Sunday 28 October 2018

نقد و آہنگ

"نقد و آہنگ" بزم آہنگ کی پہلی اہم تنقیدی پیشکش.

اکیسویں صدی کا اٹھارہواں برس ہے. دنیا مکمل طور پر برق رفتاری سے مرعوب ہے. قلم کاروں میں بھی بلا کی تیزی دیکھی جارہی ہے. جس کے قلم کی رفتار جتنی تیز ہے وہ اپنی تحریروں کے لیے اتنی ہی اسپیس تلاش کر رہا ہے. ڈیجیٹل دنیا میں یہ بہت ہی آسانی اور چاپلوسی سے حاصل کی جارہی ہے. قلم کار مزید بڑا بننے کے لیے کسی بھی درجے کی میگزین نکالنے کی جانب گامزن ہے اور مدیر کے عہدے پر فائز ہوجانا چاہتا ہے. ان تمام تیز رفتاریوں کے باوجود بزم آہنگ نے اکیسویں صدی کے پندرہویں برس میں سفر کا آغاز کیا اور اپنے سفر میں بے آہنگی نہیں آنے دی. جامعہ کے ہرے لان اور لال پتھروں کے درمیان خود کو نئے آہنگ میں بزم نے ڈھالا اور فروری 2017 میں پہلا قومی سیمینار جدیدیت کے موضوع پر منعقد کیا اور آگے کی جانب بزم نے اپنا قدم بڑھایا اور ایک سال بعد 17 مارچ 2018 کو اپنا دوسرا قومی سیمینار "اکیسویں صدی میں فکشن" پر منعقد کیا. اس موقع پر اپنے مخصوص رفتار و آہنگ کے ساتھ چلنے والی بزم آہنگ نے اس وقت بہت متحیر کیا جب سال گزشتہ کے سیمینار و بزم کی دیگر مجالس میں پڑھے گئے مقالات کا کتابی شکل میں رسم اجرا ہوا. (نقد و آہنگ. 264 صفحات)
اجلاس میں کتاب پر کسی نے گفتگو نہیں کی تو سوچا خود ہی اس کتاب سے ہم آہنگ ہوجاؤں اور اس میں آپ تمام کو شریک کرلوں.
اس کتاب کے مرتبین زاہد ندیم احسن اور صدف پرویز  ہیں. اول کا "پیش لفظ" اور دوسرے کا "میرے بول" ہے. پروفیسر کوثر مظہری کا ایک طویل مضمون "جدیدیت اور مابعد جدیدیت :تعبیر و ترسیل" کو اس کتاب کا مقدمہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا گرچہ یہ اہم مضمون موصوف کی اہم کتاب "جوازونقد" میں بھی مقدمہ کے عہدہ پر رونق افروز ہے. مقدمہ سے دلچسپ اسٹیٹمنٹ دیکھیں" اس عہد کی شاعری وہ سماج وہ زندگی اور وہ فن پھر زندہ ہوگیا ہےجو ترقی پسندوں اور جدیدیت کے درمیان سینڈوچ کی طرح دب کر رہ گیا تھا. آج کا ادبی منظر نامہ سماج اور افراد کی صحیح تفہیم کا اشاریہ بھی ہے اور جمال فن کا نمونہ بھی."
اس کے بعد ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا مضمون" جدیدیت اور مابعد جدیدیت : چند باتیں" اور ڈاکٹر ندیم احمد کا مضمون" تصورات و تحریکات" ہیں جنہیں ضمنی مقدمہ کے طور پر آپ سمجھ سکتے ہیں. اول کے مضمون سے مختصر اقتباس" آج کے فنکار کو نہ مابعد جدیدیت کے فکری مخاطبے سے مطلب ہے اور نہ اس سے مکمل آگاہی ہے. وہ اس پر اسرار مابعد جدید تھیوری کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں. انہیں نہ جشن جاریہ کی خبر ہے نہ مہابانیہ کی اور نہ ہی تکثیریت کی، نہ دریدا کو ہی جانتے اور نہ وہاب حسن کو." دوم کے مضمون سے بھی ایک اقتباس دیکھیں " جدیدیت میں مواد اور ہیئت ایک اکائی کا نام ہے. اسی طرح جدیدیت نے مصنف کی ذات کو تو اہمیت دی لیکن مصنف کی ان ترجیحات کو کوئی مقام نہیں دیا جن کا تعلق ادیب کے سیاسی، سماجی اور اخلاقی نظریے سے ہوتا ہے." اس کے بعد ریسرچ اسکالروں کے مضامین و مقالات کو دو باب میں تقسیم کیا گیا ہے. پہلے باب میں وہ مقالات ہیں جو بزم آہنگ کے پہلے قومی سیمینار میں پیش کیے گئے تھے جن کی تعداد دس ہے. دوسرے باب میں بھی دس مضامین و مقالات ہیں یہ وہ اہم تنقیدی نگارشات ہیں جو بزم آہنگ کی مختلف نشستوں میں پیش کی گئی ہیں.
پہلے باب میں پہلا مضمون زاہد ندیم احسن کا "اردو افسانہ جدیدیت کے تناظر میں" ہے. جس میں انہوں نے سریندر پرکاش، انور سجاد اورانتظارحسین کی افسانوی فکر پر مختصر کلام کیا ہے. امیر حمزہ کے مضمون "رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات" میں موصوف نے فن پر تفصیلی گفتگو کے بعد صرف تین رباعی نگار( فرید پربتی. اکرم نقاش، عادل حیات) کی رباعیوں میں جدیدیت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے. ضیاءاللہ انور کے مضمون "مابعد جدید ڈسکورس اور اردو کا لوک ادب:ایک وضاحتی بیانیہ (لوک گیتوں کے حوالے سے)" ایک جملہ ملاحظہ ہو" لوک ادب کا حوالہ ما بعد جدید ڈسکورس سے اس اعتبار سے بھی منسلک ہوتا ہے کہ اس میں علم بشریات اور علم صنمیات کے ڈسکورس بھی شامل ہیں. "
رضی شہاب کا مضمون" افسانے کی حمایت میں :شور برپا ہے خانہ دل میں" شمس الرحمن فاروقی کی کتاب "افسانے کی حمایت میں" کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ ہے.
محمد حسین کا خوبصورت مضمون" اردو نظم: جدیدیت کے تناظر میں " ہے. اس مضمون میں نظموں میں جدیدیت کے رجحانات کو سمونے کی کوشش کی ہے.
"جدید افسانہ اور سریندر پرکاش " رخسار پروین کا مضمون ہے. موصوفہ لکھتی ہیں "انہوں نے اپنے افسانوں میں بیانیہ حقیقت کے بجائے زبان و بیان کی داخلیت سے کام لیکر ابہام اور پیچیدگی کے ذریعہ کہانی میں ایک نیا انداز پیدا کیا ہے. ان کے یہاں علامت، تمثیل، تجرید و استعارہ سے کہیں زیادہ اسلوب، انداز بیان اور طرز نگارشات کی کارفرمائی ملتی ہے. "
اسما نے اپنے مضمون" نادید مابعد جدیدیت کے تناظر میں " جوگندر پال کے ناول نادید کو ایکسپلور کرنے کی مابعد جدیدیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اچھی کوشش کی ہے.
" جدید اور مابعد جدید غزل تنقید:ایک مطالعہ " محمد ریحان کے اس مضمون میں جدید غزل سے متعلق متنوع گفتگو کی گئی ہے اور ساتھ ہی ان کی تنقید پر بھی گفتگو ہے.
" مابعد جدیدیت : مسائل و امکانات" نصرت پروین کے اس مضمون سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن انہوں نے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے کے آخری برسوں میں بھی مابعد جدیدیت کے مسائل کے ساتھ امکانات کی تلاش کی ہے.
اس باب کا آخری مضمون ندیم سحر عنبرین کا ادب سے پرے اسلامیات سے ہے. جس میں برصغیر کی خواتین مفسرین کا جائزہ لیا گیا ہے.
دوسرے باب کا پہلا مضمون نوشاد منظر کا "افسانہ تنقیدکے ابتدائی نقوش" ہے. اس میں انہوں نے افسانہ کے چھ اولین ناقدین کے حوالے سے گفتگو کی ہے. دوسرا مضمون محمد تحسین زمان کا یحیی منیری کی اخلاقی تعلیمات پر ہے. امتیاز احمد علیمی کا مضمون قرۃالعین حیدر کے ناولوں کے تہذیبی شناخت نامہ پر ہے. اس مضمون میں تہذیبی شناخت نامہ سے زیادہ فنی شناخت نامہ پر گفتگو ہے.
شاہنواز حیدر شمسی کامضمون خلیل الرحمٰن اعظمی کی شاعری پر ہے جس میں انہوں نے ان کی شاعری پر سرسری جائزہ پیش کیا ہے. لکھتے ہیں "ان کی شاعری احساسات کی شاعری ہے. انسان کے ٹوٹنے بکھرنے اور انتشار کی داستان ہے، اخلاقی زوال قدروں کے کھوکھلے پن دہشت و بربریت کی کہانی ہے."
"سید عابد علی عابد کی غزل گوئی" ثمرین کا مضمون ہے. ثمرین لکھتی ہیں "عابد علی عابد کا تعلق شعرا کے ایسے طبقہ سے ہے جن کے کلام میں سوزوساز دونوں شامل ہیں ان کا کلام شعریت اور تغزل سے معمور ہے ............ موسیقیت، ترنم اور نغمہ کی جمالیاتی صفات کا ظہور ان کے کلام میں بخوبی پایا جاتا ہے. "
"اردو کی خواتین ناول نگار اور تانیثی ڈسکورس" میں درخشاں نے خواتین کے اہم ناولوں کے اہم کرداروں میں تانیثی ڈسکورس کی کوشش کی ہے." قرۃالعین نے شاہد انور کے ڈراموں پر بہت ہی جامع گفتگو کی ہے. عرفان احمد کا مضمون "نشیب :ایک تجزیہ". کنیز فاطمہ کا مضمون "شفیق الرحمن کی انفرادیت" تجزیاتی و تاثراتی اوصاف کے حامل مضامین ہیں. کتاب کا آخری مضمون" مختصر تاریخ ادب اردو کے چند معروضات" ایک دلچسپ مضمون ہے جس میں گیان چند جین کے معروضات کو پیش کیا گیا ہے.
نئے قلم کاروں کی بزم"بزم آہنگ"کو مبارکباد کہ ہم آہنگ ہوکر نئی پیڑھی کے لیے چراغ راہ بن رہی ہے.

