Showing posts with label تبصرہ. Show all posts
Showing posts with label تبصرہ. Show all posts

Sunday 7 July 2019

آندھیوں میں چراغ


 آندھیوں میں چراغ 

(شعری مجموعہ )

محمد شاہد پٹھان 

امیر حمزہ

عصری حسیت کی بات اگر کی جائے تو آپ کو میرو غالب اور اقبال میں بخوبی دیکھنے کو ملے گا۔ اس کی مثال اور تفصیل یہی ہے کہ ان اساتذہ فن کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس عہد کے مالہ و وماعلیہ سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ۔ اردو شاعری میں عصری حسیت ا س طر ح ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح مسلم ممالک اور اسلامی اقدار روایات کونشانہ بنا یا گیا اس کے ردعمل میںجو شاعری کی گئی اس کی تین قسمیں سامنے آتی ہیں۔ ایک مرثیہ کی شکل میں جس کی مثال اکبر الہ آبادی کی شاعری، دوسری شکل رجز کی آتی ہے جو اقبال کی شاعری میں نمایاں ہوئی جس میں وہ نئی تہذیب و راویت سے ٹکر ا جاتے ہیں اور اسلامی اقدارو روایات کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں تیسر ی شکل وہ ہے جو مغرب کی آندھی میں بہہ جاتے ہیں اور جدید تہذیب کے حامل یاجدید تہذیب میں داخل ہو ئے بغیر مغرب کی تمام چیز وں کو اچھائی کی نظر سے قبول کرتے چلے جاتے ہیں جس کے اثرات ترقی پسند ی اور جدیدیت میں جس کے اثرا ت ترقی پسند اور جدیدیت میں دیکھنے ملتے ہیں ۔ لیکن شاہد پٹھان کی شاعری میں اگر عصری حسیت کی بات کی جائے تو موصوف جس وقت (۱۹۸۸ء ) شاعری کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اس وقت دنیا میں معاشرتی اقدار بد ل جاتے ہیں، اردو ادب میں جدیدیت کمزور ہوجاتی ہے اور نئی نسل اپنی نئی نظر و نئی سوچ کے ساتھ ادبی دنیا میں داخل ہوتی ہے، جہاں وہ حسن و عشق، قنوطیت ، ہجرو فراق ، رنج و غم ،اصلاح و تزکیہ و نفس ، تصوف و سلوک کے دائرے سے نکل کر سماجی ، معاشرتی ، سیاسی ، معاشی اورجدید ذہنی مسائل کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اُن کے یہاں عصری حسیت مقامی سطح سے ابھر کر آفاقیت کا دم بھر تی ہوئی نظر آتی ہے ، جس عہد میں انہوں نے شاعری کی اس وقت سے لیکر اب تک بلو ہ وفساد عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، مادیت پرستی کے اس دور میں دشمنوں کی شناخت بھی مشکل ہو چکی ہے چہ جائے کہ دشمنوں کی تعداد پر دھیان دی جائے ،انسان خو دکو بہت ہی اکیلا محسوس کر نے لگا ہے ایس حساس شاعری ان کے  یہاں نظر آتی ہے ۔

شاہد پٹھا ن ایک ایسے حساس اور بے باک غزل گوشاعر ہیں جنہوں نے اپنی غزلوں میں موجودہ زمانے کے فرقہ وارانہ فسادات ، ظلم و ستم ، سفاکی، بربریت و تنگ نظری ، بغض و حسد کی چالاکیاں ، کدورت و نفرت ، خباثت و عصبیت اور نسلی امتیازات جیسی لعنتوں کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ان کی شاعری کے ان مضامین پر ڈاکٹر شریف احمد قریشی لکھتے ہیں ’’ یہی وجہ ہے کہ بعض مخصوص الفاظ و علائم ان کی شاعری کی نہ صرف پہچان بن گئے ہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے بھی حامل ہیں ۔ پتھر ، سنگ ، خشت ، سیلاب، زخم ، سلاسل ، شعلہ سامانی ، آگ ،خنجر ، ظلم و استبداد، خون ، لہجہ ، قتل ، قاتل ، مقتل ، قتل گاہ ، غارت، دھواں ،کفن ، موج بلا ، مو ج ِ ستم ، موج شرر ، بر ق شرار ، رقص ِ بسمل، تلوار، رہبر، ظلم ، نفرت ، خوف، وحشت ، صحرا، قیامت ، نیزہ ،رات ، ظلمات ، دشت شعلہ ، آہ، فغاں ، حشر، قہر، عتاب، اضطراب، خونِ جگر، گلچیں ، انگڑائی اگرچہ کلاسیکی اور روایتی غزل کی لفظیات ہیں اور بظاہر ان میں کوئی نئی یا خاص بات نہیں لیکن شاہد پٹھا ن نے عصر حاضر کے مسائل و واقعات کے تناظر میں ان الفاظ و تر اکیب کو بطور استعارات و علامات جس خوبی سے استعمال کیا ہے وہ نہ صرف ان کے نظریے اور درد و کر ب کے عکا س ہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے بھی حامل ہیں‘‘ ۔ (ص۲۳) یقینا قریشی صاحب کے ان الفاظ سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اشعار میں عصر حاضر کا کر ب نمایا ں طور پر نظر آتا ہے جیسے اس شعر میں ۔



کون شعلے بھر رہا ہے اس فضائے امن میں :  کون برہم کر رہا ہے آشتی کی زندگی 


انہوں نے اپنی شاعری میں صرف وقت کے حالات کی عکس بندی کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کے خود کے مزاج سے بھی آگہی ہوتی ہے جیسے احباب سے زخم کھانا، سیلاب میں مٹی کے گھر کا بچا رہ جانا ، اپنی قلندرانہ مزاجی کا اعلان کر نا ، اپنی شاعری پر نقاد کو حیران ہوتے ہوئے پانا ، مصائب سے گھرا رہنا ، زمانے کا ان کے تئیں سفاک ہونا، اپنی غربت کا بیان وغیرہ عناصر سے قاری اور سامع کو اپنی روداد بیان کر دیتے ہیں ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے حصول انبساط کے لیے کم سماج میں ظلم و تشدد کی نشاندہی کے لیے زیادہ شاعری کی ہے جس کے لیے وہ رائج نمرودیت ، رسم ِ نمرودیت ، ظلم یزداں ، جور چنگیزی ، آدم خاکی ، تقدیر آدم جیسی تراکیب و تلمیحات کا استعمال کر تے ہیں ۔اسی قسم کا ان کا ایک شعرکچھ اس طر ح ہے : 


گھر میں رہتے ہیں تو سنگ وخشت کی یلغار ہے اور باہر دشمن جاں حلقہ اغیار ہے


اس ۲۰۸ صفحات پر مشتمل کتاب میں تقریباً پچاس صفحات ان کی غزلوں کی تنقیدی مطالعہ پر مشتمل ہے ۔ ’’ حرف تاثر ‘‘ ڈاکٹر منشاء الرحمن منشا ، ’’شاہد پٹھان کا انداز تغزل‘‘ ڈاکٹر سید عبدالباری، ’’ غزل کے مزاج داں :شاہد پٹھان ‘‘ ڈاکٹر شریف احمد قریشی ، ’’ شاہد پٹھان کی غزلوں کا تجزیاتی مطالہ ‘‘ شکیل گوالیری، ’’ شاہد پٹھان کی شاعری ‘‘ ڈاکٹر محبوب راہی ، ’’ محمد شاہد پٹھا ن …بحرانی دور کاشاعر‘‘ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی اور ’’ شاہد پٹھان کا غزلیہ رنگ و آہنگ ‘‘ پروفیسر کو ثر مظہری ‘‘ کے مضامین ہیں جو ان کی شاعری کا قدر تعین کرتے ہیں ۔اس مجموعے میں حمد و نعت کے ساتھ ۱۸۰  غزلیں شامل ہیں ۔ ان کی خوبصورت شاعری کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ موجودہ دور کے چیدہ شاعروں میں ان کا شمار ہوگا ۔

