Saturday 27 May 2017

دیپک بدکی کے افسانوں میں ہجر ت



دیپک بدکی کی شخصیت افسانے کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل شخصیت ہے ۔1960 ءکے بعد جب افسانہ کو افسانہ نگار ایک نئی جہت عطا کرنے میں لگے ہوئے تھے اسی عہد میں دیپک بدکی نے اپنا پہلا افسانہ ”سلمی “ لکھا ۔ جو ہمدرد سرینگر سے شائع ہوا تھا ۔اس دور کی ادبی تحر یکیں اور رجحانات جو ہر ایک افسانہ نگار کو اپنے دامن میں سمیٹ رہے تھے وہیں دیپک بدکی خود کو ان رجحانات سے دور رکھتے ہوئے اپنا راستہ خود منتخب کر رہے تھے ۔ جہاں انہوں نے افسانوں سے علامت ابہام اور تجریدیت کے زور کو کم کرکے ا س میں کہانی پن پیدا کیا اور اس کو قاری سے قریب کیا ۔جس سے ان کے افسانوں کا انداز نگارش بہت ہی سادہ ،آسان ،سہل اور زود فہم ہوا ۔جس کی وجہ سے اردو کا ایک عام قاری بھی ان کے افسانوں سے وہ لطف اٹھاتا ہے جو ایک خاص قاری کے حصہ میں آتا ہے ۔اس طریقے سے دیپک بدکی فوری طور پر اس کو اپنے خیالات و احساسات کا ہم شریک بنا لیتے ہیں ۔
موصوف کے چھ افسانوی مجموعے ’ ادھورے چہرے “ جن کے اردو میں اب تک تین ایڈیشن فر وخت ہوچکے ہیں اور ایک ہند ی میں بھی شائع ہوا ۔” چنار کے پنجے “ اشاعت اول 2005 ہے “ ۔ ” زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی، 2007 ۔ ”ریزہ ریزہ حیات “ 2010۔” روح کا کر ب“ 2015۔ ” میں اب وہاں رہتا “ 2017۔ اور ایک افسانچوں کا مجموعہ ” مٹھی بھر ریت منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے علاوہ تنقیدی مضامیں اور تبروں پر مشتمل تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور دو کتابیں زیر طبع ہیں ۔ ان کے افسانوں پر دو مقالے ایم فل کے اور ایک پی ایچ ڈی کا لکھا جا چکا ہے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ 
ادھورے چہر ے میں شامل سارے افسانے اپنے موضوع کے اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں ۔” جاگو “ اور ” ادھورے چہرے “ یہ دونوں افسانے ایمر جنسی کے درمیان لکھے گئے ہیں جن میں اس دور کے کر ب اور حالات کی جھلک نظر آتی ہے ۔” ادھورے چہرے “ میں اس معاشر ہ کی عکاسی کی گئی ہے جہاں رشتے ناطے عارضی اور ہنگامی بن کر رہ گئے ہیں ۔جہاں اجنبی لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کے رشتہ دار بن جاتے ہیں اور اصل رشتوں کا خون حالات بدلتے ہی سفید ہوجاتا ہے ، انجام کار انسان اس بھری دنیا میں تنہا رہ جاتا ہے ۔افسانہ ” ڈرفٹ ووڈ ‘ ‘ ایک معصوم لڑکی کی امنگو ںاو ر مسکراہٹوں کا مدفن ہے ۔اس کہانی میں وہ لڑکی گھریلو جنسی زیادتی کاشکا رہوتی ہے ۔ایسے واقعات عموماً ۵۹ فیصد پوشید ہ رکھے جاتے ہیں ۔ جہاں وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہوکر خو د کشی کی مر تکب ہوجاتی ہیں۔جب کہ اس کہانی میں سُمن خو د کو ڈرفٹ ووڈ کی مانند دریا کے موجو ں کے حوالے کر دیتی ہے اور مر دوں کو آلہ ¿ کار بنا کر زندگی ہموار کر تی رہتی ہے ۔اس افسانہ کاایک اقتباس ملاحظہ ہو ” ایسی صورت حال میں لڑکیاں اپنے آپ سے حقارت کر تی ہیں اور پستی کی گہرائیوں میں گرجاتی ہیں مگر وہ اپنے مغموم دل کو قہقہوں کے پھاہے لگاتی رہی ، جسمانی قربتوں سے اپنے مضروب کو جھوٹی تسلیاں دیتی رہی اور مردو ں کو آلہ ¿ کار بنا کر اپنی زندگی کی راہیں ہموار کر تی چلی گئی“ ۔” رشتوں کادرد “ آج کے کرم خوردہ سماج کی تصویر ہے جہاں جھوٹ، مکر و فریب اور جرائم کا بول بالا ہے ۔ اس کہانی میں ایک ایسا سماج ہے جہاں مجر م بری ہوتا ہے اور معصوم تختہ ¿ دار پر لٹکایا جاتا ہے ۔
