Saturday 8 December 2018

اردو رباعی کا نصف النہار جوش ملیح آبادی

اردو رباعی کا نصف النہار جوش ملیح آبادی



اردو رباعی گوشعرا کے اگر چار نام گنائے جائیں تو ان میں انیس ، دبیر، جوش وفراق کانام سر فہرست ہوگا ۔اردو رباعی گویوں میں جو ش نمایاں صرف اس وجہ سے نہیں ہیں کہ انہوں نے باعتبار کمیت زیادہ رباعیاں کہیں ہیں بلکہ بلحاظ کیفیت بھی ان کی رباعیوں کی تعداد کسی دوسر ے رباعی گو کی اچھی رباعیوں سے زیاد ہ ہے ۔جو ش غزل کے بجائے نظم کے شاعر تھے اور رباعی بھی مختصر نظم کے مماثل ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کی طر ف ایک خاص توجہ دی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رباعی گوئی انہوں نے دوسرے شاعر وں کی طرح تکلفاً نہیں اپنائی تھی بلکہ جس طر ح شاعری ان کی سر شت میں داخل تھی اسی طر ح رباعی کہنا ان کی فطر ت کا ایک جز بن گیا تھا جس کو وہ بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ بر تتے چلے گئے ۔ نظم اور رباعی کو وہ ایک ساتھ لیکر چلتے رہے سوائے اولین مجموعے کلام روح ادب کے۔ اس کے علاوہ ان کے ہر مجموعہ کلام میں رباعیات موجو د ہیں اور دو  مستقل مجموعہائے رباعیات ہیں ، جنوں حکمت اور قطرہ و قلز م ۔ ہر چند رباعی گوئی کی حیثیت سے جو ش کو وہ مقام نہیں عطا کیا گیا جو مقام ان کے رفیق فراق کو ملتا رہا ۔لیکن ایک رباعی کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری ذاتی رائے ہے کہ وہ جتنے بلند پایہ نظم کے شاعر ہیں وہی مقام ان کی رباعیوں کا بھی ہے۔
جو ش  کی شاعر ی کو عموما ًتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ، شباب ، انقلاب اور فطر ت لیکن جب ہم ان کی رباعیوں کی جانب توجہ کر تے ہیں تو اردو کے خیام کا علَم(صرف خمری رباعیوں کی وجہ سے ) ان کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ شاعر خمریات کے طور پر بھی نظر آتے ہیں ۔جو ش کبھی ایک نظر یے پر قائم نہیں رہے ، حسن و عشق کے نغمے گائے ، انقلاب کے پرچم لہر ائے ، امن انصاف اور مساوات کے سفیر بنے ، فطر ت کی حسین تصویر کشی کی اور جام شراب بھی چھلکائے ۔ان کے نظر یات میں بہت ہی تضاد بھی نظر آتا ہے وہ خدا کا مذاق اڑاتا ہے اور اس کے رسو ل کی تعریف بھی کر تا ہے ،درود بھیجتا ہے اور نواسئہ رسول پر مرثیہ بھی کہتا ہے ۔کبھی غر یبوں کی حمایت کر تا ہے تو کبھی اس کا مذاق اڑاتا ہے اور نفرت بھی کر تا ہے ۔کبھی جاگیر دارانہ نظام ان کے سر پر چڑ ھ کر بولتا ہے تو کبھی اشتر اکیت کے نشے میں مزد روں کے قدم سے قدم ملا لیتا ہے ۔جو ش کو اس تضاد کا علم بخوبی تھا اور اس کا اظہار بھی کر تا ہے۔

جھکتا ہوں کبھی ریگ رواں کی جانب 
اڑتا ہوں کبھی کاہکشاں کی جانب
مجھ میں دو دل ہیں ایک مائل بہ زمیں 
اور ایک کارخ ہے آسمان کی جانب 

جو ش کی فکری تضادات اگرچہ بہت ہیں لیکن ان تضادات میں جو خوبی نظرآتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام موضوعات و مسائل کو اپنی رباعیوں میں سمیٹ دیا اور یہ ہمہ گیر ی جو ش کو دوسرو ں سے متمائز کرتی ہے ۔وہ نہ تصوف کے حجرہ کے مکین ہیں اور نہ اصلاح واخلاق کے مبلغ بلکہ وہ تو اِس گلستان کے اُس مالی کی طر ح ہے جو ہر پھول کی خوبیوں اور خامیوں کو گنواتا ہے ۔ان کی رباعیوں میں ہر قسم کے مضامین پائے جاتے ہیں،کہیں خیام کے خمریات کا نشہ ہے تو کہیں عشق کی کیفیات ، کبھی فلسفئہ علم و عقل میں اقبال سے مقابلہ آرائی کر تے ہیں تو کہیں فلسفئہ خودی کا رد عمل پیش کر تے ہیں ۔کہیں عاشق نامر ادکی طر ح غم کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں تو کہیں کامیاب عاشق کی خوشی میں محبوبہ کا عکس کھینچتے ہیں ۔ان کی رباعیاں مذہب پر تیکھا طنزبرساتی ہیں اور مذہب کے پاسداروں کی ہجو بھی کرتی ہے۔
جوش اگر چہ باضابطہ ایک فلسفی شاعر نہیں ہے تاہم ہر ایک فلسفہ کو انہوں نے اپنی شاعر ی میں اپنا یا ، جو ش کی رباعیاں ہر ایک کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بھلے ہی وہ فلسفی نہیں تھا لیکن بحیثیت شاعر ایک کامیاب شاعر اور بطور رباعی توکامیاب تر شاعر تھا۔ رباعی ان کی زند گی کا ایک درخشاں تر ین پہلوہے ۔بہت سی ایسی رباعیاں ہیں جس کو صرف جوش ہی کہہ سکتے تھے اور کوئی نہیں۔

تلوار کو خم کر دوں تو مر ہم ٹپکے 
پتھر کو فشار دوں تو زمزم ٹپکے 
قدرت نے وہ بخشی ہے کرامت مجھ کو 
شعلے کو نچوڑ دو ں تو شبنم ٹپکے 

جب جو ش ایسی رباعیاں کہہ سکتے ہیں تو ہم ان کے دوسرے مضامین کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔خصوصا خمر یا ت کے موضوع پر کہی گئی رباعیوں کو ۔انہوں نے اگر چہ اس میں جگہ جگہ پر خیام کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہی خیالات کو اردو میں اتنی فنی چابکدستی سے پیش کیا ہے کہ یہ انہیں کا حصہ ہوسکتا ہے ۔

باغوں میں وہ چھاگئی جوانی ساقی
سنکی وہ ہوائے زندگانی ساقی
ہاں جلد انڈیل جلتی ہوئی آگ
آیا وہ برستا ہوا پانی ساقی

حسن وعشق میں ہم جوش کی نظر کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہ عشق کے معاملے میں عشق حقیقی نہیں بلکہ عشق مجازی کے شاعر ہیں ان کا معشوق اسی گوشت پوست کا مخلوق ہے وہ خواہ مخواہ تصوف میں اپنے عاشق حقیقی کو ملحوظ رکھ کر رباعیاں نہیں کہتے ہیں بلکہ اسی گوشت و پوست کے ہیولی سے عشق کر تے ہیں جو ان کے دل میں قیامت بر پا کیے ہوئے ہے ۔جوش اور فراق کے عشق میں بہت ہی عظیم فرق ہے ۔جوش احساس و فضا کے حسن کو محبوب کے سراپا یا محبوب کے کسی جز کے حسن سے تعریف کر تے ہیں جبکہ فراق محبوب کی جمالیات کی تشبیہ احساس وفضا کے حسن میں تلاش کر تے ہیں ۔