Sunday 23 June 2019

جبل پور میں اردو






 جبل پور میں اردو 

امیر حمزہ

اردو زبان کی یہ شان رہی ہے کہ اس نے شہر و وقصبات کو فتح کر نا سیکھا ۔ جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹا رہا تھا تب اردو اپنا چراغ کئی شہروں اور نوابوں کے دربار میں روشن کر رہی تھی ۔دکن سے جب ادبی تاریخ میں تنزلی آتی ہے تو اردو دہلی کی سلطنت پر اپنا جادو دکھاتی ہے ، جب زبان و ادب شہر کے فصیل میں اپنا قدم رکھتی ہے تو قلعہ معلی میں شاعری کی نئی روش قائم ہوجاتی ہے پھر شہر اردو شاعری کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ سترہویں صدی میں جب دہلی اجڑتی ہے تو لکھنو کا ادبی محفل شباب پر آتا ہے ۔اس طریقے سے جب ملک کے حالات خراب ہوتے گئے تو شعراء نے چھوٹے چھوٹے شہر وں وقصبات کی جانب سفرکر نا شروع کیا جہاں نوابین کے بدولت ادب کی محفلیں منعقد ہونے لگیں اور زبان و ادب اس شہر میں اپنی نئی تاریخ رقم کر نے لگی ۔ اس زبان کی ایک تاریخ یہ رہی ہے کہ اس نے خود کو علاقائی سطح پر محدود نہیں کیا بلکہ جہاں جہاں بھی اردو طبقہ کا ہجرت ہوا یا گزر ہوا وہاں انہوںنے اردو کا شجر لگا یا اسی کا ثمرہ جبل پور میں اردو بھی ہے ۔بقول مصنف اس شہر میں اردو کی آمد مسلم فوجیوں کی آمد سے منسلک ہے ۔رانی درگاوتی کی شکست (۱۵۶۴ء ) کے بعد منڈلا حکومت میں اس شہر میں مسلم افسروں کی آمد و رفت زیادہ ہوگئی اور آبادی بھی بڑھنے لگی ۔پھر انگر یزوکے دور میں ثقافتی ، تعلیمی اور تہذیبی لحاظ سے بہت ہی تبدیلیاں واقع ہوئی تو مسلمانوں نے جدید نظام تعلیم سے متاثر ہوکر ۱۶ستمبر ۱۸۷۶ء کو انجمن اسلامیہ ٹرسٹ قائم کرکے پرائمری ، مڈل اور ہائی اسکول قائم کیے جہاں سے اس شہر میں اردو نے اپنی ترقی کے منازل طے کیے ۔

اس کتاب میں مصنف نے جبل پور کی تاریخ کو بیان کر تے ہوئے اردو کا ارتقائی سفر کے ساتھ جبل پور کا ادبی ماحول بھی پیش کیا ہے ۔جس میں انہوں نے گارساں دتاسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں شہر میں تین ادبی محفلیں قائم تھیں اس کے بعدکی ایک صدی میں اردو کے سیکڑوں شاعر پیدا ہوئے ۔ اس کتاب میں صرف ۱۹۵۶ ء تک کا ذکر ہے جبکہ کتاب ۲۰۱۸ ء میں منظر عام پر آئی ہے تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اس متعلق مصنف لکھتے ہیں کہ جب ہم نے ناگپور ، کامٹی اور برابر کی علمی و تمدنی تاریخ دیکھی تو ’’ میرے دل میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ جبل پور اور ناگپور کے مابین تو ۱۹۶۵ ء تک گہرے سیاسی ، سماجی ، لسانی اور ثقافتی تعلقات رہے ہیں ۔یہاں بھی ہمیشہ خوشگوار ادبی ماحول رہا ہے ۔ پھر یہاں کے کسی دانشور نے اس کی تاریخ کیوںمر تب نہیں کی ۔ جبل پور یونی ورسٹی میں اس موضوع پر تحقیق کیوں نہیں کرائی گئی ۔ چنانچہ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس موضوع کے سلسلے میں خود تحقیق کروں گا ۔‘‘

کتاب کی ترتیب اس طرح ہے ۔ محبان اردو کے عنوان سے انہوںنے قدیم ۱۰؍ شعرائے جبل پورکا سرسری ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد بہتر (۷۲)  خادمین اردو کا ذکر کیا ہے جن میں سے چار غیر مسلم بھی ہیں ۔ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوںنے خود جبل پور کی جانب ہجرت کی تھی یا خاندان کے ماتحت آئے تھے ۔ اکثر کا تعلق شعری دنیا سے ہے ۔ کیوں نہ ہوآخرانیسویں صدی کا آخری عشرہ اور بیسویں صدی کے ابتدائی عہد تک اردو میں کثیر مقدار میں شاعر ہی موجود تھے فن شاعری میں قسم قسم کے تجربے کر رہے تھے ۔ساتھ ہی پروفیسر محمد حنیف انصاری اور پروفیسرعبدالباقی جبل پور میں اپنی ادبی خدمات انجام دے رہے تھے ۔پروفیسر عبدالباقی کی کوششوں سے ہر بر س ایک مشاعر ہ جبل پور میں منعقد ہونے لگا جس میں فنا نظامی کانپوری ، اختر گوالیاری اور اختر نظمی وغیرہ کی شرکت ہوا کر تی تھی ۔ 

اس کے بعد ’گلشن کے مہکتے پھول‘ کے عنوان کے تحت ۲۶  افراد کا اجمالی ذکر ہے ۔ اس حصہ کے متعلق لکھتے ہیں ’’ اس کتاب کی تالیف کے دوران مجلہ نذر غالب (۱۹۶۹ء) ، مجلہ گلش ادب (۱۹۲۸ء) ، مجلہ نذرنظامی (۱۹۹۴ء ) اور مجموعہ عکس کہکشاں سے بعض ایسے شعرا کا کلام بھی حاصل ہوا ہے جن کی زندگی کے تفصیلی حالات کافی کوششوں کے باوجود فراہم نہیں ہوسکے ۔‘‘ اس کے بعد انہوںنے مدار س اور اسکول کی تعداد یہ ذکر کیا ہے کہ آزادی کے وقت ۲۶ سرکاری کے پرائمری اسکول تھے جن کی تعداد اب صرف ۱۸ ہے ۔ انے کے علاوہ کئی پرائیویٹ ادارے ہیں جہاں اردی کی تعلیم دی جاتی ہے جن میں سب سے نمایاں خدمت انجمن اسلامیہ کی ہے ۔تین مطبع او ر تقریبا ً دس رسالے اور اخبارات تھے جو جبل پور سے شائع ہورہے تھے ۔الغرض یہ کتاب جبل میں اردو تاریخ کے متعلق ایک دستاویز ہے ۔ مصنف فیرو وز کمال نے ۱۹۵۶ء کے بعد کی تاریخ کو بھی احاطہ تحریر میں لانے کا بھی ذکر کیا ہے۔
صفحات ۳۲۰
قیمت ۲۵۰ روپے
ملنے کا پتہ اشفاق کمال، کمال کمپیوٹرس ، گوہل پور ، جبل پور ۔۴۸۰۰۰۲  مدھیہ پردیش 


