Monday 15 May 2017

شیخ محمد ابراہیم ذوق (مونو گراف )

 ( نام کتاب شیخ محمد ابراہیم ذوق (مونو گراف 
مصنف پروفیسر کوثر مظہر ی 
صفحات 109
قیمت 72 روپے 
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان 
مبصر امیر حمزہ ، شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ، دہلی 
نادر شاہی حملہ کے بعد دہلی اجڑ جاتی ہے ، شعر و ادب کی محفلیں اٹھ چکی ہوتی ہیں  ، میر و سودا اپنے فن کی بقا کی تلاش میں لکھنو  کو چ کر چکے ہوتے ہیں اسی دو رمیں دہلی میں شیخ محمد ابر اہیم ذوق کا جنم ہوتا ہے اور انیسویں صدی کے شروع میں دہلی میں پھر سے شعر و ادب کے بزم آراستہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔جس میں اصحاب ثلاثہ ذوق ، مو من و غالب آفتاب و ماہتاب بن کر آسمان شاعر ی میں چمکتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ جس عہد اور ماحول میں ہمیں یہ تینوں شاعر ملتے ہیں اس عہد میں سب سے زیادہ طوطی شاعری میں ذوق کا بولتا ہے ۔کیا یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ خاقانی ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے مزاج ، علم و فن اور اصطلاحات زبان و بیان سے پوری طر ح واقف تھے ۔ جس کی طرف کئی اشارے زیر تبصر ہ کتاب میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لیکن ہر چیز کو تقابل کی عینک سے دیکھنے کی وجہ سے ذوق آہستہ آہستہ ماند پڑتے جاتے ہیں اور غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر ابھر تے ہیں ۔ذوق و مومن کے ساتھ اب تک سب سے بڑا المیہ یہ ہورہا ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ تقابلی طور پر زیادہ اور ان کی انفرادیت کے طور پر بہت ہی کم کیا گیا ہے ۔اب تک ذوق پر لکھنے والوں کی تعداد دس سے بھی کم ہے ۔سابقہ تمام مطالعات کو مد نظر رکھتے ہوے پروفیسر کوثر مظہر ی نے جس خوش اسلوبی سے اس کتاب میں ایک تنقید ی محاکمہ پیش کیا ہے، اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ذوق کا مطالعہ اب تک کما حقہ‘ نہیں کیا گیا ہے ۔
مصنف نے زیر تبصرہ کتاب میں سب سے پہلے سوانح و پس منظر کوبیس صفحات میں پیش کیا ہے ۔ذوق ابتدائی حالات اور پس منظر کا ذکر کہیں نہیں ملتا ہے ۔ جس کا ذکر مصنف ان الفاظ میںکر تے ہیں ” اگر تمام کتب اور تذکر وں کو دیکھا جائے تو کہیں بھی ذوق کے حصول علم اور اس کی تکمیل کا واضح حوالہ نہیں ملتا “ ۔(ص ۴) مصنف نے اپنی تحقیق سے یہ بھی لکھا ہے کہ ” کوئی تذکرہ نگار اس امر کی جانب اشارہ نہیں کر تا کہ انہوں نے شاہ نصیر کے علاوہ کسی اور سے بھی مشورہ ¿ سخن کیا ہو ۔“ (۱٠)ذوق کے اساتذہ سخن کے بعد آب حیات کی اس بات پر سوال کر تے نظر آتے ہیں جس میں آزاد نے لکھا ہے کہ استاد ذوق الٰہی بخش معر وف کی شاعری پر اصلاح دیا کر تے تھے ۔مصنف اس پر یہ سوال قائم کر تے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ذوق کی ابتدائی شاعری سے پہلے معر وف کا ایک دیوان مرتب ہوچکا تھا ۔ تو کیا ذوق محض ۰۲۔۹۱ سال کی عمر میں اصلاح دینے کے مجاز تھے ؟
