Tuesday, 5 March 2019
اردو زبان میں امالہ
Friday, 1 March 2019
ذوق کی قصیدہ نگاری
ذوق کی قصیدہ نگاری
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی
دلی جیسا ثقافتی و ادبی شہرجو عالم میں انتخاب تھا نادر شا ہی حملہ کے بعد اجڑ جاتا ہے ۔شعر وادب کی محفلیں اٹھ جاتی ہیں ۔ میر و سودا جیسے عدیم المثال شاعر اپنے فن کی بقا ء کے لیے لکھنؤکوچ کر چکے ہوتے ہیں ۔ اسی تباہی کے دور میں اجڑی اور لٹی پٹی ہوئی دلی میں شیخ محمد رمضان کے یہاں ایک ایسا چاند طلوع ہوتا ہے جو اپنے وقت میں آسمان سخن پر عید کی چاند کی طر ح چمکتا ہے ۔جن کی استادی اور شاعری کی چمک کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انیسویں صدی کے شروع میں مو من و غالب کے ساتھ آفتا ب و ماہتا ب بن کر آسمان شاعر ی میں متمکن ہوجاتے ہیں ۔یہ اردو ادب کی اٹل تاریخ ہے کہ سلطنت مغلیہ کی ٹمٹاتی ہوئی چرا غ میں یہ تینوں شاعر ی کے روشن چرا غ تھے۔ اس میں بھی دربار میں شاعری کا چرا غ سب سے زیادہ ذوق روشن کیے ہوئے تھے ۔ جسے سلطنت پسند کرے اور سلطان استادی کا شرف بخشے پھر کیا تصور اورکیا حقیقت کہ شاعری کے بازار میں کسی اور کی قیمت زیادہ ہو اور کوئی دوسرا شاعرشاگر د وں کا سلسلہ طویل کر سکے ۔کیا یہ سب ساری چیزیں صرف اس وجہ سے تھیں کہ وہ خاقانیِ ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے رواج ، مزاج ، مر وجہ وعلوم و فنون اور مقبول و پسندیدہ اصطلات ِ زبان و بیان کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کر نے میں استادانہ مہارت رکھتے تھے ۔لیکن اردو ادب کا یہ ستم اس کے ہر طالب علم پر رہا ہے کہ انیس کا مطالعہ دبیر سے موازنہ کیے بغیر اور ذوق کا مطالعہ سودا سے تقابل کیے بغیر نہیں ہوسکتا ۔جب بھی ذوق کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو قصیدہ میں سودا کو سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور غزل میں غالب و مومن کو۔ لیکن کبھی بھی اس پہلو پر نظر نہیں ڈالی گئی کہ ذوق کی شاعری کے مطالعہ کے لیے ذوق کے زمانے کی دہلی فضا کے ساتھ ذوق کے آس پاس کے ماحول کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔ ذوق کی ذات و شخصیت کے گہرے مطالعے کے ساتھ منسلکینِ ذوق پر بھی نظر رکھی جائے ۔بچپن کی شوخی اور لڑ کپن تو ان کے قریب بھی نہیں پہنچا، یہی وجہ تھی کہ وہ عہدمراحق سے ہی خداتر سی اور زہد و ورع کی جانب مائل ہوگئے تھے ۔ اگر چہ ان کی طبیعت میں بذلہ سنجی اور ظرافت بھی تھی تا ہم کسی بھی گفتگو میں استادی پن کا حکم نا مہ یا انانیت نظر نہیں آتی ہے ۔ شام کو عصر کے وقت شاید مجلس کی برخاستگی کے بعد مسلسل ایک لوٹے سے کلّیا ں کیا کر تے تھے ، اس متعلق مولانا محمد حسین آزاد کے سوال کے جواب میں کہتے کہ نہ جانے کیا کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں۔ یہی عمل رات کی عبادت سے پہلے کا بھی ہوتا تھا ۔ان کے اندر عاجزی، انکساری اور سادگی کا دخل اس قدر تھا کہ خیا ل آتے ہی پڑوسی کے بیمار بیل کے لیے دعا بھی کر تے ہیں ۔ تو ان تمام کے ساتھ مناسب ہوتا ہے کہ ذوق کی شاعری کا مطالعہ ان کی ذاتی زندگی کے تناظر میں بھی کیا جائے کیونکہ یہ اکثر ہوتا ہے کہ تخلیق کار اپنی زندگی کا عکس اپنی تحریر میں کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتا ہے ۔
