Showing posts with label گرامر. Show all posts
Showing posts with label گرامر. Show all posts

Wednesday 22 April 2020

اسم صفت بنانے کے قاعدے

اسم صفت بنانے کے طر یقے 


 صفت ذاتی سے کسی چیز یا شخض کی اندرونی وبیرونی حالت یا کیفیت کا پتہ چلتا ہے جیسے ذہین لڑکا۔ کُندبچہ ، ٹھوس زمین ، ہرامیدان ، شریر بکرا، تیز چاقووغیرہ ۔یہ صفت کئی موقعوں پر دو لفظوں سے مر کب ہوتا ہے جیسے ہنس مکھ ، من چلا ، منھ پھٹ وغیرہ ۔فارسی علامتوں کے استعمال سے بھی بنتا ہے جیسے ، بے فکرا ، سعادت مند، بے ڈھب وغیر ہ ، ان مثا لوں میں بے صفت کے ساتھ مل کر صفت ذاتی بن رہا ہے ۔بعض اوقات یہ اسماء اور افعال سے بھی بنائے جاتے ہیں جیسے ، جھوٹ ، سے جھوٹا ، سچ سے سچا ، غدر سے غدار، کھیل سے کھلاڑی  وغیرہ ۔

صفت نسبتی کے متعلق آپ نے پڑھا ہوگا کہ یہ اس صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری شے سے نسبت یا لگاؤ ظاہر ہو جیسے کلکتہ سے کلکتوی، پٹنہ سے پٹنوی دہلی سے دہلوی وغیرہ ۔ عموماً اس کے لیے اسما کے اخیر میں یائے معروف کا اضافہ کرتے ہیں ۔ جیسے ہندو ستان سے ہندوستا نی ۔  مصر سے مصری، پاکستان سے پاکستانی وغیرہ ۔
اگر کسی اسم کے اخیر میں (ی )،( الف)  اور( ہ) ہوتو اس ی، الف اور ہ کو واو سے بدل کر اخیر میں ی کا اضافہ کر تے ہیں جیسے دہلی سے دہلوی ، پٹنہ سے پٹنوی وغیرہ ۔ جن اسما کے اخیر میں (ہ ) ہو اس کو حذف کرکے ی کا اضا فہ کر دیتے ہیں جیسے مکہ سے مکی اور کبھی ہ کو واو سے بدل کر ی کا اضافہ کر تے ہیں کلکتہ سے کلکتوی وغیرہ ۔کبھی الف نون بڑھا کر صفت نسبتی بنا یا جاتا ہے جیسے شاطر سے شاطرانہ ، احمق سے احمقانہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں جس کا ذکر اس سے قبل کے شمارے میں ہوچکا ہے ۔

صفت عددی کے متعلق ہم نے پڑھا ہے کہ یہ وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی تعداد ، کسی اسم کا درجہ معلوم ہو ،یا کسی اسم کی کلیت کا پتہ چلے ۔جیسے دس لڑکے، دسواں لڑکا ، دسوں لڑکے ۔ پہلے سے تعداد، دوسرے سے درجہ اور تیسرے سے کلیت( مکمل )کا علم ہورہا ہے یعنی دس کے دس سبھی ۔ اس کے بنانے کے قاعدے میں کوئی کچھ خاص بات تو نظر نہیں آرہی ہے ۔ پہلے میں صرف گنتی ہے ، دوسرے میں ایک سے پہلا ، دو سے دوسرا ، تین سے تیسرا ، چار سے چوتھا ، پانچ سے پانچوا ں ۔ پانچ سے وا و الف اور نون غنہ کا اضافہ اخیر تک ہوگا سب کے سب واو ، الف ، نون عنہ کے اضافے سے بنیں گے جیسے تیسواں ، چالیسواں  اور بہترواں وغیرہ ۔عدد کے آگے ’ گُنا ‘ بڑھانے سے بھی صفت عدد بنتا ہے جیسے دو گنا ، تین گنا ، چار گنا ۔(دگنا ، تِگنا ، چوگنا )( گُنا کو گونہ بھی لکھتے ہیں ) ۔ اسی طریقے سے فارسی اعداد کے بعد ’چند ‘ اضا فہ کر نے سے جیسے دو چند ، سہ چند وغیرہ ۔ ہر ا بھی بڑھانے سے جیسے دوہرا ، تہرا ۔ان کے علاوہ اس قسم کے دوسرے  اسمائے عدد جیسے ، پاؤ ، آدھا ، پونے ، سوا ، ڈیڑھ ، پون، پونے ، ڈھائی، چوتھائی یہ تمام جس طر ح سے صفت عددی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اسی طریقے سے مقداری کے طور پر بھی ۔ 

 صفت مقداری اس اسم صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی مقدار ظاہر ہو ۔جیسے پانچ کلوسیب ، دس میٹر کپڑا ، بالٹی بھر پانی ، آدھا گلاس شربت ، اتنا پانی ختم ہوا ۔ جتنا چاہو کھا لو ۔ بورا بھر چاول ، ڈرم بھر تیل ، وغیرہ ۔ بس یہ یا د رکھیں کہ اس کے لیے وہ اسما ء استعمال ہوتے ہیں جس سے مقدار کے معانی نکلتے ہوں ، اس کی مزید تفصیل گذشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہے ۔ 

