Thursday 12 March 2020

غیر مسلم رباعی گو شعرا


                وہ زبان جس کے  نتیجے  میں  گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھی،وہ اردو تھی اور جو تہذیب اردو زبان کے  سائے  میں  پر وان چڑھی وہ گنگا جمنی تہذیب تھی ۔ دونوں  ایک دوسرے  کے  لیے  لازم ملزوم ٹھہریں ۔ اردو شاعری جب اپنے  تشکیلی دور کو مکمل کر لیتی ہے  تو کئی ایسے  غیر مسلم نام سامنے  آتے  ہیں  جنہوں  نے  مستند اساتذہ سے  مشق سخن جاری رکھتے  ہوئے  اردو شاعری میں  اپنا نام روشن کیا ۔ ار دو جس کا خمیرمسجد کے  صحن، خانقاہوں  کے  حجرے  اور مندروں  کی سیڑھیوں  سے  تیار ہوا اور سماعت کی شیرینی،اذان کی لے  اور مندر کی گھنٹیوں  کی آواز سے  تیار ہوئی اس زبان نے  کبھی بھی اس چیز کا فاصلہ نہیں  رکھا کہ وہ اپنے  دامن کو کس کے  لیے  وسیع کرے  اور کس کے  لیے  سمیٹ لے  بلکہ حوادث اور حالات نے  خود اردو زبان کے  ساتھ وہ ستم کیے  کہ کئی علاقوں  میں  اردو یتیم ہوکر مدفون ہوگئی اور کہیں  اپنی آخری سانسیں  گن رہی ہے  ۔ دہلی ، لکھنؤ ، عظیم آباد، کلکتہ ، مر شدآباد اور دکن میں  ار دو شہر یوں کی زبان تھی جسے  اب مذہب کی زبان بنا کر چھوڑ دیا گیا ۔ ہم خواہ کتنا ہی یہ نعرہ بلند کرلیں  کہ اردو تہذیب و ثقافت اور شریفوں  کی زبان ہے  لیکن عملی طور پر اردو والوں  نے  ہی اس کو مذہب کی زبان کے  طور پر متعارف کر انے  میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی ہے  ۔ وجہ صرف استعمال کی ہے  کہ اردو کو استعمال میں  کتنا لایا جاتا ہے  ،ساتھ ہی اردو زبان کی شیرینی ایسی رہی کہ اس نے  تمام مذاہب و مسالک کو اپنا گرویدہ بنایا ۔اردو میں  غیر مسلم شعراء نے  اس زبان کو اپنے  اظہار کا وسیلہ بنایا جس میں  انہوں  نے  کثیر مقدار میں  ادب بھی تخلیق کیا نیز اردو میں  نثر و نظم کا عمدہ ذخیرہ غیر مسلم شاعروں  و ادیبوں  کی بیش بہا دین ہے  ۔مثنوی ہو یا مرثیہ ، قصیدہ ہو یا رباعی ، غزل ہو یا نظم ، داستان ہو یا نا ول ، افسانہ ہو یا خاکہ و انشائیہ وغیرہ غرض کہ ہر صنف سخن میں  بھر پور نمائندگی ملتی ہے  ۔ ہم گفتگو کر تے  ہیں  شاعری کی ایک اہم صنف رباعی کے  متعلق کہ اس میں  ان غیر مسلم شعراء کی نمایاں  خدمات کیا رہی ہیں  اور شروع سے  اب تک اس صنف میں  ان کی خدمات کی تاریخ کیا رہی ہے  ۔

اردو میں  شعری روایت اگر چہ امیر خسرو سے  شروع ہوتی ہے  لیکن باضابطہ تمام شعری اصناف سخن کی پرو رش و پر داخت دکن سے  ہوتی ہے  ۔ رباعی جیسی صنف کی شروعات بھی وہیں  سے  ہوئی ۔ قطب شاہی ، عادل شاہی ، نظام شاہی اور برید شاہی دور حکومت میں  کئی شعرا ایسے  نظر آتے  ہیں  جن کے  دواوین میں  رباعیاں  مل جاتی ہیں  ۔ دکن کے  بعد سترہویں  و اٹھارہویں  صدی میں  رباعی کو کم و بیش تمام شعرا ء نے  اپنے  دیوان میں  چھوڑا ہے ۔

 شمالی ہند میں  اردو کے  ابتدائی عہد میں  غیر مسلم رباعی گو شعرا میں  سب سے  پہلا نام جودت ؔ کا سامنے  آتا ہے  ۔ان کا اصل نام ہردے  رام اور تخلص جودت تھا ، وطن مرشدآبادتھا ۔ ان کا شمار مرزا علی لطف مؤلف ’’ تذکرہ گلشن ہند ‘‘کے  دوستوں  میں  ہوتا ہے  ۔ان کی ایک رباعی کا ذکر سلام سندیلوی نے  کیا ہے  ۔ان کے  بعد رائے  سر ب سکھ دیوانہؔ کانام سامنے  آتا ہے  ۔ یہ راجہ مہابیر دکن کے  رشتہ داروں  میں  سے  تھے  ۔مرزا جعفر علی حسرت ؔاور میر حید ر علی حیرانؔ ان کے  شاگر دوں  میں  سے  تھے  ۔انہوں نے  فارسی میں  دو دیوان یادگار چھوڑے  ہیں  لیکن اردو میں  ان کی شاعری بہت ہی کم ملتی ہے  البتہ اردورباعی کی ابتدائی تاریخ میں  ان کا ذکر آتا ہے  لیکن اس عہد میں  اس صنف سخن میں  کسی قابل ذکر غیر مسلم رباعی گو شاعر کا نام نظر نہیں  آتا ۔
   
عہد غالب و مومن میں  دلی ، لکھنؤ و عظیم آباد سے  دور شہر کلکتہ میں  بہادر دیپ کنورؔ کا نام سب سے  پہلے  آتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۸۱۵ء ؁ میں  شہر کلکتہ کے  ایک علمی و ادبی گھرانے  میں  ہوئی ۔ والدمہاراجہ راج کشن دیب بہادر زبان و ادب سے  گہرا شغف رکھتے  تھے  ۔بہادر دیپ کنور نے  ۵۲ سال کی عمر پائی ۔ انہوں  نے  اس قلیل عرصے  میں  دو اردو کے  دیوان ، دو مثنویاں  اور چار جلدوں  میں  شاہنامہ ہند بزبان فارسی انگر یزی تر جمہ کے  ساتھ یاد گار چھوڑی ہیں  ۔ان کے  دونوں  دیوان میں  روایت کی مناسبت سے  اس زمانہ میں  رائج تمام اصناف سخن یعنی غزل کے  ساتھ قصیدہ ، مستزاد ، واسوخت ، تر جیع بند، مخمس ، مسدس اور رباعی شامل ہیں  ۔ڈاکٹر سلمہ کبر یٰ نے  تحقیق کر کے  ان کی رباعیوں  کی تعدادر ۵۵ بتائی ہے  جن کے  موضوعات نشاطیہ اور طر بیہ ہیں  ۔وہ ایک رئیس زادے  تھے  اس لیے  ان کی زیادہ تر رباعیوں  میں  رئیسانہ شا ن و شوکت نظر آتی ہے  ۔

دل کو ہے  دور ی میں  اس کی اضطراب
ہو گیا سو زدروں  سے  جی کباب
مانگتا ہوں  میں  خدا سے  روزو شب
کاش کہ دلدار مل جاوے  شتاب

 ان کے  بعد غیر مسلموں  میں  ایک مشہور شاعر رام سہائے  تمناؔ(۱۸۵۴ء ۱۹۳۴ء) کا نام سامنے  آتا ہے  جن کی پیدا ئش لکھنٔومیں  ایک کائستھ برادری میں  ہوئی ۔ان کے  والد منشی پورن چند ذرہ فارسی زبان میں  ایک مستند عالم تھے  اور ان کا ذریعۂ معاش بھی اردو کی تر ویج و اشاعت تھی وہ اس معنی  میں کہ انہوں  نے  ۱۸۷۵ ء میں  ایک مطبع تمنائی کے  نام سے  شروع کیا جہاں  سے  سیکڑوں  کی تعداد میں  اردو کتابیں  شائع ہوئیں  اور جب اس مطبع سے  ہفتہ وار ’’ تمنائی ‘‘ شائع ہوا تو اس کی ادارت کی ذمہ داری منشی رام سہائے  تمنا کو ملی جس کو وہ ستائیس برس تک بخوبی نبھاتے  رہے  ، وظیفہ یاب ہونے  کے  بعد انہوں  نے  ایک اور رسالہ ’’ دربار‘‘ بھی جاری کیا ۔آپ کا خاندان دہلی کا تھا جو نادر شاہی حملہ کے  بعد لکھنؤ آبا د ہوگیا ۔ان کے  اندرذہانت و فطانت تو تھی ہی ساتھ ہی لکھنٔو کے  ادبی و شعری ماحول نے  خوب مینا کاری کی اور وہ لکھنؤ اسکو ل کے  ایک ایسے  شاعر ہوئے  جن کی شاعری میں  لکھنوی ابتذال کا شائبہ تک نہیں  آیا بلکہ ان کے  یہاں  داخلیت کے  ساتھ شرافت و پاکبازی کے  وہ عناصرملتے  ہیں  جس کی وجہ سے  وہ لکھنوی شعراء کی بھیڑ میں  منفرد نظر آتے  ہیں  ۔ان کا زیادہ تر کلام ایسا ہے  جو تاریخی واقعات مثنوی ، مسدس، مخمس ، رباعیات اور دیگر مضامین مذہبی سے  تعلق رکھتا ہے  کیو نکہ اردو زبان میں  ہندو مذہبی کتابوں  کی بہت ضرورت تھی اس لیے  حضرت تمنا نے  قریب دو سو کتابیں  تصنیف کیں  جن میں  کئی قسم کی کتابیں ، رامائنیں  اور بھجن وغیرہ شامل ہیں ۔اس زمانہ میں  انہوں  نے  خوب لکھا بلکہ یوں  سمجھ لیں  کہ آج کے  لکھاریوں  سے  بھی زیادہ لکھا اورمروجہ فن و موضوع کو ہاتھ سے  جانے  نہیں  دیا ۔ان تمام میں  رباعیاں  بھی شامل تھیں  جن کا باضابطہ کوئی الگ سے  مجموعہ مر تب نہیں  کیا گیا بلکہ ذخیرہ شاعری میں  وہ رباعیاں  اب بھی بکھری پڑی ہیں  لیکن ان کے  چھوٹے  لڑکے  ڈاکٹر گوری سہائے  نے  ’’ انتخاب کلام تمنا مع مختصر تذکرہ ‘‘ شائع کیا جس میں  دیگر اصناف کے  ساتھ پندرہ چیدہ رباعیوں  کو بھی شامل کیا ہے  ۔اسی سے  ایک رباعی بطور مثال ملاحظہ ہو :
زبان نرم سے  بیہودہ گفتگو کیسی
یہ خود کڑی نہیں  سختی کی اس میں  خو کیسی
زبان میں  نام کو بھی استخواں  کا نام نہیں
پھر ایسے  گل کو ہی کانٹوں  کی جستجو کیسی

 سر کشن پرشاد شادؔ کی پیدائش ایک جنوری ۱۸۶۴ء کو ریاست حیدر آباد میں  ہوئی۔ وہ دو دو مرتبہ صدر المہام (وزیر اعظم مقرر ہوئے ) ۔راجہ بہاد ر، راجہ راجایاں ، یمین السلطنت، سی آئی سی، جی سی آئی سی آئی ای، بھارت بھوشن، ایل ایل ڈی جیسے  خطابات سے  سرفراز ہوئے  اور صدر المہام فوج، وزیر افواج، یمین السلطنت جیسے  اعلیٰ عہدوں  پر بھی فائز رہے  ۔شاد ایک عمدہ منتظم سلطنت کے  ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے ۔ان کی شاعری کا اندازہ اس مشہور شعر سے  لگا جا سکتا ہے :
اس نے  کہا کعبہ ترا، میں  نے  کہا چہرہ ترا
اس نے  کہا چہرہ ترا، میں  نے  کہا جلوہ ترا

وہ اردو اور فارسی میں  شاعری کیا کرتے  تھے  ۔شاعر کے  علاوہ وہ عمدہ نثر نگار بھی تھے  ۔تقریباً ستر کتابیں  انہوں  نے  نثر میں  تحریر کیں  اور شاعری میں  صبح امید، شگوفہ بہار، آئینہ عقیدت، رباعیات شاد، ارمغان زیبا، گلبن تاریخ، نذر شاد اور نذر سلطان ہیں ۔ رباعیات شاد ہی کے  نام سے  تین مجموعے  ہیں ۔اس کے  علاوہ بھی تقریباً ان کے  تمام شعری مجموعوں  میں  رباعیاں  ملتی ہیں ۔ان کی رباعیوں  کے  موضوعات اس وقت کے  چلن کے  حساب سے  توحید، تصوف، نعت و منقبت، مدح، عشق، ہجر، انجام زندگی اور حالات زندگی کے  ساتھ اپنے  منصب کی مناسبت سے  بادشاہ کی رضامندی بھی تھے ۔ان کی  رباعیوں  میں  اگرچہ گیرائی اور گہرائی کم پائی جاتی ہے  لیکن زبان صاف اور سلیس ہے  ۔وہ اپنے  عہد کے  رباعی گو شعرا میں  موضوعات کے  تنوع کے  اعتبار سے  نمایاں  نظر آتے  ہیں ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو۔