Wednesday 19 June 2019

محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات

ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات 



 مسلم دانشوروں کی وہ جماعت جنہوں نے خلافت تحریک سے اسلامی سیاست یا ہندمیں مسلم سیاست کے رہنما کے طور پر ابھر ے ان میں مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابو الکلام آزام اور علی برادران تھے جو ہندی کی پیشانی میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ابھرے تھے ۔اس تحر یک نے علاقائی سطح پر بھی رہنما پیدا کیے جن میں مولانا عبد الماجد دریابادی بھی تھے ۔ ان کی شناخت اگر چہ عالم ،مفسر قرآن ور انشاء پرداز کے طور پر ہوئی لیکن وہ خلافت تحر یک کے سرگرم رہنما بھی تھے ۔ مولانا کے گھر میں اسی سیاسی ماحول میں ہاشم قدوائی کی پیدا ئش ہوتی ہے جوبعد میں چل کر کانگریس کے سر گرم رکن سے لیکر راجیہ سبھا کے عہدہ تک کا سفر طے کر تے ہیں ۔ہا شم قدوائی صاحب کا تعلق کانگر یس کے اس طبقہ سے تھا جن کے لیے کانگر یس ایک نظر یہ تھا نہ کہ محض ایک سیاسی پارٹی ۔جیسا کہ انہوں نے ایک انٹر ویو میں بھی کہاہے کہ آزادی سے پہلے اور اب کے کانگر یس میں واضح فرق یہ ہے کہ پہلے پڑھے لکھے پارٹی میں تھے اب موقع پرست لوگ آتے جارہے ہیں ۔ موصوف کا تعلق زمانہ طالب علمی سے آخر ی عمر تک علی گڑ ھ مسلم یو نی ورسٹی سے رہا ہے وہ پولٹیکل سائنس کے استاد تھے انہوں نے علیگڑھ میں علمی ، تہذیبی و ثقافتی نشیب و فراز کوبغور دیکھااور محسوس کیا ہے وہ جدید نسل کی بے تہذیبی سے بہت ہی زیادہ نالاں بھی رہے اس کے لیے یو نی ورسٹی کے ایک چانسلر اور شعبہ دینیا ت کی نا کامی قر ار دیتے ہیں ۔ وہ یو نی ورسٹی کو سیر سید کی خوابوں کی تہذیب کی نظر سے دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اس کئی وائس چانسلروں کی خدمات کو سر ا ہا بھی ہے ۔اس کتاب میں ان کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، ادبی اور علمی زندگی سے متعلق ستر ہ (۱۷) مضامین ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر سلیم قدوائی نے شامل کیے ہیں ۔پہلا مضمون مولانا سید رابع حسنی ندوی کا ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کی تر بیت  مولانا دریابادی کے زیر سایہ پر مختصر اً لکھا ہے ۔ پر وفیسر ریا ض الرحمن شیر وانی ان سے متعلق کئی یادو ں کوجمع کر تے ہیں ۔موصوف کے چھوٹے بھائی عبد العلیم قداوائی ’’ تلخی غم کہی نہیں جاتی‘‘ میں ساتھ ساتھ گزرا بچپن اور بعد کے تعلقات کو بہت ہی غمناک انداز میں بیان کر تے ہیں ۔ ڈاکٹرہاشم قدوائی کا تعلق مطالعہ سے بہت ہی گہرا تھا وہ اردواور انگریزی میں ایک درجن سے زائد کتابیں انہوں نے لکھی جن میںسے سیاسیات پر لکھی کتابیں کئی یونی ورسٹیز میں داخل در س بھی ہیں ۔مکتوبات ماجدی کو سات جلدوں میں مر تب بھی کیا ان کے علاوہ ان کے تبصرے بہت ہی اہمیت کے حامل ہوئے ہیں مطالعہ وسیع ہونے کی وجہ سے انہوں نے تبصرو ں میں انصاف سے کام لیا ہے بلکہ کچھ تبصرے تو مصنف کے لیے مصیبت بن گئے لیکن موصوف اپنی تحریروں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ان تمام کا ذکر مرتب ڈاکٹر سلیم قدوائی نے ’’ اورقلم رک گیا ‘‘ میں کیا ہے ۔خواجہ محمد شاہدنے بطور استاد محتر م ان کی زندگی کو پیش کیا ہے ۔مفتی محمد عطاء الرحمن قاسمی نے عظیم محقق اور مؤرخ کے طور ان کا تعارف کرایا ہے ۔احمد مشکور صاحب نے سیاسی اور ادبی زندگی کو اپنے زاویے سے دیکھا ہے ۔مظفر حسین سید ان کے کئی صفات حمیدہ کو پیش کیا ہے جن کو انہوں نے بنظر خود دیکھا ۔اسعد فیصل کا مضمون دیگر مضامین سے ہٹ کر ہے وہ اس طور پر کہ تاثر اتی نہ ہوکر علمی طور پر ان کی صحافتی زندگی کو پیش کیا ہے وہ بھی محض ان مضامین کی روشنی میں جو دس روزہ ’’ جمہور ‘‘ علی گڑھ میں شائع ہوئے ۔ یہ مضامین پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں لکھے گئے ہیں ۔ان مضامین کے زیر اثر اسعد فیصل لکھتے ہیں ’’ آزادی کے فوراً بعد جن چند ہندوستانی نو جوانو مسلم دانشوروں نے مسلم سیاست اور اقلیتوں کے حقوق پر خون جگر سے لکھا ان میں ہاشم قدوائی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ البتہ ہماری قوم اس سچی اور کھری شخصیت کی قدر و قیمت پہچاننے میں قاصر رہی ۔‘‘ 
اس کتاب میں شامل تمام تحریروں میںسے اہم انٹر ویو ہے جسے محمد عارف اقبال ( ایڈیٹر اردو بک ریویو ) نے لیا ہے ۔ اس انٹر ویو میں ان کی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ جس میں بچپنا ہے ، آزادی ہے ، آزادی کے بعد ہے ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے ، راجیہ سبھا ہے اور مسلم قیادت اور مسائل بھی ہیں ۔ ’’ ایک نیشنلسٹ مسلمان کی چشم کشا سوانح ‘‘ (مصنف : ہاشم قدوائی ) پر بھی ایک تفصیلی مضمون محمد عارف اقبال کا شامل کتاب ہے ۔ الغرض یہ کتا ب بہت ہی جامع ہے لیکن پھر بھی تشنگی کااحساس ہوتا ہے کہ ان کی علمی کارناموں پر مضامین نہیں ہیں اور بھی بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن بقول مر تب ’’ طویل انتظار اور یا د دہانیوں کے باوجود جب مضامین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا تو نتیجے کے طور پر یہ فیصلہ کر نا پڑا کہ جتنے بھی مضامین موصول ہوئے ہیں ان پر ہی اکتفا کیا جائے ۔

مر تب  ڈاکٹر سلیم قدوائی 
اشاعت  ٢٠١٨ 
صفحات  ۱۰۶
قیمت  ۲۰۰روپے


 ناشر  اپلائڈ بکس ، ۱۰؍ ۱۷۳۹(ذیلی منزل ) نیو کوہِ نور ہوٹل ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج ، نئی دہلی ۔۲
امیر حمزہ 
 L-11 حاجی کالونی ،جامعہ نگر ، نئی دہلی 



