Showing posts with label مضمون. Show all posts
Showing posts with label مضمون. Show all posts

Thursday 3 March 2022

دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز

 دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز 

 امیر حمزہ 


  یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تخلیق کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا جہا ں تخلیق کار پیدا کیے جاتے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہی ادارہ مینوفیکچر ہوتا اور سپلائر بھی۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکا کہ کمپنیو ں کی طرح اشاعتی اداروں کے نام سے کتابیں بک رہی ہوں بلکہ ہمیشہ تخلیق کار کے نام سے ہی کتابیں بازار میں دستیاب ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادیبوں کو شناخت دینے میں اشاعتی اداروں کا اہم کردار رہا ہے۔ گویا اپنے فن کو پیش کرنے کا یہ عمدہ پلیٹ فارم انہیں ملا ہوا ہے۔ اگر کسی ادیب کی کوئی کتاب ایک چھوٹے سے ادارے نے شائع کی اور وہ فورا ًمالی اعتبار سے کامیاب ہوگیا تو پھر اسی ادارے کی فرمائش ہو تی تھی کہ اب آپ دوسری کتاب کی تیاری میں لگ جائیں۔ اسی طریقے سے کئی ادیب شہر ت کی بلندیوں تک پہنچ گئے جن کے بارے میں ہم بخوبی جانتے ہیں۔ سلسلہ وار تحریریں لکھنے والوں کے نام اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جن کی تحریریں اشاعتی اداروں کے پلیٹ فارم سے کثیرافراد تک پہنچیں اورانہوں نے اپنے حلقہ کو وسیع تر بھی کیا۔

کچھ ایساہی معاملہ ادب اطفال کا بھی ہے کہ چنندہ اداروں نے اپنے مخصوص ادیبوں کو تھام لیا اور ان کی کتابوں سے انہیں بہت منافع حاصل ہوا ، نتیجتاً وہ ادارے ان کی کتابوں کی وجہ اور ادیب ان اشاعتی اداروں کے ذریعے پہچانے گئے۔ اس کے لیے مثال کے طورپر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی کو پیش کر نا چاہوں گا جس نے مائل خیرآبادی اور افضل حسین کی کتابیں شائع کیں۔ اسی طریقہ سے بچوں کی درسی کتابیں شائع کرنے والے پرائیویٹ میں الجمعیۃ ہے جو اپنی ہی کتابوں پر منجمد ہوکر رہ گئی۔ لیکن باضابطہ جس ادارے نے ادب اطفال کو فروغ دیا اور اس نے کئی ادیب بھی پیدا کیے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مکتبہ جامعہ لمیٹد ہے۔ اس ادارے کا قیام ہی ڈاکٹر ذاکر حسین نے بچوں میں کتابوں کے فروغ کے لیے کیا تھا، جس میں سب کی ذمہ دار ی بھی طے ہوگئی تھی کہ کون کیا لکھے گا۔ یعنی انہوں نے باضابطہ ایک تجربہ گاہ بنایا ساتھ ہی اشاعت کا مرکز بھی۔
 خیر یہ تو تکنیکی بات ہوئی کہ کون کس تکنیک پر عمل کرتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب کیسے فروغ پاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دہلی ہندوستان کا مرکز رہا ہے اور سیاحتی اعتبار سے جامع مسجد جہاں پر ہندوستان بھر سے لوگ آتے ہیں اور یہاں کی چیزوں سے ان کی نظر یں ٹکراتی ہیں جہاں اردو بازار بھی تھا اب بازار ہے لیکن اردو نہیں۔ ایک زمانہ میں صرف پرانی دہلی میں 210 اور نئی دہلی میں 225 ایسے کتب خانے تھے جو اردو کی کتابیں بیچتے تھے۔ لیکن ان کے زوال کا معا ملہ یقینا سپلا ئی کا نہ ہونا ہے۔ اُس زمانے کی بچوں کے لیے لکھی گئی تحریرو ں کی بات کریں تو بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں جو کہانیوں اور نظموں پر مشتمل تھیں۔ ان کو الگ سے شائع نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کمی کو اس وقت کے رسالے پورا کررہے تھے جس میں شمع گروپ کا ’کھلونا‘ سب سے مشہور تھا۔ وہ رسالہ عام اردو گھروں کی ضرورت کو پوری کردیتا تھا ،باقی دیگر جتنے بھی ادارے تھے، سب مذہبی اور نیم مذہبی کتابوں کی اشاعت میں لگے ہوئے تھے کیونکہ ان کی مارکیٹنگ اچھی تھی۔ ایسے میں ادب اطفال کے اعتبار سے وہی ادارے معتبر ہوئے جنہوں نے بچوں کے لیے کتابیں شائع کیں اور اپنے لیے تجارت کا ذریعہ بھی پیدا کیا لیکن ایسے ادارے بہت ہی کم نظرآتے ہیں۔ البتہ ابھی جو چنندہ ادارے ہیں اور ان کے یہاں بچوں کے لیے خصوصی طور پر کتابیں شائع ہوتی ہیں ان متحرک و فعال اداروں میں قومی کونسل ، نیشنل بک ٹر سٹ ، اردو اکادمی دہلی ، مکتبہ جامعہ ، الحسنات، نرالی دنیا اور مر کزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ہیں۔
بچوں کی کتابوں کی دو دھارائیں بہتی ہیں ایک مذہبی اور دوسری غیر مذہبی۔ دونوں کے اشاعتی اداروں کے معاملات بھی الگ  الگ ہیں۔ جو غیر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں وہ عموماً سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں۔ سرکاری اداروں میں مراعات ملنے کے باوجود عام کتابوں کی قیمت کم نہیں ہوپاتی ہے جبکہ نجی پبلشرزجو زیادہ تر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں، وہ کم قیمت پر کتابوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ایسے میں ادب اطفال کا کتنا فروغ ممکن ہے وہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔
اردو اکادمی دہلی،دہلی کا قدیم ترین ادارہ ہے، جہاں عمدہ طباعت کے ساتھ ’ماہنامہ امنگ‘ پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی جملہ 185 طباعتوں میں سے صرف 12 کتابیں ادب اطفال کی ہیں۔ جب کہ پبلی کیشن ڈویژن کا اردو سیکشن بہت مختصر ہے لیکن وہاں بھی 100 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں پھر بھی 10 سے زیادکتابیں بچوں کے لیے ہیں۔
قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو ، ہندوستان کی سطح پر اپنا ایک منظم اشاعتی ڈھانچہ رکھتا ہے۔ اس نے تقریباً ہر فن پر کتابیں شائع کی ہیں جن میں سے ترجمہ اور غیر ترجمہ دونو ں ہیں۔ جدید کیٹلاگ کے مطابق کل 1381 ٹائٹل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے یہاں ادب اطفال کا ایک بہترین گوشہ ہے، جس میں قسم قسم کی کتابیں شامل ہیں لیکن ادب اطفال کے کل ٹائٹل کی تعداد 354 ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ باعتبار فروختگی اس سیکشن کا سرکو لیشن زیادہ ہے اور باعتبار موضوعات پورے ہندوستان میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ لیکن کل سرکو لیشن کی بات کی جائے تو ہندوستان کے دیگر اداروں میں اس کی بچوں کی کتابیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کونسل ہی بتاسکتی ہے۔البتہ ’بچوں کی دنیا‘ کا سرکلوشین پچاس ہزارتجاوز ہوجاتا ہے جو قابل تعریف ہے۔
 اب آتے ہیں ’نیشنل بک ٹر سٹ‘ پر جو ہندوستا ن کا معتبر اشاعتی ادارہ ہے جہاں سے ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں کتابیں شائع ہوتی ہیں، اس کے موجودہ کیٹلاگ کے مطابق 422 اردو کے ٹائٹل چھپے ہیں، جن میں سے تقریبا ً 350 کتابیں بچوں کے لیے ہیں۔ اتفاق سے اکثرکتابیں ترجمہ شدہ ہیں۔ یہ کتابیں شائع تو ہوچکی ہیں لیکن دیگر تجارتی مراکز پر بالکل بھی نظر نہیں آتی ہیں۔
 ’مکتبہ جامعہ‘ ہندوستان کا قدیم ترین اشاعتی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ایک لمبا سفر طے کیاہے، اس کی دو ذیلی شاخیں بھی ہیں، جو اب کسمپر سی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ادارے نے اب تک تقریباً 6000 ٹائٹلس چھا پےہیں، اس ادارے کو ’یونیسکو‘ کی جانب سے پریس بھی ملا جو ’لبرٹی پریس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن ایک عرصے سے یہ بند پڑا ہوا ہے۔ اس ادارہ کی بوانہ میں اپنی زمین بھی ہے۔ ایک زمانہ میں اپنی نشریات کی وجہ سے بہت ہی زیادہ فائدہ میں چلنے والا ادارہ، اب خود بوجھ سا بن گیاہے۔ پروفیسر خالد محمود کے زمانے میں قومی کونسل سے ایک قرار داد کے مطابق نشاة ثانیہ کی کیفیت نظر آئی مگر اب پھر اس کی وہی حالت ہے۔ ا ن چھ ہزارکتابوں میں ایک اندازے کے مطابق نصف کتابیں تو بچوں کے لیے ہی ہوںگی ،مگر اب شاید ہی ان کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہو۔
 نجی اداروں میں ’فرید بک ڈپو‘ نے اب تک گیارہ ہزار ٹائٹلس شائع کیے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق ان کے یہاں بھی بچوں کی کتابیں ہزاروں میں ہوں گی لیکن ان میں سے اکثر کا تعلق مذہبیات سے ہے۔ ہزاروں تاریخی اور اسلامی کتابیں اس ادارہ نے بچوں کے لیے شائع کی ہیں۔ مگران کی فائل کاپیاں بھی ان کے پاس اب نہیں ہوں گی جس سے ان مصنّفین کا پتہ لگا یا جائے۔اس ادارے کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ گاؤں دیہات میں جو جلسے ہوتے ہیں یا چھوٹے شہروں میں جو کتب خانے ہوتے ہیں، ان کو یہ کتاب سپلائی کرتے ہیں اور ہر موضوع پر انھیں سستی سے سستی کتابیں دستیاب کراتے ہیں۔ اس طرح دور دراز علاقوں میں ان کی کتابیں پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے ’جیبی کتابیں‘ بھی بہت زیادہ شائع کی ہیں جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کتابوں کی جانب راغب بھی ہوئے۔ الغرض اس ارادے نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے لحاظ سے اپنی تجارت کارخ تبدیل کیا، جس کے سبب مشہورمصنفین کے علاوہ غیرمشہورمصنّفین کی تصنیفات تک عام قاری کی رسائی ہوسکی ۔
 ’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس‘بہت ہی بڑا ادارہ ہے اور دہلی میں اس کا دفتر سب سے عالیشان ہے لیکن ’بحق ناشر‘ والی کتابیں اس کے پاس بہت ہی کم ہیں۔ اکثر کتابیں ’بحق مصنف‘ والی ہیں۔ اس سے سمجھ سکتے ہیں، اس کی اولیت کتاب کی نشرو اشاعت نہیں بلکہ طباعت ہے۔اس کا ایک ذیلی مکتبہ بھی ہے، جس کے تحت وہ بچوں کی ادبی اور دیگر مذہبی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔
 ’اسلامک بک سروس‘ ایک مشہور ادارہ ہے، جہاں سے صرف اسلامی کتابیں نشر کی جاتی ہیں۔ان کتابوں میں بالغین کے علاوہ کچھ کتابیں بچوں کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی کتابیں منظم طریقے سے پہنچتی ہیں۔مگراسے بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے والے ادارے کی شناخت حاصل نہیں ہے۔

آج کل ’الحسنات‘ (دہلی) کی کتابوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔پاپولرموضوعات پر کتابیں شائع کرنا اس کی اوّلیت ہے۔ بچوں کے لیے قسم قسم کی اسلامی و ادبی کتابیں شائع کرکے یہ ادارہ اپنی شناخت بنارہا ہے۔ ایک ٹیم ورک کی طرح کام کرنے کی وجہ سے اسے جاذب نظر اورخوب صورت کتابیں شائع کرنے میں نہ صرف مددملتی ہے بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے ادارے ہیں جو انفرادی طور پر بچوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ان میں ایک قابل ذکرنام ’ہنی بُکس‘ کاہے۔ اب تک یہاں سے آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔


 


شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی

 شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے ۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخل و خارج زندگی میں پوری طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام اس صنف سخن کو اپنا تا ہے اور اس کو کمال تک پہنچاتا ہے تو وہ اس میں موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے اور خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے ۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی ۔بلکہ جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیائے کر ام کی محفلوں میںرہی تو حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔فارسی کے کئی رباعی گو شعرا کی صحبت میںجب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس کی پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین ، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری ، امجد کا حکمت وفلسفہ ، جو ش میں الفاظ کے دبدبہ الفاظ و مناظر فطرت ، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے اس نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی نے ان الفاظ میں کہا ہے ۔

’’ولی کی معرفت نے ، میر کے عشق نے ، درد کے تصوف نے ، غالب کی معنی آفرینی نے ، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے ، حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا ۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے ۔‘‘ 

( اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)ۙ

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودمخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دیگر تمام ممکنہ موضوعات رباعی میں پائے جاتے ہیں۔رباعی میں یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس طر ح سے ہر زمانہ میں زندہ رہی اسی طر یقے سے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں بلکہ تمام موضوعا ت نئے رنگ و ڈھنگ میںشعرا کی مشق کی زینت بنتے رہے ہیں اور حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا ۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ہلکی سی نظر اس پر ڈالتے ہیں ۔

 نووی کہتے ہیں ’’خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے ۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپر شکر کہلاتا ہے ۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر ے میں نہیں ہے آتا ہے ۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے‘‘ ۔

ابن حیان کہتے ہیں ’’حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے ۔ اور لسان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا ۔‘‘ 

امام رازی کہتے ہیں ۔’’حمد : اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو ۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچے ہوں ۔ 

حمد میں محبت اور عظمت میں محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے ۔ یعنی جس میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہو حمد کہلاتا ہے 

شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو ۔‘‘(تر جمہ از معجم الشامل )

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقاً زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہو اور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق بھی ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے ۔اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے ۔ اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ’ ’ اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے ‘‘ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز الگ الگ ہو تاہے اور خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تو نئے نئے طر یقے اورلفظیات سے اس کی تعریف کرتا ہے ۔ اسی طر یقے سے ابھی جب شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعیوں پرنظر ڈالیں گے تو اس میں بھی تنوع نظرآئے گا ۔

رباعی کا تعلق کبھی بھی موضوعاتی پابندیوں سے نہیں رہا ہے ۔ شروع سے ہی اس صنف سخن نے اپنے اندر علم و حکمت ، فلسفہ و حسن اور اصلاح و تصوف کے موضوعات کے ساتھ دیگر موضوعات کو بھی اپنے دامن میں بہت خوبصورتی سے سجائے رکھا ہے ۔ ساتھ ہی صوفیائے کرام نے خدا کی ذات و صفات کو سب سے زیادہ رباعیوں میں ہی بیان کیا ہے ۔ رباعی کی ابتدا سے لے کر اب تک تقریبا تمام رباعی گو شعرا کے یہاں حمدیہ رباعیاں مل جاتی ہیں ۔ اس کورباعی کی خوش نصیبی کہہ لیں کہ کئی شعرا اپنے شعری مجموعوں کی شروعات رباعی اور وہ بھی حمدیہ رباعی سے کرتے ہیں ۔ 

 روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شمیم انجم وارثی نے بھی حمدیہ رباعیاں کہی ہیں ۔یہاں ان کی حمدیہ رباعیوں کا جائزہ لیں گے اس سے پہلے ان کے متعلق کچھ ر قم کرتا چلوں ۔جب میں اپنا ایم فل کا مقالہ رباعیوں پر لکھ رہا تھا تب ان کا رباعیوں کا دیوان ’’ورق ورق شمیم ‘‘ سے متعارف ہوا ۔ میں بھی ادب میں نووارد تھا اس لیے میں بہت کچھ نہیں جانتا تھا، وقت گزرتا گیا اور ان کو مختلف پلیٹ فارم پرپڑھتا رہا کہ اسی در میان گزشتہ برس ان کی رباعیوں کا دوسرا مجموعہ ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ سے بھی روشناس ہوا ۔ پھر جب دونوں کتاب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا تب معلوم ہوا کہ موصوف ارد و رباعیوں کی سیاحی بہت عرصے سے کررہے ہیں لیکن ان کا دیوان بہت بعد میں منظر عام پر آیا اور ان سے قبل بنگال کے کئی شعرا کے مجموعے سامنے آگئے ۔ رباعیوں سے قبل دیگر اصناف میں ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اتفاق سے ان کا پہلا شعری مجموعہ نعت پر تھا اور تادم تحریر جو آخری مجموعہ ہے وہ بھی مدحیہ اصناف پر ہے ۔ سب سے پہلے ’’ورق ورق شمیم ‘‘ کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں انہوں نے کیسی حمدیہ رباعیا ں کہی ہیں ۔واضح رہے کہ متذکرہ بالا کتاب بصورت دیوان ہے، اس لیے اس میں موضوعاتی ترتیب نہیں ہے توجب مکمل دیوان پر نظر ڈالتے ہیں تو درج ذیل رباعیاں سامنے آتی ہیں جنہیں متذکرہ بالا تعریفات کے سانچے میں مدحیہ میں رکھ سکتے ہیں ۔ 

تیرا ہے فلک ، تیری زمیں ہے یارب 

قدرت پہ تیری عین یقیں ہے یارب 

ہے ناز جبیں سائی مجھے جس کے حضور 

وہ تیرے سوا کوئی نہیں ہے یارب


جو فصل بہاراں پہ چڑھی ہے رنگت 

جو قلب گل تر میں بسی ہے نکہت

حکمت نہیں انسان کی اس میں کوئی 

یہ کار عجوبہ ہے خدا کی قدرت 


ہے تو ہی ازل اور ابد یا اللہ 

ہے تو ہی احد ا ور صمد یا اللہ 

مجھ سے ہو تری حمد و ثنا نا ممکن

معلوم ہے مجھ کو مری حد یا اللہ 


ہر گوشہ عالم میں دھمک تیری ہے 

 ہر پھول کی سانسوں میں مہک تیر ی ہے 

ہر سو ہے ضیا بار ی ترے جلووں کی 

مہر و مہ انجم میں چمک تیر ی ہے


میں قطرہ ہوں اور لطف کا دریا تو ہے

ہر منزل مقصود کا رستہ تو ہے 

کس منہ سے حمد کروں تری ربِّ کریم

میں بندہ ناچیز ہوں مولا تو ہے 


پھولوں میں بسی ہے جو مہک تیر ی ہے 

لاریب! ستاروں میں چمک تیری ہے 

پوشیدہ ہر اک شئے میں ہے جلوہ تیرا

ہر دل میں جو اٹھتی ہے کسک تیری ہے 

 ان رباعیوں کے علاوہ اور بھی کئی رباعیاں تھیں جن کے شروع کے مصرعوں میں حمدیہ عناصر تھے اور چوتھا مصرع دعائیہ تھا توانہیں یہاں میں نے شامل نہیں کیا ۔ ان چھ رباعیو ں پر نظر ڈالیں تو پہلی میں ربوبیت ، دوسری میں خلاقیت ، تیسر ی میں عجز عن الحمد ، چوتھی میں وحدۃ الشہود ، پانچویں میں وحدۃ الوجود ، ایصال الی المطلوب اور عجز عن الحمدبھی ہے ۔ آخری رباعی پر نظر ڈالیں تو وہ بھی وحد ۃالشہود کی شہادت دے رہی ہے ۔ ان رباعیوں سے حمد کے طریقوں پر نظر پڑتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر خدا کی حمد میں کس صفت کو سب سے زیاد ہ سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ حمد کا یہ بھی خوبصورت طریقہ رہا ہے کہ اس کی ذات کی تعریف کے لیے ہم عاجز ہیں جس کا ذکر خدا نے خود ہی قرآن پاک میں کیا ہے’’ قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ‘‘(سمندر کور وشنائی تسلیم کرلیں تب بھی خدا کی تعریف مکمل نہیں ہوپائے گی اور سمندر خشک ہوجائے گا) اسی عجز کو خوبصورت انداز میں بیان کرنا بھی حمد کے دائرے میں آتا ہے ۔ اب ان رباعیوں کے آخر ی مصرع پر نظر ڈالیں جن سے رباعی کی عمدگی کا پیمانہ طے ہوتا ہے کیونکہ رباعی میں آخر ی مصرع جتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے رباعی بھی اسی معیار کی ہوتی ہے ۔ آخر ی مصرع مکمل ایک اکائی کی کیفیت کا طلبگار ہوتا ہے جس کے بعدوہ ضرب المثل بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔یہ رباعی کی عمدہ سے عمدہ ترین ہونے کی نشانی ہے ، ظاہر ہے یہ تمام رباعیوں میں ممکن نہیں اور نہ ہی تمام شاعروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اس کیفیت کو مد نظر رکھ کر رباعیاں کہیں۔ البتہ فارسی رباعی گوئی میں یہ صفت غالب تھی جس کا نتیجہ ہے کہ عمومی تلاش سے بھی فارسی کے مصرع ضرب المثل کی صورت میں مل جاتے ہیں ۔ اردو میں اس کیفیت کی جانب توجہ ہی نہیں دی گئی ساتھ ہی شہر ت کی بات ہے کہ یہاں غزل کے مصرعوں کو جو شہرت ملی وہ دیگر اصناف کے مصرعوں کو نہیں مل سکی ۔ موصوف کے درج ذیل مصرعوں پر نظرڈالیں   

ع ہے اور حسینوں میں کہاں حسن نمک

ع ہم ان پہ فقط مرتے رہیں گے کب تک 

ع ایمان پہ مر تا ہے خدا کا عاشق 

ع مٹتا نہیں دشمن کے مٹانے سے عشق 

 ایسے اور کئی مصرعے مل جائیں گے جو یقینا ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جس شعر ی معاشرہ میں ہم جی رہے ہیں اس میں ایسی قسمت ہر کسی کو نہیں ملتی لیکن فن تو بہر حال فن ہے کبھی نہ کبھی تو اس جانب تو جہ دی جائے گی اور وہ اس وقت توجہ دی جائے گی جب عمدہ رباعیوں کا انتخاب ہوگا تو اس وقت موضوعات سے زیادہ اس عنصر پر توجہ دی جائے گی کہ کون سی رباعی کی کیفیت ’’از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘والی ہے ۔ 

  حمدیہ رباعی کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’قطرہ قطرہ مشک ‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں جو 2021 کے آخر ی مہینوں میں منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ رباعیوں کا مجموعہ ہے جس میں تقدیسی رباعیاں پیش کی گئی ہیں ۔ان تقدیسی رباعیات میں حمدیہ ، نعتیہ اور منقبتیہ رباعیاں ہیں ۔ منقبت میں حضرت علی ؓ، حضر ت فاطمہ ؓ، حضرت امام حسن ؓ، حضرت امام حسین ؓ، حضرت عباس ، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت صابر کلیر ی ، حضرت سید اشر ف جہانگیر سمنانی ، حافظ وارث علی شاہ ، حضرت حاجی علی شاہ ،حضرت بو علی شاہ قلندر، حضور غوث بنگالہ ، حضرت نظام الدین اولیا ، حضرت امیر خسرو ، حضرت بیدم شاہ وارثی ، دیوانہ شاہ وارثی ، امام احمد رضا خاں و دیگر کئی اور بزرگان دین اس میں شامل ہیں ۔ 

