Thursday 3 March 2022

شہزادہ پرویز عالم


 شہزادہ پرویز عالم


یہ میری بد قسمتی تھی کہ ڈاکٹر اقبال برکی سے اس کتاب سے پہلے کسی قسم کی بھی شناسائی نہیں تھی ۔ انہوں نے نہیں معلوم کہاں سے میرا نمبر حاصل کیا اور واٹس ایپ کے ذریعہ میرا حالیہ پتہ دریافت کیا ، تب بھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون صاحب ہیں اور کیوں میرا پتہ دریافت کررہے ہیں ۔ خیر جب ان کی یہ تینوں کتابیں مجھ تک پہنچی تو خوشی ہوئی ۔ جب اس میں بچوں کا ناول ’’شہزادہ پرویز عالم ‘‘ دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی ۔ بچوں کی کہانیاں لکھنے والے ادیبوں کی کثر ت ہے لیکن بچوں کے لیے ناول لکھنے والوں کی تعدا د شاید دس تک بھی نہیں پہنچتی ہو ۔ کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے خارجی مطالعے کو بچوں کے نظام الاوقات سے بالکل خارج کر دیا ہے اور دلچسپی نے کچھ اور راہ اختیار کرلی ہے ۔ حقیقت ہے کہ اب بہت ہی کم ادب بچوں کے لیے لکھا جارہا بلکہ بچوں کا ادیب بننے کے لیے بچوں کا ادب لکھا جارہا ہے ۔ صاف سی بات ہے مسئلہ قاری کا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب قاری ملکی سطح پر ملتے تھے ۔ ابھی اگر صرف مالیگاؤں کی بات کی جائے تو وہاں تقریبا ًبیس ایسے افراد مل جائیں گے جو بچوں کا ادب لکھ رہے ہوں گے لیکن اگر بچوں کے درمیان ان تخلیق کاروں کے بارے میں معلوم کیا جائے تو جواب صفر میں آئے گا ۔ بچوں کی بات الگ گزشتہ سال ہی میر ی کتاب( ادب اطفا ل ۔ ادب اور ادیب) پر شکایت کرتے ہوئے ایک صاحب نے یہ کہا کہ اس کتاب میں مالیگاؤ ں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اور انہوں نے دو تین کتابوں اورمقالات کا ذکر کیا جن میں باضابطہ مالیگاؤں میں ادب اطفال پر خصوصی اور کافی تحریریں موجود ہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوںنے اپنے طور پر مالیگاؤ ں کے دس اہم ادیبوں کا ذکر کیا جن میں اتفاق سے ڈاکٹر اقبال برکی کا نام شامل نہیں تھا جب کہ صرف بچوں پر ان کی تقریباً پندرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں پھر بھی ان کا نام نہ ہونا اب مجھے باعث تعجب لگا ۔
خیر یہ ان کی آپسی بات ہے ۔
کتاب ملنے کے دو دن بعد کل جب یہ کتاب پڑھنا شروع کیا تو دلچسپ کہانی کے باعث پڑھتا ہی چلا گیا ہے اور اس 128 صفحات کو عصر سے رات سونے تک وقفہ وقفہ سے پڑ ھ کرجب مکمل کیا تو خاصہ سرو ر اور سکون ملا، یہی اس کتاب اور ادب کی کامیابی ہے کہ وہ آپ پر کوئی تاثر چھوڑجاتی ہے اور تھکاتی نہیں ہے ۔( زبانی سطح پر آج مجھ پر ایک انکشاف یہ ہوا کہ گزشتہ زمانے میں دلی اور لکھنؤ کی زبان ہوتی تھی لیکن آج اکیسویں صدی میں یونیورسٹیوں کی نثر ی زبان بھی کچھ اسی قسم کی ہے ، جہاں ایک مشہور یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ایسی نثر لکھتے ہیں جس کے ہر جملے میں خشک نظر یے نظر آتے ہیں ، حتی کہ تعزیتی تعزیتی پیغام میں بھی تجریدیت ، علمیت اور جرمن عربیت کی بنت سے چاشنی سے خالی تحریر لکھ جاتے ہیں اور اس میں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ معاون حروف کا معاون افعال سے رشتہ غلط مقام پر قائم ہورہا ہے ۔ وہ اردومیں عربی زدہ زبان کے خلاف رہے ہیں لیکن عربی الفاظ کو دُم بُرید کر کے وہ اپنے لیے نئے اسلوب کی دنیا تلاشتے ہیں ۔ اس کاسابقہ تو ابھی پڑا لیکن سرا تلاش کرنے کے لیے دماغ پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ یونیورسٹی کے کورس میں بطور ریفرینس بک اسی یونی ورسٹی کے ایک فاضل کی کتاب داخل تھی باوجود تمام کوشش کے ایک صفحہ کیا ایک پیرا گراف بھی نہیں پڑھاگیا۔وہی حال اب بھی جاری ہے ) جب آپ عمدہ زبان پڑھیں گے تو وہ آپ کو تھکائے گی نہیں بلکہ فرحت بخشے گی ، ساتھ ہی ان کے یہاں جملے رواں دواں ملیں گے ۔ اسی وجہ سے آپ کو زبان سیکھنے کے لیے انشاپردازوں کی کتابوں کی جانب رہنمائی کی جائے گی ۔ جہاں زبان کی چاشنی آپ کو بھر پور انداز میں ملے گی ۔ )ناول نگاروں کی طرح بیچ بیچ میں اپنی کھوپڑ ی سے زبر دستی فلسفہ نما جملوں کو داخل کر نے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اسلوب بالکل سادہ اور دلچسپ ہے زبان بالکل عام ہے جو ساتویں کلاس کا بچہ آسانی سے سمجھ سکے ۔
کہانی کا مکمل حصہ تو نہیں لیکن کچھ حصہ مافوق الفطری عناصر پرمشتمل ہے جو بچوں کوبہت زیادہ لبھاتی ہے ۔ شروع میں تخلیق کار نے اپنی بات شامل کر نے کی ایک مقام پر کوشش کی لیکن فوراً ہی کہانی پر واپس آگئے ۔ پھر آگے کہیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا ۔ بچوں کو باندھے رکھنے والاکر دار بدصورت لڑ کی کا کردار ہے ۔ خوبصورت شہزادے کی کہانی میں کسی مقصد کا حصول نہیں ہے بلکہ مقصد تو اس لڑکی کی کہانی میں ہے جس کے حصول میں قاری بھی لگا رہتا ہے ۔ایک زبر دست کمال اقبال برکی اس کتاب میں یہ نظر آئی کہ انہوں نے قاری کو کسی کردار کا ہمدرد بنانے کی کوشش نہیں کی جو عموما غیر شعوری طور پر فن کا ر کرجاتے ہیں کہ قاری کرجاتے ہیں بلکہ یہ ان کا ہنر بھی ہے کہ ساری توانائی کسی ایک کردار کو سنوارنے میں صرف کردیتے ہیں پھر قاری سے پوچھتے ہیں کو آپ کو کون ساکردار اچھا لگا ، ایسے میں قاری کے پاس ایک ہی کردار کے علاوہ دوسرے کردار کی گنجائش بھی نہیں بچتی ہے ۔ خیر ! کہانیوں میں ٹارگیٹ کا ذکر کرجانا قاری پر قابو پانے کا ایک خوبصورت حربہ ہے ، جو اس طرح بھی نہ کیا جائے کہ خبر بن جائے اور نہ اس طرح کیا جائے کہ قاری پر منشا ء کا اظہار بھی نہ ہوسکے ۔ کہانی میں زبان بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ بیانیہ ( یہ لفظ میں شاید پہلی مر تبہ استعمال کررہاہوں ) میں قاری پر کہانی میں موجود ہونے کی کیفیت طاری کرنے کے لیے ہمیشہ حال کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جس سے قاری ’’ ہوتا تھا ‘‘ سے نکل کر ’ہوا ‘ اور ’ہوتا ہے‘ میں آجائے ۔ جیسے ماضی کے اظہار کے لیے آپ دوجملے لکھیں گے ایک بہت پرانے زمانے کی بات ہے دو سرا بہت پرانے زمانے کی بات تھی ۔لا محالہ پہلے سے قاری اٹیچ ہوجائے گا اور دوسرے سے نہیں ہوپائے گا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر مقام پر آپ ایسا معاملہ کریں بلکہ متن کی جہری قرات سے آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کی زبان پر کیا اچھا لگ رہا ہے ۔
پر وف ریڈر کے پیشہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھ میں ایک خراب عادت یہ آن پڑی ہے کہ حرف بحرف پوری تحریر پڑھتا ہو ں اور قلم زد بھی کرتا جاتا ہوں، اس کتاب میں بھی کئی مقام پر عطف میں کوتاہی نظر آئی ، جہاں کا ما سے خوبصورتی آتی وہاں حرف عطف اور وصل کے استعمال نے کچھ اچھا نہیں کیا ۔ جملوں میں لفظ ’’ تھا‘‘ کئی مقام پر زائد نظر آیا ، ایسی چند اور چیز یںد یکھنے کو ملیں جن پرغور کیا جاسکتا ہے لیکن کہانی کے پلاٹ ، ارتقا ء اور اختتام پر کوئی کلام نہیں ۔ اس کتاب سے احساس ہوا کہ یقینا آپ ایک عمدہ کہانی کار ہیں ۔

شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی

 شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے ۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخل و خارج زندگی میں پوری طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام اس صنف سخن کو اپنا تا ہے اور اس کو کمال تک پہنچاتا ہے تو وہ اس میں موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے اور خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے ۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی ۔بلکہ جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیائے کر ام کی محفلوں میںرہی تو حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔فارسی کے کئی رباعی گو شعرا کی صحبت میںجب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس کی پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین ، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری ، امجد کا حکمت وفلسفہ ، جو ش میں الفاظ کے دبدبہ الفاظ و مناظر فطرت ، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے اس نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی نے ان الفاظ میں کہا ہے ۔

’’ولی کی معرفت نے ، میر کے عشق نے ، درد کے تصوف نے ، غالب کی معنی آفرینی نے ، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے ، حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا ۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے ۔‘‘ 

( اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)ۙ

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودمخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دیگر تمام ممکنہ موضوعات رباعی میں پائے جاتے ہیں۔رباعی میں یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس طر ح سے ہر زمانہ میں زندہ رہی اسی طر یقے سے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں بلکہ تمام موضوعا ت نئے رنگ و ڈھنگ میںشعرا کی مشق کی زینت بنتے رہے ہیں اور حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا ۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ہلکی سی نظر اس پر ڈالتے ہیں ۔

 نووی کہتے ہیں ’’خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے ۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپر شکر کہلاتا ہے ۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر ے میں نہیں ہے آتا ہے ۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے‘‘ ۔

ابن حیان کہتے ہیں ’’حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے ۔ اور لسان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا ۔‘‘ 

امام رازی کہتے ہیں ۔’’حمد : اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو ۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچے ہوں ۔ 

حمد میں محبت اور عظمت میں محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے ۔ یعنی جس میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہو حمد کہلاتا ہے 

شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو ۔‘‘(تر جمہ از معجم الشامل )

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقاً زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہو اور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق بھی ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے ۔اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے ۔ اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ’ ’ اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے ‘‘ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز الگ الگ ہو تاہے اور خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تو نئے نئے طر یقے اورلفظیات سے اس کی تعریف کرتا ہے ۔ اسی طر یقے سے ابھی جب شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعیوں پرنظر ڈالیں گے تو اس میں بھی تنوع نظرآئے گا ۔

رباعی کا تعلق کبھی بھی موضوعاتی پابندیوں سے نہیں رہا ہے ۔ شروع سے ہی اس صنف سخن نے اپنے اندر علم و حکمت ، فلسفہ و حسن اور اصلاح و تصوف کے موضوعات کے ساتھ دیگر موضوعات کو بھی اپنے دامن میں بہت خوبصورتی سے سجائے رکھا ہے ۔ ساتھ ہی صوفیائے کرام نے خدا کی ذات و صفات کو سب سے زیادہ رباعیوں میں ہی بیان کیا ہے ۔ رباعی کی ابتدا سے لے کر اب تک تقریبا تمام رباعی گو شعرا کے یہاں حمدیہ رباعیاں مل جاتی ہیں ۔ اس کورباعی کی خوش نصیبی کہہ لیں کہ کئی شعرا اپنے شعری مجموعوں کی شروعات رباعی اور وہ بھی حمدیہ رباعی سے کرتے ہیں ۔ 

 روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شمیم انجم وارثی نے بھی حمدیہ رباعیاں کہی ہیں ۔یہاں ان کی حمدیہ رباعیوں کا جائزہ لیں گے اس سے پہلے ان کے متعلق کچھ ر قم کرتا چلوں ۔جب میں اپنا ایم فل کا مقالہ رباعیوں پر لکھ رہا تھا تب ان کا رباعیوں کا دیوان ’’ورق ورق شمیم ‘‘ سے متعارف ہوا ۔ میں بھی ادب میں نووارد تھا اس لیے میں بہت کچھ نہیں جانتا تھا، وقت گزرتا گیا اور ان کو مختلف پلیٹ فارم پرپڑھتا رہا کہ اسی در میان گزشتہ برس ان کی رباعیوں کا دوسرا مجموعہ ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ سے بھی روشناس ہوا ۔ پھر جب دونوں کتاب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا تب معلوم ہوا کہ موصوف ارد و رباعیوں کی سیاحی بہت عرصے سے کررہے ہیں لیکن ان کا دیوان بہت بعد میں منظر عام پر آیا اور ان سے قبل بنگال کے کئی شعرا کے مجموعے سامنے آگئے ۔ رباعیوں سے قبل دیگر اصناف میں ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اتفاق سے ان کا پہلا شعری مجموعہ نعت پر تھا اور تادم تحریر جو آخری مجموعہ ہے وہ بھی مدحیہ اصناف پر ہے ۔ سب سے پہلے ’’ورق ورق شمیم ‘‘ کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں انہوں نے کیسی حمدیہ رباعیا ں کہی ہیں ۔واضح رہے کہ متذکرہ بالا کتاب بصورت دیوان ہے، اس لیے اس میں موضوعاتی ترتیب نہیں ہے توجب مکمل دیوان پر نظر ڈالتے ہیں تو درج ذیل رباعیاں سامنے آتی ہیں جنہیں متذکرہ بالا تعریفات کے سانچے میں مدحیہ میں رکھ سکتے ہیں ۔ 

