Sunday 28 October 2018

عربی ادبیات کے اردو تراجم

دنیا میں کون سی زبان ترجمے کے اعتبار سے فوقیت حاصل کر تی ہے وہ عہد عہد کی بات ہوتی ہے.جیسے آج کے دور میں جب انگریز ی بادشاہت کا تاج پہنی ہوئی ہے ایسا ہی ایک وقت تھا جب عربی لسان العالم سمجھی جاتی تھی تو اس وقت عربی زبان سے دیگر زبانوں میں خوب ترجمے ہو ئے اور ابھی بھی قدیم کتب سے کافی ہورہے ہیں یا استفادہ کیا جا رہا ہے. لیکن جب اردو میں تراجم کی نمبر شماری کی جاتی ہے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسا کہ مصنف موصوف ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کتاب کے ابتدا ئی صفحات میں جس کو آپ مقدمہ سمجھ سکتے ہیں جو ”قطرہ “ کے عنوان سے ہے اس میں لکھتے ہیں ”اردو میں تراجم کی جو فہرست تیار کی جاتی ہے، اس میں غیر متعلقہ زبانوں کے تر جموں کا نمایاں اور جلی حروف میں تذکر ہ ہوتا ہے ، مگر عربی اردو ترجموں کا باب جانے انجانے گول کر دیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ اردو میں ابتدائی زمانے میں جو تر جمے ہوئے ہیں وہ انگر یزی سے نہیں ، عربی فارسی سے ہوئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ وضاحتی کتابیات اور فہارس کتب میں بھی عربی ترجموں کے حوالے سے ڈنڈی ماری گئی ہے “ ۔موصوف اس ناانصافی سے اتنے نالاں ہیں کہ کتاب میں کئی مقامات پر ان کی گفتگو اور تحریر کا یہ اسلوب پڑھنے کو ملتا ہے ۔

کتاب کو مصنف نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ اگر یہ تقسیم نہ کر تے تب بھی کتاب اتنی ہی معنی دار ہوتی جتنی تقسیم پر ہے. دراصل یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ سندی تحقیق کا جو اسلو ب تحریر و پیش کش ہوتا ہے وہ باب وار ہوتا ہے اور اس میں بھرتی کی چیز یں بھی ہوتی ہیں یا سمجھ لیا جاتا ہے کہ پہلے ، دوسرے اور تیسرے باب میں تمہیدات ہی ہوں گی اور آخر ی باب میں جا کر معنی مطلوب پر بات کی گئی ہوگی وہ بھی شا ید تکر ار سے پر ہو لیکن موصوف پہلے باب کے متعلق لکھتے ہیں ” یہ باب گر چہ بھر تی والے عنوان سے موسوم ہے ، مگر ہم نے جس تناظر میں گفتگو کی ہے اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسری کتابوں کے اس جیسے باب سے اس کی مشابہت و مجانست نہیں ۔“ اور وہ اس لیے نہیں کہ پہلے باب میں ترجمہ کا فن اور خصائص و امتیاز کے تحت ” تر جمہ کا تصور و تنا ظر“ اور ” تعریف و تقسیم“ پیش کر تے ہیں ۔جس میں مصنف موصوف کا نظر یہ کچھ یوں ہے” اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سی کتابوں کا اصل متن عوام اور قارئین میں اتنا مقبول نہیں ہوا جتنی مقبولیت اس کے تر جمہ کو ملی۔اس لیے بعض تر جموں کو اصل متن سے بھی بہتر ، دلچسپ اور مؤثر قرار دیا گیاہے “ مثال آپ کے سامنے کلیلہ و دمنہ ، باغ و بہاراور گلزار نسیم کی شکل میں موجود ہے ۔اس باب کے دوسرے جز ” تر جمہ : تعریف اور تقسیم“ میں مصنف نے تعریف بھی خوب پیش کی ہے اور تقسیم سے بھی روشناس کرایا ہے ، لیکن خود مصنف کی شرکت تعریف و تقسیم میں نظرنہیں آتی ہے البتہ تجزیے میں انہوں نے بھر پور کلام کر نے کی کوشش کی ہے جس کے لب لبا ب میں یہی لکھا جاسکتا ہے جو مصنف نے لکھا ہے کہ ” تر جمے میں اگر دونوں زبانوں کی لطافت بر قرار نہ رہے ، توترجمہ ادھورا اور یبوست زدہ معلوم ہوتا ہے جس سے قاری کی آنکھوں کا رشتہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا ۔“

دوسرا باب ” عربی اردو ترجمہ نگاری : سمت و رفتار “ ہے ۔ یہ باب آزادی سے پہلے شاہ رفیع الدین سے شروع ہوتا ہے اور آزاد ی کے بعد مولانا محمد تقی عثمانی پرختم ہوجاتا ہے ۔ تیسرا باب ” عربی ادبیات کے اردو تراجم “ پر ہے ۔ اس باب کے بھی دو حصے ہیں پہلا حصہ شعری تراجم پر ہے جس میں قدیم دواوین سے لے کر جدیدشعری مجموعوں تک کا ذکر ہے ،جس کی تعداد صر ف دس ہے ۔اس کم تعداد پر افسوس ہوتا ہے اساتذہ شروحات (لفظ بہ لفظ تر جمہ )پر زیادہ متوجہ ہوئے اور ترجمہ نگاری کی جانب توجہ نہیں دی. اگر اسی میں تھوڑی سی محنت اور کرتے تو ابھی اردو میں شعری تراجم کا عظیم ذخیر ہ ہوتا ۔ گزشتہ دنوں ناصرہ شرما کی ایک کتاب چھ جلدوں میں ” ادب میں بائیں پسلی“ نظر سے گزری. اس میں ایک جلد مکمل عرب خواتین کی شاعری پر ہے جن میں سے اکثر کا تعلق انیسویں اور بیسویں صدی سے  ہے ۔ جس میں ان کی شاعری کے ترجمے کوبھی پیش کیا گیاہے لیکن افسوس کہ زبان اردو اور رسم الخط دیونا گری ہے جسے ہم ہندی ہی کہہ سکتے ہیں ۔دوسرا حصہ نثری تراجم پر ہے جس میں سیرت و سوانح کے تحت سیر ت اور سوانحی کتب کا جو ترجمہ اردو زبان میں ہوا ہے ان تما م کا تعارف و تجزیہ ہے ۔ان میں سے اکثر کتابیں سیرت اور سوانح صحابہ اور کبار علما ءپر ہیں لیکن آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ان میں سے ایک کتاب مولانا ابو الکلام آزاد پر بھی ہے جو عربی میں ” ابوالکلام آزاد : المصلح الدینی فی الہند“کے نام سے شائع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ 1989ءمیں نجم الدین شکیب ندوی نے ” مولانا ابو الکلام آزاد : ایک مفکر ایک رہنما“ کے نام سے کیا ۔خو د نوشت میں صرف پانچ کتابیں ہیں جن کا تر جمہ اردو میں ہوا ہے ۔داستان و حکایت جس کا تعلق عربی سے گہرا رہا ہے لیکن جب تر جمہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اردو میں صرف الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ کے ہی ترجمے سامنے آتے ہیں جن کے مترجمیں اردو میں کئی ہیں ۔ناول اور ناولٹ کے بیس تراجم کا تعارف ہے. ان تر اجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عربی ناولوں کے تئیں اردو میں دلچسپی ہے جس کا اظہار ان تر اجم سے ہورہا ہے جن کا ذکر مصنف موصوف نے کیا ہے۔ اس کے بعد عربی کے پانچ مشہور ڈراموں کے اردو تراجم کا ذکرہے جن میں سے تو فیق الحکیم کے تین ڈراموں (سلیمان الحکیم ، اہل الکہف اور شہرزاد ) کا تر جمہ پر وفیسر اسلم اصلاحی نے ہی کیا ہے ۔(ابھی حال ہی میں ” اہل الکہف “ کے نام سے ڈاکٹر احمد القاضی نے پروفیسر ابن کنول کے پچیس افسانوں کا تر جمہ عربی میں کیا )۔قصہ اور افسانے میں سے سولہ مجموعوں کا یااردو میں سولہ کتابیں ترجمہ کی شکل میں موجود ہیں ان میں سے تمام جدید افسانے ہیں سوائے مقامات حریری کے ۔ مجھے لگتا ہے کہ مقامات کے جتنے بھی ترجمے ہوئے ہیں وہ سب درسی ضروریات کی بنا پرہوئے ہیں جہاں لفظوں کے تراجم پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور لفظی پیچیدگیوں کے حل پر توجہ صرف کی گئی ہے کیونکہ مقاما ت کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ لفظی پیچیدگیوں والی کتاب ہے تو شاید کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔سفر نامے سے چار ہیں جن میں سے دو( سفر نامہ ابن بطوطہ ، سفر نامہ ابن جبیر) کا تعلق قدیم اور دو (ہندو ستان کا سفر ، ہندوستا ن میری نظر میں ) کا تعلق جدید سفر ناموں سے ہے۔ تنقید میں سے صرف چارکتابیں ہیں ۔ شاعری کے بعد اگر عربی میں دیکھا جائے تو تنقید کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے لیکن افسوس مصنف کو ہے اورمجھے بھی کہ صرف چا رکتابوں ( ادب الجاہلی ، تنقیدا ت طہ حسین ، عربی تنقید کا سفر، میزان نقد ) کا اردو میں تر جمہ ہوسکا ہے ۔ قدامہ بن جعفر ، ابن قتیبہ ، ابن سلام الجمحی ، عبدالقاہر جر جانی، جاحظ ، ابن المعتز ، ابن رشیق القیروانی اور اندلسی دو ر کے عظیم قلمکاروں کی عظیم خدمات اردو میں تر جمہ کی منتظر ہیں جبکہ ان ہی تمام کو مغرب نے اپنا کر criticsm کا بادشا ہ بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں جب میں نظریہ ” معنی المعنی “ کو تلاش کر رہا تھا تو رچرڈ عبدالقاہر سے سیرابی حاصل کر تا ہوا نظر آیا ۔ تنقیدی تہیں جو اب آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کا ذکر آپ کو مذکورہ با لا کے یہاں پڑھنے کو ملے گا۔ جس کو اب تک ہم مغرب کی دریافت سمجھتے آئے ہیں یا مغرب کے توسط سے پڑھ رہے ہیں ہوسکتا ہے اس کا عکس آپ کو ان کے یہاں دیکھنے کو ملے کیونکہ اردو والے تو انگریز ی سے استفادہ کرکے کسی نظریہ کے امام تو بن جاتے ہیں لیکن وہی انگر یزی والا اس کو کہاں سے کشید کر رہا ہے اس جانب تو جہ نہیں دیتے ہیں ۔

