Thursday 11 July 2019

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد 

  کتاب کے انتساب میں جب کوئی محتر م استاد یا بزرگ دانشور کا نام نہ ہو اور تقریظ و بیک کور کی تحر یریں کسی بڑے یا بہت ہی معزز سمجھے جانے والے شخصیات سے نہ لکھوائی گئی ہوں بلکہ ان سب کے لیے نئی نئی کونپلوں کو منتخب کیا گیا ہو تو یہیں سے سمجھ جائیے کہ تقلید سے پرے کی کہانی شروع ہوچکی ہے ۔فہر ست کے مقام پر ” سلیقہ “ نظر آئے گا جس کے ذیل میں ”محسوسات “ میں ریسر چ اسکا لر شہناز رحمن کے احساسات کو اور ’ تلخیات“ میں مصنف کی کتاب لکھنے کے درمیان کی تلخی کو محسوس کر سکتے ہیں ۔اپنی بات کوتلخیات کے عنوان سے قلم بند کرنے میں یقینا شکایتیں پوشیدہ ہیں خواہ وہ ایک ہی رو میں بہنے والی تنقید سے ہویا ایک ہی تجزیہ ، فکر و فلسفہ کو گھسیٹنے والے ناقدین سے ۔مدھم لہجے سے شروع کی گئی بات آہستہ آہستہ تلخی اختیا ر کر تی چلی جاتی ہے اور وہاں جوشیلی شکل اختیار کر جاتی ہے جہاں طلبہ کے حقوق کی پامالی پر بات ہوتی ہے ۔ بات سے جب بات آگے بڑھتی ہے تو مصنف کی ذات سے متعلق ریشہ دوانیوں کا بھی ذکر آتا ہے جو عمو ماً کئی مضامین کو زیر تحریر لاتے ہوئے ان کے ذہن و دماغ کو جکڑ رہی ہوں گی اور فکرکی شائستگی میں نا شائستگی کا عنصر در آرہا ہوگا لیکن مصنف نے بہت حد تک ان تمام پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہیں مدھم تو کہیں گفتگو کی لو کو تیز کیا ہے جس کا عکس آپ کو مضامین میں بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملے گا ۔

 کتاب کو تین حصو ں میں منقسم کیا گیا ہے جن میں سے دو ’ تنقید و تبحیث ‘ تفعیل کے وزن پر ہیں لیکن تجزیہ کے لیے ’تفعلہ‘ پر ہی صبر کر نا پڑا ہے ۔ تنقید کے تحت گیا رہ مضامین ہیں ۔پہلا مضمون" پریم چند کے دلت افسانوں کی قرات اوربین السطور" ہے ۔اس میں، پریم چند کے کئی افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے. سب کا عکس آپ اس اقتباس میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں . ” آخری بات یہ کہ یہ افسانہ ( گھاس والی ) بھی پریم چند کے بہت سے افسانوں کی طرح حقیقت کی کھردری عکاسی سے کہیں زیادہ تصورات کی بنائی ہوئی پینٹنگ معلوم ہوتا ہے “۔ آپ مصنف کے اس قول سے کس حد تک اتفاق کر تے ہیں اس کے لیے آپ کو بین المتونیت سے واپس جا کر پھر متن کے صفحات پر نظریں ٹکانی ہوں گی ۔” اردو افسانے کی خاتون اول - رشید جہاں “ میں آپ جہانِ افسانہ کی کئی جدتوں اور سنتوں کورشید جہاں سے منسوب پائیں گے اور ناقدین افسانہ پر بھی محاکماتی تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملے گی ۔” فکشن کا بازیگر : کر شن چندر “ اپنے اندر بہت ہی کشش رکھتا ہے ، ہر ایک پیرا گراف آپ کو اپنی جانب مائل کر ے گا ۔ساتھ میں آپ کو کر شن چندر کے افسانوں میں شعور کی رو، سر رئیلزم ، ایکسر یشنزم ، مو نو لاگ ، غائب مخاطب ،ملفوظات ، سہ ابعادی اور کیر یکٹر اسکیچ سے روشناس ہو ں گے۔ ساتھ ہی مضمون کے آخر میں مصنف لکھتے ہیں ” کاش وہ الفاظ کا کفایت شعارانہ استعمال کرتے اور فن کے نازک اور حساس گل بو ٹوں کو نظریے کی تیز دھوپ کے بجائے اس کی نرم چاندنی میں پروان چڑھا نے کی کوشش کر تے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کے افسانوی ادب کے گلستاں کی بہار دو چند نہ ہوتی “ ۔ ” آخری کوشش والے : حیات اللہ انصاری “ والے مضمون میں ان کی تمام کوششوں اور کاوشو ں کو جو یہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے پریم چند کی تقلید کی کوشش کی ہے . اس متعلق مصنف کا عدم تقلید ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ” اسے پریم چند کی تقلید یوں نہیں کہہ سکتے کہ ان کر داروں میں ایک نوع کی واقعیت ، جرا ت ، فہم اور بغاوت نمایاں ہے ۔ ہاں تسلسل یا تجدید کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں پر یم چند والی مثالی حقیقت کافی حد تک مفقود اور واقعی صداقت زیادہ نکھری صورت میں موجود ہے “ ۔موصوف میں مثالی حقیقت کے بجائے واقعی صداقت کتنی ہے اس کی تفصیل بھی ان افسانوں کے حوالے سے پڑھنے کو ملے گی ۔” منٹو کی ایک اور قرات “ میں آپ کو منٹو کی نئی دنیا میں لے جائیں گے ۔ جہاں آپ منٹو کی انانیت ، اس کی فن کا ری ، نفسیاتی گرہیں ، فطر ت کا فلسفہ ، بشریت اور شکست و فتح کی نئی تعبیروں سے آپ اپنی فکر کو مہمیز کریں گے ۔” بیدی ، عورت ، جنس اور نفسیات “ اس مضمون میں بہت ہی خاموشی اور اسلوب کا پر سکون ماحول ملے گا ۔بیس صفحہ کے اس مضمون میں آپ کو نئی قرا ت کی جانب کھینچیں گے اور نہ ہی بین السطور اور بین المتونیت میں محصور کرنے کی کوشش کر یں گے بلکہ مذکورہ بالا تینوں عناصر جزئیات کے ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے ۔” ممتاز شیریں کا افسانوی طریقہ کار “ مصنف کی ممتاز شیریں پر باضابطہ ایک مکمل کتاب ہے لیکن اس میں تنقیدی مباحث زیادہ ہیں اور اس مضمون میں صر ف افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے ۔کتاب میں دو ہی مضمون ہیں جو بہت ہی خصوصیت کے حامل ہیں ایک یہ اور دوسرا جدید اردو افسانے کی شعریات وہ بایں معنی کہ ان ہی دونوں مضامین میں با ضابطہ حواشی ہیں ۔” عصمت چغتائی کے افسانوں کے حوالے سے ایک اور تحریر “ میں لحاف سے باہر معاشرہ کی چادر میں عصمت و عفت کی کہانیوں کے راز ملیں گے ۔ ” ترقی پسندوں کا پہلا درویش : خواجہ احمد عباس“ میں اس درویش کا افسانوی مملکت کتنا مالا مال ہے اس کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔”علی سردار جعفری کا جہان افسانہ “ میں جو خیالات مصنف کے پریم چند کے متعلق ہیں تقریباً وہی نظر یات یہاں بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں” سردار جعفری کے افسانوں کے مطالعہ سے جو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ افسانہ نگار غریبوں کی معاشرت اور اس کی نفسیات سے پوری طر ح واقف تو نہیں لیکن بہر حال ہمدردی رکھتا ہے ، اور یہ ہمدردی غریبوں سے غریبوں والی نہیں بلکہ وہ ہمدردی ہے جو غریبوں کو زمینداروں سے حاصل ہوتی ہے “ ۔باب تنقید کا آخری مضمون ” منحرف روایت کا فکشن نگار : پروفیسر محمد حسن “ ہے ۔مضمون میں فکشن اور فکشن نگار تو مکمل طور پر ہے لیکن انحرافیت کم کم ۔

 دوسرا حصہ تبحیث کا ہے جس میں سات مضامین ہیں ۔ پہلا مضمون ” افسانہ ،تخلیقیت اور ارتقائے خیال “ ہے ۔ارتقائے خیال کے لیے پانچ در س ملیں گے واقعہ ، بیان ، زمان و مکان ، بیان میں افعال کا استعمال اور وقت کا صورتحال کی تبدیلی ۔ اور بھی بہت کچھ ہیں لیکن فی الحال ان ہی پانچ کی تفصیل کے لیے مضمون کی تلا ش میں لگ جائیے۔ ” تر قی پسند افسانے کی جمالیات “ میں قدیم روایات پر طنز، سماجی نظام میں تبدیلی کی کوشش ، غربت اور جنس کی جمالیات سے رو برو ہو نے کا موقع مل سکتا ہے بشرط مطالعہ ۔ ” جدید اردو افسانے کی شعریات“ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں” واضح رہے کہ جدید یت یا جدید حسیت اسلوب کا نہیں رویے کا نام ہے ۔ اسلوب کو جدید تصور کر نا یوں درست نہیں کہ ایک مارکسی یا ترقی پسند روایتی افسانہ نگار قدیم اور روایتی اسلوب میں افسانہ لکھ سکتا ہے ........... لہذا جدید افسانہ کے سلسلے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ صر ف علامتی انداز میں لکھا ہوا افسانہ ہی جدید ہے “ ۔ اس مضمون میں آپ مصنف موصوف کو وارث علوی اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان خوبصورت مباحثوں میں پائیں گے ۔” ہم عصر افسانہ ، افسانہ نگار ، ناقد اور قاری“ میں آپ خو د کو کسی نہ کسی مقام پر محسوس کریں گے اور افسانہ کی نئی جہت کی جانب نئے چشمے کے سراغ ملیں گے ۔ ” اردو ناول کی تہذیبی جہات اور چند اہم کردار “ میں نئے پرانے تقریبا بیس ناول کے اہم کر دراوں کا تہذیبی پس منظر پڑھنے کو ملے گا ۔” اردو افسانہ ہمارے عہد میں“ میں بقول نورین اسی (٨٠) کی دہائی والے ہی نظر آئیں گے۔” اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اردو ناول“ موضوع ہیئت فکر و فلسفہ اور سمت و رفتار پر خو بصورت و جامع مضمون ہے. 

تیسرا حصہ تجزیہ پر مشتمل ہے ۔ جس میں دو مضامین ہیں پہلا ” کفن کا متن اور تعبیر کی غلطیاں “ اس میں’ کفن' میں موجود تضادات کا انکشاف کر تے نظر آتے ہیں ساتھ میں اعتراف نامہ بھی دیکھیں” اعتراف کر نا چاہیے کہ ’ کفن ‘ میں حقیقت نگاری کے حوالہ سے ایک آدھ جھول موجود ہے ، یہ پریم چند کے دوسرے افسانوں کی سی مثالیت پسندی سے پاک ہو نے کے باوجود سماجی حقیقت نگاری کی کسوٹی پر صد فی صد کھرا نہیں اترتا ۔ تا ہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنے موضوع اور فن کے اعتبار سے یہ بے حد خوبصورت اور عمدہ افسانہ ہے “ ۔ ” شہزادہ : نفسیاتی پیچیدگی اور انوکھی تکنیک کا افسانہ“ میں کر شن چندر کے افسانہ ” شہزادہ “ کا تجزیاتی مطالعہ نفسیاتی اعتبار سے مضمون کے آخر تک کہانی کے ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں گے اور انو کھی تکنیک کے متعلق اقتباس ملاحظہ فرمائیں ” یہ ایکسپریشنز م ( اظہاریت ) کی تکنیک ہے جو ظاہر ہے Streem of conciousness سے مختلف ہے ۔ چاہیں تو اسے باطن نگاری بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس میں ذہن میں خاص قسم کے تصورات خلق کر تا ہے ۔جو دیکھنے والوں کو حقیقی دنیا سے دور لے جاتے ہیں “ ۔ الحاصل اس پورے کتاب میں فکشن کی جس تنقید سے آپ زیادہ روبرو ہوں گے وہ ” بین المتونیت “ ہے۔ 

230 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 200 ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہا س سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

Wednesday 10 July 2019

منٹو کے نادر خطوط

 منٹو کے نادر خطوط 

تحقیق و تر تیب فاروق اعظم قاسمی 

امیر حمزہ

تلاش و جستجو انسانی فطرت کا خاصہ ہوتا ہے ۔ جس جس میدان میں مسلسل تلاش و جستجو کو برو ئے کار لایا گیا ہے اس میدان میں تر قی دیکھنے کو ملی ہے ۔ جس طر ح سے تحقیق و تجر بات سے دنیا نئی مناز ل طے کر رہی ہے اسی طر یقے سے ہم ادب میں بھی مسلسل تحقیقات سے بلند ی کی جانب گامزن ہیں ۔منٹو اگر چہ پچھلی صدی کا اردو کے اول درجہ کا افسانہ نگار ہے لیکن اس کی بھی کئی چیزیں ہیں جواب تک پر دۂ خفا میں ہیں ۔مثلاًکئی ایسے نام سامنے آتے ہیں جس کو اس نے خطوط لکھے۔ لیکن وہ اب تک ہمارے ادب کا سر مایہ نہیں بن سکے تھے ۔ جن میں سے کچھ کو فاروق اعظم قاسمی نے بہت ہی محنت اور جفاکشی سے ارد وادب کے حوالہ کیا ہے جن کی تعداد 33 ہے ۔ ان نادر خطوط کو جس تحقیق و تلاش کے بعد سامنے لایا گیا ہے وہ ہمیں فن تحقیق کوسکھلا تی ہے اور اس جانب بھی اشارہ دیتی ہے کہ ایک سرا کے ملنے سے دو سرے سر ے کیسے کھلتے جاتے ہیں ۔

منٹو کے خطو ط کے متعلق موصوف نے پانچویں کڑی پیش کی ہے ۔ ان سے قبل 1962ء ، 1969 اور 1991 میں احمد ندیم قاسمی منٹو کے خطوط کی جمع و تر تیب کرچکے ہیں ۔ ان کے بعد اسلم پر ویز نے 2012 میں ان کے خطوط کو مر تب کیا ۔ جس میں انہوں نے قدیم تر تیب سے محض بارہ خطوط کا اضافہ کیا ۔فاروق اعظم قاسمی نے جب سندی تحقیق میں داخلہ لیا تو انہوں نے ’’ منٹو کے خطوط ندیم کے نام‘‘ کے موضوع کاانتخاب کیا۔انہوں نے اپنی تحقیق تو مکمل کی ہی ساتھ ہی ان کی کھوجی طبیعت نے 33 مزید خطو ط سے اردو دنیا کو متعارف کر ایا ۔ اب تک منٹو کے خطو ط سے متعلق یہ پانچویں تحقیق ہے ۔یہ تحقیق بالکل بھی آخری تحقیق نہیں کہی جاسکتی ۔ کیونکہ اب بھی کئی ناموی کی جانب اشارے ملتے ہیں جن کو منٹو نے خطوط لکھے ہیں لیکن ان خطوط تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے ۔