ذوق کی پیدا ئش ۱۲۰۳ھ بمطابق ۱۷۸۸ء میں ہوتی ہے ۔تقریباً ۱۹؍ بر س کی عمر میں دربار ولی عہدی میں باریابی کا شر ف حاصل ہو تا ہے اور یہ بات بھی نا قابل انکار تک مشہور ہے کہ ذوق کو ۱۹؍ برس کی عمر میں خاقانی ہند کا خطاب مذکورہ قصیدہ پر ملتا ہے۔
جبکہ سر طان و اسد مہر کا ٹھہر ا مسکن
آب و ایلولہ ہوئے نشوونمائے گلشن
یہ بات سوالات کے دائرے میں ضرور آتا ہے کہ جس برس وہ دربار ولی عہدی سے منسلک ہورہے ہیں اسی سال انہیں اعلی ترین خطاب سے نوازا بھی جارہا ہے ۔ ساہتیہ اکادمی سے شائع شدہ تنویر احمد علوی صاحب کی کتاب ’’ ذوق دہلوی ‘‘( مونو گراف) میں اس قضیہ کی جانب اشارہ ہے کہ تذکر ۂ ’’عیار الشعراء‘‘، ’’تذکرۂ صدر الدین ‘‘اور’’ تذکرہ ٔ سرور‘‘ میں اس خطاب کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے بلکہ’’ تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ ۱۲۴۸ھ میں اس خطاب کا پہلی بار ذکر ملتا ہے ۔اس سے یہی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ تیرہویں صدی ہجر ی کے چوتھے عشرے میں ہی انہیں یہ خطاب ملا ہو اور اس وقت ان کی عمر چالیس بر س کے آس پاس رہی ہوگی ۔۶؍اکتوبر ۱۸۳۷ء کو اکبر شاہ ثانی کاانتقال ہوتاہے اور ۷؍ جنور ی ۱۸۳۸ ء کو بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی ہوتی ہے اسی موقع پر ذوق اپنا یہ مشہور قصیدہ :
روکش ترے رخ سے ہوکیا نور سحر رنگ شفق ہے ذرّہ تیرا پر توِ نو ر سحر رنگِ شفق
لکھتے ہیں جس پر انہیں ملک الشعرا ء کا خطاب ملتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں قلی قطب شاہ سے لے کر محسن کاکوروی و جمیل مظہری تک قصیدہ نگار شعرا کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جب کہ غزل گو شعرا لا تعداد ہیں۔ اردو کے عہد زریں میں میرؔ جیسا شاعر اپنی غزلوں کی وجہ سے خدائے سخن کے درجے پر فائز ہوتا ہے وہیں سوداؔ جیسا قصیدہ نگار قادر الکلامی میں میرؔ سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے وہ قصیدہ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ کچھ یہی صورت حال عہد غالبؔ میں بھی غالبؔ و مومنؔ اور ذوق ؔکے درمیان نظرآتی ہے۔ فی زمانہ غالبؔ غزل کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اور ذوق ؔ قصیدہ کے۔ غالبؔ و مومنؔ غزل کے میدان میں اپنے پیش رو کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے ہیںلیکن ذوقؔ اپنے پیش رو سودا ؔ کے ساتھ صنف قصیدہ میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اردوادب کی تاریخ میںجس طرح سے میرؔ و غالبؔ کو غزل سے ، انیسؔ و دبیرؔ کو مرثیہ سے اور میرحسن ؔو دیا شنکر نسیمؔ کو مثنوی سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سے ذوقؔ وسوداؔ کو قصیدے سے جدا کرنا ناممکن ہے۔
قصیدہ میں تشبیب کی وہی اہمیت ہوتی ہے جو غزل میں حاصل غزل کی ہوتی ہے۔ جس طریقے سے یہ بات زبان زد ہے کہ بادشاہوں کا کلام ، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے، قصیدہ اپنے اندر بھی وہی خصوصیت رکھتا ہے کہ بادشاہوں کے سامنے پیش ہونے والا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہو۔ اسی لئے شاعر اپنی تخلیقیت کی ساری قوت قصیدہ کے پہلے جز تشبیب میں لگا دیتا ہے۔ اگر تشبیب بہاریہ ہے تو اس میںلفظوں کے انتخاب میں وہ ہنر مندی برتی جاتی ہے کہ موسم کے تطابق سے ایسی مسحور کن فضا قائم کرے کہ قاری یا سامع سنتے ہی متوجہ ہو جائے۔ ذوقؔ نے بھی تشبیب میں اپنی اس ہنر مندی کو پیش کیا ہے۔ ایک قصیدے کی تشبیب سے ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