تیرا ہے فلک ، تیری زمیں ہے یارب 

قدرت پہ تیری عین یقیں ہے یارب 

ہے ناز جبیں سائی مجھے جس کے حضور 

وہ تیرے سوا کوئی نہیں ہے یارب


جو فصل بہاراں پہ چڑھی ہے رنگت 

جو قلب گل تر میں بسی ہے نکہت

حکمت نہیں انسان کی اس میں کوئی 

یہ کار عجوبہ ہے خدا کی قدرت 


ہے تو ہی ازل اور ابد یا اللہ 

ہے تو ہی احد ا ور صمد یا اللہ 

مجھ سے ہو تری حمد و ثنا نا ممکن

معلوم ہے مجھ کو مری حد یا اللہ 


ہر گوشہ عالم میں دھمک تیری ہے 

 ہر پھول کی سانسوں میں مہک تیر ی ہے 

ہر سو ہے ضیا بار ی ترے جلووں کی 

مہر و مہ انجم میں چمک تیر ی ہے


میں قطرہ ہوں اور لطف کا دریا تو ہے

ہر منزل مقصود کا رستہ تو ہے 

کس منہ سے حمد کروں تری ربِّ کریم

میں بندہ ناچیز ہوں مولا تو ہے 


پھولوں میں بسی ہے جو مہک تیر ی ہے 

لاریب! ستاروں میں چمک تیری ہے 

پوشیدہ ہر اک شئے میں ہے جلوہ تیرا

ہر دل میں جو اٹھتی ہے کسک تیری ہے 

 ان رباعیوں کے علاوہ اور بھی کئی رباعیاں تھیں جن کے شروع کے مصرعوں میں حمدیہ عناصر تھے اور چوتھا مصرع دعائیہ تھا توانہیں یہاں میں نے شامل نہیں کیا ۔ ان چھ رباعیو ں پر نظر ڈالیں تو پہلی میں ربوبیت ، دوسری میں خلاقیت ، تیسر ی میں عجز عن الحمد ، چوتھی میں وحدۃ الشہود ، پانچویں میں وحدۃ الوجود ، ایصال الی المطلوب اور عجز عن الحمدبھی ہے ۔ آخری رباعی پر نظر ڈالیں تو وہ بھی وحد ۃالشہود کی شہادت دے رہی ہے ۔ ان رباعیوں سے حمد کے طریقوں پر نظر پڑتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر خدا کی حمد میں کس صفت کو سب سے زیاد ہ سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ حمد کا یہ بھی خوبصورت طریقہ رہا ہے کہ اس کی ذات کی تعریف کے لیے ہم عاجز ہیں جس کا ذکر خدا نے خود ہی قرآن پاک میں کیا ہے’’ قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ‘‘(سمندر کور وشنائی تسلیم کرلیں تب بھی خدا کی تعریف مکمل نہیں ہوپائے گی اور سمندر خشک ہوجائے گا) اسی عجز کو خوبصورت انداز میں بیان کرنا بھی حمد کے دائرے میں آتا ہے ۔ اب ان رباعیوں کے آخر ی مصرع پر نظر ڈالیں جن سے رباعی کی عمدگی کا پیمانہ طے ہوتا ہے کیونکہ رباعی میں آخر ی مصرع جتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے رباعی بھی اسی معیار کی ہوتی ہے ۔ آخر ی مصرع مکمل ایک اکائی کی کیفیت کا طلبگار ہوتا ہے جس کے بعدوہ ضرب المثل بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔یہ رباعی کی عمدہ سے عمدہ ترین ہونے کی نشانی ہے ، ظاہر ہے یہ تمام رباعیوں میں ممکن نہیں اور نہ ہی تمام شاعروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اس کیفیت کو مد نظر رکھ کر رباعیاں کہیں۔ البتہ فارسی رباعی گوئی میں یہ صفت غالب تھی جس کا نتیجہ ہے کہ عمومی تلاش سے بھی فارسی کے مصرع ضرب المثل کی صورت میں مل جاتے ہیں ۔ اردو میں اس کیفیت کی جانب توجہ ہی نہیں دی گئی ساتھ ہی شہر ت کی بات ہے کہ یہاں غزل کے مصرعوں کو جو شہرت ملی وہ دیگر اصناف کے مصرعوں کو نہیں مل سکی ۔ موصوف کے درج ذیل مصرعوں پر نظرڈالیں   

ع ہے اور حسینوں میں کہاں حسن نمک

ع ہم ان پہ فقط مرتے رہیں گے کب تک 

ع ایمان پہ مر تا ہے خدا کا عاشق 

ع مٹتا نہیں دشمن کے مٹانے سے عشق 

 ایسے اور کئی مصرعے مل جائیں گے جو یقینا ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جس شعر ی معاشرہ میں ہم جی رہے ہیں اس میں ایسی قسمت ہر کسی کو نہیں ملتی لیکن فن تو بہر حال فن ہے کبھی نہ کبھی تو اس جانب تو جہ دی جائے گی اور وہ اس وقت توجہ دی جائے گی جب عمدہ رباعیوں کا انتخاب ہوگا تو اس وقت موضوعات سے زیادہ اس عنصر پر توجہ دی جائے گی کہ کون سی رباعی کی کیفیت ’’از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘والی ہے ۔ 

  حمدیہ رباعی کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’قطرہ قطرہ مشک ‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں جو 2021 کے آخر ی مہینوں میں منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ رباعیوں کا مجموعہ ہے جس میں تقدیسی رباعیاں پیش کی گئی ہیں ۔ان تقدیسی رباعیات میں حمدیہ ، نعتیہ اور منقبتیہ رباعیاں ہیں ۔ منقبت میں حضرت علی ؓ، حضر ت فاطمہ ؓ، حضرت امام حسن ؓ، حضرت امام حسین ؓ، حضرت عباس ، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت صابر کلیر ی ، حضرت سید اشر ف جہانگیر سمنانی ، حافظ وارث علی شاہ ، حضرت حاجی علی شاہ ،حضرت بو علی شاہ قلندر، حضور غوث بنگالہ ، حضرت نظام الدین اولیا ، حضرت امیر خسرو ، حضرت بیدم شاہ وارثی ، دیوانہ شاہ وارثی ، امام احمد رضا خاں و دیگر کئی اور بزرگان دین اس میں شامل ہیں ۔ 

حمدیہ رباعیات کی تعداد چھتیس ہے ۔اس میں انہوں نے تنوع لانے کی کوشش کی ہے ۔ زیادہ تر رباعیاں دعا سے تعلق رکھتی ہیں ۔ حمد و دعا لاز م و ملزوم کی صورت میں اکثر مقامات پر سامنے آتے ہیں ۔ اس میں پہلے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں خدا کی حمد ہوتی ہے اور چوتھے مصرعے میں دعا ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو :

قرآن ہے انعام ترا رب کریم 

پر نور ہے پیغام ترا رب کریم 

جس وقت مری روح بدن سے نکلے 

ہونٹوں پہ رہے نام ترا رب کریم 

شروع کے دونوں مصرعے شکریہ کے ہیں جنہیں حمد کے زمرے میں بھی رکھا جاتا ہے تیسرا مصرع گریز کی بہترین صفت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور چوتھے مصرع میں دعا ہے ۔ بطور فن یہ ایک خوبصورت رباعی ہے ۔ بطور حمد بھی انہوں نے ذات خداوندی کی صفات کو پیش کیا ہے ۔حمد کے زمرے میں ہی انہوں نے ایک خوبصورت رباعی تحریر کی ہے جو حسن تعلیل کی سی کیفیت کے ساتھ سامنے آتی ہے :

 کلیوں کی زبان پر ہے سدا یا اللہ 

پھولوں نے بصد شوق پڑھا یا اللہ 

لاریب !ہواؤں نے لیا ہے بوسہ 

جب ریت پہ لہروں نے لکھا یا اللہ 

 حمدیہ رباعیات میں شمیم انجم وارثی نے اچھی کوشش کی ہے ۔ واضح رہے کہ تصوف سے حمدکا رشتہ بہت ہی قر یب کا رہا ہے ، کلاسیکی شاعری میں خدا کی ذات و صفات کو لے کر عمدہ شاعری کی گئی ہے ۔ واقعی میں اردو شاعری میں اس جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بقول پروفیسر مقبول احمد مقبولؔ:

’’تقدیسی شاعری کو بعض ناقدین کم نگاہی سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی شاعری میں عام طور پر کہنے کے لیے کچھ نہیں زیادہ ہوتا نہیں ۔ وہی بندھے ٹکے خیالات ہوتے ہیں جن میں عقیدت و احترام کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ گویا یہ فضائے محدود ہے جس میں مرغ تخیل کو پرواز کا کوئی زیادہ موقع نہیں مل پاتا ۔ اسی لیے شاعری کے امکانات بھی کم اور بہت کم ہوتے ہیں ۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہر زمانے میں اور ہر زبان میں ایسی شاعری لکھی ، پڑھی اور سنی جاتی رہی ہے ۔ ‘‘

یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر تقدیسی شاعری کی جانب بہت ہی کم تو جہ دی گئی ہے لیکن کلاسیکی شاعری کی جانب تو جہ کریںگے جو صوفیہ کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی تو ان میں آپ کو احساس ہوگا کہ حمد کی تمام جزئیا ت کو سمیٹتے ہوئے کس قدر عمدہ شاعری کی گئی ہے خواہ وہ دیگر کسی بھی اصناف میں ہوں ۔ آخر میںڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کے ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ، موصوف لکھتے ہیں : 

’’ شمیم انجم زندگی کے کسی مخصوص نظر یے کے حامی نہیں ہیں ۔ ان کی رباعیات میں خارجیت کی کار فر مائی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات مخصوص فضا اور محدود دائرے میں گردش کر تی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ شمیم انجم نے زندگی کا مطالعہ و مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا ہے ۔ اس لیے زندگی کے محبوب و مخصوص مناظر و مظاہر کا اظہار ان کے یہاں پایا جاتا ہے ۔‘‘ 

متذکرہ بالا پانچوں جملے ادبیت سے معمور ہیں ، پہلے جملے میں ادبی نظر یے میں جانبداری کی نفی ہے ، جو اب شاید و باید ہی کسی نئے تخلیق کار کے یہاں پائی جاتی ہو ، البتہ مسلکی و مذہبی نظر یے کا عکس تخلیقات میں جھلک ہی جاتا ہے ، خو اہ فکشن ہویا شاعری ۔ دوسرے جملے میں خارجیت کی بات ہے جو اب تقریباً تمام کے یہاں پائی جاتی ہے ۔ تیسرے جملے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس سے قبل کا تفصیلیہ جملے کے طور پر درج ہے جس میں انہو ں نے مخصوص فضا اور محدود دائرے کی بات کی ہے اس اختصاص و تحدید کا اطلاق یقینا ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ کی فضا پر ہے اور اس فضا پر یقینا ماضی میں جو شاعر ی کی گئی ہے اس کا تعلق خارجیت سے نہیں بلکہ داخلیت سے ہوتا تھا ۔آخر کے دونوں جملے بھی ان کی شاعری کو محدود فضاسے نکال رہے ہیں اور ان کی شاعری میں جو حسن و عشق کے موضوعات پائے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔الغرض موصوف کی رباعیات کی بات کی جائے تو انہوں نے نئے موضوعات کو بہتر انداز میں پیش کر نے کی عمدہ کو شش کی ہے ۔ موجودہ وقت میں جو بھی شعرا رباعی گوئی کی جانب مائل ہیںان میں کوئی اعلیٰ اور نہ کوئی ادنیٰ ہے ۔ تمام کے یہاں ایک جیسے ہی موضوعات پائے جاتے ہیں ، البتہ شمیم انجم وارثی کا اختصاص ہے کہ انہوں نے تقدیسی شاعری میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ہے جو وقت حاضر میں ان کا امتیاز ہے ۔




معصوم شرقی کی رباعی گوئی

معصوم شرقی کی رباعی گوئی 

ڈاکٹر امیر حمزہ

  رباعی اب اردو ادب میں حاشیائی صنف سخن نہیں رہی ،اکیسویں صدی کے ان دو دہائیوں میں اردو میں رباعی کا منظر نامہ تبدیل ہوا ہے۔ یہ تو عام ادراک کی بات ہوئی،کیونکہ ترسیلی وسائل کی آسانی نے بہت تیزی سے سب کچھ سامنے لا نا شروع کردیا ہے اور ہم ہندوستان بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ کن ماحول میں اور کن خطوں میں کن اصنافِ سخن کی قدر بڑھ رہی ہے ۔ ساتھ ہی تنقید ی عمل شانہ بشانہ چل رہا ہے تو اس سے بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ تخلیق کی روایت میں وہ اپنا مقام کسی طرح بنا رہے ہیں یا یوں ہی صرف بطور تذکرہ شمار کر لیا جاتا ہے ۔ اس عمل میں یقینا دیگر وسائل کا بھی استعمال ہوتا ہے جہاں کچھ افراد زیادہ روشنی حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ مدھم روشنی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ یہ ہر تخلیق و فن کار کے ساتھ ہوتا ہے لیکن پھر بھی نظم و غزل ، افسانہ و ناول نے تنقید کی دنیا میں رباعی کے مقابلے میںبہتر مقام حاصل کیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اردو تنقید کے دریچے رباعی کی جانب بہت کم کھلے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ موجودہ وقت میں رباعی نے شاید مواصلات کا عمدہ موقع حاصل کیا یا پھر یوں کہیں کہ جامعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے زیادہ داخلے ہونے لگے تو خالی مضامین و موضوعات کی جانب زیادہ توجہ دی گی تو ایسے میں رباعی کو بھی فائدہ ہوا ، اس کی تنقید و تحقیق کی جانب بھی توجہ دی جانے لگی ۔ کچھ برسوں پہلے جب رباعی کی جانب توجہ دی گئی تو انفرادی رباعی گو شعرا کی رباعیات پر کا م ہو ا، ان کی اشاعت بہت کم عمل میں آئی ، البتہ مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں دو چارمقامات سے خبرموصول ہوئی ہے کہ عمومی طور پر رباعی پر کام ہورہا ہے ۔ آخر رباعی جیسی مشہور صنف کے ساتھ یہ مرحلہ کیوں پیش آیا ؟ یہ کوئی سوال قائم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ارد و میں صنف رباعی کو ہی اہمیت نہیں دی گئی ۔ ابھی تازہ مثال غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی ہے جہاں سے ایک کتاب ’’ مرزا دبیر : عہد اور شعری کائنات‘‘ شائع ہوتی ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے لیکن دبیر کی رباعی گوئی پر صرف چار صفحات ہیں جبکہ دبیر کی رباعی کائنات انیس سے وسیع ہے۔ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو ر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی نے عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر ڈھیلاپن کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے ۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر ایک رباعی میں پیش کردیا گیا ہے ۔ رباعی میں بھی دو ہی اشعار ہوتے ہیں لیکن پہلا شعر معنوی طور پر بعد کے شعر پر منحصر ہوتا ہے ۔ جبکہ غزلیہ مزاج کے غلبے کی وجہ سے دونوں شعر الگ الگ اکائی  کے حامل ہوکر رہ جاتے ہیں اگر تیسرا مصرع مصرّع نہ ہوتو آپ اوپر نیچے مصرعوں کو بہ آسانی رکھ سکتے ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ 