کاکل کھل کر بکھررہی ہے گویا  
نرمی سے ندی گزررہی ہے گویا 
آنکھیں تری جھک رہی ہیں مجھ سے مل کر 
دیوار سے دھوپ اتر رہی ہے گویا 

ان کی رباعیوں کی منظر نگاری کو  اگر ادبی مصوری کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا ۔انہوں نے منظر نگاری کے نمونے خصوصانظم میں جو پیش کیے ہیں اسی سے وہ شاعر فطر ت کہلائے ۔دیگر شاعر وں کے یہاں بھی منظر نگاری ہے مگر رباعی میں اس طر ح کی منظر نگاری  بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اصل میں ان کو مناظر فطر ت کے ساتھ جو لگاؤتھا اس کا باضابطہ اظہار رباعیوں میں بطور خاص ہوا ہے ۔انہوں نے تشبیہوں ، استعاروں کے ذریعہ بہتر ین منظر نگاری کی ہے ۔جوش کو منظر نگاری میں غیر معمولی قدرت حاصل تھی نئی تشبیہات ،لطیف استعارے ،جدید اور پراثر تر کیبیں ، لفظ کی مزاج شناسی اور حروف اصوات سے بنائے ہوئے نقوش جوش کی تصویروں کو گویا متحرک بنا دیتے ہیں اور مناظر و مظاہر مجسم ہو کر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

سمجھاؤں کن الفاظ میں تم کو ہم راز 
اللہ رے سحر کے وقت کا سوز و گداز 
اس طر ح چٹکتی ہیں چمن میں کلیاں 
اطفال کی ہچکیوں کی جیسے آواز 

جوش اپنی رباعیوں میں فلسفہ ٔحرکت وعمل کی بنیاد ان عناصر پر رکھتے ہیں جن سے ان عناصر کا ادراک و اظہار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں گھن گر ج اور بلند آہنگی پیدا ہوگئی ہے ۔اس حر کت وعمل میں وہ اقبال سے ہٹ کر نیطشے کے قریب آگئے ہیں جہاں سے سپر مین (فوق البشر)کا تصور ظاہر ہوتا ہے ۔ان کے یہاں ذات میں فوق البشر کاپیدا ہونا ماحول اور حالات کے سامنے سرتسلیم خم کر نا نہیں ہے بلکہ اس سے جنگ کرنا اور اپنی مر ضی کے سانچے میں ڈھالنا ہے ۔ اس لیے صرف وہی باقی رہ جاتا ہے جن کے پاس قوت ہوتی ہے اورباقی رہنے کے لیے جدو جہد کر تا ہے ۔اس طر ح ہم سوچ سکتے ہیں کہ نیطشے کے یہاں اصل خواہش زیست نہیں ہے بلکہ اصل خواہش اقتدار ہے اور جوش بھی زندگی کا اصل مقصد جدوجہد اور حصول اقتدار کوہی گر دانتا ہے ۔اور مثبت انداز میں ایسی رباعی تخلیق کر تاہے ۔

قانون نہیں کوئی فطر ت کے سوا
دنیا نہیں کچھ نمود طاقت کے سوا
قوت حاصل کر اور مولا بن جا
معبود نہیں ہے کوئی قوت کے سوا

اسلوب میں ان کی نظموں کی طر ح ان کی رباعیوں میں بھی گھن گر ج اور بلند آہنگی موجود ہے ، جو ش کا لب ولہجہ انقلابی اور انداز فکر باغیانہ ہے لیکن انیس و دبیر کے بعد حسن بیان اور لطف زبان کے علاوہ ٹکسالی اور مستند زبان سے اگر کسی رباعی نگار نے اپنی رباعیوں کو آراستہ وپیر استہ کیا ہے تو وہ جو ش ہی ہیں ۔نئے نئے الفا ظ اور محاوراتی زبان کو جس خوبصورتی سے جوش نے اپنی رباعیوں میں برتا ہے یہ ان کا فقید المثال کارنامہ ہے ۔

دل رسم کے سانچے میں نہ ڈھالا ہم نے 
اسلو ب سخن نیا نکالا ہم نے 
ذرات کو چھوڑ کر حر یفوں کے لیے 
خورشید پہ بڑ ھ کے ہاتھ ڈالا ہم نے 

جو ش نے تیکنیکی سطح پر رباعی کے امکانات کے تمام زاویوں پر غور کیا اوراسکو اپنی رباعی میں بر تا ہے ۔ اپنی رباعیوں میں ڈرامائی عنصر کو شامل کیا اور اس سے اپنے اسلوب اور طر ز بیان کو زیادہ مؤثر بنایا ہے ۔جو ش کی رباعیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے فقر و ں سے مکالمے تیار کر لیتے ہیں اور ان کو مصر عوں کی شکل میں بڑ ی چابکدستی سے ڈھالتے ہیں اس تکنیک کے ذریعہ جوش کے یہاں ایک چھوٹی سی رباعی ایک کامیاب ڈراما بن جاتی ہے اور بغیر نام کے کردار ابھر تے ہیں جو اپنامکالمہ بول کر چلے جاتے ہیں ۔اس قسم کی رباعیاں فنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنا کیفیت اور اثر سامع کے دل میں چھوڑ جاتی ہیں ۔

بندے ! کیا چاہتا ہے ؟ دام ودینار 
یا دولتِ پایندۂ زلف و رخسار 
معبود نہیں نہیں کوئی چیز نہیں 
إلا آگاہی رموز و اسرار