حمدیہ رباعیات کی تعداد چھتیس ہے ۔اس میں انہوں نے تنوع لانے کی کوشش کی ہے ۔ زیادہ تر رباعیاں دعا سے تعلق رکھتی ہیں ۔ حمد و دعا لاز م و ملزوم کی صورت میں اکثر مقامات پر سامنے آتے ہیں ۔ اس میں پہلے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں خدا کی حمد ہوتی ہے اور چوتھے مصرعے میں دعا ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو :

قرآن ہے انعام ترا رب کریم 

پر نور ہے پیغام ترا رب کریم 

جس وقت مری روح بدن سے نکلے 

ہونٹوں پہ رہے نام ترا رب کریم 

شروع کے دونوں مصرعے شکریہ کے ہیں جنہیں حمد کے زمرے میں بھی رکھا جاتا ہے تیسرا مصرع گریز کی بہترین صفت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور چوتھے مصرع میں دعا ہے ۔ بطور فن یہ ایک خوبصورت رباعی ہے ۔ بطور حمد بھی انہوں نے ذات خداوندی کی صفات کو پیش کیا ہے ۔حمد کے زمرے میں ہی انہوں نے ایک خوبصورت رباعی تحریر کی ہے جو حسن تعلیل کی سی کیفیت کے ساتھ سامنے آتی ہے :

 کلیوں کی زبان پر ہے سدا یا اللہ 

پھولوں نے بصد شوق پڑھا یا اللہ 

لاریب !ہواؤں نے لیا ہے بوسہ 

جب ریت پہ لہروں نے لکھا یا اللہ 

 حمدیہ رباعیات میں شمیم انجم وارثی نے اچھی کوشش کی ہے ۔ واضح رہے کہ تصوف سے حمدکا رشتہ بہت ہی قر یب کا رہا ہے ، کلاسیکی شاعری میں خدا کی ذات و صفات کو لے کر عمدہ شاعری کی گئی ہے ۔ واقعی میں اردو شاعری میں اس جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بقول پروفیسر مقبول احمد مقبولؔ:

’’تقدیسی شاعری کو بعض ناقدین کم نگاہی سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی شاعری میں عام طور پر کہنے کے لیے کچھ نہیں زیادہ ہوتا نہیں ۔ وہی بندھے ٹکے خیالات ہوتے ہیں جن میں عقیدت و احترام کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ گویا یہ فضائے محدود ہے جس میں مرغ تخیل کو پرواز کا کوئی زیادہ موقع نہیں مل پاتا ۔ اسی لیے شاعری کے امکانات بھی کم اور بہت کم ہوتے ہیں ۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہر زمانے میں اور ہر زبان میں ایسی شاعری لکھی ، پڑھی اور سنی جاتی رہی ہے ۔ ‘‘

یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر تقدیسی شاعری کی جانب بہت ہی کم تو جہ دی گئی ہے لیکن کلاسیکی شاعری کی جانب تو جہ کریںگے جو صوفیہ کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی تو ان میں آپ کو احساس ہوگا کہ حمد کی تمام جزئیا ت کو سمیٹتے ہوئے کس قدر عمدہ شاعری کی گئی ہے خواہ وہ دیگر کسی بھی اصناف میں ہوں ۔ آخر میںڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کے ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ، موصوف لکھتے ہیں : 

’’ شمیم انجم زندگی کے کسی مخصوص نظر یے کے حامی نہیں ہیں ۔ ان کی رباعیات میں خارجیت کی کار فر مائی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات مخصوص فضا اور محدود دائرے میں گردش کر تی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ شمیم انجم نے زندگی کا مطالعہ و مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا ہے ۔ اس لیے زندگی کے محبوب و مخصوص مناظر و مظاہر کا اظہار ان کے یہاں پایا جاتا ہے ۔‘‘ 

متذکرہ بالا پانچوں جملے ادبیت سے معمور ہیں ، پہلے جملے میں ادبی نظر یے میں جانبداری کی نفی ہے ، جو اب شاید و باید ہی کسی نئے تخلیق کار کے یہاں پائی جاتی ہو ، البتہ مسلکی و مذہبی نظر یے کا عکس تخلیقات میں جھلک ہی جاتا ہے ، خو اہ فکشن ہویا شاعری ۔ دوسرے جملے میں خارجیت کی بات ہے جو اب تقریباً تمام کے یہاں پائی جاتی ہے ۔ تیسرے جملے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس سے قبل کا تفصیلیہ جملے کے طور پر درج ہے جس میں انہو ں نے مخصوص فضا اور محدود دائرے کی بات کی ہے اس اختصاص و تحدید کا اطلاق یقینا ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ کی فضا پر ہے اور اس فضا پر یقینا ماضی میں جو شاعر ی کی گئی ہے اس کا تعلق خارجیت سے نہیں بلکہ داخلیت سے ہوتا تھا ۔آخر کے دونوں جملے بھی ان کی شاعری کو محدود فضاسے نکال رہے ہیں اور ان کی شاعری میں جو حسن و عشق کے موضوعات پائے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔الغرض موصوف کی رباعیات کی بات کی جائے تو انہوں نے نئے موضوعات کو بہتر انداز میں پیش کر نے کی عمدہ کو شش کی ہے ۔ موجودہ وقت میں جو بھی شعرا رباعی گوئی کی جانب مائل ہیںان میں کوئی اعلیٰ اور نہ کوئی ادنیٰ ہے ۔ تمام کے یہاں ایک جیسے ہی موضوعات پائے جاتے ہیں ، البتہ شمیم انجم وارثی کا اختصاص ہے کہ انہوں نے تقدیسی شاعری میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ہے جو وقت حاضر میں ان کا امتیاز ہے ۔




معصوم شرقی کی رباعی گوئی

معصوم شرقی کی رباعی گوئی 

ڈاکٹر امیر حمزہ

  رباعی اب اردو ادب میں حاشیائی صنف سخن نہیں رہی ،اکیسویں صدی کے ان دو دہائیوں میں اردو میں رباعی کا منظر نامہ تبدیل ہوا ہے۔ یہ تو عام ادراک کی بات ہوئی،کیونکہ ترسیلی وسائل کی آسانی نے بہت تیزی سے سب کچھ سامنے لا نا شروع کردیا ہے اور ہم ہندوستان بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ کن ماحول میں اور کن خطوں میں کن اصنافِ سخن کی قدر بڑھ رہی ہے ۔ ساتھ ہی تنقید ی عمل شانہ بشانہ چل رہا ہے تو اس سے بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ تخلیق کی روایت میں وہ اپنا مقام کسی طرح بنا رہے ہیں یا یوں ہی صرف بطور تذکرہ شمار کر لیا جاتا ہے ۔ اس عمل میں یقینا دیگر وسائل کا بھی استعمال ہوتا ہے جہاں کچھ افراد زیادہ روشنی حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ مدھم روشنی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ یہ ہر تخلیق و فن کار کے ساتھ ہوتا ہے لیکن پھر بھی نظم و غزل ، افسانہ و ناول نے تنقید کی دنیا میں رباعی کے مقابلے میںبہتر مقام حاصل کیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اردو تنقید کے دریچے رباعی کی جانب بہت کم کھلے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ موجودہ وقت میں رباعی نے شاید مواصلات کا عمدہ موقع حاصل کیا یا پھر یوں کہیں کہ جامعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے زیادہ داخلے ہونے لگے تو خالی مضامین و موضوعات کی جانب زیادہ توجہ دی گی تو ایسے میں رباعی کو بھی فائدہ ہوا ، اس کی تنقید و تحقیق کی جانب بھی توجہ دی جانے لگی ۔ کچھ برسوں پہلے جب رباعی کی جانب توجہ دی گئی تو انفرادی رباعی گو شعرا کی رباعیات پر کا م ہو ا، ان کی اشاعت بہت کم عمل میں آئی ، البتہ مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں دو چارمقامات سے خبرموصول ہوئی ہے کہ عمومی طور پر رباعی پر کام ہورہا ہے ۔ آخر رباعی جیسی مشہور صنف کے ساتھ یہ مرحلہ کیوں پیش آیا ؟ یہ کوئی سوال قائم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ارد و میں صنف رباعی کو ہی اہمیت نہیں دی گئی ۔ ابھی تازہ مثال غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی ہے جہاں سے ایک کتاب ’’ مرزا دبیر : عہد اور شعری کائنات‘‘ شائع ہوتی ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے لیکن دبیر کی رباعی گوئی پر صرف چار صفحات ہیں جبکہ دبیر کی رباعی کائنات انیس سے وسیع ہے۔ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو ر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی نے عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر ڈھیلاپن کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے ۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر ایک رباعی میں پیش کردیا گیا ہے ۔ رباعی میں بھی دو ہی اشعار ہوتے ہیں لیکن پہلا شعر معنوی طور پر بعد کے شعر پر منحصر ہوتا ہے ۔ جبکہ غزلیہ مزاج کے غلبے کی وجہ سے دونوں شعر الگ الگ اکائی  کے حامل ہوکر رہ جاتے ہیں اگر تیسرا مصرع مصرّع نہ ہوتو آپ اوپر نیچے مصرعوں کو بہ آسانی رکھ سکتے ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ 

صنف رباعی ذہن میں آتے ہی اس کا فن ذہن میں آجاتا ہے ۔ یہ واحد صنف سخن ہے جس میں یہ متصور ہوتا ہے کہ رباعی وہ صنف سخن ہے جس کا فن دیگر تمام اصناف شعر سے باعتبار عروض منفرد ہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب اسی کے ساتھ یہ بھی محسوس کرایا جاتا ہے کہ اس کے موضوعات بھی مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی ۔ غالب نے بھی ایسی رباعیاں تحریرکی ہیں۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں ۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں! فراق رس کے شاعر تھے انہوں نے غزلوں نظموں اور رباعیوں تینوں اصناف میں رس کو برتا اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ جو ش کا شمار شاعر انقلاب ، شاعر شباب اور شاعر فطرت کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ان سب موضوعات کو بخوبی برتا ہے ۔ جاں نثار اختر کا رباعیوں کا مجوعہ ’’ گھر آنگن ‘‘ بہت ہی مشہور ہے وجہ صر ف یہ ہے کہ انہوں نے گھریلوموضوعات کو بہت ہی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں ۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریںگے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔ 

اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو قدیم سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین مکمل طور پر داخل ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیںلا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانہ میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری کی مل جائے تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفہ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آتی ہے ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر طنزو مزاح کے حامل لیکن رباعی میں دونو ںایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو بے پناہ موضوعات دیے ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ اس بندہ کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں ، وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔ ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے ۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ 

 معصوم شرقی کے ان رباعیات کے ضمن میں مندرجہ بالا غبار خاطر اس لیے پیش کی کہ تحریری روایت سے ہٹ کر فکر ی عمل کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے ۔ یقینا ان کی رباعیوں کے موضوعات بھی وہی ہیں جو عام طور پر اردو سماج سے نکل کر آرہی ہیں ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انہیں میں سے چند رباعیاں بہت اچھی ہوجاتی ہیں جو ایسا احسا س کراتی ہیں کہ ماقبل میں اس انداز میں نہیں کہی گئی ہیں ۔ کچھ کے یہاں عمدہ تراکیب و تشبیہات مل جاتی ہیں ۔ پھر بھی چند ہی رباعیاں ایسی نکل کر سامنے آتی ہیں جن کے چوتھے مصرعے اس بات کے غماز ہوتے ہیں کہ واقعی میں وہ رباعی کے ہی مصرع ہیں جو محاورہ بننے کی طاقت رکھتے ہیں اور ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کے مصداق ہوسکتے ہیں ۔ 

 موضوعات کے اعتبار سے معصوم شرقی کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان کے یہا ں حمد،شہر کلکتہ ، جبر و قدر، خودبینی ، فطرت ، دنیا ، زندگی، لوگوں کے ساتھ معاملات زندگی ، حالات وطن و دیگر موضوعات کی رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان سب میں بھی لوگوں نے ان کے ساتھ جو معاملات روا رکھے اور مو صوف خود کو کس انداز میں دیکھتے ہیں وہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ جس سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ غمِ ذات کو غم دنیا بنانے کا ہنر شاعر تو جانتا ہے لیکن اس کو کس طرح بنانا ہے وہ ہر ایک شاعر کی بس کی بات نہیں ۔ چنیدہ لفظوں سے ہی بَنا مصرع و شعر کب ذات کی عکاسی کرتا ہے اور کب سب کی دل کی بات اس میں نظرآتی ہے یہ تو قاری پہلی ہی قرات میں محسوس کرلیتا ہے۔ نظر یہ کی بات کی جائے تو بڑے بڑے شاعروں کے یہا ں تضادات ملتے ہیںکبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ، لیکن وہ نظریے جن کا تعلق اعتقادات سے ہوں اگر اس میں تضادات نظرآجائیں تو قاری سوچ میں پڑجاتا ہے کہ اول کوترجیح دے یا دوم کو۔ ان تمام کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اچھی رباعیاں پیش کر نے کی کوشش ہوئی ہے ، تاہم چند رباعیاں جن میں ذاتی چپقلشوں کا اظہار ہے اگر ان میںاور فن کاری کی جائے تو وہ مزید بہتر ہوسکتی ہیں ۔ موصوف کی چند رباعیاں پیش خدمت ہیں ۔ 

 روداد محبت کی سناؤں کیسے 

 ماضی کا میں آئینہ دکھاؤں کیسے

 ہرلمحہ جواں دل میں تھی اک تازہ امنگ

 کیا عہد جوانی تھا بتاؤں کیسے 


بیزاری کو چاہت سے بد ل دیتی ہے 

 ماحول کو فطرت سے بدل دیتی ہے

 عورت کو ودیعت وہ ہنر ہے جس سے 

 نفرت کو محبت میں بدل دیتی ہے 


ہونٹوں پہ رواں ذکرترا ہوتاہے

 جب زخمِ جگر میرا ہرا ہوتاہے 

حاصل تری یادوں ہی سے ہوتا ہے سکون

 جب درد کا احساس سوا ہوتا ہے 


معدوم محبت کا نشاں ہے بھائی 

 ہر گام پہ نفر ت کا دھواں ہے بھائی

 ہیں آدمی دنیا میں تو لاکھوں، لیکن 

 پر آدمیت ان میں کہاں ہے بھائی 

 

مندرجہ بالا کے علاوہ کئی اور ایسی رباعیاں ہیں جن میں وہ اپنی ذات کو پیش کر تے ہیں لیکن جن رباعیوں میں وہ خود کو پیش نہیں کر تے ہیں وہ زیادہ اچھی ہیں۔ انہوں نے زبان بالکل ہی سادہ اور سلیس استعمال کی ہے ۔ استعارات و تشبیہات بہت ہی کم ہیں۔ ترکیبات بھی نہ کے برابر نظرآتے ہیں، بھاری بھرکم الفاظ سے مکمل پرہیز ملتا ہے ۔ روانی کی بھر پور کوشش کی گئی ہے جن سے جمالیاتی بصیرت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔

 موصوف نے نثر ی دنیا میں خوب لکھا ہے اور اپنی شناخت بھی بنائی ہے ۔ شعری دنیا میں شاید یہ ان کی پہلی کاوش منظر عام پرآرہی ہے وہ بھی رباعیوں کے ساتھ ایسے میں رباعی کے قاری ہونے کے ناتے میں انہیں مبارکباد پیش کر تا ہوں ۔ اس سے قبل ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مقبول عام بھی ہوچکی ہیں ۔ اشک امرتسر ی پر معصوم شرقی صاحب نے لاجواب کام کیا ہے ، کلکتہ کا ادبی ماحول بھی ان کی اہم کتاب ہے ۔ رباعیوں کے تعلق سے بھی پرامید ہوں کہ وہ ناقدین کو اپنی فن کاری منوانے پر مجبور کریںگے ۔ 

 امیر حمزہ 

 


فاروقی رباعیاں

 فاروقی رباعیاں 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

ameerhamzah033@gmail.com

غالب انسٹی ٹیوٹ میں دوبرس قبل دہلی کی تاریخی عمارتوں پر ایک سمینار ہورہا تھا اس وقت آخر میں بطور حاصل کلام ایک جملہ فضا میں آیا اور چھاگیا کہ ’’ مغلیہ عمارتیں محض عمارتیں نہیں ہیں بلکہ ان کی انفرادیت وعظمت ہی ان کو مغلیہ بناتی ہے۔‘‘ یہ بات ہربنس مکھیا نے کہی تھی یا کسی اور نے وہ مجھے اب یاد نہیں لیکن یہ جملہ ایسا چھایا کہ مغلیہ کی انفرادیت صرف عمارتوں ہی میں نہیں بلکہ تمام اشیا میں ظاہر ہوجاتی ہے ۔کچھ ایسا ہی معاملہ شمس الرحمن فاروقی کا ہے کہ ان کی انفرادیت صرف تنقید ، تحقیق ، فکشن یا شاعری میں ہی نظرنہیں آتی ہے بلکہ ان کا قلم جس صنف کے لیے بھی اٹھتا ہے وہ منفر د ہوجاتی ہے ۔ جب وہ تنقید کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو اپنی انفرادیت آپ قائم ہوجاتی ہے ، جب فکشن میں آتے ہیں تو وہاں بھی وقت پر غالب ہوجاتے ہیں ۔ یہی صورتحال شاعری کی ہے کہ اس میں بھی دیگر اصناف کی طرح اپنی انفرادیت خود بخود قائم ہوجاتی ہے ۔

 لیکن ان سب میں بھی ایک فطری عمل یہ وجود پاتا ہے کہ کئی زاویوں سے شناخت بنانے والے ہمہ جہت فردیا شخصیت کی شناخت کسی ایک غالب جہت کی وجہ سے غالب ہوجاتی ہے اور دیگر جہات پس پردہ چلی جاتی ہیں۔ یہی کیفیت فاروقی صاحب کے یہاں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ جب بھی ان کا نام ذہن میں آتا ہے تو ان کے تنقیدی نگارشات و تصورات لامتناہی کے طور پر سامنے آتے ہیں ، خاص کر شعر شور انگیز کے حوالے سے ۔ گویا ان کی بنیا دی شناختوں میں سے ناقد کی شناخت سب سے زیادہ غالب رہی ۔اس کے بعد فکشن نگاری میں وہ ناول نگار کے حوالے سے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔ پھر شاعر کے طور پر ان کی خدمات کا ذکر آتا ہے ۔ اس ترتیب کو میں نے یوں ہی قائم نہیں کیا بلکہ فاروقی صاحب کی خدمات پر لکھی گئی تحریروں کا بغور جائزہ لیںگے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ سب سے زیادہ فلاں عنصر پر، پھر فلاں پرپھر جاکر شاعری پر ہیں۔ یعنی بطور شاعر ان کی شناخت تیسرے نمبر پر ہی آتی ہے ۔ یہ صرف ان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر ایک بڑے فنکار کے ساتھ ہوتا ہے کہ جملہ نمایا ں عناصر میں سے کوئی ایک ہی ایسا عنصر ہوتا ہے جس پر سب کی نظر سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

 شمس الرحمن فاروقی نے اگر چہ شروع میں فکشن کی جانب توجہ کی اور ایک فرضی نام سے تحریریں منظر عام پر آتی رہیں ۔ ان تحریروں پر لوگوں کوشک ہوا تو وہ شک ہی میں رہ گئیں کیونکہ جب راز کھلا تو ان مشکوک تحریروں کی اہمیت فاروقی صاحب کی مقبولیت کے ساتھ منطبق نہیں ہو پائی ۔ یہ معاملہ بھی صرف انہیں کے ساتھ نہیں رہا بلکہ ہر عظیم و مشہور شخصیت کے ساتھ لاحق رہا کہ ان کے نام سے لکھی گئیں فرضی تحریروں کو وہ مقام نہیں ملا جو اصل نام کی تحریروں کو حاصل ہوا۔ الغرض تحریروں کی قد روقیمت شخصیت کے ساتھ ہی نظر آتی ہے خواہ کیسی بھی ہو ۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا تب فاروقی کی فاروقیت نکھر کر سامنے آگئی ۔ اگر چہ وہ خود کو خلیل الرحمن اعظمی کا پیرو کار بتاتے رہے لیکن ان کی انفرادیت نے مرعوبیت کوکہیں بھی پنپنے نہیں دیا۔

 فا روقی اپنی راہ الگ ہی منتخب کرتے ہیں ۔ شاعری کی روایتی روش کو دوش پر رکھ کر اپنے وسیع مطالعہ سے کائناتِ لفظ و معانی کے عمل کو اپنے ذہن سے گوندھتے ہیں اور ان کو نئے ڈھب سے نئے اشکال و معانی میں قید کردیتے ہیں ۔ تخلیق میں وہ نئے معانی تشکیل کرنے کے کھیون ہار کے طور پر سامنے آتے ہیں جس میں شاعری و فکشن دونوں شامل ہیں ۔ فکشن میں افسانہ کا رنگ جدا ہوتا ہے جبکہ ناول کی وسعت میں وہ رنگ پھیکا نظر آتا ہے ۔شاعری میں آزاد ونثری نظم کا رنگ جدا ہوتا ہے اور غزلوں کا دیگر ۔ لیکن اگر خالص فاروقی کی تخلیقات کی بات کی جائے تو شاعری میں وہ بطور رباعی گو ، فکشن میں بطور ناول نگار اور تنقید میں شعر شور انگیزکی بناء پر منفرد نظر آتے ہیں ۔ ان انفرادی وجوہات کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی ایک کلیہ ہی کسی کو نکھارنے میں معاون ہوتا ہے ۔ یہی یہاں پر صادق آتا ہے کہ شاعر میں وہ بطور رباعی گو اپنی انفرادیت آپ قائم کرتے ہیں کیونکہ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ ایک مکمل رباعیوں کا مجموعہ ہے اسی لیے فاروقی صاحب ایک مطلق شاعر سے زیادہ رباعی گوشاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نظمیں ، غزلیں اور رباعیاں بھی ہیں لیکن وہ ان سے ایک مخصوص نظم و غزل کے شاعر کے طور پر سامنے نہیں آتے ہیں جیسا کہ رباعی کے ایک مکمل مجموعے سے ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ 