ادبی تاریخ میں بھی چار کتابیں ہیں اس کے بعد متفرقات جو کتاب کا آخری حصہ ہے اس میں دس کتابیں بلاغت ، انشائیہ ، خطوط، کارٹون اور لطائف پر ہیں ۔
اس طر ح سے240 صفحات پر مشتمل کتاب تمام ہوتی ہے.

جناب رکیے کچھ خوبصورت زبان سے بھی مستفید تو ہوتے جائیے
حقانی القاسمی لکھتے ہیں ” اس موضوع کے وسیلہ سے انہوں نے غیر ممسوس منطقہ کی سیاحت کی ہے اور ایک ایسی اجڑی ہوئی کائنات کو آباد کیا ہے جس میں بہاروں کے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں ۔ انہوں نے عالمی افکارو اقدار سے شناسائی اور بین ثقافتی تر ابط و تعامل کی ایک حسین صورت تلاش کی ہے ۔“
اب آپ بھی حسین و جمیل خیابان کی سیاحت میں نکل جائیں.

امیر حمزہ، دہلی یونیورسٹی

نقد و آہنگ

"نقد و آہنگ" بزم آہنگ کی پہلی اہم تنقیدی پیشکش.

اکیسویں صدی کا اٹھارہواں برس ہے. دنیا مکمل طور پر برق رفتاری سے مرعوب ہے. قلم کاروں میں بھی بلا کی تیزی دیکھی جارہی ہے. جس کے قلم کی رفتار جتنی تیز ہے وہ اپنی تحریروں کے لیے اتنی ہی اسپیس تلاش کر رہا ہے. ڈیجیٹل دنیا میں یہ بہت ہی آسانی اور چاپلوسی سے حاصل کی جارہی ہے. قلم کار مزید بڑا بننے کے لیے کسی بھی درجے کی میگزین نکالنے کی جانب گامزن ہے اور مدیر کے عہدے پر فائز ہوجانا چاہتا ہے. ان تمام تیز رفتاریوں کے باوجود بزم آہنگ نے اکیسویں صدی کے پندرہویں برس میں سفر کا آغاز کیا اور اپنے سفر میں بے آہنگی نہیں آنے دی. جامعہ کے ہرے لان اور لال پتھروں کے درمیان خود کو نئے آہنگ میں بزم نے ڈھالا اور فروری 2017 میں پہلا قومی سیمینار جدیدیت کے موضوع پر منعقد کیا اور آگے کی جانب بزم نے اپنا قدم بڑھایا اور ایک سال بعد 17 مارچ 2018 کو اپنا دوسرا قومی سیمینار "اکیسویں صدی میں فکشن" پر منعقد کیا. اس موقع پر اپنے مخصوص رفتار و آہنگ کے ساتھ چلنے والی بزم آہنگ نے اس وقت بہت متحیر کیا جب سال گزشتہ کے سیمینار و بزم کی دیگر مجالس میں پڑھے گئے مقالات کا کتابی شکل میں رسم اجرا ہوا. (نقد و آہنگ. 264 صفحات)
اجلاس میں کتاب پر کسی نے گفتگو نہیں کی تو سوچا خود ہی اس کتاب سے ہم آہنگ ہوجاؤں اور اس میں آپ تمام کو شریک کرلوں.
اس کتاب کے مرتبین زاہد ندیم احسن اور صدف پرویز  ہیں. اول کا "پیش لفظ" اور دوسرے کا "میرے بول" ہے. پروفیسر کوثر مظہری کا ایک طویل مضمون "جدیدیت اور مابعد جدیدیت :تعبیر و ترسیل" کو اس کتاب کا مقدمہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا گرچہ یہ اہم مضمون موصوف کی اہم کتاب "جوازونقد" میں بھی مقدمہ کے عہدہ پر رونق افروز ہے. مقدمہ سے دلچسپ اسٹیٹمنٹ دیکھیں" اس عہد کی شاعری وہ سماج وہ زندگی اور وہ فن پھر زندہ ہوگیا ہےجو ترقی پسندوں اور جدیدیت کے درمیان سینڈوچ کی طرح دب کر رہ گیا تھا. آج کا ادبی منظر نامہ سماج اور افراد کی صحیح تفہیم کا اشاریہ بھی ہے اور جمال فن کا نمونہ بھی."
اس کے بعد ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا مضمون" جدیدیت اور مابعد جدیدیت : چند باتیں" اور ڈاکٹر ندیم احمد کا مضمون" تصورات و تحریکات" ہیں جنہیں ضمنی مقدمہ کے طور پر آپ سمجھ سکتے ہیں. اول کے مضمون سے مختصر اقتباس" آج کے فنکار کو نہ مابعد جدیدیت کے فکری مخاطبے سے مطلب ہے اور نہ اس سے مکمل آگاہی ہے. وہ اس پر اسرار مابعد جدید تھیوری کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں. انہیں نہ جشن جاریہ کی خبر ہے نہ مہابانیہ کی اور نہ ہی تکثیریت کی، نہ دریدا کو ہی جانتے اور نہ وہاب حسن کو." دوم کے مضمون سے بھی ایک اقتباس دیکھیں " جدیدیت میں مواد اور ہیئت ایک اکائی کا نام ہے. اسی طرح جدیدیت نے مصنف کی ذات کو تو اہمیت دی لیکن مصنف کی ان ترجیحات کو کوئی مقام نہیں دیا جن کا تعلق ادیب کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی نظریے سے ہوتا ہے." اس کے بعد ریسرچ اسکالروں کے مضامین و مقالات کو دو باب میں تقسیم کیا گیا ہے. پہلے باب میں وہ مقالات ہیں جو بزم آہنگ کے پہلے قومی سیمینار میں پیش کیے گئے تھے جن کی تعداد دس ہے. دوسرے باب میں بھی دس مضامین و مقالات ہیں یہ وہ اہم تنقیدی نگارشات ہیں جو بزم آہنگ کی مختلف نشستوں میں پیش کی گئی ہیں.