Friday 23 November 2018

فکرو نظر

نام کتاب  فکرو نظر(تنقیدی و تحقیقی مضامین)
مصنف    حنیف نجمی
اشاعت. 2018
صفحات. 276
قیمت.  275
ناشر. روز ورڈ بکس ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں جو فکر کو مہمیز کرے اور اس سے نظر کو بالیدگی عطا ہو. حنیف نجمی صاحب کی یہ کتاب  پہلی ہی نظر میں کسی بھی سنجیدہ قاری کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ اس کتاب میں تین اہم ایسے مضامین ہیں جن میں سے دو کا پلاٹ صرف ایک بیت پر قائم کیا گیا ہے اور ایک تحقیقی مضمون صرف ایک مقولہ پرمرکوز ہے.
کتاب کی فہرست پر جب نظر پڑی تو نادر مضامین کا گلدستہ نظر آیا، جس میں ادب کی روح اور فلسفے کا خمیر ہے. اساطیری فنٹاسی ہے اور تازہ واردان ادب کے ادب پر تنقیدی نظر بھی ہے. اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کلام کی جو معطر روح اردو میں سمائی ہوئی ہے وہ مضامین میں بھی شیر وشکر ہوگئے ہیں، جو کسی بھی سنجیدہ قاری کو کلاسیکیت روح سے روشناس کراتاہے اور لفظ و معنی کے بے پناہ روموز سے بکھیرتا ہے.
کتاب کا پہلا مضمون"صنف غزل اور بین المتونیت" ہے جسے خسرو کی ایک بیت کے حوالے رقم کیا گیا ہے. مضمون کی شروعات مضامین میں اخذ و استفادہ کی بحث سے کی گئی ہے. جس کو انہوں نے بین المتونیت کے دائرے میں پیش کیا ہے جس کے دلائل کے طور پر  سنسکرت اور فارسی شعریات کو بھی پیش کیا ہے. خسرو کے خصوصی بیت پر جو مضمون قائم یے وہ بیت کچھ اس طرح ہے
اے گل چوں آمدی ز زمیں گو چگونہ اند
آں روئے ہا کہ در تہہ گرد فنا شدند
ساتھ میں مصنف کا دعویٰ بھی ہے کہ "غزل صحیح معنی میں بین المتونی صنف سخن ہے. اخذ و استفادہ اس کی شعریات کا مسلمہ اصول ہے." مصنف مذکورہ بیت کے مضمون کو بیدل و سودا سے لیکر مخمور سعیدی کی شاعری میں نشاندہی کرتے ہوئے پھر واپس سعدی و خیام کی جانب لوٹ جاتے ہیں اس طرح سے اپنے دعویٰ کےدلائل پیش کرتے چلے جاتے ہیں جو قاری کے ذہن میں بھی گھر کرتا چلا جاتا ہے.
دوسرے مضمون کا عنوان" غالب کی ایک بیت "ہے. فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے"در بلا بودن بہ از بیم بلا" اس پر بے تکلف کا اضافہ کر کے عرفی کے ایک شعر سے اکتساب کرتے ہیں، غالب کی بیت کچھ اسطرح ہے.
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیم بلا
قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است
اور عرفی کا بیت کچھ اس طرح ہے
ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در جیحون عشق
روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است
مذکورہ اشعار سے مصنف معانی کے گرہ کھولتے چلےجاتے ہیں، معانی کے دعویٰ کی دلیل اشعار سے پیش کرتے جاتے ہیں اور ایک دلچسپ مضمون بنتا چلا جاتا ہے
مرزا منوہر توسنی جو مصنف کی تحقیق میں فارسی کا سب سے پہلا غیر مسلم شاعر تھا، ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں توسنی کی شخصیت ادب اور مقبولیت کا جامع انداز میں مدلل احاطہ کیا گیا ہے.
"کلام خسرو میں گریہ" غزل کے مضامین اور مضامین کے اختراع سے مضمون شروع ہوتا ہے جس میں گریہ کے مضمون کو جن نئے نئے انداز سے خسرو نے پیش کیا ہے اس کی کہکشاں انہوں نے یہاں پیش کردی ہے.
"ملک الشعراء فیضی : ایک تجزیاتی مطالعہ" کتاب میں شامل سب سے طویل تحقیقی مقالہ ہے جو تقریباً پچھتر صفحات پر مشتمل ہے. اگر چہ مصنف نے عنوان میں تجزیاتی مطالعہ لکھا ہے لیکن یہ مکمل تحقیقاتی مقالہ ہے جس کی شروعات اکبر کے دور میں علماء کبار کے ذکر کے بعد عہدِ اکبری میں فارسی ادب کی حسین تاریخ کا زریں مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے. فیضی کا درجہ اکبر کے یہاں، فیضی کے تصانیف و تراجم، مذہب اور فیضی کی شاعری کا مطالعہ تفصیلی طور پر شامل مضمون ہے. ایک بات جو اس کتاب میں بہت ہی اہم ہے وہ یہ ہے کہ مصنف نے اشعار پر جو گفتگو پیش کی ہے ان میں وہ لفظی تشریح و تعبیر سے دور ہوکر معنویاتی سطح پر کئی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں
کتاب کے ابتدائی مضامین سے ہی اس بات کی امید تھی کہ ادبی معرکہ کا ذکر ضرور ہوگا اور وہ اس مضمون "فیضی کا ایک مقولہ" میں دیکھنے کو مل گیا. مضمون تو فیضی کے ایک مقولہ"سخن فہمی عالم بالا معلوم شد" پر مرکوز ہے.  عالم بالا کی لغوی معنوی اور ادبی تشریح کے بعد موقعہ ورودِ مقولہ پر پہنچتے ہیں. پھر یہ مصرع ہے یا مقولہ اس پر جو ادبی معرکہ شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مابین پیش آیا اس کا. ذکر کرتے ہیں، درمیان معرکہ زار علامی بھی آتے ہیں.
قارون کا قصہ جس کا تعلق محض مذہبی کتب سے ہے اس کے کئی پہلوؤں کی وضاحت مصنف نے ایک مضمون میں کی ہے. مصنف تو بظاہر مفسر نہیں ہیں لیکن قرآن کے ساتھ دیگر مذاہب کی کتاب میں قارون کا ذکر جس نوعیت کے ساتھ آیا ہے ان تمام پر اپنی عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں کی جو وضاحت کی ہے اس سے منصف کی علمی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے.
"شیخ احمد جام کی ایک بیت" کتاب میں شامل صرف بیت پر ہی مرکوز دوسرا مضمون ہے. شاعری کہتے کسے ہیں اس کیفیت کے ادراک کی تفصیل سے مضمون شروع ہوتا ہے پھر مشائخ چشت کے سماع سے متعلق ذوق و شعور کو پیش کیا گیا ہے. پھر کئی صفحات کے بعد شیخ احمد جام کی وہ بیت آتی ہے جس کو سن کر شیخ قطب الدین چار راتیں عالم تحیر میں ہوتے ہیں اور پانچویں شب جان جان آفریں کے سپرد کردیتے ہیں. وہ بیت یہ ہے
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
اس پورے مضمون میں اگرچہ تصوف کی فضا قائم ہے لیکن اصل میں انہوں نے شاعری کی روح کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو چیزے دیگر ہے.
اس کے بعد "تخلیق شعر کا الہامی تصور. شعر حافظ کے خصوصی حوالے سے" ہے. ماقبل کے مضمون سے یہ مضمون تدریجا آگے بڑھا ہے اور بات شعر کے الہامی ہونے تک پہنچ گئی ہے. ایک طویل گفتگو طوطی پر ہے جس میں ہی مضمون نگار نے صفت الہام کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے..
"رومی کی ایک بیت" کتاب میں کلاسیکیت پر شامل آخری مضمون اور بیتِ واحد پر مرکوز رہ کر لکھا جانے والا بھی آخری مضمون ہے. "آفتاب آمد دلیل آفتاب است" یہ اگرچہ رومی کی ایک بیت ہے لیکن مقولہ کے طور پر مشہور ہوگیا ہے اور ساتھ ہی فن منطق میں بدیہی کی مثال بھی ہے. مصنف نگار نے اسی بیت سے بات شروع کی ہے اور اسی پر مرکوز رہ کر کئی قیمتی ضمنی باتیں بھی بتائی ہیں اور  دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مصرع میں اور اس کے سوا تقریباً تیس اشعار میں آفتاب سے مراد رومی کے پیر و مرشد شمس تبریز ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ دیگر کتب سماوی و شعرا کے یہاں "آفتاب" کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے. اس مضمون کے بعد چار مختصر مضامین ہیں جن میں سے ایک امام غزالی کی حیات اور تین جدید شعرا سعید الظفر وسیم، اقبال خلش اور کرامت علی کرامت کی شعری و فکری جہات پر ہے. اس کتاب کے مطالعہ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا مکمل مطالعہ اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی قاری کو مطالعہ کی دعوت دیتی ہے.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی

Sunday 28 October 2018

عربی ادبیات کے اردو تراجم

دنیا میں کون سی زبان ترجمے کے اعتبار سے فوقیت حاصل کر تی ہے وہ عہد عہد کی بات ہوتی ہے.جیسے آج کے دور میں جب انگریز ی بادشاہت کا تاج پہنی ہوئی ہے ایسا ہی ایک وقت تھا جب عربی لسان العالم سمجھی جاتی تھی تو اس وقت عربی زبان سے دیگر زبانوں میں خوب ترجمے ہو ئے اور ابھی بھی قدیم کتب سے کافی ہورہے ہیں یا استفادہ کیا جا رہا ہے. لیکن جب اردو میں تراجم کی نمبر شماری کی جاتی ہے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسا کہ مصنف موصوف ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کتاب کے ابتدا ئی صفحات میں جس کو آپ مقدمہ سمجھ سکتے ہیں جو ”قطرہ “ کے عنوان سے ہے اس میں لکھتے ہیں ”اردو میں تراجم کی جو فہرست تیار کی جاتی ہے، اس میں غیر متعلقہ زبانوں کے تر جموں کا نمایاں اور جلی حروف میں تذکر ہ ہوتا ہے ، مگر عربی اردو ترجموں کا باب جانے انجانے گول کر دیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ اردو میں ابتدائی زمانے میں جو تر جمے ہوئے ہیں وہ انگر یزی سے نہیں ، عربی فارسی سے ہوئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ وضاحتی کتابیات اور فہارس کتب میں بھی عربی ترجموں کے حوالے سے ڈنڈی ماری گئی ہے “ ۔موصوف اس ناانصافی سے اتنے نالاں ہیں کہ کتاب میں کئی مقامات پر ان کی گفتگو اور تحریر کا یہ اسلوب پڑھنے کو ملتا ہے ۔

کتاب کو مصنف نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ اگر یہ تقسیم نہ کر تے تب بھی کتاب اتنی ہی معنی دار ہوتی جتنی تقسیم پر ہے. دراصل یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ سندی تحقیق کا جو اسلو ب تحریر و پیش کش ہوتا ہے وہ باب وار ہوتا ہے اور اس میں بھرتی کی چیز یں بھی ہوتی ہیں یا سمجھ لیا جاتا ہے کہ پہلے ، دوسرے اور تیسرے باب میں تمہیدات ہی ہوں گی اور آخر ی باب میں جا کر معنی مطلوب پر بات کی گئی ہوگی وہ بھی شا ید تکر ار سے پر ہو لیکن موصوف پہلے باب کے متعلق لکھتے ہیں ” یہ باب گر چہ بھر تی والے عنوان سے موسوم ہے ، مگر ہم نے جس تناظر میں گفتگو کی ہے اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسری کتابوں کے اس جیسے باب سے اس کی مشابہت و مجانست نہیں ۔“ اور وہ اس لیے نہیں کہ پہلے باب میں ترجمہ کا فن اور خصائص و امتیاز کے تحت ” تر جمہ کا تصور و تنا ظر“ اور ” تعریف و تقسیم“ پیش کر تے ہیں ۔جس میں مصنف موصوف کا نظر یہ کچھ یوں ہے” اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سی کتابوں کا اصل متن عوام اور قارئین میں اتنا مقبول نہیں ہوا جتنی مقبولیت اس کے تر جمہ کو ملی۔اس لیے بعض تر جموں کو اصل متن سے بھی بہتر ، دلچسپ اور مؤثر قرار دیا گیاہے “ مثال آپ کے سامنے کلیلہ و دمنہ ، باغ و بہاراور گلزار نسیم کی شکل میں موجود ہے ۔اس باب کے دوسرے جز ” تر جمہ : تعریف اور تقسیم“ میں مصنف نے تعریف بھی خوب پیش کی ہے اور تقسیم سے بھی روشناس کرایا ہے ، لیکن خود مصنف کی شرکت تعریف و تقسیم میں نظرنہیں آتی ہے البتہ تجزیے میں انہوں نے بھر پور کلام کر نے کی کوشش کی ہے جس کے لب لبا ب میں یہی لکھا جاسکتا ہے جو مصنف نے لکھا ہے کہ ” تر جمے میں اگر دونوں زبانوں کی لطافت بر قرار نہ رہے ، توترجمہ ادھورا اور یبوست زدہ معلوم ہوتا ہے جس سے قاری کی آنکھوں کا رشتہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا ۔“

