Monday 2 March 2020

ترجمہ سے ترجمانی تک

ترجمہ سے ترجمانی تک

’’ وعلم آدم الاسماء کلہا‘‘ دنیا کے وجود میں آنے سے دنیاوی زبان وجود میں آئی جس کی دلیل نظر یۂ اسلام میں مذکورہ بالا آیت ہے۔ کیوں کہ اس آیت سے یہی مقصود ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا جا رہا تھا تب خدا نے آدم ؑکو دنیا وی زبان سکھائی تھی۔ دنیا میں موجود اشیاء کے نام بتائے تھے جیسے سورج ، دھوپ ،آگ ، پانی، ہوا کے نام۔ کیا انہوں نے خود سے رکھ لیے؟ یا ہمارے دیے ہوئے ہیں؟ یا خدا نے انہیں ان سب عناصر کے لیے یہی الفاظ سکھائے تھے؟ یا وہ کچھ اور الفاظ تھے اور اب ہم انہیں ان الفاظ سے جانتے ہیں۔ گویا الفاظ ترجمان ہیں اشکال کو ہمارے اذہان میں متشکل کرنے کے لیے ۔الغرض زندگی بسر کرنے کے لیے جن اشیاء کی اس وقت ضرورت تھی وہی اشیاء اب بھی ہیں ،ساتھ ہی انسان اپنی فکرو تدبر سے وسائل کی ایک وسیع دنیا ایجاد کرتا چلا گیا جن کے نام خدا نے ہمیں نہیں سکھلائے بلکہ انسانوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے ایجاد کیے اور ان کی شناخت کے الفاظ بدلتے بھی رہے۔ یعنی اشیاء اپنی اصل جگہ پر قائم و دائم رہتی ہیں اور وہ اپنی شناخت لفظوں سے کراتی رہتی ہیں ، جو یقینا اُس شے کا ترجمہ ہوتا ہے جس پر ہم مر کوز ہورہے ہیں۔اس کے زیر اثر ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ تراجم سے حقیقت بدل نہیں جاتی بلکہ حقیقت و مادہ ایک ہی ہوتا ہے اور اس مادہ کی شناخت کے الفاظ بدلتے رہتے ہیں۔دنیا میں لاکھوں بولیا ں پیدا ہوئیں اور اپنا وجود کھوتی رہیں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ زبان کے معدوم ہوجانے سے اشیاء ، افعال و حرکات اور صفات بھی معدوم ہوگئیں بلکہ وہ اپنی شناخت کا دائرہ مزید سے مزید تر بڑھاتی چلی گئیں اور تمام پرانے الفاظ کے ساتھ ایک نئے لفظ کا چہرہ اپنے لیے سامنے لے آئیں جواپنے معنوی وجود کے ساتھ لغت میں رقم ہوتے چلے گئے۔ 

کچھ اجناس ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے چند زبانیں بہت ہی مالدار ہوتی ہیں اور کچھ ایسی، جن کے لیے فقر کی بو آتی ہے جیسے ہوا ، تلوار اور گھوڑے کے لیے عربی میں درجنوں الفاظ ہیں جبکہ موجودہ وقت میں انگلش جیسی بڑی زبان اس سے عاری نظر آتی ہے۔ اس تعلق سے ایک دلچسپ بات احمد دین نے اپنی کتاب "سرگزشت الفاظ" میں لکھی ہے کہ " نیوزی لینڈ کی ایک قوم کی بابت ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ ان کی زبان میں خدا کے لیے کوئی لفظ نہیں، لیکن ماں کے پیٹ میں بچی کو مار ڈالنے کے لیے ایک طریق کے لیے ایک لفظ ہے اور ہمیں ایک واقف کار انگریزی ادیب کی زبانی جو" وان ڈیمنزلینڈ" میں دیر تک سکونت پذیر رہا اس سے معلوم ہوا کہ اس جزیرہ کی زبان میں قتل انسان کے لیے چار الفاظ ہیں۔ ایک تو باپ کے بیٹے کو مار ڈالنے کے لیے دوسرا بیٹے کے باپ کو مارڈالنے کے لیے اور علیٰ ہذا القیاس قتل کی دیگر قسمیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی اخلاقی ملامت یا قتل مستلزم سزا اور قتل عمد میں جو گہرا فرق ہے ان کا نشان تک نہیں۔ لطف یہ ہے کہ اس زبان میں جو اظہار بغض کے غایت درجہ کو بیان کرنے میں ایسی مالامال ہے محبت کے لیے کوئی لفظ مطلقاً نہیں ہے"(سرگذشت الفاظ، احمددین، ص 84)

 اس کے برعکس ہماری اردو شاعری میں محبت کے لیے الفاظ کی کمی نظر نہیں آئے گی، اس لیے کوئی ضروری نہیں کہ عالمی طور پر پھیلی ہوئی زبان اپنے اندر الفاظ میں بھی وسعت رکھتی ہو۔کسی بھی زبان کا کوئی بھی لفظ اچانک معنویاتی محل لے کر نمودار نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقۂ استعمال میں ثقافتی و تہذیبی اثرات و تشخص اور لسانیا تی خصوصیات کے ساتھ بہت ہی عام لفظ ہوتا ہے جو دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہونے لگتا ہے جیسے کتاب۔ یا پھرکوئی لفظ  بہت ہی خاص ہوتا ہے جو اپنی ہی زبان میں استعمال کو تر س جاتا ہے۔ ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہماری اردو زبان میں ہی متروک ہوتے جارہے  ہیں ۔ کسی بھی زبان میں دوقسم کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق صفات سے ہوتو پھر ترجمہ میں ایک گو نہ پریشانی آتی ہے جیسے فصلیں لہلہا رہی ہیں میں لہلہانا کی جو کیفیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے ترجمہ میں ممکن ہو اس سے بھی اچھا لفظ استعمال ہو لیکن اس میں فصلوں کا جو شباب پوشیدہ ہے ضروری نہیں کہ وہ ترجمہ میں بھی حاصل ہوجائے یا ترجمہ کی زبان میں لہلہانے کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ لفظ مترجم کو پسند آجائے یا پھر وہ اس کے ہم معنی لفظ استعمال کر جائے ۔ اگر لفظ کا تعلق اسماء سے ہوتو متبادل لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے درخت کے لیے تقریباً ہر زبان میں متبادل لفظ ہیں یا پھر اُس شے کے ساتھ اسی لفظ کو اپنی زبان کا حصہ بنا لیا جاتا ہے جیسے نیم کا پیڑ میں نیم کے لیے کئی زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی فعل ہے جس کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن استعمال میں فرق کا خیال رکھا جاتا ہے. جیسے قتل، ہتیا اور مرڈر ایک ہی فعل کے لیے ہمارے یہاں روز مرہ کی زبان میں مذکورہ تینوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن جانور کا مرڈر ہوا ہے استعمال نہیں ہوتا جبکہ انسان کے ساتھ تینوں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بات تو تھی کسی بھی زبان میں ایک عام مفردلفظ کے استعمال کی لیکن جب کوئی بھی زبان اپنے اندر اتنی قوت پیدا کر لیتی ہے کہ وہ محاورات کو جنم دینے لگے اور شعرو ادب تخلیق کر نے لگے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس زبان نے اپنے اندر بہت ہی زیادہ درک حاصل کر لیا ہے کیونکہ اعلیٰ زبان کی شناخت ہی اس کی شاعری ہوتی ہے۔پھر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی اعلیٰ معیار کا متقاضی ہوتا ہے۔بقول کسی ناقد کے ’’ متر جم اس کی صورت کو بدل کر اس میں ایک نئی روح ڈالتا ہے ‘‘ لیکن میرے بقول ’’متر جم چاہتا ہے کہ میں اس کے جسم کو تبدیل کروں اور اس میں وہی روح باقی رکھوں جواس کی اپنی اصلی زبان میں ہے ‘‘۔یہ صرف ادبیات سے متعلق ہی ہے دیگر سماجی و سائنسی علوم میں مترجم معلومات و اضح انداز میں پیش کر نے کی کوشش میں رہتا ہے، اس صاف ستھری زبان میں فلسفہ اور پیچیدگی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ کہیں کہیں تاریخیں فسانہ کی شکل میں لکھی گئی ہیں جہاں بہادری کے جملے داستانوں کی طرح رقم ہوئے ہیں اور بادشاہ کی تعریف قصیدوں کی طر ح کی گئی ہے تو ایسے میں اصل زبان سے انگریزی میں جو تراجم ہوئے وہ صحافتی تراجم ہوئے ۔ جس میں صرف اصل واقعہ کو اخذکیا گیا ، باقی کو اپنے ترجمے میں شامل نہیں کیا گیا جس کو ہم تاریخ کو ملیامیٹ کر نے کا نام بھی دیتے ہیں، کیونکہ بنیادی کتابوں میں جس بہادری کی کیفیت اور لڑائی کی جو منظر کشی کی گئی ہے وہ تراجم میں مفقود نظر آتی ہے اس وجہ سے کہ انگریزی زبان جس سادگی کے لیے جانی پہچانی جاتی ہے وہاں حسن تعلیل اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سماجی، سائنسی و تاریخی علوم کے تراجم کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار کے لیے صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ مترجم ان علوم کی دونوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا ہو اور اس علم سے متعلق اصطلاحات کے استعمال پر دونوں زبانوں میں قادر ہو۔ اگر ترجمہ کی جانے والی زبان میں اصطلاحات کا فقدان ہو تو پھر اصطلاحا ت یا تو اصلی زبان سے ہو بہو لائی جائے گی یا پھر اسی نسل کی زبان میں دیکھیں گے کہ وہاں اس اصطلاح کے لیے کیا استعمال ہو تا ہے جو ترجمہ کی جانے والی زبان میں بھی اجنبیت کا شکار نہ ہو۔مطلب تر ازو کے دونوں پلڑے برابرہوں۔ لیکن ادب کے تر جمے میں مترجم ان تمام کے ساتھ اصل زبان کے سماجی ، ثقافتی و تہذیبی معاملات سے بھی باخبر ہو جو تلمیحات و اشارات کو بھی سمجھ سکے ۔یہی نہیں بلکہ اس لفظ کے استعمال سے انسان کی پیشانی میں جو خوشی، ناگواری، حیرت و تردد کی کیفیت آتی ہے جو لفظ کے معنیٰ کو کسی حد تک واضح کردیتی ہے اس سے بھی واقف ہو مزشاعری میں ایک ہی لفظ سے کئی معانی پیش کیے جاتے ہیں اس کا بھی علم ہو۔ اگر ترجمہ میں ایسا ممکن ہو تو اچھی بات ہے ورنہ شاعر کے معنی مراد کی ادائیگی پر مترجم قدرت رکھتا ہی ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر ہم لفظ کے تمام معانی سے واقف ہوتے ہیں لیکن لفظ جس طرح اپنے ساتھی لفظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی واقفیت ضروری ہو ورنہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کو بیان پر قدرت نہیں۔ جیسے شاید و باید کے لیے کبھی کبھار کا استعمال ہوتا ہے یہ دونوں لفظ لازم و ملزوم کی حیثیت سے ہیں لیکن پہلے میں دونوں لفظ معنیٰ دار ہیں جبکہ دوسرے میں کبھی معنیٰ دار لفظ ہے اور کبھار مہمل ہے جو کبھی تنہا استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایسے مہمل الفاظ ہر زبان میں ہوتے ہیں اور ادب اطفال میں کثیر تعداد میں مہمل الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو بچوں کی سماعت کو اچھے لگتے ہیں اور معنی سے دور ہوتے ہیں.