صفت ضمیری وہ ضمیریں ہوتی ہیں جو صفت کا کام دیتی ہیں ۔یہ عمو ما ً ’ یہ ، وہ ، کون ، جو ، کیا ‘ ہوتی ہیں ۔ اس کے بنانے کا کوئی خاص قاعدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کلمات صفت ضمیری کے طور پر اسی وقت استعمال ہوتے ہیں جب یہ کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوں جیسے وہ گاڑی آئی تھی ، میں اس اسکول میں پڑ ھتا ہوں ، کون شخص ایسا کہتا ہے ، وغیرہ ۔ ان مثالوں میں ’وہ ، اس ، کون، صفت ضمیری ہیں ۔

اس مثال سے تو آپ جان ہی گئے ہوںگے کہ ضمیر ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے وہ نہیں آیا ، میں آج نہیں جاؤں گا ۔ اس مثال میں وہ اور میں اسم ضمیر ہیں ۔ اگلے شمارے میں ہم انشا ء اللہ ضمیر کے اقسام کے متعلق پڑھیں گے 

Monday 20 April 2020

اسم صفت اور اس کی قسمیں

اسم صفت اور اس کی قسمیں 

 صفت (Adjective) اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی کیفیت یا حا لت کا پتہ چلے ،اس کلمہ سے کسی اسم کی اچھائی یا برائی کا پتہ چلے جیسے لال گھوڑا ، گورا آدمی ، خوبصورت لڑکی ،مو ٹی کاپی ، اچھی کتاب ، باریک پینسل وغیرہ ۔ ان تما م مثالوں میں لال ، گورا ، خوبصورت ، موٹی ، اچھی اور باریک اسم ہیں ۔ کیو نکہ ان ہی کلموں سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے جس کے لیے یہ لفظ لا یا گیا ہے ۔ اسی لیے اس کو صفت کہتے ہیں ۔ 

صفت کے اقسام 
 صفت ذاتی
 صفت نسبتی
 صفت عددی 
 صفت مقداری
 صفت ضمیر ی 

صفت ذاتی: وہ صفت ہے جس سے کسی چیز یا شخض کی اندرونی وبیرونی حالت یا کیفیت کا پتہ چلتا ہو جیسے ذہین لڑکا۔ کُندبچہ ، ٹھوس زمین ، ہرامیدان ، شریر بکرا، تیز چاقووغیرہ ۔ ان تمام مثالوں میں ذہین ،کند، ٹھوس ، ہرا وغیرہ صفت ذاتی ہیں ۔

صفت نسبتی: اس صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری شے سے نسبت یا لگاؤ ظاہر ہو ۔ جیسے کلکتہ سے صفت نسبتی کلکتوی، پٹنہ سے پٹنوی دہلی سے دہلوی وغیرہ ۔ اس صفت کو اگر حامد کے ساتھ لگا یا اور لکھا یا بولا جائے حامد لکھنوی تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں لکھنوی صفت نسبتی ہے جس سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ حامد لکھنو کا رہنے والا ہے ۔ 

کبھی کبھی صفت نسبتی خاندان یا تعلیم گاہ سے بھی منسلک ہوتا ہے جیسے گاندھی گاندھی خاندان کی جانب منسوب ہوتاہے ۔قادری قادریہ کی نسبت سے اور ندوی ندوہ کی جانب منسوب ہوتا ہے ۔

انگریزی طریقہ ٔ کار بھی اس میں مستعمل ہے جیسے انڈیا سے انڈین ، علی گڑھ سے علیگیرین ۔

  عام بول چال کی زبان سے بھی صفت نسبتی استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کلکتہ سے کلکتیا ، بمبئی سے بمبئیاوغیرہ ۔ ان مثالوں میں غور کر نے سے خودآپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح صفت نسبتی بن رہے ہیں ۔

صفت عددی : وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی تعداد ، یا کسی اسم کا درجہ معلوم ہو ،یا کسی اسم کی کلیت کا پتہ چلے ۔تعداد کی دو قسم ہوتی ہے ایک جب ٹھیک تعداد معلوم ہو جیسے زکیہ نے دس انڈے خریدے ، سال کے بارہ مہینہ ہوتے ہیں ۔دوسرے جب کسی چیزکی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہو جیسے کچھ لڑکے کھیل رہے ہیں ، بعض لوگ مجھ سے ملے۔ ان مذکورہ مثالوں میں ’دس ، بارہ ، کچھ اور بعض‘ صفت عددی ہیں ۔ا ن سب مثالوں میں کسی اسم کی تعداد کا پتہ چل رہا ہے ، پانچو یں کلاس ، آٹھویں کلاس، پہلا ، دوسرا ،تیسرا وغیرہ ان مثالوں میں کلاس کا درجہ معلوم ہورہا ہے ۔ صفت عددی کبھی کسی اسم کے مکمل احاطہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے پانچوں لوگ ، ساتوں اسکول ، تینوں بچے ۔ان مثالوں میں پانچوں ،ساتوں اور تینوں سے اس بات کو سمجھا جارہا ہے کہ وہ اتنے ہی تھے اور سب کے سب اس میں شامل ہوگئے ، کبھی کبھی عمومیت کے اظہار کے لیے بھی صفت عددی کا استعمال کر تے ہیں جیسے : دسیوں لوگ آئے ہوں گے وغیرہ ۔ ان کے علاوہ بھی اس کے کئی اقسام ہیں. 