صنف رباعی ذہن میں آتے ہی اس کا فن ذہن میں آجاتا ہے ۔ یہ واحد صنف سخن ہے جس میں یہ متصور ہوتا ہے کہ رباعی وہ صنف سخن ہے جس کا فن دیگر تمام اصناف شعر سے باعتبار عروض منفرد ہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب اسی کے ساتھ یہ بھی محسوس کرایا جاتا ہے کہ اس کے موضوعات بھی مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی ۔ غالب نے بھی ایسی رباعیاں تحریرکی ہیں۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں ۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں! فراق رس کے شاعر تھے انہوں نے غزلوں نظموں اور رباعیوں تینوں اصناف میں رس کو برتا اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ جو ش کا شمار شاعر انقلاب ، شاعر شباب اور شاعر فطرت کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ان سب موضوعات کو بخوبی برتا ہے ۔ جاں نثار اختر کا رباعیوں کا مجوعہ ’’ گھر آنگن ‘‘ بہت ہی مشہور ہے وجہ صر ف یہ ہے کہ انہوں نے گھریلوموضوعات کو بہت ہی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں ۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریںگے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔ 

اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو قدیم سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین مکمل طور پر داخل ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیںلا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانہ میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری کی مل جائے تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفہ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آتی ہے ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر طنزو مزاح کے حامل لیکن رباعی میں دونو ںایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو بے پناہ موضوعات دیے ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ اس بندہ کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں ، وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔ ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے ۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ 

 معصوم شرقی کے ان رباعیات کے ضمن میں مندرجہ بالا غبار خاطر اس لیے پیش کی کہ تحریری روایت سے ہٹ کر فکر ی عمل کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے ۔ یقینا ان کی رباعیوں کے موضوعات بھی وہی ہیں جو عام طور پر اردو سماج سے نکل کر آرہی ہیں ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انہیں میں سے چند رباعیاں بہت اچھی ہوجاتی ہیں جو ایسا احسا س کراتی ہیں کہ ماقبل میں اس انداز میں نہیں کہی گئی ہیں ۔ کچھ کے یہاں عمدہ تراکیب و تشبیہات مل جاتی ہیں ۔ پھر بھی چند ہی رباعیاں ایسی نکل کر سامنے آتی ہیں جن کے چوتھے مصرعے اس بات کے غماز ہوتے ہیں کہ واقعی میں وہ رباعی کے ہی مصرع ہیں جو محاورہ بننے کی طاقت رکھتے ہیں اور ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کے مصداق ہوسکتے ہیں ۔ 

 موضوعات کے اعتبار سے معصوم شرقی کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان کے یہا ں حمد،شہر کلکتہ ، جبر و قدر، خودبینی ، فطرت ، دنیا ، زندگی، لوگوں کے ساتھ معاملات زندگی ، حالات وطن و دیگر موضوعات کی رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان سب میں بھی لوگوں نے ان کے ساتھ جو معاملات روا رکھے اور مو صوف خود کو کس انداز میں دیکھتے ہیں وہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ جس سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ غمِ ذات کو غم دنیا بنانے کا ہنر شاعر تو جانتا ہے لیکن اس کو کس طرح بنانا ہے وہ ہر ایک شاعر کی بس کی بات نہیں ۔ چنیدہ لفظوں سے ہی بَنا مصرع و شعر کب ذات کی عکاسی کرتا ہے اور کب سب کی دل کی بات اس میں نظرآتی ہے یہ تو قاری پہلی ہی قرات میں محسوس کرلیتا ہے۔ نظر یہ کی بات کی جائے تو بڑے بڑے شاعروں کے یہا ں تضادات ملتے ہیںکبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ، لیکن وہ نظریے جن کا تعلق اعتقادات سے ہوں اگر اس میں تضادات نظرآجائیں تو قاری سوچ میں پڑجاتا ہے کہ اول کوترجیح دے یا دوم کو۔ ان تمام کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اچھی رباعیاں پیش کر نے کی کوشش ہوئی ہے ، تاہم چند رباعیاں جن میں ذاتی چپقلشوں کا اظہار ہے اگر ان میںاور فن کاری کی جائے تو وہ مزید بہتر ہوسکتی ہیں ۔ موصوف کی چند رباعیاں پیش خدمت ہیں ۔ 

 روداد محبت کی سناؤں کیسے 

 ماضی کا میں آئینہ دکھاؤں کیسے

 ہرلمحہ جواں دل میں تھی اک تازہ امنگ

 کیا عہد جوانی تھا بتاؤں کیسے 


بیزاری کو چاہت سے بد ل دیتی ہے 

 ماحول کو فطرت سے بدل دیتی ہے

 عورت کو ودیعت وہ ہنر ہے جس سے 

 نفرت کو محبت میں بدل دیتی ہے 


ہونٹوں پہ رواں ذکرترا ہوتاہے

 جب زخمِ جگر میرا ہرا ہوتاہے 

حاصل تری یادوں ہی سے ہوتا ہے سکون

 جب درد کا احساس سوا ہوتا ہے 


معدوم محبت کا نشاں ہے بھائی 

 ہر گام پہ نفر ت کا دھواں ہے بھائی

 ہیں آدمی دنیا میں تو لاکھوں، لیکن 

 پر آدمیت ان میں کہاں ہے بھائی 

 

مندرجہ بالا کے علاوہ کئی اور ایسی رباعیاں ہیں جن میں وہ اپنی ذات کو پیش کر تے ہیں لیکن جن رباعیوں میں وہ خود کو پیش نہیں کر تے ہیں وہ زیادہ اچھی ہیں۔ انہوں نے زبان بالکل ہی سادہ اور سلیس استعمال کی ہے ۔ استعارات و تشبیہات بہت ہی کم ہیں۔ ترکیبات بھی نہ کے برابر نظرآتے ہیں، بھاری بھرکم الفاظ سے مکمل پرہیز ملتا ہے ۔ روانی کی بھر پور کوشش کی گئی ہے جن سے جمالیاتی بصیرت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔

 موصوف نے نثر ی دنیا میں خوب لکھا ہے اور اپنی شناخت بھی بنائی ہے ۔ شعری دنیا میں شاید یہ ان کی پہلی کاوش منظر عام پرآرہی ہے وہ بھی رباعیوں کے ساتھ ایسے میں رباعی کے قاری ہونے کے ناتے میں انہیں مبارکباد پیش کر تا ہوں ۔ اس سے قبل ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مقبول عام بھی ہوچکی ہیں ۔ اشک امرتسر ی پر معصوم شرقی صاحب نے لاجواب کام کیا ہے ، کلکتہ کا ادبی ماحول بھی ان کی اہم کتاب ہے ۔ رباعیوں کے تعلق سے بھی پرامید ہوں کہ وہ ناقدین کو اپنی فن کاری منوانے پر مجبور کریںگے ۔ 

 امیر حمزہ 

 


فاروقی رباعیاں

 فاروقی رباعیاں 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

ameerhamzah033@gmail.com

غالب انسٹی ٹیوٹ میں دوبرس قبل دہلی کی تاریخی عمارتوں پر ایک سمینار ہورہا تھا اس وقت آخر میں بطور حاصل کلام ایک جملہ فضا میں آیا اور چھاگیا کہ ’’ مغلیہ عمارتیں محض عمارتیں نہیں ہیں بلکہ ان کی انفرادیت وعظمت ہی ان کو مغلیہ بناتی ہے۔‘‘ یہ بات ہربنس مکھیا نے کہی تھی یا کسی اور نے وہ مجھے اب یاد نہیں لیکن یہ جملہ ایسا چھایا کہ مغلیہ کی انفرادیت صرف عمارتوں ہی میں نہیں بلکہ تمام اشیا میں ظاہر ہوجاتی ہے ۔کچھ ایسا ہی معاملہ شمس الرحمن فاروقی کا ہے کہ ان کی انفرادیت صرف تنقید ، تحقیق ، فکشن یا شاعری میں ہی نظرنہیں آتی ہے بلکہ ان کا قلم جس صنف کے لیے بھی اٹھتا ہے وہ منفر د ہوجاتی ہے ۔ جب وہ تنقید کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو اپنی انفرادیت آپ قائم ہوجاتی ہے ، جب فکشن میں آتے ہیں تو وہاں بھی وقت پر غالب ہوجاتے ہیں ۔ یہی صورتحال شاعری کی ہے کہ اس میں بھی دیگر اصناف کی طرح اپنی انفرادیت خود بخود قائم ہوجاتی ہے ۔

 لیکن ان سب میں بھی ایک فطری عمل یہ وجود پاتا ہے کہ کئی زاویوں سے شناخت بنانے والے ہمہ جہت فردیا شخصیت کی شناخت کسی ایک غالب جہت کی وجہ سے غالب ہوجاتی ہے اور دیگر جہات پس پردہ چلی جاتی ہیں۔ یہی کیفیت فاروقی صاحب کے یہاں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ جب بھی ان کا نام ذہن میں آتا ہے تو ان کے تنقیدی نگارشات و تصورات لامتناہی کے طور پر سامنے آتے ہیں ، خاص کر شعر شور انگیز کے حوالے سے ۔ گویا ان کی بنیا دی شناختوں میں سے ناقد کی شناخت سب سے زیادہ غالب رہی ۔اس کے بعد فکشن نگاری میں وہ ناول نگار کے حوالے سے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔ پھر شاعر کے طور پر ان کی خدمات کا ذکر آتا ہے ۔ اس ترتیب کو میں نے یوں ہی قائم نہیں کیا بلکہ فاروقی صاحب کی خدمات پر لکھی گئی تحریروں کا بغور جائزہ لیںگے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ سب سے زیادہ فلاں عنصر پر، پھر فلاں پرپھر جاکر شاعری پر ہیں۔ یعنی بطور شاعر ان کی شناخت تیسرے نمبر پر ہی آتی ہے ۔ یہ صرف ان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر ایک بڑے فنکار کے ساتھ ہوتا ہے کہ جملہ نمایا ں عناصر میں سے کوئی ایک ہی ایسا عنصر ہوتا ہے جس پر سب کی نظر سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

 شمس الرحمن فاروقی نے اگر چہ شروع میں فکشن کی جانب توجہ کی اور ایک فرضی نام سے تحریریں منظر عام پر آتی رہیں ۔ ان تحریروں پر لوگوں کوشک ہوا تو وہ شک ہی میں رہ گئیں کیونکہ جب راز کھلا تو ان مشکوک تحریروں کی اہمیت فاروقی صاحب کی مقبولیت کے ساتھ منطبق نہیں ہو پائی ۔ یہ معاملہ بھی صرف انہیں کے ساتھ نہیں رہا بلکہ ہر عظیم و مشہور شخصیت کے ساتھ لاحق رہا کہ ان کے نام سے لکھی گئیں فرضی تحریروں کو وہ مقام نہیں ملا جو اصل نام کی تحریروں کو حاصل ہوا۔ الغرض تحریروں کی قد روقیمت شخصیت کے ساتھ ہی نظر آتی ہے خواہ کیسی بھی ہو ۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا تب فاروقی کی فاروقیت نکھر کر سامنے آگئی ۔ اگر چہ وہ خود کو خلیل الرحمن اعظمی کا پیرو کار بتاتے رہے لیکن ان کی انفرادیت نے مرعوبیت کوکہیں بھی پنپنے نہیں دیا۔

 فا روقی اپنی راہ الگ ہی منتخب کرتے ہیں ۔ شاعری کی روایتی روش کو دوش پر رکھ کر اپنے وسیع مطالعہ سے کائناتِ لفظ و معانی کے عمل کو اپنے ذہن سے گوندھتے ہیں اور ان کو نئے ڈھب سے نئے اشکال و معانی میں قید کردیتے ہیں ۔ تخلیق میں وہ نئے معانی تشکیل کرنے کے کھیون ہار کے طور پر سامنے آتے ہیں جس میں شاعری و فکشن دونوں شامل ہیں ۔ فکشن میں افسانہ کا رنگ جدا ہوتا ہے جبکہ ناول کی وسعت میں وہ رنگ پھیکا نظر آتا ہے ۔شاعری میں آزاد ونثری نظم کا رنگ جدا ہوتا ہے اور غزلوں کا دیگر ۔ لیکن اگر خالص فاروقی کی تخلیقات کی بات کی جائے تو شاعری میں وہ بطور رباعی گو ، فکشن میں بطور ناول نگار اور تنقید میں شعر شور انگیزکی بناء پر منفرد نظر آتے ہیں ۔ ان انفرادی وجوہات کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی ایک کلیہ ہی کسی کو نکھارنے میں معاون ہوتا ہے ۔ یہی یہاں پر صادق آتا ہے کہ شاعر میں وہ بطور رباعی گو اپنی انفرادیت آپ قائم کرتے ہیں کیونکہ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ ایک مکمل رباعیوں کا مجموعہ ہے اسی لیے فاروقی صاحب ایک مطلق شاعر سے زیادہ رباعی گوشاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نظمیں ، غزلیں اور رباعیاں بھی ہیں لیکن وہ ان سے ایک مخصوص نظم و غزل کے شاعر کے طور پر سامنے نہیں آتے ہیں جیسا کہ رباعی کے ایک مکمل مجموعے سے ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ 