تر اجم میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ مترجم زبان سے تو واقف ہوتا ہے لیکن اس زبان کی صوتی خصوصیت سے قدرے نا واقف ہوتا ہے جس کی بنا پر تر جمے میں ڈھیلا پن آجاتا ہے۔ اس کی مثال ہماری مقفیٰ اور مسجع عبارتیں ہیں جو اردو میں لاتعداد ہیں ۔صرف قدیم تحریروں میں ہی نہیں بلکہ ن م راشد کی نثری تحریروں تک میں یہ خصوصیت بخوبی پائی جاتی ہے اور ابتدائی بچوں کی نثری تحریروں میں بھی یہ ہوتا ہے تاکہ بچوں کی زبان میں متن تیزی سے رواں ہوجائے اور اس میں اکثر معکوس آوازوں کا استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں کو اچھا لگے۔ اور نظموں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلا بند اگر بلند آہنگ کا حامل ہے تو دوسرا بند پست آہنگ کا جیسے اقبال کی نظم ذوق و شوق میں۔ ایسے میں مترجم کیسے اس ذمہ داری کو اٹھائے گا کہ وہ معنوی خوبصورتی جس آہنگ سے پیدا کرتا ہے وہی آہنگ ترجمہ والی زبان میں آجائے۔ کیا اُس زبان میں ویسے الفاظ موجود ہیں یا نہیں یا اُس زبان میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں. خیر ہر زبان کی صوتی خصوصیت ایک نہیں ہوسکتی لیکن صوتی خصوصیات سے جو تاثر قائم کیا جاتا ہے وہی تاثر اس جملے کی جان ہوتی ہے۔ جس کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیںکہ ہم نے ایک خطا طی کے خوبصورت شہہ پارہ کا بلیک اینڈ وائٹ زیراکس پیش کر دیا ، جس میں معنی رنگوں کے ذریعہ پیش کیے گئے تھے اورہم نے ان رنگوں پر پانی پھیر دیا۔ یہی حال صوت کا شہہ پارہ کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مثال عربی سے اس طرح پیش کرنا چاہتا ہوں.
فقلت ماسمک
فقال لو لو
فقلت لی لی
فقال لالا
جس کا ترجمہ سیدھا سا یہ ہے "میں نے اُس سے کہا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا لولو، میں نے کہا میرے لیے، اس نے کہا نہیں" یہ پوری بات مہمل لگ رہی ہے تو مترجم لولو کا معنی(موتی) بھی قوسین میں لکھے گا۔ اب معنیٰ واضح ہوگیا لیکن اوپر نیچے اور سامنے کی آوازوں سے جو صوتی تفنن پیدا کیا گیا تھا وہ غائب ہوگیا۔
اسی طریقے سے معنوی مزاح کی ایک مثال فارسی سے ملاحظہ فرمائیں۔

ایک دفعہ فیضی بیمار تھا۔ عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا، کتوں کے بچے گلے میں سونے کے پٹے ڈالے پھر رہے تھے ،عرفی نے کہا ’’مخدوم زادہا بچہ اسم موسوم اند ‘‘( بچوں کے کیا نام ہیں ) فیضی نے کہا ’’بہ اسم عرفی‘‘( معمولی نام ہیں)۔ عرفی نے کہا ’’مبارک باشد‘‘ (مبارک ہو) مبارک فیضی کے باپ کا نام تھا۔ اسی نوعیت کی ایک مثال عربی سے بھی دیکھیں۔ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی کے درمیان معاصرانہ چشمک مشہور و معروف ہے ۔ دونوں کی لطیف گفتگو کا ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طر ح سے ہے۔ اس وقت کے حکمراں مولانا ملک المؤید کی سوانح پر علامہ عینی نے ایک طویل قصیدہ کہا تھا جس میں اس کی بنائی ہوئی جامع مسجد کی تعریف بھی تھی ۔ اتفاق سے کچھ عرصے کے بعدمسجد کا منارہ جھک کر گرنے کے قریب ہوگیا اس پر حافظ ابن حجر نے پرچے پر مند رجہ ذیل دو شعر لکھ کر بادشاہ کے پاس بھیج دیے ۔

لجامع مولانا المؤید رونق
منارتہ تزہو علی الفخر والزینِٖ
تقول وقد مالت علیّ ترفقوا
فلیس علی حسنی اضر من العینٖ

(مولانا مؤید کی جامع مسجد بڑی بارونق ہے ، اس کا منارہ فخرو زینت کی وجہ سے بڑا خوشنما ہے ، لیکن جب وہ جھکا تو اس نے کہا مجھ پر رحم کر و ، میرے حسن پر (عین )بری نظر سے زیادہ نقصان دہ چیز کچھ نہیں ہے )اس شعر کالطف یہ ہے کہ عین کو عینی پڑھا جاتا ہے جس سے علامہ عینی کی جانب طنز ہوتا ہے ۔ملک مؤید کو یہ رقعہ ملا تو اس نے علامہ عینی کے پاس بھیج دیا ۔ اس پر انہوں نے جواباً مذکورہ دو شعر لکھ کر بھیج دیے ۔

منارۃ کعروس الحسن قد جَلِیَت
و ہدمہا بقضاء  اللہ والقدرِ
قالواأصیبت بعین قلتْ ذا خطأٍ 
وإنما ہدمہا من خیبۃِ الحجرٖٖ

( یہ منارہ عروس حسن کی طرح درخشاں ہے ، اور اس کا گرنا محض اللہ تعالیٰ کی قضاء و قد ر سے ہے ، لوگوں نے کہا ہے کہ اسے آنکھ لگی ہے ،میں نے کہا یہ غلط ہے ، در اصل وہ اپنے حجر (پتھر ) کے فساد کی بنا پر گرا ہے ۔اس میں حجر سے علامہ ابن حجر کی جانب طنز ہے ۔ الغر ض دونوں مثالوں میں ایہام گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کا لفظی ترجمہ بے معنی ہوتا ہے اور ہمیشہ تشریحی ترجمہ کی ضرورت پڑتی ہے ۔

تر جمہ کے فن پر بہت سی باتیں کی گئی ہیں اور نظر یات سے ہمارے دانشور متصادم بھی ہوئے ہیں۔ ترجمہ کی کئی اقسام بھی بنائی گئیں لیکن جب عملی دنیا کی بات کی جاتی ہے تو اس میں قاری کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ یہ لفظی تر جمہ ہے ، یہ بامحاورہ ہے ، یہ ماخوذہے۔ پھر اس کی اگلی کڑی اس طر ح سامنے آتی ہے کہ یہ خراب ترجمہ ہے ، یہ ٹھیک ترجمہ ہے ،یہ بہت ہی اچھا تر جمہ ہے اور اگر کوئی خوبصورت زبان کا دلدادہ ہے تو کہتا ہے کہ ایک خوبصورت فقرہ کا خوبصورت ترجمہ۔ لیکن اس جملہ کا تعلق اکثر محاورات و ضرب الامثال سے ہے۔ ظاہر سی بات ہے جو بہت ہی اچھا ترجمہ ہوگا وہ کسی بھی ادبی فن پارہ کا لفظی ترجمہ کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں ایسی تخلیقیت شامل کی گئی ہو گی کہ قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسری زبان کی تخلیق پڑھ رہے ہیں یا یہ کہ یہ کسی دوسرے ملک کا ادب ہے۔ یہ کارنامہ نثری تحریروں میں بہت ہی آسانی سے انجام پاسکتا ہے جس میں اصل کہانی اور مسئلہ کو باقی رکھتے ہوئے پوری تخلیق کو اپنی زبان میں اتار دیا جاتا ہے جس کی مثال اردو زبان میں بہت ہی زیادہ ہے جیسے ملا وجہی کی ’’ سب رس ‘‘ فتاحی نیشاپوری کے فارسی قصہ ’’ حسن و دل ‘‘ سے ، غواصی کا ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ عربی کا مشہور قصہ ’’ الف لیلہ ‘‘ سے ، ابن نشاطی کا ’’پھول بن ‘‘ فارسی کا قصہ ’’ بساتین الانس ‘‘ سے۔ اس طریقے سے کئی داستانوی کتابیں ہیں جن کا ماخوذ تر جمہ اردو میں کیا گیا ہے جس کو ہم ترجمہ نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ اس جیسا کہہ سکتے ہیں۔اسی طریقے سے خیام کی فارسی رباعیوں کے اردو میں بھی رباعی کی ہیئت میں ترجمے کیے گئے ہیں۔ اسی تخلیقیت کو پروفیسر آل احمد سرور اس طرح بیان کرتے ہیں "ترجمے میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اس لیے امریکہ میں ترجمہ کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation) کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے" (ترجمہ کا فن اور روایت مرتب پروفیسرقمررئیس ص47) 

لفظی معانی تو لغات کی ضرورتوں کے مدنظر ڈکشنریوں میں پیش کیے گئے ، لیکن اردو میں باضابطہ لفظی تر جمہ قرآن پاک کے تراجم سے سامنے آتا ہے جس میں اس حدتک التزام تھاکہ اردو تراجم میں بھی وہی نحوی و صرفی تراکیب کا خیال کیا گیا جو عربی میں تھا اور اردو زبان کے لیے بہت ہی اجنبی لہجہ تھا ، جو آہستہ آہستہ ختم ہوا اور اب با محاورہ ترجمہ قرآن پاک کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طریقے سے انگریزی سے اردو میں بہت ہی زیادہ تعدا د میں بچوں کے لیے کہانیاں تر جمہ ہوئی ہیں جن کی اشاعت ہندوستان میں قومی کونسل سے بھی ہوئی ہے۔ اُس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قصہ کے اصل کردا ر ، مقامات و منظر نگار ی کو بالکل بھی نہیں بدلا گیا بلکہ خوبصورت الفاظ میں اسی کہانی کو اردو زبان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ البتہ اس میں بھی کہیں کہیں آپ کو فاش غلطی دیکھنے کو مل جائے گی۔ وہ غلطی اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ ترجمہ کسی پروجیکٹ کا حصہ ہوتا ہے اور وہ جیسے تیسے کر کے دے دیا جاتا ہے ، جیسا کہ بچوں کی کئی کتابوں میں دیکھنے کو ملا کہ پہلی لائن کی زبان معروف ہے تو دوسری لائن کی زبان مجہول۔ مثال کے طور پر کونسل سے چھپی ایک کتاب’’ جنگل کی کہانی ‘‘ جو انگریزی کی مشہور و معروف کتاب ’’ جنگل بک ‘‘ پر مبنی ہے جیسا کہ مصنف کا دعویٰ ہے، لیکن مجھے تو ترجمہ لگتا ہے۔ہندی میں اس کا ترجمہ رمیش نارائن تیواری نے کیا پھر اردو میں زینت شہریار نے۔کہانی کا پہلا پیرا گراف کچھ اس طرح ہے :

موگلی بھیڑیے کی ماند میں
شام کے سات بجے تھے شبنی کی پہاڑیوں کی شام عام دنوں کی بہ نسبت کچھ سر د تھی۔ دن بھر کے آرام کے بعد دادا بھیڑیا نے اپنے جسم کو کھجلایا۔ ایک لمبی جماہی لی پھر اپنے پور پور میں گھسی سستی کو دور کر نے کے لیے ایک ایک کر کے چاروں پنجے تانے۔ کچھ دور پر اماں بھیڑیا لیٹی ہوئی تھی۔اس کے بھاری منھ کے نیچے چاروں چھوٹے بچے کھُدر ، پھُدر کر رہے تھے۔غار کے منھ سے چاند کی ہلکی باریک کرنیں اندر آکر دھندلی روشنی بکھیر رہی تھیں۔
اب انگر یزی کا متن ملاحظہ فرمائیں۔

It  was  seven o’clock  of  a  very  warm  evening  in the  Seeonee  hills  when  Father  Wolf  woke up  from  his  day’s  rest,  scratched  himself,  yawned,  and  spread  out  his  paws  one  after  the other  to  get  rid  of  the  sleepy  feeling  in  their  tips.  Mother  Wolf  lay  with  her  big  gray  nose dropped  across  her  four  tumbling, squealing cubs,  and  the  moon  shone into  the  mouth  of the  cave  where  they  all lived. ‘‘Augrh!’’  said  Father  Wolf.  ‘‘It is  time  to  hunt  again.’’ He  was going  to  spring  down  hill  when  a  little  shadow with a bushy tail crossed the threshold and whined:  "Good luck go with you,  O  Chief of the  Wolves.  And  good  luck  and  strong  white teeth  go with  noble  children  that  they  may  never  forget  the  hungry  in  this  world.

پوری کہانی ایک ہی ہے لیکن اس میں مترجم کی اپنی ذات کا دخل کچھ زیا دہ ہے ، اول تو یہ کہ اصل پیرا گرا ف کو اردو میں دو پیراگراف بنایا گیا ہے۔ دوم یہ کہ جس منظر نگاری سے بھیڑیے کی کیفیت بتائی جارہی ہے وہ اصل متن میں بالکل بجاہے لیکن اردو متن میں سردی کے دنوں میں ممکن نہیں ہے۔الغرض مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم اگر تر جمہ کے شو قین ہیں تو اصل پر ہی نگاہ مر کوز رکھیں۔ تر جمہ در ترجمہ حذف واضافہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس میں سب سے بڑی کمی یہ سامنے آتی ہے کہ زبان رک رک کر چلتی ہے اور اس میں روانی کی وہ کیفیت نہیں آپاتی جو ادبی متن کی خصوصیت ہوتی ہے۔

 یہ کمی اسی صورت میں دور ہوگی جب متر جم انشاپردازی کے ہنر سے واقف ہو۔گزشتہ کچھ برسوں سے تر جمہ کی ہی زبان نہیں بلکہ تخلیقی زبان بھی کھردرے پن کی شکار ہو چکی ہے جس کے تدارک کی طرف کبھی بھی گفتگو نہیں کی جاتی سوائے اس کے کہ اس کا جواب یہ دے دیا جاتا ہے کہ ہم نے زبان کو ملمع سازی سے دور کیا، تو ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ باغ و بہار بھی تر جمہ ہے اور وہ بھی ملمع سازی سے پاک زبان ہے لیکن کھردرا پن نہیں آنے دیا۔

اس کی مجھے صرف دو وجہیں نظر آتی ہیں ایک یہ کہ ہم نے قرات متن سے اپنا دامن جھاڑ لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں زبان میں روانی کے ساتھ بہنے والے سلیس الفاظ اب زبان پر رک رک کر چلتے ہیں۔دوسری یہ کہ ہم نے زبان کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کے لیے ایسے غیر مانوس الفاظ داخل کر دیے جوان لفظوں کے گروہ میں خود کو نامانوس محسوس کر تے ہیں۔اگر چہ مصنف ومترجم کی ستم ظریفی کے سبب قاری اور بچے اپنے ذہن میں اس کو انڈیلنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