واہ وا کیا معتد ل ہے باغ عالم میں ہوا مثل ِ نبضِ صاحبِ صحت ہے ہر موج
بھر تی ہے کیا کیا مسیحائی کا دم باد بہار بن گیا گلزار عالم رشک صد دارالشفا
ہے گلوں کے حق میں شبنم مر ہم زخم جگر شاخ بشکستہ کو ہے باراں کا قطرہ مومیا
ہوگیا موقوف یہ سودا کا بالکل احتراق لالہ بے داغ سیہ پانے لگا نشو و نما
ہوگیا زائل مزاج دہر سے یاں تک جنوں بیدمجنوں کا بھی صحرا میں نہیں باقی پتا
ہوتا ہے لطف ہوا سے اس قدر پیدا لہو بر گ میں ہر نخل کی سرخی ہے جوں بر گ حنا
کیا عجب جدوار کی تاثیر گر رکھے زقوم کیا عجب گر آب حنظل دیوے شربت کا مزا
نسخے پر لکھنے نہیں پاتا ’ہوالشافی ‘ طبیب کہتا ہے بیمار ’ بس کر مجھ کو بالکل ہے شفا‘
پہلے شعر میں باغ عالم کی ترکیب سے پوری دنیا کی فضا کو ہموار کر دیتے ہیں اور جو ہوا چل رہی ہے اس ہوا کی خوبصورتی کچھ اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے صحت مند انسان کی نبض چلتی ہو۔ شاعر کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے تخیل میں کتنی وسعت رکھتا ہے۔ ایک غیر محدود وسیع و بسیط دنیا کی صورت حال ایک محدود جسم سے پیش کرتا ہے۔ بادشاہ کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگتی ہے کہ میرے آنے سے اس پوری دنیا کا نظام اس طریقے سے درست ہو جاتا ہے جیسا کہ آخری شعر میں طبیب نسخے پر ’ ہوالشافی ‘ لکھ نہیں پاتا ہے کہ مریض اپنی مکمل شفا یابی کی خبر دیتا ہے ۔ اس میں کوئی بعید نہیں ہے کہ بادشاہ کی تاج پوشی سے پہلے اور بعد کی صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ اس بہار میں ہوا ایسی چل رہی ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا ایسی بن گئی ہے جس پر سیکڑوں دار الشفاء بھی رشک کرنے لگے اور اب شبنم کا اثر گلوں پر کچھ ایسا ہے جیسے زخم جگر پر مرہم کا۔ اور ٹوٹی ہوئی شاخ میں بارش کا قطرہ مومیا کی تاثیر لئے ہوئے ہے۔ بعدکے اشعار میں شفا کے بعد کی جو صورت حال ہے اس کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے دہر کے مزاج سے جنوں بھی زائل ہو گیا اور اس کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ صحرا میں اب بید مجنوں کا بھی ذکر نہیں۔ بید تو خود ہی ایک پتلی سی چھڑی ہوتی ہے اور بید مجنوں نرم اور پتلی سی گھاس ہوتی ہے۔ مجنوں بھی جنوں کے عالم میں بھوکا پیاسا رہتے رہتے پتلا دبلا ہو جاتا ہے اور صحرا کی جانب نکل پڑتا ہے اور بید مجنوں بھی صحرا میں ہی پایا جاتا ہے۔اس مناسبت سے صحرا کا استعمال مجنوں کے ساتھ جس خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے وہ محسوس کر نے کی چیز ہے ۔ اس کے بعد کے بہاریہ اشعار میں ذوقؔ نے مضمون میں کمال کی ندرت پیدا کی ہے۔ ماحول سازی اور فضا بندی بھی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے کہ طبیب نسخے پر ہوا لشافی لکھتا ہی ہے کہ بیمار کہتا ہے کہ شفا مل چکی۔ یعنی اب دوا لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ غلو ہے لیکن ذوقؔ نے اپنی فنکاری سے غزل کا فطری پن اور حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیش کر دہ اشعار اگرچہ تشبیب کا حصہ ہیںلیکن مدح کا ناگزیر جز تصور کیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔اسی طریقے سے برسات کے خوبصورت موسم کا ذکر ذیل کے قصیدہ میں ہوا ہے ۔