کتا ب کے شروع میں تقریبا 12 صفحات پر مشتمل تحقیق مقدمہ ہے ۔ واقعی یہ مقدمہ اتنا تحقیقی ہے کہ اکثر پیر اگراف میں نئی نئی تحقیقات ان کے خطوط کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ مقدمہ میں انہوں نے سب سے پہلے سابقہ تحقیق کہ منٹو نے سب سے پہلا خط 1937میں لکھا ، اس کو اپنی تحقیق سے مستر د کر دیا اور اپنی تحقیق انہوں نے یہ پیش کی کہ منٹو کا پہلا خط 13ستمبر 1933 کا ہے جو مولانا حامد علی خاں کے نام ہے ۔ اس خط کو بھی موصوف نے اس کتاب میں شامل کیا ہے ۔اسی خط کے متن ’’ از راہ عنایت اپنے گرا می ناموں میں مجھے مکر می اور محترمی ایسے الفاظ سے یا د نہ فر مایا کریں‘‘ سے اشارہ ہورہا ہے کہ اس سے پہلے بھی مولانا حامد علی خاں اور منٹو کے درمیان مراسلت ہوچکی ہے ۔ 

اس کتاب میں آٹھ لوگوں کے نام خطوط ہیں ۔ مولانا حامد علی خاں کے نام 14 ، مصطفی خاں کے نام 5، اپنی بڑی بہن ناصر ہ اقبال کے نام 4، والدہ کے نام 2، مجید امجد اور اختر الایمان کے نام ایک ایک خط ہیں ۔ ان کے علاوہ دو عمومی خطوط ہیں ایک رائیلٹی سے متعلق اور ایک مختلف فیہ افسانہ سے متعلق ہے جو انگریزی میں ہے ۔

موصوف نے مقدمہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اسلم پرویز نے جب 2012 میں ان کے خطوط کو جمع کیا تو اس میں انہوں نے بارہ نئے ناموں کا اضافہ کیا ۔ ان کے خطوط کا سراغ تو نہیں لگ سکا البتہ جن ذرائع سے ان ناموں کا پتہ چلتا ہے اس کابھی ذکر نہیں ہے ۔لیکن فاروق اعظم قاسمی ان بارہ ناموں کے علاوہ مزید 19 اسماء کا ذکر کرتے ہیں او ر ان خطوط کے سراغ کا بھی ذکر کر تے ہیں ۔

محقق نے جن خطوط کو تلاش کر کے اس کتاب میں جمع کیا ہے ان خطوط کا تعلق ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی بھی ہے ۔ ان خطوط سے منٹو کے ابتدائی حالات کے بہت سے گوشے روشن ہوتے ہیں ۔ممبئی آنے سے قبل کی زند گی پر سے پردہ اٹھتا ہے ۔ نیز مولانا حامد علی خاں سے متعلق جو خطوط ہیں وہ بہت ہی دلچسپ ہیں ۔ان خطوط میں منٹو اپنی فلم شناسی کا ثبوت پیش کر تے ہیںاور مولانا کے تئیں جو عقیدت و محبت تھی اس کا بھی احساس کر اتے ہیں ۔جن جن کے نام مکتوب ہیں موصوف نے ان کااجمالی تعارف ان کے خطوط سے پہلے پیش کیا ہے اور ان کے خطوط کے اخیر میں حوالہ پیش کیا ہے کہ محقق کو یہ خطوط کہاں سے ملے ۔خطوط میں مذکورہ اشخاص بطور خاص اہل خانہ کا اشاریہ بھی مصنف نے پیش کیا ہے ۔

امید ہے کہ ہمیشہ کی طر ح یہ کتاب بھی مطبوعات کونسل میں سے اہم کتاب ثابت ہوگی اور اس کتاب سے یقینا منٹو کے متعلق تحقیقات کے نئے دریچے روشن ہوں گے ۔مبا رکبا د پیش کر تا ہوں خصوصی طور فاروق اعظم قاسمی صاحب کوکہ انہوں نے اس کتاب سے نئی نسل کی نمائندگی کی اور ثابت کیا کہ ارد و میں نئی نسل سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی جانی چاہیے ۔ 

صفحات  62
قیمت  55 روپے 
ناشر  قومی کونسل بر ائے فروغ اردو زبان

تنقیدی دریچہ

 تنقیدی دریچہ 

محمد وصی اللہ حسینی 

تبصر ہ نگار:امیر حمزہ 

دریچہ ایک ادبی اور خوبصورت لفظ ہے ۔البتہ کام وہی لیا جاتا ہے جو کھڑکی سے لیا جاتا ہے نیز دونوں مترادف لفظ بھی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ مترادفات بھی کمال کے ہوتے ہیں ، کہیں کہیں معنی بالکل تضاد کے دے جاتے ہیں جیسے کسی لڑکے کا  نام ’ نور عالم ‘ ہے ۔ عالم اور جہاں کے معنی تو ایک ہی ہے لیکن ان سے کہیے کہ جناب آپ اپنا نام’ نور جہاں‘ بھی تو رکھ سکتے تھے ۔ لیکن اس کا رد عمل کیا ہوگا وہ آپ سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ تو بات یوں ہی مترادف سے نکل آئی ۔
کہتے ہیں کہ دریچہ سے جھانکنا اور دریچہ میں نظر ڈالنا دونوں چیز یں بے ادبی سے گز ر کر بری عادتوں میں چلی جاتی ہیں ۔البتہ دریچو ں کے فوائد سے حکماء سے لیکر ادبا تک کسی کو انکار نہیں ہے ،کیابوڑھے ،کیا بچے اور کیا جوان سب اس کے دیوانے نظر آتے ہیں توچلیے ہم بھی دیوانگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی چٹخنی کو کھو لتے ہیں اور تنقیدی دنیا کی سیر کرتے ہیں ۔

اس تنقید عمارت میں بائیس چھوٹے بڑے اور متوسط دریچے ( مضامین ) ہیں ۔پہلا مضمون ’ وحیدالدین سلیم کی علمی و ادبی خدمات ‘ ہے ۔ عنوان میں لفظ علمی پر کچھ دیر کے لیے رکا پھر مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ علمی ہی سے سمجھ جانا چاہیے کہ لفظ مولانا کنہی وجوہات کی بنا پر عنوان میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکا ،لیکن علمی اور ادبی مشمولات کو بہت خوبصورتی سے مصنف نے ایڈجسٹ کیا ہے، جو یقینا مزید کی جستجو پیدا کر تا ہے ۔مصنف کا خیال ملاحظہ ہو ’’ راقم کے خیال میں اگر ان کے تبحر علمی و ادبی کارناموں کو الگ کر دیا جائے تب بھی ارد و ادب میں ان کے ’مقام بلند ‘ کے لیے یہی کافی ہے کہ مولانا حالی جیسے شاعر و ناقد ان کے تبحر علمی کے قائل تھے ۔ سر سید جیسے نابغہ ٔ رو زگار نے ان کو اپنا لٹریری اسٹنٹ منتحب کیا تھا اور بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے زبان داں نے عثمانیہ یو نی ورسٹی کے دارالتر جمہ میں وضع اصطلاحات و الفاظ سازی جیسا اہم کام سپر د کیا تھا ‘‘ ۔

’’علامہ سید سلیمان ندوی کے شعری کمالات ‘‘ میں جس قدر کمالات کو تنقید کے دریچہ میں رکھا گیا ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد دل میں جو خیال آیا وہ پیش ہے ’’ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بطور شاعر کم اور بطور نثر نگار زیادہ شہر ت پائی ،جبکہ نثر ی دنیا میں شاید وہ اس مقام کو نہیں پہنچ سکے جتنا اس عہد میں دوسرے تنقید نگاروں کے حصہ میں آیا ‘‘ ۔ گویاان کے شعری دریچے کو ناقدین نے زیادہ کھولنے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ فاضل مصنف اپنے اس مضمون میں اشارہ کر تے نظر آتے ہیں ۔

’’ جنگ آزادی کے جانباز سپاہی : قاضی عدیل عباسی ‘‘ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے ، روانی کمال کی ہے ۔ آپ پڑھتے چلے جائیں گے اور مجاہد آزادی کے جہد مسلسل پر رشک کر تے چلے جائیںگے ۔

’’ مجاہد آزادی مو لوی جعفر علی نقوی‘‘ جن کا شمار اٹھا رہ سو ستاون کے اہم مجاہدین میں ہوتا ہے ان کے جملہ خدمات پر ایک جامع مضمون ہے ۔ 

’’ علی بر ادران کی شخصیت سازی میں بی اماں کا کر دار ‘‘ یہ مختصر سا مضمون وسعت کے اعتبار سے کر دار سے زیادہ بی اماں کی قربانیوں کی جھلک زیادہ پیش کر تا ہے ۔

’’ کیفی اعظمی اچھے شاعر ،بڑے انسا ن ‘‘ میں اچھے شاعر سے زیادہ ایک اچھے انسان کے طور پر کیفی اعظمی کو پیش کر نے کی اچھی کو شش کی گئی ہے ۔

’’ جا ں نثا ر اختر کا شعری پس منظر‘‘ اس مختصر سے مضمون میں جاں نثار کے شعر ی پس منظر تک پہنچتے پہنچتے زندگی کا پس منظر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ان کا شعر ی پس منظر جس میں ’’ گھر آنگن ‘ ‘ کی طر ف میلان میں مجبو ریاں نظر آتی ہیں وہ نظر آئیں گے لیکن شاعری کا نمونہ پیش کر نے کی مجبو ریاں آپ سے پوشیدہ رہیںگی ۔

’’ شکیل بدایونی : ایک رومانی شاعر ‘‘ کے دریچہ سے تنقید کی ایک جھلک ملاحظہ فر مائیں ’’ شکیل بدایونی نے شاعری میں اپنا الگ راستہ اختیار کیا ، اپنے دور کے تینوں رجحانوں میں سے کسی کے اسیر نہیں ہوئے ۔ نہ تو انہوں نے نئے نئے تجر بوں پر توجہ دی ، نہ تر قی پسندی کی وردی پہنی اور نہ ہی جگر مرا د آبادی کی اندھی تقلید کی ۔ بلکہ وہ غزل کے حامیوں سے اس بات سے متفق تھے کہ غزل میں بھی سماجی شعور اور نئے طر ز کی گنجا ئش ممکن ہے ‘‘ ۔ اس مضمون میں رومانی شاعری کے علاوہ شکیل کے یہاں کیا کیا ہے وہ بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ ساتھ ہی تحر یکات و رجحانات کے موسم میں کسی کے خریدار و طر فدار نہ ہونے پر بھی زور ہے ۔

’’ کنور مہندرسنگھ بیدی سحر : جامع صفات شخصیت ‘‘ ایک اچھا خراج عقیدت سے بھر پور تاثراتی مضمون ہے ۔

’’ ولی انصاری کی غزلوں کا رنگ اور انداز فکر ‘‘ اس کتاب میں شامل ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں مصنف نے کھل کر اپنے اشہب قلم کو رفتا ر دی ہے ۔

’’ خمار بارہ بنکوی (تغزل سے تقد س تک )‘‘ اس مضمون میں آپ کو خمار کے رومانوی رنگ کے تین وجوہات پڑھنے کو ملیں گے ،ساتھ ہی خمار کی شاعری کا عہد بعد اور موضوع بہ موضع اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔

’’ کلام والی کے فکر ی و فنی ابعاد ‘‘ میں مصنف نے بہت ہی سنجیدگی سے والی آسی کی ’ یاس ‘ اور ’ آس ‘ دونوں کو پیش کیا ہے ۔

’’ زندگی اور انسانیت کا رزمیہ نگار ، ڈاکٹر اختر بستوی‘‘ سب سے زیادہ حوالہ جات سے مزین مضمون نہیں !بلکہ مقالہ ہے ۔اس مضمون میں انسانیت سے لیکر شاعریت اور شعر یت تک سب کچھ دریچہ میں سجا نے کی عمدہ کو شش کی گئی ہے ۔

’’ شاطر حکیمی کی نعتیہ شاعر ی‘‘ اس مضمون کو پڑھا پھر پڑھا پھر ایک دن کے وقفہ کے بعد پڑھا اور تحقیق ، تنقید ، تجزیہ و تبصر ہ کے مابین الجھ کر بصارت بصیرت تک کی تر سیل اور بصیرت آؤٹ پٹ دینے میں ناکام رہی ۔لیکن آپ جب مطالعہ کر یں گے تو سب کچھ مل سکتا ہے ۔

’’ملک زادہ منظور احمد کا جہان تنقید ‘‘ اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے ایک ہی مضمون میں جہان تنقید کو سمیٹنا ممکن نہیں۔  اس لیے قلم کی سیاحت کے لیے ایک ہی شہر (کتاب ) ’’ شہر سخن ‘‘ کا انتحاب کیا ۔جس میں شامل ۲۶ چھو ٹے بڑے شہریو ں ( شعرا ء) کے متعلق دلچسپ اقتباسات پڑھنے کو ملیں گے ۔

’’ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور اردو ناولٹ ‘‘ میں ناول اور ناولٹ کے مابین جتنی وضاحتیں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کی ہیں ان کی توضیحات مصنف کے قلم سے پڑھنے کو ملیں گی ۔

’’ غزل سرائی کی نئی ادا : جنیوارائے‘‘ اس مضمون کا تعارف اس کی ضمنی سرخی ہی پیش کر رہی ہے ’ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘۔ 

’’ جنگ آزادی میں بستی کے مسلمانوں کا حصہ ‘‘ کتاب کے دیگر مضامین کی طر ح یہ بھی ایک اہم تحقیقی و تعارفی مضمون ہے ۔ اس موضوع پر کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ تا ہم اس مضمون کے مطالعہ کے بعد آپ قلیل سے کثیر کی جانب ضرور راغب ہوں گے۔ اس مضمون میں ضلع بستی کے صرف چھ عظیم مجاہد کا ذکر مختصر طور پر پیش کیا گیا ہے ۔

’’ دانش محل : کتابوں کا تاج محل‘‘ اس مضمون کو پڑھ کر یقینا آپ کے دل میں خواہش اس علم و دانش کے تاج محل سے فیضیاب ہونے کی ہوگی ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں ’’ دانش محل ایک ادار ہ ہی نہیں ایک تہذیب کا نام ہے ۔ قدیم فن تعمیر پر مشتمل ایک کشادہ اور ہال نما وسیع و عر یض اس دکان میں کتابیں ریک میں بڑے سلیقے سے رکھی گئیں ہیں ۔ کتابوں کی ریک کے اوپر دیواروں میں عظیم علماء ، ادبا ء ، شعراء اور دانشوروں کی تصویر آویزا ں ہیں ۔... . اس سلیقہ مندی اور تزئین کاری سے دکان کا منظر انتہائی حسین نظر آتا ہے ‘‘ 

’’ اردو زبان و ادب میں خواتین کا حصہ ‘‘ یہ مطلقا ایک تعارفی مضمون ہے جس میں تعارف سے پرے صر ف اسما پر صبر کر نا پڑے گا ۔’’ صنعت غیر منقوط ‘‘ میں ہادی عالم اور داعی اسلام سے پرے کی بھی دنیا نظر آئے گی ۔  الغرض کتاب نئے موضوضات بر محیظ ہے جسکا مطالعہ یقینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا ۔

صفحات : ۲۱۶
قیمت : ۱۳۳
ناشر : محمد وصی اللہ حسینی ، ۴؍۶۳ ، شتر خانہ ادے گنج ،لکھنؤ ، ۲۲۶۰۰۱