 تر جمہ کے لیے سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ ہم اصل زبان سے کماحقہ واقف ہوں۔ لیکن اس کا سیدھا مطلب تر جمہ کی دنیا میں ایک بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اور وہ اس طرح کہ کوئی بھی متر جم بنیادی طور پر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔جیسے بیسویں صدی میں اور آج اکیسویں صدی میں بھی انگر یزی سے خوب تر جمے ہورہے ہیں اور انگریزی میں دوسری زبانوں سے ۔لیکن مترجم اس چیز کو نظر انداز کر جا تا ہے کہ اصل تخلیق خواہ کسی اور زبان کی ہے لیکن ہمیں اس سے کیا مطلب ،ہم تو انگریزی سے ترجمہ کررہے ہیں۔ یہ تر اجم کے ساتھ سراسر دھوکہ ہے کیونکہ دانشوروں نے مترجم کے لیے جو شرائط لکھی ہیں وہ فن پارہ کی اصل زبان کے لیے ہی ہیں۔ جیسے عربی و فارسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ قدیم و جدید ادبی فن کاروں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن اب ہمارے مترجمین اصل زبان کی جانب توجہ نہ دیکر ترجمہ ہی کی جانب توجہ دے رہے ہیں جس سے وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے جو نتیجہ ڈبلیو ایس فیلن اور جان ٹی پلیٹس کے تطابق میں صاحب فرہنگ آصفیہ کہیں کہیں کر گئے ہیں(. جس کا ذکرہم نے اپنے مضمون ’’ لغت میں تلفظ کے مسائل ‘‘ میں کیا ہے )

 ادبی تراجم میں خصوصی طور پر اولیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان کو اصل زبان سے ہی ترجمہ کریں کیونکہ ترجمہ سے ترجمہ کرنے کی صورت میں معنویاتی تبدیلی توآتی ہی ہے، ساتھ ہی تاثر میں آسمان و زمین کا فاصلہ بھی نظر آتا ہے جیسا کہ مطالعہ کے دوران ناصرہ شرما کی کتاب ’’ادب میں بائیں پسلی‘‘ میں دیکھنے کو ملا، جس میں انہوں نے عالمی ادب کو انگریزی کے توسط سے ہندی میں کیا ہے۔اس میں جب فارسی اور عربی کی شاعری اور کہانیوں کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں تو معنویاتی اور تاثراتی فرق نظر آتا ہے۔

ادب اطفال تخلیق کر نا جس طر ح مشکل ترین امر ہے اسی طریقے سے ادب اطفال کا تر جمہ بھی مشکل تر ین امر ہے۔سب سے پہلے ہم رائمز کی بات کر تے ہیں۔ انگلش میں رائمز بہت ہی زیادہ مقبول ہوئی ہیں جن کو ہماری اردو اور ہندی زبان میں مطلقا پوئم کہا جاتا ہے۔جب کہ انگریزی ادب میں یہ ادب اطفال کی ایک مستقل صنف ہے، جس کو اردو میں حشمت کمال پاشا اور مظفر حنفی نے اپنا نے کی کوشش کی لیکن اس کو اردو ادب میں ابھی تک صنف کا درجہ نہیں ملا۔ رائمز میں بنیادی طور پر اصوات کا کمال ہوتا ہے ساتھ ہی کسی بھی مادہ، سبجیکٹ سے تعارف بھی مقصود ہوتا ہے تاکہ بچہ اس لفظ سے آشنا ہوجائے۔ جب اردو میں ہم رائمز کا تر جمہ کرنے کی کوشش کریں گے توشاید اس چیز کو پیش نہیں کر پائیں جو انگریزی میں پیش ہوئی ہیں بلکہ از سر نو اردو میں لکھنا ہوگا۔جس کے چند نمونے ہمارے اکثر ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں

Humpty Dumpty sat on a wall,
Humpty Dumpty had  a great  fall,
All  the  King's  horses  and  all  the  King's  men
Couldn't  put  Humpty  Dumpty  together  again.
اس کا اردو تر جمہ کسی صاحب نے کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں
ہمپٹی ڈمپٹی چڑھ گیا چھت
ہمٹپی ڈمپٹی گر گیا پھٹ
راجہ کی پلٹن رانی کے گھوڑے
ہمپٹی ڈمپٹی کبھی نہ جڑنے

اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ تر جمہ نہیںبلکہ اس سے متاثر ہے ، لیکن پھر بھی اس میں اردو حامل مزاج کے بچوں سے جڑنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔  اس قسم کے رائمز اردو میں بہت ہی کم لکھی گئی ہیں۔ اکثر اردو میں بالکل ابتدائی بچوں کے لیے ایسی نظمیں لکھی گئی ہیں جن میں اصوات کی تکر ار بچوں کے ذہن میں کھلونے والی آواز کی کیفیت پیدا کر تی ہے انہی میں سے ایک مشہور نظم ہے ’’ اٹکن بٹکن ‘

اٹکن بٹکن
دہی چھٹاکن
آلو بیگن
کھٹا چورن
گھنگرو باجے
چھن چھن چھن چھن
گھنٹہ بولا
ٹن ٹن ٹن ٹن
ہنستے گاتے
چنّن منّن

اس پور ی نظم میں وہ الفاظ ہیں جن سے ہمارے یہاں کے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ان میں وہ آوازیں ہیں جو ان کی کانوں کو اچھی لگتی ہیں۔ اس نظم میں ان الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو ان کے مزاج کو بہت ہی پسند ہوتے ہیں۔اس نظم میں تخلیق کا ر کا جو مقصد پوشیدہ ہے وہ بچوں کی دیگر نظموں سے بہت ہی مختلف ہے جن میں بچوں کے لیے اخلاق مقصود ہوتا ہے او اصلاح کا امر بھی پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن یہ خالص ترنمی نظم ہے جس میں کوئی پیغام نہیں ہے بچوں کو صرف خوبصورت آوازوں میں جکڑا گیا ہے اور ان کی زبان میں تکرار لفظ سے زبان کو صیقل کرنا ہے۔ اس کاتر جمہ اگر مقصود ہو تو ویسا ہی ترجمہ ہوگا جیسا کہ اوپر انگریزی سے اردو کا ہوا ہے۔اس میں الفاظ میں جو جھنکار اور کھنک ہے جو اس نظم کی جان ہے اس کو ترجمہ میں کس طر ح برقرار رکھا جائے گا ، پھر اس میں ’’گھنگر و باجے ،چھن چھن چھن چھن ‘‘ یہ مکمل ایک آواز کی شناخت ہے جیسے کوے ، بلی ، کتے اور مرغے کی آواز ہوتی ہے ،  تویہ سوال لازمی طور پر اٹھتا ہے کہ کیا آوازوں کا بھی ترجمہ ہوتا ہے ؟ ۔ 

الغرض وہ نظم جس کا تعلق صوتی کیفیت سے ہو اس کا تر جمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہمیں تو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے یہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں، لیکن ہماری زبان سے جس زبان میں ترجمہ کیا جار ہا ہے وہاں کے بچے کن آوازوں سے چہکتے ہیں ان کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ گویا یہاں لفظوں کا تر جمہ نہیں بلکہ ان لفظوں کی کھنک کا تر جمہ پیش کر نا مقصود ہوتا ہے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم جب بچوں کے لیے کسی دوسر ی زبان سے ترجمہ کر تے ہیں تو مناسب ہے کہ اسی طرز پر ہم تخلیقات کو پیش کریں۔ کیونکہ بچوں کو ہم فطری زبان سکھانا چاہتے ہیں نہ کہ وہ زبان جس میں ہلکی سی اجنبیت پائی جائے اور تاثیر کی تلاش میں ہم ناکام رہیں۔

تر جمہ کے معاملے میں اکثر دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نظم کے معاملے میں نثر کے تراجم آسان ہوتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو صنائع وبدائع کا دخل ہوتا ہے ،نہ ہی معنویاتی پیچیدگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی ردیف و قافیہ کی پابند ی بلکہ تخلیق کار سیدھی اورسلیس زبان میں لکھتا ہے تاکہ پیغام میں کسی قسم کی پریشانی نہ آئے، تو مترجم کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ مکمل حد تک یا کسی حدتک انہی معنوں کے لیے دوسری زبانوںکے لفظوں کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب ابتدائی جماعت میں دو حرفی ، سہ حرفی اور چہار حرفی لفظوں سے کہانیا ں بنائی جاتی ہیں تو اس میں متر جم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا درسیات کا ترجمہ ممکن ہے تو اس کا واضح جواب ہے کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کے اردو قاعدہ جیسی جو بھی کتابیں ہیں ان کا ترجمہ لاحاصل ہے بلکہ اس نہج کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

آخر میں علامہ اقبال کے ایک مصرع پر بات ختم کر نا چاہوں گا جو در اصل قرآ ن کی ایک آیت کا تر جمہ ہے ۔
’’نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلا نا مجھ کو ‘‘ یہ ’’اہدنا الصراط المستقیم‘‘ کا تر جمہ ہے جس میں صرف جمع متکلم کے صیغے کو واحد متکلم سے بدلا گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ علامہ اقبال باضابطہ مترجم نہیں تھے لیکن جب کو ئی فن کار کسی چیز کو اپنے فن میں پیش کر نے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں وہ خوبیاں در آتی ہیں جو شاید کسی پیشہ ور کے یہاں نہیں آسکتیں ۔ صر اط بمعنی راستہ کے اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن اہدنا کا ترجمہ ’’ مجھ کو چلا ‘‘ سے کیا گیا ہے جس میں بچوں کی کیفیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے اور بچوں کے شعور کے استعمال پر بھی زور نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نیک راہ پر چلنے کی ڈور کو خدا کے سپر د کر دیا گیا ہے جو کہ ایک کفیل اور گارجین کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ مستقیم کا معنی ہمیشہ سیدھا کے ہوتا ہے اور یہ راہ کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن علامہ کی تخلیقی قوت یہ ہے کہ انہوں نے اس کو نیک کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الغر ض تخلیق کار جب ترجمہ کر ے تو اس کے اندر تخلیقی صلاحیت کا کارفرما ہونا بھی ضروری ہے جو علامہ کے پیش کر دہ مصرع میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔

Tuesday 3 December 2019

غزل اور فن غزل

 غزل اور فن غزل


موجودہ وقت میں اردو کے کہنہ مشق استاد شعراء میںظہیر غازی پوری کا اہم نام ہے ۔ان کی شناخت جہاں ایک شاعر کے طور پر ہے وہیں غزل کے اہم ناقد کے طور پر اردو دنیا میں مقبول و معروف ہیں ۔ان کے قلم سے اکثر تحریریں شاعری کی فنی باریکیوںپر اس بے استادی کے دور میں پختہ و ناپختہ شاعر کو متوجہ اور متنبہ کر نے کے لیے معرض وجود میں آتی رہتی ہیں ۔گو کہ وہ اردو کے پروفیشنل نقاد نہیں ہیں لیکن ان سب کے درمیان ایک مستحکم نظر یہ پیش کرنے والے کی شناخت رکھتے ہیں ۔وہ اکثر اپنی تحریر کو بہت ہی چانچ پر کھ کے بعد قارئین کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔

مصنف کی زیر تبصرہ کتاب گیارہ عنوانات پر مشتمل ہے ۔سب سے پہلے’ جدید اردو غزل کا دوسرارخ ‘ میں جہاں وہ موجودہ غزل کی بہت ساری خوبیوں کو شمار کر واتے ہیں وہیں و ہ فنی طور  پر ناکام رہنے والوں پر بہت ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں ’’ در اصل جد ید غزل سے ان لوگوں کو زیادہ نقصان پہنچاہے جو شعری اور فنی تقاضوں سے پوری طر ح واقفیت نہیں رکھتے ‘‘،’’ آج ابہام کو ہنر سمجھا جانے لگا ہے۔ بات صر ف ابہام تک محدود ہوتی تو زیادہ خطر ہ نہ تھا لیکن اب تو قوافی ، اوزان ، تعقید ، اور اضافت کے معمولی معائب بھی جا بجا اشعار میں مل جا تے ہیں اور بے ساختہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (ص۱۹)۔

اس کے بعد’’ غزل ایک جانب دارصنف سخن ‘‘ میں غزل کے اوصاف وخصائص کو شمار کرواتے ہوئے اس کی بھر پور وکالت کرتے ہیں اور’’نیم وحشی صنف شاعر ی میں‘ ‘ کلیم الدین احمد کے اس قول کا منطقی و فلسفی جواب دیتے ہیں ۔اسی کڑی کو وہ آگے ’’ صنف غزل میں مسلسل یلغار ‘‘ میں بڑھاتے ہیں ۔اس میں وہ ستیہ پال آنند کے مضمون ’’ کہی گئی یا بنائی گئی شاعری‘‘ جو ماہنامہ صریر کراچی میں شائع ہوا تھا پر سیر حاصل گفتگو کر تے ہیں ۔اپنی اس گفتگو میں وہ افتخارامام صدیقی، عزیر پریہار، مخمور سعیدی، مصور سبزواری، پروفیسر محمد حسن ، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی ، رام لعل ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، برتپا ل سنگھ بیتاب ، جمیل فاطمی ،اندر موہن کیف وغیرہ کو ان کی تحریروں کے ساتھ شامل کر تے ہیں ۔اس پوری بحث میں جو بھی غزل میں یلغار کر تا ہے یا خواہش مند ہے اس کے لیے تسلی بخش جواب ہے ۔’’ نئی غزل میں تخلیقی لفظ و زبان ‘ ‘ پر بحث کر تے ہوئے مصنف نے لفظ و معنی اور موضوع پر بھی بحث کی ہے نیز موجودہ وقت کی شعری زبان کو ان عوامل کی باز گشت کہا ہے جو انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو کرید رہی ہے ۔عروضی و فنی معائب تحر یر کر تے ہوئے مصنف کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ جدید شاعروں میں اکثر یہ خامیاں کسی باریک بیں فن کار استاد شاعر سے تلمذ اختیار نہ کر نے اور مشورہ نہ لینے کی وجہ سے نظر آتی ہیں ۔ اس میں انہوں نے شعر کی جلی و خفی فنی کمیوں کو پیش کیا ہے جو اکثر عدم توجہی او رلا علمی میںشاعر سے سرزد ہوتی رہتی ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے جہاں کئی فنی خوبیوں اور کوتاہیوں کو بیان کیا ہے وہیں خصوصی طور پرایطا ء کا تفصیلی ذکر بھی ہے ۔ایطا ء جو شعر کی اصطلاح میں ایک غلطی کا نام ہے اس کی تفصیلی تعریف استاد شعر اء کی تحر یروں سے نقل کر تے ہیں پھر مصنف اس کی تمام فنی باریکیوں پر سیر حاصل بحث کر تے ہیں اور تمام بڑے شعراء کے کلام میں ایطائے جلی و خفی کو پاتے ہیں ۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایطا ء کو ئی بڑا عیب نہیں ہے ۔اس کے بعدردیف و قوافی کے مسائل بھی تحر یر کر تے ہیں ۔