پہلے باب میں پہلا مضمون زاہد ندیم احسن کا "اردو افسانہ جدیدیت کے تناظر میں" ہے. جس میں انہوں نے سریندر پرکاش، انور سجاد اورانتظارحسین کی افسانوی فکر پر مختصر کلام کیا ہے. امیر حمزہ کے مضمون "رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات" میں موصوف نے فن پر تفصیلی گفتگو کے بعد صرف تین رباعی نگار( فرید پربتی. اکرم نقاش، عادل حیات) کی رباعیوں میں جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے. ضیاءاللہ انور کے مضمون "مابعد جدید ڈسکورس اور اردو کا لوک ادب:ایک وضاحتی بیانیہ (لوک گیتوں کے حوالے سے)" ایک جملہ ملاحظہ ہو" لوک ادب کا حوالہ ما بعد جدید ڈسکورس سے اس اعتبار سے بھی منسلک ہوتا ہے کہ اس میں علم بشریات اور علم صنمیات کے ڈسکورس بھی شامل ہیں. "
رضی شہاب کا مضمون" افسانے کی حمایت میں :شور برپا ہے خانہ دل میں" شمس الرحمن فاروقی کی کتاب "افسانے کی حمایت میں" کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ ہے.
محمد حسین کا خوبصورت مضمون" اردو نظم: جدیدیت کے تناظر میں " ہے. اس مضمون میں نظموں میں جدیدیت کے رجحانات کو سمونے کی کوشش کی ہے.
"جدید افسانہ اور سریندر پرکاش " رخسار پروین کا مضمون ہے. موصوفہ لکھتی ہیں "انہوں نے اپنے افسانوں میں بیانیہ حقیقت کے بجائے زبان و بیان کی داخلیت سے کام لیکر ابہام اور پیچیدگی کے ذریعہ کہانی میں ایک نیا انداز پیدا کیا ہے. ان کے یہاں علامت، تمثیل، تجرید و استعارہ سے کہیں زیادہ اسلوب، انداز بیان اور طرز نگارشات کی کارفرمائی ملتی ہے. "
اسما نے اپنے مضمون" نادید مابعد جدیدیت کے تناظر میں " جوگندر پال کے ناول نادید کو ایکسپلور کرنے کی مابعد جدیدیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اچھی کوشش کی ہے.
" جدید اور مابعد جدید غزل تنقید:ایک مطالعہ " محمد ریحان کے اس مضمون میں جدید غزل سے متعلق متنوع گفتگو کی گئی ہے اور ساتھ ہی ان کی تنقید پر بھی گفتگو ہے.
" مابعد جدیدیت : مسائل و امکانات" نصرت پروین کے اس مضمون سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن انہوں نے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے آخری برسوں میں بھی مابعد جدیدیت کے مسائل کے ساتھ امکانات کی تلاش کی ہے.
اس باب کا آخری مضمون ندیم سحر عنبرین کا ادب سے پرے اسلامیات سے ہے. جس میں برصغیر کی خواتین مفسرین کا جائزہ لیا گیا ہے.
دوسرے باب کا پہلا مضمون نوشاد منظر کا "افسانہ تنقیدکے ابتدائی نقوش" ہے. اس میں انہوں نے افسانہ کے چھ اولین ناقدین کے حوالے سے گفتگو کی ہے. دوسرا مضمون محمد تحسین زمان کا یحیی منیری کی اخلاقی تعلیمات پر ہے. امتیاز احمد علیمی کا مضمون قرۃالعین حیدر کے ناولوں کے تہذیبی شناخت نامہ پر ہے. اس مضمون میں تہذیبی شناخت نامہ سے زیادہ فنی شناخت نامہ پر گفتگو ہے.
شاہنواز حیدر شمسی کامضمون خلیل الرحمٰن اعظمی کی شاعری پر ہے جس میں انہوں نے ان کی شاعری پر سرسری جائزہ پیش کیا ہے. لکھتے ہیں "ان کی شاعری احساسات کی شاعری ہے. انسان کے ٹوٹنے بکھرنے اور انتشار کی داستان ہے، اخلاقی زوال قدروں کے کھوکھلے پن دہشت و بربریت کی کہانی ہے."
"سید عابد علی عابد کی غزل گوئی" ثمرین کا مضمون ہے. ثمرین لکھتی ہیں "عابد علی عابد کا تعلق شعرا کے ایسے طبقہ سے ہے جن کے کلام میں سوزوساز دونوں شامل ہیں ان کا کلام شعریت اور تغزل سے معمور ہے ............ موسیقیت، ترنم اور نغمہ کی جمالیاتی صفات کا ظہور ان کے کلام میں بخوبی پایا جاتا ہے. "
"اردو کی خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس" میں درخشاں نے خواتین کے اہم ناولوں کے اہم کرداروں میں تانیثی ڈسکورس کی کوشش کی ہے." قرۃالعین نے شاہد انور کے ڈراموں پر بہت ہی جامع گفتگو کی ہے. عرفان احمد کا مضمون "نشیب :ایک تجزیہ". کنیز فاطمہ کا مضمون "شفیق الرحمن کی انفرادیت" تجزیاتی و تاثراتی اوصاف کے حامل مضامین ہیں. کتاب کا آخری مضمون" مختصر تاریخ ادب اردو کے چند معروضات" ایک دلچسپ مضمون ہے جس میں گیان چند جین کے معروضات کو پیش کیا گیا ہے.
نئے قلم کاروں کی بزم"بزم آہنگ"کو مبارکباد کہ ہم آہنگ ہوکر نئی پیڑھی کے لیے چراغ راہ بن رہی ہے.