صفت مقداری : وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی مقدار ظاہر ہو ۔جیسے کلیم نے پانچ کلوسیب خریدا ، دس میٹر کپڑا ، بالٹی بھر پانی ، آدھا گلاس شربت ، اتنا پانی ختم ہوا ۔ جتنا چاہو کھا لو ۔ بورا بھر چاول ، ڈرم بھر تیل ، وغیرہ ۔ ان مثالون میں پانچ کلو، دس میٹر ، بالٹی، آدھا ، اتنا ، جتنا ، بورا، ڈرم وہ لفظ ہیں جو صفت مقدار ی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔پھر صفت مقدار ی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس سے متعین مقدار معلوم ہو، جیسے پانچ کلو، دس میٹر ، چار لیٹر وغیرہ ۔ کیو نکہ ان کا مقدار متعین ہے کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا ۔ دوسرا وہ جس سے متعین مقدار معلوم نہ ہوجیسے بالٹی بھر پانی میں بالٹی بڑی یا چھوٹی بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی طریقہ سے بورا تھیلا ، اتنا ، اُتنا ، جِتنا وغیرہ ۔

صفت ضمیری : وہ ضمیریں جو صفت کا کام دیتی ہیں یا جس میں تھوڑی بہت ضمیر کی خوبی پائی جاتی ہو صفت ضمیری کہلاتی ہیں ۔وہ عمو ما ً ’ یہ ، وہ ، کون ، جو ، کیا ‘ ہوتی ہیں ۔ان کلمات کو آپ نے اسم. کے اقسام میں اسم ضمیر کے طور پربھی پڑھا ہوگا ۔یقینا یہ اسم ضمیر ہوتی ہیں لیکن اس وقت جب یہ تنہا استعمال ہوتی ہوں ۔ جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوں گی تو اس وقت یہ صفت ضمیری ہوں گی ۔ جیسے وہ لڑکا آیا تھا ، یہ کتاب میں پڑ ھ سکتا ہوں ، کون شخص ایسا کہتا ہے ، اسے کیوں چھوتے ہو ، جو ایوریسٹ پر چڑھتا ہے وہ بہادر ہوتا ہے ،کیا چیز گر پڑی ؟ وغیرہ ۔ ان مثالوں میں ’وہ ، یہ ، کون، اسے ، جو اورکیا ‘ صفت ضمیری ہیں ۔

Friday 10 April 2020

اسم نکرہ کی قسمیں

اسم نکرہ کی قسمیں 

 اسم کیفیت: وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی کوئی خاص حالت یا کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ جیسے نرمی، سختی، روشنی، اندھیرا، صحت، بیماری وغیرہ۔ ان میں سے صحت، نیند اور رفتار وغیرہ سے حالت کا پتہ چلتا ہے اور درد، خوشی، غم وغیرہ سے کیفیت کا علم ہوتا ہے۔

اسم کیفیت فعل سے بھی بنا تے ہیں جیسے رہنا سہنا فعل ہے اس سے اسم کیفیت رہن سہن بن گیا۔ چلنا ایک فعل ہے اس سے چال چلن بن گیا۔ لینا دینا فعل ہے اس سے لین دین بن گیا۔

بعض اسم کیفیت صفت (Adjective) سے بھی بنتے ہیں۔ جیسے نرم صفت ہے اس سے نر می، گرم صفت ہے اس سے گرمی وغیرہ۔

 بعض اسم سے بھی بنتے ہیں جیسے دوست اسم ہے اس سے دوستی، دشمن اسم ہے اس سے دشمنی، تیز اسم ہے اس سے تیز ی وغیرہ۔
ا
سم جمع: اس اسم کو کہتے ہیں جو صورت میں تو واحد معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کئی اسموں کا مجموعہ ہوتے ہیں، یعنی معنوی اعتبار سے وہ جمع ہوتے ہے اور لفظی اعتبار سے واحد۔جیسے فوج اسم جمع ہے۔ وہ اس طر ح کے ایک کو تو فوجی کہیں گے اور جب وہ سینکڑوں کی تعداد میں یا دس ہی کی تعداد میں آئے تو اس کو فوج کہیں گے۔ اسی طریقہ سے جماعت اسم جمع ہے کیو نکہ جماعت کسی ایک آدمی کو نہیں کہا جاسکتا کئی لوگ ایک ساتھ ہو ں تو اس کو جماعت کہتے ہیں۔اسی طریقے سے جھنڈ، بنڈل، جتھا، ریوڑ وغیرہ اسم جمع ہیں۔
ا
سم ظرف: اس اسم کو کہتے ہیں جس میں کسی جگہ یا وقت کے معنی پائے جائیں۔ جیسے ندی،پہاڑ،جھرنا اور میدان وغیرہ۔یہ سب اپنی بنیادی اعتبار سے اسم نکر ہ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا کسی خاص پہاڑ یا جھر نا وغیرہ کو مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی بھی عام پر دلالت کر رہا ہے۔ اسی لیے اس کو اسم ظرف کہا جاتا کیوں کہ وہ سب کسی جگہ کا نام ہے۔ اسی طر یقے سے ہوائی اڈہ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹاپ وغیرہ اسم ظرف ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جس سے کسی جگہ یا مقام کا پتہ چلتا ہے۔ 