اخیر میں’’ غزل چہر ہ آئینہ در آئینہ ‘‘کے عنوان سے غزل کی تمام پرتوں کو مشہور ناقدین شعر کے حوالے سے اپنے خیالا ت و نظر یات کو مزین کر کے پیش کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب سے پہلے ان کی تین کتابیں تنقید کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں ۔ان میں سے خصوصاً ’’مطالعہ ٔ اقبال کے چند اہم پہلو‘اپنے موضوع میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ شاعر ی میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، رباعی کا بھی ایک مجموعہ ’’دعوت صد نشتر ‘‘1997 میں منظر عام پر آیا ۔

 الغر ض کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ کی طویل محنت ومشقت اور جانفشانی کے بعد اس کتاب کو مارکیٹ میں لایا گیا ہے جو یقینا شاعروں اور غزل شناس حضرات کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ہمیں امید ہے کہ ادب کے اس بے لوث خدمت گار کو مالک حقیقی سے بہترین اجر ملیگا۔

مصنف : ظہیرؔ غازی پوری 
صفحات :  160
قیمت:  200 روپے
سنہ اشاعت: 2015
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔6
مبصر: امیر حمزہ L-11/14 حاجی کالونی ،غفار منزل ، جامعہ نگر ،نئی دہلی ۔25

امعان نظر

امعان نظر

بدری محمد کا شمارہ موجودہ وقت میں بہار کے ادبی صحافت میں عمدہ نثر نگار کی حیثیت سے ہوتاہے ۔صحافتی مضامین کے علاوہ ان کے تنقیدی ، ادبی و نیم ادبی مضامین رسالوں کی زینت بنتے رہے ہیں نیز گاہے بگاہے ان کے تخلیقی ذہن نے موزوں مصر عے بھی وضع کیے ہیں جس کااچھا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ۲۰۱۱ء؁ میں ایک غزل کا مجموعہ ’’ بنت فنون کا رشتہ ‘‘ شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کر چکا ہے ۔
زیر تبصر ہ کتاب مصنف کی دو سری کتاب ہے جو اپنی نوعیت میں اہمیت کی حامل ہے وہ اس طو ر پر کہ اب تک بہت ہی مشہور و غیر مشہور حضر ات کے تبصر ے کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، تا ہم ان میں تبصروں کا انتخاب اس طور پر نہیں جو انتخاب اس کتاب میں عمل میں لایا گیاہے ۔اس میں مصنف نے نہ کسی مصنف کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کسی ناقد کی کتاب پر ، نہ شاعر کے شعری تخلیق پر اور نہ ہی افسانہ نویس کے افسانوی مجموعے پر ، نہ ہی کسی مزاح نگار کے خاکہ و انشائیہ اور طنز و مزاح کے مضامین پر اور نہ ہی کسی ڈارمہ نگار کے ڈراموں پر، نہ ہی سوانح نگار کے حقیت بیانی پر اور نہ ہی کسی سیاح کے سفر نامہ پر بلکہ یہ تمام تبصر ے ملک کے مشہور و معرو ف مجلات کے خصوصی شماروں پر ہیں جس میں ملک کے اعلی وادنی قلم کاروں کی تحریریں شامل ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے ملک کے ۱۱؍اہم مجلات کے ۲۴؍ خصوصی شماروں پر کیے گئے ان تبصر وں کو شامل کیا ہے جو قومی تنظیم ، پندار، راشٹریہ سہارا، سنگم اور فاروقی تنظیم میں شائع ہوچکے ہیں ۔ یہ تمام تبصر ے نہ تو مختصر ہیں اور نہ ہی طویل بلکہ متوازن ہیں ۔

تبصر ہ در اصل تنقید کی ہی ایک شاخ ہے جس میں تبصرہ نگار محض اس کتاب کو موضوع بناتا ہے جس پر وہ تبصر ہ کر رہا ہے نیز اس کے مشتملات پر روشنی ڈالتا ہے اور  قارئین کے سامنے خوش اسلو بی سے پیش کر نے کی کوشش کر تاہے تاکہ قارئین کی توجہ اس کتاب کی جانب متوجہ ہو ۔ ایسے تبصر ے اکثر رسائل و جرائد میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔کچھ تبصرے ایسے ہوتے ہیں جو تقابلی ہوتے ہیں ۔ وہ اس طور پر کہ جس کتاب پر وہ تبصر ہ کر رہے ہیں اس موضوع سے متعلق دو سری کتابوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہے اور وہ اس چیز کو واضح کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ موجودہ کتاب ماقبل کی شائع شدہ کتابوں سے کس قدر مختلف ہے ، اس نئی کتاب میں کن کن نئی چیزوں کو شامل کیا گیاہے یا تخلیق میں کن کن نئی نظریات و مسائل کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تا ہم اس کتاب میں پہلے طر یقے کوہی اپنا یا گیا ہے ۔

اس کتاب میں زبان ادب ، ماہنامہ انشاء ، نیادور ، کتاب نما اور آج کل کے کئی نمبر وں کا تبصر ہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ مصنف نے کئی دیگر ماہنا موں و سہ ماہی مجلات کے مضامین کو بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد ان تمام مضامین کے اہم نکات کوتبصر ہ میں شامل کر کے اس مضمون کی وسعت و محدودیت پر گفتگو کی ہے ۔ان تمام میں وہ صرف توصیفی پہلو کو ہی سامنے نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان میں غیر پختگی اور ڈھیلے پن کی جانب بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں ۔جیسے حفیظ بنارسی نمبر پر لکھتے ہیں ’’ حفیظ بنارسی کو رسالے اور مشاعرے کا مقبول شاعر بتاتے ہوئے ان کے تر نم کی بار بار تعریف کی گئی ہے جب کہ تر نم شاعری کے لیے ضروری چیز نہیں ہے ۔اس سے شاعر سامع یا مشاعر ہ کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے شاعری کو نہیں ‘‘ ۔

اس میں شامل ایک اہم تبصر ہ ماہنامہ ’’ انشاء‘‘ کے گفتنی نمبر پر بھی ہے ۔ انشاء کا یہ نمبر ف س اعجاز کے اداریوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں انہوں نے ان کے اداریوں کی ستائش کی ہے ، وہیں اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ان سے بھی اچھے اداریے لکھنے والے موجود ہیں اور رہے ہیں ۔ وہیں دو سری جانب یہ بھی لکھا ہے کہ دوسرے صحافیوں کے لیے اس میں تر غیب ہے کہ اداریے معیاری ہونے چاہیے ۔ کئی تبصرے ایسے ہیں کہ مصنف نے کہیں کچھ چھپانے کے لیے رکھا ہی نہیں بلکہ اپنی شستہ انداز تحریر اور دلکش اسلوب بیان میں تمام نکات و کمیاں کو گنا تے چلے گئے ہیں ، اور یہ بھی نہیں کہ صر ف بڑے پائے کے قلم کار کو ہی زیا دہ پیش کر نے کی کو شش کی ہے بلکہ ریسر چ اسکالر کی تحریروں پر بھی اپنی رائے سے نوازا ہے ۔

اس کتاب میں انہوںنے جن معیاری مجلات کو تبصرے کے لیے انتخاب کیا ہے وہ ان کی تنقیدی ذوق کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ پھر تمام تبصر و ں میں اپنی ایک محکم رائے سے نوازنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مصنف موجودہ دور کے تخلیقی و تنقیدی تحر یروں سے کس قد ر واقف ہیں ۔الغر ض یہ کتاب تبصر ے کے حوالہ سے اہم کتاب ہے جو معلوماتی بھی ہے اور تبصرہ نگار ی میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ بھی ۔ امید ہے کہ مصنف کی اس کتاب سے لوگ استفادہ کریں گے اور علمی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی ۔

مصنف بدری محمد
صفحات ۱۵۲
قیمت ۲۵۱
سن اشاعت ۲۰۱۵
ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی 
مبصر امیر حمزہ ،ریسرچ اسکالر : شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ،دہلی 

شعرو نثر کی جمالیات

شعرو نثر کی جمالیات 


 کتاب کے اس نام سے آپ روشناس ہوئے تو فوراً آپ کے ذہن میں یہ بات گردش کرنی لگی ہوگی کہ یہ کتاب بھی ان ہی عناوین ، موضوعات اور نظر یات کا احاطہ کر رہی ہوگی۔ جو جمالیات کے عنوان پرلکھی گئیں پروفیسرشکیل الرحمان ، پروفیسر عتیق اللہ ، پروفیسر قاضی عبدالستار ، اصغر علی انجینئراور حقانی القاسمی وغیرہ کی کتابیں ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں آپ کو ۳۲ ؍ شعرا و نثر نگاروں کی تخلیقات پر محض تاثر اتی اور محاسن کومرکوز نظر رکھ کر لکھے گئے تجزیاتی وتاثراتی مضامین ملتے ہیں ۔جن میں سے چند مضامین کی نوعیت کے بارے میں بھی آپ کو متعارف کر اتا چلوں ، اس کتاب کا پہلا مضمون غالب کی یکجہتی کے تصورات پر ہے جس میں انہوں نے قاری کے اذہان میں ان کی شاعری اور زندگی کے حوالے سے یہ سامنے لانے کی عمدہ کوشش کی ہے کہ غالب نے خود کو تمام رسوم وقیود سے آزاد رکھ کر انسانی فطرت کی زندگی کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے اور اسے جیا بھی ہے ۔ساتھ ہی مصنف نے ایک بہت ہی دلچسپ بات لکھی ہے جس پر شاید ہر قاری ضرور کچھ نہ کچھ سوچ کر اپنی رائے قائم کر ے گا۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اپنی تمام تر عظمت و بر گزیدگی کے باوجود بہ ہر حال یک رنگ شاعر ہیں ۔… جبکہ غالب کے ہاں ہمیں عشق بھی ملتا ہے ، در د کوشی بھی اور اپنی حالت زار نشاط نچوڑ لینے کا حوصلہ بھی ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں ، جو غالب کو ایک آفاقی شاعر بنادیتی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد دومضامین میر و غالب کے ہمعصر’ شمس گلاؤٹھوی ‘اور شاگرد دا غ ’سردار بہادر فریاد‘ کی شاعری پر ہے ۔ یہ دونوں اردو کے اہم ادوار میں اپنی شاعری کرتے ہیں لیکن بعد کے عام قارئین و طلبا کے لیے نہ ہی ان کا نام سامنے آتا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری ،جس کو مصنف نے محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اب شعری محاسن کے بعد پر یم چند کی نثر کی جانب آتے ہیں جہاں وہ ان کے فکشن کے محاسن کے بعد ’ پوس کی رات ‘ پر گفتگو کر تے ہیں ۔ کتاب کا یہاں تک سفر کر نے کے بعد واپس ابتدائیہ کی جانب لوٹتے ہیں جہاں ’’ سخنے چند ‘‘ کے عنوان کے تحت شاہ اجمل فاروق ندوی مصنف کے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ کو ان کے ہاں ہر دور کے فن کار وں پر تنقیدی مضامین ملیں گے ۔ غالب و مصحفی سے لے کر معاصر فن کا روں تک ، انہوں نے ہر اس فن کا ر کے فن پر گفتگو کی ہے ، جس کو کسی بھی ناحیے سے انہوں نے لائق اعتنا سمجھا ۔ ان کی تنقید کا ایسا نمایاں وصف ہے جو ہماری آج کی تنقید میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ‘‘ اس کو نقل کر نے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس میں تین دعوے کیے گئے ہیں ، پہلے تو ’’ ہر دور ‘‘ کا ذکر کیا پھر اس کوغالب و مصحفی سے ہمعصر تک میں خاص کردیا گیا ۔ دوسر ا جس نے بھی کچھ خاص لکھا تنقید کی، اسی کا اضافی جزو ہے کہ ایسا آج کے دور میں عموما ً نہیں کرتے ہیں ۔یقینا یہ تینوں باتیں ان کی اس کتاب میں مکمل طور پر صادق آتی ہیں ،کیونکہ ناقدین عموماً جگر پر لکھتے ہیں لیکن مانی جائسی اور مولانا محمد احمدپرتاب گڑھی کی شاعری پر کون لکھتا ہے ؟ مودودی کی نثر اور فیض کی شاعری پر مضامین آپ کی نظر سے ضرور گزریں گے، لیکن شرافت حسین رحیم آبادی کا ادب اطفال ، متین طارق کی اصلاحی شاعری اور حفیظ میرٹھی کا انقلابی رنگ کاغذوں میں کہاں جھلکتا ہے ۔اقبال کے رنگ میں شاعری کرنے والوں کی فہرست بہت ہی لمبی ہے لیکن مقالات میں پانچ سے دس پر ہی بس کردیا جاتا ہے تو ایسے میں اقبال کے پیرو کار عمر فاروق عاصم عثمانی کیسے سامنے آسکتے ہیں، جن پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے ۔بہت ہی کم ایسے جدید اورموجودہ شاعر ہیں جن کی شاعری پر کچھ لکھا جاتا ہو سوائے ان کے شعری مجموعوں پر تبصرے کے ۔تو یہ طلسم بھی ان کے یہاں ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ ان کے یہاںشجاع خاور، پروفیسر وسیم بریلوی اور ڈاکٹر نواز دیوبندی ہیں تو ساتھ ہی تو بہت ہی زیادہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مہدی پر تاب گڑھی او ر وقار مانوی بھی ہیں ۔انہوں نے جہاں اسلام فیصل کے دوہوں پر لکھا ہے وہیں طرب ضیائی کی رباعیوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ الغر ض جو دعوے ’’سخنے چند‘‘ کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے اس پر عمل بھی نظر آتا ہے ۔عموماً زبانی طور پر ہر ادیب دعویٰ کر تا ہے کہ ہم گروہ بندی کے قائل نہیں ہیں ایسا ہی دعویٰ کچھ ان کی طرف سے بھی کیا گیا ہے اس لیے شاید انہوں نے شاید شاعروں کی شہر ت و اہمیت کا خیال کیے بغیر ان کی اہمیت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ادب کے قاری اور ہم طلبا کے لیے ایک قابل غور دعویٰ یہ ہے کہ ’’ تابش مہدی اہل فن کے محاسن کو ابھارنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ موجودہ دور میں جب کہ کیڑے نکالنے ، ٹانگ گھسیٹنے اور خورد بین سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کمیاں نکالنے کا نام تنقید پڑگیا ہے ، ایسے ماحول میں ڈاکٹر تابش مہدی کا تحسین آمیز یہ تنقیدی رویہ مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ۔ ‘‘ یہ بھی اس کتاب میں بجاہے کیونکہ کسی بھی معاصر کے فن کی کمیوں پر ایک حر ف بھی نہیں سوائے پہلے مضمون کے جس میں غالب کو آفاقی اور میر تقی میر کو یک رنگی شاعر کہا گیا ہے ۔

