے ۔ تو میں نے اس کو عربی میں تلاش کیا اور عبدالقاہر جر جانی کے یہاں مل گیا جو’’ دلائل الاعجاز‘‘ میں موجود ہے ۔

 اس طر یقے سے اردو کے سامنے کئی چیزیں آتی ہیں جو اب مغرب کے راستے سے آرہی ہیں لیکن اب ہمارے روٹ کو ڈائیورٹ کر دیا گیا ہے ۔ کسی بھی موضوع پر تحقیق کو ہی لے لیجیے سپر وائز ر اس کے روٹ تک پہنچنے دیتا ہے یا نہیں ۔ اگر دیتا ہے تو پھر وہ مطالعہ کی آزادی کے ساتھ کن کتابوں کو مینشن کرنا ہے اس کی بھی آزادی ملتی ہے یا نہیں ۔وہ اس طر یقے سے کہ کوئی طالبہ کسی شہر میں  تانیثیت پر کام کر رہی ہے یا کوئی طالب علم جدید ناقدین پر کام کر رہا ہے تو اب ایک ریسر چ اسکالر کے سامنے یہ بات بہت کٹھن ہوتی ہے کہ وہ جن جن اشخاص کو شامل کرر ہا ہے کیا وہ اس میں کامیا ب ہوپائے گا یا قینچی چل جائے گی اور پسند کے لوگو ں کی کتابوں کو تھوپ دیا جائے گا ۔اسی طریقے سے تانیثیت پر جس شہر میں کام ہورہا ہے تو اس شہر کے مصنفین کی کتابوں کا اقتباس نقل کر نا تقریبا ً لازمی جز سمجھیے. وہ اس سے بچ نہیں سکتی یا سکتا خواہ وہ دوسرے شہر میں قیام پذیر مصنف کو شامل کرے یا نہ کرے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔یا جس کے ماتحت کر رہا ہے تو اس کی کتابوں سے فائد ہ اٹھانے کواشارتاً ہی کہا جائے گا یا طالب علم اپنے مستقبل کو دیکھتے ہوئے ضرور اس کتاب کے صفحہ در صفحہ اقتباسات کی شکل میں نقل کر نے کو مجبور ہوگا خوا ہ تحقیق کسی بھی ڈگر پر چلی جائے اور صورت مسئلہ ہی واضح نہیں ہوسکے ۔

کسی بھی بڑی یونی ورسٹی میں ریسرچ میں داخلہ کے بعد شعبہ کے پوشیدہ اصول پر نہ چاہ کر بھی عمل کر نے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور طالب علم محسوس و لامحسوس طریقے سے اس چیز کا شکار  کب ہوجاتا ہے اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے ۔
خاتون ریسر چ اسکالر کی بھی کئی پریشانیاں ہوتی ہوں گی بلکہ ماضی سے تا حال فوقیت و عدم فوقیت کے رد عمل میں کہیں کہیں سے بھنک لگتی ہی رہی ہے کہ کوئی خاتون ’’ جمال حوریہ‘‘ کی حامل تھی تو باطنیت پر ظاہریت کو فروغ دیا گیا ۔ اگر وہ جمال ِ حوریہ کے ساتھ’’ حسن لاممسوس‘‘ کی بھی مالک ہے تو ناگفتہ بہ آثار وخواہشات کی وجہ سے ڈپریشن کی شکار بھی پائی گئی ہے جس کا اثر کیرئیر پر بھی پڑا ہے اور پڑتا ہے ۔ اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جن کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ ساری چیز یں بدلنے والی نہیں ہیں ہم جب اس مقام پر پہنچیں گے تو شاید کئی گنا اور زیادہ مسائل ہوں ۔ ان تمام کا حل صر ف یہ ہے کہ لکھنے اور پڑھنے کی آزادی کا ماحول بنایا جائے ۔ ٭


امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی
8877550086

Saturday 8 December 2018

این سی ای آر ٹی کی اردو نصابی کتب میں گرامر کا مختصر جائزہ

دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں سب کی اہمیت مسلم ہے تاہم سب زبانیں مضبوط و مستحکم نہیں ۔زبانوں کے استحکام کے کئی اسباب ہوتے ہیں ان میں سے ایک سبب گرامربھی ہے ۔جو زبانوں کوصحت اور حسن و خوبصورتی کے سانچے میں سموئے رکھتا ہے اور خارجی و داخلی خرابیوں سے مدافعت کی بھر پور قوت عطا کرتا ہے ۔قواعد یا گرا مر لکھی ہی اس لیے جاتی ہے کہ زبان کو حسن کی لڑی میں پرو کر بکھرنے سے روکا جائے ۔
زبان کی تعلیم کے ساتھ ایک اہم سوال ذہن میں وجود پاتا ہے وہ یہ کہ جو نصابی کتب تیار کی جا تی ہیں اس کو ہم تین زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔اول یہ کہ وہ صاحب زبان کے لیے ہو ، یعنی وہ اردو بولتے ہوں لیکن پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے ہوں ۔ دوم یہ کہ اردو زبان سمجھتے ہوں لیکن بولنا اور نا ہی لکھنا اور پڑھناجانتے ہوں ۔ سو م یہ کہ وہ اردو سے بالکل ناواقف ہوں اور ایک دوسری زبان کی توسط سے اردو سیکھنا چاہتے ہوں ۔ان حوالوں سے مجھے لگتاہے کہ NCERT میں اردو کا یہ نصاب ابتدائی دونوں قسم کے طلبہ کے لیے تیار کیا گیا ہے نہ کہ غیر زبان دانوں کے لیے۔ ہر سبق کی تر تیب و تنسیق میںکمیٹی کے اصول کی پابند ی رو بہ عمل لائی گئی ہے۔ سبق میں جو متن پیش کیا جاتا ہے اس کا اس درجہ میں پڑھنے والے طلبہ کے ذہن کے مطابق ہونا ضروری ہوتا ہے ۔جتنا متن کا مناسب ہونا ضروری ہوتا ہے اتنا ہی متن کے بعد جو مشق دیا جاتا ہے اس کا بھی سبق سے اور اس میں شامل متن سے مناسب ہونا ضروری ہوتا ہے ۔اس نصاب کے تمام اسباق میں متن کے بعد مشق میں سوالات بھی ہیں اور جوابات بھی، جوڑے ملانا بھی ہے ، غلط کو صحیح لکھنا بھی اور املے کی اصلا ح بھی ہے ۔ ان تمام کے ساتھ تیسرے درجے کی کتاب سے گرامر بھی ہے جسے اتنا آسان اور سہل طریقے سے پیش کیا گیا ہے کہ بچے کھیل کھیل میں سیکھے سکیں اور ان کے شعور میں وہ بات محفوظ ہوجائے انہیں رٹنے کی ضرورت نہ پیش آئے ۔ اس پورے مضمون میں صرف اسی ایک جز(زبان و قواعد) پر نظر ڈالٹے ہویں اور دیکھتے ہیں کہ اس مکمل سیریز میں زبا ن کو سیکھنے کے لیے قواعد کی جانب کس قدر توجہ دی گئی ہے اور ایک سبق اور دوسرے سبق ، ایک کتاب اور دوسر ی کتاب کے درمیان قواعد کو کسی طر ح پیش کیا گیا ہے اور ترتیب و مشق میں اس کو کس طر ح برتا گیا ہے۔ اس پر نظر ڈالنے سے پہلے ہم ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو دسویں درجہ کی کتاب ’’ قواعد وانشاء‘‘ کا حصہ ہے :
’’قواعد کا علم ہمیں صحیح او رغلط کی آگہی فراہم کرتا ہے اور یہ بھی سکھاتا ہے کہ لفظوں کی تشکیل کیسے عمل میں آتی ہے ۔ تحر و تقریر کو پر اثر اور پر معنی بنانے کے لیے قواعد کے مختلف وسائل کو کام میں لایا جاسکتا ہے ۔ قواعد کا علم اظہار کے متعدد پیرایوں کی طرف ہماری رہنمائی کر تا ہے ‘‘ (اردو قواعد و انشا، ص v) 
اب ہم شروع کرتے ہیں تیسر ے درجہ کی کتاب ’’ ابتدائی اردو ‘‘ سے ۔جس میں بیس اسباق ہیں ۔ ہرسبق کے بعد مشق کے حصہ میں ’’ پڑھیے سمجھیے اور لکھیے ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت اردو گرامر کا ذکر ہے ۔اس بیس سبق والی کتاب میں نئے گرامر ۹؍اسباق میں لکھے گئے ہیں اور باقی کچھ اسباق میں ان کی مشقیں ہیں یا ایک لفظ بڑھا کر مر کب لفظ بنا کر نئے معنی پیدا کر نے کی مشق ہے جیسے ’ دماغ ‘ میں ’بے‘ کا اضافہ کر نے سے ’بے دماغ ‘ بنتا ہے ۔ اب تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ۔
پہلے سبق میں قواعد سے متعلق کچھ نہیں ہے۔ دوسرے سبق میں وا حد اور جمع کی تعریف اور اس کی مشق ہے ۔تیسرے سبق میں واحد جمع کی مشق ہے ۔چوتھے سبق میں ’مذکر اور مؤنث کی تعر یف (نر کو کو مذکر اور مادہ کو مؤنث کہتے ہیں) اور اس کی مشق بھی ہے ۔ اس میں ٹیبل میں جو خصوصی طور پر مثالیں دی گئی ہیں وہ مذکر حقیقی اور مؤنث حقیقی کی ہیں ۔اگلے پوائنٹ میں لکھا گیا ہے ’’ بے جان چیزیں بھی مذکر اور مؤنث بولی جاتی ہیں ‘‘ اس کی مثال بھی پیش کی گئی ہے اس کے بعد ایک ٹیبل میں مشق کے تحت پانچ پانچ مذکرو مؤنث لکھنے کو کہا گیا ہے۔ جو اتفاق سے نظم میں جاندار مذکر و مؤنث ( حقیقی )نہیں سارے غیر جاندار مذکر ومؤنث(غیر حقیقی) ہیں ۔جدھر شاید تیسری کلاس کے بچے کاذہن جلدی نہ جائے ۔ پانچویں سبق میں اسم کی تعریف ہے اور ساتھ ہی اسم عام اور اسم خاص کی بھی تعریف مثال اور مشق کے ساتھ ہے ۔اس سبق کا بھی مشق محل نظر ہے تعریف اسم عام اور اسم خاص کی بیان کی گئی ہے اور مشق میں شخص کا نام ، جگہ کا نام اور چیز کا نام سات سات پوچھے گئے ہیں ۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تعریف سے مشق مطابقت نہیں رکھتا ہے کیونکہ تعریف اسم عام و خاص کی دی گئی ہے اور مشق میں شخص، جگہ اور چیز کا نام پوچھا گیا ہے جو اسم عام بھی ہو سکتا ہے اور اسم خاص بھی ۔ اس لیے مناسب تھا کہ صرف دو ٹیبل بنائی جاتیں اور اسم عام و خاص کو پوچھا جاتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دیے گئے لفظوں میں شخص کے نام صرف تین ہیں اور  سات خالی جگہوں میں بھر نا ہے ۔جگہ کے نام اتفاق سے سات ہیں اور سب کے سب اسم خاص ہیں کوئی بھی اسم عام نہیں اور بقیہ ہیں چیز کے نام جو سب کے سب اسم عام ہیں ۔گویا مشق تعریف سے مکمل طور پر مطابقت نہیں رکھتی ہے ۔ چھٹے سبق میں صرف ایک نوعیت کے واحد سے جمع بنانے کے قاعدہ کا ذکر مشق کے ساتھ ہے جیسے ’ خیال ‘ سے ’ خیالات ‘ وغیرہ ۔ ساتویں سبق میں مر کب لفظ کی مشق ہے جو دو لفظ سے مل کر ایک معنی والا لفظ بنتا ہے جیسے بے اور جان سے ’بے جان ‘ مردہ کے معنی میں ۔آٹھویں سبق میں فعل کی تعریف ہے اور مشق میں اسم کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔نویں سبق میں گرامر کا ذیلی عنوان نہیں ہے البتہ واحدجمع اور مذکر و مؤنث کی مشق ہے جس کی تعریف دوسرے اور تیسرے سبق میں بھی گزری ہے۔دسویں سبق میں اسم کی مشق ہے ۔گیا رہویں سبق میں صفت کی تعر یف اور مشق بھی ہے ۔لیکن جوڑے ملانے والا مشق تعریف سے پہلے آگیا جو تعریف کے بعد ہوتا تو شاید زیادہ مناسب ہوتا ۔بارہویں سبق میں صفت کی مشق دی گئی ہے ۔تیر ہویں سبق میں گرامر والے ذیلی عنوان میں ہم صوت الفاظ کا ذکر ہے اور واحد جمع کی مشق بھی ہے۔ چودہویں سبق میں اسم ، صفت اور فعل کی مشق ہے اور دو مفر د لفظوں کو ملا کر ایک مفر د لفظ بنانا ہے ۔پندرہویں سبق میں فعل ماضی کی تعریف اور مثال ہے۔ سولہویں سبق میں واحد جمع اور اسم کی مشق ہے ۔ یہاں ایک باریک نکتہ محل نظر ہے کہ گزشتہ سبق نمبر پانچ میں جب ہم اسم ، اسم عام اور اسم خاص کی تعریف اور مشق کا ذکر کرچکے ہیں تو پھر اس سبق میں صر ف مطلقا اسم کی مشق دیا جاتا ہے اگر اسم عام و خاص کا بھی ذکر ہوجاتا تو پانچویں سبق کی مشق کا حق ادا ہوجاتا ۔سترہویں سبق میں فعل حال کی تعریف اور مثا ل ہے ۔اٹھارہویں میں فعل مستقبل کی تعریف ساتھ ہی زمانے کے اعتبار سے فعل کی تینوں قسموں کا ذکر اور مثال ہے ۔انیسویں سبق میں گرامر کا کو ئی بھی جز نہیں ہے نہ سبق اور نا ہی مشق ۔ بیسویں سبق میں واحد ،جمع ،اسم، فعل اورصفت کی مشق ہے ۔