جن الفاظ سے وقت کا پتہ چلتا ہے جیسے فجر، ظہر، دو پہر، سہ پہر، صبح، شام ولنچ وغیرہ یہ اسم ظر ف زمان ہو تے ہیں کیو نکہ اس سے وقت کا پتہ چلتا ہے۔

اسم آلہ: وہ اسم ہے جو اوزار ہوتے ہیں، جیسے چاقو، قینچی، پھاؤڑا وغیرہ۔

اسم آلہ فعل سے بھی بنتا ہے۔ جیسے بیلنا، سے بیلن، چھاننا سے چھلنی، لٹکانا سے لٹکن، کترنا سے کترنی، جھاڑنا سے جھاڑووغیرہ۔

 اسم کی  مزید قسمیں 
اسم ضمیر:وہ کلمہ ہوتا ہے جو اسم کی جگہ استعمال کیا جائے۔ مثلا میں، تم، وہ، تو، آپ، وغیرہ۔ یہ اکثر گفتگو کے درمیان میں ہوتا ہے۔ جیسے آپ بو لتے ہیں زاہد آیا تھا اور وہ میری کاپی لیکر چلا گیا۔ اس جملہ میں ’وہ‘اسم ضمیر ہے۔ اسی طر ح سے جب آپ سامنے والے شخص سے بات کر تے ہیں تو اس وقت ’آپ، تم اور تو‘ وغیر ہ کلمے کا استعمال ہو تا ہے جو نام کی جگہ ہو تا ہے۔ اسی کو اسم ضمیر کہا جاتا ہے۔

اسم موصول:وہ کلمہ ہوتا ہے جو اس وقت تک پورے مفہوم نہیں دیتاجب تک اس کے ساتھ ایک اورجملہ مذکورہ نہ ہو۔ مثلا۔جو،جس،جب، جسے، جنہیں، وغیرہ۔ اس کو اس طر ح سمجھتے ہیں ’جنہیں بلندی چاہیے ہوتی ہے وہ راتوں کو جاگ کر محنت کر تا ہے“ اس جملہ میں جنہیں اسم موصول ہے جس کا معنی جملہ کے دوسرے حصہ ”وہ راتوں کو جاگ کر محنت کر تا ہے“ سے واضح ہورہا ہے۔

اسم اشارہ: وہ کلمہ ہے جو کسی چیز،جگہ، یا شخص کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔مثلا اِس،اْن،یہ،اْس،وہ،وغیرہ۔ اُ س کتاب کو اٹھا ؤ، اُن کو بلا ؤ، وہ جانور کس کا ہے، یہ کتاب کس کی ہے وغیر ہ۔ ان جملوں میں اِس، اْن، یہ، اْس، وہ، وغیرہ اسم اشارہ ہیں۔

اسم معرفہ

اسم کے اقسام

اسم کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔اسم نکرہ
۲۔اسم معرفہ

اسم نکرہ:(اس کو اسم عام بھی کہتے ہیں) یہ اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی بھی غیر متعین چیزکے لیے بو لا جائے۔جیسے شہر اسم نکر ہ ہے۔ کیو نکہ شہر کسی خاص شہر کو نہیں کہاجاتا ہے بلکہ ہر ایک شہر کو شہر ہی کہاجاتا ہے۔ اسی طر ح سے آدمی، کتاب، جانور، کتا، بلی اور گھر وغیرہ اسم نکر ہ ہیں۔

اسم معرفہ:کسی چیز،جگہ،یا شخص کے خاص نام کو اسم معرفہ کہتے ہیں جس سے وہی سمجھا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سمجھا جائے۔ مثلاکلکتہ،ممبئی، عمران،شاذیہ، یوسف وغیرہ۔

اسم معرفہ کی چار قسمیں ہیں۔  
۱۔اسم علم    ۲۔اسم ضمیر ۳۔اسم موصول ۴۔اسم اشارہ

؎اسم علم:اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی خاص چیز،شخص یا جگہ کے نام کو ظاہر کرے۔ مثلا۔ خالد،اقرا،دیوان غالب،حاجی علی وغیرہ