خنداں  نہ کوئی عدم سے  آتے  دیکھا
لیکن گریاں  یہاں  جاتے  دیکھا
اے  شاد جہان بے  بقا میں  ہم نے
ہر فرد بشر کو خاک اڑاتے  دیکھا

 اردو شاعری میں  جوش ملسیانی سے  کون واقف نہیں  ہوگا۔ان کا نام پنڈت لبھو رام اور جوش تخلص تھا۔ ان کی پیدائش ۱۸۸۴ء میں  پنجاب کے  گاؤں  ملسیان میں  ہوئی۔ ماقبل شعرا کی طرح ان کی پرورش و پرداخت نہ رئیسانہ ماحول میں  ہوئی اور نہ ہی ادبی ماحول میں ۔ مصائب بھری زندگی گزارنے  کے  بعد جالندھر چھاؤنی کے  ایک اسکول میں  مدرس کے  عہدے  پر فائز ہوئے ۔جوش ملسیانی ابتداء سے  ہی غیر معمولی صفات و خصوصیات کے  حامل ہونے  کی وجہ سے  پر زور آواز، رواں  و سلیس زبان و اسلوب کے  ساتھ اُبھرے ۔ داغ دہلوی کے  حلقہ تلمذ میں  شامل ہوئے  لیکن یہ تعلق زیادہ دنوں  تک قائم نہیں  رہ سکا کیونکہ داغ اس دار فانی سے  کوچ کر گئے ۔ اس کے  بعد انہوں  نے  کسی سے  اصلاح نہیں  لی ۔تا ہم وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں  کو بروئے  کار لاتے  ہوئے  اپنی شاعری کو سنوارتے  رہے ۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں  کا ا عتراف نہ صرف اس وقت کے  شاعروں  نے  کیا بلکہ نقادوں  نے  بھی اپنے  عمدہ خیالات کا اظہار کیاجن میں  جگر مراد آبادی، بیخود دہلوی، ریاض خیرآبادی، یگانہ چنگیزی، رشید احمد صدیقی اور نیاز فتح پوری وغیرہ شامل ہیں ۔ان کے  مجموعہ ہائے  کلام بادہ سر جوش، جنون و ہوش اور فردوس گوش کے  نام سے  شائع ہوچکے  ہیں ۔ان کی شاعری میں  قادرالکلامی، زبان دانی اور فن پر گرفت نظر آتی ہے  جن میں  تخیل ، نئے  مضامین کا اختراع ، شدت احساس اور مشاہدہ کی وسعت پائی جاتی ہے  ۔انہوں  نے  جو رباعیاں  کہی ہیں  ان میں  بھی زبان کی صفائی ،روز مرہ کا استعمال اور محاورات نظر آتے  ہیں ۔ان کی رباعیاں  ان کے  مجموعہ ہائے  کلام میں  موجود ہیں ۔بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو.
قبضے  میں  کلید گنج قاروں  نہ سہی
تاج سر کاؤس و فریدوں  نہ سہی
اے  بحر کرم کچھ تو عطا کر مجھکو
قطرہ ہی سہی فرات و جیحوں  نہ سہی

تلوک چند محرومؔ (۱۸۸۷ تا ۱۹۶۶ء) کی پیدائش دریائے  سند ھ کے  ایک گاؤں  عیسیٰ خیل میں  ہوئی ۔انہوں  نے  اپنی پوری تعلیم میانوالی سے   حاصل کی اور پھر ڈیرہ اسماعیل خاں  میں  معلمی کے  پیشہ سے  منسلک ہوگئے  ۔شاعری کا ذوق بچپن ہی سے  تھا اورگاؤں  کے  شعری ماحول نے  ان کے  ذوق کو مزید پروا ن چڑھایا ۔اس زمانہ میں  ضلعی مکتبہ شعرو ادب میں  میانوالی کا بہت ہی نام تھا۔ اب بھی پاکستا ن کے  کئی اچھے  شعرا اسی ضلع سے  تعلق رکھتے  ہیں  ۔ انہوں  نے  اپنے  شعری سرمایے  کے  طور پر غزل ، نظم ، رباعی ،قطعہ ،مرثیہ اور نوحے  وغیرہ یاد گار چھوڑے  ہیں  جو تمام کے  تمام ’’ کلام محروم حصہ اول ،دو م و سوم‘‘ میں  موجود ہیں  ۔اس کے  علاوہ انہوں  نے  رباعیات کی جانب خصوصی تو جہ دی جس کا مجموعہ انہوں  نے  ’’ رباعیات محروم ‘‘ کے  نام سے  ۱۹۴۶ ء میں  شائع کیا ۔بحیثیت رباعی گو وہ دنیائے  ادب میں  ایک خاص مقام رکھتے  ہیں  ۔سادگی اور صداقت کے  پیرہن میں  ملبوس ان کی رباعیاں  تاثیر کی کیفیت سے  بھر پورہوتی ہیں  جن میں  فنی پختگی عر وج پر نظر آتی ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  جہاں  وقت کا عکس نظر آتا ہے  ، وہیں  خیام و سرمد کا خمیر بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ’’ تصوف برائے  شعر گفتن خوب است ‘‘ اپنی جگہ پر درست ہے  لیکن انہوں نے  رباعیات کی تخلیق میں  کبھی بھی تصوف کا ڈھونگ نہیں رچا اور نہ ہی ابو الخیر بننے  کی خواہش رکھی البتہ ا ن کے  دل میں  جوکچھ تھا اور شاعری کے  موضوعات جو چلے  آرہے  تھے  اس کو سادگی کے  ساتھ اپنی رباعیوں  میں  پیش کر دیا ۔ ایک رباعی بطو رمثال ملاحظہ ہو :
دنیا نے  عجب رنگ جما رکھا ہے
ہر ایک کو غلام بنا رکھا ہے
پھر لطف یہ ہے  کہ جس سے  پوچھو وہ کہے
اس عالم آب و گل میں  کیا رکھا ہے

جگت موہن لال رواں ؔ (۱۸۸۹ء۔۱۹۳۴ء) کی پیدائش انا ؤ میں  ہوئی ۔ انہوں  نے  ابتدائی تعلیم اناؤ ، ثانوی لکھنؤ اور اعلیٰ تعلیم الہٰ باد سے  حاصل کی ۔ انہیں شعرو شاعر ی کا ذوق اس زمانہ کے  ماحول کے  ساتھ فطر ت کی جانب سے  بھی عطا ہوا تھا ۔ لکھنؤ کے  ماحول میں  شعری ذوق کو مزید نکھارنے  کا سنہرا موقع نصیب ہوا جہاں  وہ عزیز لکھنوی کے  شاگرد ہوئے  ۔ رواں  ؔ رباعی کی دنیا میں  داخل ہونے  والے  ایک فطری شاعر تھے  ۔ وہ رباعی کی دنیا میں  ایسے  وقت میں  داخل ہوئے  جب رباعی کی فضااکبر و حالی کی اصلاحی رباعیوں  سے  گونج رہی تھی لیکن انہوں  نے  فلسفہ کا درس رباعی کے  ذریعہ شروع کیا ۔ انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  وطن ،قوم اور سیاست کے  تصورات کو توازن کے  ساتھ پیش کیا ۔جہاں ایک طرف ان کی رباعیوں  میں  فطرت کی حسین عکاسی ملتی ہے  تو وہیں  دوسری جانب تاریخ بھی نظرآتی ہے  اورفراق گورکھپوری سے  پہلے  اردو رباعی میں  ہندو مذہب اور ہندو دیومالائی تہذیب کو رباعی کا جامہ پہنا تے  ہیں ۔ اردو رباعی کی دنیا میں  وہ اپنی فلسفیانہ رباعیوں  کی وجہ سے  نمایا ں  نظر آتے  ہیں  ۔ وہ فلسفۂ حیات، فلسفۂ موت ، فلسفۂ گنا ہ ، فلسفۂ جبر و اختیا ر کو پیش کر تے  ہوئے  اختیار سے  ہار کر جبر کا غلام ہوجاتے  ہیں  ۔گناہ کو تکمیل انسان کے  لیے  ایک عنصر مانتے  ہیں  اور دیر و حرم کے  درمیان کسی قسم کی دیوار کو روا نہیں  رکھتے  ۔ غر ض کہ انہوں  نے  مختلف فلسفوں  کے  جام سے  اپنی رباعیوں  کو سیراب کیا ہے  ۔ایک رباعی اس دنیائے  فانی پر ملاحظہ فرمائیں  :
کیا تم سے  بتائیں  عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
ایک موج فنا تھی زندگانی کیا تھی

جذب عالم پوری (۱۸۹۴۔ ۱۹۷۳) رباعی کی تاریخ میں  جنوب کے  اول اہم غیر مسلم شاعر ہیں  ۔راگھوندر جذبؔ کی پیدا ئش رایچور کر نا ٹک میں  ہوئی ۔ ان کے  والد پنڈت رام راؤ کا لگاؤ شعر وشاعر ی سے  تھا ۔ اسی ماحول کی وجہ سے  آپ اردو شاعری کی جانب مائل ہوئے  ۔ سخا دہلوی اور امجد حسین کی شاگردی اختیار کی اور شعر و شاعر کی دنیا میں  اپنا ایک مخصوص مقام بہت جلد بنا لیا ۔ارمغان جذب، آہنگ جذب ، تحفہ جذب، رباعیات جذب ، ساز غزل اور صد پارہ جذب ان کے  اہم شعری مجموعے  ہیں  ۔رباعیات جذب کے  علاوہ آہنگ جذب اور صدپارہ جذب میں  بھی کافی تعداد میں  رباعیاں  ہیں  ۔ رباعی گوئی میں  یہ بات بکثرت محسوس کی جاتی ہے  کہ فارسی اور خصوصاً خیام کی رباعیوں  کا عکس یا تر جمہ پیش کر کے  ان کے  جیسا بننے  کی کوشش کی جاتی ہے  ۔ کہیں  کہیں  آپ کو سنسکر ت کی شاعری کا بھی عکس نظر آئے  گا ۔جذب کی رباعیوں  میں  سنسکرت شاعری کا ترجمہ اور خیال نظر آتا ہے  ۔ ان کی رباعیوں  کے  مطالعہ سے  اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے  کہ یہ تمام ان کی سخن فہمی اور شاعرانہ مشاقی کا ثبوت ہیں  ۔ان کے  یہاں  اخلاقی ، مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر رباعیاں  ملتی ہیں  ۔ زیادہ تر رباعیوں  میں  اخلاقی تعلیم کا پیغام دیکھنے  کو ملتا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں معاشرہ و ماحول کی حقیقت کی ترجمانی کا انداز کچھ ایسا ہے  کہ خوبصورت منظر کشی کا گماں  ہوتا ہے  اور رباعیوں  کی خصوصیات میں  جذبے  اور فکر کا حسین امتزاج ، انداز بیان کا رچاؤ اور اسلوب ادا کی شائستگی ہے  ۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو :
صدہا ہوئے  نذر تیغ دارا کی طرح
لاکھوں  گئے  زیر خاک کسریٰ کی طرح
کیا اب بھی نہ سمجھوگے  اجل ہے  کیا چیز
ویراں  کیے  جس نے  شہر صحرا کی طرح

فر اق گورکھپوری (۱۸۹۶ء تا ۱۹۸۲ء) ارد و رباعی کا ایک ایسا باب ہے  جس میں  داخل ہونے  کے  بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں  نظر آتی ہے  ۔فر اق رباعی کے  باب میں  ماضی کی تمام روایتوں  کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں  خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنا تے  ہیں  ۔ان سے  پہلے  اردو رباعی ان الفاظ و تر اکیب ، حسن و جمال اور تبسم و رعنائی سے  محروم تھی۔ فراقؔ نے  ان تمام عناصر کو اپنی رباعیوں  میں  ہندوستانی عورتوں  و دوشیزاؤں  کے  حسن وادا کے  مختلف روپ پیش کر نے  میں  استعمال کیا ہے  ۔

فراق نے  اپنی رباعیوں  کے  ذریعہ ہندوستانی عورتوں  کے  حسن و جمال اور نزاکت و ادا کی جزئیات نگاری کی بھر پور عکاسی کر نے  کی کوشش کی ہے  جس کی وجہ سے  ان کی رباعیوں  میں  جا بجا جسم کے  مختلف نقو ش و منظر اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں  ابھر کر نظروں  کے  سامنے  آتی ہیں   جیسے  پنگھٹ پر گگریوں  کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں  کا کھیتوں  میں  دوڑنا ،ساون میں  جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے  کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں  کہی ہیں  جن میں  ’’روپ ‘‘ میں  تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں  اڑسٹھ(۶۸)،گلبانگ سے  مادر ہند کے  تحت اٹھانوے  (۹۸) فکر یات کے  عنوان کے  تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں  ایک رباعی موجود ہے  ۔یہ تمام رباعیاں  موضوع کے  اعتبار سے  صرف دو زمروں  میں  تقسیم کی جاسکتی ہیں  ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں  کا ہے  جن میں  محبوب کے  لب و ر خسار اور اس کے  خد و خال کی کیف آگیں  تصویریں  پیش کی گئی ہیں  اور دو سرے  زمر ے  میں  ان رباعیوں  کو رکھا جا سکتا ہے  جن میں  ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے  جیسے  پنگھٹ پر لڑکیوں کی گگر یاں  ، معصوم لڑ کیوں  کا کھیتوں  میں  دوڑنا ، ساجن کے  جوگ میں  مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے  سسرال جانے  کا منظر وغیرہ ۔ ان رباعیوں  میں ہندوستانی طرز معاشر ت کے  ایسے  خاکے  اور چلتی پھرتی تصویریں  ہیں  جن میں  فراق ؔ کے  تخیل ، جمالیاتی شعور اور طر ز تر سیل نے  انوکھا رنگ اور جان ڈال دی ہے  ۔