چنار کے پنجے افسانوی مجموعہ میں وقت کے اہم موضوعات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہیں ان کے افسانوں کا ایک اہم موضوع کشمیر کے حالات اور کشمیر سے ہجر ت کے مسائل ہیں ۔اگر چہ ہجر ت کے تعلق سے بہت سے افسانے ہماری نظروں سے گزرے ہوں گے لیکن مصنف کی تحریروں میں جو کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کا کر ب نظر آتا ہے وہ ہمارے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتا ہے ۔”چنار کے پنجے“ میں کئی ایسے افسانے ہیں جن میں اس موضوع کو پیش کیا گیا ہے اور کئی افسانوں میں اس کی جھلک نظر آتی ہے ۔افسانہ ”چنار کے پنجے “میں اس کوبخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
  ”غربت میں اکثر وہ مرجھا جاتا ہے ۔نیست ونابود ہوجاتا ہے ۔ہمیشہ کے لیے ۔ اور پھر رہ جاتی ہیں یادیں ۔ڈھیروں ساری یادیں ۔تواریخ کی کتابوں میں مدفن یادیں ۔فرعونی تہذیب کے یادیں ۔یونانی تہذیب کی یادیں ۔یا پھر رہ جاتی ہیں فوسِل اور آثار قدیمہ ۔ڈائنوسور س اور آرکییوپیٹرکس۔اسٹون ہینج اور جنتر منتر یا پھر رہ جا تے ہیں لِوِنگ فوسِل ۔گنگوبائلوبااور ہم لوگ جو زندہ لاشوں کی طر ح اپنی نسل کو گھسیٹتے ہوئے چلے جارہے ہیں “ 
اس طر یقے سے کئی اور افسانے ہیں جسمیں کلچر اور ہجر ت کا کشمکش ایک ساتھ ملتا ہے جن میں سے ”ایک نہتے مکان کا ریپ “ ، ” وفادار کتا“ زیبرا کرا سنگ پر کڑا آدمی“ ، ” کاگ پورنیما “ اور ”سفید کراس “ ہیں
ایک نہتے مکان کا ریپ میں موصوف نے محض ا یک تالے کے توسط سے انسانی فطر ت میں کج روی اور لالچ کو بے نقاب کیا ہے ۔رات کے اندھےرے میں مکان مالکن دروازے پر تالہ لگا تی ہے اور تین بار جھٹک کر دیکھتی ہے پھر اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب مکان محفوظ ہے ۔لیکن مکان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کی رال ٹپکتی ہے کہ نہ معلوم مکان میں کتنا ذخیرہ موجود ہوگا ۔ کہ اچانک ایک بندوق بر دار پولیس کے ڈر سے مکان کا تالا توڑ کر اندر جاکر چپ جاتا ہے ۔ پھر مکان میں داخل ہونے کے لیے راستے کھل جاتے ہیں اور بظاہر ایک دوسرے سے نظر یں بچاکر مکان میں بچی ہر چیز اٹھا لے لے جاتے ہیں یہاں تک کے کالے کوئلے بھی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ الغر ض اس جڑ سے اکھاڑے ہوئے شخض کے گھر کی ہر چیز جڑ سے اکھاڑ لے جاتے ہیں ۔ اس افسانہ کے متعلق وارث علوی لکھتے ہیں” ایک نہتے مکان کا ریپ بے مثال افسانہ ہے ، یہ اردو میں اپنی نوعیت کا اچھوتا افسانہ ہے“ 
” کاگ پورنیما “میں مصنف نے ہجر ت کو الگ زاویہ سے دیکھا ہے اور خو د کو کس طر ح سنبھالتا ہے(یعنی تسلی دیتا ہے ) اس کو بھی اس افسانہ میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس افسانہ سے چندجملے ۔
 ” ہاں بیٹے ۔۔۔۔ ان دنوں ہر سال سائبر یا اور روس کے دیگرشمالی علاقوں سے مہاجر کوے ہزاروں لاکھوں میلوں کی مسافت طے کر کے یہاں چلے آتے ہیں ۔ ہم ان کی سواگت کے لیے یہ تیوہار مناتے ہیں ۔ تم باہر جاکر دیکھ لو۔ آج کل تمہیں چھتوں پر دیواروں پر پیڑوں پر غرض ہر جگہ کالے کلوٹے کوے نظر آئیں گے جو چونچ سے دم تک کوئلے کی مانند سیاہ ہوتے ہیں “(کاگ پورنیما ) 
الغرض ان کے افسانوںمیں ہجر ت کا کر ب و درد بہت ہی زیادہ نظرآتا ہے ۔آج ہم ایک ایسے افسانہ نگار کے درمیان ہیں جنہوں نے حقیقت کی عکاسی کے لیے کبھی اپنی ضمیر اور قلم کا سوادا نہیں کیا ۔ اب تک ہم نے ہجر ت کے تعلق سے بہت سارا فکش پڑھا ہوگا لیکن کیا ہجر ت وہی ہے جس کو ہم اب تک افسانوں میں منٹو ، گر شن چندر اور دیگر کے یہاں پڑھتے آئے ہیں آخر اس ہجر ت سے خود کو کب تک در رکھیںگے جو سن نوے میں کشمیر سے وہاں کی اقلیتوں نے کیا ۔ کیا ہم مہجر ی ادب کو اس کے بغیر مکمل سمجھیں گے بالکل نہیں ۔ آ ج ہم ایک ایسے افسانہ نگار سے رو بر و ہورہے ہیں جنہوں نے دیگر موضوعات کے ساتھ کشمیر سے ہجر ت کو موضوع کو سب سے زیادہ اپنے افسانوں میں جگہ دیا ہے ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...