ساون میں دیا پھر مہ ِشوال دکھائی بر سات میں عید آئی ، قدح کش کی بن آئی
ذوق اپنے عہد کے تمام مر و جہ علوم و فنون سے باخبر تھے یہی وجہ ہے ان کے قصیدوں میں علم ِ ہیئت و نجوم ، منطق و فلسفہ ،فقہ و تفسیر ،تصوف و سلوک ، تاریخ و واقعات او ر موسیقی و طب وغیرہ کی اصطلا حات کثرت سے ملتی ہیں ۔جیسا کہ اوپر لکھے گئے قصیدے کی تشبیب میں بھی مکمل طب کی فضا نظر آتی ہے ۔کسی بھی اصطلاح سے کما حقہ واقف ہونا اور اس کواپنے کلام قدر ت سے شاعر ی میں پیش کر تے ہوئے معانی میں دوبالگی پیدا کر کے شعر ی حسن عطا کر نا بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے، پھر منطق و فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو اشعار کے بہاؤ میں پیش کرنا اور بھی مشکل امر ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک ذوق کے قصائد کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے علمی اصطلاحات کو استعمال کر کے شعر یت اور شعری حسن دونوں کو قائم رکھا ہے ۔صرف دو شعر علم ہئیت اور منطق کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں ۔
ہواہے مدرسہ یہ بزم ِ گاہ عیش و نشاط کہ’ شمس بازغہ‘ کی جگہ پڑھے ہیں ’بدر ِ منیر ‘
اگر پیالہ ہے صغر یٰ تو ہے سبو کبریٰ نتیجہ یہ ہے کہ سر مست ہیں صغیر و کبیر
مدر سہ جوعموماً کبھی بھی عیش و نشاط کی بزم گاہ نہیں بنی ، بننا تو دور کی بات ہے بلکہ نصابات میں بھی وہ بہت ہی خشک واقع ہوئی ہے ۔ وہاں تو حکمت جیسے خشک موضوع کے لیے بھی ’’ شمس بازغہ ‘‘ جیسی مغلق کتاب پڑھائی جاتی تھی لیکن اب تو وہ بھی ’بدر منیر ‘ کے پڑھنے پڑھا نے سے سرا پا بزم گاہ عیش و نشاط بن گیا ہے ۔شمس بازغہ مدار س میں داخل ایک نصابی کتاب تھی جو فلسفہ یونان کے دفاع میں پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں اپنے فن پر یہ آخری کتاب تھی اس سے پہلے’ صدرا ‘ اور ’ میبذی ‘ شامل نصاب ہوا کر تی تھی ۔ (میبذی بعض مدارس میں اب بھی ہے ) گویا انہوں نے اس کتاب کاذکر محض یونہی نہیں کر دیا بلکہ ایک کی خشکی اور مغلق پن کے ساتھ دوسرے کی رنگینی اور حسن کلام کا بھی تقابل ہے ۔دوسرے شعر میں پیالہ اور سبو کی مناسبت سے علم منطق کی اصطلاح سے قضیہ کو بہت ہی خوبصورتی سے استعما ل کیا گیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ صغریٰ اور کبریٰ منطق کے دو قضیے ہوتے ہیں ۔ جیسے قضیہ صغریٰ ’ سمندر کا پانی ہے ‘ اور قضیہ کبریٰ ’ پانی گرم ہے ‘ ان دو نوں میں جو ایک مشتر ک چیز ہے وہ ’ پانی ‘ ہے اسے حد اوسط کہتے ہیں اور یہ نتیجہ میں ساقط ہو جاتا ہے توگو یا نتیجہ ہوا ’ سمندر گر م ہے ‘ ۔ اب شعر پر نظر ڈالتے ہیں تو باد ی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے پیالہ کو صغریٰ اور سبو کو کبر یٰ کہا ہے ، ظاہری طور پر پیالہ چھوٹا برتن ہوتا ہے اور سبو بڑا بر تن ۔ اس لیے پیا لہ کو چھوٹا اور سبو کو بڑا کہا ہے ۔ لیکن منطق کی اصطلاح میں ’ پیالہ ہے صغریٰ ‘ قضیہ صغریٰ ہوا اور ’ سبو ہے کبریٰ ‘ قضیہ کبر یٰ ہوا ۔ پیا لہ اور سبو دونوں ظر ف ہیں اس لیے اس کو حداوسط سمجھ لیا جائے ۔دوسرے مصرع میں حد اوسط گر ا کر کے نتیجہ جو نکالتے ہیں اس سے بادشاہ بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ جس کے حصہ میں جو بھی آیا خواہ صغیر ہو یا کبیر سب کے سب آپ کے کر م سے مست ہیں ۔ الغرض اس قصیدے میں کئی ایسے اشعار ہیں جن پر خود قصیدہ کو فخر ہے ۔