فاروقی کی رباعیاں اس عہد میں سامنے آتی ہیں جب جو ش و فراق کی رباعیاں فضا میں چھائی ہوئی تھیں اور جدیدیت کا رجحان بھی اپنی جگہ برقرار تھا ایسے میں واضح طور پر سوال تو رہا ہوگا کہ شاعری میں غزل و نظم پر تو اس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں لیکن رباعی میں بھی یہ ممکن ہے کیا ؟ جس کی خصوصیت و فضا تصوف و اصلاح اور ترسیل ہے ۔ ایسے میں رباعی کے مزاج کو بدلنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں فاروقی صاحب کی زیرکی کو محسوس کیجیے کہ انہوں نے اردو میں سب سے مشکل سمجھی جانے والی صنف سخن رباعی کو ہی ریاضی کا مرکز بنایا اور اپنے اولین شعری مجموعہ ’’گنج سو ختہ ‘‘ (۱۹۶۹) میں مناجات کے بعد رباعی ہی پیش نہیںکرتے بلکہ دیباچہ بھی رباعی ہی میں ہو تا ہے ۔ہمیں تو یہ معلوم ہی ہے کہ دیباچہ کیا چیز ہوتی ہے اور اس میں عموماً کیسی چیزیں لکھی جاتی ہیںلیکن اس کے اصول منزل من السماء بھی نہیں ہیں جو اسی پر چلا جائے بلکہ انسا ن نئے طریقے بھی وضع کرلیتا ہے تو اس دیباچہ کو ایک نئے انداز کا دیباچہ سمجھ لیں جو دو رباعیوں پر مشتمل ہے ۔ عموماًدیباچہ اظہار کے تمام روشن دریچوں کے ساتھ سامنے آتا ہے تاکہ مصنف کا قاری تک واضح پیغام پہنچ سکے ۔ لیکن دیبا چہ کی دونوں رباعیو ںمیں ان کا لہجہ اظہار کا نہیں بلکہ اخفا کا ہے ۔ اس پر جواب بھی فوراً ذہن میں آئے گا کہ جدیدیت کی شاعری میں اظہار کہاں ہے ، وہاں تو اخفاہی اخفا ہے ۔ تو یہاں آپ یہ سمجھ لیںکہ یہ ان کی شاعری کا فنی دیباچہ ہے جس میںانہوں نے اپنی شاعری کا عکس ان دو رباعیو ںمیں پیش کردیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

ہیں زخم صدا کہ جگمگاتے ہوئے باغ 

کالی لمبی ندی پہ روشن ہیں چراغ 

کوندی ہے منجمد فضا میں دیکھو

الفاظ کی تلوار معطر بے داغ 


ہر آگ کو نذر خس و خاشاک کروں 

ہر سیل کو برباد سر خاک کروں 

اے شیشہ آہنگ میں معنی کی شراب

کہہ دے تجھے کس درجہ میں بے باک کروں 

مذکورہ بالا دونوں رباعیوں میں اگر موضوع کو گرفت کرنے کی کوشش کریں تو پہلی رباعی کے پہلے مصرع میں ’’زخمِ صدا ‘‘ اور آخری مصرع میں ’ ’ الفاظ کی تلوار‘‘ سے مطابقت پیدا کرکے اس پوری رباعی کو ایک لڑی میں پروسکتے ہیں اور یہ معنی بحسن و خوبی اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کا یہ شعری مجموعہ مجروح آوازوں کا جگمگاتا ہوا باغ ہے جن کے الفاظ تلوار ہیں لیکن خوشبو دار اور بے داغ بھی ہیں ۔ 

اب دوسری رباعی کی جانب رخ کرتے ہیں تو اس میں احساس ہوگا کہ پہلی رباعی سے انہو ں نے جو سفر الفاظ سے شروع کیا تھا وہ اس رباعی میں معانی پر پہنچتا ہے اور یہاں پر شیشہ آہنگ کی ترکیب بہت ہی معنی خیز ہے ۔ آہنگ جو فضا میں قائم ہوتا ہے وہ شیشہ کی کیفیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس میں معنی کی شراب کو پیش کر تے ہیں جس کے چھلکنے کی کیفیت کسی سے مخفی نہیں ہے جو معانی کے ساتھ بھی لازم ہے ، اب آگے دیکھیے کہ معنی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ بتا تجھے کس درجہ بے باک کروں ۔اب غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ و معانی کے اس امتزاج سے ان کا دیبا چہ مکمل ہوتا ہے ۔

 ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں مذکورہ بالا دونوں رباعیو ںسے پہلے ایک دعائیہ رباعی بھی ہے ۔


اک آتش سیال سے بھر دے مجھ کو

اک جشن خیال کی خبر دے مجھ کو 

اے موجِ فلک میں سر اٹھانے والے! 

کٹ جائے تو روشن ہو ، وہ سر دے مجھ کو 

اس دعائیہ رباعی کو جب فاروقی صاحب کی ذات سے دیکھتے ہیں تو ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ آتش سیال اور جشن خیال سے وہ مالا مال تھے ، آخر ی مصرع کی دعا ان کی شروع سے ہی مقبول رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو دنیا میں ان کی موجودگی میں بھی کوئی ایسا نہ تھا جن کی روشنی ان کے سامنے ان سے زیادہ ہو، خدا نے ان کو اس معاملے میں یکتا اور فرد فرید رکھا تھا ۔ اس مجموعے میں دو رباعیاں اور بھی ہیں ، ان میں ایک رباعی غیر خصی ہے ۔ رباعی کی بحث میں خصی اور غیر خصی کی اصطلاح بار بار آتی ہے ، اس کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ جورباعی جتنی قدیم ہو گی وہ غیر خصی ہوگی یعنی اس کے چاروںمصرعوں میں ردیف و قافیہ ہوگا ۔ لیکن ہر زمانے میں اردو وفارسی میں غیر خصی رباعیاں لکھی گئی ہیں ، جوش وفراق کے یہاں بھی ایسی رباعیاں ملتی ہیں ۔ فاروقی کی غیر خصی رباعی ملاحظہ فرمائیں :

اسرار کے دریائوں کا پانی ہے یہ رات 

مردار سمندر کی روانی ہے یہ رات 

بچپن کی سنی کوئی کہانی ہے یہ رات 

خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات 

 موضوعاتی طور پر اس رباعی میں رات کو انہو ں نے کئی انداز میں ایکسپلور کیا ہے کہ رات کو جس جس زاویے سے سوچیں وہ منطبق ہوتی ہے ،رات کے سحر کی وسعت ہر ایک پر عیاں نہیں ہوپاتی ، اس کے اندر سمانے والے رازہائے سربستہ سے پر دہ اٹھنا نا ممکنات میں سے ہے ، یہ ایک تصوراتی دنیا ہے جس کی ایک جھلک بچپن میں کہانی کی شکل میں ہمیں ملتی ہے۔ ان تصورات کی تصدیق سے پرے بس اتنا محسوس کریں کہ یہ جنس غیر مرئی ہے یعنی خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات ۔ 

ا س کے بعد ان کی رباعیوں کا مجموعہ’’ چار سمت کا دریا‘‘ کی جانب رخ کرتے ہیں جس میں رباعیوں کا رنگ دیگر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس میںفاروقی صاحب کا رنگ اتنا بھی واضح نہیں ہے جتنا ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں ہے بلکہ کچھ اور دبیز رنگ ہے ۔ اس میں دیباچہ رباعی ہی میں ہے لیکن فاروقی صاحب کی نہیں بلکہ مرزا اسداللہ خاں غالب کی ایک فارسی رباعی اور EUGENIO MONTALE کا ایک اقتباس ہے ۔ یعنی یہاں انہوں نے اپنی جانب سے دیباچہ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے ۔ 

اس مجموعہ میں کل پچھتر رباعیاں ہیں اور تمام رباعیاں جدیدیت کی فضا سے بوجھل ہیں ۔ اس کی پہلی ہی رباعی اس جانب غماز ہے کہ ہم زمین یعنی بحر کے غلام ہیں اور ہمیں اس پر لگے رہنا ہے اور اتفاق سے دوسری رباعی وہ ہے جس کا ذکر گنج سوختہ کے دیباچہ میں ہے ۔ فاروقی صاحب کو اگرچہ جدیدیت کا امام کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنی تخلیقی دنیا میں سفر کر تے ہیں تو مکمل طور پر روایت کے پاسدا ر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعہ کی تیسری رباعی میں اپنی بے تاب دعاؤں میں اثر مانگ رہے ہیں ، چوتھی ، پانچویں اور چھٹی رباعی بھی دعا سے تعلق رکھتی ہے ۔ 

کنجشک کو چیتے سا جگر دے دینا 

گل برگ کو بجلی کا ثمر دے دینا 

ہے سہل تجھے مگر ہے سب سے آساں 

بے تاب دعاؤں میں اثر دے دینا 

 کیا خوبصورت دعا ہے کہ پہلے کے دونوں مصرعو ں میں خدا کی قدرت کا ذکر ہے اور تیسرے مصرع میں لسانی خصوصیت مابین سہل و آساں کے بعد بے تاب دعاؤں میں اثر چاہنا ۔ 

نویں نمبر پر ہی وہ رباعی ہے جس سے اس مجموعہ کا نام ماخوذہے ۔ ذیل میں وہ رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

تجھ سا نہیں دنیا میں کوئی تنہا آ 

امڈا ہے چار سمت کا دریا آ

یہ نیم شبی گنجان اتنی کب تھی 

مٹنے کو ہے تیری آواز پا آ 

اس رباعی کو موضوعاتی سطح پر کس خانہ میں رکھا جائے اس کے لیے واضح طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ، ایک زاویہ سے دیکھتے ہیں تو یہ ذات باری تعالیٰ سے ایک فریاد کے طور پر سامنے آتی ہے اور آخر ی مصرع کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ فراق کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور تنہائی کے خوف سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ پہلے مصرع میں جملہ خبر یہ و جملہ امر کے مابین سکتہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے مصرع میں ہے تو لفظ ’تنہا‘ سے کیا مرا د انہوں نے لی ہے یہ ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرع میں لفظ ’ کا ‘ کا استعمال ’آ‘ کو استعانت سے خارج کردیتا ہے اور ہم سفر ی میں لے آتا ہے جس کا احساس چوتھے مصرع کے ’آ‘ سے بھی ہوتا ہے ۔ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ کو دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ رباعی کے لیے ہے جو چار مصرعو ں کے لیے بطور علامت ہے ۔ اس صورت میں لفظ ’ کا ‘ کو ہمیں ’ والا‘ کے معنی میں دیکھنا ہوگا یعنی چار سمتوں والا دریا ۔انہوں نے نام بھی یہی رکھا ہے تو ہمیں اس معنی سے قریب بھی ہونا پڑے گا ۔ لیکن رباعی کی جو فنی خاصیت ہوتی ہے متحد المعنی ہونا وہ اس سے مختلف ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ خیر چار سمت کا دریا میں مرکز الی الاجتما ع تو ممکن نہیں البتہ مرکز من الاجتماع کی حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ خیر یہ ان کی جدت ہے کہ ہمیں ہر مقا م و مصرع میں بعید سے بعید تر مفہوم کی جانب جانا پڑتا ہے ۔ 

 رباعی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخر ی مصرع بہت ہی پر اثر ہونا چاہیے یعنی ’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ والی کیفیت اس میں ہونی چاہیے اور ایسی کیفیت فارسی کی رباعیوں میں بخوبی پائی جاتی ہے ۔اس کیفیت کو فاروقی صاحب اس طور پرحاصل کر تے ہیں کہ آخر ی مصرع وہ فارسی کا لاتے ہیں جس سے یقینا ا س رباعی کی اہمیت اور قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو :

میں وقت کا بندی تھا رہائی کا ہے غم 

زنجیر شکستگی ہے صوت ماتم 

تھی بند سلاسل میں بھی ذلت لیکن 

آن درد دیگر کہ خنداں خوردم 

یعنی وہ ایک دوسرا درد تھا جسے میں نے ہنستے ہوئے پی لیا ۔ اس طریقے کے دیگر ان کے فارسی مصرعے کچھ اس طرح ہیں :

ع ’’در آتش سرد خفتہ بیند مرا‘‘

ع ’’بازندگی خویش چسا کردم من‘‘ 

ع  ’’صدہا ست سخن کہ کس بہ نا کس گوید‘‘

ع  ’’گلشن نہ دمد از خود یا را ں چہ کنند‘‘

ان تمام مصرعوں کوپڑھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس پنچ لائن کی رباعی کے چوتھے مصرعے میں ضرورت ہوتی ہے وہ فارسی کے ان چوتھے مصرعوں سے بخوبی مل جاتی ہے ۔ چوتھے مصرعے کی ایک اور خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ محاورہ بننے کی طاقت رکھتا ہو جو یہاں نظر بھی آرہا ہے ۔

 فاروقی صاحب کی رباعیو ں کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ جدیدیت کی دبیز چادر بچھی ہوئی ہے اور ہر مصرع میں ایک قسم کی علامت سے آپ کو سابقہ پڑے گا ۔ مثال کے طور پر دو رباعیاں ملاحظہ ہوں : 

کس خوف کا داغ ماہ وادید میں ہے 

کیا آنکھ ہے جو محاذ خورشید میں ہے 

کیسی ہے نسیم وہم اڑے ہیں چہرے 

کس سانپ کی آمد شب تجدید میں ہے 

 

دریا، دریا میں ناؤ کاغذ کا مکاں 

گردن، گردن آب گہر میں طوفاں 

کوئل، کوئل کی کوک پھولوں میں پھوار

آنکھیں، آنکھوں میں درد رفتہ لرزاں 

فاروقی صاحب نے جیسا کہ شروع میں لکھا تھا کہ میں تو بحر(اوزان) کا مزدو ر ہوں یعنی شاعری میرا کام ہے ، تو اس میں وہ کئی فنی تجر بے بھی کرتے ہیں جیسے مرزا دبیر کی طرح صنعت مہملہ و منقوطہ میں رباعیاں پیش کرتے ہیں ۔ فاروقی کی رباعیوں میں بادل، آنکھ، بر ق مسکن، نیلی بجلی، کالی آندھی ، وسعت افلاک ، بر گ ، رات، نیلا کہرا، نیلا آسمان ، جنگل، گنبدِ افلاک ، سرِ شب، گہرا نیلا رنگ ، رمِ شب، گھنے خواب ، بکھرے خواب ، حبس بھرے خواب ، نیل فلک ، جوئے خوںاور نیلم جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جن کا تعلق علامات سے بھی ہے ۔ 

 فار وقی صاحب کے دوسرے شعر ی مجموعہ ’’ سبز اندر سبز‘‘ میں بائیس رباعیاں ہیں ۔ ان میں کچھ رباعیاں مکرربھی ہیں ، جیسے گنج سوختہ کی رباعیاں ،چار سمت کی دریا میں ہیں اسی طریقے سے ’’ سبز اندر سبز ‘ میں بھی ماقبل کے شعری مجموعوں سے رباعیاں رقم کی گئی ہیں ۔ اس شعر ی مجموعہ سے بھی بطور نمونہ ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

گہراہوں لوٹ آؤں میں نے پوچھا 

دیکھا ہے بھول جاؤں میں نے پوچھا

ان آنکھوں کو کھولے ہوئے ہے پنجہ شیر

آنکھوں کو چھوڑ آؤں میں نے پوچھا 

 اب رخ کرتے ہیں ’’آسماں محراب ‘‘ کی جانب اس میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ ان کی رباعیاں بھی ہیں ۔ اس مجموعہ میں انہوں نے رباعیوں کو عناوین کے تحت بھی تقسیم کیا ہے ۔ پہلی رباعی کسی عنوان کے تحت نہیں ہے لیکن اِ س رباعی کا رنگ دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو رنگ گنج سوختہ اور چارسمت کا دریا میں اپنا یا گیا ہے وہ اس میں نہیں ہے ۔ رباعی کچھ اس طرح ہے :

سرگوشی تیری سر بازار سنوں 

جنگل کی زبانی تیرا اقرار سنوں 

تو گہری ناگن سے خموشی میں مجھے 

اک بار بلائے تو میں سوبار سنوں 

اس رباعی میں مخاطب کی کیفیت کا اظہار ہے اور شاعر ہی مخاطب ہے ۔ شدت و تڑپ کس ذات کے لیے ہے وہ مخفی ہے ۔ اس اخفا کو ہم بین المتونی جدیدیت کی اخفائی صفت میں شمار کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد سات تضمینی رباعیاں پیش کی گئی ہیں اور وہ ساتوں رباعیاں شیخ فخر الدین عراقی، شیخ فرید الدین عطار، استاد ابوالفرج رونی، شیخ ابوسعید ابو الخیر ، مو لانا صوفی مازندرانی ، میرزا عبدالقادر بیدل اور ایک نامعلوم کی رباعی پر ہے ۔ پہلی رباعی جو عراقی کی ہے اس میں دو اردو مصرعے فاروقی کے ہیں اور فارسی کے آخر کے دونوں مصرعے عراقی کے ہیں ۔ دوسری رباعی عطار کی ہے جن میں دو مصرعے اردو اور دو فارسی میں ہیں ، چوتھا مصرع عطار کا ہے جو ان کی رباعی کا تیسرا مصرع ہے ۔ تیسری رباعی نامعلوم کی ہے اس میں بھی دومصرعے اردو کے ہیں اور دو فارسی کے ۔ اسی طریقے سے بقیہ تضمینات میں بھی دو مصرعے اردو کے اور دو فارسی کے ہیں ۔

 تضمینی رباعیو ںکے بعد ایک ایک رباعی’ ’ رباعی ۲۰۰۱‘‘ کے عنوان سے ہے جب کہ کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔اس کے بعد چار لالچ بھری رباعیاں ہیں اور اتفاق سے چاروں میں عناوین بھی ہیں ۔نشان کی چار سمتیں ، رنگ کے چار رنگ،لوائح اربعہ اور مسیحائے شوق ان کے عناوین ہیں ۔ مسیحائے شوق کی رباعی دیکھیں : 

خار آہن ہوں برگ زر ہوجاؤں 

سوکھی کھیتی ہوں چشم تر ہوجاؤں

ہلکا سا ترے پاؤں پہ یہ چوٹ کا داغ

میں چھولوں اس کو تو امر ہوجاؤں 

اس رباعی کو اگرچہ انہوں نے لالچ بھری میں رکھا ہے لیکن آپ غور سے دیکھیں تو تمنا ئی رباعیاں زیادہ محسوس ہوںگی۔ خیر!

اس کے بعد جہاں ہم پہنچتے ہیں وہ ہے فاروقی کی پکی عمر کی رباعیاں ، آخر فاروقی صاحب کو ان رباعیو ںمیں پکی عمر کا عنوان لگانے کی ضرورت کیوں پڑی یہ سوال خواہ زیر بحث نہ آئے لیکن اس میں انہوں نے جس قسم کی رباعیاں پیش کی ہیں اس سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ جدیدیت کے بہاؤ میں انہوں نے ’’چار سمت کا دریا ‘‘ میںجس نوعیت کی رباعیاں پیش کی ہیں یقینا وہ رباعی کے مزاج کی حامل نہیں ہیں بلکہ ان میں ظاہر ی طور پر ہر مصرع ایک الگ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور چاروں مصرعوں سے ایک ہی کیفیت تو نظر آجاتی ہے لیکن چاروں مصرعوں کے امتزاج سے کوئی ایک پیغام دیا جارہا ہویہ نظرنہیں آتا ۔ تمام رباعیوں کے تمام مصرعے علامت کی دبیز چادر کے تلے دبے ہوئے ہیں ، جب کہ پکی عمر کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی رنگت کچھ اور نظر آتی ہے :

جو عقل کے جھانسے میں نہ آئے وہ ہے دل 

جو من مانی کرتا جائے وہ ہے دل 

اک بوند گنہ پر سو قلزم روئے 

پھر ناکردہ پر پچھتائے وہ ہے دل


شیطان کسی طرح یہ مرتا ہی نہیں

بندے سے نہ مالک سے ڈرتا ہی نہیں 

گم نامی و ذلت کے بھی غاروں سے عمیق

دل ایسا جہنم ہے کہ بھرتا ہی نہیں 

ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ یہ تو فاروقی صاحب کا رنگ نہیں ہے ۔ یہ تو کسی ناصح اور صوفی شاعر کا کلام محسوس ہورہا ہے ۔ لیکن آپ کو معلوم ہوگا کہ رباعی نے سب سے زیادہ اپنے اندر اسی رنگ کو پایا ہے ۔ رباعی کا یہ رنگ آپ کو درد ، انیس و دبیر ، حالی و اکبر ، شاد، یگانہ ، رواں اور جوش کے یہاں بھی ملے گا ۔اب مضمون کے آخر میں یہاں پر پروفیسر ابو بکر عباد کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کر نا چاہوں گا : 

’’ اپنے ہم عصروںمیں فاروقی صاحب تنہا قابل رباعی گو شاعر کی شناخت رکھتے ہیں ۔ رباعیوں میں بھی ان کی فنی مہارت اور قادرالکلامی حد درجہ نمایاں ہے ۔ انھوں نے بیشتر مروجہ اوزان پر رباعیاں کہی ہیں اور فارسی کے اساتذہ شعرا کے دودو مصرعو ں پر اردو کے دودو مصرعے لگاکر رباعی کو ایک نئی تضمینی شان سے روشناس کرایا ہے ۔ فاروقی صاحب کی رباعیوں کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ ان میں گہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ ایسا شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں اخلاقی اور فلسفیانہ مضامین کے ساتھ ساتھ بالعموم اس میں وہ اپنا ایک جدید فکری رنگ بھی شامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رباعی کا آہنگ اور اس سے قاری کی روایتی انسیت قدرے مختلف معلوم ہونے لگتی ہے ، سو اسے بھی تعمیر ی جدت سے تعبیر کرنا چاہیے ۔ لالچ بھری رباعیاں اور پکی عمر کی رباعیاں اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔‘‘

 استادمحتر م کی اس تحریر سے کلی اتفاق ممکن نہیں ہے ۔ اول یہ کہ فاروقی صاحب اپنی زندگی میں بھی قابل رباعی گو شاعر کی حیثیت سے کل شناخت نہیں حاصل کرپائے تھے ، البتہ فاروقی صاحب عروض داں تھے اور رباعی کا ان مجموعہ تھا اور اس عہد میں انہوں نے رباعیاں کہی ہیں جب اردو میں رباعی کے شاعر خال خال ہی پائے جاتے تھے لیکن فاروقی صاحب اپنی ہی رباعیوں کی وجہ سے یہ شناخت نہیں حاصل کر پائے اس کی وجہ اردو رباعیوں کے مزاج ومنہاج سے پرے ان کی رباعیوں کا ہونا ہے جو موضوعاتی و فنی طور پر بھی روایتی و جدید موضوعات کی شاعری میں مقبول نہ ہوسکی ۔ استاد محترم کی اس بات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کی رباعیوں میںگہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ اس لفظ اسر ار کو ان رباعیوں کی زبان ولفظیات کو دیکھتے ہوئے پُر اسرا ر پر محمول کریں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔ ا ن کے یہاں اخلاقی مضامین یہی پکی عمر کی رباعیو ں میں ہے اور فلسفیانہ مضامین تو نہیں البتہ فلسفیانہ رنگ ہے ، مطلب زبان فلسفیانہ ہے ، وہ اس طرح کہ ماقبل کے مجموعوں میں جو رباعیاں پیش ہوئی ہیں وہ مضامین سے عاری ہیں۔ وہ اس طور پر کہ ہر مصرع اپنے اندر ہی مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے ، جہاں رنگ ، عکس اور تصور کا گزر ہے نہ کہ ماقبل کے مصرع سے مل کر آخر ی مصر ع بہت پتے کی بات کہہ رہا ہے ۔ الغرض فاروقی صاحب کی رباعیاں بالکل منفر د نوعیت کی حامل ہیں جو یقینا اردو رباعیات کے مزاج و منہاج سے بہت مختلف ہے ۔ 