امیر حمزہ

فکرو تحریر کا ریسرچ اسکالرز نمبر

سہ ماہی فکرو تحریر کولکاتا
فکرو تحریر کا تازہ شمارہ بہت ہی شوق سے پڑھنا شروع کیا. معاف کیجئے گا دیکھنا شروع کیا، کہاں کہاں نظر نہیں پڑی، صفحہ کے اوپر دیکھا نیچے دیکھا، معاونین کی فہرست دیکھی، مشاورت کے نام دیکھے، مدیران کو تلاش کیا مدیر اعزازی کا اعزاز دیکھا، مشمولات کے نام دیکھے تو نام کے ساتھ چہرے بھی نظر آئے، کچھ نہیں آئے تو تصور میں بنانے کی کوشش بھی کیا، اداریہ بھی غور سے دو مرتبہ دیکھا اور مدیر اعزازی نے قلم کاروں کو جس اعزاز سے نوازنے کا عزم یا حسین غلطی کیا وہ بھی دائرہ احساس میں آیا.
مدیراعزازی نے کس طرح سینہ پر پتھر رکھ کر یہ فیصلے لیا ہوگا کہ ہمیں نو سیکھیوں کو ہی شامل کرنا ہے اور ساتھ میں میگزین کے وقار کو بھی قائم رکھنا ہے یم محسوس نہیں کرسکتے. یہ کام تو تخلیقات کے حوالے سے بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن تنقیدی مضامیں کے حوالے سے بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.  جس میں ہر مضمون میں مضمون نگار کی فکر کے ساتھ اسلوب ادا، زبان و بیان پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے.
تنقیدی مضامین میں اکثر پہلا پیراگراف کسی بھی قلم کار کے لیے چہرے کا کام کرتا ہے، جو یاتو اپنے جانب مائل کرتا ہے یا پھر وہی پیراگراف قاری کو ورق گردانی پر مجبور کردیتا ہے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے پیراگراف میں قلمکار لڑکھڑاتا بہت ہے پھر جب قلم چل نکلتا ہے تو تحریر میں روانی خود بخود آجاتی ہے. تو مدیر کے لیے سب سے مشکل امر ہوتا ہے کہ وہ بے ہنگم زبان و بیان کو کیسے سنوار کر اپنے قیمتی صفحات میں جگہ عنایت کرے یا پھر عنوان کی مناسبت سے تحریر میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے. الغرض ہم نو سیکھیوں کی تحریر میں اگر کوئی اتنی محنت کرکے اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے تو اس کے لیے شکریہ کی رسم بھی کم پڑ جاتی ہے. لیکن پھر بھی ہماری ڈھٹائی بدستور جاری رہتی ہے کہ ہم اپنی تحریروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور سدھار لانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اگر کسی دور کے ساتھی کی تحریر میں کچھ نشاندہی کردی جائے تو بات بند کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے، لیکن مدیر محترم ان تمام کی پرواہ کیے بغیر نو سیکھیوں کی تحریر کو سنوارتا رہتا ہے اور جب کچھ کچھ اچھا لکھنے کے لائق ہوجاتا ہے تو اچھا قلمکار شکریہ بھی بجا لاتا ہے کہ مجھے آگے بڑھانے اور ہماری تحریر کو سنوارنے میں فلاں مدیر اور رسالے کا اہم کردار ہے جس کا ہم احسان نہیں ادا کرسکتے، لیکن کچھ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو زبانی بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے چہ جائے کہ اپنی تحریروں میں اس کو جگہ دیں ، الغرض کسی بھی قلم کار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کے قلم کی کہکشاں کا بھی کوئی باغبان ہے جس کی باغبانی میں آپ خوشنما نظر آتے ہیں. الغرض اب ان تحریروں کی جانب رخ کرتے ہیں جن میں سے کچھ سجے سنورے ہیں اور کچھ کو ضرورت ہے.
پہلا مضمون ارشد احمد کوچھے کا ہے جنہوں نے مشتاق احمد وانی کی افسانہ نگاری پر لکھا ہے. اس چار صفحہ کے مضمون میں ان کے افسانوی فن پر گفتگو کرتے ہوئے تین اقتباسات بزرگ ناقدین کے درج ہیں اور تین اقتباس افسانوں سے ہے جن میں سے ایک منظر نگاری دوسرا جذبات نگاری اور تیسرا اقتباس اسلوب نگاری پر ہے. مضمون نگارنے افسانہ نگار کے یہاں جو کچھ پایا وہ اس طرح ہے."مشتاق احمد وانی نے اپنے افسانوں میں جدید تکنیک کے تجربے بھی کیے ہیں یعنی خودکلامی کی تکنیک، فلیش بیک کی تکنیک. خطوط نگاری کا استعمال بھی انہوں بڑے بہترین اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے جس سے ان کے افسانے کے اسلوب کی حسن کاری میں مزید اضافہ ہوگیا". اس اقتباس میں جو دعویٰ ہے وہ پیش کیے گئے اقتباسات سے کسی حد تک مختلف ہے.
دوسرا مضمون امام الدین کا" 1980 کے بعد اردو غزل"ہے. اس مضمون میں مرکزی نقطہ جو نظر آتا ہے وہ مابعد جدیدیت ہے، اس میں انہوں نے یہ پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے کہ اس جدید عہد کی شاعری 80 سے پہلے کی شاعری سے کس قدر مختلف ہے. مضمون نگار لکھتا ہے "...... 1980 کے بعد اردو غزل کا جو روپ سامنے آیا وہ ما بعد جدیدیت کہلا یا جس میں تخلیق کار کو تخلیق کی مکمل آزادی ملی اور اس ثقافتی تشخص کی بات کہی گئی جس سے اب تک ہمارے فن کار جدا تھے.
" سلیمان آصف اور ان کی شاعری" میں تمنا شاہین نے ان کی شاعری اور مجموعہائے شعری کا تعارفی مطالعہ پیش کیا ہے. انہوں نے اس میں ان تمام صفات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو ایک روایتی شاعر کے یہاں ہونی چاہیے. تمنا نسیم کے مضمون "سالک لکھنوی : مختلف رنگوں کے شاعر" میں آپ کو صرف ترقی پسندانہ، عشقیہ اور کلاسیکی رنگ پڑھنے کو ملے گا. "راجہ گدھ کا عمرانیاتی مطالعہ" جمشید احمد ٹھوکر کا جامع انداز میں تحریر کردہ  مضمون ہے. راجہ گدھ کے کئی نکات کو قاری کے سامنے رکھا گیا ہے اور  تنقیدی بصیرت بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لب لباب پہلے ہی پیش کرتے ہیں کہ یہ ناول حلال و حرام سے وابستہ ہے اور آخری سطور میں لکھتے ہیں" راجہ گدھ ادب عالیہ کا وہ فن پارہ ہے جس میں انسان کے روحانی اور وجدانی کا تغیرات کو فلسفیانہ انداز میں رقم کیا اور ان تمام فکری پہلوؤں کو جو جامد ہیں تحرک دے کر قاری کے اندر نئے احساس سے آشنا کرایا" مضمون نگار نے گدھ کی علامت کو جگہ جگہ سے کھولنے کی بھی کوشش کی ہے.
راشدہ خاتون نے قاضی عبدالستار کے ناولٹ" آخری کہانی"کے ایک جز کیفیت عشق پر روشنی ڈالی ہے، مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے کہ عشق تو پاکیزہ ہوتا ہے ہوس پاکیزہ نہیں ہوتا ہے اور ہوس کا نام عشق نہیں دیا جاسکتا. اس ناولٹ میں رومانس کی جس کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے اسی پر  مضمون نگار نے گفتگو کی ہے. "حمیدہ بیگم کی خود نوشت" ہم سفر"ایک مطالعہ" سروری خاتون کا مضمون ہے. جس میں انہوں نے ہم سفر میں موجود زندگی کے مختلف مراحل کا ذکر کے تجزیاتی مطالعہ ہیش کیا ہے، اس خود نوشت میں مصنفہ نے جس سادگی اور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس اسلوب کو اپنایا ہے وہ جاذبیت اور حقیقت نگاری سے معمور ہے. اس وقت کے جن بڑے لوگوں کا ذکر خود نوشت میں ہے وہ آج کے قاری کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے. جس کی طرف اشارہ مضمون نگار نے بھی کیا ہے. "کربل کتھا کا اسلوبیاتی مطالعہ" سید اکرم حسین کا مضمون ہے. کتاب کا شمار شمالی ہند کے اولین نثر پاروں میں ہوتا ہے جب اسلوب سے زیادہ نثری زبان ایک نئے ڈھانچے میں ڈھل رہی تھی شاعری اپنی شناخت مضبوط کرچکا تھا لیکن نثر کو شناخت کی تلاش تھی. اس نوزائیدہ نثر کا اسلوب کیا تھا اس کا تعارفی مطالعہ اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے . سیدہ واصفہ غنی نے "جدید اردو افسانوں میں معاشرتی منافرت" کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں جدید افسانوں کے بجائے خواجہ احمد عباس، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے. پروفیسر ابن کنول کے ایک افسانہ" ہمارا تمہارا خدا بادشاہ"کا مطالعہ شاہد اقبال نے پیش کیا ہے. اس افسانہ کے متعلق لکھتے ہیں"وہی تخلیق زندہ رہتی ہے جو ہر قرات میں قاری کو نئے معنوی ابعاد کا احساس دلائے. ابن کنول کا یہ افسانہ علامتی ہے جس کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے". شفیع احمد نے احمد یوسف کی رپورتاژ و خاکہ نگاری دونوں پر گفتگو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے. سفینہ سماوی نے"عصمت چغتائی کے افسانوں میں مسائل نسواں" کی عکاسی مختلف افسانوں کے حوالے سے کی ہے جس میں جنسی مسائل کو ہی نمایاں رکھا گیا ہے. لکھتی ہیں" عصمت چغتائی عورتوں کی نبض شناس ہیں. عورتوں کے نرم نازک جذبات جنسی خواہشات اس کے مزاج کی نرمی، لطافت شوخی اور بانکپن ان کے افسانوں میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں".
ظفر عالم کا ایک تحقیقی مضمون "مولانا ابوالکلام آزاد اور سائنس" کے حوالے سے شامل رسالہ ہے. یہ ایک طویل وضاحتی مضمون ہوسکتا تھا لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف تعارف اور سائنس سے آگہی کے نمونے ہی پیش کیے ہیں پھر بھی مضمون سے مزید کی تشنگی ظفر عالم پیدا کرجاتے ہیں. فرح نازنین کا مضمون جتنا چھوٹا ہے اتنا ہی جامع ہے" تانیثیت اور بہار کی شاعرات" عنوان تو یہی ہے لیکن مجھے جو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ مضمون مطلقاً خواتین قلم کاروں کو محیط ہے اور عنوان محدود ہے. تانیثیت کا ذکر ہے اور بہار کی موجودہ خواتین شاعرات کا نام بھی لکھا گیا ہے لیکن شکایت پوری خواتین قلمکار برادری سے  ہے. لکھتی ہیں" ہماری شاعرات اپنے معاصر خواتین تبصرہ نگاروں اور نقادوں کی آراء کو مردوں کی آراء کے مقابلے میں کمتر اور غیر اہم گردانتی ہیں..... ہماری خواتین تنقید کی طرف کیوں نہیں متوجہ ہوتیں؟ فکشن میں ہی سہی ممتاز شیریں کے بعد اس پائے کی نقاد کیوں نہیں پیدا ہوسکی. محمد رکن الدین صاحب نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس میں ہند و پاک کے علاوہ دنیا کےجن جن گوشوں میں گزشتہ صدی اردو کا چراغ روشن ہوا، موجودہ صدی میں بھی روشن ہے اور اب تک کیا کیا خدمات انجام دئے جا چکے ہیں تمام کو احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے. محمد ریحان کا "اردو ناول میں تقسیم ہند کے اثرات" میں گویا ناولوں کا ایک قسم کا تعارف ہی پیش کیا گیا ہے اور اس مختصر سے مضمون میں وہی ممکن ہو سکتا تھا. "مکاتیب سر سید کا اسلوب"  شاداب شمیم کے تحریر کردہ اس مضمون میں وہی عکس و تیکنیک جھلکتا ہے جو وکیپیڈیا میں موجود علامہ اقبال کی شاعری، غالب کی خطوط نگاری پر وکیپیڈیا ہیں. یعنی معلوماتی اسلوب اپناتے ہوئے مختلف جہات پر مختصر انداز میں تحریریں لکھی ہیں.
اخترالایمان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی مشہور نظم "ایک لڑکا" بھی تصور میں ابھر آتا ہے گویا ان کی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ دنیائے ماضی پر مشتمل ہے. اسی کو محمدپ فرحان خان نے شامل راالہ اپنے مضمون میں پیش کیا ہے. محمد نہال افروز کے مضمون "نیر مسعود: حیات اور ادبی کاوشیں" میں حیات مسعود اور ان کی پچیس نیر تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے.
"آسٹریلیا میں اردو کی نگہت : ڈاکٹر نسیم نگہت" ایک تفصیلی مضمون مہوش نور کا ہے جس میں موصوفہ کی ادبی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے، عنوان کے نیچے بین القوسین میں " مہجری فکشن کے حوالے سے" مرقوم ہے لیکن مضمون کا کوئی بھی پیراگراف اس سے متعلق نہیں ہے. شاید غلطی سے لکھا ہوا رہ گیا ہو. بہر حال ان کے فن پر گفتگو نہیں ہے صرف ادبی زندگی پر ہے. ان تنقیدی مضامین کے بعد تخلیقی گوشے میں فیضان الحق کا انشائیہ گھڑگھڑاہٹ، مہتاب عالم فیضانی کے دو افسانے اتفاق اور ٹیبل گھنٹی. خان محمد رضوان، رئیس فاطمہ، شہنور حسین، صائمہ ثمرین، عالیہ اور محمد ذیشان رضا کی خوبصورت غزلیں شامل ہیں اس کے بعد تین نظمیں علیم اللہ کی "تہذیب کی شکست و ریخت، محمد شاہد کی" تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے"اور نورالاسلام کی نظم ترا وجود ہے.
اب مضامین پر ںظر ڈالنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مضامین اساتذہ کو دکھائے گئے ہیں اور ایک دو مضامین ایسے بھی ہیں جن پر مضمون نگار نے خود بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی. اشاعت کے عمل سے گزرنے کے بعد کوئی بھی تخلیق اعمال نامہ میں شمار ہوجاتا ہے وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اس میں تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ ہم اچھی تاریخ رقم کرنے والے بنیں اور چھان پھٹک کر ہی آگے کی جانب قدم بڑھائیں.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