اس بات کا ذکر ہوچکا کہ ’کلام الملو ک ملوک الکلام ‘ لیکن اگر کلام انسانی کی بات کی جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ قصیدہ بھی ملوک الکلام ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ قصائد کو ہی ’ سبعہ معلقہ ‘ ہو نے کا شر ف حاصل ہوا ہے ۔اگر ملوک الکلام ( قصیدہ ) کے ساتھ ملوک الارض والسماء ( اللہ ) کا کلام بھی نگینوں کی طرح جڑ کر خوبصورتی کے ساتھ دعا کے حصے میں پیش کیا جائے تو پھر کیسے کوئی اپنے خزانے کو روک سکتا ہے :
مصحف رخ ترا اے سایہ رب العزت کھول دے معنی اتممت علیکم نعمت
ذوق کے قصائد کے متعلق ناقدین کی رائے دو خانوں میں ہے ۔ ایک جنہوں نے ذوق کو اچھا قصیدہ گو شاعر ما نا ہے۔ وہ برج موہن دتاتر یہ کیفی، تنویر احمد علوی، انوار الحسن اور ابو محمد سحر ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق معمولی قصیدہ نگار کی رائے قائم کی ہے ان میں امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد اور پر وفیسر عبدا لحق ہیں ۔ امداد اما م اثر لکھتے ہیں: ’’ مر زا رفیع سودا کے بعد قصیدہ گوئی میں شیخ ابراہیم ذوق کا ہی نمبر ہے ۔ مگر ان دونوں شاعران نامی میں پہاڑ اور ٹیلے کا فر ق ہے ۔ذوق میں ایک ربع بھی سودا کی طبیعت داری نہیں ‘‘ ۔ ابو محمد سحر لکھتے ہیں ’’ علمیت اور معنی آفرینی میں ذوق کے قصائد خاص امتیاز رکھتے ہیں ۔ علمیت کی کار فرمائی ان کے قصائد میں سودا سے زیادہ ہے ‘‘ ۔ یہ دونوں طر ف کی باتیں ہوگئیں ۔آپ نے تو علمیت کی کار فرمائی میں ذوق کے قصائد کے اشعار تو ملاحظہ کر لیے اب سودا کے اشعار سے بھی حظ اٹھائیں ۔
جبیں ایسی کہ جگر کا ماہ ہوجاوے داغ اس کی تشبیہ سے جب ا س کو تجاوز دے فلک
قتل کرنے کا یہ جوہر نہ ہو شمشیر کے بیچ اس کے ابر و سے مشابہ نہ بناویں جب تک
سو داؔ
تشبیب کے ان اشعار میں سودا نے جن شاعرانہ صناعی ، مبالغہ، رعایتوں ، مناسبتوں اور لفظی انسلاکات کو برتا ہے وہ ذوق کے یہاں نہیں ہے تا ہم تقلید بھی نہیں :
نگاہ ساغر ، کش ِ تما شا،بیاضِ گر دن صراحی آسا وہ گول بازو، وہ گورے ساعد ، وہ پنجہ رنگیں بخونِ مرجان
کمر نزاکت سے لچکی جائے کہ ہے نزاکت کا بار اٹھا ئے اور اس پر سو نور لہر کھائے پھر اس پہ ہیں دو قمر فروزاں
فر ق آپ کو واضح نظر آئے گا ان میں مزید کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔ بات صرف تشبیب تک ہی رہی تا ہم اپنے اس مضمون کو کو ثر مظہر ی کے ان الفاظ سے ختم کر تا ہوں ’’ ضر ورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ دیکھا ، پڑھا اور پرکھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصیدہ میں سودا بڑا اور غزل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قرات اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ‘‘ ( شیخ محمد ابرا ہیم ذوق ، کوثر مظہر ی ، ص ۶۰ )
ِAmir Hamzah
L 11, Second Floor, Haji colony
Jamia Nagar, New Delhi .110025
8877550086
Saturday, 9 February 2019
شبلی خود نوشتوں میں