Friday 23 November 2018

فکرو نظر

نام کتاب  فکرو نظر(تنقیدی و تحقیقی مضامین)
مصنف    حنیف نجمی
اشاعت. 2018
صفحات. 276
قیمت.  275
ناشر. روز ورڈ بکس ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں جو فکر کو مہمیز کرے اور اس سے نظر کو بالیدگی عطا ہو. حنیف نجمی صاحب کی یہ کتاب  پہلی ہی نظر میں کسی بھی سنجیدہ قاری کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ اس کتاب میں تین اہم ایسے مضامین ہیں جن میں سے دو کا پلاٹ صرف ایک بیت پر قائم کیا گیا ہے اور ایک تحقیقی مضمون صرف ایک مقولہ پرمرکوز ہے.
کتاب کی فہرست پر جب نظر پڑی تو نادر مضامین کا گلدستہ نظر آیا، جس میں ادب کی روح اور فلسفے کا خمیر ہے. اساطیری فنٹاسی ہے اور تازہ واردان ادب کے ادب پر تنقیدی نظر بھی ہے. اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کلام کی جو معطر روح اردو میں سمائی ہوئی ہے وہ مضامین میں بھی شیر وشکر ہوگئے ہیں، جو کسی بھی سنجیدہ قاری کو کلاسیکیت روح سے روشناس کراتاہے اور لفظ و معنی کے بے پناہ روموز سے بکھیرتا ہے.
کتاب کا پہلا مضمون"صنف غزل اور بین المتونیت" ہے جسے خسرو کی ایک بیت کے حوالے رقم کیا گیا ہے. مضمون کی شروعات مضامین میں اخذ و استفادہ کی بحث سے کی گئی ہے. جس کو انہوں نے بین المتونیت کے دائرے میں پیش کیا ہے جس کے دلائل کے طور پر  سنسکرت اور فارسی شعریات کو بھی پیش کیا ہے. خسرو کے خصوصی بیت پر جو مضمون قائم یے وہ بیت کچھ اس طرح ہے
اے گل چوں آمدی ز زمیں گو چگونہ اند
آں روئے ہا کہ در تہہ گرد فنا شدند
ساتھ میں مصنف کا دعویٰ بھی ہے کہ "غزل صحیح معنی میں بین المتونی صنف سخن ہے. اخذ و استفادہ اس کی شعریات کا مسلمہ اصول ہے." مصنف مذکورہ بیت کے مضمون کو بیدل و سودا سے لیکر مخمور سعیدی کی شاعری میں نشاندہی کرتے ہوئے پھر واپس سعدی و خیام کی جانب لوٹ جاتے ہیں اس طرح سے اپنے دعویٰ کےدلائل پیش کرتے چلے جاتے ہیں جو قاری کے ذہن میں بھی گھر کرتا چلا جاتا ہے.
دوسرے مضمون کا عنوان" غالب کی ایک بیت "ہے. فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے"در بلا بودن بہ از بیم بلا" اس پر بے تکلف کا اضافہ کر کے عرفی کے ایک شعر سے اکتساب کرتے ہیں، غالب کی بیت کچھ اسطرح ہے.
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیم بلا
قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است
اور عرفی کا بیت کچھ اس طرح ہے
ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در جیحون عشق
روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است
مذکورہ اشعار سے مصنف معانی کے گرہ کھولتے چلےجاتے ہیں، معانی کے دعویٰ کی دلیل اشعار سے پیش کرتے جاتے ہیں اور ایک دلچسپ مضمون بنتا چلا جاتا ہے
مرزا منوہر توسنی جو مصنف کی تحقیق میں فارسی کا سب سے پہلا غیر مسلم شاعر تھا، ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں توسنی کی شخصیت ادب اور مقبولیت کا جامع انداز میں مدلل احاطہ کیا گیا ہے.
"کلام خسرو میں گریہ" غزل کے مضامین اور مضامین کے اختراع سے مضمون شروع ہوتا ہے جس میں گریہ کے مضمون کو جن نئے نئے انداز سے خسرو نے پیش کیا ہے اس کی کہکشاں انہوں نے یہاں پیش کردی ہے.
"ملک الشعراء فیضی : ایک تجزیاتی مطالعہ" کتاب میں شامل سب سے طویل تحقیقی مقالہ ہے جو تقریباً پچھتر صفحات پر مشتمل ہے. اگر چہ مصنف نے عنوان میں تجزیاتی مطالعہ لکھا ہے لیکن یہ مکمل تحقیقاتی مقالہ ہے جس کی شروعات اکبر کے دور میں علماء کبار کے ذکر کے بعد عہدِ اکبری میں فارسی ادب کی حسین تاریخ کا زریں مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے. فیضی کا درجہ اکبر کے یہاں، فیضی کے تصانیف و تراجم، مذہب اور فیضی کی شاعری کا مطالعہ تفصیلی طور پر شامل مضمون ہے. ایک بات جو اس کتاب میں بہت ہی اہم ہے وہ یہ ہے کہ مصنف نے اشعار پر جو گفتگو پیش کی ہے ان میں وہ لفظی تشریح و تعبیر سے دور ہوکر معنویاتی سطح پر کئی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں
کتاب کے ابتدائی مضامین سے ہی اس بات کی امید تھی کہ ادبی معرکہ کا ذکر ضرور ہوگا اور وہ اس مضمون "فیضی کا ایک مقولہ" میں دیکھنے کو مل گیا. مضمون تو فیضی کے ایک مقولہ"سخن فہمی عالم بالا معلوم شد" پر مرکوز ہے.  عالم بالا کی لغوی معنوی اور ادبی تشریح کے بعد موقعہ ورودِ مقولہ پر پہنچتے ہیں. پھر یہ مصرع ہے یا مقولہ اس پر جو ادبی معرکہ شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مابین پیش آیا اس کا. ذکر کرتے ہیں، درمیان معرکہ زار علامی بھی آتے ہیں.
قارون کا قصہ جس کا تعلق محض مذہبی کتب سے ہے اس کے کئی پہلوؤں کی وضاحت مصنف نے ایک مضمون میں کی ہے. مصنف تو بظاہر مفسر نہیں ہیں لیکن قرآن کے ساتھ دیگر مذاہب کی کتاب میں قارون کا ذکر جس نوعیت کے ساتھ آیا ہے ان تمام پر اپنی عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں کی جو وضاحت کی ہے اس سے منصف کی علمی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے.
"شیخ احمد جام کی ایک بیت" کتاب میں شامل صرف بیت پر ہی مرکوز دوسرا مضمون ہے. شاعری کہتے کسے ہیں اس کیفیت کے ادراک کی تفصیل سے مضمون شروع ہوتا ہے پھر مشائخ چشت کے سماع سے متعلق ذوق و شعور کو پیش کیا گیا ہے. پھر کئی صفحات کے بعد شیخ احمد جام کی وہ بیت آتی ہے جس کو سن کر شیخ قطب الدین چار راتیں عالم تحیر میں ہوتے ہیں اور پانچویں شب جان جان آفریں کے سپرد کردیتے ہیں. وہ بیت یہ ہے
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
اس پورے مضمون میں اگرچہ تصوف کی فضا قائم ہے لیکن اصل میں انہوں نے شاعری کی روح کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو چیزے دیگر ہے.
اس کے بعد "تخلیق شعر کا الہامی تصور. شعر حافظ کے خصوصی حوالے سے" ہے. ماقبل کے مضمون سے یہ مضمون تدریجا آگے بڑھا ہے اور بات شعر کے الہامی ہونے تک پہنچ گئی ہے. ایک طویل گفتگو طوطی پر ہے جس میں ہی مضمون نگار نے صفت الہام کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے..
"رومی کی ایک بیت" کتاب میں کلاسیکیت پر شامل آخری مضمون اور بیتِ واحد پر مرکوز رہ کر لکھا جانے والا بھی آخری مضمون ہے. "آفتاب آمد دلیل آفتاب است" یہ اگرچہ رومی کی ایک بیت ہے لیکن مقولہ کے طور پر مشہور ہوگیا ہے اور ساتھ ہی فن منطق میں بدیہی کی مثال بھی ہے. مصنف نگار نے اسی بیت سے بات شروع کی ہے اور اسی پر مرکوز رہ کر کئی قیمتی ضمنی باتیں بھی بتائی ہیں اور  دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مصرع میں اور اس کے سوا تقریباً تیس اشعار میں آفتاب سے مراد رومی کے پیر و مرشد شمس تبریز ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ دیگر کتب سماوی و شعرا کے یہاں "آفتاب" کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے. اس مضمون کے بعد چار مختصر مضامین ہیں جن میں سے ایک امام غزالی کی حیات اور تین جدید شعرا سعید الظفر وسیم، اقبال خلش اور کرامت علی کرامت کی شعری و فکری جہات پر ہے. اس کتاب کے مطالعہ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا مکمل مطالعہ اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی قاری کو مطالعہ کی دعوت دیتی ہے.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی

Sunday 28 October 2018

نقد و آہنگ

"نقد و آہنگ" بزم آہنگ کی پہلی اہم تنقیدی پیشکش.