Tuesday 9 July 2019

سیدعبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور قصیدہ بر دہ

سیدعبدالفتاح اشرف گلشن آبادی اور قصیدہ بردہ 

ڈاکٹر سعیدہ اختر پٹیل 

امیر حمزہ 

سبعہ معلقہ کے بعدعربی زبان کے دوقصید ے ایسے مشہور ہوئے کہ اب تک اس قسم کا قصید ہ دوبارہ وجود میں نہیں آیا ، ایک قصیدہ کعب بن زہیر کا (بانَت سُعاد ) اور دوسرا قصیدہ امام بوصیری کا ۔ دو نوں قصیدے ،قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔دونوںنعتیہ قصیدے ہیں اور دونوں کے زمانۂ تخلیق میں چھ صدی کا فاصلہ ہے ۔یہ قصیدے اتنے مقبول ہوئے کہ ان کے تراجم دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوے ۔ اردو میں امام بوصیری کے قصیدہ کا تر جمہ اشر ف گلشن آبادی نے کیا ہے ۔یہ کتاب سید عبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور ان کے ترجمہ قصید بر د ہ پر ہے ۔

مصنفہ تحقیقی مزاج کی حامل ہیں جن کا تعلق تحقیقی ادارہ انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ممبئی سے ہے ۔اس کتاب سے پہلے ان کے کئی تحقیقی مقالات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں سے ’’ مہاراشٹر کی اردو مثنویاں ‘‘ ،’’ اردو ڈرامہ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‘‘ اور ایک ٹیم ورک کے طور پر ’’ فارسی ادب بعہدمراٹھا حکمراں ‘‘ ۔ اسی طر ح سے ایک عمدہ تحقیقی کام اس تصنیف کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے ۔

مصنفہ نے دو مختلف تحقیقی موضوعات کو ایک ہی کتاب میں پیش کیا ہے۔ سید عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبا دی مستقل ایک تحقیق کا موضوع ہے اور اس موضوع کو مصنفہ نے بہت ہی خوبصور تی سے نصف کتاب میں بسط و تفصیل سے پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔موصوف سے متعلق شروع کے چار عناوین میں ان کی ذاتی زندگی سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔پانچو یں عنوا ن میں سید عبدالفتاح کی تالیف و تصانیف کو پیش کیا ہے ۔ یہ ایک مکمل تحقیقی دستاویز ہے ۔ ان کی کتابوں کے تعلق سے جو تحقیق ہے کہ انہوں نے کتنی کتابیں یاد گار چھوڑی ہیں ان سب کو دلائل سے پیش کیا ہے۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ کتابیں ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں لیکن مصنفہ محتر مہ میمونہ دلوی کی تحقیق کہ انہوں نے ۳۲  یادگار تصانیف لکھیں ہیں اس جانب مائل نظر آتی ہیں ۔ اسی مضمون میں کن کن لائبریریوں میں موصوف کی کون کون سی کتب موجود ہیں ان کامختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ کتابوں کی جلدوں کی تعداد اور دیوان کے مشمولات پر بھی بحث شامل مضمون ہے ۔ اس مضمون سے انداز ہ ہوتا ہے کہ موصوف اپنے وقت کے بہت جید عالم تھے ان کی کتابیں جہاں اس وقت کے تعلیمی ادارے میں داخل تھیں وہیں انہوں نے فتاوی بھی تر تیب دیے اور شاعری کا دیوا ن بھی یادگار چھوڑا ، لسانیا ت میں عمدہ گر فت کے ساتھ تاریخ میں بھی دستر س رکھتے تھے ۔ الغرض انہوں نے معقولات اور منقولات کے جملہ علوم پر کتابیں لکھیں ہے ۔ 

مندرجہ بالا کے علاوہ ایک یادگار کارنامہ قصیدہ بر دہ کا منظوم تر جمہ ہے ۔ جس تر جمہ نے انہیں وہ شہر ت عطا کی جو ان کو دوسری تصنیفات سے حاصل نہیں ہوئیں ۔ قصیدہ بردہ عربی میں کئی لکھے گئے لیکن شہر ت صر ف دو کو ہی ملی ایک کعب بن زہیر کی ’’بانت سعاد‘‘ اور دوسرا امام محمد بن سعید بوصیری کے ’’قصیدہ بر دہ‘‘ کو ۔ کعب بن زہیر کے قصیدہ کو سن کر حضور نے ان کو اپنی چادر اوڑھائی تھی اور وہ چادر خلفاء بنی عباس تک صحیح سالم رہی۔ اس کے بعد اس متعلق تاریخ میں کوئی حتمی بات نہیںملتی ہے ۔ اسی طر یقے سے امام بوصیر ی کے خواب میں حضور آئے اور ان کو چادر پیش کیا ۔ اس اعتبار سے ان قصید وں کو قصیدہ بر د ہ کہا جاتا ہے ۔ مصنفہ نے جہاں ان چیزوں کو پیش کیا ہے وہاں ہلکی سی چوک ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ کعب بن زہیر کے نام میں کہیں کہیں زہیر بن کعب لکھا گیا اور دوسرے مضمون کے آخرمیں لکھتی ہیں ’’ امام بوصیر ی کو عطا کر دہ ردائے رحمت بوصیر ی کے بعد کن ہاتھوں میں پہنچی اور اب کہاں ہے اس کی جستجو و تلاش جاری ہے ‘‘ (ص۸۲) ۔ان کو تو چادر خواب میں عطا ہوئی تھی ۔ پھر کن ہاتھوں میں پہنچنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟۔

’’قصیدہ کی شرحیں اور تر جمے‘‘ میں انہوں نے دنیا میں کی گئی تر اجم کا ذکر کیا اور اردو تر اجم کا خصوصی ذکر ہے ۔ایک مختصر مضمون علامہ اقبال اور امام بوصیری کے تعلق سے بھی ہے ۔ایک اہم عنوان ’’شر ح قصیدہ بر دہ شریف ‘‘ ہے ۔ اس عنوان کے تحت ۱۲ سے زیادہ صفحات پر مشتمل قصیدہ بر دہ شر یف کو صرف ۶ صفحات میں پیش کیا گیا ہے ، میرے خیال سے مصنفہ سے چوک ہوگئی۔ شاید خلا صہ پیش کر نا چا ہتی تھیں جیسا کہ پیش بھی کیا ہے لیکن شر ح لکھا گیا اس میں قصیدہ بردہ کے دسو ں باب کا خلاصہ ہے ،نہ کہیں لفظی بحث ہے اور نہ ہی معنوی بحث ، نہ ہی تعلیقہ کے تحت آنے والے اسماء و مقامات کا تعارف ہے بلکہ ایک عمومی تجزیہ ہے قصیدہ بردہ پر ۔ اس کتاب کا سب سے اہم تنقیدی جزو میر ے نزدیک ’ ’دایوان اشر ف الاشعار‘ ‘ ہے ۔ اس میں مصنف نے ان کے دیوان کا جزوی مطالعہ اور قصیدہ بر دہ (تر جمہ ) کا کلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ ہر ایک باب کے عربی اشعار کے ساتھ اردو اشعار کا موازنہ بھی پیش کیا گیاہے اور اس پر اپنی تنقیدی نظر بھی ڈالی ہے ۔ موصوف کے قصید ہ گوئی کے تعلق سے مصنفہ لکھتی ہیں ’’ وہ محمد رفیع سودا کی طرح مزاجاًقصیدے کے شاعر تھے ۔ ان کے اشعار پُر زور اور پُر شکوہ الفاظ سے مملو ہیں۔ لیکن طنطنہ خیز نہیں ہیں‘‘ (ص ۱۱۴) ۔ یقینایہ خصوصیت اس کتاب میں شامل قصیدہ بر دہ میں نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد امام بوصیری کا عربی قصیدہ بر د ہ ، پھر مولوی عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبادی کا اردو قصید ہ شاملِ کتاب ہے ۔

الغر ض مصنفہ نے ایک عمدہ تحقیق سید عبدالفتاح اور ان کے قصید ہ کے تعلق سے پیش کیا ہے اس کے لیے وہ بہت ہی مبارکباد کی مستحق ہیں اور ساتھ ہی پر وفیسر عبدالستا ر دلوی بھی جن کا پر مغز مقدمہ شامل کتاب ہے اور انجمن اسلام کابھی جو اتنے عمدہ تحقیقی کام انجام دے رہی ہے۔

صفحات  ۲۰۰
قیمت  ۲۰۰
ناشر  انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ، ممبئی 

Monday 8 July 2019

ِ خیمہ ٔ احباب سے آگے

ِ  خیمہ ٔ احباب سے آگے 

مصنف ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی 

 تعارف  امیر حمزہ

ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی کی شناخت عصر حاضر میں ایک اہم ناقد کے طور پر ہوتی ہے ۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں سکونت پذیر صف اول کے جدید تنقید نگار وں میں ہوتا ہے ۔ ان کی تنقید نگاری سے فن تنقید میں بحث و مباحث کے نئے باب روشن ہو تے نظرآتے ہیں ۔ موصوف نے شعر ی و نثری اصناف ادب کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایاہے جس کی ادبی حلقہ میں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے ۔ انہوں نے جہاںمختلف موضوعات پر لکھا وہیں زیر تبصرہ کتاب کے مشمولات سے یہ باور ہوتا ہے کہ ان کا خاص میدان شاعری ہے ۔موصوف کی مقال جیسی عمدہ کتاب اس سے قبل ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنا نے میں کامیاب رہی ہے۔ موصوف کی کتاب میں شامل اکثر مضامین اہم اور معتبر جر یدہ میں شائع شدہ یا سمینار میں پیش کر دہ ہو تے ہیں۔ 

آفاق عالم صدیقی کاتنقیدی انداز اپنے معاصرین میں جداگانہ ہے ۔ وہ تنقید میں جدت نگاری کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے مضامین میں گفتگو کا نیا بیج اور فکر کا نیا دریچہ وا کر نے کی کوشش کر تے نظر آتے ہیں جیسا کہ اس کتاب کے کئی مضامین اس پر دال ہیں ۔

 کتاب کا پہلا مضمون ’ تحقیق اور تحقیقی مقالہ‘ ہے ،یہ مضمون سادگی سے تحر یر کیا گیاہے ۔اس میں انہوںنے کسی بھی دانشور کے خیال و نظر یہ کو اقتباس میں پیش کر کے جر ح کرنے کی اور نہ ہی اپنی بات کو مدلل طور پر پیش کر نے کے لیے اقتباسات لانے کی کوشش کی ہے ۔ بلکہ اپنی باتوں کو خوبصورت انداز میں پیش کر تے چلے گئے ہیں ۔ بہر حال یہ مضمون کسی بھی مقالہ کو صورت تحریر میں لانے کے لیے ایک عمدہ گائڈلائن ہے ۔ 

’ دوہا تدریس و تنقید‘ کتاب کا دوسرا اہم مضمون ہے ۔ مضمون کے شروع میں تدریس کے آرٹ کو پیش کیا گیا ہے پھر دوہا بطور صنف کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے ۔دوہے کی روایت اور سفر پر گفتگو کر تے ہوئے لکھتے ہیں ’’ ....... جمیل الدین عالی نظم و غزل کے بھی اچھے شاعر سمجھے جاتے تھے ، مگر انہیں جو مقبولیت دوہو ں کی وجہ سے ملی غالبا وہ تمام عمر غزل کہتے تب بھی ایسی مقبو لیت نہیں مل پاتی ۔ یہیں سے اردو میں دوہے کہنے کی روایت مستحکم ہوئی اور عالی جی اردو دوہے کے بانی کے نام سے یاد کیے جانے لگے ۔‘‘ (ص ۳۳) مصنف کا یہ جملہ کہ’’ اردو میں دوہے کے بانی قرار دیے گئے‘‘ ۔ یہاں بانی سے شاید مصنف کی مراد نشاۃ ثانیہ کا محر ک ہے نہ کہ حقیقی بانی ۔ کیونکہ جمیل الدین عالی سے قبل ایک لمبی فہرست ہے جو اردو کے شاعر تھے اور دوہے بھی کہے جس کو خاور چودھری کی کتاب ’’ اردو دوہے کا ارتقائی سفر ‘ ‘ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔اسی مضمون میں وہ لکھتے ہیں ’’ جمیل الدین عالی کے بعد تو گویا دوہا اردو کی پسندیدہ صنف شاعری بن گیا ‘‘ (ص ۳۴) کیا یہ حقیقت ہے کہ جمیل الدین عالی کے بعد ہر طر ف دوہا کے چرچے ہونے لگے ؟ غزل ، نظم ، آزاد نظم، نثری نظم ، نظم معریٰ ،رباعی اور قطعات پس پشت چلے گئے ؟ میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ہاں دوہے بکثر ت جرائد میں پڑھنے کو ملنے لگے یہ سچ ہے ۔ پسندیدہ صنف شاعری بننا انفرادی طور پر کہہ سکتے ہیں لیکن ا جتماعی طور پرمناسب بات معلوم نہیں ہوتی ۔  بہر حال اس مضمون میں مصنف نے دوہا تدریس کے متعلق سات نکات پیش کیے ہیں ، تمہید ، اعلان مدعا، استحضار ، تفہیم اشعار ، استحسان دوہا، دوہا خوانی اور اعادہ۔ نیز اس کا بھی بخوبی ذکر ہے کہ دوہا کی تدریس کیونکر دیگر اصناف کی تدریس سے مختلف ہے ۔ الغر ض یہ مضمون ، تحقیق، تنقیدی، تجزیاتی اور تدریسی اعتبار سے بہت ہی اہم ہے۔

’نئی غزل ایک مطالعہ‘  یہ مضمون صر ف کسی خاص عہد ، تحریک اور رجحان کا احاطہ کر تا ہوا نظر نہیں آتا ہے بلکہ مضمون جدید غزل کے بانیین اصغر ، فانی ، جگر اور حسر ت و فراق سے موجود ہ عہد تک کے اہم غزل گو شعراء پر محیط ہے ۔ ترقی پسند شعرا میںفیض ، مجاز ، جذبی ، ساحر، مخدو م اور مجرو ح کا ذکر کر تے ہوئے تر قی پسندی پر اپنا نظریہ اس انداز میں پیش کر تے ہیں کہ ’’ تر قی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کے اسلوب ، لہجے اور موضوعات میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ مگر موضوعات کی تکر ار اور رویے کے ٹھوس پن نے اس سفر کو بہت طویل نہیں ہونے دیا اور جلدہی دوسری سمت کا سفرشروع ہوگیا ‘‘ (ص۴۹) ۔ جدید شاعری کے سر مایے میں جن شعرا نے قابل قدر اضافہ کیا ان میں سے خورشید احمد جامی ، مظہر امام، پر کاش فکری ، شہر یار ، کمار پاشی، نشتر خانقاہی ، صدیق مجیبی، لطف الرحمن ، شاذتمکنت ، شکیب جلالی، حسن نعیم ، بمل کرشن اشک ، شہزاد احمد ، سلیم احمد اور سلطان اخترکا ذکر ہے ۔یہ گفتگویہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ جدیدیت کے زیر سایہ جوشاعری پروان چڑھی اس پر بھی بہت ہی عمدہ بحث پڑھنے کو ملتی ہے اور غزل کے رنگ و آہنگ میں کس طر ح شا عر نے کچھ نیا پیش کر نے کی کوشش کی ہے یا نظر آتی ہے اس کا بھی بخوبی احاطہ کیا گیا ہے جس کا ذکر تفصیل طلب ہوگا ۔ 