امیر حمزہ

فکرو تحریر کا ریسرچ اسکالرز نمبر

سہ ماہی فکرو تحریر کولکاتا
فکرو تحریر کا تازہ شمارہ بہت ہی شوق سے پڑھنا شروع کیا. معاف کیجئے گا دیکھنا شروع کیا، کہاں کہاں نظر نہیں پڑی، صفحہ کے اوپر دیکھا نیچے دیکھا، معاونین کی فہرست دیکھی، مشاورت کے نام دیکھے، مدیران کو تلاش کیا مدیر اعزازی کا اعزاز دیکھا، مشمولات کے نام دیکھے تو نام کے ساتھ چہرے بھی نظر آئے، کچھ نہیں آئے تو تصور میں بنانے کی کوشش بھی کیا، اداریہ بھی غور سے دو مرتبہ دیکھا اور مدیر اعزازی نے قلم کاروں کو جس اعزاز سے نوازنے کا عزم یا حسین غلطی کیا وہ بھی دائرہ احساس میں آیا.
مدیراعزازی نے کس طرح سینہ پر پتھر رکھ کر یہ فیصلے لیا ہوگا کہ ہمیں نو سیکھیوں کو ہی شامل کرنا ہے اور ساتھ میں میگزین کے وقار کو بھی قائم رکھنا ہے یم محسوس نہیں کرسکتے. یہ کام تو تخلیقات کے حوالے سے بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن تنقیدی مضامیں کے حوالے سے بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.  جس میں ہر مضمون میں مضمون نگار کی فکر کے ساتھ اسلوب ادا، زبان و بیان پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے.
تنقیدی مضامین میں اکثر پہلا پیراگراف کسی بھی قلم کار کے لیے چہرے کا کام کرتا ہے، جو یاتو اپنے جانب مائل کرتا ہے یا پھر وہی پیراگراف قاری کو ورق گردانی پر مجبور کردیتا ہے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے پیراگراف میں قلمکار لڑکھڑاتا بہت ہے پھر جب قلم چل نکلتا ہے تو تحریر میں روانی خود بخود آجاتی ہے. تو مدیر کے لیے سب سے مشکل امر ہوتا ہے کہ وہ بے ہنگم زبان و بیان کو کیسے سنوار کر اپنے قیمتی صفحات میں جگہ عنایت کرے یا پھر عنوان کی مناسبت سے تحریر میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے. الغرض ہم نو سیکھیوں کی تحریر میں اگر کوئی اتنی محنت کرکے اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے تو اس کے لیے شکریہ کی رسم بھی کم پڑ جاتی ہے. لیکن پھر بھی ہماری ڈھٹائی بدستور جاری رہتی ہے کہ ہم اپنی تحریروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور سدھار لانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اگر کسی دور کے ساتھی کی تحریر میں کچھ نشاندہی کردی جائے تو بات بند کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے، لیکن مدیر محترم ان تمام کی پرواہ کیے بغیر نو سیکھیوں کی تحریر کو سنوارتا رہتا ہے اور جب کچھ کچھ اچھا لکھنے کے لائق ہوجاتا ہے تو اچھا قلمکار شکریہ بھی بجا لاتا ہے کہ مجھے آگے بڑھانے اور ہماری تحریر کو سنوارنے میں فلاں مدیر اور رسالے کا اہم کردار ہے جس کا ہم احسان نہیں ادا کرسکتے، لیکن کچھ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو زبانی بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے چہ جائے کہ اپنی تحریروں میں اس کو جگہ دیں ، الغرض کسی بھی قلم کار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کے قلم کی کہکشاں کا بھی کوئی باغبان ہے جس کی باغبانی میں آپ خوشنما نظر آتے ہیں. الغرض اب ان تحریروں کی جانب رخ کرتے ہیں جن میں سے کچھ سجے سنورے ہیں اور کچھ کو ضرورت ہے.
پہلا مضمون ارشد احمد کوچھے کا ہے جنہوں نے مشتاق احمد وانی کی افسانہ نگاری پر لکھا ہے. اس چار صفحہ کے مضمون میں ان کے افسانوی فن پر گفتگو کرتے ہوئے تین اقتباسات بزرگ ناقدین کے درج ہیں اور تین اقتباس افسانوں سے ہے جن میں سے ایک منظر نگاری دوسرا جذبات نگاری اور تیسرا اقتباس اسلوب نگاری پر ہے. مضمون نگارنے افسانہ نگار کے یہاں جو کچھ پایا وہ اس طرح ہے."مشتاق احمد وانی نے اپنے افسانوں میں جدید تکنیک کے تجربے بھی کیے ہیں یعنی خودکلامی کی تکنیک، فلیش بیک کی تکنیک. خطوط نگاری کا استعمال بھی انہوں بڑے بہترین اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے جس سے ان کے افسانے کے اسلوب کی حسن کاری میں مزید اضافہ ہوگیا". اس اقتباس میں جو دعویٰ ہے وہ پیش کیے گئے اقتباسات سے کسی حد تک مختلف ہے.
دوسرا مضمون امام الدین کا" 1980 کے بعد اردو غزل"ہے. اس مضمون میں مرکزی نقطہ جو نظر آتا ہے وہ مابعد جدیدیت ہے، اس میں انہوں نے یہ پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے کہ اس جدید عہد کی شاعری 80 سے پہلے کی شاعری سے کس قدر مختلف ہے. مضمون نگار لکھتا ہے "...... 1980 کے بعد اردو غزل کا جو روپ سامنے آیا وہ ما بعد جدیدیت کہلا یا جس میں تخلیق کار کو تخلیق کی مکمل آزادی ملی اور اس ثقافتی تشخص کی بات کہی گئی جس سے اب تک ہمارے فن کار جدا تھے.
" سلیمان آصف اور ان کی شاعری" میں تمنا شاہین نے ان کی شاعری اور مجموعہائے شعری کا تعارفی مطالعہ پیش کیا ہے. انہوں نے اس میں ان تمام صفات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو ایک روایتی شاعر کے یہاں ہونی چاہیے. تمنا نسیم کے مضمون "سالک لکھنوی : مختلف رنگوں کے شاعر" میں آپ کو صرف ترقی پسندانہ، عشقیہ اور کلاسیکی رنگ پڑھنے کو ملے گا. "راجہ گدھ کا عمرانیاتی مطالعہ" جمشید احمد ٹھوکر کا جامع انداز میں تحریر کردہ  مضمون ہے. راجہ گدھ کے کئی نکات کو قاری کے سامنے رکھا گیا ہے اور  تنقیدی بصیرت بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لب لباب پہلے ہی پیش کرتے ہیں کہ یہ ناول حلال و حرام سے وابستہ ہے اور آخری سطور میں لکھتے ہیں" راجہ گدھ ادب عالیہ کا وہ فن پارہ ہے جس میں انسان کے روحانی اور وجدانی کا تغیرات کو فلسفیانہ انداز میں رقم کیا اور ان تمام فکری پہلوؤں کو جو جامد ہیں تحرک دے کر قاری کے اندر نئے احساس سے آشنا کرایا" مضمون نگار نے گدھ کی علامت کو جگہ جگہ سے کھولنے کی بھی کوشش کی ہے.