اکیسویں صدی کا اٹھارہواں برس ہے. دنیا مکمل طور پر برق رفتاری سے مرعوب ہے. قلم کاروں میں بھی بلا کی تیزی دیکھی جارہی ہے. جس کے قلم کی رفتار جتنی تیز ہے وہ اپنی تحریروں کے لیے اتنی ہی اسپیس تلاش کر رہا ہے. ڈیجیٹل دنیا میں یہ بہت ہی آسانی اور چاپلوسی سے حاصل کی جارہی ہے. قلم کار مزید بڑا بننے کے لیے کسی بھی درجے کی میگزین نکالنے کی جانب گامزن ہے اور مدیر کے عہدے پر فائز ہوجانا چاہتا ہے. ان تمام تیز رفتاریوں کے باوجود بزم آہنگ نے اکیسویں صدی کے پندرہویں برس میں سفر کا آغاز کیا اور اپنے سفر میں بے آہنگی نہیں آنے دی. جامعہ کے ہرے لان اور لال پتھروں کے درمیان خود کو نئے آہنگ میں بزم نے ڈھالا اور فروری 2017 میں پہلا قومی سیمینار جدیدیت کے موضوع پر منعقد کیا اور آگے کی جانب بزم نے اپنا قدم بڑھایا اور ایک سال بعد 17 مارچ 2018 کو اپنا دوسرا قومی سیمینار "اکیسویں صدی میں فکشن" پر منعقد کیا. اس موقع پر اپنے مخصوص رفتار و آہنگ کے ساتھ چلنے والی بزم آہنگ نے اس وقت بہت متحیر کیا جب سال گزشتہ کے سیمینار و بزم کی دیگر مجالس میں پڑھے گئے مقالات کا کتابی شکل میں رسم اجرا ہوا. (نقد و آہنگ. 264 صفحات)
اجلاس میں کتاب پر کسی نے گفتگو نہیں کی تو سوچا خود ہی اس کتاب سے ہم آہنگ ہوجاؤں اور اس میں آپ تمام کو شریک کرلوں.
اس کتاب کے مرتبین زاہد ندیم احسن اور صدف پرویز  ہیں. اول کا "پیش لفظ" اور دوسرے کا "میرے بول" ہے. پروفیسر کوثر مظہری کا ایک طویل مضمون "جدیدیت اور مابعد جدیدیت :تعبیر و ترسیل" کو اس کتاب کا مقدمہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا گرچہ یہ اہم مضمون موصوف کی اہم کتاب "جوازونقد" میں بھی مقدمہ کے عہدہ پر رونق افروز ہے. مقدمہ سے دلچسپ اسٹیٹمنٹ دیکھیں" اس عہد کی شاعری وہ سماج وہ زندگی اور وہ فن پھر زندہ ہوگیا ہےجو ترقی پسندوں اور جدیدیت کے درمیان سینڈوچ کی طرح دب کر رہ گیا تھا. آج کا ادبی منظر نامہ سماج اور افراد کی صحیح تفہیم کا اشاریہ بھی ہے اور جمال فن کا نمونہ بھی."
اس کے بعد ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا مضمون" جدیدیت اور مابعد جدیدیت : چند باتیں" اور ڈاکٹر ندیم احمد کا مضمون" تصورات و تحریکات" ہیں جنہیں ضمنی مقدمہ کے طور پر آپ سمجھ سکتے ہیں. اول کے مضمون سے مختصر اقتباس" آج کے فنکار کو نہ مابعد جدیدیت کے فکری مخاطبے سے مطلب ہے اور نہ اس سے مکمل آگاہی ہے. وہ اس پر اسرار مابعد جدید تھیوری کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں. انہیں نہ جشن جاریہ کی خبر ہے نہ مہابانیہ کی اور نہ ہی تکثیریت کی، نہ دریدا کو ہی جانتے اور نہ وہاب حسن کو." دوم کے مضمون سے بھی ایک اقتباس دیکھیں " جدیدیت میں مواد اور ہیئت ایک اکائی کا نام ہے. اسی طرح جدیدیت نے مصنف کی ذات کو تو اہمیت دی لیکن مصنف کی ان ترجیحات کو کوئی مقام نہیں دیا جن کا تعلق ادیب کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی نظریے سے ہوتا ہے." اس کے بعد ریسرچ اسکالروں کے مضامین و مقالات کو دو باب میں تقسیم کیا گیا ہے. پہلے باب میں وہ مقالات ہیں جو بزم آہنگ کے پہلے قومی سیمینار میں پیش کیے گئے تھے جن کی تعداد دس ہے. دوسرے باب میں بھی دس مضامین و مقالات ہیں یہ وہ اہم تنقیدی نگارشات ہیں جو بزم آہنگ کی مختلف نشستوں میں پیش کی گئی ہیں.
پہلے باب میں پہلا مضمون زاہد ندیم احسن کا "اردو افسانہ جدیدیت کے تناظر میں" ہے. جس میں انہوں نے سریندر پرکاش، انور سجاد اورانتظارحسین کی افسانوی فکر پر مختصر کلام کیا ہے. امیر حمزہ کے مضمون "رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات" میں موصوف نے فن پر تفصیلی گفتگو کے بعد صرف تین رباعی نگار( فرید پربتی. اکرم نقاش، عادل حیات) کی رباعیوں میں جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے. ضیاءاللہ انور کے مضمون "مابعد جدید ڈسکورس اور اردو کا لوک ادب:ایک وضاحتی بیانیہ (لوک گیتوں کے حوالے سے)" ایک جملہ ملاحظہ ہو" لوک ادب کا حوالہ ما بعد جدید ڈسکورس سے اس اعتبار سے بھی منسلک ہوتا ہے کہ اس میں علم بشریات اور علم صنمیات کے ڈسکورس بھی شامل ہیں. "
رضی شہاب کا مضمون" افسانے کی حمایت میں :شور برپا ہے خانہ دل میں" شمس الرحمن فاروقی کی کتاب "افسانے کی حمایت میں" کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ ہے.
محمد حسین کا خوبصورت مضمون" اردو نظم: جدیدیت کے تناظر میں " ہے. اس مضمون میں نظموں میں جدیدیت کے رجحانات کو سمونے کی کوشش کی ہے.
"جدید افسانہ اور سریندر پرکاش " رخسار پروین کا مضمون ہے. موصوفہ لکھتی ہیں "انہوں نے اپنے افسانوں میں بیانیہ حقیقت کے بجائے زبان و بیان کی داخلیت سے کام لیکر ابہام اور پیچیدگی کے ذریعہ کہانی میں ایک نیا انداز پیدا کیا ہے. ان کے یہاں علامت، تمثیل، تجرید و استعارہ سے کہیں زیادہ اسلوب، انداز بیان اور طرز نگارشات کی کارفرمائی ملتی ہے. "
اسما نے اپنے مضمون" نادید مابعد جدیدیت کے تناظر میں " جوگندر پال کے ناول نادید کو ایکسپلور کرنے کی مابعد جدیدیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اچھی کوشش کی ہے.
" جدید اور مابعد جدید غزل تنقید:ایک مطالعہ " محمد ریحان کے اس مضمون میں جدید غزل سے متعلق متنوع گفتگو کی گئی ہے اور ساتھ ہی ان کی تنقید پر بھی گفتگو ہے.
" مابعد جدیدیت : مسائل و امکانات" نصرت پروین کے اس مضمون سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن انہوں نے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے آخری برسوں میں بھی مابعد جدیدیت کے مسائل کے ساتھ امکانات کی تلاش کی ہے.
اس باب کا آخری مضمون ندیم سحر عنبرین کا ادب سے پرے اسلامیات سے ہے. جس میں برصغیر کی خواتین مفسرین کا جائزہ لیا گیا ہے.
دوسرے باب کا پہلا مضمون نوشاد منظر کا "افسانہ تنقیدکے ابتدائی نقوش" ہے. اس میں انہوں نے افسانہ کے چھ اولین ناقدین کے حوالے سے گفتگو کی ہے. دوسرا مضمون محمد تحسین زمان کا یحیی منیری کی اخلاقی تعلیمات پر ہے. امتیاز احمد علیمی کا مضمون قرۃالعین حیدر کے ناولوں کے تہذیبی شناخت نامہ پر ہے. اس مضمون میں تہذیبی شناخت نامہ سے زیادہ فنی شناخت نامہ پر گفتگو ہے.
شاہنواز حیدر شمسی کامضمون خلیل الرحمٰن اعظمی کی شاعری پر ہے جس میں انہوں نے ان کی شاعری پر سرسری جائزہ پیش کیا ہے. لکھتے ہیں "ان کی شاعری احساسات کی شاعری ہے. انسان کے ٹوٹنے بکھرنے اور انتشار کی داستان ہے، اخلاقی زوال قدروں کے کھوکھلے پن دہشت و بربریت کی کہانی ہے."
"سید عابد علی عابد کی غزل گوئی" ثمرین کا مضمون ہے. ثمرین لکھتی ہیں "عابد علی عابد کا تعلق شعرا کے ایسے طبقہ سے ہے جن کے کلام میں سوزوساز دونوں شامل ہیں ان کا کلام شعریت اور تغزل سے معمور ہے ............ موسیقیت، ترنم اور نغمہ کی جمالیاتی صفات کا ظہور ان کے کلام میں بخوبی پایا جاتا ہے. "
"اردو کی خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس" میں درخشاں نے خواتین کے اہم ناولوں کے اہم کرداروں میں تانیثی ڈسکورس کی کوشش کی ہے." قرۃالعین نے شاہد انور کے ڈراموں پر بہت ہی جامع گفتگو کی ہے. عرفان احمد کا مضمون "نشیب :ایک تجزیہ". کنیز فاطمہ کا مضمون "شفیق الرحمن کی انفرادیت" تجزیاتی و تاثراتی اوصاف کے حامل مضامین ہیں. کتاب کا آخری مضمون" مختصر تاریخ ادب اردو کے چند معروضات" ایک دلچسپ مضمون ہے جس میں گیان چند جین کے معروضات کو پیش کیا گیا ہے.
نئے قلم کاروں کی بزم"بزم آہنگ"کو مبارکباد کہ ہم آہنگ ہوکر نئی پیڑھی کے لیے چراغ راہ بن رہی ہے.