آج کے مصروف تر ین دور میں کسی بھی ایک ڈگر پر چلنا بہت ہی مشکل اور صبر آزما امر ہوتا ہے ، لیکن رفتار زمانہ نے تخصصات کے ٹیگ کو بہت ہی قیمتی بنا دیا ہے اور متخصصین کی اہمیت مسلم سمجھی جاتی ہے ۔اردو میں بہت ہی کم مصنفین ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی قلمی زندگی کو کسی ایک موضوع یا شخصیت کے لیے وقف کر دیا ہو یافی زمانہ کسی کی شخصیت پر کوئی ایک ہی فرد تخصص کے درجہ پر فائز ہو ۔ البتہ یہ دونوں ہی کیفیتیں ڈاکٹر الیاس الاعظمی کے یہاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اب تک مطالعات شبلی پربارہ قیمتی کتابوں سے اردو دنیا کو نوازا ہے اور فی زمانہ شبلیات میں ان کی شناخت اہمیت کی حامل ہے ۔
الغر ض یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں شبلی سے متعلق بہت کچھ ہے اور دوسروں کے لیے رہنمائی بھی ۔ یہ کتاب جب ایک عمدہ نمونہ کے طور پر سامنے آچکی ہے تو امید ہے کہ دیگر اساطین ِعلم و ادب پر بھی ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں گی جس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ خود نوشتوں کا مطالعہ بڑھ جائے گا اوردوسرا یہ کہکسی بھی شخصیت کی ذات اور خدمات کے احاطہ کے لیے نئے دریچے کھلیں گے ۔
امیر حمزہ
Sunday, 9 December 2018
اردو میں ریسر چ : مسائل اور وسائل
واضح رہے کہ کسی بھی صنف کی تاریخی آغاز و ارتقاء اور ہیئتی شناخت ہر سندی مقالہ کے لیے ایک تحقیق طلب امر ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر سندی مقالات میں آپ کو پہلا باب اگر شخصیت پر ہے تو شخصیت و زندگی اور اگر اصناف پر ہے تو ناول آغاز و ارتقا ء، افسانہ آغاز و ارتقاء اور ان جیسے عنوانات آپ کو دیکھنے کو ملیں گے تو اسی طرح کا ایک عنوان سامنے آتا ہے رباعی آغاز و ارتقاء۔ اس موضوع پر تحقیق میں کتنے مسائل آتے ہیں اس پر نظر ڈالتے چلتے ہیں ۔
جب ہم رباعی کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے لیے اردو کی اہم کتابوں کا انتخاب کر تے ہیں تو ان میں سے ایک ڈاکٹر سلام سندیلوی کی’’ اردو رباعیات ‘‘ اوردوسر ی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ’’ تاریخ اردو ارباعی ‘‘ سامنے نظرآتی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں جو بحث شروع ہوتی ہے وہ رباعی کی ایجاد سے ہوتی ہے ۔ طالب علم ان دونوں کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد یاتو اپنی تحقیق کو سمیٹنے کی کوشش کرے گا یعنی ان کتابوں سے جو فائدہ اٹھا یا ہے اسی کو اپنے مقالہ میں اپنے انداز سے رقم کرے گا یا ہمت کر ے گا کہ رباعی کی ایجاد کے سلسلے میں ان کتابوں میں جن لوگوں کے نام جو آرہے ہیں ان اسماء کی Decoding کی جائے تو وہ پھر آگے کی جانب قدم بڑھا ئے گا ۔ لیکن مراجعت کے لیے قدم کس کتاب کی جانب بڑھا ئے گا وہ یہی سوچے گا کہ ان دونوں کتابوں میں اردو کے جن قدآور لوگوں کی کتابوں سے بحث کی گئی ہے اس پر نظر ڈالنی چاہیے تو وہ اردو کے عظیم محققین سید سلیمان ندوی اور حافظ محمود شیرانی کی جانب قدم بڑھا ئے گا ساتھ ہی شبلی کی شعر العجم پر بھی نظر جمائے گا ۔