فاروقی کی رباعیاں اس عہد میں سامنے آتی ہیں جب جو ش و فراق کی رباعیاں فضا میں چھائی ہوئی تھیں اور جدیدیت کا رجحان بھی اپنی جگہ برقرار تھا ایسے میں واضح طور پر سوال تو رہا ہوگا کہ شاعری میں غزل و نظم پر تو اس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں لیکن رباعی میں بھی یہ ممکن ہے کیا ؟ جس کی خصوصیت و فضا تصوف و اصلاح اور ترسیل ہے ۔ ایسے میں رباعی کے مزاج کو بدلنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں فاروقی صاحب کی زیرکی کو محسوس کیجیے کہ انہوں نے اردو میں سب سے مشکل سمجھی جانے والی صنف سخن رباعی کو ہی ریاضی کا مرکز بنایا اور اپنے اولین شعری مجموعہ ’’گنج سو ختہ ‘‘ (۱۹۶۹) میں مناجات کے بعد رباعی ہی پیش نہیںکرتے بلکہ دیباچہ بھی رباعی ہی میں ہو تا ہے ۔ہمیں تو یہ معلوم ہی ہے کہ دیباچہ کیا چیز ہوتی ہے اور اس میں عموماً کیسی چیزیں لکھی جاتی ہیںلیکن اس کے اصول منزل من السماء بھی نہیں ہیں جو اسی پر چلا جائے بلکہ انسا ن نئے طریقے بھی وضع کرلیتا ہے تو اس دیباچہ کو ایک نئے انداز کا دیباچہ سمجھ لیں جو دو رباعیوں پر مشتمل ہے ۔ عموماًدیباچہ اظہار کے تمام روشن دریچوں کے ساتھ سامنے آتا ہے تاکہ مصنف کا قاری تک واضح پیغام پہنچ سکے ۔ لیکن دیبا چہ کی دونوں رباعیو ںمیں ان کا لہجہ اظہار کا نہیں بلکہ اخفا کا ہے ۔ اس پر جواب بھی فوراً ذہن میں آئے گا کہ جدیدیت کی شاعری میں اظہار کہاں ہے ، وہاں تو اخفاہی اخفا ہے ۔ تو یہاں آپ یہ سمجھ لیںکہ یہ ان کی شاعری کا فنی دیباچہ ہے جس میںانہوں نے اپنی شاعری کا عکس ان دو رباعیو ںمیں پیش کردیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

ہیں زخم صدا کہ جگمگاتے ہوئے باغ 

کالی لمبی ندی پہ روشن ہیں چراغ 

کوندی ہے منجمد فضا میں دیکھو

الفاظ کی تلوار معطر بے داغ 


ہر آگ کو نذر خس و خاشاک کروں 

ہر سیل کو برباد سر خاک کروں 

اے شیشہ آہنگ میں معنی کی شراب

کہہ دے تجھے کس درجہ میں بے باک کروں 

مذکورہ بالا دونوں رباعیوں میں اگر موضوع کو گرفت کرنے کی کوشش کریں تو پہلی رباعی کے پہلے مصرع میں ’’زخمِ صدا ‘‘ اور آخری مصرع میں ’ ’ الفاظ کی تلوار‘‘ سے مطابقت پیدا کرکے اس پوری رباعی کو ایک لڑی میں پروسکتے ہیں اور یہ معنی بحسن و خوبی اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کا یہ شعری مجموعہ مجروح آوازوں کا جگمگاتا ہوا باغ ہے جن کے الفاظ تلوار ہیں لیکن خوشبو دار اور بے داغ بھی ہیں ۔ 

اب دوسری رباعی کی جانب رخ کرتے ہیں تو اس میں احساس ہوگا کہ پہلی رباعی سے انہو ں نے جو سفر الفاظ سے شروع کیا تھا وہ اس رباعی میں معانی پر پہنچتا ہے اور یہاں پر شیشہ آہنگ کی ترکیب بہت ہی معنی خیز ہے ۔ آہنگ جو فضا میں قائم ہوتا ہے وہ شیشہ کی کیفیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس میں معنی کی شراب کو پیش کر تے ہیں جس کے چھلکنے کی کیفیت کسی سے مخفی نہیں ہے جو معانی کے ساتھ بھی لازم ہے ، اب آگے دیکھیے کہ معنی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ بتا تجھے کس درجہ بے باک کروں ۔اب غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ و معانی کے اس امتزاج سے ان کا دیبا چہ مکمل ہوتا ہے ۔

 ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں مذکورہ بالا دونوں رباعیو ںسے پہلے ایک دعائیہ رباعی بھی ہے ۔


اک آتش سیال سے بھر دے مجھ کو

اک جشن خیال کی خبر دے مجھ کو 

اے موجِ فلک میں سر اٹھانے والے! 

کٹ جائے تو روشن ہو ، وہ سر دے مجھ کو 

اس دعائیہ رباعی کو جب فاروقی صاحب کی ذات سے دیکھتے ہیں تو ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ آتش سیال اور جشن خیال سے وہ مالا مال تھے ، آخر ی مصرع کی دعا ان کی شروع سے ہی مقبول رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو دنیا میں ان کی موجودگی میں بھی کوئی ایسا نہ تھا جن کی روشنی ان کے سامنے ان سے زیادہ ہو، خدا نے ان کو اس معاملے میں یکتا اور فرد فرید رکھا تھا ۔ اس مجموعے میں دو رباعیاں اور بھی ہیں ، ان میں ایک رباعی غیر خصی ہے ۔ رباعی کی بحث میں خصی اور غیر خصی کی اصطلاح بار بار آتی ہے ، اس کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ جورباعی جتنی قدیم ہو گی وہ غیر خصی ہوگی یعنی اس کے چاروںمصرعوں میں ردیف و قافیہ ہوگا ۔ لیکن ہر زمانے میں اردو وفارسی میں غیر خصی رباعیاں لکھی گئی ہیں ، جوش وفراق کے یہاں بھی ایسی رباعیاں ملتی ہیں ۔ فاروقی کی غیر خصی رباعی ملاحظہ فرمائیں :

اسرار کے دریائوں کا پانی ہے یہ رات 

مردار سمندر کی روانی ہے یہ رات 

بچپن کی سنی کوئی کہانی ہے یہ رات 

خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات 

 موضوعاتی طور پر اس رباعی میں رات کو انہو ں نے کئی انداز میں ایکسپلور کیا ہے کہ رات کو جس جس زاویے سے سوچیں وہ منطبق ہوتی ہے ،رات کے سحر کی وسعت ہر ایک پر عیاں نہیں ہوپاتی ، اس کے اندر سمانے والے رازہائے سربستہ سے پر دہ اٹھنا نا ممکنات میں سے ہے ، یہ ایک تصوراتی دنیا ہے جس کی ایک جھلک بچپن میں کہانی کی شکل میں ہمیں ملتی ہے۔ ان تصورات کی تصدیق سے پرے بس اتنا محسوس کریں کہ یہ جنس غیر مرئی ہے یعنی خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات ۔ 

ا س کے بعد ان کی رباعیوں کا مجموعہ’’ چار سمت کا دریا‘‘ کی جانب رخ کرتے ہیں جس میں رباعیوں کا رنگ دیگر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس میںفاروقی صاحب کا رنگ اتنا بھی واضح نہیں ہے جتنا ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں ہے بلکہ کچھ اور دبیز رنگ ہے ۔ اس میں دیباچہ رباعی ہی میں ہے لیکن فاروقی صاحب کی نہیں بلکہ مرزا اسداللہ خاں غالب کی ایک فارسی رباعی اور EUGENIO MONTALE کا ایک اقتباس ہے ۔ یعنی یہاں انہوں نے اپنی جانب سے دیباچہ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے ۔ 

اس مجموعہ میں کل پچھتر رباعیاں ہیں اور تمام رباعیاں جدیدیت کی فضا سے بوجھل ہیں ۔ اس کی پہلی ہی رباعی اس جانب غماز ہے کہ ہم زمین یعنی بحر کے غلام ہیں اور ہمیں اس پر لگے رہنا ہے اور اتفاق سے دوسری رباعی وہ ہے جس کا ذکر گنج سوختہ کے دیباچہ میں ہے ۔ فاروقی صاحب کو اگرچہ جدیدیت کا امام کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنی تخلیقی دنیا میں سفر کر تے ہیں تو مکمل طور پر روایت کے پاسدا ر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعہ کی تیسری رباعی میں اپنی بے تاب دعاؤں میں اثر مانگ رہے ہیں ، چوتھی ، پانچویں اور چھٹی رباعی بھی دعا سے تعلق رکھتی ہے ۔ 

کنجشک کو چیتے سا جگر دے دینا 

گل برگ کو بجلی کا ثمر دے دینا 

ہے سہل تجھے مگر ہے سب سے آساں 

بے تاب دعاؤں میں اثر دے دینا 

 کیا خوبصورت دعا ہے کہ پہلے کے دونوں مصرعو ں میں خدا کی قدرت کا ذکر ہے اور تیسرے مصرع میں لسانی خصوصیت مابین سہل و آساں کے بعد بے تاب دعاؤں میں اثر چاہنا ۔ 

نویں نمبر پر ہی وہ رباعی ہے جس سے اس مجموعہ کا نام ماخوذہے ۔ ذیل میں وہ رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

تجھ سا نہیں دنیا میں کوئی تنہا آ 

امڈا ہے چار سمت کا دریا آ

یہ نیم شبی گنجان اتنی کب تھی 

مٹنے کو ہے تیری آواز پا آ 

اس رباعی کو موضوعاتی سطح پر کس خانہ میں رکھا جائے اس کے لیے واضح طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ، ایک زاویہ سے دیکھتے ہیں تو یہ ذات باری تعالیٰ سے ایک فریاد کے طور پر سامنے آتی ہے اور آخر ی مصرع کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ فراق کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور تنہائی کے خوف سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ پہلے مصرع میں جملہ خبر یہ و جملہ امر کے مابین سکتہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے مصرع میں ہے تو لفظ ’تنہا‘ سے کیا مرا د انہوں نے لی ہے یہ ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرع میں لفظ ’ کا ‘ کا استعمال ’آ‘ کو استعانت سے خارج کردیتا ہے اور ہم سفر ی میں لے آتا ہے جس کا احساس چوتھے مصرع کے ’آ‘ سے بھی ہوتا ہے ۔ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ کو دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ رباعی کے لیے ہے جو چار مصرعو ں کے لیے بطور علامت ہے ۔ اس صورت میں لفظ ’ کا ‘ کو ہمیں ’ والا‘ کے معنی میں دیکھنا ہوگا یعنی چار سمتوں والا دریا ۔انہوں نے نام بھی یہی رکھا ہے تو ہمیں اس معنی سے قریب بھی ہونا پڑے گا ۔ لیکن رباعی کی جو فنی خاصیت ہوتی ہے متحد المعنی ہونا وہ اس سے مختلف ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ خیر چار سمت کا دریا میں مرکز الی الاجتما ع تو ممکن نہیں البتہ مرکز من الاجتماع کی حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ خیر یہ ان کی جدت ہے کہ ہمیں ہر مقا م و مصرع میں بعید سے بعید تر مفہوم کی جانب جانا پڑتا ہے ۔ 

 رباعی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخر ی مصرع بہت ہی پر اثر ہونا چاہیے یعنی ’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ والی کیفیت اس میں ہونی چاہیے اور ایسی کیفیت فارسی کی رباعیوں میں بخوبی پائی جاتی ہے ۔اس کیفیت کو فاروقی صاحب اس طور پرحاصل کر تے ہیں کہ آخر ی مصرع وہ فارسی کا لاتے ہیں جس سے یقینا ا س رباعی کی اہمیت اور قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو :

میں وقت کا بندی تھا رہائی کا ہے غم 

زنجیر شکستگی ہے صوت ماتم 

تھی بند سلاسل میں بھی ذلت لیکن 

آن درد دیگر کہ خنداں خوردم 

یعنی وہ ایک دوسرا درد تھا جسے میں نے ہنستے ہوئے پی لیا ۔ اس طریقے کے دیگر ان کے فارسی مصرعے کچھ اس طرح ہیں :

ع ’’در آتش سرد خفتہ بیند مرا‘‘

ع ’’بازندگی خویش چسا کردم من‘‘ 

ع  ’’صدہا ست سخن کہ کس بہ نا کس گوید‘‘

ع  ’’گلشن نہ دمد از خود یا را ں چہ کنند‘‘

ان تمام مصرعوں کوپڑھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس پنچ لائن کی رباعی کے چوتھے مصرعے میں ضرورت ہوتی ہے وہ فارسی کے ان چوتھے مصرعوں سے بخوبی مل جاتی ہے ۔ چوتھے مصرعے کی ایک اور خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ محاورہ بننے کی طاقت رکھتا ہو جو یہاں نظر بھی آرہا ہے ۔

 فاروقی صاحب کی رباعیو ں کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ جدیدیت کی دبیز چادر بچھی ہوئی ہے اور ہر مصرع میں ایک قسم کی علامت سے آپ کو سابقہ پڑے گا ۔ مثال کے طور پر دو رباعیاں ملاحظہ ہوں : 

کس خوف کا داغ ماہ وادید میں ہے 

کیا آنکھ ہے جو محاذ خورشید میں ہے 

کیسی ہے نسیم وہم اڑے ہیں چہرے 

کس سانپ کی آمد شب تجدید میں ہے 

 

دریا، دریا میں ناؤ کاغذ کا مکاں 

گردن، گردن آب گہر میں طوفاں 

کوئل، کوئل کی کوک پھولوں میں پھوار

آنکھیں، آنکھوں میں درد رفتہ لرزاں 

فاروقی صاحب نے جیسا کہ شروع میں لکھا تھا کہ میں تو بحر(اوزان) کا مزدو ر ہوں یعنی شاعری میرا کام ہے ، تو اس میں وہ کئی فنی تجر بے بھی کرتے ہیں جیسے مرزا دبیر کی طرح صنعت مہملہ و منقوطہ میں رباعیاں پیش کرتے ہیں ۔ فاروقی کی رباعیوں میں بادل، آنکھ، بر ق مسکن، نیلی بجلی، کالی آندھی ، وسعت افلاک ، بر گ ، رات، نیلا کہرا، نیلا آسمان ، جنگل، گنبدِ افلاک ، سرِ شب، گہرا نیلا رنگ ، رمِ شب، گھنے خواب ، بکھرے خواب ، حبس بھرے خواب ، نیل فلک ، جوئے خوںاور نیلم جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جن کا تعلق علامات سے بھی ہے ۔ 

 فار وقی صاحب کے دوسرے شعر ی مجموعہ ’’ سبز اندر سبز‘‘ میں بائیس رباعیاں ہیں ۔ ان میں کچھ رباعیاں مکرربھی ہیں ، جیسے گنج سوختہ کی رباعیاں ،چار سمت کی دریا میں ہیں اسی طریقے سے ’’ سبز اندر سبز ‘ میں بھی ماقبل کے شعری مجموعوں سے رباعیاں رقم کی گئی ہیں ۔ اس شعر ی مجموعہ سے بھی بطور نمونہ ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