امیر حمزہ

فکرو تحریر کا ریسرچ اسکالرز نمبر

سہ ماہی فکرو تحریر کولکاتا
فکرو تحریر کا تازہ شمارہ بہت ہی شوق سے پڑھنا شروع کیا. معاف کیجئے گا دیکھنا شروع کیا، کہاں کہاں نظر نہیں پڑی، صفحہ کے اوپر دیکھا نیچے دیکھا، معاونین کی فہرست دیکھی، مشاورت کے نام دیکھے، مدیران کو تلاش کیا مدیر اعزازی کا اعزاز دیکھا، مشمولات کے نام دیکھے تو نام کے ساتھ چہرے بھی نظر آئے، کچھ نہیں آئے تو تصور میں بنانے کی کوشش بھی کیا، اداریہ بھی غور سے دو مرتبہ دیکھا اور مدیر اعزازی نے قلم کاروں کو جس اعزاز سے نوازنے کا عزم یا حسین غلطی کیا وہ بھی دائرہ احساس میں آیا.
مدیراعزازی نے کس طرح سینہ پر پتھر رکھ کر یہ فیصلے لیا ہوگا کہ ہمیں نو سیکھیوں کو ہی شامل کرنا ہے اور ساتھ میں میگزین کے وقار کو بھی قائم رکھنا ہے یم محسوس نہیں کرسکتے. یہ کام تو تخلیقات کے حوالے سے بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن تنقیدی مضامیں کے حوالے سے بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.  جس میں ہر مضمون میں مضمون نگار کی فکر کے ساتھ اسلوب ادا، زبان و بیان پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے.
تنقیدی مضامین میں اکثر پہلا پیراگراف کسی بھی قلم کار کے لیے چہرے کا کام کرتا ہے، جو یاتو اپنے جانب مائل کرتا ہے یا پھر وہی پیراگراف قاری کو ورق گردانی پر مجبور کردیتا ہے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے پیراگراف میں قلمکار لڑکھڑاتا بہت ہے پھر جب قلم چل نکلتا ہے تو تحریر میں روانی خود بخود آجاتی ہے. تو مدیر کے لیے سب سے مشکل امر ہوتا ہے کہ وہ بے ہنگم زبان و بیان کو کیسے سنوار کر اپنے قیمتی صفحات میں جگہ عنایت کرے یا پھر عنوان کی مناسبت سے تحریر میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے. الغرض ہم نو سیکھیوں کی تحریر میں اگر کوئی اتنی محنت کرکے اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے تو اس کے لیے شکریہ کی رسم بھی کم پڑ جاتی ہے. لیکن پھر بھی ہماری ڈھٹائی بدستور جاری رہتی ہے کہ ہم اپنی تحریروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور سدھار لانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اگر کسی دور کے ساتھی کی تحریر میں کچھ نشاندہی کردی جائے تو بات بند کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے، لیکن مدیر محترم ان تمام کی پرواہ کیے بغیر نو سیکھیوں کی تحریر کو سنوارتا رہتا ہے اور جب کچھ کچھ اچھا لکھنے کے لائق ہوجاتا ہے تو اچھا قلمکار شکریہ بھی بجا لاتا ہے کہ مجھے آگے بڑھانے اور ہماری تحریر کو سنوارنے میں فلاں مدیر اور رسالے کا اہم کردار ہے جس کا ہم احسان نہیں ادا کرسکتے، لیکن کچھ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو زبانی بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے چہ جائے کہ اپنی تحریروں میں اس کو جگہ دیں ، الغرض کسی بھی قلم کار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کے قلم کی کہکشاں کا بھی کوئی باغبان ہے جس کی باغبانی میں آپ خوشنما نظر آتے ہیں. الغرض اب ان تحریروں کی جانب رخ کرتے ہیں جن میں سے کچھ سجے سنورے ہیں اور کچھ کو ضرورت ہے.
پہلا مضمون ارشد احمد کوچھے کا ہے جنہوں نے مشتاق احمد وانی کی افسانہ نگاری پر لکھا ہے. اس چار صفحہ کے مضمون میں ان کے افسانوی فن پر گفتگو کرتے ہوئے تین اقتباسات بزرگ ناقدین کے درج ہیں اور تین اقتباس افسانوں سے ہے جن میں سے ایک منظر نگاری دوسرا جذبات نگاری اور تیسرا اقتباس اسلوب نگاری پر ہے. مضمون نگارنے افسانہ نگار کے یہاں جو کچھ پایا وہ اس طرح ہے."مشتاق احمد وانی نے اپنے افسانوں میں جدید تکنیک کے تجربے بھی کیے ہیں یعنی خودکلامی کی تکنیک، فلیش بیک کی تکنیک. خطوط نگاری کا استعمال بھی انہوں بڑے بہترین اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے جس سے ان کے افسانے کے اسلوب کی حسن کاری میں مزید اضافہ ہوگیا". اس اقتباس میں جو دعویٰ ہے وہ پیش کیے گئے اقتباسات سے کسی حد تک مختلف ہے.
دوسرا مضمون امام الدین کا" 1980 کے بعد اردو غزل"ہے. اس مضمون میں مرکزی نقطہ جو نظر آتا ہے وہ مابعد جدیدیت ہے، اس میں انہوں نے یہ پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے کہ اس جدید عہد کی شاعری 80 سے پہلے کی شاعری سے کس قدر مختلف ہے. مضمون نگار لکھتا ہے "...... 1980 کے بعد اردو غزل کا جو روپ سامنے آیا وہ ما بعد جدیدیت کہلا یا جس میں تخلیق کار کو تخلیق کی مکمل آزادی ملی اور اس ثقافتی تشخص کی بات کہی گئی جس سے اب تک ہمارے فن کار جدا تھے.
" سلیمان آصف اور ان کی شاعری" میں تمنا شاہین نے ان کی شاعری اور مجموعہائے شعری کا تعارفی مطالعہ پیش کیا ہے. انہوں نے اس میں ان تمام صفات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو ایک روایتی شاعر کے یہاں ہونی چاہیے. تمنا نسیم کے مضمون "سالک لکھنوی : مختلف رنگوں کے شاعر" میں آپ کو صرف ترقی پسندانہ، عشقیہ اور کلاسیکی رنگ پڑھنے کو ملے گا. "راجہ گدھ کا عمرانیاتی مطالعہ" جمشید احمد ٹھوکر کا جامع انداز میں تحریر کردہ  مضمون ہے. راجہ گدھ کے کئی نکات کو قاری کے سامنے رکھا گیا ہے اور  تنقیدی بصیرت بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لب لباب پہلے ہی پیش کرتے ہیں کہ یہ ناول حلال و حرام سے وابستہ ہے اور آخری سطور میں لکھتے ہیں" راجہ گدھ ادب عالیہ کا وہ فن پارہ ہے جس میں انسان کے روحانی اور وجدانی کا تغیرات کو فلسفیانہ انداز میں رقم کیا اور ان تمام فکری پہلوؤں کو جو جامد ہیں تحرک دے کر قاری کے اندر نئے احساس سے آشنا کرایا" مضمون نگار نے گدھ کی علامت کو جگہ جگہ سے کھولنے کی بھی کوشش کی ہے.