’اسم علم‘ کی بھی پانچ قسمیں ہیں 
۱۔ عرف ۲۔ خطاب ۳۔ لقب ۴۔کنیت ۵۔تخلص

۱۔عرف:عر ف وہ نام ہوتا ہے جو محبت یا حقارت کی وجہ سے دیا جائے، پڑجائے یا اصل نام کا کوئی چھوٹا سا حصہ ہی مشہور ہوجائے۔جیسے نگار سے نگی، انو ج سے انو یا پھر  موٹا ہو نے کی وجہ سے موٹو پڑ جاٍئے، چنو، کلو، کلن وغیرہ 

۲۔خطاب: وہ نام ہے جو حکومت کی طرف سے اعزازی طور پر دیا جائے۔پہلے شمس العلماء، نواب، خان بہادر وغیرہ دیا جاتا تھا۔اب بھارت رتن، پدم وبھوشن، پدم شری وغیرہ کا خطاب صدرجمہوریہ ہند کی جانب سے دیا جاتا ہے۔علاقائی سرکاریں بھی بہادری، اور پڑھائی پر خطاب دیتی ہیں ان سب کو خطابات کے زمرے میں ہی رکھا جاتا ہے۔

۳۔لقب: یہ وہ نام ہے جو کسی خاصیت یا صفت کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہو۔ ویسے خاصیت ہو یا نہ ہو مشہور ہونا زیادہ اہم ہے۔ لقب چونکہ اسم معرفہ کی قسم ہے لہذا خاص لوگوں کے ہی لقب ہوتے ہیں مثلاً قائد ملت، مفکر اسلام،، قائد شباب۔ مسٹر ٹک ٹک، خاتون آہن، وغیرہ۔ 

خطاب تو سر کارکی جانب سے ملتا ہے اور لقب عوام دیتی ہے جیسا کہ آپ مثال سے سمجھ چکے ہوں گے۔

۴۔کنیت:یہ وہ نام ہوتا ہے جو ماں باپ یا بیٹا بیٹی کے تعلق کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔ یوں تو یہ عربوں میں مقبول ہے جیسے ابو زبیدہ، ام کلثوم وغیرہ لیکن ہمارے یہا ں اس کا استعمال’مسز فلاں‘ جیسی صورت میں نظر آتا ہے۔یہ اکثر آس پڑوس سے ملتا ہے۔ بلا واسطہ نام پکارنے میں اچھا نہیں لگتا ہے تو بچو ں کے ابو کے نام سے پکارتے ہیں۔ جیسے کہیں گے ”اے بشریٰ کے ابو، یا اے زینب کی امی‘ وغیرہ۔

۵۔تخلص: یہ وہ قلمی نام ہے جو شعرا یا ادیب اصلی نام کی جگہ ا ستعمال کرتے ہیں مثلاً غالبؔ مرزا اسداللہ خاں کا تخلص ہے، مجاز ؔاسرارالحق کا تخلص ہے اور پریم چند دھنپت رائے کا وغیرہ وغیرہ۔میر تقی میرؔ کا ایک شعر دیکھیں 

قامت خمیدہ،رنگ شکستہ، بدن نزار
 ترا تو میرؔ غم میں عجب حال ہوگیا 

اس شعر میں میرؔ تخلص ہے شاعر میر تقی میر ؔ کا۔شاعر کے تخلص میں یہ (   ؔ)نشا ن ضرور لگا تے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ شاعر نے شعر میں اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔

Wednesday 1 April 2020

لفظ اور اس کی قسمیں

لفظ اور اس کی قسمیں

جو آواز ہمار ے منہ سے نکلتی ہے وہ لفظ کہلاتی ہے ۔ ایک لفظ کئی حر ف سے جڑ کر بنتا ہے ۔ چاہے دو حر ف یا تین حر ف سے ہی کیوں نہ بنا ہو۔ او ر منھ سے نکلی ہوئی ہر آوازاپنے اندرکوئی معنی رکھتی ہے اور نہیں بھی رکھتی ہے ۔

 جس لفظ کا کوئی معنی ہوتا ہے یا سمجھ میں آتا ہے اس لفظ کو موضوع کہتے ہیں۔ اس کو موضوع اس لیے کہتے ہیں کہ اس لفظ کے سننے یا پڑھنے سے کوئی نہ کوئی معنی ذہن میں آجاتا ہے کیونکہ وہ لفظ کوئی نہ کوئی معنی کو ادا کر نے کے لیے بنا یا گیا ہوتا ہے ۔ جیسے کُر تا ایک لفظ ہے جس کے معنی متعین ہیں ۔ جو ایک خاص قسم کے سلے ہوئے کپڑے کا نام ہے جسے بدن کے اوپری حصہ میں پہنا جاتا ہے ۔ لیکن اسی کے ساتھ عام بول چال میں ایک اور لفظ بولا جاتا ہے جس کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہوتا ہے جیسے ’’کر تا ورتا ‘‘ کر تا کے معنی تو سمجھ میں آتے ہیں تو اس لفظ کو موضوع کہا گیا لیکن ’’وُرتا ‘‘ کے معنی کچھ نہیں ہوتا ہے تو اس کو مہمل کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم ’آلتو فالتو‘ بھی کہتے ہیں ، جس میں ’آلتو ‘ کا کوئی معنی نہیں ہے لیکن فا لتو کا معنی ہے ، الغرض معنی لفظ کے ساتھ مہمل لفظ کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے ۔