یہ بات بدیہی ہے کہ جس طر ح سبق کی تر تیب میں خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ابتدا میں ایک حرفی پھر دو، سہ و چہار حرفی لفظوں کو ترتیب میںرکھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد دو لفظوں کا جملہ ، تین چار اور پانچ لفظوں کے جملے والے اسباق کو ترتیب سے رکھا جاتا ہے اور مضامین کا بھی ترتیب میں خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔اسی طر ح سے گرامر میں بھی پہلے حرف ، لفظ ، جملہ پھر اسم ، فعل اور حرف کو بتلایاجاتا ہے جو یہاں مفقود ہے بلکہ اس چیز کا احساس ہوتا ہے کہ اس ابتدائی کتاب میں اسم اور فعل کے اقسام بچوں کے لیے بھاری ہو سکتے ہیں مناسب ہوتا کہ ترتیب اس طر ح اختیار کی جاتی حر ف ، لفظ اور جملہ کی محض تعریف ، مذکر و مؤنث کی تعر یف اور بعد کے مختلف اسباق میں اس کی مشق ۔مذکر و مؤنث کی تعریف ( جاندار و غیر جاندار) مختلف اسباق میں اس کی مشق ، اسم کی تعریف اس کے بعد کے سبق میں اس کی مشق ، فعل کی تعریف اسکے بعد کے سبق میں اس کی مشق ، حر ف کی تعریف اس کے بعد کے سبق میں اس کی مشق تاکہ ان بیس اسباق میں بچوں کے ذہن میں یہ بنیادی چیزیں محفوظ ہوجائیں ۔
اب بڑھتے ہیں چوتھے درجے کی کتاب ’’ ابتدائی اردو‘‘ کی جانب ۔ اس کتاب میں بائیس سبق ہیں ۔ اس کتاب میں ایک اہتمام یہ نظر آتا ہے کہ بچوں کی نفسیات کا خاص خیال رکھتے ہوئے گرامر کے جزئیات کو باکس میں پیش کر کے نمایاں کیا گیا ہے اور کنٹنٹ کے اعتبار تیسرے درجہ کی کتاب کو سامنے رکھیں تو اس کتاب میں ضمیراور محاورہ نئی چیز ہیں باقی چیزوں میں تکرار ہے جس کو ہم گزشتہ کتاب کا آموختہ کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا ۔اب فرداً فرداً ہر سبق کا جائزہ لیتے ہیں تو پہلے سبق میں متضاد ہ ، دوسرے سبق میں واحد جمع ، اور تیسرے سبق میں مذکرو مؤنث ہے ۔ چوتھے سبق میں مذکر و مؤنث اور متضاد الفاظ کی مشق ہے ۔پانچویں سبق میں مرکب لفظ بنانے اور واحد جمع کی مشق ہے ۔چھٹے سبق کا متن شیخ سعدی کی تین حکایتوں کا تر جمہ ہے جس میں ایک حکایت گرامر پر ہے اس سبق میں گرامر سے متعلق مذکر و مؤنث اور متضاد کی مشق ہے۔ساتویں سبق میں واحد جمع کی مشق ہے ۔آٹھویں سبق میں اسم عام اور اسم خاص کی تعریف بیان کی گئی ہے اور مشق بھی ہے ۔اتفاق سے مشق میں جو اٹھارہ الفاظ دیئے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی لفظ اسم خاص (معر فہ ) نہیں ہے سب کے سب اسم عام( نکر ہ) ہیں ۔ تیسرے سبق میں بھی اسم عام اور خاص کی مشق کے متعلق کچھ کم و بیش ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے ۔نویں سبق میں فعل کی تعریف اور اس کی مثال اور مشق ہے ، ساتھ ہی محاورہ کی تعریف اور اس کی بھی مشق ہے۔ دسویں سبق میں متضاد کی مشق ہے ۔ گیارہویں سبق میں ضمیر کی تعریف اور اس کی مثال ہے ۔ اسم ،فعل اور ضمیر کی مشق بھی ہے ۔ بارہویں سبق میں واحد جمع کی مشق ہے ۔تیرہویں سبق میں صفت کی تعریف ہے ساتھ میں یہ جز بھی لکھا گیا ہے کہ ’’ اس کے علاوہ بھی صفت کی کئی قسمیں ہیں ‘‘  اس کے بعد ان اقسام کی صرف مثالیں پیش کی گئی ہیں صفت کے کسی قسم کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ چودہویں سبق میں مذکر و مؤنث اور مرکب لفظ بنانے کی مشق ہے ۔پندرہویں سبق میں مر کب لفظ اور اسم، فعل و صفت کی مشق ہے۔ سولہویں سبق میں فعل ماضی کی تعریف مثال و مشق اور واحد جمع کی مشق ہے ۔سترہیں سبق میں فعل حال کی تعریف اور مذکر و مؤنث کی مشق ہے ۔ اٹھارہویں سبق میںگرامر کے تعلق سے نہ کوئی نئی چیز ہے اور نا ہی کوئی مشق ہے ۔انیسویں سبق میں فعل مستقبل کی تعریف ، مثال و مشق اور واحد جمع کی بھی مشق ہے ۔بیسویں سبق میں معرفہ اور نکر ہ کی مشق ہے اور اتفاق سے جو کمی یا غلطی سبق نمبر آٹھ میں نظر آرہی ہے وہی یہاں بھی ہے ، وہ یہ کہ دیے گئے لفظوں میںایک لفظ بھی اسم معرفہ نہیں ہے ۔اکیسویں سبق میں نہ مشق ہے اور نہ ہی کسی چیز کی تعریف ۔بائیسویں سبق میں اسم ، فعل ، صفت اور واحد جمع کی مشق ہے ۔
اب دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر ایک موازنہ کر تے ہیں کہ گرامر کو پیش کر نے میں کیا حکمت عملی اپنا ئی گئی ہے۔تو دیکھتے ہیں کہ تیسرے درجے کے شروع کے پانچ اسباق میں واحد جمع، مذکر و مؤنث ، اسم معر فہ و نکر ہ ہیں۔ چوتھے درجے کے بھی شروع کے پانچ اسباق میں واحد جمع اور مذکرو مؤنث ہیں ۔ یہاں متضاد ایک نئی چیز ہے اور جو تیسرے درجہ میں اسم معرفہ ونکر ہ تھا وہ یہاں نہیں ہے بلکہ آٹھویں سبق میں چلا گیا ہے ۔
تیسری کتاب میں چھٹے سے دسویں سبق تک واحد سے جمع بنانے کا قاعدہ ، فعل کی تعریف اور مذکر و مؤنث ۔چوتھی کتاب میں اسم عام ، اسم خاص اور فعل کی تعریف خصوصیت کے ساتھ ہے ، واحد جمع اور مذکر مؤنث کی مشق بھی ہے۔ اس حصے میں دونوں کتاب کے مشمولات ایک ہی ہیں بلکہ اگر ایسا کہا جائے کہ تیسرے درجہ کا آدھا آموختہ چوتھے درجے میں ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
دس سے پندرہ سبق کے درمیان تیسرے درجے میں صفت ، صفت کی مشق ، تجنیس ، اسم، فعل، صفت کی مشق اور فعل ماضی ہے۔ چوتھے درجے کی کتاب میں ضمیر اور صفت کی تعریف خصوصیت کے ساتھ ہے باقی مشق میں واحد جمع ، مذکر و مؤنث اور اسم ،فعل و صفت ہے ۔ تیسرے میں صفت ، تجنیس اور فعل ماضی ہے یہا ں نئی چیز ضمیر ہے اور فعل ماضی کو آگے کے اسباق میں رکھا گیا ہے ۔اس حصہ میں بھی تیسرے درجہ کی کتاب میں چوتھے درجے سے زیادہ مواد ہے ۔
تیسرے درجے میں پندرہویں سے بیسویں سبق تک میں فعل حال اور مستقبل کی تعریف، مشق اور دیگر مشقیں ہیں ۔چوتھے درجے میں فعل ماضی حال اور مستقبل ہے اور اسم معر فہ ونکر ہ جو آٹھویں سبق میں تھا اس کی مشق بیسویںسبق میں ہے ۔اس حصہ کو بھی مکمل طور پر تیسر ی کتاب کا آموختہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا ۔ 
اس موازنہ کے بعد یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ دونوں کتابوں کو مرتب کر تے وقت جس طریقے سے مطلقاً اسباق اور ان کی مشقوں کا خیال رکھا گیا ہے اس اعتبار سے قواعد کو نہیں برتا گیا ہے بلکہ اس میں ماقبل اور مابعد کا بھی خیال کم کم رکھا گیا ہے اور تعریفات و مشق میں مطابقت پر بھی گہری نظر کی ضرورت ہے ۔ اب بڑھتے ہیں پانچویں جما عت کی کتاب کی جانب ۔
پانچویں جماعت کی کتاب ابتدائی اردو میں کل بائیس اسباق ہیں ۔ اس کتاب میں مشق کے حصے میں ’’ پڑھیے ، سمجھئے اور لکھئے‘‘ کے تحت گرامر کو خصوصی طور پر ’باکس‘ میں پیش کیا گیا ہے ۔ پہلے سبق میں اسم کی تعریف اور مشق ہے ۔ مثال کے ذریعہ حالت فاعلی و مفعولی میں جمع بنانے کی مشق ہے (بچوں /بچے) ۔ دوسرے سبق میں محاورہ کی تعریف پیش کی گئی ہے ساتھ ہی اس نکتہ کابھی اضافہ ہے کہ محاورہ کے فعل کو زمانہ، جنس اور واحد جمع کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔تیسرے سبق میں ضمیر کی تعریف مثال اورمشق ہے ۔چوتھے سبق میں واحدجمع کی مشق ہے ۔ پانچویں سبق میں مذکر و مؤنث کی تعریف اور اس کی مشق ہے ، واحد جمع کی بھی مشق ہے۔چھٹے سبق میں مطلقاً صفت کی تعریف اوراس کی مشق ہے جب کہ چوتھے درجہ کی کتاب میں صفت کی قسموں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ساتویں سبق میں اسم ، اسم عام اور اسم خاص کی تعریف مع مثال و مشق ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ جوغلطی چوتھے درجے کی کتاب میں اس گرامر کے تحت کی گئی ہے وہ یہاں نہیں دوہرائی گئی ہے ۔آٹھویںسبق میں  واحد جمع ، اسم و صفت اور مذکرو مؤنث کی مشق ہے ۔نویں سبق میں فعل کی تعریف اور مذکر ومؤنث کی مشق ہے۔ دسویں سبق میںقواعد کا حصہ خالی ہے ۔ گیارہویں سبق میں اسم و ضمیر کی مشق ، مر کب جملے ’’ مند‘ ‘ کے لاحقے کے ساتھ بنانے اور واحد جمع کی مشق ہے ۔بارہویں سبق میں صفت اور فعل کی مشق ہے ۔تیرہویں میں فعل کو جملوں میں استعمال کر نے کی مشق ہے ۔چودہویں سبق میں فاعل کی تعریف اور فعل و فاعل کی مشق ہے۔  مذکر و مؤنث اور واحد جمع کی بھی مشق ہے۔ پندرہویں سبق میں ماضی، حال اور مستقبل کی تعریف اور اس کی مشق ہے جو تیسرے اور چوتھے درجے کی کتابوں میں بھی گزر چکا ہے ۔سو لہویں سبق میں تجنیس(ہم شکل الفاظ و مختلف المعنی ) اور واحد جمع کی مشق ہے۔ سترہویں سبق میں مر کب بنانے اور واحدجمع کی مشق ہے ۔اٹھارہویں سبق میں قواعد سے متعلق کچھ نہیں ہے۔ انیسویں سبق میں بھی نہیں ہے سوائے واحد جمع کی مشق کے ۔بیسویں سبق میں ضمیر اور اس کی قسموں کی تعریف اور مشق ہے ۔واضح رہے کہ ضمیر کی تعریف اسی کتاب کے سبق نمبر تین اور چوتھے درجے کی کتاب میںسبق نمبر گیا رہ میں بھی ہے۔ لیکن یہاں تعریف کے ساتھ اس کی تینوں قسمیں (متکلم ، حاضر ، غائب) بھی موجود ہے ۔ اکیسویں سبق میں واحد جمع کی مشق کے۔ بائیسویں اور آخری سبق میں اسم، صفت اور ضمیر کی مشق ہے ۔