راشدہ خاتون نے قاضی عبدالستار کے ناولٹ" آخری کہانی"کے ایک جز کیفیت عشق پر روشنی ڈالی ہے، مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے کہ عشق تو پاکیزہ ہوتا ہے ہوس پاکیزہ نہیں ہوتا ہے اور ہوس کا نام عشق نہیں دیا جاسکتا. اس ناولٹ میں رومانس کی جس کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے اسی پر  مضمون نگار نے گفتگو کی ہے. "حمیدہ بیگم کی خود نوشت" ہم سفر"ایک مطالعہ" سروری خاتون کا مضمون ہے. جس میں انہوں نے ہم سفر میں موجود زندگی کے مختلف مراحل کا ذکر کے تجزیاتی مطالعہ ہیش کیا ہے، اس خود نوشت میں مصنفہ نے جس سادگی اور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس اسلوب کو اپنایا ہے وہ جاذبیت اور حقیقت نگاری سے معمور ہے. اس وقت کے جن بڑے لوگوں کا ذکر خود نوشت میں ہے وہ آج کے قاری کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے. جس کی طرف اشارہ مضمون نگار نے بھی کیا ہے. "کربل کتھا کا اسلوبیاتی مطالعہ" سید اکرم حسین کا مضمون ہے. کتاب کا شمار شمالی ہند کے اولین نثر پاروں میں ہوتا ہے جب اسلوب سے زیادہ نثری زبان ایک نئے ڈھانچے میں ڈھل رہی تھی شاعری اپنی شناخت مضبوط کرچکا تھا لیکن نثر کو شناخت کی تلاش تھی. اس نوزائیدہ نثر کا اسلوب کیا تھا اس کا تعارفی مطالعہ اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے . سیدہ واصفہ غنی نے "جدید اردو افسانوں میں معاشرتی منافرت" کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں جدید افسانوں کے بجائے خواجہ احمد عباس، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے. پروفیسر ابن کنول کے ایک افسانہ" ہمارا تمہارا خدا بادشاہ"کا مطالعہ شاہد اقبال نے پیش کیا ہے. اس افسانہ کے متعلق لکھتے ہیں"وہی تخلیق زندہ رہتی ہے جو ہر قرات میں قاری کو نئے معنوی ابعاد کا احساس دلائے. ابن کنول کا یہ افسانہ علامتی ہے جس کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے". شفیع احمد نے احمد یوسف کی رپورتاژ و خاکہ نگاری دونوں پر گفتگو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے. سفینہ سماوی نے"عصمت چغتائی کے افسانوں میں مسائل نسواں" کی عکاسی مختلف افسانوں کے حوالے سے کی ہے جس میں جنسی مسائل کو ہی نمایاں رکھا گیا ہے. لکھتی ہیں" عصمت چغتائی عورتوں کی نبض شناس ہیں. عورتوں کے نرم نازک جذبات جنسی خواہشات اس کے مزاج کی نرمی، لطافت شوخی اور بانکپن ان کے افسانوں میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں".
ظفر عالم کا ایک تحقیقی مضمون "مولانا ابوالکلام آزاد اور سائنس" کے حوالے سے شامل رسالہ ہے. یہ ایک طویل وضاحتی مضمون ہوسکتا تھا لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف تعارف اور سائنس سے آگہی کے نمونے ہی پیش کیے ہیں پھر بھی مضمون سے مزید کی تشنگی ظفر عالم پیدا کرجاتے ہیں. فرح نازنین کا مضمون جتنا چھوٹا ہے اتنا ہی جامع ہے" تانیثیت اور بہار کی شاعرات" عنوان تو یہی ہے لیکن مجھے جو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ مضمون مطلقاً خواتین قلم کاروں کو محیط ہے اور عنوان محدود ہے. تانیثیت کا ذکر ہے اور بہار کی موجودہ خواتین شاعرات کا نام بھی لکھا گیا ہے لیکن شکایت پوری خواتین قلمکار برادری سے  ہے. لکھتی ہیں" ہماری شاعرات اپنے معاصر خواتین تبصرہ نگاروں اور نقادوں کی آراء کو مردوں کی آراء کے مقابلے میں کمتر اور غیر اہم گردانتی ہیں..... ہماری خواتین تنقید کی طرف کیوں نہیں متوجہ ہوتیں؟ فکشن میں ہی سہی ممتاز شیریں کے بعد اس پائے کی نقاد کیوں نہیں پیدا ہوسکی. محمد رکن الدین صاحب نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس میں ہند و پاک کے علاوہ دنیا کےجن جن گوشوں میں گزشتہ صدی اردو کا چراغ روشن ہوا، موجودہ صدی میں بھی روشن ہے اور اب تک کیا کیا خدمات انجام دئے جا چکے ہیں تمام کو احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے. محمد ریحان کا "اردو ناول میں تقسیم ہند کے اثرات" میں گویا ناولوں کا ایک قسم کا تعارف ہی پیش کیا گیا ہے اور اس مختصر سے مضمون میں وہی ممکن ہو سکتا تھا. "مکاتیب سر سید کا اسلوب"  شاداب شمیم کے تحریر کردہ اس مضمون میں وہی عکس و تیکنیک جھلکتا ہے جو وکیپیڈیا میں موجود علامہ اقبال کی شاعری، غالب کی خطوط نگاری پر وکیپیڈیا ہیں. یعنی معلوماتی اسلوب اپناتے ہوئے مختلف جہات پر مختصر انداز میں تحریریں لکھی ہیں.
اخترالایمان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی مشہور نظم "ایک لڑکا" بھی تصور میں ابھر آتا ہے گویا ان کی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ دنیائے ماضی پر مشتمل ہے. اسی کو محمدپ فرحان خان نے شامل راالہ اپنے مضمون میں پیش کیا ہے. محمد نہال افروز کے مضمون "نیر مسعود: حیات اور ادبی کاوشیں" میں حیات مسعود اور ان کی پچیس نیر تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے.
"آسٹریلیا میں اردو کی نگہت : ڈاکٹر نسیم نگہت" ایک تفصیلی مضمون مہوش نور کا ہے جس میں موصوفہ کی ادبی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے، عنوان کے نیچے بین القوسین میں " مہجری فکشن کے حوالے سے" مرقوم ہے لیکن مضمون کا کوئی بھی پیراگراف اس سے متعلق نہیں ہے. شاید غلطی سے لکھا ہوا رہ گیا ہو. بہر حال ان کے فن پر گفتگو نہیں ہے صرف ادبی زندگی پر ہے. ان تنقیدی مضامین کے بعد تخلیقی گوشے میں فیضان الحق کا انشائیہ گھڑگھڑاہٹ، مہتاب عالم فیضانی کے دو افسانے اتفاق اور ٹیبل گھنٹی. خان محمد رضوان، رئیس فاطمہ، شہنور حسین، صائمہ ثمرین، عالیہ اور محمد ذیشان رضا کی خوبصورت غزلیں شامل ہیں اس کے بعد تین نظمیں علیم اللہ کی "تہذیب کی شکست و ریخت، محمد شاہد کی" تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے"اور نورالاسلام کی نظم ترا وجود ہے.
اب مضامین پر ںظر ڈالنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مضامین اساتذہ کو دکھائے گئے ہیں اور ایک دو مضامین ایسے بھی ہیں جن پر مضمون نگار نے خود بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی. اشاعت کے عمل سے گزرنے کے بعد کوئی بھی تخلیق اعمال نامہ میں شمار ہوجاتا ہے وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اس میں تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ ہم اچھی تاریخ رقم کرنے والے بنیں اور چھان پھٹک کر ہی آگے کی جانب قدم بڑھائیں.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

Monday 15 May 2017

شیخ محمد ابراہیم ذوق (مونو گراف )