دوسرا باب ” عربی اردو ترجمہ نگاری : سمت و رفتار “ ہے ۔ یہ باب آزادی سے پہلے شاہ رفیع الدین سے شروع ہوتا ہے اور آزاد ی کے بعد مولانا محمد تقی عثمانی پرختم ہوجاتا ہے ۔ تیسرا باب ” عربی ادبیات کے اردو تراجم “ پر ہے ۔ اس باب کے بھی دو حصے ہیں پہلا حصہ شعری تراجم پر ہے جس میں قدیم دواوین سے لے کر جدیدشعری مجموعوں تک کا ذکر ہے ،جس کی تعداد صر ف دس ہے ۔اس کم تعداد پر افسوس ہوتا ہے اساتذہ شروحات (لفظ بہ لفظ تر جمہ )پر زیادہ متوجہ ہوئے اور ترجمہ نگاری کی جانب توجہ نہیں دی. اگر اسی میں تھوڑی سی محنت اور کرتے تو ابھی اردو میں شعری تراجم کا عظیم ذخیر ہ ہوتا ۔ گزشتہ دنوں ناصرہ شرما کی ایک کتاب چھ جلدوں میں ” ادب میں بائیں پسلی“ نظر سے گزری. اس میں ایک جلد مکمل عرب خواتین کی شاعری پر ہے جن میں سے اکثر کا تعلق انیسویں اور بیسویں صدی سے  ہے ۔ جس میں ان کی شاعری کے ترجمے کوبھی پیش کیا گیاہے لیکن افسوس کہ زبان اردو اور رسم الخط دیونا گری ہے جسے ہم ہندی ہی کہہ سکتے ہیں ۔دوسرا حصہ نثری تراجم پر ہے جس میں سیرت و سوانح کے تحت سیر ت اور سوانحی کتب کا جو ترجمہ اردو زبان میں ہوا ہے ان تما م کا تعارف و تجزیہ ہے ۔ان میں سے اکثر کتابیں سیرت اور سوانح صحابہ اور کبار علما ءپر ہیں لیکن آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ان میں سے ایک کتاب مولانا ابو الکلام آزاد پر بھی ہے جو عربی میں ” ابوالکلام آزاد : المصلح الدینی فی الہند“کے نام سے شائع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ 1989ءمیں نجم الدین شکیب ندوی نے ” مولانا ابو الکلام آزاد : ایک مفکر ایک رہنما“ کے نام سے کیا ۔خو د نوشت میں صرف پانچ کتابیں ہیں جن کا تر جمہ اردو میں ہوا ہے ۔داستان و حکایت جس کا تعلق عربی سے گہرا رہا ہے لیکن جب تر جمہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اردو میں صرف الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ کے ہی ترجمے سامنے آتے ہیں جن کے مترجمیں اردو میں کئی ہیں ۔ناول اور ناولٹ کے بیس تراجم کا تعارف ہے. ان تر اجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عربی ناولوں کے تئیں اردو میں دلچسپی ہے جس کا اظہار ان تر اجم سے ہورہا ہے جن کا ذکر مصنف موصوف نے کیا ہے۔ اس کے بعد عربی کے پانچ مشہور ڈراموں کے اردو تراجم کا ذکرہے جن میں سے تو فیق الحکیم کے تین ڈراموں (سلیمان الحکیم ، اہل الکہف اور شہرزاد ) کا تر جمہ پر وفیسر اسلم اصلاحی نے ہی کیا ہے ۔(ابھی حال ہی میں ” اہل الکہف “ کے نام سے ڈاکٹر احمد القاضی نے پروفیسر ابن کنول کے پچیس افسانوں کا تر جمہ عربی میں کیا )۔قصہ اور افسانے میں سے سولہ مجموعوں کا یااردو میں سولہ کتابیں ترجمہ کی شکل میں موجود ہیں ان میں سے تمام جدید افسانے ہیں سوائے مقامات حریری کے ۔ مجھے لگتا ہے کہ مقامات کے جتنے بھی ترجمے ہوئے ہیں وہ سب درسی ضروریات کی بنا پرہوئے ہیں جہاں لفظوں کے تراجم پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور لفظی پیچیدگیوں کے حل پر توجہ صرف کی گئی ہے کیونکہ مقاما ت کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ لفظی پیچیدگیوں والی کتاب ہے تو شاید کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔سفر نامے سے چار ہیں جن میں سے دو( سفر نامہ ابن بطوطہ ، سفر نامہ ابن جبیر) کا تعلق قدیم اور دو (ہندو ستان کا سفر ، ہندوستا ن میری نظر میں ) کا تعلق جدید سفر ناموں سے ہے۔ تنقید میں سے صرف چارکتابیں ہیں ۔ شاعری کے بعد اگر عربی میں دیکھا جائے تو تنقید کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے لیکن افسوس مصنف کو ہے اورمجھے بھی کہ صرف چا رکتابوں ( ادب الجاہلی ، تنقیدا ت طہ حسین ، عربی تنقید کا سفر، میزان نقد ) کا اردو میں تر جمہ ہوسکا ہے ۔ قدامہ بن جعفر ، ابن قتیبہ ، ابن سلام الجمحی ، عبدالقاہر جر جانی، جاحظ ، ابن المعتز ، ابن رشیق القیروانی اور اندلسی دو ر کے عظیم قلمکاروں کی عظیم خدمات اردو میں تر جمہ کی منتظر ہیں جبکہ ان ہی تمام کو مغرب نے اپنا کر criticsm کا بادشا ہ بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں جب میں نظریہ ” معنی المعنی “ کو تلاش کر رہا تھا تو رچرڈ عبدالقاہر سے سیرابی حاصل کر تا ہوا نظر آیا ۔ تنقیدی تہیں جو اب آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کا ذکر آپ کو مذکورہ با لا کے یہاں پڑھنے کو ملے گا۔ جس کو اب تک ہم مغرب کی دریافت سمجھتے آئے ہیں یا مغرب کے توسط سے پڑھ رہے ہیں ہوسکتا ہے اس کا عکس آپ کو ان کے یہاں دیکھنے کو ملے کیونکہ اردو والے تو انگریز ی سے استفادہ کرکے کسی نظریہ کے امام تو بن جاتے ہیں لیکن وہی انگر یزی والا اس کو کہاں سے کشید کر رہا ہے اس جانب تو جہ نہیں دیتے ہیں ۔

ادبی تاریخ میں بھی چار کتابیں ہیں اس کے بعد متفرقات جو کتاب کا آخری حصہ ہے اس میں دس کتابیں بلاغت ، انشائیہ ، خطوط، کارٹون اور لطائف پر ہیں ۔
اس طر ح سے240 صفحات پر مشتمل کتاب تمام ہوتی ہے.

جناب رکیے کچھ خوبصورت زبان سے بھی مستفید تو ہوتے جائیے
حقانی القاسمی لکھتے ہیں ” اس موضوع کے وسیلہ سے انہوں نے غیر ممسوس منطقہ کی سیاحت کی ہے اور ایک ایسی اجڑی ہوئی کائنات کو آباد کیا ہے جس میں بہاروں کے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں ۔ انہوں نے عالمی افکارو اقدار سے شناسائی اور بین ثقافتی تر ابط و تعامل کی ایک حسین صورت تلاش کی ہے ۔“
اب آپ بھی حسین و جمیل خیابان کی سیاحت میں نکل جائیں.

امیر حمزہ، دہلی یونیورسٹی

نقد و آہنگ

"نقد و آہنگ" بزم آہنگ کی پہلی اہم تنقیدی پیشکش.