’اکیسویں صدی میں نثر ی نظم‘ ۴۵ ؍صفحات پر مشتمل ایک طویل مقا لہ ہے ۔ اردو میں نثر ی نظم کی شروعات ساٹھ کی دہائی سے ہوتی ہے۔ جدیدیت کے دور میں اس کو بہت فروغ ملا اس کے بعد اس صنف میں فن ، موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے کئی موڑ آئے ہیںلیکن آفاق عالم صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ اس صنف کے ردو قبول اور صنفی اعتبار سے اس کے اختصاص پر گفتگو سے زیادہ ضر وری ہے کہ اب اس کے سرمایے پر گفتگو کی جائے اور نثر ی نظم کے شعرا اور نظموں دونوں کا جائزہ پیش کیا جائے۔ انہوں نے اس مضمون میں  اکیسویں صدی میں نثر ی نظم کی تاریخ بیان کر نے کے ساتھ ساتھ جائزہ بھی لیاہے جن میں خورشیدالاسلام ، منیر نیازی، افتخار جالب، سلیم الرحمان ، باقر مہدی، زبیر رضوی ، شہر یا ر، لطف الرحمان، محمد حسن ، نعمان شوق ، احتشام اختر، ایس ایم عقیل ، شمیم قاسمی ،عذارا عباس ، احمد ہمیش، پرو فیسر صادق، حمید سہر وردی، صلاح الدین محمد ثر وت حسین ، اصغر ندیم سید کے علاوہ درجنوں شاعر ہیں جو نثر ی نظم کی مشاطگی میں لگے ہوئے ہیں ۔مصنف نے تمام شعرا کے کلام پر گفتگو کرنے کے ساتھ ان کی نظموں پر بھی اچھی بحث کی ہے۔یہ مضمون کسی بھی ریسر چ اسکا لر کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔

’ اسی (۸۰) کے بعد کے شاعروں کا ایک اور انتخاب ‘ اس مضمون میں مصنف نے اس بات کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے کہ اسی(۸۰) کے بعد کی شاعری غزل کے حوالہ سے کس قدر مختلف ہے اور وہ شاعر جو جدیدیت سے کسی قدر بھی متاثر نہیں تھے ان کی شاعری کا رنگ کیا ہے ۔  اس مضمون میں مصنف نے پروفیسر کو ثر مظہری کی کتاب ’ جواز و انتخاب ‘ کا بھی بخوبی ذکر کیا ہے کہ اس کتاب نے’’ کئی شعرا کو خصوصی و عمومی مطالعے کی مرکزی فضا کا حصہ بنایا اور ان کی شناخت کی راہیں ہموار کیں ‘‘ ۔ اس مضمون میں ارشد عبدا لحمید ، اقبال خسرو ، اکر م نقاش ، تفضیل احمد ، راشد طراز ، نعمان شوق، ساجد حمید ، خورشید طلب ،عذرا پروین، شارق کیفی، جاوید ندیم ، فراغ روہوی  اور کبیر اجمل وغیرہ کا ذکر ہے ۔ 

آفاق عالم صدیقی ایک زمانہ سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لیے وہ تدریس کے مسائل و جزئیات کو بطر یق احسن پیش کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تدریس کے سلسلے میں ان کا اہم مضموں ’ اردو زبان و ادب کی تدریس ، شامل کتاب ہے ۔ یہ مضمون جزئیاتی طور پر دوہا تدریس و تنقید سے مماثلت رکھتا ہے نیز اس سے بہت حدتک مختلف اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زبان کی تدریس کے کئی اہم نکات بیان کیے گئے ہیں جو اساتذہ کے لیے بھی بہت مفید ہے اور خاص طور سے ادب کے قاری کے لیے بھی۔

’نئی غزل کے چند اہم غیر مسلم شعرا‘ اس مضمون میں مصنف نے اردو کے قدیم غیر مسلم شاعروں کو فہرست میں شامل نہیں کیا ہے جیسا کے عنوان سے بھی ظاہر ہے ۔ اصل میں ہندی اردو قضیہ کا معاملہ قیام فورٹ ولیم کالج سے ہی شروع ہوگیا تھا مزید یہ مسئلہ سیاست کے ہاتھوں میں آگیا جس پر آزادی سے قبل ہنوز سیاست جاری ہے ۔ ’نئی غزل ‘ سے مصنف کا اس جانب بھی اشارہ ہے کہ تمام تر ناموافق حالات کے باجود اردو شعری سرمایہ میں غیر مسلم شعراء کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج بھی کئی غیر مسلم شاعر گیسوئے اردو کی مشاطگی میں لگے ہوئے ہیں اور اردو شاعری میں وہ اپنا منفر د مقام بھی رکھتے ہیں جیسے گلزراین ( گلزرا دہلوی اور گلزار فلمی نغمہ نگار)۔ اس مضمون میں پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی سے لے کرموجودہ وقت کے اہم شاعر خوشبیر سنگھ شاد تک کی شاعری پر مختصرا ًگفتگو کی گئی ہے۔

’بچوں کاادب ---ہم عصر صورت حال ‘  اس مضمون میں ادب اطفال کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ماضی کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے معاصر صورتحا ل کو پیش کیا ہے اور بچوں کی نشونما اور ان کی فکر ی قوت کو نظر میں رکھتے ہوئے ارد و میں موجودہ ادب اطفال پر غیر مطمئن نظر آتے ہیں ۔لکھتے ہیں ’’ اکیسویں صدی کے جو بڑے واقعات اور امکانی وقوعے ، مسائل اور فنٹاسیز ہیں جو ذہن اور انسا ن کی بڑی جستیں اور اختراعات ہیں۔ جو سائنس اور ٹکنالوجی کی بڑی عطیات اور آزمائشیں ہیں ۔ ان کے تخلیقی اور علمی بیان سے اردو ادب اطفال کا سرمایہ بالکل خالی ہے ‘‘(ص۲۰۹) پھر انہوں نے اخلاقیات پر گفتگو کی ہے کہ سائنسی ایجادات کے عہد میں ادب اطفال ان کے ایجادات کے ساتھ کس قدر تعمیر اخلاقیات کا ضامن ہو سکتا ہے ۔ان تمام کے علاوہ انہوں نے کئی اور اہم چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ الغر ض ہمعصر صورت حال میں آپ کوادب اطفال میں فقدان سے روبرو کروائیں گے ساتھ ہی مضمون میں ہم عصر ادیبوں کے ذکر کابھی فقدان نظر آتا ہے ۔

’اذکار کا اداریہ اور اسی کے بعد کے قلمکار ‘ اس مضمون کو ہم احتسابی اور جواب احتساب دونوں کہہ سکتے ہیں ۔اصل میں مصنف نے اس مضمون میں اذکا رکے جس اداریہ کا تجزیہ پیش کیا ہے وہ اذکار کے انتیسویں شمارہ کا اداریہ ہے جس کو اکرم نقاش نے تحریر کیا ہے۔ اس میں اکر م نقاش نے موجودہ ادب اور ادیبوں پر احتسابی نظر ڈالی ہے اسی کو آفاق عالم صدیقی نے اپنے اندازسے سترہ صفحات پر طویل مضمون کی صورت میں پیش کیا ہے اور ان کے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر نے کی کوشش کی ہے ۔اذکار کے اداریہ میں اکر م نقاش پانچ سوالات قائم کرتے ہیں (۱)یہ نسل سمت نما کے بغیر محو سفر ہے (۲)یہ نسل اپنے تخلیقی وفور کا ثبوت کیوں نہیں دیتی؟ ( ۳) یہ ادبی عرصہ کسی ادبی ہلچل کا احساس کیوں نہیں دلا تا ؟ (۴)آج کا ادیب اپنی انفرادیت کے اثبات پر اصرار کیوں نہیں کر تا ؟ (۵)اور اسے اپنے شناخت کے استحکام میں اور کتنا وقت درکار ہے ؟۔ان تمام سوالات کے جوابات آفاق عالم صدیقی نے جس خوش اسلوبی سے مدلل انداز میں پیش کیا ہے وہ لائق تحسین اور قابل مطالعہ بھی ہے ۔ 

’’جنوبی ہند کا موجودہ ادبی منظر نامہ ‘‘ یہ کتاب کا آخری مضمون ہے ۔ ایک عہد ایسا تھا جب شمال و جنوب کے ادب میں تفریق اور دوری پائی جاتی تھی ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے زمانے سے بُعد قُر ب میں بدلنا شروع ہوگئی لیکن اس کی رفتار تیز نہیں تھی، جب تر قی پسند تحر یک وجود میں آئی تو جنوب نے اس تحریک کے توسط سے کئی لاثانی اور غیر فانی ادیب دیے ۔ اب شاید علاقائی سطح پر کسی کوکسی پر تفوق حاصل نہیں ہے اور ادب کے منظر نامہ میں سب یکساں نظر آتے ہیں کیونکہ اب زبان و آہنگ میں ایک ہی رنگ نظرآتا ہے اور قواعد میں جو تفریق تھی وہ صرف بولنے کی حد تک رہ گئی ہے ،لکھنے میں نہیں ۔ اس مضمون میں تر قی پسندتحریک سے لیکر موجود ہ وقت تک ادب کے تمام گوشو ں میں جنوبی ہند نے جو خدمات انجام دیں ہیں اس کا ذکر اجمالا کیاگیا ہے ۔

خلاصہ کلام ’خیمہ ٔ احباب سے آگے ‘ایک ایسی کتاب ہے جواگر چہ کسی خا ص موضوع پر مشمولات کو آپ کے سامنے نہیں پیش کر تی ہے لیکن مصنف نے عنوانات پر قلم اٹھا یاکما حقہ انصاف کر نے کی کوشش کی ہے ۔ خواہ وہ دوہے سے متعلق ہو، نئی غزل ہو، نثر ی نظم ہویا ادب اطفال یہ تمام مضامین کتاب کو یقینا عظمت بخشتے ہیں ۔ امید ہے کہ مصنف مستقبل میں مزید فکر ی پرواز سے اردو کو نوازیںگے ۔

امیر حمزہ 
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یو نی ورسٹی دہلی 

صفحات : ۲۴۸
قیمت : ۳۰۰
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

"تہذیب کا جنازہ"(انشائیہ) پر تبصرہ


ہمارے یہاں ایک بہت ہی اہم کتاب ’سب رس ‘ہے جو تقریباً تمام جامعات میں داخل درس ہے ۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ اردو کی سب سے پہلی   ادبی نثری کتاب ہے مزید اس کی اہم خصوصیت  تمثیلی داستان ہونا ہے ۔یہی خصوصیت اس انشائیہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ انشائیہ کے کچھ کردار تمثیلی ہیں ۔

جب بھی انشائیہ کی تعریف کی جاتی ہے تو واضح طور پر نہیں کہا جاتا ہے کی انشائیہ اسی کو کہتے  کیونکہ انشائیہ کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں کوئی بھی جامع اور مانع نہیں اکثر مواقع پر طنز و مزاح اور انشائیہ گڈ مڈ ہوجاتے ہیں. بہت ہی مشکل ہوتا ہے دونوں کو الگ کر نا. کہیں کہیں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ طنزیہ میں طنز کے عنصر میں اصلاح مقصود نہیں ہوتا ہے اور مزاحیہ مطلقاً نقالی کو بھی کہا جاتا ہے ۔جبکہ انشائیہ میں ذہنی تر نگ کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہو کہ وہ فکر و فلسفہ سے بو جھل نہ ہو جائے ۔ مولانا عبدالماجد انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسن انشا کو قرار دیتے ہیں اسی لیے شاید انہوں نے اپنے مضامین کو انشائے ماجد ی کے نام سے شائع کیا ہے ۔ بہر حال گفتگو ہے ” تہذیب کے جنازہ ‘ ‘ پر جس میں تہذیب کی موت پر اس کے اعزہ و اقربا ’اخلاق، مروت ، شرمندگی “ کا خصوصی طور پر ذکر ہے جو تمثیلی ہیں ۔ان کے علاوہ جب ’اخلاق ‘ کاذکر پہلی سطر میں آتا ہے تو وہ غیر تمثیلی کر دار ہوتا ہے لیکن جب ’ تہذیب ‘ کی موت کے بعد اس کا ذکر ہوتا ہے تو وہ تمثیلی ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہاں ’ اخلاق ‘ کے ساتھ ’ صاحب ‘ کا لفظ جڑا ہوا ہے ۔جو مابقی ہمنوائے تہذیب کا سپہ سالار بھی ہوتا ہے ۔


انشائیہ میں پھر اوپر کی جانب لوٹتے ہیں ۔انشائیہ شروع ہوتا ہے آخلاق کے بے وقت نیند سے بیدار ہونے سے ۔انشائیہ آگے بڑھتا ہے وقت کی جستجو سے ۔کافی تلاش و جستجو کے بعد’ اخلا ق ‘ کے ذہن میں لیپ ٹاٹ ہی ایک ایسا آلہ نظر آتا ہے جس سے وقت معلوم کیا جاسکے باقی دیگر چیزیں وقت معلوم کرنے کے لیے موصوف کو غیر محسوس ہوئیں ۔موصوف مشہور زمانہ اخلاق گاہ جہاں سے اخلاق کو فی زمانہ درآمد اور برآمد سب سے زیادہ کیا جاتا ہے یعنی فیس بک پرغیر شعوری طور پر وارد ہوگئے۔اسی درمیان ’ حرف O ‘ کے ذریعہ مخصوص اضطراری حالت کو بیان کیا گیا ہے ۔ جس کو مکمل انشائیہ نگارہی یا ان کے گردو پیش رہنے والے افراد سے ہی سمجھا جاسکتا ہے کہ آخر فیسبک کی دنیا میں یہ کس طلسم کا نام ہے ۔اس کے بعد انشائیہ نگار اپنا دخل ختم کر کے انشائیہ کو پوسٹ کے حوالہ کر دیتے ہیں جسکا ابتدائیہ خوبصورت اور شامل کیے جانے والے کر دار بھی معنی خیز ہیں ۔جس کر دار کا کو ئی نام نہیں وہ بھی پوسٹ کو سمجھ نہیں پاتا ہے کہ موت کس برگزیدہ شخصیت کی ہوئی جس کی لاش شاہراہ عام جیسی سنسان مقام پر پڑی ملی. بہرحال جس کے نام ہیں جیسے مروت اور اخلاق وغیرہ ان کے ہی کمینٹس سے انشائیہ خود میں خوبصورتی لاتا چلا جاتا ہے ۔جیسے فہم وفراست کا مشتر کہ سوال’ ’ تہذیب تھے کون ؟ کیا مر د تھے یا زن؟ یا ..... وغیرہ ۔ ان کا ملنا جلنا کس قسم کے لوگوں سے رہتا تھا ۔اس کے بعد اخلاق صاحب کی خودسری آتی ہے اور بہت ہی معنی خیز جملہ ان کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ ’ کسی کے پاس اپنی مر ضی سے گئے تو گئے اور نہ مجال کیا کسی کی جو انہیں کچھ وقت تک اپنے پاس رکھ سکے ۔کسی زمانہ میں صبر و تحمل اخلاقی قدروں میں سے ہوتا ہوگا لیکن اخلاق نے اب ان سے بھی اپنا ناطہ توڑ رکھا ہے ۔پھر بھی جب تہذیب کی موت کی خبر عام ہوتی ہے اخلاق کی سربراہی میں ایک جم غفیر تعزیت کو جاتی ہے ۔ یہاں اخلاق کا خوبصورت اور طنزیہ کردار نظر آتا ہے ۔ اچانک رسم و رواج کا اس معاملہ میں کود جانا کسی بڑے ہنگامہ کی خبر دیتا ہے لیکن سنت سے باہمی مشورہ کے بعد تدفین سے پہلے کے عمل مکمل کر لیے جاتے ہیں ۔اس کے بعد کی خوبصورت منظر نگاری ملاحظہ فرمائیں ” روح قبض ہوجانے کے بعد بھی ماتھے کا شکن نہ گیا اور ان کی انگلی بھی ( شہادت کی ) عوام کی جانب اٹھی ہوئی یوں لگ رہی تھی گو یا کوئی حکم صادر کر رہے ہوں یا کسی کو اس کے کسی فعل پر تنبیہ کر رہے ہوں “ اس منظر نگاری میں جو پیغام پوشیدہ ہے انشائیہ میں یہی چیز خصوصیت کے ساتھ پائی جانی ضروری ہوتی ہے ۔

مر وت اور وکیل بظاہر آپ کو کچھ اٹپٹا سا لگے لیکن اس لفظ مر وت کا خوبصورت استعمال وکیل کے ساتھ ہی سب سے زیادہ مروت کی بات ہے ۔کیونکہ اخلاق کا ادنی قدر وکیل کے اندر ہی موجود ہوسکتا ہے اور اسی کا نام مروت ہے۔مر وت کے بعد فوراً شرمندگی کا آنا یا شرمندگی سے مر وت کا آنا اس کا خوبصور ت مفہوم اس فن پارہ میں نظر آتا ہے ۔

الغرض اس انشائیہ میں ایک خاندان یا ایک قبیل کے الفاظ کو کر دار کے طور پر پیش کر کے بہت ہی مختصر فن پارہ کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے اس کے لیے مبارکباد البتہ جس طر ح سے میرے تجزیے میں جلد بازی ہے اسی طر یقے سے اس فن پارہ میں جلد بازی سے کا م لیا گیاہے ۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو چیز جہاں مکمل ہو جاتی ہے وہیں اچھی لگتی ہے اس کے ساتھ حذف و اضافہ مشکل بھرا کام ہوتا ہے کبھی کبھی فن پار ہ خراب بھی ہوجاتا ہے ۔ 

امیر حمزہ 





"تہذیب کا جنازہ"(انشائیہ)

  تحریر: شمس ودود  جے این یو،نئی دہلی

خلاف معمول آج "اخلاق" صاحب اپنے متعینہ وقت سے پہلے ہی خواب غفلت سے بیدار ہوگئے, کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی جب وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا تو بستر پہ لیٹے ہی لیٹے اپنا نیک نام زمانہ "لیپ ٹاپ" ہی آن کر دیا, متعدد جمائیاں لینے کے بعد وقت پر نظر جمی تو بڑی حیرت ہوئی, برجستہ زبان سے نکلا "ارے! یہ تو میں دو گھنٹہ پہلے ہی بیدار ہو گیا......ابھی تو دس بھی نہیں بجے ہیں"!