فراق کی رباعیوں  کی مقبولیت کا راز یہ ہے  کہ ان کی رباعیوں  میں  جو جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی تصویریں  جگہ جگہ نظر آتی ہیں  ان سے  قاری ان کی رباعیوں  کا اسیر نظر آتا ہے  اورفراقؔ اردو کے  وہ منفر د شاعر ہیں  جنہوں  نے  اپنی رباعیوں  کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں  سے  تعبیر کیا ہے  کیونکہ انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  حسن کومختلف زاویوں  سے  دیکھا ہے  اور اس کی اداؤں  کی دل نشینی کو بھی محسوس کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے  ہوئے  بادلوں  کے  سے  گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے  ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں  جنہیں  پہلی بار رباعی کی لڑی میں  پرویا گیا ۔فراق رباعی میں  جتنا کھل کر پیش آئے  ہیں  وہ اتنا کھل کرغزلوں  اور نظموں  میں پیش نہیں  آئے  ۔حسن کی تصویروں  کو پیش کرنے  میں  فراق فراخدلی سے  کام لیتے  ہیں  ۔ان کی رباعیوں  میں  استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے  ۔ ان کی ایک غیر خصی رباعی ملاحظہ ہو :
ہے  تار نظر کے  کپکپاتی ہوئی صبح
ہے  نور جبیں  کے  مسکراتی ہوئی صبح
ہے  جنبش لب کہ گنگناتی ہوئی صبح
ہے  روپ کے  پیچ و تاب کھاتی ہوئی صبح
خصی رباعی بھی ملاحظہ فرمائیں :
دوشیزہ ٔ بہار مسکرائے  جیسے
موج تسنیم گنگنائے  جیسے
یہ شان سبک روی یہ خوشبوئے  بدن
بل کھاتی ہوئی نسیم گائے  جیسے

 آر آر سکسینہ  (۱۸۹۶ ۔ ۱۹۵۷) کا پورا نام رگھوندن راج سکسینہ تھا جن کا حیدر آباد سے  تعلق تھا ۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی ان کے  اندر ادبی ذوق پروان چڑھنے  لگا تھا ۔ نظام حیدرآباد کا ادب دوستی کا دور شباب پر تھا ۔اسی دور میں  انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کا مجموعہ ’’رباعیات الہام ‘‘ کے  نام سے  اردو دنیا میں  متعارف کر وایا ۔ ساتھ ہی وہ سراپا اخلاق اور انسانی اقدار کے  امین بھی تھے  ۔ڈاکٹر ی کے  پیشہ میں  ان کی مسیحائی اور دست شفا کا پورا حیدرآباد قائل تھا ۔ رباعیات الہام کے  علاوہ ان کی ایک اور کتاب ’’آسمان جاہ کا حیدرآباد ‘‘بھی ہے  ۔’’رباعیات الہام ‘‘ میں  ۱۱۴؍ رباعیاں  شامل ہیں  ۔ ان کی رباعیوں  کی قدرو قیمت اور اہمیت میں  اضافہ کی وجہ یہ ہے  کہ انہوں  نے  امجد حیدرآبادی سے  مشق سخن کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  کی زبان صاف ستھری، محاورات اور روز مر ہ کے  استعمال میں  ندر ت خیال اور حسن ادا کا لحاظ ملتا ہے  ۔امجد حیدرآبادی سے  منسلک ہونے  کی وجہ سے  خیالات کی بلندی اور طرز ادا کی خوبصورتی کے  ساتھ مضامین کی پاکیز گی بھی پائی جاتی ہے  ۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو  :
رونے  کے  لیے  دیدۂ نمناک ملا
تقدیر سے  عشق بت سفاک ملا
دنیا میں  بتاؤ ہم کو کیا خاک ملا
دل بھی جو ملا ہم کو تو صد چاک ملا

 عر ش ملسیانی (۱۹۰۸ء۔۱۹۷۹ء) جن کا پورا نام بالمکند عرش ملسیانی تھا۔ اس سے  پہلے  جوش ملسیانی کا ذکر بھی آچکا ہے  اور ان کی تین کتابوں  کا بھی ذکر تھا ۔دونوں  میں  صرف آبائی وطن کی مماثلت نہیں  ہے  بلکہ عرش جوش کے  ہونہار لڑکے  تھے  جنہوں  نے  اردو دنیا کو بہت کچھ دیا ۔عرش کالج کے  زمانے  سے  ہی مشاعر وں  میں  شرکت کر نے  لگے  تھے  ۔انہوں  نے  علمی حلقہ میں  اپنی بہت بڑی شناخت بنائی تھی جس کا انداز ہ اس بات سے  لگایا جاسکتا ہے  کہ ان کے  حلقۂ احباب میں  پروفیسر آل احمد سرور ، مالک رام ، نیاز فتح پوری ، جگر بریلوی ، فراق وغیرہ اس زمانہ کی اہم شخصیات شامل تھیں ۔ ان کی مقبولیت میں  مزید اس وقت اضافہ ہوا جب وہ جوش کے  پاکستان چلے  جانے  کے  بعد ماہنامہ آج کل کے  مدیر کے  عہدے  پر رونق افروزہوئے  ۔ان کی تصانیف و تراجم کی تعدا د تقریباً ۲۶؍ہیں  ۔ شاعری میں  ہفت رنگ ، چنگ و آہنگ ، شرار آہنگ ، آہنگ حجاز ، بیوہ سہاگن، گاندھی گان ، عرش ، نغمہ سرمد ہیں  ۔تحقیق و تنقید میں  دیدار غالب ، فیضان ِ غالب ، اردو کی مزاحیہ شاعری ، مولانا آزاد ، راجہ رام موہن رائے  ، امیر خسرو ، ہست و بود ، ہم ایک ہیں  ،پوسٹ مارٹم۔ تر اجم میں  قاضی نذرالاسلام ، بنگرواڑی ، ایک ہمارا جیونا ، ادھ چنی رات، ہند قدیم کی تمدنی تاریخ کے  علاوہ کچھ ہندی تراجم بھی ہیں  ۔

 شعری مجموعوں  میں  ان کی رباعیاں  ہونے  کے  ساتھ نغمۂ سرمد کے  نام سے  بھی سرمد کی رباعیوں  کا روپ اردو میں  پیش کیا ہے  ۔اپنی شاعری میں  انہوں  نے  خصوصی طور پر رباعی میں  فنی معلومات اور فارسی تراکیب کے  استعمال سے  اپنی استادانہ مہارت و فن کاری کا ثبوت دیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  اس وقت کے  تمام مضامین کی جانب اشارہ ملتا ہے  جن میں  ساقی ، میخانہ ، حسن و شباب، فلسفہ فنا ، بے  ثباتی دنیا اور تصور موت فلسفیانہ اسلوب میں  نظر آتا ہے ۔ایک رباعی ملا حظہ ہو:
بادہ ہے  کہ ہے  نسخہ تسخیر قلوب
بوتل ہے  بغل میں  کہ ہے  وصل محبوب
یو ں  ملتے  ہیں  لب جام مئے  احمرسے
خورشید و شفق جیسے  بہ ہنگام غروب

بخشی اختر امرتسری کا نام شوری لال اور تخلص اختر ؔاستعما ل کر تے  تھے  ۔ والد کا نام کر پا رام جھبر تھا ۔ان کی پیدائش۱۹۰۹ء کوہوئی ۔ بخشی اختر ابتدائی تعلیم کے  بعدثا نوی و اعلی تعلیم میں  ادیب ، فاضل، منشی فاضل اور بی اے  کے  امتحانات پنجاب یونی ورسٹی سے  دیے  ۔ ان کا شعری ذوق اس وقت پروان چڑھا جب وہ آٹھویں  درجہ میں  تھے  ۔شعر ی ذوق جب پروان چڑھا تو انہوں  نے  دہلی کے  مشہور استاد جناب منشی پیارے  لال رونق کی شاگردی اختیار کی ۔فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا تو انہوں  نے  فارسی شاعری کے  لیے  جناب ایمن سے  اصلاح لی ۔ایمن کشمیر ی بر ہمن تھے  اور فارسی پر استادی کی حد تک کمال رکھتے  تھے  ۔اپنی شعری خدمات کی وجہ سے  انہیں  ’’ شاعر خوش کلام ‘‘ ،’’ شہر یار سخن ‘‘ اور ’’ نباض سخن ‘‘ کے  خطابات نوازے  گئے  ۔ ’’رباعیات اختر ‘‘ ان کی رباعیوں  کا مجموعہ ہے  ۔ اس مجموعہ کو ان کے  ہونہار شاگر داور دہلی یونی ورسٹی کے  شعبۂ اردو کے  اولین فارغین سے  تعلق رکھنے  والے  جناب کندن لال کندن نے  مر تب کیا جس کی اشاعت دسمبر ۱۹۸۹ء میں  عمل میں  آئی ۔ اس مجموعے  میں  ۳۲۴؍ رباعیاں  شامل ہیں  ۔ان کی رباعیوں  میں  تصوف کے  مماثل موضوعات کے  ساتھ پند و نصائح ، ، فلسفہ ، اخلاقی زوال، شراب اور عشق وغیرہ ہیں  ۔
اے  حسن سراپا مجھے  جلو ہ تو دکھا
ہاں  رخ پر نور مجلیٰ تو دکھا
سن لی ہے  بہت یہ لن ترانی تیری
پردہ تو اٹھا روئے  مصفا تو دکھا
باوا کر شن گوپال مغموم بھی ان شعرا ء میں  سے  ہیں  جن کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن لکھنے  پڑھنے  کی زبان زمانے  کے  دستور کی وجہ سے  اردو تھی ساتھ ہی انہوں  نے  اپنے  گھر میں  تمام کتب مقدسہ کو اردو میں  ہی پایا اس وجہ سے  ان کی تعلیمی زبان بھی اردو ہی رہی ۔ ۱۸دسمبر ۱۹۱۶ ء کو ان کی پیدا ئش موضع دومیل ضلع اٹک میں  ہوئی ۔ والد کا نام پنڈت لویندر چند تھا جو انگریزی کے  علاوہ اردو اور فارسی کے  بھی عالم تھے  ۔ انہوں  نے  اپنی پوری تعلیم لاہور اور راولپنڈی میں  حاصل کی ۔اس درمیان جگن ناتھ آزاد ان کے  ہم درس رہے ۔ اس کے  بعد سرکاری نوکری میں  لگ گئے  لیکن جہاں  تک شاعری کی بات تھی تو بچپن سے  ہی اس جانب ان کی طبیعت مائل تھی ۔لہذا محرو م و منور کی شاگرد ی اختیار کی ۔ ساتھ ہی انہو ں نے  لکشمی چند نسیم ، رشی پٹیالوی، منو ہرسہائے  انور اور ابر احسنی گنوری سے  بھی شاگردی حاصل کی ۔بیداری وطن ، نقوش حُسن ، رباعیات ِ مغموم، بزم ماتم، آرزوؤں  کے  خواب ، آرزوؤں  کے  جزیرے ، نقوش جمال، جہاں  نما، اور جادۂ شوق ان کے  شعری مجموعے  ہیں  اور ایک تحقیقی مقالہ ’’ درگاسہائے  سرور جہان آبادی حیات و شاعری‘‘ ہے  ۔رباعیات مغموم میں  ان کی ۲۹۵ ؍ رباعیاں  ہیں  اور جہاں  نما میں  ایک ہزرا رباعیاں  ۔ موصوف کے  شعری مجموعوں  پر نظرڈالنے  کے  بعد اندازہ ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  تمام اصناف سخن پر قلم اٹھا یا ہے  ۔ساتھ ہی انہوں نے  رباعیوں  میں  خصوصی توجہ دے  کراردو رباعی کی دنیا کو مالا مال کیا ۔ویسے  تو ان کی رباعیوں  کے  موضوعات دردو غم ، حسن و عشق ، محبت و مودت ، خمر و مینا ، فطرت و ثقافت وغیرہ ہیں  لیکن جمال کا گہرا شعور رکھتے  ہیں  اور نسوانی حسن کی عکاسی کی جانب فطری طور پر کھنچے  چلے  جاتے  ہیں  ۔ انہوں  نے  رباعیوں  کو فلسفہ سے  دور رواں  دواں  زندگی کو پیش کیا ہے  اور سادہ و سلیس اسلوب بیان اپنا یا ہے  ۔
میخانہ لٹاتی ہوئی آنکھیں  توبہ !
مدہوش بناتی ہوئی آنکھیں  توبہ !
یہ کیف وسرور اور تبسم پاشی
جادو سا جگاتی ہوئی آنکھیں  توبہ!