اکیسویں صدی کا اٹھارہواں برس ہے. دنیا مکمل طور پر برق رفتاری سے مرعوب ہے. قلم کاروں میں بھی بلا کی تیزی دیکھی جارہی ہے. جس کے قلم کی رفتار جتنی تیز ہے وہ اپنی تحریروں کے لیے اتنی ہی اسپیس تلاش کر رہا ہے. ڈیجیٹل دنیا میں یہ بہت ہی آسانی اور چاپلوسی سے حاصل کی جارہی ہے. قلم کار مزید بڑا بننے کے لیے کسی بھی درجے کی میگزین نکالنے کی جانب گامزن ہے اور مدیر کے عہدے پر فائز ہوجانا چاہتا ہے. ان تمام تیز رفتاریوں کے باوجود بزم آہنگ نے اکیسویں صدی کے پندرہویں برس میں سفر کا آغاز کیا اور اپنے سفر میں بے آہنگی نہیں آنے دی. جامعہ کے ہرے لان اور لال پتھروں کے درمیان خود کو نئے آہنگ میں بزم نے ڈھالا اور فروری 2017 میں پہلا قومی سیمینار جدیدیت کے موضوع پر منعقد کیا اور آگے کی جانب بزم نے اپنا قدم بڑھایا اور ایک سال بعد 17 مارچ 2018 کو اپنا دوسرا قومی سیمینار "اکیسویں صدی میں فکشن" پر منعقد کیا. اس موقع پر اپنے مخصوص رفتار و آہنگ کے ساتھ چلنے والی بزم آہنگ نے اس وقت بہت متحیر کیا جب سال گزشتہ کے سیمینار و بزم کی دیگر مجالس میں پڑھے گئے مقالات کا کتابی شکل میں رسم اجرا ہوا. (نقد و آہنگ. 264 صفحات)
اجلاس میں کتاب پر کسی نے گفتگو نہیں کی تو سوچا خود ہی اس کتاب سے ہم آہنگ ہوجاؤں اور اس میں آپ تمام کو شریک کرلوں.
اس کتاب کے مرتبین زاہد ندیم احسن اور صدف پرویز  ہیں. اول کا "پیش لفظ" اور دوسرے کا "میرے بول" ہے. پروفیسر کوثر مظہری کا ایک طویل مضمون "جدیدیت اور مابعد جدیدیت :تعبیر و ترسیل" کو اس کتاب کا مقدمہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا گرچہ یہ اہم مضمون موصوف کی اہم کتاب "جوازونقد" میں بھی مقدمہ کے عہدہ پر رونق افروز ہے. مقدمہ سے دلچسپ اسٹیٹمنٹ دیکھیں" اس عہد کی شاعری وہ سماج وہ زندگی اور وہ فن پھر زندہ ہوگیا ہےجو ترقی پسندوں اور جدیدیت کے درمیان سینڈوچ کی طرح دب کر رہ گیا تھا. آج کا ادبی منظر نامہ سماج اور افراد کی صحیح تفہیم کا اشاریہ بھی ہے اور جمال فن کا نمونہ بھی."
اس کے بعد ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا مضمون" جدیدیت اور مابعد جدیدیت : چند باتیں" اور ڈاکٹر ندیم احمد کا مضمون" تصورات و تحریکات" ہیں جنہیں ضمنی مقدمہ کے طور پر آپ سمجھ سکتے ہیں. اول کے مضمون سے مختصر اقتباس" آج کے فنکار کو نہ مابعد جدیدیت کے فکری مخاطبے سے مطلب ہے اور نہ اس سے مکمل آگاہی ہے. وہ اس پر اسرار مابعد جدید تھیوری کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں. انہیں نہ جشن جاریہ کی خبر ہے نہ مہابانیہ کی اور نہ ہی تکثیریت کی، نہ دریدا کو ہی جانتے اور نہ وہاب حسن کو." دوم کے مضمون سے بھی ایک اقتباس دیکھیں " جدیدیت میں مواد اور ہیئت ایک اکائی کا نام ہے. اسی طرح جدیدیت نے مصنف کی ذات کو تو اہمیت دی لیکن مصنف کی ان ترجیحات کو کوئی مقام نہیں دیا جن کا تعلق ادیب کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی نظریے سے ہوتا ہے." اس کے بعد ریسرچ اسکالروں کے مضامین و مقالات کو دو باب میں تقسیم کیا گیا ہے. پہلے باب میں وہ مقالات ہیں جو بزم آہنگ کے پہلے قومی سیمینار میں پیش کیے گئے تھے جن کی تعداد دس ہے. دوسرے باب میں بھی دس مضامین و مقالات ہیں یہ وہ اہم تنقیدی نگارشات ہیں جو بزم آہنگ کی مختلف نشستوں میں پیش کی گئی ہیں.
پہلے باب میں پہلا مضمون زاہد ندیم احسن کا "اردو افسانہ جدیدیت کے تناظر میں" ہے. جس میں انہوں نے سریندر پرکاش، انور سجاد اورانتظارحسین کی افسانوی فکر پر مختصر کلام کیا ہے. امیر حمزہ کے مضمون "رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات" میں موصوف نے فن پر تفصیلی گفتگو کے بعد صرف تین رباعی نگار( فرید پربتی. اکرم نقاش، عادل حیات) کی رباعیوں میں جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے. ضیاءاللہ انور کے مضمون "مابعد جدید ڈسکورس اور اردو کا لوک ادب:ایک وضاحتی بیانیہ (لوک گیتوں کے حوالے سے)" ایک جملہ ملاحظہ ہو" لوک ادب کا حوالہ ما بعد جدید ڈسکورس سے اس اعتبار سے بھی منسلک ہوتا ہے کہ اس میں علم بشریات اور علم صنمیات کے ڈسکورس بھی شامل ہیں. "
رضی شہاب کا مضمون" افسانے کی حمایت میں :شور برپا ہے خانہ دل میں" شمس الرحمن فاروقی کی کتاب "افسانے کی حمایت میں" کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ ہے.
محمد حسین کا خوبصورت مضمون" اردو نظم: جدیدیت کے تناظر میں " ہے. اس مضمون میں نظموں میں جدیدیت کے رجحانات کو سمونے کی کوشش کی ہے.
"جدید افسانہ اور سریندر پرکاش " رخسار پروین کا مضمون ہے. موصوفہ لکھتی ہیں "انہوں نے اپنے افسانوں میں بیانیہ حقیقت کے بجائے زبان و بیان کی داخلیت سے کام لیکر ابہام اور پیچیدگی کے ذریعہ کہانی میں ایک نیا انداز پیدا کیا ہے. ان کے یہاں علامت، تمثیل، تجرید و استعارہ سے کہیں زیادہ اسلوب، انداز بیان اور طرز نگارشات کی کارفرمائی ملتی ہے. "
اسما نے اپنے مضمون" نادید مابعد جدیدیت کے تناظر میں " جوگندر پال کے ناول نادید کو ایکسپلور کرنے کی مابعد جدیدیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اچھی کوشش کی ہے.
" جدید اور مابعد جدید غزل تنقید:ایک مطالعہ " محمد ریحان کے اس مضمون میں جدید غزل سے متعلق متنوع گفتگو کی گئی ہے اور ساتھ ہی ان کی تنقید پر بھی گفتگو ہے.
" مابعد جدیدیت : مسائل و امکانات" نصرت پروین کے اس مضمون سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن انہوں نے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے آخری برسوں میں بھی مابعد جدیدیت کے مسائل کے ساتھ امکانات کی تلاش کی ہے.
اس باب کا آخری مضمون ندیم سحر عنبرین کا ادب سے پرے اسلامیات سے ہے. جس میں برصغیر کی خواتین مفسرین کا جائزہ لیا گیا ہے.
دوسرے باب کا پہلا مضمون نوشاد منظر کا "افسانہ تنقیدکے ابتدائی نقوش" ہے. اس میں انہوں نے افسانہ کے چھ اولین ناقدین کے حوالے سے گفتگو کی ہے. دوسرا مضمون محمد تحسین زمان کا یحیی منیری کی اخلاقی تعلیمات پر ہے. امتیاز احمد علیمی کا مضمون قرۃالعین حیدر کے ناولوں کے تہذیبی شناخت نامہ پر ہے. اس مضمون میں تہذیبی شناخت نامہ سے زیادہ فنی شناخت نامہ پر گفتگو ہے.
شاہنواز حیدر شمسی کامضمون خلیل الرحمٰن اعظمی کی شاعری پر ہے جس میں انہوں نے ان کی شاعری پر سرسری جائزہ پیش کیا ہے. لکھتے ہیں "ان کی شاعری احساسات کی شاعری ہے. انسان کے ٹوٹنے بکھرنے اور انتشار کی داستان ہے، اخلاقی زوال قدروں کے کھوکھلے پن دہشت و بربریت کی کہانی ہے."
"سید عابد علی عابد کی غزل گوئی" ثمرین کا مضمون ہے. ثمرین لکھتی ہیں "عابد علی عابد کا تعلق شعرا کے ایسے طبقہ سے ہے جن کے کلام میں سوزوساز دونوں شامل ہیں ان کا کلام شعریت اور تغزل سے معمور ہے ............ موسیقیت، ترنم اور نغمہ کی جمالیاتی صفات کا ظہور ان کے کلام میں بخوبی پایا جاتا ہے. "
"اردو کی خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس" میں درخشاں نے خواتین کے اہم ناولوں کے اہم کرداروں میں تانیثی ڈسکورس کی کوشش کی ہے." قرۃالعین نے شاہد انور کے ڈراموں پر بہت ہی جامع گفتگو کی ہے. عرفان احمد کا مضمون "نشیب :ایک تجزیہ". کنیز فاطمہ کا مضمون "شفیق الرحمن کی انفرادیت" تجزیاتی و تاثراتی اوصاف کے حامل مضامین ہیں. کتاب کا آخری مضمون" مختصر تاریخ ادب اردو کے چند معروضات" ایک دلچسپ مضمون ہے جس میں گیان چند جین کے معروضات کو پیش کیا گیا ہے.
نئے قلم کاروں کی بزم"بزم آہنگ"کو مبارکباد کہ ہم آہنگ ہوکر نئی پیڑھی کے لیے چراغ راہ بن رہی ہے.