Wednesday 5 July 2017

رباعی کی روایت کے امین ظہیر غازی پوری

رباعی کی روایت کے امین ظہیر غازی پوری
امیر حمزہ


 ریسرچ اسکالر شعبہ ¿ ارد و دہلی یونی ورسٹی دہلی 
فون9990018577
صنف رباعی کے آغاز کا سہرہ جہاں فارسی و اردو کے محققین نے ایران کو ہی دیا ہے وہیں اردو میں رباعی کے آغاز کا سہرہ دکن کو جاتا ہے جہاں اسے پھولنے اور پھلنے کا موقع بہت ہی کم ملا ۔ لیکن استادانہ صلاحیت کے اظہار اور شاعری میں تبدیلی ذوق کے طور پر اس کا وجود کم وبیش تما م دکنی شعرا کے یہاں نظر آتا ہے ۔شمالی ہند میں جب اردو اپنے عہد ذریںمیں آیا اس وقت بھی شعرا اپنی محبوب تر ین صنف سخن غزل ، مثنوی ، قصیدہ اور مرثیہ کے دام سحر میں گر فتار رہے ۔ شعوری اور لاشعوری کسی طور پر بھی رباعی کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دیے۔سوائے شاہ غمگین کے، جن کی رباعیوں کا مجموعہ ”مکاشفات الاسرار “ہے جس میں ان کی 1800 رباعیاں موجود ہیں ۔ تمام کلا سیکی شعرا کے یہاں رباعیاں ملتی ہیں کسی کے یہاں کم تو کسی کے یہاں زیادہ لیکن کوئی ضمنی طور پر یا ثانوی طور پربھی رباعی گو شاعر نظر نہیں آتا ہے ۔ عہد غالب میں مومن کی رباعیاں اچھی ہیں لیکن رباعی ان کے یہاں بھی خاص یا قابل توجہ صنف سخن کے طور پر نہیں نظر آتا ہے ، البتہ میر درد کے یہاں نظر آتا ہے لیکن ان کی اہم رباعیاں اور زیادہ تر رباعیاں فارسی میں ہیں ۔ بعد کے عہد میں اردورباعی کو سب سے زیادہ فروغ انیس و دبیر کے عہد میں ہوا ۔
انجمن پنجاب کے بعد اردو شاعری میں ایک نیا موڑ آیا کہ شاعر کلاسیکی اصناف سخن سے کنار ہ کشی اختیار کر کے شاعری میں جدید مغربی اصناف سخن کی جا نب مائل ہو رہے تھے ۔وہیں لاشعور ی طور پر اکبر و حالی کے یہاں رباعی اپنا قدم مضبوطی سے جمارہی تھی جو مزید تر مضبوط ہوتی چلی گئی اور تر قی پسند تحر یک سے بھی متا ¿ثر نہیں ہوئی تب تک فانی کے بعد جو ش وفراق کے یہا ں اردو رباعی اپنی تاریخ رقم کر چکی تھی ۔
آزادی کے بعد ذیلی صنف شاعری کے طور پر ان کی رباعیوں کی گونج مکمل طور پر ادبی فضا میں چھائی رہی ۔ کثیر تعداد میں شاعر رباعی کی جانب متوجہ ہورہے تھے ۔ لیکن جو ش کے قول ” یہ کم بخت چالیس بر س سے پیشتر کسی بڑے سے بڑے شاعر کے بس میں آنے والی چیز نہیں ہے “ سے مر عو ب بھی تھے ۔اس لیے جدید شاعروں کو اس میں اپنی شناخت قائم کر نا ایک مشکل امر تھا ۔البتہ رباعی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ کسی بھی عہد میں تاریخ سے غائب نہیں رہی ۔آزادی کے بعد صورت حال کچھ ایسی ہورہی تھی کہ چھوٹی چھوٹی صنف سخن کی تلاش میں شاعر حضرات چائنا ،جاپان اور فرنگ کی ادبی سیاحت میں تھے ، جبکہ مختصر صنف سخن کے طور پر ان کے یہاں رباعی جیسی صنف سخن موجود تھی ،پھر بھی لوگ سانیٹ ، ہائیکو، ماہیے ، چوبولے وغیرہ کی جانب توجہ دے رہے تھے بالآخر سب کے سب اپنی جگہ ہی منجمد ہوگئیں اور رباعی نے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر جار ی رکھا ۔
 نظم جدید کے زمانہ میںجس طریقے سے اکبر و حالی کے یہاں اردو رباعی مضبوطی کے ساتھ اپنا قدم جماچکی تھی اور ترقی پسندی دور میں جو ش وفراق نے اسے بام عروج تک پہنچایا اسی طر یقے سے آزادی کے بعد جہاں دوسرے رباعی گو رباعی کی مشاطگی میں مصر وف تھے وہیں ظہیر غازی پوری نے رباعی کی آبیاری روایتی انداز میں کیا اور اس صنف سخن کی خاموشی سے مشاطگی کر تے چلے آئے ، معیاری طورپر جس کی نظیر رباعی کے حوالے سے موجودہ دور کے کسی اور شاعر کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے ۔
ظہیر غازیپوری (ظہیر عالم انصاری ) کی پیدائش 1938 ءمیں غازیپور میں ہوئی۔ شادی گیا میں ہوتی ہے اور بسلسلہ ¿ ملازمت بہار و جھارکھنڈ کے ضلع گیا ، اورنگ آباد، شیرگھاٹی ، دمکا ، رانچی اور ہزاری باغ میں قیام رہا ۔بالآخر وطن اصلی وطن اصلی سے باطل ہوا اور ہزاری باغ کے ہی ہوکر رہ گئے اور غازیپوری ان کے نام کا ایک جزو بن کر رہ گیااوریہ ادب کا کھرا اور گمنام ستارہ ۳نومبر 2016ءکو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔
ظہیر غازیپوری نے 1955 ئ میں ابرار حسن گنوری کے آگے زانوئے تلمذتہہ کیا اور کچھ ہی عر صہ میں استاد نے انہیں فارغ الاصلاح قرار دے دیا بلکہ مبتدئین کی اصلاح کی ذمہ داری بھی سونپ دی اس وقت سے لیکر آخری اوقات تک مسلسل وہ خاموشی کے ساتھ ادب کی خدمت میں لگے رہے۔اللہ نے انہیں نظم ونثر میں یکساں قدرت دی تھی جس کی وجہ سے ان کے قلم سے شعر و نثر کی عمدہ تخلیقات تخلیق پائیں ۔ان میں سے ” مطالعہ ¿ اقبال کے بعض اہم پہلو“ ، ”اردو دوہے : ایک تنقیدی جائزہ“ اور ” جھارکھنڈ اوربہار کے اہل قلم“ نثر میں شائع ہوچکی ہیں اورشاعر ی میں دو مجموعے غزل کے ، دو نظم کے ، ایک غزل ونظم کا مشترکہ مجموعہ اور ایک رباعیوں کا مجموعہ ”دعوت صد نشتر“ اردو ادب میں اعلی مقام حاصل کیا۔
ظہیر غازیپوری کو شروع سے ہی غزلوں سے خصوصی دلچسپی تھی۔غزل کے مقبول شاعرہونے کے ساتھ ساتھ وہ غزل کے روایتی استاد بھی تھے، جس کی مثال ان کی آخری کتاب ’غزل اور فن غزل‘ سن اشاعت 2015ءہے۔غزلوں کی جانب خصوصی توجہ ہو نے کے ساتھ اظہار ذات و افکار کے لیے رباعیاں ان کے پاکیزہ ذہن سے رواں ہوئیں اور صفحہ ¿ قرطاس میں اتر گئیں۔ رباعیاں بھی ایسی کہ جو صرف بحر و ں کا استعمال کر کے خشک موضوع اپنا کر اپنی استادی کا اعلان کیا جائے۔ نہیں !بلکہ انہوں نے خودکو رباعی کے پیکر میں ڈھا لا، اپنے افکار اور فنی اقدار کو رباعی کے موافق بنانے میں زیادہ توجہ دی ، رباعی کے تمام فنی اقدار پر پوری دستر س حاصل کی پھر اپنی رباعیوں کو اپنے غزل کے ہم مقام لا نے کے لیے خوب تجر بے کیے اسی وجہ سے ان کی رباعیاں بے ہنگم الفاظ اور غیر موزوں تر اکیب سے پاک ہیں۔
ڈاکٹر تنویر احمد علوی ’دعوت صد نشتر ‘ کے مقدمہ میں ظہیر غازی پوری کی رباعیوں کے متعلق لکھتے ہیں ” مجھے جن رباعیات کے مطالعہ کا موقع ملا ان میں ایسی رباعیوں سے اکثر نظر دو چار ہوئی جنہیں دیکھ کر بے اختیار فارسی کا یہ مصرع یا د آیا۔ ع: کر شمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست“ ( اس کا کر شمہ ¿ حسن دامن دل کو کھنچتا ہے کہ سب سے بہتر اور حسین و جمیل نظارہ گاہ تو یہی اور یہیں ہے ) “۔ اور اس کی مثال میں وہ مندرجہ ذیل رباعی پیش کر تے ہیں۔
جذبات کی آنچ ، آنکھ کا نم جیت گئے 

تم اپنا اک اک قول و قسم جیت گئے 
لیکن تمہیں احساس نہیں ہے اس کا 

تاریخ کی سچائی تو ہم جیت گئے 
رباعی خود کے موضوعات میں کبھی تنگ دست نہیں رہی ہے ۔ اگرچہ شروع میںا س کے موضوعات حمد ونعت منقبت اور حکمت تک محدود تھے۔ لیکن جوں جوں رباعی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑھی ان معاشروں کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیاءکر ام کی محفلوں میں حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔خیام اور سرمد کے صحبت میں حکمت وفلسفہ کا آب حیات پیتی رہی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس ودبیر نے پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین سے خدمت کی، اکبر و حالی نے اصلاحی و پاسداری سے ، امجد نے حکمت وفلسفہ سے، جو ش نے الفاظ کا دبدبہ و مناظر فطرت سے ، فر اق نے جمالیا ت و رس سے اردو رباعی کو خوب سنوارا۔ گو یا اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیا اور وقت کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودومخصوص موضو عات میں پابند نہیں کیا۔ رباعی میںاگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ غالب رہے ہیں لیکن دوسرے موضوعات کا خاطر خواہ ذخیرہ بھی اردو رباعی میں موجود ہے ۔اور موضوعات کا یہ تنوع ظہیر غازی پور ی کے یہاں بھی بھر پور دیکھنے کو ملتا ہے ۔
عموما حمد ونعت جیسے پاکیزہ موضوعا ت کی کثرت استعمال کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہ گئی ہے بلکہ انداز جداگانہ ہوگا اور کہنے کو وہی باتیں ہوں گی۔ لیکن جس خدا کے جہاں کی ساری چیزوں کا احصا ایک انسان نہیں کرسکتا تو ان کی حمدو ثنا کا حق کہاں ادا کر سکتا ہے۔ لیکن حمد وثنا میں نئے اسلوب اخذ کر نے اور رباعی کے اسلوب میں تازہ کاری لانے والے ظہیر غازی پوری کو کچھ بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ انہوں نے اپنی وسیع النظری کے سبب اس ازلی موضوع کوتخلیقیت کا اعلی پیرہن عطا کیا جس کی وجہ سے ان کی حمدیہ اور نعتیہ رباعی افق کے نئے منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
’لا‘ میں بھی جھلکتا ہے اسی کا جلوہ 

’کن‘ میں بھی دمکتا ہے اسی کا جلوہ 
آنکھوں میں مقید جو کبھی ہو نہ سکا 

ہر شے ¿ مین چمکتا ہے اسی کا جلوہ 

جو کیف بھی ملتا ہے جدا ملتا ہے 

الہام کا بے مثل مزا ملتا ہے 
کھوجاتا ہے وجدان کی منزل میں جب 

لفظوں میں بھی عرفان خدا ملتا ہے 

ہر سانس ہے ناکردہ گناہی کی طرح 

ہر لمحہ ہے سامانِ تباہی کی طرح 
چھایا رہا افکار پہ احساس خدا 

بھیگے ہوئے کاغذ پہ سیاہی کی طرح 
جب بات حمدو ثنا سے نکلتی ہے تو خدا کی کہی ہوئی باتوں کو دہر اتے ہیں اور ان کے فرمودات کو سامنے رکھ کر اس کی مقبولیت کو بتاتے ہیں، اسی کو لوگ فلسفہ کہتے ہیں اور اسی فلسفہ کے تحت ایک اپنانیا فلسفہ بنا تے ہیں ۔وہ ایک نیافلسفہ نہیں بلکہ ایک مادہ ہوتا ہے جسے مختلف نظروں سے شاعر دیکھتا ہے اور لفظوں کا صورت جسمیہ بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔دنیا کے متعلق بھی بہت ساری باتیں ہر مذہب کے اساسی کتب میں موجود ہیں اور انسان اس میں مزید غور کرنے کی جانب راغب ہوتا ہے ۔ انسان مذہبی امور میں اتنا غرق ہوجاتا ہے کہ وہ عشق کی حد تک اس فرمان پر اپنی وارفتگی کا اظہار کر تاہے۔جیسا کہ ’دنیا ‘ سے تقریبا ہر مذہب میں بیزار رہنے کو کہاگیا ہے ۔ اسلام میںدنیا کے لیے ”متاع قلیل“ جیسالفظ استعمال ہوا ہے ۔”متاع “ کے متعلق زمخشری لکھتے ہیں کہ متاع اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورتیں کھانا بناتے وقت صافی کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ اس کپڑے سے بظاہر کوئی دل نہیں لگاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے جانب راغب ہوسکتا ہے لیکن وہ ضرورت کا کپڑا ہے کہ روٹی پکانے اور برتن پکڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔دنیا مومن کے لیے اسی ایک کپڑے کی طر ح ہے۔ اسی دنیا کوشاعر جس انداز میں پاتا ہے اپنی رباعیوں میںپیش کر دیتا ہے ۔ ظہیر غازیپوری دنیا کو اس انداز میں دیکھتے ہیں ۔
گلزار کی پرکیف ہوا ہے دنیا 

انساں کے لیے ہوش ربا ہے دنیا 
لیکن مجھے اکثر یہی محسوس ہوا 

ایک پھول پہ شبنم کی ردا ہے دنیا 

شاداب عناصر کی دھنی ہے دنیا 

زرخیز ہے ، دلکش ہے ، غنی ہے دنیا 
سب کچھ ہے مگر اہل خرد کہتے ہیں 

تفسیر غریب الوطنی ہے دنیا 

آواز ہے ، دستک ہے ، صدا ہے دنیا 

سرشاری ¿ احساسِ نوا ہے دنیا
نزدیک سے دیکھا تو یہ احساس ہوا 

اک قید میں جینے کی سزا ہے دنیا 
مذکورہ بالا رباعیوں میں”ایک پھول پہ شبنم کی ردا ہے دنیا ‘ ‘،”تفسیر غریب الوطنی ہے دنیا“،” ایک قید میں جینے کی سزا ہے دنیا“ یہ آخری مصرعے خود میں مکمل ہیںجو رباعی کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔رباعی کی سب بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخری مصرع ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور یہ خصوصیت ان رباعیوں کے آخری مصرعوںمیں بخوبی موجود ہے۔ اورسب شعر یت کے احساس سے مملو ہیں۔ روکھے سوکھے کا جو لیبل رباعیوں میں لگ گیا ہے وہ اس میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔دنیا کے ذکر کے بعد ان کے یہاں ساکنِ دنیا یعنی انسان کا ذکر بہت ہی نمایاں انداز میںنظر آتا ہے ۔جس میں انہوں نے انسان کے اندر کے بدلتے ہوئے حالات و احساسات ، داخلی کرب و پریشانی ، خارجی معاملات زندگی ،رشتوں کی ریشہ دوانیاں اور اپنے اسلاف سے رشتے جو کہیں کھوسے گئے ہیںو ہ تمام ان کی رباعیوں میںبڑے ہی دردو کر ب اور طنز کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
اخلاص و محبت کا سراپا انسان 