پھر کیا تھا..... نیند نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور فرار ہو چلی, اب "اخلاق " صاحب بڑے ہی شش و پند میں مبتلا ہوئے کہ آیا اب کیا کیا جائے؟ ......انگلیوں سے لاشعوری طور پر حرکت ہوئی اور فیس بک (Facebook )......"کتابی چہرہ" یا "چہروں کی کتاب" .....کھول بیٹھے, اب کیا تھا..... حرکت تو سرزد ہو ہی گئی لیکن پھر حیرت و استعجاب سے ان کی آنکھیں انگریزی کے حرف "O" کا طواف کرنے لگیں, (اضطراری طور پر یہ حرکت آپ سے بھی سرزد ہو سکتی ہے......کوئی بات نہیں, تجربہ انسان کو نکھار دیتا ہے).

جب حیرانگی ذرا کم ہوئی تو فیسبک پہ آئے ہوئے ایک پوسٹ کو پڑھنے لگے, پھر بھی جب اس پوسٹ کو سمجھ نہ سکے تو بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا (اگر چہ تنہا ہی تھے)......"ایک عرصے سے علالت میں رہنے کے بعد آج "بروز اتوار "تہذیب" (صاحب یا جناب کے بغیر) کا انتقال ہوگیا "- 
"انا للّٰہ وانا الیہ راجعون"

تہذیب کی نعش "جامعہ ھذا" کے باہر شاہراہ سنسان پر لاوارث پڑی رہی, جس پر گھنٹوں کسی آدم زاد کی نگاہ نہیں پڑسکی"- گھبراہٹ اور تجسس کے امتزاج کے ساتھ جب "کمنٹ باکس" کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ متعدد لوگوں نے تعزیتی جملے کہے ہیں- کسی نے مرحوم کی تعریف کی تھی, تو کسی نے اپنے غم کا اظہار کیا تھا اور کچھ لوگوں نے تو غم و غصہ دونوں کا اظہار کیا تھا- 

ایک صاحب نے لکھا تھا کہ...... "تہذیب صاحب کو میں نے کبھی دیکھا تو نہیں لیکن ان کے بارے میں سنا خوب ہے, کافی نامور شخص تھے"- 

ایک اور صاحب نے لکھا تھا ......."تہذیب صاحب کی ’’جامعہ ھذا “سے خوب راہ و رسم تھی, جامعہ کے قیام سے لیکر ٢٠ویں صدی تک دونوں کا بڑا گہرا تعلق رہا, لیکن نہ جانے کیوں "مغرب" کی جانب سے چلنے والی "گرم ہواؤں" نے انہیں احساس کم تری کا شکار بنا دیا اور پھر دن بدن لاغر ہوتے گئے اور آج اس دار فانی سے بھی کوچ کر گئے"-

ایک اور صاحب نے تہذیب کے اعزہ و اقرباء, لاحقین و احباء کو صبر و تحمل سے ملاقات کرنے کی تجویز پیش کی, ......اسی طرح سے متعدد افراد نے کچھ نہ کچھ بطور تعزیت ضرور کہا تھا, مگر "فہم و فراست" کے سوال نہایت مضحکہ خیز اور غور طلب تھے, ان دونوں کا مشترکہ سوال یہ تھا کہ....... "تہذیب تھے کون؟ کیا مرد تھے ؟ یا زن ؟ یا......وغیرہ, ان کا ملنا جلنا کس قسم کے لوگوں سے رہتا تھا"؟

بہرکیف "اخلاق صاحب" تھے بڑے خود سر, کسی کے پاس اپنی مرضی سے گئے تو گئے, ورنہ مجال کیا کسی کی جو انہیں کچھ وقت تک اپنے پاس رکھ سکے - صبر اور تحمل سے تو ناتا ہی توڑ رکھا تھا, کہیں آتے بھی تھے تو غرض کو ساتھ لئے بغیر کبھی تشریف نہ لاتے, لیکن تہذیب کی میت پر ان کی دہلیز تک گئے- 

اب جب کہ پورے جامعہ میں تہذیب کے انتقال کی خبر پھیل گئی, تمام لوگ "اخلاق صاحب کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشریف لائے, لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں, ہر شخص ایک دوسرے سے  تہذیب ہی کے تعلق سے گفتگو میں محو تھا, پھر کسی جانب سے رسم و رواج دونوں آتے ہوئے دکھائی دئے, پھر کیا تھا..... سب نے ملکر (بشمول مرد و زن, بوڑھے, بچے اور جوان وغیرہ) تہذیب کا پرتو الٹا, پھر رسم و رواج دونوں نے سنت سے مشورہ کر کے قبل از تدفین کے تمام مراحل سے گزار کر تہذیب کو کفن پہنایا, عطر و کافور ملا گیا - لیکن تمام لوگ اس بات لو لیکر بڑی حیرت میں تھے کہ "روح قبض ہو جانے کے باوجود بھی تہذیب کے "ماتھے کا شکن" نہ گیا اور ان کی انگلی بھی (شہادت کی) عوام کی جانب اٹھی ہوئی یوں لگ رہی تھی گویا کوئی حکم صادر کر رہے ہوں, یا "کسی کو اس کے کسی فعل پر تنبیہ کر رہے ہوں"- 

دوسری طرف "اخلاق" صاحب بڑے بے چین پھر رہے تھے کہ آیا "لوگوں نے تہذیب کی میت پر آنسو ہی نہیں بہایا یا روتے روتے سب کے اشک خشک ہو گئےہیں"؟ 
ع:  دل رو رہا ہے میرا مگر آنکھ نم نہیں

لیکن ایسی بے چینیوں سے اب کیا ہو سکتا تھا, اب تو مرحلہ تھا کہ میت کو چار کاندھوں پر اٹھایا جائے اور درگور کر دیا جائے, عین اسی وقت "تہذیب" کا وکیل "مروت" ایک جانب سے بھاگا بھاگا آیا اور جنازے کو روک کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے کہنے لگا کہ تہذیب صاحب کا وصیت نامہ تو سن لیجئے, جو انہوں نے مجھ سے لکھواکر "شرمندگی" کے پاس بطور امانت رکھوا دیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ "میرا جنازہ اٹھنے سے پہلے یہ وصیت نامہ لوگوں کو ضرور سنا دینا"، میری تاخیر کا سبب بھی یہی ہے کہ میں "شرمندگی" کو تلاش کرنے نکل پڑا تاکہ اسے آپ لوگوں کے سامنے حاضر کر سکوں, ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر چند وقفے کے بعد جب پر تکلف انداز میں شرمندگی تشریف لائی (تھیں بھی محترمہ کھجور کے تنے کی طرح لمبی اور الف کی طرح سیدھی کہ خراما ہوتیں تو اطراف سے لوگ یہ کہنے پہ مجبور ہوجایا کرتے تھے کہ اماں! ذرا سنبھل کے ) اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے بے حد تکلف کے ساتھ وصیت نامہ پڑھنا شروع کیا جو کچھ یوں تھا کہ: - 
قسم تمہاری
قسم ہے تم کو, نہ دینا کاندھا 
اٹھے گا جب بھی 
جنازہ میرا.........!

Sunday 7 July 2019

آندھیوں میں چراغ


 آندھیوں میں چراغ 

(شعری مجموعہ )

محمد شاہد پٹھان 

امیر حمزہ

عصری حسیت کی بات اگر کی جائے تو آپ کو میرو غالب اور اقبال میں بخوبی دیکھنے کو ملے گا۔ اس کی مثال اور تفصیل یہی ہے کہ ان اساتذہ فن کی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس عہد کے مالہ و وماعلیہ سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ۔ اردو شاعری میں عصری حسیت ا س طر ح ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح مسلم ممالک اور اسلامی اقدار روایات کونشانہ بنا یا گیا اس کے ردعمل میںجو شاعری کی گئی اس کی تین قسمیں سامنے آتی ہیں۔ ایک مرثیہ کی شکل میں جس کی مثال اکبر الہ آبادی کی شاعری، دوسری شکل رجز کی آتی ہے جو اقبال کی شاعری میں نمایاں ہوئی جس میں وہ نئی تہذیب و راویت سے ٹکر ا جاتے ہیں اور اسلامی اقدارو روایات کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں تیسر ی شکل وہ ہے جو مغرب کی آندھی میں بہہ جاتے ہیں اور جدید تہذیب کے حامل یاجدید تہذیب میں داخل ہو ئے بغیر مغرب کی تمام چیز وں کو اچھائی کی نظر سے قبول کرتے چلے جاتے ہیں جس کے اثرات ترقی پسند ی اور جدیدیت میں جس کے اثرا ت ترقی پسند اور جدیدیت میں دیکھنے ملتے ہیں ۔ لیکن شاہد پٹھان کی شاعری میں اگر عصری حسیت کی بات کی جائے تو موصوف جس وقت (۱۹۸۸ء ) شاعری کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اس وقت دنیا میں معاشرتی اقدار بد ل جاتے ہیں، اردو ادب میں جدیدیت کمزور ہوجاتی ہے اور نئی نسل اپنی نئی نظر و نئی سوچ کے ساتھ ادبی دنیا میں داخل ہوتی ہے، جہاں وہ حسن و عشق، قنوطیت ، ہجرو فراق ، رنج و غم ،اصلاح و تزکیہ و نفس ، تصوف و سلوک کے دائرے سے نکل کر سماجی ، معاشرتی ، سیاسی ، معاشی اورجدید ذہنی مسائل کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں اُن کے یہاں عصری حسیت مقامی سطح سے ابھر کر آفاقیت کا دم بھر تی ہوئی نظر آتی ہے ، جس عہد میں انہوں نے شاعری کی اس وقت سے لیکر اب تک بلو ہ وفساد عام سی بات ہوکر رہ گئی ہے، مادیت پرستی کے اس دور میں دشمنوں کی شناخت بھی مشکل ہو چکی ہے چہ جائے کہ دشمنوں کی تعداد پر دھیان دی جائے ،انسان خو دکو بہت ہی اکیلا محسوس کر نے لگا ہے ایس حساس شاعری ان کے  یہاں نظر آتی ہے ۔

شاہد پٹھا ن ایک ایسے حساس اور بے باک غزل گوشاعر ہیں جنہوں نے اپنی غزلوں میں موجودہ زمانے کے فرقہ وارانہ فسادات ، ظلم و ستم ، سفاکی، بربریت و تنگ نظری ، بغض و حسد کی چالاکیاں ، کدورت و نفرت ، خباثت و عصبیت اور نسلی امتیازات جیسی لعنتوں کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ان کی شاعری کے ان مضامین پر ڈاکٹر شریف احمد قریشی لکھتے ہیں ’’ یہی وجہ ہے کہ بعض مخصوص الفاظ و علائم ان کی شاعری کی نہ صرف پہچان بن گئے ہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے بھی حامل ہیں ۔ پتھر ، سنگ ، خشت ، سیلاب، زخم ، سلاسل ، شعلہ سامانی ، آگ ،خنجر ، ظلم و استبداد، خون ، لہجہ ، قتل ، قاتل ، مقتل ، قتل گاہ ، غارت، دھواں ،کفن ، موج بلا ، مو ج ِ ستم ، موج شرر ، بر ق شرار ، رقص ِ بسمل، تلوار، رہبر، ظلم ، نفرت ، خوف، وحشت ، صحرا، قیامت ، نیزہ ،رات ، ظلمات ، دشت شعلہ ، آہ، فغاں ، حشر، قہر، عتاب، اضطراب، خونِ جگر، گلچیں ، انگڑائی اگرچہ کلاسیکی اور روایتی غزل کی لفظیات ہیں اور بظاہر ان میں کوئی نئی یا خاص بات نہیں لیکن شاہد پٹھا ن نے عصر حاضر کے مسائل و واقعات کے تناظر میں ان الفاظ و تر اکیب کو بطور استعارات و علامات جس خوبی سے استعمال کیا ہے وہ نہ صرف ان کے نظریے اور درد و کر ب کے عکا س ہیں بلکہ کلیدی حیثیت کے بھی حامل ہیں‘‘ ۔ (ص۲۳) یقینا قریشی صاحب کے ان الفاظ سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اشعار میں عصر حاضر کا کر ب نمایا ں طور پر نظر آتا ہے جیسے اس شعر میں ۔



کون شعلے بھر رہا ہے اس فضائے امن میں :  کون برہم کر رہا ہے آشتی کی زندگی 


انہوں نے اپنی شاعری میں صرف وقت کے حالات کی عکس بندی کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ان کے خود کے مزاج سے بھی آگہی ہوتی ہے جیسے احباب سے زخم کھانا، سیلاب میں مٹی کے گھر کا بچا رہ جانا ، اپنی قلندرانہ مزاجی کا اعلان کر نا ، اپنی شاعری پر نقاد کو حیران ہوتے ہوئے پانا ، مصائب سے گھرا رہنا ، زمانے کا ان کے تئیں سفاک ہونا، اپنی غربت کا بیان وغیرہ عناصر سے قاری اور سامع کو اپنی روداد بیان کر دیتے ہیں ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے حصول انبساط کے لیے کم سماج میں ظلم و تشدد کی نشاندہی کے لیے زیادہ شاعری کی ہے جس کے لیے وہ رائج نمرودیت ، رسم ِ نمرودیت ، ظلم یزداں ، جور چنگیزی ، آدم خاکی ، تقدیر آدم جیسی تراکیب و تلمیحات کا استعمال کر تے ہیں ۔اسی قسم کا ان کا ایک شعرکچھ اس طر ح ہے : 