چوتھے درجے کی کتاب سے موازنہ کیا جائے تو اس کتاب میں نئی چیز محاورہ میں فعل کی تبدیلی، فاعل کی تعریف اور ضمیر کی قسمیں ہیں باقی سب آموختہ ہیں جو تیسر ی اور چوتھی کتاب سے مسلسل مکر ر ہو رہا ہے جو سیکھنے اور یاد داشت کے لیے بھی معاون ہے ۔ 
چوتھی کتاب میں محاورہ جو نویں سبق میں تھا یہاں دوسرے سبق میں ہے ۔چوتھی کتاب میں میں ضمیر گیارہویں سبق میں تھا وہ یہاں تیسرے سبق میں ہے ۔مذکر ومؤنث چوتھے درجے میں تیسرے سبق میںتھا وہ یہاں پانچویں سبق میں ہے ۔صفت چوتھے درجے میں تیرہویں سبق میں تھا یہاں پانچویں سبق میں ہے اسم عام و اسم خاص چوتھے درجے میں آٹھویں سبق میں تھا یہاں ساتویںسبق میں ہے ۔فعل کی تعریف دونوں کتاب میں نویں سبق میں ہے ۔فاعل کی تعریف اس کتاب میں نئی چیز ہے جس کو چودہویں سبق میں رکھا گیا ہے ۔ماضی ،حال و مستقبل چوتھے در جہ میں سو لہ ، ستر ہ اور انیسویں سبق میں تھا پانچویں درجہ میں پندرہویں سبق میں ہے۔ ضمیر اسی کتاب کے تیسرے سبق اور  چوتھے درجہ میں گیا رہویں سبق میں گزر چکا ہے اس کی قسموں کا ذکر یہاں بیسویں سبق میں ہے ۔ آخر ان تمام کے ذکر کا مقصد صر ف یہ ہے کہ ہم ایک درجہ نیچے کی کتاب سے کس طور پر مناسبت قائم کر پارہے ہیں ۔مناسب تھا کہ جن چیزوں کا ذکر نیچے درجہ کی کتاب میں ہوا ہے وہ موجودہ درجہ کی کتاب میں شروع کے اسباق میں لائے جائیں۔ فاعل کی تعریف فعل کے بعد آئے اسم اور اس کی اقسام کا ذکر صفت سے پہلے ہو اور ہر سبق میں دھیا ن دیا جائے کہ پچھلے سبق کی مناسبت سے ہی اگلے سبق میں قواعد کو پیش کیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔
اب ہم بڑھتے ہیں چھٹے درجے کی کتاب ’’اپنی زبان ‘‘کی جانب جس میں بیس اسباق ہیں ۔اس کتاب میں گرامر کو مشق کے سب  سے اخیر میں ’’ غور کرنے کی بات‘‘کے عنوان کے تحت لایا گیا ہے ۔ اس عنوان کے تحت صر ف گر امر ہی نہیں بلکہ دوسری اہم باتوں کا بھی ذکر ہے ۔ اس کتاب میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قواعد کے ذکر کے بعد مشق نہیں ہے ۔
اس کتا ب کے پہلے اور دوسرے سبق میں قواعد سے متعلق کچھ نہیں ہے ۔ تیسرے سبق میں حر ف کی تعریف اور مثال کا ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھے سبق میں قواعد سے کچھ نہیں ہے ۔ پانچویں سبق میں فعل کی تعریف ہے ، ساتھ ہی فعل کس لفظ سے بنا ہے اس کا بھی ذکر ہے لیکن مصد ر کا ذکر نہیں ہے ۔چھٹے سبق میں اسم سے صفت اور صفت سے اسم بنانے کے قاعدہ کا ذکر ہے ۔ساتویں ، آٹھویں ، نویں اور دسویں سبق میں گرامر کا ذکر نہیں ہے ۔گیارہویں سبق میں ضمیر کی شناخت کرائی گئی ہے ۔بارہویں ، تیرہویں ، چودھویں اور پندرہویں سبق میں قواعد کا ذکر نہیں ہے ۔سولہویں سبق میں حر ف نداکی تعریف ہے ۔ ستر ہویں سبق میں قواعد کا ذکر نہیں ہے ۔اٹھارہویں سبق ڈراما پر ہے ۔ اس میں بھی قواعد کا ذکر نہیں ہے البتہ انہوں نے اس حصہ میں ڈرامہ میں کام کرنے والے کو کردار لکھا ہے ۔ جبکہ اداکار ہو نا چاہیے ۔انیسویں سبق میں تر جیع بند کی تعریف ہے اور بیسویں سبق میں تکر ار کی تعریف و مثال ہے جسکا استعمال تاکید کے لیے ہوتا ہے ۔
اس چھٹے درجے کی کتاب کا موازنہ پانچویں درجہ کی کتاب سے کر نا بے فائدہ ہے کیونکہ یہاں سے اسٹنڈر ڈ تبدیل ہو رہا ہے اور اس کتاب سے مشق کی روایت ختم کر دی گئی ہے ، آموختہ کی صورتحال جو پچھلے درجہ کی کتابوں میں نظر آرہی تھی وہ اس کتاب میں بھی بدستور قائم ہے بلکہ گزشتہ تینوں کتابوں کے قواعد سے چالیس پچاس فیصد کا بھی اعادہ نہیں ہے ۔ اس کتاب میں قواعد کے متعلق بہت ہی کم مواد ہیں بلکہ صر ف سات ہیں جن میں سے صرف تین( حرف ربط، اسم سے صفت اور صفت سے اسم اور حر ف ندا وہ بھی بغیر کسی مشق کے) نئے قواعد ہیں جن کا ذکر سابقہ کتابوں میں نہیں آیا ہے بقیہ چار اسباق میں جو قواعد کا ذکر ہے وہ تمام سابقہ کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔اس طریقے سے دیکھ سکتے ہیں ہیں کہ کتاب کے اکثر اسباق کی مشق قواعد کے بیان سے خالی ہیں ۔
ساتویں درجہ کی کتاب ’’ اپنی زبان ‘‘ میں اکیس اسباق ہیں اورچھٹے درجے کی کتاب کی طر ح اس میں بھی قواعد کو بہت ہی کم پیش کیا گیا ہے ۔ اس کتاب میں قواعد کو کسی مخصوص ذیلی عنوان کے تحت نہیں پیش کیا گیا ہے بلکہ اخیر کے ذیلی عناوین میں سے کسی میں بھی پیش کر دیا گیا ہے ۔ پہلے سبق میں واحد جمع کی مشق ہے ۔ دوسرے سبق میں مر کب لفظ ، اسم کیفیت ، اسم معرفہ اور اسم نکرہ کی تعریف ہے ۔ مر کب لفظ کی مشق تیسرے درجے کی کتاب سے کئی اسباق میں دیکھنے کو ملتا ہے البتہ تعریف یہا ں مذکور ہے اسم کیفیت کی تعریف یہاں نئی چیز ہے۔ تیسرے ، چوتھے ، پانچویں اور چھٹے سبق میں سوائے واحد جمع اورمر کب لفظ کی مشق کے قواعد سے کچھ نہیں ہے۔ ساتویں سبق میں لفظ ’’بَلا‘ ‘ سے کس طر ح معنی میں شدت پیدا ہوتا ہے جیسے’’ بلا کی گر می تھی ‘‘ کے استعمال کو بتا یا گیا ہے ۔آٹھویں سبق میں کلمۂ نشاط و کلمہ ٔ غم کی تشخیص کی گئی ہے ۔جیسے’’ آہاہاہا‘‘ اور’’ آہ‘‘ وغیرہ ۔نویں ، دسویں ، گیارہویں ، بارہویں اور تیر ہویں سبق میں نہ کوئی قاعدہ ہے اور نہ ہی قاعدہ کی مشق ۔ چودہویں سبق میں مطلقاً اسم کی تعریف ہے جبکہ گزشتہ کتابوں میں اسم خاص و عام کی بھی تعریفات گزر چکی ہیں ۔ پندرہویں ، سولہویں ، سترہویں ، اٹھارہویں اور انیسویں سبق میں بھی نہ گر امر ہے اور نہ ہی گرامر کی مشق۔ بیسویں سبق میں اسم ضمیر کی مطلقا ً شناخت ہے مشق نہیں اور اکیسواں سبق بھی خالی ہے ۔گویا اس کتاب میں اسم کیفیت ، شدت والا لفظ اور کلمۂ نشاط وغم یہ تین چیزیں قواعد کے سبق میں سے نئی ہیں ،باقی اسم ، اسم عام، خاص اور ضمیر آموختہ ہیں ۔
ساتویں اورچھٹی دونوں کتابوں میں کئی چیز وں میں یکسانیت ہے ایک یہ کہ دونوں میں قواعد کی جانب توجہ کم دی گئی ہے۔ دونوں میں مشق جہاں دسری چیزوں میں نظر آتا ہے وہیں قواعد میں نہیں ہے ۔نیچے درجے کی کتابوں میں جہاں تفصیل زیادہ ہے یہاں تفصیل  سے بچتے ہوئے اختصار کو پیش کر نا زیادہ مناسب سمجھا گیا ہے الغر ض دونوں کتابوں میں سبقا ً سبقاً قواعد کی جانب توجہ نہیں دی گئی ہے ۔
آٹھویں درجہ کی کتاب میں سابقہ کتابوں کی مناسبت سے قواعدمیں سے کئی نئی چیزوں کو پیش کیا گیا ہے بہت ہی کم اسباق میں قواعد ہوں گے جن کو آموختہ کے درجہ میں رکھا جائے ۔ زیادہ تر میں نئی چیزیں پیش کی گئی ہیں ۔ اس کتاب میں بائیس سبق ہیں اور مشق کے حصے میں قواعد کو ’’ پڑھیے ، سمجھیے اورلکھیے ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت پیش کیا گیا ہے ۔پہلے سبق میں اسم فاعل کی تعریف اور مثال ہے ۔ اس سے پہلے تیسرے اور پانچویں درجے کی کتاب میں فعل کی تعریف اور چوتھے در جے میں فاعل کی تعریف آچکی ہے اب یہاں آٹھویں درجے میں اسم فاعل کی تعریف پڑھنے اور یاد کر نے کو مل رہی ہے ۔دوسرے سبق میں حال ناتمام اور حال تمام کی مثال اور تعریف ہے ۔تیسرے ،چوتھے اور پانچویں درجے کی کتابوں میں فعل کی تینوں قسموں ( ماضی ، حال ، مستقبل ) کو بتایا گیا ہے ۔ اب یہاں حال کی دو قسموں کو بتایا جارہا ہے ۔ جب کہ اب تک سابقہ کتابوں میں ماضی کی متعدد قسموں کا ذکر نہیں آیا ہے ۔تیسر ے سبق میں محاورے کے معانی پیش کیے گئے ہیں ۔ چوتھے سبق میں اضافت کو پیش کیا گیا ہے اور اس میں اضافت کی تعریف کیا لکھی گئی ہے آپ بھی ملاحظہ فر مائیں ’’اضافت اس زیر کو کہتے ہیں جو دو لفظوں کے درمیان پہلے لفظ کے آخر میں لگا یا جاتا ہے ‘‘ ۔ مجھے نہیں لگتا کہ اضافت اس کو کہتے ہیں جہاں تک میرے علم میں ہے کہ ’’ اضافت اس تر کیب کو کہتے جہاں ایک چیز (اسم )کی نسبت دوسرے چیز(اسم) کی جانب کی جائے ‘‘  جس میں حر ف ’ کا ،کے، کی‘ اور پہلے لفظ کے اخیر میں زیر علامت ِ اضافت کے طور پر استعمال ہوا ہو ( میں نے ہمزہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ہمزہ کے نیچے بھی زیر ہی آتا ہے )