گہراہوں لوٹ آؤں میں نے پوچھا 

دیکھا ہے بھول جاؤں میں نے پوچھا

ان آنکھوں کو کھولے ہوئے ہے پنجہ شیر

آنکھوں کو چھوڑ آؤں میں نے پوچھا 

 اب رخ کرتے ہیں ’’آسماں محراب ‘‘ کی جانب اس میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ ان کی رباعیاں بھی ہیں ۔ اس مجموعہ میں انہوں نے رباعیوں کو عناوین کے تحت بھی تقسیم کیا ہے ۔ پہلی رباعی کسی عنوان کے تحت نہیں ہے لیکن اِ س رباعی کا رنگ دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو رنگ گنج سوختہ اور چارسمت کا دریا میں اپنا یا گیا ہے وہ اس میں نہیں ہے ۔ رباعی کچھ اس طرح ہے :

سرگوشی تیری سر بازار سنوں 

جنگل کی زبانی تیرا اقرار سنوں 

تو گہری ناگن سے خموشی میں مجھے 

اک بار بلائے تو میں سوبار سنوں 

اس رباعی میں مخاطب کی کیفیت کا اظہار ہے اور شاعر ہی مخاطب ہے ۔ شدت و تڑپ کس ذات کے لیے ہے وہ مخفی ہے ۔ اس اخفا کو ہم بین المتونی جدیدیت کی اخفائی صفت میں شمار کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد سات تضمینی رباعیاں پیش کی گئی ہیں اور وہ ساتوں رباعیاں شیخ فخر الدین عراقی، شیخ فرید الدین عطار، استاد ابوالفرج رونی، شیخ ابوسعید ابو الخیر ، مو لانا صوفی مازندرانی ، میرزا عبدالقادر بیدل اور ایک نامعلوم کی رباعی پر ہے ۔ پہلی رباعی جو عراقی کی ہے اس میں دو اردو مصرعے فاروقی کے ہیں اور فارسی کے آخر کے دونوں مصرعے عراقی کے ہیں ۔ دوسری رباعی عطار کی ہے جن میں دو مصرعے اردو اور دو فارسی میں ہیں ، چوتھا مصرع عطار کا ہے جو ان کی رباعی کا تیسرا مصرع ہے ۔ تیسری رباعی نامعلوم کی ہے اس میں بھی دومصرعے اردو کے ہیں اور دو فارسی کے ۔ اسی طریقے سے بقیہ تضمینات میں بھی دو مصرعے اردو کے اور دو فارسی کے ہیں ۔

 تضمینی رباعیو ںکے بعد ایک ایک رباعی’ ’ رباعی ۲۰۰۱‘‘ کے عنوان سے ہے جب کہ کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔اس کے بعد چار لالچ بھری رباعیاں ہیں اور اتفاق سے چاروں میں عناوین بھی ہیں ۔نشان کی چار سمتیں ، رنگ کے چار رنگ،لوائح اربعہ اور مسیحائے شوق ان کے عناوین ہیں ۔ مسیحائے شوق کی رباعی دیکھیں : 

خار آہن ہوں برگ زر ہوجاؤں 

سوکھی کھیتی ہوں چشم تر ہوجاؤں

ہلکا سا ترے پاؤں پہ یہ چوٹ کا داغ

میں چھولوں اس کو تو امر ہوجاؤں 

اس رباعی کو اگرچہ انہوں نے لالچ بھری میں رکھا ہے لیکن آپ غور سے دیکھیں تو تمنا ئی رباعیاں زیادہ محسوس ہوںگی۔ خیر!

اس کے بعد جہاں ہم پہنچتے ہیں وہ ہے فاروقی کی پکی عمر کی رباعیاں ، آخر فاروقی صاحب کو ان رباعیو ںمیں پکی عمر کا عنوان لگانے کی ضرورت کیوں پڑی یہ سوال خواہ زیر بحث نہ آئے لیکن اس میں انہوں نے جس قسم کی رباعیاں پیش کی ہیں اس سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ جدیدیت کے بہاؤ میں انہوں نے ’’چار سمت کا دریا ‘‘ میںجس نوعیت کی رباعیاں پیش کی ہیں یقینا وہ رباعی کے مزاج کی حامل نہیں ہیں بلکہ ان میں ظاہر ی طور پر ہر مصرع ایک الگ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور چاروں مصرعوں سے ایک ہی کیفیت تو نظر آجاتی ہے لیکن چاروں مصرعوں کے امتزاج سے کوئی ایک پیغام دیا جارہا ہویہ نظرنہیں آتا ۔ تمام رباعیوں کے تمام مصرعے علامت کی دبیز چادر کے تلے دبے ہوئے ہیں ، جب کہ پکی عمر کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی رنگت کچھ اور نظر آتی ہے :

جو عقل کے جھانسے میں نہ آئے وہ ہے دل 

جو من مانی کرتا جائے وہ ہے دل 

اک بوند گنہ پر سو قلزم روئے 

پھر ناکردہ پر پچھتائے وہ ہے دل


شیطان کسی طرح یہ مرتا ہی نہیں

بندے سے نہ مالک سے ڈرتا ہی نہیں 

گم نامی و ذلت کے بھی غاروں سے عمیق

دل ایسا جہنم ہے کہ بھرتا ہی نہیں 

ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ یہ تو فاروقی صاحب کا رنگ نہیں ہے ۔ یہ تو کسی ناصح اور صوفی شاعر کا کلام محسوس ہورہا ہے ۔ لیکن آپ کو معلوم ہوگا کہ رباعی نے سب سے زیادہ اپنے اندر اسی رنگ کو پایا ہے ۔ رباعی کا یہ رنگ آپ کو درد ، انیس و دبیر ، حالی و اکبر ، شاد، یگانہ ، رواں اور جوش کے یہاں بھی ملے گا ۔اب مضمون کے آخر میں یہاں پر پروفیسر ابو بکر عباد کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کر نا چاہوں گا : 

’’ اپنے ہم عصروںمیں فاروقی صاحب تنہا قابل رباعی گو شاعر کی شناخت رکھتے ہیں ۔ رباعیوں میں بھی ان کی فنی مہارت اور قادرالکلامی حد درجہ نمایاں ہے ۔ انھوں نے بیشتر مروجہ اوزان پر رباعیاں کہی ہیں اور فارسی کے اساتذہ شعرا کے دودو مصرعو ں پر اردو کے دودو مصرعے لگاکر رباعی کو ایک نئی تضمینی شان سے روشناس کرایا ہے ۔ فاروقی صاحب کی رباعیوں کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ ان میں گہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ ایسا شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں اخلاقی اور فلسفیانہ مضامین کے ساتھ ساتھ بالعموم اس میں وہ اپنا ایک جدید فکری رنگ بھی شامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رباعی کا آہنگ اور اس سے قاری کی روایتی انسیت قدرے مختلف معلوم ہونے لگتی ہے ، سو اسے بھی تعمیر ی جدت سے تعبیر کرنا چاہیے ۔ لالچ بھری رباعیاں اور پکی عمر کی رباعیاں اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔‘‘

 استادمحتر م کی اس تحریر سے کلی اتفاق ممکن نہیں ہے ۔ اول یہ کہ فاروقی صاحب اپنی زندگی میں بھی قابل رباعی گو شاعر کی حیثیت سے کل شناخت نہیں حاصل کرپائے تھے ، البتہ فاروقی صاحب عروض داں تھے اور رباعی کا ان مجموعہ تھا اور اس عہد میں انہوں نے رباعیاں کہی ہیں جب اردو میں رباعی کے شاعر خال خال ہی پائے جاتے تھے لیکن فاروقی صاحب اپنی ہی رباعیوں کی وجہ سے یہ شناخت نہیں حاصل کر پائے اس کی وجہ اردو رباعیوں کے مزاج ومنہاج سے پرے ان کی رباعیوں کا ہونا ہے جو موضوعاتی و فنی طور پر بھی روایتی و جدید موضوعات کی شاعری میں مقبول نہ ہوسکی ۔ استاد محترم کی اس بات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کی رباعیوں میںگہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ اس لفظ اسر ار کو ان رباعیوں کی زبان ولفظیات کو دیکھتے ہوئے پُر اسرا ر پر محمول کریں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔ ا ن کے یہاں اخلاقی مضامین یہی پکی عمر کی رباعیو ں میں ہے اور فلسفیانہ مضامین تو نہیں البتہ فلسفیانہ رنگ ہے ، مطلب زبان فلسفیانہ ہے ، وہ اس طرح کہ ماقبل کے مجموعوں میں جو رباعیاں پیش ہوئی ہیں وہ مضامین سے عاری ہیں۔ وہ اس طور پر کہ ہر مصرع اپنے اندر ہی مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے ، جہاں رنگ ، عکس اور تصور کا گزر ہے نہ کہ ماقبل کے مصرع سے مل کر آخر ی مصر ع بہت پتے کی بات کہہ رہا ہے ۔ الغرض فاروقی صاحب کی رباعیاں بالکل منفر د نوعیت کی حامل ہیں جو یقینا اردو رباعیات کے مزاج و منہاج سے بہت مختلف ہے ۔ 

 شروع کے پیرا گراف میں میں نے ایک بات لکھی تھی کہ فاروقی صاحب کی جملہ تحریریں اپنے اندر مکمل انفرادیت رکھتی ہیں، وہ آپ رباعیوں کے حوالے سے بھی سمجھ چکے ہوں گے ۔


Friday 17 December 2021

مرکب افعال امدادی افعال

مرکب افعال امدادی افعال

اردو زبان میں افعال کا ایک سمند ر ہے اور اسماء کا بھی، اسی طر ح سے ہماری اس پیاری زبان میں صفات بھی لا محدود ہیں۔ تواس میں آپ واقف ہوں گے کہ کبھی کبھی کوئی فعل دوسرے فعل کی مدد سے نیا معنی پیدا کر تا ہے اور اس دوسرے فعل کو امدادی فعل کے طور پر جانا جا تا ہے اور کبھی فعل کے ساتھ اسم یا صفت کے آجانے سے نئے معنی پیدا ہوجاتے ہیں تو ایسے میں ان افعال کو فعل مرکب کہتے ہیں ۔

اردو زبان میں ’’ ہونا ‘‘ ایک مصدر ہے جس سے کئی افعال نکلتے ہیں ۔اسی طریقے سے ’’ آنا ‘‘ مصدر سے کئی افعال بنتے ہیں تو دونوں کو ملا کر’ آیا ہو، گیا ہو ‘ مرکب افعال بنے ۔ ’ہونا ‘ کا ’ہو ‘مر کب افعال میںبہت ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے آیا ہو ، گیا ہو، پڑھا ہو، کھایا ہو، بیمار ہوا ہو ، سوگیا ہو ، چل دیا ہو وغیرہ۔ ان تمام مرکب افعال میں احتمالِ خفیف کی کیفیت پائی جارہی ہے جو مستقل فعل احتمالی سے کسی قدر کم ہے ۔

اسی طریقے سے ’دینا ‘ اور ’لینا ‘ ایسے مصدر ہیں جو اپنی مکمل صورت میں افعال کے ساتھ آتے ہیں اور کچھ نئے معنی پیدا کر تے ہیں جیسے اتار دنیا ، کتاب لے لینا، بچا لینا ،خر چ کر دینا وغیرہ ۔ ان افعال کے معنی میں ایک خصوصی زور یا تاکید نظر آتی ہے اور قربت کا اظہا ربھی ہوتا ہے جیسے بلا لینا ، سن لینا اور دکھا لینا وغیرہ۔

’’جانا‘‘ ایک مصدر ہے جس سے کئی افعال نکلتے ہیں اورمعاون فعل کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے ۔ جس کے ساتھ یہ فعل آتا ہے اس کا شمار مر کب افعال میں ہو جاتا ہے جیسے آجانا ، چلے جانا ، بکھر جانا اور ٹوٹ جانا ، مل جانا ، نکل جانا، اچھل جانا اور کودجانا وغیرہ یہ اکثر فعل لازم کے ساتھ آیا ہے ۔اسی طریقے سے آنا کا استعمال بھی فعل لاز م کے ساتھ نظر آتا ہے جیسے بن آنا ، بنا آنا ، بھاگ آنا اور دوڑ آنا وغیرہ ۔

کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو غصے کی حالت میں بہت ہی زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’ ڈالنا ‘ ہے ۔ جس کے لغوی معنی تو آپ جانتے ہی ہوں گے اور اس کا استعمال بھی کچھ اس طرح ہوتا ہے جیسے پانی ڈالنا ، پردہ ڈالنا وغیرہ ۔ لیکن غصے کی حالت میں اس کو افعال کے ساتھ اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے مار ڈالنا ، کاٹ ڈالنا ، مسل ڈالنا ، چیر ڈالنا وغیرہ  ۔اسی معنی کے لیے ’’ ڈالنا ‘‘ کے بجائے ’’ دینا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے چیر دینا ،مسل دینا ، پیٹ دینا وغیرہ ۔

کہیں آپ نے حالِ استمر اری پڑھا ہوگا اگر نہیں پڑھا ہوتومر کبات فعل میں اس کی ایک شکل ’ رہنا ‘میں نظر آتی ہے جیسے بیٹھے رہنا ، بیٹھ رہنا ، سو رہنا ، بولتے رہنا ، پڑھتے رہنا وغیرہ اس میں حالِ استمراری کی کیفیت نظر آتی ہے ۔لیکن کبھی کبھی ختم ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے نظر جاتی رہی ، طاقت جاتی رہی ، قوت گویائی جاتی رہی وغیرہ لیکن اس میں دو افعال’ جانا‘ اور ’ رہنا ‘ کا استعمال ہوا ہے ۔

پڑنا کا استعمال مر کب افعال کی صورت میں اچانک اور اتفاق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے لڑپڑنا، گر پڑنا، ٹوٹ پڑنا ، کھانے میں ٹوٹ پڑنا وغیرہ اسم کے ساتھ اس کا استعما ل یوں ہوتا ہے جیسے قحط پڑنا ، بیمار پڑنا وغیرہ ۔

’’بیٹھنا ‘‘ایک باضابطہ فعل ہے لیکن اس کا استعمال کسی دوسرے فعل کے ساتھ جب آتا ہے تو اس میں جبر کی سی کیفیت آجاتی ہے جیسے لڑبیٹھنا ، پیسے دبا بیٹھنا ، چڑھ بیٹھنا وغیرہ ۔بیٹھنا کو اس طرح بھی استعمال کر تے ہیں جیسے پوچھ بیٹھا ، کر بیٹھا ، مار بیٹھا وغیرہ ۔اٹھنا بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے لڑاٹھا ، جھگڑاٹھا، بو ل اٹھا، بلبلا اٹھا ، پھڑک اٹھا، جھلا اٹھا وغیرہ ۔پڑنا کا بھی استعمال انہیں چیزوں میں ہوتا ہے اور دوسری مثالیں جیسے بر س پڑا ، بن پڑا، آپڑا  وغیرہ۔ نکلنا سے لفظ نکلا بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے آ نکلا ، بہہ نکلا ، پھوٹ نکلا وغیرہ ۔ ان تمام میں کسی کام کے دفعتاًہونے کا علم ہورہا ہے ۔