گھر میں رہتے ہیں تو سنگ وخشت کی یلغار ہے اور باہر دشمن جاں حلقہ اغیار ہے


اس ۲۰۸ صفحات پر مشتمل کتاب میں تقریباً پچاس صفحات ان کی غزلوں کی تنقیدی مطالعہ پر مشتمل ہے ۔ ’’ حرف تاثر ‘‘ ڈاکٹر منشاء الرحمن منشا ، ’’شاہد پٹھان کا انداز تغزل‘‘ ڈاکٹر سید عبدالباری، ’’ غزل کے مزاج داں :شاہد پٹھان ‘‘ ڈاکٹر شریف احمد قریشی ، ’’ شاہد پٹھان کی غزلوں کا تجزیاتی مطالہ ‘‘ شکیل گوالیری، ’’ شاہد پٹھان کی شاعری ‘‘ ڈاکٹر محبوب راہی ، ’’ محمد شاہد پٹھا ن …بحرانی دور کاشاعر‘‘ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی اور ’’ شاہد پٹھان کا غزلیہ رنگ و آہنگ ‘‘ پروفیسر کو ثر مظہری ‘‘ کے مضامین ہیں جو ان کی شاعری کا قدر تعین کرتے ہیں ۔اس مجموعے میں حمد و نعت کے ساتھ ۱۸۰  غزلیں شامل ہیں ۔ ان کی خوبصورت شاعری کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ موجودہ دور کے چیدہ شاعروں میں ان کا شمار ہوگا ۔

Sunday 23 June 2019

جبل پور میں اردو






 جبل پور میں اردو 

امیر حمزہ

اردو زبان کی یہ شان رہی ہے کہ اس نے شہر و وقصبات کو فتح کر نا سیکھا ۔ جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹا رہا تھا تب اردو اپنا چراغ کئی شہروں اور نوابوں کے دربار میں روشن کر رہی تھی ۔دکن سے جب ادبی تاریخ میں تنزلی آتی ہے تو اردو دہلی کی سلطنت پر اپنا جادو دکھاتی ہے ، جب زبان و ادب شہر کے فصیل میں اپنا قدم رکھتی ہے تو قلعہ معلی میں شاعری کی نئی روش قائم ہوجاتی ہے پھر شہر اردو شاعری کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ سترہویں صدی میں جب دہلی اجڑتی ہے تو لکھنو کا ادبی محفل شباب پر آتا ہے ۔اس طریقے سے جب ملک کے حالات خراب ہوتے گئے تو شعراء نے چھوٹے چھوٹے شہر وں وقصبات کی جانب سفرکر نا شروع کیا جہاں نوابین کے بدولت ادب کی محفلیں منعقد ہونے لگیں اور زبان و ادب اس شہر میں اپنی نئی تاریخ رقم کر نے لگی ۔ اس زبان کی ایک تاریخ یہ رہی ہے کہ اس نے خود کو علاقائی سطح پر محدود نہیں کیا بلکہ جہاں جہاں بھی اردو طبقہ کا ہجرت ہوا یا گزر ہوا وہاں انہوںنے اردو کا شجر لگا یا اسی کا ثمرہ جبل پور میں اردو بھی ہے ۔بقول مصنف اس شہر میں اردو کی آمد مسلم فوجیوں کی آمد سے منسلک ہے ۔رانی درگاوتی کی شکست (۱۵۶۴ء ) کے بعد منڈلا حکومت میں اس شہر میں مسلم افسروں کی آمد و رفت زیادہ ہوگئی اور آبادی بھی بڑھنے لگی ۔پھر انگر یزوکے دور میں ثقافتی ، تعلیمی اور تہذیبی لحاظ سے بہت ہی تبدیلیاں واقع ہوئی تو مسلمانوں نے جدید نظام تعلیم سے متاثر ہوکر ۱۶ستمبر ۱۸۷۶ء کو انجمن اسلامیہ ٹرسٹ قائم کرکے پرائمری ، مڈل اور ہائی اسکول قائم کیے جہاں سے اس شہر میں اردو نے اپنی ترقی کے منازل طے کیے ۔

اس کتاب میں مصنف نے جبل پور کی تاریخ کو بیان کر تے ہوئے اردو کا ارتقائی سفر کے ساتھ جبل پور کا ادبی ماحول بھی پیش کیا ہے ۔جس میں انہوں نے گارساں دتاسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں شہر میں تین ادبی محفلیں قائم تھیں اس کے بعدکی ایک صدی میں اردو کے سیکڑوں شاعر پیدا ہوئے ۔ اس کتاب میں صرف ۱۹۵۶ ء تک کا ذکر ہے جبکہ کتاب ۲۰۱۸ ء میں منظر عام پر آئی ہے تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اس متعلق مصنف لکھتے ہیں کہ جب ہم نے ناگپور ، کامٹی اور برابر کی علمی و تمدنی تاریخ دیکھی تو ’’ میرے دل میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ جبل پور اور ناگپور کے مابین تو ۱۹۶۵ ء تک گہرے سیاسی ، سماجی ، لسانی اور ثقافتی تعلقات رہے ہیں ۔یہاں بھی ہمیشہ خوشگوار ادبی ماحول رہا ہے ۔ پھر یہاں کے کسی دانشور نے اس کی تاریخ کیوںمر تب نہیں کی ۔ جبل پور یونی ورسٹی میں اس موضوع پر تحقیق کیوں نہیں کرائی گئی ۔ چنانچہ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس موضوع کے سلسلے میں خود تحقیق کروں گا ۔‘‘

کتاب کی ترتیب اس طرح ہے ۔ محبان اردو کے عنوان سے انہوںنے قدیم ۱۰؍ شعرائے جبل پورکا سرسری ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد بہتر (۷۲)  خادمین اردو کا ذکر کیا ہے جن میں سے چار غیر مسلم بھی ہیں ۔ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوںنے خود جبل پور کی جانب ہجرت کی تھی یا خاندان کے ماتحت آئے تھے ۔ اکثر کا تعلق شعری دنیا سے ہے ۔ کیوں نہ ہوآخرانیسویں صدی کا آخری عشرہ اور بیسویں صدی کے ابتدائی عہد تک اردو میں کثیر مقدار میں شاعر ہی موجود تھے فن شاعری میں قسم قسم کے تجربے کر رہے تھے ۔ساتھ ہی پروفیسر محمد حنیف انصاری اور پروفیسرعبدالباقی جبل پور میں اپنی ادبی خدمات انجام دے رہے تھے ۔پروفیسر عبدالباقی کی کوششوں سے ہر بر س ایک مشاعر ہ جبل پور میں منعقد ہونے لگا جس میں فنا نظامی کانپوری ، اختر گوالیاری اور اختر نظمی وغیرہ کی شرکت ہوا کر تی تھی ۔ 

اس کے بعد ’گلشن کے مہکتے پھول‘ کے عنوان کے تحت ۲۶  افراد کا اجمالی ذکر ہے ۔ اس حصہ کے متعلق لکھتے ہیں ’’ اس کتاب کی تالیف کے دوران مجلہ نذر غالب (۱۹۶۹ء) ، مجلہ گلش ادب (۱۹۲۸ء) ، مجلہ نذرنظامی (۱۹۹۴ء ) اور مجموعہ عکس کہکشاں سے بعض ایسے شعرا کا کلام بھی حاصل ہوا ہے جن کی زندگی کے تفصیلی حالات کافی کوششوں کے باوجود فراہم نہیں ہوسکے ۔‘‘ اس کے بعد انہوںنے مدار س اور اسکول کی تعداد یہ ذکر کیا ہے کہ آزادی کے وقت ۲۶ سرکاری کے پرائمری اسکول تھے جن کی تعداد اب صرف ۱۸ ہے ۔ انے کے علاوہ کئی پرائیویٹ ادارے ہیں جہاں اردی کی تعلیم دی جاتی ہے جن میں سب سے نمایاں خدمت انجمن اسلامیہ کی ہے ۔تین مطبع او ر تقریبا ً دس رسالے اور اخبارات تھے جو جبل پور سے شائع ہورہے تھے ۔الغرض یہ کتاب جبل میں اردو تاریخ کے متعلق ایک دستاویز ہے ۔ مصنف فیرو وز کمال نے ۱۹۵۶ء کے بعد کی تاریخ کو بھی احاطہ تحریر میں لانے کا بھی ذکر کیا ہے۔
صفحات ۳۲۰
قیمت ۲۵۰ روپے
ملنے کا پتہ اشفاق کمال، کمال کمپیوٹرس ، گوہل پور ، جبل پور ۔۴۸۰۰۰۲  مدھیہ پردیش 


Wednesday 19 June 2019

محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات

ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات 



 مسلم دانشوروں کی وہ جماعت جنہوں نے خلافت تحریک سے اسلامی سیاست یا ہندمیں مسلم سیاست کے رہنما کے طور پر ابھر ے ان میں مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابو الکلام آزام اور علی برادران تھے جو ہندی کی پیشانی میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ابھرے تھے ۔اس تحر یک نے علاقائی سطح پر بھی رہنما پیدا کیے جن میں مولانا عبد الماجد دریابادی بھی تھے ۔ ان کی شناخت اگر چہ عالم ،مفسر قرآن ور انشاء پرداز کے طور پر ہوئی لیکن وہ خلافت تحر یک کے سرگرم رہنما بھی تھے ۔ مولانا کے گھر میں اسی سیاسی ماحول میں ہاشم قدوائی کی پیدا ئش ہوتی ہے جوبعد میں چل کر کانگریس کے سر گرم رکن سے لیکر راجیہ سبھا کے عہدہ تک کا سفر طے کر تے ہیں ۔ہا شم قدوائی صاحب کا تعلق کانگر یس کے اس طبقہ سے تھا جن کے لیے کانگر یس ایک نظر یہ تھا نہ کہ محض ایک سیاسی پارٹی ۔جیسا کہ انہوں نے ایک انٹر ویو میں بھی کہاہے کہ آزادی سے پہلے اور اب کے کانگر یس میں واضح فرق یہ ہے کہ پہلے پڑھے لکھے پارٹی میں تھے اب موقع پرست لوگ آتے جارہے ہیں ۔ موصوف کا تعلق زمانہ طالب علمی سے آخر ی عمر تک علی گڑ ھ مسلم یو نی ورسٹی سے رہا ہے وہ پولٹیکل سائنس کے استاد تھے انہوں نے علیگڑھ میں علمی ، تہذیبی و ثقافتی نشیب و فراز کوبغور دیکھااور محسوس کیا ہے وہ جدید نسل کی بے تہذیبی سے بہت ہی زیادہ نالاں بھی رہے اس کے لیے یو نی ورسٹی کے ایک چانسلر اور شعبہ دینیا ت کی نا کامی قر ار دیتے ہیں ۔ وہ یو نی ورسٹی کو سیر سید کی خوابوں کی تہذیب کی نظر سے دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اس کئی وائس چانسلروں کی خدمات کو سر ا ہا بھی ہے ۔اس کتاب میں ان کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، ادبی اور علمی زندگی سے متعلق ستر ہ (۱۷) مضامین ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر سلیم قدوائی نے شامل کیے ہیں ۔پہلا مضمون مولانا سید رابع حسنی ندوی کا ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کی تر بیت  مولانا دریابادی کے زیر سایہ پر مختصر اً لکھا ہے ۔ پر وفیسر ریا ض الرحمن شیر وانی ان سے متعلق کئی یادو ں کوجمع کر تے ہیں ۔موصوف کے چھوٹے بھائی عبد العلیم قداوائی ’’ تلخی غم کہی نہیں جاتی‘‘ میں ساتھ ساتھ گزرا بچپن اور بعد کے تعلقات کو بہت ہی غمناک انداز میں بیان کر تے ہیں ۔ ڈاکٹرہاشم قدوائی کا تعلق مطالعہ سے بہت ہی گہرا تھا وہ اردواور انگریزی میں ایک درجن سے زائد کتابیں انہوں نے لکھی جن میںسے سیاسیات پر لکھی کتابیں کئی یونی ورسٹیز میں داخل در س بھی ہیں ۔مکتوبات ماجدی کو سات جلدوں میں مر تب بھی کیا ان کے علاوہ ان کے تبصرے بہت ہی اہمیت کے حامل ہوئے ہیں مطالعہ وسیع ہونے کی وجہ سے انہوں نے تبصرو ں میں انصاف سے کام لیا ہے بلکہ کچھ تبصرے تو مصنف کے لیے مصیبت بن گئے لیکن موصوف اپنی تحریروں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ان تمام کا ذکر مرتب ڈاکٹر سلیم قدوائی نے ’’ اورقلم رک گیا ‘‘ میں کیا ہے ۔خواجہ محمد شاہدنے بطور استاد محتر م ان کی زندگی کو پیش کیا ہے ۔مفتی محمد عطاء الرحمن قاسمی نے عظیم محقق اور مؤرخ کے طور ان کا تعارف کرایا ہے ۔احمد مشکور صاحب نے سیاسی اور ادبی زندگی کو اپنے زاویے سے دیکھا ہے ۔مظفر حسین سید ان کے کئی صفات حمیدہ کو پیش کیا ہے جن کو انہوں نے بنظر خود دیکھا ۔اسعد فیصل کا مضمون دیگر مضامین سے ہٹ کر ہے وہ اس طور پر کہ تاثر اتی نہ ہوکر علمی طور پر ان کی صحافتی زندگی کو پیش کیا ہے وہ بھی محض ان مضامین کی روشنی میں جو دس روزہ ’’ جمہور ‘‘ علی گڑھ میں شائع ہوئے ۔ یہ مضامین پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں لکھے گئے ہیں ۔ان مضامین کے زیر اثر اسعد فیصل لکھتے ہیں ’’ آزادی کے فوراً بعد جن چند ہندوستانی نو جوانو مسلم دانشوروں نے مسلم سیاست اور اقلیتوں کے حقوق پر خون جگر سے لکھا ان میں ہاشم قدوائی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ البتہ ہماری قوم اس سچی اور کھری شخصیت کی قدر و قیمت پہچاننے میں قاصر رہی ۔‘‘ 
اس کتاب میں شامل تمام تحریروں میںسے اہم انٹر ویو ہے جسے محمد عارف اقبال ( ایڈیٹر اردو بک ریویو ) نے لیا ہے ۔ اس انٹر ویو میں ان کی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ جس میں بچپنا ہے ، آزادی ہے ، آزادی کے بعد ہے ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے ، راجیہ سبھا ہے اور مسلم قیادت اور مسائل بھی ہیں ۔ ’’ ایک نیشنلسٹ مسلمان کی چشم کشا سوانح ‘‘ (مصنف : ہاشم قدوائی ) پر بھی ایک تفصیلی مضمون محمد عارف اقبال کا شامل کتاب ہے ۔ الغرض یہ کتا ب بہت ہی جامع ہے لیکن پھر بھی تشنگی کااحساس ہوتا ہے کہ ان کی علمی کارناموں پر مضامین نہیں ہیں اور بھی بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن بقول مر تب ’’ طویل انتظار اور یا د دہانیوں کے باوجود جب مضامین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا تو نتیجے کے طور پر یہ فیصلہ کر نا پڑا کہ جتنے بھی مضامین موصول ہوئے ہیں ان پر ہی اکتفا کیا جائے ۔