پانچویں سبق میں فعل ،فاعل ، مفعول اور اسم کا ذکر ہے ۔ چھٹے سبق میں فعل لازم کی تعریف مثال کے ساتھ پیش کی گئی ہے ۔ ساتویں سبق میں اسم کے حالت فاعلی، مفعولی اور اضافی کے ساتھ ضمیر کا بھی ذکر ہے ۔آٹھویں سبق میں مرکب لفظ بنانے کا ذکر ہے۔ نویں سبق میں جنس حقیقی و غیر حقیقی کی تعریف مثال کے ساتھ ہے ۔ واضح ہو کہ مذکر و مؤنث کی تعریف تیسرے اور چوتھے درجے کی کتاب میں بھی آچکی ہے وہیں اشارہ کیا جا چکا تھا کہ یہ حقیقی و غیر حقیقی بھی ہوتی ہیں لیکن تعریف بیان نہیں کی گئی تھی جو اب یہاں تین درجہ کے بعد بیان کیا جارہاہے ۔دسویں سبق میں صفت سے اسم کیسے بنایا جاتا ہے اس کاذکر ہے ۔جیسے برا سے برائی ۔ گیا رہویں سبق میں فعل لاز م وفعل متعدی کا ذکر ہوا ہے ۔ لیکن یہاں تعریف میں ہلکی سی کوتاہی ہوئی ہے وہ اس طور پر کہ مفعول کی ضرورت جہاں فعل لازم کے لیے نہیں ہوتا ہے وہیں فعل متعدی کے لیے بھی یہی لکھا گیا ہے کہ اس میں بھی مفعول کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ، حالانکہ فعل متعدی کہتے ہی اسے ہیں جس میں مفعول بھی موجود ہو ۔ فعل لاز کی مثال حامد آیا ، میں گیا ، عائشہ مسکرائی یہ فعل لازم ہیں کیونکہ اس میں فعل اور فاعل سے مل کر معنی و مفہوم ادا ہوجارہا ہے ۔ فعل متعدی کی مثال احمدچائے پیتا ہے ، فاطمہ خط لکھتی ہے ، امی کپڑا سلتی ہے وغیرہ ان مثالوں میں بات مفول کے بغیر مکمل نہیں ہورہی ہے اس لیے ان کو فعل متعدی کہا جاتا ہے۔بارہویں سبق میں حروف ربط کی تعریف پیش کی گئی ہے اورمثال سے واضح کیا گیا ہے ۔تیرہویں لفظ میں ’’ ہم ‘‘ سابقہ لگا کر مر کب لفظ بنانے کی مشق ہے جیسے ہم عمر ، ہم وزن ، ہم کلام وغیرہ ۔چودہویں سبق میں حروف عطف کا ذکر ہے اور دو اسمو ں کو ملاکر ایک اسم کیسے بنایا جاتا ہے اس کا بھی ذکر ہے ۔ پندرہویں سبق میں حر ف جر کی تعریف مثالوں سے واضح کر کے پیش کی گئی ہے ۔آپ نے دیکھا کہ گذشتہ اسباق میں حروف عطف ، ربط اور جر کا ذکر ہوا ،آپ نے یہ بھی غور کیا ہوگا کہ اب تک اسم ، فعل ، فاعل، مفعول وغیرہ کی تعریف کئی اسباق میں پیش کی جا چکی ہے لیکن حر ف کی تعریف کہیں نہیں پیش کی گئی اور حر وف کے اقسام کا بیان شروع ہوگیا وہ بھی مکمل نہیں صرف تین اقسام کا ذکر ہوا ، اس کے بعد کے اسباق میں بھی نہیں ہے ، اس سے پہلی اسی کتاب کے چوتھے سبق میں صرف اضافت کی تعریف پیش کی گئی ہے اور حر وف اضافت کو نہیں بیان کیا گیا ہے ۔ مناسب ہوتا کہ حروف کی بحث کو بھی اسم اور فعل کی بحث کے ساتھ ابتدائی در جات سے شروع کیا جاتا ہے اور حروف علت ، حر وف استفہام و حروف شرط اور حر وف ندا وغیرہ کا بھی ذکر ہوجاتا ۔ سولہویں سبق میں قواعد سے کچھ نہیں ہے ۔ سترہویں سبق میں رموز اوقاف کی شناخت کر ائی گئی ہے۔ اٹھارہویں سبق میں اسم کے بعد ایک لفظ اضافہ کر کے اسم فاعل بنا ناجیسے صحت بخش وغیرہ کا ذکر ہے ۔انیسویں سبق میں قافیہ و تشبیہ ہے جس کا تعلق علم عروض و بیان سے ہے ۔بیسویں سبق میں اسم مفعول و حواس خمسہ کا ذکر ہے ۔ یہ ظاہر ہ ہیں اگر چہ اس کا ذکر نہیں ہے اور باطنہ کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے ۔اکیسویں سبق میں اسم فاعل کے طویل جملے کو ایک لفظ میں کیسے پیش کیا جائے اس کا ذکر ہے جیسے شکرادا کر نے والا کی جگہ صرف شاکر وغیرہ۔دونوں اسم فاعل ہیں اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔سترہویںسبق میں رموز اوقاف کا ذکر ہوا تھا یہاں اکیسویں سبق میں طلبہ سے اس کی مشق مطلوب ہے ۔
اس کتاب کا موازنہ ماقبل کی دونوں کتابوں سے کیا جائے تو یہ ان سے مختلف نظر آتی ہے ۔ شروع کے پانچ سبق میں فعل ، فاعل ، مفعول اور فعل حال کی قسمیں حال نا تمام و حال تمام کے ساتھ اضافت سے روشنا س کر ایا گیا ہے ۔اس حصہ میں فعل حال کی قسمیں اور اضافت اہمیت کی حامل ہیں ۔ لیکن غیر ذمہ دارانہ تر تیب و تحر یر دونوں واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ چھٹے سے گیارہویں سبق تک دیکھیں توفعل لازم سے شروع ہوکر فعل لازم و متعدی پرختم ہوتا ہے ۔اس درمیان میں حالت فاعلی و مفعولی ایک نئی چیز ہے۔ جنس حقیقی و غیر حقیقی کو اگر دیکھا جائے تومذکر و مؤنث سے ایک درجہ اوپر ہو کر بیان کیا گیا ہے ۔صفت سے اسم بنانابھی طلبہ کی دلچسپی کے لیے اہم چیز ہے ۔ الغر ض یہ حصہ عمدہ ہے سوائے اس تعریف کے جو متعدی اور لازم کے لیے پیش کی گئی ہے ۔بارہویں سبق سے لیکر سولہویں سبق تک حر ف کی تین قسمیں حروف ربط ، حر وف عطف اور حروف جر کو پیش کیا گیا ہے ۔ یہ حصہ بھی بہت ہی اہم ہے سوائے اس کے کہ حر ف کی تعریف اب تک کہیں نہیں بیان کی گئی ہے ۔ سترہویں سے بائیسویں سبق تک فن انشا سے رموز اوقاف ، علم عروض و بیان سے قافیہ و تشبیہ ، حواسہ خمسہ۔ اسم فاعل اوراسم مفعول کو آپ آموختہ میں شمار کر سکتے ہیں کیونکہ گذشتہ کتابوں میں بھی کئی مقامات پر گزر چکا ہے ۔ گو یا اس کتاب میں قواعد کے مطالعہ سے کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ گرامر کو پچھلی کتابوں میں بیان کر دیا گیا ہے اس میں کچھ خارجی چیزیں رہ گئیں تھیں جس کا ذکرکیا جارہا ہے اور کہیں ایسا بھی لگتا ہے کے یہاں سے ہمیں مزید تفصیل دیکھنے کو ملے گی لیکن وہ اسی سبق میں ناقص صورتحال میں ختم ہوجاتا ہے ۔
نویں درجہ کی کتاب کے اسباق اصناف ادب پر مشتمل ہیںاس میں مشق کے حصہ میں الفاظ و معانی ، غور کر نے کی بات ، سوالوں کے جواب اور عملی کام ہیں ۔ اس کتاب کے کسی بھی سبق میںقواعد سے متعلق کوئی معلومات یا عملی کام نہیں ہے شاید اس لیے نہیں ذکر کیا گیا ہو کیونکہ دسویں درجہ میں با ضابطہ قواعد و انشا ء پر ایک اضافی کتا ب پیش کی جارہی ہے ۔اس کتاب کے پانچ حصے ہیں (الف ) قواعد (ب) عروض وبیان و بدیع ( ج) اصناف ادب (د) انشا نگاری (ہ) قواعد کی اصطلاحات ۔ اس میں ہم گفتگو صر ف  پہلے اور آخری حصے کے حوالے سے کریںگے ۔ پہلا سبق اسم کے بیان میں ہے جس میں صرف اسم کے تیرہ اقسام بیان کیے گئے ہیں جبکہ اس میں اسم موصول اور اسم اشارہ کا ذکر نہیںہے۔ دوسرا سبق ضمیر کے بیان میں ہے جس میں ضمیر کی حالت فاعلی و مفعولی کا ذکر ہے ۔تیسرا سبق فعل کے بیان میں ہے ۔جس میںفعل، فعل لازم ، فعل متعدی ، فعل ناقص ، فعل مر کب، فاعل ، اسم فاعل ، اسم مفعول، فعل ماضی ، فعل حال ، فعل مستقل اور فعل معروف و فعل مجہول کو بیان کیا گیاہے۔ ان تمام کے باوجو د آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ اس میں فعل ماضی اور فعل حال کی قسمیں ، فعل امر و نہی کا ذکر نہیں ہے جس کا ذکر بھی شاید فعل کے باب میں ضروری ہو تا۔ چوتھا سبق صفت کے بیان میں ہے جس میں صفت ، صفت ذاتی، صفت نسبتی ،صفت عددی، صفت مقداری کا ذکرہے ۔ پانچواں سبق حر ف کے بیان میں ہے ۔جس میں حر وفِ جار ، حرو ف اضافت ، حروف عطف ، حر وف تخصیص اور حرو ف فجائیہ کا بیان ہے ۔واضح ہو کہ حر وف کی اور بھی کئی قسمیں ہیں جن میں سے ایک ’’ حروف ربط ‘‘ کا ذکر آٹھویں درجے کی کتاب میں آچکا ہے ۔اس کے علاوہ حروف شرط ، حرو ف استثنا ء ، حرو ف علت ، حر وف بیان وغیرہ بھی ہیں جن کا ذکر ہوجاتا تو زیادہ مناسب ہوتا ۔ کیونکہ جب کسی کے اقسام کا ذکر کیا جاتا ہے تو متفقہ اور متداول اقسام جو ہوں ان تمام کا ذکر ہوجا ناچاہیے ۔سا تواں سبق واحد جمع اور تذکیر و تانیث کے بیان میں ہے ۔ اس کتاب میں واحد جمع میں خوبصورت اضافہ یہ ہے کہ واحد سے جمع بنا نے کے تقریبا ً تمام قواعد بتائے گئے ہیں اور تذکیر وتانیث کے باب میں جنس حقیقی و غیر حقیقی کا بیان ہے۔ آٹھویں سبق سے لیکر چودہویں سبق تک مترادف، متضاداور مرکب الفاظ سابقہ اور لاحقہ ، روز مر ہ ،محاورے ، کہاوت ،فقرہ ، جملہ اور رموز اوقاف کا ذکر ہے ۔ واضح ہو کہ جملہ کے تحت نحو کو احاطہ کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے جس میں جملہ کے تقریبا ً تمام اقسام کو سمیٹ لیا گیا ہے جو دسویں کلاس کے اعتبار سے بہت ہی کافی ہے ۔ اس کے بعد اس کتاب کا آخری حصہ ’’ قواعد کی اصطلاحات‘‘ پر ہے ۔ آپ جب فہرست سے ورق گردانی کرتے ہوئے اس سبق تک پہنچیں گے تو آپ کو تعجب ہوگا کہ تقریباً تین سو تیس اصطلاحات پر مشتمل یہ سبق آپ کو انگریزی میں آئینہ دکھائے گامطلب یہ کہ اصطلاحات کی تعریف کے بجائے ان اصطلاحات کا انگلش تر جمہ پیش کر دیا گیا ہے ۔ شاید ایسا اس لیے کیا گیا ہو کہ کتاب ضخیم نہ ہوجائے اور بچوں کو اردو اصطلاحات کی تعریف کے بجائے انگلش میں ان کے نام معلوم ہوجائیں الغرض یہ حصہ کسی طور پر بھی طلبہ کے لیے مفید نہیں ہے ۔
گیارہویں درجہ کی کتاب ’’ نئی آواز ‘‘ میں کل بیس اسباق ہیں ۔ اس کتاب میں اردو قواعد پر مشتمل مشق کے حصہ میں باضابطہ  ایک ذیلی عنوان ہر سبق میں قائم کیا گیا ہے ۔ پہلے سبق میں حرف عطف کی تعریف اور اسم خاص کی مشق ہے ۔ دوسرے سبق میں اسم ضمیر کی تعریف اور اس کے تینوں اقسام(حاضر ، غائب ، متکلم) کی تعریف ہے ۔تیسرے سبق میں صفت کی تین قسموں ( عددی ، مقداری، نسبتی) کا ذکر ہے اوراسم ضمیر کے اقسام کی مشق ہے ۔چوتھے سبق میں محاوروں کا جملوں میں استعمال ہے ۔ پانچویں سبق میں مطلقا صفت کی نشاندہی کر نے کو کہاگیا ہے ۔ جب کہ تیسرے سبق میں صفت کی تین قسموں کا تفصیل سے ذکر ہوا ہے ۔ یہا ں یہ نظر آرہا ہے کہ خصوصیت سے عمومیت کی جانب سفر کیا گیا ہے یا اگر ہم اس کو تیسرے سبق کے مشق کے طور پر دیکھتے ہیں تب بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ صرف مطلقا ً صفت کی نشاندہی کر نے کو کیوں کہا گیا ہے ۔چھٹے سبق میں ضرب المثل اور کہاوت کا استعمال ہوا ہے ۔ ساتویں سبق میں قواعد کے نام پر چند لفظوں کا استعمال جملوں میں ہے ۔ اس سبق کے اس حصے کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں تک آتے آتے مصنف تھک گیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر اس حصے کو (’’ نیچے لکھے ہوئے لفظوں سے جملے بنائیے : چرخا، صحن ، ہشاش بشاش ، جمہوریت ، تقریر ، وصیت‘‘) پر ائمری درجے کے کسی کتاب میں رکھا جائے تو شایدوہاں زیادہ مناسب ہوگا ، بہر حال اس سبق میں کوتاہی سے کام لیا گیا ہے۔ آٹھویں سبق میں صفت کی مختلف قسموں اور اسم عام وخاص کی نشاندہی کرنے کو کہا گیا ہے ۔ اس کو سبق نمبر دو اور تین کی مشق کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا ۔ کیونکہ پانچویں سبق میں بالکل عمومیت کو پیش کیا گیا ہے ۔نویں سبق میں متضاد، محاورہ اور تراکیبِ اضافت پر مشق ہے ۔دسویں سبق میں سابقہ اور لاحقہ کے استعمال سے مر کب لفظ بنانے کا طریقہ ہے ۔گیارہویں سبق میں قافیہ کسے کہتے ہیں اور مقفی نثر کیا ہوتی ہے اس کی تعریف ہے ۔بارہویں سبق میں اسم عام اور اسم خاص کی تعریف واضح انداز میں پیش کی گئی ہے ۔ یہیں نہیں بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں میں بھی اسم خاص اور عام کا ذکر تکرار کے ساتھ آچکا ہے ۔تیرہویں سبق میں اسم، فعل اور حر ف کو سبق میں سے تلاش کر کے لکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔ چودہویں سبق میں لکھتے ہیں ’’ جب دو بامعنی لفظوں کو زیر/ہمزہ/ے لگا کر ایک نیا با معنی لفظ بناتے ہیں تو اسے ہم تر کیب کہتے ہیں ۔‘‘ یہ بالکل درست ہے اردو میں تراکیب ایسے ہی بنتی ہیں، یہ تر اکیب موصوف صفت کی بھی ہوسکتی ہیں او ر مضاف مضاف الیہ کی بھی ۔آگے درج ہے ’’ دو لفظوں کے درمیان زیر / ہمزہ / ے لگانے کو اضافت کہتے ہیں۔‘‘ اضافت کی اس تعریف سے متعلق آٹھویں درجہ کے چوتھے سبق میں لکھا جا چکا ہے ، بس فرق اتنا ہے کہ وہاں صرف زیر تھا اور یہاں ’ہمزہ اورے‘ کا بھی اضافہ ہے ۔پندرہویں سبق میں چودہویں سبق کی مشق ہے ۔ کیونکہ اس میں مر کب الفاظ کی نشاندہی کرنے کو کہا گیا ہے جس کی تعریف چودہویں سبق میں گزر چکی ہے ۔سولہویں سبق میں تلمیح کی تعریف ہے اور ان تراکیب کی نشاندہی کو کہا گیا ہے جن میں اضافت کی ترکیب پائی جاتی ہے ۔ سترہویں سبق میں ان لفظوں (جل ترنگ ، امنگ ، طفلی، چرند ، پرند ، مہک ) سے جملے بنانے کو کہاگیا ہے ۔ یہ بات یہاں سوچنے کی ہے کہ لفظوں سے جملے بنانے کی مشق آخر کس درجہ کی کتاب تک روا رکھا جائے یہاں یہ گیارہویں درجہ کی کتاب میں پیش کیا گیا ہے ۔ اگر روا رکھنا ہی زیادہ مناسب ہے تو صرف اسی سبق میں کیوں بلکہ ہر سبق میں ہونا چاہیے جب کہ اس میں تکرار کا کوئی سوال ہی نہیں اور اس کو قواعد کے ذیلی عنوان میں پیش کر نے کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ گزشتہ کسی قاعدہ کی مشق ہے یا یہ خود کوئی قاعدہ ہے  بہر حال اس سبق میں قواعد کے ذیلی عنوان میں مشق توجہ طلب ہے ۔ اٹھارہویں سبق میں زبان و قواعد کا ذیلی عنوان نہیں ہے ۔انیسویں سبق میں تضاد کی تعریف اور اس کی مشق ہے ۔ واضح رہے کہ سترہویں سبق کی طر ح اس سبق میں بھی زبان وقواعد کا ذیلی عنوان محل نظر ہے کیونکہ تضاد کی تعریف اور مشق ابتدائی کتابوں میں کئی مقامات پر آچکے ہیں کلاس کے اعتبار سے مشق محل نظر ہے ۔ بیسویں سبق میں ’زار ‘ یا ’زاروں ‘ کا لاحقہ لگا کر مر کب لفظ بنانے کی مشق ہے ۔
اس کتاب میں ’زبان و قواعد ‘ کے ذیلی عنوان کے تحت جب ہم ان میں موجود مواد کا مطالعہ کر تے ہیں تو ہمیں اس کتاب میں کچھ خاص نیا حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ آپ کو ہر سبق میں تکر ار یا سابق سے کم پڑھنے کو ملتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طلبہ کو ہر سبق میں نیا قاعدہ نہیں پیش کیا جائے گا کہ مشق سے عاری ہوکر و ہ اس جانب سے منہ موڑ لے ساتھ ہی یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اسکولی سطح پر زبان و قواعد کی تمام موشگافیوں کو پیش کر دیا جائے ۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ جو بھی لکھا جائے وہ جانچ پھٹک کر درست لکھا جائے اور جتنی جگہ فراہم کی جارہی ہے اس کا درست استعمال ہو کیونکہ ہمیں تیسرے درجہ کی کتاب سے گیارہویں درجہ کی کتاب تک قواعد پیش کر نا ہے اور اکثر کتابوں میں بیس سے زائد اسباق ہیں اور ہر سبق میں گر امر کے تحت کم از کم دو سطر اور زیادہ سے زیادہ سات سے دس سطر تک جگہ ملتی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کو ترتیب وار کیسے پیش کیا جائے کہ تمام اصولی قواعد کا ذکر ہو جائے اور مشق بھی مکمل ہو ۔ اگر ہم افعال پر نظر ڈالیں تو اس کو بھی کسی حد تک مکمل نہیں کیا گیا ہے بلکہ اصول تک کو بتانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے جیسے فعل امر و فعل نہیں چہ جائے کہ ماضی مطلق ، ماضی قر یب ، ماضی بعید ، ماضی نا تمام ، ماضی احتمالی اور ماضی شر طیہ کا بیان ہو۔الغر ض پوری سیریز میں جو چیز سب سے زیادہ توجہ طلب ہے وہ تر تیب ہے جس کا ذکر مضمون میں کئی مقام پر کیا گیا ہے ۔ کئی مقامات پر یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ خاص سے عام کی جانب سفر کیا گیا ہے ۔ بھلے ہی یہ طلبہ کے لیے آسان ہو لیکن شاید یہ ذہنی نشو ونما اور معلومات کے لیے معاون نہیںہے ۔مکمل سبق میں سے میں نے صرف ایک جز کا جائزہ پیش کیا ہے اور اس میں سے صرف ان ہی امور پر میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو کتاب میں واضح طور پر تحریر ہے ۔
اس طر ح NCERT میں گرامر کا دور ختم ہوتا ہے ۔