جگن نا تھ آزاد کا شمار اردو دنیا میں  ایک شاعراور ماہر اقبالیات کے  طور پر ہوتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۹۱۸ ء میں  پنجاب کے  ایک شہر عیسیٰ خیل میں  ہوئی اور وفات ۲۴؍ جولائی ۲۰۰۴ ء کو نئی دہلی میں  ۔تقسیم ہند سے  قبل ان کی زندگی کا بیشتر حصہ راولپنڈی میں  گزرا ۔آزادی کے  بعد دہلی آئے  جہاں  ان کی ادبی زندگی پروان چڑھی۔ انہوں  نے  قلمی زندگی کی شروعا ت شاعری سے  کی اور تین شعری مجموعے  ’’بے  کراں  ‘‘ ،’’ ستاروں  سے  ذروں  تک ‘‘ ،’’ وطن میں  اجنبی ‘‘ اور ’’ نوائے  پریشان‘‘ منظر عام پر آئے  ۔ ان تمام مجموعہ ہائے  کلام میں  کل ۵۶ رباعیاں  موجود ہیں  ۔زیادہ تر نظمیں  اور غزلیں  ہیں  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کے  موضوعات میں  تنوع اور ندرت پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے  جن میں  حسن و عشق کی کیفیات ، وطن سے  دور ی کا دکھ درد ، تقسیم کے  عکس کے  ساتھ شباب کی رنگینیاں  اور تصوف کے  مزاج کی حامل رباعیاں  بھی ہیں  ۔ ایک رباعی بطور مثال ملاحظہ ہو:
طوفاں  سا روح میں  اٹھاتی ہوئی آئیں
احساس میں  نشتر سے  چلاتی ہوئی آئیں
بچھڑے  ہوئے  احباب کی پیاری یادیں
پھر آج مرا درد بڑھاتی ہوئی آئیں
               
راجندر بہادر موج ضلع فرخ آباد اتر پر دیش کے  رہنے  والے  تھے  ۔ ان کی پیدا ئش ۳ جولائی ۱۹۲۲ ء کو ہوئی ، والد کا نام منشی کنور سکسینہ تھا ۔ والد نے  ان کو عصری تعلیم سے  نوازا ۔کانپور اور آگرہ سے  تعلیم حاصل کر کے  وکالت کے  پیشہ سے  وابستہ ہوگئے  ۔شعر و شاعر ی کا شغف بچپن سے  ہی تھا ۔ ان کے  چھ شعری مجموعے  منظر عام پرآئے ،جن میں  ’’ موج ساحل‘‘ ،’’ موج در موج‘‘ ،’’ ساگر‘‘،’’ موجیں ‘‘ ،’’ لہریں  ‘‘ اور ’’ طوفان ‘‘ ہیں ۔ ان شعری مجموعوں  کے  نام سے  ہی محسوس ہوجاتا ہے  کہ انہوں  نے  فطر ت نگاری میں  خاص توجہ دی ہے  ۔ ان کے  شعر و ں  کے  مطالعہ سے  اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  شروع دور کے  کلام سے  اپنی شاعری میں  پختہ پن کو پیش کر نے  کی کوشش کی ہے  ۔’’ ساگر ‘‘ ان کی رباعیوں اور قطعات کا مجموعہ ہے  جس میں  ۱۹۰ رباعیاں  ہیں  ۔ لہریں  میں  ۱۱ رباعیاں  اور موجیں  میں  ۱۰۵ رباعیاں  ہیں  ۔ انہوں  نے  اپنی رباعیوں میں  واردات قلبی اور رموز ہستی کو خصوصی طور پر پیش کیا ہے  جن میں  رومان اور اخلاق بھی پایا جاتا ہے  ۔انہوں نے  اپنی رباعیوں  میں  آخری مصر ع سے  متاثر کن کیفیت پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے  ۔ مثال :
خاکی تو ہوں  لیکن آتش فشاں  ہوں  میں
قطرہ ہی سہی مرکز طوفاں  ہوں  میں
ہے  دیدنی ہے  موج مرا ظرف بلند
قوت ہے  فرشتوں  کی اور انساں  ہوں  میں

                گیان چند جین کا شمار اردو کے  اہم ادیبوں  میں  ہوتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۹؍ ستمبر ۱۹۲۳ ء کو سیوہارہ میں  ہوئی اور وفات ۹۱؍ اگست ۲۰۰۷ کو کیلیفورنیا ، امریکہ میں  ۸۳ سال کی عمر میں  ہوئی ۔وہ اردو کے  ناقد و محقق شاعر اور استا د بھی تھے  ۔ نویں  جماعت سے  ہی شاعر ی کی جانب متوجہ ہوگئے  تھے  ۔ شروع میں  انہوں  نے  نظموں  کی جانب توجہ کی پھر شاید جوش ؔ کی’’ جنون وحکمت ‘‘نے  رباعی گوئی کی جانب ان کو مائل کیا ۔وہ اقبال کی شاعری سے  متاثر تھے  اور بانگ درا کی تقلید کر تے  تھے  لیکن ابتدا میں  انہوں  نے  عشق و رومان کے  مضامین کو بر تا ۔ ’’کچے  بول‘‘ ان کا شعر ی مجموعہ ہے  ۔ اس مجموعہ میں  ان کی ۷۸ ؍ رباعیاں  درج ہیں  ۔انہوں  نے  جہاں  تک شاعر ی میں  جوش اور اقبال کی تقلید ایک حد تک کی ہے ، اس کا اثر ان کی رباعیوں  میں  بھی نظر آتا ہے  جن میں  بانگ درا کی طرح مناظر فطر ت کی عکاسی اور حسن و عشق کی دلربائی پائی جاتی ہے  ۔انہوں  نے  اخلاقی و اصلاحی رباعیاں  بھی کہی ہیں  ۔ ان کی رباعیوں  میں  ان کی فنکارانہ صلاحیت بھر پور نظر آتی ہے  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کو پر اثر بنانے  کی پر زور کو شش کی ہے  :
 اب بھی ترے  نام کی کشش باقی ہے
کچھ کچھ وہی پہلی سی روش باقی ہے
گو عشق سے  ہاتھ دھو چکا ہے  کب کا
پھر بھی دل مردہ میں  خلش باقی ہے

شعلہ خاموش، شورش پنہاں  ، شاخ گل ، اجالے ، شعور ِ غم ، شعاع جاوید ، شب نشین ، احترام ، غزل گلاب اور نظم سمندر جیسے  دس شعری مجموعوں  کے  خالق کالی داس گپتا رضا ہیں  جن کی پیدائش ۲۵ ؍ اگست ۱۹۲۵ء کو ضلع جالندھر میں  ہوئی اور وفات ۲۰۰۱ ء میں  ۔ان کی شناخت اردو دنیا میں  بیک وقت قابل ادیب انشا پرداز، عظیم محقق اور قابل قدر ناقدکے  طور پر ہوتی ہے  ۔رضا کی شاعری کا کینوس کافی وسیع نظر آتا ہے  ۔نت نئے  موضوعات اور خیالات کو وہ اپنی فن کا رانہ مہارت و تجربہ سے  بہت ہی خوش اسلوبی سے  پیش کر تے  ہیں ۔ انہوں  نے  غزلوں  اور نظموں  کے  ساتھ خاصی تعداد میں  رباعیاں  بھی کہی ہیں  ۔’’شعاع جاوید‘‘ ان کی رباعیوں  کا مجموعہ ہے  جس میں  ۱۶۳؍ رباعیاں  ہیں  ۔ اس کے  علاوہ ’’شاخ گل ‘‘میں  ۲۶؍ اور’’ شعلہ خاموش ‘‘ میں  ۳۹ رباعیاں  ہیں  ۔ انہوں نے  اپنی رباعیوں  میں  حیا ت انسانی کے  گوناگوں  مسائل، اخلاقیات ، مناظر فطرت اور حسن وعشق جیسے  معاملات کو پیش کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  کے  متعلق پرو فیسر گوپی چند نارنگ لکھتے  ہیں  ’’ رضا کی رباعیوں  کو پڑھ کر یوں  خوشی ہوئی کہ ان میں  خیال کی تتلی کو پکڑنے ، اس کے  رنگوں  کو گرفت میں  لینے  اور ان سے  اظہار کا ہیولیٰ تیار کر نے  کا جوہر ملتا ہے  ‘‘ ۔( شعاعِ جاوید ص: ۱۲) شعری دنیا کے  علاوہ ان کا کارنامہ بطور محقق اردو دنیا کے  دامن میں  ہمیشہ کے  لیے  رقم رہے  گا ۔ انہوں  نے  خود کو بطور ماہر غالبیات متعارف کروایا ہے  ۔ الغر ض انہوں  نے  اردو دنیا کو ہر طرح سے  نوازا ہے  ۔ ایک رباعی بطور مثال پیش ہے ۔
احساس شرر رنگ ، نظر شعلہ بجاں
باندھا ہے  عجب ضبط محبت نے  سماں
اے  راز دروں  !اور دروں  ،اور دروں
اے  درد نہاں  ! اور نہاں  ، اور نہاں

امیر چند بہار کی پیدائش ۱۹۲۵؁میں  گاؤں  روکھڑی ضلع میانوالی مغربی پنجاب میں  ہوئی ۔تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے  حاصل کی ۔وہیں  سے  انہوں  نے  انگریزی میں  ایم اے  کی تعلیم مکمل کی۔ تقسیم ملک کے  بعد وہ ہریانہ میں  انگر یزی کے  استاد کے  طورپر در س و تدریس سے  منسلک ہوگئے  ۔بہارؔ اور فراق ؔ اس امر میں  یکساں  ہیں  کہ دونوں  انگر یزی کے  استاد تھے  اور دونوں  کو اردو سے  حد درجہ محبت تھی جس کی وکالت دو نوں  عمر کے  آخری پڑاؤ تک اردو کے  لیے  کرتے  رہے  ۔ امیر چند بہار کے  بارہ شعری مجموعے  شائع ہوئے  ہیں  جن میں  سب سے  پہلا شعری مجموعہ ’’نسیم مغرب ‘‘ ہے  ۔اس میں  انگریزی کی مشہور تر ین ۳۶ نظموں  اور سروجنی نائیڈوکی ایک انگر یز ی نظم کا شعر ی تر جمہ ہے  جسے  انجمن تر قی اردو نے  شائع کیا تھا ۔ اس کے  بعد رباعی کی جانب رجوع کر تے  ہیں  اور ۱۹۷۱؁میں  تین سو پچاس رباعیوں  پر مشتمل مجموعہ ’’ نسیم بہار‘‘ کے  نا م سے  شائع ہوا۔ ’’ نسیم بہار‘‘ کے  بعد دوسرا رباعی کا مجموعہ ’’دین و دنیا ‘‘ کے  نام سے  ۱۹۸۳؁ میں  حیدرآباد سے  شائع ہوا ۔ اس میں  بھی تقریباً تین سو رباعیاں  شامل ہیں  ۔اس کے  بعد ’’ انسان بنو‘‘ کے  نام سے  مجموعہ شائع ہوا ۔ بہارؔ مختلف فکر ی جہات کے  حامل شخص ہونے  کی وجہ سے  اس مجموعہ کی ۴۱۰ رباعیوں  کو مختلف عنوانات میں  تقسیم کرتے  ہیں  جو کچھ اس طر ح ہیں  ۔ دو ر حاضر، محسوسات ، مشاہدات ، انسان بنو، پندو موعظت، معرفت ، فن اور فن کار ، فکر ونظر ، نقوش یاس ، عزم وعمل ، صنعتی شہر ، زبان و فن شاعری، اردو آئینہ  ( دکھی جنتا) رسوم قبیحہ (سماجی بدعتیں  /اخلاقی بدعنوانیاں  ) وغیرہ ۔ اس میں  (دکھی جنتا) کے  عنوان کے  تحت رکشا والا ، موچی، درزی ، حجام ، دھوبی، ماہی گیر ، کسان، مزدور ، کنجڑا ، اخبار فروش جیسے  پیشے  اختیار کرنے  والوں  کی محنت کش اور فاقہ کش زندگیوں  کی عکاسی وہ اپنی رباعی کے  ذریعہ پیش کر تے  ہیں  ۔بہارؔ کے  رباعیات کا چوتھا مجموعہ ’’اردو ہے  جس کا نام ‘‘ ہے  جو تقریباً ایک سو پچاس رباعیات پر مشتمل ہے  ۔ اس میں  ساری رباعیاں  تقریباً ایک ہی لڑی میں  پروئی ہوئی نظر آتی ہیں  اور وہ لڑی اردو ہے  ۔اب تک وہ مختلف موضوعات کو اپناتے  آرہے  تھے  لیکن اس مجموعہ میں  انہوں  نے  ایک ہی مو ضوع(اردو ) کو پیش کیا جس کو وہ دس ذیلی عناوین ابتدائیہ ، قومی ورثہ ، اردو اور جنگ آزادی، اردو کا سیکولر مزاج، ماضی حال مستقبل، اردو زبان کی چاشنی ، اردو زبان کی اہمیت وآفاقیت ، عنادو مخاصمت بیجا، زبان و مذہب ، صائب مشورہ اور اردو ادب ہیں :
یہ بغض ، یہ بیر ، یہ خصومت کیسی
اک شیریں  زبان سے  عدوات کیسی
غالب سے  اگر پیار ہے  اتنا تو بتائیں
اردو سے  پھر اس درجہ کدورت کیسی