 شروع کے پیرا گراف میں میں نے ایک بات لکھی تھی کہ فاروقی صاحب کی جملہ تحریریں اپنے اندر مکمل انفرادیت رکھتی ہیں، وہ آپ رباعیوں کے حوالے سے بھی سمجھ چکے ہوں گے ۔


Thursday 25 March 2021

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

 

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

امیر حمزہ

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے ۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے ۔اس سے پہلے اردو رباعی ان الفاظ و تراکیب ، حسن و جمال اور تبسم سے محروم تھی ۔فراقؔ نے اپنی رباعیوں میں ہندوستانی عورتو ں کے حسن وادا کے مختلف روپ پیش کیا ہے ۔

فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال کی جزئیات نگاری کی بھرپور عکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کے مختلف حصوں اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں ۔جیسے پنگھٹ پر گگریوں ک کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں کا کھیتوں میں دوڑنا ،ساون میں جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں کہی ہیں جن میں ’’روپ ‘‘ میں تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں اڑسٹھ(۶۸)، گلبانگ میں مادر ہند کے تحت اٹھانوے (۹۸) فکر یات کے عنوان کے تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں ایک رباعی موجود ہے ۔یہ تمام رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پر لڑکیوںکی گگر یاں ، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا ، ساجن کے جوگ میں مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ ۔ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کا تخیل ، ان کا جمالیاتی شعور اور ان کے طر ز ترسیل کا انوکھا رنگ نے جان ڈال دی ہے ۔

پنگھٹ پر گگریاں چھلکنے کا یہ رنگ

پانی ہچکولے لے کے بھر تا ہے تر نگ

کاندھوں پہ سر وں پہ دو نوں باہوں میں کلس

مد انکھڑ یوں میں سینوں میں بھر پور رنگ


ہودی پہ کھڑی کھلا رہی ہے چارہ

جوبن رس انکھڑیوں سے چھلکا چھلکا

کومل ہاتھوں سے ہے تھپکتی گردن

کس پیار سے گائے دیکھتی ہے مکھڑا


وہ گائے کا دوہنا، سہانی صبحیں

گر تی ہیں بھر ے تھن سے چمکتی دھاریں

گھٹنوں پہ کلس کا وہ کھنکنا کم کم

یا چٹکیوں سے پھوٹ رہیں ہیں کر نیں

 ہندو ستانی کلچر و ثقافت جہاں تک انکی شاعر ی میں ہے اسی متعلق فراقؔ’’روپ ‘‘ میں چند باتیں کے زیر عنوان رقم طراز ہیں :

’’جہاں تک ایسی شاعر ی کا تعلق ہے جسے ہم صحیح معنی میں ہندو ستا نی کہہ سکتے ہیں جس میں یہاں کی فضا کی گر می ہو، ہندوستان کی مٹی کی خوشبوہو، یہاں کی ہواؤں کی لچک ہو ، یہاں کے آکا ش سورج اور چاند ستاروں کا آئنہ بنے اور ان کو آئینہ دکھائے ۔یہ صفات اردو شاعر میں ابھی کم آئی ہیں ۔شاعر ی میں کوشش خواہ غزل ہو یا نظم یا رباعی محض اضطر اری چیزیں نہیں تھیں ۔ان کی کوششوں میں بھی ہندو ستان اور ہندو ستان کے کلچر کی تھر تھر اتی ہوئی زندہ رگوں کو چھو لینا چاہتا ہوں ۔،،

یہ فراق کا ایک ایسا تصور ہے جس سے فراق کی رباعیوں کو ایک قابل قدر تہذیبی حسیت عطا ہوئی ۔جس نے انہیں ہندوستانی تمدن ، گنگا جمنی تہذیب اور ہندو ستانی عورت کے جمالیاتی مظاہر کا تر جمان بنا دیا۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشرت کا آئینہ صاف نظر آتا ہے ۔ ان کی رباعیوں میں عورت کہیں محبوبہ ، کہیں شوخ لڑکی ، ، کہیں گر ہستن اور کہیں محض رفیقئہ حیات کی حیثیت سے ابھر تی ہے ۔

ڈھلکا آنچل دمکتے سینے پہ الگ

پلکوں کی اوٹ مسکراہٹ کی جھلک

وہ ماتھے کی کہکشاں و موتی بھر ی مانگ

وہ گود میں چاند سا ہمکتا بالک


آنگن میں بہاگنی نہا کے بیٹھی

رامائن زانو پر رکھی ہے کھلی

جاڑے کی سہانی دھوپ کھلے گیسو

پر چھائیں چمکتے صفحے پر پڑتی ہوئی

فراق ؔ کی رباعیوں کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی عناصر جگہ جگہ نظر آتے ہیں جن سے قاری ان کی رباعیوں کے اسیر نظر آتے ہیں اورفراقؔ اردو کے وہ منفر د شاعر ہیں جنہوں نے اپنی رباعیوں کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں سے تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی رباعیوں میں حسن کومختلف زاویوں سے دیکھا اور پیش کیا ہے ، اس کی اداؤں کی دل نشینی کو محسوس کیا ہے ۔ان کی رباعیوں میں ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے ہوئے بادلوں کے سے گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں جنہیں پہلی بار رباعی کی لڑی میں پرویا گیا ہے ۔فراقؔ رباعی میں جتنا کھل کر پیش آئے ہیں وہ اتنا غزلوں اور نظموں میں بھی نہیں آئے ہیں۔ حسن کی تصویروں کو پیش کرنے میں فراق فراخدلی سے کام لیے ہیں ۔ان کی رباعیوں میں استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے ۔فراق ؔ اپنے ان ذخیروں کے بدولت جب کسی چیز کی تعر یف کر تے ہیں تو مختلف پیر ائے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔جیساکہ گیسو کی تعریف ۔

باد ل کوئی آہستہ گرجتا ہے کہ زلف

برسات میں قصر شام سجتا ہے کہ زلف

منڈلاتی گھٹامیں جیسے ہاتھی جھومیں

کجلی بن میں ستار بجتا ہے کہ زلف


نکھر ی ہوئی رات جگمگاتی ہوئی زلف

تقدیر کے پیچ و خم دکھاتی ہوئی زلف

مدھم لے میں چھڑا ہے ساز ہستی

جیون سنگیت گنگناتی ہوئی زلف


راتیں برکھا کی تھر تھر اتی ہیں کہ زلف

تقدیریں پیح و تا ب کھاتی ہیں کہ زلف

پرچھائیاں کانپ کانپ جائیں جیسے

متوالی گھٹائیں گنگناتی ہیںکہ زلف


سنبل کے تروتازہ چمن ہیں زلفیں

بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں

خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں

ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں

محبوبہ کی آنکھوں کی تعریف مختلف جہتوں سے اور مختلف اوقات کے آنکھوں کی کیفیت کو مختلف پیر ائے میں بیان کر تے ہیں ۔ان کے محبوبہ کی آنکھیں تاروں کو لوریاں سناتی ہیں ،اس کی نشیلی آنکھیں راتوں کی جوانیاں ہیں، ان کے یہاں جب محبوبہ کی آنکھیں خلوت ناز میں جھکتی ہیں تو کامنی کے پھول برس جاتے ہیں ، محبوبہ کی رسیلی آنکھوں کی چمن دو شیزہ سحر معلوم ہوتی ہے ۔

چلمن میں مژہ کی گنگناتی آنکھیں

چھوتی کی دلہن سی کچھ لجاتی آنکھیں

جوبن رس کی سدھا لٹاتی ہر آن

پلکوں کی اوٹ مسکراتی آنکھیں


راتوں کی جوانیاں نشیلی آنکھیں

خنجر کی روانیاں کٹیلی آنکھیں

سنگیت کی سر حدپہ کھلنے والے

پھولوں کی کہانیاں رسیلی آنکھیں


دوشیزہ سحر رسیلی آنکھوں کی چمک

آئینہ صبح میں مناظر کی جھلک

جیسے پڑنے کو آئے آبگینوں پر چوٹ

شفاف فضا میں وہ نگاہوں کی کھنک

فراقؔ اپنی رباعیوں میں محبوب کا سراپا پیش کر تے ہوئے اس کی اداؤں ،حر کات و سکنات کو بھی بڑی دلکش انداز میں پیش کر تے ہیں ۔اس پیش کش میں محبوب کے نہ صر ف دلکش خدو خال اور اس کی شخصیت نمایا ں ہوتی ہے بلکہ محبوب کے حر کات و سکنات اس کے اٹھنے بیٹھنے سو نے جاگنے چلنے پھر نے کی بھی متحر ک تصویریں پیش کر تے ہیں ۔ان متحر ک تصویروں کی پیش کش میں خوبصورت سمعی وبصر ی پیکر وں کی مدد سے بڑی چابکد ستی سے اس میں رنگ آمیزی کر تے ہیں ۔اس وجہ سے ان کی رباعیوں میں محبوب اپنی ساری جلوہ سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر تا ہے او ر قاری کے ذہن میں ایک دیرپانقش چھوڑ دیتا ہے ۔

اٹھنے میں ہمالہ کی گھٹاؤں کا ابھار

انداز نششت چڑھتی ندی کااتار

رفتار میں مدھ بھر ی ہواؤں کی سنک

گفتار میں شبنم کی رسیلی جھنکار


بالوں میں خنک سیاہ راتیں ڈھلیں

تاروں کی شفق کی اوٹ شمعیں جلیں

تاروں کی سرکتی چھاؤں میں بستر سے

ایک جان بہار اٹھی ہے آنکھیں ملتیں


یہ نقرئی آواز یہ ترنم یہ خواب

تاروں میں پڑرہی ہے جیسے مضراب

لہجے میں یہ کھنک یہ رس یہ جھنکار

یا چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہہ آب

فراقؔکی زبان میں ہمیں ہندی اور سنکر ت الفاظ بکثر ت ملتے ہیں ۔اصل میں ہم اردو شاعر ی میں فارسی الفاظ سننے کے عادی ہوچکے ہیں ایسے میں ہمیںجب ہندی کے الفاظ کچھ زیادہ سماعت سے ٹکر اتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً یہ ردعمل شر وع ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ہندی اور سنسکر ت سے زیادہ راہ روی اختیار کی ہے ۔حالانکہ کچھ ایسی خاص بات نہیں ہے ان کے یہاں جہاں ایک طر ف لوچ ،دھج ، نیر ، سرگم، روپ ، دیوی، امر ت، کونپل ، کنچن ، جھرمٹ ، جیون ، مکھڑا ، سہاگ ، سنگیت ،چنچل اور درپن جیسے شیر یں اور سر یلے الفاظ ملتے ہیں تو وہیں ہمیں آئینہ نیلگوں ، گلنا ر ، شفق ، نقر ئی آواز ، رودجمن، شام ہستی، زندان حیات ، دوشیزہ ٔ سحر ، آئینہ صبح ،قوس قزح ، پیکر نازنین اورجان بہار جیسے خوبصورت فارسی تراکیب بھی جا بجا ان کی رباعیوں میں نگوں کے طرح جڑے ہوئے ہیں ۔

فراق ؔ کی رباعیوںکو جنسیت زدہ رباعی بھی کہا گیا ہے ۔حالانکہ انکے انہیں رباعیوں کو اقبال ماہر اس حیثیت سے تعبیر کر تے ہیں ۔

’’روپ ‘‘ کی رباعیوں میں فراق ؔنے ہزار ہا سال پرانی لیکن سدا سہاگ ہندو وجدان اور ہندو ثقافت کی نشاۃثانیہ کا ثبوت دیا ہے ۔ اگر ہم تمام اردو شاعر ی میں ہندو تصور حسن کو تلاش کر نا چاہیں تو اس تصور کے حقیقی کارنامے اور نمونے ہمیں رباعیوں میں ملیں گے ‘‘

اصل میں ان کی رباعیاں حسن و فطرت، اور انسانی حسن کی متنوع کیفیات اور رنگا رنگ تجر بات کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں حسن و عشق کی مختلف کیفیات اور جنسی خوبصورتی کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے اوروہ رباعیاں جن میں جنسی میلان اور جنسی تجر بات کی عکاسی کی گئی ہے اس میں بہت بے باکی نظر آتی ہے ۔بالہوسی اس میں ہے یا نہیں ان کی اس تحر یر سے سمجھی جاسکتی ہے جس کو سیدہ جعفر نے محمد طفیل کو فراق کے ذریعے لکھے گئے ایک خط کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

’’جب جنسی جذبات کسی شخص کی پور ی شخصیت میں حلول کر جائیں اور اس کے مستقل کر دار کا جز و بن جائیں اورجب جنسی خواہش کے مقابلے میں احساس جمال زیادہ بڑھ جائے اور بہت زیادہ گہرا ہوجائے تب جنسیت عشق کا مر تبہ کر لیتی ہے ۔‘‘

فراق ؔکی وہ رباعیاں جن میں جذبہ عشق کی مصوری توازن میں رہ کر کی گئی ہے وہ رباعیاں اردو شعر و ادب میں قیمتی اضافہ معلوم ہوتی ہیں اور اردو رباعی کے صنف میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے راہ میں گامزن نظر آتی ہیں ۔ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد ہر ادب کے قاری کے ذہیں میں یہ احساس ابھر تا ہے کہ وہ اردو رباعی جو فارسی کے راہ پر گامز ن چلی آرہی تھی اس کو فراقؔنے اپنے فکر اور گر دو پیش کے تہذیبی رجحانات سے مزین کیا ہے

Wednesday 24 March 2021

تر قی پسند شاعری اور مولانا سعید احمد اکبر آباد ی


 تر قی پسند شاعری اور مولانا سعید احمد اکبر آباد ی

امیر حمزہ



’’ ہمیں حسن کا معیار تبدیل کر نا ہوگا ۔ ابھی تک اس کا معیار امیرا نہ اور عیش پرورانہ تھا ۔ ہمارا آرٹسٹ امراء کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا ۔انھیں کی قدردانی پر ان کی ہستی قائم تھی اور انھیں کی خوشیوں اور رنجوں ، حسرتوں اور تمناؤں ، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا ، اس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف اٹھتی تھیں ، جھونپڑ ے اور کھنڈر اس کے التفات کے قابل نہ تھے ، انھیں وہ انسانیت کے دامن سے خارج سمجھتا تھا۔ آرٹ نام تھا محدود صورت پرستی کا ، الفاظ کی تر کیبوں کا خیالات کی بندشوں کا ، زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں ۔‘‘

’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدا ر نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے ، ہم میں قوت و حرارت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبہ ٔ حسن نہ جاگے ،جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کر ے وہ آج ہمارے لیے بیکا ر ۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔‘‘

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو آزادی کا جذبہ ہو ، حسن کا جوہر ہو تعمیر کی روح ہو ، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو ، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کر ے ۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی ۔‘‘

اوپر کے تینوں کے اقتباسات میں مشتر کہ طور پر جو عناصر کھل کر سامنے آتے ہیں وہ ہیں ( ۱) حسن کا معیار (۲) آرٹ کا محدود ہونا (۳) زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں (۴) ذوق سلیم ( ۵) تفکر وغیرہ ۔ ان عناصر کی کارفرمائی سے ترقی پسند ادب تشکیل پاتا ہے ۔

 اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ عناصر تر قی پسندتحریک کی تشکیل کے بعدادب میں درآتے ہیں یا پہلے سے پائے جاتے ہیں ۔ تو شاید تمام کا جواب ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز نئی نہیں ہے ، سب قدیم ہیں، بلکہ کچھ توا لزامات ہیں اگر میں یہ کہوں کے یہ سارے عناصر ری پیکیجنگ کیے گئے ہیں اور اپنے سے قبل کے ادب کو عالمی شور وغوغا سے ناقص بتا نے کی پر زور کوشش کی گئی تو غلط نہیںہوگا۔ کیونکہ ترقی پسندی کے وقت تو وہ شجر ممنوعہ کی طرح پیش کیا گیا لیکن انہی کے علمبر داروں نے میر و غالب و اقبال پر اچھی تحریریں دنیائے ادب کو دیں ۔بقول سجاد ظہیر کہ جب فیض دہلی کے مناظرہ میں تقریر کر نے کے لیے اسٹیج پر آئے تو ’’ انھوں نے عالمانہ انداز میں بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ تر قی پسند ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے ‘‘ ۔

بات شروع کر تے ہیں حسن کے معیار سے ۔تویہ بنیادی بات جان لینی چاہیے کہ ذہن کے تین بنیادی دریچے ہوتے ہیں جس سے وہ خارجی و داخلی امور کی جانب فطری طور پر مائل ہوتا ہے ۔(۱) حق (۲) خیر (۳) جمال ۔

کوئی بھی خیال و تصور ان ہی تین میں سمایا ہوا ہوتا ہے ۔ کوئی بھی چیز حق ہے یا تو حق سے منسوب ۔ خیر کے بغیر کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں ہوسکتی ، موجود تو ہوسکتی ہے لیکن قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے ۔جمال کے بغیر بھی کسی شے کا وجود ہوسکتا ہے لیکن تاثیر سے عاری ہوگا ۔

دنیا کے تمام علوم کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ حق کے بغیر کسی شے کا وجود محض اس بات کا علم دیتا ہے کہ یہ حق نہیں ہے ۔حق کے بغیر کوئی بھی چیز ذہن میں یا خارج میں نہیں ہوسکتی یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حق تو مادہ وجود ہے ۔تو پھر یہ بات طے ہوتی ہے کہ حق کے بغیر خیر بھی موجود نہیں اور جمال کو خیر کا ایک لازمی جزو کہہ سکتے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی چیز آپ کے پاس خارج سے آتی ہے تو آپ کے ذہن کے یہ بنیا دی دریچے سب سے پہلے کھلتے ہیں کہ یہ حق ہے یا نہیں پھر اس میں خیر ہے یا نہیں اگر یہ دونوں ہیں تو پھر جمالیاتی کیفیت کا حامل ہے یا نہیں ۔اب اسی کو ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں اور اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز حسین ہے اور حق نہیں ہے تو پھر ذہن میں ایک قسم کا مزاحمت ابھر تا ہے اور یہ ایک قسم کی اصولی بات ہے کہ اگر کوئی چیز جمالیاتی شعور کا حامل ہے لیکن حق سے خالی ہے تو اسے صرف نظر کا حسن یا دیکھنے میں خوبصورت سمجھا جاتا ہے ۔اسی طریقے سے اخلاقی شعو ر (خیر ) کی بھی بات کی جاسکتی ہے ۔ اگر ہم کہیں خیر کی بات کر رہے ہیں تو اس میں بقیہ دنوں بنیادی امور کو بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ان تمام کے ساتھ ہے یا نہیں اگر کوئی چیز بظاہر ہمیں اخلاقی شعور کی حامل لگ رہی ہے لیکن حق سے وہ ٹکرا رہی ہے اور قلب و نظر کو اپنی جمالیاتی شعو ر سے متاثر نہیں کر پا رہی ہے تو وہ بھی بظاہر خیر ہے اور بباطن کچھ اور ہے ۔ اگر یہ تینوں چیز ثابت ہوجاتی ہیں تو ہمارے اندر اس چیز کی کلی قبولیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس لیے جو بڑا شاعر ہوتا ہے اس کے یہاں جمالیاتی شعور کو اس کے مقصد اصلی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور جو ادنی درجہ کا شاعر ہوتا ہے اس کے یہاں جمالیاتی شعور حق کے ساتھ نہ ہوکر محض ظاہر ی حسن کا عکاس بن کر رہ جاتا ہے ۔ الغرض حسن کے معیار بدلنے کا جو نعر ہ تر قی پسند وں کی جانب سے دیا گیا تھا وہ سب کو پتہ ہے کہ وہ بہت ہی محدود دائرہ کا تھا یعنی بنگلوں اور محل سراؤں کی جگہ جھونپڑیوں کی طرف حسن کی تلاش میں یا بیان میں نکلنا ۔ جمالیاتی شعور یا حسن کے معیار سے ہی بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان کو تہہ دار ادب کی ضرورت تھی یااس ادب کی جس میں معانی اپنے روایتی اقدار و حسن کے خلاف محض مادہ پرستانہ اور ظاہر ی نعروں کے ساتھ عوام کی زبان چڑھ جائے ۔ وجہ یہی ہے کہ تر قی پسندی ایک عوامی تحر یک تھی جس نے سماج کو متاثر کیا بر عکس اس کے علیگڑھ تحر یک ایک سماجی تحر یک تھی جس نے ادب کو متاثر کیا ۔ اس لیے انہوں نے ادب کے عظیم روایتی سر مایے کو در کنار کر تے ہوئے اپنے سامنے کچھ نئے نعرے پیش کیے جس کا اثر یہ ہوا کہ عوام سے گفتگو کرنے کے لیے ادب کا سہارا لیا اور اس نے ادب کو بہت ہی متاثر کیا ۔

 یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جدید شاعری کی روایت تہذیب کی شکست سے خوش ہوکر پیدا ہوئی ہے ، اقبال کے دور میں مشرقی و اسلامی تہذیب شکست خوردگی سے دوچار ہوگئی تھی ، جس کے دو ردعمل بر صغیر کی مسلم اور شعری دنیا میں سامنے آئے ۔ ایک ردعمل نوحہ اور مرثیہ کی شکل میں نظر آیا جو اکبر الہ آبادی کی شاعری میں نظرآتا ہے اور دو سرا رجز کی صورت میں نظر آیا جو نئے تہذیبی بدلاؤ سے ٹکر ا جانا چاہتا تھا جس کی واحد مثال اقبال ہیں ۔ دوسری جماعت وہ تھی جو تہذیب کی اس شکست سے خوش تھی اور شکست دینے والی تہذیب کی جانب کشش میں مبتلا تھی لیکن ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ مغرب کے اندر نہیں بلکہ باہر سے بیٹھ کر محظوظ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ مغربی تہذیب ا ن کے لیے کوئی مزیدار چیز نظر آرہی تھی تو وہاں کی قدرو ں کو اپنی تخلیقات میں ڈھالنے کی کوشش ہورہی تھی لیکن ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا ان کی شعری تربیت روایتی تھی ، شعری نہ سہی معاشرتی تربیت تو روایتی و مشرقی تھی ہی اور مغربی تہذیب کو اپنے اندر داخل کیے بغیر ہی مغرب کی وکالت کر نے کا نتیجہ یہ نظر آیا کہ لغویت کے ساتھ ابہام بھی ادب میں در آیا ہے ۔ بلکہ جس تہذیب کے اسٹریکچرکے انہدام کے وہ حامی ہوئے اس کے باقیات ان میں باقی تھے ، خارج سے ختم ہوگئی تھی لیکن داخل سے نکل نہیں پائی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شعری تہذیب میں ہیئت سے لیکر مضامین تک میں ایک غیر واضح صورت نظر آتی ہے ۔اگر آپ ن م راشد ( اگر چہ یہ تر قی پسند شاعرنہیں ہیں ) کا نیا آدمی سے پہلے اور بعد کے ادب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ایک حد فاصل نظر آئے گا جیسا کہ راشد کے یہاں نظر آیا ہے کہ آدمی تو مشرق میں بھی نیا پیدا ہوگیا ہے لیکن دنیا نئی پیدا نہیں ہو پائی ہے۔ اسی غیر واضح تکنیکی صورت حال سے مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے اپنے مقالہ میںواقف کر انے کی کوشش کی ہے ۔