 اب آپ یا د رکھیں کہ صر ف بامعنی لفظ کو ہی کلمہ کہتے ہیں ۔ جیسے کتاب، قلم ، کاپی ، آیا، گیا ، پر ، سے اور اسکول وغیرہ ۔یہ سارے کلمے ہیں ۔ ایسے بامعنی الفا ظ کے مجموعے کو ہی جملہ کہاجاتا ہے جس کے معانی سمجھ میں آجائے جیسے ’’حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا‘‘ ۔ لفظ سارے تر تیب سے ہوں تو جملہ بھی بامعنی ہوتا ہے اور اگر الفاظ تر تیب سے نہ ہوں تو جملہ بھی مہمل ہوجاتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں ’’ حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا ‘‘ ایک بامعنی جملہ ہے ۔ لیکن اگر ان الفاظ کی تر تیب بدل دیں جیسے ’’ کتاب سے قلم اور حامددکان لایا ‘‘ کیا اس کے معنی سمجھ میں آئیں گے ؟نہیں ! ۔ لہذاجب کوئی لفظ جملے میں صحیح مقام میں لایا جاتا ہے تو وہ لفظ اس جملے میں بامعنی لفظ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لفظ کے صحیح مقام پر استعمال سے لفظ کی ابتدائی تین قسمیں بنتی ہیں ۔

اسم فعل  حرف 

اسم : اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی جاندار ، چیزیا جگہ کا نام ہو ۔
جاندار: آدمی ، ہاتھی ، کوا ، بلی ،سانپ وغیرہ ۔
چیز : کتاب ، قلم ، موبائل، کمپیوٹر، چپل ، چو لہا وغیرہ ۔
جگہ: کو لکاتا ، ممبئی ، دہلی ، پٹنہ ، گھر ، ریسٹورینٹ ، مسجد، مندر وغیرہ ۔ 

فعل : وہ لفظ ہوتا ہے جس سے کسی کام کے کرنے یا ہونے کی خبر معلوم ہو ۔ مثلاً پینا فعل ہے ۔

 فعل اسطر ح ہے کہ آپ نے کہا ’’ میں نے پانی پیا ‘‘ تو آپ نے پانی پینے کا کام کیا ، تو اس کے لیے آپ نے لفظ پینا استعمال کیا جو گرامر کی اصطلاح میں فعل ہے ۔ اس طرح جیسے ’’ آپ نے سائیکل چلایا ‘‘ تو چلانا فعل ہوا کیو ں کہ آپ نے چلانے کا کام کیا  ۔یہ تو ہوا کسی کا م کا ہونا پایا جائے ۔

 جب کسی کام کاکر نا پایا جائے تو اس کو بھی فعل کہتے ہیں ،چا ہے وہ کام ابھی کر رہے ہوں۔ جیسے ’’ امی کھانا پکا رہی ہیں ‘‘ تو’ پکارہی ہیں‘ فعل ہوا ۔ اس طر ح کے جتنے الفاظ آتے ہیں جس سے کسی کا م کے ہونے یا کر نے کا پتہ چلتا ہے تو وہ لفظ فعل کہلاتا ہے ۔

حرف : اس لفظ کو کہتے ہیں جو تنہا کچھ معنی نہیں دیتا جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی اور لفظ نہ ملے جیسے :سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، کے ، کی ، نے ، وغیرہ حر ف ہیں ۔یہ وہ کلمات یا الفاظ ہیں جس کے معنی دوسرے الفاظ سے ملے بغیر ظاہر ہی نہیں ہوسکتے جیسے : دلی سے آیا ۔ اس میں سے حر ف ہے ، جو یہ معنی بتا رہا ہے کہ آنے والا دلی شہر سے آیا ہے۔ 

اگرلفظ’ سے‘ کو کہیں الگ سے لکھ دیا جائے یا بولا جا ئے اور آگے پیچھے کوئی اور لفظ نہیں لگا یا جائے تو اس کا معنی کچھ بھی نہیں ظاہر ہو تا ہے ۔ اس طر یقے سے ’’ کتاب بیگ میںہے، ابو چھت پر ہیں، دادی کو بلاؤ، بھائی کے کپڑے ، امی کی کتاب، استا د نے کہا۔ ان جملوں میں ’’ میں، پر، کو، کے، کی، نے‘ ‘ حر ف ہیں جو دوسرے لفظوں کے ساتھ استعمال ہونے میں اپنا معنی دے رہے ہیں ۔ 

اعراب نما حر وف

اعراب نما حر وف 

حرکات و علامت کی طرح کچھ حروف بھی ہوتے ہیں جو اعر اب کا کام انجام دیتی ہیں البتہ اس میں زبر زیر پیش کی طرح کوئی علامت نہیں لگائی جاتی ہے بلکہ خود حر ف تہجی میں سے کوئی حر ف اس عمل کو انجام دیتا ہے اس کو ہم اعراب نما حروف کہتے ہیں ۔ 