کونین کی مخلوق میں اچھا انسان 
کیوں شعر کی مانند وہ دو لخت ہوا 

کل تک نظر آتا تھا جو پورا انسان 

مٹی سے بنا شوخ نرالا انسان 

گہوارہ ¿ ادراک کا پالا انسان 
اجداد کی باتیں تو الگ ہی رکھیے 

اب خود کو بھی ہے بھولنے والا انسان 

مردم کش و آزار دہندہ انسان 

فطرت ہی سے لگتا ہے درندہ انسان 
بے بس نظر آتی ہے مشیت بھی جب 

انسان کو کھاجاتا ہے زندہ انسان 
اس سے پہلے ذکر آچکا ہے کہ ظہیر غازیپوری کو رباعی سے زیادہ غزلوں سے محبت ہے ۔اس محبت کو وہ اپنی رباعیو ں میں بھی پیش کر رہے ہیں ۔ جب ہندوستا ن میں جدیدیت کا رجحان بڑھ رہا تھا اس وقت وہ اپنے کلاسیکی اندازمیں جدت و تازگی سے غزل کی مضبوط روایت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے ۔یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے جتنی جگر کاوی اپنی غزلوں کے لیے کی وہی جگر کاوی رباعیوں کے حصہ میںبھی آئی ۔جس سے غزل کے لیے کلمات عقیدت اپنی خوبصورت رباعیوں سے پیش کر تے ہیں ۔
شبنم کی سبک آنچ میں پلتی ہے غزل 

آغوش میں شعلوں کے بہلتی ہے غزل 
پانی ہو ، ہوا ہو ، کہ ردائے گل ہو 

ہر حال میں جلتی ہے پگھلتی ہے غزل

اب سایہ ¿ اشعار غزل میںآجا 

غم خانہ ¿ معیارِ غزل میں آجا 
دعوی ہے مرا تجھ کو ملے گی عظمت 

اک تو دربار غزل میں آجا 
ارور رباعی کے لیے ان کے دل سے یہ جذبات نکلتے ہیں ۔
وجدان کا ثمرہ ہے رباعی کا فن 

جذبے کا احاطہ ہے رباعی کا فن 
لفظوں کا قبیلہ بھی اگر ساتھ چلے 

معنی کا ذخیرہ ہے رباعی کا فن 
اردو میں وطنی شاعر ی کا ایک دور گذرا ہے ۔ اقبال ، سرور جہان آبادی ، چکبست لکھنوی قومی و طنی شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ۔ظہیر غازیپوری کے یہاں بھی وطنی شاعر ی پائی جاتی ہے ۔ہند اور ہندوستان کا استعمال اردوشاعر ی میں بہت ہی ہوا ہے لیکن بھارت بہت ہی کم ہماری سماعتوں تک پہنچتا ہے شاید اس وجہ سے کہ شعر ی حسن کے معیار کو نہیں اتر تا ہوگا وہیں ظہیر غازیپوری اس کو اپنی رباعیوں میں اس خوبی سے استعمال کر تے ہیں ۔
دلکش مجھے لگتا ہے حسین لگتا ہے 

 ہر پہلو سے وہ لعل و نگیں لگتا ہے 
اقوام میں بھارت جسے کہتے ہیں لوگ 

اس دھرتی پہ اک خلد بریں لگتا ہے 

دل میرا ہے ، سر میرا ہے ، تن میرا ہے 

احساس شفق تابی ¿ فن میرا ہے 
جس پر ہے بہت ناز مجھے بچپن سے 

وہ خطہ ¿ بھارت ہی وطن میرا ہے 
حسن وعشق جیسے مضامین کوفرسودہ سمجھ کر کچھ جدید شاعر اس سے بالکلیہ عہدہ بر آ ہو گئے ہیں۔ لیکن جب ان کی شاعری کے مطالعہ کا اتفاق ہوتا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آخر اس میں شاعرکا دردوکرب کہاں ہے ، اس میں وہ خارجی شے جو داخلی احساس کاروح اختیا ر کر کے شعر کے پیکر میں ڈھلے یا وہ صدا کہاں ہے جو دل کے نہاں خانوں سے ابھرتی ہے ، اس میں وہ جذبہ کہاں ہے جس کو شاعر بہت ہی تڑپ کر بیان کر نا چاہتا ہے ۔حقیقتا وہ صداجو محبوبہ کے پیا ر میں نکلتی ہے چاہے وہ اس کے عشق کا بیان ہو یااس کے حسین حسن و ادا کی تفسیر ہو جب وہ شعر ی پیکر میں ظاہر ہوتی ہے جو اپنے اندر تمام رنگینیاںو رعنائیاں سمیٹے ہوئے ہوتی ہے تب اس کی خصوصیت کو نظرانداز کرنا ناممکن سا ہوتا ہے ۔ظہیر غازیپوری کے ذہن سے بھی حسن وعشق سے مملو کئی رباعیاں تخلیق پائی ہیں جس میں وہ اپنے ذاتی احساس ، اس کی رعنائیاں اور فطر ت کی حسین اداو ¿ں کا عکس جو محبوبہ میں نظر آتا ہے عشق کے فضاو ¿ں کی نذر کر دیتے ہیںاور رباعیوں میں اس طر ح گویا ہوتے ہیں ۔
بولے تو دہن نغمہ سرا ہوتا ہے 

چپ ہو تو بدن نغمہ سرا ہوتا ہے 
تنہا ہو تو اک ایک ادا میں اس کی 

بے ساختہ پن نغمہ سرا ہوتا ہے 

گلشن کبھی جنگل کی ہوا لگتی ہو 

کچھ بھی ہو مگر ہوش ربا لگتی ہو 
جب کیف خودی حد سے سوا ہوتا ہے 

ایمان لرزتا ہے خدا لگتی ہو 

بیگانہ ¿ احساس ابھی ہو جیسے 

جگنو کی طر ح بجھ کے جلی ہو جیسے 
جب بھی اسے دیکھا یہی محسوس ہوا 

معصوم کلی سو کے اٹھی ہو جیسے 
ہمیں ان کی رباعیوں میں تنوع کی کمی نظرنہیں آتی ہے ۔انہوں نے اپنی رباعیوں میں ان سارے خیالات و احساسات کو اجاگر کیا ہے جو ایک عظیم شاعر کے یہاں ابھر تا ہے ۔ ان کی شاعر ی فطر ت ،عشق اور فلسفہ کو لیے ہوئے ہے۔ وہیں ان کی شاعر ی وقت کے آئینہ کے طور پرپیش کی جاسکتی ہے ۔کچھ رباعیو ں میں فارسی رباعیوں کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل رباعی میں ہے ۔
رعنائی جان حسن ادا ہے مٹی 

سمجھو تو بڑی ہوش ربا ہے مٹی 
غفلت میں جو ہیں پوچھ رہے ہیں ہم سے 

ہم لوگ ہےں انسان تو کیا ہے مٹی 
ان کے یہاں طنزیہ رنگ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ہاں آپ تو آفاق سے اترے ہوں گے

الہام کے اوراق سے اترے ہوں گے 
ہم لوگ تو مٹی کے کھلونے کی طرح 

محراب سے یا طاق سے اترے ہوں گے 
دو رباعیاں ان کی فطر ت کے موضوع سے ۔
دنیا کو ضیا بانٹنے والا ہے چاند 

معصوم نگاہوں کا اجالا ہے چاند 
ہر بچے کو گرویدہ بنانے کے لےے 

تھالی میں اترتا ہے نرالا چاند 

اودا کہیں ، اجلا کہیں ، کالا بادل 

روئی کی طرح چرخ میں اڑتا بادل 
پچکاری کسی نے نہیں ماری لیکن 

پوچھو تو اتنا کہاں بھیگا بادل 

٭٭٭

Saturday 27 May 2017

دیپک بدکی کے افسانوں میں ہجر ت



دیپک بدکی کی شخصیت افسانے کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل شخصیت ہے ۔1960 ءکے بعد جب افسانہ کو افسانہ نگار ایک نئی جہت عطا کرنے میں لگے ہوئے تھے اسی عہد میں دیپک بدکی نے اپنا پہلا افسانہ ”سلمی “ لکھا ۔ جو ہمدرد سرینگر سے شائع ہوا تھا ۔اس دور کی ادبی تحر یکیں اور رجحانات جو ہر ایک افسانہ نگار کو اپنے دامن میں سمیٹ رہے تھے وہیں دیپک بدکی خود کو ان رجحانات سے دور رکھتے ہوئے اپنا راستہ خود منتخب کر رہے تھے ۔ جہاں انہوں نے افسانوں سے علامت ابہام اور تجریدیت کے زور کو کم کرکے ا س میں کہانی پن پیدا کیا اور اس کو قاری سے قریب کیا ۔جس سے ان کے افسانوں کا انداز نگارش بہت ہی سادہ ،آسان ،سہل اور زود فہم ہوا ۔جس کی وجہ سے اردو کا ایک عام قاری بھی ان کے افسانوں سے وہ لطف اٹھاتا ہے جو ایک خاص قاری کے حصہ میں آتا ہے ۔اس طریقے سے دیپک بدکی فوری طور پر اس کو اپنے خیالات و احساسات کا ہم شریک بنا لیتے ہیں ۔
موصوف کے چھ افسانوی مجموعے ’ ادھورے چہرے “ جن کے اردو میں اب تک تین ایڈیشن فر وخت ہوچکے ہیں اور ایک ہند ی میں بھی شائع ہوا ۔” چنار کے پنجے “ اشاعت اول 2005 ہے “ ۔ ” زیبرا کراسنگ پر کھڑا آدمی، 2007 ۔ ”ریزہ ریزہ حیات “ 2010۔” روح کا کر ب“ 2015۔ ” میں اب وہاں رہتا “ 2017۔ اور ایک افسانچوں کا مجموعہ ” مٹھی بھر ریت منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے علاوہ تنقیدی مضامیں اور تبروں پر مشتمل تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور دو کتابیں زیر طبع ہیں ۔ ان کے افسانوں پر دو مقالے ایم فل کے اور ایک پی ایچ ڈی کا لکھا جا چکا ہے جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ 
ادھورے چہر ے میں شامل سارے افسانے اپنے موضوع کے اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں ۔” جاگو “ اور ” ادھورے چہرے “ یہ دونوں افسانے ایمر جنسی کے درمیان لکھے گئے ہیں جن میں اس دور کے کر ب اور حالات کی جھلک نظر آتی ہے ۔” ادھورے چہرے “ میں اس معاشر ہ کی عکاسی کی گئی ہے جہاں رشتے ناطے عارضی اور ہنگامی بن کر رہ گئے ہیں ۔جہاں اجنبی لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کے رشتہ دار بن جاتے ہیں اور اصل رشتوں کا خون حالات بدلتے ہی سفید ہوجاتا ہے ، انجام کار انسان اس بھری دنیا میں تنہا رہ جاتا ہے ۔افسانہ ” ڈرفٹ ووڈ ‘ ‘ ایک معصوم لڑکی کی امنگو ںاو ر مسکراہٹوں کا مدفن ہے ۔اس کہانی میں وہ لڑکی گھریلو جنسی زیادتی کاشکا رہوتی ہے ۔ایسے واقعات عموماً ۵۹ فیصد پوشید ہ رکھے جاتے ہیں ۔ جہاں وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہوکر خو د کشی کی مر تکب ہوجاتی ہیں۔جب کہ اس کہانی میں سُمن خو د کو ڈرفٹ ووڈ کی مانند دریا کے موجو ں کے حوالے کر دیتی ہے اور مر دوں کو آلہ ¿ کار بنا کر زندگی ہموار کر تی رہتی ہے ۔اس افسانہ کاایک اقتباس ملاحظہ ہو ” ایسی صورت حال میں لڑکیاں اپنے آپ سے حقارت کر تی ہیں اور پستی کی گہرائیوں میں گرجاتی ہیں مگر وہ اپنے مغموم دل کو قہقہوں کے پھاہے لگاتی رہی ، جسمانی قربتوں سے اپنے مضروب کو جھوٹی تسلیاں دیتی رہی اور مردو ں کو آلہ ¿ کار بنا کر اپنی زندگی کی راہیں ہموار کر تی چلی گئی“ ۔” رشتوں کادرد “ آج کے کرم خوردہ سماج کی تصویر ہے جہاں جھوٹ، مکر و فریب اور جرائم کا بول بالا ہے ۔ اس کہانی میں ایک ایسا سماج ہے جہاں مجر م بری ہوتا ہے اور معصوم تختہ ¿ دار پر لٹکایا جاتا ہے ۔
چنار کے پنجے افسانوی مجموعہ میں وقت کے اہم موضوعات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہیں ان کے افسانوں کا ایک اہم موضوع کشمیر کے حالات اور کشمیر سے ہجر ت کے مسائل ہیں ۔اگر چہ ہجر ت کے تعلق سے بہت سے افسانے ہماری نظروں سے گزرے ہوں گے لیکن مصنف کی تحریروں میں جو کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کا کر ب نظر آتا ہے وہ ہمارے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتا ہے ۔”چنار کے پنجے“ میں کئی ایسے افسانے ہیں جن میں اس موضوع کو پیش کیا گیا ہے اور کئی افسانوں میں اس کی جھلک نظر آتی ہے ۔افسانہ ”چنار کے پنجے “میں اس کوبخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
  ”غربت میں اکثر وہ مرجھا جاتا ہے ۔نیست ونابود ہوجاتا ہے ۔ہمیشہ کے لیے ۔ اور پھر رہ جاتی ہیں یادیں ۔ڈھیروں ساری یادیں ۔تواریخ کی کتابوں میں مدفن یادیں ۔فرعونی تہذیب کے یادیں ۔یونانی تہذیب کی یادیں ۔یا پھر رہ جاتی ہیں فوسِل اور آثار قدیمہ ۔ڈائنوسور س اور آرکییوپیٹرکس۔اسٹون ہینج اور جنتر منتر یا پھر رہ جا تے ہیں لِوِنگ فوسِل ۔گنگوبائلوبااور ہم لوگ جو زندہ لاشوں کی طر ح اپنی نسل کو گھسیٹتے ہوئے چلے جارہے ہیں “ 
اس طر یقے سے کئی اور افسانے ہیں جسمیں کلچر اور ہجر ت کا کشمکش ایک ساتھ ملتا ہے جن میں سے ”ایک نہتے مکان کا ریپ “ ، ” وفادار کتا“ زیبرا کرا سنگ پر کڑا آدمی“ ، ” کاگ پورنیما “ اور ”سفید کراس “ ہیں
ایک نہتے مکان کا ریپ میں موصوف نے محض ا یک تالے کے توسط سے انسانی فطر ت میں کج روی اور لالچ کو بے نقاب کیا ہے ۔رات کے اندھےرے میں مکان مالکن دروازے پر تالہ لگا تی ہے اور تین بار جھٹک کر دیکھتی ہے پھر اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب مکان محفوظ ہے ۔لیکن مکان کے پاس سے گزرنے والے ہر شخص کی رال ٹپکتی ہے کہ نہ معلوم مکان میں کتنا ذخیرہ موجود ہوگا ۔ کہ اچانک ایک بندوق بر دار پولیس کے ڈر سے مکان کا تالا توڑ کر اندر جاکر چپ جاتا ہے ۔ پھر مکان میں داخل ہونے کے لیے راستے کھل جاتے ہیں اور بظاہر ایک دوسرے سے نظر یں بچاکر مکان میں بچی ہر چیز اٹھا لے لے جاتے ہیں یہاں تک کے کالے کوئلے بھی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ الغر ض اس جڑ سے اکھاڑے ہوئے شخض کے گھر کی ہر چیز جڑ سے اکھاڑ لے جاتے ہیں ۔ اس افسانہ کے متعلق وارث علوی لکھتے ہیں” ایک نہتے مکان کا ریپ بے مثال افسانہ ہے ، یہ اردو میں اپنی نوعیت کا اچھوتا افسانہ ہے“ 
” کاگ پورنیما “میں مصنف نے ہجر ت کو الگ زاویہ سے دیکھا ہے اور خو د کو کس طر ح سنبھالتا ہے(یعنی تسلی دیتا ہے ) اس کو بھی اس افسانہ میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس افسانہ سے چندجملے ۔
 ” ہاں بیٹے ۔۔۔۔ ان دنوں ہر سال سائبر یا اور روس کے دیگرشمالی علاقوں سے مہاجر کوے ہزاروں لاکھوں میلوں کی مسافت طے کر کے یہاں چلے آتے ہیں ۔ ہم ان کی سواگت کے لیے یہ تیوہار مناتے ہیں ۔ تم باہر جاکر دیکھ لو۔ آج کل تمہیں چھتوں پر دیواروں پر پیڑوں پر غرض ہر جگہ کالے کلوٹے کوے نظر آئیں گے جو چونچ سے دم تک کوئلے کی مانند سیاہ ہوتے ہیں “(کاگ پورنیما ) 
الغرض ان کے افسانوںمیں ہجر ت کا کر ب و درد بہت ہی زیادہ نظرآتا ہے ۔آج ہم ایک ایسے افسانہ نگار کے درمیان ہیں جنہوں نے حقیقت کی عکاسی کے لیے کبھی اپنی ضمیر اور قلم کا سوادا نہیں کیا ۔ اب تک ہم نے ہجر ت کے تعلق سے بہت سارا فکش پڑھا ہوگا لیکن کیا ہجر ت وہی ہے جس کو ہم اب تک افسانوں میں منٹو ، گر شن چندر اور دیگر کے یہاں پڑھتے آئے ہیں آخر اس ہجر ت سے خود کو کب تک در رکھیںگے جو سن نوے میں کشمیر سے وہاں کی اقلیتوں نے کیا ۔ کیا ہم مہجر ی ادب کو اس کے بغیر مکمل سمجھیں گے بالکل نہیں ۔ آ ج ہم ایک ایسے افسانہ نگار سے رو بر و ہورہے ہیں جنہوں نے دیگر موضوعات کے ساتھ کشمیر سے ہجر ت کو موضوع کو سب سے زیادہ اپنے افسانوں میں جگہ دیا ہے ۔