راشدہ خاتون نے قاضی عبدالستار کے ناولٹ" آخری کہانی"کے ایک جز کیفیت عشق پر روشنی ڈالی ہے، مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے کہ عشق تو پاکیزہ ہوتا ہے ہوس پاکیزہ نہیں ہوتا ہے اور ہوس کا نام عشق نہیں دیا جاسکتا. اس ناولٹ میں رومانس کی جس کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے اسی پر  مضمون نگار نے گفتگو کی ہے. "حمیدہ بیگم کی خود نوشت" ہم سفر"ایک مطالعہ" سروری خاتون کا مضمون ہے. جس میں انہوں نے ہم سفر میں موجود زندگی کے مختلف مراحل کا ذکر کے تجزیاتی مطالعہ ہیش کیا ہے، اس خود نوشت میں مصنفہ نے جس سادگی اور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس اسلوب کو اپنایا ہے وہ جاذبیت اور حقیقت نگاری سے معمور ہے. اس وقت کے جن بڑے لوگوں کا ذکر خود نوشت میں ہے وہ آج کے قاری کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے. جس کی طرف اشارہ مضمون نگار نے بھی کیا ہے. "کربل کتھا کا اسلوبیاتی مطالعہ" سید اکرم حسین کا مضمون ہے. کتاب کا شمار شمالی ہند کے اولین نثر پاروں میں ہوتا ہے جب اسلوب سے زیادہ نثری زبان ایک نئے ڈھانچے میں ڈھل رہی تھی شاعری اپنی شناخت مضبوط کرچکا تھا لیکن نثر کو شناخت کی تلاش تھی. اس نوزائیدہ نثر کا اسلوب کیا تھا اس کا تعارفی مطالعہ اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے . سیدہ واصفہ غنی نے "جدید اردو افسانوں میں معاشرتی منافرت" کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں جدید افسانوں کے بجائے خواجہ احمد عباس، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے. پروفیسر ابن کنول کے ایک افسانہ" ہمارا تمہارا خدا بادشاہ"کا مطالعہ شاہد اقبال نے پیش کیا ہے. اس افسانہ کے متعلق لکھتے ہیں"وہی تخلیق زندہ رہتی ہے جو ہر قرات میں قاری کو نئے معنوی ابعاد کا احساس دلائے. ابن کنول کا یہ افسانہ علامتی ہے جس کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے". شفیع احمد نے احمد یوسف کی رپورتاژ و خاکہ نگاری دونوں پر گفتگو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے. سفینہ سماوی نے"عصمت چغتائی کے افسانوں میں مسائل نسواں" کی عکاسی مختلف افسانوں کے حوالے سے کی ہے جس میں جنسی مسائل کو ہی نمایاں رکھا گیا ہے. لکھتی ہیں" عصمت چغتائی عورتوں کی نبض شناس ہیں. عورتوں کے نرم نازک جذبات جنسی خواہشات اس کے مزاج کی نرمی، لطافت شوخی اور بانکپن ان کے افسانوں میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں".
ظفر عالم کا ایک تحقیقی مضمون "مولانا ابوالکلام آزاد اور سائنس" کے حوالے سے شامل رسالہ ہے. یہ ایک طویل وضاحتی مضمون ہوسکتا تھا لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف تعارف اور سائنس سے آگہی کے نمونے ہی پیش کیے ہیں پھر بھی مضمون سے مزید کی تشنگی ظفر عالم پیدا کرجاتے ہیں. فرح نازنین کا مضمون جتنا چھوٹا ہے اتنا ہی جامع ہے" تانیثیت اور بہار کی شاعرات" عنوان تو یہی ہے لیکن مجھے جو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ مضمون مطلقاً خواتین قلم کاروں کو محیط ہے اور عنوان محدود ہے. تانیثیت کا ذکر ہے اور بہار کی موجودہ خواتین شاعرات کا نام بھی لکھا گیا ہے لیکن شکایت پوری خواتین قلمکار برادری سے  ہے. لکھتی ہیں" ہماری شاعرات اپنے معاصر خواتین تبصرہ نگاروں اور نقادوں کی آراء کو مردوں کی آراء کے مقابلے میں کمتر اور غیر اہم گردانتی ہیں..... ہماری خواتین تنقید کی طرف کیوں نہیں متوجہ ہوتیں؟ فکشن میں ہی سہی ممتاز شیریں کے بعد اس پائے کی نقاد کیوں نہیں پیدا ہوسکی. محمد رکن الدین صاحب نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس میں ہند و پاک کے علاوہ دنیا کےجن جن گوشوں میں گزشتہ صدی اردو کا چراغ روشن ہوا، موجودہ صدی میں بھی روشن ہے اور اب تک کیا کیا خدمات انجام دئے جا چکے ہیں تمام کو احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے. محمد ریحان کا "اردو ناول میں تقسیم ہند کے اثرات" میں گویا ناولوں کا ایک قسم کا تعارف ہی پیش کیا گیا ہے اور اس مختصر سے مضمون میں وہی ممکن ہو سکتا تھا. "مکاتیب سر سید کا اسلوب"  شاداب شمیم کے تحریر کردہ اس مضمون میں وہی عکس و تیکنیک جھلکتا ہے جو وکیپیڈیا میں موجود علامہ اقبال کی شاعری، غالب کی خطوط نگاری پر وکیپیڈیا ہیں. یعنی معلوماتی اسلوب اپناتے ہوئے مختلف جہات پر مختصر انداز میں تحریریں لکھی ہیں.
اخترالایمان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی مشہور نظم "ایک لڑکا" بھی تصور میں ابھر آتا ہے گویا ان کی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ دنیائے ماضی پر مشتمل ہے. اسی کو محمدپ فرحان خان نے شامل راالہ اپنے مضمون میں پیش کیا ہے. محمد نہال افروز کے مضمون "نیر مسعود: حیات اور ادبی کاوشیں" میں حیات مسعود اور ان کی پچیس نیر تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے.
"آسٹریلیا میں اردو کی نگہت : ڈاکٹر نسیم نگہت" ایک تفصیلی مضمون مہوش نور کا ہے جس میں موصوفہ کی ادبی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے، عنوان کے نیچے بین القوسین میں " مہجری فکشن کے حوالے سے" مرقوم ہے لیکن مضمون کا کوئی بھی پیراگراف اس سے متعلق نہیں ہے. شاید غلطی سے لکھا ہوا رہ گیا ہو. بہر حال ان کے فن پر گفتگو نہیں ہے صرف ادبی زندگی پر ہے. ان تنقیدی مضامین کے بعد تخلیقی گوشے میں فیضان الحق کا انشائیہ گھڑگھڑاہٹ، مہتاب عالم فیضانی کے دو افسانے اتفاق اور ٹیبل گھنٹی. خان محمد رضوان، رئیس فاطمہ، شہنور حسین، صائمہ ثمرین، عالیہ اور محمد ذیشان رضا کی خوبصورت غزلیں شامل ہیں اس کے بعد تین نظمیں علیم اللہ کی "تہذیب کی شکست و ریخت، محمد شاہد کی" تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے"اور نورالاسلام کی نظم ترا وجود ہے.
اب مضامین پر ںظر ڈالنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مضامین اساتذہ کو دکھائے گئے ہیں اور ایک دو مضامین ایسے بھی ہیں جن پر مضمون نگار نے خود بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی. اشاعت کے عمل سے گزرنے کے بعد کوئی بھی تخلیق اعمال نامہ میں شمار ہوجاتا ہے وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اس میں تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ ہم اچھی تاریخ رقم کرنے والے بنیں اور چھان پھٹک کر ہی آگے کی جانب قدم بڑھائیں.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