امیر حمزہ

فکرو تحریر کا ریسرچ اسکالرز نمبر

سہ ماہی فکرو تحریر کولکاتا
فکرو تحریر کا تازہ شمارہ بہت ہی شوق سے پڑھنا شروع کیا. معاف کیجئے گا دیکھنا شروع کیا، کہاں کہاں نظر نہیں پڑی، صفحہ کے اوپر دیکھا نیچے دیکھا، معاونین کی فہرست دیکھی، مشاورت کے نام دیکھے، مدیران کو تلاش کیا مدیر اعزازی کا اعزاز دیکھا، مشمولات کے نام دیکھے تو نام کے ساتھ چہرے بھی نظر آئے، کچھ نہیں آئے تو تصور میں بنانے کی کوشش بھی کیا، اداریہ بھی غور سے دو مرتبہ دیکھا اور مدیر اعزازی نے قلم کاروں کو جس اعزاز سے نوازنے کا عزم یا حسین غلطی کیا وہ بھی دائرہ احساس میں آیا.
مدیراعزازی نے کس طرح سینہ پر پتھر رکھ کر یہ فیصلے لیا ہوگا کہ ہمیں نو سیکھیوں کو ہی شامل کرنا ہے اور ساتھ میں میگزین کے وقار کو بھی قائم رکھنا ہے یم محسوس نہیں کرسکتے. یہ کام تو تخلیقات کے حوالے سے بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن تنقیدی مضامیں کے حوالے سے بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.  جس میں ہر مضمون میں مضمون نگار کی فکر کے ساتھ اسلوب ادا، زبان و بیان پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے.
تنقیدی مضامین میں اکثر پہلا پیراگراف کسی بھی قلم کار کے لیے چہرے کا کام کرتا ہے، جو یاتو اپنے جانب مائل کرتا ہے یا پھر وہی پیراگراف قاری کو ورق گردانی پر مجبور کردیتا ہے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے پیراگراف میں قلمکار لڑکھڑاتا بہت ہے پھر جب قلم چل نکلتا ہے تو تحریر میں روانی خود بخود آجاتی ہے. تو مدیر کے لیے سب سے مشکل امر ہوتا ہے کہ وہ بے ہنگم زبان و بیان کو کیسے سنوار کر اپنے قیمتی صفحات میں جگہ عنایت کرے یا پھر عنوان کی مناسبت سے تحریر میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے. الغرض ہم نو سیکھیوں کی تحریر میں اگر کوئی اتنی محنت کرکے اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے تو اس کے لیے شکریہ کی رسم بھی کم پڑ جاتی ہے. لیکن پھر بھی ہماری ڈھٹائی بدستور جاری رہتی ہے کہ ہم اپنی تحریروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور سدھار لانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اگر کسی دور کے ساتھی کی تحریر میں کچھ نشاندہی کردی جائے تو بات بند کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے، لیکن مدیر محترم ان تمام کی پرواہ کیے بغیر نو سیکھیوں کی تحریر کو سنوارتا رہتا ہے اور جب کچھ کچھ اچھا لکھنے کے لائق ہوجاتا ہے تو اچھا قلمکار شکریہ بھی بجا لاتا ہے کہ مجھے آگے بڑھانے اور ہماری تحریر کو سنوارنے میں فلاں مدیر اور رسالے کا اہم کردار ہے جس کا ہم احسان نہیں ادا کرسکتے، لیکن کچھ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو زبانی بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے چہ جائے کہ اپنی تحریروں میں اس کو جگہ دیں ، الغرض کسی بھی قلم کار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کے قلم کی کہکشاں کا بھی کوئی باغبان ہے جس کی باغبانی میں آپ خوشنما نظر آتے ہیں. الغرض اب ان تحریروں کی جانب رخ کرتے ہیں جن میں سے کچھ سجے سنورے ہیں اور کچھ کو ضرورت ہے.
پہلا مضمون ارشد احمد کوچھے کا ہے جنہوں نے مشتاق احمد وانی کی افسانہ نگاری پر لکھا ہے. اس چار صفحہ کے مضمون میں ان کے افسانوی فن پر گفتگو کرتے ہوئے تین اقتباسات بزرگ ناقدین کے درج ہیں اور تین اقتباس افسانوں سے ہے جن میں سے ایک منظر نگاری دوسرا جذبات نگاری اور تیسرا اقتباس اسلوب نگاری پر ہے. مضمون نگارنے افسانہ نگار کے یہاں جو کچھ پایا وہ اس طرح ہے."مشتاق احمد وانی نے اپنے افسانوں میں جدید تکنیک کے تجربے بھی کیے ہیں یعنی خودکلامی کی تکنیک، فلیش بیک کی تکنیک. خطوط نگاری کا استعمال بھی انہوں بڑے بہترین اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے جس سے ان کے افسانے کے اسلوب کی حسن کاری میں مزید اضافہ ہوگیا". اس اقتباس میں جو دعویٰ ہے وہ پیش کیے گئے اقتباسات سے کسی حد تک مختلف ہے.
دوسرا مضمون امام الدین کا" 1980 کے بعد اردو غزل"ہے. اس مضمون میں مرکزی نقطہ جو نظر آتا ہے وہ مابعد جدیدیت ہے، اس میں انہوں نے یہ پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے کہ اس جدید عہد کی شاعری 80 سے پہلے کی شاعری سے کس قدر مختلف ہے. مضمون نگار لکھتا ہے "...... 1980 کے بعد اردو غزل کا جو روپ سامنے آیا وہ ما بعد جدیدیت کہلا یا جس میں تخلیق کار کو تخلیق کی مکمل آزادی ملی اور اس ثقافتی تشخص کی بات کہی گئی جس سے اب تک ہمارے فن کار جدا تھے.
" سلیمان آصف اور ان کی شاعری" میں تمنا شاہین نے ان کی شاعری اور مجموعہائے شعری کا تعارفی مطالعہ پیش کیا ہے. انہوں نے اس میں ان تمام صفات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو ایک روایتی شاعر کے یہاں ہونی چاہیے. تمنا نسیم کے مضمون "سالک لکھنوی : مختلف رنگوں کے شاعر" میں آپ کو صرف ترقی پسندانہ، عشقیہ اور کلاسیکی رنگ پڑھنے کو ملے گا. "راجہ گدھ کا عمرانیاتی مطالعہ" جمشید احمد ٹھوکر کا جامع انداز میں تحریر کردہ  مضمون ہے. راجہ گدھ کے کئی نکات کو قاری کے سامنے رکھا گیا ہے اور  تنقیدی بصیرت بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لب لباب پہلے ہی پیش کرتے ہیں کہ یہ ناول حلال و حرام سے وابستہ ہے اور آخری سطور میں لکھتے ہیں" راجہ گدھ ادب عالیہ کا وہ فن پارہ ہے جس میں انسان کے روحانی اور وجدانی کا تغیرات کو فلسفیانہ انداز میں رقم کیا اور ان تمام فکری پہلوؤں کو جو جامد ہیں تحرک دے کر قاری کے اندر نئے احساس سے آشنا کرایا" مضمون نگار نے گدھ کی علامت کو جگہ جگہ سے کھولنے کی بھی کوشش کی ہے.