Monday 15 May 2017

شیخ محمد ابراہیم ذوق (مونو گراف )

 ( نام کتاب شیخ محمد ابراہیم ذوق (مونو گراف 
مصنف پروفیسر کوثر مظہر ی 
صفحات 109
قیمت 72 روپے 
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان 
مبصر امیر حمزہ ، شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ، دہلی 
نادر شاہی حملہ کے بعد دہلی اجڑ جاتی ہے ، شعر و ادب کی محفلیں اٹھ چکی ہوتی ہیں  ، میر و سودا اپنے فن کی بقا کی تلاش میں لکھنو  کو چ کر چکے ہوتے ہیں اسی دو رمیں دہلی میں شیخ محمد ابر اہیم ذوق کا جنم ہوتا ہے اور انیسویں صدی کے شروع میں دہلی میں پھر سے شعر و ادب کے بزم آراستہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔جس میں اصحاب ثلاثہ ذوق ، مو من و غالب آفتاب و ماہتاب بن کر آسمان شاعر ی میں چمکتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ جس عہد اور ماحول میں ہمیں یہ تینوں شاعر ملتے ہیں اس عہد میں سب سے زیادہ طوطی شاعری میں ذوق کا بولتا ہے ۔کیا یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ خاقانی ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے مزاج ، علم و فن اور اصطلاحات زبان و بیان سے پوری طر ح واقف تھے ۔ جس کی طرف کئی اشارے زیر تبصر ہ کتاب میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔لیکن ہر چیز کو تقابل کی عینک سے دیکھنے کی وجہ سے ذوق آہستہ آہستہ ماند پڑتے جاتے ہیں اور غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر ابھر تے ہیں ۔ذوق و مومن کے ساتھ اب تک سب سے بڑا المیہ یہ ہورہا ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ تقابلی طور پر زیادہ اور ان کی انفرادیت کے طور پر بہت ہی کم کیا گیا ہے ۔اب تک ذوق پر لکھنے والوں کی تعداد دس سے بھی کم ہے ۔سابقہ تمام مطالعات کو مد نظر رکھتے ہوے پروفیسر کوثر مظہر ی نے جس خوش اسلوبی سے اس کتاب میں ایک تنقید ی محاکمہ پیش کیا ہے، اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ ذوق کا مطالعہ اب تک کما حقہ‘ نہیں کیا گیا ہے ۔
مصنف نے زیر تبصرہ کتاب میں سب سے پہلے سوانح و پس منظر کوبیس صفحات میں پیش کیا ہے ۔ذوق ابتدائی حالات اور پس منظر کا ذکر کہیں نہیں ملتا ہے ۔ جس کا ذکر مصنف ان الفاظ میںکر تے ہیں ” اگر تمام کتب اور تذکر وں کو دیکھا جائے تو کہیں بھی ذوق کے حصول علم اور اس کی تکمیل کا واضح حوالہ نہیں ملتا “ ۔(ص ۴) مصنف نے اپنی تحقیق سے یہ بھی لکھا ہے کہ ” کوئی تذکرہ نگار اس امر کی جانب اشارہ نہیں کر تا کہ انہوں نے شاہ نصیر کے علاوہ کسی اور سے بھی مشورہ ¿ سخن کیا ہو ۔“ (۱٠)ذوق کے اساتذہ سخن کے بعد آب حیات کی اس بات پر سوال کر تے نظر آتے ہیں جس میں آزاد نے لکھا ہے کہ استاد ذوق الٰہی بخش معر وف کی شاعری پر اصلاح دیا کر تے تھے ۔مصنف اس پر یہ سوال قائم کر تے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ذوق کی ابتدائی شاعری سے پہلے معر وف کا ایک دیوان مرتب ہوچکا تھا ۔ تو کیا ذوق محض ۰۲۔۹۱ سال کی عمر میں اصلاح دینے کے مجاز تھے ؟
ذوق اور در بارشاہی پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف نے نہ ہی دربار شاہی کے احسانات ذوق پر کو پیش کیا ہے اور نہ ہی ذوق کے در ربار شاہی میں رعب و دبدبہ کا ذکر ہے۔بلکہ انہوں نے تحقیق کے دائرے میں کئی امور کو لایا ہے ۔جیسے ذوق کا دربار سے متعلق ہونا ، خاقانی ہند کا خطاب دیا جانا اور دیوان ظفر استاد کا ہے یا شاگر د کا؟ ۔اس تعلق سے گفتگو کر تے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ۔” مطلع صاف ہوچکا ، جو بھی معاملات مشق سخن یا اصلاح سخن کے طریقے رہے ہوں ذوق نے بہت کچھ گنوا دیا ، لیکن غالب نے اپنے شعری اور تخلیقی بساط پر آنچ نہیں آنے دی۔“ (ص ١٤ )۔ مصنف نے شخصیت اور افتاد طبع کا ذکر کر تے ہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ شخصیت اور افتاد طبع کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہیے۔ جو اب تک نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا بھی ہے تو بانداز دیگر ۔ اسی سیاق میں سید عابد علی کی تحر یر کو پیش کر تے ہوے یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ذوق کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق کے زمانے کی دلی اور ذوق کی شخصیت کو جاننا بہت ہی ضروری ہے، اس کے بغیر ذوق کا مر تبہ متعین کر نا بہت ہی مشکل ہے ۔
مصنف تنقیدی محاکمہ کے باب میں تفصیلی گفتگو ذوق کی غزل گوئی اور قصیدہ گوئی کے متعلق پیش کر تے ہیں ۔مصنف نے اپنی تحقیقی گفتگو کاجو انداز سابقہ باب میں اختیار کیا ہے وہی انداز اس باب میں وافر طور پر نظر آتا ہے ۔غزل گوئی پر تنقید کر تے ہوئے بہت ہی محتاط انداز میں ان کی غزلیہ شاعری کو پر کھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔جانب داری بالکل بھی نظر نہیں آتی ہے ۔جہاں ان کو لگتا ہے کہ مضمون میں کمی ہے اور خیالات میں وسعت نہیں ہے اس کا بر ملا اظہار کر تے ہیں ۔اس جانب اشارہ کر تے ہیں کہ ذوق نے جہاں روایت کو توڑنے کی کوشش کی ہے وہاں ان کی شاعر ی منفر د نظر آتی ہے ۔
قصید ہ گوئی کی تنقید پر محتر م مصنف نے جو محاکمہ پیش کیا ہے وہ مستقل ایک نئے مباحثہ کو جنم دیتا ہے ۔مصنف نے اس طویل گفتگو میں آٹھ ناقدین قصائد ذوق کے تنقیدی تر اشو ں کو پیش کیا ہے ۔جن میں چار (بر ج موہن دتاریہ کیفی ، تنویر احمد علوی ، انوار الحسن ، ابو محمد سحر ) وہ ہیں جنہوں نے ذوق کو ایک اچھا قصید ہ گو شاعر مانا ہے ۔دوسرے چار (سید امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد ، پروفیسر عبد الحق) وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق ایک معمولی قصیدہ نگاری کی راے قائم کی ہے ۔ان کی تحریروں پر مصنف نے مدلل جواب اس کتاب میں پیش کیا ہے ۔ نیز ذوق کے قصیدوں کے متعلق کئی ایسے گوشے روشن کیے ہیں جن میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ذوق کی قصید نگاری سوداکی قصید نگاری سے کسی طور بھی کمتر نہیں ہے ۔الغرض اس موضوع پر مصنف کتاب طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں ۔ ” ضرورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبدا ری او ر ایمانداری کے ساتھ دیکھا پڑھا اور پر کھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصید ہ میں سو دا بڑا اور غز ل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قر ا ت اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ۔“ (ص ۰۶) اس کے بعد بہت ہی مختصر انداز میں ان کی رباعی اور قطعات میں تنقیدی تحریر شامل ہے ۔ انتخاب کلام کے تحت ۹۳غزلیں ، چار قصیدے او ر ایک سہرا شامل ہے ۔الغر ض پروفیسر کوثر مظہر ی جو اپنی سابقہ تنقیدی کتابوں کی وجہ سے بہت ہی مثبت تنقید کے لیے جانے جاتے ہیں انہوں نے اس مونوگراف کے ذریعے جن مباحث کو پیش کیا اور جن گوشو ں کی جانب از سر نو دعوت مطالعہ دی ہے اس کے لیے وہ مبار کباد کے مستحق ہیں ۔