مصنف تابش مہدی 
صفحات ۲۸۸ 
قیمت ۳۰۰ روپے
سنۂ اشاعت ۲۰۱۹ء
ناشر ادبیات عالیہ اکادمی ،G5/A ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی 
 تبصر ہ نگار امیر حمزہ 
L11/14 حاجی کالونی ، جامعہ نگر اوکھلا 

Thursday 28 November 2019

شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


تر ویج باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی رواج دینے کے ہوتے ہیں اور تر سیل بھی اسی باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی پہنچانے کے ہوتے ہیں ۔ معانی مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اطلاق الگ الگ ہوتا ہے ، البتہ اکثر مقامات پر تر سیل تر ویج کے بعدردعمل کے طور پر نظر آتا ہے۔ ترویج جہاں اپنے معانی میں بسیط ہے وہیں تر سیل اپنے معنی میں یک گونہ محیط نظر آتا ہے ۔کسی چیز کو رواج دینا حکومت ، جماعت اور تنظیموں سے لیکر ایک فرد کی جانب سے بھی نظر آتا ہے ، اور اس کے دائرے میں نامعلوم افراد ہوتے ہیں ۔ رواج دینے والے جماعت کو اس چیز کا علم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے اس مشن سے کون کو ن لوگ جڑ رہے ہیں اور ہمارا یہ پیغام کہاں کہاں تک پہنچ رہا ہے ۔مثلا حکومت کا صرف یہ اسٹیٹمنٹ کہ اردو زبان اس ملک کی بالکل جدید تر ین زبان ہے اور رابطہ کی زبان کے طور پر اسے ہم خوب استعمال کر سکتے ہیں ۔حکومت کا یہ اسٹیٹمنٹ محض ترویج کے دائرہ میں آئے گا ۔اب وہ اس کی تر سیل کے طور پر اسکو لوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری اور کور س کے نفاذ کے لیے لائحہ عمل تیار کرے گا یہ تر سیل کے عمل کی جانب پہلا قدم ہوگا ، جب کلاس روم میں طلبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اردو زبان سیکھیں گے تو یہ ترسیل ہوگا ۔ترسیل کا تعلق مر سل سے مر سل الہیم تک ہوتا ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مر سل کلاس روم کا استاد ہی ہو۔ مر سل کے طور پر ہر وہ شخص یا ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو سیکھ رہا ہے ۔ اور تر ویج میں ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو کی جانب مائل ہورہا ہے ۔
عہد سر سید سے ہی اردو کچھ سیاسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے نشتر بن کر چبھنے لگا تھا اور وہ سلسلہ اب تک جاری ہے جس کا مرثیہ تقریبا ہم ہر محفل میں پڑھتے ہیں ۔لیکن اردو نے کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا البتہ کہیں ٹھہری ضرور ہے جیسے آزادی کے وقت اور ستر کی دہائی میں لیکن پھر بھی وہ اپنا قدم شوق والو ں کے ساتھ جاری رکھی اور اب تک جاری ہے ۔
موجودہ زمانے میں زبان کی ترویج و تر سیل کے بنیادی مراکزتعلیمی ادارے ، سر کاری دفاتر ، تجارتی مراکز، صحافت ، کارپورریٹ سیکٹر اور ان سب سے بالا تر سوشل میڈیا ہے ۔
زبان کے پھلنے اور پھولنے کی سب سے بڑ ی جگہ تعلیمی مراکز ہوتے ہیں شمالی ہندمیں اردو میڈیم کے تعلیمی مراکز ہزاروں کی تعداد میں ہیں جہاں سے موجودہ وقت میں لاکھوں اردو لکھنے اور پڑھنے والے تیار ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی تک پہنچ کر اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں جس سے اردو کا گمشدہ ماحول کچھ حد تک بحال ہوا ہے ۔ اس متعلق سب سے پہلے ہم دارالحکومت دہلی کا تجزیہ پیش کر تے ہیں ۔

دہلی

دہلی میں مسلم اکثریتی علاقہ صرف اور صر ف تین ہیں اور ان ہی علاقوں میں اردو میڈیم اسکولیں ہیں جن کی تعداد بہت ہی کم ہے البتہ ٹوٹل1024 اسکولوں میں سے صرف 256 اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ یہ وہ اسکول ہیں جو دلی ڈائرکٹوریٹ سے وابستہ ہیں ۔ لیکن اس کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میںایسے بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکو ل ہیں جہاں مستقل اردو کی تعلیم ضمنی طور پر دی جاتی ہے ۔اس طر یقہ سے ہزاورں بچے ہیں جو سندی طور پر اردو پڑھتے ہیں ۔

دہلی میں اردو کے اتنے کثیر مواقع ہیں کہ مختلف الصفات حامل اردوداں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اس پیش نظر وہاں اردو کی جانب رغبت دیگر علاقائی زبانوں سے زیادہ نظر آتی ہے ۔اس کا اثر خاص طور سے ہمیں jnu اور DU میں نظر آتا ہے ۔جامعہ میں اس وجہ سے نہیں کہ وہاں اردو لازم ہے ۔ 

صرف دہلی یونی ور سٹی میں تقریبا ایک ہزرا طلبہ شعبہ اردو سے منسلک ہیں ۔200 ریسر چ میں ،120 ماسٹر میں 60 پی جی ڈپلوما میں ، اور 600 سے زائد بچے ڈپلومہ میں ہیں ۔یہ تعدا د چار سار پہلے صر ف اور صر ف 400 تک تھی ۔ا ن کے علاوہ دہلی یو نی ورسٹی سے منسلک 80 کا لج میں اردو کی تعلیم کی کیا صورت حال ہے وہ بالکل اس سے الگ ہے ۔ڈپلو ما میں جو طلبہ آتے ہیں اس میں نوے فیصد غیر مسلم طلبہ ہوتے ہیں جو بہت ہی شوق سے اردو سیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔

اس ڈپلومہ سے بظاہر ان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک سر ٹیفکیٹ مل جاتاہے اور مہنگے مواصلاتی نظام میں ان کو بہت ہی زیادہ رخصت مل جاتی ہے جو اک اعتبار سے وہ اس کورس سے اچھا خاصہ پیسے کی بچت کر لیتے ہیں ۔دہلی میں جو بھی فردکالج سوسائٹی کو تر ک نہیں کر نا چاہتا ہے اس کے اند ر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ خود کو کسی نہ کسی کورس سے ہمیشہ وابستہ رکھتا ہے ۔ اس صورت میں جہاں تمام زبانوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہیں اردو سب سے مر غوب ہونے کی وجہ سے اپنے پر وں کو زیادہ پھیلا لیتا ہے ۔

اعلی تعلیمی درجات میں زبانوں کی تر ویج کے لیے دہلی یونی ورسٹی نے ایک انوکھی پالیسی بنائی جو اردو کے لیے بہت ہی زیادہ سود مند ثابت ہورہی ہے ۔ وہ اس طور پر کہ پہلے یوں ہو تا تھا کہ ایم اے کی سطح پر عر بی یا فارسی میں سے کوئی ایک مضمون اردو والے اختیار کر تے تھے ۔دیگر ڈپارٹمنٹ کا تو علم نہیں ۔ لیکن اب یہ ہوا کہ آرٹس فیکلٹی میں جتنے بھی کو رسس ہیں وہ بلا کسی شر ط کے انہیں کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہو ناہے جہاں آپ کو اپنے مضمون کے علاوہ کوئی دوسرا مضمو ن پڑھنا ہوگا اس سے اردو کو یہ فائدہ ہو ا کہ ہندی ، انگریزی ، سنسکرت ، بدھسٹ ، پنجابی، فرنچ اور اسپینش کے بچے اردو کی جانب بخوبی راغب ہوے ۔اور اردو اپنے روایتی حلقہ سے غیر روایتی حلقوں میں پڑھی جانے لگی ۔تر ویج کچھ بھی ہو البتہ تر سیل عمل میں آگئی ۔جامعہ میں یوں ہوا کہ جن بچو ں کا 10th یا +2 میں اردو نہیں تھا ان کے لیے ابتدائی اردو لازم کر دی گئی وہ پہلے دو سال کا ہوتا تھا اب صر ف ایک ہی سال کا محدود کر دیا گیا اور پہلے کی طر ح اصل مضمون کے ساتھ اس کا نمبر بھی نہیں جڑتا ہے۔ جے این یو میں یہی صورت حال گر یجویشن کی سطح پر پائی جاتی ہے جہاں غیر روایتی بچے اردو سیکھنے کے لیے ایک معتد بہ تعداد میں نظر آتے ہیں ۔پھر یہی بچے سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کر کے اپنی صلاحیت میں اضافہ کر تے ہیں او ر یہ ا ن کے لیے سو ہان روح اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ جر نلز م کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو اس میں ان کے لیے معاون اور مدد گار ہوتا ہے ۔

دہلی میں ایف ایم ریڈیو سننے کا کلچر بہت ہی عام ہے ، اور اس کی عام زبان بہار و یوپی کی طر ح ہندی متاثر زبان نہیں ہے بلکہ اردو کا سلیس استعمال ہے اور کوئی بھی ایسا ریڈیو جاکی نہیں ہوگا جو شاعری سے اپنے پرو گرا م کو خوبصورت نہیں بنا تا ہوگا ۔کیونکہ غائب سامعین کو خود کی جانب متوجہ کر نا میٹھی زبان اور شاعری سے ہی ہوتی ہے ۔ نوجوانوںکو اردو ماحول کی جانب راغب کر نے میں اردو ریڈیوکا خا صہ کر دار ہے ۔کوئی بھی ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے جو خالص اردو میں کوئی نہ کوئی اپنا پروگرام نہ پیش کر تا ہو گا ، سر کار ی کے علاوہ پروائیویٹ اسٹیشنوں میں ریڈیو مر چی کا خصوصی ذکر کر نا مناسب ہوگا کیوں کہ انہوں نے اپنے خصوصی پروگر ام میں منٹو کو اہم مقام دیا اور ”ایک پرانی کہانی سعادت حسن منٹو“ کی سریز پیش کی جس کی ایک کہانی کو ہندی ٹی وی جرنلزم کے جانے مانے جرنلسٹ رویش کمار نے بھی پیش کیا تھا ۔ ایف ایم ریڈیو میں اردو شاعری کو اچھے انداز میں بارہا پیش کرنے کا سہرا آرجے سائمہ کے سر جاتا ہے انہوں نے ہی منٹو کی کہانیوں کو اپنی آواز میں پیش کیا جس کا اثر یہ نظر آیا کہ گذشتہ بک فیر میں چیتن بھگت اپنی جگہ پر لیکن سب زیادہ جن کی کہانیوں کی مانگ تھی وہ منٹو کی کہانیا ں تھیں ۔