Wednesday 5 July 2017

رباعی کی روایت کے امین ظہیر غازی پوری

رباعی کی روایت کے امین ظہیر غازی پوری
امیر حمزہ


 ریسرچ اسکالر شعبہ ¿ ارد و دہلی یونی ورسٹی دہلی 
فون9990018577
صنف رباعی کے آغاز کا سہرہ جہاں فارسی و اردو کے محققین نے ایران کو ہی دیا ہے وہیں اردو میں رباعی کے آغاز کا سہرہ دکن کو جاتا ہے جہاں اسے پھولنے اور پھلنے کا موقع بہت ہی کم ملا ۔ لیکن استادانہ صلاحیت کے اظہار اور شاعری میں تبدیلی ذوق کے طور پر اس کا وجود کم وبیش تما م دکنی شعرا کے یہاں نظر آتا ہے ۔شمالی ہند میں جب اردو اپنے عہد ذریںمیں آیا اس وقت بھی شعرا اپنی محبوب تر ین صنف سخن غزل ، مثنوی ، قصیدہ اور مرثیہ کے دام سحر میں گر فتار رہے ۔ شعوری اور لاشعوری کسی طور پر بھی رباعی کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دیے۔سوائے شاہ غمگین کے، جن کی رباعیوں کا مجموعہ ”مکاشفات الاسرار “ہے جس میں ان کی 1800 رباعیاں موجود ہیں ۔ تمام کلا سیکی شعرا کے یہاں رباعیاں ملتی ہیں کسی کے یہاں کم تو کسی کے یہاں زیادہ لیکن کوئی ضمنی طور پر یا ثانوی طور پربھی رباعی گو شاعر نظر نہیں آتا ہے ۔ عہد غالب میں مومن کی رباعیاں اچھی ہیں لیکن رباعی ان کے یہاں بھی خاص یا قابل توجہ صنف سخن کے طور پر نہیں نظر آتا ہے ، البتہ میر درد کے یہاں نظر آتا ہے لیکن ان کی اہم رباعیاں اور زیادہ تر رباعیاں فارسی میں ہیں ۔ بعد کے عہد میں اردورباعی کو سب سے زیادہ فروغ انیس و دبیر کے عہد میں ہوا ۔
انجمن پنجاب کے بعد اردو شاعری میں ایک نیا موڑ آیا کہ شاعر کلاسیکی اصناف سخن سے کنار ہ کشی اختیار کر کے شاعری میں جدید مغربی اصناف سخن کی جا نب مائل ہو رہے تھے ۔وہیں لاشعور ی طور پر اکبر و حالی کے یہاں رباعی اپنا قدم مضبوطی سے جمارہی تھی جو مزید تر مضبوط ہوتی چلی گئی اور تر قی پسند تحر یک سے بھی متا ¿ثر نہیں ہوئی تب تک فانی کے بعد جو ش وفراق کے یہا ں اردو رباعی اپنی تاریخ رقم کر چکی تھی ۔
آزادی کے بعد ذیلی صنف شاعری کے طور پر ان کی رباعیوں کی گونج مکمل طور پر ادبی فضا میں چھائی رہی ۔ کثیر تعداد میں شاعر رباعی کی جانب متوجہ ہورہے تھے ۔ لیکن جو ش کے قول ” یہ کم بخت چالیس بر س سے پیشتر کسی بڑے سے بڑے شاعر کے بس میں آنے والی چیز نہیں ہے “ سے مر عو ب بھی تھے ۔اس لیے جدید شاعروں کو اس میں اپنی شناخت قائم کر نا ایک مشکل امر تھا ۔البتہ رباعی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ کسی بھی عہد میں تاریخ سے غائب نہیں رہی ۔آزادی کے بعد صورت حال کچھ ایسی ہورہی تھی کہ چھوٹی چھوٹی صنف سخن کی تلاش میں شاعر حضرات چائنا ،جاپان اور فرنگ کی ادبی سیاحت میں تھے ، جبکہ مختصر صنف سخن کے طور پر ان کے یہاں رباعی جیسی صنف سخن موجود تھی ،پھر بھی لوگ سانیٹ ، ہائیکو، ماہیے ، چوبولے وغیرہ کی جانب توجہ دے رہے تھے بالآخر سب کے سب اپنی جگہ ہی منجمد ہوگئیں اور رباعی نے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر جار ی رکھا ۔
 نظم جدید کے زمانہ میںجس طریقے سے اکبر و حالی کے یہاں اردو رباعی مضبوطی کے ساتھ اپنا قدم جماچکی تھی اور ترقی پسندی دور میں جو ش وفراق نے اسے بام عروج تک پہنچایا اسی طر یقے سے آزادی کے بعد جہاں دوسرے رباعی گو رباعی کی مشاطگی میں مصر وف تھے وہیں ظہیر غازی پوری نے رباعی کی آبیاری روایتی انداز میں کیا اور اس صنف سخن کی خاموشی سے مشاطگی کر تے چلے آئے ، معیاری طورپر جس کی نظیر رباعی کے حوالے سے موجودہ دور کے کسی اور شاعر کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے ۔
ظہیر غازیپوری (ظہیر عالم انصاری ) کی پیدائش 1938 ءمیں غازیپور میں ہوئی۔ شادی گیا میں ہوتی ہے اور بسلسلہ ¿ ملازمت بہار و جھارکھنڈ کے ضلع گیا ، اورنگ آباد، شیرگھاٹی ، دمکا ، رانچی اور ہزاری باغ میں قیام رہا ۔بالآخر وطن اصلی وطن اصلی سے باطل ہوا اور ہزاری باغ کے ہی ہوکر رہ گئے اور غازیپوری ان کے نام کا ایک جزو بن کر رہ گیااوریہ ادب کا کھرا اور گمنام ستارہ ۳نومبر 2016ءکو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔
ظہیر غازیپوری نے 1955 ئ میں ابرار حسن گنوری کے آگے زانوئے تلمذتہہ کیا اور کچھ ہی عر صہ میں استاد نے انہیں فارغ الاصلاح قرار دے دیا بلکہ مبتدئین کی اصلاح کی ذمہ داری بھی سونپ دی اس وقت سے لیکر آخری اوقات تک مسلسل وہ خاموشی کے ساتھ ادب کی خدمت میں لگے رہے۔اللہ نے انہیں نظم ونثر میں یکساں قدرت دی تھی جس کی وجہ سے ان کے قلم سے شعر و نثر کی عمدہ تخلیقات تخلیق پائیں ۔ان میں سے ” مطالعہ ¿ اقبال کے بعض اہم پہلو“ ، ”اردو دوہے : ایک تنقیدی جائزہ“ اور ” جھارکھنڈ اوربہار کے اہل قلم“ نثر میں شائع ہوچکی ہیں اورشاعر ی میں دو مجموعے غزل کے ، دو نظم کے ، ایک غزل ونظم کا مشترکہ مجموعہ اور ایک رباعیوں کا مجموعہ ”دعوت صد نشتر“ اردو ادب میں اعلی مقام حاصل کیا۔
ظہیر غازیپوری کو شروع سے ہی غزلوں سے خصوصی دلچسپی تھی۔غزل کے مقبول شاعرہونے کے ساتھ ساتھ وہ غزل کے روایتی استاد بھی تھے، جس کی مثال ان کی آخری کتاب ’غزل اور فن غزل‘ سن اشاعت 2015ءہے۔غزلوں کی جانب خصوصی توجہ ہو نے کے ساتھ اظہار ذات و افکار کے لیے رباعیاں ان کے پاکیزہ ذہن سے رواں ہوئیں اور صفحہ ¿ قرطاس میں اتر گئیں۔ رباعیاں بھی ایسی کہ جو صرف بحر و ں کا استعمال کر کے خشک موضوع اپنا کر اپنی استادی کا اعلان کیا جائے۔ نہیں !بلکہ انہوں نے خودکو رباعی کے پیکر میں ڈھا لا، اپنے افکار اور فنی اقدار کو رباعی کے موافق بنانے میں زیادہ توجہ دی ، رباعی کے تمام فنی اقدار پر پوری دستر س حاصل کی پھر اپنی رباعیوں کو اپنے غزل کے ہم مقام لا نے کے لیے خوب تجر بے کیے اسی وجہ سے ان کی رباعیاں بے ہنگم الفاظ اور غیر موزوں تر اکیب سے پاک ہیں۔
ڈاکٹر تنویر احمد علوی ’دعوت صد نشتر ‘ کے مقدمہ میں ظہیر غازی پوری کی رباعیوں کے متعلق لکھتے ہیں ” مجھے جن رباعیات کے مطالعہ کا موقع ملا ان میں ایسی رباعیوں سے اکثر نظر دو چار ہوئی جنہیں دیکھ کر بے اختیار فارسی کا یہ مصرع یا د آیا۔ ع: کر شمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست“ ( اس کا کر شمہ ¿ حسن دامن دل کو کھنچتا ہے کہ سب سے بہتر اور حسین و جمیل نظارہ گاہ تو یہی اور یہیں ہے ) “۔ اور اس کی مثال میں وہ مندرجہ ذیل رباعی پیش کر تے ہیں۔
جذبات کی آنچ ، آنکھ کا نم جیت گئے 