Sunday 7 May 2017

نقطہ اور نکتہ

نقطہ اورنکتہ ...... (نایاب حسن کے چراغ سے کچھ روشنیاں حاصل کرکے)
"نقطہ"  اور" نکتہ" کے بارے میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں،  قلم کو جب ہم صفحے پر رکھ کر اٹھاتے ہیں، تو ایک نقطہ بنتا ہے، یعنی ڈاٹ۔نقطہ (۰) ،یہ کسی جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس کے علاوہ مرکز کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے،مثال کے طور پر نقطۂ نظر،یعنی کسی کا مرکزِ نگاہ یا دیکھنے کا ڈھنگ۔ نقطہ کی جمع نِقاط ہے،جبکہ" نکتہ" کسی باریک بات کو کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر فلاں شعر میں غالب نے بہت اہم نکتہ بیان کیا ہے یااس جملے میں مصنف نے فلاں نکتے کی طرف اشارہ کیاھے وغیرہ ـ نکتہ کی جمع نِکات ہے۔ یہ کہنا کہ آپ کا بیان کردہ "نقطہ" قابلِ غور ہے ، غلط ہے۔اسی طرح "میرانکتۂ نظر "بھی کہنایالکھناغلط ھوگا.
نکتہ
نُکْتَہ {نُک + تَہ} (عربی)
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: نُکتے {نُک + تے}
جمع: نُکْتے {نُک + تے}
جمع غیر ندائی: نُکْتوں {نُک + توں (و مجہول)}
معانی
1. کنہ، باریکی، سخن، دقیق و بلیغ اور پاکیزہ جسے ہر ایک نہ سمجھ سکے، باریک بات، راز، بھیجد، عقدہ، سترخفی۔
2. عل کی بات، دقیق بات، سمجھ کی بات۔
3. لطیفہ، چٹکلہ۔
4. سربند، وہ چمڑا جو گھوڑے کے منہ پر رہتا ہے، تلہاری۔
5. کام کی بات، دور کی بات۔
6. رخنہ، عیب، مین میکھ، خردہ۔۔
انگریزی ترجمہ
(orig.) Apoint; a point (of wit); a quaint saying; a pithy sentence; a subtle or quaint conceit; a nice or metaphysical distinction; a mythical signigication; head stall (of a horse)
مترادفات
دَقِیق، رَمْز، دَقِیقَہ، بارِیکی، وَقْت، لَطِیفَہ، عَیب، بھید،
مرکبات
نُکْتَہ آرا، نُکْتَہ آرائی، نُکْتَہ آفْرِینی، نُکْتَہ آفْرِیں، نُکْتَہ آموزی، نُکْتَہ بَہ نُکْتَہ، نُکْتَہ بِین، نُکْتَہ بِینی، نُکْتَہ پَرْداز، نُکْتَہ پَرْدازی، نُکْتَہ پَرْوَر، نُکْتَہ پَرْوَری، نُکْتَہ پَیرائی، نُکْتَہ پَیما، نُکْتَہ جُو، نُکْتَہ چِینی، نُکْتَہ چِیں، نُکْتَہ دانی، نُکْتَہ داں، نُکْتَہ رانی، نُکْتَہ راں، نُکْتَہ رَس، نُکْتَہ رَسی، نُکْتَہ سَرا، نُکْتَہ سَرائی، نُکْتَہ سَرایان، نُکْتَہ سَنْج، نُکْتَہ سَنْجی، نُکْتَہ شَناس، نُکْتَہ شَناسی، نُکْتَہ طَراز، نُکْتَہ طَرازی، نُکْتَہ فَروش، نُکْتَہ فِشانی، نُکْتَہ فِشاں، نُکْتَہ فَہْمی، نُکْتَہ کُشا، نُکْتَہ گِیر، نُکْتَہ گِیری، نُکْتَہ نِگار، نُکْتَہ نَواز، نُکْتَہ نَوازی، نُکْتَہ وَر، نُکْتَہ وَرانَہ، نُکْتَہ وَری، نُکْتَہ ہا، نُکْتَہ ہائے دَقِیق، نُکْتَہ ہائے لُقْمانی، نُکْتَہ ہائے مُعتَرِضَہ، نُکْتَہ یاب، نُکْتَۂِ اِیماں، نُکْتَۂِ بَعْدَالْوَقُوع، نُکْتَۂِ پیچِیدَہ، نُکْتَۂِ غَبِییَّہ، نُکْتَۂِ فَہْم
مزید دیکھیں
* نکتہ آرا
* نکتہ آرائی
* نکتہ آفرینی
* نکتہ آفریں
* نکتہ آموزی
* نکتہ بہ نکتہ
* نکتہ بین
* نکتہ بینی
* نکتہ پرداز
* نکتہ پردازی
* نکتہ پرور
نقطہ
نُقْطَہ {نُق + طَہ} (عربی)
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: نُقْطے {نُق + طے}
جمع: نُقْطے {نُق + طے}
جمع غیر ندائی: نُقْطوں {نُق + طوں (و مجہول)}
معانی
1. خط کی انتہا، وہ مقدار جو تقسیم نہ قبول کر سکے مگر اس کی طرف اشارہ کر سکیں۔
2. بندی، صفر، مرکز۔
3. کرن بندی، دال جو شعاع سے بندھتی ہے۔
انگریزی ترجمہ
a point, a dot; a cypher; a geometrical poitn; centren (of a circle); a focus; a spot; a stain; a dot , pip , or spon (upon a die)
مترادفات
نِشانَہ، ہَدَف، مَوقَع، مَقام، تِل،
مرکبات
نُقْطَہ آرائی، نُقْطَہ بَہ نُقْطَہ، نُقْطَہ دار، نُقْطَہ دار لَکِیر، نُقْطَہ گاہ، نُقْطَہ وِصال، نُقْطَہ ہائے نَظَر، نُقْطَۂِ اُبال، نُقْطَۂِ اِتِّحاد، نُقَطَۂِ اِتِّصال، نُقْطَۂِ اِجْتِماع، نُقْطَۂِ اِحْتِراق، نُقْطَۂِ اِخْتِتام، نُقْطَۂِ اِخْتِلاف، نُقْطَۂِ اِشْتِراک، نُقْطَۂِ اِشْتِعال، نُقْطَۂِ اِعْتِدال، نُقْطَۂِ اِعْتِدالِ رَبِیعی، نُقْطَۂِ اِعْتِدالَین، نُقْطَۂِ اِعْتِراض، نُقْطَۂِ اَعْشارِیَہ، نُقْطَۂِ اَقْرَب، نُقْطَۂِ اِماعَت، نُقْطَۂِ اِنْتِخاب، نُقْطَۂِ اَنْجام، نُقْطَۂِ اِنْعِطاف، نُقْطَۂِ اِنْقِطاع، نُقْطَۂِ اِنْقِلاب، نُقْطَۂِ اِنْقِلاب شِتَوی، نُقْطَۂِ اِنْقِلاب صَیفی، نُقْطَۂِ اِنْقلابَین، نُقْطَۂِ اَوج، نُقْطَۂِ آخِر، نُقْطَۂِ آغاز، نُقْطَۂِ باطِل، نُقْطَۂِ پَذِیرَہ، نُقْطَۂِ پَرْکار، نُقْطَۂِ پِگھْلاؤ، نُقْطَۂِ تَعْلِق، نُقْطَۂِ تَقابُل، نُقْطَۂِ تَقاطُع، نُقْطَۂِ تَقاطُع رَبِیعی، نُقْطَۂِ تَماس، نُقْطَۂِ تَنْصِیف، نُقْطَۂِ تَوقِیَت، نُقْطَۂِ جاذِب، نُقْطَۂِ جاسُوس، نُقْطَۂِ جوش، نُقْطَۂِ چَشْم، نُقْطَۂِ حَفِیض، نُقْطَۂِ حَیات، نُقْطَۂِ خال، نُقْطَۂِ خَیال، نُقْطَۂِ دائِرہ، نُقْطَۂِ دَمعِیَّہ، نُقْطَۂِ دِید، نُقْطَۂِ ذَوب، نُقْطَۂِ راس، نُقْطَۂِ رَمٰی، نُقْطَۂِ رِہائی، نُقْطَۂِ زَوال، نُقْطَۂِ ساکِن، نُقْطَۂِ سُکُون، نُقْطَۂِ سِمْتُ الرّاس، نُقْطَۂِ سُوَیدا، نُقْطَۂِ سَہْو، نُقْطَۂِ سَہْوُ الْقَلَم، نُقْطَۂِ سیری، نُقْطَۂِ شَبْنَم، نُقْطَۂِ شَک، نُقْطَۂِ شَکِسْت، نُقْطَۂِ عُرُوج، نُقْطَۂِ غَلْیان، نُقْطَۂِ فاصِل، نُقْطَۂِ فَرْضی، نُقْطَۂِ کَمال، نُقْطَۂِ کور، نُقْطَۂِ گُداخْت، نُقْطَۂِ لایُتَجَزّا، نُقْطَۂِ ماسِکَہ، نُقْطَۂِ مائِعَگی، نُقْطَۂِ مَرْکَز، نُقْطَۂِ مَرْکَزِیَہ، نُقْطَۂِ مَغْلُوبِیَّت، نُقْطَۂِ مُقابِل، نُقْطَۂِ مُلْتَقٰی، نُقْطَۂِ مُماس، نُقْطَۂِ مُنْتَہا، نُقْطَۂِ مَوہُوم، نُقْطَۂِ نَزْف، نُقْطَۂِ نَظَر، نُقْطَۂِ نَمُو، نُقْطَۂِ نَو گُریز، نُقْطَۂِ نُوری، نُقْطَۂِ نُہ داِئَرہ
مزید دیکھیں
* مرکزی نقطہ
* زرد نقطہ
* گول نقطہ
* دل کا نقطہ
* نشان کا نقطہ
* برف کا نقطہ
* تاریک نقطہ
* نزدیک ترین نقطہ
* مکانی نقطہ
* نقطہ آرائی
* نقطہ بہ نقطہ
اشعار   نکتہ کے استعمال میں.........
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات  (میر)
صحبت رکھا کیا وہ سفیہ و ضلال سے
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ داریاں (میر)
نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا
شاعری تو شعار ہے اپنا (میر)
سنتا نہیں ہے شعر بھی وہ حرف ناشنو
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ داریاں (میر)
نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے (غالب)
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے (غالب)
ہے گر چہ مجھے نُکتہ سرائی میں تو غُل
ہے گر چہ مجھے سحر طرازی میں مہارت (غالب)
مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟
نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے! (غالب)
علامہ اقبال نے 110 سے زائد مقامات پر اپنے اشعار میں نکتہ کو استعمال کیا ہے.
اشعار   نقطہ کے استعمال میں.........
ہے ان بھوؤں میں خال کا نقطہ دلیل فہم
کی ہے سمجھ کے بیت کسو نے یہ انتخاب (میر)
سوادِ چشمِ بسمل انتخابِ نقطہ آرائی
یخرامِ نازِ بے پروائیِ قاتل پسند آیا (غالب)
میر و غالب کے دیوان میں صرف انہی اشعار میں نظر آیا ممکن ہے اور بھی جگہ مستعمل ہو.
نقطہ پرکار حق ، مرد خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز (اقبال)
آہ یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو
نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو (اقبال)
اس کے علاوہ شاید چار مقامات پر اور نقطہ مستعمل ہے.    
اس میں پہلے پیراگراف کے لیے نایاب حسن کا شکریہ ادا کرتا ہوں. بقیہ تمام کو تلاش میں نے خود کیا. اور بہت ہی مختصر لمحہ میں کیا حوالات کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کیا تاکہ بعد میں اشاعت میں پریشانی نہ آئے... شکریہ.