فعل کے شروع میں اگر’آ‘ یا ’جا‘ استعمال ہورہا ہے تو اس کے معنی میں کسی کام کے دفعتاً ہونے کا اضافہ ہوجاتا ہے جیسے جا پڑنا ، آپڑنا ، آنکلنا وغیرہ ۔ جا پڑنا میں ایک معنی یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کہیں گیا اور وہاں سے ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے جب تک کہ مقصد کو حاصل نہ کرلے ، اسی طر یقے سے لگ پڑنا ہے۔

فعل حال کے بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ اس میں کسی کام کے ہونے کی خبر دی جاتی ہے جیسے حامد کام کر رہا ہے ۔ لیکن اس میں’ لگنا ‘کا اضافہ کر دیا جائے تو اس بات کی بھی اطلاع ملتی ہے کہ کوئی کام بس ابھی ابھی شروع ہوا ہے ۔جیسے کام کر نے لگا ، کھانے لگا ، نہانے لگا،پڑھنے لگا ۔ محاورے میں اس کے معنی لزوم کے ہیں جیسے ’’ وہ تو گلے آ لگا‘‘ او ر اگر ’لگنا ‘ کا مصدر بدلتا ہے اور ماضی کے بجائے حال یا مضارع کا استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی بھی اسی حساب سے بدلنے لگتے ہیں ، جیسے جب وہ باتیں کر نے لگتا ہے تو پھول جھڑنے لگتے ہیں ، جب وہ بولنے لگتا ہے تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ ان دونوں مثالوں میں کام کے تسلسل کا پتہ چلتا ہے ۔ لگنا میں احسا س و گمان کے معانی بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جیسے مجھے ایسا لگا کہ بارش ہورہی ہے ، اب بس سے سفر بھار ی لگنے لگا ہے۔

لگنا سے جیسے حال میں کام کے شروع ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو ایسے ہی صیغہ ’’چاہتا ‘‘کسی فعل کے بعد لایا جائے تو مستقبل قریب میں کسی کام کے ہونے کی خبر دیتا ہے جیسے ، محمود آیا چاہتا ہے ، اب کام مکمل ہوا چاہتا ہے ۔

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل 
چراغ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں

چاہنا ہے کا اصل استعمال تو خواہش کے اظہار کے لیے ہوتا ہے :

جیسے علامہ اقبال کے اس شعر میں 
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اوپر میں جو معنی مستقبل قریب کے لیے’’ چاہتا ہے ‘‘ سے پیدا کیا چاہتا ہے ، وہی معنی مصدر کے الف کو یا ئے مجہول سے بدلنے اور اس کے بعد ’کے‘،’کو‘ اور ’ہونا ‘ کے اضافہ سے ہوتا ہے ، جیسے اوپر کی مثال میں ’’ کھایا چاہتا ہے ‘‘ اور اب کی مثال میں ’’ کھانے کو ہے ، جانے کو ہے ، آنے کو ہے ، وغیرہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔

چاہنا مصدر سے چاہیے بھی بہت ہی زیادہ بطور امدادی فعل کے استعمال ہوتا ہے ۔ جس کے معنی میں کسی اخلاقی معاملہ یا ذمہ داری کی جانب توجہ دلا نے کے آتے ہیں ، جیسے ذمہ داری کے لیے: آپ کو بات کر نی چاہیے ۔تمھیں غالب سے مل لینا چاہیے تھا ۔اخلاقی ذمہ داری کے لیے جیسے ہمیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کر ناچاہیے ۔

لفظ ’ لے‘ جب معاون فعل کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں کسی شخص یا شے کا بھی لزو م آتاہے ۔ جیسے لے بھاگا ، چیل چوزہ لے اڑا، راجو سونو کو بزنس میں لے ڈوبا وغیرہ ۔

لفظ ’ دے ‘ بھی فعل کے شروع میں کسی بھی کام میں زور پیدا کرنے کے لیے آتا ہے جیسے ، دے مارا ، دے پٹکا ، دے گھونسا دے تھپڑ وغیرہ ۔
لفظ ’ رہا‘ بطور امدادی فعل جب استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں یہ بات پوشیدہ ہوتی ہے کہ کسی کام کے کرنے میں دشواریاں آرہی تھیں لیکن مکمل کر لیا گیا ہے۔ جیسے دلی جا کر کے رہا ، مکان بنا کر کے رہا ، وہ اسے ہرا کر کے رہا وغیرہ ۔

اسی طریقے لفظ ’رکھا‘ جو بطور امدادی فعل استعمال ہو کر نئے نئے معانی پیدا کر تا ہے جیسے : مالک مجھے کام پر لگا رکھا ہے ، میں رکھا کا استعمال عدم رضامندی کو ظاہر کرتا ہے اور جیسے ’ فلا ں نے میرا مال دبارکھا ہے ۔اس نے مجھے سمجھا رکھا ہے ، یعنی پہلے ہی سے سکھا پڑھا کر کے تیار کر لیا ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کر نے کے لیے ۔اسی طریقے سے تاکید پیدا کر نے کے لیے جیسے سن رکھو، دیکھ رکھو وغیرہ ۔ان تمام کے علاوہ کئی الفاظ اور بھی ہیں جن کو آپ اپنی روزمرہ گفتگو میں استعما ل کر تے ہیں

متعدی و تعدیہ

 متعدی و تعدیہ 


فعل لازم کو فعل متعدی کیسے بنایاجاتا ہے فعل لازم وہ فعل ہوتا ہے جس میں جملہ فعل اور فاعل سے پورا ہوجاتا ہے جیسے حامد گیا، امی آئیں، بھائی بیٹھا فوجی دوڑا، چور بھاگا پولیس آئی وغیرہ۔

فعل متعدی وہ فعل ہوتا ہے جس کو فاعل اور مفعول دونوں کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ جملہ فعل ،فاعل اور مفعول سے مکمل ہوتا ہو۔جیسے بشریٰ نے کتاب پڑھی، حامد نے خط لکھا، ثانیہ نے کمپیوٹر سیکھا وغیرہ تو ان سب مثالوں میں کتاب، خط اور کمپیوٹر مفعول ہیں۔یہ عمومی بات تھی اس کے بعد جاننے کی بات یہ ہے کہ مفعول کے لحاظ متعدی کی تین قسمیں ہیں ۔ اول یہ کہ جس میں مفعول صرف ایک ہی ہو جیسے زیدنے بلی کو مارا ۔ دوم جس میں دو مفعول ہو ں جیسے صبا نے اقرا کو کتاب دی ۔ اس مثال میں اقرا اور کتاب مفعول ہیں ۔سوم یہ کے جس میں مفعول کی تعداد تین ہو جیسے حامد نے زاہد سے عادل کو کتاب بھجوائی ۔

لیکن ہم اب جو چیز لکھنے جارہے ہیں وہ اوپر کی تعریف سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ہم ان افعال کو پہچانیں گے جو بذات خود متعدی ہوں گے۔یعنی اس کو متعدی سمجھنے کے لیے فعل، فاعل اور مفعول کی ضرورت ہمیں محسوس نہیں ہوگی۔

اب ہم رخ کرتے ہیں اس بات کی جانب کہ کیسے فعل لازم فعل متعدی بنتا ہے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اکثر افعال جو فعل لازم ہوتے ہیں وہ فعل متعدی بھی ہوتے ہیں اور وہ فعل لازم سے ہی بنتے ہیں۔

ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ فعل لازم کے مادہ کے آگے (جیسے چلنا کا مادہ چل) الف بڑھایا جائے جیسے چلنا سے چلانا، پکڑنا سے پکڑانا، پڑھنا سے پڑھانا، دوڑنا سے دوڑانا، تڑپنا سے تڑپانااور کرنا سے کرانا وغیرہ۔

کبھی مادہ فعل کے آخری حرف سے پہلے الف لگا کر متعدی بنایا جاتا ہے جیسے اترنا سے اتارنا، بگڑنا سے بگاڑنا وغیرہ۔ 

کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں کہ اس کی متعدی اگر بنائی جائے تو پہلے حرف کی حرکت کو اس کے موافق حرف علت سے بدل دیتے ہیں (حرف علت تین ہیں الف، واو،یا) جیسے مرنا سے مارنا، ٹلنا سے ٹالنا، تھمنا سے تھامنا، مڑنا سے موڑنا، نچڑنا سے نچوڑنا، کھلنا سے کھولنا، چرنا سے چیرناوغیرہ۔ 

اس کے برعکس کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جس میں فعل کے دوسرے حرف کو حذف کر دیا جاتا ہے اور دو حرف کے بعد واو یا الف کا اضافہ کیا جاتا ہے جیسے بھاگنا سے بھگانا، بھیگنا سے بھگونا، جاگنا سے جگانا، توڑنا سے تڑانا(مثال بکری رسی تڑا کر بھاگ گئی) سیکھنا سے سکھانا، دیکھنا سے دکھانا وغیرہ۔ اسی نوعیت  کے کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جن میں واو الف کا اضافہ کیا جاتا ہے جیسے پاٹنا سے پٹوانا، ڈالنا سے ڈلوانا، ڈانٹنا سے ڈنٹوانا، تاکنا سے تکوانا وغیرہ 

کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جن کے متعدی بناتے وقت ٹ ڑ سے بدل جاتا ہے جیسے ٹوٹنا سے توڑنا، پھوٹنا سے پھوڑنا، پھٹنا سے پھاڑنا، پھڑوانا ،جھٹکنا سے جھاڑنا وغیرہ۔

اگر کوئی مصدر چار حرفی ہو اور اس کا دوسرا حرف حرف علت ہو تو ایسے میں اس حرف کو حذف کرکے (لا) کا اضافہ کرتے ہیں جیسے رونا سے رلانا، کھانا سے کھلانا، سونا سے سلانا دھونا سے دھلانا، نہانا میں تیسرا حرف علت کا ہے تو یہاں بھی حذف کرکے نہلانا ہوگا۔

کبھی افعال میں امداد ی افعال لانے سے بھی متعدی بنتا ہے جیسے جانا سے لے جانا ، بھاگنا سے لے بھاگاوغیرہ ۔

افعال کی نفی

افعال کی نفی

 آپ نے حر وف کی قسموں میںسے ایک قسم حرف نفی بھی پڑھا ہوگا ۔ نفی کے معنی انکار کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کے نہ کر نے یا نہ ہونے کا علم اس حرف سے ہو اور جس فعل کے شروع میں یہ حر ف آتا ہے اس کوفعل نفی کہتے ہیں ۔جیسے حامد نہیں ہے ، اس نے آج پڑھائی نہیں کی ۔ ان دونوں جملوں میں نہ ہونے اور پڑھائی نہ کر نے کی خبر معلوم ہورہی ہے گویا یہ دونوں جملے نفی کے جملے ہیں ۔اس سے پہلے جتنی بھی گردانیں آپ نے پڑھیں وہ سب معروف و مجہول کی تھیں اور وہ سب مثبت گردانیں تھیں۔ اس شمارے میں صرف افعال نفی کا ذکر ہوگا ۔ افعال فعل کی جمع ہے اور فعل کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ اس سے کسی کام کے ہونے یا کر نے کا علم ہوتا ہے ۔جیسے حامد آیا توآنا فعل ہوا جس سے حامد کا آنا معلوم ہوا ۔ اس کو ہم فعل نفی بنائیںگے تو ہم کہیں گے ’’ حامد نہیں آیا ‘‘ ۔ آیا جو فعل ہے اس کے شروع میں ’نہیں ‘ لگانے سے یہ فعل نفی ہوگیا ۔

ایک قاعدہ کلیہ یا در کھیں کہ کسی بھی فعل کے شروع میں ’نہ یا نہیں‘ لگا نے سے وہ فعل نفی ہوجاتا ہے ، چا ہے وہ فعل ماضی ، فعل حال یا فعل مستقل ہو ۔ فعل ماضی کی مثال حامد کتاب نہیں پڑھا ، فعل حال : امی کھانا نہیں پکا رہی ہیں ، فعل مستقبل : ابو مارکیٹ نہیں جارہے ہیں ، فعل تمنائی: کاش وہ نہیں آتا ، فعل احتمالی : شاید وہ نہ آئے وغیرہ ۔یہاں آپ نے تمنائی میں ’نہیں ‘ اور احتمالی میں’ نہ ‘ پڑھا ۔یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھر رہا ہوگا کہ ’ نہ ‘ اور ’ نہیں ‘ کا استعمال ایک ہی ہے یا دونوں کے استعمال میں کچھ فرق بھی ہے ۔ تو یہ بات جان لیں کہ اکثر مقام پر دونوں کے استعمال میں فرق پایا جا تا ہے۔ البتہ کہیں کہیں دونوں کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔جس طریقے سے اوپر ماضی کے مثال میں ’’ نہ ‘‘ کا استعمال ہوا ہے اسی طریقے سے ماضی شر طیہ میں بھی ’’ نہ ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے جیسے اگر وہ ٹیم میں کھیلتا تو اچھا نہ کھیلتا ۔ اسی طریقے سے فعل مضارع کے شر طیہ میں بھی ’ نہ ‘ استعمال ہوتا ہے جیسے اگر وہ نہ کھائے تو میں کیا کروں ۔یہ دونوں جملے شرطیہ ہیں ۔ جملے کی قسموں میں سے آپ نے جملہ شرطیہ پڑھا ہی ہوگا کہ اس میں ایک جملے کے دو جز ہوتے ہیں ایک شرط اور ایک جزا ۔شر ط مطلب جس میں کسی چیز کے کر نے یا نہیں کر نے کی شرط رکھی جاتی ہے ۔ جزا میں اس شر ط کا بدلہ ہوتا ہے جیسے اگر وہ کھاتا تو نہ پچا پاتا ۔ اس میں اگر وہ کھاتا شرط ہے اور نہ پچا پا تا جزا ہے ۔ یہاں پر جملہ شر طیہ کے لانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر جملہ شر طیہ کے جزا میں نفی لایا جائے تو وہاں بطور حر ف نفی ’نہ ‘ لانا زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔

فعل امر کی نفی ’ نہ ‘ اور ’ مت ‘ دونوں لگا نے سے ہوتا ہے جیسے نہ کر مت کر ۔ماضی مطلق میں اکثر مقام پر ’ نہیں ‘ ہی استعمال ہوتا ہے لیکن بعض مقام پر ’ نہ ‘ بھی لکھا اور بولا جاتا ہے جیسے مرزا غالب کا ایک مصرع ’ ’جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار ‘ ‘ یہاں پر ’نہ‘ استعمال ہوا ہے۔ لیکن اکثر مقام پر نہیں آیا ، نہیں پڑھا، نہیں کھایا ، نہیں سویا وغیرہ استعمال ہوتا ہے ۔فعل احتمالی میں بھی دنوں استعمال ہوتے ہیں جیسے (ماضی ) شاید وہ نہیں آیا ہو (مستقبل ) شاید وہ نہ آئے یا جیسے وہ آیا ہو اور ہماری نظر نہ پڑی ہو وغیرہ ۔فعل مستقبل کی نفی بنانے کے لیے بھی ’نہیں ‘ آتا ہے ۔لیکن اس میں فعل کے بعد ’ کا ، کے ، کی ‘ کا استعمال ہوتا ہے جیسے وہ نہیں آئے گا ، میں نہیں آؤں گا ، ہم نہیں آئیں گے ۔ وہ نہیں آنے کی ، میں نہیں آنے کا ، ہم نہیں آنے کے ۔اس میں’ کا ، کے ، کی‘ متکلم صرف تاکید کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہے ۔

Monday 1 November 2021

انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی

انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی 


 مرتب: انجینئرفیروز مظفر
 اشاعت: 2021
 صفحات: 582
قیمت: 500روپے
 ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مظفر حنفی اردو کے ادبی دنیا کی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کا ادبی سفر پچا س بر سو ں پر محیط ہے۔ اس عرصہ میں وہ بطو ر تخلیق کار شعر ی اور نثر ی دنیا میں اپنی شناخت سب سے الگ بناتے ہیں۔مظفر حنفی غزلیہ شاعری کے منظر نامے پر جدید لب و لہجہ اور منفر د آواز کے ساتھ ابھر تے ہیں جن کا اظہار وہ اپنے اشعار میں بھی کر تے ہیں۔ادب اطفال میں مروجہ روایت سے ہٹ کرکہانیاں اور نظمیں تحریرکرتے ہیں۔ مظفر حنفی کی ادبی دنیا بہت ہی زیادہ وسیع ہے، انہوں نے1967 سے 2018 تک اپنے چوبیس شعری مجموعے ترتیب دیے۔اپنے ابتدائی ادبی زمانے میں تین اور2015 میں اپنا آخری افسانوی مجموعہ سامنے لائے۔ 1983 سے 2016 تک ادب اطفال پر نو کتابیں تصنیف کیں۔ آخری عمر میں انٹر ویوکے بھی تین کتابیں منظر عام پر لائے۔1978 سے 2014 تک بارہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں تصنیف کیں ان کے علاوہ چھ مونوگراف بھی لکھے۔ تیرہ کتابوں کے مرتب و مدون بھی رہے۔گیارہ کتابوں کا انہوں نے ترجمہ بھی کیا۔مزید برآں ایک سفر نامہ بھی ہے۔ ان تمام تصانیف سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ادب کی سیاحی نہیں بلکہ اردو ادب کی باغبانی کی ہے۔ ان کے کارنامہئ چمن میں طرح طرح کے ادبی پھول نظر آتے ہیں اور ان کا کارنامہ ئحیات محض چند بر سوں پر ہی محیط نہیں بلکہ مکمل پچاس برسوں میں پھیلاہوا ہے اور تقریباً 80کتابیں منظر عام پرآتی ہیں۔ کثیر التصانیف ہونے کے باوجود بسیار و زود نویس نہیں کہلائے۔ ایسا شاید اس وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ انہیں اپنے فن پر عبور حاصل تھا۔ مظفر حنفی ان خوش نصیبوں میں سے بھی ہیں جن پر تحقیقی مقالہ ڈاکٹر محبوب راہی نے ان کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کے ادبی سفر کے شباب میں ہی (1984) میں تحریر کیا،انہوں نے ناگپور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری اس وقت حاصل کی جب پروفیسرمظفر حنفی جامعہ ملیہ اسلامیں ریڈر تھے۔ یقینا تب ان کے مکمل کارنامے سامنے نہیں آئے تھے البتہ وہ اپنی شعری شناخت حاصل کرچکے تھے۔ جدیدیت سے تو متاثر تھے ہی ساتھ ہی انہوں نے اپنے استاد شاد عارفی کا طنزیہ لہجہ بھی بہت حد تک اختیار کیا اور وہ جدید غزل میں اپنی نئی شناخت قائم کیے۔
 زیر تبصرہ کتاب ا ن کی وفات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس کتاب سے قبل ڈاکٹر محبوب راہی کی تصنیف اور فیروز مظفر کی مرتب کردہ ایک کتاب مظفر حنفی کی شخصیت و فن پر منظر عام پر آچکی ہے جن کی ضخامت بھی اِ س کتاب کے آس پاس ہے۔ میری دستر س کے مطابق یہ ان کی شخصیت و فن پر تیسر ی کتاب ہے جو ان کی زندگی اور فن کی تکمیل کے بعد سامنے آئی ہے۔ ماقبل کی دوکتابوں سے یہ کتاب بہت حد تک مختلف ہے اول الذکر تحقیقی مقالہ ہے جس میں مظفرحنفی کی کل ادبی سرمایہ کا بیس فیصد کا ہی مطالعہ ہے کیونکہ یہ کتاب 1987 میں شائع ہوئی تھی۔ دو سر ی کتاب میں اپنے عہد کے اساطین ادب کی تحریریں ہیں جو مظفر حنفی کے فن کے دریچے وا کرتی ہیں اور اِس زیر تبصر ہ کتاب میں موجود ہ دور کے افراد کی تحریریں ہیں۔ کتاب کے شروع میں فیروز مظفر کے ذریعہ مظفر حنفی کا تفصیلی توقیت نامہ پیش کیا گیا ہے جس میں سال بہ سال بہت ہی تفصیل سے ان کے کارناموں کو شمار کیا گیا ہے اگر اس کو مختصر علمی سوانح عمر ی کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کتاب میں کل چہتر (74) چھوٹے بڑے مضامین ہیں اس کے بعد چھبیس منظوم خراج عقید تیں جس میں پانچ قطعات تار یخ بھی ہیں۔ مرتب نے واضح کیا ہے کہ اس میں دو قسم کے مضامین ہیں، ایک وہ جوان کی زندگی میں ہی لکھے گئے تھے اور دوسرے وہ جو وفات کے بعد تحریر کیے گئے ہیں۔زندگی میں لکھے گئے مضامین فن سے تعلق رکھتے ہیں، بعد کے مضامین میں فنی تحریریں ہیں اور تعزیتی بھی۔ پوری کتاب میں عمدہ تحریریں بکھری پڑی ہیں لیکن جس طرح کتاب کے فلیپ میں مظفر حنفی کی تصانیف کو اصناف میں الگ الگ پیش کیا گیا ہے ویسا کچھ مضامین کی ترتیب میں نظر نہیں آتا ہے۔ اکثر مضامین شاعری سے متعلق ہیں، مظفر حنفی کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں اس میں ان کے فکشن پر صرف دو مضامین ہیں۔ یادیں اور ملاقاتیں پر کئی تحریریں ہیں،ادب اطفال پر شاعری کے حوالے سے تین مضامین ہیں، پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس بسیط شخصیت کا نام مظفر حنفی تھا ان کے فن و شخصیت پر محیط یہ کتاب نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کی ترجمہ نگاری، تحقیق و تدوین، جمع و ترتیب کے فنی مطالعے پر کوئی تحریر نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود یہ کتاب بایں طور اہم ہے کہ اس میں ان کی شاعری کے کئی گوشوں کا خاطر خواہ مطالعہ ملتا ہے، جس سے آج کی نسل کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جدیدت کے دور میں اس کے اثر ات کو قبول کرتے ہوئے بھی اپنی راہ الگ کیسے بنائی اور ان کی شاعری میں عصری حسیت کے ساتھ حالات پر طنز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ فصیح اللہ نقیب کا مضمون صرف ایک شعری مجموعہ کے حوالے سے ہے لیکن وہ ان کی شعری کائنات کی مکمل نمائندگی کرتا ہے۔ جدید غزل میں مظفر حنفی کا کیا مقام ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ممتا ز الحق، ارشد نیاز ودیگر کے مضامین عمدہ ہیں۔کتاب میں مظفر حنفی کے دو انٹر ویو بھی ہیں ایک طلعت فاطمہ کا اور دو سرا پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا۔ الغرض یہ کتاب ان کے شعری امتیازات کی تحریروں سے پر ہے۔ کتاب کی عمدگی میں کوئی حرف نہیں البتہ ترتیب و تہذیب میں قدرے غور و فکر کر کے فن کے اعتبار سے ترتیب وار پیش کرتے تو مزیدخوبصورتی آ جاتی،  نیز ان کی بسیط شخصیت کے لیے یہ آخر ی کتاب ثابت نہیں ہوگی بلکہ شاعری کے سوا پر بھی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے جس جانب مرتب موصوف انشا ء اللہ توجہ دیں گے۔ کتاب کے ٹائٹل کے لیے انہوں نے نئی راہ نکالی ہے کہ نام کے مقام پر مظفر حنفی کی تصویر استعمال کی گئی ہے یہ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے مزید تجربہ پر موقوف ہے۔

امیر حمزہ 

Monday 11 October 2021

وہاب اشرفی ذکر، فکر اور فن

وہاب اشرفی ۔ ذکر،فکراورفن 

 وہاب اشرفی ذکر، فکر اور فن

امیر حمزہ


اردو ادب کے اہم و مشہور چنندہ ناقدین و محققین کا نام جب بھی سامنے آتا ہے تو ان میں وہاب اشر فی بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے بعد تنقید و تحقیق کا ارتقا نظر آتا ہے۔ نصف اول میں تخلیقی اصناف کا غلبہ تھا نصف ثانی میں تحقیق و تنقید نے اپنی جگہ بنانا شروع کی تو اس زمانے میں تخلیق کاروں کے شانہ بشانہ ناقدین نظر آنے لگے پھر آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آیا کہ ناقدین کا قدنمایاں ہوا اور تخلیق کار ناقدین کی سر پر ستی و کر م فرمائی میں آگئے۔ آٹھویں دہائی تک جدیدیت کے رجحان سے یہ سامنے آنے لگا اس کے بعد متنوع نظر یات کے سہارے فن پارو ں پر مختلف تنقید ی نظر یات سامنے آنے لگے، کوئی کسی کو مشرقیت کی کڑی سے جوڑتا ت،کوئی رجحانات کے سانچے میں تولتا تو کوئی مغربیت کے اسکیل میں ناپنے کی کوشش کرتا تھا۔ نثری فن پارہ تو ہندوستان میں ہی تخلیق پاتا تھا جس میں یہاں کی دیہاتوں کی کھری و کھردری زندگی، قصباتی زندگی اور شہر و ں میں دوڑتی بھاگتی زندگی ہی جی رہی ہوتی اور شعری کائنات میں مشرقی افکار و اقدار وشعریات ہی نظرآتا لیکن ناقدین کی علمی بصیرت و تہہ داری نے فن پاروں کی تہہ داری کو کھولنا شروع کیا اور ان میں کثیر سے کثیر رنگ و معانی تلاش کر کے پیش کیے جانے لگے۔ شاعر ی کی تفہیم کے لیے کئی فلسفے متعارف ہوئے اور عام سی منظر ی، فطری و معاملاتی شاعری کی تنقید بھی کلاسیکی شاعری کے معیار سے بڑھ کر کی جانے لگی الغرض اس عہد میں تنقید نے اپنی ارتقا کا سنہرا دور طے کیا۔اگرچہ کچھ تعبیرات فلسفی موشگافیوں میں الجھ کر رہ گئیں. اسی دور سے پروفیسر وہاب اشرفی کا تعلق ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے ساتھ ان ہی کے ہم وطنوں نے یہ تحدید کی ہوئی ہے کہ پر وفیسر کلیم الدین احمد کے بعد بہار میں اگر کوئی مکمل ناقد ہوا تو وہ پروفیسر وہاب اشر فی ہیں۔ اس تحدید کی ہمیں چندا ں ضرورت نہیں بلکہ اردو ادب میں انہوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اور اردو ناقدین میں وہ صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ ”تاریخ ادبیات عالم“ اور ”تاریخ ادب اردو‘‘ کے لیے وہ حکومتی اعزازات سے بھی سرفراز کیے گئے۔ انہوں نے بیش بہا کتابیں اور مضامین اردو دنیا کو دیں۔ ان کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ اردو ادب میں جینے والے شخص نہیں تھے بلکہ وہ ایک انجمن تھے جس کے اندر ادبی ماحول مستقل اپنی نیرنگیوں کے ساتھ چمکتا و دمکتا رہا۔ رانچی یونی ورسٹی میں جب تک رہے تو وہاں پابندی سے ایک مجلہ نکالتے رہے جس میں نو آموز افراد کی مستقل تر بیت کی جاتی رہی، سبکدوشی کے بعدانہوں نے سہ ماہی مباحثہ نکالا جو آخری عمر تک جاری رہا جس کے ٣٩ شمارے منظر عام پر آئے تھے۔ ان کے تنقیدی جہان پر نظرڈالیں تو تنقیدی مضامین کے مجموعے کم اور یک موضوعی کتابیں زیادہ نظر آتی ہیں اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہاب اشرفی صاحب کی علمیت کتنی زیادہ تھی کہ وہ کتابوں کے لانے میں زیادہ مطمئن ہوئے نہ کہ کسی اہم موضوع کو صرف ایک مضمون میں سمیٹ دیا جائے۔ خیر! اُن کے تمام احوال و آثار کو ڈاکٹر سرور حسین نے اپنی اس کتاب میں جمع کیا ہے۔ سرور صاحب کو میں ان افر اد میں شمار کرتا ہوں جن کی تحریروں میں مواد بہت ہوتا ہے ان کی تحریروں میں الجھاؤ نہیں  ہے بلکہ پیچیدہ مسائل کو بھی بخوبی اپنے سادہ سے اسلوب میں حل کرجاتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی جب وہ ”وہاب اشر فی بحیثیت نقاد“ تحریر کرتے ہیں تو تنقیدی نظریات اور فلسفیانہ موشگافیوں میں نہیں الجھتے ہیں بلکہ تعارف کے بعد وہاب اشرفی اپنی کیا رائے رکھتے ہیں اس کو بیان کرجاتے ہیں جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس فلسفہ نقد کو ہم سمجھتے ہی نہیں تھے اب اس پرتو  سوال بھی قائم ہو سکتا ہے۔ الغرض انہوں نے وہاب فہمی کی تفیہم بہت ہی بسط وتشریح سے اس کتاب میں پیش کی ہے۔ چودہ عناوین کے تحت اس کتاب کومنقسم کیا ہے۔جس میں شروع کے چار عناوین تعارف، شخصیت، فکری سماجی و تہذیبی رویہ اور عصری حسیت، ان کی داخلی زندگی پر منحصر ہے جو ان کی عملی و تصنیفی زندگی میں بخوبی نظر آتا ہے۔ پانچواں عنوان بحیثیت نقادہے۔ جس میں مصنف نے ”قطب مشتر ی ایک جائزہ“ سے لے کر ”نسائی تحریک: مضمرات و ممکنات“تک بطور ناقد اپنی صلاحیتوں کو منوایااور ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ چھٹے عنوان میں وہا ب اشرفی کی اہم کتابوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً ایک سو بیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں ان کی بیس اہم کتابوں پر عمدہ تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے اور جو مضامین کے مجموعے ہیں ان میں ہر مضمون پر تجزیاتی تحریر ہے۔ اس کے بعد آٹھ عناوین میں بطور محققق، مؤرخ، افسانہ نگار،سوانح نگار، نثر ی اسلوب، تبصرہ نگار، بحیثیت صحافی اور بحیثیت شاعر وہاب اشرفی کا کیا مقام و مر تبہ ہے اس کی قدر متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ الغرض وہاب اشر فی کے ذکر،فکر اور فن پر اس کتاب میں انہوں نے بھر پور گفتگو کی ہے جس سے ادب کے شیدائی بخوبی مستفید ہوسکتے ہیں۔