اردو رباعی کا نصف النہار جوش ملیح آبادی

اردو رباعی کا نصف النہار جوش ملیح آبادی



اردو رباعی گوشعرا کے اگر چار نام گنائے جائیں تو ان میں انیس ، دبیر، جوش وفراق کانام سر فہرست ہوگا ۔اردو رباعی گویوں میں جو ش نمایاں صرف اس وجہ سے نہیں ہیں کہ انہوں نے باعتبار کمیت زیادہ رباعیاں کہیں ہیں بلکہ بلحاظ کیفیت بھی ان کی رباعیوں کی تعداد کسی دوسر ے رباعی گو کی اچھی رباعیوں سے زیاد ہ ہے ۔جو ش غزل کے بجائے نظم کے شاعر تھے اور رباعی بھی مختصر نظم کے مماثل ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کی طر ف ایک خاص توجہ دی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رباعی گوئی انہوں نے دوسرے شاعر وں کی طرح تکلفاً نہیں اپنائی تھی بلکہ جس طر ح شاعری ان کی سر شت میں داخل تھی اسی طر ح رباعی کہنا ان کی فطر ت کا ایک جز بن گیا تھا جس کو وہ بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ بر تتے چلے گئے ۔ نظم اور رباعی کو وہ ایک ساتھ لیکر چلتے رہے سوائے اولین مجموعے کلام روح ادب کے۔ اس کے علاوہ ان کے ہر مجموعہ کلام میں رباعیات موجو د ہیں اور دو  مستقل مجموعہائے رباعیات ہیں ، جنوں حکمت اور قطرہ و قلز م ۔ ہر چند رباعی گوئی کی حیثیت سے جو ش کو وہ مقام نہیں عطا کیا گیا جو مقام ان کے رفیق فراق کو ملتا رہا ۔لیکن ایک رباعی کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری ذاتی رائے ہے کہ وہ جتنے بلند پایہ نظم کے شاعر ہیں وہی مقام ان کی رباعیوں کا بھی ہے۔
جو ش  کی شاعر ی کو عموما ًتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، شباب ، انقلاب اور فطر ت لیکن جب ہم ان کی رباعیوں کی جانب توجہ کر تے ہیں تو اردو کے خیام کا علَم(صرف خمری رباعیوں کی وجہ سے ) ان کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ شاعر خمریات کے طور پر بھی نظر آتے ہیں ۔جو ش کبھی ایک نظر یے پر قائم نہیں رہے ، حسن و عشق کے نغمے گائے ، انقلاب کے پرچم لہر ائے ، امن انصاف اور مساوات کے سفیر بنے ، فطر ت کی حسین تصویر کشی کی اور جام شراب بھی چھلکائے ۔ان کے نظر یات میں بہت ہی تضاد بھی نظر آتا ہے وہ خدا کا مذاق اڑاتا ہے اور اس کے رسو ل کی تعریف بھی کر تا ہے ،درود بھیجتا ہے اور نواسئہ رسول پر مرثیہ بھی کہتا ہے ۔کبھی غر یبوں کی حمایت کر تا ہے تو کبھی اس کا مذاق اڑاتا ہے اور نفرت بھی کر تا ہے ۔کبھی جاگیر دارانہ نظام ان کے سر پر چڑ ھ کر بولتا ہے تو کبھی اشتر اکیت کے نشے میں مزد روں کے قدم سے قدم ملا لیتا ہے ۔جو ش کو اس تضاد کا علم بخوبی تھا اور اس کا اظہار بھی کر تا ہے۔

جھکتا ہوں کبھی ریگ رواں کی جانب 
اڑتا ہوں کبھی کاہکشاں کی جانب
مجھ میں دو دل ہیں ایک مائل بہ زمیں 
اور ایک کارخ ہے آسمان کی جانب 