کندن لال کندن کا نام جدید اردو رباعی گو شعرا میں  بہت ہی اہمیت سے  لیا جاتا ہے ۔ وہ صرف اس وجہ سے  کہ رباعی گوئی کے  ساتھ ہی انہوں  نے  سحر عشق آبادی کے  رباعی کے  بارہ نئے  اوزان ڈاکٹر اوم پرکاش زار علامی کے  اٹھارہ نئے  اوزان کو اپنی رباعیوں  میں  برتا ہے ۔ یہ اوزان رباعی کے  بحرہزج کے  اخرب اور اخرم کے  چوبیس اوزان کے  سوا ہیں  ۔اس طریقے  سے  انہوں نے  رباعی کے  فن میں  ایک خوبصورت اضافہ کیا اگرچہ ان اوزان پر کندن لال کندن کے  سوا کسی اور نے  قلم نہیں  اٹھا یا ہے ۔ ان کی اس کتاب کا نام ’’ ارمغانِ رباعیاتِ کندن‘‘ ہے  ۔موصوف کی پیدائش ۱۹۳۶ء میں  تونسہ شریف کے  قریب کوٹ قیصرانی میں  ہوئی ۔ابتدائی تعلیم وہیں  حاصل کی پھر ہجر ت کے  بعد گوڑگاؤں  میں  چار سال تک کیمپ میں  زندگی گزاری اور اسکولی تعلیم مکمل کی ۔اس کے  بعد اعلیٰ تعلیم دہلی یونی ورسٹی سے  حاصل کی جہاں  انہوں  نے  خواجہ احمد فاروقی جیسے  کبار علم سے  علم حاصل کیا ۔ یہاں  انہوں  نے  تحقیق وتنقید کے  ساتھ شاعری کی اور عروض کے  فن پر ’’ ارمغان ِ عروض‘‘ ،’’ عروض و پنگل و خلیل ‘‘ اور ’’ معراج فن ‘‘ جیسی کتابیں  بھی تحریر کیں  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  مروجہ مضامین سے  الگ ہٹ کر سیاسی موضوعات ، مذہب ، اخلاق اور سماج پر طنز کیا ہے  ساتھ ہی اصلاحی رباعیاں  بھی ان کے  یہاں  نظر آتی ہیں  ۔
تو چندے  آفتاب چندے  ماہتاب
ہے  دنیا کے  حسن میں  تیرا نہ جواب
چشم باطن ہے  گر کوئی دیکھے
تو دیکھے  گا تیرا جلوہ بھی شتاب

کر شن کمار طور کی پیدائش ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۳۸ء کوہوئی ۔ایم اے  کے  بعدڈپارٹمنٹ آف ٹوراِزم سے  منسلک ہوگئے  اور دھرم شالہ میں  سکونت پذیر ہوئے  ۔شاعری کا شوق تھا ہی یہی وجہ ہے  کہ جدید شعرا میں  وہ اپنی منفرد شناخت رکھتے  ہیں ۔ ’’ شہر شگفت‘‘ ،’’ عالم عین‘‘،’نمونوید‘‘،’’ مشک منور ‘‘،’’رفتہ رمز‘‘،’’ سرمایہ رمز‘‘ ،’’غرفہ غیب‘‘ اور’’گل گفتار ‘‘ ان کے  شعر ی مجموعے  ہیں  ۔ جدید شعرا ء میں  اپنی منفرد آواز، اندازاور آہنگ کی وجہ سے  پہچانے  جانے   سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ان کے  اندر اظہار کی غیر معمولی شعری قوت موجود ہے  ۔انہوں نے  غزلوں  کی طرح رباعیوں  کو بھی جدید موضوعات سے  ہم آہنگ کیا ہے  جن میں فکر ووجدان ، فلسفۂ حیات و ممات اور زندگی کے  اسرار ورموز کی گرہ کشائی کی ہے  ۔ان کے  خیالات میں  تازگی اورتوانائی پائی جاتی ہے  اور انہوں  نے  نادر تشبیہات و استعارا ت کے  استعمال سے  بھی اپنی رباعیوں  کو خوب سنوارا ہے  ۔
مقتول بنوں  ثنائے  مقتل کرلوں
اک آگ کے  صحرا کو جنگل کرلوں
اے  عکس مہِ خواب ذرا آہستہ
میں  پہلے  دلِ آئینہ صیقل کرلوں

سوامی شیاما نند سرسوتی کی پیدا ئش ۲۶؍ نومبر ۱۹۲۰ء کو پیشا ور میں  ہوئی ۔تقسیم ہند کے  بعد دہلی میں  آبسے  اور یہاں  انہوں نے  اپنے  علمی و ادبی ذوق کو پروا ن چڑھا یا ۔ انہوں نے  ہندی اور اردو میں  شاعر ی کی ہے  ، ہندی رباعیاں  ہندی غزلیات کے  ساتھ اردو میں  بھی انہوں  نے  رباعیاں  لکھی ہیں ۔ اردو میں  صرف رباعی کا ایک مجموعہ ’’ رباعیات روشن ‘‘ کے  نام سے  ہے  پھر بعد میں  ایک مجموعہ ’’ حسن رباعیات‘‘ کے  نام سے  بھی منظرعام پر آیا ۔ ناگری رسم الخط میں  ان کی رباعیوں  کا ایک مجموعہ ’’ کلام میرا ‘‘ کے  نام سے  ۲۰۱۲ ء میں  منظر عام پر آیا ۔ یہ مجموعہ ان کی تجرباتی رباعیوں  پر مشتمل ہے ۔ ان رباعیوں  کو انہوں  نے  ’’ پریو گ دھرم رباعیاں  ‘‘ کہا ہے  ۔ رباعیوں  میں انہوں  نے  جو تجر بے  کیے  ہیں  وہ بہت ہی دلچسپ اور لطف انگیزی کے  ساتھ حیر ت انگیز و مشکل بھی ہیں  جن سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ فن پر دستر س کے  ساتھ قادر الکلامی پر بڑی قدرت رکھتے  تھے  ۔ایک تجر بہ یہ کیا ہے  کہ رباعی کے  چوتھے  مصرع میں  جو لفظ شروع میں  آئے  ہیں  وہی لفظ دوسرے  یا پہلے  مصرع کے  شروع میں  استعمال ہوا ہے  جیسے  :
کیسے  تجھ کو میں  کتنا بتلاؤں
اپنا من جیسے  تیسے  بہلاؤں
دکھلاؤں  میں  کیسے  من کی پیڑا
کیسے  تجھ کو اپنا من دکھلاؤں

دوسرا تجر بہ انہوں نے  ہائیکو رباعیات کے  عنوان سے  کیا ہے  ۔یہ رباعیاں  بیک وقت ہائیکو اور رباعیوں  کے  طور پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں  ۔ تیسرے  تجر بے  کو انہوں  نے  زنجیری رباعیات کا نام دیا ہے  ۔یہ رباعیاں  اس طر ح ایک لڑی میں  پروئی گئی ہیں  کہ پہلی رباعی کے  تیسرے  مصرعے  کو جو بے  قافیہ ہے  اگلی رباعی کا پہلا مصرع بنایا گیا ہے  اس تجربے  سے  اس سلسلے  کی ساری رباعیاں  باہم منسلک ہیں  ۔ان کی رباعی ’’ حسن رباعیات ‘ ‘ سے  ملاحظہ ہو :
ہر دل پہ یوں  اردو کا اثر کیا کہنا
اس طور تلفظ پہ نظر کیا کہنا
دنیا میں  زبانیں  ہیں  ہزاروں  لیکن
اردو کی لطافت کا مگر کیا کہنا

جدید نسل کے  شعرا میں  نظمیہ شاعری کی جانب رغبت کافی دکھائی دیتی ہے  اور غزل بھی ان کی پسندید ہ صنف سخن ہے  ایسے  میں  رباعی جہاں  مشق سخن کی آزمائش ہوتی ہے  اس جانب بھی جدید شاعروں  میں  کچھ کی رغبت نظرآتی ہے  لیکن حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے  کہ دور حاضر میں  کتنے  غیر مسلم شعرا ہیں  جنہوں  نے  رباعیاں  بھی لکھی ہیں  ۔

Monday 2 March 2020

ترجمہ سے ترجمانی تک

ترجمہ سے ترجمانی تک

’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.
فقلت ماسمک
فقال لو لو
فقلت لی لی
فقال لالا
جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔
اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق
منارتہ تزہو علی الفخر والزینِٖ
تقول وقد مالت علیّ ترفقوا
فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت
و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ
قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 
وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں
شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔
اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,
Humpty Dumpty had  a great  fall,
All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men
Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.
اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں
ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت
ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ
راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے
ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن
دہی چھٹاکن
آلو بیگن
کھٹا چورن
گھنگرو باجے
چھن چھن چھن چھن
گھنٹہ بولا
ٹن ٹن ٹن ٹن
ہنستے گاتے
چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔
’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

Tuesday 3 December 2019

غزل اور فن غزل

 غزل اور فن غزل


موجودہ وقت میں اردو کے کہنہ مشق استاد شعراء میںظہیر غازی پوری کا اہم نام ہے ۔ان کی شناخت جہاں ایک شاعر کے طور پر ہے وہیں غزل کے اہم ناقد کے طور پر اردو دنیا میں مقبول و معروف ہیں ۔ان کے قلم سے اکثر تحریریں شاعری کی فنی باریکیوںپر اس بے استادی کے دور میں پختہ و ناپختہ شاعر کو متوجہ اور متنبہ کر نے کے لیے معرض وجود میں آتی رہتی ہیں ۔گو کہ وہ اردو کے پروفیشنل نقاد نہیں ہیں لیکن ان سب کے درمیان ایک مستحکم نظر یہ پیش کرنے والے کی شناخت رکھتے ہیں ۔وہ اکثر اپنی تحریر کو بہت ہی چانچ پر کھ کے بعد قارئین کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔

مصنف کی زیر تبصرہ کتاب گیارہ عنوانات پر مشتمل ہے ۔سب سے پہلے’ جدید اردو غزل کا دوسرارخ ‘ میں جہاں وہ موجودہ غزل کی بہت ساری خوبیوں کو شمار کر واتے ہیں وہیں و ہ فنی طور  پر ناکام رہنے والوں پر بہت ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں ’’ در اصل جد ید غزل سے ان لوگوں کو زیادہ نقصان پہنچاہے جو شعری اور فنی تقاضوں سے پوری طر ح واقفیت نہیں رکھتے ‘‘،’’ آج ابہام کو ہنر سمجھا جانے لگا ہے۔ بات صر ف ابہام تک محدود ہوتی تو زیادہ خطر ہ نہ تھا لیکن اب تو قوافی ، اوزان ، تعقید ، اور اضافت کے معمولی معائب بھی جا بجا اشعار میں مل جا تے ہیں اور بے ساختہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (ص۱۹)۔

اس کے بعد’’ غزل ایک جانب دارصنف سخن ‘‘ میں غزل کے اوصاف وخصائص کو شمار کرواتے ہوئے اس کی بھر پور وکالت کرتے ہیں اور’’نیم وحشی صنف شاعر ی میں‘ ‘ کلیم الدین احمد کے اس قول کا منطقی و فلسفی جواب دیتے ہیں ۔اسی کڑی کو وہ آگے ’’ صنف غزل میں مسلسل یلغار ‘‘ میں بڑھاتے ہیں ۔اس میں وہ ستیہ پال آنند کے مضمون ’’ کہی گئی یا بنائی گئی شاعری‘‘ جو ماہنامہ صریر کراچی میں شائع ہوا تھا پر سیر حاصل گفتگو کر تے ہیں ۔اپنی اس گفتگو میں وہ افتخارامام صدیقی، عزیر پریہار، مخمور سعیدی، مصور سبزواری، پروفیسر محمد حسن ، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی ، رام لعل ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، برتپا ل سنگھ بیتاب ، جمیل فاطمی ،اندر موہن کیف وغیرہ کو ان کی تحریروں کے ساتھ شامل کر تے ہیں ۔اس پوری بحث میں جو بھی غزل میں یلغار کر تا ہے یا خواہش مند ہے اس کے لیے تسلی بخش جواب ہے ۔’’ نئی غزل میں تخلیقی لفظ و زبان ‘ ‘ پر بحث کر تے ہوئے مصنف نے لفظ و معنی اور موضوع پر بھی بحث کی ہے نیز موجودہ وقت کی شعری زبان کو ان عوامل کی باز گشت کہا ہے جو انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو کرید رہی ہے ۔عروضی و فنی معائب تحر یر کر تے ہوئے مصنف کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ جدید شاعروں میں اکثر یہ خامیاں کسی باریک بیں فن کار استاد شاعر سے تلمذ اختیار نہ کر نے اور مشورہ نہ لینے کی وجہ سے نظر آتی ہیں ۔ اس میں انہوں نے شعر کی جلی و خفی فنی کمیوں کو پیش کیا ہے جو اکثر عدم توجہی او رلا علمی میںشاعر سے سرزد ہوتی رہتی ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے جہاں کئی فنی خوبیوں اور کوتاہیوں کو بیان کیا ہے وہیں خصوصی طور پرایطا ء کا تفصیلی ذکر بھی ہے ۔ایطا ء جو شعر کی اصطلاح میں ایک غلطی کا نام ہے اس کی تفصیلی تعریف استاد شعر اء کی تحر یروں سے نقل کر تے ہیں پھر مصنف اس کی تمام فنی باریکیوں پر سیر حاصل بحث کر تے ہیں اور تمام بڑے شعراء کے کلام میں ایطائے جلی و خفی کو پاتے ہیں ۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایطا ء کو ئی بڑا عیب نہیں ہے ۔اس کے بعدردیف و قوافی کے مسائل بھی تحر یر کر تے ہیں ۔