تم اپنا اک اک قول و قسم جیت گئے 
لیکن تمہیں احساس نہیں ہے اس کا 

تاریخ کی سچائی تو ہم جیت گئے 
رباعی خود کے موضوعات میں کبھی تنگ دست نہیں رہی ہے ۔ اگرچہ شروع میںا س کے موضوعات حمد ونعت منقبت اور حکمت تک محدود تھے۔ لیکن جوں جوں رباعی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑھی ان معاشروں کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیاءکر ام کی محفلوں میں حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔خیام اور سرمد کے صحبت میں حکمت وفلسفہ کا آب حیات پیتی رہی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس ودبیر نے پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین سے خدمت کی، اکبر و حالی نے اصلاحی و پاسداری سے ، امجد نے حکمت وفلسفہ سے، جو ش نے الفاظ کا دبدبہ و مناظر فطرت سے ، فر اق نے جمالیا ت و رس سے اردو رباعی کو خوب سنوارا۔ گو یا اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیا اور وقت کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودومخصوص موضو عات میں پابند نہیں کیا۔ رباعی میںاگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ غالب رہے ہیں لیکن دوسرے موضوعات کا خاطر خواہ ذخیرہ بھی اردو رباعی میں موجود ہے ۔اور موضوعات کا یہ تنوع ظہیر غازی پور ی کے یہاں بھی بھر پور دیکھنے کو ملتا ہے ۔
عموما حمد ونعت جیسے پاکیزہ موضوعا ت کی کثرت استعمال کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہ گئی ہے بلکہ انداز جداگانہ ہوگا اور کہنے کو وہی باتیں ہوں گی۔ لیکن جس خدا کے جہاں کی ساری چیزوں کا احصا ایک انسان نہیں کرسکتا تو ان کی حمدو ثنا کا حق کہاں ادا کر سکتا ہے۔ لیکن حمد وثنا میں نئے اسلوب اخذ کر نے اور رباعی کے اسلوب میں تازہ کاری لانے والے ظہیر غازی پوری کو کچھ بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ انہوں نے اپنی وسیع النظری کے سبب اس ازلی موضوع کوتخلیقیت کا اعلی پیرہن عطا کیا جس کی وجہ سے ان کی حمدیہ اور نعتیہ رباعی افق کے نئے منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
’لا‘ میں بھی جھلکتا ہے اسی کا جلوہ 

’کن‘ میں بھی دمکتا ہے اسی کا جلوہ 
آنکھوں میں مقید جو کبھی ہو نہ سکا 

ہر شے ¿ مین چمکتا ہے اسی کا جلوہ 

جو کیف بھی ملتا ہے جدا ملتا ہے 

الہام کا بے مثل مزا ملتا ہے 
کھوجاتا ہے وجدان کی منزل میں جب 

لفظوں میں بھی عرفان خدا ملتا ہے 

ہر سانس ہے ناکردہ گناہی کی طرح 

ہر لمحہ ہے سامانِ تباہی کی طرح 
چھایا رہا افکار پہ احساس خدا 

بھیگے ہوئے کاغذ پہ سیاہی کی طرح 
جب بات حمدو ثنا سے نکلتی ہے تو خدا کی کہی ہوئی باتوں کو دہر اتے ہیں اور ان کے فرمودات کو سامنے رکھ کر اس کی مقبولیت کو بتاتے ہیں، اسی کو لوگ فلسفہ کہتے ہیں اور اسی فلسفہ کے تحت ایک اپنانیا فلسفہ بنا تے ہیں ۔وہ ایک نیافلسفہ نہیں بلکہ ایک مادہ ہوتا ہے جسے مختلف نظروں سے شاعر دیکھتا ہے اور لفظوں کا صورت جسمیہ بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔دنیا کے متعلق بھی بہت ساری باتیں ہر مذہب کے اساسی کتب میں موجود ہیں اور انسان اس میں مزید غور کرنے کی جانب راغب ہوتا ہے ۔ انسان مذہبی امور میں اتنا غرق ہوجاتا ہے کہ وہ عشق کی حد تک اس فرمان پر اپنی وارفتگی کا اظہار کر تاہے۔جیسا کہ ’دنیا ‘ سے تقریبا ہر مذہب میں بیزار رہنے کو کہاگیا ہے ۔ اسلام میںدنیا کے لیے ”متاع قلیل“ جیسالفظ استعمال ہوا ہے ۔”متاع “ کے متعلق زمخشری لکھتے ہیں کہ متاع اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورتیں کھانا بناتے وقت صافی کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ اس کپڑے سے بظاہر کوئی دل نہیں لگاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے جانب راغب ہوسکتا ہے لیکن وہ ضرورت کا کپڑا ہے کہ روٹی پکانے اور برتن پکڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔دنیا مومن کے لیے اسی ایک کپڑے کی طر ح ہے۔ اسی دنیا کوشاعر جس انداز میں پاتا ہے اپنی رباعیوں میںپیش کر دیتا ہے ۔ ظہیر غازیپوری دنیا کو اس انداز میں دیکھتے ہیں ۔
گلزار کی پرکیف ہوا ہے دنیا 

انساں کے لیے ہوش ربا ہے دنیا 
لیکن مجھے اکثر یہی محسوس ہوا 

ایک پھول پہ شبنم کی ردا ہے دنیا 

شاداب عناصر کی دھنی ہے دنیا 

زرخیز ہے ، دلکش ہے ، غنی ہے دنیا 
سب کچھ ہے مگر اہل خرد کہتے ہیں 

تفسیر غریب الوطنی ہے دنیا 

آواز ہے ، دستک ہے ، صدا ہے دنیا 

سرشاری ¿ احساسِ نوا ہے دنیا
نزدیک سے دیکھا تو یہ احساس ہوا 

اک قید میں جینے کی سزا ہے دنیا 
مذکورہ بالا رباعیوں میں”ایک پھول پہ شبنم کی ردا ہے دنیا ‘ ‘،”تفسیر غریب الوطنی ہے دنیا“،” ایک قید میں جینے کی سزا ہے دنیا“ یہ آخری مصرعے خود میں مکمل ہیںجو رباعی کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔رباعی کی سب بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخری مصرع ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور یہ خصوصیت ان رباعیوں کے آخری مصرعوںمیں بخوبی موجود ہے۔ اورسب شعر یت کے احساس سے مملو ہیں۔ روکھے سوکھے کا جو لیبل رباعیوں میں لگ گیا ہے وہ اس میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔دنیا کے ذکر کے بعد ان کے یہاں ساکنِ دنیا یعنی انسان کا ذکر بہت ہی نمایاں انداز میںنظر آتا ہے ۔جس میں انہوں نے انسان کے اندر کے بدلتے ہوئے حالات و احساسات ، داخلی کرب و پریشانی ، خارجی معاملات زندگی ،رشتوں کی ریشہ دوانیاں اور اپنے اسلاف سے رشتے جو کہیں کھوسے گئے ہیںو ہ تمام ان کی رباعیوں میںبڑے ہی دردو کر ب اور طنز کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
اخلاص و محبت کا سراپا انسان 