ذوق اور در بارشاہی پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف نے نہ ہی دربار شاہی کے احسانات ذوق پر کو پیش کیا ہے اور نہ ہی ذوق کے در ربار شاہی میں رعب و دبدبہ کا ذکر ہے۔بلکہ انہوں نے تحقیق کے دائرے میں کئی امور کو لایا ہے ۔جیسے ذوق کا دربار سے متعلق ہونا ، خاقانی ہند کا خطاب دیا جانا اور دیوان ظفر استاد کا ہے یا شاگر د کا؟ ۔اس تعلق سے گفتگو کر تے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ۔” مطلع صاف ہوچکا ، جو بھی معاملات مشق سخن یا اصلاح سخن کے طریقے رہے ہوں ذوق نے بہت کچھ گنوا دیا ، لیکن غالب نے اپنے شعری اور تخلیقی بساط پر آنچ نہیں آنے دی۔“ (ص ١٤ )۔ مصنف نے شخصیت اور افتاد طبع کا ذکر کر تے ہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ شخصیت اور افتاد طبع کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ جو اب تک نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو بانداز دیگر ۔ اسی سیاق میں سید عابد علی کی تحر یر کو پیش کر تے ہوے یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ذوق کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق کے زمانے کی دلی اور ذوق کی شخصیت کو جاننا بہت ہی ضروری ہے، اس کے بغیر ذوق کا مر تبہ متعین کر نا بہت ہی مشکل ہے ۔
مصنف تنقیدی محاکمہ کے باب میں تفصیلی گفتگو ذوق کی غزل گوئی اور قصیدہ گوئی کے متعلق پیش کر تے ہیں ۔مصنف نے اپنی تحقیقی گفتگو کاجو انداز سابقہ باب میں اختیار کیا ہے وہی انداز اس باب میں وافر طور پر نظر آتا ہے ۔غزل گوئی پر تنقید کر تے ہوئے بہت ہی محتاط انداز میں ان کی غزلیہ شاعری کو پر کھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔جانب داری بالکل بھی نظر نہیں آتی ہے ۔جہاں ان کو لگتا ہے کہ مضمون میں کمی ہے اور خیالات میں وسعت نہیں ہے اس کا بر ملا اظہار کر تے ہیں ۔اس جانب اشارہ کر تے ہیں کہ ذوق نے جہاں روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے وہاں ان کی شاعر ی منفر د نظر آتی ہے ۔
قصید ہ گوئی کی تنقید پر محتر م مصنف نے جو محاکمہ پیش کیا ہے وہ مستقل ایک نئے مباحثہ کو جنم دیتا ہے ۔مصنف نے اس طویل گفتگو میں آٹھ ناقدین قصائد ذوق کے تنقیدی تر اشو ں کو پیش کیا ہے ۔جن میں چار (بر ج موہن دتاریہ کیفی ، تنویر احمد علوی ، انوار الحسن ، ابو محمد سحر ) وہ ہیں جنہوں نے ذوق کو ایک اچھا قصید ہ گو شاعر مانا ہے ۔دوسرے چار (سید امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد ، پروفیسر عبد الحق) وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق ایک معمولی قصیدہ نگاری کی راے قائم کی ہے ۔ان کی تحریروں پر مصنف نے مدلل جواب اس کتاب میں پیش کیا ہے ۔ نیز ذوق کے قصیدوں کے متعلق کئی ایسے گوشے روشن کیے ہیں جن میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ذوق کی قصید نگاری سوداکی قصید نگاری سے کسی طور بھی کمتر نہیں ہے ۔الغرض اس موضوع پر مصنف کتاب طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ۔ ” ضرورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبدا ری او ر ایمانداری کے ساتھ دیکھا پڑھا اور پر کھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصید ہ میں سو دا بڑا اور غز ل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قر ا ت اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ۔“ (ص ۰۶) اس کے بعد بہت ہی مختصر انداز میں ان کی رباعی اور قطعات میں تنقیدی تحریر شامل ہے ۔ انتخاب کلام کے تحت ۹۳غزلیں ، چار قصیدے او ر ایک سہرا شامل ہے ۔الغر ض پروفیسر کوثر مظہر ی جو اپنی سابقہ تنقیدی کتابوں کی وجہ سے بہت ہی مثبت تنقید کے لیے جانے جاتے ہیں انہوں نے اس مونوگراف کے ذریعے جن مباحث کو پیش کیا اور جن گوشو ں کی جانب از سر نو دعوت مطالعہ دی ہے اس کے لیے وہ مبار کباد کے مستحق ہیں ۔




No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...