اخیر میں’’ غزل چہر ہ آئینہ در آئینہ ‘‘کے عنوان سے غزل کی تمام پرتوں کو مشہور ناقدین شعر کے حوالے سے اپنے خیالا ت و نظر یات کو مزین کر کے پیش کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب سے پہلے ان کی تین کتابیں تنقید کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں ۔ان میں سے خصوصاً ’’مطالعہ ٔ اقبال کے چند اہم پہلو‘اپنے موضوع میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ شاعر ی میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، رباعی کا بھی ایک مجموعہ ’’دعوت صد نشتر ‘‘1997 میں منظر عام پر آیا ۔

 الغر ض کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ کی طویل محنت ومشقت اور جانفشانی کے بعد اس کتاب کو مارکیٹ میں لایا گیا ہے جو یقینا شاعروں اور غزل شناس حضرات کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ہمیں امید ہے کہ ادب کے اس بے لوث خدمت گار کو مالک حقیقی سے بہترین اجر ملیگا۔

مصنف : ظہیرؔ غازی پوری 
صفحات :  160
قیمت:  200 روپے
سنہ اشاعت: 2015
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔6
مبصر: امیر حمزہ L-11/14 حاجی کالونی ،غفار منزل ، جامعہ نگر ،نئی دہلی ۔25

امعان نظر

امعان نظر

بدری محمد کا شمارہ موجودہ وقت میں بہار کے ادبی صحافت میں عمدہ نثر نگار کی حیثیت سے ہوتاہے ۔صحافتی مضامین کے علاوہ ان کے تنقیدی ، ادبی و نیم ادبی مضامین رسالوں کی زینت بنتے رہے ہیں نیز گاہے بگاہے ان کے تخلیقی ذہن نے موزوں مصر عے بھی وضع کیے ہیں جس کااچھا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ۲۰۱۱ء؁ میں ایک غزل کا مجموعہ ’’ بنت فنون کا رشتہ ‘‘ شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کر چکا ہے ۔
زیر تبصر ہ کتاب مصنف کی دو سری کتاب ہے جو اپنی نوعیت میں اہمیت کی حامل ہے وہ اس طو ر پر کہ اب تک بہت ہی مشہور و غیر مشہور حضر ات کے تبصر ے کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، تا ہم ان میں تبصروں کا انتخاب اس طور پر نہیں جو انتخاب اس کتاب میں عمل میں لایا گیاہے ۔اس میں مصنف نے نہ کسی مصنف کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کسی ناقد کی کتاب پر ، نہ شاعر کے شعری تخلیق پر اور نہ ہی افسانہ نویس کے افسانوی مجموعے پر ، نہ ہی کسی مزاح نگار کے خاکہ و انشائیہ اور طنز و مزاح کے مضامین پر اور نہ ہی کسی ڈارمہ نگار کے ڈراموں پر، نہ ہی سوانح نگار کے حقیت بیانی پر اور نہ ہی کسی سیاح کے سفر نامہ پر بلکہ یہ تمام تبصر ے ملک کے مشہور و معرو ف مجلات کے خصوصی شماروں پر ہیں جس میں ملک کے اعلی وادنی قلم کاروں کی تحریریں شامل ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے ملک کے ۱۱؍اہم مجلات کے ۲۴؍ خصوصی شماروں پر کیے گئے ان تبصر وں کو شامل کیا ہے جو قومی تنظیم ، پندار، راشٹریہ سہارا، سنگم اور فاروقی تنظیم میں شائع ہوچکے ہیں ۔ یہ تمام تبصر ے نہ تو مختصر ہیں اور نہ ہی طویل بلکہ متوازن ہیں ۔

تبصر ہ در اصل تنقید کی ہی ایک شاخ ہے جس میں تبصرہ نگار محض اس کتاب کو موضوع بناتا ہے جس پر وہ تبصر ہ کر رہا ہے نیز اس کے مشتملات پر روشنی ڈالتا ہے اور  قارئین کے سامنے خوش اسلو بی سے پیش کر نے کی کوشش کر تاہے تاکہ قارئین کی توجہ اس کتاب کی جانب متوجہ ہو ۔ ایسے تبصر ے اکثر رسائل و جرائد میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔کچھ تبصرے ایسے ہوتے ہیں جو تقابلی ہوتے ہیں ۔ وہ اس طور پر کہ جس کتاب پر وہ تبصر ہ کر رہے ہیں اس موضوع سے متعلق دو سری کتابوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہے اور وہ اس چیز کو واضح کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ موجودہ کتاب ماقبل کی شائع شدہ کتابوں سے کس قدر مختلف ہے ، اس نئی کتاب میں کن کن نئی چیزوں کو شامل کیا گیاہے یا تخلیق میں کن کن نئی نظریات و مسائل کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تا ہم اس کتاب میں پہلے طر یقے کوہی اپنا یا گیا ہے ۔

اس کتاب میں زبان ادب ، ماہنامہ انشاء ، نیادور ، کتاب نما اور آج کل کے کئی نمبر وں کا تبصر ہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ مصنف نے کئی دیگر ماہنا موں و سہ ماہی مجلات کے مضامین کو بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد ان تمام مضامین کے اہم نکات کوتبصر ہ میں شامل کر کے اس مضمون کی وسعت و محدودیت پر گفتگو کی ہے ۔ان تمام میں وہ صرف توصیفی پہلو کو ہی سامنے نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان میں غیر پختگی اور ڈھیلے پن کی جانب بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں ۔جیسے حفیظ بنارسی نمبر پر لکھتے ہیں ’’ حفیظ بنارسی کو رسالے اور مشاعرے کا مقبول شاعر بتاتے ہوئے ان کے تر نم کی بار بار تعریف کی گئی ہے جب کہ تر نم شاعری کے لیے ضروری چیز نہیں ہے ۔اس سے شاعر سامع یا مشاعر ہ کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے شاعری کو نہیں ‘‘ ۔

اس میں شامل ایک اہم تبصر ہ ماہنامہ ’’ انشاء‘‘ کے گفتنی نمبر پر بھی ہے ۔ انشاء کا یہ نمبر ف س اعجاز کے اداریوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں انہوں نے ان کے اداریوں کی ستائش کی ہے ، وہیں اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ان سے بھی اچھے اداریے لکھنے والے موجود ہیں اور رہے ہیں ۔ وہیں دو سری جانب یہ بھی لکھا ہے کہ دوسرے صحافیوں کے لیے اس میں تر غیب ہے کہ اداریے معیاری ہونے چاہیے ۔ کئی تبصرے ایسے ہیں کہ مصنف نے کہیں کچھ چھپانے کے لیے رکھا ہی نہیں بلکہ اپنی شستہ انداز تحریر اور دلکش اسلوب بیان میں تمام نکات و کمیاں کو گنا تے چلے گئے ہیں ، اور یہ بھی نہیں کہ صر ف بڑے پائے کے قلم کار کو ہی زیا دہ پیش کر نے کی کو شش کی ہے بلکہ ریسر چ اسکالر کی تحریروں پر بھی اپنی رائے سے نوازا ہے ۔

اس کتاب میں انہوںنے جن معیاری مجلات کو تبصرے کے لیے انتخاب کیا ہے وہ ان کی تنقیدی ذوق کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ پھر تمام تبصر و ں میں اپنی ایک محکم رائے سے نوازنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مصنف موجودہ دور کے تخلیقی و تنقیدی تحر یروں سے کس قد ر واقف ہیں ۔الغر ض یہ کتاب تبصر ے کے حوالہ سے اہم کتاب ہے جو معلوماتی بھی ہے اور تبصرہ نگار ی میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ بھی ۔ امید ہے کہ مصنف کی اس کتاب سے لوگ استفادہ کریں گے اور علمی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی ۔

مصنف بدری محمد
صفحات ۱۵۲
قیمت ۲۵۱
سن اشاعت ۲۰۱۵
ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی 
مبصر امیر حمزہ ،ریسرچ اسکالر : شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ،دہلی 

شعرو نثر کی جمالیات

شعرو نثر کی جمالیات 


 کتاب کے اس نام سے آپ روشناس ہوئے تو فوراً آپ کے ذہن میں یہ بات گردش کرنی لگی ہوگی کہ یہ کتاب بھی ان ہی عناوین ، موضوعات اور نظر یات کا احاطہ کر رہی ہوگی۔ جو جمالیات کے عنوان پرلکھی گئیں پروفیسرشکیل الرحمان ، پروفیسر عتیق اللہ ، پروفیسر قاضی عبدالستار ، اصغر علی انجینئراور حقانی القاسمی وغیرہ کی کتابیں ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں آپ کو ۳۲ ؍ شعرا و نثر نگاروں کی تخلیقات پر محض تاثر اتی اور محاسن کومرکوز نظر رکھ کر لکھے گئے تجزیاتی وتاثراتی مضامین ملتے ہیں ۔جن میں سے چند مضامین کی نوعیت کے بارے میں بھی آپ کو متعارف کر اتا چلوں ، اس کتاب کا پہلا مضمون غالب کی یکجہتی کے تصورات پر ہے جس میں انہوں نے قاری کے اذہان میں ان کی شاعری اور زندگی کے حوالے سے یہ سامنے لانے کی عمدہ کوشش کی ہے کہ غالب نے خود کو تمام رسوم وقیود سے آزاد رکھ کر انسانی فطرت کی زندگی کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے اور اسے جیا بھی ہے ۔ساتھ ہی مصنف نے ایک بہت ہی دلچسپ بات لکھی ہے جس پر شاید ہر قاری ضرور کچھ نہ کچھ سوچ کر اپنی رائے قائم کر ے گا۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اپنی تمام تر عظمت و بر گزیدگی کے باوجود بہ ہر حال یک رنگ شاعر ہیں ۔… جبکہ غالب کے ہاں ہمیں عشق بھی ملتا ہے ، در د کوشی بھی اور اپنی حالت زار نشاط نچوڑ لینے کا حوصلہ بھی ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں ، جو غالب کو ایک آفاقی شاعر بنادیتی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد دومضامین میر و غالب کے ہمعصر’ شمس گلاؤٹھوی ‘اور شاگرد دا غ ’سردار بہادر فریاد‘ کی شاعری پر ہے ۔ یہ دونوں اردو کے اہم ادوار میں اپنی شاعری کرتے ہیں لیکن بعد کے عام قارئین و طلبا کے لیے نہ ہی ان کا نام سامنے آتا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری ،جس کو مصنف نے محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اب شعری محاسن کے بعد پر یم چند کی نثر کی جانب آتے ہیں جہاں وہ ان کے فکشن کے محاسن کے بعد ’ پوس کی رات ‘ پر گفتگو کر تے ہیں ۔ کتاب کا یہاں تک سفر کر نے کے بعد واپس ابتدائیہ کی جانب لوٹتے ہیں جہاں ’’ سخنے چند ‘‘ کے عنوان کے تحت شاہ اجمل فاروق ندوی مصنف کے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ کو ان کے ہاں ہر دور کے فن کار وں پر تنقیدی مضامین ملیں گے ۔ غالب و مصحفی سے لے کر معاصر فن کا روں تک ، انہوں نے ہر اس فن کا ر کے فن پر گفتگو کی ہے ، جس کو کسی بھی ناحیے سے انہوں نے لائق اعتنا سمجھا ۔ ان کی تنقید کا ایسا نمایاں وصف ہے جو ہماری آج کی تنقید میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ‘‘ اس کو نقل کر نے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس میں تین دعوے کیے گئے ہیں ، پہلے تو ’’ ہر دور ‘‘ کا ذکر کیا پھر اس کوغالب و مصحفی سے ہمعصر تک میں خاص کردیا گیا ۔ دوسر ا جس نے بھی کچھ خاص لکھا تنقید کی، اسی کا اضافی جزو ہے کہ ایسا آج کے دور میں عموما ً نہیں کرتے ہیں ۔یقینا یہ تینوں باتیں ان کی اس کتاب میں مکمل طور پر صادق آتی ہیں ،کیونکہ ناقدین عموماً جگر پر لکھتے ہیں لیکن مانی جائسی اور مولانا محمد احمدپرتاب گڑھی کی شاعری پر کون لکھتا ہے ؟ مودودی کی نثر اور فیض کی شاعری پر مضامین آپ کی نظر سے ضرور گزریں گے، لیکن شرافت حسین رحیم آبادی کا ادب اطفال ، متین طارق کی اصلاحی شاعری اور حفیظ میرٹھی کا انقلابی رنگ کاغذوں میں کہاں جھلکتا ہے ۔اقبال کے رنگ میں شاعری کرنے والوں کی فہرست بہت ہی لمبی ہے لیکن مقالات میں پانچ سے دس پر ہی بس کردیا جاتا ہے تو ایسے میں اقبال کے پیرو کار عمر فاروق عاصم عثمانی کیسے سامنے آسکتے ہیں، جن پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے ۔بہت ہی کم ایسے جدید اورموجودہ شاعر ہیں جن کی شاعری پر کچھ لکھا جاتا ہو سوائے ان کے شعری مجموعوں پر تبصرے کے ۔تو یہ طلسم بھی ان کے یہاں ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ ان کے یہاںشجاع خاور، پروفیسر وسیم بریلوی اور ڈاکٹر نواز دیوبندی ہیں تو ساتھ ہی تو بہت ہی زیادہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مہدی پر تاب گڑھی او ر وقار مانوی بھی ہیں ۔انہوں نے جہاں اسلام فیصل کے دوہوں پر لکھا ہے وہیں طرب ضیائی کی رباعیوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ الغر ض جو دعوے ’’سخنے چند‘‘ کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے اس پر عمل بھی نظر آتا ہے ۔عموماً زبانی طور پر ہر ادیب دعویٰ کر تا ہے کہ ہم گروہ بندی کے قائل نہیں ہیں ایسا ہی دعویٰ کچھ ان کی طرف سے بھی کیا گیا ہے اس لیے شاید انہوں نے شاید شاعروں کی شہر ت و اہمیت کا خیال کیے بغیر ان کی اہمیت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ادب کے قاری اور ہم طلبا کے لیے ایک قابل غور دعویٰ یہ ہے کہ ’’ تابش مہدی اہل فن کے محاسن کو ابھارنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ موجودہ دور میں جب کہ کیڑے نکالنے ، ٹانگ گھسیٹنے اور خورد بین سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کمیاں نکالنے کا نام تنقید پڑگیا ہے ، ایسے ماحول میں ڈاکٹر تابش مہدی کا تحسین آمیز یہ تنقیدی رویہ مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ۔ ‘‘ یہ بھی اس کتاب میں بجاہے کیونکہ کسی بھی معاصر کے فن کی کمیوں پر ایک حر ف بھی نہیں سوائے پہلے مضمون کے جس میں غالب کو آفاقی اور میر تقی میر کو یک رنگی شاعر کہا گیا ہے ۔