کونین کی مخلوق میں اچھا انسان 
کیوں شعر کی مانند وہ دو لخت ہوا 

کل تک نظر آتا تھا جو پورا انسان 

مٹی سے بنا شوخ نرالا انسان 

گہوارہ ¿ ادراک کا پالا انسان 
اجداد کی باتیں تو الگ ہی رکھیے 

اب خود کو بھی ہے بھولنے والا انسان 

مردم کش و آزار دہندہ انسان 

فطرت ہی سے لگتا ہے درندہ انسان 
بے بس نظر آتی ہے مشیت بھی جب 

انسان کو کھاجاتا ہے زندہ انسان 
اس سے پہلے ذکر آچکا ہے کہ ظہیر غازیپوری کو رباعی سے زیادہ غزلوں سے محبت ہے ۔اس محبت کو وہ اپنی رباعیو ں میں بھی پیش کر رہے ہیں ۔ جب ہندوستا ن میں جدیدیت کا رجحان بڑھ رہا تھا اس وقت وہ اپنے کلاسیکی اندازمیں جدت و تازگی سے غزل کی مضبوط روایت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے ۔یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے جتنی جگر کاوی اپنی غزلوں کے لیے کی وہی جگر کاوی رباعیوں کے حصہ میںبھی آئی ۔جس سے غزل کے لیے کلمات عقیدت اپنی خوبصورت رباعیوں سے پیش کر تے ہیں ۔
شبنم کی سبک آنچ میں پلتی ہے غزل 

آغوش میں شعلوں کے بہلتی ہے غزل 
پانی ہو ، ہوا ہو ، کہ ردائے گل ہو 

ہر حال میں جلتی ہے پگھلتی ہے غزل

اب سایہ ¿ اشعار غزل میںآجا 

غم خانہ ¿ معیارِ غزل میں آجا 
دعوی ہے مرا تجھ کو ملے گی عظمت 

اک تو دربار غزل میں آجا 
ارور رباعی کے لیے ان کے دل سے یہ جذبات نکلتے ہیں ۔
وجدان کا ثمرہ ہے رباعی کا فن 

جذبے کا احاطہ ہے رباعی کا فن 
لفظوں کا قبیلہ بھی اگر ساتھ چلے 

معنی کا ذخیرہ ہے رباعی کا فن 
اردو میں وطنی شاعر ی کا ایک دور گذرا ہے ۔ اقبال ، سرور جہان آبادی ، چکبست لکھنوی قومی و طنی شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ۔ظہیر غازیپوری کے یہاں بھی وطنی شاعر ی پائی جاتی ہے ۔ہند اور ہندوستان کا استعمال اردوشاعر ی میں بہت ہی ہوا ہے لیکن بھارت بہت ہی کم ہماری سماعتوں تک پہنچتا ہے شاید اس وجہ سے کہ شعر ی حسن کے معیار کو نہیں اتر تا ہوگا وہیں ظہیر غازیپوری اس کو اپنی رباعیوں میں اس خوبی سے استعمال کر تے ہیں ۔
دلکش مجھے لگتا ہے حسین لگتا ہے 

 ہر پہلو سے وہ لعل و نگیں لگتا ہے 
اقوام میں بھارت جسے کہتے ہیں لوگ 

اس دھرتی پہ اک خلد بریں لگتا ہے 

دل میرا ہے ، سر میرا ہے ، تن میرا ہے 

احساس شفق تابی ¿ فن میرا ہے 
جس پر ہے بہت ناز مجھے بچپن سے 

وہ خطہ ¿ بھارت ہی وطن میرا ہے 
حسن وعشق جیسے مضامین کوفرسودہ سمجھ کر کچھ جدید شاعر اس سے بالکلیہ عہدہ بر آ ہو گئے ہیں۔ لیکن جب ان کی شاعری کے مطالعہ کا اتفاق ہوتا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آخر اس میں شاعرکا دردوکرب کہاں ہے ، اس میں وہ خارجی شے جو داخلی احساس کاروح اختیا ر کر کے شعر کے پیکر میں ڈھلے یا وہ صدا کہاں ہے جو دل کے نہاں خانوں سے ابھرتی ہے ، اس میں وہ جذبہ کہاں ہے جس کو شاعر بہت ہی تڑپ کر بیان کر نا چاہتا ہے ۔حقیقتا وہ صداجو محبوبہ کے پیا ر میں نکلتی ہے چاہے وہ اس کے عشق کا بیان ہو یااس کے حسین حسن و ادا کی تفسیر ہو جب وہ شعر ی پیکر میں ظاہر ہوتی ہے جو اپنے اندر تمام رنگینیاںو رعنائیاں سمیٹے ہوئے ہوتی ہے تب اس کی خصوصیت کو نظرانداز کرنا ناممکن سا ہوتا ہے ۔ظہیر غازیپوری کے ذہن سے بھی حسن وعشق سے مملو کئی رباعیاں تخلیق پائی ہیں جس میں وہ اپنے ذاتی احساس ، اس کی رعنائیاں اور فطر ت کی حسین اداو ¿ں کا عکس جو محبوبہ میں نظر آتا ہے عشق کے فضاو ¿ں کی نذر کر دیتے ہیںاور رباعیوں میں اس طر ح گویا ہوتے ہیں ۔
بولے تو دہن نغمہ سرا ہوتا ہے 

چپ ہو تو بدن نغمہ سرا ہوتا ہے 
تنہا ہو تو اک ایک ادا میں اس کی 

بے ساختہ پن نغمہ سرا ہوتا ہے 

گلشن کبھی جنگل کی ہوا لگتی ہو 

کچھ بھی ہو مگر ہوش ربا لگتی ہو 
جب کیف خودی حد سے سوا ہوتا ہے 

ایمان لرزتا ہے خدا لگتی ہو 

بیگانہ ¿ احساس ابھی ہو جیسے 

جگنو کی طر ح بجھ کے جلی ہو جیسے 
جب بھی اسے دیکھا یہی محسوس ہوا 

معصوم کلی سو کے اٹھی ہو جیسے 
ہمیں ان کی رباعیوں میں تنوع کی کمی نظرنہیں آتی ہے ۔انہوں نے اپنی رباعیوں میں ان سارے خیالات و احساسات کو اجاگر کیا ہے جو ایک عظیم شاعر کے یہاں ابھر تا ہے ۔ ان کی شاعر ی فطر ت ،عشق اور فلسفہ کو لیے ہوئے ہے۔ وہیں ان کی شاعر ی وقت کے آئینہ کے طور پرپیش کی جاسکتی ہے ۔کچھ رباعیو ں میں فارسی رباعیوں کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل رباعی میں ہے ۔
رعنائی جان حسن ادا ہے مٹی 

سمجھو تو بڑی ہوش ربا ہے مٹی 
غفلت میں جو ہیں پوچھ رہے ہیں ہم سے 

ہم لوگ ہےں انسان تو کیا ہے مٹی 
ان کے یہاں طنزیہ رنگ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ہاں آپ تو آفاق سے اترے ہوں گے

الہام کے اوراق سے اترے ہوں گے 
ہم لوگ تو مٹی کے کھلونے کی طرح 

محراب سے یا طاق سے اترے ہوں گے 
دو رباعیاں ان کی فطر ت کے موضوع سے ۔
دنیا کو ضیا بانٹنے والا ہے چاند 

معصوم نگاہوں کا اجالا ہے چاند 
ہر بچے کو گرویدہ بنانے کے لےے 

تھالی میں اترتا ہے نرالا چاند 

اودا کہیں ، اجلا کہیں ، کالا بادل 

روئی کی طرح چرخ میں اڑتا بادل 
پچکاری کسی نے نہیں ماری لیکن 

پوچھو تو اتنا کہاں بھیگا بادل 

٭٭٭

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...