 ( نام کتاب شیخ محمد ابراہیم ذوق (مونو گراف 
مصنف پروفیسر کوثر مظہر ی 
صفحات 109
قیمت 72 روپے 
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان 
مبصر امیر حمزہ ، شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ، دہلی 
نادر شاہی حملہ کے بعد دہلی اجڑ جاتی ہے ، شعر و ادب کی محفلیں اٹھ چکی ہوتی ہیں  ، میر و سودا اپنے فن کی بقا کی تلاش میں لکھنو  کو چ کر چکے ہوتے ہیں اسی دو رمیں دہلی میں شیخ محمد ابر اہیم ذوق کا جنم ہوتا ہے اور انیسویں صدی کے شروع میں دہلی میں پھر سے شعر و ادب کے بزم آراستہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔جس میں اصحاب ثلاثہ ذوق ، مو من و غالب آفتاب و ماہتاب بن کر آسمان شاعر ی میں چمکتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ جس عہد اور ماحول میں ہمیں یہ تینوں شاعر ملتے ہیں اس عہد میں سب سے زیادہ طوطی شاعری میں ذوق کا بولتا ہے ۔کیا یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ خاقانی ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے مزاج ، علم و فن اور اصطلاحات زبان و بیان سے پوری طر ح واقف تھے ۔ جس کی طرف کئی اشارے زیر تبصر ہ کتاب میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لیکن ہر چیز کو تقابل کی عینک سے دیکھنے کی وجہ سے ذوق آہستہ آہستہ ماند پڑتے جاتے ہیں اور غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر ابھر تے ہیں ۔ذوق و مومن کے ساتھ اب تک سب سے بڑا المیہ یہ ہورہا ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ تقابلی طور پر زیادہ اور ان کی انفرادیت کے طور پر بہت ہی کم کیا گیا ہے ۔اب تک ذوق پر لکھنے والوں کی تعداد دس سے بھی کم ہے ۔سابقہ تمام مطالعات کو مد نظر رکھتے ہوے پروفیسر کوثر مظہر ی نے جس خوش اسلوبی سے اس کتاب میں ایک تنقید ی محاکمہ پیش کیا ہے، اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ذوق کا مطالعہ اب تک کما حقہ‘ نہیں کیا گیا ہے ۔
مصنف نے زیر تبصرہ کتاب میں سب سے پہلے سوانح و پس منظر کوبیس صفحات میں پیش کیا ہے ۔ذوق ابتدائی حالات اور پس منظر کا ذکر کہیں نہیں ملتا ہے ۔ جس کا ذکر مصنف ان الفاظ میںکر تے ہیں ” اگر تمام کتب اور تذکر وں کو دیکھا جائے تو کہیں بھی ذوق کے حصول علم اور اس کی تکمیل کا واضح حوالہ نہیں ملتا “ ۔(ص ۴) مصنف نے اپنی تحقیق سے یہ بھی لکھا ہے کہ ” کوئی تذکرہ نگار اس امر کی جانب اشارہ نہیں کر تا کہ انہوں نے شاہ نصیر کے علاوہ کسی اور سے بھی مشورہ ¿ سخن کیا ہو ۔“ (۱٠)ذوق کے اساتذہ سخن کے بعد آب حیات کی اس بات پر سوال کر تے نظر آتے ہیں جس میں آزاد نے لکھا ہے کہ استاد ذوق الٰہی بخش معر وف کی شاعری پر اصلاح دیا کر تے تھے ۔مصنف اس پر یہ سوال قائم کر تے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ذوق کی ابتدائی شاعری سے پہلے معر وف کا ایک دیوان مرتب ہوچکا تھا ۔ تو کیا ذوق محض ۰۲۔۹۱ سال کی عمر میں اصلاح دینے کے مجاز تھے ؟
ذوق اور در بارشاہی پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف نے نہ ہی دربار شاہی کے احسانات ذوق پر کو پیش کیا ہے اور نہ ہی ذوق کے در ربار شاہی میں رعب و دبدبہ کا ذکر ہے۔بلکہ انہوں نے تحقیق کے دائرے میں کئی امور کو لایا ہے ۔جیسے ذوق کا دربار سے متعلق ہونا ، خاقانی ہند کا خطاب دیا جانا اور دیوان ظفر استاد کا ہے یا شاگر د کا؟ ۔اس تعلق سے گفتگو کر تے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ۔” مطلع صاف ہوچکا ، جو بھی معاملات مشق سخن یا اصلاح سخن کے طریقے رہے ہوں ذوق نے بہت کچھ گنوا دیا ، لیکن غالب نے اپنے شعری اور تخلیقی بساط پر آنچ نہیں آنے دی۔“ (ص ١٤ )۔ مصنف نے شخصیت اور افتاد طبع کا ذکر کر تے ہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ شخصیت اور افتاد طبع کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ جو اب تک نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو بانداز دیگر ۔ اسی سیاق میں سید عابد علی کی تحر یر کو پیش کر تے ہوے یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ذوق کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق کے زمانے کی دلی اور ذوق کی شخصیت کو جاننا بہت ہی ضروری ہے، اس کے بغیر ذوق کا مر تبہ متعین کر نا بہت ہی مشکل ہے ۔
مصنف تنقیدی محاکمہ کے باب میں تفصیلی گفتگو ذوق کی غزل گوئی اور قصیدہ گوئی کے متعلق پیش کر تے ہیں ۔مصنف نے اپنی تحقیقی گفتگو کاجو انداز سابقہ باب میں اختیار کیا ہے وہی انداز اس باب میں وافر طور پر نظر آتا ہے ۔غزل گوئی پر تنقید کر تے ہوئے بہت ہی محتاط انداز میں ان کی غزلیہ شاعری کو پر کھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔جانب داری بالکل بھی نظر نہیں آتی ہے ۔جہاں ان کو لگتا ہے کہ مضمون میں کمی ہے اور خیالات میں وسعت نہیں ہے اس کا بر ملا اظہار کر تے ہیں ۔اس جانب اشارہ کر تے ہیں کہ ذوق نے جہاں روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے وہاں ان کی شاعر ی منفر د نظر آتی ہے ۔
قصید ہ گوئی کی تنقید پر محتر م مصنف نے جو محاکمہ پیش کیا ہے وہ مستقل ایک نئے مباحثہ کو جنم دیتا ہے ۔مصنف نے اس طویل گفتگو میں آٹھ ناقدین قصائد ذوق کے تنقیدی تر اشو ں کو پیش کیا ہے ۔جن میں چار (بر ج موہن دتاریہ کیفی ، تنویر احمد علوی ، انوار الحسن ، ابو محمد سحر ) وہ ہیں جنہوں نے ذوق کو ایک اچھا قصید ہ گو شاعر مانا ہے ۔دوسرے چار (سید امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد ، پروفیسر عبد الحق) وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق ایک معمولی قصیدہ نگاری کی راے قائم کی ہے ۔ان کی تحریروں پر مصنف نے مدلل جواب اس کتاب میں پیش کیا ہے ۔ نیز ذوق کے قصیدوں کے متعلق کئی ایسے گوشے روشن کیے ہیں جن میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ذوق کی قصید نگاری سوداکی قصید نگاری سے کسی طور بھی کمتر نہیں ہے ۔الغرض اس موضوع پر مصنف کتاب طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ۔ ” ضرورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبدا ری او ر ایمانداری کے ساتھ دیکھا پڑھا اور پر کھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصید ہ میں سو دا بڑا اور غز ل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قر ا ت اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ۔“ (ص ۰۶) اس کے بعد بہت ہی مختصر انداز میں ان کی رباعی اور قطعات میں تنقیدی تحریر شامل ہے ۔ انتخاب کلام کے تحت ۹۳غزلیں ، چار قصیدے او ر ایک سہرا شامل ہے ۔الغر ض پروفیسر کوثر مظہر ی جو اپنی سابقہ تنقیدی کتابوں کی وجہ سے بہت ہی مثبت تنقید کے لیے جانے جاتے ہیں انہوں نے اس مونوگراف کے ذریعے جن مباحث کو پیش کیا اور جن گوشو ں کی جانب از سر نو دعوت مطالعہ دی ہے اس کے لیے وہ مبار کباد کے مستحق ہیں ۔




’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...