مصنف تابش مہدی 
صفحات ۲۸۸ 
قیمت ۳۰۰ روپے
سنۂ اشاعت ۲۰۱۹ء
ناشر ادبیات عالیہ اکادمی ،G5/A ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی 
 تبصر ہ نگار امیر حمزہ 
L11/14 حاجی کالونی ، جامعہ نگر اوکھلا 

Thursday 28 November 2019

شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


تر ویج باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی رواج دینے کے ہوتے ہیں اور تر سیل بھی اسی باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی پہنچانے کے ہوتے ہیں ۔ معانی مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اطلاق الگ الگ ہوتا ہے ، البتہ اکثر مقامات پر تر سیل تر ویج کے بعدردعمل کے طور پر نظر آتا ہے۔ ترویج جہاں اپنے معانی میں بسیط ہے وہیں تر سیل اپنے معنی میں یک گونہ محیط نظر آتا ہے ۔کسی چیز کو رواج دینا حکومت ، جماعت اور تنظیموں سے لیکر ایک فرد کی جانب سے بھی نظر آتا ہے ، اور اس کے دائرے میں نامعلوم افراد ہوتے ہیں ۔ رواج دینے والے جماعت کو اس چیز کا علم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے اس مشن سے کون کو ن لوگ جڑ رہے ہیں اور ہمارا یہ پیغام کہاں کہاں تک پہنچ رہا ہے ۔مثلا حکومت کا صرف یہ اسٹیٹمنٹ کہ اردو زبان اس ملک کی بالکل جدید تر ین زبان ہے اور رابطہ کی زبان کے طور پر اسے ہم خوب استعمال کر سکتے ہیں ۔حکومت کا یہ اسٹیٹمنٹ محض ترویج کے دائرہ میں آئے گا ۔اب وہ اس کی تر سیل کے طور پر اسکو لوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری اور کور س کے نفاذ کے لیے لائحہ عمل تیار کرے گا یہ تر سیل کے عمل کی جانب پہلا قدم ہوگا ، جب کلاس روم میں طلبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اردو زبان سیکھیں گے تو یہ ترسیل ہوگا ۔ترسیل کا تعلق مر سل سے مر سل الہیم تک ہوتا ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مر سل کلاس روم کا استاد ہی ہو۔ مر سل کے طور پر ہر وہ شخص یا ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو سیکھ رہا ہے ۔ اور تر ویج میں ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو کی جانب مائل ہورہا ہے ۔
عہد سر سید سے ہی اردو کچھ سیاسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے نشتر بن کر چبھنے لگا تھا اور وہ سلسلہ اب تک جاری ہے جس کا مرثیہ تقریبا ہم ہر محفل میں پڑھتے ہیں ۔لیکن اردو نے کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا البتہ کہیں ٹھہری ضرور ہے جیسے آزادی کے وقت اور ستر کی دہائی میں لیکن پھر بھی وہ اپنا قدم شوق والو ں کے ساتھ جاری رکھی اور اب تک جاری ہے ۔
موجودہ زمانے میں زبان کی ترویج و تر سیل کے بنیادی مراکزتعلیمی ادارے ، سر کاری دفاتر ، تجارتی مراکز، صحافت ، کارپورریٹ سیکٹر اور ان سب سے بالا تر سوشل میڈیا ہے ۔
زبان کے پھلنے اور پھولنے کی سب سے بڑ ی جگہ تعلیمی مراکز ہوتے ہیں شمالی ہندمیں اردو میڈیم کے تعلیمی مراکز ہزاروں کی تعداد میں ہیں جہاں سے موجودہ وقت میں لاکھوں اردو لکھنے اور پڑھنے والے تیار ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی تک پہنچ کر اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں جس سے اردو کا گمشدہ ماحول کچھ حد تک بحال ہوا ہے ۔ اس متعلق سب سے پہلے ہم دارالحکومت دہلی کا تجزیہ پیش کر تے ہیں ۔

دہلی

دہلی میں مسلم اکثریتی علاقہ صرف اور صر ف تین ہیں اور ان ہی علاقوں میں اردو میڈیم اسکولیں ہیں جن کی تعداد بہت ہی کم ہے البتہ ٹوٹل1024 اسکولوں میں سے صرف 256 اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ یہ وہ اسکول ہیں جو دلی ڈائرکٹوریٹ سے وابستہ ہیں ۔ لیکن اس کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میںایسے بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکو ل ہیں جہاں مستقل اردو کی تعلیم ضمنی طور پر دی جاتی ہے ۔اس طر یقہ سے ہزاورں بچے ہیں جو سندی طور پر اردو پڑھتے ہیں ۔

دہلی میں اردو کے اتنے کثیر مواقع ہیں کہ مختلف الصفات حامل اردوداں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اس پیش نظر وہاں اردو کی جانب رغبت دیگر علاقائی زبانوں سے زیادہ نظر آتی ہے ۔اس کا اثر خاص طور سے ہمیں jnu اور DU میں نظر آتا ہے ۔جامعہ میں اس وجہ سے نہیں کہ وہاں اردو لازم ہے ۔ 

صرف دہلی یونی ور سٹی میں تقریبا ایک ہزرا طلبہ شعبہ اردو سے منسلک ہیں ۔200 ریسر چ میں ،120 ماسٹر میں 60 پی جی ڈپلوما میں ، اور 600 سے زائد بچے ڈپلومہ میں ہیں ۔یہ تعدا د چار سار پہلے صر ف اور صر ف 400 تک تھی ۔ا ن کے علاوہ دہلی یو نی ورسٹی سے منسلک 80 کا لج میں اردو کی تعلیم کی کیا صورت حال ہے وہ بالکل اس سے الگ ہے ۔ڈپلو ما میں جو طلبہ آتے ہیں اس میں نوے فیصد غیر مسلم طلبہ ہوتے ہیں جو بہت ہی شوق سے اردو سیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔

اس ڈپلومہ سے بظاہر ان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک سر ٹیفکیٹ مل جاتاہے اور مہنگے مواصلاتی نظام میں ان کو بہت ہی زیادہ رخصت مل جاتی ہے جو اک اعتبار سے وہ اس کورس سے اچھا خاصہ پیسے کی بچت کر لیتے ہیں ۔دہلی میں جو بھی فردکالج سوسائٹی کو تر ک نہیں کر نا چاہتا ہے اس کے اند ر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ خود کو کسی نہ کسی کورس سے ہمیشہ وابستہ رکھتا ہے ۔ اس صورت میں جہاں تمام زبانوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہیں اردو سب سے مر غوب ہونے کی وجہ سے اپنے پر وں کو زیادہ پھیلا لیتا ہے ۔

اعلی تعلیمی درجات میں زبانوں کی تر ویج کے لیے دہلی یونی ورسٹی نے ایک انوکھی پالیسی بنائی جو اردو کے لیے بہت ہی زیادہ سود مند ثابت ہورہی ہے ۔ وہ اس طور پر کہ پہلے یوں ہو تا تھا کہ ایم اے کی سطح پر عر بی یا فارسی میں سے کوئی ایک مضمون اردو والے اختیار کر تے تھے ۔دیگر ڈپارٹمنٹ کا تو علم نہیں ۔ لیکن اب یہ ہوا کہ آرٹس فیکلٹی میں جتنے بھی کو رسس ہیں وہ بلا کسی شر ط کے انہیں کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہو ناہے جہاں آپ کو اپنے مضمون کے علاوہ کوئی دوسرا مضمو ن پڑھنا ہوگا اس سے اردو کو یہ فائدہ ہو ا کہ ہندی ، انگریزی ، سنسکرت ، بدھسٹ ، پنجابی، فرنچ اور اسپینش کے بچے اردو کی جانب بخوبی راغب ہوے ۔اور اردو اپنے روایتی حلقہ سے غیر روایتی حلقوں میں پڑھی جانے لگی ۔تر ویج کچھ بھی ہو البتہ تر سیل عمل میں آگئی ۔جامعہ میں یوں ہوا کہ جن بچو ں کا 10th یا +2 میں اردو نہیں تھا ان کے لیے ابتدائی اردو لازم کر دی گئی وہ پہلے دو سال کا ہوتا تھا اب صر ف ایک ہی سال کا محدود کر دیا گیا اور پہلے کی طر ح اصل مضمون کے ساتھ اس کا نمبر بھی نہیں جڑتا ہے۔ جے این یو میں یہی صورت حال گر یجویشن کی سطح پر پائی جاتی ہے جہاں غیر روایتی بچے اردو سیکھنے کے لیے ایک معتد بہ تعداد میں نظر آتے ہیں ۔پھر یہی بچے سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کر کے اپنی صلاحیت میں اضافہ کر تے ہیں او ر یہ ا ن کے لیے سو ہان روح اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ جر نلز م کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو اس میں ان کے لیے معاون اور مدد گار ہوتا ہے ۔

دہلی میں ایف ایم ریڈیو سننے کا کلچر بہت ہی عام ہے ، اور اس کی عام زبان بہار و یوپی کی طر ح ہندی متاثر زبان نہیں ہے بلکہ اردو کا سلیس استعمال ہے اور کوئی بھی ایسا ریڈیو جاکی نہیں ہوگا جو شاعری سے اپنے پرو گرا م کو خوبصورت نہیں بنا تا ہوگا ۔کیونکہ غائب سامعین کو خود کی جانب متوجہ کر نا میٹھی زبان اور شاعری سے ہی ہوتی ہے ۔ نوجوانوںکو اردو ماحول کی جانب راغب کر نے میں اردو ریڈیوکا خا صہ کر دار ہے ۔کوئی بھی ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے جو خالص اردو میں کوئی نہ کوئی اپنا پروگرام نہ پیش کر تا ہو گا ، سر کار ی کے علاوہ پروائیویٹ اسٹیشنوں میں ریڈیو مر چی کا خصوصی ذکر کر نا مناسب ہوگا کیوں کہ انہوں نے اپنے خصوصی پروگر ام میں منٹو کو اہم مقام دیا اور ”ایک پرانی کہانی سعادت حسن منٹو“ کی سریز پیش کی جس کی ایک کہانی کو ہندی ٹی وی جرنلزم کے جانے مانے جرنلسٹ رویش کمار نے بھی پیش کیا تھا ۔ ایف ایم ریڈیو میں اردو شاعری کو اچھے انداز میں بارہا پیش کرنے کا سہرا آرجے سائمہ کے سر جاتا ہے انہوں نے ہی منٹو کی کہانیوں کو اپنی آواز میں پیش کیا جس کا اثر یہ نظر آیا کہ گذشتہ بک فیر میں چیتن بھگت اپنی جگہ پر لیکن سب زیادہ جن کی کہانیوں کی مانگ تھی وہ منٹو کی کہانیا ں تھیں ۔