گزشتہ تین برسو ں میں دہلی میں بڑے بڑے اردو کے میلے لگے جن میں سب سے نمایا ں جشن ریختہ ہے ۔ جشن ریختہ کی جو تھیم رہی ہے وہ یہ رہی کہ انہوں نے اردو سے منسلک آرٹسٹوں کو نمایاں جگہ دیا اور وہ یو تھ کے لیے سب سے زیا دہ جاذب رہا ۔۵۱۰۲ میں جب ضیاءمحی الدین جیسے بڑے ادا کار تشریف لائے تھے اس میلہ میں ۰۸ فیصد غیر روایتی اردو سے محبت رکھنے والے طبقہ کو دیکھ کر دل کو یہ احسا س ہوا کہ ذوق شوق کسی طور پر بھی غیر روایتی اردو داں طبقہ میں ارد و سے محبت کے تئیں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔بس ضر ورت ہے تو اس کے تر ویج کی، جو اس وقت نظر آئی اور یہ تر ویج کا بہت بڑا پلیٹ فار م ہے۔ پھر اس طر ز کے کئی پروگرام ہوئے جس میں سے ایک جشن ادب ہے جو سال میں دو مرتبہ ہوتا ہے یہ آج کل جامعہ ہمدرد میں منعقد ہوتا ہے اور ساہتیہ آج تک بھی ہے جس میں اردو کو بھی ایک گوشہ ملا اور اردو کے فن کار اس میں شر یک ہوئے اور وہاں سے اردو کی تر ویج غیر اردو دا طبقہ میں نظر آئی ۔

اتر پردیش 

سرکاری اعداو شمار کے مطابق اتر پردیش کی اردو آبادی تقریبا دو کروڑ پر مشتمل ہے اور اردوپر ستم ظریفی یہ ہے کہ اتر پردیش میں ہائی اسکول کا امتحان اردو سے شاید ہی آزادی کے بعد کسی نے نہیں دیا ہو۔ البتہ جو نئیر ہائی اسکو ل کا امتحان دینے کا انتظام موجو تھا مگر اردو میڈیم سے جونیئر ہائی اسکو ل کے امتحانات دینے والوں کی تعداد تقریبا صفر رہی ہے ۔ گویا حکومتی سطح پر وہاں اردو سے امتحان دینے کی طر ف کوئی بھی توجہ نہیں ہے۔ یہاں پر ایک اقتباس اطہر فاروقی کا نقل کر نا مناسب ہوگا ” در اصل جسے اردو ذریعہ تعلیم کہا جاتاہے ، اتر پر دیش کے عام اردو داں حضر ات تو دور خود اساتذہ کے ذہن میں اس کا انتہائی مجہول تصور ہے ، جو اسکول اردو کے ذریعہ جونیئر اسکو ل کا امتحان دلا تے تھے وہ ہندی کی نصابی کتب ہی کے ذریعہ ہی در س دیتے تھے اور اردو کی تعلیم آج بھی صرف ایک اختیاری مضمون کی ہے ۔ اتر پردیش میں نہ تو اردو ذریعہ تعلیم کی کتب موجود ہیں اور نہ ہی اردو کے ذریعہ دیگر مضامین کا در س دینے کی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ “ ۔ یہ ہوئی ان کی بات ۔ تو کیا اردو معدوم ہوگئی اتر پردیش میں ۔ ہاں یہ یقینی بات ہے کہ اردو میڈیم اسکول وہاں نہیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی دنیا کی بڑی اردو آبادی وہا ں موجود ہے ۔ مشر قی یوپی میں تقر یباً ہر مدرسہ میں پر ائمر ی اسکو ل کا راواج ہے جن کا الحاق نیم سر کاری مسلم اداروں سے ہے یا الہ آباد بورڈ یا عربی فارسی مدرسہ بورڈ سے ہے ۔ جب عر بی فارسی مدرسہ بورڈبنا تو ہزاروں کی تعداد میں ارد وکالج بشکل مدرسہ اس سے ملحق ہوئے ۔ اور پرائمری اور جونیر سکینڈری اسکول وجود میں آئے ۔ پرائمری اسکول میں پانچو یں کلاس تک ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو ہی ہوتی ہے کچھ چھٹی کلاس سے بدل لیتے ہیں اور ہندی ذریعہ تعلیم رکھتے ہیں کیونکہ اساتذہ ہند ی کے ہوتے ہیں اور شاید و بایدہی کوئی ادارہ ہوگا جو اردو ذریعہ تعلیم رکھتا ہوگا۔ پانچویں کلاس کے بعد بچوں کے سامنے تین راہیں کھلتی ہیں دو مدرسہ (حفظ و فارسی ) کی اور ایک اسکول کی ۔ جو طلبہ اسکول چلے جاتے ہیں ان کی اردو تعلیم وہیں منقطع ہوجاتی ہے اور مدرسہ جانے والے صر ف ماحول کی وجہ سے اردو سے جڑے رہتے ہیں ۔ مغربی یوپی کی صورت حال بالکل الگ ہے شہر کے جو مسلم نیم سرکاری ادارے ہیں وہاں تو اردو بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ پورے مغر بی یوپی کے دیہی علاقوں میں کہیں بھی اردو کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی اس علاقہ کی زبان اردو ہے اور ہر مسلم بچہ اردو جانتا ہے وہ اسطر ح کے مغربی یوپی کے ہر مسلم آبادی میں مدرسے موجود ہیں جہاں اردو کی تعلیم کسی بھی مضمون میں نہیں دی جاتی ہے صر ف تعلیم الاسلا م اور دینی تعلیم کا رسالہ ہی پڑھایا جاتا ہے ۔اب سر کاری سطح پر پیچیدگیا ںکیا پیدا ہوتی ہے وہ دیکھیے ۔ وہ سمپل سی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی سر کاری تعلیمی ادارے میں بطور اردو طالب علم کے رجسٹر ڈ نہیں ہورہے ۔ گویا سرکاری سطح پر اردو سیکھنے والو ں کی تعداد صفر ہی ہے ( مولوی ،ادیب ، کامل ، گریجویشن اور ماسٹر س کو چھوڑ کر ) 

بہار 

بہار ہندوستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کی حالت شمالی ہند میں اطمینان بخش ہے ۔ جب اردو کی حالت بہتر ہے تو اردو ذریعہ تعلیم کی حالت بھی بہتر ہے ۔بہار میں اردو کی تر قی کی اہم وجہ متوسط طبقہ کا جذباتی حد تک اردو سے لگاو ¿ اور دینی مدارس میں ان کے بچو ں کو دی جانے والی ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم بزبان اردو ہی ہے ۔ بہار میں چونکہ کوئی علاقائی زبان اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے حصول کا جزوی ذریعہ بن سکے اس لیے وہاں مسلمانوں کا ایک اپنی زبان کے حساب سے اردو زبان مظبوط زبان بنی ہوئی ہے ۔

بہار میں تقریبا ً پچاس ہزرا سے زائد طلبہ جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعہ دیتے ہیں ۔ بہار میں ۳۲۱ ایسے کالج ہیں جن میں اردو تعلیم کا نظم و نسق موجود ہے اور پچاس ہائی اسکول ایسے ہیں جو اردو کو ذریعہ تعلیم میں فوقیت دیتے ہیں ۔ بہار میں اردو کی تر قی میں اہم رو ل وہاں کے مدارس نے دیا ہے ۔ بہار حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اسناد کو بہار میں دوسرے رجسٹرڈ اداروں اور یونیو رسٹیوں کے ڈگریوں کے مساوی تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ بہار ہی نہیں بلکہ دلی کی تینوں بڑی یونیورسٹیوں میں ان کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر بہار میں اردوزبان کی صورت حال بہتر ہے لیکن بد نظمی کی شکار ضرور ہے ۔ ادب کی صور تحال بھی دو سرے صوبو ں سے قدرے بہتر ہے ۔
تقریبا یہی صورت حال جھارکھنڈ کی ہے لیکن اردو اساتذہ کی عدم تقرری اس میں مستقل گر اوٹ کا سبب بن رہی ہے ۔

مغر بی بنگال 

اردو کی تر ویج کے بہت ہی زیادہ امکانا ت مغر بی بنگال میں ہیں ۔ وہاں ابتدائی تعلیم کے متعلق حکومت کی اصولی پالیسی یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم صرف مادری زبان میں ہوگی ۔اسی مقصد کے پیش نظر وہاں سر کاری اداروں میں تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے اور اقلیتی فر قوں کے اداروں کو بھی اسی بنیاد پر وہاں پر رجسٹر ڈ کیا جاتا ہے ۔مغربی بنگال میں اردو ذریعہ تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ اردو آبادی کی موجو تعداد کے مناسبت سے اسکو لوں کا نہ ہونا ہے ۔کئی مقامات پر تو دس سے بیس ہزار کی آبادی میں بھی صرف ایک اسکو ل موجود ہے ۔سر کار کی پالیسی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے اسکول کے رجسٹریشن کی بنیاد آبادی کی تعداد کو نہیں بناتی اور تمام اقلیتی فرقوں کو ایک ہی تناسب میں پر ائمری اسکولوں کی سہولت دیتی ہے ۔ اس کا فائدہ عیسائی اور دوسرے چھوٹے اقلیتی فر قوں کو بہت زیادہ ہوتاہے اور مسلم نہ صرف گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ ان کے اور دوسرے اقلیتوں کے درمیان ترقی اور تنزلی کا فرق بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

مغربی بنگال میں مہاجر اردو طبقہ آسنسول ، کولکاتہ ، بردوان اور جلپائی گوڑی میں آباد ہے ۔ مخلوط اردو آبادی ، مرشدآباد ، مالدہ، ۴۲پرگنہ ، کٹوا، بیربھوم ، پرولیا اور عظیم گنج وغیرہ میں ہیں ان تمام مقامات میں اردو آبادی کے ساتھ اردو اسکولس بھی موجود ہیں مگر وہ کسی صورت بھی آبادی کا احاطہ نہیں کر پارہے ہیں۔ ارد و کے فروغ میں وہاں سب سے بڑی رکاوٹ اردو ماحول اور اردو کلچر کا نہ ہونا ہے ، وہاں بھی اردو کا فر وغ مذہبی لٹریچراور مذہبی اداروں سے زیادہ ہے ، بنگال میں ایک ایساطبقہ بھی ہے جو صر ف اردو بولتی ہے لیکن تعلیم و تعلم کار واج اردو میں نہیں ہے یہ تعداد بہت ہی زیادہ ہے ،وہاں بس ایک رہنما کی ضرورت ہے جس سے طبقہ مکمل اردو سے روشناس ہوسکتے ہیں ۔ وہاں اردو ثقافتی پروگرام کی بہت ہی ضرورت ہے جو اردو کی تر ویج ترسیل میں بہت ہی زیادہ معاون و مددگار ہوگا ۔

کچھ ایسے ہی حالات اڑیسہ کے بھی ہیں البتہ وہاںبھی اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن تر ویج و تر سیل کے حالات و اسباب مفقود ہیں

تر سیل کے امکانا ت ضر ور پیدا ہو نگے پہلے تر ویج کے امکانات پیدا کر نے ہوںگے ۔ اس کے لیے ہمیں خو د بیدا ر ہو نا ہوگا اور جو غیر سر کاری ادارے NGO تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان سب کو اس پر دھیان دینے کی ضر ورت ہے ۔ اسکو ل میں داخلہ کے وقت ہی تمام والدین کو یہ بتا نا ہوگا کہ آپ کے بچے کے لیے ارد و کا نظم و نسق سر کار کی جانب سے موجودہے اور جن اسکو لوں میں تھرڈ لینگویج کا خانہ ہے وہاں ان کے لیے اردو ہی فِل کر وائیں ۔

سب بڑی پر یشا نی اس وقت پیدا ہوتی ہے جہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے ۔ یہ وہی وقت ہے جب طلبہ پانچویں کلاس کے بعد اردو ماحول سے غیر اردو ماحول میں پہنچتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ وہ اردو سے اجنبی بنتا چلا جاتاہے اس دور ا ن وہ خود کو کیسے اردو کے دھارے سے باندھے رکھے اس کے لے غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سوائے ایک یو نی ورسٹی کے کوئی بھی ہندو ستان کی یونی ورسٹی نہیں ہے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہو ۔ ہم اردو کے لیے اکثر مولوی صاحبان اور مسجدو مدرسہ پر موقوف ہوتے ہیں گھر میں کم ازکم کچھ بھی ماحول اردو کا ملے تو وہ اردو کی جانب راغب ہوں ۔ اب پھر ترویج و تر سیل کی جانب لوٹتے ہیں تر ویج کے معنی شوق پیدا کر نا یا شو ق کی جانب رغبت دلانا اور تر سیل کا معنی ان کے شوق کو پورا کر نا ہے 

اردو کا قاری کہتا ہے : مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
 اردو کہتی ہے : وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی ایک بات اچھی ہے مرے ہر جائی کی 

Sunday 20 October 2019

حروف تہجی ، ایک آسان سوال کا مشکل جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم  

حروف تہجی ، ایک آسان سوال کا مشکل جواب 


تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس نے تمام انسا نوں کی روح کو یکساں اور اشکال کو مختلف بنایا ۔ اسی طر ح سے تمام انسانوں کو نطق کی صلاحیت سے نوازا اورہر ایک کی آواز اور لہجے کو مختلف کیا ۔ 

دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں سب کی اہمیت مسلم ہے لیکن سب زبانیں مضبوط و مستحکم نہیں ۔زبانوں کے استحکام کے کئی اسباب ہوتے ہیں ان میں سے ایک سبب گرامربھی ہے ۔جو زبانوں کو حسن و خوبصورتی کے سانچے میں سموئے رکھتا ہے اور خارجی و داخلی خرابیوں سے مدافعت کی بھر پور قوت عطا کرتا ہے ۔قواعد یا گرا مر لکھی ہی جاتی ہے اس لیے کہ زبان کو حسن کی لڑی میں پرو کر بکھرنے سے روکا جائے ۔

مولوی عبدالحق کے جہاں دیگر کارنامے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں وہیں ان کا ’’قواعد اردو ‘‘ اردو دنیا کے ہر گوشے میں  طلبہ و اساتذہ کے لیے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے ۔

مولوی عبدالحق کی یہ کتاب چار فصول اور ایک تحقیقی مقدمہ پر مشتمل ہے ۔مقدمہ میں انہوں نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’ ایک زندہ زبان کے لیے قواعد کی چندا ں ضرورت نہیں ‘‘۔اب یہاں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندہ زبان کہتے کسے ہیں ۔میر ے خیال میں زندہ کہتے ہی اسے ہیں جس میں مستقل حذف و اضافہ کا عمل جاری رہے اور جب اضافہ کا عمل جاری ہوگا تو لا محالہ وہ اپنا دائرہ ٔکار میں اضافہ کر تا رہے گا اور جب وہ اپنی وسعت میں ناہموار زمینوں کو سر کرے گا تو اس کو اس ناہمواری میں اپنا تشخص قائم رکھنے کے لیے اصول کی ضرورت محسوس ہوگی ۔ تاکہ وہ ہر ماحول اور ہر زمانے میں خود کو مجروح ہونے سے بچائے رکھے ۔

کوئی بھی زبان اپنا تشخص کن چیز وں سے بر قرارر کھتی ہے ، اسماء ، افعال یا حر وف سے یا تمام سے ؟۔ آپ کی رائے ہوگی شاید سبھی سے۔ اس سے متعلق مولوی عبدالحق لکھتے ہیں ’’ محض غیر زبانوں کے اسماء و صفات کے اضافے سے اس کے ہندی ہونے میں مطلق فر ق نہیں آسکتا ۔ مثلا آج کل بہت سے انگر یزی لفظ داخل ہوتے جاتے ہیں ۔ لیکن اس سے زبان کی اصلیت و ماہیت پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا ‘‘ (ص ۹) یہ ایک تجر باتی عمل ہے اور ہماری زبان میں یہ تجر بہ ہوچکا ہے ۔ آپ اس کیفیت کو پہلے دور میں جعفر زٹلی اور دوسرے دو ر میں اکبر الہ آبادی کے یہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ دو نوں کے یہاں یہ تجر بے طنز کے دائرے میں سامنے آتے ہیں ۔ اگر یہی معاملہ آپ کو سنجیدہ تحر یر میں دیکھنے کو ملے تو سمجھ جائیے کہ زبان نے کر وٹ لینا شروع کردی ہے اور جلدہی اور ایک نئی زبان آپ کے دامن میں ’’ اردش ‘‘ کی شکل میں آنے والی ہے ۔اس لیے یہ ایک سنجیدہ امر ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت ہے ، نصاب سے لیکر صحافت تک ۔

نحو کی ابتدا کیونکر ہوئی اور اس فن کے ابتدائی افراد کو ن ہیں اس پر ہلکی سی روشنی ڈالنے کے بعد اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہماری اس کتاب سے پہلے اردو گرامر میں کن لوگوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ جن میں جان شوا کٹلر۱۷۱۲۔۱۷۰۸ء سے لے کر مولوی امام بخش صہبائی دہلوی تک کی کتابوں کو شمار کیا گیا ہے ۔گو کہ وہ تمام کتابیں چلن میں نہیں ہیں اور آرکائیز کا حصہ بن چکی ہیں ۔سوائے انشاء اللہ خاں انشاء کی ’’ دریائے لطافت ‘‘ کے جسے تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔

سابق میں اردو گرامر پر درجن بھر کتابیں موجود ہونے کے باوجود مولوی عبدا لحق کو کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اس سے متعلق انہوں نے دو باتیں تحریر کی ہیں۔ ایک یہ کہ اردو زبا ن کا دائرہ وسیع ہوگیا ،غیراردو داں طبقہ بھی اس زبان کو خوب سیکھ رہے ہیں۔ دوسری یہ کہ اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں سب فارسی اور عربی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں ۔ اس لیے میں نے یہ تحریر کر نے کا ارادہ کیا ۔ آگے مزید لکھتے ہیں کہ ’’ اردو زبان کی صرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طر ح بھی جائز نہیں ۔ کیو نکہ عربی سامی النسل ہے اور اردو آریائی ‘‘ (۲۱) مولوی عبدالحق کی اس کتاب اور اس اسٹیٹمنٹ کو سو سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک آریائی زبان کے مماثل گرامر اردو کو مل نہیں سکا ۔ اگر اس مر وجہ ڈگر سے ہٹنے کی کوشش کی بھی گئی تو انگریزیت کے مرید ہوگئے ۔ یا پھر اس کو آسان شکل میں پیش کر نے کے نام پر مزید پیچیدہ کتاب اس فن پر منظر عام پر آئی جیسے ( عصمت جاوید کی ’’ نئی اردو قواعد‘‘ )آخر ہم کس طور پر اس مر وجہ نحوی و صر فی تعلیم سے خلاصی چاہتے ہیں جب کہ۸۰؍ فی صد حر وف تہجی سے لیکر نحوی، صر فی و شعری اصطلاحات تک اسی زبان سے آئے ہیں ۔

فصل اول حر وف تہجی ، حر کات و سکنات ، حر وف شمسی و قمر ی پر مشتمل ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ سادہ آوازوں کے تحریر ی علامات میں لانے کا نام حرف ہے ۔ہجا میں حر و ف کی آواز اور ان کی حر کات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے ‘‘ سادہ آواز کی قید سے مخلوط آواز سے آزاد ہوگئے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ مخلوط آواز کو حر ف میں شمار کر نے میں کہیں نہ کہیں سقم ہے اور وہ سقم واضح طور پر بر جموہن دتاتریہ کیفی کے یہاں ان الفاظ کے ساتھ نظر آتا ہے ’’ وہ تحریری شکلیں جو حد امکان تک آواز کی پوری نمائندگی کر یں اور ان میں مزید اختصار کی گنجائش نہ ہو۔ ان ہی کے مجموعے کو حرف تہجی کہتے ہیں ‘‘(کیفیہ ۳۶) ان کی اس تعریف سے بھی مخلوط آواز والے حر وف خارج ہوجاتے ہیں اور وہ حروف(ث ،ذ، ص ،ث ، ط وغیرہ) جن کو ہم ’ زندہ لاشیں ‘ کہتے ہیں وہ مکمل طور پر زندہ اور متحر ک ہوجاتے ہیں ۔’’حر و ف کے مجموعے کو ابجد کہتے ہیں ‘‘(ص۲۸)  تاریخ میں ا س پر بحثیں ہوئی ہیں ان سب سے صرف نظر کر تے ہوئے صر ف ایک سوال میرے ذہن میں جو آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اردو میں بھی ان حر وف کے مجموعے کو ابجد کہیں گے جب کہ اس میں اردو کا تو دور فارسی کا بھی ایک حر ف شامل نہیں ہے ۔اس لیے مجھے منا سب لگتا ہے کہ ہمیں ابجد سے کنارہ کش ہو تے ہوئے ’ تہجی ‘ استعمال کر نا چاہیے کیونکہ اس سے وہی مر اد ہو تے ہیں جن کا ہجا کیا جا سکے ۔ اس میں سب شامل ہوجائیں گے خواہ مخلو ط آواز والے ہوں یا سا دہ ۔ 

مولوی عبدالحق کے نزدیک اردو میں حر وف تہجی پچاس ہیں ۔اٹھائیس عر بی سے ، چار (پ، چ ، ژ، گ )فارسی سے اور تین خالص ہندوستانی سے ( ٹ ، ڈ، ڑ ) تو کل ہوئے پینتیس۔ واضح ہو کہ اس میں ہمزہ شامل نہیں ہے ۔اس کے بعد ہندی ( بھ، پھ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ ، ڈھ ، رھ ، ڑھ ، کھ، گھ ، لھ، مھ، نھ) سے پندرہ۔ اس طر ح کل ہوئے پچاس ۔ ان میں سے تین ( ژ ، مھ ، نھ ) کم کر دیے جائیں تو دتاتریہ کیفی کے نزدیک سینتا لیس ہوتے ہیں ۔

یہ بات مسلم ہے کہ جن آوازوں کو مخلوط کہہ کر حر وف تہجی سے خارج کیا جاتا رہا ہے وہ اردو و ہندی میں باضابطہ ایک غیر مشترک آواز کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن معاملہ وہاں پیچیدہ ہو جا تا جب ان آوازوں کے لیے خالص ایک مکمل حر ف کا انتخاب عمل میں نہیں آپاتا ہے جیسے ٹ، ڈاور ڑ با ضابطہ جس حیثیت سے اکائی ہیں وہ بھ ،جھ اور گھ وغیرہ حروف کو نصیب نہیں ۔اور دتاتریہ کیفی جو لکھتے ہیں کہ ’’ مزید اختصار کی گنجائش نہ ہو ‘‘ وہ بھ تھ وغیرہ میں صادق نہیں آتا ہے کیونکہ یہ دو حروف سے مل کر ایک آواز کی نمائندگی کر تے ہیں ۔اگر حروف تہجی میں ان کے لیے باضابطہ کوئی علامت تخلیق کر تے ہیں تو کامل یقین ہے کہ اردو میں حروف تہجی کی تعداد کا پیچیدہ مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ جو اب ناممکن ہے ۔

 حر وف تہجی کے جو اشکال ہیں وہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان میں صدیا ںاور قبیلوں کی کئی نسلیں گزریں ہیں تب جاکر موجودہ علامتیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ یہ علامتیں تو ایک ہی مفر د آواز کی نمائندگی کر تی ہیں لیکن ان کے ناموں سے سادہ آواز نہیں پیدا ہوتی ہے جیسے جیم اور لام وغیرہ ۔ یہ ایک بہت ہی اہم سوال مولوی عبدالحق نے قائم کیا ہے۔ اس کا جواب وہ خود اس انداز میں دیتے ہیں کہ’’ اس کی وجہ بلا شبہ یہ ہے کہ یہ اس زمانے کی یادگار ہیں جب کہ اس قسم کی تحریریں ایجاد نہیں ہوئی تھیں جو ہم آج کل استعمال کر تے ہیںبلکہ لوگ اپنے خیالات سے تصویریں بنا بنا کر ظاہر کرتے تھے ۔‘ ‘ یہ تو پہلے دور کا عمل تھا، دوسرے دور میں اس کے عمل سے ، پھر ممتاز خصائص سے ، پھر اس شے کے بولنے میں جو آوازیں پیدا ہوتی تھیں اس کو کسی تر کیب سے تحریر ی شکل میں لاتے تھے ، پھر یہی تصویریں مختلف ا صوات کی قائم مقام ہوگئیں ۔

یہ بات واضح ہوکہ مولوی عبدالحق ایک محقق تھے اور محقق بہت ہی محتاط انداز میں لفظوں کا استعمال کر تا ہے اس بحث میں پہلے وہ ’’ بلاشبہ ‘‘ کا لفظ استعمال کر تے ہیں اس کے بعد ’’ اسطر ح ب در حقیقت بیت ہے ‘‘ ان دونوں لفظوں سے جو دعویٰ سامنے آرہا ہے اس کی دلیل مجہول ہے اور حرو ف کے اشکال کو کسی مخصوص شکل کے ساتھ مناسبت قائم کرنا محض خیالی مواجہت ہے ۔ جس کو دیگر مصنفین نے بھی نقل کیا لیکن ’’ شاید، غالبا ً اور قیاس ہے کہ ‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ۔