اب اس کے سامنے کل پانچ کتابیں ہوگئیں۔ ان پانچوں کتابوں سے وہ مطالعات کے سمندر میں ڈوب جائے گا یا ان ہی معلومات کے سمندر حامل کتابوں سے اپنے مقالہ کو سنوارنے کی کوشش کرے گا ۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے اکثر صورتحال ایسی بن جاتی ہے کہ ریسرچ اسکالر ہوں یا کوئی اور وہ ان ہی پے چیدگیوں میں الجھ کر رہ رجاتا ہے اور اپنی تحقیق سے بالآخر یہی ثابت کر تا ہے کہ رباعی کی تاریخ رودکی سے شروع ہوتی ہے اور رباعی کے اوزان کا خالق عجم ہے ۔ اکثر کا ایمان اسی پر یقین کو پہنچتا ہے ۔لیکن بعد میں کچھ محققین حافظ محمود شیرانی اورشمس قیس رازی کے اس مستحکم فیصلے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ کر کچھ اور کی تلاش میں نکلتے ہیں ۔اب تحقیق کے جو اہم جراثیم ہو تے ہیں وہ اس کے اندر متحرک ہوتے ہیں یعنی شک کا جر ثومہ ۔
لیکن اس شک کی غذا کی تکمیل کے لیے یعنی مسئلۂ درپیش کے حل کے لیے اس کو سب سب پہلے جس وسیلہ کو اختیار کر نا ہوگا یا تو اس کے پاس پہلے سے موجو ہوگایا پھرزیادہ محنت کی وجہ سے پیچھے قدم کھینچ لے گا یعنی فارسی زبان کا جاننا کیو نکہ ان پانچوں کتابوں میں جو اقتباسات مذکور ہیں وہ فارسی زبان میں ہی ہیں اور اکثر کا تر جمہ بھی مرقوم نہیں ہے ۔ جس عہد میں یہ کتابیں لکھی جاتی تھیں اس زمانہ میں اس زبان سے ہر پڑھا لکھا واقف ہوتا تھا ۔ویسے فارسی زبان سے نابلد ہو نے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ یونی ورسٹیز کو ریسرچ کے لیے ایک نیا ٹاپک مل گیا فرہنگ نویسی کا، کہ اب غبار خاطر سے لیکر دواوین شعرائے قدیم تک کی فرہنگ نویسی یونیورسٹیز میں ہو رہی ہے.
خیر ہم اپنی گفتگو آگے لے کر چلتے ہیں ۔ سلام سندیلوی سب سے پہلے رباعی کی ایجاد کے سہرا میں سید سلیمان ندوی کا دعویٰ پیش کر تے ہیں کہ رباعی عربی النسل ہے اور اس کی تائید میں ندوی صاحب نے جو عبارت ’’الخیام ‘‘ میں ’’المعجم فی معاییر اشعارالعجم‘‘ (۶۳۰ھ تاریخ تکمیل ) کے حوالے سے ذکر کی ہے وہ رقم کر تے ہیں ۔فورا ً بعد ان کے جواب کے طور پر تفصیلی ذکر محمود شیرانی کا کر تے ہیں کہ گویا ان کے وکیل کے طورپر خود کو تیار کر تے ہیں اور محمود شیرانی کی رائے کو ذکر نہ کر کے اور نہ ہی انہوں نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کا کا ذکر کر تے ہیں. بلکہ تنقید شعر العجم میں انہوں نے جو لکھا ہے اسی کو سلیمان ندوی کے عربی کے مر بع الاجزاء کے جوا ب میں فارسی سے رودکی کے ایک معقد قطعہ نقل کر تے ہیں۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی یہ ہوتی ہے کہ سلیمان ندوی اپنی دلیل شمس قیس رازی سے لاتے ہیں اور محمود شیرانی خود کو شمس قیس رازی کے برابر لے جاتے ہیں ۔ بلکہ دوسری نظر سے دیکھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سلیمان ندوی کے سوال کا جواب محمود شیرانی نے جو دیا ہے وہ نہ دیکر خود دے رہے ہیں۔ اس طر یقے سے سلام سندیلوی صاحب دونوں حضرات کے سوالات و جوابات کوپیش کر تے چلے جاتے ہیں اور اپنا حکم اس انداز میں صادر کرتے ہیں کہ ’’ پروفیسر محمود شیرانی کے دلائل ان کے حوالوں اوردیگر کتب کے اقتباسات سے بات واضح ہوگئی کہ رباعی ایران زا ہے اور عرب میں اس کی تخلیق نہیں ہوئی ہے‘‘ ۔
اسی طر ح فرمان فتحپوری بھی لکھتے ہیں ’’ رباعی خاص ایرانیوں کی ایجاد ہے ۔ ہمارا خیال ہے اس امر میں اردو فارسی کے تمام محققین متفق ہیں۔ اور اس کی تائید میں انہوں نے دس بڑے بڑے لوگوں کا قول بھی ذکر کیا ہے ۔
چلیے پھر بھی دلائل و شواہد کی قلابازیاں دیکھتے ہیں اور ایک ریسر چ اسکالر ہونے کے ناطے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لطف اندوز ہونا اس لیے کہ اس کا تعلق خالص ریسر چ سے ہوتا ہے ۔ریسرچ اسکالر کو اگر شواہد اور دلائل میں لطف نہیں آرہا ہے تو پھر ریسرچ میں بھی لطف نہیں آرہا ہے اور ریسرچ اس کے لیے گردن کا ایک بوجھ ہے ۔