مولانا سعید احمد اکبرآبادی کا پہلا اعتراض نام کے سلسلے میں ہے ان کے نزدیک’’ ترقی پسند شاعری یا تر قی پسند ادب کی ترکیب اصولاً درست نہیں ہے کیونکہ پسند یا نا پسند کا سوال شعور و احساس سے ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ادب بذات خود شعور وا حساس نہیں رکھتا ‘‘ میرے خیال میں ان کا یہ اعتراض تو درست ہے لیکن اگر ہم دوسرے زاویے سے دیکھیں تو سوال کچھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس تحر یک سے جڑنے والے تر قی پسند کہلائے اور ان کی تخلیقات ترقی پسند ادب ۔یعنی تر قی پسند لوگوں کا ادب ۔ساتھ ہی جب ترقی پسند کا عروج ہوا تو مغربی رجحانات کی وجہ سے وہاں کی شعری ہیئت کا بھی اردو میں تجر بہ کیا گیا جس کے نتیجے میں نظم معریٰ ، نثر ی نظم اور آزاد نظم وجود میںآئے ۔ان کا اس تعلق سے سوال یہ ہے کہ کلام کی تو دو ہی قسمیں ہوتی ہیں مو زوں ہے تو نظم و رنہ وہ نثرہے ۔ کلام میں وزن کے ساتھ معنوی خوبی ہے تبھی وہ شعر ہے ورنہ وہ محض ایک موزوں کلام ہے شعر نہیں ہے ۔اسی طر ح نظم میں اگر کوئی لفظی یا معنوی صناعی ہے تو وہ نثر انشا ء ہے ورنہ نثر عاری ہے ۔پھر نظم کے ساتھ نثر ، معریٰ یا آزاد لانا ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے لاہو ر کا ہمایوں مقبرہ یا دلی کا تاج محل ، ہاں اصطلاحات پر تو کوئی روک ٹوک نہیں ہے انفرادی طور پر وہ اپنی غزل کو قصیدہ کہے یا مرثیہ و مثنوی وہ تو اس کا شخصی اختیار ہے جیسے کوئی اپنی بلی کا نام کتا یا کتے کا نام لومڑی رکھ لے ۔ان کے اس اعتراض کوکسی حد تک درست ٹھہرا یا جا سکتا ہے لیکن اس ادبی دنیا میں بال سے بھی باریک صنفی امتیازات کے لیے اصطلاحات کی بھر مار ہے آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اس اکیسویں صدی کے ابتدا ئی دو دہوں میں کتنے اصطلاحات وجود میں آچکے ہیں ۔ اسی طریقے سے ایک لفظ’’ شعریات ‘‘ ہے جو آج کی ادبی دنیا میں بہت ہی مستعمل ہے ۔ اس بات کا علم ہے کہ اس وزن پر جو بھی لفظ بنایا جاتا ہے اس میں اس کی داخلیت پر اثر زیادہ ہو تا ہے جیسے اقتصاد سے اقتصادیات، بلدیہ سے بلدیاتی ، خمر سے خمریات، معاش سے معاشیات ، سیاست سے سیاسیات اور ادب میں ادب سے ادبیات ، غالب سے غالبیات ، اقبال سے اقبالیات ، میر سے میریات وغیرہ ۔ اسی طر ح سے شعر سے شعریات ہے جو بالکل درست ہے لیکن شعریات کے ساتھ ناول، افسانہ ، داستان ، خاکہ ، انشائیہ اور سفر نا مہ جیسے نثر ی اصناف کو سابقہ اور لاحقہ کے طور پر لانا ویسے ہی ہے جیسے دلی کا تاج محل اور اگرہ کا ہمایوں مقبرہ ۔

سعید احمد اکبرآبادی نے تر قی پسند ادب میں محدود منشو پر زیادہ توجہ دینے کی سلسلے میں ردعمل کا اظہار کر تے ہوئے فکر سے بھر پور گفتگوکی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ زندگی کے اہم مسائل کو بھوک ، غر یبی ، سماجی پستی اور سیاسی غلامی تک ہی محدود نہیں کر نا چاہیے ‘‘ کیونکہ زندگی تو خود ہی بے شمار پریشانیوں کا ایک وسیع و عرض میدا ن ہے جس میں محض مذکورہ پریشانیوں کا ذکر مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ راحت و مسرت ، غم و خوشی ، رنج و الم ناکامی و مایوسی سے ہر وقت بر سر پیکار رہتی ہے ۔ جبکہ یہ عالمی مسائل ہوتے ہیں ، تو جب ادب عالمی ہوتا ہے تو ان کے مشمولات کو بھی ہمہ گیر اور عالمی ہونا چاہیے کس خاص زمرے کی نمائندگی کے لیے لکھنا محض زبر دستی ادب کو اس کی آمد کی صفت سے نکال کر آور د کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا ۔

ادب اصل میں ہوتا ہے کیا ؟ اس سوال کا جواب تو جدیدیت سے پہلے تک ہر ایک کی زبان میں یہی ہوتا تھا کہ ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے ۔ لہذا جو رنگ زندگی کاہوگا اس کا عکس ادب میں نظر آئے گا ۔اس حوالے سے اگر لفظیات و شعریات کی بات کی جائے تو مولانا کا خیال یو ں عیاں ہوتا ہے کہ:

’’مرزا مظہر جان ِ جاناں اور خواجہ میر درد اور حضرت امیر مینائی ایسے مقدس اور ثقہ حضرات بھی شاعر ی کے میدان میں قدم رنجہ فرماتے ہیں تو ان کو بھی عشق حقیقی کے واردات قلب اور عالمِ لاہوت کے سر ہانے ملکوتی کو بیان کر نے کے لیے وہی اس زمانے کی عام شاعرانہ بول چال کے مطابق گل و بلبل ر خسار و کاکل ، شمع و پر وانہ شیخ و بر ہمن اور رقیب و دشمن ایسی چیزوں کی آڑ لینی پڑتی ہے‘‘ یعنی مندرجہ بالا حضرات جب مروجہ محاورات و اسالیب زبان سے روگر دانی نہیں کر پاتے ہیں پھر تر قی پسند افرا د دقیانوسیت خیال کر کے ملا و بر ہمن کے سوا دیگر استعارات و تلمیحات جن کا تعلق مذہبی اساطیر سے ہوتا ہے ان سے صرف نظر کر نا ان کے نزدیک شاعری کی روایت میں ایک قسم کی خیانت ہے ۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکر آیا کہ ان کا تعلق اس گروہ سے تھا جودوسری جنگ عظیم کے بعد مشرق میں ہوئی تبدیلیوں اور مغربی تہذیبی کی بالا دستی سے خوش تھے تو وہ جدید تہذیب کو خود میں داخل کیے بغیر اسلامی روایت پر حامل سرمایہ کی شعری روایت کے انحراف پر اتر آئے تھے تو اس رد عمل میں یہ چیز تو ہونا لازمی تھا لیکن فیض و مجروح ومخدوم محی الدین جیسے شاعرو ں کی غزلوں میں روایت کی پاسداری پائی جاتی ہے ۔ 

 ادب کاکوئی بھی رجحان خالی از علت کبھی نہیںہوا ہے ہمیشہ اس میں کچھ ایسے متحر ک عناصر شاعر و تخلیق کار کو نظر آئے کہ وہ اس متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد متاثرہ ممالک کے جو حالات ہو گئے تھے اس وقت وہی بادہ و صراحی و حسن کی شاعری کیسے انسانی نفس کو گوارہ ہوسکتا تھا اس لیے جدید موضوعات و مسائل جس کو سننے کے لیے عوام و خواص مشتاق تھے اس جانب تیز ی جانا پڑا اس کا احسا س سعید احمد اکبرآبادی کو بھی تھا وہ لکھتے ہیں ’’ پس آج کل ہماری شاعری او ر ادب میں جو رجحانا پائے جارہے ہیں وہ خالی از علت نہیں ہیں بلکہ نتیجہ ہیںان سیاسی ، تمدنی اور معاشرتی عوامل کاجو گذشتہ جنگ عظیم کے بعد سے ہندو ستان میں کارفرما رہے ہیں ۔‘‘ مو لانا کے یہاںعلت کا بیا ن اس طرح سامنے آتا ہے لیکن ساتھ ہی چند سطروں کے بعد اس کا معلول کس طور پر سامنے آچکا ہے اس کو بھی رقم کر تے ہیں کہ ’’ نتیجتاً مذہب اور پرانی روایات سے بیزاری،آزادی و طن کانام لیتے لیتے ہر قسم کی اخلاقی اور سماجی قیدو بند سے مکمل طورپر آزاد ہونے کا جذبہ(ہے )…جو ہمیں جدید ادب میں نظر آتا ہے ۔‘‘ مذکوہ بالا علت کا اس قسم کا معلول ان کے پورے مقالے (تر قی پسند شاعری ،برہان ،نئی دہلی ، مارچ۱۹۴۴) میں جگہ جگہ نظرآتا ہے ۔ 

آگے بڑھتے ہیں اس واقعہ کی جانب جو دلچسپ مناظر ہ کی شکل میں ترقی پسندو ں اور غیر ترقی پسندوںکے مابین واقع دہلی کے ٹاؤن ہال میں واقع ہوا ۔ اس مناظرہ کی تفصیلی روداد سجاد ظہیر نے اپنی کتاب روشنائی میں لکھی ہے ۔ واقعہ ۱۹۴۶ کا ہے جب سجاد ظہیر دہلی میں ہی تھے ان کے دوست مقیم الدین فاروقی اور قاضی احمد صاحب نے مخالفین تر قی پسند کو مناظرہ کا چیلینخ دیا جس کو قبول کر لیا گیا ۔ مخالفین کی طرف سے خواجہ محمد شفیع اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی متعین ہوئے اور موافقین کی جانب سے سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض ، صدر مناظرہ سر رضا علی قرار پائے ۔جس میں دونوں ترقی پسندی دہلی کے نہ تھے ، فیض لاہو ر سے اور سجاد ظہیر لکھنؤ سے تھے اور دنوں نے دہلی والوں کے خلاف دہلی میں ہی محاذقائم کیے ہوئے تھے ۔ جلسہ ( مناظرہ ) کی کارروائی سر رضا علی کی تقریر سے شروع ہوتا ہے ۔جسے سن کر سجاد ظہیر محسوس کر تے ہیں کہ موصوف ’’ جدید اردو ادب کے مطالعے میں حالی ، اکبر اور اقبال سے آگے نہیں بڑھے ہیں ۔ انہوں نے صدر کی حیثیت سے غیر جانبد ار رہنے کے بجائے مزاحیہ انداز میں ترقی پسند ادب پر چوٹیں کیں ۔ پھر مخالفین کی جانب سے تقریر ہوتی ہے خواجہ محمد شفیع کی جس میں وہ ترقی پسندو ں پر کافی چوٹیں کر تے ہیں ، فحاشی کا الزام لگاتے ہیں جس سے سجاد ظہیر کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ  دہلی کی ٹیٹھ اور پیار بھرے لہجے میں گالیا ں دے رہے ہیں ۔ اس کے بعد میرا جی اور ن م راشد کی نظموں کے چند ٹکڑ ے پڑھے جس پر انہوں نے قہقہ بٹورا ۔ان کے بعد فیض احمد تقریر کے لیے آئے اور انہوں نے بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ ’’ ترقی پسند ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ سماج میں تبدیلی اورارتقا کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی تبدیلی اور ترقی ہوتی ہے۔ اسے روکنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔‘‘ فیض کی یہ تقریر خاموشی سے سنی گئی نہ قہقہے لگے نہ تالیاں بجیں ۔ا ن کے بعد مولانا سعید احمد اکبرآبادی تقریر کرنے آتے ہیں اور وہ بھی خواجہ شفیع کی ہی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ سجاد ظہیر لکھتے ہیں ’’ قاضی سعید صاحب سے مجھے توقع تھی کہ ان کی تقریر ان کے رتبہ کے مطابق ٹھوس ا ور عالمانہ ہوگی اور اس سے کچھ سیکھ سکیںگے ۔ لیکن بد قسمتی سے انہوں نے دینی اور مذہبی نقطہ نظر سے ترقی پسند تحریک پر اعتراضات کیے ۔ الحاد ، لادینی ، بد اخلاقی پھیلانا ، ان کے نزدیک ترقی پسندوں کے یہی مقاصد تھے ۔‘‘ واضح رہے کہ یہ وہیں باتیں ہیں جن کا ذکر اوپر علت ومعلول کے طور پر آچکا ہے ۔ان کی تقریر کے بعد سجاد ظہیر کی تقریر ہوئی جہاں انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہ ہمارے مخالفین نے جو بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ہماری تحریک موافق تو دور بلکہ سخت مخالف ہیں اور ہماری تحریک آپ عوام کی تحریک ہے جس میں ہمیں ان طاقتوں اور اداروں سے لڑنا اور ان کی مخالفت کرنا ہے جو آپ عوام کے دشمن ہیں ۔ رہی بات فحش گوئی کی تو وہ سعدی، حافظ ، میر و سودا کے سرمایہ کا جائزہ لیتے وقت بھی محسوس ہوسکتا ہے ۔ ’’ پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ ‘‘ میر کے اس مصرع سے کیا میر فخش گوہوگئے ؟ ۔ ہمیں ترقی پسند ی کی مثالیں ان کی بہترین چیز لے کر پیش کرنا چاہیے ۔ خیر جلسہ صدر کی مختصر تقریر سے ختم ہوا اس کے بعد باضابطہ تعارف ہوا جس میں مخالفین نے کہا کہ ہم نے بہت سی باتیں از راہ مناظرہ کہہ دی تھی اس کو دل پر نہ لیا جائے ۔خیر…اس واقعہ کے چند دنوں کے بعد سعید احمد اکبرآبادی سے سجاد ظہیر کی ملاقات ندوۃ المصنفین سے ہوتی ہے جس میں ملاقات کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مناظرہ کے مقرر سے بالکل مختلف پایا ’’ انہیں ہماری تحریک سے کوئی اصولی اختلاف نہ تھا۔‘‘ یہ بات سعید احمد اکبرآبادی کی تحریروں سے بھی عیا ں ہو تی ہے کیونکہ ان کے اعتراضات میں اکثر مقامات پر ن م راشد اور میراجی ہی آتے ہیں او ر شاعری کے جدید فارمس سے وہ نالا ں نظر آتے ہیں جسے مہمل پر ہی محمول کرتے ہیں ۔


Saturday 20 March 2021

تحریک خلافت کے بانی مولانا عبد الباری فرنگی محلی

  

تحریک خلافت کے بانی مولانا عبد الباری فرنگی محلی

بقلم  :  امیر حمزہ

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ، دہلی یونی ورسٹی

اٹھارہویں صدی میں یوروپی اقوام کی بڑھتی نقل و حر کت نے پوری دنیا میں ایک سیاسی اور سماجی تبدیلی کی آہٹ دے دی تھی ۔ معرکۂ شر و باطل عالمی سطح پر شروع ہوچکا تھا۔ مسلم حکومتوں کے شعور ی زوال کے بعد انگر یزوں کی برسوں کی محنت تھی کہ مسلمانوں کی مر کزیت کو ختم کیا جائے، ان کی مضبوط حکومتوں کو پارہ پارہ کیا جائے، اس کے لیے چھوٹی چھوٹی طاقتوں کو مر کز کے مقابل میں لایا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھارہویں صدی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مصیبت کا پہاڑ بن کر سامنے آئی ۔ انگر یزعرصہ درا ز سے دو امور کے لیے بہت ہی زیادہ محنت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی مر کزیت کو ختم کیا جائے جس کے نتیجہ میں عظیم مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوا اور دوسرا یہ کہ جزیرۃ العرب کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف کھڑا کیا جائے جس سے ایک عظیم سلطنت جو یوروپ ، ایشیا ، افریقہ اور بحر ابیض کے خطوں پر مشتمل تھی اس کا شیراز ہ بھی بیسویں صدی کے آتے آتے بکھر جائے ۔اس مقصد کو حاصل کر نے کے لیے ایک عرصہ سے انگریز کیمیاوی طریقوں سے اپنے چمڑے گندمی رنگ میں رنگ کر عرب کے مدرسوں اور مکانوں میں رہتے تھے تاکہ عربوں کی کمزوریوں کو معلوم کر سکیں اور تر کوں کے خلاف مکمل عرب کو اکسا سکیں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ دنیا کے مسلمانوں کو سلطنت کے خاتمے کا افسوس کم بلکہ مسلمانوں کی مرکزیت کے خاتمے کا افسوس زیادہ ہوا ۔انگر یز جو عرب و عجم کے دیگر ممالک پر قابض تھے انہوں نے ملکی غلامی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ذہنی بیماری میں مبتلا کرنے کا کام تر کی کا شیرازہ بکھیر کر کیا ۔ جس سے تمام کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ مقامات مقدسہ کا کیا ہوگا ۔ اس چیز کو مولانا عبد الباری فرنگی محلی پہلے ہی بھانپ چکے تھے اور تحفظ خلافت کی تحریک اپنے تئیں شروع کر چکے تھے ۔

خلافت کمیٹی کے وجود میں آنے سے پہلے سے ہی ہند کے مسلمان تر کی کو لے کر بہت ہی فکر مند تھے ۔اپنے طور پر چندہ جمع کر کے تر کی کی جس سطح پر بھی امداد ممکن تھی کر رہے تھے ۔جنگ بلقان کے بعد بے چینی اور بڑھ گئی تھی اس وقت شیخ الہند کے کر دار کو سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کیوں کہ حضرت چند طلبہ کے ساتھ تعلیم کو وقتی طور پر تر ک کر کے نکل گئے تھے ۔اس وقت لاکھوں کی امداد تر کی کو دی گئی جس کا حساب اخبار ’پیسہ ‘ لاہور میں چھپتا تھا ۔یہ سلسلہ چلتا رہا ادھر دوسری جانب مولانا قیام الدین فرنگی محلی نے انجمن خدام کعبہ قائم کرکے غور و فکر کے کئی دریچوں کو وا کر دیا تھا۔مذہبی وسیاسی طور پر مسلمانوں کی عالمی صورت حال پر گفتگو شروع ہوگئی تھی۔ ان تمام پہلو ؤںپر مذہبی پہلو سب سے زیادہ غالب تھا۔ اول بحث یہ تھی کہ اسلام میں مقامات مقدسہ کی کیااہمیت ہے؟ پھر بہت زور و شور سے یہ بات ہندوستان کی فضا میں گونجنے لگی کہ مسلمانوں کے لیے خلیفہ ہونا کتنا ضرور ی ہے ۔اسی آخر الذکر شرعی مسئلہ کو تحر یک خلافت کی اساس بنایا گیا جس کو ہندو ومسلمانوں نے ایک ہی اسٹیج سے بہت ہی زورو شور سے بلند کیا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم سے انگر یز کے قدم اکھڑنے لگے ۔

خلافت کی تحریک جب شروع ہوئی اس وقت مسلمانوں میں دینی ، مذہبی اور سیاسی شعور رکھنے والے چیدہ چیدہ علما موجود تھے ۔جیسے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ، امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد ، مفتی کفایت اللہ دہلوی ، مولا نا ابو الوفاء ثناء اللہ امر تسری ، مولانا سجاد بہاری، مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی ، مولانا سلیمان ندوی، مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی، مولانا عبدالماجد بدایونی ، مو لانا سید محمد فاخر الہٰ آبادی ، مولانا احمد سعید ،مولانا داؤد غنوی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی، مشیر حسین قدوائی، ظفر الملک علوی ، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی او رمولانا ظفر علی خاں وغیرہ تھے جن میں سے کچھ کا ذکر اب بھی گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے اورکچھ صرف تاریخ کی کتابوں اور وقت کے اخبارات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ۔اس مضمون میں ہم تاریخ ِ آزادی ہند کا اہم موڑ تحریک خلافت اور اس کے اہم رہنما مولا نا قیام الدین عبدالباری فرنگی محلی پر گفتگو کر یں گے ۔

ہندو ستان غلامی کی زنجیر میں جکڑچکا تھا، انسانی اقدار بدل رہے تھے ،نئی تہذیب داخل ہور ہی تھی قدیم مشرقی تہذیب کی تشہیر انگریز غیر مہذب کے طور پر کر رہے تھے ۔تعلیم کا معیار بدل چکا تھا ،تعلیمی مراکز کے روپ بدل رہے تھے، علوم کا تعلق اب علم و معرفت سے ہٹ کر فن و حرفت کی جانب مائل ہوچکا تھا، جو خاندان صدیوں سے علوم پر مہارت رکھ رہا تھا وہ اب زوال پذیر ہور ہا تھا کیونکہ وقت ایسا آن پڑا تھا کہ اب علماء کتابی دنیا سے نکل کر ملی و سیاسی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے ۔ ایسے وقت میں ہندوستان کی پیشانی پر فرنگی محل کا خاندان اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے آفتاب و ماہتاب کی مانند چمک رہا تھا جو مسلمانان ہندکی مذہبی و تہذیبی اقدار کا پیشوااور رشدو ہدایت کا مرکز تھا ، جہاں سے ملا نظام الدین اور بحر العلوم مولانا عبدالعلی جیسے متبحر عالم پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی کے صر ف بتیس بر س بسر کیے اور ہزاروں شاگر چھوڑگئے ، درسی و غیر درسی دسیوں کتابوں میں تاقیامت اپنا علمی حاشیہ رقم کر گئے ۔اسی فرنگی محل میں ایک ایسا چراغ رو شن ہوا جس نے آزادی ہند کی تاریخ میں مختلف تحریکات کو جنم دیا جن سے آگے چل کر ہند کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ، ساتھ ہی علم کاسمندر ، اخلاق ِ عالیہ اور فاضلہ سے مزین ، فکرو تدبر و بصیر ت سے معمور وہ چرا غ مولانا عبدالباری فرنگی محلی تھے۔ ہندوستانی سیاست اور آزادی کی تحریک میں ان کی قدرو قیمت کو جاننے کے لیے بہت سے واقعات آپ کی نظر سے گزریں گے لیکن انگر یزوں کے پاس جب خلافت تحریک کی نمائندگی کے لیے  مولانا سید سلیمان ندوی جاتے ہیں تو وہاں وہ کہتے ہیں کہ ’’ میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں ۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی صاحب نے جو لکھنؤکے فرنگی محل کے مشہور خاندان سے ہیں مجھ کو خاص طور پر اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا ہے تا کہ میں بادشاہ سلامت کی حکومت پر واضح کر دوں کہ ہم لوگوں کے لیے یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خالص ایک مذہبی معاملہ ہے ‘‘ ۔ اس اقتباس میں اس وقت انہوں نے اپنے اس قول سے یہ ثابت کرنا چاہا کہ اس خالص مذہبی مسئلہ کے لیے مذہبی معاملات میں کمال رکھنے والے گھرانہ فرنگی محل کے ایک فرد کی نمائندگی کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ ان کی باریک بنی اورد ور اندیشی سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس وقت ان کی حیثیت صدر العلماء کی تھی جو کئی مقامات پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔

فر نگی محل اس زمانہ میںعلمی مرکز سے زیادہ اسلامی تحریکوں کا مرکز تھا ۔انیسویں صدی میں دنیا میں ملکوں کے نقشے جس طرح تبدیل ہور ہے تھے اور اتحادو اتفاق کا شیرازہ اتحادی وغیر اتحادی فوجیوں کے ذریعہ بکھر رہا تھا اس کے جو نتائج سامنے آئے اس کو مولانا عبدالباری فرنگی محلی پہلے ہی بھانپ چکے تھے جس سے بر سر پیکار ہونے کے لیے وہ عظیم منصوبہ بندی کے ساتھ ’’ انجمن خدام کعبہ ‘‘ کے بینر تلے علماء کو جمع کر تے ہیں ۔اس تحریک کا قیام دسمبر ۱۹۱۲ ء میں عمل میں آیا جس کے خادم الخدام مولانا منتخب ہوئے اور مولا ناشوکت علی، مسٹر مشیر حسین قدوائی معتمد منتخب ہوئے ساتھ ہی کئی علماء و زعماء ابتدائی ممبر بنے ۔اس تحریک کی ہندو ستان کی تاریخ میں اہمیت بایں وجہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پھرسے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی طاقت ملی اور کئی جلسے اور میٹنگیں منعقد ہونے لگیں جس سے بعد میں خلافت کمیٹی کے قیام میں آسانیاں ہوئیں بلکہ اگر یوں کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ اس تحر یک کو خلافت تحریک کی صورت میں وسعت حاصل ہوئی ۔

پہلی عالمی جنگ عظیم کے درمیان ہندوستان و دنیا میں بہت کچھ تبدیلیاں ہورہی تھیں، ہندوستان میں علماء کا گروہ اپنے طور پر سر گرم عمل تھا جہاں شر یعت محمدیہ کے مطابق حکومت کی کوئی نہ کوئی سبیل تلاش کی جارہی تھی جس کی مثال مولانا عبیداللہ سندھی کا افغانستان میں عارضی حکومت کو دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے علماء کا ایک گروہ پوشیدہ طور پر اپنی کارکردگی میں لگا رہا جس کے لیے جماعت مخلصین کا بھی قیام عمل میں آیا ۔ ادھر عالمی طور پر ۱۹۱۴ ء میں ترکی عالمی جنگ میں شریک ہوا تو خلیفۃ المسلمین نے اعلان جہاد کر کے تمام دنیا کے مسلمانوں کو شرکت کے لیے حکم دیا جو گویا ترکی کی موت کے لیے خود ہی ایک فتویٰ ثابت ہوا۔ پھر چار سال تک جنگ میں تپنے کے بعد ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۱۸ء کو التوائے جنگ کے صلح نامہ پر دستخط ہوا ۔ ادھر ہندوستان میں تحریک ریشمی رومال افغانستان کو اس کے لیے میدان عمل بنانا ،اسی درمیان بر طانیہ کا بار بار ہندکے مسلمانوں کو دلاسہ دینا کہ ہمارا منشابالکل بھی یہ نہیں ہے کہ ہم مذہبی و مقدس مقامات کے ساتھ کچھ چھیڑچھاڑ کریں ( یہ بات تو صرف عوامکے لیے تھی ، جب اصل مقصد توخلافت اور مر کزیت کو ختم کرنا تھا ) مو لانا محمد علی جوہر کی نظر بندی کے بعد مولا نا کا مزید عالمی طور پر شہرت کی بلندی اور امت کے سپاہی کے طور پر مشہور ہونا ، مولانا ابوالکلام آزاد کاایک نیا چمکتا ہوا ستارہ بن کر ابھر نا ، اس کے بعد ہندو ستان میں رولٹ ایکٹ بل کا پاس ہوجانا جیسے واقعات رونما ہورہے تھے جس سے ہندوستانیوں کی جدوجہد میں اچھال آگیا۔۱۸؍ جنوری ۱۹۲۰ ء کو رولٹ بل شائع ہوا ، اس کا شائع ہوناتھا کہ تمام ہندوستان میں آگ لگ گئی ، سوائے چند طرفداران ِ حکومت کے، پوری قوم نے اسکے خلاف آواز بلندکی ، اس وقت کی تمام سیاسی جماعتیں اورلیڈران ایک رائے ہوگئے ۔ اس بل کا منشاتھا کہ ہندو ستانیوں کو ہرقسم کی آزادی سے محروم رکھا جائے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے پاس مذہبی و سیاسی اسٹیج تھا ہی انہیں انگریزوںکے خلاف آواز اٹھا نے کا مزید موقع مل گیا اور اس کے بعد ہندوبھائی بھی ساتھ میں مل گئے ، پھر ہندو مسلم اتحاد کا دل افروز نظارہ روز بروز ہونے لگا جس کے نتیجے میںہندوستا ن صدائے اتحاد وانگریز دشمنی سے کو ہ آتش فشاں بن گیا، مسلمان سروں پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے اور علماء سیاسی مجلسوں میں اپنی بھر پورنمائندگی پیش کر نے لگے ۔ جگہ جگہ انگریزوں کے خلاف علماء کے جلسے منعقد ہونے لگے ،ہندو ستان کے کم و بیش تمام شہر اس سیاسی گھمسان کی چپیٹ میںآگئے کہیںزیادہ تو کہیںکم ، مغربی بنگال اورشہر کلکتہ اس معاملے میں مر کزی حیثیت کا حامل رہا کیونکہ ابھی انگریزی دارالخلافہ کے دہلی منتقل ہوئے کچھ ہی برس ہوئے تھے ، وہاں علمائے بنگال کا دوسرا سالانہ جلسہ جنوری ۱۹۱۹ء میں مولانا آزاد سبحانی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں دیگر علماء کے ساتھ مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی بھی خصوصی شرکت ہوئی جن کی حیثیت ہندوستان میں صدرالعلماء کی تھی ۔ اس برس ہندوستان کی تاریخ میں یکم مارچ ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ کا دلخراش سانحہ پیش آتا ہے جو مزیدہندوستان کے آزادی کے متوالوں میں انگریزوں کے خلافت نفر ت اور جذبۂ حریت کو بھر دیتا ہے ۔ایسے میں ہندوستان کی سیاست میں گاندھی جی کا طلوع ہوتا ہے اور ہندومسلم اتحاد کی گاڑی انگریزوں کے خلاف چل نکلتی ہے جس کا سب سے زیاد اثر خلافت کے جلسوں میں نظرآیا ۔

اس زمانہ کی بہت سی باتیں تاریخ کے صفحات سے غائب ہوچکی ہیں، اخبارات کے ذخائر اب نہیں رہے اور نہ ہی تنظیموں کی میٹنگوں کی کاروائی کی کوئی روداد تاریخ کے صفحات میں رقم ہوسکی جس کی بنیادپر بہت ہی زیادہ ٹھوس بات کسی تاریخی واقعہ کے آغاز کے بارے میں کہی جائے ۔انجمن خدام کعبہ کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ دسمبر ۱۹۱۲ ء میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے گھر میں اس کا قیام عمل میں آیا لیکن خلافت تحر یک کے بارے میں حتمی بات کہیں لکھی ہوئی نہیں ملتی ہے ۔ انگلش میں لکھے گئے دو اہم تھیسس (The Khilafat Movement by syd mohd Riyaz)  اور(The khilafat movement religious symbolism political mobilization in india. by Raziya Nayab)  پر بھی نظر ڈالنے کے بعد کوئی حتمی تاریخ نکل کر سامنے نہیں آئی ۔ اس موضوع پر قاضی عدیل عباسی کی کتاب’’ تحریک خلافت ‘‘ بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کتاب میں وہ شاہ معین الدین ندوی کی کتاب ’’حیات سلیمان‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے اس کی تحقیقات میں بہت وقت صرف کیا کہ کوئی دستاویزی شہادت اس بات کی مل جائے کہ خلافت کمیٹی کب اور کہاں اور کس کی تحریک پر قائم ہوئی مگر افسوس ہے کہ مجھے اس میں ناکامی ہوئی ۔‘‘ (ص ۳۸) اس کے متعلق اپنی جدجہد کو بھی لکھا ہے کہ وہ فرنگی محل گئے اور ان سے بھی ملے جو مولانا کے حالات زندگی ترتیب دے رہے تھے ، ممبئی میں خلافت کمیٹی کے دفتر کودیکھا لیکن وہ مکمل اجڑ چکا تھا ، مولانا امتیازعلی عرشی سے بھی خط وکتابت کی ۔الغرض جتنا ممکن ہوسکا کیا لیکن کہیں سے کوئی اطمینا ن بخش جواب نہیں آیا،لیکن ساتھ ہی جو امکانات ہیں وہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آل انڈیا مسلم کانفرنس جو ۱۸ دسمبر ۱۹۱۹ء ( صفحہ ۹۵ ؍ میں ستمبر لکھا گیا ہے ) کو منعقد ہوئی تھی وہی کانفر نس خلافت کمیٹی میں تبدیل ہوگئی‘‘ (ص ۳۸) پھر وہ اس کا خود بھی رد کرتے ہیں کہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں ایک تجویز ممبئی کی خلافت کمیٹی کے شکریے کی منظور ہوئی تھی۔( اس لیے گمان ہے کہ اس کا آغاز کم و بیش دو سے تین سال قبل ہوا ہوگا)  اس کا ردخود ان کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو کتاب کے صفحہ چالیس میں درج ہے کہ ’’ نومبر ۱۹۱۹ ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر تمام اقطاع ہند کی مقتدر جماعتیں دلی میں جمع ہوگئی تھیں ‘‘ (ص۴۰)لیکن ایک خلافت کانفرنس کا سراغ ملتا ہے جس کو انہوں نے دوسری خلافت کانفرنس لکھا ہے وہ لکھتے ہیں ’’ دوسری خلافت کانفر نس (دلی ) زیر صدارت مولوی فضل الحق کے سلسلہ میں ۲۴ نومبر ۱۹۱۹ء کہ متحدہ اجلاس کا حال اخبارات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ خلافت کانفرنس کا اجلاس اپنی نوعیت کے لحاظ سے اہم ترین تھا ۔ کیونکہ اس خلافت کانفرنس میں صرف خلافت کے مسائل پر غور کر نے کے لیے مادر وطن کی دونوں قوموں کے قائم مقام جمع تھے ۔گاندھی جی ، سوامی شردھا نند، پنڈت کرشن کانت مالویہ ، ڈاکٹر ساورکر مسٹر شنکر لال ، مسٹر موہن جی وغیرہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ‘‘ (ص ۱۵۴) اس میں صاف طور پر تحریر ہے کہ یہ دوسری خلافت کانفرنس تھی ساتھ ہی ان تمام باتوں کی تردید ہوجاتی ہے جو نومبر ۱۹۱۹ء میں پہلی خلافت کانفرنس کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔ساتھ ہی ۱۷ ؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کو جو خلافت تحریک کے ماتحت یو م دعا و جلسہ تجویز کیا گیا اس سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کمیٹی بہت پہلے وجود میں آچکی تھی کیونکہ’’ فروری ۱۹۱۹ء کے ابتدائی ایام میں انجمن مؤید الاسلام فرنگی محل کا ایک جلسہ زیر صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محل میں منعقد ہو ا اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ احکام اسلام کی رو سے بجز موجودہ سلطان ترکی کے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں اور شریعت اسلامیہ کی رو سے خلافت کے باب میں امت محمدیہ کے سوا غیر مسلم کی رائے بے اثر ہے ، مسلمانوں نے جہاں کہیں اس بارے میں آواز بلند کی ہے وہ شریعت اسلامیہ کے بالکل مطابق ہے اور یہ جلسہ اس کی تائید کرتا ہے ‘‘ اس میں دو باتیں سامنے آتی ہیںایک یہ کہ خلافت کی بات فروری سے پہلے ہی سے ہورہی ہے اور اس تعلق سے جلسے بھی منعقد ہورہے تھے ۔ دوسری یہ کہ خلافت کے خلاف بھی بولنے والے پیدا ہوگئے تھے مطلب یہ کہ خلافت کی آوازمضبوطی کے ساتھ بلند ہورہی تھی ۔یہاں مسلم کانفرنس کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی تھی ۔

۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۱۸؍ کو تر کی نے التوائے جنگ کے صلح نامہ پر دستخط کیے اور مئی ۲۰ ۱۹ ء میں تر کی کے سلسلے میں سیور ے کے مقام پر شرائط صلح نامہ نافذہونی تھی ، ابھی تر کی کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا لیکن اتحادیوں نے تر کی کو آپس میں تقسیم کر نا شروع کر دیا تھا اور جنگ بندی کے باوجود انگر یزوں نے موصل کی طرف پیش قدمی شروع کردی تھی اور قسطنطنیہ پر غلبہ حاصل کر لیا تھا تو مسلمانوں میں بے چینی عام ہوگئی تھی ۔ تمام کی خواہش تھی کہ اس مسئلہ شرعی کے متعلق حکومت برطانیہ اور حکومت ہند کے نمائندوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جائے تاکہ لندن میں جو صلح کانفرنس کمیٹی امریکہ ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل کام کررہی ہے اس پر اثر پڑے اور وہ فیصلہ ہو جو مسلمانوں کے جذبات سے ہم آہنگ ہو ۔اس کے لیے ملک بھر میں جلسے ہورہے تھے اس سلسلے میں لکھنؤ میں ایک عظیم الشان آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۸؍ ستمبر کو طلب کی گئی جس میں ہندو ستان کے گوشے گوشے سے ہر طبقہ کی نمائندگی کرنے والے علماء، زعماء ،سرمایہ داراور رسوخ دار شریک ہوئے اس کانفرنس کا داعی کوئی ایک نہیں تھا بلکہ تقریباً چالیس چالیس افراد تھے جن کا تعلق ملک کے مختلف گوشوں اور جماعتوں سے تھا ۔ اس وقت ملک کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت اور بے چینی کیسی تھی اس کا اندازہ کانفرنس کے اشتہار کے عنوان سے لگایا جاسکتا ہے ۔وہ کچھ اس طر ح ہے ۔’’مسلمانوں کی موت و حیات کا مسئلہ ‘‘ ۔ اشتہار میں موجود متن میں بھی مسلمانوں کو تر کی کے تئیں بہت ہی جوش دلا یا گیا ہے ۔ اس کے اصل صدر تو مسٹر ابراہیم جعفر تھے جو بروقت حاضرنہ ہوسکے تو مو لانا عبد الباری کا نام صدارت کے لیے پیش کیاگیا جو بالاتفاق منظور بھی ہوا ۔پھر بعد میں وہ آگئے تو صدارتی خطبہ کاکچھ حصہ انہوں نے ہی  پیش کیا  اور بقیہ مطبوعہ صدارتی خطبہ بانٹ دیا گیا۔ مولا نا عبدالباری نے صدر اوربیرونی مہان کا شکر یہ ادا کیا، صدرکانفرنس نے مولانا عبدالباری کا شکریہ ادا کیا ۔ اس کانفرنس میں خلافت کے قیام کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے بلکہ جو ریزولیوشن پاس ہوئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ ممبئی میں خلافت کمیٹی اپنا کام کررہی ہے تو اس کا شکریہ ادا کیا جائے (شاید زیادہ کام ترکی کے لیے مالی تعاون کا تھا )اسی کانفرنس میں یہ بھی ریزو لیوشن پاس ہوتا ہے کہ خلافت کے لیے ۱۷؍ اکتوبر بروز جمعہ ہندوستان بھر میں یو مِ دعا منایا جائے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی شرکت کی ۔اس قسم کے جلسے و جلوس کئی بڑے بڑے شہروں میں منعقد کیے جارہے تھے اور یہ باضابطہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کا دوسرا جلسہ تھا ، پہلا اجلاس مدراس میں سیٹھ یعقوب کی صدارت میں ۱۷؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو ہوا ، دوسرا لکھنؤ میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں اور تیسرا  ۲۲ ؍ ستمبر کو اور آخر میں ۲۲ ؍ نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں خلافت کانفرنس کے عنوان سے مولانا فضل حق کی صدارت میں ہوا ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کے اجلاس کی تاریخ تحریک خلافت سے یکسر مختلف ہے کیونکہ تحریک خلافت پہلے ہی سے شروع ہوچکی تھی اور مختلف احتجاجی اجلاس اس کے لیے منعقدہورہے تھے لیکن باضابطہ خلافت کانفرنس نومبر ۱۹۱۹ء سے شروع ہوتی ہے ۔اس مسئلہ کے بعد تحریک خلافت کے بنیاد گزا ر مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی خدمات کی جانب رجوع ہوتے ہیں ۔ 

یہ بات واضح ہے کہ اس زمانہ میں فرنگی محل ہندوستان میں ملکی و عالمی سیاست کامرکز تھا اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی اس پورے میدا ن میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے ۔نومبر ۱۹۱۹ ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر ہندوستا ن بھر کے نمائندے شریک ہوئے تھے جن میں رفاہی ومسلکی تنظیموں کے سربراہان کی کثیر تعداد میں شرکت ہوئی تھی ۔ کانفرنس کے بعد علمائے کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی ۔وہیں سے اس عظیم الشان جمعیۃ علماء ہند کاقیام عمل میں آیا ۔ اس زمانہ میں ہندو ستا ن کے بیدار مغز افرادمیںعلماء کا منصب حکومت سے لیکر عوام تک سب سے زیادہ تھا تو مولانا نے علماء کی باہمی مخالفت اور مسلکی و مذہبی نزاعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بقائے خلافت کے لیے اس عظیم الشان جماعت کی بنیادڈالی ۔ اگرچہ اس وقت کے علماء کے اذہان میں اس کو لیکر مختلف نظریات ہوں لیکن مولا نا عبدالباری کے ذہن میں جو بات تھی اس جماعت کے قیام کو لیکر وہ بالکل واضح تھی کہ اس شرعی مسئلہ خلافت میں ہند کے تمام علماء کو ایک نظریہ پر جمع کیا جاسکے ۔وہ علماء جو فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے اتنے دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے سے مناظرے تک ہوا کر تے تھے۔ مسجدیں  مسالک کے ساتھ پابند ہوگئی تھیں ایسے وقت میں پہلی مرتبہ مولانا عبدالباری کی کوششوں سے ایک جگہ مسئلہ خلافت کے لیے سر جو ڑ کر بیٹھنے والے علماء درج ذیل ہیں ۔

مولانا عبد الباری ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، پیر امام محمد سندھی، مولانا اسداللہ سندھی ، مولانا سید محمد فاخر الہ آبادی ، مولانا مولوی محمدانیس ، مولانا خواجہ نظام الدین ، مفتی کفایت اللہ ، مولانا محمد ابراہیم دربھنگہ ، مولانا خدا بخش مظفر پوری ، مولانا عبدالحکیم گیاوی، مولانا محمداکرام، مولانامنیرالزماں ، مولانا محمد صادق ، مولانا سید محمد داؤد ، مولانا سید محمد اسماعیل ، مولانا محمد عبداللہ اور مولانا آزادسبحانی ۔

  یہ علماء اپنی ذات میں خود ایک تنظیم کی حیثیت رکھتے تھے اور شرعی امور کی جزئیات میں آپسی اختلاف بھی تھا ۔ لیکن مولانا کی یہ صلاحیت تھی کہ انہوں نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مسئلہ خلافت پر امت مسلمہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لائے ۔ مجھے جہاں تک لگتا ہے اسی تحریک کی دین ہے کہ تمام علماء اس مجلس میں جمعیۃ کے قیام کے لیے ایک آواز ہوتے ہیں جو اتحاد کی ملکی شکل تھی ۔  ملک میں خلافت کی ایسی ہوا چلی کہ اس وقت جو بھی جماعت قائم ہورہی تھی اس کے مقاصد میں سے اہم مقصد خلافت ہوتا تھا ۔ اسی کا اثر تھا کہ کانگر یس اس عہد میں مکمل طور پر دوسرے امور کے ساتھ خلافت کے لیے کام کر رہی تھی۔ جمعیۃ کاقیام تو خلافت تحریک کی شباب پرہوا ہی ہے ساتھ ہی مسلم لیگ اور کانگریس بھی اس معاملہ کو اپنے دامن میں نمایاں جگہ دے رہے تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ تحریک خلافت کے بعد ہی کانگریس میں جان آئی تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔مسلمان تر کی حکومت کو لیکر مکمل طور پر بیدار ہوچکے تھے، جگہ جگہ احتجاجی جلسے ہورہے تھے اور جلوس نکل رہے تھے ایسے وقت میں گاندھی جی ہندوستان کی سیاست میں داخل ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ آزادی کی طاقت جو ٹکڑیوں میں بکھری ہوئی ہے اور اپنے اپنے علاقوں میں محدود ہے ان سب پر ہلکی سی توجہ دی جائے او ر سب کو یکجا کیا جائے چنانچہ گاندھی جی نے ان طاقتوں سے ملنا شروع کردیا ۔لکھنؤ میں مولانا عبدالباری سے فرنگی محل میں ملاقات ہوتی ہے اور تحریک خلافت میں بھر پور تعاون کی امید دلاتے ہیں تو جب اس معاملہ میں برادارن وطن کا سہارا ملا تو مسلمان کو بہت ہی زیادہ حوصلہ ملا اور مہاتما گاندھی باضابطہ دہلی کی خلافت کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ یہ جلسہ اگر چہ عملہ اور اراکین کا تھا لیکن گاندھی جی کی عظمت کی وجہ سے ان کی شرکت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ ہندو برادران نے بھی نمائندگی کے طور پرشرکت کی ۔ اس کے بعد سے ہندوستان کے ہندو اور مسلمان ہر جلسہ میں برابر کے شریک رہے ۔