Thursday 25 March 2021

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

 

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

امیر حمزہ

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے ۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے ۔اس سے پہلے اردو رباعی ان الفاظ و تراکیب ، حسن و جمال اور تبسم سے محروم تھی ۔فراقؔ نے اپنی رباعیوں میں ہندوستانی عورتو ں کے حسن وادا کے مختلف روپ پیش کیا ہے ۔

فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال کی جزئیات نگاری کی بھرپور عکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کے مختلف حصوں اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں ۔جیسے پنگھٹ پر گگریوں ک کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں کا کھیتوں میں دوڑنا ،ساون میں جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں کہی ہیں جن میں ’’روپ ‘‘ میں تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں اڑسٹھ(۶۸)، گلبانگ میں مادر ہند کے تحت اٹھانوے (۹۸) فکر یات کے عنوان کے تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں ایک رباعی موجود ہے ۔یہ تمام رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پر لڑکیوںکی گگر یاں ، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا ، ساجن کے جوگ میں مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ ۔ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کا تخیل ، ان کا جمالیاتی شعور اور ان کے طر ز ترسیل کا انوکھا رنگ نے جان ڈال دی ہے ۔

پنگھٹ پر گگریاں چھلکنے کا یہ رنگ

پانی ہچکولے لے کے بھر تا ہے تر نگ

کاندھوں پہ سر وں پہ دو نوں باہوں میں کلس

مد انکھڑ یوں میں سینوں میں بھر پور رنگ


ہودی پہ کھڑی کھلا رہی ہے چارہ

جوبن رس انکھڑیوں سے چھلکا چھلکا

کومل ہاتھوں سے ہے تھپکتی گردن

کس پیار سے گائے دیکھتی ہے مکھڑا


وہ گائے کا دوہنا، سہانی صبحیں

گر تی ہیں بھر ے تھن سے چمکتی دھاریں

گھٹنوں پہ کلس کا وہ کھنکنا کم کم

یا چٹکیوں سے پھوٹ رہیں ہیں کر نیں

 ہندو ستانی کلچر و ثقافت جہاں تک انکی شاعر ی میں ہے اسی متعلق فراقؔ’’روپ ‘‘ میں چند باتیں کے زیر عنوان رقم طراز ہیں :

’’جہاں تک ایسی شاعر ی کا تعلق ہے جسے ہم صحیح معنی میں ہندو ستا نی کہہ سکتے ہیں جس میں یہاں کی فضا کی گر می ہو، ہندوستان کی مٹی کی خوشبوہو، یہاں کی ہواؤں کی لچک ہو ، یہاں کے آکا ش سورج اور چاند ستاروں کا آئنہ بنے اور ان کو آئینہ دکھائے ۔یہ صفات اردو شاعر میں ابھی کم آئی ہیں ۔شاعر ی میں کوشش خواہ غزل ہو یا نظم یا رباعی محض اضطر اری چیزیں نہیں تھیں ۔ان کی کوششوں میں بھی ہندو ستان اور ہندو ستان کے کلچر کی تھر تھر اتی ہوئی زندہ رگوں کو چھو لینا چاہتا ہوں ۔،،

یہ فراق کا ایک ایسا تصور ہے جس سے فراق کی رباعیوں کو ایک قابل قدر تہذیبی حسیت عطا ہوئی ۔جس نے انہیں ہندوستانی تمدن ، گنگا جمنی تہذیب اور ہندو ستانی عورت کے جمالیاتی مظاہر کا تر جمان بنا دیا۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشرت کا آئینہ صاف نظر آتا ہے ۔ ان کی رباعیوں میں عورت کہیں محبوبہ ، کہیں شوخ لڑکی ، ، کہیں گر ہستن اور کہیں محض رفیقئہ حیات کی حیثیت سے ابھر تی ہے ۔

ڈھلکا آنچل دمکتے سینے پہ الگ

پلکوں کی اوٹ مسکراہٹ کی جھلک

وہ ماتھے کی کہکشاں و موتی بھر ی مانگ

وہ گود میں چاند سا ہمکتا بالک


آنگن میں بہاگنی نہا کے بیٹھی

رامائن زانو پر رکھی ہے کھلی

جاڑے کی سہانی دھوپ کھلے گیسو

پر چھائیں چمکتے صفحے پر پڑتی ہوئی

فراق ؔ کی رباعیوں کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی عناصر جگہ جگہ نظر آتے ہیں جن سے قاری ان کی رباعیوں کے اسیر نظر آتے ہیں اورفراقؔ اردو کے وہ منفر د شاعر ہیں جنہوں نے اپنی رباعیوں کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں سے تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی رباعیوں میں حسن کومختلف زاویوں سے دیکھا اور پیش کیا ہے ، اس کی اداؤں کی دل نشینی کو محسوس کیا ہے ۔ان کی رباعیوں میں ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے ہوئے بادلوں کے سے گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں جنہیں پہلی بار رباعی کی لڑی میں پرویا گیا ہے ۔فراقؔ رباعی میں جتنا کھل کر پیش آئے ہیں وہ اتنا غزلوں اور نظموں میں بھی نہیں آئے ہیں۔ حسن کی تصویروں کو پیش کرنے میں فراق فراخدلی سے کام لیے ہیں ۔ان کی رباعیوں میں استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے ۔فراق ؔ اپنے ان ذخیروں کے بدولت جب کسی چیز کی تعر یف کر تے ہیں تو مختلف پیر ائے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔جیساکہ گیسو کی تعریف ۔

باد ل کوئی آہستہ گرجتا ہے کہ زلف

برسات میں قصر شام سجتا ہے کہ زلف

منڈلاتی گھٹامیں جیسے ہاتھی جھومیں

کجلی بن میں ستار بجتا ہے کہ زلف


نکھر ی ہوئی رات جگمگاتی ہوئی زلف

تقدیر کے پیچ و خم دکھاتی ہوئی زلف

مدھم لے میں چھڑا ہے ساز ہستی

جیون سنگیت گنگناتی ہوئی زلف


راتیں برکھا کی تھر تھر اتی ہیں کہ زلف

تقدیریں پیح و تا ب کھاتی ہیں کہ زلف

پرچھائیاں کانپ کانپ جائیں جیسے

متوالی گھٹائیں گنگناتی ہیںکہ زلف


سنبل کے تروتازہ چمن ہیں زلفیں

بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں

خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں

ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں

محبوبہ کی آنکھوں کی تعریف مختلف جہتوں سے اور مختلف اوقات کے آنکھوں کی کیفیت کو مختلف پیر ائے میں بیان کر تے ہیں ۔ان کے محبوبہ کی آنکھیں تاروں کو لوریاں سناتی ہیں ،اس کی نشیلی آنکھیں راتوں کی جوانیاں ہیں، ان کے یہاں جب محبوبہ کی آنکھیں خلوت ناز میں جھکتی ہیں تو کامنی کے پھول برس جاتے ہیں ، محبوبہ کی رسیلی آنکھوں کی چمن دو شیزہ سحر معلوم ہوتی ہے ۔

چلمن میں مژہ کی گنگناتی آنکھیں

چھوتی کی دلہن سی کچھ لجاتی آنکھیں

جوبن رس کی سدھا لٹاتی ہر آن

پلکوں کی اوٹ مسکراتی آنکھیں


راتوں کی جوانیاں نشیلی آنکھیں

خنجر کی روانیاں کٹیلی آنکھیں

سنگیت کی سر حدپہ کھلنے والے

پھولوں کی کہانیاں رسیلی آنکھیں


دوشیزہ سحر رسیلی آنکھوں کی چمک

آئینہ صبح میں مناظر کی جھلک

جیسے پڑنے کو آئے آبگینوں پر چوٹ

شفاف فضا میں وہ نگاہوں کی کھنک

فراقؔ اپنی رباعیوں میں محبوب کا سراپا پیش کر تے ہوئے اس کی اداؤں ،حر کات و سکنات کو بھی بڑی دلکش انداز میں پیش کر تے ہیں ۔اس پیش کش میں محبوب کے نہ صر ف دلکش خدو خال اور اس کی شخصیت نمایا ں ہوتی ہے بلکہ محبوب کے حر کات و سکنات اس کے اٹھنے بیٹھنے سو نے جاگنے چلنے پھر نے کی بھی متحر ک تصویریں پیش کر تے ہیں ۔ان متحر ک تصویروں کی پیش کش میں خوبصورت سمعی وبصر ی پیکر وں کی مدد سے بڑی چابکد ستی سے اس میں رنگ آمیزی کر تے ہیں ۔اس وجہ سے ان کی رباعیوں میں محبوب اپنی ساری جلوہ سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر تا ہے او ر قاری کے ذہن میں ایک دیرپانقش چھوڑ دیتا ہے ۔

اٹھنے میں ہمالہ کی گھٹاؤں کا ابھار

انداز نششت چڑھتی ندی کااتار

رفتار میں مدھ بھر ی ہواؤں کی سنک

گفتار میں شبنم کی رسیلی جھنکار


بالوں میں خنک سیاہ راتیں ڈھلیں

تاروں کی شفق کی اوٹ شمعیں جلیں

تاروں کی سرکتی چھاؤں میں بستر سے

ایک جان بہار اٹھی ہے آنکھیں ملتیں


یہ نقرئی آواز یہ ترنم یہ خواب

تاروں میں پڑرہی ہے جیسے مضراب

لہجے میں یہ کھنک یہ رس یہ جھنکار

یا چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہہ آب

فراقؔکی زبان میں ہمیں ہندی اور سنکر ت الفاظ بکثر ت ملتے ہیں ۔اصل میں ہم اردو شاعر ی میں فارسی الفاظ سننے کے عادی ہوچکے ہیں ایسے میں ہمیںجب ہندی کے الفاظ کچھ زیادہ سماعت سے ٹکر اتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً یہ ردعمل شر وع ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ہندی اور سنسکر ت سے زیادہ راہ روی اختیار کی ہے ۔حالانکہ کچھ ایسی خاص بات نہیں ہے ان کے یہاں جہاں ایک طر ف لوچ ،دھج ، نیر ، سرگم، روپ ، دیوی، امر ت، کونپل ، کنچن ، جھرمٹ ، جیون ، مکھڑا ، سہاگ ، سنگیت ،چنچل اور درپن جیسے شیر یں اور سر یلے الفاظ ملتے ہیں تو وہیں ہمیں آئینہ نیلگوں ، گلنا ر ، شفق ، نقر ئی آواز ، رودجمن، شام ہستی، زندان حیات ، دوشیزہ ٔ سحر ، آئینہ صبح ،قوس قزح ، پیکر نازنین اورجان بہار جیسے خوبصورت فارسی تراکیب بھی جا بجا ان کی رباعیوں میں نگوں کے طرح جڑے ہوئے ہیں ۔

فراق ؔ کی رباعیوںکو جنسیت زدہ رباعی بھی کہا گیا ہے ۔حالانکہ انکے انہیں رباعیوں کو اقبال ماہر اس حیثیت سے تعبیر کر تے ہیں ۔

’’روپ ‘‘ کی رباعیوں میں فراق ؔنے ہزار ہا سال پرانی لیکن سدا سہاگ ہندو وجدان اور ہندو ثقافت کی نشاۃثانیہ کا ثبوت دیا ہے ۔ اگر ہم تمام اردو شاعر ی میں ہندو تصور حسن کو تلاش کر نا چاہیں تو اس تصور کے حقیقی کارنامے اور نمونے ہمیں رباعیوں میں ملیں گے ‘‘

اصل میں ان کی رباعیاں حسن و فطرت، اور انسانی حسن کی متنوع کیفیات اور رنگا رنگ تجر بات کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں حسن و عشق کی مختلف کیفیات اور جنسی خوبصورتی کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے اوروہ رباعیاں جن میں جنسی میلان اور جنسی تجر بات کی عکاسی کی گئی ہے اس میں بہت بے باکی نظر آتی ہے ۔بالہوسی اس میں ہے یا نہیں ان کی اس تحر یر سے سمجھی جاسکتی ہے جس کو سیدہ جعفر نے محمد طفیل کو فراق کے ذریعے لکھے گئے ایک خط کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

’’جب جنسی جذبات کسی شخص کی پور ی شخصیت میں حلول کر جائیں اور اس کے مستقل کر دار کا جز و بن جائیں اورجب جنسی خواہش کے مقابلے میں احساس جمال زیادہ بڑھ جائے اور بہت زیادہ گہرا ہوجائے تب جنسیت عشق کا مر تبہ کر لیتی ہے ۔‘‘

فراق ؔکی وہ رباعیاں جن میں جذبہ عشق کی مصوری توازن میں رہ کر کی گئی ہے وہ رباعیاں اردو شعر و ادب میں قیمتی اضافہ معلوم ہوتی ہیں اور اردو رباعی کے صنف میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے راہ میں گامزن نظر آتی ہیں ۔ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد ہر ادب کے قاری کے ذہیں میں یہ احساس ابھر تا ہے کہ وہ اردو رباعی جو فارسی کے راہ پر گامز ن چلی آرہی تھی اس کو فراقؔنے اپنے فکر اور گر دو پیش کے تہذیبی رجحانات سے مزین کیا ہے

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...