اس امر میں سب سے پہلے جس اقتباس کا ذکر تمام لوگ کر تے ہیں اس میں ایک جملہ کچھ اس طرح ہے کہ ’’ یکے از شعرائے عجم پندارم رودکی واللہ اعلم ‘‘ یہیں دو مجہول لفظ ’ پندارم‘ اور ’ واللہ اعلم ‘ جیسے لفظ کا استعمال آگے کی ساری کڑیوں کو مشکوک کر دیتا ہے ۔پھر اسی اقتباس میں رباعی کے کئی نام کا ذکر ملتا ہے۔ ابھی تو یہ صنف شروع بھی نہیں ہوئی ہے کہ اس کے نام چار بیتی ، دوبیتی ،ترانہ اورر باعی پہلے سے کیسے ملتے ہیں ۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رباعی کے اوزان عجم کے ایجاد کر دہ ہیں تو پھر خلیل بن فراہید نے کتنے اوازان جمع کیے تھے کیا ہزج ان میں سے نہیں ہے؟ یا عجم سے پہلے بحر ہز ج میں کسی نے شاعری نہیں کی تھی ؟ چلو مان بھی لیا جائے کہ فارسیوں کی ایجاد ہے۔ پھر رباعی کے جملہ اوزان میں سے ’’ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘کیا فارسی مصر ع ہے ۔یا شاید بعد میں اس کو رباعی کے لیے ترازو بنا لیا گیا ہو۔ لیکن شروع سے ہی فارسی کی کتابوں میں یہ مستعمل کیوں ملتا ہے ؟چلیے رباعی کے وزن کو کسی ایک کاوزن نہیں مانتے ہیں جیسا کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے اور پروفیسر پرویز ناتل خانلری کہتے ہیں’’ ایں وزن از تودہ ٔ مردم فارسی زبان اقتباس گردیدہ‘‘ یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ وزن رودکی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ کثیر فارسی شعرا کی مشق کا نتیجہ ہے جس کے وجود میں آتے آتے زمانہ لگ گیا ۔ یہ تو جواب اخر ب و اخرم کے حوالہ سے دیا جاسکتا ہے جو رباعی کے چوبیس اوزان کو دو حصوں میں تقسیم کر تا ہے۔ لیکن سلیمان ندوی نے قیس رازی سے پہلے کی جو مثالیں پیش کی ہیں ان کے مآخذ تک پہنچ کر دیکھا جائے کہ کیا حقیقت میں رباعی کے اوزان یا رباعی جیسی صنف عربی میں پہلے سے موجو د ہے اور ’’ لم اکن سمعت علی ہذہ الطریقۃ من الرباعیات‘‘ جو حسن باخرزی متوفی (۴۶۸ھ) کی کتاب ’’ دمیۃ القصر‘‘ میں اپنے والد کے حوالے سے بات کہی گئی ہے جس کا ناقص ترجمہ کر کے محمود شیرانی نے رباعیات سے ہی انکار کیا ہے ؟ کیا ایسا ہی ہے یا کچھ اور ہے ؟بہر حال جب کوئی طالب علم تحقیق کو آگے بڑھاتا ہے تو حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے اور رباعی کے اوزان کے سراغ عربی میں ملنے شروع ہوجاتے ہیں وہ بھی عہد عباسی کے شروع سے(۱۳۲ھ)۔ کلثوم بن عمر العتابی جس کا سلسلہ نسب جاہلیت کے بڑے شا عر عمر بن کلثوم سے ملتا ہے ان کا ایک موالیا ہے جو رباعی کی شکل میں ہے
قاری کا فقدان
دریچہ ڈاکٹر امیرحمزہ اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یون...
-
اسم ضمیر اسم ضمیروہ الفاظ ہوتے ہیںجو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے ’ وہ ، میں ، اس ، مجھ اور تجھ ‘ وغیرہ ۔ اس شمارہ میں ہم اسم...
-
اسم صفت اور اس کی قسمیں صفت (Adjective) اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی کیفیت یا حا لت کا پتہ چلے ،اس کلمہ سے کسی اسم کی اچھائی ی...
-
اردو زبان میں امالہ کسی بھی زبان کا وجود اچانک کسی عظیم خطۂ ارض سے نہیں ہوتا بلکہ تمام زبانوں کے وجود میں آنے کا تعلق کسی نہ کسی مخ...