۱۔ واومعدولہ : واو معدولہ اس واو کو کہتے ہیں جو لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ جس طر ح انگلش میں سائلینٹ حر ف ہوتے ہیں جو لکھے تو جاتے ہیں لیکن وہ حرف پڑھے نہیں جاتے ہیں جیسے writing (رائٹنگ ) اس میں w نہیں پڑھا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے اردو میں واو ہے جو کئی لفظوں میں لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ یہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب واو ’خ‘ کے بعد آتا ہے جیسے خود ، خواب، دستر خوان، خواجہ اور خوشبو وغیر ہ ان تمام میں واو نہیں پڑھا جاتا ہے بلکہ اگر واو کے بعد الف ہے تو واو غائب ہوکر الف ہی پڑھا جاتا ہے جیسے درخواست ، دستر خوان ، خواجہ ، خوانچہ ، خوار اور خواجگان وغیرہ اور اگر واو کے بعد الف کے سوا کوئی دوسرا حرف ہے توپھر خ کے اوپر پیش پڑھا جاتا ہے جیسے خُوش اور خوداس میں واو گویا پیش کا کام کرتا ہے ۔

۲۔ واو معر وف : اس واو کو کہتے ہیں جب واو سے پہلے والے حر ف میں پیش ہو جیسے ، نُور ، حُور اور دُور وغیر ہ ان تمام مقاما ت پر واو اعراب کا کام کرتا ہے ۔

۳۔ واو مجہول : اس واو کو کہتے ہیں جو (o) کی آواز رکھتا ہے ۔ جیسے شور ، مور اور توڑ وغیر ہ ۔ ایسی آواز کے لیے اردو میں کوئی علامت نہیں ہے اس لیے ان کے لیے بطور علامت واو کا استعمال ہوتا ہے ۔

نون غنہ : حروف تہجی میں ایک حر ف ’ ن ‘ ہوتا ہے ، لیکن ہماری اردو میں کئی ایسے لفظ ہیں جن میں مکمل نون کی آواز نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں نون کی ہی طر ح آدھی نون کی آواز آتی ہے جس کو ہم ناک سے نکالتے ہیں اس کو ہم ’ نو ن غنہ ‘ کہتے ہیں ۔ وہ کبھی بیچ لفظ میں آتا ہے اور کبھی اخیر لفظ میں ۔ جب لفظ کے آخر میں آئے تو اس کی اصل شکل ’ں‘ہوتی ہے ۔ جب نو ن غنہ کی ضر ورت بیچ لفظ میں پڑے تو نون ہی لکھا جاتا ہے لیکن نون غنہ پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے کنواں ، سانپ اور اینٹ وغیرہ ۔ان سب میں نون کا تلفظ مکمل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ آواز ناک سے نکالی جاتی ہے اور جب نو ن غنہ کی ضرور ت لفظ کے اخیر حرف میں پڑے تو وہاں نون کے اوپر نقطہ نہیں لگاتے ہیں جیسے یہاں ، وہاں ، فلاں وغیرہ ۔

الف مقصورہ : اس سے پہلے آپ نے حرو ف تہجی میں ’ی ‘ پڑھا ہوگا ۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو کہ ی بھی کہیں کہیں الف پڑھا جاتا ہے ۔جہاں الف کا کام کرتا ہے وہاں اس کے اوپر ایک چھوٹا سا الف کا نشان بنا دیتے ہیں جس نشان کو کچھ لوگ کھڑا زبر بھی کہتے ہیں ، جیسے تقویٰ، فتویٰ صغریٰ اور کبریٰ وغیرہ ایسے مقامات پ ’ی‘ کو الف مقصورہ کہتے ہیں ۔

ہائے خفی : کہیں کہیں ’ ہ ‘ بھی الف جیسا کام کر تا ہے۔ جہاں ’ہ‘ تو لکھا جاتا ہے لیکن پڑھا الف جاتا ہے ۔اس ’ہ ‘ کو ہائے خفی کہتے ہیں ۔ جیسے رکشہ ، ملکہ اور بچہ وغیر ہ ۔ ان تمام میں اخیر میں تو ’ہ‘ لکھا جاتا ہے لیکن آواز الف کی آتی ہے ۔

اعراب

 اعراب 

اعراب ان چند علامتوں کو کہتے ہیں جن سے کسی حرف کی کیفیت کا پتہ چلے۔ ہندی میں ماتراؤں اور انگلش میںجو کام  wovels کا ہوتا ہے وہی کام اردو میں اعراب کا ہوتا ہے ۔اردو میں اعراب زبر ، زیر پیش ، مد ، تشدید ، تنوین کھڑا زبر اور کھڑا زیر کو کہتے ہیں۔ 

اردو ، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کے اعراب یعنی زبر، زیر ،پیش اور جزم ایک جیسے ہیںاور ان کو حرکات کہا جاتا ہے ، جن حر وف کو ان کے ذریعہ حر کت دی جاتی ہے انہیں متحر ک حروف کہا جاتا ہے اور جس حر ف پر کوئی حر کت نہیں ہو وہ ساکن حرف کہلاتا ہے۔ ’’مد ‘‘ ، ’’تشدید‘‘ اور ’تنوین‘‘ علامتیں کہلاتی ہیں ۔