جو ش کی فکری تضادات اگرچہ بہت ہیں لیکن ان تضادات میں جو خوبی نظرآتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام موضوعات و مسائل کو اپنی رباعیوں میں سمیٹ دیا اور یہ ہمہ گیر ی جو ش کو دوسرو ں سے متمائز کرتی ہے ۔وہ نہ تصوف کے حجرہ کے مکین ہیں اور نہ اصلاح واخلاق کے مبلغ بلکہ وہ تو اِس گلستان کے اُس مالی کی طر ح ہے جو ہر پھول کی خوبیوں اور خامیوں کو گنواتا ہے ۔ان کی رباعیوں میں ہر قسم کے مضامین پائے جاتے ہیں،کہیں خیام کے خمریات کا نشہ ہے تو کہیں عشق کی کیفیات ، کبھی فلسفئہ علم و عقل میں اقبال سے مقابلہ آرائی کر تے ہیں تو کہیں فلسفئہ خودی کا رد عمل پیش کر تے ہیں ۔کہیں عاشق نامر ادکی طر ح غم کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں تو کہیں کامیاب عاشق کی خوشی میں محبوبہ کا عکس کھینچتے ہیں ۔ان کی رباعیاں مذہب پر تیکھا طنزبرساتی ہیں اور مذہب کے پاسداروں کی ہجو بھی کرتی ہے۔
جوش اگر چہ باضابطہ ایک فلسفی شاعر نہیں ہے تاہم ہر ایک فلسفہ کو انہوں نے اپنی شاعر ی میں اپنا یا ، جو ش کی رباعیاں ہر ایک کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بھلے ہی وہ فلسفی نہیں تھا لیکن بحیثیت شاعر ایک کامیاب شاعر اور بطور رباعی توکامیاب تر شاعر تھا۔ رباعی ان کی زند گی کا ایک درخشاں تر ین پہلوہے ۔بہت سی ایسی رباعیاں ہیں جس کو صرف جوش ہی کہہ سکتے تھے اور کوئی نہیں۔

تلوار کو خم کر دوں تو مر ہم ٹپکے 
پتھر کو فشار دوں تو زمزم ٹپکے 
قدرت نے وہ بخشی ہے کرامت مجھ کو 
شعلے کو نچوڑ دو ں تو شبنم ٹپکے 

جب جو ش ایسی رباعیاں کہہ سکتے ہیں تو ہم ان کے دوسرے مضامین کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔خصوصا خمر یا ت کے موضوع پر کہی گئی رباعیوں کو ۔انہوں نے اگر چہ اس میں جگہ جگہ پر خیام کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہی خیالات کو اردو میں اتنی فنی چابکدستی سے پیش کیا ہے کہ یہ انہیں کا حصہ ہوسکتا ہے ۔

باغوں میں وہ چھاگئی جوانی ساقی
سنکی وہ ہوائے زندگانی ساقی
ہاں جلد انڈیل جلتی ہوئی آگ
آیا وہ برستا ہوا پانی ساقی

حسن وعشق میں ہم جوش کی نظر کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہ عشق کے معاملے میں عشق حقیقی نہیں بلکہ عشق مجازی کے شاعر ہیں ان کا معشوق اسی گوشت پوست کا مخلوق ہے وہ خواہ مخواہ تصوف میں اپنے عاشق حقیقی کو ملحوظ رکھ کر رباعیاں نہیں کہتے ہیں بلکہ اسی گوشت و پوست کے ہیولی سے عشق کر تے ہیں جو ان کے دل میں قیامت بر پا کیے ہوئے ہے ۔جوش اور فراق کے عشق میں بہت ہی عظیم فرق ہے ۔جوش احساس و فضا کے حسن کو محبوب کے سراپا یا محبوب کے کسی جز کے حسن سے تعریف کر تے ہیں جبکہ فراق محبوب کی جمالیات کی تشبیہ احساس وفضا کے حسن میں تلاش کر تے ہیں ۔

کاکل کھل کر بکھررہی ہے گویا  
نرمی سے ندی گزررہی ہے گویا 
آنکھیں تری جھک رہی ہیں مجھ سے مل کر 
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا 

ان کی رباعیوں کی منظر نگاری کو  اگر ادبی مصوری کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا ۔انہوں نے منظر نگاری کے نمونے خصوصانظم میں جو پیش کیے ہیں اسی سے وہ شاعر فطر ت کہلائے ۔دیگر شاعر وں کے یہاں بھی منظر نگاری ہے مگر رباعی میں اس طر ح کی منظر نگاری  بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اصل میں ان کو مناظر فطر ت کے ساتھ جو لگاؤتھا اس کا باضابطہ اظہار رباعیوں میں بطور خاص ہوا ہے ۔انہوں نے تشبیہوں ، استعاروں کے ذریعہ بہتر ین منظر نگاری کی ہے ۔جوش کو منظر نگاری میں غیر معمولی قدرت حاصل تھی نئی تشبیہات ،لطیف استعارے ،جدید اور پراثر تر کیبیں ، لفظ کی مزاج شناسی اور حروف اصوات سے بنائے ہوئے نقوش جوش کی تصویروں کو گویا متحرک بنا دیتے ہیں اور مناظر و مظاہر مجسم ہو کر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

سمجھاؤں کن الفاظ میں تم کو ہم راز 
اللہ رے سحر کے وقت کا سوز و گداز 
اس طر ح چٹکتی ہیں چمن میں کلیاں 
اطفال کی ہچکیوں کی جیسے آواز 

جوش اپنی رباعیوں میں فلسفہ ٔحرکت وعمل کی بنیاد ان عناصر پر رکھتے ہیں جن سے ان عناصر کا ادراک و اظہار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں گھن گر ج اور بلند آہنگی پیدا ہوگئی ہے ۔اس حر کت وعمل میں وہ اقبال سے ہٹ کر نیطشے کے قریب آگئے ہیں جہاں سے سپر مین (فوق البشر)کا تصور ظاہر ہوتا ہے ۔ان کے یہاں ذات میں فوق البشر کاپیدا ہونا ماحول اور حالات کے سامنے سرتسلیم خم کر نا نہیں ہے بلکہ اس سے جنگ کرنا اور اپنی مر ضی کے سانچے میں ڈھالنا ہے ۔ اس لیے صرف وہی باقی رہ جاتا ہے جن کے پاس قوت ہوتی ہے اورباقی رہنے کے لیے جدو جہد کر تا ہے ۔اس طر ح ہم سوچ سکتے ہیں کہ نیطشے کے یہاں اصل خواہش زیست نہیں ہے بلکہ اصل خواہش اقتدار ہے اور جوش بھی زندگی کا اصل مقصد جدوجہد اور حصول اقتدار کوہی گر دانتا ہے ۔اور مثبت انداز میں ایسی رباعی تخلیق کر تاہے ۔

قانون نہیں کوئی فطر ت کے سوا
دنیا نہیں کچھ نمود طاقت کے سوا
قوت حاصل کر اور مولا بن جا
معبود نہیں ہے کوئی قوت کے سوا

اسلوب میں ان کی نظموں کی طر ح ان کی رباعیوں میں بھی گھن گر ج اور بلند آہنگی موجود ہے ، جو ش کا لب ولہجہ انقلابی اور انداز فکر باغیانہ ہے لیکن انیس و دبیر کے بعد حسن بیان اور لطف زبان کے علاوہ ٹکسالی اور مستند زبان سے اگر کسی رباعی نگار نے اپنی رباعیوں کو آراستہ وپیر استہ کیا ہے تو وہ جو ش ہی ہیں ۔نئے نئے الفا ظ اور محاوراتی زبان کو جس خوبصورتی سے جوش نے اپنی رباعیوں میں برتا ہے یہ ان کا فقید المثال کارنامہ ہے ۔

دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے 
اسلو ب سخن نیا نکالا ہم نے 
ذرات کو چھوڑ کر حر یفوں کے لیے 
خورشید پہ بڑ ھ کے ہاتھ ڈالا ہم نے 

جو ش نے تیکنیکی سطح پر رباعی کے امکانات کے تمام زاویوں پر غور کیا اوراسکو اپنی رباعی میں بر تا ہے ۔ اپنی رباعیوں میں ڈرامائی عنصر کو شامل کیا اور اس سے اپنے اسلوب اور طر ز بیان کو زیادہ مؤثر بنایا ہے ۔جو ش کی رباعیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے فقر و ں سے مکالمے تیار کر لیتے ہیں اور ان کو مصر عوں کی شکل میں بڑ ی چابکدستی سے ڈھالتے ہیں اس تکنیک کے ذریعہ جوش کے یہاں ایک چھوٹی سی رباعی ایک کامیاب ڈراما بن جاتی ہے اور بغیر نام کے کردار ابھر تے ہیں جو اپنامکالمہ بول کر چلے جاتے ہیں ۔اس قسم کی رباعیاں فنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنا کیفیت اور اثر سامع کے دل میں چھوڑ جاتی ہیں ۔

بندے ! کیا چاہتا ہے ؟ دام ودینار 
یا دولتِ پایندۂ زلف و رخسار 
معبود نہیں نہیں کوئی چیز نہیں 
إلا آگاہی رموز و اسرار

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...