ان کی طرز تحریر سے دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حر وف تہجی کی جو مختصر تاریخ ہے اس سے انہوں نے چشم پوشی کرنے کی کوشش ہے ۔خدا ہی بہتر جانے ۔نیز جو ان کا اسٹیٹمنٹ ہے کہ اردو کو عربی کے تتبع میں بالکل بھی لانا جائز نہیں ہے اس کا بھی عکس ہو سکتا ہے ۔ حر وف تہجی کی مختصر کہانی یو ں ہے جس کو احمد زیات اپنی کتاب ’ تاریخ الادب العربی ‘ میں لکھتے ہیں ۔ خط فینقی سامی خطوط کا مصدر ہے ۔آرامی اور مُسندبھی اس سے مشتق ہیں ۔آرامی سے خط نبطی حوران میں مشتق ہوا اور سطرنحیلی سریانی عراق میں اور یہی دو خط ہیں جو خط عربی کے اصل ہیں ۔ نبطی سے نسخ نکلا اور سطر نحیلی سے کوفی۔ واضح ہو کہ قدیم مصری خط صرف ۲۲ ؍ حر وف ابجدی پر مشتمل تھا ( یعنی’’ ابجد ،ہوز ،حطی ،کلمن ،سعفص،قر شت‘‘ تک ) جس پر فینقیوں نے چا ر کا اضافہ کیا ۔ایک روایت یہ ہے کہ فینقی تک ۲۲؍ حروف تھے بعد کے نبطی اور سریانی نے اس پر چھ (ثخذ،ضظغ) کا اضافہ کیا ۔ یہ چھ حروف اپنے ہم شکل بے نقط حروف سے بنائے گئے ہیں ۔اس اٹھائیس کے مجموعے کو اسی مخصوص ترتیب کے ساتھ حروف ابجد کہا جاتا ہے ۔ حر وف کی یہ ترتیب سب سے قدیم ترتیب ہے ۔ بعد میں مخارج کے ا عتبار سے بھی مر تب کیا گیا تھا جیسا کہ خلیل بن احمد کی ’’ کتاب العین ‘‘ اور الازہری کی ’ تہذیب ‘‘ میں مرقوم ہے ۔ چوتھی صدی ہجری میں ’لا ‘ کا اضافہ کیا گیا(واضح رہے کہ شروع میں جو الف ہے وہ ہمیشہ ساکن ہونے کی صورت میں ہی الف ہے ورنہ وہ متحرک ہوتے ہی ہمزہ ہوجاتا ہے اس لیے عربی میں ہمزہ ہمیشہ سے الف کے مقام پر حروف ابجد میں شامل ہیں) پھر جب فارسی میں پہنچتا ہے تو وہاں چا ر (پ،چ، ژ،گ) اردو میں آنے کے بعدٹ،ڈ،ڑ کے اضافے سے پینتیس پہنچتی ہے جو اکثر کی زبان سے سوال کے جواب میں نکل جاتا ہے ۔ لیکن حروف کو مخلوط بنانے والے ’ھ‘ کو کون چھوڑ سکتا ہے ، یہی نہیں بلکہ ’ ے ‘ بھی ’ ی ‘ کے بعد تمام ابتدائی کتب میں حروف تہجی کے ساتھ اپنے آخری کڑی ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے اب ہمزہ کے پیچیدہ مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے     کیونکہ الف سے وہ کام نہیں بن پا رہا ہے جو ہمزہ سے ہوجاتا ہے تو ہمزہ کے وجود کو انکار کرنا تقریبا ناممکن سا ہوگیا اور عربی کے تمام حروف تہجی کو اپنا چکے ہیں توارددو میں اس بیچارے چھوٹے سے حرف (ء) کو جس کا تلفظ ہم عربی کے الفاظ کے ساتھ اردو کے افعال و اسماء میں بھی بہت ہی زیادہ کرتے ہیںکیسے اس گروہ سے باہر کر سکتے ہیں، جبکہ یہ اپنے وجود کے لیے یہ نہ نقطے کا محتاج ہے او ر نہ ہی دو چشمی ہا کا بلکہ اردو والے تو اضافت اور حرکت کے لیے اس کا محتاج ہوتے ہیں ۔لہذا چند افراد کے سوا سب نے اس کو بھی شامل کرلیا ۔ تو اس طریقے سے کبھی تعداد چھتیس ہوجاتی ہے اور کبھی سینتیس۔(واضح رہے کہ دو چشمی ہا ’ھ‘ اور یاے مجہول ’ے ) کبھی بھی کسی لفظ کے شروع میں نہیں آتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں حر کت قول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اردو میں کوئی بھی لفظ ساکن الاول نہیں ہوتا ہے ۔کچھ ایسی ہی صورت حال الف کا بھی ہے جسے ہم جس پر ہم حرف اول کے بعد کبھی بھی حر کت میں نہیں لاسکتے وہ سا کن ہی رہتا ہے۔اب مخلوط حروف کی بات کریں تو مولوی عبدالحق کے نزدیک اس کی تعداد پندرہ ہے (بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ)اور کل حروف تہجی کی تعداد ان کے نزدیک پچاس ہے تو گویا ان کے نزدیک اوپر کے پینتیس ہی حروف ہوئے باقی تین صرف بچوں کو شناخت کے لیے بتا دیے جاتے ہیں ۔دتاتریہ کیفی کے نزدیک بھی یہی ہیں لیکن وہ مخلوط میںسے تین (لھ ، مھ، نھ ) کم کرتے ہیں ۔ مسعود حسین خاں کے نزدیک ان میں ایک اور(رھ ) کم ہوجاتا ہے ۔شان الحق حقی کے نزدیک پچاس کے بعد ان تین ’’زھ، ژھ،وھ،‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے اور مقتدرہ قومی زبان پاکستا  ن نے ’ں ‘ (نون غنہ) کا اضافہ کرکے اس کی تعداد چون کر دی ہے ۔ حروف تہجی کی تعدادمیں بے تحاشہ اضافہ انشاء اللہ خاں انشاء کے یہاں ہوتا ہے ۔ان سب اختلاف کا حل مجھے کہیں پڑھنے کو ملا ہے وہ اس طرح تھا کہ ہمارے یہاں آوازوں کی تعداد مختلف ہے اور حروف تہجی کی تعداد کسی کے نزدیک پینتیس ہے تو کسی کے نزدیک سینتیس اور انہیں میں سے بعض حرف کو بعض حرف کے ساتھ ملا کر ایک آواز کی نمائندگی کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے ۔اب شروع میں حرف تہجی کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس پر دوبارہ نظرڈالیں تو یہ بات دل کے قریب معلوم ہوگی۔ 

امیر حمزہ 

Friday 4 October 2019

کوثر چاند پوری

اردو زبان و ادب کی یہ مٹھاس رہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ اطبا کو متاثر کیا ہے اس لیے جو پیشے سے طبیب ہوئے وہ ادب کے مریض بھی ہوئے ۔ اگرسترہویں صدی سے طبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ اکثر اطبا نے اردو زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ تعاون پیش کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ طبیبوں نے اپنے مطب کو مشاعرہ گاہ اور ادبی اجلاس گاہ بھی بنایا ۔یہ سلسلہ اب تک کئی شہر وں میں جاری ہے جہاں ماہانہ نشستوں میں طبیبوں کی نمائندگی مسلسل ہوتی رہتی ہے ۔ کوثر صاحب کا بھی تعلق طبابت سے تھا اور آزادی کے بعد افسرالاطبا کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ کوثر صاحب کے عہد کااگر مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے لیکردوسری جنگ عظیم تک ادبی زرخیزی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جدید تہذیب کے پردے بھی کھلنے لگتے ہیں جہاں نثر و شاعری دونوں کر وٹیں بدلتے ہیں ۔شاعری کے نئے ابعاد طے ہوتے ہیں اور نثر کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے، اس پوری صدی میں ادب اطفال بھی بہار سے خزاں کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔ اسی عہد میں کوثر صاحب نے اپنی ادبی خدمات سے ادبی دنیا کو اپنی جانب مائل کیا اور اخیر عمر تک ادب میںوہ مر کز بنے رہے ۔کوثر صاحب کی پیدائش ۰۰۹۱ ءمیں ہوئی ، عمر کا اکثر حصہ بھوپال میں گزرا، ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۶۹۱ ءمیں دہلی منتقل ہوگئے ،۳۱ جون ۰۹۹۱ءکو داعی ¿ اجل کو لبیک کہا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر صاحب کی کل نوے سالہ زندگی میں سترسالہ ادبی زندگی ہے جس میں انہوں نے نثر ی دنیامیں کمال حاصل کیا ۔ ان کی ان ہی ستر سالہ ادبی زندگی کی خدمات ،ذاتی حیات اور تخلیقی جہات کے تمام گوشوں کو اس مونو گراف میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف رشید انجم کی یہ کتاب چار بنیادی عناوین پرمشتمل ہے ۔ شخصیت و سوانح ، ادبی و تخلیقی سفر، تنقیدی محاکمہ اور جامع انتخاب ۔ شخصیت و سوانح کو بہت ہی جامع اور معلومات سے پر پیش کیا گیا ہے جس میں حسب و نسب، خاندانی پیشہ اور موصوف کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہ موصوف میں ادیبوں کی سی نزاکت اور طبیبوں جیسی لطافت تھی ۔اسی کے ذیل میں ابتدائی ادبی سفر کا ذکر بھی ہے کہ ادبی محفلوں میں شرکت کے باعث شاعری کی جانب ان کی طبیعت راغب ہوچکی تھی اور شعرگوئی میں شہرت بھوپال کی سرحدیں پارکر چکی تھیں۔ لیکن ادبی و تخلیقی سفر کے عنوان میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ شعری سرمایہ اتنا بھی جمع نہیں کر سکے تھے کہ کوئی ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر لایا جاسکے کہ نثری تخلیقات کی جانب مائل ہوگئے اور باضابطہ افسانوی دنیا میں ایک عہد گزارا۔ ۹۲۹۱ ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” دلگداز افسانے “ شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس میں سو لہ افسانے تھے جن میں سے چند افسانوں پر مصنف کی مختصر رائے بھی ہے ۔ ۰۳۹۱ءمیں دوسرا افسانوی مجموعہ ” دنیا کی حور“ شائع ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کے افسانوں پر مصنف کی کوئی زیادہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے افسانوں سے یہ افسانے کافی بہتر ہیں ، اول میں نیاز فتح پوری کا عکس ہے تو دوسرے میں پریم چندکی طرح حقیقت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد ان کے دیگر سات افسانوی مجموعوں کا ذکر ہے ۔ جن پر گفتگو جدا جدا نہیں کی گئی ہے بلکہ اجتماعی تاثر ان افسانوی مجموعوں پر پیش کیا گیا ۔اس کے بعد مصنف کوثر صاحب کے ناولوں کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک ناول کے ذکر کے ساتھ بہت ہی مختصر فنی اور موضوعاتی گفتگو بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں ” سب کی بیوی ‘ کوثر صاحب کا وہ پہلا ناول ہے جسے ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے “ ، ” اس ناول میں جنسیات پر ان کا قلم بے باک ہوا ہے “ ۔ دوسرے ناول ” اغوا“ کے بارے میں لکھتے ہیں ” پلاٹ قدرے کمزور ہے ۔ اس ناول میں کہیں کہیں واقعات میں روانی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔“ اس کے بعد سات اور ناولوں کا ذکر ہے ۔ جن میں سے مصنف ” مر جھائی کلیاں “ کو ثر صاحب کا اہم ناول مانتے ہیں اور ” پتھر کے گلاب“ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو شاہکار ناول کہا جاسکتا ہے ۔ ” محبت اور سلطنت “ میں کوثر صاحب کو ایک اعلیٰ اور منجھے ہوئے فنکار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ۔کوثر چاند پوری نے رپور تاژ نگاری میں بھی قدم رکھا تھا اور ” کارواں ہمارا “ ، ” سفر ارض غزل “ جیسے رپورتاژ لکھے ۔جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیںکہ یہ ” بلاخیز قلم کی روانی کے شاہکار مانے جاتے ہیں ، ان میںخیالات کی ندرت بھی ہے ،الفاظ کی طلسماتی قوت بھی ہے ، لسانی پیرایہ بھی اور فن کا منطقی اظہار بھی ہے ۔“ کوثر صاحب نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا اور بھوپال کے ادب اطفال کی تاریخ میں وہ واحد شخص نظر آتے ہیں جس نے بچوں کے لیے پچیس کتابیں (نثرمیں ) لکھیں جن کا ذکر مصنف نے اس مونوگراف میں بہت ہی مختصر اًکیا ہے ۔کوثر صاحب کی تنقید نگاری پر لکھی گئی چار کتابوں ” دیدہ ¿ بینا“ ،” جہانِ غالب “ ، ” فکر و شعور “ اور ” دانش و بینش “ کا بھی احاطہ کیاگیا ہے ۔کوثر صاحب فکر تونسوی کے ہمر عصر تھے اور ان سے مراسم بھی تھے جس کا ذکر اس کتاب میں بھی ہے، صر ف مر اسم ہی نہیں تھے بلکہ ان کے فن طنزو مزاح سے بھی وہ مرا سم رکھتے تھے جس پر ان کی پانچ کتابیں ” مسکراہٹیں “،” موج کوثر“، ”شیخ جی “،”نوک جھونک“اور ”خندہ دل“ منظر عام پر آئیںجس پر مصنف نے کچھ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے نمونے پیش کیے ہیں اور ان پر مختصر تجزیہ بھی ہے۔ سوانح نگاری پر بھی چار کتابیں ”بیرم خاں ترکمان“ ،” اطبائے عہد مغلیہ “ ،” حکیم اجمل خاں “ اور ” جام جم “ ہیں جن کا ذکر دیگر کتب کے مقابلے قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔اس کے بعد کوثر صاحب کی دیگر خدمات کا ذکر ہوا ہے اور جامع انتخاب بھی ہے جیسا کہ ہر مونوگراف میں ہوتا ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے جس محنت اور تگ ود و کے بعد پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصناف سخن کی تعریف و ارتقا پر گفتگو کی ہے اگر اس کو حذف کر کے موصوف کی تخلیقات کے فن پرمزید گفتگو ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہو تا ۔ تاہم یہ کونسل کی اہم اور عمدہ پیش کش ہے۔

نام کتاب کوثر چاند پوری (مونو گراف )
مصنف رشید انجم
سن اشاعت 2019
صفحات 150
قیمت 90 روپے
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر امیر حمزہ K12 ، حاجی کالونی ، غفار منزل ، جامعہ نگر ، نئی دہلی

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...