کانگر یس ،جمعیۃ اور خلافت کے اجلاس ایک ساتھ الگ الگ دن امر تسر میں منعقد ہوئے۔ مولا نا محمد علی جوہر ہندوستان بھر میں اپنی تحریروں اور جوشیلی تقریروں کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ ان کی تحر یروں کو اہمیت دینے لگا تھا اور حکومت کی ناز برداری کا تمغہ گلے سے اتر چکا تھا اور وہ ہندوستان کے متفقہ لیڈر بن چکے تھے ، امرتسر کے اجلاس میں کانگر یس کی طرف سے دعوت ملی تو بیتول جیل سے رہا ہوکر سیدھے اجلاس میں پہنچے ،حسب دستور و فطر ت طویل تقریر کی جو بے حد پراثر اور جذباتی تھی ، ان کے مزاج میں طویل تقریر تھی، ان کے بر عکس مولانا شوکت علی کا مزاج تھا ۔ اسی وجہ سے عام طور پر ان کو کم علم سمجھا جاتا تھا لیکن بڑے ذی ہوش اور لائق آدمی تھے ، تقریریں مختصر کرتے تھے۔ تنظیمی ڈھانچہ کو سنبھالنے میں ان کو مہارت تھی ۔ دونوں بھائی دوالگ مزاج کے حامل تھے محمد علی جوہر الجھتے بہت تھے حتٰی کہ گاندھی کو بھی جلدی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اورشوکت علی خاموش مزاج کے حامل تھے ۔ دونوں بھائی مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے مرید  تھے تو مولانا دونوں کی انفرادیت اور صلاحیت سے بھی واقف تھے ۔ محمد علی جوہر کی اہمیت اپنی جگہ مسلم تھی لیکن شوکت علی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مولا نا عبد الباری فرنگی محلی نے خلافت کانفرنس کی صدرات کے لیے شوکت علی کا نام پیش کیا جس کی تائید مولا محمد داؤد غزنوی ، مولافضل الرحمان ایڈیٹر ’ اخوت ‘ ، ابوالقاسم کلکتہ، سیٹھ احمد حاجی صدیق کھتری اور مسٹر موسیٰ بال صاحب رنگون نے کی ۔ اس موقع پر انہوں نے بہت ہی مختصر تقریر کی جس کو چند سطروں میں لکھا جا سکتا ہے تقریر کے دو ہی حصے ہیں جس کا ایک حصہ یہ ہے : ’’ اگر آپ دنیوی اقتدار کے لیے خدا اور رسول کے احکام کو نظرانداز کرنے کے لیے تیا ر ہیں تو میرا اور آپ کا ساتھ نہیں ۔ اس وقت کام یہ ہے کہ تمام عالم جمع ہوکر احکام شرعی پر غور کر کے فیصلہ کرے کہ آپ کا فرض کیا ہے ۔ ریزولیوشن پاس کردینا کچھ مشکل کام نہیں ۔ میں نے ایک فقرہ اپنے بھائی معظم علی کو لکھا تھا جس پر مجھ سے سوال کیا گیا تھا وہ فقرہ ایسا تھا کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جو ترکوں کی فتح کا خواہشمند نہ ہو ۔اس پر میں نے کہاکہ اس کا جواب دینے سے قبل میں ایک سوال کر تا ہوں کہ اگر ہمیں یہ مذہبی آزادی حاصل ہے تو ہر مسلمان یہ کہے گا اور اسے کہنے کا حق ہے ۔ ہمیں ملک معظم اور وائسرائے کے پاس وفد روانہ کرکے ان سے کہہ دینا چاہیے کہ اگر صورت حال یہی ہے تو ہمارے لیے دوصورتیں ہیں ۔ ہجرت یا جہاد۔ ہمارا وفد خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں جانا چاہیے جس میں معذرت کی جائے کہ ہم نے اپنے فرض کو پس پشت ڈالا ۔‘‘ ( ص ۱۲۵)

صدارتی تقریر کے اس حصہ میں دو باتیں بہت ہی واضح طور پر نظرآتی ہیں ایک ہجر ت اور دوسری جہاد ۔ تو اس زمانہ میں ہجرت کی بات بھی بہت تیزی سے چل رہی تھی اور غلط فہمی کی بنیادپر کثیر تعداد میںہندوستانی افغانستان کی جانب ہجرت بھی کی ۔اس کاذکر آگے آئے گا ۔ فی الوقت یہ بات آگے بڑھائی جاتی ہے کہ مولانا شوکت علی نے وفد کے روانہ کی بات کہی تو اس پر عمل در آمد شروع ہوجاتا ہے ۔

دہلی میں۲۰؍ جنور ی ۱۹۲۰ ء کو ایک جلسہ منعقد ہوتا ہے جس میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ لوکمانیہ تلک ،لالہ لاجپت رائے او ربپن چندر پال جیسے چوٹی کے لیڈر جمع ہوئے اور خلافت کے مسئلہ پر آپسی گفت و شنید ہوئی جس میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا ۔ وفد کی بات بھی سامنے آئی تو اس میں طے پایا کہ وفد بھی لے جایا جائے ۔چنانچہ وفد مرتب کیا گیا اس کے صدر مولانا محمد علی جوہراور سکریٹری حسن محمد حیات منتخب ہوئے اور ارکان میں سید حسین ، مولانا سید سلیمان ندوی اور ابوالقاسم تھے ۔مولانا محمد علی جوہر نے ایک میموریل تیار کیا جس پر اس وقت کے اکابر رہنماؤں کے دستخط ہوئے ۔۲۲ ؍ فروری ۱۹۲۰ء کو وفد وینس پہنچا وہاں پہلے مسٹر فشر سے ان لوگوں کی ملاقات ہوئی ۔ مولانا محمد علی جوہر انگریزی زبان میں یکتا تھے ہی تو انہوں نے بہت ہی سے زور و شورسے اپنی بات رکھی اور مذہبی احکامات کاحوالہ دے کر ان کے سامنے دو مطالبے رکھے ۔

( ۱) خلافت ترکی کو بحال رکھا جائے ۔

(۲) مقامات مقدسہ یعنی مکہ ، مدینہ ، بیت المقدس اور تمام مقدس مزارات خلیفہ کی نگرانی میں ہونے چاہئیںجیسے کہ جنگ سے پہلے تھے ۔ پھر مسلمان بھی خوش ہوجائیں گے کہ ان کی وفاداری کے صلے میں جزیرۃ العرب اور مقامات مقدسہ کا احترام باقی رکھ کر خلافت کی پہلی جیسی پوزیشن قائم رہ گئی ۔

اس کے جواب میں مسٹر فشر نے ضابطہ اور پروٹوکول کے مطابق جواب دیا جس میں کچھ امید بھی دلائی اور کچھ ناامیدی بھی پیدا کی ۔ بالآخر وفد مسٹر لائیڈ جارج سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہی ۔وہاں بھی مولانا محمد علی جوہر اپنی بات زورو شور سے کہتے رہے لیکن منطقی وجوہ سے جارج نے ہر بات کی تردید کی کیونکہ انگریز صدیوں سے جو محنت کر رہا تھا اس پر وہ کیسے کچھ برداشت کرتا۔ پھر اس وفد کو سرکار ی طور پر مطلع کر دیا گیا کہ :

’’(۱) تر کی کے ساتھ انہی اصولوں کے مطابق معاملہ کیا جائے گا جن کے مطابق دوسرے ممالک سے معاملہ کیا گیا ہے ۔اس معاملہ میں اس کے ساتھ کوئی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی ۔

(۲) تر کی حکومت کو ترکی علاقوں پر حکومت کر نے کی اجازت حاصل ہوگی ۔

(۳) لیکن اسے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ غیر ترکی علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھے ۔‘‘ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری ، ج۲، ص ۱۱۳) 

اس کے بعد وفد نے مسٹر ایسکویتھ اور لیبر پارٹی کے ان ارکان سے ملاقات کی جنہوں نے اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی ۔غرضیکہ وہاں کوئی بات نہیں بنی تو برٹش عوام کو ہموار کرنے کے لیے عوامی میٹنگیں کیں اور جلسہ بھی کیے ۔ پیرس بھی گئے وہاں کے لوگوں کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا ، جزیرۃ العرب بھی گئے وہاں کے لوگوں کو خلیفہ کے ماتحت لانے کے لیے ہموار کرتے رہے لیکن وہ زبان سے تو ہاں ہاںکہتے رہے لیکن دل سے اس لالچ کے ساتھ تھے جو انگریزوں نے الگ الگ ملک بنا کر دینے کو کہا تھا اور سب برطانیہ کے وظیفہ خوار نکلے ۔ 

 وفد کی برطانیہ روانگی سے خلافت کی ہوا ملک بھر میں زوروشور چل رہی تھی ۔ گاندھی جی تو شامل ہوہی گئے تھے اور خلافت ایک چھتنار در خت بن چکا تھا جس سے کئی تحریکیں اب رو نما ہونے والی تھی مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی برسوں کی محنت و قیادت اب بار آور ہونے والی تھی انہوں نے عوام و خواص کے دل میں انگریز کے خلاف اور شریعت کی پابند کا جو بیج بویا تھا وہ اب لہلہانے والا تھا ۔اور خلافت کے جلسوں سے یا یو ں کہہ لیں کے خلافت کے بینر تلے شروع ہونے والی تھی عدم تعاون کی تحریک ۔ گاندھی جی دہلی کے جلسے میں جب شریک ہوئے تو انہیں اس بات کا اندازہ بخوبی ہوگیا تھا کہ ابھی انگریزوں کی مخالفت میں سب سے آگے مسلم قوم ہے تو انہوں نے اس ایندھن کو بہت اچھی طرح استعمال کیا اورجب ۲۳ مارچ ۱۹۲۰ ء کو میر ٹھ کا خلافت کانفرنس بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوئی تو پہلی مرتبہ گاندھی جی پبلک پلیٹ فارم پر آئے اور خلافت کے اسٹیج سے عدم تعاون کا پروگرام پیش کیا ۔جس میں دو بنیادی باتیں یہ تھیں ۔

(۱) تمام سرکاری خطابات اور سول عہدوں سے علاحدگی 

(۲) ٹیکس اور دوسرے سرکاری واجبات کی ادائیگی سے انکار 

گاندھی جی کی پیش کش کے بعد مولانا آزاد کی زبر دست تقریر ہوئی جس کی بنیا د پر اس پر پہل کرنے والے سب سے پہلے حکیم اجمل خاں تھے ۔ انہوں نے گویا حکومت کی جانب سب سے پہلاپتھر پھینکا اور ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ کر تمام خطبات و تمغات واپس لوٹا دیے ۔ پانچ دن کے بعد ۲۸مارچ ۱۹۲۰ ء کو لاہور میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وہ فوج اور پولیس کی ملازمت بھی تر ک کر نے کو کہتے ہیں ۔ گویا اب تین امور پر عدم تعاون کی تحر یک شروع ہوتی ہے ۔اس کے بعد فورا ً اپر یل کے پہلے ہفتے میں یو پی کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اجلاس ہوتا ہے تا کہ مسئلہ خلافت پر بر طانیہ پر دباؤ بنانے اور جد و جہد آزادی کے لیے عوام کو عدم تعاون کے لیے تیار کیا جا سکے ۔ چنانچہ علماء نے اس کام کے لیے کمر کس لی اور اعزاز واپس کر نے پر زبردست خراج تحسین پیش کر نے لگے ۔اس تحریک میں تو ہندوستان کے تمام مسالک کے علماء متحد تھے ساتھ ہی اس کے ماتحت جب عدم تعاون کی تحریک گاندھی جی کے ذریعے شروع ہوئی تو اس میں بھی فقہی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور ہندو ستان کے نو سو جید اور اہل راے علماء نے ترک تعاون کے حق میں فتویٰ دیا ۔ان میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے ۔مفتی کفایت اللہ ، مولانا احمد سعید دہلوی (دیوبندی ) ۔ مولانا ابوالوفاء ثنا ء اللہ امر تسری ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی ، مو لانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ، مو لانا عبدالحکیم گیا وی ( اہل حدیث )۔ مو لانا سید محمد فاخر بیخود الہ آبادی سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل ، مولا نا عبدالماجد بدایونی ( بریلوی ) مو لا عبدالباری فرنگی محلی اور مولاناابوالمحاسن سجا د بہا ری ( اعتدال پسند ) جیسے قدآور علماء نے فتویٰ دیا ۔اگر چہ کئی علما ء نے انفرادی طور پر مخالفت بھی کی لیکن مولانا احمد رضا خاں نے مخالفت میں بڑی سرگرمی دکھائی ۔ تحر یک کی مخالفت میں زبر دست مہم چلائی اور ہندؤں کے ساتھ مل کر استخلاص وطن کی جدو جہد میں ازروئے اسلام حرام قرار دیا ۔الغر ض تحریک خلافت کے لیے جو کچھ بھی معاون ہوتا اس کے لیے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کمر بستہ رہتے جس کی ایک مثال یہ فتویٰ بھی ہے ۔

عدم تعاون کی تحریک اگر چہ خلافت کے اسٹیج سے شروع ہوئی لیکن اس کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ اس سے انگریز سب سے زیادہ پریشان ہوئے ۔ اس تحریک میں گاندھی جی کی دعوت پر آزادی کامل کی جانب سر بکف دوڑنے والوں میں سیکڑوں غیر مسلم رہنما شریک ہوگئے ۔ ہزاروں طلبہ کالج سے اسٹرائک کر نے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں الگ بھی ہوگئے ۔سر کاری نوکریوں سے افراد جدا ہونے لگے اور سر کاری اداروں اور اسکیموں کا بائیکا ٹ ہونے لگا ۔جس کافائدہ قوم کو یہ ملا کہ نئے نئے قومی ادارے وجود میں آنے لگے ۔کلکتہ میں نیشنل کالج قائم ہوا، بہار میںودیا پیٹھ بنا ۔ پٹنہ ، احمدآباد ،ممبئی ،بنارس اور دلی میں نیشنل کالج قائم ہوئے ، بنگال ، بہار اور گجرات میںنیشنل یونی ورسٹیاں عمل میں آئیں ۔اسکولوں کے بائیکاٹ اورقومی درس گاہوں کے قیام کی مہم جاری رکھی گئی اسی کڑی میں راجندر پر شاد کی کوششوں سے پٹنہ گیا روڈ پر ایک کالج قائم ہوا اور وہ خود اس کے پرنسپل مقرر ہوئے اور کئی اعلی صلاحیت کے پروفیسراستعفی دے کر اس کالج میں آگئے ۔

پٹنہ انجینئر نگ کالج سے صداقت آشر م کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے ۔ انجینئرنگ کالج کے تقریبا ۲۵۰؍ لڑکے تعلیم کو خیرآباد کہہ کر مسٹر مظہر الحق بیر سٹر کے پاس گئے اور وہیں سے صداقت آشرم کی بنیاد پڑی ۔ اورعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے جامعہ کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے ۔ عدم تعاون کی تحریک زوروں پر تھی اور یونی ورسٹی سرکارکی امداد سے چل رہی تھی یہاں کئی مرتبہ ہنگامہ خیز حالا ت بنے کئی جلسے ہوئے مخالفت و موافقت پر تقریریں ہوتی رہیں با لآخرجب حالات یہاںتک پہنچے کہ مو لانا محمد علی جوہرنے ان طلبہ کو آواز دی جو ان کے ساتھ آناچاہتے تھے ۔ ان کو لے کر مولانا اولڈ بوائز لاج پہنچے( جو کالج کی ملکیت نہیں ہوتی ہے) لیکن وہاں سے بھی نکالے گئے پھر ’’ ڈیڑھ سو طلبہ اپنے سامانوں کو اپنے سروں پر اٹھائے محمد علی کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ درس گاہ سے باہر نکل گئے اور ایک نیشنل مسلم یونی ورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ) علی گڑھ میں قائم کردی گئی ۔اور وہیں مولانا محمد علی نے اقامت اختیار کرلی ۔ پہلے مولانا محمد علی خود پرنسپل تھے اور حسب عادب صبح سے شام تک تقریریں کیا کرتے تھے۔ بعدہ خواجہ عبدالحمید صاحب شیخ الجامعہ قرار دیے گئے ۔‘‘ اسی کڑی میں ندوہ بھی ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ماہانہ ہزار روپے کا خرچ تھا جس میں سے پانچ سوروپے گورنمنٹ کی جانب سے ملتا تھا تو ندوہ نے یہ امداد لینے سے منع کردیا اس لیے اس کو صرف نواب بھوپال کے ہی امداد پر صبر کرنا پڑا ۔ اسی طریقے سے مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ڈھائی سوطلبہ کو مولانا آزاد نے الگ کرالیا۔ ان کے لیے مسجد ناخدا میں ایک قومی مدرسہ قائم کیا گیا اور اس مدرسہ میں مولانا حسین احمد مدنی بطور استاد چارج لینے کو تیار تھے ۔یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ قصبات و شہروں میںبھی نیشنل کالج اور اسکول کھلنے لگے جو حکومتی تعاون کے محتاج نہیں ٹھہرے اور ترک موالات کی تحریک اپنے مقصدمیں آگے بڑھتی چلی گئی ۔

خلافت تحریک میں مو لانا عبدالباری فرنگی محلی اپنے شاگر د رشید مولانامحمد علی جوہر کوتحریک خلافت کے میدان کا مرد مجاہد بنا تے ہیں اور عوامی جذبات کی قدر کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ جلسے و جلوس آزادانہ طور پر نہ منعقد کیے جائیں بلکہ مرکزی خلافت کمیٹی سے اجازت لے کر کیے جائیںاور ہر جلسہ و میٹنگ میںمیری شرکت کو ضروری نہ سمجھیں۔ اس تعلق سے مولانا کاایک خط ہمدم میں اپریل ۱۹۲۰ ء کے آخر ی ہفتہ میں شائع ہوتا ہے ۔

’’ خلافت کانفرنسیں بقدر ضرورت ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں ۔ جہاں مسلمان ضرورت سمجھیں کریں اور بلا ضرورت محض دیکھا دیکھی ایسے کانفرنسوں کے انعقادکی اب ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ میری راے یہ ہے کہ مسلمان اس سلسلہ کو موقوف کریں ۔ خصوصاً بغیر اجازت سینٹرل کمیٹی ممبئی کے انعقاد کسی کانفرنس کا خلافت کے متعلق ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ اور شرکت اس قسم کے جلسے کی اصولاً لازم نہیں ہے ۔ وقت کام کرنے کا ہے دوسروں پر اپنا بار نہ ڈالے ۔ اگر ملک کے کسی حصے میں ضرورت انعقاد کانفرنس کی ہو تو مقامی حضرات اس میں شرکت فرمائیں ۔ ایک دو مقرر و علماء باہر سے بھی بلا لیے جائیں ۔ مگر تمام مشاہیر کی دعوت بلا ضرورت قابل ترک ہے ۔میں نے اپنے متعلق فیصلہ کر لیا ہے کہ سوائے اس صورت کے میری شرکت سے معتد بہ فائدہ مقصود ہو محض نمائش کے لیے بلا رو رعایت جلسوں کی شرکت سے انکار کردوں گا … مجھ سے میرے احباب خواہش کر تے ہیں کہ میں سر بر آوردہ حضرات کو ان کی مرضی کے موافق تکلیف دوں ۔ اب تک اس خدمت کو انجام دیا ۔ اب اس قدر زائد یہ خدمت لی جانے لگی ہے کہ اس کے انجام دینے سے قاصر ہوں ۔ میری حالت یہ ہے کہ :

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری را ہ لگ اپنی: تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہم بیزار بیٹھے ہیں 

(تحریک خلافت ،ص ۱۴۴) 

اس کے بعد کی سرگرمیاں ایسی رہیں کہ صرف اہم مقامات پر مولاناکی شرکت نظر آتی ہے جو ہمیں آگے بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ 

  اوپرتحریروں مولانا شوکت علی کے خطبے میں ’ جہاد اور ہجرت ‘ کا ذکر آیا تھا ۔ وہ محض ایک ذکر نہیں تھا بلکہ اس مسئلہ پر تحریک عدم تعاون سے پہلے ہی یعنی ماہ فروری میں ہی اخبار ات و رسائل میں چھپنا اور فتاویٰ کا دور شروع ہوچکا تھا ۔ ۱۹۲۰ کے اوائل کا دور ہوتا ہے علی برادران کی مقبولیت آسمان کو چھورہی ہوتی ہے ، گاندھی جی میدان میں قدم جما رہے ہیں مولانا آزاد بھی یکم جنوری کو رانچی جیل سے رہا ہو جاتے ہیں اور وہ تیسری خلافت کانفرنس کلکتہ کے صدر منتخب ہوتے ہیں جہاں وہ مسئلہ خلافت پر بہت ہی مبسوط اور مدلل خطبہ پیش کرتے ہیں اور کانفرنس کے دوسرے دن اپنی اسکیم کی وہ بنیاد ڈالتے ہیں جس کا ذکرمولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ’’ذکر آزاد‘‘میں کرتے ہیں :

’’مولانا کی اسکیم کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کو مذہب کی راہ سے منظم کیا جائے ۔ مسلمانوں کا ایک امام ہو اور امام کی اطاعت کو وہ اپنا دینی فریضہ سمجھیں ۔مسلمانوں میں یہ دعوت مقبو ل ہوسکتی ہے ۔اگر قرآن و حدیث سے انہیں بتادیا جائے کہ امام کے بغیر ان کی زندگی غیر اسلامی ہے او ر ان کی موت جاہلیت پر ہوگی ۔ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد امام کو مان لے تو امام ہندؤں سے معاہدہ کر کے انگریزوں پر جہاد کا اعلان کر دے اور ہندو مسلمانوں کی متحدہ قوت سے انگریزوں کو شکست دی جائے ۔مگر امام کو ن ہو؟ اس منصب کے لیے زیادہ سے زیادہ معتبر آدمی کو چننا ہوگا ایسے آدمی جو کسی قیمت پر دشمن کے ہاتھ نہ بک سکے ۔ ساتھ ہی امام کو ہوشمند اور حالات زمانہ سے کما حقہ واقف ہونا چاہیے ۔ ظاہر ہے مولانا اپنی ذات سے زیادہ کسے امامت کا اہل سمجھ سکتے تھے ۔ 

’’اس کے بعد طے پایا گیا کہ امامت کا مسئلہ پبلک میں لانے سے پہلے اندر اندر مولانا کی امامت کے لیے ملک بھر میں بیعت لینا شروع کر دیا جائے تاکہ جب یہ معاملہ سامنے آئے تو امامت کی بیعت واقعہ بن چکی ہو ۔ اس سے لوگوں میں رشک و رقابت کا سد باب ہوجائے گا اور مسلمان ایک امام پر متفق ہوکر ہندوستان کو غلامی سے نجات دلا سکیں گے ۔ ‘‘ 

اس کے بعد وہ بیعت و امامت کا خط تیار کر تے ہیں جس کے ذریعہ مولانا عبدالرزاق ملیح آباد کے دست پر بیعت کیا جاسکے ۔ پھر بیعت و امامت کا مکمل دور چلتا ہے جس میںان کا وہ فتویٰ بھی شامل ہے جس میں وہ ہجرت کی بات کہتے ہیں وہ فتویٰ تو طویل ہے لیکن ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں :

’’ تمام دلائل شرعیہ حالات حاضرہ مصالح مہمہ امت اور مقتضیات و مصالح پر نظر ڈالنے کے بعد پور ی بصیرت کے ساتھ اس اعتقاد پر مطمئن ہوگیا ہوں کہ مسلمانان ہند کے لیے بجز ہجرت کوئی چارہ شرعی نہیں ہے ۔ ان تمام مسلمانوں کے لیے جو اس وقت ہندوستا ن میں سب سے بڑا اسلامی عمل انجام دینا چاہیں ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں اور جو لوگ یکایک ہجرت نہیں کر سکتے وہ مستعد مہاجرین کی خدمت و اعانت اس طرح انجام دیں گویا وہ خود ہجرت کر رہے ہیں ‘‘  