 زَبر (اَب) زبر کے معنی اوپر کے ہیں ۔جس حرف کے اوپر تر چھی لکیر ہوتی ہے اس لکیر کو زبر کہتے ہیں۔زبر کو عربی میں فتحہ کہتے ہیں اس لیے جس حرف کے اوپر تر چھی لکیر ہوتی ہے اس حر ف کو مفتوح کہتے ہیں ۔جیسے غَم میں( غ) مفتوح ہے اور (غَ)کے اوپر جو ٹیڑھی لکیر ہے وہ زبرہے ۔

زِیر (اِب ) زیر کے معنی نیچے کے ہیں ۔جس حرف کے نیچے تر چھی لکیر ہوتی ہے اس لکیر کو زیر کہتے ہیں۔زیر کو عربی میں کسرہ کہتے ہیں اس لیے جس حرف کے نیچے تر چھی لکیر ہوتی ہے اس حر ف کو مکسور کہتے ہیں ۔جیسے بِل میں (ب) مکسور ہے اور( بِ) کے نیجے جو ٹیڑھی لکیر ہے وہ زیر ہے ۔

پیش (پُل) پیش کے معنی سامنے یا آگے کے ہیں ۔جس حرف کے اوپر چھوٹا واو جیسا نشان ہوتا ہے اس نشان کو پیش کہتے ہیں ،پیش کو عربی میں ضمہ کہتے ہیں۔اس لیے جس حر ف پر پیش لگا ہوتا ہے اس حر ف کو مضموم کہتے ہیں جیسے پُل میں (پ) مضموم ہے اور اس کے اوپر جو علامت ہے وہ پیش ہے ۔

 جزم یا سکون (دِنْ) سکون کے معنی خاموش کے ہیں ۔جس حرف پر کوئی حر کت نہیں ہو اس میں جزم یا سکون ہوتا ہے ۔اور ایسے حر ف کو ساکن کہتے ہیں اردو میں ہر لفظ کا آخر ی حر ف ساکن ہوتا ہے ۔جیسے دِنْ کا آ خر ی حر ف(ن) ساکن ہے ، اسی طریقے سے دُنْیا کا نون بھی ساکن ہے ۔

مد (   ٓ) مد ایک علامت ہے اس کے معنی ہیں لمبا کر نا ۔الف کو جب کھنچ کر بولتے یا پڑھتے ہیں تو اس وقت اس پر یہ علامت لگادیتے ہیں جیسے آم ،آملہ ایسے الف کو الف ممدودہ کہتے ہیں ۔

تشدید (  ّ ) ابّا جس حرف پر ’  ّ‘ کی علامت ہو اس علامت کو تشدید کہتے ہیں۔ جب کسی لفظ میں کوئی حر ف دو بار پڑھا جاتاہے تو اس پر تشدید لگا دیتے ہیں اور جس حر ف پر تشدید ہوتاہے اس کو حر ف مشدد کہتے ہیں ۔ ایسے میں انگش اور ہندی میں کوئی بھی حرف دو مرتبہ لکھا جاتا ہے لیکن اردو میں ایک ہی حرف لکھ کر اس پر تشدید لگا دیا جاتا ہے ، جیسے گنّا، اُلّو ، پٹّھاوغیرہ 

تنوین (  ً  ٍ  ٌ) اس کے معنی نون کے آواز پیدا کر نے کے ہیں یہ صرف عر بی الفاظ کے اخیر میں آتی ہے ۔جب یہ علامت کسی حر ف پر ہوتی ہے تو اس کے آخر میں نون کے آواز نکلتی ہے جیسے فوراً، اتفاقاً اور مثلاً وغیرہ  ۔

ہمزہ (ء ) یہ ایک علامت بھی ہوتا ہے اور اس کو حر وف تہجی میں بھی شمار کیا جاتاہے ۔جس حر ف کے اوپر ہمزہ(ء) ہوتا ہے اس میں آواز کو کھنچ کر نکالتے ہیں جیسے آؤ ، جاؤ ۔یہ ہمیشہ ’ی‘ اور ’و‘ کے ساتھ ہی آتا ہے جیسے کئی ، تئیں اور آؤ وغیرہ 

مندرجہ بالات علامات کو عربی میں اعراب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اہل عرب کے ایجادات ہیں ۔ اعر اب کا مطلب ہوتا ہے کسی بھی حر ف پر ان میں سے کسی بھی علامت کو لگانا ۔انہیں کو حر کات بھی کہاجاتا ہے اس لیے کہ زبر ،زیر ، پیش ، مد اور تشدید لگانے سے آواز میں حر کت پیدا ہوتی ہے لیکن جزم سے سکون پیدا ہوتا ہے اس لیے ان کے مجموعے کو حر کات و سکنات کہاجاتاہے اور جس حرف پر کوئی حر کت ہوتی ہے اسے متحرک کہاجاتا ہے ۔

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...