مر تب  ڈاکٹر سلیم قدوائی 
اشاعت  ٢٠١٨ 
صفحات  ۱۰۶
قیمت  ۲۰۰روپے


 ناشر  اپلائڈ بکس ، ۱۰؍ ۱۷۳۹(ذیلی منزل ) نیو کوہِ نور ہوٹل ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج ، نئی دہلی ۔۲
امیر حمزہ 
 L-11 حاجی کالونی ،جامعہ نگر ، نئی دہلی 



Tuesday 5 March 2019

اردو زبان میں امالہ

اردو زبان میں امالہ  

کسی بھی زبان کا وجود اچانک کسی عظیم خطۂ ارض سے نہیں ہوتا بلکہ تمام زبانوں کے وجود میں آنے کا تعلق کسی نہ کسی مخصوص خطۂ ارض سے ہوتا ہے ۔ جس علاقہ سے کوئی زبان جنم لیتی ہے اس سے پہلے وہاں کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولی جاتی رہی ہے ۔ جنم لینے والی زبان طاقتور بن کر پھیلتی جاتی ہے اور دوسرے خطوں وعلاقوں کو اپنے قبضہ میں لیتی چلی جاتی ہے ۔جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ لہجے تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔زبان ایک ہی ہوتی ہے ، جملے بھی ایک ہی ہوتے ہیں ، لیکن صوتی آہنگ میں تبدیلیاں آتی چلی جاتی ہیں ۔صوتی آہنگ میں تبدیلیوں کی واضح مثال امالہ کی صورت میںنظرآتا ہے۔
امالہ طب میں کسی مادہ کو عضوعلیل سے دوسرے عضو کی جانب پھیردینے کو کہتے ہیں۔ 
لسانیا ت میں فتحہ و ضمہ کو کسرہ کی جانب مائل کر نا اور الف کویائے مجہول کی جانب مائل کر نے کو کہتے ہیٗ ۔ 
اردو اصطلاح میں امالہ لفظ کے اخیر کے ہائے خفی یا الف کو حر ف ربط آنے کی صورت میں یا ئے مجہول سے بدل دینے کو کہتے ہیں ۔
عربی میں فتحہ کا معنی ہے کہ الف اپنے مخرج سے نکلے اور اس میں ’ی‘ اور ’و‘ دونوں کے آواز کی مشابہت نہ ہو ۔ اور امالہ کا مطلب یہ کہ الف ’ی‘ کی ، فتحہ کسر ہ کی اور ضمہ بھی کسر ہ کی آواز کو جذب کر لے ۔ ابن باذش نے اپنی کتاب ’اقناع‘ میں لکھا ہے تر جمہ :امالہ کے معنی یہ ہیں کہ فتحہ کو کسرہ کی جانب خفیف طور پر مائل کیا جائے گویا وہ فتحہ اور کسرہ کے مابین ہو ، اسی وجہ سے الف کو یا کی جانب مائل کیا جاتا ہے ۔
فارسی میں لغت نامہ دہخدا لکھتا ہے  ۱؍میل دادن فتحہ بسوئے کسرہ (جرجانی ) ۲؍میل دادن فتحہ بسوئے کسرہ والف بسوئے یاست (ابن عقیل) ۳؍میل دادن صوت (آ) الف بہ (ی) یا( در قدیم یائے مجہول و اکنوں یائے معروف (فرہنگ فارسی معین ) مانند: نہاب نہیب ، خضاب خضیب وغیرہ ۔
امالہ زبان کا وہ جزو ہے یا اسلوب کا وہ واحد پہچان ہے جس سے ایک لہجہ کو دوسرے لہجے سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔اسی وجہ سے قرآن مجید کے لہجوں کو سبعۃ احر ف سے تعبیر کیاگیا ہے ۔جب ہم ان تمام’ سبعۃ احرف‘ کی تفصیل کے لیے تفاسیر اور تجوید کی کتابوں کی جانب رخ کر تے ہیں تو ہمیں نتیجہ کے طور پر امالہ بھی ملتا ہے کیونکہ ایک قرات کو دوسری قرات سے ممتاز کر نے میں امالہ کا وافر حصہ ہے ۔ حفص کی روایت جس پرحجاز اور ہندوستا ن بھی عمل کرتا ہے اس میں امالہ نہیں بلکہ فتحہ کی قرات پائی جاتی ہے سوائے ایک مقام کے ۔بر خلاف حجاز کے دوسرے قبیلہ تمیم ، اسد ،طی اور قیس کے جن کے لہجے میں امالہ پایا جاتا ہے اور وہ ہے الف کو یا کی جانب اور فتحہ کو کسرہ کی جانب مائل کر نا ۔
زبان میں روانی اور سلاست کے لیے کئی قسم کی تبدیلیاں زبان میں ہوتی رہتی ہیں ،جس کا اطلاق کبھی رسما ً ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا ہے ، عربی زبان میں امالہ کا وجود کثر ت سے ہے جہاں اس کو قواعد کے دائرے میں لاتے ہوئے نحو و تجوید کے اماموں نے بخوبی حل کر لیا ہے ۔ فارسی زبان میں ایران میں امالہ کا وجود رہاہے لیکن ایرانی فارسی میں یا ئے مجہول کے ختم ہونے سے امالہ تحریر سے بھی ناپید ہوگیا اور فارسی میں امالہ اردو میں امالہ کے مزاج سے یکسر مختلف ہے ۔فارسی میں اکثر درمیان لفظ میں امالہ آیا ہے جیسے کتاب سے کتیب ، رکاب سے رکیب ، خضاب سے خضیب ،نہاب سے نہیب وغیرہ ۔فارسی میں یہ صرف تکلم و تر سم میںہی نہیں بلکہ قافیہ میں بھی آیا ہے ۔لیکن موجودہ دور کے اردو کی طر ح ہر مقام پر نظر نہیں آتا ہے بلکہ اتنا کم ہے کہ اس کو شاذسے اوپر کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔
اردو میں شروع سے یہ کیفیت بہت ہی شاذ نظر آئی ہے ۔ عہد زریں کے شاعر وں کے یہاں خال خال نظر آتا ہے اکثر مقام پر قائم صورت میں حر ف ممال نظرآتا ہے ۔ ابھی تک ارد ومیں امالہ والے لفظ کو بھی قائم صورت میں لکھنے والے زیادہ ہیں نہ کہ محرّف صورت میں۔
صاحب نوراللغات ، مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں ، مولوی غلام رسول ، مولانا احسن مارہروی ، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ڈاکٹر محمد شمس الدین اور رشید حسن خاں کے امالہ پر زور دینے کے باوجود لکھنے میں امالہ کا التزام اردو والے بہت ہی کم کررہے ہیں ۔آخر کیا وجہ ہے؟کیا امالہ کے قواعد صحیح سے مر تب نہیں ہو پائے اب تک یا قواعد کو صحیح سے سمجھا ہی نہیں گیا ۔ما قبل میں ذکر کر دہ اصول کے بعد اب اردو میںاس سے متعلق کیا اصول قلم بند کیے گئے ہیں اس پر نظر ڈالتے ہیں ۔
(۱) مولوی عبدالحق قواعد اردو میں لکھتے ہیں ، جن الفاظ کے آخر (میں ) ’الف ‘یا’ ہ‘ ہو تی ہے وہ ان حر وف (کا ، کے ، کی ، نے ، پر وغیرہ ) آنے سے یائے مجہول سے بدل جاتے ہیں جیسے لڑکے نے کہا ۔(قواعد اردو ، ص ۵۰)
اس قاعدہ میں کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں مطلقا ً الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اسماء و افعال کی قید نہیں لگائی گئی ہے جب کہ کئی مقامات پر ان قاعدوں پر عمل کے باوجود امالہ پر عمل نہیں ہوپاتا ہے ۔جیسے سَتارہ شہر کا نا م ہے اسم ہے وہاں امالہ نہیں ہوگا اور کھایا فعل ہے اور اخیر میں الف بھی ہے پر امالہ نہیں ہوسکتا ۔
(۲) مولانا احسن مارہروی فصیح الملک میں لکھتے ہیں جس لفظ کے آخر میں ’ہ‘ آئے اسے فاعلیت مفعولیت اور اضافت کی حالت میں ’ے‘ سے لکھاجائے جیسے کسی زمانے میں ۔ اسی طر ح حالت ترکیبی یعنی اضافت و عطف میں بھی عربی و فارسی الفاظ اسی طر ح لکھے جائیں گے جس طرح بولے جاتے ہیں مثلا لب و لہجے میں، مقدمے وبازی میں وغیرہ ۔(بحوالہ علمی نقوش ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ، ص ۱۰۔۹)
یہاں بھی لفظ عام ہے جبکہ امالہ میں کسی بھی صورت میں عمومیت نہیں ہے اورالف والے الفاظ پر انہوں نے گفتگو نہیں کی ہے ۔
(۳) رشید حسن خان اردو املا میں لکھتے ہیں ۔
’’ ہائے مختفی سے پہلے حر ف پر عموماً زبر ہوتا ہے ، جیسے کہ کعبہ ، پر دہ، پیمانہ ، زمزمہ، واقعہ وغیرہ ۔ جب یہ حر وف محروف ہوں گے تو لازمی طورپر ہائے مختفی ہائے مجہول سے بدل جائے گی اور اس سے پہلے والے حر ف کا زبر زیر سے بدل جائے گاجیسے کعبے میں ، پردے پر ، عرصے سے ، وقفے میں‘‘۔ (اردو املا ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۳۰۸)
 قاعدہ میں رشید حسن خان صرف ہائے مختفی کا ذکر رہے ہیں اور الف کا ذکر بھی نہیں کر رہے ہیں جبکہ امالہ کے تعلق سے دونوں میں یکسا ں قاعدہ نافذ ہوتا ہے ۔
(۴) فرمان فتح پوری املا کے اصول میں امالہ سے متعلق لکھتے ہیں ۔
’’جن واحد مذکر لفظوں کے اخیر میں ’ ہ ‘ یا ’ الف ‘ ہو ان کی جمع یائے تحتانی لگانے سے بن سکتی ہے اور ان کے فوراً بعد حر ف عاملہ (مغیرہ ) یعنی ، تک ، سے ، کو ، کے ، کی ، میں ، پر ، نے وغیرہ میں کوئی بھی حرف آئے تو اردو املا میں اس لفظ کو یائے تحتانی سے بدل دیا جائے گا جیسے ان جملوں میں اس لڑکے کو بلاؤ، بیٹے نے باپ سے کہا وغیرہ ‘‘۔(اردو املا اور رسم الخط اصول و مسائل ، حلقہ نیاز و نگار کراچی ۱۹۹۴ ، ص ۳۲۔۳۱)
اس قاعدہ میں واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جن لفظوں کی جمع یائے تحتانی لگانے سے بن سکتی ہے اسی میں امالہ آئے گا باقی لفظوں میں نہیں آئے گا لڑکے کو بلاؤ، بیٹے نے باپ سے کہا وغیرہ لیکن آگرہ اور کلکتہ کی جمع تو نہیں آتی ہے پھر ان میں امالہ کیوں ہوتا ہے ؟۔
امالہ کے معنی جیسا کہ جھکانا اور مائل کر نے کے ہیں ۔ اس اعتبار سے سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ کیا امالہ کے لیے کسی حر ف کا استعمال ضروری ہے جیسا کہ فارسی میں درمیان لفظ میں یائے مجہول کی ادائیگی کے لیے ’ی‘ کا استعال ہوا ہے اور اردو میں حرف ممال کے آخر میں یا ئے مجہول کا استعمال ہوتا ہے ۔یہاں یہ بات واضح ہوجانی چا ہیے کہ قدیم فارسی میں جو امالہ کی صورت رائج تھی وہ اب جدید فارسی میں ختم ہوگئی ہے کیو نکہ بطور حرف یائے مجہول جدید فارسی سے ختم ہوگیا ہے لیکن فارسی بول چال میں اب بھی امالہ اتنا رچا بسا ہے کہ’ آنہا‘ کو اونہا‘ اور ’جامہ ‘ جیسے لفظ کا تلفظ جامے کیا جاتا ہے ،لیکن حر ف امالہ کا استعمال کہیں نہیں ہوتا ہے ۔یہ تو اردو اور فارسی کا معاملہ ہے جہاں امالہ بہت ہی کمزور ہے اور اس کے تعلق سے اب تک جامع ومانع قواعد مرتب نہیں کیے گئے ہیں ۔لیکن جہاں امالہ بہت ہی مضبوط ہے یعنی عر بی میں وہاں پر ہمیں امالہ کے لیے کسی بھی حر ف کا استعمال نظر نہیں آتا ہے ۔
اردو میں امالہ پر املا والوں نے اس سختی سے زور دیا ہے کہ امالہ کی تعریف سے مائل کر نا کو زائل کر کے نصب کر نا کر دیا گیا ہے ۔ یعنی زبر کو کسرہ کی جانب مائل کر نااور الف کو یا کی جانب مائل کرنا ختم کر کے اب سارا زور اس بات پرصر ف کیا ہے کہ زبر اور الف کو یائے مجہول سے بدل دیا جائے ۔اس کے بعد آہستہ آہستہ اب یہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ جہاں بھی یائے مجہول نظر آتی ہے اس کو امالہ کا ہی سمجھ لیا جاتا ہے ۔ جبکہ یہ سراسر بے راہ روی ہے۔ یائے مجہول کا استعمال اردو میں سب سے زیادہ جمع بنا نے کے لیے آیا ہے جیسے لڑکا لڑکے ، پیسہ پیسے ، شکوہ شکوے ، گلہ گلے وغیرہ ۔یائے مجہول کا استعمال اعدادلفظی میں وصفی کے طور پر آیا ہے ۔جیسے پہلا پہلے پہلی، دوسرا دوسرے دسری، چھٹا چھٹے چھٹی وغیرہ ۔ان تمام کو ڈاکٹر عبدا لستارصدیقی نے امالہ میں ذکر کیا ہے ، اگر ہم چھٹے کو امالہ میں شمار کرتے ہیں تو پھر ساتویں کو کیا کہیں گے ؟۔لہذا ان تمام میں یائے مجہول کا استعمال عدد وصفی کو بیان کر نے کے لیے کیا گیا ہے ۔اسی طر یقے سے بعض سے مشتق بعضے کو بھی ہم امالہ میں شمار نہیں کر سکتے کیوں کہ یہاں پر یائے مجہول کو نکر ہ کے معنی پیدا کرنے کے لیے لا یا گیا ہے ۔ کیونکہ بعض سے وہ مفہوم ادا نہیں ہوسکتا جو بعضے سے ادا ہورہا ہے۔ اسی طریقہ سے قدرے میں یائے مجہول کا استعمال تناسب کو بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے ، جیسے قدرے کم ، قدرے زیادہ وغیرہ ۔یائے مجہول کا استعمال جمع کے بجائے اظہار عظمت کے لیے بھی کر تے ہیں جیسے آتے ہیں، کھاتے ہیں وغیرہ۔ افعال میں یائے مجہول کا استعمال کثر ت سے معانی کو بیان کر نے کے لیے آیا ہے۔ معانی کو بیان کر نے کے لیے اس لیے آتا ہے کیونکہ امالہ کے استعمال سے کبھی بھی کسی بھی لفظ میں کوئی بھی نیا معنی نہیں پیدا ہوسکتا ہے ۔ اگر اس کے اضافہ سے کوئی نیا معنی پیدا ہو رہا ہے تو وہ پھر صرف اور نحو کے دائرے میں آجائے گا اور امالہ کا تعلق علم الضبط سے ہے نہ کہ علم الصرف والنحو سے ۔ جب علم الضبط کا ذکر آگیا ہے تو اس کی تعر یف بھی عرض کر تا چلوں۔ حافظ محمدراسخ علم الضبط کی اصطلاحی تعریف اپنی کتاب ’علم الضبط ‘ میں ان الفاظ سے کر تے ہیں ’’ علم الضبط سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعہ حرف کو لاحق ہونے والی علامات حرکت سکون ،تشدید اور مد وغیرہ کی پہچان ہوتی ہے ۔اس کتاب کی آٹھویں فصل میں وہ اختلاس ، اشمام اور امالہ کو بیان کر تے ہیں در اصل یہ تینوں چیزیں ایک ہی نوعیت کی ہیں ، تینوں میں بین بین کا عنصر ہے وہ اس طور پر کہ اختلاس میں حرکت کی ادائیگی جلدی ہو تی ہے یازیا دہ سے زیادہ دو تہائی حر کت کو ظاہر کر نا ہوتا ہے ، اشما م میں ضمہ اور کسرہ سے مر کب حر کت کی ادائیگی کر نا گو یا وہ اس طور پر ہو کہ نہ مکمل اسے زیر میں شامل کر سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل پیش میں یہ صورت ’ق‘ میں اکثر نظر آتی ہے بشرطیکہ اس کے بعد یائے ساکن ہو جیسے اردو میں قیمہ جہاں پیش اور زیر کا ملا جلا اثر نظر آتا ہے اور خواہش میں پیش اور زبر کا ملا جلا عکس نظر آتا ہے ۔امالہ میں بھی یہ بین بین نظر آتا ہے کیونکہ امالہ میں فتحہ کو کسرہ اور الف کو یا کی طرف مائل کر کے پڑھنا ہوتا ہے۔پھر خیال اس کا آتا ہے کہ ان مواقع پر کو ن سی علامت لگائی جائے ۔توایک بڑی جماعت ان تینوں میں علامت نہ لگانے کی قائل ہے کیونکہ یہ امور اساتذہ سے مشافہۃ ً سیکھے جاتے ہیں خط یعنی حر کات و سکنات سے نہیں ۔اسکو اما م ابوداؤد اختیار کرتے ہیں ۔کچھ لوگ اس میں حرکت و علامت لگانے کے قائل ہیں اور وہ اس طور پرکہ حر کت حرف ممال پر بشکل مربع خالی الاوسط لگایا جائے اور حر کت بھی اسی صورت میں لگائیں گے جب حر ف وصل اور وقف دونوں صورتوں میں امالہ کو قبول کر رہا ہو ورنہ نہیں ۔اس مذہب کو امام دانی نے اختیار کیا تھا اور وقت وضع اسی پر عمل ہوتا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ علامت ختم ہوتی گئی ۔ان باتوں سے بہت ساری باتیں نکل کرسامنے آرہی ہیں ۔ایک یہ کہ حر ف کااور نہ ہی حرکت کا استعمال ہوسکتاہے کیونکہ یہ چیزیں مشافہۃً سکھنے کی ہیں ۔دوسرا یہ کہ ہم ایک علامت کا استعمال اس کے لیے کر سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب وہ لفظ مکمل طور پر امالہ کو قبول کر تا ہو یعنی اگر ہم اس لفظ پر ہی رک جاتے ہیں تب بھی اور نہیں رکتے ہیں تب بھی اس لفظ کے تلفظ کی ادائیگی میں فر ق نہیں آتا ہو ۔ اس طور پر تو اردو کا کوئی بھی لفظ اس دائرہ میں نہیں آئے گا کیونکہ اردو میں امالہ صر ف وصل کی صورت میں ہوتا ہے وقف کی صورت میں ایک بھی لفظ ایسا نہیں ہے جس میں امالہ ہوتا ہے ۔
ماقبل میں جتنے امالہ کے قواعد و قوانین بیان کیے گئے ہیں اگر ان تمام پر عمل کر بھی لیا جائے تو اتنے مستثنیات ہیںکہ اردو کا نو آموز طالب علم یا محض اردو جاننے والا فارسی و عر بی سے نابلد پر یشان ہوجا ئیگا کہ امالہ کی ضرورت کہاں پڑے گی اور کہاں نہیں ۔(مندرجہ ذہل مستثنیات میں سے کچھ استفادہ خلیق الزمان کے مضمون ’’امالہ ‘‘ مشمولہ فکر و تحقیق شمارہ نمبر ۴، جلد نمبر ۱۷سے کیا گیا ہے اور ان پر گفتگو بھی کی گئی ہے )۔
(۱) عربی و فارسی کے وہ الفاظ جن میں الف اصلی ہو امالہ قبول نہیں کرتا جیسے دعا ، دغا ، وفا اور قضا وغیرہ ۔
(۲) عربی الفاظ کے جمع میںامالہ نہیں ہوگا ، جیسے انبیا، اتقیا، اولیا ، اصفیا، اور طلبہ وغیرہ ۔
(۳) الف مقصورہ والے لفظوں میں امالہ نہیں ہوسکتا ، جیسے صغری، کبری، عظمی ، حتی وغیرہ ۔
(۴) عربی کے وہ الفاظ جو اردو میں بہت ہی زیادہ مستعمل ہیں اور اپنے اخیر میں الف بھی رکھتے ہیں لیکن پھر بھی اردو والے اس کو امالہ کے ضمن میںنہیں لاتے ہیں جیسے منشا، انتہا، ابتدا، انخلا وغیرہ 
(۵) القابات و خطابات امالہ قبول نہیں کرتے ، خلیفہ ، آقا ، آغا ، مولانا ، ملا ، پیشوا وغیرہ خلیق الزماں نے اسی مثال میں رقاصہ کوبھی شامل کیا ہے ۔ لیکن رقاصہ میں امالہ کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔اور اس کو ہم القابات و خطابات میں بھی شمار نہیں کر سکتے جیسا کہ موصوف نے شمار کیا ہے ۔ رقاصہ کی طر ح مغنیہ میں بھی امالہ کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔
(۶) نام میں امالہ نہیں ہوسکتا جیسے رضیہ ، سلطانہ ، فرزانہ ، رشیدہ وغیرہ 
(۷) اعداد لفظی میں امالہ نہیں کر سکتے جیسے گیارہ سے اٹھارہ تک ۔ان اعداد میں امالہ نہیں ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ ان تمام میں جو ’ہ‘ استعمال ہوا ہے وہ ہائے ملفوظ ہے نہ کہ ہائے خفی ۔
(۸) اسمائے تصغیرمیں بھی امالہ نہیں ہوتا جیسے کھٹیا ، چدریا ، لوٹیا وغیرہ ۔
(۹) جو لفظ مفر د صورت میں امالہ کو قبول کر تا ہے اگر وہی لفظ مر کب صورت میں مستعمل ہورہا ہے تو اس سے امالہ ساقط ہوجاتا ہے جیسے کعبہ کے بعد اگر حرف ربط آرہا ہے تو امالہ ہوتا ہے لیکن اگر مر کب صورت میں اسطر ح استعمال کیا جائے جیسے غلاف کعبہ کے اوپر ، تو یہاں کعبہ میں امالہ نہیں ہوگا ۔اسی طریقہ سے شمع و پر وانہ ، مجنوں و دیوانہ وغیرہ ۔
(۱۰) فارسی کے اردو میں استعمال اسم فاعل ، مفعول اور اسمائے صفات میں امالہ نہیں کیا جاسکتا جیسے آئندہ ، تابندہ ، رخشندہ ، گزشتہ اور پیوستہ وغیرہ۔ لیکن اگر یہی تمام کسی مقام کے نام کی صورت اختیار کر لیں تو پھر امالہ اسمیں آئے گا ، جیسے تابندہ(تابندے) سے لوٹ رہا تھا وغیرہ ۔
(۱۱) ایسے توصیفی الفاظ جن کے اخیر میں الف ، نون اور ہائے خفی (آنہ ) کا اضافہ ہوتا ہے ، ان میں امالہ نہیں ہوتا ہے جیسے عاشقانہ ، جاہلانہ، استادانہ، وغیرہ لیکن جن میں یہ لاحقہ نہ ہو بلکہ عین جزو لفظ ہو ان میں امالہ ہوتا ہے جیسے دیوانہ ، پروانہ اور جرمانہ وغیرہ ۔ اگر اسی وزن پر شبانہ بمعنی رات کے آئے تو امالہ ہوتا ہے ۔ اسی اصول پر او پر کی مثال سے لفظ محنتانہ اور بچکانہ بغاوت کر رہا ہے اس میں لاحقہ ہے ،توصیفی ہے اور امالہ بھی ہورہا ہے ۔
(۱۲) عربی کے وہ الفاظ جن کا آخر ی حر ف عین ہوتا ہے جیسے مصر ع، مقطع ، مطلع وغیرہ اس قسم کے الفاظ میں بحر لکھنوی ، عشرت لکھنوی اور نیر کاکوری یائے مجہول کے اضافہ سے امالہ کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ سب عین کو کسرہ دینا کافی سمجھتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک امر ثقیل ہے کیوں کہ اردو میں آخر ی حرف کو حر کت دینا اور حرکت کا تلفظ کر نا بہت مشکل امر ہوتا ہے ۔اور نہ ہی یہ اردو کی خاصیت ہے ۔ ان کے بر خلاف ڈاکٹر عبدا لستا ر صدیقی ’ع‘ کے بعدامالہ کے لیے یائے مجہول کے اضافہ کو بہتر سمجھتے ہیں ۔ مولوی عبد الحق بھی اسی اضافہ کے قائل ہیں ۔رشید حسن خان ان لفظوں کے متعلق لکھتے ہیں ’’ برقع ، مجمع، مصرع ، مطلع ، مطبع ، مقطع ، موقع ....ان سب لفظوں کو جمع کی صورت میں اور محرف صو رت میں ’ے‘ کے اضافہ کے ساتھ لکھنا چاہیے جیسے برقعے میں مطبعے کا نام‘‘۔ مقتدرہ قومی زبان بھی ان صورتوں میں اسی اصول کو روا رکھتی ہے۔ میری نظر میں ان تمام مقامات پر جہاں اخیر میں ع آتا ہے قدیم تحریروں  میں عین کے بعد ہائے خفی کا بھی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے اس لیے شاید ہائے خفی کو دیکھتے ہوے ان تما م میں امالہ کے لیے ’ے ‘ کا اضافہ کیا گیا نیز جمع کے لیے بھی ۔ جس کا استعمال بہت کم نظر آتا ہے ۔جہاں بھی آ جاتا ہے وہاں زبان پر بہت مشکل سے رواں ہوتا ہے ۔ جیسے قصبے کے وزن پر ضلعے ، موقعے اور برقعے وغیرہ ۔یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان تمام لفظوں میں ’ے ‘ کا اضافہ بہت ہی گراں گزرتا ہے اس لیے اس کا استعمال نہیں ہوگا ، اور نہ ہی امالہ میں ’ے‘ کا تلفظ اس شدت سے کیا جاتا ہے جس کے لیے ا س کو لازمی قرار دیا جائے ۔ ایک چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام میں عین سے پہلے والے حر ف کا امالہ کرتے ہیں اور اس کے فتحہ کو کسرہ کی جانب مائل کرتے ہیں ۔جیسے بر قَع میں برقِع ، مقطَع میں مقطِع وغیرہ اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ امالہ کے لیے کسی بھی حر ف کا اضافہ روا نہ رکھا جائے ۔ البتہ اگر جمع یائے مجہول سے مستعمل ہے تو شوق سے جمع کے لیے اس کا استعمال کیا جائے ۔ لیکن امالہ میں احتیاط برتا جائے۔ اسی طر یقہ سے ان الفاظ کے امالہ میں بھی جن کے اخیر میں ہائے خفی ہو اس میں بھی ہائے خفی سے پہلے والے حرف کے فتحہ کو کسرہ کی جانب مائل کرنے سے ہم حقیق طور پر امالہ کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ امالہ کی تعریف میں بھی یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے ۔اسی کو صاحب نواللغات نے اس طر ح در ج کیا ہے ’’ وہ الفاظ جن کے اخیر میں عین ہوتاہے حر ف ربط آنے سے بجائے (ے) کہ حر ف ماقبل عین کو کسرہ دے کر بولے جاتے ہیں جیسے مصرِ ع میں سکتہ ہے ، مطبِع پر آفت آگئی ، مقطِع پر کیا منحصرہے ‘‘ ۔(نوراللغات جلد اول ، ص ۳۵۷)
صاحب نوراللغات نے مطلقا کسر ہ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ حالا نکہ اس کو مجہول کسر ہ پر محمول کیا جاسکتا ہے اور مائل بہ کسرہ قرار دیا جا سکتاہے۔اسی طر یقے سے ہائے خفی والے الفاظ میں بھی ہم امالہ میں’ ہ‘ سے پہلے والے حر ف کے فتخہ کو کسر ہ کی جانب مائل کر کے بولتے ہیں نہ کہ اس کے بعد یائے مجہول کے اضافہ کے ساتھ تلفظ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر ابو محمد سحر اپنی کتاب’ اردو املا اور اس کی اصلاح ‘ میں اسی مسئلہ کی کچھ اس انداز میں وضاحت کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ’’ جن الفاظ کے آخر میں عین ہے ان کے امالے کے مستخسن قاعدے کی روشنی میں اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر نا چاہیے کہ جن الفاظ کے آخر میں ہائے مختفی ہے ان کا املا بھی محر ف صورت میں ’یے‘ سے’ یہ‘ بدلا جائے بلکہ تلفظ میں حر ف ماقبل پر زیر قیاس کیا جائے اور ضرورت ہو تو حر ف ماقبل پر زیر لگا دیا جائے مثلا ً کعبِِہ میں ، قبلِہ کو ، غازِہ سے ، خامِہ نے ، یا یہ مصرعے:’ یوں نقل ہے خامِہ کی زبانی ‘ ،’کر یں گے کوہکن کے حوصلِہ کا امتحاں آخر‘ ،’زندگی قطر ِہ کی سکھلاتی ہے اسرار حیات ‘‘۔وہ تمام قواعد جن کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے ان مصرعوں پر صد فیصد موجود ہے لیکن امالہ کہیں بھی مذکور نہیںہے ۔ 
الغرض امالہ کا تعلق لہجہ سے ہے نہ کہ قواعد سے اور لہجہ ہر علاقہ میں مختلف ہوتا ہے ، کہیں ایک ہی لفظ میں ایک مقام پرامالہ مستعمل ہے تو کہیں دوسرے مقام پر اس سے پر ہیز کیا جاتا ہے جیسے دادا  اور  تا یا میں عموما ً امالہ نہیں کر تے ہیں لیکن شاہجہاں پور اور مغربی انڈیا میں اب ان میں بھی امالہ نظر آتا ہے ، اسی طر ح سے کوئی لفظ کسی عہد میں امالہ کے دائرے میں نہیں آتاہے اور بعد کے زمانہ میں آجاتا ہے جیسے دربھنگہ اور پٹنہ کا امالہ اب تک نہیں نظر آیا خیر علَم میں نہیں آتا ہے لیکن اب کچھ تحر یروںمیں قاعدہ کلیہ بنا کر اس میں بھی امالہ کیا جا رہا ہے خواہ سماعت کو بہتر محسوس ہو یا مکر وہ لگے ۔
یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ املا لہجوں کے تابع نہیں ہوتا املا ہمیشہ حر ف اصلی اور حر ف زائد کے تابع ہوتا ہے ۔(حر ف اصلی وہ ہے جس سے مشتق تمام لفظوں میں وہ حر وف موجود ہوں،حر ف زائد وہ ہے جس کے لگا نے سے اور ہٹانے سے معنی میں تبدیلی واقع ہوجائے )

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...