ہمزہ کیوں نہیں؟

ﺣﺮﻑ ﻣﯿﮟ ﺻﻮﺕ ﺍﺻﻞ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺷﮑﻞ ؟
ﺷﮑﻞ ﮨﯽ ﺍﺻﻞ ﮨﮯ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﻌﻠﻮ ﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺮ ﻑ ﮐﻮ ﻥ ﺳﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺣﺮﻑ ﮐﯽ ﺻﻮﺕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔
ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﻮ ﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺷﮑﻞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺻﻮﺕ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ۔ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ ؟
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ! ﮐﯿﻮ ﻧﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺘﻨﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺮ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺭﺳﻢ ﺍﻟﺨﻂ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺭﺳﻢ ﺍﻟﺨﻂ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻧﺎﭘﯿﺪ ﮨﻮﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﻟﮩﺬﺍ ﺻﻮﺕ ﺍﺻﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﻞ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﺻﻮﺕ ﻓﻨﺎ ﮨﮯ ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻭ ﺭﺳﻢ ﺍﻟﺨﻂ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺻﻮﺍﺕ ﺳﮯ ۔ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻢ ﺍﻟﺨﻂ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭘﯿﺪ ﮨﻮﮔﺌﯿﮟ۔
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺻﻮﺍﺕ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺣﺮﻓﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ۔
ﺍﺱ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺻﻮﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺻﻮﺕ ﮨﻤﺰﮦ ﭘﺮﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺗﻮ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺷﮑﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺒﺎﺣﺚ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺣﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻻﭨﮭﯽ ﭼﻼﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﺻﺮﻑ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎ ﻅ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻟﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭘﺎﺋﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﺎ ﺳﮯ ﺑﺪ ﻝ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻋﺪ ﮦ ﻣﺮ ﺗﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺩﺭ ﺳﺖ ﮨﮯ ، ﮐﮩﺎﮞ ﺯﺍﺋﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﺤﺚ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺰﮦ ﺣﺮ ﻑ ﮨﮯ ، ﺣﺮﮐﺖ ﮨﮯ ، ﯾﺎ ﻋﻼﻣﺖ ؟
ﺑﺎﺑﺎﺋﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻋﺒﺪﺍﻟﺤﻖ ﺻﺎﺣﺐ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮﺣﺮﻭﻑ ﺗﮩﺠﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺣﺮ ﮐﺎﺕ ﻭ ﺳﮑﻨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
’’ ﮨﻤﺰﮦ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺣﺮﻭﻑ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﯾﮧ ﺩﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ,, ﯾﺎ ‘‘ ﺍﻭﺭ ,, ﻭﺍﻭ ‘‘ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮨﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮﻣﺪ ﺍﻟﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﯾﺎ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ ﻧﮑﺎﻟﻨﯽ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺐ ﺩﻭ ﯾﺎ ﮐﮯ ﮨﻮ ، ﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻭﺍﻭ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﻄﻮﺭ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺳﮯ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﯾﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ’ ﯼ ‘ ﯾﺎ ’ ﻭ ‘ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ، ﺗﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﺅﮞ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ‘‘ ‏( ﻗﻮﺍﻋﺪ ﺍﺭﺩﻭ ۔ﺹ ۳۵؍۳۶ ‏)
ﺍﺳﮯ ﯾﮩﯿﮟ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮﮔﻮ ﭘﯽ ﭼﻨﺪ ﻧﺎﺭﻧﮓ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻀﻤﻮﻥ ’’ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯿﻮﮞ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﻋﻼﻣﺖ ﺑﮯ ﺻﻮﺕ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺳﯽ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ’’ ﺍﺭﺩﻭﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻟﮓ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ‘‘ ﺍﻟﻐﺮﺽ ﺍﺱ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﺎﺕ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮐﯿﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﺱ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﺤﺮ ﯾﺮ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﯿﺾ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺥ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞﻨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ’’ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻣﻼ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ً ﺳﻮ ‏( ۱۰۰ ‏) ﺻﻔﺤﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﻗﻠﻤﺒﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔
ﺍﻭﻻ ً ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺩﻭ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﻝ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﻣﺨﺮﺝ ﺷﺮﻭﻉ ﺣﻠﻖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺣﺮ ﻭﻑ ﺣﻠﻘﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‏( ﺟﺐ ﻣﺨﺮﺝ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﻮ ﺣﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ‏) ۔ ﺩﻭﻡ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﮨﯿﮟ ‏( ۱ ‏) ﮨﻤﺰﮦ ﺍﺻﻠﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯿﺌﺖ ‏( ۲ ‏) ﺍﻟﻒ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﺮﺍٔﺕ ‏( ۳ ‏) ﻭﺍﻭ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺆﻟﻒ ، ﻣﺆﺫﻥ ‏( ۴ ‏) ﯾﺎ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺣﻮﺍﺋﺞ ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻣﻼ ﻣﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﮯ ۔
ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ’’: ﮨﻤﺰﮦ ﺣﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻼﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﻣﺜﻼً ﻧﻐﻤﮧٔ ﻋﻨﺪﻟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺮ ﻑ ‘‘ ‏( ﺹ ۳۴۷ ‏) ﺣﺮ ﻑ ﻣﯿﮞﺘﻮ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻋﻼﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﻔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻢ ﺁﮔﮯ ﻋﻼﻣﺖ ﭘﺮ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔
ﺍﺳﯽ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ’’: ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻒ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﺩﻭ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺁﻭﺍﺯ ﺣﺮﻓﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺣﺮﻓﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺟﻤﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ‘‘ ‏( ﺹ ۳۵۶ ‏) ﻣﺜﺎﻝ ﺗﺎٔﻣﻞ ﺍﻭﺭ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻣﻞ ﮐﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺮﺍﺕ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮨﻤﺰﮦ ‏( ﺟﺮﺋﺖ ‏) ﺳﮯ ﯾﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻒ ‏( ﺟﺮﺍﺕ ‏) ﺳﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺱ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﻭ ﻧﻮﮞ ﻟﻔﻆ ﻋﺮﺑﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﺧﻮﺫ ﮨﯿﮞﺎﻭﺭ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺮﺍﺕ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﻣﻼﺀ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﯾﮧ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺣﺮ ﻑ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ﮔﻮ ﯾﺎ ﺟﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻣﻞ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺍﻟﻒ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺏ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻣﺮ ﻭﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﮭﺎ ۔ﻟﮩﺬﺍ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﺠﮭﮏ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺭ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﻋﺮ ﺑﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻟﻒ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ۔
ﺍﻥ ﻣﺜﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﮔﮯ ﯾﮧ ﺗﺤﺮ ﯾﺮ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭ ﺣﺮﻑ ‏( ﺍﻟﻒ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺰﮦ ‏) ﮐﻮ ﯾﮑﺠﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﺍﺱ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﭘﺮ ﺍﻣﻼﻣﯿﮟ ﻋﻤﻞ ﮐﺮ ﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﺍﮐﺜﺮ ﻭﺍﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻒ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﻗﺮﺍﺕ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻒ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﺍﻭ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺮﺍﺕ ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻭﺍﻭ ؟ ﻧﮩﯿﮟ ! ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﻟﻒ ، ﻣﻮﺫﻥ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ۔ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﺅ ، ﺟﺎﺅ ، ﮐﮭﺎﺅ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭘﺮ ﺟﮩﺎﮞﺎﯾﮏ ﺣﺮ ﻑ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭ ﺣﺮ ﻑ ﺁﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﮨﭩﺎﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ﺟﺒﮑﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻻﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ۔ﺩﻟﯿﻞ ’’: ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻓﻌﺎﻝ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﺿﺮﻭﺭ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺅ ، ﺟﺎﺅ ، ﺑﻨﺎﺅ، ﻻﺅ ، ﭘﺎﺅ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‘‘ ﺁﺧﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺗﻀﺎﺩ ﮐﯿﻮﮞ ۔
ﺑﻌﺾ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﯾﮑﺴﺮ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﮨﮯ ۔ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺮﺑﯽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﺭﺩﻭ ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮞﯿﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺛﻘﺎﻟﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮧ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺩﺍﺭﻭ ﻣﺪﺍﺭ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﭘﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﺎ ً ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﺣﺮ ﮐﺖ ﭘﺮ ۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﻋﻤﻞ ﺩﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺣﺮ ﮐﺎﺕ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺩﺧﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻟﮯ ﺳﺎﻗﻂ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮨﻨﺪ ، ﺷﻌﺮﺍﺀ ﺩﮨﻠﯽ ، ﺣﮑﻤﺎﺀ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻭﻏﯿﺮﮦ ۔ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺯﯾﺮ ﮐﻮ ﻻﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﻟﻒ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺳﮑﺘﺎ ۔
ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﻣﺰﯾﺪ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺯﯾﺮ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﯾﮏ ﻋﻼﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺮﻑ ﺑﮭﯽ ۔ﺍﺿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻼﻣﺖ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﺤﺚ ﮨﻮﮔﯽ ۔
ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺎﮐﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺎﮐﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺯﯼ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﺳﺎﮐﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﻓﺘﺤﮧ ﮨﻮﺗﻮ ﺍﻟﻒ ﺿﻤﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﺍﻭ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﺮﮦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﺎﺳﮯ ﺑﺪ ﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﺳﺎﻗﻂ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﻭﺟﮧ ﺳﮑﻮﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺒﺪﺍ ﺀ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻤﺰﮦ ﺳﺎﮐﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻝ ﭘﺮ ﺯﺑﺮﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﺳﯽ ﺟﻮﺍﺯﯼ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﻟﻒ ﺳﮯ ﻣﺪﻏﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺪﺍ ﻭﻗﻒ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔
ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻀﻤﻮﻥ ’’ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯿﻮﮞ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﭘﯽ ﭼﻨﺪ ﻧﺎﺭﻧﮓ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻣﺤﺾ ﺩﻭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺼﻮﺗﻮﮞ ‏( Cunjuct Word ‏) ﮐﮯ ﺟﻮﮌ ﮐﻮ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺅ، ﺟﺎﺅ ، ﮐﮭﺎﺅ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‘‘ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺎ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻟﮓ ﺳﮯ ﮐﻮ ﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﻣﺜﻼ ً ﺟﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺼﻮﺗﮧ ‏( a ‏) ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻒ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺳﺮﮮ ﻣﺼﻮﺗﮧ ‏( v ‏) ﻭﺍﺅﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﻭ ﻣﻮﺟﻮ ﮨﮯ ‏( ﻋﺠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﺍﻭ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ ‏)
ﮔﻮﭘﯽ ﭼﻨﺪ ﻧﺎﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﻧﮧ ﺟﺎﻣﻊ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﺎﻧﻊ ۔ﺟﺎﻣﻊ ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺎﻭ ، ﺑﮭﺎﻭ ، ﮐﺎﻭ ﮐﺎﻭ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺩﻭ ﻣﺼﻮﺗﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻧﻊ ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺌﯽ ﮨﺰﺍﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﺩﻭ ﻣﺼﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺎﺋﻞ ،ﻗﺎﺋﻞ ، ﺳﺎﺋﻞ ، ﺩﻻﺋﻞ ﻭﻏﯿﺮﮦ ۔
ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺍﮨﻢ ﻧﮑﺘﮯ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻓﻌﻞ ﺍﻣﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮ ﺗﻌﻈﯿﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺅ ﺁﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺅ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ﺑﺸﺮ ﻃﯿﮑﮧ ﺍﺱ ﻭﺍﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻒ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎ ﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺮ ﻑ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺟﺎﮌﻭ، ﺑﮕﺎﮌﻭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ۔ﺩﻭ ﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﻤﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻭ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﺍ ﻭ ، ﮔﮭﺎﻭ ، ﺗﺎﻭ ، ﻟﻤﺒﺎﻭ ، ﭼﻮﮌﺍﻭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ۔ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮨﮯ۔
ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﻣﺆﺛﺮ ، ﻣﺆﻧﺚ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﺧﺮ ﮐﮯ ﺫﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ’’ ﻋﺮ ﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻣﻼ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺭﺩ ﻭ ﺍﻣﻼ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﺐ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﺱ ﭘﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ’’ ﺍﯾﮏ ﺣﺮ ﻑ ﻭﺍﻭ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺩﻭﺣﺮ ﻑ ‏( ﺀ ، ﻭ ‏) ﮐﯿﻮﮞ ﻟﮑﮭﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ‘‘ ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺩﻟﯿﻞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺍﻭ ﮐﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﺑﮭﯽ ﺁ ﭖ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﻃﺮ ﺡ ﺍﻟﻒ ﮐﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﮨﮯ ۔ﺣﺎﻻ ﻧﮑﮧ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﮨﯽ ﻭﺍﻭ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﻗﺴﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﺆﻟﻒ ﻧﻮﺭﺍﻟﻠﻐﺎﺕ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻣﻌﺮ ﻭﻑ ، ﻣﺠﮩﻮﻝ ، ﻣﻌﺪﻭﻝ ، ﻣﻮﻗﻮﻑ ۔
ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﺪﺑﻮ ﮐﺎﻭﺍﻭ ، ﻣﺠﮩﻮﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮ، ﺗﻮ ﮐﺎ ﻭﺍﻭ ، ﻣﻌﺪﻭ ﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﺧﻮﺵ ، ﺧﻮﺍﻥ ﺍﻭﺭﺧﻮﺩ ﮐﺎ ﻭﺍﻭ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﺎﻭ ، ﺗﺎﻭ ﮐﺎ ﻭﺍﻭ ۔ ﺍﺏ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﻭﺍﺿﺢ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎﮐﮧ ﻣﻮٔﻟﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﺛﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭ ﮨﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﺍﻭ ﮐﻮ ﺍﻥ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻗﺴﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔
ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺍ ﻥ ﺟﯿﺴﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﻓﺮﺽ ﻋﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺗﻮ ﮨﮯ ۔ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﺑﺪﻝ ﺍﻟﻒ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﺑﺪ ﻝ ﻭﺍﻭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺰﮦ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺘﺤﺮ ﮎ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻒ ﻣﺘﺤﺮ ﮎ ﮐﺐ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ۔ﺟﺐ ﺁﭖ ﺍﻟﻒ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﻟﻔﻆ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﯿﺮ ﻟﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﺤﺮ ﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﻻ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﻻ ﻣﺤﺎﻟﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﺭﻭﭖ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﻟﻒ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻭ ﮐﺎ ﮨﮯ ۔
ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺭﺋﯿﺲ ﮐﯽ ﺟﻤﻊ ﺭﺅﺳﺎ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﮑﻤﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎ ﮐﮯ ﻭﺯﻥ ﭘﺮ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺩﮦ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺭﺀ ﺳﺎ ‏( ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ‏) ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﮑﻤﺎ ﮐﮯ ﻭﺯﻥ ﭘﺮ ﮨﮯ ۔ﺗﻮ ﭘﮭﺮﺍﺱ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﻮ ﺧﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﻭﺯﻥ ﭘﺮﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺍﻭ ﮐﮯ ﺍﻟﻒ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﺍﻣﻼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﻭﮦ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ’’ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﺻﻮﻝ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﺮﻑ ﻋﻠﺖ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺩﻭ ﺣﺮ ﻑ ﻋﻠﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯿﮞﮕﮯ ﺧﻮﺍﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﮨﻮ ﺍﺻﻮﻝ ﯾﮩﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ‘‘ ‏( ﺹ۳۸۰ ‏) ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﺮﻑ ﻋﻠﺖ ﺗﯿﻦ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﻒ ، ﻭﺍﻭ ﺍﻭﺭ ﯼ ۔ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺍﻋﺪ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﮧ ۲۷۱ ﻣﯿﮟ ﺳﻘﻮﻁ ﺣﺮ ﻑ ﻋﻠﺖ ﮐﮯ ﻋﻨﻮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﺣﺮﻑ ﻋﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺗﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﺭﺅﺳﺎ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﺣﺮﻭﻑ ﻋﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ۔ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺣﺮﻭﻑ ﻋﻠﺖ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ’’ ﺣﺮﻭﻑ ﻋﻠﺖ ﮐﺎ ﮐﺮ ﺩﺍﺭ ﺣﺮ ﻭﻑ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮ ﺡ ﮐﮧ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻧﺪﺍﺯﺳﮯ ﮐﮭﻨﭽﻨﺎ ،ﮔﺮﺍﻧﺎ ، ﺑﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﺍﻧﺎ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺧﺎﺹ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ ‘‘ ‏( ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﺍﻋﺪ ﺹ ۲۷۱ ‏) ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺻﻔﺎﺕ ﺍﻟﻒ، ﻭﺍﻭﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﺮ ﻑ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ؟ ﻧﮩﯿﮟ ! ۔ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻭ ﮐﺎ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺩﻭ ﺣﺮﻭ ﻑ ﻋﻠﺖ ﮐﺎ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﮯ ۔
ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ :
’’ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﺐ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﺁﺋﮯ ، ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ‘‘ ، ’’ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻣﺤﺾ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮨﺎ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻌﺒﮧٔ ﺩﻝ ، ﺟﻠﻮﮦٔ ﺩﻭﺳﺖ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﻣﮑﺴﻮﺭ ﻓﺮﺽ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﻮ ﮞ ﮐﮧ ﺯﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﻋﻼﻣﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻤﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ )‘‘ ۳۸۷ ‏)
ﺍﺱ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﭘﮩﻼ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻧﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﺯﯾﺮ ﮨﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﺟﮧ ﻗﺘﻞ ، ﻭﺟﮧ ﻣﻮﺕ ، ﻓﻘﮧ ﺷﺎﻓﻌﯽ ، ﻓﻘﮧ ﺣﻨﻔﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ؟ ﮨﮯ ! ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺰﮦ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮐﻮ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﻋﻼﻣﺖ ﻣﺎﻥ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﻮ ﻣﮑﺴﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﺁﺧﺮ ﻣﮑﺴﻮﺭ ﮐﯿﻮ ﮞ ﻓﺮﺽ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﮑﺴﻮﺭ ﻓﺮﺽ ﮐﺮ ﻧﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮐﺴﺮ ﮦ ﮨﯽ ﺁﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮﮐﺴﺮﮦ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍ ﮨﯽ ﮔﺌﯽ ۔ ﭼﻠﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﺮﮦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﮐﯿﺎ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻭِ ﻣﻌﺪﻭﻟﮧ ﮐﯽ ﻃﺮ ﺡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ! ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﻟﻒ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﻓﻦ ﻋﺮﻭﺽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﺍﻥ ﺍﺭﺩﻭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﻒ ﺳﮯ ﺣﺘﯽ ﺍﻻﻣﮑﺎﻥ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻟﻒ ﮐﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ۔ﻟﮩﺬﺍ ﮨﻢ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﺼﻮﺗﮧ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺾ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺳﯿﭧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺣﺮﻑ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺁﮔﮯ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ’’ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺨﺘﻔﯽ ’’ ﮦ ‘‘ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺗﯽ ‘‘
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮦ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﻟﻒ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﮯ ۔ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﻟﻒ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺗﯽ ۔
’’ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺮ ﻑ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﺱ ﻋﺪﻡ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﮯ ‘‘
ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﻌﺪﻭﻟﮧ ﮨﮯ ۔ ﻧﮩﯿﮟ !
’’ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮ ﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﮔﻮﯾﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﻋﻼﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻋﻼﻣﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﯿﭧ Seat ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ‘‘
ﺟﺐ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﺸﺸﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﻧﺸﺴﺖ ﺯﯾﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﮐﺴﺮﮦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ﮐﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﺣﺮ ﻑ ﮐﻮ ﻗﺼﯿﺮ ﻣﺼﻮﺗﮧ ﺯﺑﺮ ﺯﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﻧﺎ ﻣﺮﻭﺝ ﮨﮯ ؟ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﺎﺋﮯ ﺧﻔﯽ ﮨﯽ ﺯﯾﺮ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﮨﮯ ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﮐﺴﺮ ﮦ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﮔﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺣﺮ ﻑ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﻮﺭﺍ ﺣﺮ ﻑ ﮨﯽ ﺯﯾﺮ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﺮ ﻑ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮨﮯ ۔ﻟﮩﺬﺍ ﮨﻤﺰﮦ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﯾﮏ ﺣﺮﻑ ﮨﮯ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻒ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﺷﯿﺪ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ’’: ﺟﻦ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﯼ ﯾﺎ ﮮ ﮨﻮ ‏( ﺧﻮﺍﮦ ﺍﺻﻠﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﺰﻭﻟﻔﻆ ﮨﻮ ﺧﻮﺍﮦ ﺍﺿﺎﻓﯽ ﮨﻮ ‏) ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﯾﺎﻣﮑﺴﻮﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﻣﺜﻼ ﻣﺒﺘﻼﮮ ﻏﻢ ،ﺭﻋﻨﺎﺋﯽ ﺧﯿﺎ ﻝ ‏( ﺹ ۴۰۱ ‏)
ﮨﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﯼ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﺳﮯ ﺑﺤﺚ ﮐﺮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺒﺘﻼﺋﮯ ﻏﻢ ﺳﮯ ۔ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﺍﮮ ، ﭼﺎﮮ ، ﻗﮯ ، ﻃﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﮐﻦ ﺟﯿﺴﮯ : ﺟﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ۔ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮ ﻑ ﻣﺒﻨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺮ ﻭﻑ ﺗﮩﺠﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﺁﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮞﻠﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺒﻨﯽ ﺑﺎﻟﺴﮑﻮﻥ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔
ﺗﻮ ﻣﯿﺮ ﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﺿﺮﻭﺭ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﺮ ﮐﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺯﯾﺮ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ۔ﺍﻭﺭﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﻣﺤﺎﻟﮧ ﯾﺎ ﮐﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﺎ ﮐﮯ ﺗﻠﻔﻆ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺩﻭ ﻧﻘﻄﮯ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﺋﯿﮯ ، ﺟﺎﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﺋﯿﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﯾﻌﻨﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﻣﺒﺘﻼﮮ ﻏﻢ ‏( Mubtalai Gham ‏) ﮨﻮﮔﺎ ﻣﺒﺘﻼﺋﮯ ﻏﻢ ‏( Mubtala e Gham ‏) ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﯾﺎ ﺋﮯ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﺎ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺗﻠﻔﻆ ﮨﯽ ﺍﮮ ﮨﮯ ﺑﺮﻭﺯﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ۔ﺗﻮ ﻣﺎﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺭﺩﻭ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﺣﺮﻑ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﮮ ﮨﮯ ۔ﺗﻮ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﯾﮑﺸﻦ، ﺍﯾﻠﻤﻮﻧﯿﻢ، ﺍﯾﻢ ، ﺍﯾﻦ ، ﺍﯾﺲ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺠﻮﮐﯿﺸﻦ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﯽ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ۔
ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﺮ ﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺣﺮﻑ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﻘﯿﮧ ﺣﺮ ﻭﻑ ﺗﮩﺠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮ ﺡ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍ ﺗﯽ ﮨﮯ ،ﺍﺧﯿﺮ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺣﺮ ﻑ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻘﯿﮧ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﺍﮮ ﮐﯽ ﻣﺎﺗﺮﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺒﺘﻼﺋﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﯽ ﺯﯾﺮ ﮐﯽ ﺣﺮ ﮐﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﺴﯽ ﺗﺮﮐﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺕ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ۔ﻣﺜﻼ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮨﻨﺪ، ﺣﮑﻤﺎﺀ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺻﺮﻑ ﮨﻤﺰﮦ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺰﮦ ﺗﻮ ﺣﺮ ﮐﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺣﺮﻑ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮨﯽ ﺯﯾﺮ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﯾﺮ ﮨﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍ ﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﺧﻮﺩ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ۔ﺧﻼﺻﮧ ٔ ﮐﻼﻡ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺩﺷﻮﺍﺭﯾﺎﮞ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﯽ ۔ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺩﺷﻮﺍﺭﯼ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﮯ ﺗﻠﻔﻆ ﮐﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ، ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﻟﺴﺎﻧﯽ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺻﻮﺭﺕ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ۔
ﻣﮯ ، ﺷﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﺯﯾﺮ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭ ﯾﺎ ﮐﺎ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﻻﺯﻡ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﮯ ﮐﯽ ﻃﺮ ﺡ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﻠﯽ ﺣﺎﻟﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺣﺮ ﮐﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻥ ﺗﺮ ﮐﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺳﺎﻥ ﺍﻭ ﺭ ﻣﺨﺮﺝ ﺳﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﺮ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺌﮯ ﺻﺎﻑ، ﭘﺌﮯ ﻋﺬﺭ ﮐﺮ ﻡ ﻭﻏﯿﺮﮦ ۔
ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ : ’’ ﺟﻦ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭ ‏( ﻣﻌﺮﻭﻑ ﯾﺎ ﻣﺠﮩﻮﻝ ‏) ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﻟﻔﺎ ﻅ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮨﻤﺰﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﻮﮮ ﮔﻞ ، ﺳﻮﮮ ﺩﺍﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ‏( ۴۱۱ ‏)
ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ ۔ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮧ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ۔ﻭﮦ ﺻﻮﺭ ﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻀﺎﻑ ﭼﺎ ﺭ ﺣﺮ ﻓﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﭻ ﺣﺮﻓﯽ ﮨﻮ ﺟﯿﺴﮯ ۔ﻉ : ﮔﯿﺴﻮِ ﺗﺎﺑﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﺏ ﺩﺍﺭ ﮐﺮ ۔ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺴﻮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭ ﮨﯽ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮ ﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮔﻔﺘﮕﻮِ ﺭﺷﮏ ، ﺁﺭﺯﻭِ ﻣﺴﺮ ﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﺠﮩﻮﻝ ﺳﮯ ﺑﭻ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﻠﻔﻆ ﮨﻤﺰﮦ ﮐﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺟﺮﺍﺕ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻟﻒ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﭘﮍﮬﮯ ﮔﺎ ۔ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺁﭖ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻒ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﺎﻥ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺆﻟﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﺫﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻭ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻭﺍﻭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﮨﯽ ﭘﮍﮬﯿﮞﮕﮯ ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻋﻄﻒ ﻭ ﻣﻌﻄﻮﻑ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻑ ﻋﻄﻒ ﻭﺍﻭ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺰﮦ ﺗﻠﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺟﯿﺴﮯ ، ﺍﺑﺘﺪﺍﻭ ﺍﻧﺘﮩﺎ، ﺍﻣﻼﻭ ﺍﻧﺸﺎ ۔ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺍﮔﺮ ﻣﻔﺮ ﺩ ﺍﻣﻼ ﺍﻭ ﺭ ﺍﻧﺸﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﻄﻒ ﻭ ﻣﻌﻄﻮﻑ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﮐﺐ ﮐﺮ ﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﻠﻔﻆ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﻭ ﮐﺎ ﺗﻠﻔﻆ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮ ﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺭﻭﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺼﺎﺣﺖ ﻣﺠﺮﻭﺡ ﮨﻮﮔﯽ ۔ﺍﺑﺘﺪﺍﻭ ﺍﻧﺘﮩﺎ، ﺍﺧﻔﺎ ﻭ ﺍﻇﮩﺎﺭ ، ﺷﻌﺮﺍﻭ ﻋﻠﻤﺎ، ﺍﻣﺮﺍ ﻭﻭﺯﺭﺍ، ﺍﻣﻼ ﻭ ﺍﻧﺸﺎ، ﺍﻧﺒﯿﺎ ﻭ ﺍﻭﻟﯿﺎ ۔
ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﭽﮫ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺍﺻﻮ ﻝ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮ ﺗﺐ ﮨﻮﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻤﺰﮦ ﺍﻣﻼ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻗﺮﺍﺕ ﻣﺘﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﺩﺭﺝ ﮐﺮﺍﺭﮨﺎﮨﮯ۔
ﺍﻭﻝ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻌﻄﻮﻑ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﻣﯿﮟ ’ ﺍﻟﻒ ‘ ﯾﺎ ’ ﻭﺍﻭ ‘ ﻣﺼﻮﺗﮧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺮ ﻑ ﻋﻄﻒ ’ ﻭﺍﻭ ‘ ﮐﻮ ﮨﻤﺰﮦ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻭ ﺑﺪﺑﻮ ، ﺟﺰﺍ ﻭ ﺳﺰﺍ۔
ﺩﻭﻡ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻌﻄﻮﻑ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﺧﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﺨﺘﻔﯽ ﮨﻮ ﻣﺮ ﮐﺐ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺮ ﻑ ﻋﻄﻒ ’ ﻭﺍﻭ ‘ ﮐﻮ ’ ﮨﻤﺰﮦ ‘ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﻐﻤﮧ ﻭ ﺭﻗﺺ ، ﻣﺪﺭﺳﮧ ﻭ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ، ﻣﮯ ﺧﺎﻧﮧ ﻭ ﻣﺴﺠﺪ ۔
ﺳﻮﻡ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻌﻄﻮﻑ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻭ ﻋﻄﻒ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﮨﻮ ، ﻭﮨﺎﮞ ﯾﺎﺋﮯ ﻣﻌﺮ ﻭﻑ ﻣﺼﻮﺗﮧ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻣﺼﻤﺘﮧ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺴﺮ ﮦ ﺁﺟﺎ ﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻭ ﻣﻮﺕ ، ﮔﺮ ﻓﺘﺎ ﺭﯼ ﻭ ﺁﺯﺍﺩﯼ ۔
ﭼﮩﺎﺭﻡ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﻌﻄﻮ ﻑ ﮐﺎ ﺍﺧﯿﺮ ﺣﺮﻑ ﺍﻥ ﮐﮯ ‏( ﺳﺎﺑﻖ ﺣﺮﻭﻑ ﮐﮯ ‏) ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻭﺍﻭ ﺣﺮ ﻑ ﻋﻄﻒ ﻣﺼﻮﺗﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺟﺎ ﺋﮯ ﮔﺎ ۔ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﻗﻠﻢ ، ﻣﻮﺝ ﻭ ﻣﺴﺘﯽ ۔ ‏( ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﺮ ﮐﺐ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮨﮯ ‏

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...