گزشتہ تین برسو ں میں دہلی میں بڑے بڑے اردو کے میلے لگے جن میں سب سے نمایا ں جشن ریختہ ہے ۔ جشن ریختہ کی جو تھیم رہی ہے وہ یہ رہی کہ انہوں نے اردو سے منسلک آرٹسٹوں کو نمایاں جگہ دیا اور وہ یو تھ کے لیے سب سے زیا دہ جاذب رہا ۔۵۱۰۲ میں جب ضیاءمحی الدین جیسے بڑے ادا کار تشریف لائے تھے اس میلہ میں ۰۸ فیصد غیر روایتی اردو سے محبت رکھنے والے طبقہ کو دیکھ کر دل کو یہ احسا س ہوا کہ ذوق شوق کسی طور پر بھی غیر روایتی اردو داں طبقہ میں ارد و سے محبت کے تئیں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔بس ضر ورت ہے تو اس کے تر ویج کی، جو اس وقت نظر آئی اور یہ تر ویج کا بہت بڑا پلیٹ فار م ہے۔ پھر اس طر ز کے کئی پروگرام ہوئے جس میں سے ایک جشن ادب ہے جو سال میں دو مرتبہ ہوتا ہے یہ آج کل جامعہ ہمدرد میں منعقد ہوتا ہے اور ساہتیہ آج تک بھی ہے جس میں اردو کو بھی ایک گوشہ ملا اور اردو کے فن کار اس میں شر یک ہوئے اور وہاں سے اردو کی تر ویج غیر اردو دا طبقہ میں نظر آئی ۔

اتر پردیش 

سرکاری اعداو شمار کے مطابق اتر پردیش کی اردو آبادی تقریبا دو کروڑ پر مشتمل ہے اور اردوپر ستم ظریفی یہ ہے کہ اتر پردیش میں ہائی اسکول کا امتحان اردو سے شاید ہی آزادی کے بعد کسی نے نہیں دیا ہو۔ البتہ جو نئیر ہائی اسکو ل کا امتحان دینے کا انتظام موجو تھا مگر اردو میڈیم سے جونیئر ہائی اسکو ل کے امتحانات دینے والوں کی تعداد تقریبا صفر رہی ہے ۔ گویا حکومتی سطح پر وہاں اردو سے امتحان دینے کی طر ف کوئی بھی توجہ نہیں ہے۔ یہاں پر ایک اقتباس اطہر فاروقی کا نقل کر نا مناسب ہوگا ” در اصل جسے اردو ذریعہ تعلیم کہا جاتاہے ، اتر پر دیش کے عام اردو داں حضر ات تو دور خود اساتذہ کے ذہن میں اس کا انتہائی مجہول تصور ہے ، جو اسکول اردو کے ذریعہ جونیئر اسکو ل کا امتحان دلا تے تھے وہ ہندی کی نصابی کتب ہی کے ذریعہ ہی در س دیتے تھے اور اردو کی تعلیم آج بھی صرف ایک اختیاری مضمون کی ہے ۔ اتر پردیش میں نہ تو اردو ذریعہ تعلیم کی کتب موجود ہیں اور نہ ہی اردو کے ذریعہ دیگر مضامین کا در س دینے کی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ “ ۔ یہ ہوئی ان کی بات ۔ تو کیا اردو معدوم ہوگئی اتر پردیش میں ۔ ہاں یہ یقینی بات ہے کہ اردو میڈیم اسکول وہاں نہیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی دنیا کی بڑی اردو آبادی وہا ں موجود ہے ۔ مشر قی یوپی میں تقر یباً ہر مدرسہ میں پر ائمر ی اسکو ل کا راواج ہے جن کا الحاق نیم سر کاری مسلم اداروں سے ہے یا الہ آباد بورڈ یا عربی فارسی مدرسہ بورڈ سے ہے ۔ جب عر بی فارسی مدرسہ بورڈبنا تو ہزاروں کی تعداد میں ارد وکالج بشکل مدرسہ اس سے ملحق ہوئے ۔ اور پرائمری اور جونیر سکینڈری اسکول وجود میں آئے ۔ پرائمری اسکول میں پانچو یں کلاس تک ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو ہی ہوتی ہے کچھ چھٹی کلاس سے بدل لیتے ہیں اور ہندی ذریعہ تعلیم رکھتے ہیں کیونکہ اساتذہ ہند ی کے ہوتے ہیں اور شاید و بایدہی کوئی ادارہ ہوگا جو اردو ذریعہ تعلیم رکھتا ہوگا۔ پانچویں کلاس کے بعد بچوں کے سامنے تین راہیں کھلتی ہیں دو مدرسہ (حفظ و فارسی ) کی اور ایک اسکول کی ۔ جو طلبہ اسکول چلے جاتے ہیں ان کی اردو تعلیم وہیں منقطع ہوجاتی ہے اور مدرسہ جانے والے صر ف ماحول کی وجہ سے اردو سے جڑے رہتے ہیں ۔ مغربی یوپی کی صورت حال بالکل الگ ہے شہر کے جو مسلم نیم سرکاری ادارے ہیں وہاں تو اردو بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ پورے مغر بی یوپی کے دیہی علاقوں میں کہیں بھی اردو کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی اس علاقہ کی زبان اردو ہے اور ہر مسلم بچہ اردو جانتا ہے وہ اسطر ح کے مغربی یوپی کے ہر مسلم آبادی میں مدرسے موجود ہیں جہاں اردو کی تعلیم کسی بھی مضمون میں نہیں دی جاتی ہے صر ف تعلیم الاسلا م اور دینی تعلیم کا رسالہ ہی پڑھایا جاتا ہے ۔اب سر کاری سطح پر پیچیدگیا ںکیا پیدا ہوتی ہے وہ دیکھیے ۔ وہ سمپل سی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی سر کاری تعلیمی ادارے میں بطور اردو طالب علم کے رجسٹر ڈ نہیں ہورہے ۔ گویا سرکاری سطح پر اردو سیکھنے والو ں کی تعداد صفر ہی ہے ( مولوی ،ادیب ، کامل ، گریجویشن اور ماسٹر س کو چھوڑ کر ) 

بہار 

بہار ہندوستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کی حالت شمالی ہند میں اطمینان بخش ہے ۔ جب اردو کی حالت بہتر ہے تو اردو ذریعہ تعلیم کی حالت بھی بہتر ہے ۔بہار میں اردو کی تر قی کی اہم وجہ متوسط طبقہ کا جذباتی حد تک اردو سے لگاو ¿ اور دینی مدارس میں ان کے بچو ں کو دی جانے والی ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم بزبان اردو ہی ہے ۔ بہار میں چونکہ کوئی علاقائی زبان اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے حصول کا جزوی ذریعہ بن سکے اس لیے وہاں مسلمانوں کا ایک اپنی زبان کے حساب سے اردو زبان مظبوط زبان بنی ہوئی ہے ۔

بہار میں تقریبا ً پچاس ہزرا سے زائد طلبہ جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعہ دیتے ہیں ۔ بہار میں ۳۲۱ ایسے کالج ہیں جن میں اردو تعلیم کا نظم و نسق موجود ہے اور پچاس ہائی اسکول ایسے ہیں جو اردو کو ذریعہ تعلیم میں فوقیت دیتے ہیں ۔ بہار میں اردو کی تر قی میں اہم رو ل وہاں کے مدارس نے دیا ہے ۔ بہار حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اسناد کو بہار میں دوسرے رجسٹرڈ اداروں اور یونیو رسٹیوں کے ڈگریوں کے مساوی تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ بہار ہی نہیں بلکہ دلی کی تینوں بڑی یونیورسٹیوں میں ان کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر بہار میں اردوزبان کی صورت حال بہتر ہے لیکن بد نظمی کی شکار ضرور ہے ۔ ادب کی صور تحال بھی دو سرے صوبو ں سے قدرے بہتر ہے ۔
تقریبا یہی صورت حال جھارکھنڈ کی ہے لیکن اردو اساتذہ کی عدم تقرری اس میں مستقل گر اوٹ کا سبب بن رہی ہے ۔

مغر بی بنگال 

اردو کی تر ویج کے بہت ہی زیادہ امکانا ت مغر بی بنگال میں ہیں ۔ وہاں ابتدائی تعلیم کے متعلق حکومت کی اصولی پالیسی یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم صرف مادری زبان میں ہوگی ۔اسی مقصد کے پیش نظر وہاں سر کاری اداروں میں تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے اور اقلیتی فر قوں کے اداروں کو بھی اسی بنیاد پر وہاں پر رجسٹر ڈ کیا جاتا ہے ۔مغربی بنگال میں اردو ذریعہ تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ اردو آبادی کی موجو تعداد کے مناسبت سے اسکو لوں کا نہ ہونا ہے ۔کئی مقامات پر تو دس سے بیس ہزار کی آبادی میں بھی صرف ایک اسکو ل موجود ہے ۔سر کار کی پالیسی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے اسکول کے رجسٹریشن کی بنیاد آبادی کی تعداد کو نہیں بناتی اور تمام اقلیتی فرقوں کو ایک ہی تناسب میں پر ائمری اسکولوں کی سہولت دیتی ہے ۔ اس کا فائدہ عیسائی اور دوسرے چھوٹے اقلیتی فر قوں کو بہت زیادہ ہوتاہے اور مسلم نہ صرف گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ ان کے اور دوسرے اقلیتوں کے درمیان ترقی اور تنزلی کا فرق بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

مغربی بنگال میں مہاجر اردو طبقہ آسنسول ، کولکاتہ ، بردوان اور جلپائی گوڑی میں آباد ہے ۔ مخلوط اردو آبادی ، مرشدآباد ، مالدہ، ۴۲پرگنہ ، کٹوا، بیربھوم ، پرولیا اور عظیم گنج وغیرہ میں ہیں ان تمام مقامات میں اردو آبادی کے ساتھ اردو اسکولس بھی موجود ہیں مگر وہ کسی صورت بھی آبادی کا احاطہ نہیں کر پارہے ہیں۔ ارد و کے فروغ میں وہاں سب سے بڑی رکاوٹ اردو ماحول اور اردو کلچر کا نہ ہونا ہے ، وہاں بھی اردو کا فر وغ مذہبی لٹریچراور مذہبی اداروں سے زیادہ ہے ، بنگال میں ایک ایساطبقہ بھی ہے جو صر ف اردو بولتی ہے لیکن تعلیم و تعلم کار واج اردو میں نہیں ہے یہ تعداد بہت ہی زیادہ ہے ،وہاں بس ایک رہنما کی ضرورت ہے جس سے طبقہ مکمل اردو سے روشناس ہوسکتے ہیں ۔ وہاں اردو ثقافتی پروگرام کی بہت ہی ضرورت ہے جو اردو کی تر ویج ترسیل میں بہت ہی زیادہ معاون و مددگار ہوگا ۔

کچھ ایسے ہی حالات اڑیسہ کے بھی ہیں البتہ وہاںبھی اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن تر ویج و تر سیل کے حالات و اسباب مفقود ہیں

تر سیل کے امکانا ت ضر ور پیدا ہو نگے پہلے تر ویج کے امکانات پیدا کر نے ہوںگے ۔ اس کے لیے ہمیں خو د بیدا ر ہو نا ہوگا اور جو غیر سر کاری ادارے NGO تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان سب کو اس پر دھیان دینے کی ضر ورت ہے ۔ اسکو ل میں داخلہ کے وقت ہی تمام والدین کو یہ بتا نا ہوگا کہ آپ کے بچے کے لیے ارد و کا نظم و نسق سر کار کی جانب سے موجودہے اور جن اسکو لوں میں تھرڈ لینگویج کا خانہ ہے وہاں ان کے لیے اردو ہی فِل کر وائیں ۔

سب بڑی پر یشا نی اس وقت پیدا ہوتی ہے جہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے ۔ یہ وہی وقت ہے جب طلبہ پانچویں کلاس کے بعد اردو ماحول سے غیر اردو ماحول میں پہنچتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ وہ اردو سے اجنبی بنتا چلا جاتاہے اس دور ا ن وہ خود کو کیسے اردو کے دھارے سے باندھے رکھے اس کے لے غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سوائے ایک یو نی ورسٹی کے کوئی بھی ہندو ستان کی یونی ورسٹی نہیں ہے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہو ۔ ہم اردو کے لیے اکثر مولوی صاحبان اور مسجدو مدرسہ پر موقوف ہوتے ہیں گھر میں کم ازکم کچھ بھی ماحول اردو کا ملے تو وہ اردو کی جانب راغب ہوں ۔ اب پھر ترویج و تر سیل کی جانب لوٹتے ہیں تر ویج کے معنی شوق پیدا کر نا یا شو ق کی جانب رغبت دلانا اور تر سیل کا معنی ان کے شوق کو پورا کر نا ہے 

اردو کا قاری کہتا ہے : مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
 اردو کہتی ہے : وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی ایک بات اچھی ہے مرے ہر جائی کی 

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...