راشدہ خاتون نے قاضی عبدالستار کے ناولٹ" آخری کہانی"کے ایک جز کیفیت عشق پر روشنی ڈالی ہے، مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے کہ عشق تو پاکیزہ ہوتا ہے ہوس پاکیزہ نہیں ہوتا ہے اور ہوس کا نام عشق نہیں دیا جاسکتا. اس ناولٹ میں رومانس کی جس کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے اسی پر  مضمون نگار نے گفتگو کی ہے. "حمیدہ بیگم کی خود نوشت" ہم سفر"ایک مطالعہ" سروری خاتون کا مضمون ہے. جس میں انہوں نے ہم سفر میں موجود زندگی کے مختلف مراحل کا ذکر کے تجزیاتی مطالعہ ہیش کیا ہے، اس خود نوشت میں مصنفہ نے جس سادگی اور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس اسلوب کو اپنایا ہے وہ جاذبیت اور حقیقت نگاری سے معمور ہے. اس وقت کے جن بڑے لوگوں کا ذکر خود نوشت میں ہے وہ آج کے قاری کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے. جس کی طرف اشارہ مضمون نگار نے بھی کیا ہے. "کربل کتھا کا اسلوبیاتی مطالعہ" سید اکرم حسین کا مضمون ہے. کتاب کا شمار شمالی ہند کے اولین نثر پاروں میں ہوتا ہے جب اسلوب سے زیادہ نثری زبان ایک نئے ڈھانچے میں ڈھل رہی تھی شاعری اپنی شناخت مضبوط کرچکا تھا لیکن نثر کو شناخت کی تلاش تھی. اس نوزائیدہ نثر کا اسلوب کیا تھا اس کا تعارفی مطالعہ اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے . سیدہ واصفہ غنی نے "جدید اردو افسانوں میں معاشرتی منافرت" کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں جدید افسانوں کے بجائے خواجہ احمد عباس، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے. پروفیسر ابن کنول کے ایک افسانہ" ہمارا تمہارا خدا بادشاہ"کا مطالعہ شاہد اقبال نے پیش کیا ہے. اس افسانہ کے متعلق لکھتے ہیں"وہی تخلیق زندہ رہتی ہے جو ہر قرات میں قاری کو نئے معنوی ابعاد کا احساس دلائے. ابن کنول کا یہ افسانہ علامتی ہے جس کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے". شفیع احمد نے احمد یوسف کی رپورتاژ و خاکہ نگاری دونوں پر گفتگو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے. سفینہ سماوی نے"عصمت چغتائی کے افسانوں میں مسائل نسواں" کی عکاسی مختلف افسانوں کے حوالے سے کی ہے جس میں جنسی مسائل کو ہی نمایاں رکھا گیا ہے. لکھتی ہیں" عصمت چغتائی عورتوں کی نبض شناس ہیں. عورتوں کے نرم نازک جذبات جنسی خواہشات اس کے مزاج کی نرمی، لطافت شوخی اور بانکپن ان کے افسانوں میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں".
ظفر عالم کا ایک تحقیقی مضمون "مولانا ابوالکلام آزاد اور سائنس" کے حوالے سے شامل رسالہ ہے. یہ ایک طویل وضاحتی مضمون ہوسکتا تھا لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف تعارف اور سائنس سے آگہی کے نمونے ہی پیش کیے ہیں پھر بھی مضمون سے مزید کی تشنگی ظفر عالم پیدا کرجاتے ہیں. فرح نازنین کا مضمون جتنا چھوٹا ہے اتنا ہی جامع ہے" تانیثیت اور بہار کی شاعرات" عنوان تو یہی ہے لیکن مجھے جو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ مضمون مطلقاً خواتین قلم کاروں کو محیط ہے اور عنوان محدود ہے. تانیثیت کا ذکر ہے اور بہار کی موجودہ خواتین شاعرات کا نام بھی لکھا گیا ہے لیکن شکایت پوری خواتین قلمکار برادری سے  ہے. لکھتی ہیں" ہماری شاعرات اپنے معاصر خواتین تبصرہ نگاروں اور نقادوں کی آراء کو مردوں کی آراء کے مقابلے میں کمتر اور غیر اہم گردانتی ہیں..... ہماری خواتین تنقید کی طرف کیوں نہیں متوجہ ہوتیں؟ فکشن میں ہی سہی ممتاز شیریں کے بعد اس پائے کی نقاد کیوں نہیں پیدا ہوسکی. محمد رکن الدین صاحب نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس میں ہند و پاک کے علاوہ دنیا کےجن جن گوشوں میں گزشتہ صدی اردو کا چراغ روشن ہوا، موجودہ صدی میں بھی روشن ہے اور اب تک کیا کیا خدمات انجام دئے جا چکے ہیں تمام کو احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے. محمد ریحان کا "اردو ناول میں تقسیم ہند کے اثرات" میں گویا ناولوں کا ایک قسم کا تعارف ہی پیش کیا گیا ہے اور اس مختصر سے مضمون میں وہی ممکن ہو سکتا تھا. "مکاتیب سر سید کا اسلوب"  شاداب شمیم کے تحریر کردہ اس مضمون میں وہی عکس و تیکنیک جھلکتا ہے جو وکیپیڈیا میں موجود علامہ اقبال کی شاعری، غالب کی خطوط نگاری پر وکیپیڈیا ہیں. یعنی معلوماتی اسلوب اپناتے ہوئے مختلف جہات پر مختصر انداز میں تحریریں لکھی ہیں.
اخترالایمان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی مشہور نظم "ایک لڑکا" بھی تصور میں ابھر آتا ہے گویا ان کی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ دنیائے ماضی پر مشتمل ہے. اسی کو محمدپ فرحان خان نے شامل راالہ اپنے مضمون میں پیش کیا ہے. محمد نہال افروز کے مضمون "نیر مسعود: حیات اور ادبی کاوشیں" میں حیات مسعود اور ان کی پچیس نیر تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے.
"آسٹریلیا میں اردو کی نگہت : ڈاکٹر نسیم نگہت" ایک تفصیلی مضمون مہوش نور کا ہے جس میں موصوفہ کی ادبی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے، عنوان کے نیچے بین القوسین میں " مہجری فکشن کے حوالے سے" مرقوم ہے لیکن مضمون کا کوئی بھی پیراگراف اس سے متعلق نہیں ہے. شاید غلطی سے لکھا ہوا رہ گیا ہو. بہر حال ان کے فن پر گفتگو نہیں ہے صرف ادبی زندگی پر ہے. ان تنقیدی مضامین کے بعد تخلیقی گوشے میں فیضان الحق کا انشائیہ گھڑگھڑاہٹ، مہتاب عالم فیضانی کے دو افسانے اتفاق اور ٹیبل گھنٹی. خان محمد رضوان، رئیس فاطمہ، شہنور حسین، صائمہ ثمرین، عالیہ اور محمد ذیشان رضا کی خوبصورت غزلیں شامل ہیں اس کے بعد تین نظمیں علیم اللہ کی "تہذیب کی شکست و ریخت، محمد شاہد کی" تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے"اور نورالاسلام کی نظم ترا وجود ہے.
اب مضامین پر ںظر ڈالنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مضامین اساتذہ کو دکھائے گئے ہیں اور ایک دو مضامین ایسے بھی ہیں جن پر مضمون نگار نے خود بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی. اشاعت کے عمل سے گزرنے کے بعد کوئی بھی تخلیق اعمال نامہ میں شمار ہوجاتا ہے وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اس میں تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ ہم اچھی تاریخ رقم کرنے والے بنیں اور چھان پھٹک کر ہی آگے کی جانب قدم بڑھائیں.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...