یہ فتویٰ کے شروع کا حصہ ہے ۔ آپ سب کو اس بات کا علم ہے کہ مولا نا ابوالکلام آزاد کے نام سے پہلے امام الہند بھی لگا یا جاتا ہے ۔ اس کی کہانی بھی اسی فتوی سے شروع ہوتی ہے ۔ فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں :’’ اعمال ہجرت کا جو نمونہ اسوۂ حسنہ نبوت نے ہمارے لیے چھوڑا ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت سے مقدم ہجرت کی بیعت ہے ۔ بغیر بیعت ہجرت نہیں کرنی چاہیے ۔ جو لوگ ہجرت کریں وہ ہجرت پر پہلے بیعت کرلیں۔‘‘ یعنی مولانا کے دل میں یہ بات چل رہی تھی کہ امامت کا منصب جو شاید اب تک کسی کے پاس نہیں ہے اور عوامی طور پر اس سے مضبوط ہوا جاسکتا ہے اس پر شاید انہوں نے ہجرت و امامت کو ایک ساتھ پیش کیا ۔ گویا یہ ہجرت کی بیعت بعد میں پہلے امامت کی بیعت تھی اور یوپی میں اس کے لیے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی تھے۔ اس تعلق سے قاضی عدیل عباسی لکھتے ہیں : 

’’ عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہجرت کا فتویٰ مولانا عبدالباری نے دیا تھا ۔ اس فتویٰ کی تمام تر ذمہ داری مولانا ابوالکلام آزاد پر ہے ۔ غلام رسول مہر نے مجھ سے کہا کہ پنجاب ، سندھ اور سرحد پر مولانا کا اثر رانچی کی نظر بندی سے پہلے اتنا گہرا تھا کہ جب وہ لاہور جاتے تھے تو ایک ایک لاکھ آدمی دور دراز سے جمع ہوتے تھے اور اتنی گرمجوشی سے نعرہ تکبیر بلند کر تے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پھٹ پڑے گا ۔ سندھ پر مولانا کا اثر ان کے خط مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۲۰ء سے بھی ظاہرہے جو انہوں نے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو بسلسلۂ تحریک امامت لکھا تھا‘‘ ۔ (ص ۱۳۴) 

مولاناکا یہ کام زور وشور سے جاری تھا کہ اسی بیچ جون میںشیخ الہند مالٹا کی قید سے چھوٹ کر آتے ہیں اور لکھنؤ تشریف لے جاتے ہیں وہاں مولانا عبدالباری کے یہاںقیام ہوتا ہے ۔ وہاں پر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ان دونوں بزرگوںسے ملنے جاتے ہیں اور مولانا ابو الکلام آزاد کے امام الہند بننے پر راضی کرنا چاہتے ہیں مگر دونوں بزرگ اس بات کو ٹال جاتے ہیں ۔اس متعلق مولا نا عبدالباری فرنگی محلی کی ایک تحریر عدیل عباسی نقل کر تے ہیں :

’’مولانا محمود حسن سے دریافت کیا تو وہ بھی اس بار (بات ) کے متحمل نظر نہیں آتے ۔ مو لانا ابو الکلام صاحب اسبق و آمادہ ہیں ۔ ان کی امامت سے مجھے استتکاف نہیں ہے بسرو چشم قبول کرنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ تفریق جماعت کا اندیشہ نہ ہو ۔ مولانا تو اہل ہیں کسی نا اہل کو اکثر اہل اسلام قبول کر لیں گے تو وہ لوگ سب سے زیادہ اطاعت گزار وفرمانبردارمجھے پائیںگے ۔ اصل یہ ہے کہ یہ تحریک دیانتا ً میں اپنی سمت سے جاری کرنا نہیں چاہتا نہ کسی کو منتخب کر کے اس کے اعمال کا اپنے اوپر بار لینا چاہتا ہوں ۔ مسلمانوں کی جماعت کا تابع ہوں اس سے زائد مجھے اس تحریک سے تعرض نہیں ۔ والسلام ۔ بندہ فقیر عبدالباری ۔‘‘

اس تحریرسے بھی مولا نا اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور کہتے ہیں ’’ مولوی عبدالباری کاخط دیکھا ’ یار ما ایں دارد آں نیز ہم ‘ سر دست اس قصہ کو تہہ کیجیے اور کام کیے جائیے ۔ پنجاب ، سندھ ، بنگال میں تنظیم مکمل ہے ۔ لیکن بہت ہی زیادہ امامت پر بیعت لینے کے بعد بھی وہ ستمبر ۱۹۲۰ء میں تحریک امامت کو ختم کردیتے ہیں اور اس کی وجہ بھی وہ کہیںنہیں ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن اس متعلق مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اس طرح رقم طراز ہیں ۔

’’ لیکن مولانا محمد علی نہایت مستعد لیڈر تھے اور طوفانی طبیعت رکھتے تھے ۔ان کا اثر بڑی تیز ی سے بڑھ رہاتھا اور مولانا کی امامت ہی کے نہیںخو د مولانا کی ذات کے سخت مخالف تھے ۔ دونوں میں عمر بھر رقابت رہی ۔ قدرتی طور پرمولانا نے جو از حد معاملہ فہم اور ٹھنڈ ی طبیعت کے مالک تھے محسوس کرلیا کہ علی برادران سے تصادم مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دے گا ۔ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی انہی برادران کے ساتھ تھا ۔ پھر فرنگی محل بھی مخالف تھا اور گو شیخ الہند کی طرف سے مخالفت نہ تھی مگر دیوبند کا طاقتور حلقہ بھی مو لانا کا طرفدار نہ تھا ۔ اس صورت میںمسئلہ امامت کا آخر تک پہنچانا دانشمندی کے خلاف تھا ‘‘ (تحریک خلافت ص ۱۳۰)

اب مولانا عبدا لباری کے فتویٰ کی جانب رجوع ہوتے ہیں جو انہوں نے ہجرت کے سلسلے میں دیا تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح مولانا نے از خود فتویٰ نہیں دیا تھا بلکہ ہجر ت کا ارادہ کرنے والاایک شخص غلام محمد عزیز امرت سری نے بذریعہ تار مولانا سے فتویٰ طلب کیا تھا تو مولانا نے حسب ذیل جواب دیا :

’’ ہجرت کے متعلق میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ تمام مسلمان جو اپنے (ضمیر قلب یا ایمان )کو مطمئن نہیں کرسکتے وہ اب اسلام کے مطابق عمل پیرا ہوں اور اس ملک سے ہجرت کر کے ایسے مقام پر چلے جائیں جہاں اسلام کی خدمت انجام دینا اور اسلامی قوانیں (شرع شریف) کے مطابق عمل کرنا بہتر طریق ممکن ہو ‘‘ ۔

مولانا آزاد اور مولانا فر نگی محلی کے فتویٰ میں آسمان زمین کا فرق ہے دونوں میں ہجرت کی بات ہے لیکن مولانا آزادکے یہاں اس قدر لازمی ہے کہ بجز اس کے کوئی چارہ نہیں نظر آتا ہے اور فرنگی محلی کے یہاں بھی ہجرت ہے لیکن وہ ہجرت کو فرض نہیں کہتے ہیں اور نہ ہی مجبور کرتے ہیں ۔ بنظر دیگر تمام افر ادبھی شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت کی بات اس شدت سے کی جارہی تھی کہ زبان در زبان دارالحرب کی بات ہورہی تھی اور دارالحرب سے ہجرت ضروری ہے اس پر عمل ہورہا تھا۔ ایسے میں کسی بھی انسان کا ضمیر یا قلب کیسے گوارہ کر تا کہ وہ امور شرعیہ کی انجام دہی میں ہندوستان میں مطمئن ہے ۔مولانا کا یہ فتویٰ شروع مئی ۱۹۲۰ء  میں چھپا جس پر بہت سے سوالات و جوابات بھی ہوئے جس پر مولا نا نے ایک وضاحت نامہ بھی ’’ مشرق ‘‘ گورکھپور کو روانہ کیا جو ۶؍ مئی ۱۹۲۰ء کو شائع ہوا۔وہ حسب ذیل ہے : 

 ’’فرنگی محل  ۲ شعبان  ۱۳۳۸ھ

مکر می دام مجدہ السلام علیکم

بعض حضرات نے مسائل ہجرت بذریعہ تار دریافت کیے ہیں اس کا جواب دے دیا گیا مگر مفصل نہیں ہے اس واسطے ان کی تفصیل عرض کر تا ہوں ۔امید ہے کہ شائع فرمادیجیے گا۔ 

ہجرت شرعاً دو طریقوں پر مستعمل ہے ۔ ایک ہجرت اوصاف سے دوسرے اوطان سے ۔

ہجرت اوصاف سے یہ ہے کہ ممنوعات شرعیہ کو چھوڑ دے اور اوامر کا پابند ہو ۔ یہ ہجرت ہمیشہ ہمیشہ تک مشروع ہے ۔

دوسری ہجرت اوطان سے ۔ یہ چند اقسام کی ہے ۔

۱۔ ہجرت مکہ سے حبشہ کی جانب دو مرتبہ ہوئی ۔ اس وقت جبکہ کوئی دار ِ اسلام نہ تھا تو دارِ شرک سے دارِ اہل کتاب کی جانب ہجرت ہوئی یا دارِ ظلم سے دارِ عدل کی جانب ۔ اور اگر نجاشی کا اسلام مان لیا جائے اور اصلِ حکم ِ دار بوجہ سلطان کے فرض کیا جائے تووہ بھی ہجرت دار ِ اسلام کی جانب ہوئی ۔

۲۔ ہجرت مکہ شریف سے جو اس وقت دارالحرب تھا مدینہ طیبہ کی جانب جو دارالاسلام تھا ۔ یہ ہجرت فرض تھی اور فتح مکہ کے بعد منسوخ ہوگئی ۔ یعنی جو ایمان لائے وہ ہجرت کرے تب تو تمام احکام میں مسلمانوں کا شریک ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک توارث وغیرہ میں بھی حق نہیں ہوتا ۔ امام رازی کے مطابق یہ ہجرت اس وقت پھر فرض ہوجائے گی جب کہ مسلمانوں کی اگلی حالت لوٹ آئے اور سوائے ایک مامن کے کوئی نہ ہو ۔

۳۔ ہجرت بادیہ نشیں کی مدینہ طیبہ کی جانب ۔ یہ حقوق میں مساوات حاصل کر نے کے لیے ضروری تھی ۔ یہ بھی منسوخ ہوگئی بلکہ حکم ہوگیا کہ جہاں کوئی شخص پیدا ہوا اور اس مقام پر نماز وغیرہ ارکان اسلام ادا کر سکتا ہو تو اس کو ہجرت کی ضرورت نہیں ۔

۴۔ دار فسق سے دارِ عد ل و تقویٰ کی جانب ہجرت ۔ بلکہ اس زمین سے جہاں گناہوں کی کثرت ہو وہ خود مرتکب ہوں یا دوسرے یہ ہجرت مستحب ہے ۔

۵۔ دارِ حرب سے دارِ اسلام کی جانب ہجرت مستحب ہے اور بعض صورتوں میں واجب ہوجاتی ہے ۔ بلکہ توطن دارحرب میں بلا ضرورت شرعیہ حرام ہے۔ ہم لوگ ہندوستان کو دارالاسلام سمجھتے ہیں اور اعزاز دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت سے قیام کیے ہوئے ہیں ۔ اس واسطے ہجرت فرض نہیں جانتے ۔ بلکہ جب چارہ نہ ہو بجز اس کے کہ ہجرت کرے یا مبتلائے مصیبت رہے یا استرضا بالمعصیت کا ارتکاب ہو یا قیام وطن سے اس قدر خدمت نہ کرسکیں جتنی کہ باہر نکل کر کرسکتے ہیں تو ان صورتوں میں ہجرت مشروع ہے ۔ موجود ہ حالت میں ہندوستان سے اگر قابل و ذی استعداد لوگ کابل ہجر ت کریں یا محنتی و جفاکش لوگ ترک وطن کرکے وہاں جائیں تو امید ہے کہ اسلام کو فائدہ زائد حاصل ہوگا اور اپنے وطن عزیز کی بھی خدمت کریں گے ۔ احادیث سے آخر زمانہ میں شام کی جانب ہجرت کرنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔‘‘ 

اس پورے وضاحتی پیغام میں بھی ہجرت کے فقہی مسائل ہی بیان کیے گئے ہیں کہیں بھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہندوستان سے ہجرت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی شکل میں لکھتے ہیں ’’موجود ہ حالت میں ہندوستان سے اگر قابل و ذی استعداد لوگ کابل ہجر ت کریں یا محنتی و جفا کش لوگ ترک وطن کرکے وہاں جائیں تو امید ہے کہ اسلام کو فائدہ زائد حاصل ہوگا اور اپنے وطن عزیز کی بھی خدمت کریں گے‘‘ ۔ جس قابل و ذی استعداد لوگوںسے ہجرت کی امید تھی وہ تو کیے نہیں بلکہ اکثر کم پڑھے لکھے لوگ ہی کیے جس پر ظفر احسن ایبک لکھتے ہیں ’’ امیر امان اللہ خاں کو امید تھی کہ ہماری جماعت کی طرح لکھے پڑھے ہندوستانی اس تحریک کے ذریعے افغانستان آئیں گے لیکن یہاں تو یہ ہوا کہ جتنے ان پڑھ کاشتکار تھے اس تحریک میں شریک ہوگئے ‘‘ الغر ض ہجرت کے مختلف فتووں کے بعد سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے گھر اور کھیت آ دھے داموں فروخت کیے اور انجام ونتیجہ کو سوچے بغیر افغانستان کی جانب تقریبا ً اٹھارہ ہزارافرادروانہ ہوگئے جہاں مختلف مصائب کا سامنا کر نا پڑا ۔

ہجرت کی بات ہوگئی تو اب مختصراً بات کرتے ہیں جہاد پر ۔جب مولانا شوکت علی جہاد پر بات کر رہے تھے تو اس وقت شیخ الہند کے ما تحت مولانا عبیداللہ سندھی اپنا کام کررہے تھے اور ’مخلصین‘ کی جماعت پورے ہندوستان اور دیگر ممالک میں سر گرم تھے اور افغانستان ان کا میدان عمل تھا ۔ ان تمام باتوں سے اور شیخ الہند و مولانا سندھی کے پلان سے وہ واقف تھے اسی لیے وہ پہلے ہجرت کا لفظ استعمال کر تے ہیں جو افغانستان کی جانب ہونی تھی اور ہوئی بھی پھر جہاد کا جو افغانستا ن سے ہی ہورہاتھا ۔جس کا منصوبہ یہ تھا کہ ہندوستان کی سرحد سے باہر رہ کر ہندو ستان کی آزادی کے لیے افغانستانی اور قبائلی ہندوستان پر حملہ آور ہوجائیں اور ہندوستان کے اندر جو بہت سی خفیہ جماعتوں کے جو مراکز قائم تھے وہ جہاد کے لیے بیک دم کھڑے ہوئے جائیںاور ہندوستان کو آزاد کرالیا جائے۔ شواہدات سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے لیڈران کے ساتھ علی برادران بھی کچھ حد تک اس سے متاثر تھے جس کا ذکر وہ خطبہ میں کر گئے ۔ بلکہ بعد میں اس مسئلہ کو بہت ہی طول دیا گیا جس کو افغانی ہوا کے نام سے جانا گیا ۔ 

۱۹۱۹ء سے تحریک کی شروعات ہوتی ہے اور ۱۹۲۰ء میں عدم موالات کی تحریک زورپکڑتی ہے اور تحریک خلافت کا وفد انگلستا ن کو جاتا ہے ۔عدم موالات کی تحریک نے ہندو ستان میں انگریزوںکی جڑوں کو بالکل ہلا کر رکھ دیاتھا اس کڑی میں ہندو ستان میں انگریزی فوج کی ملازمت کو حرام قرار دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی افواج میں ہندوستانیوں کی تعداد نہ کے برابر رہ گئی لیکن ترکی مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا پھر بھی ترکی نے یونان کے تینوںحملے کابھر پور جواب دیا اس زمانہ میں مصطفی خاں کے تدبر کا چرچہ عالمی پیمانہ پر ہورہاتھا جس کا اثر صلح نامہ سیورے کی ترمیم میں بھی نظر آیا۔ اس صلح نامہ کی رو سے تر کی کو میثاقِ ملی کی تقریباً کل شرطیں حاصل ہوگئیں ترکوں نے اپنے مطالبات مرتب کرنے میں کافی تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا تھا اور ایسی چیزیں طلب نہ کی تھیں جو ناممکن الحصول ہوں ۔ اس فتح پر تحریک خلافت کے بہت ہی اثرات مرتب ہوئے جس میں سے ایک بڑی وجہ ہندوستان کی عام بغاوت تھی ۔ پورا ملک انگریز کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ ہندوستان کے سارے مسلمان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور گاندھی جی اپنی تمام تقریروں میں خلافت کو بنیادی حیثیت قرار دیے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ خلافت مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور اس میں انگریزوں نے بے جامداخلت کی ہے اور ہمارے بھائی مسلمان آزردہ ہیں تو ہم کیسے مسرور رہ سکتے ہیں ۔اس لیے ہندوستان میں ’’ تحریک خلافت ‘‘ یہاں کے پرشور نعروں ، ہندو مسلمان اتحاد کے مناظر ، جیل خانوں کے پر کرنے کی تمناؤں ، اور گولی کھانے کی آرزؤں ، ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کے اس متفقہ فیصلہ سے اسلام کو بچانے کی شکل صرف یہ ہے کہ ہندوستان سے انگریزوں کو اکھاڑ کر اس کی طاقت توڑدی جائے ۔ ان سب نے تر کان آل عثمانیہ کی بڑی سی بڑی امدد کی ۔ مسلمانوں نے طے کرلیا تھا کہ ہندوستان کو انگریزکے چنگل سے بہر حال آزاد کرایا جائے خواہ کچھ بھی ہو۔ یہ وجہ تھی کہ دنیا کے مسلمان کا ایک بڑا طبقہ جو ہندوستان میں تھا وہ انگریز سے سخت برہم تھا جس کا فائدہ ترکی کو ملا۔لیکن خلافت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی کہ نومبر ۱۹۲۲ ء کو مصطفی کمال نے ترکی کو ایک جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا اور سلطان وحید الدین کو معزول کردیا اور سلطان عبدالمجید خاں کو ان کی جگہ خلیفہ مقرر کر دیا گیا مگر ایک جمہوری ملک میں خلیفۃ المسلمین کا کیا کام۔پندرہ مہینہ کے بعد ۳؍ مارچ ۱۹۲۴ ء کو   نام نہاد خلافت کا خاتمہ مصطفی کمال پاشا نے کردیا اور ترکی دیگر حکومتوں اور سلطنتوں کی طرح ایک دنیا وی حکومت رہ گئی ، پاشا کے اس فیصلے سے ہندو ستان میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جو مصطفی کمال پاشامسلمانوں کا ہیرو بن کر ابھر ا تھا اب لعن و طعن کا نشانہ بن گیا ۔ہندو ستانیوں کو بھی لعن و طعن کا شکار ہونا پڑا جو بھی خلافت کا طلبگار تھا اس کا حکومتی افراد و اخبارات نے خوب مذاق اڑایا گاندھی جی بھی اس کے زد میں آگئے تو انہوں نے ایک طویل مضمون لکھا کہ اس تحریک سے ہمیں کیا ملا ۔گاندھی جی لکھتے ہیں ’’ اگر میں کوئی پیغمبر ہوتا اور مجھے غیب کا علم دیا گیا ہوتا اور میں جانتا کہ تحریکِ خلافت کا یہ انجام ہوگا تب بھی میں خلافت کی تحریک میں اسی انہماک سے حصہ لیتا ۔ خلافت کی یہی تحریک ہے جس نے قوم کو بیداری عطا کی اب میں پھر اسے سونے نہیں دوںگا ‘‘ ۔ ان تمام عالمی مایوسیوں کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کا جوش و خروش بالکل قائم تھا ، خلافت کمیٹیاں اپنا کام کررہی تھیں ، جلسے ہورہے تھے جن میں احتجاج تھا اور اس بات کی بھی کوشش تھی کہ مصطفی کمال پاشا اپنا فیصلہ بدل لے ۔لیکن اب ان اجلاس کا کام صرف انگریزوں سے دشمنی کے لیے رہ گیا تھا تر کی کا واپس آنا پھر مقصد میں کامیاب نہ ہونا لاکھوں مسلمانوں کے لیے کر ب کا سبب بنا ہوا تھا خلافت کے ذمہ داران اورکارکنا ن ایسی تحریریں لکھ رہے تھے جن سے اب یہی احساس ہوتاہے کہ وہ خود کو تسلی دے رہے ہیں پھر بھی ان کی تحریک جاری رہی اور اب خلافت کے لیے حجاز کو میدان عمل بنا یا گیا۔ عر ب ممالک کے ترکی سے الگ ہوجانے کے بعد ہندو ستان کے علماء نے خلافت کے لیے ایک اور کوشش کی کہ اب حجاز میں خلافت قائم ہوجائے اور وہ دنیا کے مسلمانوں کی سربراہی قبول کر لے اس کے لیے خلافت کمیٹی نے ایک وفد مولانا سید سلیمان ندوی کی قیادت میں روانہ کیا جس میں تمام مسالک کے علماء تھے جو مکمل ہندو ستان کی نمائندگی کررہے تھے ۔لیکن شریف مکہ نے وفد کی اس تجویز کو کہ حجاز میں اسلامی جمہوری حکومت عالم اسلام کی رائے سے قائم ہو کو نامنظور کر دیا اور مزید آگے کی سفر کی اجازت نہیں دی ۔ اس کے بعد ہندوستان میں ایک لمبی بحث طرفداران شریف اور عبدالعزیز میں چلی جس میں خلافت کمیٹی بھی دو حصوں میں بٹ گئی ایک علی برادران کی اور دو سری طرف مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی جماعت تھی جن کے ساتھ مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا نثار احمد کانپوری وغیرہ تھے جن کی ایما ء سے انجمن خدام الحرمین قائم ہوئی جس میں شیخ مشیر حسین قدوائی اور سید جالب دہلوی بھی شریک تھے ان لوگوں نے ایک عظیم الشان جلسہ رفاہ عام میں کیا اور دل کھول کر سلطان ابن سعود نشانہ میں لیا ۔ اس وقت علی برادران کی جماعت کو عوام سے بالکل بھی معاونت نہیں ملی یعنی جس محمد علی جوہر کی تقریر سننے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سامعین آتے تھے اس وقت ہزار بھی میسر نہیں ہوئے جس پر مو لانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں ’’ تم جس تیزی سے دوڑ کر آتے ہواسی تیزی سے فرار بھی کر جاتے ہو، پس نہ تمہار ی تحسین کی کوئی قیمت ، تمہاری توہین کا کوئی وزن ، تم نہ دل رکھتے ہو نہ دماغ ، وساوس ہیں جنہیں افکار سمجھتے ہوخطرات ہیں جنہیں عزائم کہتے ہو ۔‘‘ الغرض خلافت تحریک اپنا دم توڑ چکی تھی محمد علی جوہر کی کوشش پھر بھی مستقل جاری تھی لیکن نئی حکومت میں اس قدر حوصلہ نہیں تھا کہ وہ خود کو اس کے لیے تیار کر سکے، کمیٹیاں قائم تھیں تواس کے اجلاس ہورہے تھے۔مو لا محمد علی جوہر کی وجہ سے اس خلافت کے چراغ میں اب بھی رمق باقی تھی لیکن چراغ جلا نے والے مولا فرنگی محلی ۱۹۲۶ء میں ہی دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...